Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 30

Student Name: Muhammad Asif

Student ID: 0000604209


Course: Introduction of Quran (1951)

Assignment No.2
‫کت‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ؒی ت‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ر‬ ‫مہارت‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫لوم‬ ‫ع‬ ‫سے‬ ‫کون‬ ‫کون‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ی‬ ‫کرا‬ ‫عارف‬ ‫کا‬ ‫د‬ ‫ع‬ ‫رسول‬ ‫الم‬ ‫المہ‬ ‫ع‬ ‫۔‬‫‪1‬‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫سوال‬
‫ھ‬ ‫ی‬ ‫سی خ تت‬ ‫ب ت ن ع تف‬
‫( ‪)20‬‬ ‫ے۔‬ ‫ے ی ز لم سی ر می ں ان کی دما حری ر یکج ی‬‫ھ‬

‫قرآن مجید کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا‪ ،‬جب کہ معاشرہ کے اندر بہت س ی خرابی اں جنم‬
‫لےچکی تھیں اور بڑی ح د ت ک اس میں پختگی بھی آگ ئی تھی‪ ،‬جن کی اص الح‬
‫بہت ضروری تھی‪ ،‬قرآن پاک جن اہم اصالحی ہدایات ومضامین پر مش تمل ہے‪،‬‬
‫انہیں ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے‪:‬‬

‫(‪)۱‬تکمیل شریعت‬
‫(‪)۲‬نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا‬

‫(‪)۳‬مذہبی اختالفات کا خاتمہ‬

‫(‪)۴‬کتب سابقہ کے برحق ہونے کی تصدیق اور ان کی غلطیوں کی اصالح‬

‫(‪)۵‬تکمیل انسانیت‬

‫(‪)۶‬گمشدہ توحید کو دوبارہ قائم کرنا‬

‫(‪)۷‬ہللا تع الٰی کے ازلی ارادہ کی تکمی ل‪:‬جس میں انس انوں کے ل یے رہنم ائی موج ود ہ و‬
‫(اسالمی انسائیکلوپیڈیا‪ )۱۲۳۹:‬اسی کے س اتھ مس لمانوں ک و یہ حکم ہے کہ اگ ر‬
‫جھگڑا ہوجائے ی اکوئی اور مع املہ درپیش ہوت و س ب س ے پہلے ق رآن پ اک کی‬
‫طرف رجوع کیا کرو اور ایسا ہون ا بھی چ اہیے؛ کی ونکہ وہ خ دا ک ا ن ازل ک ردہ‬
‫دس توِر حیات ہے‪ ،‬جس س ے کس ی ح ال میں ص رِف نظ ر نہیں کی ا جاس کتا ہے؛‬
‫چنانچہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے‪:‬‬

‫"َفِإْن َتَناَز ْع ُتْم ِفي َش ْي ٍء َفُر ُّد وُه ِإَلى ِهَّللا َو الَّرُسوِل ِإْن ُكْنُتْم ُتْؤ ِم ُنوَن ِباِهَّلل َو اْلَيْو ِم اآْل ِخ ِر "۔‬

‫(النساء‪)۵۹:‬‬

‫ترجمہ‪:‬پس اگر کس ی ام ر میں تم ب اہم اختالف ک رنے لگ و ت و اس ام ر ک و ہللا اور اس کے‬


‫رسول کے حوالہ کردیا کرو؛ اگرتم ہللا پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‬
‫یعنی اگرتم میں اور "اولواالمر" میں باہم اختالف ہوجائے کہ حاکم کا یہ حکم ہللا اور رس ول‬
‫کے حکم کے موافق ہے یامخالف‪ ،‬تواس کو کتاب ہللا وسنت رسول ہللا کی ط رف‬
‫رج وع ک رکے طے کرلی ا ک رو کہ وہ حکم فی الحقیقت ہللا اور رس ول کے حکم‬
‫کے موافق ہے یامخالف اور جوبات محق ق ہوج ائے اس ی ک و باالتف اق مس لم اور‬
‫معمول بہ س مجھنا چ اہیے اور اختالف ک و دورکردین ا چ اہیے؛ اگ رتم ک وہللا اور‬
‫قیامت کے دن پر ایمان ہے؛ کیونکہ جس کو ہللا اور قیامت کے دن پر ایمان ہوگ ا‬
‫وہ ض رور اختالف کی ص ورت میں ہللا اور رس ول کے حکم کی ط رف رج وع‬
‫کرےگا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بے حد ڈرےگا‪ ،‬جس سے معل وم ہوگی ا‬
‫کہ ج و ہللا اور رس ول کے حکم س ے بھ اگے گ ا وہ مس لمان نہیں؛ اس ل یے‬
‫اگردومسلمان آپس میں جھگڑیں‪ ،‬ایک نے کہا‪:‬چلو شرع کی طرف رجوع ک ریں‪،‬‬
‫دوسرے نے کہا میں شرع کو نہیں سمجھتا یامجھ کو شرع س ے ک ام نہیں ت و اس‬
‫کو بیشک کافر کہیں گے۔‬

‫(فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہنؒد ‪ ،‬النساء‪)۵۹:‬‬

‫مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب ہللا کی کتنی ضرورت ہے اور اس‬
‫کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے‪ ،‬اس س ے‬
‫صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کسی بھی معاملہ میں کتاب ہللا کی طرف‬
‫رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی ط رف؛ چن انچہ عالمہ ش ہر س تانی‬
‫(مت وفی‪۵۴۸:‬ھ) فرم اتے ہیں کہ اس ب ات پ ر س ب ک ا اجم اع ہے کہ جب ک وئی‬
‫شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حالل س ے متعل ق ہ و ی احرام س ے اور اس میں‬
‫اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک س ے اس کی ابت داء ک رنی‬
‫چاہیے؛ پس اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری ط رف دیکھ نے‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(الملل والنحل‪)۱/۱۳۶:‬‬

‫حضرت عمرفاروؓق نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس میں یہ م ذکور ہے کہ جب‬
‫تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب ہللا کے مطابق فیصلہ ک رو اگ راس مع املہ‬
‫کا فیصلہ کتاب ہللا میں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔‬
‫حض رت ابن مس عوؓد ک ا فرم ان ہے‪":‬تم میں س ے کس ی کے س امنے ک وئی مق دمہ درپیش‬
‫ہوتووہ اس کا کتاب ہللا کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کت اب ہللا میں نہ‬
‫ملے تو وہ رسول اکرمﷺکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔‬

‫حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ سے جب ک وئی ب ات دری افت کی ج اتی تھی ت و آپ‬
‫اس کا جواب کتاب ہللا کے مطابق دیتے تھے‪ ،‬ان واقع ات س ے یہ ث ابت ہوت ا ہے‬
‫کہ ہللا کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور‬
‫عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔‬

‫(حیات امام ابن القیم‪)۲۵۸:‬‬

‫ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موض وع ہے‪ ،‬ذی ل میں ہم‬
‫صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پ اک ای ک دس توِر حی ات ہے اور فقہی‬
‫احکامات کی تعیین میں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔‬

‫مضامین قرآن‬

‫قرآِن پاک میں ہللا تعالٰی نے خصوصیت کے ساتھ درِج ذیل مضامین کو بیان کی ا ہے اور وہ‬
‫یہ ہیں‪:‬‬

‫(‪)۱‬جزائے ایمان کے مباحث‬

‫(‪)۲‬عبادات کے مباحث‬

‫(‪)۳‬حسنات وسیئات کا بیان‬

‫(‪)۴‬قصص وحکایات کا بیان‬

‫(‪)۵‬نجاِت حقیقی اور اس کے حصول کے ذرائع کا بیان‬

‫(‪)۶‬رسوِل کریمﷺ کے سوانح اور آپﷺ کی نبوت کے دالئِل کاملہ کا بیان‬

‫(‪)۷‬خصائص قرآن کا بیان‬

‫(‪)۸‬اسالم کی حقیقت اور اس کی صداقت پر دالئل قاطعہ کا بیان‬

‫(‪)۹‬کفروشرک کے تفصیلی احوال‬


‫(‪)۱۰‬اور مظاہر قدرت کا بیان۔‬

‫(اسالمی انسائیکلوپیڈیا‪)۱۲۳۹:‬‬

‫حکیم االسالم شاہ ولی ہللا محدث دہلوؒی نے مضامین قرآنی کی بہت ہی جامع تقس یم کی ہے‪،‬‬
‫جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے‪:‬‬

‫(‪)۱‬علم االحکام یعنی عبادات‪ ،‬معامالت اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زن دگی کے‬
‫متعلق احکام وہدایات۔‬

‫(‪)۲‬علم المخاصمہ یعنی یہود ونصارٰی ‪ ،‬مش رکین ومن افقین اور م ذاہب ب اطلہ کی تردی د اور‬
‫اسالم کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات۔‬

‫(‪)۳‬علم الت ذکیر بای ات ہللا یع نی ہللا کی نعمت وں‪ ،‬ق درتوں اور اس کے نوازش ات وانعام ات‪،‬‬
‫نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات۔‬

‫(‪)۴‬علم التذکیر بالموت‪ ،‬یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت‪ ،‬حس اب کت اب اور نی ک اور‬
‫ُبرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔‬

‫(‪)۵‬علم التذکیر بایام ہللا‪ ،‬یع نی وہ آی ات ج و س ابقہ امت وں کی معاش رتی ومع امالتی ح االت‪،‬‬
‫انبیاؑء کی تعلیم س ے اعراض وسرکش ی پرعذاب خداون دی وغ یرہ‪ ،‬یہ س ب امت‬
‫محمدیہﷺ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔‬

‫(الفوزالکبیر‪)۲:‬‬

‫حجیت قرآن‬

‫قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں قیامت ت ک دین کی اس اس کی حی ثیت رکھت ا‬
‫ہے اور وہ ہللا کی مض بوط رس ی ہے‪ ،‬جس ک ا ہمیں ہللا نے مض بوطی س ے‬
‫تھامنےکا حکم دیا؛ چنانچہ ارشاِد باری ہے‪:‬‬

‫"َو اْعَتِص ُم وا ِبَح ْبِل ِهَّللا َجِم يًعا َو اَل َتَفَّر ُقوا"۔‬

‫(آل عمران‪)۱۰۳:‬‬
‫ترجمہ‪:‬اورمضبوط پکڑےرہو ہللا تعالٰی کے سلسلہ کو اس ط ور پ ر کہ (تم س ب) ب اہم متف ق‬
‫بھی رہو۔‬

‫اور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے‪:‬‬

‫"َتَر ْك ُت ِفيُك ْم َأْمَر ْيِن َلْن َتِض ُّلوا َم ا َتَم َّس ْك ُتْم ِبِهَم ا ِكَتاَب ِهَّللا َو ُس َّنَة َر ُسْو ِلِہ"۔‬

‫(مشکٰو ۃ‪)۳۱:‬‬

‫ترجمہ‪:‬میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہ ا ہ وں‪ ،‬جب ت ک تم اس ک و تھ امے رہ وگے‬


‫ہرگز گمراہ نہ ہو گے‪:‬ایک کتاب ہللا دوسری سنِت رسول۔‬

‫مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وش ریعت کی اص ل اس اس‬
‫ہے اور یہی تمام ادلہ میں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے‪ ،‬ق رن اّو ل س ے‬
‫ہی اس سے احکاِم شرعیہ کا اس تخراج ماخ ذ اّو ل کی حی ثیت س ے کی ا جات ا ہے‪،‬‬
‫آپﷺ نے حضرت معاؓذ کو جب یمن کی جانب قاض ی بن اکر بھیج ا تھ ا ت و‬
‫ُاس وقت آپﷺ نے ُان س ے پوچھ ا تھ ا‪ ،‬اے مع اؓذ جب تمھیں ک وئی مس ئلہ‬
‫درپیش ہوتو کس چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاؓذ نے جوابًا عرض کیا‪:‬کتاب ہللا‬
‫سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن میں نہ مل سکا ت و؟ آؓپ‬
‫نے فرمایا احادیث سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھ ا اگ ر ُاس میں بھی نہ ملے ت و؟‬
‫آؓپ نے عرض کیا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مس ئلہ ک ا ح ل نک ال لونگ ا‬
‫اورساتھ ہی فرمایا"وال الو" حق کی تالش میں الپرواہی اختیار نہ کرونگا۔‬

‫(ابوداؤد‪)۲/۵۰۵:‬‬

‫اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے‪،‬‬
‫ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہ وا کہ ق رآن کے س اتھ ح دیث بھی ض روری ہے جس کی‬
‫وجہ س ے آپﷺ نے مع اؓذ کے م زاِج دین س ے واقفیت اور ش ریعت س ے‬
‫مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر بج االتے‬
‫ہوئے فرمایا‪:‬‬

‫"اْلَحْم ُد ِهَّلِل اَّلِذ ي َو َّفَق َر ُسوَل َر ُسوِل ِهَّللا ِلَم ا َيْر ٰض ی َر ُسوؑل ِهَّللا"۔‬

‫(ابوداؤد‪ ،‬باب اجتہاد الرأی فی القضاء‪ ،‬حدیث نمبر‪)۳۱۱۹:‬‬


‫ت رجمہ‪:‬تم ام تع ریفیں ہللا کے ل یے ہیں جس نے ہللا کے رس ول کے قاص د ک و اس ب ات کی‬
‫توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔‬

‫زمانۂ رسالت کے بعد بھی دوِر خالفت اور عام صحابہ کرام (رضوان ہللا علیہم اجمعین) اور‬
‫فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج میں کتاب ہللا کو مقدم رکھتے‬
‫تھے؛ پھرسنِت رسول ہللا کو‪ ،‬اس لیے پ وری امت ک ا اس ب ات پ ر اجم اع ہے کہ‬
‫مسائل کے استخراج میں اولیت کتاب ہللا کو حاص ل ہے؛ پھرس نِت رس ول ہللا ک و‬
‫ہے۔‬

‫شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کت اب ہللا قطعی حجت ہے ‪،‬جس ک و مض بوطی س ے‬
‫تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔‬

‫(تاریخ التشریع االسالمی‪)۱۹:‬‬

‫قرآن کی حجیت پر مث ال کے ط ور پ ر ص رف ای ک آیت اور دوح دیثیں پیش کی گ ئی ہیں؛‬


‫ورنہ اس کے عالوہ بہت سی آیات اور اح ادیث کت اب ہللا کی حجیت پ ر دال ہیں‪،‬‬
‫جنھیں بغ رِض اختص ار قلم ان داز کی ا جات ا ہے؛ ن یزاس پ ر ت اریخی ش واہد بھی‬
‫موج ود ہیں کہ مس لمانوں نے ق رآن حکیم ک و ق انون ک ا اولین ماخ ذ بنای ا‪ ،‬ن بی‬
‫کریمﷺ اور ص حابہ ک راؓم کے عہ د میں ق رآن حکیم س ے مکم ل ط ور پ ر‬
‫استفادہ کیا جاتا رہا‪ ،‬چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے‪ ،‬زانیوں کوکوڑے لگائے گ ئے‪،‬‬
‫شراب پینے والوں پرتعزیرنافذ ہ وئی‪ ،‬ب دکرداروں ک و مل ک ب در کی ا گی ا‪ ،‬نک اح‬
‫وطالق نیز وراثت کی تقسیم کے فیصلے قرآن حکیم کے احکام کے مطابق ک ئے‬
‫گئے‪ ،‬ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ مس لمانوں کے یہ اں ابت داء ہی س ے‪ ،‬ق رآن‬
‫حکیم قانون کا اصلی اور بنیادی ماخذ تھا؛ البتہ اتنی بات قاب ل تس لیم ہے کہ ق رآن‬
‫حکیم اصولوں کی کتاب ہے اور اس میں جملہ جزئیات کا احاطہ نہیں کیا گیا اور‬
‫قرآن حکیم کوقانونی ماخذ بنانے کے ل یے جن کلی ات کی ض رورت تھی‪ ،‬وہ بع د‬
‫میں مرتب ہوئے اور آج تک مرتب ہ ورہے ہیں‪ ،‬آج بھی اگ ر ک وئی جدی د مس ئلہ‬
‫درپیش ہ و اور ق رآِن حکیم کی کس ی آیت س ے ک وئی کلیہ بنای ا جاس کے ت و وہ‬
‫ہمارے لیے ویسے ہی قابِل عمل ہوگا‪ ،‬جیسے امام شافعؒی یاام ام ابوح نیفؒہ ک ا ق ائم‬
‫کردہ کوئی کلیہ قابِل عمل ہوتا ہو۔‬
‫اسی لیے مسلمانوں کے یہاں ایک عام اصول رہا کہ ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی ج ائیگی‬
‫جوقرآن حکیم کے احکام یااس کی روح کے خالف پائی جائے۔‬

‫(اسالم اور مستشرقین‪)۲/۱۴:‬‬

‫قرآن کا فقہی اسلوب بیان‬

‫قرآن میں جہاں اصالح‪ ،‬عقیدہ‪ ،‬عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ‪،‬وہیں فقہی احکام سے متعل ق‬
‫بے شمار آیات ہیں‪ ،‬کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیا گیا ہے‪:‬‬

‫"َو َأِقيُم وا الَّص اَل َة َو آُتوا الَّز َك اَة"۔‬

‫(البقرۃ‪)۴۳:‬‬

‫ترجمہ‪:‬اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکٰو ۃ کو۔‬

‫یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیان کیا گیا؛ مگرشرعًا یہ دون وں احک ام ف رض کے‬
‫قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لف ظ (کتب) س ے فرض یت ث ابت کی ج اتی‬
‫ہے جیسے‪:‬‬

‫"ُك ِتَب َع َلْيُك ُم اْلِقَص اُص "۔‬

‫(البقرۃ‪)۱۷۸:‬‬

‫تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔‬

‫"ُك ِتَب َع َلْيُك ُم الِّص َياُم "۔‬


‫(البقرۃ‪)۱۸۳:‬‬

‫تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔‬

‫اورکبھی مضارع کے لفظ سے وجوب کا حکم ثابت ہوتا ہے‪ ،‬جیسے‪:‬‬

‫"َو اْلُم َطَّلَقاُت َيَتَر َّبْص َن ِبَأْنُفِس ِهَّن "۔‬

‫(البقرۃ‪)۲۲۸:‬‬

‫ترجمہ‪:‬اور طالق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔‬

‫اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گ ذارنے ک ا حکم دی ا گی ا ہے‪ ،‬ج وواجب ہے اور‬
‫کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہ ونے کی وعی د س ناکر حکم دی ا جات ا ہے‪،‬‬
‫جیسے‪:‬‬

‫"َو َم ْن َيْقُتْل ُم ْؤ ِم ًنا ُم َتَع ِّم ًدا َفَج َز اُؤ ُه َجَهَّنُم "۔‬

‫(النساء‪)۹۳:‬‬

‫ترجمہ‪:‬اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہ اتھ‬
‫(گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔‬

‫کبھی توصراحتًا ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬جیسے‪:‬‬

‫"َو اَل َتْقُتُلوا الَّنْفَس اَّلِتي َح َّر َم ُهَّللا ِإاَّل ِباْلَح ِّق"۔‬

‫(االنعام‪)۱۵۱:‬‬

‫ترجمہ‪:‬اورجس شخص کے قتل کرنے ک و ہللا تع الٰی نے ح رام فرمای ا ہے اس ک و قت ل نہیں‬


‫کرتے‪ ،‬ہاں! مگرحق پر ہو۔‬

‫کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں س ے بھی احک ام بی ان ک ئے گ ئے ہیں جس‬
‫سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہ ونے کے س اتھ س اتھ یہ بھی معل وم ہوجات ا‬
‫ہے کہ بعض احکام میں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض میں واجب ک ا‪ ،‬بعض میں‬
‫سنن ومستحبات کا‪ ،‬بعض میں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کی ا گی ا اس میں‬
‫بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یامحض خالِف اولٰی کا‬

‫۔‬
‫ن‬ ‫ن غ خ‬ ‫ی‬
‫بخ‬ ‫ن فق‬ ‫ن‬
‫ے ی ز زوہ دق می ں‬
‫سورۃ االحزاب شکے دوسرے فرکوع می ں م ا ی ن کی کون سی لی کا ذکر کی ا گی ا ہ‬ ‫سوال مب ر ‪2‬۔ ف‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫من ا ی ن کی ساز وں و کردار پر صل حث یکج ی‬
‫اے نبی هللا سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ م ان بے ش ک هللا ج اننے واال حکمت‬
‫واال ہے (‪ )۱‬اور اس کی تابعداری کر جو تیرے رب کی طرف سے تیری ط رف‬
‫بھیج ا گی ا ہے بے ش ک هللا تمہ ارے ک اموں س ے خ بردار ہے (‪ )۲‬اور هللا پ ر‬
‫بھروسہ کر اور هللا ہی کارساز کافی ہے (‪ )۳‬هللا نے کسی ش خص کے س ینہ میں‬
‫دو دل نہیں بنائے اور نہ هللا نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم ظہار کرتے ہ و‬
‫تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹ وں ک و تمہ ارا بیٹ ا بنای ا ہے یہ‬
‫تمہارے منہ کی بات ہے اور هللا سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راس تہ بتات ا ہے (‬
‫‪ )۴‬انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام س ے پک ارو هللا کے ہ اں یہی پ ورا انص اف‬
‫ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں‬
‫اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل‬
‫کے ارادہ س ے ک رو اور هللا بخش نے واال مہرب ان ہے (‪ )۵‬ن بی مس لمانو ں کے‬
‫معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حق دار ہے اور اس کی بیوی اں ان کی‬
‫مائیں ہیں اور رشتہ دار هللا کی کتاب میں ایک دوسرے سے زی ادہ تعل ق رکھ تے‬
‫ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں س ے‬
‫کچھ سلوک کرنا چ اہو یہ ب ات ل وح محف وظ میں لکھی ہ وئی ہے (‪ )۶‬اور جب ہم‬
‫نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موس ٰی اور م ریم کے‬
‫بیٹے عیسٰی سے بھی اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا (‪ )۷‬تاکہ س چوں س ے ان‬
‫کے سچ کا حال دریافت کرے اور کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کی ا ہے (‬
‫‪ )۸‬اے ایمان والو! هللا کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر ک ئی لش کر‬
‫چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لش کر بھیجے جنہیں تم نے‬
‫نہیں دیکھا اورجو کچھ تم کر رہے تھے هللا دیکھ رہا تھ ا (‪ )۹‬جب وہ ل وگ تم پ ر‬
‫تمہارے اوپر کی طرف اورنیچے کی طرف سے چڑھ آئے اورجب آنکھیں پتھ را‬
‫گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اورتم هللا کے ساتھ ط رح ط رح کے‬
‫گمان کر رہے تھے (‪ )۱۰‬اس موقع پر ایماندار آزمائے گ ئے اور س خت ہال دیے‬
‫گئے (‪ )۱۱‬اورجب کہ من افق اورجن کے دل وں میں ش ک تھ ا کہ نے لگے کہ هللا‬
‫اور اس کے رس ول نے ج و ہم س ے وعدہ کی ا تھ ا ص رف دھوک ا ہی تھ ا ( ‪)۱۲‬‬
‫اورجب کہ ان میں سے ایک جم اعت کہ نے لگی اے م دینہ وال و! تمہ ارے ل یے‬
‫ٹھیرنے کا موقع نہیں سو لوٹ چلو اور ان میں سے کچھ لوگ نبی س ے رخص ت‬
‫م انگنے لگے کہ نے لگے کہ ہم ارے گھ ر اکیلے ہیں اور ح االنکہ وہ اکیلے نہ‬
‫تھے وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے (‪ )۱۳‬اور اگر کس ی ط رف س ے ک وئی ان پ ر‬
‫ُگ ھس آتا پھر ان سے فساد کی درخواست کی جاتی تو فساد پر آمادہ ہو ج اتے اور‬
‫دی ر نہ ک رتے مگ ر بہت ہی کم (‪ )۱۴‬ح االنکہ اس س ے پہلے هللا س ے عہ د ک ر‬
‫چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور هللا سے عہد کرنے کی ب از پ رس ہ وگی (‬
‫‪ )۱۵‬کہہ دو اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگ ا اور‬
‫اس وقت سوائے تھوڑے دنوں کے نفع نہیں اٹھاؤ گے (‪ )۱۶‬کہہ دو کون ہے ج و‬
‫تمہیں هللا سے بچا سکے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کرنا چاہے یا تم پ ر مہرب انی‬
‫کرنا چاہے اور هللا کے سوا نہ کوئی اپنا حمایتی پائیں گے اور نہ کوئی م ددگار (‬
‫‪ )۱۷‬تحقیق هللا تم میں سے روکنے والوں کو جانتاہے اور جو اپنے بھ ائیوں س ے‬
‫کہتے ہیں کہ ہمارے پ اس آج اؤ اورل ڑائی میں بہت ہی کم آتے ہیں (‪ )۱۸‬تم س ے‬
‫ہمدردی کرتے ہوئے پھر جب ڈر کا وقت آجائے تو ُتو انھیں دیکھے گ ا کہ ت یری‬
‫طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوش ی‬
‫آئے پھر جب ڈر جاتا رہے ت و تمہیں ت یز زب انوں س ے طعنہ دی تے ہیں م ال کے‬
‫اللچی ہیں یہ لوگ ایمان نہیں الئے تو هللا نے ان کے تمام اعم ال ض ائع ک ر دیے‬
‫اور یہ بات هللا پر بالکل آسان ہے (‪ )۱۹‬خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گ ئیں اور‬
‫اگ ر ف وجیں آج ائیں ت و آرزوک ریں کہ ک اش ہم ب اہر گ اؤں میں ج ا رہیں تمہ اری‬
‫خ بریں پوچھ ا ک ریں اور اگ ر تم میں بھی رہیں ت و بہت ہی کم ل ڑیں (‪ )۲۰‬البتہ‬
‫تمہارے لیے رسول هللا میں اچھا نمونہ ہے جو هللا اور قیامت کی امی د رکھت ا ہے‬
‫اور هللا کو بہت یاد کرتا ہے (‪ )۲۱‬اور جب مومنوں نے فوجوں کو دیکھ ا ت و کہ ا‬
‫یہ وہ ہے جس کا ہم سے هللا اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھ ا اور هللا اور اس‬
‫کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں ترقی‬
‫ہو گئی (‪ )۲۲‬ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہ وں نے هللا س ے ج و‬
‫عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پ ورا ک ر چکے‬
‫اور بعض منتظر ہیں اور عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی (‪ )۲۳‬تاکہ هللا سچوں ک و‬
‫ان کے سچ کا بدلہ دے اور اگ ر چ اہے ت و من افقوں کوعذاب دے ی ا ان کی ت وبہ‬
‫قبول کرے بے شک هللا بخشنے واال مہربان ہے (‪ )۲۴‬اور هللا نے کافروں ک و ان‬
‫کے غصہ میں بھرا ہوا لوٹایا انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آی ا اور هللا نے مس لمانوں کی‬
‫لڑائی اپنے ذمہ لے لی اور هللا طاقت ور غ الب ہے (‪ )۲۵‬اور جن اہ ل کت اب نے‬
‫ان کی مدد ی تھی انہیں ان کے قلعوں سے نیچے ات ار دی ا اور ان کے دل وں میں‬
‫خوف ڈال دیا بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قی د ک ر لی ا (‪ )۲۶‬اور ان‬
‫کی زمین اوران کے گھروں اور ان کےمالوں کا تمہیں مالک بنا دیا اور زمین ک ا‬
‫جس پر تم نے کبھی قدم نہیں رکھا تھا اور هللا ہر چیز پر ق ادر ہے (‪ )۲۷‬اے ن بی‬
‫اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش منظ ور ہے‬
‫تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دال کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں ( ‪ )۲۸‬اور اگر‬
‫تم هللا اور اس کے رسول اور آخ رت ک و چ اہتی ہ و ت و هللا نے تم میں س ے نی ک‬
‫بختوں کے لیے بڑا اج ر تی ار کی ا ہے (‪ )۲۹‬اے ن بی کی بیوی و تم میں س ے ج و‬
‫کوئی کھلی ہوئی بدکاری کرے تو اس ے دگن ا عذاب دی ا ج ائے گ ا اور یہ هللا پ ر‬
‫آسان ہے (‪ )۳۰‬اور جو تم میں سے هللا اور اس کےرسول کی فرمانبرداری کرے‬
‫گی اور نیک ک ام ک رے گی ت و ہم اس ے اس ک ا دہرااج ر دیں گے اور ہم نے اس‬
‫کے لیے عزت کا رزق بھی تیار کر رکھا ہے (‪ )۳۱‬اے نبی کی بیویو تم معم ولی‬
‫عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم هللا سے ڈرتی ر ہو اور دبی زب ان س ے ب ات نہ‬
‫کہو کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور ب ات معق ول کہ و (‬
‫‪ )۳۲‬اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہ و اور گزش تہ زم انہ ج اہلیت کی ط رح بن اؤ‬
‫سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور هللا اور اس کے رس ول‬
‫کی فرمانبرداری کرو هللا یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر وال و تم س ے ناپ اکی دور‬
‫کرے اور تمہیں خوب پاک کرے (‪ )۳۳‬اور تمہارے گھروں میں جو هللا کی آی تیں‬
‫اور حکمت کی باتیں پڑھی جاتیں ہیں انہیں ی اد رکھ و بیش ک هللا رازدان خ بردار‬
‫ہے (‪ )۳۴‬بیش ک هللا نے مس لمان م ردوں اور مس لمان عورت وں اور ایم ان دار‬
‫مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبردار مردوں اور فرم انبردارعورتوں اور‬
‫سچے مردوں اور سچی عورتوں اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر ک رنے‬
‫والی عورتوں اور عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والی عورتوں‬
‫اور خیرات کرنے والے مردوں اور خیرات ک رنے والی عورت وں اور روزہ دار‬
‫مردوں اور روزدار عورتوں اور پاک دامن م ردوں اور پ اک دامن عورت وں اور‬
‫هللا کو بہت یاد کرنے والے م ردوں اور بہت ی اد ک رنے والی عورت وں کے ل یے‬
‫بخشش اور بڑا اجر تیار کیا ہے (‪ )۳۵‬اور کسی مومن مرد اور مومن عورت ک و‬
‫الئق نہیں کہ جب هللا اور اس کا رسول کسی کام ک ا حکم دے ت و انہیں اپ نے ک ام‬
‫میں اختیار باقی رہے اور جس نے هللا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ‬
‫ص ریح گم راہ ہ وا (‪ )۳۶‬اور جب ت و نے اس ش خص س ے کہ ا جس پ ر هللا نے‬
‫احسان کیا اور تو نے احسان کیا اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ هللا س ے ڈر اور ت و‬
‫اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے هللا ظ اہر ک رنے واال تھ ا اور ت و لوگ وں‬
‫سے ڈرتا تھا حاالنکہ هللا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس س ے ڈرے پھ ر جب زی د‬
‫اس س ے ح اجت پ وری ک ر چک ا ت و ہم نے تجھ س ے اس ک ا نک اح ک ر دی ا ت اکہ‬
‫مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں ک وئی گن اہ نہ ہ و‬
‫جب کہ وہ ان سے ح اجت پ وری ک ر لیں اور هللا ک ا حکم ہ وکر رہ نے واال ہے (‬
‫‪ )۳۷‬نبی پر اس بات میں کوئی گن اہ نہیں ہے ج و هللا نے اس اس کے ل یے مق رر‬
‫کر دی ہے جیسا کہ هللا کا پہلے لوگو ں میں دستور تھا اور هللا کا کام ان دازے پ ر‬
‫مقرر کیا ہوا ہے (‪ )۳۸‬ج و ل وگ هللا ک ا پیغ ام پہنچ اتے رہے اور هللا س ے ڈرتے‬
‫رہے اورهللا کےسوا اور کسی سے نہ ڈرتھےاور هللا حساب لینے واال کافی ہے (‬
‫‪ )۳۹‬محمد تم میں سے کسی مرد کے ب اپ نہیں لیکن وہ هللا کے رس ول اور س ب‬
‫نبیوں کے خاتمے پر ہیں اور هللا ہ ر ب ات جانت ا ہے (‪ )۴۰‬اے ایم ان وال و هللا ک و‬
‫بہت یاد کرو (‪ )۴۱‬اور اس کی صبح و شام پاکی بیان ک رو (‪ )۴۲‬وہی ہے ج و تم‬
‫پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے روش نی‬
‫کی طرف نکالے اور وہ ایمان والوں پر نہایت رحم واال ہے (‪ )۴۳‬جس دن وہ اس‬
‫سے ملیں گے ان کے لیے سالم کا تحفہ ہوگا اور ان کے لیے عزت کا اج ر تی ار‬
‫کر رکھا ہے (‪ )۴۴‬اے نبی ہم نے آپ کو بالشبہ گواہی دینے واال اور خوش خبری‬
‫دینے واال اور ڈرانے واال بنا کر بھیجا ہے (‪ )۴۵‬اور هللا کی ط رف اس کے حکم‬
‫سے بالنے اور چراغ روشن بنایا ہے (‪ )۴۶‬اور ایمان وال وں ک و خوش خبری دے‬
‫اس بات کی کہ ان کے لیے هللا کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے (‪ )۴۷‬اور کف ار‬
‫اور منافقین کا کہنا نہ مانیے اور ان کی ای ذا رس انی کی پ رواہ نہ کیج یے اور هللا‬
‫پر بھروسہ کیجیئے اور هللا کارساز کافی ہے (‪ )۴۸‬اے ایم ان وال و جب تم م ومن‬
‫عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طالق دے دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھ وو‬
‫تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے کہ تم ان کی گن تی پ وری ک رنے لگ و‬
‫سو انہیں کچھ فائدہ دو اور انہیں اچھی طرح سے رخص ت ک ر دو (‪ )۴۹‬اے ن بی‬
‫ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حالل کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں‬
‫اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں ج و هللا نے آپ ک و غ نیمت میں دل وادی‬
‫ہیں اور آپ کے چچ ا کی بیٹی اں اور آپ کی پھوپھی وں کی بیٹی اں اور آپ کے‬
‫ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خاالؤں کی بیٹیاں جنہ وں نے آپ کے س اتھ ہج رت‬
‫کی اور اس مسلمان عورت ک و بھی ج و بالعوض اپ نے کوپیغم بر ک و دے دے‬
‫بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں النا چ اہے یہ خ الص آپ کے ل یے ہے نہ اور‬
‫مسلمانوں کے لیے ہمیں معلوم ہے ج و کچھ ہم نے مس لمانو ں پ ر ان کی بیوی وں‬
‫اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے ت اکہ آپ پ ر ک وئی ِد قت نہ رہے اور هللا‬
‫معاف کرنے واال مہربان ہے (‪ )۵۰‬آپ ان میں سے جسے چ اہیں چھ وڑ دیں اور‬
‫جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور ان میں سے جسے آپ چ اہیں جنہیں آپ نے‬
‫علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس سے زیادہ ق ریب ہے کہ ان کی‬
‫آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہ و اور ان س ب ک و ج و آپ دیں اس پ ر راض ی‬
‫ہوں اور جو کچھ تمہارے دل وں میں ہے هللا جانت ا ہے اورهللا ج اننے واال بردب ار‬
‫ہے (‪ )۵۱‬اس کے بع د آپ کے ل یے عورتیں حالل نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان‬
‫سےاورعورتیں تبدیل کریں اگر چہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر ج و آپ کی‬
‫مملوکہ ہوں اور هللا ہ ر ای ک چ یز پ ر نگ ران ہے (‪ )۵۲‬اے ایم ان وال و ن بی کے‬
‫گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کےلئے اجازت دی ج ائے‬
‫نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بالیا ج ائے تب داخ ل ہ و‬
‫پھر جب تم کھا چک و ت و اٹھ ک ر چلے ج اؤ اور ب اتوں کے ل یے جم ک ر نہ بیٹھ و‬
‫کیوں کہ اس سے نبی ک و تکلی ف پہنچ تی ہے اور وہ تم س ے ش رم کرت ا ہے اور‬
‫حق بات کہنے سے هللا شرم نہیں کرتا اور جب نبی کی بیوی وں س ے ک وئی چ یز‬
‫مانگو تو پردہ کے ب اہر س ے مانگ ا ک رو اس میں تمہ ارے اوران کے دل وں کے‬
‫لیے بہت پاکیزگی ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول هللا کو ایذا دو اور‬
‫نہ یہ کہ تم اپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح ک رو بے ش ک یہ هللا‬
‫کےنزدیک بڑا گناہ ہے (‪ )۵۳‬اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا اس ے چھپ اؤ ت و بے‬
‫شک هللا ہر چیز کو جاننے واال ہے (‪ )۵۴‬ان پ ر اپ نے ب اپوں کے س امنے ہ ونے‬
‫میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپ نے‬
‫بھ تیجوں کے اورنہ اپ نے بھ انجوں کے اور نہ اپ نی عورت وں کے اور نہ اپ نے‬
‫غالموں کے اور هللا سے ڈرتی رہو بے ش ک ہ ر چ یز هللا کے س امنے ہے (‪)۵۵‬‬
‫بے شک هللا اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان وال و تم بھی‬
‫اسپر دورد اور سالم بھیجو (‪ )۵۶‬جو لوگ هللا اور اس کے رس ول ک و ای ذا دی تے‬
‫ہیں ان پر هللا نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب‬
‫تیار کیا ہے (‪ )۵۷‬اور جو ایمان دار مردوں اور عورت وں ک و ن اکردہ گن اہوں پ ر‬
‫ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہت ان اور ص ریح گن اہ لی تے ہیں (‪ )۵۸‬اے ن بی اپ نی‬
‫بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورت وں س ے کہہ دو کہ اپ نے مونہ وں پ ر‬
‫نقاب ڈاال کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ س تائی ج ائیں‬
‫اور هللا بخش نے واال نہ ایت رحم واال ہے (‪ )۵۹‬اگ ر من افق اور وہ جن کے دل وں‬
‫میں م رض ہے اور م دینہ میں غل ط خ بریں اڑانے والے ب از نہ آئیں گے ت و آپ‬
‫کوہم ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ اس شہر میں تیرے پاس نہ ٹھیریں گے (‬
‫‪ )۶۰‬مگر بہت کم لعنت کیے گئے ہیں جہاں کہیں پائیں ج ائیں گے پک ڑے ج ائیں‬
‫گے اور قتل کیے جائیں گے (‪ )۶۱‬یہی هللا ک ا ق انون ہے ان لوگ و ں میں ج و اس‬
‫س ے پہلے ہ و گ زر چکے ہیں اور آپ هللا کے ق انون میں ک وئی تب دیلی ہرگ ز نہ‬
‫پائیں گے (‪ )۶۲‬آپ سے لوگ قی امت کے متعل ق پوچھ تے ہیں کہہ دو اس ک ا علم‬
‫تو صرف هللا ہی کو ہے اور اپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو ( ‪ )۶۳‬بے‬
‫شک هللا نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دوزخ تیار ک ر رکھ ا ہے (‬
‫‪ ) ۶۴‬وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار (‬
‫‪ )۶۵‬جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے ج ائیں گے کہیں گے اے ک اش ہم نے‬
‫هللا اور رسول کا کہ ا مان ا ہوت ا (‪ )۶۶‬اور کہیں گے اے ہم ارے رب ہم نے اپ نے‬
‫سرداروں اوربڑوں کا کہا مان ا س و انہ وں نے ہمیں گم راہ کی ا (‪ )۶۷‬اے ہم ارے‬
‫رب انہیں دگن ا عذاب دے اور ان پ ر ب ڑی لعنت ک ر (‪ )۶۸‬اے ایم ان وال و تم ان‬
‫لوگو ں جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسٰی کو ستایا پھر هللا نے موس ٰی ک و ان کی‬
‫باتوں سے بری کر دیا اور وہ هللا کے نزدیک بڑی عزت واال تھا (‪ )۶۹‬اے ایم ان‬
‫والو هللا سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (‪ )۷۰‬تاکہ وہ تمہارے اعمال کو درست‬
‫کرے اور تمہارے گناہ معاف کر دے اور جس نے هللا اور اس کے رسول کا کہنا‬
‫مان ا س و اس نے ب ڑی کامی ابی حاص ل کی (‪ )۷۱‬ہم نے آس مانوں اور زمین اور‬
‫پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اسکے اٹھ انے س ے انک ار ک ر‬
‫دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھ ا لی ا بے ش ک وہ ب ڑا ظ الم ب ڑا‬
‫ن ادان تھ ا (‪ )۷۲‬ت اکہ هللا من افق م ردوں اور من افق عورت وں اورمش رک م ردوں‬
‫اورمش رک عورت وں ک و عذاب دے اور م ومن م ردوں اورم ومن عورت وں پ ر‬
‫مہربانی کرے اور هللا معاف کرنے واال مہربان ہے (‪)۷۳‬۔‬
‫خت‬ ‫ن‬
‫م‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫سوال مب ر ‪3‬۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ے ی زت رآن و حدی ث کی رو ی می ں م بوت کی اہ میت ب ی ان‬ ‫بوت کا لوی و اصطالحی م ہوم ب ی ان یکج ی‬
‫ب‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ت ئ‬
‫ے۔( ‪)20‬‬ ‫ک‬ ‫ص‬
‫کرے ہ وے رسول ہللا ﷺ کی ت ا م اال ب ی ا ءپر سی ر حا ل حث یج ی‬

‫امام االنبیاء‪ ،‬سّیدالمرسلین‪ ،‬سرور کائنات‪ ،‬پیغمبر ٓاخر واعظم‪،‬حض رت محم د ﷺانس ان‬
‫کامل‪ ،‬انبیاؑء اور رسولوں کے امام اور ہللا تع الٰی کے ٓاخ ری پیغم بر ہیں ج و دنی ا‬
‫میں ہللا تع الٰی ک ا ٓاخ ری پیغ ام لے ک ر ٓائے اور ب نی ن وع انس ان کی رہنم ائی‬
‫ٓاپﷺ کا منصب ٹھہرا ‪،‬نہ صرف یہ‪ ،‬بلکہ ٓاپﷺ کو تم ام جہ انوں کے‬
‫لیے رحمت بن ا ک ر بھیج ا گی ا اور ہللا تع الٰی نے ٓاپﷺ ک ا ذک ر بلن د کردی ا۔‬
‫ارشاد باری تع الٰی ہے‪’’ :‬کی ا ہم نے ٓاپﷺ ک ا س ینہ نہیں کھ ول دی ا اور ٓاپ‬
‫ﷺسے ٓاپﷺ کا بوجھ ہم نے اتار دیا جس نے ٓاپﷺ کی پیٹھ‬
‫بوجھل کر دی تھی اور ہم نے ٓاپﷺ کا ذکر بلند کر دیا۔‘‘(سورۃ االنشراح)‬

‫کّر ٔہ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا‪ ،‬جب ہزاروں الکھوں مٔوذن ہللا کی توحید اور‬
‫حضوراکرمﷺ کی رس الت ک ا اعالن نہ ک ررہے ہ وں۔ٓاپ ﷺ ک و خ اتم‬
‫االنبیاء اور سّید المرسلین بنا ک ر مبع وث فرمای ا گی ا۔ ٓاپﷺ کے بع دنبوت و‬
‫رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہ و گی ا۔ ٓاپﷺ ہللا کے ٓاخ ری ن بی اور‬
‫قیامت تک پوری انسانیت کے ہادی و رہبر ہیں۔ ٓاپﷺ کو دیِن کامل عطا کیا‬
‫گیا۔ اب دیِن اسالم ہمیشہ کے لیے مکمل ہ و گی ا۔ یہ ای ک کام ل و مکم ل ض ابطٔہ‬
‫حیات اور قرٓان بنی نوع انسان کے لیے دائمی صحیفٔہ ہدایت ہے‪ ،‬جس میں کس ی‬
‫ترمیم اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔‬

‫رسوِل اکرم ﷺ کی پیغم برانہ خصوص یات میں س ب س ے اہم اور نمای اں خصوص یت‬
‫ٓاپﷺ کا امام االنبیاء‪ ،‬سّید المرس لین اور خ اتم النب یین ہون ا ہے‪ٓ ،‬اپﷺ‬
‫کی دعوت‪ٓ ،‬اپﷺ کی شریعت‪ٓ ،‬اپﷺ کا پیغام اور دیِن اسالم ٓافاقی اور‬
‫عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ ٓاپﷺ بنی نوع ٓادم اور پورے عالم انس و جن‬
‫کے ل یے دائمی نم ونٔہ عم ل اور ٓاخ ری ن بی بن ا ک ر مبع وث فرم ائے گ ئے۔‬
‫ٓاپﷺ پر دیِن مبین کی تکمی ل ک ر دی گ ئی۔ پ وری انس انیت ٓاپﷺ کی‬
‫اّم ت اور ٓاپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے ہادی و رہبر اور بش یر و‬
‫نذیر بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔‬

‫اس ابدی حقیقت کی وضاحت مندرجہ ذیل ٓایاِت قرٓانی میں بہ تمام و کمال کر دی گئی۔ ارشاِد‬
‫رّب انی ہے‪ ’’:‬اور ہم نے ٓاپﷺ ک و تم ام انس انوں کے ل یے خ وش خ بری‬
‫سنانے واال اور ٓاگاہ کرنے واال بنا کر بھیجا ہے۔ (ُسورٔہ سبا)‬

‫ارشاِد رّبانی ہے‪’’:‬کہہ دیجیے‪ ،‬اے لوگو‪ ،‬میں تم سب لوگوں کی طرف ہللا کا پیغ ام دے ک ر‬
‫بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (سورۃ االعراف)ایک اور مقام پ ر ارش اد ہ وا‪’’ :‬ب رکت واال ہے‬
‫وہ (ہللا) جس نے ح ق و باط ل میں امتی از ک رنے والی کت اب اپ نے بن دے‬
‫(محمدﷺ) پر نازل کی‪ ،‬تا کہ وہ دنیا جہ اں کے ل یے ہوش یار و ٓاگ اہ ک رنے‬
‫واال ہو۔‘‘ (سورۃ الفرقان)‬

‫ختِم نبوت کے حوالے سے رسوِل اکرم حضرت محمد ﷺ نے مختلف احادیث میں ی وں‬
‫بیان فرمایا ہے۔’’میں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام انسانوں کی ط رف‬
‫مبعوث کیا گیا ہوں۔ (مسنداحمد)‬

‫ایک موقع پر ٓاپﷺ نے ارش اد فرمای ا‪ ’’:‬میں (عم ومیت کے س اتھ) تم ام انس انوں کی‬
‫طرف بھیجا گیا ہوں‪ ،‬حاالں کہ مجھ سے پہلے جو نبی مبع وث ہ وئے‪ ،‬وہ خ اص‬
‫اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔‘‘‬
‫رسول ہللا ﷺ کا ارشاِد گرامی حضرت جابر بن عبدؓہللا سے روایت ہے‪’’:‬پہلے ہر ن بی‬
‫خاص اپنی قوموں کی طرف مبعوث کیے جاتے تھے‪ ،‬اور میں تمام انس انوں کے‬
‫لیے مبعوث ہوا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)‬

‫حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے انبی ائے ک راؑم تش ریف الئے‪ ،‬ان کی بعثت و رس الت‬
‫کسی خاص عہ د ی ا کس ی خ اص ق وم کے ل یے تھی‪ ،‬کس ی ن بی اور رس ول کے‬
‫مخاطب تمام انسان اور پوری دنیا کے لوگ نہیں تھے‪ ،‬رس وِل اک رم ﷺ کی‬
‫بعثت اور تکمیِل دین سے قب ل ن ازل ش دہ ٓاس مانی کتب بھی مخص وص عہ د کے‬
‫ل یے تھیں۔ ت اہم رس وِل اک رم ﷺ کی بعثت کے بع د سلس لٔہ نب وت و رس الت‬
‫ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ پر تمام اوصاِف کمال کے ساتھ ختم ک ر دی ا‬
‫گیا۔‬

‫اب ہدایت و راہ نمائی کا ابدی سرچشمہ قرٓاِن کریم ہللا کی ن ازل ک ردہ ٓاخ ری کت اب‪ ،‬رس وِل‬
‫اکرم ﷺ ٓاخری نبی اور ٓاپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات ‪ ،‬شریعِت محمدؐی‬
‫قیامت تک انس انیت کی ہ دایت و راہ نم ائی کی ض امن‪ ،‬دین و دنی ا میں فالح اور‬
‫ٓاخرت میں نجات کی یقینی ضمانت ہیں۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گ ئی کہ حض رت‬
‫محمد ﷺ کو ہللا تع الٰی نے ٓاخ ری ن بی بن ا ک ر پ وری انس انیت کی ہ دایت و‬
‫رہ بری کے ل یے دنی ا میں بھیج ا۔ ٓاپﷺ کے بع د نہ ک وئی ن بی ٓائے گ ا‪ ،‬نہ‬
‫کوئی نیا دین ٓائے گا‪ ،‬نہ کوئی ش ریعت ٓائے گی‪ ،‬نہ وحی ن ازل ہ و گی اور نہ ہللا‬
‫کا پیغام نازل ہوگا۔‬

‫’’ختِم نبوت‘‘اسالم ک ا بنی ادی عقی دہ ہے۔ ق رٓان و س ّنت‪ ،‬تعام ِل ُاّم ت‪ ،‬ص حابؓہ و ت ابعین اور‬
‫پوری ُاّم ت کا اس امر پر اجماع ہے کہ رسوِل اکرم ﷺ ک و ’’خ اتم الّنب یین‘‘‬
‫بناکر مبعوث فرمایا گیا‪ٓ ،‬اپﷺ پر دین کی تکمیل ک ردی گ ئی۔ٓاپﷺ ہللا‬
‫کے ٓاخری نبی‪ ،‬قرٓان ہدایت و راہ ُنمائی کا ٓاخری اور ابدی سرچش مہ اور یہ ُاّم ت‬
‫ٓاخری ُاّم ت ہے۔‬
‫قرٓان و سّنت میں اس حوالے سے بے ُش مار دالئل موجود ہیں۔ ُاّم ت کا اس امر پر اجماع ہے‬
‫کہ ’’عقیدٔہ ختِم نبوت‘‘ پر ایمان ایک ناُگ زیر اور الزمی دینی تقاضا ہے‪ ،‬جس ک ا‬
‫منکر کافر‪ُ ،‬م رتد اور دائرٔہ اسالم سے خ ارج ہے۔ ق رٓاِن ک ریم اور اح ادیِث نب وؐی‬
‫میں ختِم نب وت کے ح والے س ے بے ُش مار دالئ ل موج ود ہیں۔ چن اںچہ ’’ُس ورٔہ‬
‫اح زاب‘‘ میں پ وری وض احت اور ص راحت کے س اتھ یہ اعالن کی ا گی ا‬
‫کہ‪’’:‬محم دﷺ تمہ ارے م ردوں میں س ے کس ی کے ب اپ نہیں‪ ،‬لیکن وہ ہللا‬
‫کے پیغمبر اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ (سلسلٔہ نبوت و رسالت کو ختم ک رنے‬
‫والے ہیں)‬

‫رسوِل اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر سلسلٔہ نبوت و رس الت کے اختت ام کی ای ک‬


‫واضح دلیل یہ بھی ہے کہ ٓاپﷺ قیامت تک پوری انس انیت کے ل یے نج ات‬
‫دہندہ اور ہادی و رہبر بن اکر بھیجے گ ئے۔جب ٓاپﷺ کی ہمہ گ یر ش ریعت‪،‬‬
‫ختِم نبوت اور ٓاخری نب وت و رس الت ک ا اظہ ار ق رٓاِن ک ریم کررہ ا ہے‪ ،‬دین کی‬
‫تکمیل اور شریعِت محمدؐی کی ہمہ گ یری اور منش وِر ہ دایت ہ ونے ک ا اعالن ہللا‬
‫تعالٰی ُخ ود فرما رہا ہے‪ ،‬تو پھرکسی اور نبی کے تصورکا کیا جواز باقی رہ جات ا‬
‫ہے؟‬

‫قرٓان و سنت ‪،‬اجماِع اّم ت اور بنیادی اسالمی تعلیمات اس حقیقت پ ر گ واہ ہیں کہ عقی دٔہ ختم‬
‫دین کا بنی ادی ش عار ‪،‬رس التِ محم دیﷺ ک ا امتی از اور اس الم کے بنی ادی‬
‫عقائد میں سے ہے۔ جس پر ایم ان دین ک ا بنی ادی تقاض ا ہے۔اس عقی دے پرایم ان‬
‫کے بغیراسالم کا تصور بھی محال ہے۔‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪4‬۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے خ اص ہ ی ں۔ مث الی ں دی ں ی ز تعلما کرام ے آپ‬ ‫ری عت کے چک ھ احکام رسول ہللاﷺ کے لی‬
‫ن‬
‫ے اسے حری ر کی ج ی‬
‫ے۔ (‪)20‬‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫بی‬ ‫کمت‬ ‫ح‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ﷺ کا چ ار سے زی ادہ ش ادی اں کر‬

‫******ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟*******‬

‫اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسالم ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‬

‫قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے‬

‫’’چنانچہ تم ان عورتوں سے ش ادی ک رو ج و تمھیں اچھی لگیں دو دو‪ ،‬تین تین ی ا چارچ ار‬
‫(عورتوں) سے‪ ،‬لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے س اتھ) انص اف نہ‬
‫کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔‘‘ النساء ‪3/4 :‬‬

‫نزوِل قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیس یوں بیوی اں رکھ تے‬
‫تھے۔ اور بعض کی تو س ینکڑوں بیوی اں تھیں۔ لیکن اس الم نے بیوی وں کی تع داد‬
‫‪4‬تک محدود رکھی ہے۔ اسالم مرد ک و دو‪ ،‬تین ی ا چ ار عورت وں س ے نک اح کی‬
‫اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔‬

‫اسی سورت‪ ،‬یعنی سورئہ نساء کی ‪ 129‬ویں آیت کہتی ہے‪:‬‬

‫’’تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے۔‘‘النساء ‪129/4 :‬‬

‫اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ اس تثنا ہے۔ بہت س ے ل وگ یہ غل ط نظ ریہ‬
‫رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔‬
‫حّلت و حرمت کے اعتبار سے اسالمی احکام کی پانچ اقسام ہیں‬

‫٭ فرض‪ :‬یہ الزمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔‬

‫٭ مستحب‪ :‬اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔‬

‫٭ مباح‪ :‬یہ جائز ہے‪ ،‬یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔‬

‫٭ مکروہ‪ :‬یہ اچھاکام نہیں‪ ،‬اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔‬

‫٭ حرام‪ :‬اس سے منع کیا گیا ہے‪ ،‬یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعِث‬
‫ثواب ہے۔‬

‫ایک سے زیادہ شادیاں کرن ا م ذکورہ احک ام کے درمی انے درجے میں ہے۔ اس کی اج ازت‬
‫ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو‪ ،‬تین یا چار بیویاں ہیں‪،‬‬
‫ُاس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔‬

‫*عورتوں کی اوسط عمر‬

‫قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریبًا برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن ای ک بچی میں ای ک بچے‬
‫کی نسبت ق وِت م دافعت زی ادہ ہ وتی ہے۔ ای ک بچی بیم اریوں ک ا ای ک بچے کی‬
‫نسبت بہ تر مق ابلہ ک ر س کتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابت دائی عم ر میں لڑک وں کی‬
‫شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔‬

‫اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہالک ہ وتے ہیں۔ حادث ات اور ام راض‬
‫کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مرتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عم ر‬
‫بھی م ردوں کی نس بت زی ادہ ہے اور دنی ا میں رن ڈوے م ردوں کی نس بت بی وہ‬
‫عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔‬
‫عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے‬

‫امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریبًا ‪ 78‬الکھ زیادہ ہے۔ ص رف نیوی ارک‬
‫میں عورتیں مردوں سے ‪ 10‬الکھ زیادہ ہیں‪،‬نیز م ردوں کی ای ک تہ ائی تع داد ہم‬
‫جنس پرس ت ہے۔ مجم وعی ط ور پ ر ام ریکہ میں ہم جنس پرس توں کی تع داد‬
‫اڑھ ائی ک روڑ ہے۔ اس کاواض ح مطلب یہ ہے کہ ان لوگ وں ک و عورت وں س ے‬
‫شادی کی خواہش نہیں‪ ،‬اسی طرح برطانیہ میں عورت وں کی تع داد م ردوں س ے‬
‫‪ 40‬الکھ زی ادہ ہے۔ جرم نی میں م ردوں کی نس بت عورتیں ‪ 50‬الکھ زی ادہ ہیں‪،‬‬
‫اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں ‪ 90‬الکھ زیادہ‬

‫ہیں۔فی الجملہ ہللا تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنی ا میں مجم وعی ط ور پ ر خ واتین کی تع داد‬
‫مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔‬

‫*ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابِل عمل ہے‬

‫اگر ایک مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین ک روڑ عورتیں‬
‫بے ش وہر رہیں گی (یہ ب ات پیِش نظ ر رہے کہ اڑھ ائی ک روڑ ام ریکی م رد ہم‬
‫جنس پرست ہیں۔) اسی طرح ‪ 40‬الکھ برطانیہ میں‪ 50 ،‬الکھ جرمنی میں اور ‪90‬‬
‫الکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنھیں خاوند نہیں مل سکے گا۔‬

‫فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیر ش ادی ش دہ خ واتین میں س ے ہے ی ا‬
‫فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے ص رف‬
‫دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی ش ادی ش دہ م رد س ے ش ادی ک رے ی ا پھ ر ’’پبل ک‬
‫پراپ رٹی‘‘ (اجتم اعی ملکیت) ب نے۔ اس کے عالوہ اورک وئی راس تہ نہیں۔ ج و‬
‫عورتیں نی ک ہیں وہ یقین اپہلی ص ورت ک و ت رجیح دیں گی۔ بہت س ی خ واتین‬
‫دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسالمی‬
‫معاشرے میں جب صورتحال گمبھیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحِب ایمان عورت‬
‫اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کر سکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت‬
‫نہیں کر سکتی کہ ُاس کی دوسری مسلمان بہنیں ’’پبلک پراپرٹی‘‘ یعنی اجتماعی‬
‫ملکیت بن کر رہیں۔‬

‫شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے س ے بہ تر ہے۔ مغ ربی معاش رے میں عام‬
‫طور پر ایک شادی شدہ م رد اپ نی بی وی کے عالوہ دوس ری عورت وں س ے بھی‬
‫جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زن دگی بس ر ک رتی‬
‫اور عدِم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد ک و جس‬
‫کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا‪ ،‬ح االنکہ اس تع دِد ازواج کی‬
‫صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زن دگی بس ر‬
‫کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کے س امنے دو راس تے رہ ج اتے ہیں‪ :‬ی ا ت و وہ‬
‫شادی شدہ مرد س ے ش ادی ک رے ی ا ’’اجتم اعی ملکیت‘‘ بن ج ائے۔ اس الم پہلی‬
‫صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام ِد الت ا ہے اور دوس ری ص ورت‬
‫کی قطًعااج ازت نہیں دیت ا۔ اس کے عالوہ اوربھی ک ئی اس باب ہیں جن کے پیش‬
‫نظر اسالم مرد کو ایک س ے زی ادہ ش ادیوں کی اج ازت دیت ا ہے۔ ان اس باب میں‬
‫اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ن اموس ہے جس کی حف اظت اس الم کے‬
‫نزدیک فرض اور الزم ہے۔‬

‫تف ت‬ ‫ت‬ ‫خ ت‬ ‫ن‬


‫( ‪)20‬‬ ‫سورۃ الحدی د کی آ ری ی ن آی ات کا رج مہ و سی ر حریر یکج ی‬
‫ے۔‬ ‫سوال مب ر ‪5‬۔‬
‫میں گنہ گار جب بھی قرآِن حکیم کا مطالعہ کرتا تھا تو جو مقاماِت قرآنی ماضی کے‬
‫مطالعات کے دوران میری سمجھ میں نہیں آ رہے ہوتے تھے‪ ،‬ان آیات کو یا تو انڈر الئن‬
‫کر دیا کرتا یا حاشیہ پر سوالیہ نشان لگا دیا کرتا تھا۔ بعد میں اگر وہ مقامات سمجھ میں آ‬
‫پھیر دیا کرتا۔ یہ ’ایکسرسائز‘ بالعموم ماِہ رمضان میں )‪ (Whitener‬جاتے تو ان پر بلینکو‬
‫کی جاتی تھی۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ ایک پارہ پڑھا کرتا تھا۔ اس کی قرأت تو زیادہ‬
‫سے زیادہ آدھ گھنٹے میں ختم ہو جاتی لیکن اصل مشکل ترجمہ یا تفسیر پڑھتے وقت پیش‬
‫آتی۔ کئی آیات کا ترجمہ سر کے اوپر سے گزر جایا کرتا لیکن جوں جوں سیاق و سباق کی‬
‫تفصیالت سامنے آتی گئیں‪ ،‬میری ان مشکالت کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔‬
‫اول اول میں نے اپنی درست قرأت پر زور دیا۔ قاری خوشی محمد صاحب کی آواز میں‬
‫‪30‬کیسٹوں کا سیٹ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا۔ چنانچہ کیسٹ کی ایک سائیڈ صبح اور‬
‫دوسری سائیڈ شام (بعد از افطار اور تراویح) ٹیپ ریکارڈر پر لگا کر سن لیا کرتا۔ جب اس‬
‫طرح بار بار کی قرأت سننے کے بعد اعراب کی اشکال دور ہو گئیں تو اردو ترجمے کی‬
‫طرف متوجہ ہوا۔ ایسا کرتے ہوئے تفسیر والے حصے کو بالکل ہاتھ نہ لگاتا۔ تفسیر‪ ،‬میری‬
‫نظر میں قرآن کے مطالعہ کی تیسری سیڑھی ہے۔ یعنی پہلی قرأت‪ ،‬دوسری اردو ترجمہ‬
‫اور تیسری تفسیر…… میری ذاتی الئبریری میں قرآن کریم کی کئی تفاسیر ہیں جن کا ذکر‬
‫پھر کبھی سہی لیکن موالنا مودودی صاحب کی ”تفہیم القرآن“ میرے لئے ایک بیش بہا‬
‫تحفہ رہی ہے۔ اس کی چھ جلدیں اور ان پر حواشی میں جو ریمارکس میں نے سالہائے‬
‫گزشتہ کے مطالعہ کے دوران دیئے تھے۔ آج بھی میرے پاس ہیں۔ ان میں سے تقریبًا نصف‬
‫ایسے ہیں جن کی سمجھ میری مطالعاتی استطاعت سے باہر تھی۔(اور آج بھی تقریبًا وہی‬
‫عالم ہے)۔‬

‫حلیم عادل شیخ کو مزید ‪ 3‬مقدمات میں گرفتار کرلیا گیا‬

‫قرآن چونکہ خدا کی آخری الہامی کتاب ہے اور خاتم االنبیاء ﷺ پر نازل ہوئی‪ ،‬اس‬
‫لئے اس میں میرے ہر اس سوال کا جواب موجود ہے جو گاہے بگا ہے دوسری زبانوں کی‬
‫کتب کے مطالعہ کے دوران میرے ذہن میں اٹھا کرتے اور اس کا کوئی کافی و شافی‬
‫جواب اس وقت میرے ذہن میں نہیں آتا تھا۔‬
‫میں چونکہ ملٹری ہسٹری کا بھی ایک اوسط درجیب کا طالب علم ہوں اور رسالت مآؐب کی‬
‫عمِر مبارکہ کے آخری دس برس کفار سے جنگ و جدل میں گزرے اور اس عشرے میں‬
‫جو غزوات اور سریات لڑے گئے ان کی کمنٹری اور ان کے بارے میں جو تشریحات قرآِن‬
‫حکیم کی بعض سورتوں میں بیان فرمائی گئی ہیں‪ ،‬وہ میرے لئے از حد معلومات افزاء اور‬
‫مشعِل راہ تھیں۔ میں جب بھی جدید جنگوں کا مطالعہ کرتا اور ماڈرن سالِح جنگ کی ایجاد‬
‫و تشکیل اور ان کے اثرات و تاثیرات کو نبوؐی دور کے غزوات و سریات کے تناظر میں‬
‫دیکھتا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی کہ کاش کوئی خدا کا بندہ جناب مبارک صفی پوری‬
‫کی ”رحیق المختوم“ کی طرز کی اور تصنیفات بھی رقم کر دیتا! ایسی تصنیفات کی‬
‫ضرورت نہ صرف عربی‪ ،‬فارسی اور اردو زبانوں میں تھی بلکہ انگریزی میں بھی تھی‬
‫(اور ہے)‬
‫اگلے روز دوراِِن مطالعہ‪ ،‬میری نظر سورہ الحدید پر پڑی۔ یہ قرآن کریم کی ‪57‬ویں سورہ‬
‫ہے اور اس کی آیت نمبر‪25‬کا ترجمہ ہے‪” :‬ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں‬
‫اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر‬
‫قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں۔ یہ اس لئے کیا‬
‫گیا ہے کہ ہللا کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں‬
‫کی مدد کرتا ہے اور یقینًا ہللا بڑی قدرت واال اور زبردست ہے“۔‬

‫فیض ٓاباد دھرنا کیس‪ ،‬سابق ڈی جی ٓائی ایس ٓائی فیض حمید کو طلب کرنے کی تیاریاں‬

‫اس آیت (نمبر‪ )25‬کو میں نے زیِر لکیر کر رکھا تھا اور حاشیہ پر سوالیہ نشان بھی اب‬
‫تک موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس آیہء مبارکہ کی سمجھ نہیں آ سکی۔ اس‬
‫‪:‬اشکال کی کئی وجوہات تھیں۔ مثًال‬

‫۔ لوہا‪” ،‬اتارا“ (انزلنا) کیوں فرمایا گیا اور ”پیدا کیا“ (خلقنا) کیوں ارشاد نہیں فرمایا گیا؟‪1‬‬

‫۔ اس لوہے میں کون سا ”بڑا زور“ ہے؟‪2‬‬

‫۔ لوگوں کے لئے اس میں جو منافع بیان فرمائے گئے ہیں‪ ،‬وہ کیا ہیں؟‪3‬‬
‫۔ ان منافعات کے نتیجے میں اور ان کے سبب ہللا کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض‪4‬‬
‫لوگ ایسے بھی ہیں جو ہللا کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے فرستادہ رسولوں کی مدد‬
‫کرتے ہیں؟‬
‫اس آیت کو جب اس سورہ کے زمانہ ء نزول کے تناظر میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو درج‬
‫باال سواالت کی تفہیم اور بھی ضروری ہو جاتی ہے (کم از کم میرے نزدیک……) موالنا‬
‫مودودی صاحب نے اس سورہ کا زمانہ ء نزول جنِگ احد اور صلِح حدیبیہ کے درمیان‬
‫متعین کیا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب اسالمی ریاست کو سخت مشکالت کا سامنا تھا اور پورے‬
‫عرب کی قوت‪ ،‬اہل ایمان کا مقابلہ کر رہی تھی…… یہ زمانہ سن ‪4‬ہجری اور سن ‪5‬ہجری‬
‫کے درمیان کا زمانہ ہے۔‬

‫سونے کی بڑھتی قیمت نہ رک سکی‪ ،‬مزید مہنگا ہوگیا‬

‫مودودی صاحب نے تین صفحات پر مشتمل اس سورہ کے دیباچے میں اس امر پر کوئی‬
‫روشنی نہیں ڈالی کہ اس کا نام ’الحدید‘ کیوں رکھا گیا اور نہ ہی اس دیباچے میں ’حدید‘‬
‫والے لفظ پر کوئی تبصرہ کیا ہے…… یہی بات میرے لئے باعِث حیرت اور وجہ استفسار‬
‫کرکے اس کے ساتھ ایک بڑا ‪ Under Line‬تھی اور میں نے اسی لئے آیت نمبر‪25‬کو‬
‫سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ میں آج تک اس آیہ کے مفہوم کی جامعیت کا سراغ لگانے‪،‬‬
‫مسلمانوں کے ’حدید‘ سے بچھڑنے اور غیر مسلموں کے حدید سے عہِد وفا باندھنے کی‬
‫بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں۔‬
‫میرا پہال سوال یہ تھا کہ لوہا ’نازل‘ کیوں کیا گیا جبکہ اس کے لئے ’تخلیق‘ کیا گیا موزوں‬
‫تر لفظ تھا۔ بعض شارحین نے لوہے کو آسمان سے اتارے جانے کے موضوع سے منسلک‬
‫کیا ہے۔ چونکہ یہ ایک مشکل اور بسیط سائنسی نکتہ ہے اس لئے اسے اس مختصر سے‬
‫آرٹیکل میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مودودی صاحب نے ”َانزَل “ کا لفظ قرآن حکیم میں‬
‫ایک اور مقام پر بھی ”پیدا کرنے“ کے مفہوم میں بیان کرکے اس مشکل کا بڑی حد تک‬
‫……ازالہ کر دیا ہے۔(دیکھئے سورہ ”الزمر“ کی آیت نمبر‪)6‬‬
‫ایک اور بالی وڈ سٹار کے مجسمے مادام تساؤ میوزیم کی زینت بن گئے‬

‫میرا دوسرا سوال لوہے کے اندر چھپے زور اور قوت کے بارے میں تھا۔ یہی وہ زور ہے‬
‫جس کو مسلم امہ نے فراموش کر دیا اور غیروں نے اس کو اپنا لیا…… دفاعی صنعت کی‬
‫تاریخ لکھنے والوں نے اس کے تین ادوار مقرر کئے ہیں۔ ایک دور ’پتھر کا دور‘ کہالتا‬
‫ہے‪ ،‬دوسرا ’لوہے‘ کا اور تیسرا ’بارود‘ کا۔ بعض جدید مورخین نے چوتھے دور کا ذکر‬
‫بھی کیا ہے اور اسے ’جوہری‘ دور کے نام سے موسوم کیا ہے۔ لیکن مورخین کی غالب‬
‫تعداد نے جوہری بارود کو غیر جوہری بارود ہی کا تسلسل قرار دیا ہے اور اسے ایک الگ‬
‫عنصر کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دفاعی صنعت کے ان تین ادوار میں‬
‫لوہے کا دور اہم ترین بھی ہے اور طویل ترین بھی…… آج بھی بارودی دور کی پیدائش و‬
‫افزائش لوہے کے دور ہی کی مرہوِن منت ہے۔‬
‫جہاں تک لوہے میں زور اور قوت کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں‬
‫کہ لوہا‪ ،‬انسان کا ماضی میں بھی دمساز تھا‪ ،‬حال ہی میں بھی ہمراہی ہے اور مستقبل میں‬
‫بھی شریِک سفر رہے گا۔ مغربی عسکری لٹریچر میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں‬
‫کی دلچسپ اور عہد وار تاریخ بیان کی )‪ (Iron Age‬موجود ہیں جن میں لوہے کے دور‬
‫گئی ہے۔ میری الئبریری میں عہِد حاضر کے ایک بڑے عسکری مورخ کی ایک کتاب‬
‫یہ پروفیسر سر جان کیگن کی ‪: A History of Warfare‬موجود ہے جس کا عنوان ہے‬
‫مشہور تصنیف ہے۔ وہ ‪1934‬ء میں پیدا ہوا اور ‪78‬برس کی عمر میں ‪2012‬ء میں اس کا‬
‫انتقال ہو گیا۔ وہ ‪26‬برس تک (‪86-1960‬ء) رائل ملٹری اکیڈمی سیندھرسٹ میں کیڈٹس کو‬
‫ملٹری ہسٹری کا درس دیتا رہا۔ریٹائرمنٹ کے بعد ‪1986‬ء میں ”ڈیلی ٹیلی گراف“ اخبار‬
‫میں دفاعی نامہ نگار کے طور پر بھرتی ہوا اور اپنے انتقال تک وہیں کام کرتا رہا۔ یعنی‬
‫!اس کی ملٹری سروس بھی ‪26‬برس تھی اور صحافتی سروس بھی ‪26‬برس تھی‬

‫ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا‪ ،‬قاتل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان‬
‫تھے‪ :‬بالول‬
‫جان کیگن کی کتاب ”جنگ و جدال کی تاریخ“ اس کی ایک معرکہ آراء تصنیف ہے۔ اس‬
‫ہے۔ )‪ (Readable‬کے ‪432‬صفحات ہیں‪ ،‬باتصویر ہے اور انتہائی دلچسپ اور خواندنی‬
‫اس کتاب میں اس نے جنگ کے تین ادوار مقرر کئے ہیں۔ پتھر‪ ،‬لوہے اور بارود کے ادوار‬
‫پاکستان کے( کو ‪ 70،70‬صفحات میں یکساں حجم اور تفصیل کے ساتھ ڈسکس کیا ہے۔‬
‫کسی مخیر صاحِب دل سے درخواست ہے کہ اس کا اردو ترجمہ کروا کر پاکستانی پبلک‬
‫تو اس سلسلے میں بقول شیخ رشید دخیا‪ ISPR‬یا‪ GHQ‬کی دفاعی معلومات میں اضافہ کریں۔‬
‫)!‪ /‬سّتو پی کر سویا ہوا ہے‬
‫اس سورہ (حدید)کی آیہ نمبر‪ 25‬کے سلسلے میں میرا چوتھا سوال بھی بہت اہم ہے کہ قرآن‬
‫کریم کی اس آیت میں ”لوگوں“ کے لئے جن منافع کا ذکر کیا گیا ہے‪ ،‬وہ کیا ہیں ……‬
‫لوہے کا ایک تو سویلین استعمال ہے جس کی ہزار جہتیں ہیں۔ کون سی ایسی جدید صنعت‬
‫ہے جس میں حدید استعمال نہیں ہوتا؟…… اور یہ حدید‪ ،‬دفاعی صنعت میں بھی ریڑھ کی‬
‫ہڈی شمار ہوتا ہے…… وائے افسوس کہ ہم سے ایک سٹیل مل تک سنبھالی نہ جا سکی‬
‫بیرونی ملکوں سے درآمد‪ Billets‬اور ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کارخانے لوہے کی‬
‫کے سب سے زیادہ ذخائر آسٹریلیا میں پائے )‪ (Iron Ore‬کررہے ہیں۔ دنیا میں خام لوہے‬
‫جاتے ہین‪ ،‬دوسرے نمبر پر چین اور تیسرے پر برازیل ہے۔‬

‫ننکانہ میں مسافر بس الٹ گئی‪ 8 ،‬مسافر شدید زخمی‬

‫صنعتی انقالب النے کے لئے جن معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے ان میں کوئلہ‪ ،‬تیل اور‬
‫لوہا پیش پیش ہیں۔ اسی لئے تو اس آیہء کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ لوہے میں جو منافعات‬
‫ہیں ان کے سبب ”ایسے لوگ بھی ہیں جو ہللا کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے فرستادہ‬
‫رسولوں کی مدد کرتے ہیں“…… یہ لوگ کون ہیں؟…… یہ وہی مجاہدین تو ہیں جنہوں‬
‫نے اسالم کے اولین ایام میں غزوات و سریات لڑ کر اسالم کو سطوت و عظمت عطا‬
‫!کی…… عہِد موجود میں یہی لوگ مسلم ممالک کی ’افواج‘ کہالتے ہیں‬
‫لوہا(حدید) نہ ہو تو کوئی فوج کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ لوہے میں بذاِت خود شاید کوئی‬
‫قوت نہ ہو کہ وہ ایک بے جان دھات ہے۔ اسی لئے خدا نے لوہے کے ساتھ ’لوگوں‘ کو‬
‫جوڑ کر اس کو وہ قوت عطا کر دی ہے جو دنیا بھر کی افواِج قاہرہ کا بنیادی پتھر‬
‫ہے…… اس لوہے کے انبار کی قدر و قیمت کیا ہے یہ سوال کسی بھی سٹیل مل کے‬
‫مالک سے پوچھ کر معلوم کریں یا کسی بھی اسلحہ ساز فیکٹری میں چلے جائیں اور ان‬
‫سے پوچھیں کہ وار ٹیکنالوجی کے لئے جن ہلکے اور بھاری اسلحہ جات کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے اس کی ابجد کہاں سے شروع ہوتی ہے…… آپ کو سورۂ حدید کی اس آیہ کی‬
‫!!!تفسیر اور اہمیت و افادیت معلوم ہو جائے گی‬

You might also like