Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 1

‫‪4/18/24, 5:45 PM‬‬ ‫‪(2) Facebook‬‬

‫‪S Saad Abdullah‬‬


‫· ‪3h‬‬

‫جب صحاح ستہ سے متعلق حقائق پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو بہت سے دوست احباب کو اعتراض ہوتا ہے ۔ حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں جس سے اکثر‬
‫مسلمان ناواقف ہیں اور انکو یہ حقائق بتانا بہت ضروری ہیں ۔مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ صحاح ستہ قران کی طرح رسول اللہ کے‬
‫دور میں لکھی گئیں ۔ اس لیے وہ اسے اتنی ہی معتبر کتابیں سمجھتے ہیں اور انکو وہی اہمیت دیتے ہیں جو اعتبار اور اہمیت صرف اللہ کی کتاب کو‬
‫حاصل ہونا چاہئے ۔ اس رویے سے لامحالہ قرآن کے تقدس اور اسکی اہمیت و افادیت پر آنچ آتی ہے ۔‬
‫مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہی رویہ یہود نے اللہ کی کتاب کے ساتھ روا رکھا ۔ جب انھوں نے تورات کی بین آیات کو پس پشت ڈال کر موسی‬
‫علیہ السلام کے زمانے کی تاریخ اور سچے جھوٹے واقعات کی بنیاد پر اپنی فقہ استوار کیں ۔ اور اسی کو دین سمجھنا شروع کر دیا ۔ یہی کام عیسائیوں‬
‫نے انجیل کے ساتھ کیا جب عیسی علیہ السلام کی "حدیثیں " اٹھا لیں اور خدا کی کتاب کی طرف پشت کرکے نئے ہی قسم کا مشرکانہ دین ایجاد کر دیا ۔‬
‫قران میں جب یہ آیت نازل ہوئ جو بہت سے علما کے نزدیک نازل ہونے والی قران کی سب سے آخری آیت تھی کہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔۔ " یعنی آج‬
‫میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ۔۔۔۔ تو اسی دن خدا کا دین تکمیل کو پہنچا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو ڈھائ سو‬
‫سال بعد بہت سے تاریخ دانوں نے یہاں وہاں سے سن گن لیتے ہوئے رسول اللہ کے زمانے کی تاریخ مرتب کرنے کی کوشش کی ۔ ان لوگوں میں ذیادہ تر‬
‫پارسا ‪ ،‬متقی اور نیک نیت لوگ تھے جو حتی الوسع کوشش کرتے تھے کہ جو تاریخی واقعات بھی درج کیے جائیں ‪،‬چونکہ اتنا عرصہ بیچ میں گزر‬
‫چکا ‪ ،‬اس لیے ان کی سند انتہائ پکی ہونے چاہئے تاکہ اس میں کسی قسم کا جھوٹ اندر نہ آ سکے ۔ لیکن اس سب احتیاط کے باوجود بہت سے غلطیاں‬
‫ان کتابوں میں در آئیں ۔ جس کی نشاندہی بعد کے علما اور تاریخدانوں نے کی ۔ یہ غلطیاں ان اسناد میں نہیں تھیں بلکہ ان ابتدائ راویوں کی تھیں‬
‫جنھوں نے کم علمی ‪ ،‬کم فہمی ‪ ،‬غلط فہمی یا صریح بد نیتی سے رسول اللہ کی جھوٹی نسبت دے کر ایک بات کو آگے بڑھایا اور دین کا بٹہ بٹھانے‬
‫کی بھرپور کوشش کی۔ ان میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔‬
‫سب بڑا وار جو اسلام پر کیا گیا وہ جمع و تدوین قرآن کے موضوع کی احادیث ہیں ۔ قران کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے قران ہی میں کیا ہے ۔ جب‬
‫منافقین اس میں کسی بھی قسم کی "در اندازی" سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے ایک خوفناک سازش رچی ۔ وہ سازش یہ تھی کہ اگر ہم قران کا اندر‬
‫سے کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو اسکو باہر سے مشکوک بنا دیا جائے ۔اس کے بارے میں طرح طرح کی ایسی کہانیاں پھیلائ جائیں تاکہ مسلمان اس کے بارے‬
‫میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہیں ۔ اسی ایجنڈے کے تحت قران کے متعلق عجیب عجیب بے سروپا کہانیاں گھڑی گئیں جنھوں نے سینکڑوں سال بعد جاکر‬
‫حدیث کی کتابوں میں جگہ حاصل کر ہی لی ۔‬
‫*یہ کہ قران تو رسول اللہ کے دور میں لکھا ہی نہیں گیا۔‬
‫*یہ کہ قران تو رسول اللہ کی وفات کے ‪ 14‬سال بعد حضرت عثمان کے دور میں صحابہ کی ایک کمیٹی نے ترتیب و تدوین کیا ۔‬
‫*یہ کہ قرآن کی ترتیب و تدوین میں اتنی مشکل اس لیے پیش آئ کہ یہ کچھ پتھروں پر ‪،‬کچھ ہڈیوں پر اور کچھ جانوروں کی کھالوں پر لکھا گیا تھا‬
‫*یہ کہ کچھ آیات اس میں شامل ہونے سے رہ گئیں کیونکہ انہیں بکری کھا گئ تھی ۔‬
‫یہ کہ اسکے بارے میں حضرت عمر نے کہا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ قران میں رجم والی آیات تھیں جو اب نہیں ہیں ۔‬
‫*یہ کہ سورت علق اور سورت الناس قرآن کا حصہ نہیں اور یہ کہ عبداللہ ابن مسعود رض اسے کھلم کھلا قران کا حصہ ماننے سے انکار کرتے تھے ۔‬
‫قران سے متعلق اوپر درج کی گئیں یہ ساری باتیں صریحا" جھوٹ اور افترا ہے ۔ اور نعوذ باللہ اس جھوٹ کو پھیلانے کے لیے نبی ص کا پاک نام اور‬
‫نسبت استعمال کی گئ ۔ قران بالکل ابتدا میں ہی اپنے بارے میں کہتا ہے کہ ذالک الکتاب لا ریب فیہ ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئ شک نہیں ۔ اور‬
‫اوپر درج ساری کہانیاں محض شک ڈالنے کو ہی پھیلائ گئیں ۔‬
‫یہ بات کہ قران پتھروں ‪ ،‬ہڈیوں اور جانوروں پر لکھا گیا تھا جھوٹ اس لیے ہے کہ کاغذ رسول اللہ کی پیدائش سے بھی ساڑھے تین ہزار سال قبل‬
‫مصریوں یعنی عربوں کی ایجاد ہے ۔ اور کئ قسم کا اعلی کوالٹی کا "کاغذ" سرزمین عرب بشمول حجاز نہایت سستے داموں دستیاب تھا ۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ رسول اللہ کے دور سے بھی سینکڑوں سال قبل کے تورات و انجیل کے مکمل ‪ intact‬نسخے فلسطین میں قمران کی پہاڑیوں سے اپنی اصل حالت‬
‫میں دریافت ہوئے جو ‪ Dead sea scrolls‬کے نام سے مشہور ہیں اور جو اب بھی اسرائیل کے عجائب گھر میں موجود ہیں ۔‬
‫دوسرا بڑا وار رسول اللہ کے کردار پر کیا گیا ۔ کہ نعوذ باللہ جب رسول اللہ کی حضرت عائشہ سے نسبت طے ہوئ تو انکی عمر چھ سال تھی اور جب‬
‫انکی رخصتی ہوئ تو انکی عمر نو سال تھی ۔ اس بات کا پتہ مکہ و مدینہ میں سے کسی کو نہ چلا۔ نہ حضرت ابوبکر سے یہ بات روایت ہے نہ عمر ‪،‬‬
‫عثمان و علی سے لیکن عراق سے ایک شخص جس کا والد حضرت عائشہ کا بھانجا ہے وہ ایک دوسرے شخص کے کان میں بتاتا ہے ۔ اور وہ آگے سے‬
‫تیسرے کے کان میں بتاتا ہے اور پھر اگے سے چل سو چل ۔ حالانکہ قران میں واضح لکھا ہے کہ نکاح کے لیے بلوغت اور معاشی ذمہ داری کی سمجھ‬
‫بوجھ کا ہونا لازمی ہے ‪ ،‬لیکن ان صریح آیات کو کون گھاس ڈالتا ہے جبکہ ایک من گھڑت واقعہ موجود ہو ۔‬
‫یہی دو وہ بنیادی مدعے ہیں جن سے خدا کے دین کے دشمن ہمیشہ اسلام پر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور چونکہ ہمارے مولوی صاحبان کو آپس‬
‫کے فرقہ ورانہ جھگڑوں سے فرصت ہی نہیں کہ ان حملوں کو سمجھ سکیں اس لیے برصغیر میں الحاد دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ۔‬
‫اس لیے ضروری ہے کہ ہر چیز کو اسکے مقام پر رکھا جائے ۔ قران اس زمین پر اللہ کا اخری پیغام اور اسکی اخری کتاب ہے جو پورے دین کا احاطہ‬
‫کرتی ہے۔جبکہ حدیث رسول اللہ کے زمانے کے تاریخ ہے ۔ قران کی آخری آیات کے نزول کے ساتھ ہی اللہ کے بیان کے مطابق دین اپنی اکملیت کو پہنچ گیا ۔‬
‫اب اس سے باہر جو کچھ ہے اسکو بطور دین تب ہی قبول کیا جائے گا جب اس کا قران سے کسی قسم کا کوئ تضاد نہ ہو ۔ چاہے وہ کوئ فقہی بیان ہو‬
‫‪ ،‬چاہے کوئ تاریخی واقعہ ہو ‪ ،‬کوئ روایت ہو ‪ ،‬حتی کہ تورات و انجیل کی کوئ آیت ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔ اسے تب ہی بطور اللہ کی آیت کے قبول کیا‬
‫جائے گا جب قران اس کو پاس کر دے ۔ جب تک دین کا پیمانہ قرآن نہیں بنے گا تب تک معاشرے سے فرقہ واریت کی نجاست کبھی ختم نہیں ہو سکتی‬
‫۔ اللہ نے بھی قران کو فرقان (دین کا پیمانہ) ‪ ،‬میزان اور مھیمن قرار دیا ۔ اور ہمیں بھی اس کو وہی مقام دینا چاہئے ورنہ اس سے کم پر اچھے بھلے‬
‫نیک لوگوں کا منکرین قران کی صف میں شامل ہونے کا شدید خطرہ ہے ۔‬

‫‪https://www.facebook.com‬‬ ‫‪1/1‬‬

You might also like