Professional Documents
Culture Documents
SodaPDF Converted عمر کالج
SodaPDF Converted عمر کالج
جہاد
جہاد کے لغوی معنی کیا ہیں؟
جہاد لفظ جہد سے نکال ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا .
جہاد کے اصطالحی معنی کیا ہیں ؟
اصطالحی شریعت میں جہاد سے مراد کہ وہ کو شش جو انسان دین کی حفاظت ،فروغ اور امت
کرے.
ٔ مسلمہ کے لیے
جہاد کی اقسام بیان کریں؟
جہاد بالنفس ،جہاد با لقلم ،جہادبا جہاد کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں.
لمال،جہادبالسیف۔
جہاد اکبر کسے کہتے ہیں؟
جہاد اکبر آپﷺ نے ”جہاد با لنفس“ یعنی خواہشات نفس کے خالف جہاد کرنے کو کہا جاتا ہے۔
جہاد کے بارے میں کوئی قرآنی آیت تحریر کریں؟
”اپنے ما لوں اور جا نوں کے ہللا نے قرآن پا ک میں فرمایا
ساتھ ہللا کی راہ میں جہاد کرو“
جہاد کے با رے میں کوئی حدیث لکھیں؟
ساے تلے ہے“حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ”کہ جنت تلواروں کے ٔ
جہاد با لمال سے کیا مراد ہے؟
جہاد بالمال سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال و دولت کے سا تھ ہللا کی راہ میں مجاہدین کی مدد کرنا۔
جہاد بالسیف سے کیا مراد ہے؟
جہاد با لسیف سے مراد کہ اپنی جان کے ذریعے ہللا کی راہ میں جہاد کرنا۔
جہاد اور جنگ میں فرق لکھیں؟
جہاد
جنگ
اور لفظ جنگ عام ہے. جہاد خا لص اسالمی اصطال حی ہے.
جبکہ لفظ جنگ نا پسندیدہ فعل ہے. جہاداسالمی تعلیمات میں محسن ہے.
جہاد اسالم کی روح سے پڑا جا تا ہے.
جنگ زائیات کی بنا پر پڑا جاتا ہے.
جنگ میں ذاتی جہاد میں زا تی خوا ہشات کا فعل نہیں.
خواہشات کا فعل ہوتا ہے .جہاد با لسیف کی کتنی ا قسام ہیں ؟
جہاد با لسیف کی دو اقسام ہیں۔
مدا فعا نہ جہاد۔ مصلحانہ جہاد۔
مدافعانہ جہاد سے کیا مراد ہے؟
جب کوئی غیر مسلم قوت مسلمان ملک پر حمال کرتی ہے تو مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و
آبرو کو بچانے کے لیے جو کوشش کرتا ہے وہ مدافعانہ جہاد کہالتا ہے ۔
مصلحانہ جہاد سے کیا مراد ہے؟
جاےوہ
ساری دنیا میں ہللا کی حاکمیت اور نبیﷺ کی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے جو کوشش کی ٔ
مصلحانہ جہاد کہالتی ہے۔
زکوۃ کے چار مصارف بیان کریں؟ ٰ
ان تنگ دست لوگوں کی اعانت جن کے پاس کچھ نہ ہو.
زکوۃ کی و صولی پر متعین عملے کی تنخواہ ہیں. ٰ
جہاد فی سبیل ہللا کی تبلغ دین میں جانے والو ں کی اعانت میں.
سونا اور چاندی کا نصاب لکھیں؟
سونا :ساڑھے سات تولے.
چاندی :ساڑھے باون تولے.
منافق کی کوئی سی دو عالمات لکھیں؟
جب بولے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو وعدہ منافق کی دو عالمات درج ذیل ہیں.
خالفی کرے۔
دو محاسن اخالق لکھیں؟
دو محاسن اخالق درج ذیل ہیں.
ایفاے عہد۔
ٔ دیانت داری،
نماز کے دو فوائد لکھیں؟
نماز کے دو فوائد درج ذیل ہیں.
1۔ہللا کے سامنے بندہ کی دن میں پانچ مرتبہ حاضری اس کے دل میں احساس تازہ رکھتی ہے کہ وہ
اپنے ہللا کا بندہ ہے۔
2۔ہللا کی عبادت اور اسکی خشنودی کے حصول میں پانچ مرتبہ با جماعت ہو کر نماز ادا کرنا۔
جہاد کی دو اقسام کے نام لکھیں؟
جہاد کی دو اقسام درج ذیل ہیں1 .۔جہاد بالسیف ۔2۔شیطان کے خالف جہاد۔
حج کے لغوی اور اصطالح دین میں کیا مراد ہے؟
حج کے لغوی معنی نیت کرنا یا ارادہ کرنا کے ہیں اور اصالح دین میں حج سے مراد کہ یہ ایک
تعالی کی خاطر فرض کی گئی ہے۔ ٰ جامع عبادت ہللا
ارکان اسالم تحریر کریں؟
.تقوی
ٰ .1کلمہ شہادت۔ .2نماز۔.3روزہ۔4
کلمہ شہادت کا ترجمہ لکھیں؟
” میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیال ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور میں
اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور آخری رسول ہیں“
تقوی کے لغوی معنی لکھیں؟ ٰ
تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو برایئوں سے روکتی ٰ تقوی کا مفہوم پر ہیز گاری ہے
ٰ
ہے اور نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔
غیبت کے لیے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمشیل کیوں دی گئی؟
کیوں کہ جس شخص کی غیبت کی جا تی ہے وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اس طرح غیبت سے با
ہمی نفرت کو ہوا ملتی ہے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔
تین قسم کے پڑوسی بیان کریں؟
تین قسم کے پڑوسی بیان کریں ؟
تین قسم کے پڑوسی درج ذیل ہیں.
اول :وہ پڑوسی جو رشتے دار بھی ہوں۔
ے مشال" نہم جماعت ،سفرافراد۔ دوم :جن سے عارضی تعلقات قائم کیے جا ٔ
باب الریاں سےکیا مراد ہے؟
باب الریاں کا وہ دروازہ جو روزہ داروں کے لیے مخصوص ہے۔
ضبط نفس سے کیا مراد ہے؟
انسان اپنے آپ کوبرایئوں سے اور شیطانی خواہشات سے روکے رکھے اس کو ضبط نفس کہتے
ہیں۔
حدیث کی رو سے رمضان میں روزے کا ثواب کتنا بڑھ جا تا ہے؟
رمضان میں ہر روزے کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا ہو جاتا ہے۔
رمضان کے تین عشروں کی اہمیت بیان کریں؟
رمضان کا پہال عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات ہے۔
رمضان کے کیا معنی ہے؟
جاے۔
رمضان کا لفظ رمض سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ایسی گرمی جس سے پتھر پگھل ٔ
آدم پر کون سے روزے فرض تھے؟ حضرت ؑ
آدم پر تیرا ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے فرض تھے۔ حضرت ؑ
روزے کی قضا سے کیا مراد ہے؟
اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اس کو اجازت ہے کہ وہ روزے کی قضا کر لے یعنی
جتنے روزے بیماری یا سفر سے نہ رکھے جا ئیں تو رمضان کے بعد رکھ لے یہ قضا ہے۔
روزے کے تین مقاصد بیان کریں؟
،تزکیہ نفس۔ نفس،تقوی
ٰ ضبط
نماز کی اہمیت کیا ہے؟
نماز کی اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے ما لک حقیقی کے سامنے سر تسلیم خم ہو کر عبوریت وبندگی
کا اظہار کرتا ہے اور انسان کو تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے جس سے انسان کو قرب ا ٰلہی نصیب
ہوتا ہے۔
نماز کسوف سے کیا مراد ہے؟
ے وہ نماز کسوف کہالتی ہے۔ ایسی نماز جو سورج گرہن کے وقت پڑھی جا ٔ
کوئی تین نفل نمازوں کے نام لکھیں؟
.1اشراق
.2چاشت
.3
نماز کے انسانی زندگی پر اثرات تحریر کریں؟
. 4جسمانی .3نظم وظبط . 2اخوت وہمدردی .1مساوات کا درس
پاکیزگی
کونسی عبا دت قرب خداوندی کا موثر وسیال ہے؟
نماز قرب خدا وندی کا موثر ذریعہ ہے۔
وہ کونسی نماز ہے جس میں سجدہ نہیں ہوتا ؟
نماز جنازہ میں سجدہ نہیں ہوتا۔
نماز کے بارے میں کوئی حدیث لکھیں؟
جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کافرانہ روش اختیار کی۔
نماز کے تین فائدے بیان کریں؟
برے کاموں سےبچ جاتا ہللا کا قرب نصیب ہوتا ہے،
جسمانی و روحانی پا کیزگی ملتی ، ہے
ہے
اسالم کا دوسرا رکن کونسا ہے؟
اسالم کا دوسرا رکن نماز ہے۔
ارکان کا معنی کیا ہے اور یہ کس کی جمع ہے؟
ارکان رکن کی جمع ہے جس کے معنی ستون کے ہیں۔
زکوۃ کے متعلق قرآنی آیت کا ترجمعہ لکھیں؟ ٰ
زکوۃ دیا کرو“
”نماز قائم کرو اور ٰ
زکوۃ کے تین معاشی فوائد لکھیں؟ ٰ
گردش دولت اور سرمایا کاری میں اضافہ اور ملکی معیشت میں بہتری۔
حاسد قناعت کی دولت سے محروم رہتا ہےمفہوم بیان فرمائیں؟
حسد کے لغوی معنی دل میں کڑھنا اور دوسروں کے لیے زوال نعمت کی تمنا کرنا۔
ازروے قرآن تحریر فرمائیں؟
ٔ حسد کی مذمت
” اور کہہ دیں میں پناہ ما نگتا ہوں حسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے“ ترجمعہ
قرآن میں ارشاد
ترجمعہ ” کیا وہ (حاسین) لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ ہللا نے اپنے فضل
سے انہیں عطا فرمایا ہے“
ازروےحدیث بیان فرمائیں؟
ٔ حسد کی مذمت
” آگاہ رہو حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اسطرح کھا جاتی ہے جیسے خشک لکڑی
کو آگ“
” حسد اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق حسد اور ایمان
کسی انسان میں جمع نہیں ہو سکتے“
حسد اور شک میں فرق بیا ن کریں؟
حسد وہ برائی ہے جس میں انسان دوسرے کی عزت و عظمت اور کامیابی پر نہ صرف پیچ و تاب
کھا جاتا ہے بلکہ اس سے اس نعمت کا چھن جا نے کا بھی آرزو مند ہوتا ہے۔
شک انسان کی کسی اخالقی و ما لی یا علمی برتری کو دیکھ کر یہ خواہش کے کہ ہللا تعالی ٰ نے
مجھے بھی ایسی ہی خصوصیات سے نوازہ ہے۔
حسد کے مضراثرات کیا ہیں؟
حسد ایک ایسی اخالقی برائی ہے جو بہت سی دوسری برائیوں کو جنم دیتی ہے۔
مثال :حاسد شخص دوسروں کو بہتر حا لت دیکھنے کا روادار نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے بہت سے
عزیزوں سے ترک تعلق پسند کر لیتا ہے
حسد سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟
اگر انسان حسد جیسے اخالق رزیلہ سے بچنا چاہے تو اسے نیک لوگوں کی سادہ اور قناعت پسند
زندگی سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔
باب دوم
اسالمی تشخص
ارکان اسالم
ارکان اسالم سے مراد دین کے وہ بنیادی اصول و اعمال ہیں جن پر اسالم کی پوری
عمارت قائم ہے۔
نبی کا ارشاد ؑ
ینی االسالم-----------رمضان
ترجمعہ ” اسالم کی عمارت پانچ ستونون پر اَٹھائی گئی ہے اس بات کی بشارت کہ ہللا کے سوا
کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمدﷺ ہللا کے بندے اور اِس کے آخری رسول ہیں اور نماز
زکوۃ دینا اور حج کرنا رمضان کے روزے رکھنا“ قائم کرو اور ٰ
کلمہ طیبہ کے عنوان
خداوں کی نفی، باطل ؑ کلمہ طیبہ کے عنوان درج ذیل ہیں .
رسالت محمدﷺ کی حقیقت۔ صرف ہللا کے لیے اثبات،
پہال کلمہ
الال اال ہللا -------ہللا
ترجمعہ ” ہللا ایک ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ ہللا کے آخری رسول ہیں“
الشمس ان ال-----------ورسول ہللا
ترجمعہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک
نہیں اور میں اس با ت کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے آخری رسول ہیں“
لو کان-------------------فی ھی مان.
ترجمعہ ” ہللا نے تمہارے لیے تا بع کر دیا جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے “(القران)
مختلف مذہب
یحیی :جو تین خداوں کے قائل تھے۔ ٰ
تعالی کا بیٹا ما نتے تھے۔
ٰ ہللا کو عیسی
ؑ ٰ حضرت .اور تھے مانتے خدا بھی کو عیسی
ؑ ٰ ضرت ح
جبرایل کو ما نتے ہیں ۔ ؑ عیسی اور حضرت ٰؑ خود خدا ،حضرت
یہودی:
ازیر کو ہللا کا بیٹا بھی ما نتے تھے۔ یہودی ہللا کو ماننے کے ساتھ ساتھ حضرت ؑ
ہندومت:
ہر چیز کو خدا ما نتے تھے۔
گے۔
جو چیز اِن کو اچھی لگتی وہ اِس کو اپنا خدا ما ننا شروع ہو ٔ
وہ تین خداوں کے بھی قائل ہیں اور تین کروڑ خداؤں کے بھی قا ئل ہیں ۔
آیات
ترجمعہ ” ہللا نے ہر چیز کو تمہارے تا بع پیدا کیا ہے اور ہللا نے انسان اور جن کو اپنی
عبادت کے لیے پیدا کیا ہے“
صرف ہللا کے لیے اثبات
ان ا لذین------------------ذبایا
ترجمہ
”بے شک جن جن لوگوں کو تم پکارتے ہو ہللا کے عالوہ ہر گز وہ ایک مکھی بھی پیدا
سکتے“ نہیں کر
یا یھا انسان-----------------
ترجمہ
” اے انسان ! تجھے کس چیز نے اپنے رب سے غافل کر دیا جس نے تجھے پیدا کیا اور
پھر تجھے تندرست بنا یا پھر تجھے عقل دی جس صورت میں اس نے چا ہا تجھے ترتیب دے
دیا“.
آیات
ترجمہ
” تحقیق ہللا نے انسان کو بہت حسین پیدا کیا ہے“
رسالت محمدﷺ کی حقیقت
ما کا ن محمدﷺ ----------------------النبین
ترجمہ
محمدﷺ با پ نہیں کسی کے تمہارے مردوں میں سےلیکن ہللا کے رسول ﷺ ہیں اور آخری
نبیﷺ ہیں۔
ولقد بعثنا-----------------رسوالا
ٹھاے ہر امت میں سے رسول“ ٔ ترجمہ ” اور ہم نے ا
ہم نے آپﷺ کو بھیجا تمام انسانیت کے لیے ۔
ہم نے آپ ﷺ کو بھیجا تمام جہا نوں کے لیے۔
اجمالی اشارات
حقیقی گواہی:
تعالی کو معبود اور محمد ﷺ کو اس کا آخری نبی تسلیم کر لینے سے گواہی کی ضاہری طور ٰ ہللا
پر ادائیگی ہو جاتی ہے کلمہ پڑ ھنے والے کا دل اس گواہی کی تصدیق کرے اور دل کی تصدیق کی
عملی صورت ،ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔
اگر ہللا کی اطاعت کرنی ہے تو نبی ﷺ کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
ی یَکونَ ھ ََواہّ ت َبعا َ ِلّ َمنا ِجنتُ ِب ِ الَ یو ِمنُ ا َ َحد ُ َک ُم َحت ّ
ترجمہ ” :تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے دل
کی خواہشات میری الئی ہوئی شریعت کے تا بع نہ ہو جا ئیں“
انسا نی عظمت کا ضا من عقیدہ
جب مسلمان اپنے قول و عمل سے تو حید و رسا لت کی گواہی اور اپنے انفرادی و اجتما عی
معماالت میں شریعت اسالمی کی حقہ کما پیروی کا اہتمام کیا تو وہ انسانی عظمت کی بلندیوں پر جا
پہنچے۔
” یہ ایک سجدہ ہے جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات“
نماز
ُ
اسالم ایک مکمل اور جا مع نظام حیات ہے ان کی پوری زندگی کو ان اکتفا اور اِن اعتقادات
کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے عبادات کا ایک نظام مقرر کرتا ہے۔
زکوۃ،
ٰ نماز، اہم جزو؛
حج، روزہ ،
ہللا کے اشارات-:
َ ٰ
صلوۃ َ َو ال تَکُو نُو ِم ُن ال ُمشِرکِینَ َ
ا تِ ُمو ال ّ
”قائم رکھو نماز اور مت ہو شرک کرنے والوں میں سے“ ترجمہ :
احادیث :نبی کریمﷺ کی بہت سی احادیث نماز کی تا کید پر مشتمل ہیں
سر ِِ تسلیم خم کر دینا ہے اور اس عمارت کا ” دین کی اصل بنیا دہللا اور رسولﷺ کے سا منے ِ
ستون نماز ہے“
جب انسان کلمہ پڑھ لیتا ہے تو وہ دائرہ اسالم میں داخل ہو جاتا ہے ۔مثال" نماز پڑھنا قرآن پاک کی
تالوت کرنا اگر ہم کا مل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو نماز قائم کرنی چا ہیے.نماز نبیﷺ کی آنکھوں
کی ٹھنڈک ہے.نماز شیطان کا منہ کا ال کرتی ہے۔
نمازکی تاکید
چونکہ دینی تر بیت کا اہم ترین حصہ ہے اس لیے ہر امت پر فرض رہی ہے ۔” تمام انبیا ؑ اپنی امتوں
کو نماز کی تلقین کرتے رہے“
” کہ جب عذاب کے فرشتے جہنمیوں سے عذاب پا نے کی وجہ دریافت کریں تو وہ آیت:
اپنے جہنم پھینکے جا نے کی وجہ بتائیں گے“
صلّیِنَ قَا لُ َو الَم نَ ُ
ک مِنَ ال ُم َ
”وہ بولے ہم نہ تھے نماز پڑھنے والوں میں سے“ ترجمعہ:
نماز کی فرضیت و تا کید
ترجمعہ
ہللا کو معبود ما ننا -:زباں و دل سے ہللا کو معبود تسلیم کرنے کے بعد اس کے سب سے اہم حکم
تعالی کو معبود ما ننے سے انکار کے برابر ہے۔
ٰ نماز کی ادائیگی سے اطراف ایک طرح سے ہللا
آپﷺ نے فرمایا
صلوۃ َ ُمتَعَ ِمال'' فَقَد ُ َکفَ َرہ.َمن ت ََر اكَ ال َّ
ترجمہ
” جس نے جان بو جھ کر نماز چھوڑی اس نے کافرانہ فروش اختیار کیا“
نماز قرب ٰالہی
نماز قرب ٰالہی کا سب سے موثر وسیال ہے۔
نبی کا ارشاد
” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو گویا اپنے رب سے چپکے چپکے بات چیت کرتا ہے“
قیا مت کے روز
پیش نظر قیا مت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔
نبی کا ارشاد
” قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا“
نماز کے فوائد
احسا س بندگی، نماز کے فوائد درج ذ یل ہیں ۔
اخوت بھائی چارہ ، قرب خداوندی ،گناہوں سے دوری ،محبت و یگانگت،
اجتما عی شکل میں نماز ،بے نمازوں کو تر غیب و تحریص،
اجتما عی نظم و ظبط،
احسا ِس بندگی
ہللا کے سا منے بندگی دن مین پا نچ مرتبہ حا ضری اس کے دل میں یہ حسا س تا زہ رکھتی ہے .
کہ وہ اپنے ہللا کا بندہ ہے بندگی کا یہ احساس متواتر نماز پڑھنے سے ایک مسلمان کا فطرت ثا نیہ
بن جا تا ہے۔
قرب خدا وندی
ٰ
دن میں پا نچ مرتبہ قرب الہی کا احساس مسلمان کو یقین دالتا ہے کہ ہللا ہر وقت ساتھ ہے یہ کبھی
خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا .ہللا کے سا تھ ہونے کا احساس اُسے گناہ کے کاموں سے روکتا ہے
اور اس کے دل میں ہر خوف اور غم دور کرتا ہے۔
گنا ہوں سے دوری
نماز کے درمیا نی وقفے مین بھی نمازوں کے اثرات جا ری و ساری رہتے ہیں نماز کے بعد گناہ کا
آے تو بندہ سوچتا ہے کہ ابھی ہللا سے دعا کر کے آیا ہوں۔” کہ ہللا مجھے گناہوں سے بچا“ خیا ل ٔ
اور ابھی گناہ کا کام کر لو تو کچھ دیر بعد اس کے سامنے کیا منہ لے کر جا ٔوں گا۔
محبت و یگا نات
لی کی عبا دت اور اس کی خو شنودی کے حسول کے سلسلے میں اجتما نیت کا شعور پیدا ہللا تعا ٰ
ہوتا ہے دن میں پا نچ مرتبہ ملتے افراد کے درمیان محبت و یگانگت پیدا ہوتی ہے جس کا فائدا حا
صل ہوتا ہے۔
اخوت بھائی چا رہ
نما زبا جما عت سے بطور خا ص جمعہ اور عیدین کی نمازوں سے مسلمان کے اندر شعور پیدا ہوتا
ہے جب مسلمان (رنگ نسل ،عالقے،طبقے) کے اختیارات سے بے نیاز ہو کر شانے سے شانہ مال
کر ایک امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
اجتما عی شکل میں نماز
اجتما عی شکل میں انجام پا نے والے اعمال کی کیفیت انفرادی اعمال کے اعمال کے مقابلے میں
زیا دہ موثر ہیں اسی لیے اجتما عی نماز کا ثواب انفرادی نماز کے مقابلے میں (ستائیس گناہ) زیادہ
ہوتا ہے۔
بے نمازوں کو ترغیب و تحریص
نمازیوں کو مسجد میں آتے جاتے دیکھ کر بے نمازوں کو ترغیب و تحریص ہوتی ہے اور وہ بھی
نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
اجتما عی نظم و ظبط
نماز میں امام کا تقرر اور اس کی پیروی ،اجتما عی نظم و ظبط کا شعور پیدا کرتی ہے .نبیﷺ نے
تو نماز با جما عت کے لیے مسجد میں نہ پہنچنے والے افراد کے لیے۔فرمایا” جو لوگ نماز
کےلیے مسجد میں نہیں آتے اگر مجھے ان کے بیوی بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کے گھروں
کو آگ لگوا دیتا“
روزوں کا ثواب
جو روزے نبی اکرمﷺ کے قول کے مطا بق ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے جا ئیں ان کے ثواب
کا اندازہ درج ذیل حدیثوں سے ہو گا۔
حدیث
” آدمی کے ہر عمل کا ثواب (ہللا کے یہاں) دس گنا ہ سے لے کر سا ت سو گناہ تک ہو جاتا ہے
لیکن روزے کی تو بات ہی کچھ اور ہے“
لی کا ارشاد ہے-: ہللا تعا ٰ
”مگر روزہ میرے لیے ہے اس لیے اس کا ثواب میں اپنی مرضی سے
(جتنا چا ہوں گا) دوں گا “
حدیث
کراے گا اس کے گناہوں کے لیے ٔ ”جو شخص اس رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار
معا فی ہے اور وہ خود کو جہنم کی آگ سے بچا لے گا اور اسے روزہ دار جتنا ہی ثواب ملے گا
جبکہ اس روزہ دار کے لیے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی“
روزے کے اجتما عی فوائد
یوں تو روزہ ایک انفرادی عبادت ہے لیکن اس کے درج ذیل فوائد بھی ہیں۔
بھو ک پیا س کا احساس
مہینے بھر بھوکا پیا سا رہ کر انسان کو دوسرے کی بھوک پیا س کا احساس ہوتا ہے اور دل میں
ناداروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
قنا عت و ایثار
کم سے کم غذا پر اِکتفا کی ؑدت انسان میں قناعت و ایثار کی صفات پیدا کرتی ہے۔
مواسات اور غمگساری
ایک ہی وقت میں پوری ملت اسالمیہ کا ایک عبا دت میں مصروف رہنا ،باہمی یگانگت کے فروغ
کا سبب بنتا ہے اس اعتبار سے نبی اکرم ﷺ نے ماہ رمضان کو مواسات اور غمگساری کا مہینہ
قرار دیا ہے۔
روزہ کا فائدہ
ایک ماہ تک دن کے بڑے حصے میں معدے کا خا لی رہنا صحت جسما نی کے لیے مفید ہوتا ہے۔
” مہینہ رمضان کا ہے جس میں نا زل ہوا قرآن ،ہدایت ہے رمضان ا لمبارک اور قرآن حکیم-:
ے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن ،سو جو کوئی پا ٔ
روزے رکھے اس کے“
نزول قرآن کی یادگار
اس مہینے میں روزوں کی فرضیت یہ معنی رکھتی ہے کہ انسان جب تک روزوں کے ذریعے
تقوی حا صل نہ کر لے وہ اس پاک کتاب سے جو متقیوں کے لیے ہدایت ہے کما حقہ فائدہ نہیں ا ٹھا ٰ
سکتا۔
رمضان اور پا کستان
رمضان المبارک پوری دنیا کے مسلمان کے لیے رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے ہللا تعا لی ٰ نے اس
(ستایسویں شب) کو پا کستان کی تشکیل ٔ مبارک رات میں ہمیں آزادی عطا فرمائی تھی رمضان کی
گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ مملکت خدادار میں اسی کتاب مقدس کا نظام زندگی نا فذ کیا
ہوے
کیے ٔ ے اس اعتبار سے رمضان المبارک ،تشکیل پا کستان کی سا لگرہ اور ہللا تعا لی ٰ سے ٔ جا ٔ
ہما رے عہد کی تجدید کا موقع بھی ہے۔
بے اثر روزے
روزوں کے وہ فیوض و برکات ضا ہر نہیں ہوتے جن کا ا ہم اوپر سطور مین تذکرہ کر چکے ہیں
تقوی(ضبط نفس) سے بے خبر ہیں (.ہماری ِ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم روزے کے اصل مقصد
نمازیں دکھا وے کی ہیں اور ہمارے روزے نمائشی ہیں)
زکوۃ ٰ
تعالی نے اپنے بندوں ٰ انسانی معا شرے کی تشکیل میں نظام معیشت بنیا دی اہمیت کا حا صل ہے ہللا
فرماے ہیں۔
ٔ کو نظام معا شرے کی طرح نظا م معیشت کے بھی بہترین ضابطے عطا
زکوۃ کی اہمیت ٰ
زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ کچھ اس سے ہوتا ہے کہ قرآن میں اکثر مقامات پر ادائیگی نماز کے ساتھ ٰ
زکوۃ کا حکم دیا گیا ہے۔
ٰ ادائیگی ہی
زکوۃ ادا کرو“ ( نماز اگر بدنی عبا دت ہے ” نماز قائم کرو اور ٰ فرما یا
زکوۃ ما لی عبا دت ہے)۔ تو ٰ
زکوۃ سے انکار کرنے والے-: ٰ
زکوۃ کی اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت نظام ٰ
زکوۃ سے انکار کرنے والوں سے با وجود کہ وہ کلمہ گو تھے جہاد کیا اور فرما یا کہ ابو بکر نے ٰ
(میں اپنی زندگی میں ان دونوں فرائض کی تکمیل میں کوئی فرق نہیں ہونے دوں گا۔)
زکوۃ کے لغوی معنی ٰ
زکوۃ کے لغوی معنی پاک کرنے کے ہیں۔ ٰ
مفہوم-:
لی کے حکم کے مطا بق نہ صرف اپنے مال کو زکوۃ ادا کرتا ہے وہ ہللا تعا ٰ
جو انسان ٰ
پا ک کر لیتا ہے .بلکہ اس کے زریعے اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کر لیتا ہے .
دولت کے مقابلے میں اس رب کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے ۔
ادائیگی ٰ
زکوۃ
زکوۃ یہ یا د دالتی کہ دولت وہ جو کماتا ہے وہ حقیقت مین اس کی ملکیت نہیں بلکہ ہللا کی ادائیگی ٰ
دی ہوئی امانت ہے یہ احساس اسے معاشی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور اس کے تمام اعمال کو
احکام ٰالہی کا تا بع کرتا ہے۔
ِ
نبیﷺ کےارشاد-:
کے مطا بق معاشی معامالت دین کا اہم حصہ ہیں جب انسان دولت جیسی
نعمت ہللا کےحکم پر خرچ کرتا ہے تو ہللا اس کے ایثا کی قدر کرتے ہوئے اس خرچ شدہ مال کو
اپنے زمے قرض قرار دیتا ہے۔
ہللا کا وعدہ
اور ہللا وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا قرض وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرئے گا۔
ارشاد ربا نی
” اگر قرض دو ہللا کو اچھی طرح پر قرض دینا تو وہ دو چند کرے اس کو تمہا رے
لیے اور تم کو بخشے اور ہللا قدر دان ہے اور تحمل واال“
زکوۃ ادا نہ کرنے والے-: ٰ
زکوۃ ادا نہیں کرتے ان کے لیے ہللا کا ارشاد اس مقا بلے میں جو لوگ ٰ
ہے۔
ہللا کا ارشاد
” اور جو لوگ گا ڑھ کر رکھتے ہیں سونا چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے ہللا کی
راہ میں سو ان کو خوش خبری سنا دو عذاب دردناک کی“
آ یا ت کی رو سے
زکوۃ کی ادائیگی انسان کے لیے آخرت کی نعمتوں کے ان آیات کی رو سے ٰ
ب جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت ہو نہیں سکتی۔ حصول اور عذا ِ
معاشی فوائد، زکوۃ کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں۔ ٰ زکوۃ کے فوائد-: ٰ
معاشرتی فوائد،
معاشی فوائد
چونکہ سود نظام معیشت میں محنت کے مقابلے میں سرمایہ کی افادیت کہیں زیادہ
زکوۃ اس صورت حال میں بہتر ہےاس نظام کے زریعے دولت کا ایک دھارا امیر طبقے سے ہے ٰ
غریب طبقے کی جانب مڑ جا تا ہے ۔
” مٹاتا ہے ہللا سود کو اور بڑھا تا قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔
ہے خیرات کو“
ادائیگی ٰ
زکوۃ
زکوۃ کے ذریعے پیدا ہونے والی کمی کو زکوۃ کا ایک فا ئدا یہ بھی ہے کہ ٰ ادا ئیگی ٰ
پورا کرے صا حب ما ل اپنی دولت کسی نہ کسی منعقت بخش کا روبار لگا نے پر مجبور ہو جا تا
ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد
” جو سود کھاتے ہیں وہ قبر میں سے ایسے اٹھا ئے جا ئے گے جیسے جن
نے ان کو جکڑا ہوا ہوتا ہے“
معاشرتی فوائد
معاشرے میں دولت کی وہی حشیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں خون کی اگر
ب ثروت طبقہ ایک طرف مفلس طبقہ نا داری کے مصائب سے دو چار ہو گا تو دوسری طرف صاح ِ
کی فراوانی سے پیدا ہونے والے اخالقی افراض .مثال" عیاشی ،آرام کوشی اور فکر آخرت سے
غفلت شعاری کا شکار ہو جائے گا۔
حضرت محمدﷺ کو مدینے کی اسالمی ریا ست کے قیام کے فورا" بعد یہ ہدایت کی گئی۔
زکوۃ قبول کر لو اس سے تم ان کو پاک اور پا کیزہ کرتے ہو“ ترجمہ ” ان کے مال میں سے ٰ
زکوۃ کے مصارف ٰ
تعالی نے خود متعین فرمادی ہےٰ زکوۃ کی مدات بھی ہللا تقسیم ٰ
زکوۃ تو صرف غریبوں ،محتاجوں اور کا رکنوں کا حق ہے جو اس پر ٰ لی کا فرمان ” ہللا تعا ٰ
صرف کیا جا ئے گا اگر دونوں کے زکوۃ َ
مقرر ہیں نیز ان کا جن کی دل جوئی منظور ہے اور ٰ
زکوۃ مسا فروں کی چھڑانے اور قرض داروں کے قرضہ اداکرنے میں اور ہللا کی راہ میں اور ٰ
امداد مین یہ سب فرض ہے ہللا کی طرف سے اور ہللا بڑا جاننے واال ،بڑا حکمت واال ہے“
زکوۃ کے مصارف مندرجہ ذیل ہیں۔ان لوگوں کی اعانت جو مصارف اس آیت کی روشنی میں ٰ
زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں یعنی جو غریب ،یتیم ،اور محتاج ہیں۔یتیم -:بالغ ہونے
سے پہلے جس کے والدین وفات پا جائے تو وہ یتیم ہے جب وہ بالغ ہو جا ئے یعنی اپنا کاروبار ہو تو
وہ یتیم نہیں ہے۔محتاج -:وہ ہے جو مغرور طبقے سے تعلق رکھتے ہو وہ محتاج ہیں۔
ان تنگ دست لوگوں کی اعانت جن کے پاس کچھ نہ ہو۔مثال''( -:ایسے لوگ جن کے پاس کپڑے
زکوۃ دے کر مدد کرنا)
پہننے اور کھانے کے لیے کچھ موجود نہ ہو تو ان کو ٰ
جہاد فی سبیل ہللا اور تبلیغ دین میں جانے والوں کی اعانت میں۔
زکوۃ کا نصاب: ٰ
زکوۃ ان لوگوں پر فرض ہے جن کے پا س ایک خاص مقدار مین سونا ،چاندی ٰ
ب نصاب“ سامان تجارت ہو اس خاص مقدار کو ”نصاب“اور ایسے لوگوں کو ”صاح ِ ِ ،روپیہ ،یا
کہتے ہیں۔
اشیا ء کا نصاب :سونا -:ساڑھے سات تولے
چاندی -:ساڑھے باون تولے
روپیہ ،پیسہ -:سونے چاندی دونون میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر۔
زکوۃ کے چند اصول ومسائل مندرجہ ذیل ہیں۔ ادائیگی ٰ
زکوۃ -:ادائیگی ٰ
زکوۃ صرف مسلمانوں کو سے لی جاتی ہے۔ ٰ
زکوۃ کی ادئیگی اس وقت فرض ہوتی ہے جب اسے جمع کیے ہوئے ایک سال یعنی ٰ کسی مال پر
(دوران حول) گزر چکا ہو۔ ِ
زکوۃ ہونے کا ممکن حد تک اطمینان کر زکوۃ لینے والے مستحق ٰ زکوۃ دینے والوں کو چاہیے کہ ٰ ٰ
زکوۃ دینے واال ہے لینے واال دینے والے کو پرکھ لیں۔ لیں۔مطلب جو ٰ
زکوۃ کا کل نصاب زکوۃ کی رقم سے ضرورت کی اشیاء بھی خرید کر دی جا سکتی ہین یعنی جو ٰ ٰ
اس کی گھر کی ضرورت ہو وہ خرید کر دے دیں۔ ہے جو ِ
زکوہ کا ہے ( اگر کوئی کسی غریب ،یتیم کو زکوۃ کو بتانا ضروری نہیں کہ یہ پیسہ با مال ٰ مستحق ٰ
زکوۃ کے پیسےہیں ) زکوۃ دیتا ہے تو اس کوبتانا الزم ہے کہ یہ ٰ ٰ
حدیث مبارک
” ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے“ یعنی کسی دوسرے تیسرے کو پتہ نہ ہو کہ
زکوۃ دی ہے۔ آپ نے ٰ
حج
ارکان اسالم میں حج کی اہمیت کا
ِ ۔ ہیں کے کرنا “ ارادہ ، کرنا نیت ” معنی لغوی کے حج
ندازہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے بخوبی ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد
” اور ہللا کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا ،اس گھر کا جو شخص قدرت
رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی اور جو نہ ما نے تو پھر ہللا پرواہ نہیں رکھتا جہان کے لوگوں
لی کی خطر فرض کی گئی اور اس کا اپنے بندوں پر کی“ مراد یہ جامع عبادت ہے جو ہللا تعا ٰ
تعالی کی کوئی اپنی غرض وابستہ نہیں .نیت کرے کہ آپ ﷺ کے روضہ ٰ حق ہے لیکن اس سے ہللا
مبارک کی زیارت کرے گا.آپ ﷺ پر جا کر درود پڑھے گا اس نیت سے۔
نبیﷺ نے فرمایا
” جو کوئی ہللا تعا لیی کے حکم کی تعمیل مین حج کرتا ہے ناور دورا ِن حج
فسق و محجوز سے با ز رہتا ہے وہ گنا ہون سے اس طرح پا ک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے
پیٹ سے پیدا ہوا ہو“ یعنی (اس کو جھوٹ اور چغلی کا کچھ پتہ نہ ہو ).اپنے گناہ گار بندوں کو
لی کے کرم کی دلیل ہے ۔ دنیا میں پاک صاف کر دینے کا یہ انتظام جہا ں ہللا تعا ٰ
فضلیت -:حج اس وجہ سے ہوتا ہے کہ جتنے بھی گناہ ہیں وہ ہللا معاف کر دیتا ہے۔اگر جنت لینی
ہے اور اگر پاک صا ف رہنا ہے تو حج کرو ۔
حضرت محمد ﷺ کا ارشاد
” جس صا حب استطا عت شخص کو نہ کوئی ظا ہری ضرورت حج
سے روک رہی ہو ،نہ کوئی ظالم با دشاہ اس کی راہ میں حائل ہواور نہ کوئی روکنے والی بیماری
اسے ال حق ہو اور پھر بھی وہ حج کیے بغیر مر جا ئے تو وہ ایک مسلمان کی نہیں کسی یہودی یا
نصرانی کی موت مر ئے گا“ یعنی (اگر کوئی وفات پا جائے یعنی اس نے حج کرنے کا ارادہ کر
لیا تھا تو وہ کسی غریب کو پیسے دے کر اپنے حصہ کا حج کروا سکتا ہے)
جامیعت -:حج جیسی عبادت مین باقی تمام عبادت کی روح میں شامل ہے حج کے ذریعے روانگی
زکوۃ
دوران سفر کے ذریعے قرب خدا وندی میسر آتا ہے ( حج کے لیے خرچ کرنا ٰ ِ سے واپسی تک
سے مشابہت رکھتا ہے)
ٗام ا لمو منین حضرت عا ئشہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرما یا ؛ سب سے افضل جہاد حج
حج مبرور کوئی شریعت کے خالف کام نہ کرنا حج مبرور کہال تا ہے مبرور (مقبول) ہے
آپ ﷺ کے اِ سی ارشاد گرامی کے پیش نظر حضرت عمر سے فرما یا کرتے تھے ” حج کا
سامان تیار رکھو کہ یہ بھی جہاد ہے “
زائرین خا نہ کعبہ کی قلبی کیفیات -:ہر ہر لمحہ اپنے اندر اخال قی و روحا نی تر بیت کا سامان
رکھتا ہے جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر دینوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر
اور دو ا َ ن سیلی چا دریں اوڑھ لبیك اللھم لبیك کی صدایئں بلند کرتا ہے بیت ہللا شریف میں حا ضر
سفر آخرت کا غونہ بن جاتا ہے۔ ہوتا ہے تو اس کا یہ صرف ِ
ران حج یعنی طواف کرتے ہوئے سال ہوا کپڑا پہن کر دو ان سیلی چادریں -:سے مراد کہ دو ِ
طواف کر نا ہر گز جا ئز نہیں ہے۔
حضورﷺ کے مبارک خطبے-:
” کہ میرے بعد گمراہی سے بچنے کے لیے قرآن اور حدیث کو
مضبو تی سے تھا مے رہنا“
قربانیوں کے مقا بلے میں نفس کی چھوٹی موٹی خواہشات کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے میرا تو
جیناق اور مرنا صرف ہللا کے لیے ہے۔
کلمات :ترجمہ
” کہ میری نما ز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا ہللا ہی کے لیے ہے جو
پالنے واال سارے جہان کا ہے کوئی نہیں اِ س کا شریک اور یہ ہی مجھ کو حکم ہوا اور میں سب
سے پہلے فرما نبردار ہوں“
منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن شیطان کو کنکریاں مارتا ہے ٰ مقام منی-:
مقام ٰ
کہ اب اگر یہ میرے اور میرے ہللا کے درمیان حا ئل ہونے کی کو شش کرے گا تو اسے پہچا ننے
میں غلطی کروں گا طواف کے بعد وہ صفا اور مروہ کے درمیان سفر کرتا ہے۔
آیت
ترجمہ ” -:اے میرے ہللا ! مجھے اپنے نبیﷺ کے طریقہ پر کا ر بند رکھ اور ا َ س پر عمل کرتے
ہوئے مجھے اپنے پاس بال لے اور نفسیاتی لغزشوں سے مجھے محفوظ فرما“
-3، حج قرآن حج کی اقسام -:حج کی تین بڑی اقسام مندرجہ ذیل ہیں ۔ -1حج افراد-2،
حج تمتع۔
حج کی نیت کرنا اور احرام باندھ لیں وہ حج افراد کہال تا ہے۔ حج افراد-:
حج قرآن -:حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرنا اور حرام باندھ لینا وہ حج قرآن کہال تا ہے ۔
حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرنا اور دونوں کو علیحدہ علیحدہ احرام کے ساتھ ادا حج تمتع-:
کرنا حج تمتع کہالتاہے۔
فوائد -1 -:حج کا اصل فائدہ یا د الہی اور ہللا کا نقرب ہے لیکن دیگر ارکان کی طرح اس کے
تقوی کی پا کیزگی کی جو بھی متعدد معا شرتی و اخالقی فوائد ہیں یہ لوگ اپنے ساتھ ایمان اور ٰ
دولت لے کر تو لتے نہیں وہ ان کے ما حول کی اصالح کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
-2حج کا ایک اہم تجارتی اور اقتصادی فائدہ یہ بھی ہے کہ مختلف مما لک سے آنے
والے احتجا ج خریدوفروخت کے ذریعے معا شی نفع حاصل کرتے ہیں ۔
حج مقبول -:حج کے مزکورہ با ال اجتما عی و انفرادی فوائد سے ہم تب ہی متمعن ہو سکتے ہیں
جب ہما را مقسد رضا ئے الہی ہو مرکوز محور دین حق کی سر بلندی ہو اور حج کے روحا نی مقا
صد پر نظر جمعی رہے یہی ہما را حج ،حج و میر ہو سکتا ہے۔
جہاد -:جہاد جہد سے نکال ہے جس کے لغوی معنی کو شش کرنا ہے اور اس کے فقاہے میں لفظ
جنگ آتا ہے ۔
دینی اصطالح -:دینی اصطالح میں اس سے مراد وہ کو شش ہے جو دین کی حفا ظت اور فروغ
اور امت مسلمہ کے دفاع کے لیے کی جا ئے۔
جہاد اور جنگ میں فرق-:
جہاد
جنگ
جہاد خا لص اسالمی اصطالح ہے۔
اور لفظ ِ جنگ عا م ہے۔
جہاد اسال می تعلیمات میں محسن ہے یعنی اچھا ہے۔
جبکہ لفظ جنگ نا پسندیدہ فعل ہے۔
جہاد میں ذاتی خواہشات کا فعل نہیں ہوتا ۔
جبکہ لفظ جنگ ذاتی خوہشات ہو تی ہیں۔
۔ جہاد اسالمی روح سے پڑا جا تا ہے
لفظ جنگ ذائیات
سے نرمی جا تی ہے۔
جہاد کرنے کے بعد امن و خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔
جبکہ جنگ کے بعدتباہی ،بربا دی بر پا
ہوتی ہے۔
جہاد کی بعض صورتیں جو فرض ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں جہاد کی صورتیں-:
دین اور مسلمان کی حفاظت کے لیے
فتنہ اور فساد کے خا تمہ کے لیے
ڈاکوں ،لٹیروں اور با غیوں کے خا تمے کے لیے
دغا با ز اور عہد شکن کےلیے
مظلوم کی امداد کے لیے
اپنے حق کی حفاظت کے لیے
وظا حت :
دین اور مسلما ن کی حفاظت کے لیے:
ترجمہ-:
” اجازت دی گئی ہے کہ وہ لڑیں اس لیے کہ ان پر ظلم ہوا ہے اور بے شک ہللا ان کی
مدد کرنے پر قا در ہے “
اور جگہ فرمایا
ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد ختم ہو جا ئے اور دین ہللا کے لیے ہو جا ئے (القرآن)
با غیون ،ڈاکوں ،لٹیروں کے خا تمے
ترجمہ
جو ہللا اور ہللا کے رسول ﷺ کے خالف لڑتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں تو کاٹ
(خالف سمت) (القرآن)
ِ دیجیے ان کے ہا تھ اور ان کے پا ؤں
دغا باز اور عہد شکن کے لیے
” جن سے آپ عہد کریں اور وہ عہد توڑ دے اور عہد کی خالف ورزی کریں اور اگر ترجمہ-:
آپ ج نگ کریں تو جنگ میں ان سے لڑیں تا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے نصیحت ہو “ (القرآن)
اپنے حق کی حفا ظت کے لیے
حدیث ” -:آپ ﷺ کے پاس کوئی شخص آیا تو کہا کہ میرا مال مجھے سے لینے کی کوشش
کریں تو میں کیا کروں آپ ﷺ نے فرما یا کہ ان سے لڑو اگر وہ ما را گیا تو وہ ظالم اور اگر آپ ما
رے جائے تو آپ شہید کہالئے جا ئے گے“
جہاد کی قسمیں - :جہاد کی قسمیں مندرجہ ذیل ہیں۔ جہاد با لمال ،جہاد بالقلب ،جہاد بالنفس ،جہاد
بالفقر ،جہاد باالنسان،
ثا بت قدم ،امیر جہاد میں کا میا بی کی شرائط درج ذیل ہیں۔ جہاد میں کامیابی کی شرائط-:
تقوی ،فخر ،تکبر اور غرور سے پرہیز ٰ ،ذکر الہی ،صبر اور
ِ کی اطاعت
ثا بت قدم وظا حت
” اے ایمان والو ! جب تمہا را سامنا ہو کسی گرو سے پس تم ثبت قدم رہنا“
امیر کی اطا عت
” ہللا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور امیر کی بھی اطاعت کرو“
ِذ ِکر الہی
” ہللا کا کژت سے ذکر کرو تا کہ تم فالح پا جاؤ تا کہ تم کا میاب ہو جاؤ“
تقوی
ٰ صبر اور
” اے ایما ن والوصبر کرو اور مقابلے میں بڑھ کر صبر کرو اور سرحدوں کی حفاظت کرو تم پر
ہیز گا ہو جا ؤ گے تا کے تم کا میاب ہو جا ؤ فالح پا جا ؤ“
فخر ،تکبر اور غرور سے پرہیز
” تم نہ ہو جا ؤ ان لوگوں کی طرح جواپنے گھروں سے تکبر کرتے ہوں اور لوگوں کو دکھا تے
ہوں“
ہللا کی راہ قرآن مجید میں جہاد کی اہمیت در ج ذیل ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کی اہمیت-:
ہللا کے لیے لڑو، میں جہاد ،
ما لوں اور جا نوں سے جہاد، فتنہ ختم کرنے کا اہم ذریعہ،
سچے مومن کی پہچان، سا ما ن جنگ تیار کرنا،
وضا حت
” جہاد کرو ہللا کے راستے میں جیسے جہاد کرنے کا حق ہللا کی راہ میں جہاد -:ترجمہ
ہے“
” تم ان سے لڑو ہللا کے راستے میں اگر وہ تم سے ترجمہ ہللا کے لیے لڑو-:
لڑیں“
فتنہ ختم کرنے کا ذریعہ -:ترجمہ ” تم ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے“
مالوں اورجا نوں سے جہاد -:ترجمہ ” اپنے ما لوں اور جا نوں کے ساتھ جہاد کرو“
ساما ِن جنگ تیار کرنا -:ترجمہ ” تیار کر لو (دشمن) کے لیے جتنا کر سکو سامان جنگ کیسے
سدرھا ہوئے گھوڑھے جو ہللا کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں“
سچے مو من کی پہچان -:ترجمہ ” اور جو لوگ ایمان ال ئیں اور اپنا گھر با ر چھوڑ ا اور جہاد
کیا ہللا کے راستے میں اور جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی یہ ہی سچے مومن ہیں“
جہاد کی اہم اقسام
ت نفس کے خالف جہاد -1خواہشا ِ جہاد کی اہم اقسام درج ذیل ہیں۔
- 3جہاد بالسیف -2شیطان کے خالف جہاد
ت نفس کے خالف جہاد -:اطاعت الہی سے روکنے والی پہلی قوت انسان اپنی خواہشات خواہشا ِ
خواہش نفس کے خالف جہاد کو ِ ہیں اور اسے ان کی بسر گوئی کے لیےہر وقت چو کنا رہنا پڑتا ہے
نبیﷺ نے (جہاد اکبر) کا نا م دیا ہے۔
اپنے نفس پر قابو پا لینے کے بعد شیطا نوں سے نمٹنا ضروری ہے شیطان کے خالف جہاد-:
قرآن حکیم اس قسم کو طاغوت کا نا م دیتا ہے۔
طاغوت -:سے مراد کہ شیطان ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں آیا ہے۔
لی ہے:ارشا ِد باری تعا ٰ
الذین ---------------الطاغوت
ترجمہ ” -:جو لوگ ایمان والے ہیں سو لڑتے ہیں ہللا کی راہ میں اور جو کا فر ہیں سو لڑتے
ہیں شیطان کی راہ میں “
طاغوتی قوتیں -:مسلمان معاشرے کے اندر غلط رسم رواج کی شکل میں بھی پائی ہیں اور
اسالمی معاشرے کے با ہر اسالمی ممالک کے خلیے کی شکل میں بھی۔
قرآن مجید -:میں ایک جامع ہدایت ہے۔
وجارلھم--------------------احسن
ترجمہ ” -:اور ان کے ساتھ بحث کیجئیے پسندیدہ طریقوں سے “
جہاد کا جذبہ -:اگر جہاد کا سچا جذبہ دل میں موجز ن ہو تو مومنا نہ بصیرت ہر موقع پر مناسب
راہیں سمجھا دیتی ہیں اس سلسلے میں نبی ﷺ کا رویہ فرمان بہترین رہنمائی کرتا ہے۔
فرمان
من رای -----------------االیمان
ترجمہ -:تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھتے تو اس کو ہاتھ سے (قوت سے )روکے اگر اس
کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو اسے دل سے برا
سمجھے (اور یہ بدی کو محض دل سے برا سمجھنا ) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
جہاد بالسیف
جہاد بالسیف تلوار سے لڑا جا تا ہے یعنی مختلف وقتوں پر فرض ہوتا ہے مسلمانوں کو ملی تحفظ
اور بقائے دین کے لیے ان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔جہاد ویسے ہی نہیں پہلے کفر کو دعوت دی
جاتی ہے ۔
-1مدافعانہ جہاد اقسام -:جہاد بالسیف کی دو بڑی اقسام درج ذیل ہیں ۔
-2مصلحانہ جہاد
مدافعانہ جہاد -:اگر کوئی غیر مسلم قوت کتنی مسلمان پر حملہ کر دے تو اس ملک کے
مسلمانوں پر اپنے دین و ایمان و جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی خا طر جہاد فرض
ہے۔قسم یہ ہے اگر کسی غیر مسلم ریاست کی مسلمان رعایا پر محض اس کے مسلمان ہونے کی
وجہ سے ظلم و ستم آڈھا یا جا رہا ہے تو عا لم اسالم سے ظلم وستم سے نجات دالنے کی ہر ممکن
کو شش کر لے ۔
لی کی حکمیت اور نبی ﷺ کی اطاعت کا مصلحا نہ جہاد -:جو شخص کلمہ طیبہ پڑھ کر ہللا تعا ٰ
اقرار کرتا ہے اس پر الزم آتا ہے کہ وہ سا ری دنیا میں ہللا تعا لیی کی حاکمیت اور نبیﷺ کی
شریعت کے لیے کوشاں رہیں۔
مقصد دین کا قیام:
ھوالذی -----------------------المشر کون
” اس نے بھیجا اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور سچا دین دے کر اس کا غلبہ دے کر ہر ترجمہ:
دین اور اگر چہ برا ما نیں مشرک“
ہللا کا ارشاد:
ِل
وقا تلو ھمِ ِ ----------------------
ترجمہ ” :اور لڑتے رہوان سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اور ہو جا ئے دین سب ہللا کا “
جہاد کی حدیث
حدیث ” :ابو ذر فرما تے ہیں میں نےعرض کیا کہ یا رسول ہللا سب سے بہتر ین عمل کونسا
ہے آپ ﷺ نے فرما یا ہللا پر ایمان النا اور ہللا کی راہ میں جہاد کرنا “
” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبیلہ قدرت میں میری جان ہے
مجھے سب سے زیا دہ پسند یہ ہے کہ میان ہللا کی راہ میں لڑو اور میں شہید ہو جا ؤ پھر زندہ کیا
جا ؤ اور پھر لڑو اور پھر شہید ہو جا ؤں“
” جس کے پاؤں (قدم) راہ ،خدا میں گرد آلود ہو ان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی“
جہاد کے فضا ئل
قرآن حکیم اور کتب احادیث میں جہاد کے متعدد فضا ئل بیان ہوئے ہیں
لی ہے :ترجمہ ” :ہللا محبت کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں ارشاد باری تعا ٰ
قطا ر باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پالئی ہوئی “
حضرت محمدﷺ کا ارشاد
” قسم ہے ہللا کی جس کی مٹھی میں محمد ﷺ کی جان ہے ہللا کی راہ
میں جہاد کرنے کے لیے ایک صبح یا ایک شام کا سفر دنیا و ما فیا یعنی (جو کچھ دنیا میں ہے)کی
نعمتوں سے بڑھ کر ہے اور ہللا کی راہ میں دشمن کے مقا بل آکر ٹھہرے رہنے کا ثواب گھر میں
ستر نمازوں سے زیادہ ہے“
اوالد کے حقوق
ذیل میں اوالد کے حقوق بیان کیئے گئے ہیں
عقیقہ و ختنہ ، بچیوں کی پرورش و ترتیب، حفاظت جان ،
عدل و مساوات ،رضاعت ،شفقت و رحمت ،تعلیم و تربیت ،نکا ح،
حفاظت جان
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
”ہللا قیامت کے روز اس قتل نا حق کا سخت مما سبہ کرے گا“ ترجمہ:
”اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنادی گی ہو ،پوچھا جائے گا کہ ترجمہ:
وہ کس گناہ پر ما ری گی“
”اور اپنی اوالد کو مفلسی کے فرما یا گیا:
خوف سے قتل نہ کرو کیوں کہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں کچھ شک نہیں کہ ان کا
مارڈالنا بڑا سخت گناہ ہے“
”ایک صحا بی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول ہللا سب سے بڑا گناہ کو نسا ہے؟ حدیث:
آپ ﷺ نے فرمایا ”شرک“ انہوں نے دریافت کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے فرما یا ”والدین کی نا فرما
نی “ عرض کی اس کے بعد ارشاد ہو ”تم اپنی اواد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے کھا
نے میں حصہ بٹائے گی“
حقیقہ و ختنہ
پیدائش پر خوشی منا نا اور صدقہ و خیرات کرنا ،پیدائش کے بعد اس کو نہالکر دائیں کا ن میں اذان
اور با ئیں کان میں اقا مت کہی جا ئے۔اچھا نام رکھا جائے مثال" عبدہللا ،عبدالرحمن
آپ ﷺ نے فرمایا :کہ عبدہللا اور عبدالرحمن خدا کے پیا رے نا م ہیں۔
حدیث” :انہوں نے فرمایا کہ میرے ہا ں لڑکا پیدا ہو تو میں اسے لے کر حضورﷺ کی خدمت میں
حا ضر ہوا آپﷺ نے اس کا نا م ابراہیم رکھا ایک کھجور کی اسے گھنی دی اس کے لیے برکت کی
دعا مانگی اور بچہ مجھے واپس دے دیا “
رضا عت
رضا عت کے معنی دودھ پالنا ہے
قرآن میں ارشاد :ترجمہ ” اور ما ئیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پال ئیں یہ حکم اس
شخص کے لیے جو ماؤں کا کھا نا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کی ذمے ہو گا“
تعلیم و تربیت
ترجمہ” :اپنی اوالد کی عزت و تو قیر کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو“
قران مجید میں ارشاد:
”اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے ترجمہ:
بچاؤ “
” اور جو خدا سے دعا ما نگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ترجمہ:
! ہم کو ہما ری بیویوں کی طرف دل کا چین اور اوالد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما“
ارشاد نبویﷺ:
” تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے مرد ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے اہل و عیال کے متعلق
پوچھا جا ئے گا عورت ذمہ دار ہے اور اپنے خا وند کے گھر اور اوالد کے متعلق جوابدہ ہے“
حدیث نبویﷺ
” علم کا حا صل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“
حضورﷺ نے فرمایا
کہ اوالد کے لیے والدین کا بہتر ین تحفہ اور عطیہ اچھی تعلیم ہے۔
ارشاد نبویﷺ
” جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا علم ختم ہو جاتا ہے لیکن تین علم جاری رہتے ہیں ایک صدقہ
جاریہ ،دوسرا اس کا پھیالیا ہوا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،اور تیسرا نیک اوالد جو اس کے
حق میں دعائیں کریں“
بچیوں کی پرورش اور تربیت
”رسولﷺ نے لڑکی کو خدا کی رحمت قرار دیاہے“
ارشاد نبویﷺ:
حتی کہ وہ جو ان
”جس آدمی کے گھر دو لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے ٰ
ہو جائیں تو ایسا آدمی بالکل اسی طرح میرے ہمراہ جنت میں داخل ہو گا جس طرح شہا دت کی
انگلی اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہیں “ پھر فرما یا ”اگر والدین لڑکی کی پرورش اچھے
طریقے سے اور شفقت سے کر یں تو ان کا یہ عمل ان کے اور دوزخ کے درمیان پردے کی طرح
حا ئل ہو جا ئےگا“
ارشاد نبویﷺ
”جس کے ہا ں لڑکی پیدا ہو اور وہ اس کو زندہ رہنے دے ،اِ س کو حقارت سے نہ دیکھے نہ اس
پر لڑکے کو ترجیح دے تو خدا اِس کو جنت میں داخل کرے گا“
عدل و مساوات
اوالد کے ساتھ عدل و مساوات کا برتائو ہونا چاہیے۔
حدیث؛
ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک کو ایک غالم تحفے میں دیا اور
چاہا کہ حضور ﷺ کی اس پر شہادت ہو ،آپﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک
ایک غالم دیا ہے ،عرص کی نہیں ،فرمایا :تو میں ایسے ظالما نہ عطیہ پر گواہ نہیں بنوں گا۔
شفقت و رحمت
اوالد کے ساتھ نہایت شفقت و رحمت کا سلوک کرنا چاہیے۔
آپﷺ کی نواسی امامہ جو آپ کی بڑی صاحبزادی حضرت ذینب کی بیٹی تھیں اسے آپ گھر میں
اور کبھی مسجد میں اُٹھائے پھرتے تھے وھ نماز کی حالت میں آپ کی ٹانگوں کے میں سے گزر
جاتیں کندھوں پر چڑھ جاتیں اور آپ نہایت اطمینان سے نماز پڑھتے رہتے۔
حدیث نبوی
آپ نے فرمایا آنکھیں روتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ذبان سے کلمہ شکایت و بے صبری نہیں
نکل سکتا یہ ہی کہتا ہوں کہ اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی سے بہت غمگین ہیں۔
نکاح
پرورش اور تعلیم و تربیت کے بعد جوان اوالد کے لیے اچھا رشتہ تالش کرنا اور ان کا نکاح کرنا
بھی والدین کے ذمہ ایک اہم فریضہ ہوتا ہے۔
ارشاد نبوی
تین چیزوں میں دیر نہیں ہونی چاہیے نماز میں جب اس کا وقت آجائے جنازے میں جبکہ وہ حاضر
ہو ،اور لڑکی کے نکاح میں جب اس کا مناسب بر مل جائے۔
تحفظ زندگی
ِ
"ہللا کا فرمان"
اور اپنی اوالد کو بھوک کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انھیں بھی تمھیں بھی رزق دیں گے'
والدین کا فرض
فکر آخرت
کہ جہاں وہ اپنی اوالد کو روزی کمانے کے قابل بنانے کی تدبیر کرتے ہیں وہاں ان میں ِ
بھی پیدا کریں اور عمل صالح کی تربیت دیں۔
اے ایمان والوں بچائو اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو آگ سے" ہللا کا فرمان'
ظلم و ذیادتی سے پرہیز
ارشاد نبوی" عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی جس سے
اس کے ٹیڑھا پن کے ساتھ تم کام تو لے سکتے ہو ،اگر اس کو سیدھی کرنے کی فکر کرو گے تو تم
اس کو توڑ دالو گے۔
ارشاد نبوی"تم میں بہتر لوگ وہی ہیں جو اپنی بیویوں سے بہتر سلوک کریں اور میں بیویوں
سے بہتر سلوک کرتا ہوں۔
دینی و اخالقی تربیت
ارشاد ربانی؛ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوذخ کی آگ سے بچائو۔
قرآن مجید؛ ترجمعہ
،اور جو خدا سے د ُعا مانگتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کو
چین) اوالد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما،
رشتہ داروں کے حقوق
ٰ
القربی کا بار ذوی
اسالمی معاشرت میں رشتہ داری کو بہت اہمیٹ حاصل ہے ،قرآن مجید میں بار ٰ
لفظ استعمال کیا ہے ،جس کے معنی (قرابتدار) ہے۔
قرآن و حدیث :اور رشتہ داروں کو اُن کا حق دو۔
ارشاد نبوی :رشتہ داروں سے تعلق توڑنے واال جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
حسن سلوک
صلہ رحمی
مالی امداد کرنا
وراثت کا حصہ
رشتہ داروں سے پیار محبت
حسن سلوک؛ کتاب و سنت میں والدین کے عالوہ رشتہ داروں کے ساتھ احسان (حسن
سلوک) کا حکم دیا گیا ہے۔
(آیات مبارکہ)
اور ماں باپ اور قرابت داروں کے ساتھ (نیک سلوک) کرو؛
ترجمعہ :اور ہللا سے ڈرو جس کے نام سے تم ایک دوسرے کے حق مانگتے ہو اور رشتہ
داریوں کے معاملے میں حق تلفی سے بچو؛؛
(حدیث مبارکہ)
ارشاد نبوی
؛جو شخص ہللا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ،اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے
اپنے رشتہ داروں سے مالپ کرنا چاہیے۔
حدیث ؛ جو شخص چاہے کہ اس کی روزی کشادہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے اپنے
رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
حدیث؛ نادار کو صدقہ دینا صرف ایک نیکی ہے کہ وہ خیرات ہے لیکن رشتہ دار کو دینے
سے صدقہ بھی ادا ہوگا اور رشتہ داری کا حق۔
صلہ رحمی
(آیت مبارکہ)
ترجمعہ :اور وہ قرابت داری ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کے جوڑنے کا خدا نے حکم
دیا ہے۔
ترجمعہ :اور جو لوگ ان رشتوں کو قطع کرتے ہیں جن کے عالقے کا ہللا نے حکم دیا ہے اور
ذمین میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان کا انجام بُرا ہے۔
ترجمعہ:
رشتہ داری کو قتع کرنے واال جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(حدیث مبارکہ) رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے واال وہ نہیں ہے جو احسان کے بدلے
احسان کرے بلکہ وہ ہے کہ جس کا رشتہ کٹ جائے تب بھی وہ اسے جوڑے۔
حدیث نبوی :ایک شخص نے ہللا کے رسول سے عرض کیا کہ اے ہللا کے رسول ! میرے
کچھ رشتہ دار ایسے ہیں جن سے میں تعلق جوڑتا ہوں مگر وہ مجھ سے رشتہ کاٹتے ہیں میں ان
سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ بد سلوکی کرتے ہیں حضور نے فرمایا :اگر معاملہ وہی ہے جو
تم نے بیان کیا ہے تو گویا تم انھیں گرم راکھ کھالرہے ہو اور جب تک تم ایسا کرتے رہو گے ہللا
تمہاری پشت پر رہے گا۔
مالی امداد کرنا
آیت مبارکہ
ترجمعہ :؛نیک وہ شخص ہے جو رضائے ٰالہی کے لیے رشتہ داروں کو مال دے؛
ترجمعہ :آپ کہہ دیں کہ جو کچھ مال تم کو صرف کرنا ہو سو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت
داروں کا؛
ترجمعہ :بے شک ہللا تم کو احسان اور انصاف کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد)
دینے کا حکم دیتا ہے؛
احادیث مبارکہ :ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھنے لگا کہ مجھے
کوئی ایسا عمل بتائیے جو جنت میں لے جائے حضور نے فرمایا وہ عمل یہ ہے کہ تو ہللا کی عبادت
زکوۃ ادا کرو اور رشتہ داروںکرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائے نماز قائم کرو ٰ
سے اچھا سلوک کرو۔
ارشاد نبوی؛ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو چاہے مظلوم یاد رہے کہ ظالم کی مدد
یہ ہے کہ اسے ظلم سے روک دیا جائے؛
وراثت کا حصہ
قرآن میں ارشاد؛ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ،تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا
بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے یہ حصے ہللا کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔
رشتہ داروں سے پیار محبت
اے نبی کہدو کہ میں اس کا تم سے صلہ نہیں مانگتا مگر تم کو قرابت کی قرآن میں ارشاد؛
محبت تو چاہیے؛
آیت مبارکہ؛ رشتہ داروں کی باہمی محبت و صورت کی اہمیت پر ہے کہ یہ صورت ہللا کو
پسند ہے ورنہ حضور اس اہمیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کا حکم نہ دیتے؛
نیکی کی تلقین
نبی نے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو بال کر دین کی دعوت دی؛ ترجمعہ:
تحائفہ کا تبادلہ
؛ تحفے دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے؛
ہمسایوں کے حقوق
ہمسایہ فارسی زبان کا لفظ ہے عربی میں اس کے لیے جار کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
قرآن میں ارشاد؛ اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے بہلو (یعنی پاس
بیٹھنے والوں) کے ساتھ احسان کرو؛
تین قسم کے پڑوسی:
اول :وہ پڑوسی جو رشتہ دار بھی ہوں ،
دوم :غیر رشتہ دار پڑوسی ( خواہ وہ غیر مسلم ہوں؛
سوم :جن سے عارضی طور پر تعلقات قائم ہو جائیں ،مثالََِ ہم پیشہ ،ہم جماعت ،وغیرہ۔
گھر بنانے سے پہلے ہمسایہ تالش کرو؛ حق ہمسایہ کی اہمیت:
ہمسایوں کے درجے
ہمسائیگی کی حد
ہمسایوں کے درجے
ارشاد نبوی :پہلے درجہ میں وہ ہمسایہ جس کا ایک حق ہے اس میں غیر مسلم ہمسایہ آتا ہے
جس کا تعلق صرف ہمسائیگی کی بناء پر ہے۔
حضرت عائشہ :فرماتی ہیں میں نے حضور سے پوچھا کہ میرے دو ہمسائے ہیں ایک کا
دروازہ بالکل میرے گھر سے قریب ہے اور دوسرے کا دروازہ دور ہے بعص دفعہ میرے پاس
اتنی چیز نہیں ہوتی کہ دونوں کو بھجواسکوں تو ان میں سے ذیادہ حق کس کا ہے ،حضور نے
فرمایا :جس کا دروازہ قریب ہے اس کا حق زیادہ ہے؛
ہمسائیگی کی حد:
ارشاد نبوی :ایک شخص حضور کے پاس اپنے ہمسائے کی شکایت لے کر آیا ،حضور نے
اسے حکم دیا کہ مسجد کے دروازے پر اعالن کردو کہ چالیس گھر ہمسائے ہوتے ہیں؛
حقوق ہمسائیگی
' عزت و تکریم
'حسن سلوک
ِ
' مالی خدمت
' تحفہ دینا
' جان و مال کی حفاظت
'حق ہمسائیگی کی اہمیت
عزت و تکریم:
جو شخص ہللا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے ہمسائے کی عزت ارشاد نبوی:
کرنی چاہیے؛
ہللا کے نذدیک بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرتا ہے؛ ارشاد نبوی:
حسن سلوک
ِ
اس سلسلے میں قرآنی آیات بیان کی گئیں ہیں:
ارشاد نبوی :جو شخص ہللا اور رسول سے سے محبت رکھتا ہے اسے سچ بولنا چاہیےامانت
حسن سلوک کرنا چاہیے؛
ِ میں خیانت نہ کرنا چاہیے اور ہمسایوں سے
ارشاد نبوی :اپنے ہمسایوں سے نیک سلوک کرو تو پورے ایمان دار بن جائو گے؛
ذیل میں مالی خدمت پر ارشاد نبوی بیان کیے گئے ہیں؛مالی خدمت:
ارشاد نبوی :جو شخص سیر ہو کر کھانا کھالے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہ کر رات گزار دے
وہ مومن نہیں؛
ارشاد نبوی :کوئی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک اپنے ہمسائے کے لیے بھی وہی پسند
نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے؛
تحفہ دینا:
ایک دوسرے کو تحفہ دینا محبت کا باعث ہے؛
ارشاد نبوی :ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو اس سے باہم محبت بڑھے گی؛
حدیث نبوی :حضور نے عورتوں سے خاص طور پر خطاب کرکے فرمایا کہ اے مسلم
عورتوں! اپنے پڑوسیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی حقیر مت جانو ،ح ٰتی کہ بکری
کی کُھری ہی بھیج سکو تو یہ بھی اہم چیز ہے؛
جان و مال اور عزت کی حفاظت
ہمسایہ کا بھی حق ہے کہ اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے؛
ارشاد نبوی؛ جو شخص اپنے جان و مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ،نیز فرمایا
چوری حرام ہے لیکن دس چوریوں سے بڑھ کر جرم یہ ہے کہ اپنے پڑوسی کی چوری کرے؛
ہمسایہ ماں جایا -یعنی ہمسائے کا حق ویسا ہی ہے جیسے ماں جائے کا ہوتا مثل مشہور ہے
ہے؛
حق ہمسائیگی کی اہمیت
رسول نے ہمسایوں سے حسن سلوک کو قرب ٰالہی کا ذریعہ بتایا۔
ارشاد نبوی :ہللا کے نذدیک ساتھیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لیے بہتر ہے اور
پڑوسیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہے؛
حضرت عائشہ ؛ فرماتی ہیں کہ مجھے رسول نے پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم دی ،غرض
جبرائیل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ میں سمجھا کہ کہیں
ؑ ان سے فرمایا کہ
ان کو وراثت کا حق نہ دالدیں؛
اساتذہ کے حقوق و فرائض
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حیثیت ،اہمیت اور مقام مسم ہے۔
قرآن کی روشنی میں :قرآن مجید میں خود ہللا ٰ
تعالی نے اپنے آپ کو معلم ہے۔
ترجمعہ؛
ہللا جو نہایت مہربان ہے اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔ (سورہ رحمٰ ن)
ترجمعہ؛ وہی ہے جس نے قلم کے زریعے سے علم سکھایا؛
ترجمعہ؛ پیغمبر تمہیں تعلیم دیتے ہیں کتاب و حکمت کی اور تمہیں وہ سب کچھ سکھاتے ہیں جو
تم نہیں جانتے تھے؛
فضل تم پر ترجمعہ؛ اور ہللا نے وہ سب کچھ تمہیں سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے اور ہللا کا
بہت بڑا ہے ۔
حدیث کی روشنی میں
ارشاد نبوی :صحابہ کرام نے جو کچھ رسول سے سیکھا اسے بے کم و کاست دیانتداری سے
اگلی نسل کے حوالے کردیا اور یوں قدم بہ قدم یہ امانت تم تک پہنچی وہ باقی اُمت کے استاد ہیں
اسی طرح پہلی ہر نسل آنے والی نسل کی استاد ہے۔
ارشاد نبوی :تیرے تین باپ ہیں ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں الیا دوسرا وہ جس نے
تجھے بیٹی دی تیسرا وہ جس نے تجھے علم کی دولت سے ماال مال کیا ؛
مجھے تو معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ارشاد نبوی:
حقوق و فرائض
استاد کے حقوق و فرائض درج ذیل ہیں۔
معلم کی منفرد حیثیت
استاد کی رہنمائی میں چلنا
اطاعت و خدمت گزاری
ادب و احترام :طالب علم کا فرض ہے کہ علم جہاں سے اور جس سے ملے اسے حاصل
کرے صرف مشہور اساتذہ سے پڑھنے کی خوا ہش کرنا ،علم تواضع اور محنت اور مشقت کے
بغیر نہیں آسکتا؛
ارشاد ربانی :بے شک جو شخص دل (آگاہ) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے اس
کے لیے اس میں نصیحت ہے؛
امام حضرت ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں ،میرے استاد حماد جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان
کی طرف کبھی پائوں نہ پھیالئے۔
استاد کی رہنمائی میں چلنا
جب تک طالب علم کی اپنی استعداد پختہ نہ ہو جائے او ر مطالعہ وسیع نہ ہوجائے اسے دینوی و
اخر وی علوم میں صرف استاد کی پر اعتماد کرنا الزم ہے تاکہ اس ذہن پریشان خیالی کا شکار نہ
ہوجائے۔
اطاعت و خدمت گزاری
استاد کا طلبہ پر حق ہے کہ وہ اس کے اطاعت گزار ہوں فرمانبرداری کے بغیر تعلیم کا عمل ممکن
نہیں۔
جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا میں اس کا غالم حضرت علی کا مشہور قول:
ہوں،
معلم کی منفرد و حیثیت
معلم کی منفرد حیثیت علم کی بارش کی سی ہوتی ہے اور طلبہ زمین کی جو زمین بارش کو جزب
کرنے کی صالحیت رکھتی ہے وہ بارش کے فیض سے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے اور پھر استاد
کا یہ حوصلہ ظرف دیکھیے کہ والدین کے عالوہ استاد ہی وہ ہستی ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو خود
سے آگے دیکھ کر حسد کی بجائے خوش ہو تا ہے۔
دُعائے خیر
استاد ایک ایسی ہستی ہے جس کے اپنے شاگردوں پر بے پناہ احسانات ہوتے ہیں وہ اچھی تعلیم و
تربیت کے زریعے انھیں حیوان سے انسان بناتا ہے۔
ارشاد نبوی :جو شخص تم پر احسان کرے ،تم اس کا صلہ دو ورنہ کم از کم اپنے محسن کے
لیے د ُعائے خیر ضرور کرو؛
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(شاگرد کے حقوق)
شاگرد کے حقوق درج زیل ہیں۔
شفقت و دلسوزی
حکمت تعلیم
شفقت و دلسوزی
میں تو تمہارے لیے اس طرح ہوں جیسے باپ اپنی اوالد کے لیے ہوتا ہے۔
رزائل اخالق سے کیا ُمراد ہے؟
جس طرح اخالق حسنہ کی ایک طویل فہرست ہے ایسے ہی اخالق رزیلہ ہیں یعنی بُرے اخالق
انسان کو انسانی عظمت و ژرافت سے گرا کر حیوانی درجے میں لے جاتے ہیں۔
پانچ رزائل اخالق درج زیل ہیں۔ رزائل:
' جھوٹ
' غیبت
' منافقت
'تکبر
'حسد
جھوٹ :کوئی ایسا فعل ،قول یا عمل جو امر واقعہ یا حقیقت کے خالف ہو جھوٹ تعلق صرف
ذبان سے نہیں بلکہ بہت سے دیگر نا پسندیدہ اعمال بھی جھوٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔
مثال :مال ہتھیا لینا ،کم تولنا ،غرور کرنا ۔
قرآن میں جھوٹ کی مزمت
ہللا جھوٹ بولنے والوں کو نا پسند کرتا ہے اور ان پر لعنت بھیجتا ہے۔
بے شک ہللا جھوٹ بولنے والوں اور کفر کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا، ترجمعہ:
ان کے لیے درد ناک عزاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ترجمعہ :اور