Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 29

‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫)‪ (1906‬اسالمی علوم و افکار تاریخ ‪ :‬کورس‬

‫سمسٹر خزاں ‪2022‬‬

‫مشق نمبر۔ ‪01‬‬

‫سوال نمبر۔‪1‬‬

‫علم کا مفہوم واضح کریں نیز علم کے بارے میں محدثین وفقہا اور متکلمین کی آرا کا مفصل جائزہ لیں۔‬

‫تعریف کی علم‬

‫‪ :‬گویا ہیں کے ‪،،‬جاننا’’ معنی کے جس ہے ‪،،‬م ل ع’’ مادہ کا علم سے اعتبار فنی‬

‫یئ اِ ْد َراکُ اَ ْل ِع ْل ُم‬


‫‪.‬بِ َحقِ ْیقَتِه ال َّش ُِ‬

‫‪،،‬ہے۔ نام کا لینے جان سے حوالے کے حقیقت کی اس کو شے کسی علم’’‬

‫سے لینے جان کو حقیقت کسی موجود میں خارج عالم جو ہے تصور اور قضیہ ذہنی ایسا ایک علم یعنی‬
‫کے جس اور ہو مشتمل پر بہ محکوم اور محکوم جو ہے ہوتا پر قضیے ایسے اطالق کا علم ہے۔ عبارت‬
‫کہ ہیں سکتے کہہ ہم لہذا ‪،‬ہو ہوئی بیان میں قضیے جیسی ہو موجود حقیقت ہی ایسی میں خارج متوازی‬
‫کے خارج موجود اور ہو وجوبی اور کلی جو گا کہالئے علم قضیہ وہی ‪،‬سکتا ہو نہیں علم قضیہ ہر‬
‫ہو۔ مصداق کا صحت سے حوالے‬

‫علم ارکان‬

‫ہے۔ چار تعداد کی ارکان کے علم مطابق کے تعریف باال مندرجہ‬

‫)‪ (OBSERVER‬ناظر ۔‪1‬‬

‫المخلوقات اشرف درجہ اور امتیاز یہ ہے۔ کہالتا ناظر وہ ہے چاہتا جاننا میں بارے کے علم شخص جو‬
‫کچھ یعنی ‪،‬ہیں کہتے بھی علم طالب میں اصطالح معروف اسے ہے۔ حاصل کو انسان حضرت یعنی‬
‫علم کلی شخص کوئی ہے۔ بیکراں بحر ایک علم ہے۔ کہالتا علم طالب واال رہنے میں جستجو کی جاننے‬
‫جا کہا عالم اسے تو لے جان کچھ نہ کچھ جب طالب کا علم البتہ سکتا کر نہیں دعویُ کا لینے کر حاصل‬
‫ہے۔ سکتا‬

‫]‪ (OBJECT)[L : 3‬منظور ۔‪2‬‬


‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫یہ خواہ ‪،‬ہے ہوسکتی )‪ (Reality‬حقیقت کوئی مراد سے اس ہو۔ رہا جا جانا جسے ہے شے وہ منظور‬
‫حقائق و موجودات مادی غیر اور مادی کے اس اور بو و رنگ کائنات یہ حسی۔ یا ہو رکھتی وجود عقلی‬
‫ہیں۔ رکھتے درجہ کا منظور‬

‫)‪ (OBSERVING CAPABILITY‬نظر استعداد ۔‪3‬‬

‫کی جاننے کو چیز کسی میں اس ہے رہا کر )‪ (Observation‬مشاہدہ جو ناظر کہ ہے یہ مراد سے اس‬
‫کے جس حقیقت وہ( منظور اگر ہے۔ رکن تیسرا یہ کا علم ہے۔ موجود قدر کس استعداد اور اور صالحیت‬
‫چاہئے ہونی حاصل استعداد کی خمسہ حواس کو ناظر تو ہو کی نوعیت حسی )ہو رہا جا جانا میں بارے‬
‫منظور اگر برعکس کے اس سکے۔ لے میں ادراک حیطہ اپنے کو چیز اس سے خمسہ حواس وہ تاکہ‬
‫عقلی بغیر کے استعداد اس ہے۔ ضروری ہونا کا عقلی استعداد میں ناظر تو ہو کا نوعیت عقلی )‪(Object‬‬
‫لئے کے اس کہ ہو ایسا ‪ Object‬منظور اگر نہیں۔ ممکن آنا میں ادراک حیطہ کا ‪ Object‬کے نوعیت‬
‫سے صالحیتوں ان چاہئے۔ ہونا حامل کا استعداد وجدانی ہی ایسی بھی کو ناظر تو ہے ضروری وجدان‬
‫استعداد اس کا آدمی عام ہے۔ خاصہ کا انبیاء صرف اور صرف جو ہے کی وحی استعداد ایک بھی باالتر‬
‫العزت رب ہللا جو ہے )‪ (God Gifted‬عطائی پر طور کلی صالحیت یہ نہیں ہی ممکن ہونا ور بہرہ سے‬
‫ہے۔ مختص سے رسولوں اور انبیاء کے‬

‫)‪ (OBJECTIVITY‬منظوریت ۔‪4‬‬

‫اور اصلیت وہ مراد سے اس ہے۔ )‪ (Objectivity‬منظوریت رکن آخری اور چوتھا میں ارکان کے علم‬
‫کہ ہو قابل اس وہ کہ ہے الزم لئے کے حقیقت اس ہے۔ جاتی کی کوشش کی جاننے جسے ہے مقصدیت‬
‫سکے۔ ہو معلوم سے استعداد مخصوص بھی کسی کی ناظر‬

‫میں روشنی کی علق سورہ علم تصور‬

‫کی آیات پانچ پہلی کی علق سورہ ہم اب بعد کے توضیح و تشریح کی ارکان کے اس اور تعریف کی علم‬
‫ہیں۔ کرتے واضح کو علم تصور کے اسالم میں روشنی کی تفہیم‬

‫کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حضور امین جبرئیل جب میں خلوتوں کی حرا غار کو المبارک رمضان ‪17‬‬
‫وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی محبوب اپنے العزت رب ہللا ذریعہ کے وحی تو ہوئے حاضر میں اقدس خدمت‬
‫‪ :‬ہوا ہمکالم میں الفاظ ان سے‬

‫ق الَّ ِذي َربِّكَُ بِاس ُِْم ا ْق َر ْأُ‬


‫ق ‪O‬خَ لَ َُ‬ ‫ن ِْ‬
‫اْلن َسانَُ خَ لَ َُ‬ ‫‪O‬اْلَ ْك َرمُ َو َربُّكَُ ا ْق َرُْأ ‪َ O‬علَقُ ِم ُْ‬
‫اْلن َسانَُ َعلَّ َُم ‪O‬بِ ْالقَلَ ُِم َعلَّ َُم الَّ ِذي ْ‬
‫لَ ُْم َما ْ ِ‬
‫‪O‬یَ ْعلَ ُْم‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫اس ‪o‬فرمایا پیدا )کو چیز ہر( نے جس پڑھئے )ہوئے کرتے آغاز( سے نام کے رب اپنے )!حبیب اے(‬
‫ہی بڑا رب کا آپ اور پڑھیئے ‪o‬کیا پیدا سے وجود معلّق طرح کی جونک )میں مادر ِ‬
‫رحمُ( کو انسان نے‬
‫عالوہ کے اس( کو انسان نے جس ‪o‬سکھایا علم )کا پڑھنے لکھنے( ذریعے کے قلم نے جس ‪o‬ہے کریم‬
‫مصطفیُ محمد( انسان )رتبہ بلند سے سب( نے جس ‪:-‬یا( تھا۔ جانتا نہیں وہ جو دیا سکھا )کچھ( وہ )بھی‬
‫‪)o‬تھے جانتے نہ پہلے وہ جو دیا فرما عطا علم سارا وہ )کے قلم ذریعہ بغیر( کو )وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی‬

‫)‪، 96 : 1 - 5‬العلق(‬

‫اسے تھا جانتا نہیں کچھ انسان گویا گیا۔ کیا نازل کر دے پیغام کا علم میں جن ہیں مقدسہ آیات پانچ وہ یہ‬
‫کی عطا روشنی اسے گیا۔ الیا میں دامن کے اجالوں سے اندھیروں اسے ‪،‬لگا جاننے وہ ‪،‬گیا کیا عطا علم‬
‫رحمت حضور نے کائنات رب ذریعہ کے آیات باال مذکورہ ہے۔ نام کا سفر کے روشنی آگہی و علم ‪،‬گئی‬
‫ذہن دیا۔ کر منسلک سے تعلیم سلسلہ ایک باقاعدہ کو آدم نسل سے توسط کے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی عالم‬
‫غار سکول پہال سے سب میں اسالم تاریخ گویا کئے۔ روشن چراغ گنت ان کے آگہی و شعور میں انسانی‬
‫محمد حضرت االنبیاء سید شرف کا ہونے علم طالب واحد کے سکول اس ہوا۔ قائم میں خلوتوں کی حرا‬
‫باال مندرجہ ٹھہرے۔ کائنات خالق خود مربی و استاد اور ہوا نصیب کو وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی مصطفیُ‬
‫اور سائنسی تو کریں تیار خاکہ سا اجمالی ایک اور لیں جائزہ کا مشموالت اور مندرجات کے مقدسہ آیات‬
‫‪ :‬ہیں ہوتے مرتب عنوانات تین ذیل مندرجہ سے اعتبار اعتقادی‬

‫تصور ۔‪1‬‬
‫ُِ‬ ‫)‪ (Concept of Creation‬تخلیق‬

‫تخلیق ۔‪2‬‬
‫ُِ‬ ‫)‪ (Human Creation‬انسانی‬

‫)‪ (The Grandeur of God‬ربوبیتِِ عظمت ۔‪3‬‬

‫ہے سے حوالے کے علم موضوع چونکہ ہمارا ‪،‬ہیں نہیں بحث زیر ہمارے چونکہ موضوعات باال مندرجہ‬
‫کریں گفتگو پر موضوعات چھ ذیل درج سے حوالے کے علم تصور کے اسالم میں مبارکہ آیات ان ہم لہذا‬
‫گے۔‬

‫عنوانات چھ کے علم تصور‬

‫گا۔ جائے لیا تحت کے عنوانات چھ جائزہ کا پہلوؤں مختلف کے موضوع‬

‫ہے؟ کیا ماہیت کی اس اور ہے شے کیا علم کہ گا ہو یہ دیکھنا ‪ :‬علم‬

‫ہے؟ کیا مقصد کا اس اور ہے ضروری کیوں کرنا حاصل علم ‪ :‬علم مقصد‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫روشنی پر موضوع اس سے حوالوں کن اسالم اور ہے کیا نصاب کا علم تصور کے اسالم ‪ :‬علم نصاب‬
‫ہے۔ ڈالتا‬

‫چاہیے؟ ہونا کیا علم نتیجہ بعد کے شعور اکتساب اور علم حصول ‪ :‬علم نتیجہ‬

‫نشاندہی؟ کی ماخذات کے علم ‪،‬ہو ذریعہ کیا کا حصول کے علم ‪ :‬علم ذریعہ‬

‫ہو؟ کیا منتہا یا وسعت ‪،‬حد کی علم ‪ :‬علم وسعت یا علم حد‬

‫کی درج میں ذیل تفصیالت کی ان ہے۔ گیا دیا کر میں مبارکہ آیات ان تعین واضح کا عنوانات باال مندرجہ‬
‫‪ :‬ہیں جاتی‬

‫علم مقاصد اور علم تصور‬

‫)‪(Concept and Objects of Knowledge‬‬

‫اور لفظ جس آغاز کا وحی کہ گا ہو معلوم تو جائے کیا غور سا تھوڑا اگر پر آیت پہلی کی مبارکہ سورہ‬
‫نے ذوالجالل خدائے کہ ہوا یہ مطلب کا آغاز حرف اس ہے۔ سے پڑھنے تعلق کا اس ہے رہا ہو سے کلمہ‬
‫سے جہاں ہے قدم پہال وہ ہی علم حصول لہذا ہے کیا سے حکم کے علم تحصیل ہی آغاز کا ہدایت اپنی‬
‫مرتبہ تو ہیں کرتے غور پر الفاظ آخری کے آیت پانچویں ہم جب طرح اسی ہے۔ ہوتا آغاز کا نبوت مرتبہ‬
‫نبوت کہ ہیں سکتے کہہ سے اعتبار ایک گویاہم ہے۔ آتی نظر ہوتی ہی پر علم حصول بھی انتہا کی نبوت‬
‫لہذا ‪،‬ہے میں دامن کے ہی علم بھی وہ ہے کچھ جو باقی اور ہے ہی علم منتہابھی اور ہے علم بھی آغاز کا‬
‫لئے کے فروغ کے آسمانی ہدایت ‪،‬ہے آتی سامنے کر کھل حقیقت کی لکھنے پڑھنے اور علم سے اس‬
‫ترغیب کی جہاد مسلسل خالف کے اندھیروں کے جہالت اور ہے ہوتا اندازہ کا اہمیت کی علم حصول‬
‫ہے۔ ملتی‬

‫گی؟ ملے کو علم کس سند کی اعتبار‬

‫تھوڑا یعنی ‪،‬ہے نہیں نام کا )‪ (Literacy‬خواندگی محض تعلیم اور علم کہ چاہئے رہنی نشین ذہن بات یہ‬
‫حاصل عبور زیادہ تھوڑا پر )‪ (Professional Aspects‬پہلوؤں وارانہ پیشہ مختلف یا لینا لکھ پڑھ زیادہ‬
‫پوری ابرکرم کا علم کہ ہے منصب اور مقصد بڑا اتنا یہ ہے۔ نہیں بالذات مقصود نفسہ فی وغیرہ لینا کر‬
‫نہیں۔ شے کوئی خارج سے علم دامن میں باال و پست کائنات اس ہیں سکتے کہہ ہم ہے محیط پر کائنات‬
‫میں مقدسہ آیت پہلی کہ ہے یہ بات غور قابل لیکن ‪،‬ہے میں علم دائرہ شے ہر کی زمینوں اور آسمانوں‬
‫‪ :‬کہ ہے رہا جا کیا بیان سے حوالے کے علم تحصیل‬

‫ق الَّ ِذي َربِّكَُ بِاس ُِْم ا ْق َر ْأُ‬


‫‪O‬خَ لَ َُ‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫پڑھیئے۔ )ہوئے کرتے آغاز( سے نام کے رب اپنے )!حبیب اے(‬

‫)‪، 96 : 1‬العلق(‬

‫رب آغاز کا لکھنے پڑھنے اپنے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حبیب پیارے میرے کہ ہے خداوندی ارشاد‬
‫علم وہی نزدیک کے تعالیُ ہللا کہ ہے ہوتی واضح بات یہ سے اس کیجئے۔ سے نام بابرکت کے کائنات‬
‫یعنی ‪،‬ہوا سے نام بابرکت کے ذوالجالل خدائے آغاز کا تحصیل کی جس گا کرے حاصل قبولیت شرف‬
‫مرکزی کو نظریے اور عقیدے اسالمی میں جس اور جائے رکھی پر نام کے ہللا بنیاد کی جس علم ایسا‬
‫سے کرنے حاصل علم کہ ہے ضروری وضاحت کی امر اس یہاں ہو۔ حاصل )‪ (Central Status‬حیثیت‬
‫جاتے آ میں کار دائرہ کے اس بھی علوم سائنسی تمام بلکہ نہیں ہی حصول کا علوم روحانی اور دینی مراد‬
‫کہ ہے عادل و شاہد اسالم تاریخ ہے۔ آتا میں زمرے کے علم بھی حصول کا ٹیکنالوجی ترین جدید ہیں۔‬
‫کے وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی مرتبت ختمی حضور کر ڈال بنیاد کی علوم سائنسی نے سائنسدانوں مسلمان‬
‫کہ کیا عمل پورا پورا پر فرمان اس‬
‫الصِّین َولَوُْ ْال ِع ْل َُم ْ‬
‫أطلِبوا‬ ‫ُِ‬ ‫ْضةُ ْال ِع ْل ُِم طَلَبُ فَا ِ َُّ‬
‫ن بِ‬ ‫‪.‬م ْسلِمُ کلُِّ عَلی فَ ِری َ‬
‫ہے۔ فرض پر مسلم ہر کرنا حاصل علم شک بے پڑے۔ جانا چین خواہ کرو حاصل علم‬

‫)‪، 1 : 7‬فضله و العلم بیان جامع(‬

‫جدید سفر یہ کا کائنات ہے۔ رہی جا دی ترغیب کی کائنات تسخیر جابجا میں حکیم قرآن ساتھ ساتھ کے اس‬
‫کی اس اور رضا کی ہللا بھی حصول کا جدیدہ علوم البتہ نہیں۔ ممکن بغیر کئے حاصل مہارت میں علوم‬
‫گی۔ ہو عطا کو علم اسی بھی سند کی اعتبار اور چاہئے ہونا لئے کے کرنے حاصل خوشنودی‬

‫الہی معرفت اور علم‬

‫کو نظریے و عقیدے اسالمی اور گا ہو سے نام پاک کے العزت رب ہللا آغاز کا تحصیل کی علم جس‬
‫صحیح علم وہی لہذا گی۔ ہو نصیب معرفت کی تعالی ہللا ذریعے کے علم اس گی ہو حاصل مرکزیت‬
‫کر عطا معرفت کی ہللا ‪،‬دے کر نزدیک کے خالق و مالک اپنے کو انسان جو گا کہالئے علم میں معنوں‬
‫اس میں تعمیل کی حکم کے اس آخرکار اور دے کر عطا رسائی تک اس اور بندگی حقیقی کی اس ‪،‬دے‬
‫وہ ہے جاتا لے دور سے رب اپنے کو بندے جو علم ایسا برعکس کے اس آئے۔ لے تک نفاذ کے حکم کے‬
‫عملی اور علمی کو اذہان انکشافات سائنسی ترین جدید اور علوم ترین جدید نہیں۔ علم نزدیک کے ہللا‬
‫کا دماغ و دل کھلے جو سائنسدان ایک ہیں۔ آتے لے قریب بہت کے حقیقی خالق اپنے سے حوالوں دونوں‬
‫کو علم مرتبہ جاننا وہی لیکن ہے جاننا تعریف کی علم گو ہے۔ ہوتا پرست توحید پر طور بنیادی ہو مالک‬
‫بنے۔ باعث کا الہی قرب جو اور آئے میسر گوہر کا شناسی خدا سے حصول کے جس ہے پہنچتا‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫)‪ (WHAT IS IGNORANCE‬ہے؟ کیا جہالت‬

‫جاننا وہی کہ دیکھا نے ہم ہے؟ جہالت نام کا جاننے نہ کچھ کیا ہے؟ کیا جہالت کہ ہے ہوتا پیدا سوال اب‬
‫سے خدا جاننا جو لہذا ہے دیتا پتہ کا معرفت کی رب کے اس کو انسان جو ہے علم میں نظر کی اسالم‬
‫بن نہ ذریعہ کا معرفت کی اس اور شناسائی و آگاہی سے خدا ‪،‬قرب کے خدا علم جو اور دے کر دور‬
‫حامل کا ڈگریوں شمار بے شخص کوئی اگر سے اعتبار دنیوی ہے۔ جہالت میں حقیقت نہیں علم وہ سکے‬
‫ہی جاہل بھی کر ہو عالم شخص وہ تو دے کر بیگانہ سے معرفت کی ہللا اسے علم یہ کا اس لیکن ہو‬
‫وہ کہ کہتے نہیں ابوجہل لئے اس کو ابوجہل ہے۔ جہالت بلکہ نہیں علم ‪،‬علم وہ کا اس اور گا کہالئے‬
‫ابوجہل اسے لیکن تھا کہالتا شخص لکھا پڑھا سے اعتبار کے وقت اس وہ بلکہ تھا جانتا نہیں پڑھنا لکھنا‬
‫علم تصور کے اسالم کہ لئے اس سکا بن نہ ذریعہ کا الہی معرفت جاننا کا اس کہ ہے جاتا کہا لئے اس‬
‫ہے۔ ہوتا سے معرفت کی ہللا ہی آغاز کا علم حصول میں‬

‫تقسیم کی علوم سے اعتبار کے مقصد‬

‫ہو نصیب الہی قرب اور ‪،‬آئے میسر الہی معرفت سے جس علم وہ ہر کہ پاگئی طے بات بنیادی یہ جب‬
‫‪،‬القرآن علم صرف تو گے کریں تقسیم کی علوم ہم جب سے اعتبار اس تو ہے علم وہی میں معنوں صحیح‬
‫نہیں علوم دینی ہی وغیرہ التصوف اورعلم الصرف علم ‪،‬النحو علم ‪،‬الفقہ علم ‪،‬الحدیث علم ‪،‬التفسیر علم‬
‫کیمیا ‪ (Psychology)،‬نفسیات ‪ (Physics)،‬طبیعیات ‪ (Biology)،‬حیاتیات بلکہ گے ٹھہریں‬
‫تاریخ ‪ (Economics)،‬معاشیات ‪ (Sociolgy)،‬عمرانیات ‪ (Politics)،‬سیاسیات ‪(Chemistry)،‬‬
‫سائنسز کمپیوٹر ‪ (Nuclear Technology)،‬نیوکلئیرٹیکنالوجی ‪ (Law)،‬قانون ‪(History)،‬‬
‫‪ (Mass‬ابالغیات اور )‪ (Commerce‬تجارت ‪ (Management)،‬انتظامیات ‪(Computer Sciences)،‬‬
‫ان کہ ہے یہ صرف شرط گے۔ ہوں شمار میں زمرے کے علوم دینی بھی علوم کے )‪Communication‬‬
‫لہذا ‪،‬بنیں وسیلہ کا الہی قرب اور الہیہ معرفت علوم یہ اور ہو رضا کی ہللا مقصود سے حصول کے علوم‬
‫کا ہللا ذریعہ کے علم مقصد کا اس اور کرے سے نام کے ہللا آغاز کا علم حصول اپنے جو شخص وہ ہر‬
‫دین وہ ہو رہا کر حاصل علم میں شعبے بھی کسی ‪،‬خطے بھی کسی کے دنیا وہ تو ہو کرنا حاصل قرب‬
‫دامن اپنے سے اعتبار کسی نہ کسی گوشہ ہر ہر کا علوم تمام ان کیونکہ گا کہالئے ہی علم طالب کا الہی‬
‫کی خدا کو ہی تالش کی حق حرف ہے۔ رکھتا ضرور صورت کوئی نہ کوئی کی معرفت کی خدا میں‬
‫علوم دیگر کے دنیا ساتھ کے توانائیوں جملہ کی سلیم عقل انسان کوئی اگر ہے۔ جاتا کیا تعبیر سے تالش‬
‫نظر ہوتی منتج پر معرفت کی خدا انتہا کی علم سفر ہر کے اس تو جائے چال بڑھتا آگے میں تحصیل کی‬
‫اس توں توں گا جائے چال کرتا طے مراحل کے شعور و ادراک جوں جوں میں علم سفر اپنے وہ گی۔ آئے‬
‫ہوتے آشکار گوشے گنت ان کے عظمت کی اس اور الوہیت کی اس ‪،‬ربوبیت کی اس ‪،‬وحدانیت کی خدا پر‬
‫سے علم شغل جو ‪،‬مربوب اور مربی ہر ‪،‬شاگرد اور استاد ہر ‪،‬اورمتعلم ہرمعلم لہذا گے۔ جائیں چلے‬
‫ہے رہا رکھ قدم لئے اس صرف میں میدان کے تربیت و تعلیم وہ کہ چاہیے لینا جان اسے ہے ہوتا وابستہ‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫کا رسائی تک ذات اس اور قرب کے اس ‪،‬معرفت کی حقیقی خالق اپنے زندگی روزہ چند یہ کی اس کہ‬
‫ہو۔ ثابت ذریعہ‬

‫ہے کھال میدان کا علم‬

‫کے تفہیمات اسے ہے۔ نام کا سفر مسلسل کے روشنی علم نہیں۔ کنارہ کوئی کا جس ہے سمندر ایک علم‬
‫غور پر مفہوم و معنی کے ‪،،‬خلق’’ لفظ کے آیت پہلی ہم اگر جاسکتا۔ کیا نہیں مقید میں خانے محدود کسی‬
‫کا علوم مخصوص لئے کے علم تحصیل کہ ہے ہوجاتی واضح طرح کی روشن روز بات یہ تو کریں‬
‫‪ :‬ہے خداوندی ارشاد ہے۔ گیا رکھا کھال میدان کا علم بلکہ گیا کیا نہیں انتخاب‬

‫ق الَّ ِذي َربِّكَُ بِاس ُِْم ا ْق َر ْأُ‬


‫‪O‬خَ لَ َُ‬

‫فرمایا۔ پیدا )کو ہرچیز( نے جس پڑھیئے )ہوئے کرتے آغاز( سے نام کے رب اپنے )!حبیب اے(‬

‫)‪، 96 : 1‬العلق(‬

‫مضمون تو کیا پیدا کو کس کہ جاتا دیا بتا اگر کیا۔ پیدا کو کس کہ گیا کیا نہیں واضح یہ میں مذکورہ آیت‬
‫ہے۔ دیا چھوڑ کھال میدان کا علم نے العزت رب ہللا کہ ہوا بیان اوپر کہ جیسا ہوجاتیں۔ متعین حدود کی علم‬
‫ہے۔ خاموش آیت یہ سے حوالے کے کرنے بیان کو تخلیق اور ہے آیا مطلقاُ لفظ کا خلق میں کریمہ آیہ‬
‫لی مراد یہ سے اس لہذا ‪،‬کیا نہیں متعین رخ کوئی کا تخلیق اور خلق نے کائنات خدائے کہ ہے یہ مطلب‬
‫چونکہ ہے ہوتی آشکار بھی حقیقت یہ سے اقراء لفظ کیا۔ پیدا کچھ سب نے کائنات خالق کہ گی جائے‬
‫مقرر سمت کوئی بھی کی علم تحصیل لہذا گئی کی نہیں متعین سمت کوئی یا رخ کوئی کا خلق و پیدائش‬
‫کا العزت رب ہللا وہ ہے بھی کچھ جو میں باال و پست کائنات اس ہے۔ گیا دیا چھوڑ کھال میدان کا علم نہیں۔‬
‫کے ہللا بو و رنگ کائنات یہ کہ چاہئے لینا جان یہ ذریعہ کے علم اپنے کو انسان لئے اس ‪،‬ہے کردہ تخلیق‬
‫‪،‬ہے دیتا سفر اذن طرف کی زمینوں بنجر کو بادلوں وہی ‪،‬ہے رہا چال ہستی نظام وہی ‪،‬ہے قائم سے وجود‬
‫رب وہ ‪،‬ہے کرتا دستگیری کی بندوں اپنے میں مشکل ہر وہی ‪،‬ہے دیتا رزق کو کیڑے میں پتھر وہی‬
‫کا علم ہر وہ ‪،‬ہے محیط پر ذرے ذرے کے کائنات علم کا اس ‪،‬ہے شریک ال وحدہ وہ ‪،‬ہے کائنات‬
‫معنی کے خلق الذی ہے۔ دکھاتا راہ کی ہللا تجھے میں کائنات پوری علم تیرا !انسان اے اور ہے سرچشمہ‬
‫اور رحمتوں ان کی ذوالجالل خدائے تجھے تو کرے احاطہ کا وسعتوں کی زمین نظر تیری جب کہ ہیں یہ‬
‫کی زمینوں ساری مینہ کا کرم و فضل کے اس ہیں۔ ہوتی پر مخلوقات تمام کی اس جو ہو اندازہ کا برکتوں‬
‫و عظمت کی سماوات و ارض مالک تجھے تو دیکھے کو بلندیوں کی آسمان جب تو ہے۔ بجھاتا پیاس‬
‫تو جب اور آئے یاد جبروت و عظمت خدائی تو دیکھے کو پہاڑوں پوش فلک دے۔ دکھائی راہ کی رفعت‬
‫قدرت تجھے تو کرے نظارہ کا کھیتوں ہوئے لہلہاتے اور دریاؤں بہتے ‪،‬آبشاروں گرتے ‪،‬فصلوں شاداب‬
‫غرض ہے۔ رکھتا روا سے بندوں اپنے وہ جو آئے بھی یاد کی محبتوں اور شفقتوں ان ساتھ کے خداوندی‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫شاہکار کا )‪ (Exhibitor‬مظہر کسی نہ کسی چیز وہ تجھے پڑے بھی پر تخلیق کسی کی اس نگاہ تیری‬
‫دے۔ دکھائی‬

‫گفتگو جو تحت کے علم مقصد اور علم تصور کے اسالم میں روشنی کی مبارکہ آیت پہلی نے ہم تک اب‬
‫علم کسی تک وقت اس جاتا سمجھا نہیں کو علم مقصد تک جب کہ ہے ہوتا اخذ نتیجہ یہ سے اس ہے کی‬
‫کوئی میں ضمن اس نہ اور جاسکتا دیا نہیں فیصلہ حتمی کوئی میں بارے کے ہونے غلط یا صحیح کے‬
‫ہیں۔ کرتے تعین کا ہونے دینی ال اور دینی کے علم کسی ہی علم مقاصد لہذا ہے جاسکتا لگایا اندازہ‬

‫علم نصاب ۔‪3‬‬

‫کا جس ہا ہور نہیں استعمال میں معنوں معروف ان اپنے نصاب لفظ یہاں کہ چاہئے رہنی نشین ذہن بات یہ‬
‫وسیع اپنے نصاب لفظ یہاں بلکہ ہے ہوتا وغیرہ ‪ Courses of Reading‬یا )‪ (Syllabuss‬سلیبس مطلب‬
‫ہے۔ رہا ہو استعمال میں معنوں تر‬

‫خالق کا شے ہر وہ کہ لئے اس ہے ساتھ کے تعالیُ باری سے نسبت کی تخلیق تعلق کا شے ہر کی کائنات‬


‫اور چاند یہ ‪،‬آسمان اور زمین یہ چاہئے۔ ہونا سے شے ہر بھی تعلق کا علم ہمارے لہذا ہے مالک و‬
‫‪،‬طغیانی کی موجوں ‪،‬روانی کی دریاؤں یہ ‪،‬وسعت کی سمندروں یہ ‪،‬سیارے اور ستارے یہ ‪،‬سورج‬
‫کی حجر و شجر یہ ‪،‬غروب و طلوع کا قمر و شمس ‪،‬تبسم کا کلیوں ‪،‬تکلم کا قمریوں ‪،‬ترنم کا آبشاروں‬
‫رب صرف اور ہے خلق کچھ سب بود و ہست کائنات پوری الغرض ‪،‬رنگینی کی ثمر و برگ یہ ‪،‬شادابی‬
‫و یکتا وہ ‪،‬ساجھی کا اس کوئی نہ اور ہے شریک کا اس کوئی نہ ہے۔ خالق کی تخلیق عظیم اس ذات کی‬
‫الہی قرب اور الہی معرفت اسے کہ کرے حاصل علم کا چیز کس انسان کہ ہے ہوتا پیدا سوال اب ہے۔ تنہا‬
‫ہو؟ نصیب‬

‫کیا اشارہ پر طور واضح ہے۔ ذکر کا وسعت کی علم نصاب میں عمومیت اور اطالق کے ‪ :‬خلق الذی‬
‫ہے۔ کیا پیدا نے تعالیُ ہللا جسے کر حاصل علم کا شے اس ہر سے نام کے رب اپنے کہ ہے جارہا‬

‫ہے علم نصاب تخلیق ہر‬

‫وہ ہے کچھ جو عالوہ کے ذات کی مالک و خالق میں کائنات یا ہے کیا تخلیق کچھ جو نے العزت رب ہللا‬
‫تو ہے کرتا حاصل علم میں بارے کے ارضی کرہ اس انسان اگر ہے۔ آتا میں نصاب دائرہ کے علم ہمارے‬
‫‪،‬تغیرات تمام والے ہونے رونما پر سطح کی اس اور اندر کے زمین اور گا جائے دیا نام کا ارضیات اسے‬
‫شعور ‪،‬کیفیات و احوال اندرونی کے انسانی نفس اگر گے۔ آئیں بحث زیر وسائل سکے ا اور معدنیات تمام‬
‫اگر گا۔ کہالئے نفسیات علم ‪،‬علم یہ تو ہے چھوتا کو ‪ Conscious Process‬اور مباحث کی شعور ال و‬
‫تو ہے کرتا حاصل علم کا وغیرہ حرکت میں )‪ (Physical Phenomena‬طبیعی مظاہر کے اس اور مادہ‬
‫اور ہے کرتا تجزیہ پر بنیاد کی عقل کا منتہا و مبداء کے حقیقت کی انسان اگر ہوگا۔ علم کا طبیعیات یہ‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫کرتا مطالعہ کا عمل طرز کے اس سے اعتبار کے منصب و مقام کے انسان اور اصلی ماہیت کی کائنات‬
‫ہے لیتا جائزہ کا ترکیب کیمیائی کی اشیا مختلف موجود میں کائنات اگر گے۔ کہیں فلسفہ کو علم اس تو ہے‬
‫کرتاہے تجزیہ کا پہلوؤں حیاتیاتی کے زندگی کی ان اگر گا۔ جائے بن )‪ (Chemistory‬کیمیا علم علم یہ تو‬
‫اس ہے۔ کہالتا بیالوجی علم یہ تو ہے کرتا مطالعہ کا )‪ (Biological Phenomena‬حیاتیات مظاہر اور‬
‫انسان میں بارے کے پہلو کسی نہ کسی کے کائنات جو ہے فہرست طویل ایک کی علوم قدیم و جدید طرح‬
‫ہے جاسکتا کہا یوں مختصراُ ہے۔ کرتی آباد دنیا نئی کی انکشافات اور ہے دیتی دعوت کی فکر و غور کو‬
‫یعنی ‪،‬ہے شامل میں نصاب کے علم وہ ہے مظہر کی تخلیق کی برتر و بزرگ خدائے جو شے وہ ہر کہ‬
‫ہے۔ علم نصاب تخلیق ہر کی مالک و خالق‬

‫ازالہ کا فہمی غلط ایک‬

‫تصوف ‪،‬فقہ ‪،‬احادیث ‪،‬تفسیر ‪،‬مجید قرآن صرف نے اسالم کہ ہے ہوتا اخذ نتیجہ یہ سے بحث کی تک اب‬
‫ترین جدید کی عہد اپنے اور علوم سائنسی اسالم بلکہ کیا نہیں محدود کو علم نصاب ہی تک وغیرہ‬
‫شامل میں نصاب کے علوم سائنسی بھی استعمال کا علق لفظ ہے۔ کرتا نصاب شامل بھی کو ٹیکنالوجی‬
‫عمل کا جس ہے اصول حیاتیاتی ایک یہ ہے۔ جاتا کیا بھی خون ہوا جما معنی کا علق ہے۔ دلیل کی ہونے‬
‫حد کوئی بھی کی نصاب میں علم تصور کے اسالم کہ ہوا یہ بحث خالصہ ہے۔ تعلق گہرا ساتھ کے تخلیق‬
‫ہے۔ نہیں‬

‫فرق میں علوم اوردیگر مجید قرآن‬

‫دیگر اور قرآن کہ چاہئے کرلینی نشین ذہن بات بنیادی ایک لیکن ہے سرچشمہ کا علوم تمام مجید قرآن‬
‫جاتی کی بحث ہی سے اعتبار کے موضوع اپنے میں کتب تمام مشتمل پر علوم دیگر ہے۔ فرق میں کتب‬
‫قرآن لیکن ہے دیتی دکھائی خاموش متعلق کے ‪ Discipline‬دوسرے کتاب کی ‪ Discipline‬ایک اور ہے‬
‫علم کا مجید قرآن جبکہ ہے جزوی حیثیت کی علوم تمام دیگر ہے۔ سمندر اور خزانہ کا علوم تمام مجید‬
‫ہے۔ حامل کا حیثیت کی ماخذ و مصادر کے علوم تمام اور ‪،‬ہے کلی اور محدود غیر‬

‫حقیقت لطیف ایک‬

‫اور پرکھنے کو‪ Theory‬بھی کسی ہے۔ حامل کا حیثیت نظریاتی میں صورت تحریری علم کا مجید قرآن‬
‫اکرم حضور گاہ تجربہ کی علم قرآنی ہے۔ جاتا رکھا میں گاہ تجربہ کسی اسے لیے کے بنانے عمل قابل‬
‫کی مجید قرآن مقدسہ ذات کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی حضور ہے۔ اقدس ذات کی وسلم وآلہ علیہ ہللا صلی‬
‫صلی الرسول سیرت لئے اس ہیں المحدود علوم قرآنی چونکہ ہے۔ آئی سامنے ہمارے میں صورت عملی‬
‫کرسکتی۔ نہیں احاطہ کا محدود ال چیز محدود بھی کوئی کیونکہ ٹھہری محدود ال بھی وسلم وآلہ علیہ ہللا‬

‫علم نتیجہ ۔‪4‬‬


‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫کرتا حاصل علم انسان جب کہ ہے گیا کیا بیان سے حوالے کے علم نتیجہ میں آیت تیسری کی علق سورہ‬
‫اثرات ان ہیں۔ ہوتے مرتب بھی اثرات کے اس پر اطوار و افعال کے اس اور شخصیت کی اس پھر تو ہے‬
‫ہونے مرتب اثرات کیا کے اس پر انسان بعد کے علم حصول کہ یہ یا ہے جاتا دیا نام کا علم نتیجہ کو‬
‫ہے۔ خداوندی ارشاد چاہئیں۔‬

‫ُّک َُو إ ْق َر ْأُ‬


‫‪ْ O‬االَ ْک َرمُ َرب َُ‬

‫ہے۔ برتر و بزرگ ہی بڑا رب کا آپ اور پڑھئے‬

‫)‪، 96 : 3‬العلق(‬

‫ابتدا کوئی کی اس نہ ہے۔ ہوجاتی ختم پر تعالیُ باری ذات بلندی کی بلندی ہر اور عظمت کی عظمت ہر‬
‫وہ گا۔ رہے ہمیشہ اور ہے سے ہمیشہ وہ ‪،‬بھی کا ابد اور ہے مالک بھی کا ازل وہ ‪،‬انتہا کوئی نہ اور ہے‬
‫اور جاندار مخلوقات تمام ہے۔ محیط پر ذرے ذرے کے کائنات نور کا اس ہے۔ برتر اور اعلیُ سے سب‬
‫سچائی کائناتی بڑی سے سب کو انسان ناچیز میں مقدسہ آیات ہیں۔ پابند کی حکم کے اسی سب جاندار غیر‬
‫محض انسان ‪،‬ہے خاصہ کا خداوندی ذات صرف برتری اور بزرگی ‪،‬بڑائی کہ ہے جارہا کیا آگاہ سے‬
‫سلیقہ کا بندگی کی ہللا اسے ‪،‬ہے دیتا سبق کا فروتنی اور عاجزی کو انسان بھی علم ہے۔ کمتر و عاجز‬
‫ذہن و قلب سے نور کے علم انسان جب ہے۔ بخشتا ہنر کا ادراک کے جمال و جالل کے اس ‪،‬ہے سکھاتا‬
‫کسی سوا کے ذوالجالل رب گردن کی انسان کہ ہے نکلتا نتیجہ یہ کا اس پر طور توقدرتی کرلے منور کو‬
‫کے وقت اسے ہے۔ جاتا نکل سے دل کے اس خوف ہر سوا کے خدا خوف ‪،‬جھکتی نہیں سامنے کے اور‬
‫خاطر کو فرعون کسی وہ ہے۔ ہوتا عطا شعور کا للکارنے انہیں کر ڈال آنکھیں میں آنکھوں کی یزیدوں‬
‫اس اور ہللا صرف وہ ہے۔ پھیالتا ہاتھ سامنے کے قارون کسی لئے کے روائی حاجت نہ اور ہے التا میں‬
‫اعتراف کا عظمت اور بڑائی کی خدا ہے۔ کرتا حاصل اعزاز کا بننے سائل کا در کے معظم رسول کے‬
‫کہ ہے کرتا ظاہر نتیجہ یہ پر شخصیت کی اس احساس کا کمزوری اور عجز اپنے اور‬

‫لئے کے آسماں نہ ہے لئے کے زمیں تو نہ‬

‫لئے کے جہاں نہیں تو لئے تیرے ہے جہاں‬

‫انکسار و عجز احساس‬

‫رب ہللا یہ ہیں۔ جھکتی میں خداوندی بارگاہ وہ تو ہیں ہوتی بار ثمر وہ اور ہے ملتا نمو اذن کو شاخوں جب‬
‫جایا ٹ ٹو وہ تو جائے اکڑ بجائے کی جھکنے شاخ یہ اگر لیکن ہے ہوتا شکر سجدہ میں بارگاہ کی العزت‬
‫علم تحصیل جب بھی انسان طرح اس ہیں۔ افعال ناپسندیدہ ہاں کے ہللا تکبر غرورو کہ لئے اس ‪،‬ہے کرتی‬
‫کا انکسار و عجز وہ ہیں۔ لگتے ہونے منکشف پر اس سربستہ رازہائے کے قدرت تو ہے نکلتا پر راہ کی‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫ت اور ہے جاتا بن پیکر‬


‫و ارض رب وہ ہیں۔ جاتے بن دعا حروف پر ہونٹوں کے اس امتنان و تشکر کلما ُِ‬
‫اقدس ذات وہ کہ ہے کرتا اقرار بھی عمالُ وہ ہے۔ جاتا ڈوب میں پانیوں کے جبروت و جالل کے سماوات‬
‫ہیں۔ سرنگوں پر چوکھٹ کی اس بھی ثناء حروف تمام ‪،‬ہے لئے کے اسی بڑھائی ہر ‪،‬ہے کریم و عظیم‬
‫اپنی اندر کے اس کہ ہو مرتب یہ پر انسان نتیجہ کا علم اگر برعکس کے انکسار و عجز احساس اس لیکن‬
‫سے ذات اپنی بجائے کی ہللا منجانب کو کامرانیوں اور کامیابیوں دنیاوی ‪،‬اٹھے جاگ احساس کا بڑائی‬
‫سے تکبر و غرور اور لگے سمجھنے نتیجہ کا جدوجہد اور محنت اپنی کو ثمرات ‪،‬لگے کرنے منسوب‬
‫انتہائی کی جہالت تو وہ بلکہ ہوگا نہیں علم صاحب میں معنوں صحیح وہ تو جائے اکڑ گردن کی اس‬
‫ہوگا۔ رہا بن رزق کا گہرائیوں‬

‫ء اقرا لفظ نے العزت رب ہللا کہ ہے ہوتی منکشف حقیقت یہ سے کرنے غور پر مبارکہ آیت باال مذکورہ‬
‫علم کا اعتراف کے بڑائی کی خدا لہذا ہے کیا تذکرہ کا بڑائی اپنی ساتھ کے لفظ اس اور ‪،‬ہے دہرایا کو‬
‫کرسکے نہ مرتب اثرات یہ پر شخصیت کی انسان علم اگر ہے۔ الزمی ہونا ظاہر پر طور کے نتیجہ کے‬
‫اور ہے پست مانند کی خاک اور ناتواں ‪،‬فروتر وہ ‪،‬ہے پیکر کا انکساراورتواضع ‪،‬عجز تو )انسان( وہ کہ‬
‫پھر تو ہے کائنات خالق صرف اور صرف سزوار کا کبریائی اور بزرگی ‪،‬برتری ‪،‬عظمت ‪،‬بڑائی ساری‬
‫ہے۔ پلندہ کا جہالت اور گمراہی نہیں علم ‪،‬علم وہ‬

‫خاتمہ کا برتری احساس‬

‫سے پانیوں کے انکسار و عجز کو نظر و قلب ‪،‬ہے کرتا اجاگر کو بندگی احساس اندر کے انسان علم‬
‫احساس ہے۔ دیتا نکال کر چن چن کو تکبر و غرور اور برتری احساس سے اندر کے انسان ‪،‬ہے دھوتا‬
‫اسی فتور کا بننے خدا میں ذہنوں ہے۔ ناممکن تقریباُ عالج کا جس ہے بیماری نفسیاتی ایسی ایک برتری‬
‫کی برتری احساس اسی راستہ ہر کا نمرودیت اور فرعونیت ‪،‬ہے لیتا جنم سے کوکھ کی بیماری نفسیاتی‬
‫جاسکتا پایا قابو پر بیماری اس سے جس ہے ذریعہ ایسا ایک ہی علم ہے۔ گزرتا سے فریب مکرو وادی‬
‫دامن کا توازن اور اعتدال وہ اور ہے ہوتی شکنی حوصلہ کی برتری احساس اندر کے انسان سے اس ہے۔‬
‫کچھ سب نے میں کہ کردے شروع سمجھنا یہ کے کر حاصل علم انسان اگر چھوڑتا۔ نہیں سے ہاتھ اپنے‬
‫بہت کی اس یہ تو ہوں گیا بن عالم مکمل ایک میں اور ہے ہوگیا مکمل عمل کا علم تحصیل ‪،‬ہے لیا جان‬
‫ہے۔ رہا کر سفر گرد کے جہالت بلکہ پہنچا نہیں بھی کو گرد کی علم اس وہ ہے۔ بھول بڑی‬

‫ہے پہچان کی علم ہی علمی ال اظہار‬

‫کا علم تحصیل ‪،،‬ہے۔ سمجھتا دانا کو آپ اپنے جو بچو سے نادان اس’’ کہ ہے قول کا دانش و علم ارباب‬
‫بھی تصور کا دسترس مکمل پر علم ‪،‬ہے رہتا ہی علم طالب عمر ساری انسان ‪،‬ہوتا نہیں مکمل کبھی عمل‬
‫جاگز بھی احساس کا خبری بے میں دل کے انسان ساتھ کے اضافے میں علم کہ ہے یہ حقیقت ہے۔ محال‬
‫ہوتا ادراک کا آگہی کم اپنی اسے ہی اتنا ہے ہوتی زیادہ جتنی پاس کے انسان دولت کی علم ہے۔ ہوجاتا ین‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫لیا۔ نہیں بھی قطرہ ایک سے سمندر اس ابھی تو نے میں ‪،‬ہے سمندر وسیع ایک تو علم کہ ہے جاتا چال‬
‫طلب دامن کا اس کہ ہے ہوتی منکشف حقیقت یہ پر اس تو ہے پہنچتا کو کمال نقطہ اپنے علم کا انسان جب‬
‫ہے۔ سرچشمہ کا علم ہر وہی کہ ہے پاس کے ہللا تو علم سارا ہے ہی خالی کا خالی ابھی تو‬

‫تعریف کی علم اور عنھم ہللا رضی اکبر صدیق سیدنا‬

‫کے وانکسار عجز سے سمندر کے علم جانتا۔ نہیں کچھ وہ کہ ہے کرتا پیدا شعور یہ اندر کے انسان علم‬
‫‪ :‬فرمایا ہوئے کرتے تعریف کی علم نے عنھم ہللا رضی صدیق ابوبکر حضرت سیدنا ہیں۔ پھوٹتے سوتے‬

‫انسان ہے۔ علم نام کا ہوں قاصر سے جاننے میں کہ لینا جان یہ یعنی ‪،،‬ادراک االدراک درک عن العجز’’‬
‫جوں ہیں۔ ہوتے منکشف حقائق ہی اتنے پر ذات کی اس ہے ہوتا بلند جتنا میں درجے کے علم تحصیل‬
‫و عجز میں اس توں توں ہیں ہوتی آشکار پر اس پہنائیاں کی حقائق ان اور ہیں ہوتی نقاب بے حقیقتیں جوں‬
‫کی نکتے اس یہاں ہے۔ لگتا کرنے تصور ناچیز کوذرئہ خود وہ اور ہیں ہوتی اجاگر خوبیاں کی انکسار‬
‫ی کمتر احساس سے حوالے بھی کسی اظہار یہ کا انکساری و عجز کہ ہے ضروری وضاحت‬
‫کے پانے کچھ بہت تو اظہار یہ کہ کیوں ‪،‬ہوسکتا نہیں شمار میں زمرے کے )‪(Inferiority Complex‬‬
‫سوال کا کمتری احساس کے قسم کسی لئے اس ہے ہوتا سامنے کے العزت رب اظہار یہ اور ‪،‬ہے ہوتا بعد‬
‫ہوتا۔ نہیں پیدا ہی‬

‫ا‬

‫سوال نمبر۔‪2‬‬

‫دور تابعین میں تفسیری مراکز اور تفسیری خصوصیات پر مفصل نوٹ لکھیں‬

‫کی حدیث و قرآن نے )ھ‪ 1176‬م( دہلوی ہللا ولی شاہ حضرت( اللہی ولی خاندان میں ہند و پاک برصغیر‬
‫پہنچا۔ ہند بیرون اور ہند شہرہ علمی کا خدمات کی ان اور دیں۔ انجام خدمات گرانقدر میں اشاعت و نشر‬
‫حضرت ہے۔ ہوتا اندازہ کا کوشش و سعی کی ان اور خدمات علمی کی ان سے تصانیف کی ان کہ جیسا‬
‫محدث عبدالعزیز شاہ حضرت مقام عالی صاجزادگان چاروں کے ان بعد کے انتقال کے دہلوی ہللا ولی شاہ‬
‫اور )ھ‪ 1249‬م( دہلوی الدین رفیع شاہ موالنا ‪)،‬ھ‪ 1243‬م( دہلوی عبدالقادر شاہ موالنا ‪)،‬ھ‪ 1239‬م( دہلوی‬
‫رکھا۔ جاری کو مشن کے بزرگوار والد اپنے نے )ھ‪ 1227‬م( دہلوی عبدالغنی شاہ موالنا‬

‫شاہ موالنا صاجزاہ کے عبدالغنی شاہ موالنا اور پوتے کے دہلوی ہللا ولی شاہ حضرت بعد کے ان‬
‫کی آپ دیا۔ کر برپا عظیم انقالب میں کارناموں علمی و تجدیدی نے )ھ‪ 1246‬ش( دہلوی شہید اسماعیل‬
‫مقبولیت کی کتاب اس اور دیا۔ بنا گرویدہ کا سنت و کتاب کو الہُ بندگان الکھوں نے "االیمان تقویۃ" کتاب‬
‫ہوئی۔ آراستہ سے طبع زیور میں تعداد کی الکھوں تک اب کتاب یہ کہ ہے سکتا ہو سے اس اندازہ کا‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫اور قلم کے )ھ‪ 1307‬م( خاں حسن صدیق نواب سید موالنا السنۃ محی بعد کے شہید اسماعیل شاہ حضرت‬
‫پہنچایا۔ فیض بڑا کو ہند مسلمانان نے تدریس کی )ھ‪ 1320‬م( دہلوی حسین نذیر محمد سید موالنا الکل شیخ‬
‫م( نوشہروی خان امام ابویحییُ مؤلفہ ہند حدیث علمائے تراجم )ھ‪ 1373‬م( ندوی سلیمان سید عالمہ‬
‫کہ ہیں لکھتے میں مقدمہ کے )ھ‪1386‬‬

‫نامور سے بہت کے گڑھ اعظم اور سہوان ‪،‬قنوج رہا۔ مرکز کا حدیث اہل علمائے تک زمانہ ایک بھوپال"‬
‫دہلی اور تھے سرخیل کے سب ان )ھ‪ 1327‬م( یمنی حسین شیخ تھے۔ رہے کر کام میں ادارہ اس علم اہل‬
‫و مشرق حدیث طالبان جوق در جوق اور تھی ہوئی بچھی درس مسند کی دہلوی حسین نذیر میاں میں‬
‫"تھے۔ رہے کر رخ کا درسگاہ کی ان سے مغرب‬

‫ایک نے جنہوں ہوئے۔ پیدا علماء ہزاروں سے درسگاہ کی دہلوی محدث حسین نذیر محمد سید موالنا‬
‫دوسری اور دی۔ کر صرف کوشش میں کرنے قمع قلع کا بدعت و شرک میں ہندوستان پورے تو طرف‬
‫سر کارنامے علمی شاندار ایسے میں ترویج و ترقی کی سنت و کتاب اور اشاعت کی اسالم دین طرف‬
‫ہیں۔ رکھتے حیثیت کی میل سنگ ایک میں تاریخ کی برصغیر جو دئیے انجام‬

‫اہل تاریخ وہ ‪،‬دئیے انجام سر کارنامے شاندار جو میں سلسلہ کے تالیف و تصنیف نے حدیث اہل علمائے‬
‫اس لکھیں۔ تفسیریں میں پنجابی ‪،‬اردو ‪،‬فارسی ‪،‬عربی میں قرآن تفاسیر ہے۔ باب درخشندہ ایک کا حدیث‬
‫میں تردید کی باطلہ ادیان اور تقلید تردید ‪،‬تصوف ‪،‬لغت ‪،‬ادب ‪،‬تاریخ ‪،‬عقائد ‪،‬فقہ ‪،‬حدیث شروح عالوہ کے‬
‫‪:‬ہیں لکھتے بنارسی سلفی مستقیم محمد موالنا لکھیں۔۔۔ کتابیں شمار بے‬

‫اس خدمات تصنیفی اور تبلیغی ‪،‬اصالحی ‪،‬سیاسی ‪،‬علمی کی حدیث اہل جماعت میں ہند و پاک برصغیر"‬
‫و اعتقادی کی مسلمانوں طرف ایک نے جماعت اس ہے۔ رہا باب روشن ایک ہمیشہ کا تاریخ کی ملک‬
‫سے تعلیمات سچی کی اسالم ذریعہ کے تدریس و تبلیغ جہاں لئے کے کرنے ختم کو گمراہیوں عملی‬
‫"دی ڈال جان میں تحریک علمی کی برصغیر ذریعہ کے تصنیف وہاں کرایا۔ روشناس کو لوگوں‬

‫احاطہ کا ان ہیں۔ دی انجام سر کدمات علمی جو نے حدیث اہل علمائے میں سلسلہ کے مجید قرآن تفاسیر‬
‫میں سلسلہ کے مجید قرآن تفاسیر نے میں ‪،‬ہے سکی ہو رسائی میری تک جہاں تاہم ہے۔ مشکل بہت کرنا‬
‫ہے۔ دی کر نشاندہی کی ان ‪،‬ہیں گئی لکھی کتابیں جو‬

‫تفسیر علم‬

‫سے وضاحت کے مجید قرآن میں اصطالح اور ہیں۔ کے "کھولنا" معنی لفظی کے تفسیر میں زبان عربی‬
‫ہوئے کرتے خطاب کو وسلم علیہ ہللا صلی نبی میں مجید ہیں۔۔۔قرآن کہتے تفسیر کو کرنے بیان معانی‬
‫‪:‬ہے ارشاد‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫اس لِتبَیِّنَُ ال ِّذ ْك َُر إِلَیْكَُ َوأَنزَ ْلنَا‬ ‫النحل‪ ﴿٤٤﴾...‬یَتَفَ َّكرونَُ َولَ َعلَّھ ُْم إُِلَ ْی ِھ ُْم ن ِّز َُ‬
‫ل َما لِلنَّ ُِ‬

‫اتاری طرف کی ان جو کریں بیان سے وضاحت سامنے کے لوگوں آپ تاکہ اتارا پر آپ قرآن نے ہم اور"‬
‫"ہیں گئی‬

‫‪:‬ہے کی وضاحت یوں نے مجید قرآن جگہ دوسری اور‬

‫ث إِ ُْذ ْالم ْؤ ِمنِینَُ َعلَى اللَّـهُ َم َُّ‬


‫ن لَقَ ْدُ‬ ‫‪َ ...‬و ْال ِح ْك َم ُةَ ْال ِكت َُ‬
‫َاب َوی َعلِّمھمُ َویزَ ِّكی ِھ ُْم آیَاتِ ُِه َعلَ ْی ِھ ُْم یَ ْتلو أَنف ِس ِھ ُْم ِّم ُْ‬
‫ن َرسوالُ فِی ِھ ُْم بَ َع َُ‬
‫عمران آل‪﴿١٦٤﴾ ...‬‬

‫ان جو بھیجا رسول ایک سے میں انہی درمیان کے ان جبکہ کیا۔ احسان بڑا پر مسلمانوں نے ہللا بالشبہ"‬
‫کی دانائی اور کتاب کی ہللا انہیں اور کرے صاف و پاک انہیں اور کرے تالوت آیات کی ہللا سامنے کے‬
‫"دے تعلیم کی کتابوں‬

‫‪:‬ہے کی میں الفاظ ذیل درج تعریف مختصر کی تفسیر علم نے )ھ‪ 794‬م( زرکشی عالمہ‬

‫أحكامه واستخراج‪ ،‬معانیه وبیان ‪ ،‬وسلم علیه ہللا صلى محمد نبیه على المنزل ہللا كتاب فھم به یعرف علم(‬
‫)‪) (3‬وحكمه‬

‫اس اور وضاحت کی معانی کے اس اور ہو حاصل فہم کا کریم قرآن سے جس ‪،‬ہے علم وہ تفسیر یعنی‬
‫سکے۔ جا کیا استنباط کا حکمتوں اور احکام کے‬

‫‪:‬ہیں فرماتے )ھ‪ 1270‬م( آلوسی محمود عالمہ‬

‫تحمل التى ومعانیھا ‪،‬والتركیبیة اْلفرادیة وأحكامھا ‪،‬ومدلوالتھا القرآن بألفاظ النطق كیفیة عن فیه یبحث علم(‬
‫)‪ ) (4‬وتتمات ‪،‬التركیب حالة علیھا‬

‫اور انفرادی کے ان ‪،‬مفہوم کے ان ‪،‬طریقے کے ادائیگی کی قرآن الفاظ میں جس ہے علم وہ تفسیر علم‬
‫کئے متعین مراد سے حالت ترکیبی سے الفاظ ان ہے۔ جاتی کی بحث سے معانی کے ان اور احکام ترکیبی‬
‫کیا بیان میں شکل کی توضیح کی مبہم اور نزول شان ‪،‬منسوخ و ناسخ تکملہ کا معانی ان نیز ہیں۔ جاتے‬
‫ہے۔ جاتا‬

‫شارح اول کے کریم قرآن وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت ہوا۔ میں رسالت عہد پہلے سے سب آغاز کا تفسیر‬
‫و تشریح کی اس خود وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت تو ہوتا نازل مجید قرآن بھی جب تھے۔ ترجمان و‬
‫صلی آنحضرت جب کرتے۔ نہ جسارت کی قرآن تفسیر عنہم ہللا رضی کرام صحابہ اور فرماتے توضیح‬
‫اظہار کے علم اپنے لئے کے عنہم ہللا رضی کرام صحابہ تو گئے لے تشریف سے دنیا اس وسلم علیہ ہللا‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫نہ چارہ سوا کے توضیح و تشریح لئے کے معلومات کردہ حاصل سے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت اور‬
‫تھا۔‬

‫تاویل اور تفسیر‬

‫کے تفسیر اپنی نے کریم قرآن خود اور ہے ہوتا استعمال بکثرت بھی "تاویل" لفظ اور ایک لئے کے تفسیر‬
‫ہے۔ کیا استعمال لفظ یہ لئے‬

‫ال تَأْ ِویلَهُ یَ ْعلَمُ َو َما‬


‫عمران آل‪...﴿٧﴾ ...‬ہللا إِ َّ ُ‬

‫"جانتا نہیں کوئی سوا کے تعالیُ ہللا مطلب صحیح کا اس حاالنکہ"‬

‫ہیں ہی ایک "تاویل اور تفسیر" الفاظ دونوں یہ کہ ہے رہا زیربحث مسئلہ یہ میں کرام علمائے بعد کے اس‬
‫کرنا نقل یہاں کو اقوال سب ان اور ہیں مختلف اقوال کے کرام علمائے میں اس ہے۔ فرق کچھ میں ان یا‬
‫‪:‬ہیں یہ اقوال چند تاہم ہے۔ مشکل بہت‬

‫ہیں۔ کہتے کو تشریح مجموعی کی جملے تاویل اور ہے نام کا تشریح انفرادی کی لفظ ایک ایک تفسیر ۔‪1‬‬

‫ہے یہ مطلب کا تاویل اور ‪،‬ہو نہ احتمال کا معانی زیادہ سے ایک میں جس ہے ہوتی کی آیت اس تفسیر ۔‪2‬‬
‫کرایا اختیار ساتھ کے دلیل کو ایک کسی سے میں ان ہیں۔ نہیں ممکن تشریحات مختلف جو کی آیت کہ‬
‫جائے۔‬

‫)‪(5‬ہے۔ نام کا توضیح کی مراد اصل تاویل اور ہیں کہتے کو کرنے بیان معانی ظاہری کے الفاظ تفسیر ۔‪3‬‬

‫ہے۔ جاتا کہا کو کرنے تشریح ساتھ کے تردد تاویل اور ہے جاتا کہا کو تشریح ساتھ کے تعین ‪،‬تفسیر ۔‪4‬‬

‫نتائج اور سبق والے نکلنے سے مفہوم اس تاویل اور ہے نام کا دینے کر بیان مفہوم کے الفاظ تفسیر ۔‪5‬‬
‫ہے۔ نام کا توضیح کی‬

‫میں معنی اس کو تاویل متاخرین جبکہ ہے۔ کیا استعمال بھی معنی ہم کو تاویل اور تفسیر نے متقدمین‬
‫سے تفسیر بالمقابل کے اس "کرنا اختیار مفہوم مرجوح کر چھوڑ کو مفہوم راجح" ‪:‬ہیں کرتے استعمال‬
‫ہے۔ ہوتا مقصود کرنا تشریح اور مفہوم راجح کا جملہ کسی‬

‫ماخذ کے تفسیر‬

‫ہیں۔ کئے بیان ذیل حسب ماخذ کے تفسیر نے کرام علمائے‬


‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫اقوال )‪ (3‬نبوی حدیث )‪ (2‬مجید قرآن)‪(1‬‬


‫ُِ‬ ‫اقوال )‪ (4‬عنہم ہللا رضی صحابہ‬
‫ُِ‬ ‫لغت )‪ (5‬علیہم ہللا رحمۃ تابعین‬
‫)سلیم عقل( استنباط و تدبر )‪ (6‬عرب‬

‫مجید قرآن‬

‫دیتی کر تفسیر کی دوسرے ایک اوقات بعض آیات کی اس یعنی ‪،‬ہے مجید قرآن ماخذ پہال کا تفسیر علم‬
‫آیت کوئی طرح اسی ہے۔ جاتا دیا کر رفع کو ابہام کا اس جگہ دوسری تو ہے مبہم آیت کوئی اگر کسی ہیں‬
‫‪:‬ہے ارشاد میں فاتحہ سورۃ مثال ہے۔ مفصل جگہ دوسری تو ہے مختصر‬

‫طَ ﴾‪ْ ﴿٦‬الم ْستَقِی َُم الصُِّ َرا ُ‬


‫طَ ا ْھ ِدنَا(‬ ‫) َعلَ ْی ِھ ُْم أَ ْن َع ْمتَُ الَّ ِذینَُ ِ‬
‫ص َرا ُ‬

‫"فرمایا انعام نے آپ پر جن کی راستے کے لوگوں ان کیجئے ہدایت کی رستے سیدھے ہمیں"‬

‫دوسری لیکن ہیں لوگ کون وہ ہے۔ گیا کیا انعام پر لوگوں جن کہ گئی کی نہیں واضح بات یہ میں آیات ان‬
‫‪:‬ہے ارشاد چنانچہ ہے۔ دی کر بیان میں الفاظ صاف تشریح و توضیح کی اس جگہ‬

‫(‬
‫َِ‬
‫نے تعالیُ ہللا پر ان ہیں۔ کرتے اطاعت کی وسلم علیہ ہللا صلی رسول کے اس اور تعالیُ ہللا لوگ جو"‬
‫َِ‬
‫"ہیں رفیق لوگ نیک یہ اور شہداء ‪،‬صدیقین ‪،‬کرام انبیائے یعنی فرمایا انعام‬
‫ن‬
‫و تشریح کی اس پہلے سے سب تو ہیں کرتے تفسیر کی آیت کسی وہ جب کہ ہے قاعدہ یہ کا کرام مفسرین‬
‫ہیں۔ کرتے تالش سے مجید قرآن توضیح‬ ‫ِ‬
‫ِِ‬
‫ت تفسیر کی جن ہیں آیات سی بہت میں مجید قرآن ہے۔ گیا کیا اکتفاء پر آیت ہی ایک صرف یہاں‬ ‫قرآن آیا ُِ‬
‫ِ‬
‫م( جوزی ابن عالمہ ہیں۔ لکھی کتابیں بہت نے کرام علمائے پر بالقرآن بالقرآن تفسیر ہے۔ ہوئی سے‬
‫ا)‪(7‬تھی۔ لکھی تفسیر ایک کی قسم اسی نے )ھ‪597‬‬

‫لتفسیر ایک عربی بزبان پر طرز اسی بھی نے )ھ‪ 1367‬م( امرتسری ثناءہللا ابوالوفا موالنا االسالم شیخ‬
‫ِّ‬
‫فرمائی۔ رقم "الرحمن بکالم القرآن تفسیر" بنام‬
‫َِ‬
‫ـنبوی حدی ُِ‬
‫ث‬
‫ِ‬
‫کی وضاحت کی اس پر مقامات متعدد نے مجید قرآن ‪،‬ہے نبوی حدیث ماخذ دوسرا کا تفسیر کی مجید قرآن‬
‫کی قرآنی آیات سے فعل و قول اپنے آپ کہ تھا یہی مقصد کا فرمانے مبعوث میں دنیا اس کا آپ کہ ہے‬
‫َِ‬
‫‪:‬فرمائیں تفسیر‬
‫ا‬
‫ل‬
‫ِّ‬
‫َِ‬
‫ِ‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫اس لِتبَیِّنَُ ال ِّذ ْك َُر إِلَیْكَُ َوأَنزَ ْلنَا‬


‫ل َما لِلنَّ ُِ‬
‫النحل‪ ... ﴿٤٤﴾...‬إِلَ ْی ِھ ُْم ن ِّز َُ‬

‫بیان سے وضاحت باتیں وہ سامنے کے لوگوں آپ کہ ہے کیا نازل لئے اس پر آپ مجید قرآن نے ہم اور"‬
‫"گئیں کی نازل طرف کی ان جو فرمائیں‬

‫انجام سر خوبی و بحسن فریضہ یہ سے دونوں عمل و قول اپنے نے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت چنانچہ‬
‫تفسیر کو حدیث صحیح نے کرام مفسرین چنانچہ ہے۔ تفسیر عملی کی کریم قرآن زندگی پوری کی آپ دیا۔‬
‫ہے۔ دیا قرار ماخذ دوسرا کا‬

‫اقوالُ‬
‫ِ‬ ‫عنہم ہللا رضی صحابہ‬

‫اقوال ماخذ تیسرا کا تفسیر‬


‫ُِ‬ ‫تعلیم کی کریم قرآن نے عنہم ہللا رضی کرام ہے۔صحابہ عنہم ہللا رضی صحابہ‬
‫نفیس نفس بہ وہ وقت کے نزول کے قرآن کی۔ حاصل سے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت راست براہ‬
‫خود بذات کا منظر پس اور ماحول پورے وقت کے نزول کے مجید قرآن نے انہوں اور تھے۔ موجود‬
‫قابل اور مستند کو اقوال کے حضرات ان میں تفسیر کی کریم قرآن پر طور فطری لئے اس تھا۔ کیا مشاہدہ‬
‫بعد کے اس تو ملئ نہ سے حدیث و قرآن تفسیر کی آیات جس کہ لئے اس ‪،‬ہے سکتا جا سمجھا اعتبار‬
‫سمجھا معتبر کو تفسیر اس تو ‪،‬ہے گیا ہو اتفاق پر تفسیر کی آیت کسی کا عنہم ہللا رضی کرام صحابہ‬
‫ہے۔ سنا سے وسلم علیہ ہللا صلی اکرم نبی نے انہوں کہ ہے کا امر اس امکان غالب کہ گا جائے‬

‫اقوالُ‬
‫ِ‬ ‫علیہم ہللا رحمۃ تابعین‬

‫میں اس کیا۔ حاصل علم سے عنہم ہللا رضی کرام صحابہ نے جنہوں ہیں حضرات وہ مراد سے تابعین‬
‫اتفاق بھی پر اس کا کرام علمائے جمہور لیکن نہیں۔ یا میں حجت ہیں تفسیر تابعین اقوال آیا کہ ہے اختالف‬
‫‪:‬کہ ہیں لکھتے )ھ‪ 1338‬م( دہلوی حسن احمد سید موالنا ۔۔۔ ہیں حجت میں تفسیر تابعین اقوال کہ ہے‬

‫ہیں کہتے کر سن سے عنہم ہللا رضی صحابہ وہ ہیں کہتے کچھ جو تابعی مفسر میں باب کے تفسیر"‬
‫طرف اپنی میں تفسیر کی پاک قرآن کہ تھی معلوم بات یہ کو عنہم ہللا رضی صحابہ طرح جس کیونکہ‬
‫معلوم بھی کو کرام تابعین بات یہ لئے اس ہے۔ بنانا ٹھکانہ اپنا میں دوزخ کہنا کچھ پر طور عقلی سے‬
‫وہ کے سننے سے عنہم ہللا رضی صحابہ بغیر کہ ہے نہیں جائز گمان بھی نسبت کی تابعین پھر ‪،‬تھی‬
‫)‪"(9‬گے کریں بیان پر طور عقلی سے طرف اپنی مطلب کا آیت کسی‬

‫تُ‬
‫عرب لغ ِ‬
‫کی اس ہوا۔ نازل میں زبان عربی مجید قرآن کہ لئے اس ہے۔ عرب لغت ماخذ پانچواں کا مجید قرآن تفسیر‬
‫کے قرآن تفسیر کے اس ہے۔ ضروری ہونا حاصل عبور مکمل پر زبان اس میں سلسلے کے قرآن تفسیر‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫کہ ہیں ایسی آیات سی بہت میں مجید قرآن ہے۔ ضروری کرنا حاصل عبور مکمل پر زبان اس میں سلسلہ‬
‫کی اس لئے اس گا ہو نہیں مسئلہ کالمی و فقہی اور کوئی یا نزول شان چونکہ میں منظر پس کے ان‬
‫منقول اقوال کے علیہم ہللا رحمۃ تابعین و عنہم ہللا رضی صحابہ یا وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت تفسیر‬
‫ت صرف ذریعہ کا تفسیر کی ان چنانچہ ہوتے۔ نہیں‬
‫کی اس پر بنیاد کی ہی لغت اور ہے ہوتی عرب لغ ُِ‬
‫میں آراء مختلف تو ہو اختالف کوئی میں تفسیر کی آیات کسی اگر عالوہ کے اس ہے۔ جاتی کی تشریح‬
‫بالمقابل کے صحابہ اقوال اور نبوی احادیث لیکن )‪(10‬ہے۔ جاتا لیا کام سے لغت علم لئے کے محاکمہ‬
‫ہے۔ جہالت صریح لینا کر انحصار سب ہی پر عرب لغت‬

‫عقلُ( استنباط و تدبر‬


‫)سلیم ِ‬
‫عقلُ( استنباط و تدبر ماخذ آخری کا تفسیر‬
‫ہے کنار ناپید ایسا ایک اسرار و نکات کے کریم قرآن ہے۔ )سلیم ِ‬
‫میں علوم اسالمی ‪،‬ہے فرمائی عطا سلیم عقل نے تعالیُ ہللا کو شخص جس چنانچہ نہیں۔ حد کوئی کی جس‬
‫و اسرار یہ لیکن گے۔ آئیں سامنے نکات و اسرار نئے نئے ہی اتنے گا۔ کرے تدبر اور غوروفکر جتنا‬
‫اقوال ‪،‬نبوی حدیث ‪،‬مجید قرآن( ماخذ پانچ باال مذکورہ کہ جب گے ہوں قبول قابل وقت اسی نکات‬‫ُِ‬ ‫صحابہ‬
‫اقوال ‪،‬عنہم ہللا رضی‬
‫ُِ‬ ‫ت اور علیہم ہللا رحمۃ تابعین‬
‫نکات و اسرار یہ اگر ہوں۔ نہ متصادم سے )عرب لغ ُِ‬
‫ہے۔ نہیں وقعت اور قیمت و قدر کوئی میں اسالم دین کی ان پھر تو ہیں متصادم سے ماخذ پانچ ان‬

‫سوال نمبر۔‪3‬‬

‫تدوین حدیث سے کیا مراد ہے نیز عبد صحابہ اور عہد تا بعین میں تدوین حدیث پر مفصل نوٹ لکھیں۔‬
‫الزہری تھے۔ اس عبارت‬ ‫ؒ‬ ‫سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو جمع کیا وہ مشہور تابعی امام ابن شہاب‬
‫کے لفظ َدوَّنَ سے مستشرقین نے یہ غلط فہمی پھیالئی کہ احادیث کو ابن شہاب زہری ؒ نے خود تصنیف‬
‫کیا۔حاالنکہ یہ لفظ عربوں کے ہاں قدیم سے اسی معنی میں جانا بوجھا تھا۔ جو علماء نے َدوَّنَ کہہ‬
‫کرلیا۔یوں یہ غلط فہمی پھیال دی گئی کہ احادیث کو اس طرح تصنیف کیا گیا ہے جس طرح میز کو ہال‬
‫کر (‪)Gospal Writers‬نے اپنے اندازے سے انجیل صدیوں بعد لکھی۔ ظاہر ہے لفظ تدوین کا یہ غلط‬
‫مفہوم ہے۔تغلیط وتحریف تو اہل کتاب کا خاصہ ہے۔ یہ انہی کی کرم فرمائی ہے کہ اپنی میراث پر ہاتھ‬
‫َّک لَبِ ْال ِمرْ َ‬
‫صا ِد} بھی‬ ‫صاف کرنے کے بعد یہاں بھی انہوں نے نقب لگانے کی کوشش کی مگر{ إِ َّن َرب َ‬
‫ہے۔ علماء حدیث نے لفظ تصنیف اور تدوین کا لغوی معنی ومفہوم یہ پیش کیا‪:‬‬

‫تصنیف ‪:‬‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫عربی زبان میں ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔نیز اس کاوش کو بھی تصنیف کہتے ہیں‬
‫جس میں چیدہ چیدہ ذاتی معلومات کو اپنے الفاظ میں مرتب کرلیا جائے۔ یعنی یہ معلومات انسان اردگرد‬
‫سے لے اور پھر انہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کرجمع کرلے۔انگریزی میں اس کا معنی( ‪To Compose,‬‬
‫‪ )to Forge a lie‬بھی لکھا ہے۔‬

‫تدوین‪:‬‬

‫ترتیب دینا۔ دیوان بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے ‪ :‬کتب و اشعار وقصائد کا مرتب مجموعہ یا جمع‬
‫شدہ۔ عرب کہتے ہیں‪َ :‬د َّونَہُ اَیْ َج َم َعہُ۔ اس نے معلومات کو جمع ومرتب کردیا۔ اس میں جامع کے اپنے‬
‫الفاظ نہیں ہوتے۔انگریزی میں اس کا معنی ( ‪)to make a selection of work, Collection‬لکھا ہے۔‬

‫٭…عربی زبان میں لفظ تدوین باب تفعیل سے ہے جس میں ابتداء کرنا اور مأخذ بنانا کے معنی بھی‬
‫آتے ہیں۔تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیارکرنا ہے۔ اس سے مراد جمع کرنا یا لکھنا نہیں ہے‬
‫بلکہ تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے مسودات حدیثیہ کو حاصل کیا۔ اور دیگر صحابہ سے سنی‬
‫احادیث کا ان میں اضافہ کرکے ترتیب دے دیا یہی کام تبع تابعین نے تابعین کے لکھے صحف‬
‫اورمسودات کو اپنی مسموعہ احادیث کے ساتھ مرتب کردیا‬

‫قرآن مجید جو دین کی تمام بنیادی تعلیمات پر مشتمل اور جملہ عقائد و احکام کے متعلق کل ہدایت کا‬
‫حامل ہے۔ اس کا ہر لفظ لوگوں نے زبانی یاد کیا ہوا ہے۔ مزید احتیاط کے لئے معتبر کاتبوں سے خود‬
‫حضور اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے اس کو لکھوایا۔‬

‫حدیث کی حفاظت‬

‫حدیث شریف جو شرع اسالمی کی تمام اعتقادی اور عملی تفصیالت پر حاوی ہے۔ اس کا قولی حصہ‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہ نے اپنی قومی عادت اور رواج کے مطابق اس سے بھی زیادہ اہتمام کے‬
‫ساتھ اپنے حافظہ میں رکھا کہ جس اہتمام کے ساتھ وہ اس سے پہلے اپنے خطیبوں کے خطبے‪،‬‬
‫شاعروں کے قصیدے‪ ،‬اور حکماء کے مقولے یاد رکھا کرتے تھے اور اس کے عملی حصے کے‬
‫مطابق فوراً عمل کرنا شروع کر دیا کرتے تھے۔‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫خود حضرت محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر ضروری احکام و ہدایات قلم بند‬
‫کروائی۔ ان تحریروں اور نوشتوں کا ذکر معتبر کتب حدیث میں محفوظ ہے۔ لیکن ان کے عالوہ مختلف‬
‫قبائل کو تحریری ہدایات‪ ،‬خطوط کے جوابات‪ ،‬مدینہ منورہ کی مردم شماری کے کاغذات‪ ،‬سالطین وقت‬
‫اور مشہور فرمانروائوں کے نام اسالم کے دعوت نامے‪ ،‬معاہدات‪ ،‬امان نامے‪ ،‬اور اس قسم کی بہت سی‬
‫ٰ‬
‫مصطفی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے وقتا ً فوقتا ً قلم بند کروائیں۔‬ ‫متفرق تحریرات تھیں جو حضرت محمد‬

‫ت حدیث کا‬ ‫یہ بات مشہور ہے کہ غزوہ بدر کے بعد کافی مسلمانوں نے لکھنا سیکھ لیا اور پھر کتاب ِ‬
‫سلسلہ جاری ہوگیا۔ اگرچہ عرب قوم اسالم سے قبل اَن پڑھ تھی اور ان میں کسی قسم کی تعلیم کا رواج‬
‫نہیں تھا لیکن ایمان اور اسالم کی بدولت صحابہ میں یہ شوق پیدا ہوا۔‬

‫تدوین حدیث‬
‫ِ‬
‫یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض صحابہ نے حضرت محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں‬
‫احادیث لکھی تھیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے کچھ احادیث کو لکھنے کا حکم خود‬
‫بھی دیا تھا۔ یہ حقیقت خوب واضح ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز عہد رسالت ہی میں ہو گیا تھا۔ اسالم کے‬
‫ابتدائی عہد میں احادیث نبوی پر مشتمل صحیفے لکھے گئے جن کا تاریخی ثبوت موجود ہے۔ ان‬
‫صحیفوں میں حضرت عبدہللا بن عمرو بن العاض رضی ہللا عنہ کا صحیفہ صادقہ بہت مشہور ہے۔ اور‬
‫اسی طرح حضرت علی رضی ہللا عنہ کا صحیفہ بھی تھا جس میں بہت سے احکام و مسائل درج تھے‬
‫مگر اس سلسلے میں سب سے بڑی اہمیت صحیفہ ابی ہریرہ رضی ہللا عنہ کی ہے جو حضرت ابو‬
‫ہریرہ رضی ہللا عنہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت ہمام بن منبہ رحمتہ ہللا علیہ نے روایت کیا ہے۔‬
‫یہ صحیفہ تدوین حدیث کے سلسلے میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ بالکل ویسے ہی آگے پہنچایا‬
‫گیا جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت کیا گیا۔ یہ صحیفہ مسند امام احمد میں مکمل‬
‫طور پر محفوظ ہے۔ نیز اس کی بیشتر احادیث صحیح بخاری کے متعلقہ ابواب میں بھی موجود ہیں۔‬

‫دور ثانی‬
‫تدوین حدیث کا ِ‬
‫اہل عرب ہر چیز کو زبانی یاد رکھنے کے عادی تھے کیونکہ ان کا حافظہ فطرتا ً نہایت قوی تھا۔ احادیث‬
‫کو زبانی یاد رکھنے کا سلسلہ پہلی صدی ہجری تک چلتا رہا لیکن اس صدی کے آخری سالوں میں‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہ کا دنیا سے رخصت ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سن ‪ 99‬ہجری میں جب‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ ہللا علیہ نے دیکھا کہ متبرک صحابہ سے دنیا خالی ہو رہی ہے تو آپ‬
‫کو اندیشہ ہوا کہ ان حفاظ اہل علم کے جانے سے کہیں علوم حدیث نہ اٹھ جائے۔ چنانچہ آپ نے فوراً‬
‫تمام ممالک کے علماء کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ احادیث نبوی کی تالش کر کے جمع کر لیا‬
‫جائے۔ پس اس حکم کی تعمیل میں کوفہ کے امام شبعی رحمتہ ہللا علیہ‪ ،‬مدینہ کے امام زہری رحمتہ ہللا‬
‫علیہ اور شام کے امام مکحول رحمتہ ہللا علیہ کی تصانیف وجود میں آئیں اور وہ اس عہد خالفت کی‬
‫یادگار رہیں۔ اس طرح پہلی صدی کے آخر میں کبارائمہ تابعین نے جمع تدوین و حدیث میں بھرپور‬
‫حصہ لیا۔‬

‫دوسری صدی ہجری میں اس سلسلے کی ترقی اتنی زیادہ ہوئی کہ احادیث کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام‬
‫اور اہل بیت کے آثار تابعین کے فتاوی اور اقوال بھی مرتب ہونے لگے۔ اس صدی میں فقہ حنفی اور‬
‫فقہ مالکی کی تدوین ان احادیث و آثار کی روشنی میں مکمل ہوئی کہ جس پر صحابہ اور تابعین کا عمل‬
‫درآمد چال آ رہا ہے۔‬

‫دور ثالث‬
‫تدوین حدیث کا ِ‬
‫ب حدیث میں‬ ‫تیسری صدی ہجری میں علم حدیث کا ایک شعبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ محدثین نے طل ِ‬
‫دنیائے اسالم کا گوشہ گوشہ چھان مارا اور تمام منتشر اور بکھری روایات کو یکجا کیا۔ مستند احادیث‬
‫علیحدہ کیں۔ صحت سند کا التزام کیا گیا۔ اسماء الرجال کی تدوین ہوئی۔ جرح و تعدیل کا مستقل فن بن گیا۔‬
‫اس دور میں صحاح ستہ جیسی بیش بہا کتابیں تصنیف ہوئیں۔ صحاح ستہ اور ان کے مولفین بھی منظر‬
‫عام پر آئے۔‬

‫صحاح ستہ کے عالوہ اصول اربعہ جو کہ فقہ جعفریہ کی چار مستند ترین ذخائر کی کتابیں ہیں۔ جن‬
‫میں الکافی‪ ،‬من الیحضرہ الفقیہہ‪ ،‬االستبصار اور تہذیب االحکام شامل ہیں۔‬

‫سوال نمبر۔‪4‬‬

‫علم فقہ سے کیا مراد ہے نیز مسالک اربعہ کی اہم بنیادی تالیفات کون کون سی ہیں؟ جامع نوٹ لکھیں۔‬

‫چلتے چلتے ایک لفظی تسامح کی نشاندہی کرتے چلیں کہ بعض حضرات فقہ اسالمی کی عصری تطبیق‬
‫تصویر مسئلہ کی خارجی تمثیل کو جدید مسائل کا نام دیتے ہوئے خود رائی اور اجتہا ِد جدید کی‬
‫ِ‬ ‫اور‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫طرف لپکنے لگ جاتے ہیں‪ ،‬حاالنکہ اب تک جدید کہے جانے والے تقریبا ً تمام مسائل کا حل فقہی فروع‬
‫یا اُصول و قواعد کی صورت میں ہی بتایا گیا ہے‪ ،‬اس بابت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسائل یا احکام نئے‬
‫نہیں ہوتے‪ ،‬بلکہ ان کی صورتیں نئی ہوتی ہیں‪ ،‬فقہاء زمانہ کا کام ہوتا ہے جدید صورتوں کی قدیم فقہ‬
‫کے ساتھ تطبیق کرنا‪ ،‬قدیم فقہاء کے اجتہادات کی بدولت فقہ ابداعی‪ ،‬تطبیقی اور تقدیری ہمارے سامنے‬
‫ٓاچکی ہے۔‬

‫ہمارا اجتہاد ان کے اجتہاد سے پائیدار نہیں ہوسکتا‪ ،‬اس لیے بالوجہ فقہ قدیم سے جدید مسائل کے نام پر‬
‫عدول کرنا نامعقول امر ہے۔ ہاں! اگر ایسی صورت پیش ٓاجائے جس کا فقہ قدیم کے ذخیرہ میں نصاً‪،‬‬
‫اصوالً‪ ،‬فرعاً‪ ،‬اثباتاًیا نفیا ً کوئی حل نہ ملتا ہو تو اس کے حل کے لیے فقہاء امت کے وضع کردہ اُصولوں‬
‫مجلس مشاورت منعقد کی جائے گی اور وہ مجلس ایسی‬
‫ِ‬ ‫کی روشنی میں متدین و متعبد علماء کی‬
‫مشکالت میں اُمت کی دینی رہنمائی کرے گی۔ ایسے مسائل ان کے حل کے لیے رہنما اصول اور اجتہاد‬
‫کے اصول و شرائط سے متعلق حضرت عالمہ محمد یوسف بنوری ‪ v‬کے چند گراں قدر مقاالت جو‬
‫فتاوی بینات کے شروع میں مقدمہ کے طور پرشامل ہیں‪ ،‬ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔‬ ‫ٰ‬

‫بعض جدت پسندوں کو یہ بھی خبط ہوتا ہے کہ قدیم فقہ فقہاء کے اپنے زمانے کے احوال و مسائل کے‬
‫حل کے لیے اجتہادی کوششیں تھیں ‪،‬اب زمانہ بدل گیا ہے‪ ،‬زمانے کے حاالت تبدیل ہوچکے ہیں ‪ ،‬لہٰذا‬
‫پرانی فقہ اس زمانے کے لیے کار ٓامد نہیں ہوسکتی‪ ،‬بلکہ اس میں تبدیلی ناگزیر ہے ‪،‬اس فکر کو خبط‬
‫کہنا ہی کافی ہے‪ ،‬کیونکہ اس فکر کے حامل لوگ فقہ کی حقیقت سے نا واقف ہیں‪ ،‬انہیں معلوم ہونا‬
‫چاہیے کہ فقہی احکام چار قسم کے ہوتے ہیں‪:‬‬

‫احکامُ‪١:-‬‬
‫ِ‬ ‫اتفاقیہ منصوصہ‬ ‫احکامُ‪۲:-‬‬
‫ِ‬ ‫اتفاقیہ اجتہادیہ‬ ‫احکامُ‪۳:-‬‬
‫ِ‬ ‫خالفیہ اجتہادیہ‬ ‫احکامُ‪۴:-‬‬
‫ِ‬
‫اثباتاُ و نفیاُ مصرحہ غیر جدیدہ‬

‫پہلی دو قسموں میں زمانہ کی تبدیلی کا کوئی بھی اثر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ تیسری قسم میں قدیم‬
‫مجتہدین کے اجتہا دسے باہر نکلنے کی حاجت ہے‪ ،‬نہ اجازت ہے۔ اگر اجتہاد ہوسکتا ہے تو چوتھی قسم‬
‫مسائل اجتہادیہ عرفیہ جن کی بنا عرف‬
‫ِ‬ ‫میں ہوگا‪ ،‬اس کی ضرورت کا کسی کو انکار نہیں۔ اسی طرح وہ‬
‫تغیرحکم کی حقیقت قابل تسلیم‬
‫ِ‬ ‫تغیر زمانہ کی وجہ سے‬‫ِ‬ ‫وعادت پر رکھی گئی تھی‪ ،‬ایسے مسائل میں‬
‫ازسرنو غورو فکر ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے‪ ،‬مگر اس ٓاخری قسم کے‬ ‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬ایسے مسائل میں‬
‫اجتہاد کی ضرورت باور کرانے کے ساتھ ساتھ مجتہدین کی اہلیت اور مطلوبہ شرائط کا سوال بھی نظر‬
‫انداز نہیں کیا جاسکتا ہے‪ ،‬حیرت کی بات یہ ہے کہ معاملہ ہو دین کا اور اجتہاد کی اجازت دین بیزار‬
‫مانگ رہا ہو تو اسے خبط کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟!‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫قابل اجتہاد مسائل کے حل کے لیے انفرادی‬


‫بہرکیف! حضرت بنوری رحمہ ہللا کے بقول ایسے ِ‬
‫وشخصی کاوشوں کی بجائے ’’لجنۃ االجتہاد‘‘ قائم کی جائے‪ ،‬جس کے ارکان میں کم ازکم یہ پانچ‬
‫اوصاف بدرجہ تمام پائے جاتے ہوں‪:‬‬

‫ووسعت مہارت میں اسالمی وفق ُِہ وسنت قر ٓان‪ ۳:-‬تقویُ‪ ۲:-‬اخالص‪١:-‬‬ ‫تُ‪۴:-‬‬
‫وذکاوت نظر دق ِ‬
‫اہلیت کی سمجھنے کے مشکالت جدید‪۵:-‬‬

‫جسے اجتہا ِد جدید کا شوق ہو یا وہ اُمت کا درد رکھتا ہو تو ان شرائط سے ٓاراستہ ہوکر’’لُجنۃ‬
‫مسائل جدیدہ کے حل میں ضرور مساہمت اختیار کرے۔ اگر‬ ‫ِ‬ ‫االجتہاد‘‘ کارکن بنے‪ ،‬اور چوتھی قسم کے‬
‫اجتہا ِد جدید کا کوئی شائق اس سے ٓاگے لپکنے کی کوشش کرے گا تو اسے دین کے ساتھ مزاحمت‬
‫سمجھاجائے گا‪ ،‬اور اس کی مزاحمت کرنا علماء دین کا فریضہ شمار ہوگا۔‬

‫فقہی احکام کی بناء علتوں پر ہوتی ہے‪ ،‬حکمتوں پر نہیں‪ ،‬مگر کسی نہ کسی حد تک حکمتوں پر نظر‬
‫ت جامعہ کا تقاضا‬‫قیاس شرعی اور استحسان کے تقابل کی صورت میں عل ِ‬ ‫ِ‬ ‫ہونا بھی ضروری ہے‪ ،‬مثالً‪:‬‬
‫قیاس ظاہر سے عدول‬ ‫ِ‬ ‫یہ ہوگاکہ قیاس کی رعایت کی جائے‪ ،‬مگر حکمت و مصلحت‪ ،‬متقاضی ہوگی کہ‬
‫کرلیا جائے‪ ،‬حکمت کی اسی رعایت اور ترجیح کا دوسرا نام استحسان ہے۔ استحسان فقہاء کے ہاں فقہ‬
‫کا ذیلی ماخذ بھی شمار ہوتا ہے‪ ،‬بظاہر اصل ماخذ کے مقابلے میں ذیلی ماخذ کی طرف التفات‘ قوی‬
‫کے مقابلے میں ضعیف کی طرف التفات ہے‪ ،‬مگر حکمت و مصلحت اس کی مرجح بنتی ہے۔ اس‬
‫حکمت کی رعایت بھی فقہاء کے ہاں اصل کا درجہ رکھتی ہے ‪،‬اس لیے فقہی مدرسین کو اپنے مطالعہ‬
‫کے دوران فقہی احکام کے ماخذ‪،‬اصول اور علتوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ حکمتوں پر اطالع کی‬
‫کوشش بھی کرنی چاہیے‪ ،‬اس موضوع پر سب سے عمدہ کتاب حضرت شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمۃ‬
‫ہللا علیہ کی ’’حجۃ ہللا البالغۃ‘‘ہے‪،‬عالمہ شاطبی رحمۃ ہللا علیہ کی ’’الموافقات‘‘ کا ’’جزء‬
‫المقاصد‘‘ بھی مفید ہے۔‬

‫اسی طرح حضرت حکیم االمت تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کی کتاب ’’المصالح العقلیۃ فی االحکام‬
‫قابل استفادہ کتاب ہے‪ ،‬ان کتابوں کے مطالعہ میں رہنے‬
‫(احکام اسالم عقل کی نظر میں) بھی ِ‬
‫ِ‬ ‫الشرعیۃ‘‘‬
‫سے یہ فائدہ ہوگاکہ ہمیں اور ہمارے طالب علم کو شرعی احکام کی معقولیت کاادراک ہوگا‪ ،‬اور عقل‬
‫پرست طبقے کے زیغ وضالل سے محفوظ رہ سکیں گے۔‬

‫سوال نمبر۔‪5‬‬

‫علم کالم کے آغاز اور ارتقا کے اسباب تحریر کریں نیز اصول دین میں اختالف کے اسباب کون کون‬
‫سے ہیں؟ نوٹ لکھیں۔‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫گزشتہ دنوں جامعہ عثمانیہ پشاور‪ ،‬جامعہ انوار القرآن کراچی اور بعض دیگر مدارس میں اساتذہ اور‬
‫طلبہ کی مختلف نشستوں میں ’’علم العقائد کا مر ّوجہ تعلیمی نصاب اور عصر حاضر کا چیلنج‘‘ کے‬
‫نذر قارئین ہے۔‬
‫عنوان پر گزارشات پیش کرنے کا موقع مال‪ ،‬ان کا خالصہ ِ‬

‫درس نظامی کے نصاب میں‬‫ِ‬ ‫علم العقائد اور علم الکالم کے حوالے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں‬
‫کرام کے ہاں عمومی‬‫پڑھایا جاتا ہے وہ اس بحث و مباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ہے جس کا صحابہ ؓ‬
‫طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔ اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اسالم کا دائرہ مختلف جہات میں پھیلنے‬
‫کے ساتھ ساتھ ایرانی‪ ،‬یونانی‪ ،‬قبطی اور ہندی فلسفوں سے مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں‬
‫کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و سواالت نے مسلمان علماء کو معقوالت کی طرف متوجہ کیا۔‬

‫ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کا نام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا جناب نبی‬
‫اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے‪ ،‬بس اسی کو بے چون و چرا مان لینے کا نام‬
‫کرام کو اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی‬ ‫عقیدہ ہے۔ ان عقائد کے حوالے سے صحابہ ؓ‬
‫تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے وہ بات فرما دی ہے‪ ،‬اور نہ ہی انہیں‬
‫اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل و فہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں‪ ،‬یا‬
‫ہمارے محسوسات و مشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں‪ ،‬اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن‬
‫و حدیث کی تصریحات پر ایمان رکھتے تھے بلکہ معقوالت کے حوالے سے عقائد پر بحث و مباحثہ کو‬
‫بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ بیرونی فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سواالت کھڑے ہوئے‬
‫اور علماء اسالم کو ان سواالت کے جواب میں اسالمی عقائد کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو‬
‫کرام کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین و اتباع تابعین کے دور‬
‫صحابہ ؓ‬
‫میں یہ مباحث اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔‬

‫معقوالت کے حوالے سے جب عقائد کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک‬
‫اس کے مسائل کی نوعیت اس طرح تھی کہ‬

‫عالی کی رؤیت ممکن ہے یا نہیں؟‬


‫ہللا ت ٰ‬

‫تعالی کی ذات اور اس کی صفات کا باہمی تعلق کیا ہے؟‬


‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫تعالی کی صفت ہے یا اس کی مخلوق ہے؟‬


‫ٰ‬ ‫قرآن کریم ہللا‬

‫کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے یا نہیں؟‬

‫جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے‬
‫حوالے سے ہوگی یا خالفت کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔‬

‫اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام و قوانین تک‬
‫محدود نہیں ہوتی تھی‪ ،‬بلکہ ایمانیات یعنی عقائد اور وجدانیات یعنی تصوف و سلوک بھی فقہ ہی کے‬
‫ابوحنیفہ کا رسالہ ’’الفقہ االکبر‘‘ کہالتا ہے‬
‫ؒ‬ ‫شعبے شمار ہوتے تھے‪ -‬چنانچہ عقائد پر حضرت امام‬
‫جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے اس عقلی مباحثے کو علم التوحید والصفات‪ ،‬علم النظر واالستدالل اور‬
‫علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان مسائل پر عام طور پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ‬
‫شہرستانی کے بقول سب سے پہلے معتزلہ نے‬ ‫ؒ‬ ‫میں معتزلہ پیش پیش ہوتے تھے‪ ،‬اس لیے امام‬
‫اسے ’’علم الکالم‘‘ کا نام دیا۔ جبکہ اہل سنت کے اکابر علماء نے اسے پسند نہیں کیا‪ ،‬چنانچہ اصول فقہ‬
‫ابوحنیفہ نے فرمایا‬
‫ؒ‬ ‫کی متداول کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے محشی نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام‬
‫ٰ‬
‫فتوی‬ ‫ؒ‬
‫یوسف نے‬ ‫تعالی عمرو بن عبید کو تباہ کرے کہ اس نے کالم کا دروازہ کھوال ہے‪ ،‬امام ابو‬
‫ٰ‬ ‫کہ ہللا‬
‫شافعی‬
‫ؒ‬ ‫حنبل نے اس کی مذمت کی‪ ،‬اور امام‬ ‫ؒ‬ ‫دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے‪ ،‬امام احمد بن‬
‫نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث و مباحثہ آگے بڑھتا گیا اور‬
‫ان علماء اسالم نے بھی جو اس بحث و کالم کو پسند نہیں کرتے تھے‪ ،‬اسالمی عقائد کی عقلی وضاحت‬
‫اور اثبات کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے علمی معموالت میں شامل کر لیا‪ ،‬چنانچہ‬
‫علم الکالم کے نام سے ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔‬

‫قرآن و حدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث و مباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات و تعبیرات کے‬
‫اہل‬
‫نتیجے میں اس دور میں جو فرقے وجود میں آئے‪ ،‬ان میں معتزلہ‪ ،‬جبریہ‪ ،‬قدریہ‪ ،‬مرجئہ‪ ،‬خوارج‪ِ ،‬‬
‫اہل تشیع اب تک اپنے پورے‬
‫اہل سنت اور ِ‬‫اہل سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں سے ِ‬ ‫تشیع اور ِ‬
‫تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپنے نام اور تعارف کے ساتھ وجود نظر‬
‫نہیں آتا‪ ،‬البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے‬
‫بغیر امت میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کا اجتماعی دھارا قرار دیتے‬
‫ہیں جن کی بنیاد دو اصولوں پر ہے‪:‬‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی‬
‫ہے۔‬

‫کرام نے اجتماعی طور پر اسے کیسے سمجھا ہے؟‬


‫اور دوسری یہ کہ صحابہ ؓ‬
‫اہل سنت کے نزدیک یہی وہ دو معیار ہیں جن کی بنیاد پر عقیدہ سمیت دین کی کسی بھی بات کو صحیح‬ ‫ِ‬
‫طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہالتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی ہللا‬
‫اہل‬
‫اہل سنت کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ِ‬ ‫دہلوی نے ’’حجۃ ہللا البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں ِ‬
‫ؒ‬ ‫محدث‬
‫سنت وہ ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے ارشادات پر اسی صورت میں‬
‫ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے۔ اور وہ ان ارشادات کی عقلی توجیہ کو ضروری نہیں‬
‫سمجھتے اور نہ ہی عقلی توجیہ و تعبیر کو قرآن و سنت کے کسی فرمان پر یقین کا معیار تصور کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬البتہ جہاں کسی عقیدہ کی وضاحت یا کسی عقلی سوال کے جواب کے لیے ضرورت محسوس‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬وہاں وضاحت کی حد تک اس عقلی بحث و مباحثہ کو ناجائز بھی نہیں سمجھتے اور‬
‫صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ‬
‫ؒ‬ ‫ضرورت کے مطابق اس مباحثہ میں شریک ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ‬
‫اہل سنت ہیں‪،‬‬
‫قرآن و سنت کی تصریحات کو ان کی ظاہری صورت میں تسلیم کرنے والے تمام لوگ ِ‬
‫اہل‬
‫البتہ ظاہری صورت پر فی الجملہ ایمان رکھنے کے بعد اس کی تعبیر و توضیح میں اختالفات خود ِ‬
‫اہل سنت کے دائرے سے‬ ‫سنت کے اندر بھی موجود ہیں اور ایسے کسی اختالف سے کوئی شخص ِ‬
‫اہل سنت کے دائرے میں عقائد کی ایسی تعبیرات‪ ،‬تشریحات‪ ،‬توجیہات اور توضیحات‬ ‫خارج نہیں ہوتا۔ ِ‬
‫کے حوالے سے جو مختلف مکاتب فکر موجود چلے آ رہے ہیں‪ ،‬ان میں اشاعرہ‪ ،‬ماتریدیہ اور ظواہر‬
‫کے گروہ متعارف ہیں جو امام ابو الحسن اشعری‪ ،‬امام ابو منصور ماتریدی اور امام ابن حزم ظاہری‬
‫کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں عقائد کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں اور بہت سے امور میں ان‬
‫کے درمیان اختالفات بھی پائے جاتے ہیں۔‬

‫یہ تو مختصر تعارف ہے اس علم الکالم کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور اب تک انہی‬
‫خطوط پر استوار ہے جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حوالے‬
‫سے پیدا ہونے والی ضروریات کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی‬
‫ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپنے تنزل اور غالمی کے اس دور میں ’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں‬
‫محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ’’علم‬
‫العقائد والکالم‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی‬
‫تناظر میں ایمانیات و عقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫مختلف اصحاب فکر و دانش ہمیں وقتا ً فوقتا ً توجہ دالتے رہتے ہیں‪ ،‬لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح‬
‫احساس و ادراک نہیں کر پا رہے۔‬

‫ہمارے ’’علم العقائد والکالم‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی‪ ،‬ہندی اور‬
‫قبطی فلسفہ کے ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقوالت‘‘ کے عنوان‬
‫سے تعبیر کیا جاتا ہے‪ ،‬جبکہ خود اس فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے اور ارتقائی مراحل نے اس‬
‫کی شکل و صورت تک بدل کر رکھ دی ہے۔ مثالً ماضی میں سائنس کو معقوالت کا شعبہ تصور کیا‬
‫جاتا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی‪ ،‬چنانچہ ہمارے ہاں فلکیات اور طبعیات کو معقوالت‬
‫ہی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ و معقوالت سے‬
‫الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب وہ معقوالت اور فلسفہ کا حصہ نہیں‬
‫درس نظامی کے نصاب میں اس‬ ‫ِ‬ ‫ہے بلکہ مشاہدات و محسوسات کے دائرے میں شامل ہے‪ ،‬لیکن ہم‬
‫تبدیلی کا ابھی تک ادراک نہیں کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے‬
‫باعث عقائد اور ان کی تعبیرات کے ضمن میں جو نئے سواالت پیدا ہوئے ہیں‪ ،‬ہم ان کا جواب دینے کی‬
‫سرے سے ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ مثالً فلکیات و طبیعیات جب تک فلسفہ و معقوالت کا حصہ‬
‫تصور ہوتے تھے‪ ،‬ان کی کسی بات سے قرآن و سنت کے کسی ارشاد کے تعارض و تضاد کی صورت‬
‫میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ہے‪ ،‬جبکہ معقوالت کا دائرہ اور‬
‫اس کے امکانات بہت وسیع ہیں‪ ،‬اس لیے کوئی بات اگر ہماری معروضی اور محدود عقل کے دائرے‬
‫میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معقوالت کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے‬
‫امکانات سے بھی متصادم ہے۔ اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ کہ اطمینان کی صورت پیدا کر دیتا تھا‬
‫بلکہ بہت سی صورتوں میں عمالً بھی ایسا ہو جاتا تھا۔ لیکن سائنس کے عقل و فلسفہ کے دائرے سے‬
‫نکل کر مشاہدات و محسوسات اور تجربات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں‬
‫ہے اور ہمیں ایسے سواالت کے جوابات کے لیے کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب‬
‫علم عقائد کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔‬
‫علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے ِ‬

‫قابل توجہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے‬
‫اسی طرح یہ بات بھی ِ‬
‫سواالت لیے ہمارے سامنے کھڑا ہے اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ہے۔ جس نے اس قدر‬
‫ترقی کی ہے کہ جدید تہذیب اور گلوبل سوالئزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ‬
‫حاصل کر رکھی ہے اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اسی کے حوالے سے طے ہوتے ہیں۔‬
‫ہللا کے بعد اس درجہ کا‬ ‫ؒ‬
‫خلدون اور شاہ ولی ؒ‬ ‫مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ابن‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے‬
‫دینی حلقوں کو اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل‬
‫کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی کے ارتقا کے حوالے سے سواالت اور شکوک کا ایک جنگل آباد‬
‫ہے مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سواالت کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو‬
‫سرے سے ان سواالت کا ادراک ہی حاصل ہے۔‬

‫اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہونے والی‬
‫علمی تبدیلیوں اور خاص طور پر فلسفہ‪ ،‬سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا‬
‫شدہ صورتحال میں ہمیں ’’علم العقائد والکالم‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب‬
‫عقائد میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ ان کی تعبیرات و تشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل‬
‫ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی میں یونانی اور دیگر فلسفوں کی آمد پر ہم نے اسالمی‬
‫عقائد پر پوری دلجمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ان کی علمی و عقلی توجیہات و تعبیرات کا ایک نیا‬
‫نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپنے عقائد و ایمانیات کے خالف فلسفہ و معقوالت کی یلغار‬
‫کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی اسی کام کے احیا کی ضرورت ہے اور عقائد و ایمانیات کے باب میں جدید‬
‫فلسفہ‪ ،‬سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل اور اشکاالت کسی اشعری‪ ،‬ماتریدی‪ ،‬ابن حزم‪،‬‬
‫غزالی‪ ،‬ابن رشد‪ ،‬ابن تیمیہ اور شاہ ولی ہللا کی تالش میں ہیں جو ظاہر ہے کہ انہی مدارس کی کوکھ‬
‫سے جنم لیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو اس پہلو سے اپنے ’’بانجھ پن‘‘ کے اسباب کا کھلے دل و‬
‫دماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس کے عالج کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا‬
‫سب سے بڑا قرض یہی ہے۔‬

‫اس کے ساتھ ہی بطور نمونہ عقائد و ایمانیات سے تعلق رکھنے والے چند سواالت کا ذکر کرنا چاہوں گا‬
‫قابل‬
‫جو آج کے علمی تناظر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے ِ‬
‫اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اسی طرح کی ذمہ داری ہے جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو‬
‫منصور ماتریدی نے اپنے دور کے علمی چیلنج کا منطق و استدالل کے ساتھ سامنا کیا تھا‪:‬‬

‫انسان کو جب نفع و نقصان کے ادراک کے لیے عقل دی گئی ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ‬
‫جاتی ہے؟‬

‫وحی کی ماہیت کیا ہے اور کیا یہ انسانی عقل و وجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے؟‬
‫‪Name: Najma Mubarak‬‬

‫‪Roll No. 17pnl02069‬‬

‫وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے؟‬

‫انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا‬
‫ہے؟‬

‫سائنس اور مذہب کا باہمی جوڑ کیا ہے؟‬

‫مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھنے اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر‬
‫عمل کرنے میں کیا حرج ہے اور کسی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ہے؟‬

‫سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے افکار و نظریات اور تہذیب کو مسترد‬
‫کرنے کا کیا جواز ہے؟‬

‫قرآن و سنت کے معاشرتی احکام اس دور کی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس‬
‫سے مختلف ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟‬

‫احکام و قوانین میں مصالح و منافع اور اہداف و مقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ہے؟‬

‫اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ وغیر ذلک۔‬

‫یہ مسائل نئے نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے زیر بحث رہے ہیں‪ ،‬لیکن آج کے‬
‫عالمی تناظر میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ مسلمان کو اسالمی اعتقادات و‬
‫ایمانیات کے معیار پر باقی رکھنے کے لیے ان سواالت اور ان جیسے دیگر بہت سے سواالت کے‬
‫ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان‬
‫ہوں۔‬

You might also like