Professional Documents
Culture Documents
بادشاہی مسجد - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
بادشاہی مسجد - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
بادشاہی مسجد 1673میں اورنگزیب عالمگیر نے الہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک
شاندار مثال ہے اور الہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسالم آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری
بڑی مسجد ہے ،جس میں بیک وقت 60ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے
بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648میں تعمیر کروائی تھی۔
بادشاہی مسجد
بنیادی معلومات
31°35′17.07″N متناسقات
74°18′36.45″E (http
s://tools.wmflabs.or
g/geohack/geohack.
php?pagename=%D
8%A8%D8%A7%D8%
AF%D8%B4%D8%A
7%DB%81%DB%8C_%
D9%85%D8%B3%D
8%AC%D8%AF¶
ms=31_35_17.07_N_
74_18_36.45_E_regio
_n:PK_type:landmark
)scale:5000
پاکستان ملک
اورنگزیب سربراہی
تعمیراتی تفصیالت
تفصیالت
100,000 گنجائش
3 گنبد
تاریخ
ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے
اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین ،جن کو فدائی خاں کوکہ بھی کہا جاتا تھا ،کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔
1671ء سے لے کر 1673ء تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا ،جس
سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے
کے سامنے شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا ،جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔
فن تعمیر
سید لطیف نے اپنی کتاب میں مسجد کا طرز تعمیر اس وقت حجاز (موجودہ سعودی عرب) میں موجود مکہ مکرمہ کے
مقام پر ایک مسجد الوالد سے متاثر بیان کیا ہے۔ اگر ہندوستان میں دیگر تاریخی مساجد کے طرز تعمیر کا بغور مطالعہ
کیا جائے تو اس مسجد کا طرز تعمیر کافی حد تک جامع مسجد فتح پور سیکری سے مماثلت کھاتا ہے۔ یہ مسجد
حضرت سلیم چشتؒی کے عہد میں 1575-1571ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد‘
دہلی کی جامع مسجد ’’جہاں نما‘‘ ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1656-1650ء میں تعمیر کی تھی۔ پہلی نظر
میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں
تھے۔ یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی مسجد الہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔
دہلی اور الہور کی بادشاہی مسجد کی مماثلت کے بارے میں تحریر انگریز سرکار کے عہد میں چھپے الہور گیزئٹیر نمبر
84-1883ء کے صفحہ نمبر( )176-175پر بھی ملتی ہے۔ اس میں ان دونوں مساجد کو جامع مسجد کے نام سے تحریر
کیا گیا۔ لیکن طرز تعمیر میں نفاست کے حوالے سے جامع مسجد دہلی کو زیادہ بہتر مانا گیا۔ روایات کے مطابق دہلی کی
جامع مسجد پر اخراجات دس الکھ روپے آئے تھے جو الہور کی مسجد سے چار الکھ زائد تھے جبکہ الہور کی مسجد
[]1
صرف دو برس کی قلیل مدت میں تعمیر ہو گئی تھی اور دہلی کی مسجد پر پانچ برس سے زائد کا عرصہ لگا۔
مرمت
جوں جوں وقت گزرتا گیا ،مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850سے اس کی مرمت کا آغاز
ہوا ،لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960میں مکمل کی گئی جن پر
48الکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
خاص واقعات
22فروری1974 ،ء کو الہور میں منعقدہ دوسری اسالمی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39سربراہاِن مملکت نے جمعہ
کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
خطیب
غالم مرشد
عبدالقادر آزاد
نگار خانہ
حوالہ جات
r.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%A8%D8%
A7%D8%AF%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C_%
)D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF&action=edit
کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
سانچہ:الہور میٹرو
ویکی ذخائر پر بادشاہی مسجد سے متعلق سمعی و
بصری مواد مالحظہ کریں۔