Professional Documents
Culture Documents
1906 - 01 Au
1906 - 01 Au
سوال نمبر۔1
علم کا مفہوم واضح کریں نیز علم کے بارے میں محدثین وفقہا اور متکلمین کی آرا کا مفصل جائزہ لیں۔
تعریف کی علم
:گویا ہیں کے ،،جاننا’’ معنی کے جس ہے ،،م ل ع’’ مادہ کا علم سے اعتبار فنی
سے لینے جان کو حقیقت کسی موجود میں خارج عالم جو ہے تصور اور قضیہ ذہنی ایسا ایک علم یعنی
کے جس اور ہو مشتمل پر بہ محکوم اور محکوم جو ہے ہوتا پر قضیے ایسے اطالق کا علم ہے۔ عبارت
کہ ہیں سکتے کہہ ہم لہذا ،ہو ہوئی بیان میں قضیے جیسی ہو موجود حقیقت ہی ایسی میں خارج متوازی
کے خارج موجود اور ہو وجوبی اور کلی جو گا کہالئے علم قضیہ وہی ،سکتا ہو نہیں علم قضیہ ہر
ہو۔ مصداق کا صحت سے حوالے
علم ارکان
المخلوقات اشرف درجہ اور امتیاز یہ ہے۔ کہالتا ناظر وہ ہے چاہتا جاننا میں بارے کے علم شخص جو
کچھ یعنی ،ہیں کہتے بھی علم طالب میں اصطالح معروف اسے ہے۔ حاصل کو انسان حضرت یعنی
علم کلی شخص کوئی ہے۔ بیکراں بحر ایک علم ہے۔ کہالتا علم طالب واال رہنے میں جستجو کی جاننے
جا کہا عالم اسے تو لے جان کچھ نہ کچھ جب طالب کا علم البتہ سکتا کر نہیں دعویُ کا لینے کر حاصل
ہے۔ سکتا
یہ خواہ ،ہے ہوسکتی ) (Realityحقیقت کوئی مراد سے اس ہو۔ رہا جا جانا جسے ہے شے وہ منظور
حقائق و موجودات مادی غیر اور مادی کے اس اور بو و رنگ کائنات یہ حسی۔ یا ہو رکھتی وجود عقلی
ہیں۔ رکھتے درجہ کا منظور
کی جاننے کو چیز کسی میں اس ہے رہا کر ) (Observationمشاہدہ جو ناظر کہ ہے یہ مراد سے اس
کے جس حقیقت وہ( منظور اگر ہے۔ رکن تیسرا یہ کا علم ہے۔ موجود قدر کس استعداد اور اور صالحیت
چاہئے ہونی حاصل استعداد کی خمسہ حواس کو ناظر تو ہو کی نوعیت حسی )ہو رہا جا جانا میں بارے
منظور اگر برعکس کے اس سکے۔ لے میں ادراک حیطہ اپنے کو چیز اس سے خمسہ حواس وہ تاکہ
عقلی بغیر کے استعداد اس ہے۔ ضروری ہونا کا عقلی استعداد میں ناظر تو ہو کا نوعیت عقلی )(Object
لئے کے اس کہ ہو ایسا Objectمنظور اگر نہیں۔ ممکن آنا میں ادراک حیطہ کا Objectکے نوعیت
سے صالحیتوں ان چاہئے۔ ہونا حامل کا استعداد وجدانی ہی ایسی بھی کو ناظر تو ہے ضروری وجدان
استعداد اس کا آدمی عام ہے۔ خاصہ کا انبیاء صرف اور صرف جو ہے کی وحی استعداد ایک بھی باالتر
العزت رب ہللا جو ہے ) (God Giftedعطائی پر طور کلی صالحیت یہ نہیں ہی ممکن ہونا ور بہرہ سے
ہے۔ مختص سے رسولوں اور انبیاء کے
اور اصلیت وہ مراد سے اس ہے۔ ) (Objectivityمنظوریت رکن آخری اور چوتھا میں ارکان کے علم
کہ ہو قابل اس وہ کہ ہے الزم لئے کے حقیقت اس ہے۔ جاتی کی کوشش کی جاننے جسے ہے مقصدیت
سکے۔ ہو معلوم سے استعداد مخصوص بھی کسی کی ناظر
کی آیات پانچ پہلی کی علق سورہ ہم اب بعد کے توضیح و تشریح کی ارکان کے اس اور تعریف کی علم
ہیں۔ کرتے واضح کو علم تصور کے اسالم میں روشنی کی تفہیم
کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حضور امین جبرئیل جب میں خلوتوں کی حرا غار کو المبارک رمضان 17
وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی محبوب اپنے العزت رب ہللا ذریعہ کے وحی تو ہوئے حاضر میں اقدس خدمت
:ہوا ہمکالم میں الفاظ ان سے
اس oفرمایا پیدا )کو چیز ہر( نے جس پڑھئے )ہوئے کرتے آغاز( سے نام کے رب اپنے )!حبیب اے(
ہی بڑا رب کا آپ اور پڑھیئے oکیا پیدا سے وجود معلّق طرح کی جونک )میں مادر ِ
رحمُ( کو انسان نے
عالوہ کے اس( کو انسان نے جس oسکھایا علم )کا پڑھنے لکھنے( ذریعے کے قلم نے جس oہے کریم
مصطفیُ محمد( انسان )رتبہ بلند سے سب( نے جس :-یا( تھا۔ جانتا نہیں وہ جو دیا سکھا )کچھ( وہ )بھی
)oتھے جانتے نہ پہلے وہ جو دیا فرما عطا علم سارا وہ )کے قلم ذریعہ بغیر( کو )وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی
)، 96 : 1 - 5العلق(
اسے تھا جانتا نہیں کچھ انسان گویا گیا۔ کیا نازل کر دے پیغام کا علم میں جن ہیں مقدسہ آیات پانچ وہ یہ
کی عطا روشنی اسے گیا۔ الیا میں دامن کے اجالوں سے اندھیروں اسے ،لگا جاننے وہ ،گیا کیا عطا علم
رحمت حضور نے کائنات رب ذریعہ کے آیات باال مذکورہ ہے۔ نام کا سفر کے روشنی آگہی و علم ،گئی
ذہن دیا۔ کر منسلک سے تعلیم سلسلہ ایک باقاعدہ کو آدم نسل سے توسط کے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی عالم
غار سکول پہال سے سب میں اسالم تاریخ گویا کئے۔ روشن چراغ گنت ان کے آگہی و شعور میں انسانی
محمد حضرت االنبیاء سید شرف کا ہونے علم طالب واحد کے سکول اس ہوا۔ قائم میں خلوتوں کی حرا
باال مندرجہ ٹھہرے۔ کائنات خالق خود مربی و استاد اور ہوا نصیب کو وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی مصطفیُ
اور سائنسی تو کریں تیار خاکہ سا اجمالی ایک اور لیں جائزہ کا مشموالت اور مندرجات کے مقدسہ آیات
:ہیں ہوتے مرتب عنوانات تین ذیل مندرجہ سے اعتبار اعتقادی
تصور ۔1
ُِ ) (Concept of Creationتخلیق
تخلیق ۔2
ُِ ) (Human Creationانسانی
ہے سے حوالے کے علم موضوع چونکہ ہمارا ،ہیں نہیں بحث زیر ہمارے چونکہ موضوعات باال مندرجہ
کریں گفتگو پر موضوعات چھ ذیل درج سے حوالے کے علم تصور کے اسالم میں مبارکہ آیات ان ہم لہذا
گے۔
ہے؟ کیا مقصد کا اس اور ہے ضروری کیوں کرنا حاصل علم :علم مقصد
Name: Najma Mubarak
روشنی پر موضوع اس سے حوالوں کن اسالم اور ہے کیا نصاب کا علم تصور کے اسالم :علم نصاب
ہے۔ ڈالتا
چاہیے؟ ہونا کیا علم نتیجہ بعد کے شعور اکتساب اور علم حصول :علم نتیجہ
نشاندہی؟ کی ماخذات کے علم ،ہو ذریعہ کیا کا حصول کے علم :علم ذریعہ
ہو؟ کیا منتہا یا وسعت ،حد کی علم :علم وسعت یا علم حد
کی درج میں ذیل تفصیالت کی ان ہے۔ گیا دیا کر میں مبارکہ آیات ان تعین واضح کا عنوانات باال مندرجہ
:ہیں جاتی
اور لفظ جس آغاز کا وحی کہ گا ہو معلوم تو جائے کیا غور سا تھوڑا اگر پر آیت پہلی کی مبارکہ سورہ
نے ذوالجالل خدائے کہ ہوا یہ مطلب کا آغاز حرف اس ہے۔ سے پڑھنے تعلق کا اس ہے رہا ہو سے کلمہ
سے جہاں ہے قدم پہال وہ ہی علم حصول لہذا ہے کیا سے حکم کے علم تحصیل ہی آغاز کا ہدایت اپنی
مرتبہ تو ہیں کرتے غور پر الفاظ آخری کے آیت پانچویں ہم جب طرح اسی ہے۔ ہوتا آغاز کا نبوت مرتبہ
نبوت کہ ہیں سکتے کہہ سے اعتبار ایک گویاہم ہے۔ آتی نظر ہوتی ہی پر علم حصول بھی انتہا کی نبوت
لہذا ،ہے میں دامن کے ہی علم بھی وہ ہے کچھ جو باقی اور ہے ہی علم منتہابھی اور ہے علم بھی آغاز کا
لئے کے فروغ کے آسمانی ہدایت ،ہے آتی سامنے کر کھل حقیقت کی لکھنے پڑھنے اور علم سے اس
ترغیب کی جہاد مسلسل خالف کے اندھیروں کے جہالت اور ہے ہوتا اندازہ کا اہمیت کی علم حصول
ہے۔ ملتی
تھوڑا یعنی ،ہے نہیں نام کا ) (Literacyخواندگی محض تعلیم اور علم کہ چاہئے رہنی نشین ذہن بات یہ
حاصل عبور زیادہ تھوڑا پر ) (Professional Aspectsپہلوؤں وارانہ پیشہ مختلف یا لینا لکھ پڑھ زیادہ
پوری ابرکرم کا علم کہ ہے منصب اور مقصد بڑا اتنا یہ ہے۔ نہیں بالذات مقصود نفسہ فی وغیرہ لینا کر
نہیں۔ شے کوئی خارج سے علم دامن میں باال و پست کائنات اس ہیں سکتے کہہ ہم ہے محیط پر کائنات
میں مقدسہ آیت پہلی کہ ہے یہ بات غور قابل لیکن ،ہے میں علم دائرہ شے ہر کی زمینوں اور آسمانوں
:کہ ہے رہا جا کیا بیان سے حوالے کے علم تحصیل
)، 96 : 1العلق(
رب آغاز کا لکھنے پڑھنے اپنے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حبیب پیارے میرے کہ ہے خداوندی ارشاد
علم وہی نزدیک کے تعالیُ ہللا کہ ہے ہوتی واضح بات یہ سے اس کیجئے۔ سے نام بابرکت کے کائنات
یعنی ،ہوا سے نام بابرکت کے ذوالجالل خدائے آغاز کا تحصیل کی جس گا کرے حاصل قبولیت شرف
مرکزی کو نظریے اور عقیدے اسالمی میں جس اور جائے رکھی پر نام کے ہللا بنیاد کی جس علم ایسا
سے کرنے حاصل علم کہ ہے ضروری وضاحت کی امر اس یہاں ہو۔ حاصل ) (Central Statusحیثیت
جاتے آ میں کار دائرہ کے اس بھی علوم سائنسی تمام بلکہ نہیں ہی حصول کا علوم روحانی اور دینی مراد
کہ ہے عادل و شاہد اسالم تاریخ ہے۔ آتا میں زمرے کے علم بھی حصول کا ٹیکنالوجی ترین جدید ہیں۔
کے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی مرتبت ختمی حضور کر ڈال بنیاد کی علوم سائنسی نے سائنسدانوں مسلمان
کہ کیا عمل پورا پورا پر فرمان اس
الصِّین َولَوُْ ْال ِع ْل َُم ْ
أطلِبوا ُِ ْضةُ ْال ِع ْل ُِم طَلَبُ فَا ِ َُّ
ن بِ .م ْسلِمُ کلُِّ عَلی فَ ِری َ
ہے۔ فرض پر مسلم ہر کرنا حاصل علم شک بے پڑے۔ جانا چین خواہ کرو حاصل علم
جدید سفر یہ کا کائنات ہے۔ رہی جا دی ترغیب کی کائنات تسخیر جابجا میں حکیم قرآن ساتھ ساتھ کے اس
کی اس اور رضا کی ہللا بھی حصول کا جدیدہ علوم البتہ نہیں۔ ممکن بغیر کئے حاصل مہارت میں علوم
گی۔ ہو عطا کو علم اسی بھی سند کی اعتبار اور چاہئے ہونا لئے کے کرنے حاصل خوشنودی
کو نظریے و عقیدے اسالمی اور گا ہو سے نام پاک کے العزت رب ہللا آغاز کا تحصیل کی علم جس
صحیح علم وہی لہذا گی۔ ہو نصیب معرفت کی تعالی ہللا ذریعے کے علم اس گی ہو حاصل مرکزیت
کر عطا معرفت کی ہللا ،دے کر نزدیک کے خالق و مالک اپنے کو انسان جو گا کہالئے علم میں معنوں
اس میں تعمیل کی حکم کے اس آخرکار اور دے کر عطا رسائی تک اس اور بندگی حقیقی کی اس ،دے
وہ ہے جاتا لے دور سے رب اپنے کو بندے جو علم ایسا برعکس کے اس آئے۔ لے تک نفاذ کے حکم کے
عملی اور علمی کو اذہان انکشافات سائنسی ترین جدید اور علوم ترین جدید نہیں۔ علم نزدیک کے ہللا
کا دماغ و دل کھلے جو سائنسدان ایک ہیں۔ آتے لے قریب بہت کے حقیقی خالق اپنے سے حوالوں دونوں
کو علم مرتبہ جاننا وہی لیکن ہے جاننا تعریف کی علم گو ہے۔ ہوتا پرست توحید پر طور بنیادی ہو مالک
بنے۔ باعث کا الہی قرب جو اور آئے میسر گوہر کا شناسی خدا سے حصول کے جس ہے پہنچتا
Name: Najma Mubarak
جاننا وہی کہ دیکھا نے ہم ہے؟ جہالت نام کا جاننے نہ کچھ کیا ہے؟ کیا جہالت کہ ہے ہوتا پیدا سوال اب
سے خدا جاننا جو لہذا ہے دیتا پتہ کا معرفت کی رب کے اس کو انسان جو ہے علم میں نظر کی اسالم
بن نہ ذریعہ کا معرفت کی اس اور شناسائی و آگاہی سے خدا ،قرب کے خدا علم جو اور دے کر دور
حامل کا ڈگریوں شمار بے شخص کوئی اگر سے اعتبار دنیوی ہے۔ جہالت میں حقیقت نہیں علم وہ سکے
ہی جاہل بھی کر ہو عالم شخص وہ تو دے کر بیگانہ سے معرفت کی ہللا اسے علم یہ کا اس لیکن ہو
وہ کہ کہتے نہیں ابوجہل لئے اس کو ابوجہل ہے۔ جہالت بلکہ نہیں علم ،علم وہ کا اس اور گا کہالئے
ابوجہل اسے لیکن تھا کہالتا شخص لکھا پڑھا سے اعتبار کے وقت اس وہ بلکہ تھا جانتا نہیں پڑھنا لکھنا
علم تصور کے اسالم کہ لئے اس سکا بن نہ ذریعہ کا الہی معرفت جاننا کا اس کہ ہے جاتا کہا لئے اس
ہے۔ ہوتا سے معرفت کی ہللا ہی آغاز کا علم حصول میں
ہو نصیب الہی قرب اور ،آئے میسر الہی معرفت سے جس علم وہ ہر کہ پاگئی طے بات بنیادی یہ جب
،القرآن علم صرف تو گے کریں تقسیم کی علوم ہم جب سے اعتبار اس تو ہے علم وہی میں معنوں صحیح
نہیں علوم دینی ہی وغیرہ التصوف اورعلم الصرف علم ،النحو علم ،الفقہ علم ،الحدیث علم ،التفسیر علم
کیمیا (Psychology)،نفسیات (Physics)،طبیعیات (Biology)،حیاتیات بلکہ گے ٹھہریں
تاریخ (Economics)،معاشیات (Sociolgy)،عمرانیات (Politics)،سیاسیات (Chemistry)،
سائنسز کمپیوٹر (Nuclear Technology)،نیوکلئیرٹیکنالوجی (Law)،قانون (History)،
(Massابالغیات اور ) (Commerceتجارت (Management)،انتظامیات (Computer Sciences)،
ان کہ ہے یہ صرف شرط گے۔ ہوں شمار میں زمرے کے علوم دینی بھی علوم کے )Communication
لہذا ،بنیں وسیلہ کا الہی قرب اور الہیہ معرفت علوم یہ اور ہو رضا کی ہللا مقصود سے حصول کے علوم
کا ہللا ذریعہ کے علم مقصد کا اس اور کرے سے نام کے ہللا آغاز کا علم حصول اپنے جو شخص وہ ہر
دین وہ ہو رہا کر حاصل علم میں شعبے بھی کسی ،خطے بھی کسی کے دنیا وہ تو ہو کرنا حاصل قرب
دامن اپنے سے اعتبار کسی نہ کسی گوشہ ہر ہر کا علوم تمام ان کیونکہ گا کہالئے ہی علم طالب کا الہی
کی خدا کو ہی تالش کی حق حرف ہے۔ رکھتا ضرور صورت کوئی نہ کوئی کی معرفت کی خدا میں
علوم دیگر کے دنیا ساتھ کے توانائیوں جملہ کی سلیم عقل انسان کوئی اگر ہے۔ جاتا کیا تعبیر سے تالش
نظر ہوتی منتج پر معرفت کی خدا انتہا کی علم سفر ہر کے اس تو جائے چال بڑھتا آگے میں تحصیل کی
اس توں توں گا جائے چال کرتا طے مراحل کے شعور و ادراک جوں جوں میں علم سفر اپنے وہ گی۔ آئے
ہوتے آشکار گوشے گنت ان کے عظمت کی اس اور الوہیت کی اس ،ربوبیت کی اس ،وحدانیت کی خدا پر
سے علم شغل جو ،مربوب اور مربی ہر ،شاگرد اور استاد ہر ،اورمتعلم ہرمعلم لہذا گے۔ جائیں چلے
ہے رہا رکھ قدم لئے اس صرف میں میدان کے تربیت و تعلیم وہ کہ چاہیے لینا جان اسے ہے ہوتا وابستہ
Name: Najma Mubarak
کا رسائی تک ذات اس اور قرب کے اس ،معرفت کی حقیقی خالق اپنے زندگی روزہ چند یہ کی اس کہ
ہو۔ ثابت ذریعہ
کے تفہیمات اسے ہے۔ نام کا سفر مسلسل کے روشنی علم نہیں۔ کنارہ کوئی کا جس ہے سمندر ایک علم
غور پر مفہوم و معنی کے ،،خلق’’ لفظ کے آیت پہلی ہم اگر جاسکتا۔ کیا نہیں مقید میں خانے محدود کسی
کا علوم مخصوص لئے کے علم تحصیل کہ ہے ہوجاتی واضح طرح کی روشن روز بات یہ تو کریں
:ہے خداوندی ارشاد ہے۔ گیا رکھا کھال میدان کا علم بلکہ گیا کیا نہیں انتخاب
فرمایا۔ پیدا )کو ہرچیز( نے جس پڑھیئے )ہوئے کرتے آغاز( سے نام کے رب اپنے )!حبیب اے(
)، 96 : 1العلق(
مضمون تو کیا پیدا کو کس کہ جاتا دیا بتا اگر کیا۔ پیدا کو کس کہ گیا کیا نہیں واضح یہ میں مذکورہ آیت
ہے۔ دیا چھوڑ کھال میدان کا علم نے العزت رب ہللا کہ ہوا بیان اوپر کہ جیسا ہوجاتیں۔ متعین حدود کی علم
ہے۔ خاموش آیت یہ سے حوالے کے کرنے بیان کو تخلیق اور ہے آیا مطلقاُ لفظ کا خلق میں کریمہ آیہ
لی مراد یہ سے اس لہذا ،کیا نہیں متعین رخ کوئی کا تخلیق اور خلق نے کائنات خدائے کہ ہے یہ مطلب
چونکہ ہے ہوتی آشکار بھی حقیقت یہ سے اقراء لفظ کیا۔ پیدا کچھ سب نے کائنات خالق کہ گی جائے
مقرر سمت کوئی بھی کی علم تحصیل لہذا گئی کی نہیں متعین سمت کوئی یا رخ کوئی کا خلق و پیدائش
کا العزت رب ہللا وہ ہے بھی کچھ جو میں باال و پست کائنات اس ہے۔ گیا دیا چھوڑ کھال میدان کا علم نہیں۔
کے ہللا بو و رنگ کائنات یہ کہ چاہئے لینا جان یہ ذریعہ کے علم اپنے کو انسان لئے اس ،ہے کردہ تخلیق
،ہے دیتا سفر اذن طرف کی زمینوں بنجر کو بادلوں وہی ،ہے رہا چال ہستی نظام وہی ،ہے قائم سے وجود
رب وہ ،ہے کرتا دستگیری کی بندوں اپنے میں مشکل ہر وہی ،ہے دیتا رزق کو کیڑے میں پتھر وہی
کا علم ہر وہ ،ہے محیط پر ذرے ذرے کے کائنات علم کا اس ،ہے شریک ال وحدہ وہ ،ہے کائنات
معنی کے خلق الذی ہے۔ دکھاتا راہ کی ہللا تجھے میں کائنات پوری علم تیرا !انسان اے اور ہے سرچشمہ
اور رحمتوں ان کی ذوالجالل خدائے تجھے تو کرے احاطہ کا وسعتوں کی زمین نظر تیری جب کہ ہیں یہ
کی زمینوں ساری مینہ کا کرم و فضل کے اس ہیں۔ ہوتی پر مخلوقات تمام کی اس جو ہو اندازہ کا برکتوں
و عظمت کی سماوات و ارض مالک تجھے تو دیکھے کو بلندیوں کی آسمان جب تو ہے۔ بجھاتا پیاس
تو جب اور آئے یاد جبروت و عظمت خدائی تو دیکھے کو پہاڑوں پوش فلک دے۔ دکھائی راہ کی رفعت
قدرت تجھے تو کرے نظارہ کا کھیتوں ہوئے لہلہاتے اور دریاؤں بہتے ،آبشاروں گرتے ،فصلوں شاداب
غرض ہے۔ رکھتا روا سے بندوں اپنے وہ جو آئے بھی یاد کی محبتوں اور شفقتوں ان ساتھ کے خداوندی
Name: Najma Mubarak
شاہکار کا ) (Exhibitorمظہر کسی نہ کسی چیز وہ تجھے پڑے بھی پر تخلیق کسی کی اس نگاہ تیری
دے۔ دکھائی
گفتگو جو تحت کے علم مقصد اور علم تصور کے اسالم میں روشنی کی مبارکہ آیت پہلی نے ہم تک اب
علم کسی تک وقت اس جاتا سمجھا نہیں کو علم مقصد تک جب کہ ہے ہوتا اخذ نتیجہ یہ سے اس ہے کی
کوئی میں ضمن اس نہ اور جاسکتا دیا نہیں فیصلہ حتمی کوئی میں بارے کے ہونے غلط یا صحیح کے
ہیں۔ کرتے تعین کا ہونے دینی ال اور دینی کے علم کسی ہی علم مقاصد لہذا ہے جاسکتا لگایا اندازہ
کا جس ہا ہور نہیں استعمال میں معنوں معروف ان اپنے نصاب لفظ یہاں کہ چاہئے رہنی نشین ذہن بات یہ
وسیع اپنے نصاب لفظ یہاں بلکہ ہے ہوتا وغیرہ Courses of Readingیا ) (Syllabussسلیبس مطلب
ہے۔ رہا ہو استعمال میں معنوں تر
کیا اشارہ پر طور واضح ہے۔ ذکر کا وسعت کی علم نصاب میں عمومیت اور اطالق کے :خلق الذی
ہے۔ کیا پیدا نے تعالیُ ہللا جسے کر حاصل علم کا شے اس ہر سے نام کے رب اپنے کہ ہے جارہا
وہ ہے کچھ جو عالوہ کے ذات کی مالک و خالق میں کائنات یا ہے کیا تخلیق کچھ جو نے العزت رب ہللا
تو ہے کرتا حاصل علم میں بارے کے ارضی کرہ اس انسان اگر ہے۔ آتا میں نصاب دائرہ کے علم ہمارے
،تغیرات تمام والے ہونے رونما پر سطح کی اس اور اندر کے زمین اور گا جائے دیا نام کا ارضیات اسے
شعور ،کیفیات و احوال اندرونی کے انسانی نفس اگر گے۔ آئیں بحث زیر وسائل سکے ا اور معدنیات تمام
اگر گا۔ کہالئے نفسیات علم ،علم یہ تو ہے چھوتا کو Conscious Processاور مباحث کی شعور ال و
تو ہے کرتا حاصل علم کا وغیرہ حرکت میں ) (Physical Phenomenaطبیعی مظاہر کے اس اور مادہ
اور ہے کرتا تجزیہ پر بنیاد کی عقل کا منتہا و مبداء کے حقیقت کی انسان اگر ہوگا۔ علم کا طبیعیات یہ
Name: Najma Mubarak
کرتا مطالعہ کا عمل طرز کے اس سے اعتبار کے منصب و مقام کے انسان اور اصلی ماہیت کی کائنات
ہے لیتا جائزہ کا ترکیب کیمیائی کی اشیا مختلف موجود میں کائنات اگر گے۔ کہیں فلسفہ کو علم اس تو ہے
کرتاہے تجزیہ کا پہلوؤں حیاتیاتی کے زندگی کی ان اگر گا۔ جائے بن ) (Chemistoryکیمیا علم علم یہ تو
اس ہے۔ کہالتا بیالوجی علم یہ تو ہے کرتا مطالعہ کا ) (Biological Phenomenaحیاتیات مظاہر اور
انسان میں بارے کے پہلو کسی نہ کسی کے کائنات جو ہے فہرست طویل ایک کی علوم قدیم و جدید طرح
ہے جاسکتا کہا یوں مختصراُ ہے۔ کرتی آباد دنیا نئی کی انکشافات اور ہے دیتی دعوت کی فکر و غور کو
یعنی ،ہے شامل میں نصاب کے علم وہ ہے مظہر کی تخلیق کی برتر و بزرگ خدائے جو شے وہ ہر کہ
ہے۔ علم نصاب تخلیق ہر کی مالک و خالق
تصوف ،فقہ ،احادیث ،تفسیر ،مجید قرآن صرف نے اسالم کہ ہے ہوتا اخذ نتیجہ یہ سے بحث کی تک اب
ترین جدید کی عہد اپنے اور علوم سائنسی اسالم بلکہ کیا نہیں محدود کو علم نصاب ہی تک وغیرہ
شامل میں نصاب کے علوم سائنسی بھی استعمال کا علق لفظ ہے۔ کرتا نصاب شامل بھی کو ٹیکنالوجی
عمل کا جس ہے اصول حیاتیاتی ایک یہ ہے۔ جاتا کیا بھی خون ہوا جما معنی کا علق ہے۔ دلیل کی ہونے
حد کوئی بھی کی نصاب میں علم تصور کے اسالم کہ ہوا یہ بحث خالصہ ہے۔ تعلق گہرا ساتھ کے تخلیق
ہے۔ نہیں
دیگر اور قرآن کہ چاہئے کرلینی نشین ذہن بات بنیادی ایک لیکن ہے سرچشمہ کا علوم تمام مجید قرآن
جاتی کی بحث ہی سے اعتبار کے موضوع اپنے میں کتب تمام مشتمل پر علوم دیگر ہے۔ فرق میں کتب
قرآن لیکن ہے دیتی دکھائی خاموش متعلق کے Disciplineدوسرے کتاب کی Disciplineایک اور ہے
علم کا مجید قرآن جبکہ ہے جزوی حیثیت کی علوم تمام دیگر ہے۔ سمندر اور خزانہ کا علوم تمام مجید
ہے۔ حامل کا حیثیت کی ماخذ و مصادر کے علوم تمام اور ،ہے کلی اور محدود غیر
اور پرکھنے کو Theoryبھی کسی ہے۔ حامل کا حیثیت نظریاتی میں صورت تحریری علم کا مجید قرآن
اکرم حضور گاہ تجربہ کی علم قرآنی ہے۔ جاتا رکھا میں گاہ تجربہ کسی اسے لیے کے بنانے عمل قابل
کی مجید قرآن مقدسہ ذات کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حضور ہے۔ اقدس ذات کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی
صلی الرسول سیرت لئے اس ہیں المحدود علوم قرآنی چونکہ ہے۔ آئی سامنے ہمارے میں صورت عملی
کرسکتی۔ نہیں احاطہ کا محدود ال چیز محدود بھی کوئی کیونکہ ٹھہری محدود ال بھی وسلم وآلہ علیہ ہللا
کرتا حاصل علم انسان جب کہ ہے گیا کیا بیان سے حوالے کے علم نتیجہ میں آیت تیسری کی علق سورہ
اثرات ان ہیں۔ ہوتے مرتب بھی اثرات کے اس پر اطوار و افعال کے اس اور شخصیت کی اس پھر تو ہے
ہونے مرتب اثرات کیا کے اس پر انسان بعد کے علم حصول کہ یہ یا ہے جاتا دیا نام کا علم نتیجہ کو
ہے۔ خداوندی ارشاد چاہئیں۔
)، 96 : 3العلق(
ابتدا کوئی کی اس نہ ہے۔ ہوجاتی ختم پر تعالیُ باری ذات بلندی کی بلندی ہر اور عظمت کی عظمت ہر
وہ گا۔ رہے ہمیشہ اور ہے سے ہمیشہ وہ ،بھی کا ابد اور ہے مالک بھی کا ازل وہ ،انتہا کوئی نہ اور ہے
اور جاندار مخلوقات تمام ہے۔ محیط پر ذرے ذرے کے کائنات نور کا اس ہے۔ برتر اور اعلیُ سے سب
سچائی کائناتی بڑی سے سب کو انسان ناچیز میں مقدسہ آیات ہیں۔ پابند کی حکم کے اسی سب جاندار غیر
محض انسان ،ہے خاصہ کا خداوندی ذات صرف برتری اور بزرگی ،بڑائی کہ ہے جارہا کیا آگاہ سے
سلیقہ کا بندگی کی ہللا اسے ،ہے دیتا سبق کا فروتنی اور عاجزی کو انسان بھی علم ہے۔ کمتر و عاجز
ذہن و قلب سے نور کے علم انسان جب ہے۔ بخشتا ہنر کا ادراک کے جمال و جالل کے اس ،ہے سکھاتا
کسی سوا کے ذوالجالل رب گردن کی انسان کہ ہے نکلتا نتیجہ یہ کا اس پر طور توقدرتی کرلے منور کو
کے وقت اسے ہے۔ جاتا نکل سے دل کے اس خوف ہر سوا کے خدا خوف ،جھکتی نہیں سامنے کے اور
خاطر کو فرعون کسی وہ ہے۔ ہوتا عطا شعور کا للکارنے انہیں کر ڈال آنکھیں میں آنکھوں کی یزیدوں
اس اور ہللا صرف وہ ہے۔ پھیالتا ہاتھ سامنے کے قارون کسی لئے کے روائی حاجت نہ اور ہے التا میں
اعتراف کا عظمت اور بڑائی کی خدا ہے۔ کرتا حاصل اعزاز کا بننے سائل کا در کے معظم رسول کے
کہ ہے کرتا ظاہر نتیجہ یہ پر شخصیت کی اس احساس کا کمزوری اور عجز اپنے اور
رب ہللا یہ ہیں۔ جھکتی میں خداوندی بارگاہ وہ تو ہیں ہوتی بار ثمر وہ اور ہے ملتا نمو اذن کو شاخوں جب
جایا ٹ ٹو وہ تو جائے اکڑ بجائے کی جھکنے شاخ یہ اگر لیکن ہے ہوتا شکر سجدہ میں بارگاہ کی العزت
علم تحصیل جب بھی انسان طرح اس ہیں۔ افعال ناپسندیدہ ہاں کے ہللا تکبر غرورو کہ لئے اس ،ہے کرتی
کا انکسار و عجز وہ ہیں۔ لگتے ہونے منکشف پر اس سربستہ رازہائے کے قدرت تو ہے نکلتا پر راہ کی
Name: Najma Mubarak
ء اقرا لفظ نے العزت رب ہللا کہ ہے ہوتی منکشف حقیقت یہ سے کرنے غور پر مبارکہ آیت باال مذکورہ
علم کا اعتراف کے بڑائی کی خدا لہذا ہے کیا تذکرہ کا بڑائی اپنی ساتھ کے لفظ اس اور ،ہے دہرایا کو
کرسکے نہ مرتب اثرات یہ پر شخصیت کی انسان علم اگر ہے۔ الزمی ہونا ظاہر پر طور کے نتیجہ کے
اور ہے پست مانند کی خاک اور ناتواں ،فروتر وہ ،ہے پیکر کا انکساراورتواضع ،عجز تو )انسان( وہ کہ
پھر تو ہے کائنات خالق صرف اور صرف سزوار کا کبریائی اور بزرگی ،برتری ،عظمت ،بڑائی ساری
ہے۔ پلندہ کا جہالت اور گمراہی نہیں علم ،علم وہ
سے پانیوں کے انکسار و عجز کو نظر و قلب ،ہے کرتا اجاگر کو بندگی احساس اندر کے انسان علم
احساس ہے۔ دیتا نکال کر چن چن کو تکبر و غرور اور برتری احساس سے اندر کے انسان ،ہے دھوتا
اسی فتور کا بننے خدا میں ذہنوں ہے۔ ناممکن تقریباُ عالج کا جس ہے بیماری نفسیاتی ایسی ایک برتری
کی برتری احساس اسی راستہ ہر کا نمرودیت اور فرعونیت ،ہے لیتا جنم سے کوکھ کی بیماری نفسیاتی
جاسکتا پایا قابو پر بیماری اس سے جس ہے ذریعہ ایسا ایک ہی علم ہے۔ گزرتا سے فریب مکرو وادی
دامن کا توازن اور اعتدال وہ اور ہے ہوتی شکنی حوصلہ کی برتری احساس اندر کے انسان سے اس ہے۔
کچھ سب نے میں کہ کردے شروع سمجھنا یہ کے کر حاصل علم انسان اگر چھوڑتا۔ نہیں سے ہاتھ اپنے
بہت کی اس یہ تو ہوں گیا بن عالم مکمل ایک میں اور ہے ہوگیا مکمل عمل کا علم تحصیل ،ہے لیا جان
ہے۔ رہا کر سفر گرد کے جہالت بلکہ پہنچا نہیں بھی کو گرد کی علم اس وہ ہے۔ بھول بڑی
کا علم تحصیل ،،ہے۔ سمجھتا دانا کو آپ اپنے جو بچو سے نادان اس’’ کہ ہے قول کا دانش و علم ارباب
بھی تصور کا دسترس مکمل پر علم ،ہے رہتا ہی علم طالب عمر ساری انسان ،ہوتا نہیں مکمل کبھی عمل
جاگز بھی احساس کا خبری بے میں دل کے انسان ساتھ کے اضافے میں علم کہ ہے یہ حقیقت ہے۔ محال
ہوتا ادراک کا آگہی کم اپنی اسے ہی اتنا ہے ہوتی زیادہ جتنی پاس کے انسان دولت کی علم ہے۔ ہوجاتا ین
Name: Najma Mubarak
لیا۔ نہیں بھی قطرہ ایک سے سمندر اس ابھی تو نے میں ،ہے سمندر وسیع ایک تو علم کہ ہے جاتا چال
طلب دامن کا اس کہ ہے ہوتی منکشف حقیقت یہ پر اس تو ہے پہنچتا کو کمال نقطہ اپنے علم کا انسان جب
ہے۔ سرچشمہ کا علم ہر وہی کہ ہے پاس کے ہللا تو علم سارا ہے ہی خالی کا خالی ابھی تو
کے وانکسار عجز سے سمندر کے علم جانتا۔ نہیں کچھ وہ کہ ہے کرتا پیدا شعور یہ اندر کے انسان علم
:فرمایا ہوئے کرتے تعریف کی علم نے عنھم ہللا رضی صدیق ابوبکر حضرت سیدنا ہیں۔ پھوٹتے سوتے
انسان ہے۔ علم نام کا ہوں قاصر سے جاننے میں کہ لینا جان یہ یعنی ،،ادراک االدراک درک عن العجز’’
جوں ہیں۔ ہوتے منکشف حقائق ہی اتنے پر ذات کی اس ہے ہوتا بلند جتنا میں درجے کے علم تحصیل
و عجز میں اس توں توں ہیں ہوتی آشکار پر اس پہنائیاں کی حقائق ان اور ہیں ہوتی نقاب بے حقیقتیں جوں
کی نکتے اس یہاں ہے۔ لگتا کرنے تصور ناچیز کوذرئہ خود وہ اور ہیں ہوتی اجاگر خوبیاں کی انکسار
ی کمتر احساس سے حوالے بھی کسی اظہار یہ کا انکساری و عجز کہ ہے ضروری وضاحت
کے پانے کچھ بہت تو اظہار یہ کہ کیوں ،ہوسکتا نہیں شمار میں زمرے کے )(Inferiority Complex
سوال کا کمتری احساس کے قسم کسی لئے اس ہے ہوتا سامنے کے العزت رب اظہار یہ اور ،ہے ہوتا بعد
ہوتا۔ نہیں پیدا ہی
ا
سوال نمبر۔2
دور تابعین میں تفسیری مراکز اور تفسیری خصوصیات پر مفصل نوٹ لکھیں
کی حدیث و قرآن نے )ھ 1176م( دہلوی ہللا ولی شاہ حضرت( اللہی ولی خاندان میں ہند و پاک برصغیر
پہنچا۔ ہند بیرون اور ہند شہرہ علمی کا خدمات کی ان اور دیں۔ انجام خدمات گرانقدر میں اشاعت و نشر
حضرت ہے۔ ہوتا اندازہ کا کوشش و سعی کی ان اور خدمات علمی کی ان سے تصانیف کی ان کہ جیسا
محدث عبدالعزیز شاہ حضرت مقام عالی صاجزادگان چاروں کے ان بعد کے انتقال کے دہلوی ہللا ولی شاہ
اور )ھ 1249م( دہلوی الدین رفیع شاہ موالنا )،ھ 1243م( دہلوی عبدالقادر شاہ موالنا )،ھ 1239م( دہلوی
رکھا۔ جاری کو مشن کے بزرگوار والد اپنے نے )ھ 1227م( دہلوی عبدالغنی شاہ موالنا
شاہ موالنا صاجزاہ کے عبدالغنی شاہ موالنا اور پوتے کے دہلوی ہللا ولی شاہ حضرت بعد کے ان
کی آپ دیا۔ کر برپا عظیم انقالب میں کارناموں علمی و تجدیدی نے )ھ 1246ش( دہلوی شہید اسماعیل
مقبولیت کی کتاب اس اور دیا۔ بنا گرویدہ کا سنت و کتاب کو الہُ بندگان الکھوں نے "االیمان تقویۃ" کتاب
ہوئی۔ آراستہ سے طبع زیور میں تعداد کی الکھوں تک اب کتاب یہ کہ ہے سکتا ہو سے اس اندازہ کا
Name: Najma Mubarak
اور قلم کے )ھ 1307م( خاں حسن صدیق نواب سید موالنا السنۃ محی بعد کے شہید اسماعیل شاہ حضرت
پہنچایا۔ فیض بڑا کو ہند مسلمانان نے تدریس کی )ھ 1320م( دہلوی حسین نذیر محمد سید موالنا الکل شیخ
م( نوشہروی خان امام ابویحییُ مؤلفہ ہند حدیث علمائے تراجم )ھ 1373م( ندوی سلیمان سید عالمہ
کہ ہیں لکھتے میں مقدمہ کے )ھ1386
نامور سے بہت کے گڑھ اعظم اور سہوان ،قنوج رہا۔ مرکز کا حدیث اہل علمائے تک زمانہ ایک بھوپال"
دہلی اور تھے سرخیل کے سب ان )ھ 1327م( یمنی حسین شیخ تھے۔ رہے کر کام میں ادارہ اس علم اہل
و مشرق حدیث طالبان جوق در جوق اور تھی ہوئی بچھی درس مسند کی دہلوی حسین نذیر میاں میں
"تھے۔ رہے کر رخ کا درسگاہ کی ان سے مغرب
ایک نے جنہوں ہوئے۔ پیدا علماء ہزاروں سے درسگاہ کی دہلوی محدث حسین نذیر محمد سید موالنا
دوسری اور دی۔ کر صرف کوشش میں کرنے قمع قلع کا بدعت و شرک میں ہندوستان پورے تو طرف
سر کارنامے علمی شاندار ایسے میں ترویج و ترقی کی سنت و کتاب اور اشاعت کی اسالم دین طرف
ہیں۔ رکھتے حیثیت کی میل سنگ ایک میں تاریخ کی برصغیر جو دئیے انجام
اہل تاریخ وہ ،دئیے انجام سر کارنامے شاندار جو میں سلسلہ کے تالیف و تصنیف نے حدیث اہل علمائے
اس لکھیں۔ تفسیریں میں پنجابی ،اردو ،فارسی ،عربی میں قرآن تفاسیر ہے۔ باب درخشندہ ایک کا حدیث
میں تردید کی باطلہ ادیان اور تقلید تردید ،تصوف ،لغت ،ادب ،تاریخ ،عقائد ،فقہ ،حدیث شروح عالوہ کے
:ہیں لکھتے بنارسی سلفی مستقیم محمد موالنا لکھیں۔۔۔ کتابیں شمار بے
اس خدمات تصنیفی اور تبلیغی ،اصالحی ،سیاسی ،علمی کی حدیث اہل جماعت میں ہند و پاک برصغیر"
و اعتقادی کی مسلمانوں طرف ایک نے جماعت اس ہے۔ رہا باب روشن ایک ہمیشہ کا تاریخ کی ملک
سے تعلیمات سچی کی اسالم ذریعہ کے تدریس و تبلیغ جہاں لئے کے کرنے ختم کو گمراہیوں عملی
"دی ڈال جان میں تحریک علمی کی برصغیر ذریعہ کے تصنیف وہاں کرایا۔ روشناس کو لوگوں
احاطہ کا ان ہیں۔ دی انجام سر کدمات علمی جو نے حدیث اہل علمائے میں سلسلہ کے مجید قرآن تفاسیر
میں سلسلہ کے مجید قرآن تفاسیر نے میں ،ہے سکی ہو رسائی میری تک جہاں تاہم ہے۔ مشکل بہت کرنا
ہے۔ دی کر نشاندہی کی ان ،ہیں گئی لکھی کتابیں جو
تفسیر علم
سے وضاحت کے مجید قرآن میں اصطالح اور ہیں۔ کے "کھولنا" معنی لفظی کے تفسیر میں زبان عربی
ہوئے کرتے خطاب کو وسلم علیہ ہللا صلی نبی میں مجید ہیں۔۔۔قرآن کہتے تفسیر کو کرنے بیان معانی
:ہے ارشاد
Name: Najma Mubarak
اس لِتبَیِّنَُ ال ِّذ ْك َُر إِلَیْكَُ َوأَنزَ ْلنَا النحل ﴿٤٤﴾...یَتَفَ َّكرونَُ َولَ َعلَّھ ُْم إُِلَ ْی ِھ ُْم ن ِّز َُ
ل َما لِلنَّ ُِ
اتاری طرف کی ان جو کریں بیان سے وضاحت سامنے کے لوگوں آپ تاکہ اتارا پر آپ قرآن نے ہم اور"
"ہیں گئی
ان جو بھیجا رسول ایک سے میں انہی درمیان کے ان جبکہ کیا۔ احسان بڑا پر مسلمانوں نے ہللا بالشبہ"
کی دانائی اور کتاب کی ہللا انہیں اور کرے صاف و پاک انہیں اور کرے تالوت آیات کی ہللا سامنے کے
"دے تعلیم کی کتابوں
:ہے کی میں الفاظ ذیل درج تعریف مختصر کی تفسیر علم نے )ھ 794م( زرکشی عالمہ
أحكامه واستخراج ،معانیه وبیان ،وسلم علیه ہللا صلى محمد نبیه على المنزل ہللا كتاب فھم به یعرف علم(
)) (3وحكمه
اس اور وضاحت کی معانی کے اس اور ہو حاصل فہم کا کریم قرآن سے جس ،ہے علم وہ تفسیر یعنی
سکے۔ جا کیا استنباط کا حکمتوں اور احکام کے
تحمل التى ومعانیھا ،والتركیبیة اْلفرادیة وأحكامھا ،ومدلوالتھا القرآن بألفاظ النطق كیفیة عن فیه یبحث علم(
) ) (4وتتمات ،التركیب حالة علیھا
اور انفرادی کے ان ،مفہوم کے ان ،طریقے کے ادائیگی کی قرآن الفاظ میں جس ہے علم وہ تفسیر علم
کئے متعین مراد سے حالت ترکیبی سے الفاظ ان ہے۔ جاتی کی بحث سے معانی کے ان اور احکام ترکیبی
کیا بیان میں شکل کی توضیح کی مبہم اور نزول شان ،منسوخ و ناسخ تکملہ کا معانی ان نیز ہیں۔ جاتے
ہے۔ جاتا
شارح اول کے کریم قرآن وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت ہوا۔ میں رسالت عہد پہلے سے سب آغاز کا تفسیر
و تشریح کی اس خود وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت تو ہوتا نازل مجید قرآن بھی جب تھے۔ ترجمان و
صلی آنحضرت جب کرتے۔ نہ جسارت کی قرآن تفسیر عنہم ہللا رضی کرام صحابہ اور فرماتے توضیح
اظہار کے علم اپنے لئے کے عنہم ہللا رضی کرام صحابہ تو گئے لے تشریف سے دنیا اس وسلم علیہ ہللا
Name: Najma Mubarak
نہ چارہ سوا کے توضیح و تشریح لئے کے معلومات کردہ حاصل سے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت اور
تھا۔
کے تفسیر اپنی نے کریم قرآن خود اور ہے ہوتا استعمال بکثرت بھی "تاویل" لفظ اور ایک لئے کے تفسیر
ہے۔ کیا استعمال لفظ یہ لئے
ہیں ہی ایک "تاویل اور تفسیر" الفاظ دونوں یہ کہ ہے رہا زیربحث مسئلہ یہ میں کرام علمائے بعد کے اس
کرنا نقل یہاں کو اقوال سب ان اور ہیں مختلف اقوال کے کرام علمائے میں اس ہے۔ فرق کچھ میں ان یا
:ہیں یہ اقوال چند تاہم ہے۔ مشکل بہت
ہیں۔ کہتے کو تشریح مجموعی کی جملے تاویل اور ہے نام کا تشریح انفرادی کی لفظ ایک ایک تفسیر ۔1
ہے یہ مطلب کا تاویل اور ،ہو نہ احتمال کا معانی زیادہ سے ایک میں جس ہے ہوتی کی آیت اس تفسیر ۔2
کرایا اختیار ساتھ کے دلیل کو ایک کسی سے میں ان ہیں۔ نہیں ممکن تشریحات مختلف جو کی آیت کہ
جائے۔
)(5ہے۔ نام کا توضیح کی مراد اصل تاویل اور ہیں کہتے کو کرنے بیان معانی ظاہری کے الفاظ تفسیر ۔3
ہے۔ جاتا کہا کو کرنے تشریح ساتھ کے تردد تاویل اور ہے جاتا کہا کو تشریح ساتھ کے تعین ،تفسیر ۔4
نتائج اور سبق والے نکلنے سے مفہوم اس تاویل اور ہے نام کا دینے کر بیان مفہوم کے الفاظ تفسیر ۔5
ہے۔ نام کا توضیح کی
میں معنی اس کو تاویل متاخرین جبکہ ہے۔ کیا استعمال بھی معنی ہم کو تاویل اور تفسیر نے متقدمین
سے تفسیر بالمقابل کے اس "کرنا اختیار مفہوم مرجوح کر چھوڑ کو مفہوم راجح" :ہیں کرتے استعمال
ہے۔ ہوتا مقصود کرنا تشریح اور مفہوم راجح کا جملہ کسی
ماخذ کے تفسیر
مجید قرآن
دیتی کر تفسیر کی دوسرے ایک اوقات بعض آیات کی اس یعنی ،ہے مجید قرآن ماخذ پہال کا تفسیر علم
آیت کوئی طرح اسی ہے۔ جاتا دیا کر رفع کو ابہام کا اس جگہ دوسری تو ہے مبہم آیت کوئی اگر کسی ہیں
:ہے ارشاد میں فاتحہ سورۃ مثال ہے۔ مفصل جگہ دوسری تو ہے مختصر
دوسری لیکن ہیں لوگ کون وہ ہے۔ گیا کیا انعام پر لوگوں جن کہ گئی کی نہیں واضح بات یہ میں آیات ان
:ہے ارشاد چنانچہ ہے۔ دی کر بیان میں الفاظ صاف تشریح و توضیح کی اس جگہ
(
َِ
نے تعالیُ ہللا پر ان ہیں۔ کرتے اطاعت کی وسلم علیہ ہللا صلی رسول کے اس اور تعالیُ ہللا لوگ جو"
َِ
"ہیں رفیق لوگ نیک یہ اور شہداء ،صدیقین ،کرام انبیائے یعنی فرمایا انعام
ن
و تشریح کی اس پہلے سے سب تو ہیں کرتے تفسیر کی آیت کسی وہ جب کہ ہے قاعدہ یہ کا کرام مفسرین
ہیں۔ کرتے تالش سے مجید قرآن توضیح ِ
ِِ
ت تفسیر کی جن ہیں آیات سی بہت میں مجید قرآن ہے۔ گیا کیا اکتفاء پر آیت ہی ایک صرف یہاں قرآن آیا ُِ
ِ
م( جوزی ابن عالمہ ہیں۔ لکھی کتابیں بہت نے کرام علمائے پر بالقرآن بالقرآن تفسیر ہے۔ ہوئی سے
ا)(7تھی۔ لکھی تفسیر ایک کی قسم اسی نے )ھ597
لتفسیر ایک عربی بزبان پر طرز اسی بھی نے )ھ 1367م( امرتسری ثناءہللا ابوالوفا موالنا االسالم شیخ
ِّ
فرمائی۔ رقم "الرحمن بکالم القرآن تفسیر" بنام
َِ
ـنبوی حدی ُِ
ث
ِ
کی وضاحت کی اس پر مقامات متعدد نے مجید قرآن ،ہے نبوی حدیث ماخذ دوسرا کا تفسیر کی مجید قرآن
کی قرآنی آیات سے فعل و قول اپنے آپ کہ تھا یہی مقصد کا فرمانے مبعوث میں دنیا اس کا آپ کہ ہے
َِ
:فرمائیں تفسیر
ا
ل
ِّ
َِ
ِ
Name: Najma Mubarak
بیان سے وضاحت باتیں وہ سامنے کے لوگوں آپ کہ ہے کیا نازل لئے اس پر آپ مجید قرآن نے ہم اور"
"گئیں کی نازل طرف کی ان جو فرمائیں
انجام سر خوبی و بحسن فریضہ یہ سے دونوں عمل و قول اپنے نے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت چنانچہ
تفسیر کو حدیث صحیح نے کرام مفسرین چنانچہ ہے۔ تفسیر عملی کی کریم قرآن زندگی پوری کی آپ دیا۔
ہے۔ دیا قرار ماخذ دوسرا کا
اقوالُ
ِ عنہم ہللا رضی صحابہ
اقوالُ
ِ علیہم ہللا رحمۃ تابعین
میں اس کیا۔ حاصل علم سے عنہم ہللا رضی کرام صحابہ نے جنہوں ہیں حضرات وہ مراد سے تابعین
اتفاق بھی پر اس کا کرام علمائے جمہور لیکن نہیں۔ یا میں حجت ہیں تفسیر تابعین اقوال آیا کہ ہے اختالف
:کہ ہیں لکھتے )ھ 1338م( دہلوی حسن احمد سید موالنا ۔۔۔ ہیں حجت میں تفسیر تابعین اقوال کہ ہے
ہیں کہتے کر سن سے عنہم ہللا رضی صحابہ وہ ہیں کہتے کچھ جو تابعی مفسر میں باب کے تفسیر"
طرف اپنی میں تفسیر کی پاک قرآن کہ تھی معلوم بات یہ کو عنہم ہللا رضی صحابہ طرح جس کیونکہ
معلوم بھی کو کرام تابعین بات یہ لئے اس ہے۔ بنانا ٹھکانہ اپنا میں دوزخ کہنا کچھ پر طور عقلی سے
وہ کے سننے سے عنہم ہللا رضی صحابہ بغیر کہ ہے نہیں جائز گمان بھی نسبت کی تابعین پھر ،تھی
)"(9گے کریں بیان پر طور عقلی سے طرف اپنی مطلب کا آیت کسی
تُ
عرب لغ ِ
کی اس ہوا۔ نازل میں زبان عربی مجید قرآن کہ لئے اس ہے۔ عرب لغت ماخذ پانچواں کا مجید قرآن تفسیر
کے قرآن تفسیر کے اس ہے۔ ضروری ہونا حاصل عبور مکمل پر زبان اس میں سلسلے کے قرآن تفسیر
Name: Najma Mubarak
کہ ہیں ایسی آیات سی بہت میں مجید قرآن ہے۔ ضروری کرنا حاصل عبور مکمل پر زبان اس میں سلسلہ
کی اس لئے اس گا ہو نہیں مسئلہ کالمی و فقہی اور کوئی یا نزول شان چونکہ میں منظر پس کے ان
منقول اقوال کے علیہم ہللا رحمۃ تابعین و عنہم ہللا رضی صحابہ یا وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت تفسیر
ت صرف ذریعہ کا تفسیر کی ان چنانچہ ہوتے۔ نہیں
کی اس پر بنیاد کی ہی لغت اور ہے ہوتی عرب لغ ُِ
میں آراء مختلف تو ہو اختالف کوئی میں تفسیر کی آیات کسی اگر عالوہ کے اس ہے۔ جاتی کی تشریح
بالمقابل کے صحابہ اقوال اور نبوی احادیث لیکن )(10ہے۔ جاتا لیا کام سے لغت علم لئے کے محاکمہ
ہے۔ جہالت صریح لینا کر انحصار سب ہی پر عرب لغت
سوال نمبر۔3
تدوین حدیث سے کیا مراد ہے نیز عبد صحابہ اور عہد تا بعین میں تدوین حدیث پر مفصل نوٹ لکھیں۔
الزہری تھے۔ اس عبارت ؒ سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو جمع کیا وہ مشہور تابعی امام ابن شہاب
کے لفظ َدوَّنَ سے مستشرقین نے یہ غلط فہمی پھیالئی کہ احادیث کو ابن شہاب زہری ؒ نے خود تصنیف
کیا۔حاالنکہ یہ لفظ عربوں کے ہاں قدیم سے اسی معنی میں جانا بوجھا تھا۔ جو علماء نے َدوَّنَ کہہ
کرلیا۔یوں یہ غلط فہمی پھیال دی گئی کہ احادیث کو اس طرح تصنیف کیا گیا ہے جس طرح میز کو ہال
کر ()Gospal Writersنے اپنے اندازے سے انجیل صدیوں بعد لکھی۔ ظاہر ہے لفظ تدوین کا یہ غلط
مفہوم ہے۔تغلیط وتحریف تو اہل کتاب کا خاصہ ہے۔ یہ انہی کی کرم فرمائی ہے کہ اپنی میراث پر ہاتھ
َّک لَبِ ْال ِمرْ َ
صا ِد} بھی صاف کرنے کے بعد یہاں بھی انہوں نے نقب لگانے کی کوشش کی مگر{ إِ َّن َرب َ
ہے۔ علماء حدیث نے لفظ تصنیف اور تدوین کا لغوی معنی ومفہوم یہ پیش کیا:
تصنیف :
Name: Najma Mubarak
عربی زبان میں ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔نیز اس کاوش کو بھی تصنیف کہتے ہیں
جس میں چیدہ چیدہ ذاتی معلومات کو اپنے الفاظ میں مرتب کرلیا جائے۔ یعنی یہ معلومات انسان اردگرد
سے لے اور پھر انہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کرجمع کرلے۔انگریزی میں اس کا معنی( To Compose,
)to Forge a lieبھی لکھا ہے۔
تدوین:
ترتیب دینا۔ دیوان بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے :کتب و اشعار وقصائد کا مرتب مجموعہ یا جمع
شدہ۔ عرب کہتے ہیںَ :د َّونَہُ اَیْ َج َم َعہُ۔ اس نے معلومات کو جمع ومرتب کردیا۔ اس میں جامع کے اپنے
الفاظ نہیں ہوتے۔انگریزی میں اس کا معنی ( )to make a selection of work, Collectionلکھا ہے۔
٭…عربی زبان میں لفظ تدوین باب تفعیل سے ہے جس میں ابتداء کرنا اور مأخذ بنانا کے معنی بھی
آتے ہیں۔تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیارکرنا ہے۔ اس سے مراد جمع کرنا یا لکھنا نہیں ہے
بلکہ تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے مسودات حدیثیہ کو حاصل کیا۔ اور دیگر صحابہ سے سنی
احادیث کا ان میں اضافہ کرکے ترتیب دے دیا یہی کام تبع تابعین نے تابعین کے لکھے صحف
اورمسودات کو اپنی مسموعہ احادیث کے ساتھ مرتب کردیا
قرآن مجید جو دین کی تمام بنیادی تعلیمات پر مشتمل اور جملہ عقائد و احکام کے متعلق کل ہدایت کا
حامل ہے۔ اس کا ہر لفظ لوگوں نے زبانی یاد کیا ہوا ہے۔ مزید احتیاط کے لئے معتبر کاتبوں سے خود
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے اس کو لکھوایا۔
حدیث کی حفاظت
حدیث شریف جو شرع اسالمی کی تمام اعتقادی اور عملی تفصیالت پر حاوی ہے۔ اس کا قولی حصہ
صحابہ کرام رضی ہللا عنہ نے اپنی قومی عادت اور رواج کے مطابق اس سے بھی زیادہ اہتمام کے
ساتھ اپنے حافظہ میں رکھا کہ جس اہتمام کے ساتھ وہ اس سے پہلے اپنے خطیبوں کے خطبے،
شاعروں کے قصیدے ،اور حکماء کے مقولے یاد رکھا کرتے تھے اور اس کے عملی حصے کے
مطابق فوراً عمل کرنا شروع کر دیا کرتے تھے۔
Name: Najma Mubarak
خود حضرت محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر ضروری احکام و ہدایات قلم بند
کروائی۔ ان تحریروں اور نوشتوں کا ذکر معتبر کتب حدیث میں محفوظ ہے۔ لیکن ان کے عالوہ مختلف
قبائل کو تحریری ہدایات ،خطوط کے جوابات ،مدینہ منورہ کی مردم شماری کے کاغذات ،سالطین وقت
اور مشہور فرمانروائوں کے نام اسالم کے دعوت نامے ،معاہدات ،امان نامے ،اور اس قسم کی بہت سی
ٰ
مصطفی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے وقتا ً فوقتا ً قلم بند کروائیں۔ متفرق تحریرات تھیں جو حضرت محمد
ت حدیث کا یہ بات مشہور ہے کہ غزوہ بدر کے بعد کافی مسلمانوں نے لکھنا سیکھ لیا اور پھر کتاب ِ
سلسلہ جاری ہوگیا۔ اگرچہ عرب قوم اسالم سے قبل اَن پڑھ تھی اور ان میں کسی قسم کی تعلیم کا رواج
نہیں تھا لیکن ایمان اور اسالم کی بدولت صحابہ میں یہ شوق پیدا ہوا۔
تدوین حدیث
ِ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض صحابہ نے حضرت محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں
احادیث لکھی تھیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے کچھ احادیث کو لکھنے کا حکم خود
بھی دیا تھا۔ یہ حقیقت خوب واضح ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز عہد رسالت ہی میں ہو گیا تھا۔ اسالم کے
ابتدائی عہد میں احادیث نبوی پر مشتمل صحیفے لکھے گئے جن کا تاریخی ثبوت موجود ہے۔ ان
صحیفوں میں حضرت عبدہللا بن عمرو بن العاض رضی ہللا عنہ کا صحیفہ صادقہ بہت مشہور ہے۔ اور
اسی طرح حضرت علی رضی ہللا عنہ کا صحیفہ بھی تھا جس میں بہت سے احکام و مسائل درج تھے
مگر اس سلسلے میں سب سے بڑی اہمیت صحیفہ ابی ہریرہ رضی ہللا عنہ کی ہے جو حضرت ابو
ہریرہ رضی ہللا عنہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت ہمام بن منبہ رحمتہ ہللا علیہ نے روایت کیا ہے۔
یہ صحیفہ تدوین حدیث کے سلسلے میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ بالکل ویسے ہی آگے پہنچایا
گیا جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت کیا گیا۔ یہ صحیفہ مسند امام احمد میں مکمل
طور پر محفوظ ہے۔ نیز اس کی بیشتر احادیث صحیح بخاری کے متعلقہ ابواب میں بھی موجود ہیں۔
دور ثانی
تدوین حدیث کا ِ
اہل عرب ہر چیز کو زبانی یاد رکھنے کے عادی تھے کیونکہ ان کا حافظہ فطرتا ً نہایت قوی تھا۔ احادیث
کو زبانی یاد رکھنے کا سلسلہ پہلی صدی ہجری تک چلتا رہا لیکن اس صدی کے آخری سالوں میں
صحابہ کرام رضی ہللا عنہ کا دنیا سے رخصت ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سن 99ہجری میں جب
Name: Najma Mubarak
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ ہللا علیہ نے دیکھا کہ متبرک صحابہ سے دنیا خالی ہو رہی ہے تو آپ
کو اندیشہ ہوا کہ ان حفاظ اہل علم کے جانے سے کہیں علوم حدیث نہ اٹھ جائے۔ چنانچہ آپ نے فوراً
تمام ممالک کے علماء کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ احادیث نبوی کی تالش کر کے جمع کر لیا
جائے۔ پس اس حکم کی تعمیل میں کوفہ کے امام شبعی رحمتہ ہللا علیہ ،مدینہ کے امام زہری رحمتہ ہللا
علیہ اور شام کے امام مکحول رحمتہ ہللا علیہ کی تصانیف وجود میں آئیں اور وہ اس عہد خالفت کی
یادگار رہیں۔ اس طرح پہلی صدی کے آخر میں کبارائمہ تابعین نے جمع تدوین و حدیث میں بھرپور
حصہ لیا۔
دوسری صدی ہجری میں اس سلسلے کی ترقی اتنی زیادہ ہوئی کہ احادیث کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام
اور اہل بیت کے آثار تابعین کے فتاوی اور اقوال بھی مرتب ہونے لگے۔ اس صدی میں فقہ حنفی اور
فقہ مالکی کی تدوین ان احادیث و آثار کی روشنی میں مکمل ہوئی کہ جس پر صحابہ اور تابعین کا عمل
درآمد چال آ رہا ہے۔
دور ثالث
تدوین حدیث کا ِ
ب حدیث میں تیسری صدی ہجری میں علم حدیث کا ایک شعبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ محدثین نے طل ِ
دنیائے اسالم کا گوشہ گوشہ چھان مارا اور تمام منتشر اور بکھری روایات کو یکجا کیا۔ مستند احادیث
علیحدہ کیں۔ صحت سند کا التزام کیا گیا۔ اسماء الرجال کی تدوین ہوئی۔ جرح و تعدیل کا مستقل فن بن گیا۔
اس دور میں صحاح ستہ جیسی بیش بہا کتابیں تصنیف ہوئیں۔ صحاح ستہ اور ان کے مولفین بھی منظر
عام پر آئے۔
صحاح ستہ کے عالوہ اصول اربعہ جو کہ فقہ جعفریہ کی چار مستند ترین ذخائر کی کتابیں ہیں۔ جن
میں الکافی ،من الیحضرہ الفقیہہ ،االستبصار اور تہذیب االحکام شامل ہیں۔
سوال نمبر۔4
علم فقہ سے کیا مراد ہے نیز مسالک اربعہ کی اہم بنیادی تالیفات کون کون سی ہیں؟ جامع نوٹ لکھیں۔
چلتے چلتے ایک لفظی تسامح کی نشاندہی کرتے چلیں کہ بعض حضرات فقہ اسالمی کی عصری تطبیق
تصویر مسئلہ کی خارجی تمثیل کو جدید مسائل کا نام دیتے ہوئے خود رائی اور اجتہا ِد جدید کی
ِ اور
Name: Najma Mubarak
طرف لپکنے لگ جاتے ہیں ،حاالنکہ اب تک جدید کہے جانے والے تقریبا ً تمام مسائل کا حل فقہی فروع
یا اُصول و قواعد کی صورت میں ہی بتایا گیا ہے ،اس بابت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسائل یا احکام نئے
نہیں ہوتے ،بلکہ ان کی صورتیں نئی ہوتی ہیں ،فقہاء زمانہ کا کام ہوتا ہے جدید صورتوں کی قدیم فقہ
کے ساتھ تطبیق کرنا ،قدیم فقہاء کے اجتہادات کی بدولت فقہ ابداعی ،تطبیقی اور تقدیری ہمارے سامنے
ٓاچکی ہے۔
ہمارا اجتہاد ان کے اجتہاد سے پائیدار نہیں ہوسکتا ،اس لیے بالوجہ فقہ قدیم سے جدید مسائل کے نام پر
عدول کرنا نامعقول امر ہے۔ ہاں! اگر ایسی صورت پیش ٓاجائے جس کا فقہ قدیم کے ذخیرہ میں نصاً،
اصوالً ،فرعاً ،اثباتاًیا نفیا ً کوئی حل نہ ملتا ہو تو اس کے حل کے لیے فقہاء امت کے وضع کردہ اُصولوں
مجلس مشاورت منعقد کی جائے گی اور وہ مجلس ایسی
ِ کی روشنی میں متدین و متعبد علماء کی
مشکالت میں اُمت کی دینی رہنمائی کرے گی۔ ایسے مسائل ان کے حل کے لیے رہنما اصول اور اجتہاد
کے اصول و شرائط سے متعلق حضرت عالمہ محمد یوسف بنوری vکے چند گراں قدر مقاالت جو
فتاوی بینات کے شروع میں مقدمہ کے طور پرشامل ہیں ،ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ٰ
بعض جدت پسندوں کو یہ بھی خبط ہوتا ہے کہ قدیم فقہ فقہاء کے اپنے زمانے کے احوال و مسائل کے
حل کے لیے اجتہادی کوششیں تھیں ،اب زمانہ بدل گیا ہے ،زمانے کے حاالت تبدیل ہوچکے ہیں ،لہٰذا
پرانی فقہ اس زمانے کے لیے کار ٓامد نہیں ہوسکتی ،بلکہ اس میں تبدیلی ناگزیر ہے ،اس فکر کو خبط
کہنا ہی کافی ہے ،کیونکہ اس فکر کے حامل لوگ فقہ کی حقیقت سے نا واقف ہیں ،انہیں معلوم ہونا
چاہیے کہ فقہی احکام چار قسم کے ہوتے ہیں:
احکامُ١:-
ِ اتفاقیہ منصوصہ احکامُ۲:-
ِ اتفاقیہ اجتہادیہ احکامُ۳:-
ِ خالفیہ اجتہادیہ احکامُ۴:-
ِ
اثباتاُ و نفیاُ مصرحہ غیر جدیدہ
پہلی دو قسموں میں زمانہ کی تبدیلی کا کوئی بھی اثر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ تیسری قسم میں قدیم
مجتہدین کے اجتہا دسے باہر نکلنے کی حاجت ہے ،نہ اجازت ہے۔ اگر اجتہاد ہوسکتا ہے تو چوتھی قسم
مسائل اجتہادیہ عرفیہ جن کی بنا عرف
ِ میں ہوگا ،اس کی ضرورت کا کسی کو انکار نہیں۔ اسی طرح وہ
تغیرحکم کی حقیقت قابل تسلیم
ِ تغیر زمانہ کی وجہ سےِ وعادت پر رکھی گئی تھی ،ایسے مسائل میں
ازسرنو غورو فکر ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ،مگر اس ٓاخری قسم کے ِ ہے ،ایسے مسائل میں
اجتہاد کی ضرورت باور کرانے کے ساتھ ساتھ مجتہدین کی اہلیت اور مطلوبہ شرائط کا سوال بھی نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ،حیرت کی بات یہ ہے کہ معاملہ ہو دین کا اور اجتہاد کی اجازت دین بیزار
مانگ رہا ہو تو اسے خبط کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟!
Name: Najma Mubarak
ووسعت مہارت میں اسالمی وفق ُِہ وسنت قر ٓان ۳:-تقویُ ۲:-اخالص١:- تُ۴:-
وذکاوت نظر دق ِ
اہلیت کی سمجھنے کے مشکالت جدید۵:-
جسے اجتہا ِد جدید کا شوق ہو یا وہ اُمت کا درد رکھتا ہو تو ان شرائط سے ٓاراستہ ہوکر’’لُجنۃ
مسائل جدیدہ کے حل میں ضرور مساہمت اختیار کرے۔ اگر ِ االجتہاد‘‘ کارکن بنے ،اور چوتھی قسم کے
اجتہا ِد جدید کا کوئی شائق اس سے ٓاگے لپکنے کی کوشش کرے گا تو اسے دین کے ساتھ مزاحمت
سمجھاجائے گا ،اور اس کی مزاحمت کرنا علماء دین کا فریضہ شمار ہوگا۔
فقہی احکام کی بناء علتوں پر ہوتی ہے ،حکمتوں پر نہیں ،مگر کسی نہ کسی حد تک حکمتوں پر نظر
ت جامعہ کا تقاضاقیاس شرعی اور استحسان کے تقابل کی صورت میں عل ِ ِ ہونا بھی ضروری ہے ،مثالً:
قیاس ظاہر سے عدول ِ یہ ہوگاکہ قیاس کی رعایت کی جائے ،مگر حکمت و مصلحت ،متقاضی ہوگی کہ
کرلیا جائے ،حکمت کی اسی رعایت اور ترجیح کا دوسرا نام استحسان ہے۔ استحسان فقہاء کے ہاں فقہ
کا ذیلی ماخذ بھی شمار ہوتا ہے ،بظاہر اصل ماخذ کے مقابلے میں ذیلی ماخذ کی طرف التفات‘ قوی
کے مقابلے میں ضعیف کی طرف التفات ہے ،مگر حکمت و مصلحت اس کی مرجح بنتی ہے۔ اس
حکمت کی رعایت بھی فقہاء کے ہاں اصل کا درجہ رکھتی ہے ،اس لیے فقہی مدرسین کو اپنے مطالعہ
کے دوران فقہی احکام کے ماخذ،اصول اور علتوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ حکمتوں پر اطالع کی
کوشش بھی کرنی چاہیے ،اس موضوع پر سب سے عمدہ کتاب حضرت شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمۃ
ہللا علیہ کی ’’حجۃ ہللا البالغۃ‘‘ہے،عالمہ شاطبی رحمۃ ہللا علیہ کی ’’الموافقات‘‘ کا ’’جزء
المقاصد‘‘ بھی مفید ہے۔
اسی طرح حضرت حکیم االمت تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کی کتاب ’’المصالح العقلیۃ فی االحکام
قابل استفادہ کتاب ہے ،ان کتابوں کے مطالعہ میں رہنے
(احکام اسالم عقل کی نظر میں) بھی ِ
ِ الشرعیۃ‘‘
سے یہ فائدہ ہوگاکہ ہمیں اور ہمارے طالب علم کو شرعی احکام کی معقولیت کاادراک ہوگا ،اور عقل
پرست طبقے کے زیغ وضالل سے محفوظ رہ سکیں گے۔
سوال نمبر۔5
علم کالم کے آغاز اور ارتقا کے اسباب تحریر کریں نیز اصول دین میں اختالف کے اسباب کون کون
سے ہیں؟ نوٹ لکھیں۔
Name: Najma Mubarak
گزشتہ دنوں جامعہ عثمانیہ پشاور ،جامعہ انوار القرآن کراچی اور بعض دیگر مدارس میں اساتذہ اور
طلبہ کی مختلف نشستوں میں ’’علم العقائد کا مر ّوجہ تعلیمی نصاب اور عصر حاضر کا چیلنج‘‘ کے
نذر قارئین ہے۔
عنوان پر گزارشات پیش کرنے کا موقع مال ،ان کا خالصہ ِ
درس نظامی کے نصاب میںِ علم العقائد اور علم الکالم کے حوالے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں
کرام کے ہاں عمومیپڑھایا جاتا ہے وہ اس بحث و مباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ہے جس کا صحابہ ؓ
طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔ اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اسالم کا دائرہ مختلف جہات میں پھیلنے
کے ساتھ ساتھ ایرانی ،یونانی ،قبطی اور ہندی فلسفوں سے مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں
کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و سواالت نے مسلمان علماء کو معقوالت کی طرف متوجہ کیا۔
ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کا نام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا جناب نبی
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے ،بس اسی کو بے چون و چرا مان لینے کا نام
کرام کو اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی عقیدہ ہے۔ ان عقائد کے حوالے سے صحابہ ؓ
تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے وہ بات فرما دی ہے ،اور نہ ہی انہیں
اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل و فہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں ،یا
ہمارے محسوسات و مشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ،اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن
و حدیث کی تصریحات پر ایمان رکھتے تھے بلکہ معقوالت کے حوالے سے عقائد پر بحث و مباحثہ کو
بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ بیرونی فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سواالت کھڑے ہوئے
اور علماء اسالم کو ان سواالت کے جواب میں اسالمی عقائد کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو
کرام کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین و اتباع تابعین کے دور
صحابہ ؓ
میں یہ مباحث اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔
معقوالت کے حوالے سے جب عقائد کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک
اس کے مسائل کی نوعیت اس طرح تھی کہ
کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے یا نہیں؟
جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے
حوالے سے ہوگی یا خالفت کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔
اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام و قوانین تک
محدود نہیں ہوتی تھی ،بلکہ ایمانیات یعنی عقائد اور وجدانیات یعنی تصوف و سلوک بھی فقہ ہی کے
ابوحنیفہ کا رسالہ ’’الفقہ االکبر‘‘ کہالتا ہے
ؒ شعبے شمار ہوتے تھے -چنانچہ عقائد پر حضرت امام
جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے اس عقلی مباحثے کو علم التوحید والصفات ،علم النظر واالستدالل اور
علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان مسائل پر عام طور پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ
شہرستانی کے بقول سب سے پہلے معتزلہ نے ؒ میں معتزلہ پیش پیش ہوتے تھے ،اس لیے امام
اسے ’’علم الکالم‘‘ کا نام دیا۔ جبکہ اہل سنت کے اکابر علماء نے اسے پسند نہیں کیا ،چنانچہ اصول فقہ
ابوحنیفہ نے فرمایا
ؒ کی متداول کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے محشی نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام
ٰ
فتوی ؒ
یوسف نے تعالی عمرو بن عبید کو تباہ کرے کہ اس نے کالم کا دروازہ کھوال ہے ،امام ابو
ٰ کہ ہللا
شافعی
ؒ حنبل نے اس کی مذمت کی ،اور امام ؒ دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے ،امام احمد بن
نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث و مباحثہ آگے بڑھتا گیا اور
ان علماء اسالم نے بھی جو اس بحث و کالم کو پسند نہیں کرتے تھے ،اسالمی عقائد کی عقلی وضاحت
اور اثبات کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے علمی معموالت میں شامل کر لیا ،چنانچہ
علم الکالم کے نام سے ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث و مباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات و تعبیرات کے
اہل
نتیجے میں اس دور میں جو فرقے وجود میں آئے ،ان میں معتزلہ ،جبریہ ،قدریہ ،مرجئہ ،خوارجِ ،
اہل تشیع اب تک اپنے پورے
اہل سنت اور ِاہل سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں سے ِ تشیع اور ِ
تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپنے نام اور تعارف کے ساتھ وجود نظر
نہیں آتا ،البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے
بغیر امت میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کا اجتماعی دھارا قرار دیتے
ہیں جن کی بنیاد دو اصولوں پر ہے:
Name: Najma Mubarak
ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی
ہے۔
یہ تو مختصر تعارف ہے اس علم الکالم کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور اب تک انہی
خطوط پر استوار ہے جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حوالے
سے پیدا ہونے والی ضروریات کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی
ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپنے تنزل اور غالمی کے اس دور میں ’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں
محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ’’علم
العقائد والکالم‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی
تناظر میں ایمانیات و عقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف
Name: Najma Mubarak
مختلف اصحاب فکر و دانش ہمیں وقتا ً فوقتا ً توجہ دالتے رہتے ہیں ،لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح
احساس و ادراک نہیں کر پا رہے۔
ہمارے ’’علم العقائد والکالم‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی ،ہندی اور
قبطی فلسفہ کے ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقوالت‘‘ کے عنوان
سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جبکہ خود اس فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے اور ارتقائی مراحل نے اس
کی شکل و صورت تک بدل کر رکھ دی ہے۔ مثالً ماضی میں سائنس کو معقوالت کا شعبہ تصور کیا
جاتا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی ،چنانچہ ہمارے ہاں فلکیات اور طبعیات کو معقوالت
ہی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ و معقوالت سے
الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب وہ معقوالت اور فلسفہ کا حصہ نہیں
درس نظامی کے نصاب میں اس ِ ہے بلکہ مشاہدات و محسوسات کے دائرے میں شامل ہے ،لیکن ہم
تبدیلی کا ابھی تک ادراک نہیں کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے
باعث عقائد اور ان کی تعبیرات کے ضمن میں جو نئے سواالت پیدا ہوئے ہیں ،ہم ان کا جواب دینے کی
سرے سے ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ مثالً فلکیات و طبیعیات جب تک فلسفہ و معقوالت کا حصہ
تصور ہوتے تھے ،ان کی کسی بات سے قرآن و سنت کے کسی ارشاد کے تعارض و تضاد کی صورت
میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ہے ،جبکہ معقوالت کا دائرہ اور
اس کے امکانات بہت وسیع ہیں ،اس لیے کوئی بات اگر ہماری معروضی اور محدود عقل کے دائرے
میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معقوالت کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے
امکانات سے بھی متصادم ہے۔ اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ کہ اطمینان کی صورت پیدا کر دیتا تھا
بلکہ بہت سی صورتوں میں عمالً بھی ایسا ہو جاتا تھا۔ لیکن سائنس کے عقل و فلسفہ کے دائرے سے
نکل کر مشاہدات و محسوسات اور تجربات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں
ہے اور ہمیں ایسے سواالت کے جوابات کے لیے کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب
علم عقائد کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے ِ
قابل توجہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے
اسی طرح یہ بات بھی ِ
سواالت لیے ہمارے سامنے کھڑا ہے اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ہے۔ جس نے اس قدر
ترقی کی ہے کہ جدید تہذیب اور گلوبل سوالئزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ
حاصل کر رکھی ہے اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اسی کے حوالے سے طے ہوتے ہیں۔
ہللا کے بعد اس درجہ کا ؒ
خلدون اور شاہ ولی ؒ مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ابن
Name: Najma Mubarak
کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے
دینی حلقوں کو اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل
کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی کے ارتقا کے حوالے سے سواالت اور شکوک کا ایک جنگل آباد
ہے مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سواالت کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو
سرے سے ان سواالت کا ادراک ہی حاصل ہے۔
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہونے والی
علمی تبدیلیوں اور خاص طور پر فلسفہ ،سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا
شدہ صورتحال میں ہمیں ’’علم العقائد والکالم‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب
عقائد میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ ان کی تعبیرات و تشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل
ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی میں یونانی اور دیگر فلسفوں کی آمد پر ہم نے اسالمی
عقائد پر پوری دلجمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ان کی علمی و عقلی توجیہات و تعبیرات کا ایک نیا
نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپنے عقائد و ایمانیات کے خالف فلسفہ و معقوالت کی یلغار
کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی اسی کام کے احیا کی ضرورت ہے اور عقائد و ایمانیات کے باب میں جدید
فلسفہ ،سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل اور اشکاالت کسی اشعری ،ماتریدی ،ابن حزم،
غزالی ،ابن رشد ،ابن تیمیہ اور شاہ ولی ہللا کی تالش میں ہیں جو ظاہر ہے کہ انہی مدارس کی کوکھ
سے جنم لیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو اس پہلو سے اپنے ’’بانجھ پن‘‘ کے اسباب کا کھلے دل و
دماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس کے عالج کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا
سب سے بڑا قرض یہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی بطور نمونہ عقائد و ایمانیات سے تعلق رکھنے والے چند سواالت کا ذکر کرنا چاہوں گا
قابل
جو آج کے علمی تناظر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے ِ
اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اسی طرح کی ذمہ داری ہے جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو
منصور ماتریدی نے اپنے دور کے علمی چیلنج کا منطق و استدالل کے ساتھ سامنا کیا تھا:
انسان کو جب نفع و نقصان کے ادراک کے لیے عقل دی گئی ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ
جاتی ہے؟
وحی کی ماہیت کیا ہے اور کیا یہ انسانی عقل و وجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے؟
Name: Najma Mubarak
انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا
ہے؟
مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھنے اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر
عمل کرنے میں کیا حرج ہے اور کسی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ہے؟
سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے افکار و نظریات اور تہذیب کو مسترد
کرنے کا کیا جواز ہے؟
قرآن و سنت کے معاشرتی احکام اس دور کی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس
سے مختلف ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟
احکام و قوانین میں مصالح و منافع اور اہداف و مقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ہے؟
یہ مسائل نئے نہیں ہیں ،بلکہ ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے زیر بحث رہے ہیں ،لیکن آج کے
عالمی تناظر میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ مسلمان کو اسالمی اعتقادات و
ایمانیات کے معیار پر باقی رکھنے کے لیے ان سواالت اور ان جیسے دیگر بہت سے سواالت کے
ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان
ہوں۔