Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 8

‫میر انیس کی مرثیہ نگاری‬ ‫اردو مرثیہ‬

‫‪URDU MARSIA MEER ANEES KI MARSIA NIGARI‬‬

‫وصف میت” کے ہیں لیکن اس لفظ کا اطالق صرف‬ ‫ِ‬ ‫مرثیہ کے لغوی معنی”‬
‫ت شہادت کے لئےہوا ہے‪ .‬شہدائے کربال کی تعریف و‬ ‫بیان واقعا ِ‬
‫توصیف اور ِ‬
‫ت کربال پر اپنے درد انگیز احساسات و‬ ‫اردو شعراء نے بھی ہر دور میں واقعا ِ‬
‫تاثرات کا اظہار و بیان کیا ہے لیکن سودا سے پہلے لکھے گئے مرثیے فنی‬
‫لحاظ و حیثیت سے کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں رکھتے‪ ,‬ان کے مضامین‬
‫بھی محدود تھےاور ان کا حلقۂ اثر بھی محدود تھا‪ -‬ان میں کالم کا تسلسل بھی‬
‫نہیں ہوتا تھا‪ -‬ان کا مقصد صرف رونا اور رالنا ہوتا تھا‪ -‬یہ مراثی شاعرانہ‬
‫خوبیوں اور جوش و خروش سے خالی ہوتے تھے‬

‫ت کربال کومرثیہ کے ذریعے‬ ‫سب سے پہلے میر سودا نے اردو میں واقعا ِ‬
‫ت کربال کو تسلسل کے ساتھ نہایت‬ ‫کسی قدر فنی حیثیت دی‪ -‬سودا نے واقعا ِ‬
‫تفصیل سے نظم کیا ہےاور تخیل کی کارفرمائیوں‪ ,‬حسن و ادا کی سحرطرازیوں‬
‫سے مرثیہ کے دامن کو وسیع کردیا‪ -‬اس میں تمہید‪,‬نوحہ اور سالم کے اضافہ‬
‫سےمرثیہ کو مخصوص ہئیت متعین کیں‪ -‬درد میں ڈوبے ہوئے لہجے اور سوز‬
‫و گداز سے اس میں بال کی تاثیر پیدا کردی‪ -‬مرثیہ کی ارتقاء کا عہ ِد ذریں اس‬
‫‪-‬وقت شروع ہوا جب شاعری کا مرکز دہلی سے لکھنؤ منتقل ہوا‬
‫بعد ازاں میر خلیق اور میر ضمیر نے مرثیہ کو باقاعدہ فنی حیثیت دی‪ -‬سراپا‬
‫اور رزمیہ عنصر ایجاد کیا‪ -‬گھوڑے اور تلوار کی جنگ کی تفصیالت پیش کیں‪-‬‬
‫منظرنگاری‪ ,‬واقعات نگاری اور جذبات نگاری کو مرثیہ میں مستقل حیثیت دی‪-‬‬
‫انہی کی کوششوں و کاوشوں سے مرثیہ کے ارتقاء اور اس کے روشن‬
‫مستقبل کے امکانات وسیع تر ہوگئے‪ -‬مرثیہ کی اس روایت کو مرزا دبیر اور‬
‫میر انیس نے اپنی کوششوں سے اتنی بلندیوں تک پہنچادیا کہ مرثیہ اردو زبان‬
‫کا سب سے قیمتی سرمایہ بن گیا اور اس میں اتنی زیادہ وسعت پیدا ہوگئ کپ‬
‫کل انسانی جذبات اس کا موضوع بن گئے اور انسان کی پوری زندگی مرثیے‬
‫کی ظرف میں سما گئ‪-‬‬
‫رثی” سے نکال ہے جس کے معنی ہیں مردے پر رونا اور‬ ‫مرثیہ عربی لفظ “ ٰ‬
‫آہ وزاری کرنا‪ -‬یہ صنف عربی شاعری سے فارسی شاعری اور پھر اردو‬
‫شاعری میں رائج ہوئی ‪ ,‬لیکن اردو میں یہ صنف موضوعاتی لحاظ سے‬
‫ت کربال سے مختص ہوگئ ہے تاہم اردو میں ایسے مرثیوں کی کمی نہیں‬ ‫واقعا ِ‬
‫اظہار غم کے لئے لکھے گئے ہیں‪-‬‬
‫ِ‬ ‫جو مختلف لوگوں کی اموات پر‬

‫مرثیہ دو قسم کی ہیں‬


‫ایک‪ ...‬واقعاتی مرثیہ‪ -:‬ان کو مذہبی اور تاریخی مرثیہ بھی کہتے ہیں‪ -‬اس کا‬
‫تعلق زیادہ تر واقعہ کربال سے ہے‬
‫دوسری قسم شخصی مرثیہ ‪ -‬وہ مرثیے جو دیگر دوست و احباب‪ ,‬عزیز و‬
‫اقارب رشتہ دارکی وفات اور موت پر لکھا جائے شخصی مرثیہ کہالتا ہے ‪-‬‬
‫جیسے مرثیہ غالب‪,‬مرثیہ داغ‪ ,‬مرثیہ حالی وغیرہ مشہور ہیں‬
‫مرثیہ صنف کے لئے کوئی شعری ہئیت تو مخصوص نہیں رہی ہے‪ -‬وقت اور‬
‫زمانے کے ساتھ ساتھ جوں جوں اس صنف کا ارتقاء ہوا ‪ ,‬اس کی تشکیلی‬
‫ہئیتیں بھی بدلتی رہیں ہیں‪-‬‬
‫غالب نے مرثیہ عارف غزل کی ہئیت میں‪ ,‬حالئ نے مرثیہ غالب ترکیب بند کی‬
‫ہئیتیوں میں اور محمد علی جوہر‪ ,‬حفیظ جالندھری وغیرہ نے مرثیوں کے لئے‬
‫غزل‪ ,‬قطعہ‪ ,‬رباعی اور مخمس کی ہئیتیں بھی اختیار کی ہیں‪-‬‬
‫مثنوی کے اجزائے ترکیبی‪.‬‬

‫‪ 1‬چہرہ‬
‫چہرہ دراصل مرثیہ کا آغاز ہے یعنی جو بند تمہید کے طور پر لکھے جاتے‬
‫ہیں‪ ,‬چہرہ کہالتا ہے‪ -‬اس میں مرثیہ گو تمہید کے طور پر کسی سماں و منظر‬
‫کا بیان‪ ,‬حمد و مناجات‪ ,‬شعر کی مدح و تعریف اور سفر کی تکلیفات و‬
‫دشواریاں بیان کرتا ہے‪-‬‬
‫‪ 2‬سراپا‬
‫مرثیہ کے اس مرحلہ میں شاعر اپنے مرکزی کردار کے عادات و اطوار‪ ,‬حسن‬
‫و جمال‪ ,‬قد و قامت و جسامت بیان کرتا ہے‪ -‬اس میں وہ مبالغہ سے بھی کام‬
‫لیتا ہے‪ -‬مرثیہ کا یہ حصہ بیان کرنے میں مرثیہ گو ایک طرح سے غزل کی‬
‫سی جمالیاتی کیفیت کا حامل ہوجاتا ہے‪-‬‬
‫‪ 3‬رخصت‬
‫اس مرحلہ میں رخصت کا منظر و حال بیان کیا جاتا ہے یعنی مرکزی کردار‬
‫یہاں اپنے عزیز و اقارب اور خاندان والوں سے جنگ کے لئے اجازت چاہتا‬
‫ہے اور ان سے رخصت ہوتا ہے‪ -‬اس میں اہ ِل خاندان اور عزیز رشتہ داروں‬
‫کے جذبات و احساسات کا ذکر نیز سوز و گداز‪ ,‬درد و غم کوٹ کوٹ کر بھرا‬
‫ہوتا ہے‪-‬‬
‫آمد ‪4‬‬
‫میدان جنگ‬‫ِ‬ ‫اس جز میں مرکزی کردار گھر سے رخصت ہوکر گھوڑے پر سوار‬
‫میں اس طرح آمد ہوتی ہے کہ دشمنوں پر ڈر اور خوف و ہراس طاری ہوجاتا‬
‫ہے‪ -‬اس مرحلہ میں مرکزی کردار کے گھوڑے و ہتھیاروں کی بھی تعریف‬
‫پیش کی جاتی ہے اور کثرت سے مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا جاتا ہے‪-‬‬
‫رجز ‪5‬‬
‫میدان جنگ میں آکر رجز پڑھتا ہے‪ -‬اس میں وہ‬ ‫ِ‬ ‫اس جز میں مرکزی کردار‬
‫اپنے آباء و اجداد کا تعارف نیز فتوحات و اہم کارنامے بیان کرتاہے اور دشمن‬
‫فن جنگ میں اپنی مہارت اور شجاعت کا‬ ‫کوبھی جنگ کے لئے للکارتا ہےاور ِ‬
‫اظہار‪ ,‬جوش و دبدبہ کے ساتھ بیان کرتا ہے‪ -‬اس میں فخریہ عناصر بھئ‬
‫شامل ہوتے ہیں‪-‬‬
‫جنگ‪(,‬رزم ‪6‬‬
‫رجز کے بعد مرثیہ گو جنگ کا منظر و سماں پیش کرتا ہےاور جنگ کا سارا‬
‫حال و نقشہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے‪ -‬اس مرحلہ میں مرکزی کردار‬
‫فن سپہ گری اور بہادری کی تعریف کی‬ ‫کے گھوڑے‪ ,‬اس کی تلوار و ہتھیاروں‪ِ ,‬‬
‫جاتی ہے‪ -‬جنگ کا بیان میں کافی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے بڑا‬
‫پرجوش اور خون کو گرما دینے واال ہوتا ہے‪-‬‬
‫شھادت ‪7‬‬
‫جنگ کے بعد مرکزی کردار دشمنوں کی یلغار میں شہید ہوتا ہےاور یہی‬
‫دردناک بیان مرثیہ کا اصل موضوع ہے جس میں مرثیہ گو اپنی تمام فنی‬
‫مہارت کا ثبوت دیتا ہے‪-‬‬
‫بین ‪8‬‬
‫شہادت کے بعد مرکزی کردار کے رشتہ دار اور عزیز و اقارب اس سانحہ پر‬
‫بین و غم کا اظہار کرتے ہیں‪ -‬اس مرحلہ کا بیان بڑا دل سوز ‪ ,‬نہایت غمگین و‬
‫دلگداز ہوتا ہے‪ -‬اور اس بیان میں غزل کی سی شکستگی اور سوز ہوتا ہے‬
‫مگر زیادہ شدت و تڑپ کے ساتھ‪-‬‬

‫میر انیس کے احوا ِل زندگی‬

‫آپ کا پورا نام میر ببر علی ‪1802 ,‬ء میں فیض آباد‬
‫میں پیدا ہوئے‪ -‬ان کے والد میر خلیق بھی اس دور کے ایک اچھے‬
‫مرثیہ نگار تھے‪ -‬میر انیس بچپن ہی میں اپنے والد کے ہمراہ لکھنؤ‬
‫آگئے‬
‫میر انیس کی ابتدائی‬
‫تعلیم مولوی حیدر علی سے حاصل کی اور شاعری کی اصالح اپنے والد‬
‫میر خلیق سے لیتے رہے‪ -‬انیس بڑے ذہین اور باصالحیت شاعر تھے‪-‬‬
‫انہوں نے بہت کم عمری ہی سے شاعری شروع کی اورابتداء میں‬
‫غزلیں کہنے لگے لیکن ان کے والد نے ان کو مرثیہ لکھنے کا مشورہ‬
‫دیا ‪ -‬اس لئے انیس نے اپنی ساری صالحیتیں مرثیہ گوئی میں لگادیں‪-‬‬
‫انہوں نے غزلیں اور رباعیاں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی شہرت و مقام‬
‫ان کی مرثیہ کی وجہ سے ہے‬
‫میر انیس گھوڑا سورای‪,‬فن سپہ گری‪,‬شمشیرزنی کے ماہر تھے‪,‬جس‬
‫میدان جنگ کی‬
‫ِ‬ ‫سے ان کی مرثیہ نگاری کو یہ فائدہ پہنچا کہ‬
‫تصویرکشی میں جان آگئ‬
‫میر انیس کو زبان و بیان دونوں پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے‪ -‬وہ‬
‫مختلف حاالت و واقعات کو بڑی خوبی اور اثر انگیز انداز میں بیان کرتے‬
‫ہیں‪ -‬انہوں نے اپنے لئے مرثیہ کا میدان چن لیا تھا‪ ,‬اور چونکہ ان کو‬
‫واقعہ کربال کے بارے میں لکھنا تھا اس کے لئے وہ اس تاریخی سانحہ‬
‫کے الگ الگ واقعات کو اس حسن و خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ‬
‫ہماری آنکھوں کے سامنے ایک پوری تصویر بن جاتی ہے‪ -‬وہ حضرت‬
‫حسین اور دوسرے تمام دیگر افراد کے درمیان ہونے والی بات چیت کو‬
‫بالکل فطری انداز میں بیان کرتے ہیں‪ ,‬جس سے ڈرامے کا سا انداز پیدا‬
‫ہوجاتا ہے‪-‬‬
‫میر انیس جب تک لکھنؤ آباد رہا‪ ,‬یہیں رہے لیکن ‪1857‬ء غدر کے‬
‫حاالت کے بعد عظیم آباد‪ ,‬بنارس‪ ,‬الہ ٰ آباد اور حیدرآباد جیسے شہروں‬
‫کی طرف بھی آپ نے رخ کیا‬
‫میر انیس کا کالم کل پانچ ‪ 5‬جلدوں میں شائع ہوا ہے‬
‫میر انیس کا انتقال‪1874 .‬ء میں ‪ 72‬سال کی عمر میں ہؤا‬

‫میر انیس کی مرثیہ گوئی کے بارے میں موالنا آزاد لکھتے ہیں‬
‫میر انیس صفائی کالم ‪,‬لطف زبان‪,‬چاشنی محاورہ‪,‬خوبی بندش‪,‬حسن اسلوب‪,‬‬
‫مناسبت مقام‪,‬طرز ادا‪ ,‬اور سلسلے کی ترتیب میں جواب نہیں رکھتے‬
‫مرثیہ کا جز“جب قطع‬
‫ت شب آفتاب نے” ان چھ تا آٹھ بندوں میں میر انیس کی شاعری کا‬ ‫کی مساف ِ‬
‫اہم اسلوب منظر نگاری کے بہترین نمونے ملتے ہیں‪ - .‬ہرہر شعر میں تخیل‬
‫کی کارفرمائی‪ ,‬مشاہدے کی گہرائی و گیرائی ‪ ,‬تشبیہوں و استعاروں اور‬
‫کنائیوں کی ندرت وجدت نے اک ساحرانہ کیفیت پیدا کردی ہے‪ -‬حقیقت اور‬
‫تخیل کا یہ امتزاج‪ ,‬مال جال انداز بس انیس ہی کے کالم میں پایا جاتا ہے‬

‫غالم السیدین نے اپنے تاثرات و خیاالت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ‬

‫پھر مناظرفطرت کی نقاشی میں اس نے جو اعجازدکھایا ہے اور کربال کی‬


‫صبح و شام‪ ,‬ان کا حسن‪.‬اورغمگینی‪,‬صحرا کی تپش اور ہولناکی‪ ,‬دریائے فرات‬
‫کی شادابی اوربے بسی کے نقشوں میں تاثیر کا جو رنگ بھرا ہے ‪,‬اس نے‬
‫انیس کو شیکسپیئر اورگوئٹے‪ ,‬وانتے اور کالیداس کا ہم پلہ بنا دیا ہے‬

‫********‬

You might also like