Professional Documents
Culture Documents
Student Name: Muhammad Asif Student ID: 0000604209 Course: Introduction of Quran (1951) Assignment No.2
Student Name: Muhammad Asif Student ID: 0000604209 Course: Introduction of Quran (1951) Assignment No.2
Assignment No.2
کت ئ ئ ؒی ت غ ن
ے ر مہارت ں م لوم ع سے کون کون وہ کہ ے
ی ا ت ب اور ےی کرا عارف کا د ع رسول الم المہ ع ۔1 ر م سوال
ھ ی سی خ تت ب ت ن ع تف
( )20 ے۔ ے ی ز لم سی ر می ں ان کی دما حری ر یکج یھ
قرآن مجید کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا ،جب کہ معاشرہ کے اندر بہت س ی خرابی اں جنم
لےچکی تھیں اور بڑی ح د ت ک اس میں پختگی بھی آگ ئی تھی ،جن کی اص الح
بہت ضروری تھی ،قرآن پاک جن اہم اصالحی ہدایات ومضامین پر مش تمل ہے،
انہیں ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
()۱تکمیل شریعت
()۲نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا
()۵تکمیل انسانیت
()۷ہللا تع الٰی کے ازلی ارادہ کی تکمی ل:جس میں انس انوں کے ل یے رہنم ائی موج ود ہ و
(اسالمی انسائیکلوپیڈیا )۱۲۳۹:اسی کے س اتھ مس لمانوں ک و یہ حکم ہے کہ اگ ر
جھگڑا ہوجائے ی اکوئی اور مع املہ درپیش ہوت و س ب س ے پہلے ق رآن پ اک کی
طرف رجوع کیا کرو اور ایسا ہون ا بھی چ اہیے؛ کی ونکہ وہ خ دا ک ا ن ازل ک ردہ
دس توِر حیات ہے ،جس س ے کس ی ح ال میں ص رِف نظ ر نہیں کی ا جاس کتا ہے؛
چنانچہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے:
"َفِإْن َتَناَز ْع ُتْم ِفي َش ْي ٍء َفُر ُّد وُه ِإَلى ِهَّللا َو الَّرُسوِل ِإْن ُكْنُتْم ُتْؤ ِم ُنوَن ِباِهَّلل َو اْلَيْو ِم اآْل ِخ ِر "۔
(النساء)۵۹:
مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب ہللا کی کتنی ضرورت ہے اور اس
کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے ،اس س ے
صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کسی بھی معاملہ میں کتاب ہللا کی طرف
رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی ط رف؛ چن انچہ عالمہ ش ہر س تانی
(مت وفی۵۴۸:ھ) فرم اتے ہیں کہ اس ب ات پ ر س ب ک ا اجم اع ہے کہ جب ک وئی
شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حالل س ے متعل ق ہ و ی احرام س ے اور اس میں
اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک س ے اس کی ابت داء ک رنی
چاہیے؛ پس اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری ط رف دیکھ نے
کی ضرورت نہیں ہے۔
(الملل والنحل)۱/۱۳۶:
حضرت عمرفاروؓق نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس میں یہ م ذکور ہے کہ جب
تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب ہللا کے مطابق فیصلہ ک رو اگ راس مع املہ
کا فیصلہ کتاب ہللا میں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔
حض رت ابن مس عوؓد ک ا فرم ان ہے":تم میں س ے کس ی کے س امنے ک وئی مق دمہ درپیش
ہوتووہ اس کا کتاب ہللا کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کت اب ہللا میں نہ
ملے تو وہ رسول اکرمﷺکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔
حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ سے جب ک وئی ب ات دری افت کی ج اتی تھی ت و آپ
اس کا جواب کتاب ہللا کے مطابق دیتے تھے ،ان واقع ات س ے یہ ث ابت ہوت ا ہے
کہ ہللا کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور
عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موض وع ہے ،ذی ل میں ہم
صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پ اک ای ک دس توِر حی ات ہے اور فقہی
احکامات کی تعیین میں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔
مضامین قرآن
قرآِن پاک میں ہللا تعالٰی نے خصوصیت کے ساتھ درِج ذیل مضامین کو بیان کی ا ہے اور وہ
یہ ہیں:
()۲عبادات کے مباحث
(اسالمی انسائیکلوپیڈیا)۱۲۳۹:
حکیم االسالم شاہ ولی ہللا محدث دہلوؒی نے مضامین قرآنی کی بہت ہی جامع تقس یم کی ہے،
جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے:
()۱علم االحکام یعنی عبادات ،معامالت اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زن دگی کے
متعلق احکام وہدایات۔
()۲علم المخاصمہ یعنی یہود ونصارٰی ،مش رکین ومن افقین اور م ذاہب ب اطلہ کی تردی د اور
اسالم کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات۔
()۳علم الت ذکیر بای ات ہللا یع نی ہللا کی نعمت وں ،ق درتوں اور اس کے نوازش ات وانعام ات،
نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات۔
()۴علم التذکیر بالموت ،یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت ،حس اب کت اب اور نی ک اور
ُبرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔
()۵علم التذکیر بایام ہللا ،یع نی وہ آی ات ج و س ابقہ امت وں کی معاش رتی ومع امالتی ح االت،
انبیاؑء کی تعلیم س ے اعراض وسرکش ی پرعذاب خداون دی وغ یرہ ،یہ س ب امت
محمدیہﷺ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔
(الفوزالکبیر)۲:
حجیت قرآن
قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں قیامت ت ک دین کی اس اس کی حی ثیت رکھت ا
ہے اور وہ ہللا کی مض بوط رس ی ہے ،جس ک ا ہمیں ہللا نے مض بوطی س ے
تھامنےکا حکم دیا؛ چنانچہ ارشاِد باری ہے:
"َو اْعَتِص ُم وا ِبَح ْبِل ِهَّللا َجِم يًعا َو اَل َتَفَّر ُقوا"۔
(آل عمران)۱۰۳:
ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو ہللا تعالٰی کے سلسلہ کو اس ط ور پ ر کہ (تم س ب) ب اہم متف ق
بھی رہو۔
"َتَر ْك ُت ِفيُك ْم َأْمَر ْيِن َلْن َتِض ُّلوا َم ا َتَم َّس ْك ُتْم ِبِهَم ا ِكَتاَب ِهَّللا َو ُس َّنَة َر ُسْو ِلِہ"۔
(مشکٰو ۃ)۳۱:
مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وش ریعت کی اص ل اس اس
ہے اور یہی تمام ادلہ میں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے ،ق رن اّو ل س ے
ہی اس سے احکاِم شرعیہ کا اس تخراج ماخ ذ اّو ل کی حی ثیت س ے کی ا جات ا ہے،
آپﷺ نے حضرت معاؓذ کو جب یمن کی جانب قاض ی بن اکر بھیج ا تھ ا ت و
ُاس وقت آپﷺ نے ُان س ے پوچھ ا تھ ا ،اے مع اؓذ جب تمھیں ک وئی مس ئلہ
درپیش ہوتو کس چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاؓذ نے جوابًا عرض کیا:کتاب ہللا
سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن میں نہ مل سکا ت و؟ آؓپ
نے فرمایا احادیث سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھ ا اگ ر ُاس میں بھی نہ ملے ت و؟
آؓپ نے عرض کیا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مس ئلہ ک ا ح ل نک ال لونگ ا
اورساتھ ہی فرمایا"وال الو" حق کی تالش میں الپرواہی اختیار نہ کرونگا۔
(ابوداؤد)۲/۵۰۵:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے،
ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہ وا کہ ق رآن کے س اتھ ح دیث بھی ض روری ہے جس کی
وجہ س ے آپﷺ نے مع اؓذ کے م زاِج دین س ے واقفیت اور ش ریعت س ے
مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر بج االتے
ہوئے فرمایا:
"اْلَحْم ُد ِهَّلِل اَّلِذ ي َو َّفَق َر ُسوَل َر ُسوِل ِهَّللا ِلَم ا َيْر ٰض ی َر ُسوؑل ِهَّللا"۔
زمانۂ رسالت کے بعد بھی دوِر خالفت اور عام صحابہ کرام (رضوان ہللا علیہم اجمعین) اور
فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج میں کتاب ہللا کو مقدم رکھتے
تھے؛ پھرسنِت رسول ہللا کو ،اس لیے پ وری امت ک ا اس ب ات پ ر اجم اع ہے کہ
مسائل کے استخراج میں اولیت کتاب ہللا کو حاص ل ہے؛ پھرس نِت رس ول ہللا ک و
ہے۔
شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کت اب ہللا قطعی حجت ہے ،جس ک و مض بوطی س ے
تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔
قرآن میں جہاں اصالح ،عقیدہ ،عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ،وہیں فقہی احکام سے متعل ق
بے شمار آیات ہیں ،کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیا گیا ہے:
(البقرۃ)۴۳:
ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکٰو ۃ کو۔
یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیان کیا گیا؛ مگرشرعًا یہ دون وں احک ام ف رض کے
قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لف ظ (کتب) س ے فرض یت ث ابت کی ج اتی
ہے جیسے:
(البقرۃ)۱۷۸:
(البقرۃ)۲۲۸:
اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گ ذارنے ک ا حکم دی ا گی ا ہے ،ج وواجب ہے اور
کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہ ونے کی وعی د س ناکر حکم دی ا جات ا ہے،
جیسے:
"َو َم ْن َيْقُتْل ُم ْؤ ِم ًنا ُم َتَع ِّم ًدا َفَج َز اُؤ ُه َجَهَّنُم "۔
(النساء)۹۳:
ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہ اتھ
(گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔
کبھی توصراحتًا ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے ،جیسے:
"َو اَل َتْقُتُلوا الَّنْفَس اَّلِتي َح َّر َم ُهَّللا ِإاَّل ِباْلَح ِّق"۔
(االنعام)۱۵۱:
کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں س ے بھی احک ام بی ان ک ئے گ ئے ہیں جس
سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہ ونے کے س اتھ س اتھ یہ بھی معل وم ہوجات ا
ہے کہ بعض احکام میں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض میں واجب ک ا ،بعض میں
سنن ومستحبات کا ،بعض میں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کی ا گی ا اس میں
بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یامحض خالِف اولٰی کا
۔
ن ن غ خ ی
بخ ن فق ن
ے ی ز زوہ دق می ں
سورۃ االحزاب شکے دوسرے فرکوع می ں م ا ی ن کی کون سی لی کا ذکر کی ا گی ا ہ سوال مب ر 2۔ ف
ب م ق
ے۔ من ا ی ن کی ساز وں و کردار پر صل حث یکج ی
اے نبی هللا سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ م ان بے ش ک هللا ج اننے واال حکمت
واال ہے ( )۱اور اس کی تابعداری کر جو تیرے رب کی طرف سے تیری ط رف
بھیج ا گی ا ہے بے ش ک هللا تمہ ارے ک اموں س ے خ بردار ہے ( )۲اور هللا پ ر
بھروسہ کر اور هللا ہی کارساز کافی ہے ( )۳هللا نے کسی ش خص کے س ینہ میں
دو دل نہیں بنائے اور نہ هللا نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم ظہار کرتے ہ و
تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹ وں ک و تمہ ارا بیٹ ا بنای ا ہے یہ
تمہارے منہ کی بات ہے اور هللا سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راس تہ بتات ا ہے (
)۴انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام س ے پک ارو هللا کے ہ اں یہی پ ورا انص اف
ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں
اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل
کے ارادہ س ے ک رو اور هللا بخش نے واال مہرب ان ہے ( )۵ن بی مس لمانو ں کے
معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حق دار ہے اور اس کی بیوی اں ان کی
مائیں ہیں اور رشتہ دار هللا کی کتاب میں ایک دوسرے سے زی ادہ تعل ق رکھ تے
ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں س ے
کچھ سلوک کرنا چ اہو یہ ب ات ل وح محف وظ میں لکھی ہ وئی ہے ( )۶اور جب ہم
نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موس ٰی اور م ریم کے
بیٹے عیسٰی سے بھی اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا ( )۷تاکہ س چوں س ے ان
کے سچ کا حال دریافت کرے اور کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کی ا ہے (
)۸اے ایمان والو! هللا کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر ک ئی لش کر
چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لش کر بھیجے جنہیں تم نے
نہیں دیکھا اورجو کچھ تم کر رہے تھے هللا دیکھ رہا تھ ا ( )۹جب وہ ل وگ تم پ ر
تمہارے اوپر کی طرف اورنیچے کی طرف سے چڑھ آئے اورجب آنکھیں پتھ را
گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اورتم هللا کے ساتھ ط رح ط رح کے
گمان کر رہے تھے ( )۱۰اس موقع پر ایماندار آزمائے گ ئے اور س خت ہال دیے
گئے ( )۱۱اورجب کہ من افق اورجن کے دل وں میں ش ک تھ ا کہ نے لگے کہ هللا
اور اس کے رس ول نے ج و ہم س ے وعدہ کی ا تھ ا ص رف دھوک ا ہی تھ ا ( )۱۲
اورجب کہ ان میں سے ایک جم اعت کہ نے لگی اے م دینہ وال و! تمہ ارے ل یے
ٹھیرنے کا موقع نہیں سو لوٹ چلو اور ان میں سے کچھ لوگ نبی س ے رخص ت
م انگنے لگے کہ نے لگے کہ ہم ارے گھ ر اکیلے ہیں اور ح االنکہ وہ اکیلے نہ
تھے وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے ( )۱۳اور اگر کس ی ط رف س ے ک وئی ان پ ر
ُگ ھس آتا پھر ان سے فساد کی درخواست کی جاتی تو فساد پر آمادہ ہو ج اتے اور
دی ر نہ ک رتے مگ ر بہت ہی کم ( )۱۴ح االنکہ اس س ے پہلے هللا س ے عہ د ک ر
چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور هللا سے عہد کرنے کی ب از پ رس ہ وگی (
)۱۵کہہ دو اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگ ا اور
اس وقت سوائے تھوڑے دنوں کے نفع نہیں اٹھاؤ گے ( )۱۶کہہ دو کون ہے ج و
تمہیں هللا سے بچا سکے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کرنا چاہے یا تم پ ر مہرب انی
کرنا چاہے اور هللا کے سوا نہ کوئی اپنا حمایتی پائیں گے اور نہ کوئی م ددگار (
)۱۷تحقیق هللا تم میں سے روکنے والوں کو جانتاہے اور جو اپنے بھ ائیوں س ے
کہتے ہیں کہ ہمارے پ اس آج اؤ اورل ڑائی میں بہت ہی کم آتے ہیں ( )۱۸تم س ے
ہمدردی کرتے ہوئے پھر جب ڈر کا وقت آجائے تو ُتو انھیں دیکھے گ ا کہ ت یری
طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوش ی
آئے پھر جب ڈر جاتا رہے ت و تمہیں ت یز زب انوں س ے طعنہ دی تے ہیں م ال کے
اللچی ہیں یہ لوگ ایمان نہیں الئے تو هللا نے ان کے تمام اعم ال ض ائع ک ر دیے
اور یہ بات هللا پر بالکل آسان ہے ( )۱۹خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گ ئیں اور
اگ ر ف وجیں آج ائیں ت و آرزوک ریں کہ ک اش ہم ب اہر گ اؤں میں ج ا رہیں تمہ اری
خ بریں پوچھ ا ک ریں اور اگ ر تم میں بھی رہیں ت و بہت ہی کم ل ڑیں ( )۲۰البتہ
تمہارے لیے رسول هللا میں اچھا نمونہ ہے جو هللا اور قیامت کی امی د رکھت ا ہے
اور هللا کو بہت یاد کرتا ہے ( )۲۱اور جب مومنوں نے فوجوں کو دیکھ ا ت و کہ ا
یہ وہ ہے جس کا ہم سے هللا اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھ ا اور هللا اور اس
کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں ترقی
ہو گئی ( )۲۲ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہ وں نے هللا س ے ج و
عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پ ورا ک ر چکے
اور بعض منتظر ہیں اور عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی ( )۲۳تاکہ هللا سچوں ک و
ان کے سچ کا بدلہ دے اور اگ ر چ اہے ت و من افقوں کوعذاب دے ی ا ان کی ت وبہ
قبول کرے بے شک هللا بخشنے واال مہربان ہے ( )۲۴اور هللا نے کافروں ک و ان
کے غصہ میں بھرا ہوا لوٹایا انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آی ا اور هللا نے مس لمانوں کی
لڑائی اپنے ذمہ لے لی اور هللا طاقت ور غ الب ہے ( )۲۵اور جن اہ ل کت اب نے
ان کی مدد ی تھی انہیں ان کے قلعوں سے نیچے ات ار دی ا اور ان کے دل وں میں
خوف ڈال دیا بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قی د ک ر لی ا ( )۲۶اور ان
کی زمین اوران کے گھروں اور ان کےمالوں کا تمہیں مالک بنا دیا اور زمین ک ا
جس پر تم نے کبھی قدم نہیں رکھا تھا اور هللا ہر چیز پر ق ادر ہے ( )۲۷اے ن بی
اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش منظ ور ہے
تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دال کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں ( )۲۸اور اگر
تم هللا اور اس کے رسول اور آخ رت ک و چ اہتی ہ و ت و هللا نے تم میں س ے نی ک
بختوں کے لیے بڑا اج ر تی ار کی ا ہے ( )۲۹اے ن بی کی بیوی و تم میں س ے ج و
کوئی کھلی ہوئی بدکاری کرے تو اس ے دگن ا عذاب دی ا ج ائے گ ا اور یہ هللا پ ر
آسان ہے ( )۳۰اور جو تم میں سے هللا اور اس کےرسول کی فرمانبرداری کرے
گی اور نیک ک ام ک رے گی ت و ہم اس ے اس ک ا دہرااج ر دیں گے اور ہم نے اس
کے لیے عزت کا رزق بھی تیار کر رکھا ہے ( )۳۱اے نبی کی بیویو تم معم ولی
عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم هللا سے ڈرتی ر ہو اور دبی زب ان س ے ب ات نہ
کہو کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور ب ات معق ول کہ و (
)۳۲اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہ و اور گزش تہ زم انہ ج اہلیت کی ط رح بن اؤ
سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور هللا اور اس کے رس ول
کی فرمانبرداری کرو هللا یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر وال و تم س ے ناپ اکی دور
کرے اور تمہیں خوب پاک کرے ( )۳۳اور تمہارے گھروں میں جو هللا کی آی تیں
اور حکمت کی باتیں پڑھی جاتیں ہیں انہیں ی اد رکھ و بیش ک هللا رازدان خ بردار
ہے ( )۳۴بیش ک هللا نے مس لمان م ردوں اور مس لمان عورت وں اور ایم ان دار
مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبردار مردوں اور فرم انبردارعورتوں اور
سچے مردوں اور سچی عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر ک رنے
والی عورتوں اور عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں
اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات ک رنے والی عورت وں اور روزہ دار
مردوں اور روزدار عورتوں اور پاک دامن م ردوں اور پ اک دامن عورت وں اور
هللا کو بہت یاد کرنے والے م ردوں اور بہت ی اد ک رنے والی عورت وں کے ل یے
بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے ( )۳۵اور کسی مومن مرد اور مومن عورت ک و
الئق نہیں کہ جب هللا اور اس کا رسول کسی کام ک ا حکم دے ت و انہیں اپ نے ک ام
میں اختیار باقی رہے اور جس نے هللا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ
ص ریح گم راہ ہ وا ( )۳۶اور جب ت و نے اس ش خص س ے کہ ا جس پ ر هللا نے
احسان کیا اور تو نے احسان کیا اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ هللا س ے ڈر اور ت و
اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے هللا ظ اہر ک رنے واال تھ ا اور ت و لوگ وں
سے ڈرتا تھا حاالنکہ هللا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس س ے ڈرے پھ ر جب زی د
اس س ے ح اجت پ وری ک ر چک ا ت و ہم نے تجھ س ے اس ک ا نک اح ک ر دی ا ت اکہ
مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں ک وئی گن اہ نہ ہ و
جب کہ وہ ان سے ح اجت پ وری ک ر لیں اور هللا ک ا حکم ہ وکر رہ نے واال ہے (
)۳۷نبی پر اس بات میں کوئی گن اہ نہیں ہے ج و هللا نے اس اس کے ل یے مق رر
کر دی ہے جیسا کہ هللا کا پہلے لوگو ں میں دستور تھا اور هللا کا کام ان دازے پ ر
مقرر کیا ہوا ہے ( )۳۸ج و ل وگ هللا ک ا پیغ ام پہنچ اتے رہے اور هللا س ے ڈرتے
رہے اورهللا کےسوا اور کسی سے نہ ڈرتھےاور هللا حساب لینے واال کافی ہے (
)۳۹محمد تم میں سے کسی مرد کے ب اپ نہیں لیکن وہ هللا کے رس ول اور س ب
نبیوں کے خاتمے پر ہیں اور هللا ہ ر ب ات جانت ا ہے ( )۴۰اے ایم ان وال و هللا ک و
بہت یاد کرو ( )۴۱اور اس کی صبح و شام پاکی بیان ک رو ( )۴۲وہی ہے ج و تم
پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے روش نی
کی طرف نکالے اور وہ ایمان والوں پر نہایت رحم واال ہے ( )۴۳جس دن وہ اس
سے ملیں گے ان کے لیے سالم کا تحفہ ہوگا اور ان کے لیے عزت کا اج ر تی ار
کر رکھا ہے ( )۴۴اے نبی ہم نے آپ کو بالشبہ گواہی دینے واال اور خوش خبری
دینے واال اور ڈرانے واال بنا کر بھیجا ہے ( )۴۵اور هللا کی ط رف اس کے حکم
سے بالنے اور چراغ روشن بنایا ہے ( )۴۶اور ایمان وال وں ک و خوش خبری دے
اس بات کی کہ ان کے لیے هللا کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے ( )۴۷اور کف ار
اور منافقین کا کہنا نہ مانیے اور ان کی ای ذا رس انی کی پ رواہ نہ کیج یے اور هللا
پر بھروسہ کیجیئے اور هللا کارساز کافی ہے ( )۴۸اے ایم ان وال و جب تم م ومن
عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طالق دے دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھ وو
تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے کہ تم ان کی گن تی پ وری ک رنے لگ و
سو انہیں کچھ فائدہ دو اور انہیں اچھی طرح سے رخص ت ک ر دو ( )۴۹اے ن بی
ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حالل کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں
اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں ج و هللا نے آپ ک و غ نیمت میں دل وادی
ہیں اور آپ کے چچ ا کی بیٹی اں اور آپ کی پھوپھی وں کی بیٹی اں اور آپ کے
ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خاالؤں کی بیٹیاں جنہ وں نے آپ کے س اتھ ہج رت
کی اور اس مسلمان عورت ک و بھی ج و بالعوض اپ نے کوپیغم بر ک و دے دے
بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں النا چ اہے یہ خ الص آپ کے ل یے ہے نہ اور
مسلمانوں کے لیے ہمیں معلوم ہے ج و کچھ ہم نے مس لمانو ں پ ر ان کی بیوی وں
اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے ت اکہ آپ پ ر ک وئی ِد قت نہ رہے اور هللا
معاف کرنے واال مہربان ہے ( )۵۰آپ ان میں سے جسے چ اہیں چھ وڑ دیں اور
جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور ان میں سے جسے آپ چ اہیں جنہیں آپ نے
علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس سے زیادہ ق ریب ہے کہ ان کی
آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہ و اور ان س ب ک و ج و آپ دیں اس پ ر راض ی
ہوں اور جو کچھ تمہارے دل وں میں ہے هللا جانت ا ہے اورهللا ج اننے واال بردب ار
ہے ( )۵۱اس کے بع د آپ کے ل یے عورتیں حالل نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان
سےاورعورتیں تبدیل کریں اگر چہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر ج و آپ کی
مملوکہ ہوں اور هللا ہ ر ای ک چ یز پ ر نگ ران ہے ( )۵۲اے ایم ان وال و ن بی کے
گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کےلئے اجازت دی ج ائے
نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بالیا ج ائے تب داخ ل ہ و
پھر جب تم کھا چک و ت و اٹھ ک ر چلے ج اؤ اور ب اتوں کے ل یے جم ک ر نہ بیٹھ و
کیوں کہ اس سے نبی ک و تکلی ف پہنچ تی ہے اور وہ تم س ے ش رم کرت ا ہے اور
حق بات کہنے سے هللا شرم نہیں کرتا اور جب نبی کی بیوی وں س ے ک وئی چ یز
مانگو تو پردہ کے ب اہر س ے مانگ ا ک رو اس میں تمہ ارے اوران کے دل وں کے
لیے بہت پاکیزگی ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول هللا کو ایذا دو اور
نہ یہ کہ تم اپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح ک رو بے ش ک یہ هللا
کےنزدیک بڑا گناہ ہے ( )۵۳اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا اس ے چھپ اؤ ت و بے
شک هللا ہر چیز کو جاننے واال ہے ( )۵۴ان پ ر اپ نے ب اپوں کے س امنے ہ ونے
میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپ نے
بھ تیجوں کے اورنہ اپ نے بھ انجوں کے اور نہ اپ نی عورت وں کے اور نہ اپ نے
غالموں کے اور هللا سے ڈرتی رہو بے ش ک ہ ر چ یز هللا کے س امنے ہے ()۵۵
بے شک هللا اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان وال و تم بھی
اسپر دورد اور سالم بھیجو ( )۵۶جو لوگ هللا اور اس کے رس ول ک و ای ذا دی تے
ہیں ان پر هللا نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب
تیار کیا ہے ( )۵۷اور جو ایمان دار مردوں اور عورت وں ک و ن اکردہ گن اہوں پ ر
ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہت ان اور ص ریح گن اہ لی تے ہیں ( )۵۸اے ن بی اپ نی
بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورت وں س ے کہہ دو کہ اپ نے مونہ وں پ ر
نقاب ڈاال کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ س تائی ج ائیں
اور هللا بخش نے واال نہ ایت رحم واال ہے ( )۵۹اگ ر من افق اور وہ جن کے دل وں
میں م رض ہے اور م دینہ میں غل ط خ بریں اڑانے والے ب از نہ آئیں گے ت و آپ
کوہم ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ اس شہر میں تیرے پاس نہ ٹھیریں گے (
)۶۰مگر بہت کم لعنت کیے گئے ہیں جہاں کہیں پائیں ج ائیں گے پک ڑے ج ائیں
گے اور قتل کیے جائیں گے ( )۶۱یہی هللا ک ا ق انون ہے ان لوگ و ں میں ج و اس
س ے پہلے ہ و گ زر چکے ہیں اور آپ هللا کے ق انون میں ک وئی تب دیلی ہرگ ز نہ
پائیں گے ( )۶۲آپ سے لوگ قی امت کے متعل ق پوچھ تے ہیں کہہ دو اس ک ا علم
تو صرف هللا ہی کو ہے اور اپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو ( )۶۳بے
شک هللا نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دوزخ تیار ک ر رکھ ا ہے (
) ۶۴وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار (
)۶۵جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے ج ائیں گے کہیں گے اے ک اش ہم نے
هللا اور رسول کا کہ ا مان ا ہوت ا ( )۶۶اور کہیں گے اے ہم ارے رب ہم نے اپ نے
سرداروں اوربڑوں کا کہا مان ا س و انہ وں نے ہمیں گم راہ کی ا ( )۶۷اے ہم ارے
رب انہیں دگن ا عذاب دے اور ان پ ر ب ڑی لعنت ک ر ( )۶۸اے ایم ان وال و تم ان
لوگو ں جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسٰی کو ستایا پھر هللا نے موس ٰی ک و ان کی
باتوں سے بری کر دیا اور وہ هللا کے نزدیک بڑی عزت واال تھا ( )۶۹اے ایم ان
والو هللا سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو ( )۷۰تاکہ وہ تمہارے اعمال کو درست
کرے اور تمہارے گناہ معاف کر دے اور جس نے هللا اور اس کے رسول کا کہنا
مان ا س و اس نے ب ڑی کامی ابی حاص ل کی ( )۷۱ہم نے آس مانوں اور زمین اور
پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اسکے اٹھ انے س ے انک ار ک ر
دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھ ا لی ا بے ش ک وہ ب ڑا ظ الم ب ڑا
ن ادان تھ ا ( )۷۲ت اکہ هللا من افق م ردوں اور من افق عورت وں اورمش رک م ردوں
اورمش رک عورت وں ک و عذاب دے اور م ومن م ردوں اورم ومن عورت وں پ ر
مہربانی کرے اور هللا معاف کرنے واال مہربان ہے ()۷۳۔
خت ن
م خ ش ف سوال مب ر 3۔
ن ت ن ق ن غ ن
ے ی زت رآن و حدی ث کی رو ی می ں م بوت کی اہ میت ب ی ان بوت کا لوی و اصطالحی م ہوم ب ی ان یکج ی
ب ص ن خ ف ت ئ
ے۔( )20 ک ص
کرے ہ وے رسول ہللا ﷺ کی ت ا م اال ب ی ا ءپر سی ر حا ل حث یج ی
امام االنبیاء ،سّیدالمرسلین ،سرور کائنات ،پیغمبر ٓاخر واعظم،حض رت محم د ﷺانس ان
کامل ،انبیاؑء اور رسولوں کے امام اور ہللا تع الٰی کے ٓاخ ری پیغم بر ہیں ج و دنی ا
میں ہللا تع الٰی ک ا ٓاخ ری پیغ ام لے ک ر ٓائے اور ب نی ن وع انس ان کی رہنم ائی
ٓاپﷺ کا منصب ٹھہرا ،نہ صرف یہ ،بلکہ ٓاپﷺ کو تم ام جہ انوں کے
لیے رحمت بن ا ک ر بھیج ا گی ا اور ہللا تع الٰی نے ٓاپﷺ ک ا ذک ر بلن د کردی ا۔
ارشاد باری تع الٰی ہے’’ :کی ا ہم نے ٓاپﷺ ک ا س ینہ نہیں کھ ول دی ا اور ٓاپ
ﷺسے ٓاپﷺ کا بوجھ ہم نے اتار دیا جس نے ٓاپﷺ کی پیٹھ
بوجھل کر دی تھی اور ہم نے ٓاپﷺ کا ذکر بلند کر دیا۔‘‘(سورۃ االنشراح)
کّر ٔہ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا ،جب ہزاروں الکھوں مٔوذن ہللا کی توحید اور
حضوراکرمﷺ کی رس الت ک ا اعالن نہ ک ررہے ہ وں۔ٓاپ ﷺ ک و خ اتم
االنبیاء اور سّید المرسلین بنا ک ر مبع وث فرمای ا گی ا۔ ٓاپﷺ کے بع دنبوت و
رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہ و گی ا۔ ٓاپﷺ ہللا کے ٓاخ ری ن بی اور
قیامت تک پوری انسانیت کے ہادی و رہبر ہیں۔ ٓاپﷺ کو دیِن کامل عطا کیا
گیا۔ اب دیِن اسالم ہمیشہ کے لیے مکمل ہ و گی ا۔ یہ ای ک کام ل و مکم ل ض ابطٔہ
حیات اور قرٓان بنی نوع انسان کے لیے دائمی صحیفٔہ ہدایت ہے ،جس میں کس ی
ترمیم اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔
رسوِل اکرم ﷺ کی پیغم برانہ خصوص یات میں س ب س ے اہم اور نمای اں خصوص یت
ٓاپﷺ کا امام االنبیاء ،سّید المرس لین اور خ اتم النب یین ہون ا ہےٓ ،اپﷺ
کی دعوتٓ ،اپﷺ کی شریعتٓ ،اپﷺ کا پیغام اور دیِن اسالم ٓافاقی اور
عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ ٓاپﷺ بنی نوع ٓادم اور پورے عالم انس و جن
کے ل یے دائمی نم ونٔہ عم ل اور ٓاخ ری ن بی بن ا ک ر مبع وث فرم ائے گ ئے۔
ٓاپﷺ پر دیِن مبین کی تکمی ل ک ر دی گ ئی۔ پ وری انس انیت ٓاپﷺ کی
اّم ت اور ٓاپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے ہادی و رہبر اور بش یر و
نذیر بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔
اس ابدی حقیقت کی وضاحت مندرجہ ذیل ٓایاِت قرٓانی میں بہ تمام و کمال کر دی گئی۔ ارشاِد
رّب انی ہے ’’:اور ہم نے ٓاپﷺ ک و تم ام انس انوں کے ل یے خ وش خ بری
سنانے واال اور ٓاگاہ کرنے واال بنا کر بھیجا ہے۔ (ُسورٔہ سبا)
ارشاِد رّبانی ہے’’:کہہ دیجیے ،اے لوگو ،میں تم سب لوگوں کی طرف ہللا کا پیغ ام دے ک ر
بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (سورۃ االعراف)ایک اور مقام پ ر ارش اد ہ وا’’ :ب رکت واال ہے
وہ (ہللا) جس نے ح ق و باط ل میں امتی از ک رنے والی کت اب اپ نے بن دے
(محمدﷺ) پر نازل کی ،تا کہ وہ دنیا جہ اں کے ل یے ہوش یار و ٓاگ اہ ک رنے
واال ہو۔‘‘ (سورۃ الفرقان)
ختِم نبوت کے حوالے سے رسوِل اکرم حضرت محمد ﷺ نے مختلف احادیث میں ی وں
بیان فرمایا ہے۔’’میں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام انسانوں کی ط رف
مبعوث کیا گیا ہوں۔ (مسنداحمد)
ایک موقع پر ٓاپﷺ نے ارش اد فرمای ا ’’:میں (عم ومیت کے س اتھ) تم ام انس انوں کی
طرف بھیجا گیا ہوں ،حاالں کہ مجھ سے پہلے جو نبی مبع وث ہ وئے ،وہ خ اص
اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔‘‘
رسول ہللا ﷺ کا ارشاِد گرامی حضرت جابر بن عبدؓہللا سے روایت ہے’’:پہلے ہر ن بی
خاص اپنی قوموں کی طرف مبعوث کیے جاتے تھے ،اور میں تمام انس انوں کے
لیے مبعوث ہوا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے انبی ائے ک راؑم تش ریف الئے ،ان کی بعثت و رس الت
کسی خاص عہ د ی ا کس ی خ اص ق وم کے ل یے تھی ،کس ی ن بی اور رس ول کے
مخاطب تمام انسان اور پوری دنیا کے لوگ نہیں تھے ،رس وِل اک رم ﷺ کی
بعثت اور تکمیِل دین سے قب ل ن ازل ش دہ ٓاس مانی کتب بھی مخص وص عہ د کے
ل یے تھیں۔ ت اہم رس وِل اک رم ﷺ کی بعثت کے بع د سلس لٔہ نب وت و رس الت
ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ پر تمام اوصاِف کمال کے ساتھ ختم ک ر دی ا
گیا۔
اب ہدایت و راہ نمائی کا ابدی سرچشمہ قرٓاِن کریم ہللا کی ن ازل ک ردہ ٓاخ ری کت اب ،رس وِل
اکرم ﷺ ٓاخری نبی اور ٓاپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات ،شریعِت محمدؐی
قیامت تک انس انیت کی ہ دایت و راہ نم ائی کی ض امن ،دین و دنی ا میں فالح اور
ٓاخرت میں نجات کی یقینی ضمانت ہیں۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گ ئی کہ حض رت
محمد ﷺ کو ہللا تع الٰی نے ٓاخ ری ن بی بن ا ک ر پ وری انس انیت کی ہ دایت و
رہ بری کے ل یے دنی ا میں بھیج ا۔ ٓاپﷺ کے بع د نہ ک وئی ن بی ٓائے گ ا ،نہ
کوئی نیا دین ٓائے گا ،نہ کوئی ش ریعت ٓائے گی ،نہ وحی ن ازل ہ و گی اور نہ ہللا
کا پیغام نازل ہوگا۔
’’ختِم نبوت‘‘اسالم ک ا بنی ادی عقی دہ ہے۔ ق رٓان و س ّنت ،تعام ِل ُاّم ت ،ص حابؓہ و ت ابعین اور
پوری ُاّم ت کا اس امر پر اجماع ہے کہ رسوِل اکرم ﷺ ک و ’’خ اتم الّنب یین‘‘
بناکر مبعوث فرمایا گیآ ،اپﷺ پر دین کی تکمیل ک ردی گ ئی۔ٓاپﷺ ہللا
کے ٓاخری نبی ،قرٓان ہدایت و راہ ُنمائی کا ٓاخری اور ابدی سرچش مہ اور یہ ُاّم ت
ٓاخری ُاّم ت ہے۔
قرٓان و سّنت میں اس حوالے سے بے ُش مار دالئل موجود ہیں۔ ُاّم ت کا اس امر پر اجماع ہے
کہ ’’عقیدٔہ ختِم نبوت‘‘ پر ایمان ایک ناُگ زیر اور الزمی دینی تقاضا ہے ،جس ک ا
منکر کافرُ ،م رتد اور دائرٔہ اسالم سے خ ارج ہے۔ ق رٓاِن ک ریم اور اح ادیِث نب وؐی
میں ختِم نب وت کے ح والے س ے بے ُش مار دالئ ل موج ود ہیں۔ چن اںچہ ’’ُس ورٔہ
اح زاب‘‘ میں پ وری وض احت اور ص راحت کے س اتھ یہ اعالن کی ا گی ا
کہ’’:محم دﷺ تمہ ارے م ردوں میں س ے کس ی کے ب اپ نہیں ،لیکن وہ ہللا
کے پیغمبر اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (سلسلٔہ نبوت و رسالت کو ختم ک رنے
والے ہیں)
قرٓان و سنت ،اجماِع اّم ت اور بنیادی اسالمی تعلیمات اس حقیقت پ ر گ واہ ہیں کہ عقی دٔہ ختم
دین کا بنی ادی ش عار ،رس التِ محم دیﷺ ک ا امتی از اور اس الم کے بنی ادی
عقائد میں سے ہے۔ جس پر ایم ان دین ک ا بنی ادی تقاض ا ہے۔اس عقی دے پرایم ان
کے بغیراسالم کا تصور بھی محال ہے۔
ن
سوال مب ر 4۔
ن ن ش
ے خ اص ہ ی ں۔ مث الی ں دی ں ی ز تعلما کرام ے آپ ری عت کے چک ھ احکام رسول ہللاﷺ کے لی
ن
ے اسے حری ر کی ج ی
ے۔ ()20 ہ کی ان بی کمت ح و ج کی ے ﷺ کا چ ار سے زی ادہ ش ادی اں کر
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسالم ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
’’چنانچہ تم ان عورتوں سے ش ادی ک رو ج و تمھیں اچھی لگیں دو دو ،تین تین ی ا چارچ ار
(عورتوں) سے ،لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے س اتھ) انص اف نہ
کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔‘‘ النساء 3/4 :
نزوِل قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیس یوں بیوی اں رکھ تے
تھے۔ اور بعض کی تو س ینکڑوں بیوی اں تھیں۔ لیکن اس الم نے بیوی وں کی تع داد
4تک محدود رکھی ہے۔ اسالم مرد ک و دو ،تین ی ا چ ار عورت وں س ے نک اح کی
اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔
اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ اس تثنا ہے۔ بہت س ے ل وگ یہ غل ط نظ ریہ
رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حّلت و حرمت کے اعتبار سے اسالمی احکام کی پانچ اقسام ہیں
٭ مستحب :اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
٭ مباح :یہ جائز ہے ،یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
٭ مکروہ :یہ اچھاکام نہیں ،اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
٭ حرام :اس سے منع کیا گیا ہے ،یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعِث
ثواب ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرن ا م ذکورہ احک ام کے درمی انے درجے میں ہے۔ اس کی اج ازت
ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو ،تین یا چار بیویاں ہیں،
ُاس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔
قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریبًا برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن ای ک بچی میں ای ک بچے
کی نسبت ق وِت م دافعت زی ادہ ہ وتی ہے۔ ای ک بچی بیم اریوں ک ا ای ک بچے کی
نسبت بہ تر مق ابلہ ک ر س کتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابت دائی عم ر میں لڑک وں کی
شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہالک ہ وتے ہیں۔ حادث ات اور ام راض
کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مرتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عم ر
بھی م ردوں کی نس بت زی ادہ ہے اور دنی ا میں رن ڈوے م ردوں کی نس بت بی وہ
عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریبًا 78الکھ زیادہ ہے۔ ص رف نیوی ارک
میں عورتیں مردوں سے 10الکھ زیادہ ہیں،نیز م ردوں کی ای ک تہ ائی تع داد ہم
جنس پرس ت ہے۔ مجم وعی ط ور پ ر ام ریکہ میں ہم جنس پرس توں کی تع داد
اڑھ ائی ک روڑ ہے۔ اس کاواض ح مطلب یہ ہے کہ ان لوگ وں ک و عورت وں س ے
شادی کی خواہش نہیں ،اسی طرح برطانیہ میں عورت وں کی تع داد م ردوں س ے
40الکھ زی ادہ ہے۔ جرم نی میں م ردوں کی نس بت عورتیں 50الکھ زی ادہ ہیں،
اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90الکھ زیادہ
ہیں۔فی الجملہ ہللا تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنی ا میں مجم وعی ط ور پ ر خ واتین کی تع داد
مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔
*ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابِل عمل ہے
اگر ایک مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین ک روڑ عورتیں
بے ش وہر رہیں گی (یہ ب ات پیِش نظ ر رہے کہ اڑھ ائی ک روڑ ام ریکی م رد ہم
جنس پرست ہیں۔) اسی طرح 40الکھ برطانیہ میں 50 ،الکھ جرمنی میں اور 90
الکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنھیں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیر ش ادی ش دہ خ واتین میں س ے ہے ی ا
فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے ص رف
دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی ش ادی ش دہ م رد س ے ش ادی ک رے ی ا پھ ر ’’پبل ک
پراپ رٹی‘‘ (اجتم اعی ملکیت) ب نے۔ اس کے عالوہ اورک وئی راس تہ نہیں۔ ج و
عورتیں نی ک ہیں وہ یقین اپہلی ص ورت ک و ت رجیح دیں گی۔ بہت س ی خ واتین
دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسالمی
معاشرے میں جب صورتحال گمبھیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحِب ایمان عورت
اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کر سکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت
نہیں کر سکتی کہ ُاس کی دوسری مسلمان بہنیں ’’پبلک پراپرٹی‘‘ یعنی اجتماعی
ملکیت بن کر رہیں۔
شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے س ے بہ تر ہے۔ مغ ربی معاش رے میں عام
طور پر ایک شادی شدہ م رد اپ نی بی وی کے عالوہ دوس ری عورت وں س ے بھی
جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زن دگی بس ر ک رتی
اور عدِم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد ک و جس
کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا ،ح االنکہ اس تع دِد ازواج کی
صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زن دگی بس ر
کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کے س امنے دو راس تے رہ ج اتے ہیں :ی ا ت و وہ
شادی شدہ مرد س ے ش ادی ک رے ی ا ’’اجتم اعی ملکیت‘‘ بن ج ائے۔ اس الم پہلی
صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام ِد الت ا ہے اور دوس ری ص ورت
کی قطًعااج ازت نہیں دیت ا۔ اس کے عالوہ اوربھی ک ئی اس باب ہیں جن کے پیش
نظر اسالم مرد کو ایک س ے زی ادہ ش ادیوں کی اج ازت دیت ا ہے۔ ان اس باب میں
اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ن اموس ہے جس کی حف اظت اس الم کے
نزدیک فرض اور الزم ہے۔
قرآن چونکہ خدا کی آخری الہامی کتاب ہے اور خاتم االنبیاء ﷺ پر نازل ہوئی ،اس
لئے اس میں میرے ہر اس سوال کا جواب موجود ہے جو گاہے بگا ہے دوسری زبانوں کی
کتب کے مطالعہ کے دوران میرے ذہن میں اٹھا کرتے اور اس کا کوئی کافی و شافی
جواب اس وقت میرے ذہن میں نہیں آتا تھا۔
میں چونکہ ملٹری ہسٹری کا بھی ایک اوسط درجیب کا طالب علم ہوں اور رسالت مآؐب کی
عمِر مبارکہ کے آخری دس برس کفار سے جنگ و جدل میں گزرے اور اس عشرے میں
جو غزوات اور سریات لڑے گئے ان کی کمنٹری اور ان کے بارے میں جو تشریحات قرآِن
حکیم کی بعض سورتوں میں بیان فرمائی گئی ہیں ،وہ میرے لئے از حد معلومات افزاء اور
مشعِل راہ تھیں۔ میں جب بھی جدید جنگوں کا مطالعہ کرتا اور ماڈرن سالِح جنگ کی ایجاد
و تشکیل اور ان کے اثرات و تاثیرات کو نبوؐی دور کے غزوات و سریات کے تناظر میں
دیکھتا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی کہ کاش کوئی خدا کا بندہ جناب مبارک صفی پوری
کی ”رحیق المختوم“ کی طرز کی اور تصنیفات بھی رقم کر دیتا! ایسی تصنیفات کی
ضرورت نہ صرف عربی ،فارسی اور اردو زبانوں میں تھی بلکہ انگریزی میں بھی تھی
(اور ہے)
اگلے روز دوراِِن مطالعہ ،میری نظر سورہ الحدید پر پڑی۔ یہ قرآن کریم کی 57ویں سورہ
ہے اور اس کی آیت نمبر25کا ترجمہ ہے” :ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں
اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر
قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں۔ یہ اس لئے کیا
گیا ہے کہ ہللا کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں
کی مدد کرتا ہے اور یقینًا ہللا بڑی قدرت واال اور زبردست ہے“۔
فیض ٓاباد دھرنا کیس ،سابق ڈی جی ٓائی ایس ٓائی فیض حمید کو طلب کرنے کی تیاریاں
اس آیت (نمبر )25کو میں نے زیِر لکیر کر رکھا تھا اور حاشیہ پر سوالیہ نشان بھی اب
تک موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس آیہء مبارکہ کی سمجھ نہیں آ سکی۔ اس
:اشکال کی کئی وجوہات تھیں۔ مثًال
۔ لوہا” ،اتارا“ (انزلنا) کیوں فرمایا گیا اور ”پیدا کیا“ (خلقنا) کیوں ارشاد نہیں فرمایا گیا؟1
۔ لوگوں کے لئے اس میں جو منافع بیان فرمائے گئے ہیں ،وہ کیا ہیں؟3
۔ ان منافعات کے نتیجے میں اور ان کے سبب ہللا کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض4
لوگ ایسے بھی ہیں جو ہللا کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے فرستادہ رسولوں کی مدد
کرتے ہیں؟
اس آیت کو جب اس سورہ کے زمانہ ء نزول کے تناظر میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو درج
باال سواالت کی تفہیم اور بھی ضروری ہو جاتی ہے (کم از کم میرے نزدیک……) موالنا
مودودی صاحب نے اس سورہ کا زمانہ ء نزول جنِگ احد اور صلِح حدیبیہ کے درمیان
متعین کیا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب اسالمی ریاست کو سخت مشکالت کا سامنا تھا اور پورے
عرب کی قوت ،اہل ایمان کا مقابلہ کر رہی تھی…… یہ زمانہ سن 4ہجری اور سن 5ہجری
کے درمیان کا زمانہ ہے۔
مودودی صاحب نے تین صفحات پر مشتمل اس سورہ کے دیباچے میں اس امر پر کوئی
روشنی نہیں ڈالی کہ اس کا نام ’الحدید‘ کیوں رکھا گیا اور نہ ہی اس دیباچے میں ’حدید‘
والے لفظ پر کوئی تبصرہ کیا ہے…… یہی بات میرے لئے باعِث حیرت اور وجہ استفسار
کرکے اس کے ساتھ ایک بڑا Under Lineتھی اور میں نے اسی لئے آیت نمبر25کو
سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ میں آج تک اس آیہ کے مفہوم کی جامعیت کا سراغ لگانے،
مسلمانوں کے ’حدید‘ سے بچھڑنے اور غیر مسلموں کے حدید سے عہِد وفا باندھنے کی
بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں۔
میرا پہال سوال یہ تھا کہ لوہا ’نازل‘ کیوں کیا گیا جبکہ اس کے لئے ’تخلیق‘ کیا گیا موزوں
تر لفظ تھا۔ بعض شارحین نے لوہے کو آسمان سے اتارے جانے کے موضوع سے منسلک
کیا ہے۔ چونکہ یہ ایک مشکل اور بسیط سائنسی نکتہ ہے اس لئے اسے اس مختصر سے
آرٹیکل میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مودودی صاحب نے ”َانزَل “ کا لفظ قرآن حکیم میں
ایک اور مقام پر بھی ”پیدا کرنے“ کے مفہوم میں بیان کرکے اس مشکل کا بڑی حد تک
……ازالہ کر دیا ہے۔(دیکھئے سورہ ”الزمر“ کی آیت نمبر)6
ایک اور بالی وڈ سٹار کے مجسمے مادام تساؤ میوزیم کی زینت بن گئے
میرا دوسرا سوال لوہے کے اندر چھپے زور اور قوت کے بارے میں تھا۔ یہی وہ زور ہے
جس کو مسلم امہ نے فراموش کر دیا اور غیروں نے اس کو اپنا لیا…… دفاعی صنعت کی
تاریخ لکھنے والوں نے اس کے تین ادوار مقرر کئے ہیں۔ ایک دور ’پتھر کا دور‘ کہالتا
ہے ،دوسرا ’لوہے‘ کا اور تیسرا ’بارود‘ کا۔ بعض جدید مورخین نے چوتھے دور کا ذکر
بھی کیا ہے اور اسے ’جوہری‘ دور کے نام سے موسوم کیا ہے۔ لیکن مورخین کی غالب
تعداد نے جوہری بارود کو غیر جوہری بارود ہی کا تسلسل قرار دیا ہے اور اسے ایک الگ
عنصر کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دفاعی صنعت کے ان تین ادوار میں
لوہے کا دور اہم ترین بھی ہے اور طویل ترین بھی…… آج بھی بارودی دور کی پیدائش و
افزائش لوہے کے دور ہی کی مرہوِن منت ہے۔
جہاں تک لوہے میں زور اور قوت کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں
کہ لوہا ،انسان کا ماضی میں بھی دمساز تھا ،حال ہی میں بھی ہمراہی ہے اور مستقبل میں
بھی شریِک سفر رہے گا۔ مغربی عسکری لٹریچر میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں
کی دلچسپ اور عہد وار تاریخ بیان کی ) (Iron Ageموجود ہیں جن میں لوہے کے دور
گئی ہے۔ میری الئبریری میں عہِد حاضر کے ایک بڑے عسکری مورخ کی ایک کتاب
یہ پروفیسر سر جان کیگن کی : A History of Warfareموجود ہے جس کا عنوان ہے
مشہور تصنیف ہے۔ وہ 1934ء میں پیدا ہوا اور 78برس کی عمر میں 2012ء میں اس کا
انتقال ہو گیا۔ وہ 26برس تک (86-1960ء) رائل ملٹری اکیڈمی سیندھرسٹ میں کیڈٹس کو
ملٹری ہسٹری کا درس دیتا رہا۔ریٹائرمنٹ کے بعد 1986ء میں ”ڈیلی ٹیلی گراف“ اخبار
میں دفاعی نامہ نگار کے طور پر بھرتی ہوا اور اپنے انتقال تک وہیں کام کرتا رہا۔ یعنی
!اس کی ملٹری سروس بھی 26برس تھی اور صحافتی سروس بھی 26برس تھی
ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا ،قاتل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان
تھے :بالول
جان کیگن کی کتاب ”جنگ و جدال کی تاریخ“ اس کی ایک معرکہ آراء تصنیف ہے۔ اس
ہے۔ ) (Readableکے 432صفحات ہیں ،باتصویر ہے اور انتہائی دلچسپ اور خواندنی
اس کتاب میں اس نے جنگ کے تین ادوار مقرر کئے ہیں۔ پتھر ،لوہے اور بارود کے ادوار
پاکستان کے( کو 70،70صفحات میں یکساں حجم اور تفصیل کے ساتھ ڈسکس کیا ہے۔
کسی مخیر صاحِب دل سے درخواست ہے کہ اس کا اردو ترجمہ کروا کر پاکستانی پبلک
تو اس سلسلے میں بقول شیخ رشید دخیا ISPRیا GHQکی دفاعی معلومات میں اضافہ کریں۔
)! /سّتو پی کر سویا ہوا ہے
اس سورہ (حدید)کی آیہ نمبر 25کے سلسلے میں میرا چوتھا سوال بھی بہت اہم ہے کہ قرآن
کریم کی اس آیت میں ”لوگوں“ کے لئے جن منافع کا ذکر کیا گیا ہے ،وہ کیا ہیں ……
لوہے کا ایک تو سویلین استعمال ہے جس کی ہزار جہتیں ہیں۔ کون سی ایسی جدید صنعت
ہے جس میں حدید استعمال نہیں ہوتا؟…… اور یہ حدید ،دفاعی صنعت میں بھی ریڑھ کی
ہڈی شمار ہوتا ہے…… وائے افسوس کہ ہم سے ایک سٹیل مل تک سنبھالی نہ جا سکی
بیرونی ملکوں سے درآمد Billetsاور ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کارخانے لوہے کی
کے سب سے زیادہ ذخائر آسٹریلیا میں پائے ) (Iron Oreکررہے ہیں۔ دنیا میں خام لوہے
جاتے ہین ،دوسرے نمبر پر چین اور تیسرے پر برازیل ہے۔
صنعتی انقالب النے کے لئے جن معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے ان میں کوئلہ ،تیل اور
لوہا پیش پیش ہیں۔ اسی لئے تو اس آیہء کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ لوہے میں جو منافعات
ہیں ان کے سبب ”ایسے لوگ بھی ہیں جو ہللا کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے فرستادہ
رسولوں کی مدد کرتے ہیں“…… یہ لوگ کون ہیں؟…… یہ وہی مجاہدین تو ہیں جنہوں
نے اسالم کے اولین ایام میں غزوات و سریات لڑ کر اسالم کو سطوت و عظمت عطا
!کی…… عہِد موجود میں یہی لوگ مسلم ممالک کی ’افواج‘ کہالتے ہیں
لوہا(حدید) نہ ہو تو کوئی فوج کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ لوہے میں بذاِت خود شاید کوئی
قوت نہ ہو کہ وہ ایک بے جان دھات ہے۔ اسی لئے خدا نے لوہے کے ساتھ ’لوگوں‘ کو
جوڑ کر اس کو وہ قوت عطا کر دی ہے جو دنیا بھر کی افواِج قاہرہ کا بنیادی پتھر
ہے…… اس لوہے کے انبار کی قدر و قیمت کیا ہے یہ سوال کسی بھی سٹیل مل کے
مالک سے پوچھ کر معلوم کریں یا کسی بھی اسلحہ ساز فیکٹری میں چلے جائیں اور ان
سے پوچھیں کہ وار ٹیکنالوجی کے لئے جن ہلکے اور بھاری اسلحہ جات کی ضرورت
ہوتی ہے اس کی ابجد کہاں سے شروع ہوتی ہے…… آپ کو سورۂ حدید کی اس آیہ کی
!!!تفسیر اور اہمیت و افادیت معلوم ہو جائے گی