Professional Documents
Culture Documents
Saha Sitta Ki Haqiqat
Saha Sitta Ki Haqiqat
جب صحاح ستہ سے متعلق حقائق پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو بہت سے دوست احباب کو اعتراض ہوتا ہے ۔ حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں جس سے اکثر
مسلمان ناواقف ہیں اور انکو یہ حقائق بتانا بہت ضروری ہیں ۔مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ صحاح ستہ قران کی طرح رسول اللہ کے
دور میں لکھی گئیں ۔ اس لیے وہ اسے اتنی ہی معتبر کتابیں سمجھتے ہیں اور انکو وہی اہمیت دیتے ہیں جو اعتبار اور اہمیت صرف اللہ کی کتاب کو
حاصل ہونا چاہئے ۔ اس رویے سے لامحالہ قرآن کے تقدس اور اسکی اہمیت و افادیت پر آنچ آتی ہے ۔
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہی رویہ یہود نے اللہ کی کتاب کے ساتھ روا رکھا ۔ جب انھوں نے تورات کی بین آیات کو پس پشت ڈال کر موسی
علیہ السلام کے زمانے کی تاریخ اور سچے جھوٹے واقعات کی بنیاد پر اپنی فقہ استوار کیں ۔ اور اسی کو دین سمجھنا شروع کر دیا ۔ یہی کام عیسائیوں
نے انجیل کے ساتھ کیا جب عیسی علیہ السلام کی "حدیثیں " اٹھا لیں اور خدا کی کتاب کی طرف پشت کرکے نئے ہی قسم کا مشرکانہ دین ایجاد کر دیا ۔
قران میں جب یہ آیت نازل ہوئ جو بہت سے علما کے نزدیک نازل ہونے والی قران کی سب سے آخری آیت تھی کہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔۔ " یعنی آج
میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ۔۔۔۔ تو اسی دن خدا کا دین تکمیل کو پہنچا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو ڈھائ سو
سال بعد بہت سے تاریخ دانوں نے یہاں وہاں سے سن گن لیتے ہوئے رسول اللہ کے زمانے کی تاریخ مرتب کرنے کی کوشش کی ۔ ان لوگوں میں ذیادہ تر
پارسا ،متقی اور نیک نیت لوگ تھے جو حتی الوسع کوشش کرتے تھے کہ جو تاریخی واقعات بھی درج کیے جائیں ،چونکہ اتنا عرصہ بیچ میں گزر
چکا ،اس لیے ان کی سند انتہائ پکی ہونے چاہئے تاکہ اس میں کسی قسم کا جھوٹ اندر نہ آ سکے ۔ لیکن اس سب احتیاط کے باوجود بہت سے غلطیاں
ان کتابوں میں در آئیں ۔ جس کی نشاندہی بعد کے علما اور تاریخدانوں نے کی ۔ یہ غلطیاں ان اسناد میں نہیں تھیں بلکہ ان ابتدائ راویوں کی تھیں
جنھوں نے کم علمی ،کم فہمی ،غلط فہمی یا صریح بد نیتی سے رسول اللہ کی جھوٹی نسبت دے کر ایک بات کو آگے بڑھایا اور دین کا بٹہ بٹھانے
کی بھرپور کوشش کی۔ ان میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔
سب بڑا وار جو اسلام پر کیا گیا وہ جمع و تدوین قرآن کے موضوع کی احادیث ہیں ۔ قران کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے قران ہی میں کیا ہے ۔ جب
منافقین اس میں کسی بھی قسم کی "در اندازی" سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے ایک خوفناک سازش رچی ۔ وہ سازش یہ تھی کہ اگر ہم قران کا اندر
سے کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو اسکو باہر سے مشکوک بنا دیا جائے ۔اس کے بارے میں طرح طرح کی ایسی کہانیاں پھیلائ جائیں تاکہ مسلمان اس کے بارے
میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہیں ۔ اسی ایجنڈے کے تحت قران کے متعلق عجیب عجیب بے سروپا کہانیاں گھڑی گئیں جنھوں نے سینکڑوں سال بعد جاکر
حدیث کی کتابوں میں جگہ حاصل کر ہی لی ۔
*یہ کہ قران تو رسول اللہ کے دور میں لکھا ہی نہیں گیا۔
*یہ کہ قران تو رسول اللہ کی وفات کے 14سال بعد حضرت عثمان کے دور میں صحابہ کی ایک کمیٹی نے ترتیب و تدوین کیا ۔
*یہ کہ قرآن کی ترتیب و تدوین میں اتنی مشکل اس لیے پیش آئ کہ یہ کچھ پتھروں پر ،کچھ ہڈیوں پر اور کچھ جانوروں کی کھالوں پر لکھا گیا تھا
*یہ کہ کچھ آیات اس میں شامل ہونے سے رہ گئیں کیونکہ انہیں بکری کھا گئ تھی ۔
یہ کہ اسکے بارے میں حضرت عمر نے کہا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ قران میں رجم والی آیات تھیں جو اب نہیں ہیں ۔
*یہ کہ سورت علق اور سورت الناس قرآن کا حصہ نہیں اور یہ کہ عبداللہ ابن مسعود رض اسے کھلم کھلا قران کا حصہ ماننے سے انکار کرتے تھے ۔
قران سے متعلق اوپر درج کی گئیں یہ ساری باتیں صریحا" جھوٹ اور افترا ہے ۔ اور نعوذ باللہ اس جھوٹ کو پھیلانے کے لیے نبی ص کا پاک نام اور
نسبت استعمال کی گئ ۔ قران بالکل ابتدا میں ہی اپنے بارے میں کہتا ہے کہ ذالک الکتاب لا ریب فیہ ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئ شک نہیں ۔ اور
اوپر درج ساری کہانیاں محض شک ڈالنے کو ہی پھیلائ گئیں ۔
یہ بات کہ قران پتھروں ،ہڈیوں اور جانوروں پر لکھا گیا تھا جھوٹ اس لیے ہے کہ کاغذ رسول اللہ کی پیدائش سے بھی ساڑھے تین ہزار سال قبل
مصریوں یعنی عربوں کی ایجاد ہے ۔ اور کئ قسم کا اعلی کوالٹی کا "کاغذ" سرزمین عرب بشمول حجاز نہایت سستے داموں دستیاب تھا ۔ یہی وجہ
ہے کہ رسول اللہ کے دور سے بھی سینکڑوں سال قبل کے تورات و انجیل کے مکمل intactنسخے فلسطین میں قمران کی پہاڑیوں سے اپنی اصل حالت
میں دریافت ہوئے جو Dead sea scrollsکے نام سے مشہور ہیں اور جو اب بھی اسرائیل کے عجائب گھر میں موجود ہیں ۔
دوسرا بڑا وار رسول اللہ کے کردار پر کیا گیا ۔ کہ نعوذ باللہ جب رسول اللہ کی حضرت عائشہ سے نسبت طے ہوئ تو انکی عمر چھ سال تھی اور جب
انکی رخصتی ہوئ تو انکی عمر نو سال تھی ۔ اس بات کا پتہ مکہ و مدینہ میں سے کسی کو نہ چلا۔ نہ حضرت ابوبکر سے یہ بات روایت ہے نہ عمر ،
عثمان و علی سے لیکن عراق سے ایک شخص جس کا والد حضرت عائشہ کا بھانجا ہے وہ ایک دوسرے شخص کے کان میں بتاتا ہے ۔ اور وہ آگے سے
تیسرے کے کان میں بتاتا ہے اور پھر اگے سے چل سو چل ۔ حالانکہ قران میں واضح لکھا ہے کہ نکاح کے لیے بلوغت اور معاشی ذمہ داری کی سمجھ
بوجھ کا ہونا لازمی ہے ،لیکن ان صریح آیات کو کون گھاس ڈالتا ہے جبکہ ایک من گھڑت واقعہ موجود ہو ۔
یہی دو وہ بنیادی مدعے ہیں جن سے خدا کے دین کے دشمن ہمیشہ اسلام پر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور چونکہ ہمارے مولوی صاحبان کو آپس
کے فرقہ ورانہ جھگڑوں سے فرصت ہی نہیں کہ ان حملوں کو سمجھ سکیں اس لیے برصغیر میں الحاد دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر چیز کو اسکے مقام پر رکھا جائے ۔ قران اس زمین پر اللہ کا اخری پیغام اور اسکی اخری کتاب ہے جو پورے دین کا احاطہ
کرتی ہے۔جبکہ حدیث رسول اللہ کے زمانے کے تاریخ ہے ۔ قران کی آخری آیات کے نزول کے ساتھ ہی اللہ کے بیان کے مطابق دین اپنی اکملیت کو پہنچ گیا ۔
اب اس سے باہر جو کچھ ہے اسکو بطور دین تب ہی قبول کیا جائے گا جب اس کا قران سے کسی قسم کا کوئ تضاد نہ ہو ۔ چاہے وہ کوئ فقہی بیان ہو
،چاہے کوئ تاریخی واقعہ ہو ،کوئ روایت ہو ،حتی کہ تورات و انجیل کی کوئ آیت ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔ اسے تب ہی بطور اللہ کی آیت کے قبول کیا
جائے گا جب قران اس کو پاس کر دے ۔ جب تک دین کا پیمانہ قرآن نہیں بنے گا تب تک معاشرے سے فرقہ واریت کی نجاست کبھی ختم نہیں ہو سکتی
۔ اللہ نے بھی قران کو فرقان (دین کا پیمانہ) ،میزان اور مھیمن قرار دیا ۔ اور ہمیں بھی اس کو وہی مقام دینا چاہئے ورنہ اس سے کم پر اچھے بھلے
نیک لوگوں کا منکرین قران کی صف میں شامل ہونے کا شدید خطرہ ہے ۔
https://www.facebook.com 1/1