Professional Documents
Culture Documents
محمد ب۔ الحسن-WPS Office
محمد ب۔ الحسن-WPS Office
محمد ب۔ الحسن-WPS Office
محمد ب۔ الحسن ب علی بی الحسن (عربی :محمد بن الحسن بن علي بن الحسن) (ب385/995 .
طوس 460/1067 ،نجف میں) ،جو الشیخ الطوسی (عربی :الشيخ الطوسي) کے نام سے مشہور
تھے ،ایک تھا۔ سب سے بڑے شیعہ فقہاء اور حدیث کے مرتب کرنے والوں میں سے۔ انہوں نے
الہیات اور تفسیر کے شعبوں میں بہت سے کام لکھے ہیں۔ ان کی عظیم خدمات اور زبردست اثر و
رسوخ کے باعث ،انہیں الشیخ الطائفہ (الشیخ الطائفة) (شیعوں کا سربراہ یا سربراہ) کا اعزازی
خطاب مال۔
ابتدائی زندگی
سال کی عمر میں خراسان سے عراق منتقل ہوئے اور الشیخ مفید اور الشرف المرتضی جیسے 23
اساتذہ سے استفادہ کیا۔ عباسی خلیفہ نے انہیں بغداد کی تھیالوجی کی سربراہی پر مقرر کیا۔ جب
شاپور کی الئبریری کو آگ لگائی گئی تو اس کے پاس نجف جانے اور وہاں ایک مدرسہ قائم کرنے
کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ الشیخ الطوسی شریف المرتضٰی کی رحلت کے بعد شیعوں کا مرجع
بن گیا۔
دینی خدمات
ان کے فقہی نظریات اور تصانیف جیسے کہ النہایہ ،الخالفہ اور المبسوط سے فقہاء سے مشورہ کیا
جاتا ہے۔ ان کی اہم تفسیر التبیان ہے۔ الشیخ الطوسی دوسرے شعبوں جیسے کہ رجال ،الہیات اور
اصول فقہ میں بھی ماہر تھے اور ان کی کتابیں دینی علوم کے حوالے ہیں۔ اس نے شیعہ اجتہاد کو
تبدیل کرنا شروع کیا اور اس کے مباحث کو وسعت دی اور اسے سنی اجتہاد سے آزاد کر دیا۔ ان کا
سب سے مشہور شاگرد ابو الصالح ہے
۔
تصنیف
االستبصار فی ما اخطلف من االخبار (عربی :االسِتبصار فی ما اخُتِلَف ِم ن اَالخبار) چار کتابوں میں
سے چوتھی کتاب ہے۔ یہ ایک حدیثی مجموعہ ہے جسے الشیخ الطوسی (متوفی )460/1067نے
مرتب کیا ہے جسے الشیخ الضعیفہ کہا جاتا ہے۔
یہ کتاب فقہی احادیث پر مشتمل ہے اور تحذیب االحکام سے زیادہ جامع ہے۔ االستبصار میں ابواب
کی ترتیب اس طرح ہے کہ پہلے دو حصے عبادت سے متعلق مسائل کے لیے مختص ہیں (سوائے
جہاد کے) اور آخری حصہ (تیسرا حصہ) دیگر فقہی مسائل جیسے معاہدوں ،یکطرفہ ذمہ داریوں،
.مقررہ سزاؤں اور مالی معاوضے
مصنف نے االستبصار میں درج احادیث کے بارے میں جو اعدادوشمار دیے ہیں ،ان کے مطابق وہ
5511احادیث ہیں ]1[ ،جب کہ کتاب کی تحقیقی اشاعت میں احادیث کی تعداد 5558ہے اور یہ
فرق ان طریقوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ بعض خاص احادیث کی گنتی[]2
پہلے دو حصوں میں ،الشیخ الطوسی نے تقریبًا تمام احادیث کو ان کے حوالہ جات کے ساتھ درج کیا
ہے۔ پھر بھی ،آخری حصے میں حوالہ جات کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے اور تحدیب
االحکام کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے اور من ال یحدرۃ الفقیہ میں الشیخ الصدوق کے اسلوب سے ملتا
جلتا ہے۔ احادیث اصول [اصل حوالہ جات] کام کے آخر میں مذکور ہیں۔[]3
سب سے ضروری
شیخ طوسی کے بعض علماء اور طلباء نے ان سے ایک کتاب لکھنے کو کہا جس میں وہ متضاد
احادیث کو جمع کرے ،ان کا تجزیہ کرے اور صحیح اور غلط کی نشان دہی کرے۔ اس کتاب میں
الشیخ طوسی نے سب سے پہلے صحیح اور صحیح احادیث الئے ہیں اور پھر متضاد احادیث کا ذکر
کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ایک کو نہ چھوڑیں اور آخر میں دو قسم کی احادیث پر بحث کرنے
کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کتاب سب سے زیادہ مستند شیعہ حدیث کی کتابوں میں سے ہے اور ہر فقیہ یا مجتہد کو احکام
کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت اس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
االستبصار چار کتابوں میں سے ایک ہے اور اسی سطح پر الشیخ الکالئنی کی الکافی ،الشیخ
الصدوق کی من ال یحدروح الفقیہ اور الشیخ الطوسی کی ایک اور کتاب تحذیب ال احکم جو
االستبصار سے پہلے لکھا گیا تھا۔
االستبصار کی اہمیت اور اہمیت کے حوالے سے اس کا نام ہمیشہ حوالہ جات کی فہرست میں رہا
ہے اور شیعہ علماء اور فقہاء نے اس کی احادیث کو ایک دوسرے سے روایت کرنے کی اجازت
دی ہے۔
االستبصار کی پرانی کاپیوں کے بارے میں ،سب سے پہلے ،جعفر بن کا نامکمل نسخہ۔ علی
مشہدی کا تذکرہ ضروری ہے کہ آقا بزرگ تہرانی[ ]6کی رپورٹیں جو نجف میں سید ہادی کاشف
الغیطہ کی الئبریری میں دستیاب تھیں۔ اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ نقل کا موازنہ الشیخ الطوسی
کی تحریر سے کیا گیا ہے اور یہ کام 8-573/1177میں ختم ہوا ہے۔
اس کے بعد قم میں آیت ہللا مرعشی نجفی الئبریری میں رکھی ہوئی ایک کاپی کا ذکر کیا جائے جو
آٹھویں/چودھویں صدی میں نقل ہوئی ہے۔
محمد ب کے لکھے ہوئے حاشیہ دار نوٹ۔ علی بی حسین العملی ،مدارک االحکام کے مصنف
(متوفی )1009/1600جسے روداتی کاپی میں االستبصار کے متن کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
حاشیہ نوٹ بذریعہ حسن ب۔ زین الدین العملی ،معلم الدین کے مصنف (متوفی )3-1011/1602۔
اس معمولی نوٹ کی دستیابی کی اطالع آفندی نے ریاض العلماء میں دی ہے۔
محمد ب کے لکھے ہوئے حاشیہ دار نوٹ۔ علی بی ابراہیم االسترآبادی ،مصنف منہاج المقال
(متوفی ،)9-1028/1618جس کی مختلف کاپیاں نجف اور مشہد میں دیکھی گئی ہیں۔
استقصاء التبار جو ابو جعفر محمد بن کی تحریر کردہ تفسیر ہے۔ حسن بی۔ زین الدین العملی
(متوفی )1-1030/1620اور آقا بزرگ تہرانی نے اس کی کچھ نقلیں نقل کی ہیں۔
مناہج االخبار جو کمال الدین (یا نظام الدین) احمد بی کی تحریر کردہ تفسیر ہے۔ زین العابدین
العامیلی۔
میر محمد باقر االسترآبادی کی تحریر کردہ ایک تالیف جسے میردماد (متوفی 1040یا
1-1041/1630یا )2-1631کے نام سے جانا جاتا ہے جسے بعض اوقات تفسیر بھی کہا جاتا ہے۔
تہران میں سپاہ ساالر الئبریری اور ڈبلن میں چیسٹر بیٹی الئبریری میں اس کی متعدد کاپیاں موجود
ہیں۔
جامع االخبار فی ادہ االستبصار جو الشیخ عبداللطیف ابن کی تحریر کردہ تفسیر ہے۔ علی بی احمد
بی ابی جامع الحارثی (متوفی ،)1-1050/1640الشیخ البحیی کا ایک شاگرد۔
کشف االسرار فی شرح االستبصار جو السید نعمت ہللا الجزائری (متوفی )1112/1701کی تحریر
.کردہ االستبصار کی تفسیر ہے اور اس کے متعدد نسخوں کا ذکر آقا بزرگ تہرانی نے کیا ہے۔
شرح االستبصار تحریر سید مرزا حسن بن۔ عبد الرسول حسینی زنوزی
شرح االستبصار امیر محمد ب .کی تحریر کردہ۔ امیر 'عبدالوصی' خاتون آبادی ،عالمہ مجلسی کے
داماد۔
بھی دیکھو