Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 85

‫ارسطو‬

‫وتعلیمات‬
‫‪،‬فکروفلسفہ‬ ‫حیات‬

‫شاہدمختار‬
‫فهرست‬

‫‪9‬‬ ‫ارسطو کے مختصرحالات زندگی‬

‫‪19‬‬ ‫ارسطوکی شخصیت‬ ‫‪2‬‬


‫جملہ حقوق محفوظ ہیں‬
‫‪35‬‬ ‫ارسطو کی تالیف و تصنیفات‬ ‫‪-3‬‬

‫‪84‬‬ ‫ارسطو کا مادی و طبیعیاتی فلسفه‬ ‫‪-4‬‬


‫‪x‬‬
‫شاہد مختار‬ ‫‪DAGOG ....‬‬
‫‪103‬‬ ‫ارسطوکا فلسفه اخلاقیات‬ ‫‪-‬‬
‫*‬
‫شاہد پبلشرز‬ ‫‪.....‬‬ ‫ناشر‬
‫‪106‬‬ ‫ارسطوکا فلسفہ سیاسیات‬ ‫‪-6-‬‬ ‫*‬
‫شریف پر نٹرز لاہور‬
‫‪135‬‬ ‫*‬
‫نظریات و تعلیمات ارسطو‬ ‫‪7‬‬ ‫عمرانبٹ‬ ‫کمپوزنگ‬
‫*‬
‫‪166‬‬ ‫ارسطوکی موت‬ ‫‪8-‬‬ ‫احسان احمد صدیقی‬
‫*‬ ‫قیمت‬
‫‪ 99‬روپے‬
‫دی‬
‫باچه‬

‫انتاب‬

‫سقراط نے بنی نوع انسانکو فلسفہ دیا اور‬


‫کے‬ ‫ہمیشہ‬ ‫ہم‬
‫سی‬ ‫چشم‬ ‫سیر‬
‫ارسطو نے یہ فلسفہ سائنسکو دے دیا ۔‬
‫بھرتی نہیں‬ ‫تو آنکھ‬ ‫دیکھیں‬ ‫تجھ کو‬
‫اتیان )‬

‫ارسطاطالیس جسے دنیا ارسطو کے نام سے جانتی ہے صحیح‬ ‫سن !‬ ‫زمانے‬ ‫سن !‬ ‫ہے‬ ‫محبت‬ ‫یہ‬

‫نہیں‬ ‫مرتی‬ ‫سے‬ ‫آسانیوں‬ ‫اتنی‬


‫معنوں میں ایک ہمہ گیر شخصیتکا مالک تھا ۔ اس نے سقراط اور‬

‫افلاطون کے علمی تصوراتکو نہ صرف استقراء بلکہ منطقی‬ ‫ا‬


‫(حمد فراز )‬

‫استدلال دونوں لحاظ سے معراجکمال تک پہنچایا اور پھر اپنے‬ ‫" دو جسم ایک جان "‬

‫فلسفہ حقیقت میں ایسے اصول وضع کیے جنکی اہمیت و افادیت‬ ‫افتخار مجاز اور اعزاز احمد آذر‬

‫سے آج بھی انکار ممکن نہیں ہے ۔ اس نے علم سیاسیاتکو‬


‫کے نام‬
‫ایک خود مختار اور الگ علم کی حیثیت دی جس کے باعث اسے‬
‫(شاہد مختار)‬
‫سیاسیات کا بانی اور ہر دور کا امام مانا گیا ہے ۔ اس نے ذاتی‬

‫مشاہدات اور تجربات کی بنا پر نئے نئے تصورات پیش کئے‬

‫جنہیں آج بھی معاشرتی اور سائنسی علوم کی بنیاد سمجھا جاتا‬

‫ہے ۔ اس نے سائنس ‪ ،‬فلسفہ و منطقکی ایسی اصطلاحات ایجاد‬

‫کیں جن سے موجودہ دور کے فلسفی اور سائنس دان استفادہ‬

‫کر رہے ہیں ۔ اس نے نہ صرف ایک مستقل سائنسکی تخلیق‬

‫کی بلکہ اس کی مختلف جزئیات اور تفصیلات سے بھی دنیا کو‬

‫روشناسکروایا ۔ اس نے تعلیم کی اہمیتکو اجاگرکرتے ہوئے‬


‫‪9‬‬

‫دنیاکو بتایاکہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے افراد اور‬

‫مملکت کے حقوق و فرائض اور اختیارات کے دائرہ کارکا تعین‬

‫ممکن ہے ۔‬

‫ارسطو نے اپنی تصنیفات میں تفکر کی مختلف صورتوں‬

‫سے علمکا مفصل نظام مرتبکیا اور اس کا دبستان فلسفہ آج بھی‬


‫ارسطو کے مختصرحالات زندگی‬
‫موثر ترین نظام مانا جاتا ہے ۔ اس نے ایک نئے علم منطق کو‬

‫مدونکیا اور اپنے خیالاتکی گہرائی تک رسائی کے لیے اس‬

‫علم سے مدد حاصلکی ۔ جس کے باعث دور جدید میں ہونے‬

‫قدیم یونانی فلسفی ‪ ،‬سائنس دان اور ہر عہد کا عظیم مفکر ارسطو جس کا اصل‬
‫والی تحقیق اس کے اسلوب تحریر کے نئے گوشوںکو بے نقاب‬
‫نام ارسطاطالیس تھا یونان کے ایک چھوٹے سے قصبے شاگرہ (‪ ) Stagira‬میں حضرت‬
‫کرتی ہوئی نظرآتی ہے ۔‬

‫جیسٹی علیہ السلام کی پیدائش سے ‪ 384‬سال قبل پیدا ہوا ۔ شاگرہ اینٹر‪-‬سے دو‬
‫ارسطو کے نزدیک تنظرکا دار و مدار استدلال یا سائنسی‬
‫سو میل دور شمال میں تھریس ( ‪ ) Thrace‬کے قریب ایک بندرگاہ تھی جہاں ارسطو‬
‫ثبوت پر ہے اسی بنیادی وجہ سے اس نے اپنی تمام تر تحقیقات‬
‫یونانی تاریخ کے اس پر آشوب دور میں پیدا ہوا جب اپنے دور کے عظیم شخص اور‬
‫و تخلیقات میں جذبات و خواہشات پر عقل کی حکمرانی قائم‬
‫ہر دور کے عظیم فلسفی سقراطکو زہر پیئے پندرہ سال اور آسمان فلسفہ کے درخشندہ‬
‫کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بجا طور پر کامیاب نظرآتا‬
‫ستارے افلاطونکو درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیے دو سالگزر چکے تھے ۔‬
‫ہے ۔ آیئے دنیا کے اس عظیم فلسفی کی حیات و تعلیمات و فکر و‬
‫ارسطو کے والد کا نام نکو میکس ( ‪ )Nicho - Machus‬تھا جو سکندر اعظم‬
‫کو علمی‬
‫فلسفہ سے مستفید ہوں جس نے اپنے خیالات و تصورات‬
‫کے دادا امینٹاس ( ‪ ، ) Amyntas‬جو اس وقت مقدونیہ پر حکمرانی کر رہا تھا کا‬
‫دنیا میں مجسم کرکے اسکو حقیقی صناعی بخشی !‬
‫دوست اور ذاتی معالج تھا ۔ اس کی والدہ کا نام فالیس تھا ‪ ،‬جو یونان کے ایک معزز‬

‫گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ ارسطو ابھی لڑکپنکی عمر میں تھاکہ اس کا باپ فوت‬

‫ہوگیا اور وہ اپنے ایک بزرگ پروکی ٹکس ( ‪)Proxinux‬کی سرپرستی میں سترہ سال‬ ‫شاہد مختار‬

‫کی عمرتک شاگرہ میں مقیم رہا ۔‬


‫اس دوران اس نے افلاطون سے حیاتیات ‪ ،‬سیاسیات ‪ ،‬اخلاقیات اور الہیات کا‬ ‫ارسطو نے طبکی فضا میں پرورشپائی اور اسی ماحول نے اسے حیاتیات اور‬

‫حاصلکیا ۔ وہ افلاطون کی زندگی میں ہی علم فلسفہ میں غیر معمولی مہارت کے باعث‬ ‫سائنس کی طرف راغبکیا ۔ اس نے طبابت اور جراحی کی ابتدائی تعلیم اپنے باپ‬

‫پورے یونان میں مشہور ہو چکا تھا اور افلاطون اسے " عاقل " کے نام سے پکارتا تھا‬
‫۔‬ ‫سے حاصلکی اور جب وہ سترہ سالکا ہوا تو اس کے سرپرستپروکی نکس نے اسے‬

‫اعلی تعلیم حاصلکرنے کے لیے ایتھنز بھیج دیا جہاں اس وقت افلاطونکی اکیڈیمی کا‬
‫ارسطو کی افلاطون کے ساتھ ہیں سالہ رفاقت نے ارسطو کے فلسفہ پر گہرا اثر ڈالا ۔‬

‫میکلمن ( ‪ ) Maclmain‬کے مطابق " ارسطو کی افلاطون کے ساتھ رفاقت ایک ایسا‬ ‫بڑا چرچا تھا۔ ارسطو ‪ 368‬ق م میں افلاطون کی اکیڈیمی میں داخل ہوا ۔ اس وقت‬

‫افلاطون کی عمر ‪ 61‬سال تھی اور وہ اخلاقیات ‪ ،‬علمیات ‪ ،‬طبیعیات اور سیاسیات پر‬
‫امر ہے جس نے ارسطو کے فلسفہکو خاص شکل دینے میں اہمکردار اداکیا ۔ " فاسٹر‬

‫مشتمل نظام فکر اور مثالی مملکت کے قیام کے لیےکوشاں تھا ۔‬


‫کے مطابق " ارسطو سب سے زیادہ افلاطونیت کا پیروکار ہے اور جس قدر ارسطو‬

‫افلاطون سے متاثر ہوا تھا اس طرحکوئی بھی دوسرا عظیم فلسفی کسی دوسرے کے‬ ‫ارسطو اپنی ذہانت و بلاغت اور قابلیت کی بنا پر اپنے استاد کے انتہائی قریب‬

‫خیالات سے تاثر نہیں ہو سکا ۔ " پروفیسر سائن کے مطابق " ارسطو کے سیاسی فلسفہ‬ ‫ہوگیا ۔ ارسطو کے مطابق افلاطون واحد شخص تھا جس نے اپنی علمی زندگی اور تحریری‬

‫قوت استدلال سے نیکی کو منبع و مسرت و شادمانی قرار دیا ۔ افلاطون بھی سمجھ چکا تھاکہ‬
‫کے نظریات کی بنیاد افلاطون کے ساتھ اس کی ہیں ( ‪ ) 20‬سالہ رفاقت پر منحصر‬
‫‪tt‬‬ ‫اسکا شاگرد ذہنی عظمتکا مالکاور عقل مجسمکی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ اسے اپنے تمام‬
‫ہے ۔‬

‫شاگردوں پر ترجیح دیتا تھا حالانکہ ان میں ہیرا کلائڈز ا فلیوس‪ ،‬ہیٹسوس اور مینڈیموس‬
‫افلاطون کی زندگی کے آخری ایام میں اکیڈیمی کی سربراہی کے لیے جھگڑا پیدا‬
‫جیسے نامور لوگ شامل تھے جنہوں نے فیثا غورث کے نظریاتکو حتمی شکل دینےکی‬
‫ہوا ۔ ارسطو کی خواہش تھی کہ وہ اپنے استاد کے بعد اس اکیڈیمی کا سربراہ بنے اور‬

‫کوششکی ۔ ہیرا کلائڈز نے ‪ 339‬ق م میں ایک الگمدرسہ قائم کر کے ان نظریاتکا‬


‫اپنے استاد کے کام کو آگے بڑھائے لیکن ‪ 347‬ق م میں افلاطون کی موت کے بعد‬

‫انہی عقل نے کائناتکو نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنایا ہے ‪ ،‬زمین‬ ‫پر چارکیا کہ‬
‫افلاطون کی خواہش اور وصیت کے مطابق اس کا بھتیجا میسی پس ( ‪) Speusippus‬‬

‫اپنے گرد گھومتی ہے اور روح ایتیری مادے سے بنی ہے ۔ " جبکہ بیٹیوں کے مابعد‬
‫جو ریاضیاتی اعداد کا قائل اور اکائی کو تکوینی عقل اور خیر مطلق سے الگ تصورکرتا‬

‫الطبیعیاتی اور ریاضیاتی نظریات ارسطو کے خیالات میں ہمیشہ محفوظ رہے ۔ ارسطو نے‬
‫تھا اکیڈیمی کا سربراہ بنا جس پر ارسطو دل برداشتہ ہو کر ایشیائےکوچک کی طرف چلا‬
‫اکیڈیمی میں علم حاصلکرنے کے شوق کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔ وہ رات گئے تک چراغکی‬
‫گیا ۔ ارسطو کے دوستوں میں اٹارنس کا حکمران ہر میاز ( ‪ ) Hermeias‬بھی شامل‬

‫۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں فلسفہ پر‬


‫روشنی میں مطالعہ کرنے والا طالب علم تھا‬
‫تھا۔ لہذا وہ اپنے ایک اور دوست اکینو کرٹیز ( ‪ )Xenocrates‬جو بعد میں ‪ 313‬ق م‬

‫عبور حاصلکر لیا اور کثیر سرمایہ خرچکر کے بے شمار قلمی نسخے خریدے ۔ اس نے اپنے‬
‫تک افلاطون کی اکیڈیمی کا سربراہ رہا اور اکائی اور دیو تا زیوسکو ایک سمجھتا تھاکے‬
‫کوکتب خانہ میں تبدیلکر کے کتابوںکی ترتیبکی بنیاد رکھی ۔ اسکی پاسکتابوں کا‬
‫گھر‬
‫ہمراہ ‪ 347‬ق م میں اٹارنس پہنچا اور ہر میاز کے دربار سے منسلک ہوا ۔ اس نے‬

‫اٹارنس میں ہر میاز کی بھتیجی پی تھی اس ( ‪ ) Pythias‬سے شادیکی اور بڑی خوشگوار‬ ‫بہت بڑا ذخیرہ تھا اور اسی بنا پر افلاطون اس کے گھرکو دارالقاری کہا کرتا تھا ۔ ارسطو‬

‫ازدواجی زندگیگزاری ۔ ارسطو نے اپنی زندگی کے آخری دور میں دوسری شادی‬
‫اور‬ ‫رہا‬ ‫منسلک‬ ‫تک‬ ‫سال‬ ‫بیس‬ ‫سے‬ ‫اکیڈیمی‬ ‫کی‬ ‫افلاطون‬
‫‪12‬‬
‫‪13‬‬

‫کارنامہ سرانجام دیا اور یہ دونوں استاد شاگرد اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب و‬ ‫بھی کی تھی ۔ دوسری بیوی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جسکا نام دادا کے نام پر‬

‫کامران رہے ۔‬ ‫نیکو میکس رکھا گیا ۔ تین سال بعد جب ہرمیاز سے سلطنت چھن گئی تو ارسطو میسلین‬

‫چلا گیا ۔ پھر ایتھنز واپس آیا اور وہاں ایسوکرائیں کی مخالفت میں خطابت‬
‫بعض ہندو مورخین کے مطابق دنیاکے دو عظیم فاتح و فرماں روا سکندر اعظم‬
‫( ‪) Rhetoric‬کا مدرسہ کھولا ۔‬
‫اور چندرگپت موریہ کے دو عظیم اتالیق ارسطو اورکوتلیہ چانکیہکا دور اتالیقی دور‬

‫حکومت اور دور تصانیف مشترک اور یکساں ہیں ۔ مقدونیہ میں سکندراعظم اور ٹیکسلا‬ ‫‪ 342‬ق م میں مقدونیہ کے حکمران فلیفوس نے اسے اس کی قابلیت اور‬

‫میں چندرگپت موریہ نے ایک ہی زمانہ میں دنیا کے عظیم دانش ور اور ماہرین علوم‬ ‫سے طلب کر کے اپنے بیٹے‬ ‫خاندانی دیرینہ مراسم کی بنا پر مٹی لین ( ‪Mytilene‬‬

‫سیاسیات بالترتیب ارسطو اور کو تلیہ چانکیہ سے تعلیم و تربیت حاصل کی جس کے‬ ‫سکندراعظم کا اتالیق مقرر کیا۔ اس وقت سکند را عظم کی عمر تیرہ سال اور ارسطو کی‬

‫باعث دنیا کے یہ دونوں عظیم فاتحین تاریخ کا نمایاں باب بنے ۔ ہندو مورخین کے‬ ‫عمر ‪ 38‬سال تھی ۔ ارسطو مقدونیہ میں سکندر اعظم کا پانچ سال تک اتالیق رہا اور‬

‫ارتھ شاستر " کے مصنفکو تلیہ چانکیہ اور ارسطو کے نظریات مشترک ہیں‬ ‫نزدیک‬ ‫سکندر اعظم نے اس کی شاگردی میں علوم و فنون میں دسترس حاصلکی ۔ اس‬

‫اور ارسطو کے یہ نظریات کہ " مستحکم جاسوی نظام قائم کیا جائے جس میں عورتیں‬ ‫دوران فیلنیوس نے ارسطو کو فلسفیانہ اور سائنسی تعلیم کے لیے بہترین سہولیات‬

‫بالخصوص جاسوس ہوں ‪ ،‬ملک کے باغیوںکو سخت ترین سزائیں دی جائیں ‪ ،‬عوام اور‬ ‫فراہمکیں ۔ پو مارک کے مطابق سکندر اعظم ارسطوکو اپنے باپ جیسا احترام دیتے‬
‫•‬
‫ہوئےکہا کرتا تھاکہ‬
‫حکومت کے درمیان اعتماد اور مفاہمت کا جذبہ بھرپور طور پر قائم ہو ‪ ،‬ریاست میں‬

‫باپ نے مجھے زندگی دی اور استاد نے مجھے جینے کا فن بتا یا۔‬


‫بھائی چارہ کی فضا قائم ہو ‪ ،‬طاقت یا خوف کے ذریعے حکومت قائم نہکی جائے اور حق‬
‫کیا ہی بہتر ہو تا اگر اقتدار میں وسعتکی بجائے میرے علم میں‬
‫کو تلیہ‬
‫شہریت میں فرق روا رکھا جائے ۔ " چانکیہ کے نظریات سے متشابہ ہیں ۔(‬

‫وسعتپیدا ہوتی اور میں نیکی کو پہچان سکتا ۔ "‬


‫چانکیہ کے حالات زندگی اور فلسفہ سیاست جاننے کے لیے میری کتاب "عظیم سیاسی‬

‫مفکرین عالم " کا باب کو تلیہ چانکیہ " ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔)‬ ‫‪ 338‬ق م میں سکندر اعظم کے باپ فیلفوس نے کیرونیا کے مقام پر ایتھنز‬

‫والوں کو شکست دےکر یونانکو متحد کرنے کی کوششکی لیکن اس فتح کے فورا بعد‬
‫سکند را عظم ‪ 336‬ق م میں یونان کا بادشاہ بنا اور اپنی عالمی فتوحات کے بعد‬
‫‪ 323‬ق م میں وفات پا گیا جبکہ چندر گپت موریہ چانکیہ سے آٹھ سال تک میٹھی‬ ‫ہی اسے ہلاککر دیاگیا ۔ اس طرح سکندر اعظم فلسفہکو خیر بادکہہ کر تخت سلطنت پر‬

‫سیاست کے گر سیکھنے کے بعد حکمران بنا اور ایک مستند روایت کے مطابق ‪ 298‬ق م‬ ‫متمکن ہوا ۔ یہ ارسطو کی تعلیم و تربیت کا ہی اثر تھا کہ سکندر اعظم مقدونیہ کی ایک‬

‫میں تخت چھوڑ کر جینی مذہب کا بھکشو بن کر دکن چلاگیا ۔ ارسطو کی اتالیقی کا دور چھ‬ ‫چھوٹی سی بستی سے نکل کر دنیا کے ایک بڑے حصے کا فاتح بنا ۔ ارسطو نے سکندراعظم‬

‫مقالے‬ ‫چھوٹے‬ ‫چھوٹے‬ ‫تین‬ ‫لیے‬ ‫کے‬ ‫راہنمائی‬ ‫کی‬


‫سال ہے جبکہکو تلیہ چانکیہ کا دور اتالیق ‪ 28‬سال ہے ۔ ارسطو نے ‪ 322‬ق م میں‬

‫وفات پائی اور یہی سال پاٹلی پتر میں چندرگپت موریہ کے شہنشاہی قائم ہونے کا ہے ۔‬ ‫‪ On Colosis of‬کے عنوان سے تحریر کئے اور ان کا انتساب‬ ‫‪Kingship‬‬

‫سکندر اعظم کے نام پر کیا۔ سکندر نے اگر دنیا کو فتحکیا تو ارسطو نے تسخیرکائنات کا‬
‫سکندراعظم کے فوجی مہمات میں مصروف ہونے پر ارسطو نے ‪ 334‬ق م میں‬
‫‪15‬‬ ‫‪14‬‬

‫راستہ اختیارکرنا چاہیے ۔ "‬ ‫ایک استاد کامل کی حیثیت سے لائیسم (‪ )Lysium‬کے مقام پر افلاطون اکیڈیمی کی‬

‫طرز پر ایک تعلیمی ادارہ قائمکیا جو بعد میں ارسطو کے چل پھرکر پڑھانے کی وجہ سے‬
‫ارسطو نے بعض تصورات میں اپنے استاد افلاطون سے اختلافکیا ہے لیکن‬

‫وہ اپنے آپکو افلاطون کے مکتبہ فکر کارکن سمجھتا تھا اور اسی باعث بحیثیت مجموعی‬ ‫مکتبہ مشاہین کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مدرسہ میں طلباءکی تعداد اس قدر تھیکہ‬

‫ان دونوں کے فلسفے میں اختلافکی نسبت اتفاق زیادہ پایاجاتہاے ۔ فلسفے کو حکمت‬ ‫مدرسہ کے انتظام و انصرام کے لیے پیچیدہ اور مشکل قوائد و ضوابط بنانے پڑے اور‬

‫تک محدود کرنے اور اخلاقی فعلیتکو متمیزکرنے کے باوجود ان دونوں میں بڑی‬ ‫ہر دس روز بعد ایک نئے طالب علمکو مدرسے کی کاروائی کی نگرانی پر مامور کیا جاتا‬

‫مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ارسطو بھی افلاطونکی طرح اشیاء کے جواہر اور غیر متغیروجود‬ ‫تھا ۔ اتنے سخت قواعد و ضوابط کے باوجود طلباء استاد کے ساتھ مل کر کھاناکھاتے تھے‬

‫کے علم جس میں کلیت اور لزوم موجود ہو حاصل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے‬ ‫اور ورزشی میدان میں شملتے شملتے علم حاصل کرتے تھے ۔ اس مدرسہ میں ریاضیات‬

‫کہ "اشیاء کا اصل جوہر ان صور پر مشتمل ہے جو ہمارے تصورات کا موضوع‬ ‫فلسفہ ‪ ،‬سیاسیات اور فکر آرائی کے علاوہ علم الحیات اور علوم طبعی بھی پڑھائے جاتے‬

‫ارسطو نے سقراط اور افلاطون کے علم تصوراتکو استقرا اور منطقی استدلال‬ ‫ہیں ۔‬ ‫تھے لیکن طلباء کا زیادہ تر رجحان علم الحیات اور علوم طبیعی کی طرف تھا ۔ ارسطو نے‬

‫۔ اس کی تحریروں میں اگر چہ افلاطون کا حسابی‬


‫دونوں لحاظ سے معراج کمال تک پہنچایا‬ ‫ایشیا کے ہر خطہ سے حیوانات اور نباتات کے نمونے حاصل کیے اور دنیا کی تاریخ‬

‫فن لطیف شامل نہیں ہے لیکن اس کا بیان جلد دلنشین ہو جاتا ہے ۔ ارسطو نے اپنی‬ ‫میں پہلا عظیم الشان چڑیا گھرقائم کیا ‪ ،‬جس کے قیام کے لیے پلینی اور ایتھیوں کے‬

‫مطابق سکندر اعظم اور مملکت نے اسے وسائل فراہم کیے تھے ۔‬
‫تحریروں میں جو فلسفیانہ مصطلحات استعمالکی ہیں وہ لاجواب ہیں ۔‬

‫ارسطو کا پیشکردہ اخلاقی اور سائنسی نظام افلاطون کے نظام سے ملتا جلتا ہے‬ ‫ارسطو باره سال تک اس ادارہ کا سربراہ رہا اور اس دوران اس نے بہت‬

‫اور اس کی تمام تحریروں پر افلاطون کا انداز چھایا ہوا ہے۔ اس کی تحریروں میں‬ ‫سے تحقیقی اور تخلیقی کاموں کی مختلف شاخوںکی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اس علمکثیر‬

‫افلاطون سے اختلاف اور اتفاق دونوں موجود ہیں لیکن اختلاف سطحی ہیں جبکہ‬ ‫کو حتمی شکل میں مرتب بھی کیا ۔ ارسطو نے سائنسکی ترقی کے لیے جو مواد مہیا کیا‬

‫وہ بلاشبہ انسانی ذہن کا حیرت انگیز کارنامہ ہے ۔ اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے‬
‫نظریات میں ہم آہنگی گہری بنیادوں پر ہے ۔ افلاطون خیال یا تصور کو بہت زیادہ‬

‫اہمیت دیتا ہے جبکہ ارسطو حواس خمسہ سے محسوس ہونے والے جہاںکو اصل حقائق‬ ‫نے منطق ‪،‬‬ ‫اپنے دور کے سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کی تصحیح کی ۔ اس‬

‫کا جہاں کہتا ہے ۔ افلاطون نے اپنے فلسفے میں متھ کا سہارا لیا ہے جبکہ ارسطو نے‬ ‫مابعد الطبعیات ‪ ،‬اخلاقیات ‪ ،‬سیاسیات ‪ ،‬فنون لطیفہ ‪ ،‬فلکیات اور جانوروں کی زندگی پر‬

‫مقالات تحریر کیے ۔ وہ حیوانیات اور منطق کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ منطق میں اس نے‬
‫سائنسی موضوعات کے بیان میں متھ اور شاعرانہ تساہل نگاری کا مظاہرہکیا ہے ۔‬
‫استقراری اور استخراجی دونوں اصولوںکو اپنایا۔ اس نے ادب میں ہو مر اور بیزی‬
‫ارسطو افلاطون کی آخری تصنیف " ‪ " The Laws‬سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ اس‬

‫روڈ کے نظریات و خیالات سے استفادہ حاصلکرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ہم حسن و‬


‫نے جو ایک حقیقی اور قابل عمل مملکت کا ڈھانچہ متعین کیا ہے وہ کم و بیش انہیں‬
‫اصولوں پر مبنی ہے جو افلاطون نے ‪ The Laws‬میں اپنی عملی مملکت کے استحکام‬ ‫خوبصورتی کے متمنی ہیں تو ہمیں ادب اور فنون کا راستہ اختیارکرنا چاہیے لیکن اگر‬

‫کے لیے پیش کئے تھے ۔‬ ‫ہم مادی اور ٹھوس حقائق کے متمنی ہیں تو پھر ہمیں سائنس اور عقلی استدلال کا‬
‫‪17‬‬ ‫‪16‬‬

‫تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”چونکہ اس تصور کے مقاصد اور ذرائع کے درمیان‬ ‫افلاطون کے خیال میں " تخلیق کائنات کا مبداء واحد کوئی نہ کوئی نفس‬

‫ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اس لیے یہ قابل اطلاق نہیں ہے ۔ “ اس کے نزدیک اس‬ ‫روح خدا یا مطلق وجود ہے ‪ ،‬یہ مظہری دنیا اصل اور حقیقی نہیں ہے بلکہ یہ ہر ہرلمحہ‬

‫تصور اشتمالیت کے مقاصد اخلاقی ہیں جبکہ ان کے حصوں کے لیے اخلاقی ذرائع کی‬ ‫تغیرو تبدل کے عمل سے گزرتی ہے اور یہاں عروج و زوال اور موت و زیست کا‬

‫بجائے مادی ذرائع استعمال کیے گئے ہیں جس کے باعث اس تصور میں منطقی تضادات‬ ‫لامتناعی سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ یہ کائنات عمومی طور پر اپنے اصلکی نقل ہے‬

‫پیدا ہوئے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی ہوئی ۔ ارسطو کے نزدیک نجی‬ ‫اور ہر مظاہرات فطرت کا عین مطلق عالم بالا یا عالم مقام میں موجود ہے جو غیرمتبدل‬

‫ملکیت اور خاندان کو حکمران اور فوجی طبقے کے لیے ممنوع قرار دینے کا طرز عمل‬ ‫اور غیر فانی ہے " جبکہ ارسطو کے خیال میں مادہ ہی بنیادی طور پر اپنی اصل میں‬

‫مملکتمیں اتحادکی بجائے نفاق اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے ۔‬ ‫حقیقت اولی ہے اور یہ مادی دنیا ہی اپنی جگہ حقیقی اور ابدی ہے یہ اپنی اصل میں‬

‫ارسطو کے خیال میں تصور اشتمالیت کے نفاذ سے معاشرے میں بیک وقت دو‬ ‫کوئی نقل نہیں بلکہ اپنی وجودی ہیت میں اصل ہے ۔ مظاہرات کائنات محض‬

‫طبقے معرض وجود میں آئیں گے جن میں سے ایک طبقہ مادی وسائل پر قابض جبکہ‬ ‫افراد کے ذہن میں موجود تصورات کا عکس ہی نہیں بلکہ انسانی ذہن کے تصوراتی‬

‫دوسرا طبقه دولت و خاندان سے محروم ہو گا اور اسی محرومی سے بالآخر معاشرہ طبقاتی‬ ‫مشاہدے سے ہٹکر بھی یہ اپنا وجود رکھتے ہیں جس کو حواس خمسہ کے ذریعے‬

‫تصادم کے باعث انتشار و بد نظمی کا شکار ہوگا۔ معاشی طبقے کے مرضی کی پالیسیاں بننے‬ ‫ہے‬
‫محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ارسطو افلاطون کے فلسفہ روحانیتکو ردکرتے ہوئے کہتا‬

‫سے مملکت کے تمام امور میں معاشی طبقے کا عملی عمل دخل ہوگا اور اس طرح ہرطبقہ‬ ‫انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے جو نہایت ہی اعلی قسم کے اعصابی نظام اور ایک‬ ‫کہ‬

‫اپنے دائرہ کار میں رہ کر متعینہ فرائض سرانجام نہیں دے سکے گا ۔ ارسطو کے‬ ‫معاشرتی مزاج کا حامل ہے ۔ ذہن یا روح دراصل عضویہ کا ایک اعلی اور پیچیدہ فعل‬

‫نزدیک تصویر اشتمالیت میں حکمرانوں کے لیے خاندان اور نجی ملکیت ممنوع قرار دے‬ ‫کا نام ہے ۔ محض خیالاتکی بنیاد پر کائنات کے مادی وجود اور خود انسان کے حیاتیاتی‬

‫کرمجرد زندگیگزارنے کا درس دیا گیا ہے جن سے وہ انسانی جذبات و احساسات سے‬ ‫وجود کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ‪ ،‬تاوقتیکہ ان عناصرکی‬

‫عاری ہوں گے اور اس حالت میں ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ عمومی طور پر‬ ‫حقیقت کا اپنے حواس اور معروضی مشاہدے کی بنیاد پر یقین نہکر لیا جائے ۔ بلاشبہ‬

‫معاشرےکی اصلاحکریں اور دیگر طبقاتکی مرضی کی پالیسیاں وضع کریں ۔ اس کے‬ ‫عقل کسی حد تک کائنات اور مظاہراتکی حقیقت تک انسانکی راہنمائیکرتی ہے‬
‫حقیقت‬
‫خیال میں حکمرانوں اور فوجیوںکو صرف عقل کے بل بوتے پر زیادہ بہترکامکرنے کی‬ ‫تک رسائی کے لیے عقل پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر‬ ‫لیکنمکمل طور پر‬

‫توقع خلاف فطرت ہے ۔ اگر انسان عقل اور جذبے کے ساتھ ساتھ دیگر احساسات‬ ‫انسان عقل کے ساتھ ساتھ اپنے حواس اور مشاہدے کو بھی بروئے کار لائے تو‬

‫حقیقت آشکار ہو سکتی ہے ۔ "‬


‫کو بھی بروئے کار لاکر معاشرے میں تعامل کرے تو زیادہ کامیاب رہ سکتا ہے ۔ اس‬

‫کے خیال میں مملکت اور خاندان دونوں ادارے اپنے مقاصد دائرہ کار وسعت‬ ‫افلاطون نے اپنے تصور اشتمالیت میں معاشرے میں عدم استحکام انتشار اور‬

‫اور فرائض کے اعتبار سے بالکل جدا جدا ہیں ۔ خاندان اپنی ہیئت کے اعتبار سے ایک‬ ‫اخلاقی برائیاں ختم کرنے کے لیے نجی ملکیت اور خاندان جیسی رکاوٹیں دورکرنے کا‬

‫‪:‬‬ ‫منفرد ادارہ ہے جس کی خصوصیات اور جملہ تشکیلی عناصر کو مملکتکی جانب تبدیل‬ ‫تصور پیش کیا جس کا مقصد عمومی معاشرہ کی اصلاح تھا۔ ارسطو اس تصور اشتمالیت پر‬
‫‪18‬‬
‫‪19‬‬

‫نہیں کیا جاسکتا ۔ مزید خاندان کی شفقت و محبت کو پھیلا کر مملکت کے دائرہ کار تک‬

‫بسیط کر دینا اور اس میں خاندان کی سی خصوصیات پیداکرنا اور خاندانی ماحول و کیفیت‬

‫پیدا کرنا بالکل ناممکن ہے ۔ اس لیے مملکتکو خاندان سے تشبیہ دینا افلاطون کی بہت‬

‫بڑی غلطی تھی ۔ اس کے مطابق افلاطون نے اپنے اس تصور میں مرد اور عورت‬

‫کے باہمی ملاپ کے حیاتیاتی تصور کو محو کر دیا ہے اور اشتراک ازواج کے تصور میں‬

‫اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے ۔ ارسطو افلاطون کے تصور‬
‫ارسطو کی شخصیت‬
‫اشتراک ازواج پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مملکتکو اشتراک ازواج کی بنیاد‬

‫پر ایک خاندان تسلیم کر لیا جائے تو اس میں بہت ساری اخلاقی برائیاں پیدا ہو جائیں‬

‫گی اور اس باتکی تمیزکرنا مشکل ہو جائے گی کہکون کس کا باپ اورکونکس کا بیٹا‬
‫فلسفہ سیاسیات میں ارسطو کا مقام اور حیثیت امتیازی ہے ۔ تاریخ میں اسے‬
‫موجد سیاسیات ‪ ،‬مفکر اول سیاسیات اور بابائے سیاسیات کے ناموں سے موسوم کیا گیا‬ ‫ہے اور اس طرح معاشرتی رشتوں اور قدروںکی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی ۔‬

‫ہے ۔ اس کی تصنیف ”سیاسیات " کو علم سیاسیات اور فن حکومت پر ایک مستقل‬ ‫اولاد کی پیدائش اور ان کی تربیت کا کام عور تیں پورے معاشرے کے لیے انجام‬

‫مقالہ کی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر ڈینگ‬ ‫دینے سے گریزکریں گی ۔ آیئے ارسطو کی شخصیتکو اس کے فلاسفہ کے تناظرمیں‬

‫دیکھتے ہیں ۔‬

‫( ‪ )Prof. Dunning‬لکھتا ہے کہ ”سیاسی فکرکی تاریخ میں ارسطو کی حیثیت کا راز‬

‫اس امر میں پوشیدہ ہے کہ اس نے علم سیاسیاتکو ایک خود مختار اور الگ علم کی‬

‫حیثیت دی ہے ۔ وہ پہلا سیاسی مفکر ہے جس نے تاریخ میں پہلی بار سیاسیات اور‬

‫اخلاقیات کے درمیان تمیز پیدا کی اور سیاسیاتکو ایک خود مختار علمکی حیثیت دینے‬

‫کے لیے استقراری طریقہ مطالعہ باضابطہ اور واضح طور پر استعمالکیا۔ وہ واحد فلسفی‬

‫ہے جس نے معلوم تاریخ میں پہلی دفعہ نہ صرف علم سیاسیاتکی جداگانہ حیثیت قائم‬

‫کی بلکہ مختلف سیاسی ادارت سے متعلق تصورات پیشکر کے فلسفہ سیاسیات میں اپنے‬

‫لیے ایک منفرد مقام حاصلکیا ۔"‬

‫ارسطو نے افلاطون کے فلسفہ مثالیت کے رد عمل میں فلسفہ حقیقت پیشکیا‬

‫جس میں اس نے افلاطون کے اس نظریہ کو کہ " موجودہ مادی دنیا حقیقی نہیں بلکہ یہ‬
‫‪21‬‬ ‫‪20‬‬

‫معروضی ہونی چاہیے ۔ " اس طرح ارسطو نے پہلی دفعہ مختلف سیاسی مسائل کا حل‬ ‫اس حقیقی کائنات کا عکس ہے جو ماورائے کائنات میں کہیں موجود ہے اور انسانی‬

‫اور سیاسی ادارت کی تشکیل کے لیے تصورات پیش کرتے وقت استقراری طریقہ‬ ‫مشاہدہ و حواس سے ماورا ہے "کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ”مادی دنیا اپنی ہیئت میں‬

‫مطالعہکو بروئے کار لا کر ٹھوس نتائج اخذ کئے اور عمرانی علوم کے مطالعے میں نئے‬ ‫ارسطو نے‬ ‫ہی حقیقی دنیا ہے اور ماورائے کائنات کسی کائنات کا وجود نہیں ہے ۔‬

‫بابکا اضافہکیا ۔‬ ‫کائنات کو ایک اصل اور ٹھوس ابدی حقیقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ” ہم اپنے‬

‫ارسطو نے آغاز مملکت کا تصور پیش کرتے وقت استخراجی اور مقصدیت کے‬ ‫حواس کے ذریعے نہ صرف اس کا مشاہدہکر سکتے ہیں بلکہ اس کے موجوداتکو اپنی‬

‫طریقہ ہائے مطالعہ سامنے رکھے اور اس طرح استقراری مطالعہ کے بغیرمملکتکی‬ ‫تمدنی زندگی کی تکمیل کے لیے بروئے کار بھی لا سکتے ہیں ۔ " اس نے افلاطون کے‬

‫تشکیل میں ایسے عناصرکو شامل کیا جنکی افادیت و اہمیت آج بھی مسلمہ ہے ۔ اس‬ ‫اس خیال کی کہ " تخلیق کائنات کا مبداء واحد کوئی نہکوئی نفس ‪ ،‬روح خدا یا مطلق‬

‫نے تصور آغازمملکت میں مملکت کے ارتقاء کو فطری مملکتکی تشکیل میں خاندانکو‬ ‫مادہ بنیادی طور پر اپنی اصل میں حقیقت اولی‬ ‫وجود ہے "کی نفیکرتے ہوئے کہا کہ‬

‫ابتدائی اکائی اور مملکت کو انسانی ضروریات کا واحد ادارہ قرار دےکر ایک قاتل‬ ‫ہے اور مادی دنیا ہی اپنی جگہ بڑی حقیقت ہے ۔ " اس نے افلاطون کے نظریہ‬

‫قدر اور قابل تحسین کامکیا ۔‬ ‫انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے ‪ ،‬جو نہایت ہی‬ ‫روحانیت کو بھی قبول نہ کیا اور کہا کہ‬

‫ارسطو نے تقسیم مملکت کے افادی پہلو پر بحثکرتے ہوئے دو اصول بیان‬ ‫اعلیٰ قسم کے اعصابی نظام اور ایک معاشرتی مزاج کا حامل ہے اور ذہن یا روح‬

‫کئے ۔ اس کے نزدیک حکمران طبقے کا اصول افادی ہے اور سماجی طبقےکی نوعیت کا‬ ‫دراصل عضویہ کے ایک اعلیٰ اور پیچیدہ فعل کا نام ہے ۔ " ارسطو کے نزدیک کائنات‬

‫اصول قابل قبول ہے ۔ بلاشبہ موجودہ دور کی جدید مملکتیں اس کے اس اصولکو کہ ”‬ ‫میں ایک ہمہگیراخلاقی قانون موجود ہے جسکو دلیل کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے‬

‫حکمران طبقے کے مقاصد کا اصول افادی ہے ۔ " اپناکر سیاسی نظام مرتب کر رہی ہیں‬ ‫اور جس کا اطلاق افراد پر بطور عاقل انسانوں کے ہوتا ہے ۔‬

‫جبکہ اس کے سماجی طبقے کا اصول مملکت کی نوعیت کے تعین کے لیے استعمال ہو رہا‬ ‫اسی فلسفہ حقیقت کی روشنی میں ارسطو نے تاریخ میں پہلی بار پڑوسی ممالک‬

‫ہے ۔ یہ ارسطو کی فکری گہرائی کی انتہا ہے کہ اس نے اپنے تصور تقسیممملکت میں‬ ‫کے سیاسی نظاموں کا ایتھنز کے مروجہ نظام اور اس کے جملہ ادارت کا معروضی تجزیہ‬

‫آنے والے دور کے تقاضوںکو بھی پیش نظر رکھا ۔‬ ‫قابل اطلاق‬ ‫کرکے معاشرے کے مختلفسماجی و سیاسی ادارت سے متعلق نہ صرف‬

‫ارسطو کا تصور شہریت اگر چہ موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے لیکن‬ ‫تصورات پیش کیے بلکہ مختلف سماجی اور بنیادی علوم میں نئے اضافے بھی کیے ۔ اس‬

‫پھر بھی اس کے تصور شہریت کے کچھ اصول اور شرائط آج بھی انتہائی اہمیت اور‬ ‫نے انسانکو سیاسی حیوان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ انسانی خواہش کے عین مطابق‬

‫افادیت کی حامل ہیں ۔ اس کے تصور شہریت میں نہ صرف قدیم یونانی معاشرتی اور‬ ‫ہے کہ اسکی انفرادی شخصیت اور اجتماعی زندگی کی تکمیل ایسے مقتدر سیاسی اداروں‬

‫سیاسی زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں بلکہ اس نے مستقبل کے تقاضوںکو بھی کسی‬ ‫کے ذمہ ہوں جو اپنی ہمہ گیریت اور دائرہ کار و وظائف کے حوالے سے فردکی‬

‫حد تک مد نظر رکھا ہے ۔ ارسطو کے تصور شہریت میں عدالتی ‪ ،‬قانونی اور انتظامی‬ ‫شخصیت پر مکمل طور پر حاوی ہوں اور ہر سیاسی اداره بشمول مملکت ‪ ،‬حکومت‬

‫فرائضکی بجا آوری ہی شہریتکی لازمی شرط ہے ۔ اسکا یہ تصور اخلاقی اقداروں‬ ‫قانون آزادی و شہریت کی اساس جو بلاشبہ انسانی حواس اور مشاہدہ فراہمکرتی ہے‬
‫‪22‬‬
‫‪23‬‬
‫قدامت پسند مفکر ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ تصویر غلامی میں بھی وہ حقیقت پسند فلسفی‬ ‫اصولوں اور ضابطوں پر استوار ہے جس سے شہریوںکی سیاسی اقتدار میں بالواسطہ‬

‫کی بجائے قدامت پسند مفکر نظر آتا ہے ۔ اس کے نزدیک معاشرتی ڈھانچہ میں تبدیلی‬ ‫شراکت کا تصور ملتا ہے جو جدید تصور شہریت سے زیادہ افادی اور بامعنی ہے ۔‬

‫یا خالص شعبہ میں انقلابی تبدیلی دونوں صورتوں میں معاشرتی عدم استحکام پیدا ہوتا‬ ‫ارسطو پہلا مفکر ہے جس نے تفکری مشکلات کے باوجود یہ اصول وضع کیا کہ‬

‫ہے اور تقریباً یہ طرز فکر اس کے تمام تصورات پر حاوی ہے ۔ اس نے نہ صرف‬ ‫" طرز حکومت کا انحصار بہت حد تککردار زر اور تقسیم زر پر مینی ہے ۔ لوگوں کے‬

‫خاندانی نجی ملکیت اور دیگر نظام ہائے زندگی کو ویسے ہی برقرار رکھا بلکہ غلامی کے‬ ‫پیشے انکی سیاسی اہمیت اور رویہ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انقلابکا بنیادی سبب‬

‫اس باہمی دوڑکا نتیجہ ہے جو کثیر دولت والوں‪،‬کم دولت والوں اور مفلسی کے ماروں‬
‫مروجہ نظامکو بھی برقرار رکھنے کے لیے مختلف دلائل اور تجاویز پیشکیں ۔ اس کے‬
‫نزدیک غلامی کا ادارہ بھی مملکت کا ایک جزو ہے جو معاشرے کے عمومی استحکام کے‬ ‫کے درمیان ہوتی ہے ۔ " سائن کے مطابق ارسطو قانون کی حکمرانی تسلیم کرتے‬

‫لیے سرگرم عمل ہے ۔ غلام مالک کا آلہ کار اور گھریلو زندگی کا ایک جزو ہے ‪ ،‬غلامی‬ ‫ہوئے کہتا ہے کہ " جو قانون کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں وہ اصل عقل و دانشکی‬

‫فطری اور انصاف پر مبنی ہے ‪ ،‬آقا کی حیثیت روح اور غلام کی حیثیت جسم کی سی‬ ‫تر یقین رکھتے ہیں اور جو انسانی راج پر یقین رکھتے ہیں وہ حکمرانی میں وحشت‬
‫حاکمیپ‬

‫ہے ۔ ارسطو کے تصور غلامی میں بلاشبہ منطقی تضادات موجود ہیں اور یہ تصور انسانی‬ ‫کا عصر بھی شاملکر دیتے ہیں ۔ نفس سب سے بڑا وحشی درندہ ہے اور نفسکی وجہ‬

‫اقدار سے متصادم ہے ۔‬ ‫سے پیدا ہونے والے جذبات انسانی اذہان کو بے راہرو کر دیتے ہیں خواہ انسان‬

‫صفات کے لحاظ سے اشرف ہی کیوں نہ ہو ۔ "‬


‫ارسطو وہ واحد شخصیت ہے جس نے نہ صرف ایک مستقل سائنسکو تخلیق‬
‫کیا بلکہ اس کی مختلف جزئیات اور تفصیلات پیش کر کے اسکو پایہ تکمیل تک بھی‬ ‫ارسطو ایک ایسا حقیقت پسند ‪ ،‬تجزیہ پسند اور منطقی ہے جو سیاسیاتکو صرف‬

‫پہنچایا۔ ارسطو کے نزدیک تفکر کا دار و مدار استدلال یا سائنسی ثبوت پر ہے ۔ اس‬ ‫مثالی ریاست تک محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ اس کے دائرہ کارکو وسیعکر کے ان‬

‫علم کے تمام نظام کی بنیاد دراصل چند بدیسی حقائق‬ ‫کے مطابق " سائنسی‬ ‫ریاستوں کا مطالعہ کرنا ضروری قرار دیتا ہے جو حقیقی وجود رکھتی ہیں ۔ اس کے خیال‬

‫‪ )Self‬پر ہے ‪ ،‬یہ چند بنیادی صداقتیں خود ہی اپنا ثبوت ہوتی ہیں‬ ‫(‪Evident‬‬ ‫میں علم سیاسیاتکو اچھی اور بڑی دونوں طرحکی ریاستوں پر حکومت کرنے کا فن‬

‫اورانکو ثابتکرنے کے لیے کسی ثبوتکی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ " اس کے‬ ‫سکھانا چاہیے ۔ اسی لیے وہ کسی بھی نظریہکو پیشکرنے سے قبل ہمعصرسیاسی اداروں‬

‫نزدیک ہر شے کا کوئی نہکوئی مقصد اور نصب العین ہے ۔‬ ‫کا بغور مشاہدہ کرتا اور مطالعہ کے لیے سائنسی اور منظم طریقہ سے مواد اکٹھا کرنے‬

‫ارسطو کا ذہنی رجحان افلاطون سے مختلف رہا ۔ ان دونوں کے نقطہ نظر اور‬ ‫کے بعد ایک نیا نظریہ دریافتکرتا تھا۔ اسی باعث اسے یونانی دنیا کی معلوماتکا‬

‫انداز فکر میں واضح فرق موجود ہے ۔ افلاطون علم کو تصوف ‪ ،‬روحانیت اور مابعد‬ ‫انسائیکلو پیڈیا مانا جاتا تھا ۔ اس نے اپنی کتاب سیاسیات لکھنے سے قبل ستاون مختلف‬

‫الطبعیات سمجھتا ہے جبکہ ارسطو نے نئے تجربوں اور نئی نئی معلومات کے ذریعے علمکو‬ ‫آئینوں کا مطالعہ کیا اور ان کی روشنی میں علم سیاسیات میں نئی راہیں متعینکیں ۔‬

‫فروغ دیتہاے ۔ افلاطون نے انسانی ضمیرکو جگایا جبکہ ارسطو انسانی دماغکو بیدارکرنے‬ ‫ارسطو نے اپنے دور کے معاشرتی ڈھانچے کے مروجہ خدوخال کے علاوہ‬

‫میں کامیاب رہا ۔ افلاطون نے اپنی تصانیف میں یونانی روحانی خیالاتکو یکجا کیا جبکہ‬ ‫مختلف شعبہ ہائے زندگی کو ان کے جملہ ادارت کے ساتھ جوں کا توں رکھ کر ایک‬
‫‪25‬‬ ‫‪24‬‬

‫حکومت ایک فطری اصول ہے ۔‬ ‫بغیر زندگی نہیں گزار سکتے ۔ جیسے حاکم اور محکوم‬ ‫ارسطو نے یونانی علومکو مرتبکرنے کے علاوہ علم کے موضوع متعین کیے اور آئندہ‬

‫حاکم غور و فکر اور حکم دینے کی اہمیت رکھتا ہے جبکہ محکوم میں جسمانی محنت و مشقت‬ ‫نسلوںکو ترقی کا راستہ دکھایا ۔ افلاطون سیاسی مینیت کا علم بردار تھا جبکہ ارسطو‬

‫کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ یہ اتحاد ایک فطری تقاضا ہے اور‬ ‫سیاسیات کا بانی اور ہر دور کا امام اور راہنما مانا جاتا ہے ۔ نظری سیاسیات میں اس کا‬

‫اس فطری تقاضا کے باعث مرد اور عورت کا وجود قائم ہوتا ہے ۔ جس سے خاندان‬ ‫کوئی ثانی نہیں ہے ۔ وہ پہلا سیاسی مفکر ہے جس نے جمہوریتکو بہترین طرز حکومت‬

‫بنتے ہیں ۔ چند خاندانوں کے اکٹھا ہو جانے پر گاؤں اور چند گاؤں متحد ہو کر سیاسی‬ ‫اور جمہورکی رائے کو بہتر رائے قرار دیا۔ اس کے اس نظریہ سے نظریہ تقسیم اخذ‬

‫کیا گیا اور مقننہ ۔ انتظامیہ اور عدلیہ کی آزادی کو ایک اچھی اور بہتر حکومت قرار ‪ ،‬تنظیم کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ جن کی بنیادی ضرور میں مملکت کے وجود کا باعث‬

‫بنتی ہیں ۔ اسمملکت کے آغاز و ارتقاء کا سلسلہ فطری اور اسکی بنیاد اخلاق پر ہوتی‬ ‫دیا گیا ۔ وہ انفرادی آزادیکو قانون کے تابع اور آزادی اور اقتدارکو لازم و ملزوم‬

‫ہے ۔ انسان کی اخلاقی نشوونما مملکت کے اندر ہی ممکن ہے اورمملکت کے وجود کو‬ ‫قرار دیتا ہے جو اس کے کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ وہ ایک سچا یونانی تھا‬

‫بسر کرنے کی خواہش ہی قائم و دائم رکھتی ہے ۔ مملکت انسانی‬ ‫اچھی زندگی‬ ‫صرف‬ ‫اور یونانیوںکو اعلیٰ اور مہذب ترین قوم سمجھتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے غیر‬

‫ضرورتوںکو پورا کرنے کے لیے قائم ہوتی ہے اور انسان اس میں اخلاقی معیارکے‬ ‫یونانی مملکتوں کے دستوروں پر قطعا " غور نہیں کیا ۔ ارسطو کے سیاسی فلسفے کی اہمیت‬

‫مطابق سماجی زندگی اپنے ارادے اور اعتبار سے بسرکرتے ہیں ۔ مملکتکی تشکیل و‬ ‫اس حقیقت سے اجاگر ہوتی ہے کہ آج تک دنیا میں ایسا کوئی مستند سیاسی نظریہ اور‬

‫تکمیل کے لیے وابستگی ‪ ،‬سیاسی تنظیم اور انصافکا ہونا لازمی ہے ۔“‬ ‫نظام موجود نہیں ہے جس میں اس کے سیاسی فلسفہ کا ذکرکسی نہ کسی شکل میں موجود‬

‫ارسطو کے خیال میں ”بادشاہت کا آغاز ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں ہوا جہاں‬ ‫نہ ہو ۔ اتیان کے مطابق سقراط نے بنی نوع انسانکو فلسفہ دیا اور ارسطو نے یہ فلسفہ‬

‫لائق اور قابل لوگوں کی کمی تھی ۔ ان لوگوں میں وہ شخص جو ذہنی صلاحیت رکھتا تھا‬ ‫سائنس کو دے دیا۔ ارسطو کے نزدیک معاشی وجوہات سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنتی‬

‫ان کا محسن تھا ان کا بادشاہ بن جاتا تھا۔ جب ان بستیوں میں یکساں قابلیت اور‬ ‫ہیں اور بالآخر انقلابات رونما ہوتے ہیں ۔ اس لیے مملکت کے لیے ضروری ہےکہ‬

‫صلاحیت کے لوگوںکی بہتات ہوئی تو انہوں نے ایک دستور کے تحت دستوری‬ ‫وہ اس مسلمہ حقیقت کے پیش نظرکسی فرد یا گروہکو دولت اکٹھا کرنے کا موقع نہ‬

‫حکومت قائم کی ۔ اس دستوری حکومت میں سیاسی اقتدار حاصلکرنے والوں نے‬ ‫دے ۔‬

‫جب خود کو دولتمندبنالیا توچند سری حکومت قائم ہوئی جس میں مفاد عامہ کو یکسر‬ ‫اچھی زندگی گزارنا ہے ۔‬ ‫ارسطو کی نظر میں مملکت کے قیام کا اصل مقصد‬

‫نظر اندازکر دیا گیا اور بالآخر یہ حکومت پہلے مطلق العنان بادشاہت اور پھر جمہوریت‬ ‫وہ کہتا ہے کہ انسان ایک سیاسی اور سماجی کیڑاہے ۔ فطری طور پر تنہا نہیں رہ سکتا‬

‫میں تبدیل ہو گئی ۔ " اس طرح وہ مملکتکو اعزازات اور عہدوںکی بنیادوں پر‬ ‫اسے معاشرے اور ریاست کی مدد کی ضرورت رہتی ہے ۔ ریاست کا وجود ایک‬

‫بعض ملکتیں تشکیلی بنیادوں پر اخلاقی مقاصد کی حامل‬ ‫تقسیم کرتے ہوئے کہتا ہےکہ‬ ‫قدرتی وجود ہے جو فرد کی انفرادی اور معاشرےکی اجتماعی ضروریاتکو پورا کرتی‬

‫مملکتوں کے مقاصد اخلاقی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ "‬


‫ہوتی ہیں اور بعض‬ ‫ہے۔ مملکت ایک قدرتی ادارہ ہے ۔ مملکت ایک مرکب ہے اور اس کے اجزاء کو‬

‫وہ اصولی اور معیاری بنیادوں کے تحمتملکتوںکی دو قسمیں بیان کرتاہے ۔‬ ‫تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ مملکت دراصل ان لوگوں کا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے کے‬
‫جماعت متوسط لوگوں سے جنم لیتی ہے اور وہی حکومپتائیدار اور مستحکم ہوتی ہے‬ ‫معیاری مملکت ( ‪ ) Normal State‬اسمملکت کے مقاصد اخلاقی ہوتے ہیں‬
‫اور یہی بہترین مملکت ہوتی ہے ۔‬
‫جس میں متوسط طبقہ کے افراد زیادہ ہوں لیکن ایسی حکومتیں بہتکم ہوتی ہیں ۔‬

‫جمہوریت میں وہ لوگ جو ایک لحاظ سے برابر ہوتے ہیں ہر لحاظ سے برابر نہیں‬ ‫‪ )Perverte‬اس مملکت میں مقاصد کی کوئی‬ ‫غیر میعاری مملکت ( ‪State‬‬ ‫‪-2‬‬
‫اہمیت نہیں ہوتی اور یہ بگڑی ہوئی مملکت ہوتی ہے ۔‬
‫ہوتے ۔ اس کے نزدیک دستوری حکومتکسی خاص قاعدے کی پابند نہیں ہوتی اور‬

‫سیاسی اصولوں کے مقابلے میں زیادہ مفید ہوتی ہے ۔‬ ‫ارسطو کے خیال میں جن مملکتوں میں حکمران طبقہ بے لوث خدمت کا جذبہ‬

‫ارسطو کے خیال میں قانون کی حکومت شخصی حکومت کے مقابلے میں بہتر‬ ‫رکھتا ہے اور عوامی فلاح و بہبود اور ایک نیک معاشرتی زندگی کا خواہاں ہو بہترین‬

‫ہے کیونکہ قانون پر خواہشکا اثر غالب نہیں آتا اور اسکی عملداری میں خدا اور‬ ‫مملکت کہلاتی ہے ۔ اس کے خیال میں ایک شخص کی اچھی حکومت بادشاہت ۔ ایک‬

‫عقلکو حاکم تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ مطلق العنان حکومت میں حیوانیت اور انسان کی‬ ‫شخص کی بری حکومت استبدادیت ‪ ،‬چند اشخاصکی اچھی حکومت اشرافیہ ‪ ،‬چند اشخاص‬

‫نفسانی خواہشات پروان چڑھتی ہیں ۔ اس کے خیال میں قانون دستور کے تابع ہو تا‬ ‫کی بُری حکومت چند سری بہت سے افراد کی اچھی حکومت آئینی حکومت اور بہت‬

‫ہے اور قانون کے ذریعے حکمرانوں کو ایسے طریقے بتانا مقصود ہوتے ہیں جن کے‬ ‫سے افراد کی بُری حکومت جمہوریتکہلاتی ہے ۔ اس کے خیال میں چند سری حکومت‬

‫ذریعے وہ اپنے حکم منوا سکیں اور قانون کے ذریعے ہی دستورکو کامیاببنایا جاسکتا‬ ‫دولت مندوں کی حکومت ہوتی ہے اور یہ لوگ نیک اور ارادے کے اعتبار سے‬

‫ہے ۔‬ ‫خود غرض ہوتے ہیں ۔ جمہوریت غریبوںکی حکومت ہوتی ہے اورغریبوں کی اکثریت‬

‫ارسطو کے نزدیک ہر وہ شخص جو مملکت کے قانونی اور انتظامی معاملات میں ‪.‬‬ ‫ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اس کے خیال میں اشرافیہ طرز‬
‫کے باعث مملکتی مقاصد کا حصول‬

‫ہے اسمملکت کا شہری ہوتا ہے ۔ قانونی انتظامی معاملات‬


‫شریک ہونے کا حق رکھتا‬ ‫حکومت میں القابات ‪ ،‬اعزازات ‪ ،‬عہدے اور مراعات اخلاقی اقدارکو مد نظررکھتے‬

‫اور دیگر شعبہ جات بشمول عدلیہ کے فرائضکی بجا آوری وہ خصوصی معیار ہے جس‬ ‫ہوئے دیئے جاتے ہیں ۔ چند سری حکومتوں میں یہ اعزازات دولتکی بنیاد پر اور‬

‫کی بنیاد پر ہی فرد شہری کہلوا سکتا ہے اس کے علاوہ پیدائش ماں باپ سے تعلق اور‬ ‫جمہوریت میں یہ اعزازاتپیدائشکی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں ۔‬

‫جائے پیدائش بھی شہریت کے لیے لازمی ہیں ۔‬ ‫ارسطو اپنے سیاسی فلسفہ میں بادشاہت جس میں مملکت کا بہترین شخص حکمران‬

‫ارسطو کے نزدیک مملکت کی بنیاد عدل ہے اور عدل کے وہ اصول جو مفاد‬ ‫ہوتا ہے ‪ ،‬اشرافیہ جس میں بہترین افراد کے طبقے کی حکومت ہوتی ہے اور دستوری‬

‫سوےر‬ ‫ااتئیہںے نا‬


‫جقسص ا‬ ‫ے بمنسائاےو ج‬
‫ئی‬ ‫کے قہسم‬
‫وک‬ ‫کرعدل ر‬
‫اکیھت‬ ‫اےس مفکاےدکون م‬
‫زددنیظ‬ ‫۔ک‬‫عماسمخہ کشیدہبجہاوئتےےحاہکیمںوں‬ ‫جمہوریت جس میں متوسط طبقے کا اقتدار زیادہ ہوتا ہے صحیح مانتا ہے جبکہ جابرانہ‬

‫مملکت میں توازن برقرار رہتا ہے ۔ اس کے نزدیکمملکت کا دستور عدل کے‬ ‫بادشاہت‪ ،‬چند امیروںکی چند سری حکومت اور جمہوریت مطلق کو حکومتکی بگڑی‬

‫ہوئی شکلیں قرار دیتاہے ۔ ارسطو نے جمہوریت اور اشرافیہ کی خوبیوں سے مزین‬

‫مخصوص تصور کا مظہر ہے اور ایک ایسا شفاف آئینہ ہوتا ہے جس میں شہریوںکی‬ ‫بهترین نظام حکومت دستوری جمہوریت کے نام سے پیش کیا جس میں اس نے عوام‬

‫نیت سیرت اخلاقی معیار اور عدل کا عکس نظرآتا ہے اور جبتک شہریوں کے‬ ‫کے فیصلے کو ماہرین کے فیصلے سے بہتر قرار دیا ہے ۔ اس کے خیال میں بہترین سیاسی‬
‫‪28 /‬‬
‫‪29‬‬

‫خیالات اور ارادوں میں تبدیلی واقع نہ ہو دستور میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ اس‬
‫آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ وہ دیئے گئے حقوق پر اکتفا نہیں کرتے اور زیادہ حقوق کے‬
‫کے خیال میں دستور میں خامیاں مثالی مملکت کی بگڑی ہوئی شکل ہیں ۔ وہ افلاطونکی‬
‫لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ بغاوت کے دوسرے اسبابکا ذکرکرتے ہوئے وہ حکمران‬
‫مثالی ریاستکو مد نظر رکھتا ہے لیکن ایسی مملکت بنانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ وہ‬
‫طبقہ کے لالچ ‪ ،‬شہریوں سے ناروا سلوک اور نا انصافی سیاست دانوں کے مالی مفادات‬
‫فلسفیوںکو خیالی دنیا کی بجائے عملی دنیا میں حالات و واقعات کے مطابقکام کرنے کی‬
‫اور بیوروکریسی کے راجکو مملکت کے زوالکی بڑی وجوہات قرار دیتاہے ۔ اس‬
‫تائید کرتا ہے ۔ اسکی نظر میں پائیدار اور مستحکم دستور وہی ہے جس میں شہریوں کے‬
‫کے نزدیک دستور میں بنیادی خامی یا نقص انقلاب برپا کرتا ہے ۔ ارسطو نے ایسے‬
‫سیاسی اختیارات کی تقسیم اور ہر طبقے کے احساسات اور مفاداتکا لحاظ رکھا گیا ہو۔‬
‫ان میں دستور کی مکمل‬ ‫انقلاب کی روک تھام کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں‬
‫ارسطو کے نزدیک مکمل انقلاب وہ کہلاتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے‬
‫پاسداری ‪ ،‬شہریوں اور محکوموں میں اطاعت کا جذبہ گروہ یا طبقے کے اقتدار میں‬
‫عمومی ‪ ،‬سماجی اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے کے علاوہ اس کے سیاسی اصولوں میں‬
‫اعتدال ‪ ،‬حاکموںکو سیاسی اقتدار سے مالی مفاد حاصلکرنے کی ممانعت‪ ،‬حکومتی آمد و‬
‫بھی تبدیلی لائے جبکہ نا مکمل انقلاب صرف ایک ہی شعبہکو تبدیل کرتا ہے ۔ خونی‬
‫‪ ،‬نا اہلوں کی سرکاری عہدوں پر تعیناتی پر پابندی اور سرکاری‬
‫خرچ کی تشہیر‬
‫انقلاب مکمل بھی ہو سکتا ہے اور نا مکمل بھی لیکن دونوں حالتوں میں خون خرابہ ہوتا‬
‫عہدیداروںکو دیر تک ایک ہی عہدہ پر فائز نہ رکھنا شامل ہیں ۔‬
‫ہے اور بہت سی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے نزدیک الیکشن یا اسمبلی کے اندر‬
‫ارسطو مملکتکی جانب سے نافذ قومی فطرت سے یکساں ایسے تعلیمی نظامکو جو‬
‫انقلابی تبدیلی آئینی انقلاب‪ ،‬مقتدر اعلیٰ کی تبدیلی شخصی انقلاب‪ ،‬سیاسی اصولوں اور‬
‫فطرت ‪ ،‬عادت اور عقل پر مبنی ہو درست قرار دیتا ہے ۔ اس نے ایتھنز میں رائج‬
‫ضابطوں کے علاوہ معاشرتی ڈھانچے کی ساخت میں تبدیلی غیر شخصی انقلاب‬
‫تعلیمی نصابکو برقرار رکھتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلا حصہ سات‬
‫بر سراقتدار طبقاتکی تبدیلی طبقاتی انقلاب اور ایسے انقلاب جن کا کوئی مقصد نہیں‬
‫برسکی عمر سے ابتدائی جوانی تک اور دوسرا حصہ اکیس برس تک ۔ وہ اسپارٹا کے‬
‫ہوتا بے مقصد انقلاب کہلاتے ہیں ۔ اس کے خیال میں عدم مساوات کا احساس‬
‫تعلیمی نظام کو جو مملکت کے ہاتھوں میں تھا اور غریبوں اور امیروں کے لیے یکساں تھا‬
‫معاشی ناہمواری سیاسی جانبداری ۔ متوسط طبقے کا نہ ہونا اور انتہا پسند نظریات‬
‫کو پسندکرنے کے باوجود صرف جسمانی ورزش کے ذریعے نشو و نما کے طریقہکو ناپسند‬
‫معاشرے کو غیر مستحکم اور انقلاب کی راہ ہموارکرتی ہے ۔ وہ انقلاب کا راستہ‬
‫کرتا تھا۔ وہ نہ تو ریاضی ‪ ،‬فلسفہ اور کلامکی تعلیم کو سیاسی اہمیت دیتا اور نہ ہی‬
‫زندگی موت اور خیر و شرکے مسکوں میں الجھتا ہے ۔ اس کے نزدیک تعلیم کا اصل‬ ‫مسدود کرنے کے لیے عدم مساوات ‪ ،‬سیاسی بدعنوانیوں کا خاتمہ ۔ معاشی مساوات کا‬

‫قیام نظام تعلیم اور معاشرتی نظام میں مطابقت اور متوسط طبقے کی موجودگی ضروری‬
‫مقصد سیرتکو اجاگر کرتا ہے ۔ وہ موسیقی کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہوئے فرصت‬
‫قرار دیتا ہے ۔‬
‫اور فراغت کے لمحاتکو لطف اور انبساط میںگزارنےکو قابل قدر سمجھتا ہے ۔ اس‬
‫ارسطو کے نزدیک ایسی مساوات جس کا مطلب مساوی حقوقکی تقسیم ہے کی‬
‫کے خیال میں اتحاد کا مطلب شہریوں میں مزاج ۔ نسل اور مذہب کے اختلافکا جذبہ‬
‫خواہش بغاوت کا سبب بنتی ہے ۔ جو کم ہوتے ہیں بغاوت کرکے دوسروں کے برابر‬
‫ہے جس کے بغیریکسانیت پیدا ہوتی ہے اور ترقی کی راہیں رکجاتی ہیں ۔‬
‫آنے کی کوششکرتے ہیں ‪ ،‬جو برابر ہوتے ہیں وہ بغاوت کے ذریعے دوسروں سے‬
‫ارسطو کے نزدیک انسانی زندگی کا بنیادی مقصد حصول مسرت ہے ۔ یہ مسرت‬
‫‪31‬‬ ‫‪30‬‬

‫بنایاجائے اور اسے علم‬


‫ذہانت کے مطابق مملکت کی اہم ذمہ داریوں کے قابل‬ ‫ےیے تعلیم کا ہوتہاے‬
‫فرد اور مملکت کے حدودکے تعین سے حاصل ہوتی ہے جس کل‬

‫الہیات ‪ ،‬منطق اورمابعد الطبیعیات کی تعلیم دی‬ ‫‪ ،‬حیاتیات ‪ ،‬نفسیات‪ ،‬فلسفہ‬


‫طبیعات‬ ‫ملکی مقاصدکی تکمیلممکن ہے وہاں انسان‬
‫حد ضروری ہے ۔ تعلیمکے ذریعے جہاں‬

‫ککوتعلیم پر عملکنٹرول رکھنا چاہیے تعلیمکی بیاد‬


‫جائے ۔ اس کےخیالمیں مل‬ ‫کی جسمانی اور ذہنی نشونماہوتی ہے۔ ارسطو کے خیال میں انسان جسم اور روح کیا‬
‫تحقیق پر ہونی چاہیے ۔ اس کے خیال میں نفسیات تعلیم کی بنیاد ہے اور تعلیم مملکتی‬
‫مقاصد کی تکمیلکا ذریعہ ہونا چاہیے۔ تعلیمکاحق صرف آزاد شہریوں کو حاصل ہو‬ ‫مجمہ ہے اور عقل انفعالی کا تعلق براہ راست انسانی جسم سے ہوتا ہے ۔ بچوںکی‬
‫مجمع‬
‫جسمانی نشوو نماکے ساتھ ساتھ اخلاقی نشوونما ضروری ہے اور اخلاقی نشوونما کے لیے‬

‫عورتوںکی تعلیم مردوں کے برابر نہیں ہونی چاہیے ۔ "‬ ‫موسیقی کی تعلیم لازمی ہے جو انسانی دماغ پر گہرے اثرات مرتبکرنے کے علاوہ‬

‫وہ افلاطون کے اشتمالی نظریے کے خلاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ "محافظوں اور‬ ‫اخلاق سازی اور تعمیر سیرت و کردار میں بہترین محرک ثابت ہوتی ہے ۔ عقل فعالی‬

‫کی کوئی قدر نہ ہوگی وہاں‬


‫سپاہیوں کی بیویاں نہ ہونے سے جہاں عفت و عصمت‬ ‫کے لیے سائنسی اور خالصفلسفے کی تعلیم ضروری ہوتی ہے اور بچوںکی نفسیاتکو‬
‫بدکاری اور بداخلاقی عام ہوگی اور محبت و الفت پیدا نہیں ہو سکے گی ۔ سماج میں‬
‫۔ اولاد اپنے باپکی فطری محبت سے‬ ‫اخلاقی بے راہ روی سے اخلاقی بگاڑ پیداہوگا‬ ‫‪ ،‬ریاضی ‪،‬‬
‫مد نظر رکھتے ہوئے انہیںمابعد الا طبعیات‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬طبعی تاریخ ‪ ،‬طبیعات‬

‫حیاتیات‪ ،‬علم نجوم ‪ ،‬منطق اور جمالیاتکی تعلیم دی جانی چاہیے ۔ اس کے خیال میں‬

‫محروم ہوگی اور اس کی نشوونما میں کمی واقع ہوگی انکی سیرت اور شخصیت نامکمل‬
‫تعلیم کے ذریعے نشو نما مملکتی مقاصد کی تکمیل اور حقیقت تک رسائی حاصلکی‬

‫رہے گی جس سے سماجکو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے ۔ "‬


‫جاسکتی ہے ۔ اس کے خیال میں حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وہ نصاب وضعکرتے‬

‫ارسطو ذاتی ملکیتکو بالکل ختم کرنے کی شدید مذمتکرتے ہوئےکہتا ہےکہ‬
‫وقت مقاصد ‪ ،‬اغراض ‪ ،‬ذہنی رجحانات ‪ ،‬طرز زندگی ‪ ،‬ضروریات اور معاشرہ جبکہ بچےکو‬

‫ذاتی ملکیت کے بغیر انسان کی فطری خواہشات ادھوری اور اس کی شخصیتکی‬ ‫تعلیم دینے کے لیے اس کی مختلف ذہنی حالتوں اورکیفیتوںکو مد نظررکھے ۔ وہ بچےکی‬

‫تحمیل نامکمل رہتی ہے ۔ ذاتی ملکیت سے امیر کو امیرتر اور غریبکو غریب تر ہونے‬
‫تعلیم کے لیے عمرکی مسلمین مقرر کرتے ہوئےکہتا ہے کہ "پانچ سے سات سال تک‬

‫کے امکان کو مملکت کی جانب سے دولتکی حد بندی قائم کر کے روکا جاسکتا ہے ۔ "‬
‫ابتدائی تعلیم سات سے چودہ سال تک پرائمری تعلیم ‪ ،‬چودہ سے اکیس سال تک‬

‫ارسطو کے زمانے میں مختلف ممالک میں غلاموں کی اکثریت تھی اور انہیں‬
‫ثانوی تعلیم اور اکیس سال کے بعد اعلیٰ تعلیم دی جانی چاہیے ۔ ابتدائی تعلیم میں‬

‫شہریت کا حق حاصل نہیں تھا۔ ہو مرنے اخلاقی بنیادوں پر غلام رکھنے کی مذمتکی ۔‬
‫کھیل‪ ،‬ورزش ہونی چاہیے ‪ ،‬پرائمری تعلیم میں بچے کی نفسیات اور میلانات کے‬

‫سولن نے غلام بنانے کے تمام طریقوں کو ظالمانہ قرار دیا لیکن اسے ختم کرنے کی‬
‫مطابق صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے اور اس کی جسمانی نشوو نما کے ساتھ ساتھ ریاضی‬

‫ضرورت محسوس نہ کی ۔ افلاطون نے غلامی کے نظام کو برقرار رکھا اور ارسطو بھی‬
‫اور موسیقی کے ذریعے ذہنی نشوونما کی جائے ۔ ثانوی تعلیم میں بچے کو ایسی تعلیم دی‬
‫‪.‬‬
‫غلامی کو مستقل سماجی عصر قرار دیتے ہوئے سماج کے لیے ضروری قرار دیتا ہے ۔ وہ‬
‫غلامی کو اخلاقی بنیاد پر جائز اور غلامی کے نظام کو فطری قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ‬ ‫جانی چاہیے جس سے اسکی جسمانی ‪ ،‬ذہنی اور اخلاقی نشوونما میں توازن پیدا ہو ‪ ،‬اس‬

‫عرصہ کے دوران اسے ریاضی ‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬علم نجوم ‪ ،‬قانون ‪ ،‬اخلاقیات‪ ،‬ادب‪ ،‬فن‬

‫ذہنی اعتبار سے سب انسان برابر نہیں ہوتے اور جو ذہنی اعتبار سے فائق اور بہترہو‬ ‫تقریر‪ ،‬فلسفہ اور سیاسیات کی تعلیم ضرور دی جائے ۔ اعلیٰ تعلیم میں اسے اس کی‬
‫‪33‬‬

‫وہ اپنے سے کم صلاحیتوں والے افراد پر حکومتکرسکتا ہے جبکہ جسمانی مشقت او‬
‫اختلافات اور انسانی نفسیاتکو مد نظر رکھ کر لوگوں کے طبعی میلانات کے مطابق تعلیم‬
‫دینے کے رواج‬
‫کی بنیاد ڈالی‬
‫۔ اس کے‬
‫نزدیتکعلیم نجی ہاتھوں کی بجائےمملکت کے‬ ‫محنت کے لیے وہی موزوں ہیں جو جسمانی اعتبار سے قوی ہوں گے ۔ اسکی نظریں‬
‫قدرت خود ہی بعض انسانوںکو غلام اور بعض کو آزاد شہری پیدا کرتی ہے اور غلار‬

‫پاس ہونی چاہیے ۔‬


‫اپنے آقاؤںکی خوبیوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ اس نے غلاموں کے لیے حقوق‬

‫ارسطو سے قبل یونانی افکار میں اخلاقیات کا علم تمام علوم پر محیط تھا لیکن‬ ‫متعین کرتے ہوئے کہا کہ‬
‫شہریوں کو چاہیے کہ وہ غلاموں سے اچھا برتاؤ کریں اور‬
‫ارسطو پہلا مفکر ہے جس نے اخلاقیاتکی اہمیتکو اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے دیگر‬
‫ان پر ظلم نہ کریں وہ صرف ان جنگی قیدیوںکو غلام بنائیں جو ذہنی اعتبار سے پستہ‬
‫علومکو الگ اور جداگانہ حیثیت دی ۔ اس نے ذاتی مشاہدات و تجرباتکی بنا پر نئے‬
‫ہوں۔ " اس کے نزدیک یونانی مہذب اور ذہین ترین قوم ہونے کے ناطے ورتی !‬

‫اور کارآمد تصورات پیش کیے جنہیں آج بھی معاشرتی اور سائنسی علومکی بنیاد سمجھتے‬
‫کر رہی ہے ۔‬ ‫ہوئے مغربی دنیا مکمل طور پر استفادہ‬ ‫فطری اعتبار سے غلام نہیں بن سکتا بلکہ اس کا غلام بن جانا محض اتفاقی یا حادثاتی‬

‫ہو سکتا ہے ۔ وہ غلاموں کے لڑکوںکو اور شکستخوردہ فوجیوںکو غلام بنانا پسند نہیں‬
‫ارسطو وہ پہلا سائنس دان ہے جس نے علم حیاتیاتکی بنیاد رکھی ۔ تاریخ‬
‫میں اس نے طبی سائنس خصوصا " حیاتیات پر بہت کچھ لکھا ۔ اس نے ہزاروں‬ ‫کرتا اور جنگوں کو اخلاقی لحاظ سے ناجائز قرار دیتا ہے لیکن وہ اپنے اس نظریہ میں‬

‫فطری غلامی اور آزادی کا صحیح معیار پیش نہیں کرسکا ۔‬

‫پودوں اور جانوروںکی گروہ بندی کی اور ان کی جنس اور دیگر نوع کا تعین کیا۔ ان‬
‫کی پیدائش اور عمر کے علاوہ انکی نشوونما کے ذرائع تلاش کیے ۔ بے شمار جانوروں‬ ‫ارسطو نے اپنے تصور انقلاب میں مکمل طور پر استقراری طریقہ مطالعہ‬

‫پر سرجری کے تجربات کر کے حیرت انگیز نتائج اخذ کئے ۔ اس نے رحم پر جنس کی‬ ‫استعمالکیا اور اس طریقہ مطالعہ کے ذریعے معروضی نتائج اخذ کئے جس کے باعث‬

‫حیرتانگیز طور پر نشاندہیکی ۔‬ ‫اسے میکادیلی کا پیش رو کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکا تصور‬

‫انقلاب نہ صرف مختلف منطقی تضادات سے پاک ہے بلکہ ہر دور میں انقلابیوں کے‬
‫ارسطو بابائے نفسیات بھی ہے اس نے انسانی دماغ اور جسمکی نشوو نما پر توجہ‬
‫دی ۔ ارسطو پہلا فلسفی ہے جس نے انسانی دماغ کی دو صورتیں بتائیں اولکسی چیزکو‬ ‫لیے مشعل راہ ہے ۔ اور اس کے تصور انقلاب پر آج تککسی نے تنقید نہیں کی‬

‫ہے ۔‬

‫دیکھنا دوم اس پر سوچنا ۔ اس بنا پر اس نے والدین کو تلقین کی کہ وہ بچے کے سامنے‬


‫ایسے اعمال و افعال پر عمل پیرا ہوں جو اخلاقی نقطہ نظر سے درست ہوں ۔ ارسطو کے‬ ‫ارسطو اپنے دور کا اس لحاظ سے بھی منفرد فلسفی ہے کہ اس نے عمد یونان‬

‫میں پہلی دفعہ تعلیمی اور سیاسی نظریاتکو بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرکے‬
‫اس اصولکو آج بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی کہ اس کے زمانے میں تھی ۔‬
‫سماجی علوم کی ترویج میںکئی نئے اضافے کئے ۔ اس نے عملی خیالاتکو ترجیح دی اور‬
‫ارسطو کے نزدیک علم سائنس نظریاتی ‪ ،‬سیاسی اور علمی سائنسوںپر مشتمل ہے‬
‫نظریاتی سائنس جس میں ریاضی ‪ ،‬طبیعیات اور مابعد الطبیعیات شامل ہیں ایسی چیز پر‬ ‫تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے‬ ‫سیاسیات اور تعلیم کو یکجا کرتے ہوئے کہا کہ‬

‫بحثکرتی ہے جن میں ترمیم کرنا انسانی بس سے باہر ہے ۔ یہ انسان کو ابدی اور‬ ‫ذریعے افراد اور مملکت کے حقوق و فرائض اور اختیارات کے دائرہ کارکا تعین‬

‫مستقل حقائق کے قریب تر لاتی ہے اور یہی سچ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے ۔ سیاسی‬ ‫ممکن ہے ۔ " اس نے تحقیق اور علم کی بنیاد اپنے ذاتی مشاہدہ پر رکھی بلکہ انفرادی‬
‫‪34‬‬

‫‪35‬‬ ‫سائنس کا تعلق شاعری ‪ ،‬علم ادویات اور علم زبان سے ہے جبکہ کی عملی سائنس تغیر‬

‫پذیر چیزوں سے متعلق ہے ۔‬

‫کاٹن کے مطابق کنفیوشس کے بعد ارسطو ہی عقل سلیم اور اعتدال کا سچا‬

‫پیروکار ہے ۔ اس نے علم سیاسیات کے طریقہ کار میں نہ صرف ایک نئے رجحانکا‬

‫اضافہ کیا ‪ ،‬بلکہ اعتدال و توازن بھی پیدا کیا ۔ مارکس کے مطابق ارسطو مثالی ریاست‬

‫کے تصورکو چھوڑ کر عملی سیاستکی طرف راغب ہوا جس کی بنیاد تجریدی طریقہ پر‬

‫ہے ۔ ارسطو نے نیا فلسفہ تخلیق کرنے کی بجائے مروجہ علمکو مرتب کیا اور تاریخکو‬
‫ارسطوکی تالیفات وتصنیفات‬
‫اپنے مطالعہ کے بنیادی اصولوں کا ایک حصہ قرار دیا ۔ بارکز کے مطابق ارسطو کی‬

‫استقراری عادت فطری طور پر تاریخی رجحان‪ ،‬روایت کا احترام اور رائے عامہ کے‬

‫فیصلےکو بے جھجک تسلیم کرنے سے منسلک ہے ۔‬


‫ارسطو صحیح معنوں میں ایک ہمہ گیر شخصیتکا مالک تھا ۔ وہ فقط عالم ہی نہیں‬

‫بلکہ اعلی درجے کے مشاہدات کرنے والا اور نہایت وسیع پیمانے پر فطرت کا علم‬ ‫ارسطو کا انداز تحریر استقراری‪ ،‬تجرباتی اور جدلیاتی ہے وہ خیالاتکی تہہ‬

‫رکھنے والا تھا ۔ اس نے ماقبل فلسفہ کا گہرا مطالعہکیا اور ہر قسم کی تحقیقاتکیں ۔ اسی‬ ‫تک پہنچنے کے لیے منطق سے رسائی حاصل کرتا ہے ۔ اس کے مباحث تاری خیت‬

‫لیے اسکی ساری تصانیف ذہن انسانی کے لیے آج بھی بنیادی اہمیتکی حامل ہیں ۔‬ ‫اور مشاہدات پر مبنی اور انتہائی واضح ہیں اس نے سیاسیاتکو اخلاقیات سے الگ‬

‫ارسطو کا کمال یہ ہےکہ اس نے سائنس ‪ ،‬فلسفہ و منطقکی ایسی اصطلاحات وضعکیں‬ ‫کر کے ایکخود مختار سائنس کا درجہ دیا ۔ اس کی تحریروں میں اگرچہ افلاطون جیسی‬

‫جو نہ صرف موجودہ دور میں بھی معتبر سمجھی جاتی ہیں بلکہ آج بھی فلسفی اور سائنس‬ ‫ادبی چاشنی موجود نہیں ہے لیکن سائنسی حقائق اس قدر ہیں کہ اسکی تحریر زیادہ‬

‫دان انہی اصطلاحات کی مدد سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس نے اپنی‬ ‫اہمیت اختیار کر جاتی ہے ۔ اس کے خیال میں حواس خمسہ سے محسوس ہونے والا‬

‫جہاں ہی اصل حقائقکا جہاں ہے ۔‬


‫تصنیفات میں اخلاقی مسائل اخلاقیات‪ ،‬سماجی و سیاسی سوالات اور فن و خطابتکی‬

‫‪:‬‬ ‫مہارت پر روشنی ڈالی ۔ اس کی تصنیفات صدیوں سے مغرب و مشرق میں فلسفیانہ‬ ‫آئے ارسطو کی ان تالیفات و تصنیفات کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں ‪ ،‬جو اس وقت‬

‫فکر کے ارتقا کا تعینکر رہی ہیں ۔ ارسطو نے اپنی تصنیفات میں تفکرکی صورتوں کے‬ ‫بھی سائنس ‪ ،‬فلسفہ اور منطق میں مشعل راہ ہیں ۔‬

‫علم کا مفصل نظام مرتب کیا اور فطرت سے متعلق اسکی تحریریں سائنس کے ارتقا‬

‫میں سنگ میلکی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ارسطو نے اپنی تصانیف میں یونان کے سیاسی و‬

‫معاشرتی نظام کی تشکیل نو کے لیے نئے نئے نظریات قائم کئے اور ان نظریات کی‬

‫بنیاد فطری اصولوں پر رکھی ۔ اس کا دبستان فلسفہ آج بھی موثر ترین نظام مانا جاتا‬

‫ہے ۔‬
‫‪37‬‬
‫‪36‬‬
‫کے نذر ہوا لیکن ارسطوکو جن دو تصانیف نے بام عروج تک پہنچایا وہ اخلاقیات‬

‫( ‪ ) Ethics‬اور سیاسیات (‪ )Politics‬ہیں ۔‬ ‫سکندرکی موت کے بعد ارسطوکو اچانک ایتھنزچھوڑنا پڑا جس کے باعث اس‬

‫سٹرا بو اور پوٹارک نے تھیو فراسٹس جو ارسطو کے بعد اکیڈیمی کا سربراہ بنا اور‬ ‫کی بہت ساری تصنیفات اس کی اکیڈیمی میں رہگئیں اور جو ادھورے مسودات وہ‬

‫پچاسی سالکی عمر میں ‪ 286‬ق م میں فوت ہوا کے حوالہ سے لکھا ہے کہ تھیو‬ ‫اسے مہلت نہ دی ۔‬ ‫لے گیا تھا موت نے انہیں بھی مکمل کرنے کی‬ ‫ساتھ‬

‫فیلیوس کے مقام پر ایک تہہ خانہ‬


‫فرائس کے وفات پر اسکی اور ارسطو کی تصانیف‬ ‫اندرو نیکوس ( ‪ 60-50‬ق م ) اور ہرمپوس اسکند روی (‪ 200‬ق م ) کے حوالہ سے‬

‫میں چھپا دیگئی تھیں ۔ بعد ازاں سلا کے زمانے میں اپلیکون نے انکو دریافتکیا‬ ‫کچھ پرانے مورخین کا خیال ہے کہ ارسطو نے چار سو کے قریبکتابیں تحریر کی‬

‫اور روما لے گیا جہاں ٹارائیو اور اندرونیکوس نے انہیں دوبارہ شائعکیا اور ارسطو‬ ‫تھیں اور جو اس وقتکتابیں موجود ہیں وہ ان کا ایک جزو ہے ۔کچھ کا خیال ہے کہ‬

‫کی تمامکتابیں اندرونیکوس کے دور تک زیر استعمال رہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ‬ ‫در حقیقت یہ چار سو ابواب تھے جنہیں کتابیں خیالکیا گیا ہے ۔ بطلیموس جو غالبا پہلی‬

‫ارسطوکی کتبکو مجموعہ کی شکل دینے اور دوبارہ اشاعت کے وقت کچھ اضافہ کیا گیا‬ ‫یا دوسری صدی کا مشائی تھا کے مطابق ارسطو کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار کے‬

‫ہے جیسا کہ طبیعیات کے آٹھ حصوں میں سے ساتواں حصہ اگرچہ ارسطو کے خاکے‬ ‫قریب ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ارسطو نے سب سے پہلے منطق ( ‪ ) Logic‬پھر‬

‫سے تیارکردہ ہے لیکن یہ بعد میں اضافہ شدہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس طرح حیاتیات پر‬ ‫بالترتیب مادی سائنس یعنی طبیعیات‪ ،‬اخلاقیات اور سیاسیات پر اظہار خیالکیا اور‬

‫جامع رسالے "حیواناتکا حال " دس کتابوں میں ہے جن میں ایک بھی اصلی معلوم‬ ‫سب سے آخر میں مابعد الطبیعیات پر لکھا جو مکمل نہ ہوسکا ۔ اسکی مابعد الطبیعیات پر‬

‫نہیں ہوتی ۔ نباتات پر لکھی گئی کتاب بھی اصلی نہیں ہے ۔ مابعد الطبیعیاتکا مجموعہ‬ ‫لکھی گئی کتاب ‪ Meta Physics‬ادھوری شکل میں موجود ہے ۔‬

‫ارسطوکی وفات کے بعد مدون ہوا اور اس میں وہ تمام تحریر میں یکجاکر دیگئیں جنکو‬ ‫ارسطوکی منطق پر لکھی گئی کتابیں باز مینی عہد میں یکجا کی گئیں اور اس‬

‫فلسفہ اولین "کا نام دے رکھا تھا ۔ اندرونیکوس کے مجموعے میں یہ حصہ‬ ‫ارسطو نے‬ ‫مجموعے کا نام ‪ Organon‬رکھا گیا ۔ اس مجموعہ کے حصوں میں مقولات‬

‫طبیعیات کے بعد رکھا گیا اور اسی باعث اس کا نام مابعد الطبیعیات رکھا گیا۔ اس میں‬ ‫‪ )On‬اولی اور آخری تجلیات‬ ‫‪Inter‬‬ ‫( ‪ ،) Categories‬تعبیر ( ‪Pretation‬‬

‫بھی دوسرا اور گیارہواں حصہ اضافہ شدہ معلوم ہوتا ہے ۔ اخلاقیات پر اسکی‬ ‫‪ ) Prior And‬اور موضوعات (‪ ) Topics‬آج بھی‬ ‫( ‪Posterior Analytic‬‬

‫‪ Nicomawchean‬دس حصوں اور سیاسیات ( ‪)Politics‬‬ ‫تصنیف ‪Ethics‬‬ ‫بڑی اہمیت کے حامل ہیں جو مدرسی فلسفہ سائنسی اصلاحات کے متعین کرنے‬

‫آٹھ حصوں پر مشتمل ہے ۔ اخلاقیات پر یو ڈیموسکی نظرثانی ہے ۔ اس میں سے‬ ‫استدلالی طریقے دریافت کرنے اور ذہنی پختگی حاصل کرنے کی بنیاد تسلیم کئے جاتے‬

‫صرف پہلا تیسرا اور چھٹا حصہ محفوظ ہے ۔ حسنات اور سکیاتپر لکھا گیا چھوٹارسالہ‬ ‫ہیں ۔ ان تصانیف کے علاوہ ارسطو نے طبعیات پر آٹھ ‪ ،‬موسمیات پر چار علم بیت‬

‫بعد کے زمانہ انتخابیت کا ہے ۔ علم الاقتصاد کا پہلا حصہ جس کو فلوڈیموس اور‬ ‫پر چار ابتدا و انتہا پر دو حیوانوں کے اعضا پر چار جانوروں کے ارتقا اور انکی ابتدا‬

‫تھیو فرائٹس کی جانب منسوبکیا گیا ہے یقیناً ارسطوکا نہیں ہے اور دوسرا حصہ بہت‬ ‫ر پانچ پانچ روح پر چند نکو میش اخلاقیات ( ‪ ) Nichomavchean Ethics‬پر‬

‫بعد کا ہے ۔ خطابت پر لکھی گئی تین کتابوں میں سے تیسری کتاب ارسطوکی معلوم‬ ‫دس ‪ ،‬سیاسیات پر آٹھ ‪ ،‬فصاحت و بلاغت ( ‪ )Rhetorics‬پر تین اور فن شاعری پر‬

‫تینکتابیں تحریر کیں ۔ ان کے علاوہ اس کا بہت زیادہ تحقیقی اور تخلیقی کام تباہی زمانہ‬
‫‪39‬‬
‫نہیں ہوتی ۔ ‪ Poetics‬شاعری پر ہے جو موجودہ شکل میں ارسطو کی تصنیف کا ایک‬

‫ہوئے ۔ ‪ 1215‬ء میں پیرس میں پاپائے روم کے نمائندے نے ارسطوکی تصانیف پر‬ ‫جزو ہے ۔‬

‫لیکچردینا منع کر دیا ۔ ‪ 1231‬ء میں گری گوری نہم نے ان تصانیف کی تہذیب و تنقیع‬
‫ارسطو کے نزدیک خطابت ( ‪ )Rhetoric‬کا مقام عملی شاعرانہ علوم کے بین‬

‫کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم تشکیل دی ۔ ‪ 1235‬ء میں انکتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ‬ ‫بین ہے ۔ وہ خطابت کو ایک فن لطیف کے ساتھ ساتھ منطق ‪ ،‬سیاسیات اور‬

‫ہوا ۔ ‪ 1360‬ء میں ہر عیسائی مدرسے میں ان تصانیف کی تعلیم لازمی قرار دی گئی اور‬ ‫اخلاقیات کا جزو بھی سمجھتا ہے ۔ ارسطو نے کتاب خطابت میں پہلا اور دوسرا حصہ‬

‫مذہبی جماعتیں ان لوگوں کو سزا کا مستوجب قرار دیتی تھیں جو ارسطو کے خیالات‬ ‫صرف نظریہ دلیل خطابی کے لیے وقفکر رکھا ہے ۔ ارسطو نے فنون لطیفہ میں سے‬
‫سے اختلاف رکھتے تھے ۔‬
‫فقط شاعری پر الگکتاب لکھی ہے لیکن اسکتاب میں بھی تصور جمالکی غیر معین‬

‫ارسطو کا پہلا امتیاز یہ ہےکہ اس نے متقدمینکی مدد کے بغیر ایک نئے علم‬
‫صورت پائی جاتی ہے ۔ ارسطو کے نزدیک فن لطیف اشیاء کی باطنی فطرت کی نقل‬
‫منطقکو مدون کیا جوکہ ہر علم کا اسلوب ہے ۔ اس علم سے انسان صحیح فکر کرنے کا‬
‫ہے اور یہ فن واقعاتکو مائیت اشیاء کے مطابق بیان کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں‬
‫فن اور اسلوب سیکھتا ہے اور سنجیدہ مباحث میں ہر اہم اصطلاحکو بڑی سختی سے پرکھا‬
‫صور فن قوانین کلیہ کے نمونے ہوتے ہیں اس کے نزدیک شاعری بہ نسبت تاریخ‬
‫اور جانچا جاتا ہے ۔ ارسطو نے علم منطق کے تین قوانین پیش کئے جو آج بھی‬
‫کے زیادہ شریف فن ہے جسے وہ فلسفے سے قریب تر سمجھتا ہے ۔‬
‫معروف ہیں ۔‬
‫الف ہے ۔‬ ‫‪ -1-‬اصول عینیت ۔۔۔ الف‬ ‫ارسطو کے نزدیک موسیقی سے لذت اندوزی ‪ ،‬تربیت اخلاق ‪ ،‬تفریح اور‬

‫تزکیہ جذبات جیسے چار کام لیے جاسکتے ہیں ۔ یہ فن لطیف تاثراتکو ایک معین‬
‫اصول غیرمتناقص ۔۔۔کوئی چیز بھی بیک وقت الف اور غیر الف نہیں‬ ‫‪-2‬‬
‫ہو سکتی ۔‬ ‫قانون کے تحت لاتا ہے اور اس وقت انسان اس حقیقتکو محسوسکرتا ہے جو ہر‬

‫انسان میں مشترکہے ۔‬

‫اصول امتناع اوسط ‪ ---‬ہر شے آیا الف ہے یا غیر الف۔‬ ‫‪-3‬‬


‫ارسطو کے نزدیک دینیات ایک تجریدی توحید ہے جس کے نظام کائنات میں‬
‫ارسطو کہتا ہے کہ کلیات اور منفردات دونوں حقیقت میں وجود رکھتے ہیں ۔‬
‫ایک کلیہ محض ایک خصوصیت ہے جو متعدد مثالوں میں مشترک ہے ۔ ان‬ ‫کوئی مداخلت نہیں کرتا ۔ فطرت ایک الہی چیز ہے اور حصول مقاصد کی ایک تنظیم‬

‫ہے ۔ منفرداتکے‬
‫خصوصیات کا تصور ہمیں منفردات سے تجرید کی بنا پر دستیاب ہوتا‬ ‫ہے ۔ روح انسانی الہی ہے ۔ خدا عالم ربط و نظم اور اسکی حرکت کا مصدر ہے ۔ وہ‬

‫برصرف اس حد تک صحیح سمجھتا تھا کہ وہ ایک خدا پر عقیدہ رکھتی‬


‫اپنی قوم کے مذہ پ‬
‫بغیر کلیات اور کلیات کے بغیر منفردات ممکن نہیں ۔ دونوں منطقی طور پر ایک‬
‫ہے اور انجم و افلاککی الٹی فطرتکی قائل ہے ۔‬
‫دوسرے پر منحصر ہیں ۔ ایک کلیہ ہر ایک منفرد میں بالکل عین ہوتا ہے ۔ کلیات اشیاء‬
‫کے عالم خارجی میں ہوتے ہیں لیکن ان کا وجود معروضی طور پر خصوصیاتکی طرح‬ ‫ارسطو کی تصانیف کا سریانی زبان میں ترجمہ پانچویں صدی عیسوی میں‬

‫موجود ہوتا ہے ۔ ایک کلیہ ایک ایسی خصوصیات ہے جو عینیت کے ساتھ تمام‬ ‫سطوری عیسائیوں نےکیا ۔ اس کی منطق پر لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ ہو تھیوس (‪525‬‬
‫)‬

‫منفردات میں موجود ہوتی ہے اور اپنی مثالوں سے الگاس کا وجود نہیں ہو تا‬
‫۔‬ ‫‪ 570‬عیسوی ) نے کیا ۔ تیرھویں صدی عیسوی میں انکتابوں کے عربی تراجم‬
‫‪41‬‬ ‫‪40‬‬

‫مسلمات کے درمیان لاقتناعی واسطوں کا سلسلہ ہو تو ایسے میں ثبوت کا حصول ممکن‬ ‫ارسطو نے سقراط اور افلاطون کے قائمکردہ نظریاتکو بنیاد بناتے ہوئے علم‬

‫نہیں رہتا ۔‬ ‫منطق کی عمارت تعمیرکی اور اس کا نام ‪ Analytic‬رکھا ۔ وہ اس علم منطقکو فن‬

‫ارسطو کے نزدیک بالواسطہ علم کے لیے بلاواسطہ علم مقدم ہے ۔بلاواسطہ علم‬ ‫تحقیق کی تمہید اور حکمی اسلوبیات ( ‪ ) Methodology‬قرار دیتاہے ۔ اس کے‬

‫کی دو قسمیں ہیں عام ترین اصول جن کی بنا پر استدلالکیا جاتا ہے اور وہ امور واقعہ‬ ‫نزدیک جزکو کل سے اور معمولکو اس کے علل سے اخذ کرنا دراصل حکمت ہے ۔‬

‫جن پر ان اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔ واقعات براہ راست ادراک سے حاصل ہوتے‬ ‫انسان کی زندگی میں علم کا حصول معکوس سمت سے شروع ہوتا ہے ۔ روح اپنی‬

‫ہیں اور عقلکو وجدانی طور پر برائے راست عام ترین اصولوںکا علم ہے ۔‬ ‫فطرت عاقلہ میں تمام علم کا امکان رکھتی ہے اور یہ علم اسے بتدریج حاصل ہوتا‬

‫ارسطو کے نزدیک قانون اجتماع نقیضین فکر کا سب سے اعلی اور سب سے‬ ‫ہے ۔ یقینی علم کے حصول کے لیے ہمیں انفرادی مشاہدات سے کلی تجربات کی تجرید‬

‫زیادہ یقینی اصول ہے اور وہ اس اصول کے منطقی اور مابعد الطبیعاتی استحکام کے لیے‬ ‫کرنی پڑتی ہے اور حافظے کی مدد سے ادراک سے تجربے اور تجربے سے علم کی‬

‫تصورات کے تعین یا انکی تعریف‬ ‫استقراءکو ضروری قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ‬ ‫طرف بڑھتے ہیں ۔ حواس ہمیں دھوکا نہیں دیتے بلکہ تمام تر غلطیاں انکی شہادت‬

‫کا مدار کچھ ثبوت پر اور کچھ برائے راست علم پر ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ‬ ‫کی غلط تاویل سے پیدا ہوتی ہیں ۔‬

‫اسکو استقرا سے تقویت حاصل ہو ۔ اگر تمام تصورات میں کلیت اور عمومیت‬ ‫ارسطو منطق کے ذریعے قیاس استخرابی کے بعد ثبوت کے ساتھ استقرا سے‬

‫موجود ہو تو محدود معنوں میں وہ تصور جس کی تعریفکی جاتی ہے اشیاء کے جو ہرکو‬ ‫بحثکرتا ہے ۔ ارسطو سب سے پہلا شخص ہے جس نے یہ دریافتکیاکہ سو جلزم ہی‬

‫ظاہرکرتا ہے اور اگر اس قسم کا تصور اس مشترک عصرکو ظاہرکر دے جو مختلف‬ ‫وہ اساسی سانچہ ہے جس کے اندر ہر قسم کا فکر ڈھلتا ہے ۔ قیاس استخراجی یا سو جلام‬

‫انواعکی چیزوں میں بالا شراکپایا جاتا ہے تو وہ تصور جنسی کہلاتا ہے ۔ جب انواع‬ ‫کی تعریفکرتے ہوئے ارسطو کہتا ہے کہ "یہ ایک بیان ہے جس میں بعض مقدمات‬

‫میں تقسیم ناممکن ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم آخری نوعی تصور پر پہنچ چکے‬ ‫کی بنیاد پر ایک نیا مقدمہ بطور نتیجہ حاصل ہوتا ہے اور تصدیق دو تصورات پر مشتمل‬

‫ہیں ۔‬
‫ہوتی ہے جن میں سے ایک موضوع ہوتا ہے اور دوسرا محمول ۔ تصدیقکی تقسیم‬

‫ارسطو تصورکی تعریف میں ایسے صفاتکی موجودگی ضروری قرار دیتاہے جن‬ ‫کیفیت کے لحاظ سے مثبت اور منفی جبکہ کمیت کے لحاظ سے کلی جزئی اور غیر معین کی‬

‫کی وجہ سے مکمل اور صحیح طور پر نوعکو جنس سے اخذ کیا جاسکے اور عام سے خاص‬
‫جاسکتی ہے ۔ مخالف تناقض اور تضاد پر مشتمل ہوتا ہے ۔ صحیح اور غلط کا دار و مدار‬

‫کی جانب ایک تدریجی سلسلہ قائم ہو سکے ۔ اس کے خیال میں جو کچھ جنسی تصور میں‬ ‫تصورات کی ترکیب اور اجتماع پر ہوتا ہے ۔ ثبوت قیاسیاتکی ترکیب سے حاصل‬

‫پایا جاتا ہے وہ تمام نوع میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے ۔‬ ‫ہوتا ہے اور تمام قسم کے ثبوت کا مقصد موجہکو وجہ سے اخذ کرتا ہے ۔ ثبوتکے‬

‫ارسطو کے نزدیک جب ایک ہی جنس کے اندر دو چیزیں ایک دوسری سے‬ ‫لیے حاصلکردہ مقدمات میں لزوم اور کلیات ضروری ہیں ۔ ایک مکمل ثبوت یا‬

‫بعید ترین ہوں تو وہ متضاد کہلاتی ہیں اور جب ایک تصور دوسرے تصورکی مطلق نفی‬
‫مکمل علم کے حصول کے لیے مختلف واسطوں سے نتیجے کو اعلی ترین مقدمات یا‬

‫ہو تو انہیں تناقص کہا جاتا ہے ۔ ہر قسم کے تصورات اور ہر قسم کے اشیاء کی نسبت‬
‫مسلمات سے اخذ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اگر مقدمات خود مشتق ہوں یا نتیجے اور‬
‫‪42‬‬
‫‪43‬‬

‫ملنے سے نئی قسم کا مادہ پیدا ہوتا ہے ۔ فطرت کا عمل ہر جگہ فقط طبیعی ہی نہیں بلکہ فی‬ ‫جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ دس باتوں میں سے ایک نہ ایک کے تحت ضرور آتا ہے وہ‬

‫الحقیقت سامى الى المقصد یعنی غائی ہے ۔ فطرتکوئی کام بغیر مقصد کے نہیں کرتی وہ‬ ‫ان دس باتوں کو مقولات عشرہ کا نام دیتا ہے ۔ وہ دس باتیں جو ہر کمیت کیفیت‬

‫همیشه بهترین نتیجہ پیدا کرنا چاہتی ہے وہ ہمیشہ جمیل ترین صورت جو ممکن ہو سکتی ہے‬ ‫اضافت این متی ‪ ،‬مقام ‪ ،‬قبضہ ‪ ،‬فعلیت اور انفصال ہیں ۔ ارسطو کے نزدیک یہ تنظیم‬

‫بناتی ہے ۔ فطرت کے اندرکوئی چیز بے صرف یا ناقص نہیں اس کے ادنیٰ سے ادنیٰ‬ ‫کامل ہے اور پہلے چار مقولات اہم ترین ہیں ۔ جو ہر سب سے زیادہ اساسی ہے اور‬

‫کاموں میں بھی کچھ نہ کچھ الٹی راز ہوتا ہے ۔ ادنیٰ اور اعلیٰ سب چیزوں میں ایک‬ ‫اس کی نسبت سے باقی تمام مشتق اور ثانوی ہیں ۔ مابعد الطبیعیات کا خاص موضوع‬

‫حیرت انگیز نظام پایا جاتاہے ۔ تمام کائنات میں حصول مقصد کے لیے ایک سعی اور‬ ‫یہی مقولات ہیں ۔‬

‫میلان پایا جاتا ہے اور اس قدر انتظام اور باقاعدگی محضاتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی ۔‬ ‫ارسطو کے نزدیک حرکت ہر ایک قسم کا تغیر اور ہر امکان کا یحقق ہے ۔‬

‫ارسطو کے نزدیک صورت و مادہکی قدامت اور حرکت کے بے آغاز و انجام‬ ‫حرکتکی چار قسمیں ہیں ۔‬

‫ہونے سے یہ لازم آتا ہےکہ عالم قدیم ہے ۔ یہ مفروضہ کہ عالمکسی ایک وقت میں‬ ‫حرکت جو ہری یاکون و فساد‬ ‫‪1‬‬

‫آغاز ہوا تھا لیکن ہمیشہ تک قائم رہے گا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہکون و فساد دونوں‬ ‫حرکت کمیتی یا اضافہ اورکمی‬ ‫‪-2‬‬

‫ہا ہم وابستہ ہیں اور ناقابل فنافقط وہی موجود ہو سکتا ہے جس کی نہ تکوین ہوئی ہو اور‬ ‫حرکتکیفیتی تبدیلی یا ایکمادےکا دوسرے مادے میں تبدل‬ ‫‪-3‬‬

‫نہ اس میں فساد ممکن ہو ۔ ارضی عالم میں بھی فقط انفرادی اشیاء پیدا اور فنا ہوتی ہیں‬ ‫حرکت مکانی‬ ‫‪4‬‬

‫لیکن اجناس و انواع کا کسی ایک خاص وقت میں آغاز نہیں ہوا اس لیے انسان بھی‬ ‫تغیرکی دیگر تمام قسمیں حرکت مکانی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اعداد میں لا محددو‬

‫دنیا میں ہمیشہ سے ہیں ۔‬ ‫اضافہ اور اجمام کی لامتناہی تقسیم پذیری محض بالقواے اور امکانی ہے ۔ فی الحقیقت‬

‫ارسطو کے نزدیک عالم دو حصوں میں منقسم ہے عالم فوق ‪ ،‬عالم تحت القمریا‬ ‫اس کا وجود نہیں ہو سکتا ۔ جسم محیط کے باہرکی حد ہے اور وقت ما قبل اور مابعدکی‬

‫عالم ارضی اور عالم فلکی ۔ اس کے نزدیک اس امرکی شہادت موجود ہےکہ ستاروں‬ ‫جانب حرکت کا شمار ہے ۔ عالم کے باہر نہ زماں ہے اور نہ مکان خلا ناقابل فہم ہے‬

‫کا مادہ ہماری ارضی اشیاء کے متغیر اور فنا پذیر مادے سے الگ قسم کا ہے ۔ ستارے‬ ‫اور وقت کے لیے بھی شمارکنند و نفس کا ہونا مقدم ہے ۔ حرکت فی المکاں اور خصوصاً‬

‫ایتھرکے بنے ہوئے ہیں وہ ایک ایسا مادہ ہے جس کی کوئی ضد نہیں سوائے نقل مکان‬ ‫حرکت دوری ایسی یکساں اور مسلسل حرکت ہے جس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ‬

‫کے اس میں اور کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی اور دوری حرکت کے سوا اس میں‬
‫انجام ۔ مادے میں کیفی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ مادے میں کیفی تغیر بھی ہو سکتاہے‬

‫کوئی اور حرکت نہیں ہوسکتی ۔ عالم ارضی کی اشیاء چار عناصر سے بنی ہوئی ہیں جن‬
‫اور عناصر ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ اس تغیر میں ایک عصرکے صفات‬

‫کے اندر دو طرح کی باہمی مخالفت پائی جاتی ہے ۔ ایک فرق ان کے وزنی اور ہلکا‬
‫دوسرے عصرکے اثر سے بدل جاتے ہیں ۔ فعلیت اور انفعال کا یہ تعلق اسی حالت‬

‫ہونے کا ہے جو ان کے فطری مقامات کی طرف مخصوص اور براہ راست حرکت کا‬ ‫میں ممکن ہو سکتا ہے جب دو ایسے اجسام مد مقام ہوں جن کے درمیان کچھ مماثلت‬

‫نتیجہہے دوسری قسم کا تضاد کیفیتکی بنا پر ہے جو ان کے اصلی صفات کے مختلف‬ ‫پائی جائے اور کچھ مخالفت ۔ مختلف عناصر میں خالی ملاپ ہی نہیں ہو تا بلکہ ان کے‬
‫‪44‬‬
‫‪45‬‬

‫انسانی سے بہت بالا تر ہیں ۔‬ ‫اجتماعات سے پیدا ہوتاہے مثلاً گرم و سرد اور خشک و تر آگگرم اور خشک ہے ہوا‬

‫بروج فلکیہ کی حرکت سے خاصکر ان مقامات میں جو سورج کے نیچے واقع‬ ‫گرم اور تر پانی سرد اور تر اور زمین سرد اور خشک۔ اس مخالفکی وجہ سے وہ‬

‫ہیں ‪ ،‬رگڑ کی وجہ سے ہوا میں روشنی اور گرمی پیدا ہوتی ہے ۔ ان مدار آفتاب کے‬ ‫متواتر ایک دوسرے کی طرف عبور کرتے رہتے ہیں ۔ جن کا باہمی فاصلہ بہت زیادہ‬

‫میلان کی وجہ سے سال کے مختلف موسموں میں مختلف مقامات پر گرمی اور سردیکم‬ ‫ہے وہ درمیانی مادے کے توسط سے ایک دوسرے پر عملکرتے ہیں ۔ اس سے نہ‬

‫و بیش ہوتی ہے ۔کون و فساد اور مادے میں جزو مد اس سے واقع ہوتا ہے اور اس‬ ‫صرف عالم کی وحدت لازم آتی ہے ‪ ،‬جو محرک اولکی وحدت سے بھی اخذ ہوسکتی‬

‫کے باعث سے عناصر ایک دوسرے میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔‬ ‫ہے بلکہ یہ بھی منتج ہوتا ہے کہ عالم کی شکل مدور ہے ۔ زمین جو عالم کا ایک چھوٹا سا‬

‫ارسطو اپنے طبیعی نظریات میں ویما قر طوس کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے‬ ‫حصہ ہے اس کے وسط میں واقع ہے اور اس کی شکل بھی مدور ہے زمین کے گردا‬

‫فطرت میں خلا نا ممکن ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خلا میں تمام انسانوں کے‬ ‫کہتا ہے کہ‬ ‫گرد پانی ہوا اور آگ کے ہم مرکز کرے ہیں ۔ اس کے اوپر افلاکی کرے ہیں جو‬

‫کرنے کی رفتار یکساں ہوتی جو ناممکن ہے اس لیے جس فرضی خلا کے متعلق شور مچا‬ ‫زمین کے بعد کی نسبت سے اپنے مادے میں زیادہ زیادہ لطیف ہوتے جاتے ہیں ان‬

‫ہوا تھا اس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ " ارسطو نے فیثا غورث کے اس نظریے کی بھی‬ ‫کروں میں سب سے اوپر ثوابت کا آسمان ہے جسے خدا روزانہگردش دیتا‬
‫ہے اور جو‬

‫تردید کی کہ سورج ہمارے نظام کا مرکز ہے ۔ ارسطو کے خیال میں زمین ہی اپنے‬ ‫لامکان ہونے کے باوجود اس پر محیط ہے ۔ ہرکرہ نہایت عمدگی سے اپنے محور کے گرد‬

‫نظام کا مرکز ہے ۔‬ ‫گھومتاہے ۔ ہر باہر والے کرنے کا اندر والے کرنے سے وہی تعلق ہے جو صورتکا‬

‫ارسطو علم حیاتیات میں انکسا غورث کے اس خیالکی تردید کرتا ہے کہ "‬ ‫مادے سے ہے یا محرک کا متحرک سے ہے اس لیے ہرکرہ ان تمامکرتوںکو حرکت‬

‫جب انسان نے ہاتھوں سے چلنے کی بجائے ان سے نازک و دقیق کام کئے تو وہ با عقل‬ ‫دیتاہے جو اس کے اندر داخل ہیں سب سے اوپر کا کرہ تمام اندرونی کروںکو اپنی‬

‫ارسطو کے خیال میں پہلے انسان با عقل ہوا پھر اس نے ہاتھوں کا نیا استعمال‬ ‫ہوگیا ۔‬ ‫روزانہگردش میں اپنے ساتھ گھماتا ہے اس طرح سے ہر سیارےکی روزانہ حرکت‬

‫سیکھا۔ وہ ا ۔ میوزرکلینز کے اس نظریے کو بھی مسترد کرتا ہے کہ " اعضا اور عضویے‬ ‫میں دیگر تمام محیط کزنوں کی حرکت سے خللپڑتا اگر خاص طور پر اس کا کوئی‬

‫بقائے اصل کا ثبوت ہیں ۔ " حیاتیات میں ارسطو نے معلومکیا کہ پرندے اور رینگنے‬ ‫بندوبست نہ ہوتا ۔ دو باہم اقرب سیاروں کے بروج کے مابین اتنی تعداد میں الٹی‬

‫والے جانور ساخت کے اعتبار سے بہت مشابہ ہوتے ہیں ۔ اس نے علم جنسیاتکی‬ ‫سمت میں حرکتکرنے والے بروج پائے جاتے ہیں جتنےکہ ان سیاروں کے باہمی اثر‬

‫بنیاد رکھی اور کہا کہ ”جو شخص جانداروںکی شروع سے نشو و نما دیکھے گا حقیقت اسی‬ ‫کو زائل کرنے کے لیے ضروری ہیں ۔ ان بروجکی تعداد بائیس ہے اور کالیس کے‬

‫پر واضح ہوگی اور اسی کا اصول نظر بہترین ہو گا ۔ " اس ضمن میں ارسطو نے یونان‬ ‫بروج کا ان پر اضافہ کر کے تمام بروج فلکیہ کی تعداد چھپن ہو جاتی ہے اس تعداد میں‬

‫کے بہترین طبیب بقراط ( ‪460‬‬


‫) ق م )کی تقلید کی ہے ۔‬
‫ثوابت کے بروج بھی داخل ہیں ۔ فلک اولکی طرح ہر برجکو حرکت دینے والی ایسی‬

‫ارسطو نے اپنی علمی مساعی کا بہت سا حصہ حیوانات اور نباتات کے مطالعہ‬ ‫ہی قوت ہوسکتی ہے جو سردی غیر محدود اور غیرمادی ہو اس لیے جتنے بروج ہیں اتنی‬

‫میں صرف کیا اور وہ بلاشبہ اس علم کا سب سے بڑا نمائندہ اور منتظم و تقابلی حیاتیات کا‬
‫ہی ارواح بردج ہیں ۔ ستارے ذی حیات اور ذی عقل الہی ہستیاں ہیں جو نوع‬
‫‪46‬‬
‫‪47‬‬

‫تغذیہ اور تناسل کے وظائف تک محدود ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی کا کوئی ایک‬ ‫بانی ہے ۔ اگرچہ نباتات پر اس نے کتاب نہیں لکھی لیکن بحیثیت معلم وہ نباتات کا‬

‫بھی بانی کہلانے کا حق رکھتاہے ۔‬


‫مرکز نہیں ہوتا اس لیے ان میں احساس نہیں پاتا جاتا۔ جانداروں کے جسم میں‬

‫مادے کی مختلف اقسام کے مساوی حصے پائے جاتے ہیں اور یہ مادہ عصری مادہ ہوتا‬ ‫اس کے نزدیک حیات حرکت زاتی کے استعداد کا نام ہے لیکن ہرقسم کی حرکت‬

‫کے لیے دو چیزیں مقدم ہیں ایک صورت اور ایک مادہ یعنی ایک محرک اور ایک‬
‫ہے ۔ روح کا محل نفس گرم ( ‪ ) Pneuna‬ہے جو زندگی کا ماخذ ہے ۔ یہ ایتھرکے‬
‫متحرک ۔ ہر جاندار کا جسم مادہ ہے اور صورت اسکی روح ہے ۔لہذا روح بغیر جسم‬
‫ساتھ ملا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی تم کے اندر باپ سے اولاد میں منتقل ہو تا‬

‫کے نہیں ہو سکتی ۔ وہ مادی نہیں اور اپنے آپکو حرکت بھی نہیں دیتی ۔ اس کا‬
‫ہے ۔ حیات غریزی کا خاص مقام مرکز عضو میں ہوتا ہے خون والے جانداروں میں‬
‫تعلق جسم کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا کہ صورتکا تعلق مادے سے ہوتا ہے ۔ جسم کی‬
‫یہ مقام دل ہوتا ہے ۔ دل کے اندر اس غذا سے جو رگوں کے ذریعہ سے اسکو‬
‫پہنچتی ہے خون تیار ہوتا ہے خون سے کچھ تو جسم کو غذا پہنچتی ہے اور کچھ اس سے‬ ‫صورت ہونے کے لحاظ سے وہ جسم کی غایت بھی ہے ۔ جسم روح کے لیے فقط ایک‬

‫خاص قسم کے اور اکات پیدا ہوتے ہیں ۔ جانداروںکی پیدائشکئی طریقوں سے‬ ‫آلہ ہے اور اس کی فطرت اسی مقصد سے متعین ہوتی ہے ۔ آلاتی یا عضوی‬

‫ہوتی ہے ۔ جنسی تناسل کے علاوہ بعض جانداروں میں جن میں بعض چھلیاں اور‬ ‫(‪ ) Organic‬ہونے کے یہی معنی ہیں ۔ اس کے نزدیک روح ایک ایسی قوت ہے جو‬

‫کیڑے بھی داخل ہیں ‪ ،‬خود زائیدگی بھی ہوتی ہے لیکن طرز تناسل اس کے نزدیک‬ ‫جسمکو حرکت دیتی ہے اور اس کی ساخت کو متعینکرتی ہے ۔ اسی لحاظ سے فطرت‬

‫زیادہ کامل صورت ہے ۔ نر کا تعلق مادہ سے ایسا ہی ہے جیسا کہ صورت کا تعلق‬ ‫کی مقصدی فعلیت جانداری ہستیوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے کیونکہ ان کے‬

‫سے آتی ہے اور جسم مادہکی طرف سے ۔‬ ‫مادے سے ۔ بچےکی روح نر کی طرف‬ ‫اندر آغاز ہی سے ہر عضو اور ہر وظیفہ ایک مقصد کے ماتحت ہوتا ہے لیکن چونکہ‬

‫از روئے علم الاعضا اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مادہکی فطرت مقابلہ " زیادہ سرد ہے‬ ‫روحکی فعلیت مادےکی مزاحمت پر فقط بتدریج غالب آسکتی ہے اس لیے روحکی‬

‫اس لیے وہ تولیدی مادے کے لیے خونکو پوری طرح تیار نہیں کر سکتی ۔ ارسطو کے‬ ‫زندگی کے بھی بے شمار مدارج ہیں ۔ نباتاتکی زندگی تغذیہ اور تناسل پر مشتمل ہے‬

‫نزدیک تولید کے عام مدارج یہ ہیں کہ پہلے نطفہ کیڑےکی طرح ہوتا ہے اس کے بعد‬ ‫حیوانات میں اس پر حسی اور اک کا اضافہ ہوتا ہے اورکثیر انواع حیوانی میں نقل‬

‫انڈا بنتا ہے اور اس کے بعد عضوی صورت اختیارکرتا ہے لیکن پیدائش جسمانی‬ ‫مکانیکی بھی قابلیت ہوتی ہے ۔ انسان میں اور ترقی ہوتی ہے اور وہ فکر کے درجے‬

‫ساخت اور رہنے سہنے کے طریقوں میں جانداروں میں حیرت انگیز اختلافات پائے‬ ‫تک پہنچ جاتا ہے ۔ روح غذائی یا روح نباتی دوسری روح حسی یا روح حیوانی اور‬

‫جاتے ہیں ۔‬ ‫تیری روح عقلی یا روح انسانی ہے ۔ حیوانات کا تدریجی سلسلہ حیات روح کے‬

‫جانداروںکی نو قسموں میں سب سے زیادہ فرق خون والے اور بے خون‬ ‫منازل ارتقا کے مطابق ہے ۔ وہ مسلسل تدریجی ترقی سے ناقص سے کابلکی طرف‬

‫‪:‬‬ ‫بڑھتا ہے ان دونوں سلسلوں میں جو کثیر مماثلت پائی جاتی ہے ‪ ،‬اس سے ثابت ہو تا‬
‫جانداروں میں ہے اور یہ فرق ریڑھ کی ہڈی والے‪ ،‬اور ‪ .‬بے ریڑھکی ہڈی والے‬

‫جانداروں کے امتیاز کے مطابق ہے ۔‬ ‫ہےکہ یہ دونوں ایک ہی قسم کے قوانین کے ماتحت ہیں ۔‬

‫ارسطو کے نزدیک انسان دیگر حیوانات سے اس امر میںممتاز ہےکہ وہ نفس‬ ‫ارسطو کے خیال میں حیات کی ادنی ترین منزل نباتات میں پائی جاتی ہے ۔‬
‫‪49‬‬ ‫‪48‬‬

‫مرکزی تک پہنچ جائیں تو پنے پیدا ہوتے ہیں اس لیے سپنے بعض حالات میں ایسے‬ ‫رکھتا ہے جو اس کے اندر روح حیوانی کے ساتھ متحد ہے ۔ اس کی جسمانی ساخت‬

‫واقعات کی علامت ہو سکتے ہیں جس کی طرف ہم نے بیداری میں توجہ نہیں کی اور‬ ‫اور اس کی روح کے ادنی افعال بھی اس بلند مقصد کے ماتحت ہوتے ہیں جو اس‬

‫نظر انداز کر دیا جبکسی شئے مدرکپر خیر یا شرکا اطلاق ہو تو اس سے لذتیا نفرت‬ ‫اتحاد کا نتیجہہے ۔ اس کے قامت کی راستی اور اسکی وضع کا تناسب اس مقصد کی‬

‫۔‬
‫کا نتیجہ خواہش جلب یا خواہش دفع ہوتی ہے ۔ یہ حالات تاثر کے‬
‫پیدا ہوتی ہے جس‬ ‫شہادت دیتا ہے ۔ اس کا خون سب جانداروں سے زیادہ مصفا اور زیادہ مقدار میں‬

‫مرکز سے بھی ظہور میں آسکتے ہیں ۔‬ ‫ہوتا ہے ۔ اس کے دماغ کا وزن اور اس کی حرارت غریزی سب سے زیادہ ہے اس‬

‫ارسطو کے نزدیک غیر عقلی خواہشات بعض محض حسی اور بعض اشرف ہوتی‬ ‫کے ہاتھ اور اس کا آلہ نطق نہایت قیمتی آلات ہیں ۔ روح کے جسی افعال میں‬

‫ہیں لیکن یہ تمام وظائف غصہ شجاعت جذ بہ وغیرہ روح حیوانی سے متعلق ہیں انسان‬ ‫اور اک اس تغیر کا نام ہے جو جسم کے واسطے سے روح کے اندر محسوس ہوتاہے‬

‫کے اندر اس پر روح عقلی کا اضافہ ہوتا ہے ۔ روح حیوانی جسم کے ساتھ ہی پیدا‬ ‫اور شے مدرکہکی صورت اور اککرنے والے نفسکی طرف منتقل ہوتی ہے مختلف‬

‫ہوتی اور اس کے ساتھ ہی فنا ہو جاتی ہے لیکن روحعقلی از لی اور ابدی ہے تولید‬ ‫ان کا‬ ‫جو اس سے ہمیں اشیاء کے فقط وہی صفات معلوم ہوتے ہیں جن کے ساتھ‬
‫سے پیشتروہ خارج سے نطفے کے اندھ داخل ہوتی ہے ۔ اسکی کیفیات میں کچھ تغیر‬ ‫الگ الگ اور مخصوص تعلق ہے ۔ جو اس ہمیں جو کچھ بتاتے ہیں وہ ہمیشہ صحیح ہوتا‬

‫نہیں ہوتا اور جسم کی موت بھی اس پر کچھ اثر نہیں کرتی لیکن انسان کے انفرادی‬ ‫ہے لیکن چیزوں کے کلی صفات مثلاً وحدت عدد حجم ‪ ،‬شکل ‪ ،‬وقت سکون اور حرکت‬

‫نفس سے رابطہ پیدا کرنے کی وجہ سے وہ تغیرات سے بھی متاثر ہوتی ہے ایک فرد‬ ‫وغیرہ کسی ایک مخصوص حاسہ سے مدرک نہیں ہوتے بلکہ ان کا اور اک اس خامہ‬

‫کے اندر فکر کی قوت تفکر سے پہلے موجود ہوتی ہے ۔ اس کی روح ایک لوح سادہکی‬ ‫مشترککی وجہ سے ہوتا ہے جس کے اندر محسومات متحد ہو جاتے ہیں ۔ اس حاسہ‬

‫طرح ہے جس پر سب سے پہلے فکر کا نقش مثبت ہوتا ہے ۔ فرد کے اندر فکر ہمیشہ‬ ‫مشترککی بدولت ہم اپنے محسوسات کا مقابلہکر سکتے ہیں اور ان کو خود اپنی جانب‬

‫حسی تماثیل کے ساتھ ہوتاہے ۔ ایک نفس وہ ہے جو سبکچھکرتاہے اور دوسرا وہ‬ ‫اور معروضات اشیاء کی طرف منسوب کر سکتے ہیں ۔ اس حامہ مشترک کا آلہ دل‬

‫ہے جس پر سبکچھ وارد ہوتا ہے ۔ انفعالی نفس جسم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور فتا‬ ‫ہے ۔ اگر کسی آلہ جس کی حرکت مدت ااودررااک‬
‫ک کے بعد تک جاری رہے اور آلہ‬

‫ہوتا ہے لیکن فعلی نفس ازلی و ابدی ہے چونکہ بحیثیت افراد ہمارا تفکر ان دونوں کے‬ ‫منتقل ہو کر شئے مستحفر کا ایک نیا استحضار پیدا کرے تو اس کو تخیل‬
‫مرکزی کی طرف‬

‫تعاون سے ممکن ہوتا ہے اس لیے روحکی حیات ماقبلکی کوئی یاد ہمارے حافظے میں‬ ‫کہتے ہیں ۔ حس مشترک کے دیگر بیانات کی طرح تخیل سچا بھی ہو سکتا ہے اور جھوٹا‬

‫نہیں ۔ اس زندگی سے ماقبل یا مابعد اس غیر جسمی روح کی طرفکوئی ایسا فعل‬ ‫بھی اگرکوئی تخیلکسی پہلے اور اککی صحیح نقل ہو تو اسکو تذکرہ یا یادکہتے ہیں جسے‬

‫منسوب نہیں کرسکتے جو فقط نفس اور روحکی ترکیب سے ممکن ہو سکتاہے ۔‬ ‫خود شعری طرز پر بھی پیدا کر سکتے ہیں ۔ لہذا حافظے کا مقام بھی حس مشترک ہی ہے ۔‬

‫انسان کے وہ روحانی افعال جو اس کو حیوانی زندگی سے بلند تر کرتے ہیں ‪،‬‬ ‫انہضام کی وجہ سے آگہ مرکزی میں جو تغیر ہوتا ہے اس سے نیند پیدا ہوتی ہے اور‬

‫عقل کے ساتھ روح کی ادنیٰ قوتوں کے اتحاد پر مبنی ہیں ۔ روح کی اصلی فعلیت‬ ‫اس کی حرارت غریزی کے فقدان سے موت واقع ہوتی ہے ۔ آلات جس کے‬

‫حقائق عالیہ کا براہ راست وجدان ہے ۔ اگر خواہش کے ساتھ عقل شامل ہو تو وہ‬ ‫اندرونی حرکات سے اور بعض اوقات خارجی محسوساتکی وجہ سے بھی اگر وہ آلہ‬
‫‪51‬‬ ‫‪50‬‬

‫چی ہ‬ ‫ارادہ بن جاتی ہے ۔ نیکی ارادی اور اخت‬


‫یاری ز ے اس لیے ہم اپنے افعال کا دونوں ممکن ہیں ۔ لیکن جو کچھ حواس سے ماوری ہونے کے باوجود ہمارے فکر‬

‫کا معروض بنتا ہے وہ تصوراتکی طرح غیر متغیرہے ۔ ہر تغیرکے لیے کسی غیر متغیر‬ ‫ذمہ دار قرار دیئے جاتے ہیں ۔ ارادہ ہی عمل کی غایاتکو متعین کرتاہے جو ا‬
‫اخلاقی تصدیقات پر مشتمل ہیں اور ہمارے مقاصد کی صحت کا مدار نیکی پر ہے لیکن او‬
‫وجود کا ہونا لازمی ہے اور حدوث کے لیے کسی ایسے محل کی ضرورت ہے جو خود‬

‫مقاصد کے حصول کے لیے بہترین ذرائع کا تلاشکرنا تنظر کا کام ہے ۔ اس حیثیز حادث نہ ہو ۔ یہ وجود دو طرح کا ہو سکتاہے ایک تو وہ محل جس پر تغیرات عارض‬

‫میں عقل حکمت عملی کا نام ہے اور دور اندیشی یا بصیرتکا یہ کام ہے کہ وہ اس عمل ہوتے ہیں اور جو مختلف صورتیںاختیارکرتہا‬
‫ے اور دوسرے وہ صفات جو اس محل‬
‫کی اصلاحکرے ۔‬
‫پر عارض ہو کر تغیرات پیدا کرتے ہیں ۔کوئی چیز اس وقت بنتی ہے جبکہ مادہ‬
‫صورت اختیار کرتا ہے اس لیے ہر شئے کی حقیقت اس کی صورت ہے لیکن مادہ‬ ‫تحریر کردہ کتاب فرسٹ فلاسفی‬ ‫ارسطو کی مابعد الطبعیات کے‬

‫( ‪ )First Philosophy‬جو میٹافرکس کے نام سے مشہور ہوئی دراصل افلاطوکنو بحیثیت خود وہ نہیں ہے جو صورت پذیر شئے میں دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ ہے جس میں‬

‫صورت پذیری کی محض استعداد تھی اس لیے محض امکان کی بناء پر اسے ممکن کہا‬ ‫تھیوری آف آئیڈیاز کے رد عمل میں لکھی گئی ۔ ارسطو کے خیال میں میٹا فزکس‬

‫سب سے اہم سائنس ہے جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سائنس کی ابتدا میں قاا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم بے صورت مادے کا تصورکرسکیں تو وہ اصل مادہ ہوگا ۔ چونکہ‬

‫کردہ بنیادی اصول کے بعد تمام نتائج آسانی سے حاصل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کی تعریف و تحدید نہیں ہو سکتی اس لیے وہ کیفا " غیر محدود ہے اور ہر قسم کے‬

‫ارسطو نے اپنے نظریہ میں مادےکی جگہ وجود ( ‪ ) Being‬کا لفظ استعمالکیا ہے اور محدود مادے کا مشترک محل ہے ۔ چونکہ وہ فقط امکان کا نام ہے اس لیے اس کا کوئی‬

‫اس کے نزدیک حیاتیات کے قوانین کا تعلق صرف جانوروں کے وجود اور انکی الگ وجود نہیں ہو سکتا۔‬

‫ارسطوکہتا ہے کہ چونکہ عالم قدیم ہے اس لیےکوئی صورتکبھی اشیاء سے‬ ‫زندگی سے ہے جبکہ فرسٹ فلاسفی کے اصولوںکا تعلق ہرمادی چیزپر ہے ۔‬

‫پیشتر اور ان سے خارج نہیں تھی ۔ کسی شئے کی صورت محض اس کا تصور یا جو ہر ہی‬ ‫ارسطو کے نزدیککلی کوئی جو ہرنہیں ہے ‪ ،‬جو ہر ان اشیاء سے خارج نہیں‬

‫نہیں بلکہ اسکا مقصد اور اس کے تحقق کی قوت بھی ہے ۔ چار مختلف قسم کی ملتیں‬ ‫ہو سکتا جن کا کہ وہ جو ہر ہے اور تصورات کے اندر وہ قوت محرکہ نہیں پائی جاتی جس‬

‫کے بغیر وہ مظاہرکی علت نہیں بن سکتے ۔ اگر جو ہر کا اطلاق فقط اس چیز پر ہو سکتا ہے مادی ‪ ،‬صورتی ‪ ،‬فعلی اور فانی ہیں لیکن موخر الذکر تینوں کی اصلیت ایک ہی ہے اور‬

‫خاص حالات میں یہ تینوں ایک ہی میں ضم ہو جاتی ہیں ۔ مثلا روح اور بدن یا خدا‬ ‫جوکسی دوسری چیزکا محمول نہ بن سکے اور نہ کسی دوسری چیز کے ساتھ بطور غرض‬

‫اور عالم کے تعلق میں حقیقی فرق صورتی اور مادی حالت میں ہے اور یہ فرق ہر شئے‬ ‫وابستہ ہو سکے تو فقط انفرادی فطرت ہی جوہر کہلا سکتی ہے ۔ تمام کلی اور جنسی‬

‫تصورات جواہر کے محض مشترک صفاتکو بیان کرتے ہیں ۔ ان تصوراتکو محض میں پایا جاتا ہے تمام فطری جبر اور ہر قسم کے حوادث جو انسان اور فطرت کے‬

‫مجازی اور ثانوی طور پر جواہرکیا جا سکتا ہے ۔‬


‫يحقق مقاصد میں مانع ہوتے ہیں ‪ ،‬ان کی علت مادہ ہے ۔ فطرت کے تمام‬

‫ارسطو کے نزدیک علم کا معروض فقط واجب اور غیر متغیروجود ہو سکتا ہے جو‬

‫کچھ حواس سے تدرک ہوتا ہے وہ عارضی اور تغیرپذیر ہے ‪ ،‬اس کا ہونا اور نہ ہونا‬
‫‪52‬‬
‫‪53 .‬‬
‫نقائص فلکی اور ارضی ‪ ،‬نر اور مادہ کا اختلاف اس کے باعث سے ہے ۔ مادے‬

‫فقط غیرمادی وجود غیر متغیر اور غیر متحرک ہو سکتا ہے ۔ چونکہ صورت وجود کامل ہے‬
‫مزاحمتکی وجہ سے ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی نہایت ست رفتاری سےبم اور مادہ وجود ناقص ۔ اس لیے جو علت محرک اول ہے وہ لازما کامل مطلق ہوگی‬
‫ہو‬

‫ہے اور کرہ‬


‫ہے ۔ادنی ترین نوعی تصوراتکا افراد میں منتشر اور متعدد ہو جانا بھی مادے ہی چونکہ تمام عالم یکساں اور منتظم ہے اور ایک واحد مقصد کے ماتحت چلتا‬

‫بدولت ہے اس طرح مادہ بھی قوت رکھتا ہے ۔‬

‫عالمکی حرکتیکساں اور مسلسل ہے اس لیے محرک اول بھی ضرور واحد ہوگا ۔ لیکن‬
‫یا بالفاظ دیگر وہ تمام تر تفکر یا روح کے سوا خالص اور کامل روح اور لاقتناہی قوت رکھنے والی ہستی ہے ۔‬
‫صورت اور مادے کے باہمی تعلق سے تمام حرکت‬

‫پر اس روح کاملکی فعلیت فقط فکرپر مشتمل ہو سکتی ہے کیونکہ دیگر ہر قسمکی فعلیت کا‬
‫پیدا ہوتا ہے جو عالم مظاہر میں پایا جاتاہے ۔ حرکت در اصل امکان کے حقیقت‬

‫ہونے کا نام ہے اس محقق کی محرک وہی چیز ہوسکتی ہے جو پہلے ہی سے وہ ہے جو کے معروض اس سے خارج میں ہوتا ہے ۔ فکر انہی محض بالقوے نہیں ہو سکتا وہ ایک‬

‫متحرک ہونا چاہتی ہے اس لیے ہر حرکت کے لیے دو چیزیں مقدم ہیں ایک علم مسلسل تنظربالفعل ہے ۔ وہ آپ ہی اپنا معروض ہے ۔ فکرکی قیمت مفکورکی قیمتکی‬

‫محرک اور ایک عصر متحرک ۔ اگر وجود مطلق متحرک بالذات بھی ہے تو یہ دونوا نسبت سے ہوتی ہے ۔ سب سے زیادہ قیمتی اور کامل مفکور خود خدا ہی کی ذات‬

‫عناصراس میں الگ الگ ہوں گے جیسے کہ انسانوں میں روح اور بدن ہے ۔ حرکز ہو سکتی ہے وہ اپنے فکر یا ارادے کو اپنے سے خارج میں کسی چیز پر بھی لگائے اس کا‬

‫ہے اس لیے‬
‫۔ عمل محض اس کے وجود سے ہوتا ہے ۔ چونکہ یہ وجود کاملخیر بر تر بھی‬
‫دینے والا عصرہی حقیقی ہے اور وہی صورت ہے جس عصر کو حرکتکی جاتی ہے‬

‫سا وہ تمام اشیاء کاآخری مطلوب بھی ہے ۔ ہرچیز اسیکی طرف جانےکی کوششکر رہی‬
‫اس کا وجود بالقوے یا مادی ہے ۔ صورت کے جذبکی وجہ سے مادہ حقیقت یا اک‬

‫طرف حرکتکرتا ہے ۔ مادے کی فطرت میں خیر اور خدا کی طرف ایک میلان ! ہے عالم کے اندر تمام نظم و ربط اور زندگی اسی سے ہے ۔ ارسطو کے اس تصور‬

‫خواہش کی جاتی ہے ۔ صورت اور مادہ کے اتصال کے ساتھ ہی حرکت کا پیدا ہوا الوہیت میں خدا اس طرح صاحب ارادہ نہیں کہ وہ اپنا ارادہ عالم پر لگاتا ہو ‪ ،‬نہ اس‬

‫ہے ۔‬
‫لازمی ہے نہ صرف صورت اور مادہ بلکہ ان دونوں کا تعلق بھی جن سے حرکت پیدا کے اندرکوئی تخلیقی فعلیت ہے اور نہ وہ عالم کے کاروبارمیں مداخلتکرتا‬

‫ارسطو نفسیات کے باب میں کہتا ہے کہ ہم بلاواسطہ اپنے ارادے سے اس‬ ‫ہوتی ہے قدیم ہے اسی طرح زمانہ اور عالم دونوں حرکت کے بغیر موجودہ نہیں‬

‫ہو سکتے ۔ اس لیے ان کا بھی نہ آغاز ہے اور نہ انجام ۔ اس ازلی حرکت کی علت اولیٰ سے مختلف نہیں ہو سکتے جو کچھ ہم ہیں ۔ ہم اس ماحول کا انتخاب کرسکتے ہیں جو ہمیں‬

‫فقط ایسا وجوہ ہو سکتا جو خود حرکت نہ کرے ۔ ہر متحرک کے لیے ایک محرک کی سانچے میں ڈھالتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں ہےکہ ہم نے کیا بنناہے ۔ اس کے‬

‫ضرورت ہے اگر علت اولی خود بھی متحرک ہو تو اس کو بھی حرکت دینے والی کوئی نزدیک روح ہر عضوئے کی اصل موثر کی کلیت ہے ۔ پودوں میں روح محض قوت‬

‫دوسری چیز ہونی چاہیے ۔ جس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علت اولی نہیں ۔ ہمیں تعزیہ و تولید کا نام ہے جبکہ جانداروں میں روح حرکت کی قوت کا ماخذ اور انسانوں‬

‫لازما " ایک ایسے محرک پر پہنچنا پڑے گا جو خود حرکت نہ کرے ۔ اگر محرک اول خود میں استدلال اور فکر کی طاقت ہے ۔ تخلیقات فنی کا ماخذ تحریک تشکیل ہے اور جذبے‬

‫بے حرکت ہو تو وہ صورت بے مادہ یا خالص واقعیت ہوگی کیونکہ یہاںکہیں مادہ ہے کے اظہار کی آرزو اصلا " آرٹ یا فن حقیقتکی نقالی ہے ۔ آرٹ یا فن کا مقصد‬

‫وہاں تغیر اور حرکت کا ہونا اور اشیاء کا بالقوے سے بالفعل وجود میں آنا لازمی ہے ۔ حقائق و اشیاءکی باطنی معنویتکا اظہارکرتا ہے ۔‬
‫ارسطو کے مطابق دنیاکی ہر چیزکاایک مقصد اور عمل ہے اور مقصد صورا انسان کے لیے خیرکا نصب العین یہی ہے کہ وہ مخصوص انسانی افعال میں کمال پیدا‬

‫( ‪ )Form‬میں موجود ہے ۔ مادہ جب صورت کے ذریعے اظہارکرتا ہے تو تخلیق کرے۔ عقل انسان کی خصوصیت ہے اور جو افعال عقل کے مطابق ہوں وہی نیکی‬

‫عمل پورا ہوتاہے ۔کائنات میں فقط انسان شعوری طور پر اپنے ذاتی مقاصد سے ‪ ۲‬ہیں ۔ انسانوں کی سعادتکا مدار نیکی پر ہے ۔ اگر افعال یا فضائل کو نظری اور عملی‬

‫طور پر دیکھا جائے تو فکرکی خالصیا حکمی فعلیتمقابلتا " زیادہ باقیمت ہے اور اخلاقی‬
‫ہے ۔ چیزیںمثلاً انسان ‪ ،‬حیوان ‪ ،‬ستارے ‪ ،‬سیارےکی نوع ابدی ہے ان کی نہ کو‬
‫ا‬
‫۔ انسان پیدا ہوتا ہے پھر مر جاتا ہے لیکن انسان کی نوع فر نیکی یا عمل سعادت کا دوسرا لازمی عصر ہے ۔ زندگی کی پختگی اور اسکی تکمیل بھی‬
‫ابتدا ہے اور نہ ہی انتہا‬

‫نہیں ہوتی ۔ ہر انسان خوشی کا متلاشی ہے اور اصل خوشی اچھے کام سے حاصل ہوا سعادت کا ایک جزو ہیں ۔ اس کے خیال میں افلاس بہاری اور مصیبت ہے سعادت‬

‫ہے اور ہرچیز کی اچھائی یہ ہےکہ وہ اپناکردار درست طریقہ سے ادا کرے ۔نیکی میں خلل پڑتا ہے اور ان کی وجہ سے نیکی کو وہ مدد میسرنہیں رہتی جو دولت قوت‬

‫مطلب سفلی جذبات اور حسیاتی بھوک پر عقلی استدلال سے آہستہ آہستہ اور مسلم اور اثر سے اسکو حاصل ہوتی ہے ۔ بچوںکی موجودگی احبابکی صحبت ‪ ،‬صحت حسن‬

‫کوشش اور مجاہدے سے قابو پاتا ہے اور بصیرت نیکی کی علت بھی ہے اور معلول اور شریف النسب ہونا فی نفسہ بیش بہا چیزیں ہیں لیکن باطنی کمال سعادتکا حقیقی‬

‫اور ایجابی عصر ہے خارجی اور مادی اسباب محض سیلی شرائط ہیں ۔ انتہائی مصیبت‬ ‫بھی ۔‬

‫اخلاقیات ( ‪ ) Ethics‬میں ارسطو نے ان مثالی اصولوں کا ذکر کیا ہے جن ) بھی نیک آدمی کو مصیبت زدہ نہیں بنا سکتی ۔ لذت خیر اعلی کاکوئی ایسا عنصر نہیں کہ‬

‫اپنا کر فرد اپنی زندگی فطری اصولوں کے مطابق بسر کرسکتا ہے ۔ اس کے نزدیکہ اسکو الگکر کے مقصد عمل بنا سکیں ۔‬

‫ارسطو کے نزدیک جن صفات پر سعادت کا مدار ہے وہ فکر اور ارادےکی‬ ‫فطرت انسانی زندگی پر محیط ہے اور فطری اصول حیات انسانی کا احاطہ کئے ہوئے‬

‫خوبیاں ہیں ۔ اخلاقیاتکا تعلق موخر الذکر سے ہے ۔نیکی ارادےکی ایک صفت ہے‬ ‫ہیں ۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ نصب العین کے حصول کے لیے ان فطری‬

‫اور ہماری فطرت کے مطابق عقل کے مقررکردہ اعتدال یا وسط پر مشتمل ہے ۔ ایک‬ ‫اصولوں اور قوانین پر عمل درآمد کرے تاکہ غیر اخلاقی اور بے مقصد زندگی سے کا‬

‫حکمت شناس شخص اس وسط کا تعین کر سکتا ہے ۔‬ ‫سکے ۔ یہی فطری اصول اور قوانین مستحکم معاشرہ کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے‬

‫ارسطو کے مطابق تمام فضائل کا مدار بعض فطری قابلیتوں پر ہوتا ہے لیکن‬ ‫ہیں اور ان ہی کے ذریعے مملکتی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے ۔ انسان چونکہ اپنی فطری‬

‫صحیح معنوں میں فضائل وہی ہیں جن کے ساتھ عقلی بصیرت شامل ہو ۔ خالص اخلاقی‬ ‫خود غرضی کی وجہ سے مثالی اشیاء کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے اس لیے‬

‫نیکی کا مقام ارادہ ہے ۔‬ ‫اسکا فطری اور اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنا فطرتکا تقاضا ہے اور فطرتکی تعمیل‬

‫اس کے نزدیک اخلاق اس باتکا نام ہے کہ افراط اور تفریط کے درمیان‬ ‫ہی دراصل اخلاقی زندگی کی معراج ہے ۔‬

‫بین بین راستہ اختیار کیا جائے ۔ ہر فضیلت دو نقائص کے درمیان واقع ہوتی ہے جن‬ ‫ارسطو کے نزدیک عام طور پر مسرت یا سعادت تمام افعال انسانی کی غائت‬

‫میں سے کبھی ایک اورکبھی دوسرا اس سے زیادہ بعید ہوتاہے ۔ وہ عدل پر جو آئینی‬ ‫ہوتی ہے ۔ اسباب سعادت کا تعین افعال حیات کی خارجی صورت سے ہوتا ہے ۔‬

‫زندگی کی سب سے بڑی فضیلت ہے بڑی تفصیل سے بحثکرتا ہے اور اپنی‬ ‫سعادت ہستی کے جمال و کمال سے جو مسرت حاصل ہوتی ہے وہ اسکا نتیجہ ہے ۔‬
‫اخلاقیات کا پانچواں حصہ اس کے لیے وقفکرتا ہے ۔ یہ کتاب از منہ متوسط ‪:‬‬

‫۔‬
‫ہے‬ ‫تو اکٹھا اور بعض حصوں میں الگ الگ پیش کیاگیا‬‫فطری قانون کیبنیاد قرار دی گئی ۔ ارسطو کے نزدیکعدل جزا و سزا کا صیح تو یاساک‬
‫پہلے باب میں ریاستکی نوعیت ‪ ،‬آغاز اور اسکی اندرونی تنظیم ‪ ،‬دوسرے‬
‫ہے ۔ ایک قسم کا عدل صحیح تقسیم پر مشتمل ہے اور دوسرا تصحیح یا اصلاح !‬

‫بیں مثالی ریاستوںکی‬


‫اعزازات و مفادات فردکی قابلیت کے مطابق ہونے چاہئیں ۔ معاہدات میں کتاب میں اس وقتکی ریاستوں کے جائزے اور تیرے بام‬

‫سں رسییاسترکیوساخت ‪ ،‬ہر آئین کی‬


‫خت چوتھے پانچویں اور چھٹے بابوں می‬
‫عییکتیاگوئری مہ‬
‫ضرر کا توازن یکساں ہونا چاہیے اور قانونی فیصلوں میں جرم اور سزا کی نسبت براعنکواس‬
‫ےل۔ف ریاست‪،‬وں میں انقلابکی وجہ ے اسی د بدل پر بحثکی گئی‬

‫ہونی چاہی ۔ جہاں قانونی عدل سے کچھ نا انصافی ہوتی ہو وہاں فطری عدل سے اس‬

‫ہے ۔ ساتواں اور آٹھواں حصہ مثالی ریاست سے متعلق ہے ۔ ابتدا میں افلاطونکی‬ ‫اصلاح ہونی چاہیے ۔‬

‫تقلید اور بعد میں اس کے اپنے مشاہدات و تجربات اور مختلف ذہنی ادوار کے‬
‫محبت اور دوستی پر نہایت خوبصور خیالات مذکور ہیں۔ اسکتاب کے چوتھے پانچویں اور چھٹے باب دوسرے تیرے‬ ‫ارسطو نے اسکتاب‬
‫میں زنانہ پن ‪،‬‬

‫سے بحثکی ہے اور اس میں نہایت لطیف اور برجستہ باتیں لکھی ہیں ۔ وہ کہتا نہ ساتویں اور آٹھویں بابوں کے بعد لکھے گئے ۔ تمہیدی باب سب سے آخر میں لکھا‬

‫کہ انسان کی فطرت اجتماعی ہے‪ ،‬ہر انسان دوسرے انسان سے ربط رکھتہاے ۔ ایک گیا‬
‫۔ دوسرے اور تیرے بابوں میں مختلف مثالی ریاستوں پر بحث کی گئی ہے ۔‬
‫عدل مشترک تمام انسانوںکو متحدکرتا ہے اور یہی خصوصیت کنبے اور مملکتکی بنیا اور میانی تین حصوں میں اس کے وسیع تجربات اور معلومات درج ہیں ۔ پہلے تین اور‬

‫ہے ۔‬

‫آخر کے دو باب میں اخلاقیات ‪ ،‬نیکی اور اچھائی کے اصول کے سیاسی مسائل پر بحث‬
‫ارسطو کی سب سے اہم تصنیف سیاسیات (‪ )Politics‬ہے ۔ یہ کتاب کرتے ہوئےبدترین اور ناقص ترین دستورکوپائیدار اور مستحکم بنانے کی تدابیروی‬

‫حکومت کرنے کے فن پر اسرار و رموز کا اک خزانہ ہے بلکہ اسے اگر سیاستدان کو گئی ہیں ۔ درمیانی بابوں میں مملکتکو انسانی جسم سے متشابہ قرار دیتے ہوئے اس‬

‫درسی کتاب کہا جائے تو بھی بے جانہ ہوگا ۔ یہکتاب پندرہ سال میں مکمل ہوئی اور کی اس طرح نشو نما پر زور دیا گیا ہے جس طرحکہ انسانی جسمارتقائی منزلیں طے‬

‫لیے اس نے یونانی شہری ریاستوں کے ‪ 57‬دستوروںکا مطالعہ کیا ۔ ڈلنگ کرتا ہے ۔ اسکتاب کے آخری دو باب افلاطونکی تصنیف ” قانون "کی اشاعت‬ ‫اس کے‬

‫کے الفاظ میں ارسطو کی عظمت کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اس نے علم کے بعد تحریر کئے گئے تھے اس لیے ان حصوں کی تحریروں میں ” قانون “ کا اثر نمایاں‬

‫سیاسیاتکو ایک مستقل سائنسکا درجہ دیا۔‬


‫ہے ۔‬
‫ر مشتمل ہے ۔ ان آٹھ حصوںکو فکری نوعیت کے‬
‫یہکتاب آٹھ حصوں‬
‫‪ Jaeger‬کے مطابق اسکتاب کا پہلا حصہ سیاسی تصورات پر اور دوسرا‬
‫اعتبار سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلے بڑے حصے میں پانچ ابواب حصہ سیاسی حقائق پر مبنی ہے ۔ پہلے حصہ میں باب ‪ VI III 11‬اور ‪ VII‬جبکہ‬
‫‪II‬‬
‫اور دوسرے بڑے حصے میں تین ابواب ہیں ۔ پہلے بڑے حصہ میں پہلا دوسرا دوسرے حصہ میں باپ ‪ VIV‬اور ‪ VIII‬شامل ہیں ۔ پہلے حصہ میں اس نے خود‬

‫تیرا ساتواں اور آٹھواں باب جبکہ دوسرے بڑے حصے میں چوتھا ‪ ،‬پانچواں اور چھنا مختار فلسفہ بیان کیا ہے جبکہ دوسرے حصہ میں نظام ہائے حکومت پر حتمی خیالات کا‬

‫باب شامل ہیں ۔ فکری لحاظ سے اسکتاب کے بعض حصوں میں اخلاقیات اور اظہارکیا ہے ۔‬
‫‪59‬‬ ‫‪58‬‬

‫ارسطو نے اپنی امسایہ ناز تصنیف میں آغاز مملکت کے بنیادی مقاصد کا ارسطو کو میکاولی کا پیشرو بھی کہا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں‬
‫کی بیت‪ ،‬رسمی خدو خال اور اس کی نوعیت پر بحث کی ہے ۔ وہ اسکتابمیں کا‬
‫ہے کہ ارسطو نے سیاسیاتکو اخلاقیات سے الگکر کے ایک جداگانہ اور وسیع علم‬

‫کی نوعیت و اہمیت میں تجزیاتی طرز استدلال استعمال کرتے ہوئے اجزا کی نسبت کی حیثیت دی اور سیاسی و سماجی نظام کے مختلف عناصر اورتمام اجزاء کا استقراری‬

‫بحثکرتاہے ۔ اس کے آغاز مملکت کے باب میں ان نظریات "مملکتکا ارتقانہطریقہ استدلالکی بنیاد پر مطالعہ کر کے ان کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگرکرتے‬

‫ہے ‪ ،‬خاندان مملکت کی اکائی ہے ۔ اور مملکت انسانی ضروریات کی تکمیل کا رہا ہوئے انہیں مزید فعال و متحرک اور افادی بنانے کے لیے تصورات پیش کئے ہیں‬

‫ادارہ ہے "کی مسلمہ حیثیتکو جدید دور میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس نے اس‬
‫کا جن کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ اس نے اس باب میں انقلابکی بنیادی نوعیتکی دو‬

‫میں حکومت کے باضابطہ تصور کی بجائےمملکت کی نسبت سے ہی حکومتکی اصر قسمیں مکمل انقلاب اور نامکمل انقلاب کو بیان کرتے ہوئے کچھ جزوی اقسام بھی‬

‫استعمال کی ہے اور تقسیم مملکت میں حکمران طبقے کی اہمیت اور ان کے ارادے بیان کی ہیں جو بلاشبہ یا معنی اور اہمیت کی حامل ہیں ۔ اس نے بد ترین طرز حکومتکو‬

‫نسبت سےمملکتکی مختلف اقسام بیانکی ہیں ۔ اس نے حکمران طبقے کے مقاصداً بھی برقرار رکھنے اور انقلاب سے بچانے کی ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں ۔ اس کا تصور‬

‫اصول تجویزکیاہے اس پر آج بھی عملدرآمد ہو رہاہے ۔‬


‫انقلاب حقیقت کے انا قریب تر ہے کہ اس پر تنقید کی کوئی گنجائش موجود نہیں‬
‫ارسطو نے تصور شہریتکو اسکتاب کے تیسرے باب میں بڑی تفصیل ہے ۔‬

‫ارسطو نے اپنی اس تصنیف میں ایک مثالی ریاست کا خاکہ پیش کرتے ہوئے‬ ‫بیان کیا ہے اور اس میں بلاشبہکوئی ابہام نہیں کہ یہ تصنیف اپنے محاسن کے انفر‬

‫سے ایک منفرد تصنیف ہے جس میں ارسطو نے جہاں آغاز مملکت ‪ ،‬تقسیم مملکہ کہا کہ اس ریاست میں نہ تو زیادہ امیر ہوں اور نہ ہی زیادہ غریب ۔ بیرونی حملے سے‬

‫بے خوف ہو زیادہ دولت کے حصولکی خواہش یا تجارت اور اراضی کے لیے توسیع‬ ‫غلامی اور شہریت کے تصورات فلسفہ حقیقتکی بنیاد پر پیش کر کے ایک نئے مکتبہ‬

‫کی بنیاد ڈالی وہاں انقلاب کا تصور استقراری طریقہ مطالعہ کی بنیاد پر پیش کرکے نہا پسندانہ عزائم نہ رکھتی ہو ۔ پاکیزہ اور متمدن ملت ہو ‪ ،‬خود مختار ہو ‪ ،‬جارحیت پسند نہ‬

‫سیاسیات کے معروضی مطالعہکی راہ ہموارکی ۔‬


‫ہو ‪ ،‬عظیم ہو لیکن بے قابو نہ ہو ۔ عظیم فرمانروا ہو جس کے ماتحت خودکو ہوس زر‬

‫سے بچاتے ہوئے بہترین تمدن‪ ،‬عوامی فلاح و بہبود اور مملکتی خوشحالی کے لیے وقف‬ ‫ارسطو نے اس کتاب کے پانچویں باب میں انقلابات کے بارے میں اج‬

‫خیالات کا اظہارکیا ہے اس کے نزدیک انقلاب ذو معنی ہے ۔ اس کے نظریہ انقلاب کر دیں اور عوام ریاست کی بقا کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ وہ‬

‫ریاست کو بہترین صورت اور گمراہ صورت میں تقسیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ‬ ‫کے دو حصے ہیں ۔ حصہ اول میں چند سری حکومت جمہوریت اشرافیہ کے حاکمول‬

‫بادشاہوں اور جابر حکمرانوں کے لیے عملی ہدایات ہیں جبکہ دوسرے حصہ میں اچھ بادشاہت‪ ،‬اشرافیہ اور آئینی جمہوریت بہترین جبکہ جابرانہ اور چند سری بد ترین نظام‬

‫ہائے حکومت ہیں ۔ اس کے نزدیک دستوری حکومت ہی سب سے بہتر نظام حکومت‬ ‫اور مستحکم حکومت کی فلسفیانہ بنیادوں پر بحثکی گئی ہے ۔ اس باب اور میکاولی کی‬

‫ہے اور بہترین آئین وہ ہے جسے مثالی قرار دیا جائے اور مثالی آئین وہی ہوتا ہے جو‬ ‫دی پرنس " کے بنیادی تصورات جن میں اقتدار کو دائمی بنانے کے لیے اخلاف‬

‫دریا ہو۔‬ ‫اصولوںکو پس پشت ڈالنے کی تلقین کی گئی ہے ‪ ،‬میں کوئی فرق نہ ہونےکی وجہ‬
‫ایک‬ ‫ارسطو کے نزدیک ریاستکو بہت بڑے رقبے یا آبادی پر مشتمل نہیںلحاظ سے ریاست سے پہلے ہیں لیکن چونکہ ریاست ایک فرد ایک خاندان‬

‫چاہیے اور ریاستکی آبادی کو شرح پیدائش پر قابو رکھ کر محدود رکھنا چاہڑگاؤںکا وہ آخری اور اصلی مقصد ہے جسکی طرف یہ سب چیزیں پیش رفتکرتی‬

‫ااہیے کہ آزاد اور تفریحی زندگیگزاری جار ہیں اس لیے ریاست اس تمام مادے کی صورت ( ‪ )Form‬کی مانند ہے جس کے‬
‫ریاستکا رقبہ صرافتنا بڑا ہونچ‬

‫اس لیے ریاست فرد ‪ ،‬خاندان یا افراد‬ ‫ریاست سمندر کے قریب ہونی چاہیے تاکہ در آمدات ہو سکیں لیکن اس قدر ترذریعے یہ مادہ اپنے وجود کا اظہارکرتا ہے‬

‫نہ ہو کہ بیرونی تجارت شروع ہو جائے ۔ ہر شہری کے پاس زمین ہونی چاہیے جبرسے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے جو اپنے شہریوںکو نیکی کی تعلیم دےکر‬

‫وہ اپنے غلاموں کے ذریعے کاشت کر سکے ۔ اس کے نزدیک کاشتکار اور کار پھر ان کو نیکی پر عمل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔ ریاست با قاعدہ ایک ادارہ‬

‫شہریت کے اہل نہیں ہیں اور حق شہریت صرف فوجیوں ‪ ،‬متمول تفریحی جماعتوں ‪ ،‬ہے اور یہ اپنے مختلف حصوںکی مدد سے اپنے فرائض سرانجام دیتہاے ۔ ریاستکی‬

‫پیشواؤں اور منتظمین کو حاصل ہیں ۔ وہ اپنی مثالی ریاست کے لیے یکساں لازمی اپنی ایک زندگی ہے اور اس کے تمام ارکان کی بھی اپنی زندگیاں ہیں اور یہ سب‬

‫قومی تعلیم کا خواہاں ہے ۔ اس نے اپنی مثالی ریاستکی تصویر کشی سیاسیات کےبا ریاستمیں شامل ہیں ۔‬

‫ارسطو کے نزدیک ریاست ایک نامیاتی جسم ہے اس نامیاتی جسم کا ہر عضو‬ ‫‪ VIII‬اور ‪ VIII‬میںکی ہے ۔‬

‫ارسطو کے خیال میں ریاست صورت اور فرد مادےکی مانند ہے ۔ ریاسہ بذات خود ایک نامیاتی جسم ہے اور ہر عضو کا دوسرے عضو کے ساتھ جو فرق ہے وہ‬

‫تتمماامم ااععضضاا !اپنے اپنے‬


‫بنیادی مقصد عوامی فلاح و بہبود اور خوشحالی ہے اور فرد اپنی شخصیتکی تحکم یہ ہے کہ ریاست اپنے علیحدہ مقاصد رکھتی ہے اور اس کے‬

‫وہ ادارہ ہے جو اپنے ثر مقاصد رکھتے ہیں ۔ ریاستکا بنیادی مقصد عوام کا اجتماعی مفاد ہے جبکہ ریاست کے‬
‫ریاستکے شہری کی حیثیت سے ہی کر سکتہاے ۔ ریاست‬

‫کو پہلے نیکی اور اچھائی کی تعلیم دیتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کے موا عوام کے ہر فرد کا ایک ذاتی مقصد یا مفاد بھی ہے جو ریاست کےبنیادی مقصد کا ایک‬

‫فراہم کرتا ہے ۔ فرد ریاست کے بغیروحشی جانور کی مانند ہے جبکہ ریاست از حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے علیحدہ ہے ۔ ریاست چونکہ ہم نوع اور ہم فطرت کا‬

‫اتحاد ہے اس لیے ریاست کے آگے فرد یا افراد کے حقوقکیکوئی اہمیت نہیں ہے ۔‬ ‫شہری کو ایک انسان بناتی ہے اور اسے انسان کا درجہ عطاکرتی ہے ۔‬

‫ارسطو کے خیال میں ریاستکی کل چھ قسمیں ہیں جن میں اصل مقسمیں تین‬ ‫ارسطو کے مطابق ریاست کی بنیادی اکائی ایک خاندان ہے جس کی ابتدا‬

‫ایک فرد سے ہوتی ہے فرد شادی کرکے خاندان بناتاہے ۔ خاندان میں اس کے ہر ہیں اور دوسری تین اصل تین قسموں کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ۔ ریاست کی پہلی‬

‫بچے اور غلام شامل ہوتے ہیں ۔ بہت سے خاندان ملکر ایک گاؤں اور بہت ۔ اصل قسم بادشاہت ہے جس کی بگڑی ہوئی شکل استبدادیت ہے ۔ ریاستکی دوسری‬

‫اصل قسم اشرافیہ ہے جسکی بگڑی ہوئی قسم چند سری ہے ۔ ریاستکی تیسری اصل‬
‫گاؤں مل کر ایک شہر (‪City or Polis‬‬
‫) وجود میں آتا ہے اور یہی ریاست قسم آئینی حکومت ہے جسکی بگڑی ہوئی شکل جمہوریت ہے ۔ بادشاہت میں بادشاہ‬

‫سٹیٹ (‪ ) State‬ہے ۔ ( یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ قدیم یونانی شہروں کو ذ‬

‫قانون اور اخلاقی طور پر اپنی ذہانت ‪ ،‬لیاقت ‪ ،‬بہادری اور نیکی کی بدولت عوام پر‬ ‫ریاستکی اصل صورت قرار دیتے تھے ۔ )‬

‫حکومت کرتا ہے جبکہ استبدادیت میں ظالم اور جابر حکمران کسی اعلیٰ ارفع عقلی اور‬ ‫ارسطو کے خیال میں خاندان اور گاؤں ریاست کا مواد یا مادہ ہیں ۔ وہ وقت‬
‫اخلاقی صلاحیتکے بغیر عوام کی مرضی کے خلافحکمرانی کرتہاے۔اشرافیہ میں ہاکسی حد تک اپنای۔ا اس طرح ایکوناس سے برک تک سارے کا سارا فلسفہ کسی نہ‬

‫پر ایک‬ ‫اور اچھے قسم کے امراء اصولوں اور ضابطوں کے ذریعے ریاستپر حکومتکہ کسی طرح ارسطو کے فلسفہ سے متاثر ہے ۔بلاشبہ سیاسیات" علم سیاسیات‬

‫ہیں جبکہ چند سری حکومت میں چند عاقبتنا اندیش‪ ،‬خود غرض اور خود پرسحتکما بیش قیمت‪ ،‬عظیم اور مایہ ناز‬
‫کتاب ہے ۔ "‬

‫بوطیقا ( ‪ 335-332‬ق م ) ارسطو کی وہ تصنیف ہے کہ جس کا اثر آج تک‬ ‫ہوتے ہیں ۔ آئینی جمہوریت میں ایک ایسی قانونی اور باضابطہ عوامی جمهوریت بو‬

‫ہے جس میں ہر شہری فطری ‪ ،‬ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے باعث اپنے حقوق کارڈ جاری و ساری ہے ۔ اس کتاب میں فن شاعری کا ایک مکمل اور مربوط نظریہ موجود‬

‫اور اسے اپنے فرائض کا شعور ہوتا ہے ۔ اس ریاست کا ایک باتاہ ہے اس نے فن شاعریکا جواز پیش کرتے ہوئے افلاطون کے شعری کے بارے میں‬ ‫کرتا ہے‬
‫ان دعویکوکہ شاعر جھوٹا اور حقیقت سے تین درجے ہٹا ہوا ہوتا ہےکو باطل قرار‬ ‫آئین ہوتا ہے جبکہ جمہوریت ایک جاہل ہجوم کی حکومت ہوتی ہے ۔‬

‫فاسٹر کے مطابق ارسطو نے اپنی اس تصنیف میں فرد کی خوشی اور خوشحالی دیا اور شاعری کو ذہنی صحت کے لیے شفا بخش قرار دیا ۔ اس نے شاعری کو ذہنی‬

‫ے ۔ ارسطو تسکین قرار دیتے ہوئے کتھارسس کی اصطلاح وضع کی ۔ جسے جدید نفسیات میں‬
‫ہا‬‫زور دیا ہے اور ریاست کو خوشی اور خوشحالی کے حصول کا ذریعہ بتای‬

‫یہکتاب تحمیلی اور عملی دونوں عناصر سےمالا مال ہے ۔ ڈاکٹر ٹیلر کا موقف ہےکہ‪ ،‬ارتفاع (‪ )Subliation‬کا نام دیا گیا ہے ۔ ارسطو کے نزدیک شاعری کی ضرورت‬

‫تصنیف اتنے وسیع موضوع پر بہت معمولیکتاب ہے ۔ بارکر کے مطابق لیکچروں کا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی کیونکہ یہ انسانی ذہن میں امید و ہمتکی لہرکو مہمیز‬

‫تین واضح مجموعوں کو سیاسیات میں جمع کر دیا گیاہے جبکہ ڈاکٹر راس اسے پانچ مختلف کرتی ہے اور یہی دراصلکتھارسس ہے ۔‬

‫مقالاتکا مجموعہ لکھتے ہیں ۔‬


‫ارسطو نے شاعری کے دفاع میں اس کتاب میں یہ نظریہ اختیار کیا کہ شاعر‬

‫اس عظیمکتابکا ‪ 13‬ویں صدی میں عربی اور پھر لاطینی زبانوںمیں ترجمہ ) جھوٹا نہیں ہوتا کیونکہ جو وہ کہتاہے مستقبل میں ممکن بھی ہو سکتا ہے یہکتاب بنیادی‬

‫طور پر شاعری کے دفاع میں لکھی گئی ہے ۔ جس پر آج بھی اتفاقی یا اختلافی تنقید‬ ‫گیا ۔ ارسطو کو یورپ میں متعارفکرانے کا سہرا اس کے شاگرد سینٹ تھام‬

‫ایکوناس کے سر پر ہے جسکی تصانیف نے چرچکی تعلیم اور ارسطو کی تعلیم میں رہا جاری ہے ۔‬

‫"بوطیقا " کے کل پچنیں چھوٹے چھوٹے باب ہیں جن میں واضع کیا گیا ہے‬ ‫پیدا کیا اور ارسطو سے کیتھولک یورپ متاثر ہوا ۔ بارکر کے مطابق " ارسطو نے‬

‫شاعری ایک قدرتی عمل ہے ‪ ،‬سارے فنون نقل کی صورتیں یقیناً ہیں لیکن‬ ‫سینٹ تھامس کو سکھایا‬
‫۔ سینٹ تھامس کے ذریعے اس نےکیتھولک چرچکو سکھایا۔ کہ‬

‫سینٹ تھامس ہی کے ذریعے اس نے رچرڈ ہو کر کو سکھایا جس نے اس ماخذ سے سارے فنون نقل کے ایک دوسرے سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں ‪ ،‬مختلف‬

‫قانون اور حکومتکا نظریہ اخذ کیا‬


‫۔ لوک ہوکر کا شاگرد تھا جس کا نظریہ برک نے چیزوں کی نقل کرتے ہیں اور یہ نقل کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں ۔ شاعر کا‬

‫نس‬ ‫۔رشااوعر‬
‫ر ٹار‬ ‫ےہے‬ ‫کاومجیہڈیسکےا ممقوصسدیاقنیستانپکیودا ہاوستی‬ ‫تب‬
‫احےر ک۔ی‬ ‫ریں‬ ‫جش‬
‫سک م‬ ‫منیہںےپی‬ ‫۔ اس طرح ارسطو کی سیاسیات اور انگریزی سیاسی افکار کے درمیان ترھویں ذحری‬
‫اعلہتعزب‬
‫مال‬
‫یاجنڈکیکوا‬ ‫دت‬ ‫سب‬ ‫ہ‬ ‫اپنایا‬

‫اور اٹھارویں صدی میں نہ صرف مشابہت ہے بلکہ الحاق بھی ہے ۔ ارسطو سے‬

‫مقصد انکو بہتردکھانا ہے ۔ اس فن کا تعلق انسانی فطرت سے ہے ۔ نقل کرنے کی‬ ‫دانتے ‪ ،‬میکاولی بودین اور ہیرنکن متاثر ہوئے اور بیگل نے اس کے طرز فکر کو‬
‫;‬
‫شاعری‬

‫اورتاریخ میں واضح فرق یہی ہے کہ تاریخ اسچیزکو بیانکرتی ہے جو ہو چکیہے‬ ‫جباتانسان میں ازل سے موجود ہے ۔ وہ ساری مخلوق میں سب سے زیادہ فعال‬
‫اور نقل سے وجود میں آنے والے کاموں سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ شاعری‬
‫جبکہ شاعری اس قسم کی چیزوں کو سامنے لاتی ہے جو ہو سکتی ہیں ۔ شاعری آفاقی‬

‫صداقتوں سے جبکہ تاریخ مخصوص واقعات سے سروکار رکھتی ہے ۔ ارسطو کے خیال‬ ‫موضوع بقتنا بلند ہوگا نظم بھی اتنی ہی بلند ہو گی ۔ سنجیدہ شاعر شائستہ اعمال اور از‬

‫تا مظہر ہونا چاہیے ۔ اس کے مختلف واقعاتکی ترتیب اس‬


‫میں پلاٹکو ایک وحدک‬ ‫لوگوں کے کاموں کو پیش کرتے ہیں جبکہ کم ذہن شاعر اونی لوگوں کی عکاسی کرہ‬
‫ہیں ۔‬
‫طرح ہونی چاہیے کہ اگر ان میں سے کسی کو بھی خارجکر دیا جائے تو وحدتکا اثر‬

‫خراب ہو جائے ۔ نیز اسے محض من کر کوئی شخص صرف واقعاتکی بنا پر خوف اور‬ ‫کو ابھارکر ایسے نہ‬
‫ارسطو کے نزدیک ٹریجڈی ترس اور خوف کے جذبات‬

‫ترس کے عالم میں آجائے ۔‬ ‫پر لے آتی ہے جہاں جذبات امید و ہمت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس‬
‫با‬
‫ٹریجڈی میںکردار ‪ ،‬پلاٹ‪ ،‬طرز ‪ ،‬خیال ‪ ،‬تماشا‪ ،‬گیت اور ہیئت مجموعی کی موزونیز‬
‫بوطیقا کے پہلے دوسرے اور تیسرے باب میں شاعرانہ نقل کے ذرائع‬

‫عوامل اور طریقوں پر بحثکی گئی ہے ۔ ارسطو کے نزدیک کچھ فنکاریا تو نظریاتی علم‬ ‫فارم "‬ ‫بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اس کے نزدیک ٹریجڈی جذباتکو‬

‫سے یا پھر طویل مشق سے اشیاء کی شکل اور ان کے رنگکی نقلکی ادائیگی پر‬ ‫کرتی ہے جس کے باعث شاعری انسان کے اندر توازن پیدا کرتی ہے ۔ آ‬
‫اغناز‬

‫قدرت رکھتے ہیں اور دوسرے فنکاریہی عمل آواز کے استعمال سے کرتے ہیں ۔ فن‬ ‫صداقتوں پر مبنی ہونے کے باعث شاعری تاریخ کے مقابلے میں زیادہ فلسفیانہ اوران‬

‫کی وہ صنف جو صرف زبان سے تعلق رکھتے ہے‬


‫‪ ،‬چاہے زباننثر ہو یا نظم اور نظم‬ ‫زیادہ لائق توجہہے ۔ ارسطو کے خیال میں زندگی کی کوئی فارم نہیں ہے جہا‬
‫ٹریجڈی میں آغاز ‪ ،‬وسط اور خاتمہ ہوتا ہے اور ہر حصہ ایک دوسرے سے پیوستہ‬
‫خواه مختلف بحروں کا مجموعہ ہو یا ایک خاص قسم کی بحرکا اب تک بے نام ہے ۔ ہم یہ‬

‫کہہ سکتے ہیںکہ عام لوگ شاعری کا تعین بحر سے کرتے ہیں اور اس طرح نوحہ خواں‬ ‫ہے ۔ شاعرکی غلطی صرف اس وقت غلطی ہے جب وہ نقل کرنے کی صلاحیت میمر‬

‫شاعر یا رزمیہ شاعر کے الفاظ استعمالکرتے ہیں ۔ وہ انہیں شاعر اس لیے نہیں کہتے‬ ‫ناکام ہو ۔ شاعر محض نقال نہیں ہے بلکہ وہ نقل کے ذریعے عالم مثال تک پہنچتا ہے ۔‬

‫کہ وہ نقل پیش کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ بحریں استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ‬ ‫ارسطو نے بوطیقا میں نقل‪ ،‬پلاٹ ‪ ،‬سقم اور تزکیہ کی پانچ بنیادی اصطلاحوں‬

‫لوگ بھی شاعر ہی کہلاتے ہیں جو طبی اور سائنسی مضامین نظم میں لکھتے ہیں ۔ تاہم‬ ‫استعمال کیا جن پر آج بھی بحث جاری ہے خصوصاً مغرب میں تنقید یا تو ارسطوت‬

‫ہو مراور ایمی ڈوکلزکے کلام میں سوائے بحر کےکوئی چیزمشترک نہیں ہے اور اس‬ ‫ےتیجے میں یا پھر ان دونوں کے امتزاج سے پیدا ہوئی‬
‫اتفاق کنےتیجے میں یا اختلافک ن‬

‫لیے اگر ایککو شاعر کہنا درست ہے تو دوسرےکو شاعر سے زیادہ فطری فلسفی کہنا‬ ‫ہے ۔ بوطیقا میں ارسطو نے نقل ‪ ،‬شاعری کی اصل‪ ،‬شاعری کی اقسام اور ٹریجڈی کے‬

‫درست ہو گا۔ اسی طرح ایک ایسا مصنف جو اپنی نقل میں مختلف بحریں استعمالکر کے‬ ‫اصولوں پر بحث کرتے ہوئے شاعری کا ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے ۔ ارسطو کے‬

‫نزدیک نقل کا مطلب حقیقی خیال کے مطابق پیدا کرنا ‪ ،‬تخلیق کرنا ہے جبکہ فطرتکا‬
‫پیش کرتا ہےکو بھی شاعرہی کہا جائے گا۔‬

‫ارسطو کے نزدیک غنائی شاعری ‪ ،‬ٹریجڈی اور کامیڈی ایسے فنون ہیں جو‬ ‫مطلب تخلیقی قوت اور تخلیقی اصول ارسطو کے نزدیک شاعرکا کام ایسی چیزیں بیانکرنا‬

‫ہے جو ہوسکتی ہیں ۔‬


‫وزن ‪ ،‬موسیقی اور باقاعدہ بحروں کو استعمال میں لاتے ہیں ۔ البتہ غنائی اضاف ان‬
‫‪66‬‬
‫‪67‬‬

‫وجود میں آئے ہوئے کاموں سے لطف اندوز ہونے کی جبلت بھی موجود ہے ۔کیونکہ‬ ‫تمام ذرائعکو ایک ساتھ استعمالکرتی ہیں جبکہ ٹریجڈی اور کامیڈی انکو الگ الگ‬

‫یکے بعد دیگرے استعمال میں لاتی ہیں ۔‬


‫ہم ان چیزوںکی صحیح نقل سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں جن کا دیکھنا ویسے ہمارے‬

‫لیے تکلیف دہ ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ علم حاصلکرنا صرف فلسفیوں ہی کے‬ ‫نقل کرنے والے فنکار " انسانوںکو عمل کرتے‬ ‫ارسطو کے نزدیک چونکہ‬

‫لیے ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ‪ ،‬خواہ انکی صلاحیتیں کتنی ہی محدود‬ ‫ہوئے پیشکرتے ہیں اور یہ انسان لازما " یا تو " نیک " یا پھر "بد " ہوتے ہیں لہذا ان‬

‫کیوں نہ ہوں ‪ ،‬ایک بہت بڑی مسرت ہے ۔ وہ ہم شکل اور مشابہ چیزیں دیکھکر اس‬ ‫انسانوں میں یا تو ہم سے بہتریا ہم سے بدتر یا پھر اسی قسم کے لوگ ‪ ،‬جیسے ہم خود ہیں‬

‫لیے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔‬ ‫پیش کیے جاتے ہیں ۔ لہذا ہر قسم کی نقل میں ‪ ،‬اس قسم کا فرق اور اختلاف لازمی ہے‬

‫نقلکرنے کی جبلت ہمارے لیے اسی طرح فطری ہے جس طرح موسیقی اور‬ ‫اور اس طرح وہ قسمیں بھی ان اشیاء کے فرق کے مطابق جنکو وہ پیشکرتی ہیں ‪،‬‬

‫وزن کا احساس اور بحریں بھی واضح طور پر وزن ہی کے الگ الگ ٹکڑے ہیں ۔ ان‬ ‫مختلف ہوںگی ۔ بیہ تنوع رقص میں بھی ہو سکتا ہے اور بانسری اور لائر سے پیداکی‬

‫فطری اور جبلی رجحانات سے شروع ہو کر اور اپنی ابتدائیکوششوں سے رفتہ رفتہ‬ ‫ہوئی موسیقی میں بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ اس فن میں بھی ہو سکتا ہے جس کی بنیاد زبان‬

‫ترقیکر کے انسان نے آخر کار اپنی جدت اور برجستگی سے شاعری ایجادکرلی لیکن‬ ‫ہے ‪ ،‬چاہے وہ نثر ہو یا نظم جس میں موسیقی استعمال نہ کی گئی ہو ۔ یہی بات غنائی‬

‫منفرد شاعروں کے مزاج کے لحاظ سے شاعری جلد ہی دو دھاروں میں تقسیم ہوگئی ۔‬ ‫شاعری میں بھی ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ فرق ہے جو کامیڈی اور ٹریجڈی میں امتیاز پیدا‬

‫زیادہ سنجیدہ شاعروں نے شائستہ اعمال اور اعلی لوگوں کے کاموںکو پیش کیا جبکہ کم‬ ‫کرتا ہے‪ ،‬کیونکہ کامیڈی کا مقصد انسانوںکو اس سے بد تر دکھاناہے ۔‬

‫ذہن شاعروں نے ادنی لوگوں کے بارے میں لکھا ۔ اس طرح اول الذکر نے حمد اور‬ ‫تین عناصر یعنی ذرائع سے ان اشیاء سے جنکو پیش کیا گیا ہے اور ان کے‬

‫طنزیے "لکھے ۔‬ ‫قصیدے لکھے اور آخری الذکر نے‬ ‫نقلکرنے والے فنون میں فرقکیا جا سکتا ہے ۔ اس کے‬ ‫اداکرنے کے طریقے سے‬

‫ارسطو کے نزدیک ہو مرجہاں سنجیدہ طرز میں سب سے بڑا شاعر تھا اور طرز‬ ‫نزدیک ہومر اور سوفوکلیز دونوں چونکہ نیک لوگوں کو پیش کرتے ہیں اور دونوں‬

‫کے کمال اور زندگی کو پیشکرنے کی ڈرامائی صفت میں یکتا تھا ‪ ،‬وہاں مضحک چیزوںکو‬ ‫انسانوںکو عملکرتے ہوئے دکھاتے ہیں اس لیے دونوں نقال ہیں اور اسی باعث ان‬

‫ڈرامائی عنصر عطا کر کے اس نے پہلی بار ایک ایسی راہ دکھائی جو کامیڈی نے اختیار‬ ‫کی تصانیف کو ڈرامہ کہا جاتا ہے اور ڈوریا والے ان دونوںکو کامیڈی اور ٹریجڈی‬

‫کرلی ۔ اس کی نظم ”مارگائٹس " ہماری کامیڈیوں سے وہی رشتہ رکھتی ہے جو اسکی‬ ‫کا موجد قرار دیتے ہیں ۔‬

‫اوڈیسی " ٹریجڈیوں سے رکھتی ہیں ۔ جب ٹریجڈی اور کامیڈی وجود‬ ‫اور‬ ‫ملیڈ‬ ‫چوتھے باب میں ارسطو نے شاعری کا مخرج اور اس کا ارتقا بیانکیا ہے ۔ اس‬

‫میں آگئیں تو جن لوگوں کا پیدائشی رجحان ایک قسم کی شاعری کی طرف تھا انہوں نے‬ ‫کے نزدیک شاعری کی تخلیق عام طور پر دو اسباب جو انسانی فطرت سے وابستہ ہیں کی‬

‫طنزیہ " کے بجائے کا میڈیاں لکھیں اور جن کا رجحان دوسری طرف تھا انہوں نے "‬ ‫بنا پر ہوتی ہے ۔ نقل کرنے کی جبلت انسان میں ازل سے موجود ہے ۔ وہ دوسری‬

‫مخلوق سے اس لیے مختلف ہے کہ وہ ساری مخلوق میں سب سے زیادہ "نقال " ہے‬
‫ایک" کے بجائے ٹریجڈیاں لکھیں کیونکہ یہ دونوں نئی اصناف پچھلی اصنافکے‬

‫مقابلہ میں زیادہ عظیم الشان اور زیادہ وقیع سمجھی گئیں ۔‬ ‫اور وہ اپنے ابتدائی سبق نقل ہی کے ذریعہ سکھتے ہیں ۔ پھر ہم سب میں نقل سے‬
‫‪68‬‬
‫‪69‬‬

‫ہےکہ مصنوعی چروں ‪ ،‬پرولوگ ‪ ،‬ایکٹروں کی تعداد اور اس قسم کی دوسری چیزوں کا‬ ‫ابتدا میں ٹریجڈی اورکامیڈی دونوں طبع زاد تھیں ۔ ایککی ابتدا ان لوگوں‬

‫نے کیا ۔ البتہ ان شاعروں کے آنے تک جنہوں نے اس میں کمال خاص‬ ‫اضافہکس‬ ‫سے ہوئی جو " ڈ تھراب " گاتے تھے اور دوسری کی ابتدا ان لوگوں سے ہوئی جو "‬

‫کیا کامیڈی ایک مستقل بیت اختیار کر چکی تھی ۔ ایتھنزمیں سب سے پہلےکریٹیس نے‬ ‫فیلک "گیت گاتے تھے اور جو آج بھی ہمارے بہت سے شہروں میں ایک روایتی‬

‫اور سسلی میں اپرکار مس اور فور مس نے عام قسم کے پلاٹ اور حصوںکو اختیارکیا ۔‬ ‫ادارہ کی طرح موجود ہیں ۔ رفتہ رفتہ ٹریجڈی ترقی کرتی گئی یہاں تککہ بہت سی‬

‫ارسطو کے نزدیک ایک شاعری ٹریجڈی سے اس طرح مماثل ہےکہ وہ بھی‬ ‫تبدیلیوں کے بعد اس نے ایک فطری شکل اختیار کرلی ۔ اور جو مستقل ہوگئی ۔‬

‫باوقار شاعری کے ذریعے سنجیدہ عمل پیش کرتی ہے ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ‬ ‫ایسکیکس پہلا شخص تھا جس نے ایکٹروںکی تعداد ایککی بجائے دوکر دی ۔کورسکا‬

‫ایک ایک ہی بحر میں ہوتی ہے اور اس کی شکل افسانوی ہوتی ہے ۔ ٹریجڈی ‪ ،‬جہاں‬ ‫حصہ کم کر دیا اور مکالمےکو اولیت عطاکی ۔ سوفوکلیز نے تین ایکٹر پیش کیے اور منظر‬

‫تک ممکن ہو ‪ ،‬سورجکی ایک گردش کے واقعاتکو سامنے لاتی ہے یا اس وقفے سے‬ ‫( سیزی ) کا اضافہکیا ۔ جہاں تکٹریجڈی کی عظمت اور شکوہ کا تعلق ہے تو یہ صفت‬

‫کچھ بڑھ جاتی ہے جبکہ ایپک میں عمل کے وقتکی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ ان کے‬ ‫کافی عرصے کے بعد پیدا ہوئی ‪ ،‬جبکہ " سیٹرک " ڈرامہ کے طریقوں سے آگے بڑھتے‬

‫اجزاء میں سے کچھ ایسے ہیں جو دونوں قسموں میں مشترک ہیں اور کچھ محض ٹریجڈی‬ ‫ہوئے ٹریجڈی نے ہلکے پلاٹ اور مضحک طرزکو ترککر دیا ۔ اب اس کی بھی بحر "‬

‫بی سے مخصوص ہیں ۔ ایک کے تمام عناصر ٹریجڈی میں ملتے ہیں جبکہ ٹریجڈی کی تمام‬ ‫رو کی ٹیڑا میٹر " کے بجائے آئی امبک ہوگئی ۔ پہلے شاعر میرا میٹر اس لیے استعمال‬

‫چیزیں ایپک میں نہیں ملتیں ۔‬ ‫کرتے تھےکہ وہ سیٹرک شاعری کرتے تھے ۔ جو رقص سے زیادہ قریب تھی لیکن‬

‫ارسطو کے خیال میں ٹریجڈی ایک ایسے عملکی نقل یا نمائندگی ہے جو سنجیدہ‬ ‫جب مکالمہ استعمال میں آنے لگا تو اس کے ساتھ قدرتی طور پر مناسب بحر بھی‬

‫توجہ کے لائق ہو وہ اپنی جگہ مکمل بھی ہو اورکچھ وسعت بھی رکھتی ہو ۔ ایسی زبان‬ ‫استعمال میں آنے لگی کیونکہ آئی امیک بحر تمام بحروں میں سب سے زیادہ بات‬

‫میں ہو جو فنی صنائع سے معمور ہو اور ڈرامے کے مختلف حصوں کے مناسب ہو ۔‬ ‫چیت سے قریب ہے ۔ یہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے‬

‫عملکی شکل میں پیش کی گئی ہو ‪ ،‬خوف اور ترس کے ذریعے جذباتکا تزکیہ بھیکرتی‬ ‫ساتھ گفتگو کے دوران آئی امیک بحر میں جملے ادا کرنے لگتے ہیں ‪ ،‬برخلاف اس کے‬

‫اس میں گیت اور طرز ادا کا ہوتا‬ ‫ہو ۔ تماشہ ٹریجڈی کا لازمی حصہ ہے ۔ ثانیا‬ ‫ہم شاذ و نادر ہی ہیکسا میٹر میں بات کرتے ہیں اور یہ اسی وقت ہوتا ہی جب ہم بات‬

‫ضروری ہے کیونکہ یہی نمائندگی کا ذریعہ ہے ۔ ارسطو کے خیال میں ٹریجڈی میں عمل‬ ‫چیت کے عام لیجے سے الگ ہوتے ہیں ۔ ایک اور تبدیلی واقعات اور ایکٹکی تعداد‬

‫میں اضافہ تھا ۔‬


‫ہی کی نقل ہوتی ہے اور یہ عمل ان لوگوں سے وجود میں آتا ہے جو خیالات اور‬

‫کردارکی منفرد صفات کا اظہار کرتے ہیں اور ان ہی کے ذریعہ ہم عملکی صفات کا‬ ‫بوطیقا کے پانچویں باب سے چوبیسویں باب تک کامیڈی ایپک اور ٹریجڈی‬

‫تعین کرتے ہیں ۔ خیالات اور کردار عمل کے دو قدرتی اسباب ہیں اور ان ہی پر‬ ‫کی ابتدا تعریف‪ ،‬پلاٹ‪ ،‬تنیخ ‪ ،‬انکشاف ‪ ،‬مصیبت ٹریجڈی کے حصے ‪ ،‬خیال زبان‬

‫سب لوگوں کی کامیابی وناکامی کا انحصار ہے ۔ عمل (‪) Action‬کی نقل ہی ٹریجڈی کا‬ ‫وبیاں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ارسطو کے نزدیک کامیڈی میں خراب قسم کے لوگ‬

‫عمل میں حصہ لینے والوں کی فطرت‬ ‫پلاٹ ہوتا ہے ۔ اس کا کردار وہ ہے جو ہمیں‬ ‫پیش کیے جاتے ہیں ۔ کامیڈی کی ابتدائی تاریخ اخفا میں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں‬
‫‪71‬‬ ‫‪70‬‬

‫ہے جو ضروری یا عام نتیجہ کے طور پر کسی چیزکے بعد آتا ہے اور اس کے بعد کچھ‬ ‫کی تعریف کرنے میں مدد دیتا ہے اور خیال کا مطلب کسی باتکو ثابتکرنا یاکوئی‬

‫اور نہیں آتا ۔ " وسط " وہ ہے جو کسی چیز کے بعد آتا ہے اور اس کے بعد بھی کوئی‬ ‫رائے دیناہے ۔‬

‫چیز آتی ہے ۔‬ ‫ارسطو کے نزدیک ٹریجڈی کے چھ ضروری حصے ہوتے ہیں جو اس کی صفت کا‬

‫ارسطو کے مطابق خوبصورتی اور حسن ‪ ،‬وسعت اور ترتیب سے تعلق رکھتے‬ ‫پلاٹ کردار زبان وبیان ‪ ،‬خیال ‪ ،‬تماشا او رگیت ہیں ۔ ان‬ ‫تعینکرتے ہیں ۔ یہ حصے‬

‫ہیں اس لیے ایک بہت ہی چھوٹی مخلوق اس لیے حسین نہیں ہوگی کیونکہ اسے دیکھ‬ ‫میں سے دو ان ذرائع سے تعلق رکھتے ہیں جن سے عمل ادا کیا جاتا ہے ‪ ،‬ایک ادائیگی‬

‫لینے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور اس کا تاثر جلد ہی بگڑ جائے گا ۔ اسی طرح نہ کوئی‬ ‫کے ڈھنگ سے اور تین ادا ہونے والی اشیاء سے تعلق رکھتے ہیں ۔‬

‫بہت بڑی چیزی حسین ہوگی کیونکہ اسکو ایک نگاہ میں دیکھنا ممکن نہ ہوگا اس لیے‬ ‫ان عناصر میں سب سے اہم پلاٹ یعنی واقعاتکی ترتیب ہے کیونکہ ٹریجڈی‬

‫اس کے اتحاد اور وسعتکا اثر دیکھنے والے پر نہ پڑےگا لہذا ایک مناسب وسعتکا‬ ‫عمل اور زندگی خوشی اور غم کی نقل ہے اور خوشی و غم عمل سے تعلق رکھتے ہیں ۔‬

‫ہونا ضروری ہے تاکہ وہ نظر میں سما سکے ۔ عملکی مخصوص صفت کے لحاظ سے حد‬ ‫زندگی کا مقصد ایک قسم کا عمل ہے اور عمل کے لیے کردار ضروری ہے ۔ اس طرح‬

‫قائم ہونی چاہیے ۔ اس طرح ایک قصہ جتنا لمبا ہوگا اتنا ہی خوبصورت ہوگا بشرطیکہ وہ‬ ‫واقعات اور پلاٹ ہی وہ مقصد ہیں جن سے ٹریجڈی کو سروکار ہے ۔کوئی ٹریجڈی‬

‫غیرمہم نہ ہو اور ضرورت کے مطابق اس میں اتنی تبدیلی لائی جاسکے کہ پریشانی سے‬ ‫"پہچان "‬ ‫اور‬ ‫" تنسیخ "‬ ‫آسکتی ۔‬ ‫نہیں‬ ‫میں‬ ‫وجود‬ ‫بغیر‬ ‫کے‬ ‫عمل‬

‫خوشی اور خوشی سے پریشانی کا اظہار مناسب طریقہ سے ہو سکے ۔ پلاٹکو ایک مکمل‬ ‫( ‪ )Reversal and Recognition‬دراصل پلاٹ ہی کے حصے ہیں جو ٹریجڈی‬

‫وحدت کا مظہر ہونا چاہیے اس کے مختلف واقعاتکی ترتیب ایسی ہونی چاہیےکہ اگر‬
‫میں اہم مقام رکھتے ہیں اور جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔‬

‫ان میں سے کسی ایککو ذرا ہٹاکر دوسری جگہ رکھ دیا جائے یا خارجکر دیا جائے تو‬ ‫پلاٹ ٹریجڈی کا پہلا اور بنیادی جزو ہے ۔ اس کی حیثیت ٹریجڈیکی رگوں‬

‫وحدت کا اثر بری طرح خراب ہو جائے کیونکہ اگر کسی چیزکی موجودگی یا عدم‬ ‫میں خون کی سی ہے ۔ کردار کا درجہ اس کے بعد آتا ہے ۔ یہی بات مصوری کے‬

‫موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس‬ ‫بارے میں بھی کی جاسکتی ہے ۔ ٹریجڈی کی تیسری صفت " خیال " ہے ۔ یہ ڈرامے‬

‫مکمل چیزکا اصلی اور ضروری حصہ نہیں ہے ۔‬


‫کی تقریروں کا وہ جزو ہے جو فن سیاست اور خطیبانہ زبان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ‬
‫ارسطو کے خیال میں شاعرکو شعر بنانے والے سے زیادہ پلاٹ کا بنانے والا‬
‫چوتھا مقام تقاریر کے زبان و بیان کا ہے ۔ باقی عناصر میں موسیقی سب سے زیادہ اہم‬
‫ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنی نمائندگی یا نقل کی وجہ سے شاعر ہوتا ہے اور جس چیزکی وہ‬
‫چیز ہے ‪ :‬ڈرامہ میں تفریح بخش اضافے کا درجہ رکھتی ہے ۔‬
‫نمائندگی کرتا ہے وہ " عمل " ہوتا ہے اور اگر وہ ان چیزوں کے بارے میں لکھتاہے ‪،‬‬ ‫ٹریجڈی ایک عمل کی نقل ہے جو مکمل و متحد ہوتی ہے اور ایک خاص‬

‫جو حقیقت میں ہو چکی ہیں ‪ ،‬تو اس بات سے وہ کم درجہ کا شاعر نہیں ہو جاتا کیونکہ جو‬ ‫وسعت رکھتی ہے ۔ ایک مکمل اتحاد یا اکائی وہ ہے جس میں ابتداء وسط اور خاتمہ‬

‫چیزیں ہو چکی ہیں انکو امکان اور قیاس کے قانون کے مطابق لانے میںکوئی چیزمانع‬ ‫ہو ۔ ابتدا " وہ ہے جو لازمی طور پر کسی دوسری چیز کے بعد نہیں آتی حالانکہکوئی‬

‫نہیں ہے ۔ اس لیے وہ انکی بابت لکھتے ہوئے بھی شاعر ہی رہے گا ۔ سادے پلاٹ‬
‫خاتمہ " وہ‬ ‫اور چیز بھی موجود ہوتی ہے یا اس کے بعد آتی ہے ۔ برخلاف اس کے‬
‫‪72‬‬
‫‪73‬‬

‫ویڈیوں میں مشترک ہوتے ہیں ۔ ایکٹروں کے گیت اور "کو مائے " صرف کچھ ہی‬ ‫اور " عمل " میں سب سے خراب وہ ہوتے ہیں جو قصہ در قصہ چلتے ہیں ۔ اس کے‬

‫ویڈیوںکی خصوصیت ہیں ۔‬ ‫نزدیک ٹریجڈی صرف ایک مکمل عمل ہی کی نمائندگی ( نقل ) نہیں ہے بلکہ ایسے‬

‫پرولوگ ٹریجڈی کے اس حصہ کا مکمل جزو ہے جو پیروڈیاکورس سے پہلے آتا‬ ‫واقعاتکی بھی نقل ہے جو خوف اور ترس کے جذبات پیدا کرتے ہیں ۔ یہ اثر اس‬

‫ہے ۔ اسی سوڈ ایک ٹریجڈی کے اس حصہ کا مکمل جزو ہے جو مکملکورسگیت کے‬ ‫وقت اورگہرا ہو جاتا ہے جب واقعات غیر متوقع طور پر منطقی تسلسل کے ساتھ پیش‬

‫در میان آتا ہے ۔ ایکوڈ ایک ٹریجڈی کے اس حصے کا مکمل جزو ہے جس کے بعد کوئی‬ ‫کیے گئے ہوںکیونکہ میکانکی یا اتفاقی طریقے پر پیش کرنے کے مقابلے میں اس طور پر‬

‫وہ زیادہ قابل توجہ ہوں گے ۔‬


‫کورس گیت نہیں آتا ۔کورس کے حصے میں پیروڈکورس سے پہلے کی مکمل تقریر کو‬

‫کہتے ہیں اور اساسیمون وہ کو رس گیت ہے جسے گانے والے (کورس) بغیربحروں کے‬ ‫ارسطو کے خیال میں کچھ پلاٹ سادہ اور کچھ پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ اس کا ظاہری‬

‫التزام کے گاتے ہیں ۔ "کو موس " ایک ایسے نوحےکو کہتے ہیں جس میں کورس اور‬ ‫سبب یہ ہےکہ وہ عمل (‪ ) Action‬جن کا یہ اظہارکرتے ہیں ‪ ،‬ایک قسم یا دوسری‬

‫ایکٹردونوں حصہ لیتے ہیں ۔‬ ‫قسم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سادہ عمل وہ ہے جس میں قسمتکی تبدیلی بغیرکسی الٹ‬

‫ٹریجڈی کا ڈھانچا پیچیدہ ہونا چاہیے اور اس میں‬ ‫اس کے نزدیک بہترین‬ ‫پھیر یا انکشاف کے پیدا ہو ۔ پیچیدہ عمل وہ ہے جس میں تبدیلی ‪ ،‬تنسیخ یا انکشاف یا‬

‫ایسے عوامل پیش کیے جانے چاہیں جو خوف اور ترس کے جذباتکو ابھاریں ‪ ،‬ایک‬ ‫دونوں ذریعہ سے وجود میں آئی ہو ۔ ان چیزوں کا ارتقا پلاٹکی ترتیب کے ساتھ‬

‫‪ed‬‬
‫دلچسپی ہونی چاہیے ‪،‬دو ہری دلچسپی‬ ‫اچھی طرح سوچے سمجھے ہوئے پلاٹ میں واحد‬ ‫اس حد تک ہونا چاہیے کہ وہ ان واقعات کا جوگزر چکے ہیں‪ ،‬یقینی اور قرین قیاس‬

‫نہیں ۔ اس پلاٹ میں قسمتکی تبدیلی پریشانی سے خوشحالی کی طرف نہیں بلکہ متضاد‬ ‫نتیجہ معلوم ہوںکیونکہ اس چیز میں ‪ ،‬جو کسی چیز کے نتیجکےے طور پر ظہور میں آتی ہے‬

‫اور اس چیز میں ‪ ،‬جو اس کے بعد ظہور میں آتی ہے ‪ ،‬بڑا فرق ہے ۔‬
‫سمت میں ہوگی یعنی خوشحالی سے پریشانی کی طرف اور یہ عمل بدکاری کی وجہ سے‬
‫نہیں بلکہ کسی بڑی غلطیکی وجہ سے ہوگا ۔‬ ‫ایک حالت سے بالکل ایسی متضاد حالت میں تبدیل‬ ‫اس کے نزدیک " تنسیخ‬

‫ارسطو کے خیال میں خوف اور ترس کے جذباتکو تماشے کے ذریعے ابھارا‬ ‫ہو جانے کا نام ہے جو قیاس اور ضرورت کے مطابق ہو ۔ جبکہ انکشافناواقفیت سے‬

‫جاسکتا ہے لیکن یہ جذبات عمل کی تعمیرسے بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ یہ زیادہ بہتر طریقہ‬ ‫واقفیت میں تبدیل ہو جانے کا نام ہے اور اسکی موثر ترین شکل وہ ہے جو تنسیخ‬

‫اور بہتر ڈرامہ نگار شاعر کی نمایاں صفت ہے ۔ کیونکہ پلاٹکی ترتیب اس طرح‬ ‫کے ساتھ وجود میں آئے ۔ کیونکہ ایسا انکشاف جو تنسیخ کے ساتھ ہوا ہو اپنے اندر‬

‫ہونی چاہیے کہ اسے بغیر اسٹیج پر دیکھتے ہوئے بھی ‪ ،‬محض سن کر کوئی شخص صرف‬ ‫خوف یا ترس کے جذبات رکھتا ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جس کے باعث اتحاد اور‬

‫خوف اور ترس کے عالم میں آجائے ۔ اسٹیج کے تماشے سے یہ اثر‬ ‫واقعاتکی بنا پر‬ ‫میل سے اچھے یا برے خاتمے تک پہنچنا ممکن ہے ‪ ،‬تیرا عصر مصیبت یا دکھ کا عمل‬

‫ہے ۔‬
‫پیدا کرناکم درجہ کا فن ہے اور اس اثر کو پیداکرنے کے لیے پروڈیوسرکی ضرورت‬

‫پڑتی ہے ۔ وہ لوگ جو تماشے کے ذریعے خوفکا اثر نہیں بلکہ غیر معمولی چیز دکھانا‬ ‫ارسطو کے نزدیک پرولوگ ایپی سوڈ ایکیوڈ اورکورسگیت وغیرہ ٹریجڈی‬

‫چاہتے ہیں انکو ٹریجڈی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیونکہ ٹریجڈی سے ہر قسمکی‬ ‫کے خاص حصے میں آخر الذکر کے دو حصے ہیں ۔ پیروڈ اور اسٹا سیمون یہ سب‬
‫‪75‬‬ ‫‪74‬‬

‫دلچپسی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اور کیونکہ ڈرامہ نگار شاعر اپنی نقل یا نمائندگی کے‬
‫اشاروں سے انکشافکیا جاتاہے ۔ یہ قدرتی نشان ہوسکتے ہیںیا پھر وہنشان چھ ۔‬ ‫ذریعہ ایسی المیہ دلچپی پیداکرتہاے جو خوف اور ترس سے تعلق رکھتی ہے‪ ،‬اس کے‬

‫اے اور جو‬


‫ہائے گئے ہوں ۔ دوسری قسم کے انکشافات وہ ہیں جنہیں خود شاعرگھڑت ہ‬
‫یہ بات واضح‪ .‬ہے کہ یہ اثر پلاٹ کے واقعات ہی سے وابستہ ہے ۔ ہماری ٹریجڈیار‬
‫اس وجہ سے غیر فنکارانہ ہوتے ہیں ۔ تیسری قسم کا انکشاف حافظے کے ذریعے اس‬ ‫چند خاندانوں سے مخصوص ہیں کیونکہ ڈرامائی مواد کی تلاش میں کسی علمکی وہ‬

‫رت ہوتا ہے جبکوئی چیز دیکھ کر اصل واقع یا بات یاد آجاتی ہے ۔ چوتھی قسم‬
‫سے نہیں بلکہ محض اتفاقی طور سے شاعروںپر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے پلانٹوں غیر عقل و دلیل کا نتیجہ ہوتی ہے اور ایک چھوٹا اور فرضی قسم کا انکشاف بھی ہے جو‬
‫عقل و دلیل کا نتیجہ ہوتی ہے اور ایک چھوٹا اور فرضی قسم کا انکشاف بھی ہے جو‬ ‫المیہ اثر کیسے قائمکریں ؟ اور اسی لیے وہ ان خاندانوں کے حالات حاصل کرنے‬
‫مختلف لوگوں کی غلط بحث سے پیدا ہوتا ہے ۔ ارسطو کے نزدیک ان تمام قسم کے‬ ‫المیہ اثر کیسے قائمکریں ؟ اور اسی لیے وہ ان خاندانوں کے حالات حاصل کرنے‬

‫مجبور ہیں جو اسی قسم کے مصائب و ابتلا سےگزرے ۔‬


‫المشافات میں سب سے بہتر انکشاف وہ ہے جو واقعات سے ہور میں آئے اور یہ‬
‫انکشاف قرین قیاس واقعاتکا نتیجہ‬ ‫ارسطوکے نزدیک کردار نگاری میں چار چیزوں پر نظر رکھنی چاہیے ۔ اور‬
‫ہو۔‬
‫کردارکو نیک ہونا چاہیے ۔ دوم کروار کی عکاسی موزوں اور موقع محل کے مطابق‬
‫ارسطو کے خیال میں پلاٹ کو بنانے اور اس قسم کے تقریریں سیکھنے میں جو‬
‫ہونی چاہیے ۔ سومکرداروں کو زندگی کے مطابق ہونا چاہیے اور چہارمکردارو ک‬
‫ںے‬
‫اس کے مناسب حال ہو شاعر کو جہاں تک ممکن ہو سین کو نظر کے سامنے رکھنا‬
‫مربوط اور ہم آہنگ ہونا چاہیے ۔ کردار نگاری میں یہ خیال رکھنا چاہیےکہ بانہ‬
‫چاہیے جیسے وہ خود ان تمام واقعاتکا عینی شاہد ہو ۔ جہاں تک ممکن ہو ڈرامائی شاعر‬ ‫ضروری اور قرین قیاس ہو ۔ پھرپلاٹکا انکشاف خود پلاٹ کے حالات و واقعات‬

‫جب تقریر لکھے تو لکھتے وقت خود مناسب اشارے ساتھ ساتھ کرتا جائے کیونکہ برابر‬
‫سے ہو اور یہ انکشاف میکانکی طریقہ پر نہ ہو ۔ جو کچھ دکھایا جائے اس کے بارے میں‬
‫کی صلاحیت رکھنے والے مصنفین میں وہ مصنف زیادہ پراثر ہوگا جو خود جذباتکو‬
‫کوئی چیز مہم نہ رہے اور اگر ایسی چیز ہے تو اسے ٹریجڈی سے الگ رکھا جائے ۔‬
‫محسوس بھی کرتا ہےپریشانی اور غصہ کی کیفیت وہی مصنف زیادہ اچھے طریقے پر پیش‬ ‫ہے جو اوسط درجے کے لوگوں سے بلند ‪:‬‬ ‫ٹریجڈی ایسے لوگوں کی "" نقل‬

‫کر سکے گا جو خود اس عالم میں ہو ۔ اسی باعث شاعری یا تو زبر دست فطری صلاحیت‬
‫رکھنے والے آدمی کا کام ہے یا ایسے شخص کا جو پورے طور سے صحیح الدماغ نہ ہو‬
‫۔‬ ‫ہوتے ہیں لہذا ہمیں شبیہ بنانے والے اچھے مصوروں کی پیروی کرنی چاہیے۔‬

‫لوگ جب اپنے ماڈلوںکی امتیازی صفات دکھاتے ہیں تو وہ انہیں اس سے کہیر‬


‫اول الذکر بہت زیادہ حساس ہوتاہے اور آخر الذکر عالم جذبمیں ہوتا ہے ۔ قصوں‬ ‫زیادہ بہتر طور پر پیش کرتے ہیں جیسی کہ وہ اصل میں ہیں ۔ اسی طرح شاعرکو ایسے‬

‫کے سلسلے میں چاہے وہ بنے بنائے ہوں یا اس نے خود بنائے ہوں شاعرکو پہلے ان کا‬ ‫لوگوں کی تصویر کشی میں ‪ ،‬جو بد دماغ ہیں یا بلغمی مزاج رکھتے ہیں اور جن میں کردا‬

‫خاکہ بنالینا چاہیے اور پھر ان میں مناسب قصوں اور واقعات کا اضافہ کرنا چاہیے ۔‬ ‫کے اور دوسرے نقائص بھی ہیں ‪ ،‬یہ سب صفات واضح کر دینی چاہیں اور اسی کے‬
‫شاعراس منزل پر پہنچے تو اسے اپنے کرداروںکو نام دے دینے چاہیں اور قصوں‬

‫ساتھ ساتھ انہیں نفیس لوگوںکی طرح پیش بھی کرنا چاہیے ۔‬
‫اور واقعات کا اضافہ کر دینا چاہیے ۔ ڈراموں میں واقعات مختصر اور ایپک شاعری‬
‫ارسطو کے نزدیک انکشافکی مختلف قسموں میں پہلی قسم سب سے کم فنکاران‬

‫اور زیادہ تر تخلیقی قوت کے فقدانکی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس میں نشانیوں او‬
‫‪76‬‬
‫ہو ۔ سب سے زیادہ قابل فہم زبان و بیان وہ ہے جس میں روز مرہ کے الفاظ استعمال‬

‫میں تفصیل کے ساتھ آتے ہیں ۔‬


‫کیے گئے ہوں مگر یہ پامال و عامیانہ ہو جاتی ہے ۔ برخلاف اس کے وہ زبان جو‬

‫غیرمانوس الفاظ و تراکیب استعمالکرتی ہے شان و دبدبہ کی حامل ہو کر عام سطح سے‬ ‫ارسطو کے نزدیک ہر ٹریجڈی کی اپنی پیچیدگی اور اپنا انجام ہوتا ہے ۔ پیچ‬

‫بلند ہو جاتی ہے ۔ معمہکی خصوصیت یہ ہےکہ وہ حقائق کو زبانکی ناممکن صورتوں‬ ‫ان واقعات سے پیدا ہوتی ہے جو پلاٹ سے باہر ہوتے ہیں اور اکثر ان سے بھی‬

‫کے ذریعے پیش کرتا ہے ۔ یہ عام الفاظ کے ذریعے سے نہیں کیا جاسکتا لیکن‬ ‫پلاٹ کے اندر ہوتے ہیں اور باقی ان پیچیدگیوں کا حل ہے جسے انجام کہا جاتا ۔‬

‫استعاروں کے استعمال سے ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح غیرمانوس الفاظکی درآمد ظلم و‬ ‫اس کے خیال میں پیچیدگی کا مطلب قصہ کا وہ حصہ ہے جو آغاز سے اس مقام‬

‫تشدد کے مترادف ہے ۔کرنا یہ چاہیے کہ ان مختلف عناصرکا امتزاج پیداکیا جائے‬ ‫آئے جہاں سے قسمت اچھی یا بری ہو جاتی ہے ۔ انجام کا مطلب وہ حصہ ہے‬

‫کیونکہ ایک عصر زبان کو پست اور عامیانہ ہونے سے بچائے گا جبکہ روز مرہ کے‬ ‫قسمتکی اس تبدیلی سے لے کر آخر تک ہوتا ہے لہذا تریجڈیکی درجہ بندیا‬

‫الفاظ ضروری صفائی پیدا کریں گے ۔ زبان و بیانکی صفائی اور شان و وقار پیدا‬ ‫دوسرے سے مناسبیا مختلف پلاٹوں کے حساب سے کی جانی چاہیے ۔‬

‫کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہےکہ تشریحی الفاظ ایجاز و اختصار والے الفاظ‬ ‫ارسطو کے نزدیک ٹریجڈیکی چار قسمیں ہیں ‪ ،‬ایک ٹریجڈی پیچیدہ ہوتی‬

‫اور الفاظکی بدلی ہوئی شکلیں استعمالکی جائیں ۔‬ ‫جو تنسیخ اور انکشافپر مبنی ہوتی ہے ۔ دوسری دکھ تکلیف اور مصائب کی ٹریجا‬

‫ارسطو کے خیال میں یہ بہت مناسب بات ہےکہ ہر صنعتکا مناسب استعمال‬ ‫ہے ۔ تیری کردار کی ٹریجڈی ہے اور چوتھی قابل تماشہ ٹریجڈی ہے ۔ شاء‬

‫کیا جائے مگر سب سے اہم بات ا استعارے کا استعمال ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جوکسی سے‬ ‫چاہیے کہ وہ ان تمام عناصرکو شامل کرنے یا پھر بصورت دیگر اہم ترین عصر میں‬

‫سیکھی نہیں جاسکتی اور اسی سے فطری صلاحیتکا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ استعاری کے‬ ‫جس قدر ممکن ہوں شاملکر لینے چاہیں ۔ ڈرامائی شاعر کو چاہیے کہ اپنی ٹریجڈی‬

‫استعمالکی قابلیت مماثلتوں کے اور اک سے تعلق رکھتی ہے ۔‬ ‫ایپککی شکل نہ دے ۔کورسکو بھی ایکٹر بناکر ہی اس طرح پیش کرنا چاہیے ‪:‬‬

‫ارسطو کے نزدیک افسانوی نظم میں پلاٹ ڈرامائی طریقے پر تعمیرکیے جانے‬ ‫وہ بھی کل کا ایک جزو ہو اور عمل میں شریک ہو ۔ یہ کورس محض ڈرامے ‪.‬‬

‫درمیانی وقفہ میں ہوسکتے ہیں ۔‬


‫چاہیں جیسے ٹریجڈی کے ہوتے ہیں ۔ وہ صرف ایک " عمل " پر مبنی ہونے چاہیں ‪ ،‬جو‬

‫متتھحدر اور مکمل ہو اور جس میں آغاز وسط اور انجام بھی ہو ‪ ،‬تاکہ ایکمکمل زندہ چیز‬ ‫ارسطو کے نزدیک خیال میں وہ سب اثرات شامل ہیں جو زبان سے ۔‬

‫کی طرح نظم اپنا مخصوص اثر پیدا کر سکے ۔ ایپک نظموںکی تعمیر عام تاریخوںکی طرح‬ ‫ہوتے ہیں ۔ ان میں دلائل اور ان کا رو ‪ ،‬ترس ‪ ،‬خوف‪ ،‬غصہ اور اسی قسم‬

‫بھی نہیں ہونی چاہیے جن میں صرف ایک عمل کا انکشاف نہیں ہو تا بلکہ ایک دور‬ ‫جذباتکو بیدارکرنا اور مبالغہ اور تحقیر شامل ہیں ۔ جہاں تک زبان و بیان کا تو‬

‫کو پیش کیا جاتا ہے اور اس دور میں بھی جو کچھ ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص پر‬ ‫ہے اس کے مطالعہ کی ایک شاخ اظہار کی مختلف بیتیں ہیں جن کو سمجھنا فن تف‬

‫گزرا ‪ ،‬خواہ وہ واقعات ایک دوسرے سے کتنے ہی غیر متعلق کیوں نہ ہوں جیسے‬ ‫تعلق رکھتا ہے ۔ شاعر کے فن پر سنجیدہ تنقید ان چیزوں سے اس کی واقفیت‬

‫عدم واقفیت کے مطابق نہیں کی جاسکتی ۔‬


‫سالاسسکی بحری جنگ اور سلی میں کار صحیحین کی جنگ ایک ہی وقت میں ہوئیں‬
‫‪I‬‬
‫زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ وہ پامال و عامیانہ ہوئے بغیر قابل‬
‫‪79‬‬ ‫‪78‬‬

‫تغیرکے اعتبار سے سادہ ہے اور مصائب کا قصہ پیش کرتی ہے ۔دوسری نظم یعنی "‬ ‫۔ اسی طرح وقت کے تسلسل میں واقعات کا‬
‫لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی نہیں تھا‬
‫‪ee‬‬
‫پیچیدہہے اور کردار پر مبنی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ دونوں نظمیں خیالات‬ ‫اور یہی‬ ‫بعد دیگرے آئیں مگر ان کے نتائج ایک نہ ہوں ۔مگر ہمارے بہت سے شاعر تارہا‬
‫‪،‬‬
‫اور زبان و بیان کے اعتبار سے تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہیں ۔ ایپک ٹریجڈی سے‬ ‫نویس کا طریقہ کار استعمال کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں بھی ہو مروہ شاعر ہے جو تمار‬

‫نفس مضمونکی لمبائی اور بحر کے استعمال میں بھی مختلف ہے ۔ جہاں تک لمبائی کا‬ ‫شاعروں سے زیادہ الہامی اثر رکھتا ہے ۔ حالانکہ جنگ ٹروجن میں آغاز اور انجار‬

‫تعلق ۔ ہے وہ اتنی کافی ہے جس میں ابتدا اور انجام ایک نظرمیں یکجا نظر آسکیں ۔ اور‬ ‫دونوں ہیں لیکن اس نے پوری جنگکو نظم میں شامل نہیں کیا کیونکہ یہ متحد اور‬

‫یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب نظمیں قدیم زمانے کی ایپک نظموں کے مقابلے میں‬ ‫کی لمبائی کم کر دیتا تو‬
‫مکمل اثر کے تعلق سے بہت بڑا موضوع ہوتا اور اگر وہ اس‬
‫مختصر ہوں مگر ان ٹریجڈیوں کے برابر ہوں جنہیں ایک ساتھ ایک نشست میں پیشکیا‬ ‫اس کے واقعاتکا تنوع اسے بہت پیچیدہ بنا دیتا اس لیے اس نے قصہ کا ایک حصہ‬

‫جاتا ہے ۔ ایک کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ خاصی طویل ہوسکتی ہے ۔ ٹریجڈی‬ ‫منتخب کیا اور دوسرے حصے سے بہت سے واقعات اس میں شاملکر دیے ۔ دوسرے‬

‫میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک قصے کے بہت سے حصے ایک ہی وقت میں دکھائے‬ ‫ایپک شاعر ایک ہی آدمی یا ایک ہی دور یا ایک ہی عمل کے بارے میںلکھتے ہیں جس‬

‫جاسکیں ‪ ،‬صرف اتنا ہی حصہ دکھایا جاسکتا ہے جسے ایکٹر اسٹیج پر پیش کر رہے ہیں ۔‬ ‫کی تعمیروہ مختلف واقعاتکی مدد سے کرتے ہیں ۔ اس قسم کے شاعروں میں " سیریا "‬

‫بر خلاف اس کے ایپک شاعری چونکہ افسانوی ہوتی ہے اس لیے بہت سے واقعات‬ ‫"دی مثل ایلیڈ "کے مصنفوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جبکہ ‪ 119‬ملینڈ " اور ""‬ ‫اور‬

‫جو ایک ہی وقت میںگزرے ہیں ‪ ،‬پیش کرسکتی ہے اور اگر وہ باربط ہوں تو ان سے‬ ‫اوڈیسی " سے صرف ایک ہی ٹریجڈی بنائی جاسکتی تھی ۔ "پریا " سے کئی ٹریجڈیاں‬

‫نظم کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں وقار عظمت ‪ ،‬تنوع اور اس کے‬ ‫بنائی جاسکتی ہیں اور ” دی ٹل ایلیڈ " سے آٹھ سے بھی زیادہ ایوارڈ اوف دی‬

‫قصوں میں رنگا رنگی پیدا ہو جاتی ہے ۔ یک رنگی اسٹیج پر ٹریجڈی کے اثر کو خرابکر‬ ‫آرمس ‪ ،‬فیلوس ‪،‬بیٹس نیوپ ٹو لیمس ‪ ،‬پوری فیلس ‪ ،‬اوڈی سینس دی بیگر ل کو نہین‬

‫دیتی ہے اور ناظرینکو بورکردیتی ہے ۔‬ ‫دی مین ‪ ،‬سیک اوف ٹرائی ‪ ،‬دی پارچه اوف دی فلیٹ۔ ان کے علاوہ سینوں اور‬

‫ارسطو کے خیال میں ہیکسا میٹر ایپک کے لیے موزوں بحر ہے ۔ اگر کسی کو‬ ‫ٹروجن دی مین ۔‬

‫افسانوی نظمکسی دوسری بحر میں یا مختلف بحروں میں لکھنی پڑے تو وہ انمل بے جوڑ‬
‫ارسطو کے نزدیک ایپک شاعری کی بھی وہی قسمیں ہیں جو ٹریجڈی کی ہیں یعنی‬

‫ہو جائے گی کیونکہ تمام بحروں میں ہیکسا میٹر ہی وہ بحر ہے جو سب سے زیادہ وقیع اور‬ ‫ساده ‪ ،‬پیچیدہ وہ جو کرداروں سے سروکار رکھتی ہے اور وہ جو مصائب و ابتلاکو‬

‫‪ ،‬الفاظ اور استعاروں کو اپنانے کی بڑی‬


‫مستحکم ہے اور جس میں غیر ملکی تراکیب‬ ‫موضوع بناتی ہے ۔گیت اور تماشے کو چھوڑ کر اس کے بھی وہی حصے ہوتے ہیں جو‬

‫صلاحیت ہے ۔ اس لحاظ سے بھی نقلکی افسانوی شکل دوسری تمام شکلوں سے بہتر‬ ‫‪ ،‬تنسیخ اور المیہ‬
‫ٹریجڈی کے ہوتے ہیں ۔ اس میں بھی ٹریجڈی کی طرح انکشاف‬

‫ہے ۔ ”آئی ابک“ اور ”ٹروکاکٹیڑا میٹر وہ اوزان ہیں جو حرکت کے اظہار کے‬ ‫وو بیان بھی اعلیٰ‬
‫واقعاتکی ضرورت ہوتی ہے ۔ مزید برآں یہ کہ خیالات اور زبان‬

‫لیے موزوں ہیں ۔ آخر الذکر رقص کا وزن ہے اور اول الذکر عمل کی ڈرامائی نقل‬ ‫معیار کے ہونے چاہئیں ۔ ہو مر نے ان سب چیزوںکو پہلی بار استعمالکیا اور انہیں‬

‫کے لیے موزوں ہے ۔ بہرحالکئی اوزانکو ایک ساتھ ملانا جیسا کہ شائریمون نے‬ ‫نهایت چابکدستی سے استعمال کیا ۔ اس دور کی نظموں میں سے ایک یعنی " پلیڈ "‬
‫‪87‬‬ ‫‪80‬‬

‫جسے صحیح ہونا چاہیے اگر دعوی صحیح تھا‪ ،‬تو یہی کچھ اور ہمیں ایک حقیقت کے طور پر‬ ‫مناسب نہیں ہے ۔ اور اسی لیے کسی نے بھی طویل نظم اس بحرکے علاوہ نہیں‬ ‫کیا‬

‫پیش کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ذہن اس کو صحیح مانتے ہوئے مغالطے سے‬ ‫لکھی ۔ ویسے یہ باتکہ کسی مقصد کے لیے کون سی بحر استعمالکرنی چاہیے ‪ ،‬قدرت‬

‫اوریجنل دعوے کی سچائی کو قبولکرلے ۔ قرین قیاس ناممکناتکو دور از قیاس‬ ‫ہی سکھا سکتی ہے ۔‬

‫ممکنات پر ترجیح دینا چاہیے ۔ قصہ غیر عقلی واقعات پر مبنی نہیں ہونا چاہیے ۔ غیر عقلی‬ ‫ہے وہاں ان معنی‬ ‫ارسطو کے نزدیک ہو مرجہاںکئی اعتبار سے قابل تعریف‬

‫چیزوں کو جہاں تک ممکن ہو خارج کردینا چاہیے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے تو‬ ‫میں بھی قابل تعریف ہے کہ وہی ایک شاعر ہے جو اس باتکو سمجھتہاے کہ خود شاعر‬

‫انہیں خاص قصے سے الگ رکھا جائے ۔ زبانکی خوبیاں اس حصے میں پیدا کی جائیں‬ ‫کو اپنی نظم میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے ؟ اپنی نظم میں خودشاعرکو جتناکم ممکن ہو بولنا‬

‫جہاںکرداریا خیال اہم نہ ہو کیونکہ بہت زیادہ رنگین زبان ‪ ،‬خیالات اور کردار کے‬ ‫چاہیے کیونکہ اس طرح وہ عمل کی نقل نہیں کرتا۔ دوسرے شاعر اپنی ساری نظم‬

‫اظہار میں حائل ہوگی ۔‬ ‫میں خود بولتے رہتے ہیں اور ان کی تصنیف کا بہت کم حصہ غیرذاتی ہوتا ہے لیکن‬

‫بوطیقا کا پچیسواں باب تنقیدی اعتراضات اور ان کے جواب پر مشتمل ہے ۔‬ ‫ہو مرچند تمہیدی الفاظ کے بعد فورا ہی ایک آدمی یا ایک عورت یا کسی دوسرے‬

‫ارسطو کے نزدیک پانچ اعتراضات ایسے ہیں جن سے کسی عبارت پر نکتہ چینیکی‬ ‫شخص کو سامنے لے آتا ہے جس کا اپنا کردار ہوتا ہے اور جس کی اپنی نمایاں‬

‫خصوصیات ہوتی ہیں ۔‬


‫جاسکتی ہے یعنی وہ غیر ممکن ہے ‪ ،‬خلاف عقل ہے ‪ ،‬غیر اخلاقی ہے بے ربط ہے اور فنی‬

‫طور پر غلط ہے جس کا جواب ان درج ذیل بارہ اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔‬ ‫ارسطو کے مطابق ٹریجڈی میں مافوق العادات چیزوں کا ذکر ضرور ہونا چاہیے‬

‫اگر شاعر نے کوئی ناممکن بات پیش کی ہے تو اس نے غلطی ضرورکی ہے لیکن وہ ایسا‬ ‫لیکن ایپک شاعری میں ‪ ،‬جس میں کام کرنے والے لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے‬

‫کرنے میں حق بجانب ہے ۔ اگر یہ غلطی نظم کے کسی حصے کو زیادہ پر زور بنا رہی‬ ‫نہیں ہوتے ‪ ،‬نا قابل توجیہہ چیزوںکو زیادہ شامل کیا جائے کیونکہ مافوق الفطرت امور‬

‫۔ ااگگرر ییہہ مقصد فنکی ضروریات سے مطابقت رکھتے ہوئے بھی حاصل ہو سکتا تھا‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ہے‬ ‫انی سے تشکیل پاتے ہیں ۔ مافوق الفطرت امور مسرت کا ذریعہ ہوتے ہیں جیسا کہ‬

‫ممکن ہو نقائص‬
‫تو پھرغلطی کاکوئی جواز نہیں رہ جاتا کیونکہ ایک نظم کو جہاں تک‬ ‫اس بات سے معلوم ہوتا ہےکہ جو خبر مشہور ہوتی ہے اس میں سبلوگ اپنی تفریح‬

‫کا سامان شاملکر دیتے ہیں ۔‬


‫سے بری ہونا چاہیے پھر یہ سوالکہ دونوں اقسامکی غلطیوں میں سے کون سے غلطی‬

‫؟ آآییاا وہ غلطی جو فن شاعری کی اصل سے تعلق رکھتی ہے یا وہ صرف‬


‫ہےے ؟‬
‫ککیی گگئئیی ہ‬ ‫ارسطو کے خیال میں دوسرے شاعروںکو یہ بات بھی ہو مرنے سکھائی ہے کہ‬

‫اتفاقی ہے ۔ یہ ایککم درجہ کی غلطی ہے ۔ اگر شاعر کو اس باتکا علم نہ ہوکہ مادہ‬ ‫غلط اور فرضی باتیں کس طرح ہوشیاری اور سلیقے سے بیان کی جائیں یعنی حسن‬

‫ہرن کے سینگ نہیں ہوتے بمقابلہ اس کے وہ ہرنکی ایسی تصویر پیشکرے جسے‬ ‫تعلیل اور مغالطے کے استعمال ہے ۔ اگر ایک چیز موجود ہے کیونکہ دوسری موجود‬

‫پہچانا نہ جاسکے ۔‬ ‫ہے یا ایک واقعہ ہوا ہے کیونکہ دوسرا بھی ہوا ہے تو لوگ سوچتے ہیں کہ اگر نتیجہ‬

‫دوسرے اعتراضیعنی ”وہ صحیح نہیں ہے " کا جواب یہ ہو سکتا ہے " نہیں "‬ ‫موجود ہے یا واقعہ ہوا ہے تو جس چیزکا وہ نتیجہ ہے وہ بھی ضرور موجود ہوگی لیکن‬

‫کوو ااییسساا ہہیی ہہوونناا چاہیے " جیسا کہ سوفوکلیز نے کہا تھا کہ وہ ایسے انسانوں کی‬
‫سک‬
‫اس‬‫للییککنن ا‬ ‫بات یہ نہیں ہے لہذا اگر ایک دعوی غلط تھا لیکن اس کے علاوہ کچھ تھا جو صحیح تھا یا‬
‫‪83‬‬ ‫‪82‬‬

‫ارسطو کے نزدیک مسلمہ روایت غیرعقلی انداز کا جواز ہو سکتی ہے جیسے یہ کہنا‬ ‫تصویر پیش کرتا ہے جیسا انہیں ہونا چاہیے جبکہ یوری پیڈیس نے انہیں اس‬

‫کہ ایسا دور بھی ہوتا ہے جب یہ چیزیں خلاف عقل نہیں ہوتیں ‪،‬کیونکہ یہ قرین‬ ‫طرح پیشکیا جیساکہ وہ ہیں ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی بات بھی مناسب نہ سمجھی‬

‫قیاس ہےکہ بہت سی باتیں قیاس کے خلاف ہوں ۔ زبان کی غلطیوں کا مطالعہ بھی‬ ‫جائے تو پھر ایسی صورت میں " روایت " سے سند لینی چاہیے جیناکہ دیوتاؤں کے‬

‫اسی طرحکیا جائے جیسے منطقکی ردکرنے والی دلیلوں کا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ شاعر‬ ‫قصوں کے بارے میں ہوتا ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ یہ قصے نہ تو بچے ہوں اور نہ سچائی‬

‫کا بھی وہی مطلب ہے جو تمہارا ہے قبل اس کے کہ اس پر الزام لگایاجائے ۔‬ ‫میں اضافہکرتے ہوں لیکن جیسا کہ زنو فیز نے کہا ہے کہ پھربھی وہ روایت کے‬

‫ارسطو کا انداز تحریر ذرا مشکل اور خاصہ ماہرانہ ہے ۔باہم متناقص اور متضاد‬ ‫مطابق ہوتے ہیں ۔ دوسرے معاملات میں جواب یہ ہو سکتاہے ۔ یہ نہیںکہ یہ سچائی‬

‫حوالہ جات سے معاملات الجھے ہوئے نظرآتے ہیں ۔ ایک ہی باتمیں انکار و اقرار‬ ‫سے بہتر ہیں ‪ ،‬بلکہ یہ اشیاء کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسا کہ وہ پہلے زمانے میں‬

‫کی کیفیت بھی نمایاں ہوتی ہے ۔ تشبیہات سے بہت زیادہ کام لیا گیا ہے ۔ انداز تحریر‬ ‫پیش کی جاتی تھیں ۔ مثال کے طور پر نیزوں کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے‬

‫استقراری اور جدلیاتی ہے ۔ وہ خیالاتکی گہرائی تک رسائی کے لیے منطق سے‬ ‫نیزے نوکوں پر بالکل سیدھے کھڑے تھے "کیونکہ اس زمانہ میں یہی رواج تھا اور‬

‫اب بھی الریا کے لوگوں میں یہی رواج ہے ۔‬


‫رسائی حاصلکرتا ہے ۔‬

‫تیسرے اعتراض یعنی وہ بات جو کسی گئی ہے یا ہوئی ہے آیا اخلاقی طور پر‬
‫آئیے ایونکس مکتبہ فکر سے افلاطون تک کے مادی‪ ،‬طبیعیاتی اور‬
‫اچھی ہے یا بڑی ‪ ،‬ہمیں اس بات یا کام کی اچھائی یا برائی ہی کو پیش نظرنہیں رکھنا‬
‫مابعد الطبیعیاتی فلسفے کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے فلسفہ ارسطو کا مطالعہکرتے ہیں لیکن‬
‫نےکسی اورکن سےکسی ؟‬ ‫چاہیے بلکہ اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ باتکس‬
‫اس سے پیشتر قاری کی سہولت کے لیے مادہ مادیت ‪ ،‬مابعد الطبیعیات اور عینیت‬
‫یہ کام کس نے کیا اور کن لوگوں کے لیے کیا ؟ اس کا موقع ذریعہ اور سببکیا تھا ؟‬
‫پرستی کی تعریفکرنا نہایت مناسب ہو گا ۔ مادہ ایک ایسا فلسفیانہ مقولہ ہے جو یہ‬
‫مثلاً کیا یہ بات یا کام کسی بڑی بھلائی کے لیے کیا گیا یا کسی بڑی برائیکو دور کرنے کے‬
‫نشاندہیکرتا ہے کہ معروضی حقیقت شعور سے عدم انحصار میں وجود رکھتی ہے اور‬
‫لیے کیا گیا ؟‬
‫اس میں منعکس ہوتی ہے مادیت ایک ایسا نظریہ ہے جس کی رو سے فطرتکی ہر چیز‬
‫چوتھے اعتراضکے حوالہ سے عام طور پر کہا جاسکتا ہے کہ "ناممکن " کا جواز‬
‫میں زندگی اور احساس کی صلاحیت موجود ہے ۔ مابعد الطبیعیات تفکر کے خلاف ایک‬
‫شاعرانہ اثر کے اعتبار سے یا حقیقتکو بہتر بنانے کیکوشش کے تعلق سے یا مسلمہ‬
‫سائنسی طریقہ ہے جو جدلیاتکی ضد ہے ۔ اس فلسفہ میں مظاہرکو ایک دوسرے سے‬
‫روایت کے حوالے سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک شاعرانہ اثر کا تعلق ہے ایک‬
‫فلسفیانہ‬ ‫الگ تھلگ سکون کی حالت میں دیکھا جاتا ہے جبکہ حیثیت پرستی خاص‬
‫تشفی بخش ناممکن باتکو ایک غیر تشفی بخش ممکن بات پر ترجیح دینی چاہیے ۔ حالانکہ‬
‫رجمانوں میں سے ایک ہے جو فلسفہ کے بنیادی سوال کے حل میں مادیت پسندی‬
‫یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں جیسا کہ زیو کس نے پیش کئے ہیں لیکن یہ بہتر‬
‫کی ضد ہے ۔ حیثیت پرستی کی دو قسمیں داخلی اور معروضی ہیں ۔ معروضی حیثیت‬
‫ہوتا اگر اس قسم کے لوگ موجود ہوتے کیونکہ مثالی قسم کے لوگوںکو انتہائی اچھا ہونا‬
‫پرستی اصول اول کے طور پر ذاتی روح جبکہ داخلی مینیت پرستی فرد کے شعورکو‬
‫چاہیئے ۔‬
‫اولین سمجھتی ہے ۔‬
‫‪84‬‬
‫‪85‬‬

‫گرمی نے زمین کے پانی کو تیزی سے بخارات میں تبدیل کیا اور یہ ہوا یا بخارات‬

‫گرمی کے باعث پھیل کر اوپر اٹھے اور انہوں نے زمین کے گرد پھیلیگرم مادےکی‬

‫تہہکو توڑ دیا اور یہ مادہ لکڑی کے برادے جیسےگولگول لیکن بڑے بڑے ڈھیروں‬

‫کی صورت میں تبدیل ہوگیا جن کی شکل گولگول پہیوں جیسی تھی جنہوں نے ساری‬

‫زمینکو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ برادے کے انگول ڈھیروںکو ایک خاص قسم‬

‫کے ٹھوس مادے نےکچھ اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی آگ‬
‫ارسطوکا مادی و طبیعیاتی فلسفه‬

‫ہماری نظروں سے اوجھل تھی ۔ سلنڈرکی طرح لمبوتری یہ زمین ابتدا میں مادہ کی مائع‬

‫صورت میں وجود میں آئی اور جب یہ مادہ بخارات کے باعث آہستہ آہستہ جمنا‬

‫شروع ہوا تو اس مرحلے کے دوران جاندار چیزوں نے زمین کے مادےکی نمی اور‬ ‫ایونکس مکتبہ فکر ( ‪ ) Inoics School‬کے بانی طالیس (‪624( ) Thales‬‬

‫گرمی سے جنم لینا شروعکیا ۔ شروع شروع میں ان جاندار چیزوںکی نوع بہت معمولی‬ ‫جس کا شمار دنیا کے سات عظیم داناؤں میں ہوتا ہے نے اپنے فلسفہ میں‬ ‫‪ 556‬ق م‬

‫درجے کی تھی پھر آہستہ آہستہ ان جانداروں نے اپنی ساختکو بہتراعضا مہیاکرنے‬ ‫کہا کہ "تمام مادی اشیاء کی بنیاد پانی ہے اور یہ کہ زمین ایک تعالی کی مانند ہے جو پانی‬

‫کے لیے بہت سے ارتقائی مراحل طے کئے اور اس کام کے لیے انہوں نے اپنے‬
‫پر تیر رہی ہے ۔ "‬

‫آپکو زیادہ سے زیادہ اپنے بیرونی ماحول کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا۔ پانی میں‬ ‫پهرای فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے اسی مکتبہ فکر کے دوسرے فلاسفرا ناکسی‬

‫رہنے والی مچھلی انسانی جنس کی ابتدائی نوع تھی ۔ "‬ ‫مینڈر ( ‪ 547611( )Aanaxi Mander‬ق م ) نے اپنے فلسفہ میں کہا کہ مادہ‬

‫ای مکتبہ فکر کے ایک اور فلاسفراناکسی میز ( ‪588 ( ) Anaaxi Menes‬‬
‫بے صورت غیرمتعین اور لامحدود صورت میں خلا میں پھیلا ہوا تھا ۔ پہلے ایک دنیا‬

‫‪ 524‬ق م) نے کہا کہ کائنات اور مادی دنیا کا بنیادی اصول ہوا ہے ۔ یہ ہوا غیر‬ ‫وجود میں آئی پھر اس کا ارتقاء ہوا اور آخر فنا ہوگئی اور پھرایک اور نئی دنیا منصہ‬

‫متعین مادےکی طرح خلا میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ہوا مسلسل حرکت میں ہے اور حرکت‬ ‫شہود پر آئی اور مٹ گئی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے ۔ مادہکی دو صورتیں ہیں‬

‫کا یہ اصول ہوا کی بنیادی فطرت میں موجود ہے اور یہی اصول کائنات کے وجود میں‬ ‫گرم اور ٹھنڈا۔ ٹھنڈا مادہ مرطوب ہے اور یہ ٹھنڈا اور نم دار مادہ آخر کار زمینکی‬

‫آئے اور اس کے ارتقا کا باعث بنا ہے ۔گرمی یا حدت کے باعث مادہ پھیلتا ہے اور‬ ‫شکل اختیار کر لیتا ہے جو اس کائنات کے مرکز میں واقع ہے جبکہ مادےکاگرم حصہ‬

‫اس عمل کے ذریعے ہوا ‪ ،‬آگ میں تبدیل ہو کر آخر کار ستاروں میں تبدیل ہو جاتی‬ ‫زمین کےگرد ایک دائرے کی شکل میں موجود رہتا ہے ۔ یہ زمین بھی جو کائنات کے‬

‫ہے جبکہ اس کے متضاد "ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہونے کے اصول کے تحت " ہوا پہلے‬ ‫مرکز میں ہے اس مادے کے ٹھنڈے حصے سے وجود میں آئی ہے ۔ جو ٹھوس ہونے‬

‫۔‬
‫بادلوںکی شکل اختیارکرتی ہے اور جب درجہ حرارت اس سے بھی زیادہ گر جاتا ہے‬ ‫سے پہلے مائع شکل میں تھا اور زمین کے گرد دائرےکی شکل میں موجود تھا۔ مادےکی‬

‫تو ہوا پانی کی شکل اختیارکر لیتی ہے اور اس طرح درجہ بدرجہ زمین چٹانوںکی شکل‬
‫‪$87‬‬ ‫‪86‬‬

‫دیوی دیوتا عام انسانوں ‪.‬‬ ‫ایکینو فیلز (‪ )Xeno Phanas‬تھا ۔ اس کے خیال میں‬ ‫اختیارکر لیتی ہے اور دنیا دوبارہ وقتگزرنے کے ساتھ ساتھ اسی پہلے والی بنیادی‬

‫کی طرح پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمیشہ سے تھے چونکہ روحانی طاقتکو واحد ہونا‬ ‫ہوا میں گردشکرنے لگتی ہے ۔ یہ دنیامیں درجہ بہ درجہ ایک دوسرے کے بعد جنم‬

‫لیتی اور فنا ہوتی ہیں اور تھالی کی شکل جیسی زمین ہوا پر تیر رہی ہے ۔ "‬
‫چاہیے اس لیے سب سے بڑا دیوتا ایک ہے اور یہ خدا یا دیو تا انسانوں سے بالکل‬
‫مختلف ہے بلکہ وہ انسانوںکا خالق ہے ۔ وہ سارا آنکھ ہے ‪ ،‬وہ سارا کان ہے اور سارا‬ ‫ایو نکس مکتبہ فکر کے بعد فیثا غورثکا زمانہ آتا ہے ۔ اسمکتبہ فکر نے روح‬

‫خیال ہے ۔ خدا کی ذات ناقابل تبدیل اور ناقابل تغیر ہے ۔ وہ نا قابل تقسیم ہے ۔ وہ‬ ‫کے ایک قالب سے دوسرے قالب میں منتقل ہونے اور انسانی روح جانور کے‬

‫حرکت بھی نہیں کرتا۔ اس کے جذبات بھی نہیں ہیں اور اسکو کوئی غم یا پریشانی‬ ‫قالب میں منتقل ہونے کے نظریات پیش کرنے کے علاوہ عمل کے تسلسلکا نظریہ بھی‬

‫نہیں ہے ۔ " اس مکتبہ فکر کے دوسرے بڑے مفکرپارمینائیڈ ز (‪ 514‬ق م ) کے خیال‬ ‫پیش کیا ۔ ان کے مطابق ایسی کسی دنیا کا تصور نہیں کیا جاسکتا جس میں ہندسوں کا وجود‬

‫"‬
‫یہ دنیا عارضی پن اور تغیرو تبدل کا شکار ہے تمام چیزیں وجود میں آتی ہیں اور‬ ‫میں‬ ‫یا ضرورت نہ ہو یا تعداد کا بالکل تصور ہی نہ ہو ۔ اس کائناتکی بناوٹ میں ایک‬

‫پھرفنا ہو جاتی ہیں ۔کوئی شے مستقل یا قائم نہیں ۔ وجود (‪ ) Being‬اصل سچائی ہے‬ ‫سب سے نمایاں پہلو ہم آہنگی کا ہے ۔ اور جب نسبت یا تب‪ ،‬ترتیب اور ہم‬

‫جبکہ (‪ ) Not Being‬جھوٹ ہے ۔ عدم وجود کاکوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ تغیر پذیر‬ ‫آہنگی کے تصورات کا تجزیہ کیا جاتاہے تو ان تمام چیزوں کا تعلق بھی اعداد سے ہوتا‬

‫اشیاء کی دنیا وہ ہے جسے ہم حواس خمسہ سے محسوسکرتے ہیں اور یہ حواس خمسہ‬ ‫ہے ۔ کائنات اور موسیقی دو ہم معنی اشیاء یا وجود ہیں ۔ کائناتکی بنیادی فطرت‬

‫سے محسوس ہونے والا جہان ایک فریب ہے ۔ وجود عدم وجود سے بالکل مختلف ہے‬ ‫اعداد سے مشتق ہے ۔ جمع ‪ ،‬تفریق ‪ ،‬ضرب‪ ،‬تقسیم کا تعلق یقیناً اعداد یا ہندسوں سے‬

‫اور اس کا متضاد ہے ۔ وجود میں تغیر و تبدلکا مادہ نہیں ہے اس لیے وہی اصلی‪ ،‬وہی‬ ‫ہے اور دوسری تمام سائنس جن کا تعلق حساب سے ہے ان کا تعلق بھی اعداد یا‬

‫دائگی اور مستقل ہے ۔ نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ وجود نےکبھی خم نہیں‬ ‫ہندسوں سے ہے ۔ کائنات آپس میں مختلف جوڑوں اور متضادات پر مشتمل ہے ۔‬

‫لیا بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ بس وہ ہے ۔ "‬ ‫اور محدود اور لامحدود طاق اور جفت واحد اور جمع ‪ ،‬دایاں اور بایاں ‪ ،‬مذکر اور‬

‫کسی چیز کے تجریدی خیالکو حواس خمسہ سے نہیں بلکہ عقل و بصیرت اور‬ ‫مونث جمود اور حرکت ‪ ،‬سیدھا اور ٹیڑھا ‪ ،‬روشن اور تاریک ‪ ،‬نیک اور بد اورگول‬

‫استدلالکی قوت سے پہچاناجاسکتا ہے اور حواس خمسہ کے محسوسات اور عقلی قوت‬ ‫اور لمبادس ایسے متضاد جوڑے ہیں جن سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ۔ ان‬

‫استدلال میں فرق نکالنا ہی آئیڈیلزم کی بنیادی صفت ہے ۔ یہ ہمارے سامنےکی دنیا‬ ‫کے خیال میں انصاف کا مطلب جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور چار ( ‪ )4‬کا ہندسہ‬

‫جسے ہم حواس خمسہ سے محسوس کرتے ہیں یہ فریب اور ظاہری دنیا ہے جبکہ اصلی‬ ‫انصاف کے تصورکی نمائندگی کا حقدار ہے اور بعض نو ( ‪ ) 9‬کے ہندسہ کو انصافکے‬

‫حقیقت اس کے پیچھے مخفی ہے اور جسے حواس خمسہ نہیں پاسکتے۔ وجود عدم وجود میں‬ ‫تصور کا نمائندہ مانتے تھے ۔ ان کے خیال کے مطابق زمین کائناتکی مرکزی آگ‬

‫سے کبھی خم نہیں لے سکتا اور وجود نہ ہی جنم لیتا ہے اور نہ ہی فناہوتاہے ۔ "‬ ‫کے گردگردشکرتی ہے ۔ ارسطو نے اس نظریہ کی مخالفتکرتے ہوئے کہا کہ "‬

‫ا بلیک مکتب فکر کا تیسرا اور آخری مفکر زید (‪ 489‬ق م )کہتا ہے کہ "‬ ‫زمین ہی اس کائناتکا مرکز ہے ۔ "‬

‫آپس میں دو متضاد بیانات میں سے دونوں بیک وقت درست نہیں ہوسکتے ۔ اگر‬ ‫نیشاغور شیوں کے بعد ایلیٹکمکتبہ فکر نے جنم لیا ۔ اس مکتبہ فکر کا بانی‬
‫‪89‬‬ ‫‪88‬‬

‫ہوئے ہے ۔ بدیکا دنیا میں اپنا ایک مقام ہے ۔ "‬ ‫متعدد ( ‪ ) Many‬ہے تو پھر اسے لا محدود طور پر چھوٹا اور بڑا بھی ہونا چاہیے ۔ اس‬

‫ہیراکلٹس کے بعد ا ہمیں ڈوکلز ( ‪ 435 495-‬ق م) نے فلسفہ پیشکیا کہ "‬ ‫کے مطابق بڑھنے یا پھیلنے کا عمل یا حرکت کے عمل کا تصور غیرحقیقی ہیں ۔ متعددکئی‬

‫دنیا کی اشیاء میں نہ تو کوئی بہت زیادہ یا حتمی اور مسلسل تغیر ہے اور نہ ہی زیادہ‬ ‫اکائیوں سے مل کر بنتا ہے بشرطیکہ اکائیاں اپنی ذات کے اندر ناقابل تقسیم ہوں ۔‬

‫تخلیقی عمل ہے اور نہ ہی چیزوںکاکوئی حتمی فنا کا اصول ہے پھربھی اشیاء جنم لیتی اور‬ ‫متعدد آخری حد تک چھوٹا ہے لیکن لامحدود طور پر بڑا بھی ہے ۔ متعدد ہندسوںکی‬

‫نا ہوتی ہیں ۔ مادہ بے جان اور بے حرکت ہے اور اس کے اندر جیلی یا خلقی طور پر‬ ‫صورت میں بھی محدود اور لامحدود دونوں قسم کی صفاتکا حامل ہے ۔ ایک چیز ایک‬

‫کسی قسم کی حرکتکی صفت موجود نہیں ۔ محبت اور نفرت ساری دنیا میں پائی جانے‬ ‫ہی وقت میں دو مقامات پر موجود نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے حرکت کا تصور ایک غریب‬

‫والی آفاقی قوتیں ہیں جو اپنا عمل پورا کر رہی ہیں ۔ دنیاؤں کے وجود میں آنے اور پھر‬ ‫ہے چونکہ محو پرداز جسم ہر لمحہکسی ایک مقام پر ہوتا ہے اور ایک مقام پر ہونے کا‬

‫نا ہونے کا اصولگول دائرےکی صورت میں ہے ۔ یہ ایک چکر ہے جس کی نہکوئی‬ ‫مطلب غیر متحرک ہوتا ہے ۔ اس لیے پوری پرواز کے دوران وہ جسم بے حرکت‬

‫۔ بنیادی دائرے میں چاروں عناصرکا امتزاج بالکل مساوی ہے‬


‫ابتدا ہے اور نہ انتہا‬ ‫ہوتا ہے ‪ ،‬لہذا جسام کی حرکت کا تصور ایک فریب ہے بلکہ ہر چند ہر لمحہ ساکن‬

‫اور یہ تمام یکجان ہیں ۔ اس دائرے میں محبت اور ہم آہنگی کی قوت رواں دواں‬ ‫ساکت یا بے حرکت ہے چنانچہ حرکت کاکوئی وجود نہیں ہے ۔"‬
‫رو‬
‫ہے ۔ ہم آہنگی کے ارد گرد نفرت پھیلی ہوئی ہے اور یہ نفرت دائرے کے مرکز کی‬ ‫دراصل مسلسل‬ ‫ما بعد ہیراکیٹس ( ‪ 535-475‬ق م ) نے نظریہ پیش کیا کہ‬

‫طرف بڑھتے ہوئے مرکز میں جدائی ‪ ،‬پھوٹ اور اختراق کے جراثیم پیدا کرتی ہے ۔‬ ‫تغیر و تبدل کا عمل ہی حقیقی ہے اور وجود یا مستقل صورت یا قیام وغیرہ سب فریب‬

‫اور بالآخر یہ دائرہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن محبت کا جذبہ پھر سے چاروں عناصر میں منتقل ہو‬ ‫نظرہے ۔ حرکت اصل حقیقت ہے اور دنیا کی ہر چیز مسلسل تغیرو تبدل کے عالم میں‬

‫کر وہی بنیادی دائرہ یعنی دنیا قائمکرلیتا ہے ۔ ہر شے کو محسوس کرنے کے لیے ایک‬ ‫ہے اور نئی نئی صورتیں اختیارکر رہی ہے ۔کوئی چیز ٹھہرتی ہے اور نہ ہی رکتی ہے ۔‬

‫خاص حس خمسہ موجود ہے ۔ "‬ ‫ہرچیز جو کل تھی وہ آج ویسی نہیں ہے ۔ ہم ایک دریا میں داخل ہوتے بھی ہیں اور‬

‫بعد ازاں لیوی پلس اور ڈیمو کریٹس نے اپنے نظریات میں کہا کہ اگر مادی‬ ‫نہیں بھی ۔ ہر چیز کی اپنی اپنی باری ہے چیزیں جنم لیتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں ۔ اس‬

‫ذراتکو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارکر چھوٹے ترین درجے تک پہنچا دیا‬ ‫طرح چیزوں میں لمحہ بہ لمحہ تغیر و تبدلکا عمل جاری ہے ۔ ہر چیز مسلسل بہاؤ میں ہے‬

‫جائے تو یہ ایک ناقابل تقسیم اکائی کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ ناقابل تقسیم‬ ‫اور ہر روز طلوع ہونے والا سورج بھی نیا ہوتا ہے ۔ تمام اشیاء آگ سے وجود میں‬

‫اکائیاں ایٹمکہلاتی ہیں ۔ یہی ایٹم مادے کے حتمی اور بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں جو‬ ‫آئی ہیں اور اسی میں واپس مل جائیں گی ۔ روح بھی آگ سے مماثل ہے اور تمام‬

‫لاتعداد اور لامحدود ہیں ۔ یہ ایٹم اتنے چھوٹے اور باریک ہیں کہ انہیں حواس خمسہ‬ ‫ارواح ایک بڑی آفاقی آگ والی روح کا حصہ ہے ۔ عقلی استدلال کے ذریعے ہم‬

‫سے محسوس نہیں کیا جاسکتا ۔ مادے کی ایک ہی قسم ہے اور یہ تمام آئیمزای ایک‬ ‫تغیر کے اصول اور قانون کو سمجھ سکتے ہیں جسے سمجھنے کے بعد انسان کے سامنے اس‬

‫مادے کے بنے ہوئے ہیں اور قطعی طور پر غیر صفاتی ہیں ۔ خلا بھی ایک وجود رکھتا‬ ‫فانی دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اسے عرفان حاصل ہو جاتا ہے ۔ بدی نیکی کا ایک‬

‫ہے ۔ مادی دنیا کے عمل میں کوئی عقل یا استدلال موجود نہیں ایک بے ارادہ مادی‬ ‫لازمی جزو ہے ۔ نیکی اور بدی کے درمیان اور نزع کا اصول اس دنیا کو قائم رکھے‬
‫‪91‬‬ ‫‪90‬‬

‫یونانی ابتدائی فلسفے کا دور انیکسے گورس پر ختم ہوگیا۔ جس میں کائنات کی‬ ‫عمل ان تمام مظاہر فطرت اور تغیر و تبدل کا باعث ہے ۔ روحگول اور شفاف‬

‫تشریح اور وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ۔ یونانی فلسفے کا دوسرا دور سو نٹس سے‬ ‫ذروں سے بنی ہوئی ہے ۔ روح آگ کی غیر معمولی طور پر شفاف صورت ہے ۔‬

‫شروع ہوتا ہے‪ ..‬جس میں کائنات میں انسان کی حیثیت دریافتکی گئی ۔ سوفسطائی‬ ‫موت کے وقت روح کے ذرات بکھر جاتے ہیں اور اس طرح روح بھی جسم کے‬

‫پیشہ ور دنیاوی تعلیم کے علماء کا ایک گروہ تھا جو معاوضہ لے کر دنیاوی تعلیم دیتے‬ ‫ساتھ فنا ہو جاتی ہے ۔ لہذا دوسری زندگی ناممکن ہے ۔ سکون قلب اور روحانی‬

‫تھے ۔ ان کا نظریہ تھا کہ ریاست میں بلند سیاسی مقام حاصلکرنے کے لیے دنیاوی‬ ‫مسرت کے لیے دعا بہت ضروری ہے اور یہ دونوں چیزیں دولتکی بجائے دل و‬

‫دماغ یا روحانی قناعت سے حاصل ہوتی ہیں ۔ "‬


‫چالاکی ‪ ،‬شاططررپیینن ‪ ،‬حاضردماغی اور چرب زبانی ضروری ہے ۔ ان میں پروئے گورس‬

‫گورجیاس پروڈی کسی اور ہی اس قابل ذکر ہیں ۔ پروٹے کورس سیاسیات‬ ‫ڈیمو کریٹس کے بعد اٹھمکے گورس ( ‪ 500‬ق م ) نے کہا کہ سورج پتھر کا ایک‬

‫گورجیاس لسانیات ‪ ،‬پروڈی کس گرائمر اور ہی اس تاریخ حساب اور طبیعاتکا ماہر‬ ‫۔‬
‫گرم سرخگولہ جبکہ یہ چاند مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ کسی چیز کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا‬

‫انسان کی ذات ہی‬ ‫کہا جاتا تھا۔ پروٹے گورس ( ‪ 480-410‬ق م ) کے خیال میں‬ ‫اشیا کے وجود میں آنے کی اصل وجہ اجزائے ترکیبی کا باہم ہونا اور بکھر جاتا ہے ۔‬

‫تمام چیزوں کا معیار ہے ۔ اس دنیا میں نہ کوئی نیکی ہے اور نہکوئی بدی ۔کمزور کے‬ ‫اشیاء کے اجزائے ترکیبی پہلے سے اپنا وجود رکھتے ہیں ۔ مادے کی تمام مختلف‬

‫مفاد کے مقابلے میں طاقتور کا مفاد مبنی برحق ہے ۔ طاقت ہی سب سے بڑا عقلی یا‬ ‫صورتیں حقیقی ہیں اور ذاتی صفاتکی مالک ہیں ۔ یہ مادہ نہکسی دوسرے مادے سے‬

‫اخلاقی استدلال ہے ۔ کسی چیز یا عمل کے بارے میں ہرقسم کی آرا درست ہیں ۔کسی‬ ‫نکلا ہے اور نہکسی دوسری قسم کے مادے میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ دنیا مادوں کے بے‬

‫چیزکے بارہ میں حتمی علم حاصلکرنا ناممکن ہے ۔ گور جیاس نے اپنیکتاب‬ ‫رابط مرکب کے ٹوٹنے سے وجود میں آئی ۔ ہرمادے نے اجتماعی مرکب سے علیحدہ ہو‬
‫گورجیاس‬

‫"‪" Charach Teristic of the Sophistical Love of Paradox‬‬ ‫کر اپنا علیحدہ وجود قائمکرنے کے لیے لا محدود وقت لیا ۔ اور اب یہ مادہ بکھرنے میں‬

‫میں اس باتکی وضاحتکرتے ہوئے کہا کہ کوئی چیز موجود نہیں اور اگر موجود ہے‬ ‫بھی لا محدود وقت لے گا جب دنیا فنا ہو گی ۔ ذہانت مادےکو متحرک کرتی ہے جس سے‬

‫تو اس کے متعلق معلوم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اس چیز کے متعلق جان بھی لیا جائے‬ ‫دنیا قائم ہے ۔ ذہانت یا ارادے غیر فطرتی اور غیر جسمانی ہیں ۔ ہر قسم کے جاندار‬

‫تو اس کے علمکو بتایا نہیں جا سکتا یعنی حواس خمسہ کے محسوساتکو پوری طرح اور‬ ‫تخلیق ہوئے ہیں لیکن ان کے درجات مختلف ہیں جن میں انسان بلند ترین درجے پر‬

‫بعد میں آنے والے سوفسطائی پولس ‪ ،‬تھراسی‬ ‫واضح انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔‬ ‫ہے ۔ جب چاند اور زمین کے درمیان سورج حائل ہوتا ہے تو سورج گرہن ہوتا‬

‫سیکس اور کریاس نے یہاں تک کہا کہ " ہرآدمی کی نظر میں کسی اخلاقی اصول کی‬ ‫ہے اور جب زمین چاند اور سورج کے درمیان آجاتی ہے اور زمین کا سایہ چاند پر‬

‫مختلف اہمیت ہوسکتی ہے ۔ اس لیے اصولی طور پر کوئی اخلاقی ضابطہ نہیں بن سکتا ۔ "‬ ‫سے کئی گنا بڑا ہے اور زمین پر‬
‫پڑنے لگتا ہے تو چاند گرہن ہوتاہے ۔ سورج پونیشیا‬

‫سوفسطائیوںکی متذکرہ گمراہکن تعلیمات کے دور میں سقراط منظرعام پر آیا۔‬ ‫زندگیکی وجہ وہ جراثیم ہیں جو ماحول میں اپنا وجود رکھتے ہیں جنکو بارشکا پانی اوپر‬

‫بقراط نے اپنے اقتصادی نظام میں برملا کہا کہ " اگر انسان سمجھے تو اسے رہنے کے لیے‬ ‫سے نیچے زمین پر موجود کیچڑ تک لے آیا اور وہاں وہ بار آور ہوئے ۔ اس طرح‬

‫ایک چھوٹے سے مکان کھانے کے لیے سادہ سی غذا اور پہننے کے لیے عامکپڑوں کی‬ ‫زمین پر جراثیموں کے باعث زندگی کی ابتدا ہوئی ۔ "‬
‫‪93‬‬
‫‪92‬‬

‫کی نمائندگیکرتا ہے ۔ اسی طرح ایک بلند تر تصور اپنے سے چھوٹے تصوراتکی‬
‫ضرورت ہے اور اسکی یہ تمام ضروریات حکومت اسے بہم پہنچائے اور فرد اس نمائندگیکرتاہے ۔ تمام تصورات مل کر ایک سب سے بڑے تصور کے تحت آتے‬

‫کے بدلے میں اپنے پیشےکو پوری دلجمعی اور شوق سے کرے کیونکہ معاشرے کا ہ‬
‫ہیں اور یہ سب سے بڑا یا بڑا ترین تصور ایک ہے حتمی ہے ایک مکمل حقیقت ہے‬
‫فرد اپنے ذہنی رجحان کے مطابق کوئی نہ کوئی کام معاشرےکی خدمت کے لیے‬
‫ایک جواز کی حقیقت رکھتا ہے یہ اس کے اپنے ہونے اور دوسرے تمام تصورات‬
‫ے ککاا ححققدداارر کے ہونے کا جواز ہے اور پوری کائنات کے ہونے کا جواز یہی سب سے بڑا‬
‫نے‬ ‫کر‬
‫رن‬ ‫لک‬
‫صل‬ ‫حا‬
‫اص‬ ‫ات‬
‫تح‬ ‫ری‬
‫یا‬ ‫رو‬
‫ور‬ ‫ضر‬ ‫سے‬
‫ے ااپپننیی ببننییااددیی ض‬ ‫سرانجام دے گا تب ہی ریاست س‬
‫سے بڑا تصور یا‬
‫ٹھرے گا ۔ ریاستکی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو عاقل‬
‫خیال ہے ۔ یہ سب سے بڑا تصور یا خیال خدا کا ہے ۔ محبت کا تعلق ہمیشہ خوبصورتی‬
‫سے ہے ۔ کسی جسمانی شکل میں پیدائش سے قبل انسانی روح بے جسم تصورات و‬ ‫وانا اور منصف مزاج ہوں اور اپنے ذہنی رجحان کے مطابق اس کام کے لیے‬

‫خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوں ۔ حقیقی علم کی بنیاد عقلی استدلال اور ذہنی شعور ہے خیالاتکی دنیا میں سوچ بچار کے عالم میں تھی لیکن جیسے ہی وہ انسانی جسم میں داخل‬

‫اور کسی چیز کا ایک خاص تصور ہی عقلی استدلالکی بنیاد ہے اور ایک عالم کبھی غلطی‬
‫ہوئی حواس خمسہ میں مدغم ہو کر وہ اس جہاںکو بھول گئی جس میں وہ پہلے بے جسم‬
‫نہیں کر سکتا ۔ نیکی ایک علم ہے لہذا سکھایا پڑھایا جاسکتا ہے ۔ نیکی کی تمام قسمیں کمر‬
‫بڑی تھی ۔ یہ روح جب حواس خمسہ کے جہاں میں کسی خوبصورتی کو دیکھتی ہے تو‬
‫سے نکلتی ہیں اور تمام اخلاقیات علم سے جنم لیتے ہیں ۔ "‬
‫اسے خوبصورتی کے اس ایک تصورکی یاد آتی ہے جو خیالاتکی دنیا میں تھا اور جب‬
‫سقراط کے بعد افلاطون ( ‪ 429‬ق م ) نے اپنی تھیوری آف آئیڈیاز میں کہ‬
‫روح ایک کے بعد دوسری خوبصورت چیزکو دیکھتی ہے تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ‬
‫انسانی علم کے دو ذرائع ہیں ۔ ایک حواس خمسہ کے افعال اور دوسرا عقلی‬ ‫کہ‬
‫تو اس خوبصورتی کے ایک خاص تصور والی خوبصورتی ہے جو اپنے آپکو ان‬
‫حواس خمسہ سے مادی دنیا کی اشیاء کا تجربہ حاصل ہوتا ہے اور عقلی‬ ‫استدلال‬
‫خوبصورت چیزوں میں پیشکر رہی ہے ۔ خوبصورت اجسام کے بعد روح خوبصورت‬
‫استدل‬
‫ال سے عمومی یا آفاقی تصورات و خیالات کا اور اک ہوتا ہے اور خیالات ؛ ارواح اور پھر خوبصورت علوم کی طرف متوجہ ہو کر خوبصورتی کے ایک تصور کی‬

‫تصورات کا جہاں اصل حقیقت اور سچائی ہے اور یہی حتمی وجود ہے جبکہ حواس خمسہ‬
‫جانب متوجہ ہو جاتی ہے ۔ خوبصورتی سے محبت کا جذبہ انسانی فطرتکا تقاضا ہے اور‬
‫کا جہاں عدم وجود ہے ۔ خیالات اشیاء میں پنہاں ہیں اور آفاقی تصورات وجود اور‬
‫یہ جذبہ انسان میں اس لیے موجود ہے کہ وہ عقلی استدلالکی صفت سے متصف‬
‫عدم وجود کے درمیان میں ہیں کسی چیز کا آفاقی تصور ایک ہوتا ہے ۔ خیال زمان‬
‫ہے۔"‬
‫افلاطون کے نزدیک طبیعاتکا تعلق مادی دنیا کے مظاہر فطرت سے ہے وہ‬ ‫مکاں کی قید سے آزاد ہے جبکہ مادی اشیاء زمانی بھی ہیں اورمکانی بھی ۔ خیال دانگی‬

‫اور غیرمتغیرہے جبکہ حواس خمسہ سے محسوس ہونےوالی اشیاء مسلسل تغیرپذیر ہیں۔ دنیا کی تخلیق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "حواس خمسہ سے محسوس ہونے‬

‫والی اشیاء آفاقی تصوراتکی نقلیا عکس ہے ۔ آفاقی خیالات اصل وجود اور حواس‬ ‫تصوراتکی تین اقسام ہیں ۔ اخلاقی تصورات جیسے انصاف‪ ،‬نیکی اور خوبصورتی‬

‫انسان ‪ ،‬درخت وغیرہ خصوصیات یا صفات کے‬ ‫مادی اشیاء کے تصورات جیسے گھوڑا‬
‫نسر سے محسوس ہونے والی اشیاء ٹیم حقیقی یا عدم وجود نہیں اور عدم وجود کا حتمی‬
‫تصورات جیسے بہادری ہمدردی وغیرہ ۔ نیکی کے اوصاف بدی اور انصاف کے ساتھ‬
‫اصول مادہ ہے جسے آفاقی تصورات نے چیزوں میں تبدیلکر دیا ہے ۔ خدا نے سب‬
‫بے انصافی کا تصور موجود ہے ۔ جس طرح ایک آفاقی تصور اپنے جیسی بہت سی چیزوں‬
‫‪95‬‬ ‫‪94‬‬

‫تینوں صورتیں گیں ‪ ،‬مائع اور ٹھوس اس تغیرکی تدریجی منازل ہیں ۔ زندگی اور‬ ‫سے پہلے دنیا کی روحکو تخلیق کیا جو غیر مادی ہونے کےباوجود جگہ گھیرتی ہے ۔ ان‬
‫روح ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں ۔ انکسا غورث ( ‪ 428-500‬ق نم ) نے‬ ‫نے اس روحکو جالکی طرح خلا میں پھیلایا پھر اسے اندرونی اور بیرونی حصوں میں‬

‫انکشاف کیا کہ مچھلیاں اور پورے سانس لیتے ہیں اور انسان کو جب ہاتھوں کے بل‬ ‫تقسیم کیا‬
‫۔ یہ دونوں حصے نصف دائرے کی شکل میں ہیں اور ان کا مقدر یہ ہے کہ‬

‫چلنے کی ضرورت نہ رہی تو آہستہ آہستہ انسانی علم نے سائنسکی شکل اختیارکی ۔‬ ‫سیاروں اور ستاروں کے دائرے بن جائیں پھروہ مادہ لے کر اسے چاروں عناصرے‬

‫ہرا قلیفوس ( ‪ 470-530‬ق م ) نے کہا کہ تمام چیزیں مستقل طور پر متغیر اور رواں‬ ‫روح کے خالی ڈھانچے میں باندھتاہے جس سے کائناتکی تکمیل ہو جاتی ہے ۔انسانی‬

‫دواں ہوتی رہتی ہیں ۔ مادہ میں بھی حرکت موجود ہے ۔ تاریخ تکوین کے ہر چکرکی‬ ‫روح بھی دنیاکی روح سے ملتی جلتی ہے اور یہی روح انسانی جسم میں حرکتکی وجہ‬

‫ابتدا اور انتہاآگ ہے ۔ تمام اشیاء کی بودو نابودکی وجہ کشمکش ہے اور اگر کشمکش نہ‬ ‫ہے اور اسی دنیا میں انسان کا عقلی استدلال پنہاں ہے ۔ انسانی روح کا تعلق آفاقی‬

‫ہو تو انحطاط شروع ہو جاتا ہے ۔ تغیرکشمکش اور انتخاب کے عمل میں صرف قانون‬ ‫تصورات اور حواس خمسہ دونوں جہانوں سے ہے ۔ یہ دو حصوں میں تقسیم ہے اور‬

‫ابدی حیثیت رکھتاہے ۔ یہ نظام ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔کوئی دیوتا‬ ‫دونوں حصوں میں سے ایک حصہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ اوپر والا حصہ عقلی‬

‫یا انسان اس نظام کا خالق نہیں ہے ۔ ایموڈوکلینز (‪ 445‬ق م ) نے کہا کہ اعضا کی‬ ‫استدلال والا ہے جو آفاقی تصورات کے جہاں کا ادراک کرتا ہے ۔ روح کا عقلی‬

‫تخلیق انتخاب سے ہوتی ہے ۔ فطرت نظام ہائے جسمانی کے متعلق تجربات اور‬ ‫استدلال والا حصہ غیر فانی ہے جبکہ غیر استدلالی حصہ فانی ہے اور یہ حصہ نیکی اور‬

‫اختیارات کا عمل جاری رکھتے ہوئے مختلف طریقوں سے ترتیب دیتی ہے ۔ عضویہ‬ ‫بدی میں تقسیم ہے ۔‬

‫قائم رہکر اپنی جنس کی تخلیق کرتا ہے ۔ لوئی پوس (‪ 445‬ق م) نے کہا کہ ہر چیز‬ ‫المختصریونانیوں سے قبل کی قومیں سائنس اور دینیاتکو ایک قرار دیتے‬

‫مجبور ہے جبکہ ویما قر طوس ( ‪ 360-460‬ق م ) نے کہا کہ دراصل جواہر اور خلا کے‬ ‫ہوئے فطرت کے ہر عمل کا باعث کسی دیوتا کو ٹھراتے تھے ۔ یونانیوں میں تھیلیز‬

‫سوا اورکوئی چیز موجود ہی نہیں شے مدرکہ کے جواہر خارج ہو کر حواس خمسہ کی کسی‬ ‫( ‪ 640-550‬ق م ) نے سب سے پہلے انکشاف کیا کہ سورج اور ستارے جنکی‬

‫جس سے مس کرتے ہیں ۔ بے شمار عوالم تھے اور ہوں گے لمحہ بہ لمحہ سیارے متصادم‬ ‫لوگ پرستشکرتے ہیں دراصل آگ کے گولے ہیں ۔ اس کے شاگرد انا کسی مندار‬

‫ہو کر تا ہوتے ہیں اور یکساں حجم اور صورت کے سالمات منتخب ہو کر مجتمع ہوتے ہیں‬ ‫( ‪ 610-540‬ق م ) نے کہا کہ کائنات ابتدا میں غیر مشخص اجزا پر مشتمل مادہ تھی ۔‬

‫جس سے نئی دنیا ئیں معرض وجود میں آتی ہیں ۔ "‬ ‫پھر اضداد کی رفتہ رفتہ علیحدگی وجہ وجود عالم بنی ۔ ہیت تاریخ میں مقرر شدہ مدت‬

‫ایتھنزکی پیچیدہ سیاسی زندگی نے سقراط اور افلاطون کو علم الحیات اور‬ ‫کے بعد بے شمار عوالم ارتقا پذیر ہوئے اور پھر تا ہوتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ جاریہ‬

‫طبیعاتپر تحقیقی کام کرنے کی بجائے اخلاقیات اور سیاسیات پر کام کرنے پر مجبور کیا‬ ‫ہے ۔ زمین اپنے داخلی نظام کے توازنکی بنا پر ساکن ہے ۔ تمام سیارے سیال تھے‬

‫لیکن ارسطو نے اپنی ہمت عالی سے طبیعات اور اخلاقیات دونوںپر کامکیا اور زیادہ‬ ‫پھر خشک ہوئے ۔ پانی میں رہنے والے جانور مجبوراً خشکی پر رہنے کے عادی ہوئے‬

‫سے زیادہ مشاہدات اور تفصیلات فراہم کرتے ہوئے تمام علمی نتائج کے مجموعے کو‬ ‫اور شروع میں انسان ایسا نہ تھا ۔ اناکسی میز نے کہاکہ ابتدا میں کائنات لطیفمادہ‬

‫منظم سائنس کی شکل عطا کی ۔ ارسطو کے نزدیک " آفاقی تصورات فطرتکی دائمی‬ ‫‪ ،‬پانی ‪ ،‬زمین اور پتھر کی شکل اختیارکی اور مادےکی موجودہ‬
‫تھی پھر اس نے ہوا ‪ ،‬بادل‬
‫‪97‬‬ ‫‪96‬‬

‫صورت مادے کا آفاقی تصور ہے جو مادےکی وضاحتکرتا ہے ۔ شکل ہی اپنے اندر‬ ‫اشیاء کے سوا کچھ نہیں اور کسی مادی شے کا آفاقی تصور اس نے سے علیحدہ وجود‬

‫کسی مادی چیز کے اس مقصد کو بھی رکھتی ہے جس کے لیے وہ چیز وجود میں آتی ہے ۔‬ ‫نہیں رکھتا بلکہ ہر چیزکا آفاقی تصور اس چیز کی ذات کے حوالے سے ہے ۔ آفاقیت ہی‬

‫صورت میں مادےکی تمام صفات موجود ہیں اور مادےکی تمام صفات آفاقی ہیں ۔‬ ‫حتمی سچائی ہے لیکن یہ آفاقیت انفرادیت میں مظہرہے ۔ اصل حقیقت یا مادہ وہی ہے‬

‫ماده بنیادی طور پر ایک بے شکل موادکی مانند ہے جو ہر مادی چیزکی ایک شکل‬ ‫جو اپنی ذات میں مکمل ہے اور اسے اپنی ذات یا وجود کے ہونے کے لیے کسی‬

‫کی بنیاد ہے ۔ مادہ کی نہکوئی خاص صفت یا کردار ہے اور نہ ہی کوئی خاص نقش‬ ‫دوسرے کے سہارےکی ضرورت نہیں ہے ۔ کسی چیز کا آفاقی تصور اس چیزکے‬

‫ہے ۔ اس بے کردار بے صفت اور بے نقش مادےکو جو چیز ان صفات سے متصف‬ ‫مارے کے وجود کے بغیرناممکن ہے ۔ مادے سے مادے کی صفاتکو الگکرنے کا‬

‫کرتی ہے وہ شکل ہے اور ایک چیزکو دوسری چیز سے صرف صفات ہی کیبنیاد پر الگ یا‬ ‫مطلب مادےکو مادے سے علیحدہ کرتاہے ۔ مادی اشیاء اور ان کا آفاقی تصور جدا‬

‫ااسکتا ہے ۔‬
‫علیحدہ یا ممیزکی ج‬ ‫نہیں ہو سکتے بلکہ ہر مادی چیز کا تصور اس مادی چیز کے اندر موجود ہے ۔ مادی اشیاء کا‬

‫مادہ ایک اہمیت یا امکان کی مانند ہے ۔ جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہر قسمکی‬ ‫آفاقی تصور ان ہم صفات اشیاء کے باعث ہے نہکہ وہ ہم صفات مادی اشیاء اپنے‬

‫چیز بن سکتا ہے لیکن جو چیز اس اہمیتیا امکانکو کسی چیز میں تبدیلکرتی ہے وہ شکل‬ ‫آفاقی تصور کے باعث ہیں ۔ مادے کی صفات آفاقی ہیں جو اپنے باعث مادےکا ایک‬

‫ہے ۔ ایک خاص مقصد مادےکو متحرک کرتا ہے اور یہ خاص مقصد بھی اس شکل کے‬ ‫آفاقی تصور پیش کرتے ہیں ۔ کسی چیزکو بنانے میں چار ملتیں کار فرما ہوتی ہیں ۔ پہلی‬

‫اندر موجود ہے لہذا جب مادے میں شکل کا عصرموجود ہوتا ہے تو ہرمادہیکساں طور‬ ‫وہ مواد یا مادہ جس سے چیز کو بنایا جائے ۔ پھر بنانے والے کی عمارت دوسری علت‬

‫پر متحرک یا تبدیل ہوتا ہے ۔‬ ‫ہے ۔ تیسری علت وہ تصور یا شکل ہے جس کے مطابق چیز نے تیار ہوتا ہے اور‬

‫بادہ اپنے اندر اہمیت اور امکانکی صفات رکھتا ہے یہ کسی بھی شکل میں آکر‬ ‫چوتھی علت وہ خاص مقصد ہے جس کے تحتکوئی چیز تشکیل پاتی ہے ۔ یہ چاروں‬

‫حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے اور یہی مقصدیت ہی اصل قوتیا اصول محرکہ ہے ۔‬ ‫ملتیں آخر کار جذب ہو کر شکل ( ‪ ) Form‬کی حیثیت اختیارکرتی ہیں ۔ چیزکے وجود‬

‫حرکت کا عمل ایک اندرونی خیالی کشمکش ہے جو کسی چیزکو حرکت پر مجبورکرتی ہے اور‬ ‫میں آنے کا اصل مقصد اس چیز کی صورتکا اظہار ہے ۔ اصل مقصد حرکتکی اصل‬

‫وہی ایک خاص مقصد ہے ۔‬ ‫متحرک ہے اور اسی اصول کے تحت‬ ‫علت ہے اور فطرت ایک خاص مقصد کی طرف‬

‫مادہ ایک خاص مقصد کے تحت حرکتکرتا ہے اور یہی مقصدیت اس پر اثر‬ ‫انسان بڑے سے بڑا کام جذبے سے مجبور ہو کرکرتا ہے ۔ "‬

‫انداز ہو کر اسے متحرک یا تبدیل کرتی ہے ۔ مقصد مادے سے نہ صرف پہلے موجود‬ ‫مادہ صورت میں موجود ہوتا ہے اور مادہ اور شکل‬ ‫ارسطو کے خیال میں‬

‫ہے بلکہ یہ اس کے اندر پنہاں ہے ۔ مقصد مادے میں حرکتکی علت ہے اور منطقی‬ ‫ناقابل تقسیم ہیں ۔ نہ مادہ کسی شکل کے بغیر اپنا وجود رکھتا ہے اور نہ ہی شکل مادے‬

‫طور پر علت اپنے معلول سے پہلے ہوتی ہے لہذا یہ حرکت یا تبدیلی پر مقدم ہے ۔‬ ‫کے بغیر اپنا وجود رکھتی ہے ۔ مادہ اور شکل دونوں رقیق ہیں اور یہ دونوں ایک‬

‫مقصد اور شکل کا اصول خیال اور حقیقت میں حتمی اولیت رکھتا ہے ۔ مادےکو امکان‬ ‫دوسرے میں دو رقیق چیزوںکی طرح ملتے اور جذب ہوتے ہیں ۔‬

‫یا اہمیتکی حالت سے ایک صورت یا شکل ( ‪ )Form‬میں لانے والا یہی مقصد ہے ۔‬ ‫مادی اشیاء کے وجود سے مادہ کا عمومی خیال یا تصور جنم لیتا ہے ۔ شکل یا‬
‫‪98‬‬
‫‪99‬‬

‫ہوتی ہے لہذا اس کی دوسری علت تیسری اور چوتھی علت میں شامل ہو جاتی ہے‬ ‫مقصد ہی فارم کا اصول ہے اور فارم آفاقی ہے ۔ تصور یا خیال آفاقی ہونے کے‬

‫مقصد مادے سے پہلے موجود ہوتا ہے جبکہ مقصد خود تیسری علت میں موجود ہے اس‬ ‫باوجود با قاعده مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ صرف خیال ہی کی حد تک حتمی اور حقیقی‬

‫طرح تیسری علت مادے سے مقدم ہے اور تیسری علت ہی خدا ہے جو پہلی علتپر‬ ‫ہوتا ہے ۔‬

‫بھی مقدم ہے بلکہ یہ سب پر مقدم اور حتمی حقیقت ہے اور چونکہ یہ تینوں ملتیں‬ ‫دنیا کی ہر چیز کا ایک مقصد اور عمل ہے ۔ مقصد صورت میں موجود ہے لہذا‬

‫مادی نہیں ہیں بلکہ خیالی ہیں لہذا خدا بھی ایک خیال ہے ۔ "‬ ‫تخلیق کائنات یا دنیا کی تخلیق کا سارا عمل وہ مرحلہ ہے جب مادہ جو کہ اہلیت اور‬

‫ارسطو کے نزدیک خدا خیال بھی ہے اور عقلی استدلال بھی ۔ وہی حتمی اور‬ ‫امکان کی حالت میں ہے خود کو صورت کے ذریعے ظاہرکرتا ہے یا صورت میں‬

‫آخری مقصد ہے اور تمام مادی وجود بے اختیار ایک خاصکشش کے تحت اسکی‬ ‫تبدیل ہوکر اپنا اظہار کرتا ہے ۔ دنیا کی جس چیزپر بھی نظر ڈالی جائے اس میں ایک‬

‫جانب رجوعکرتے ہیں ۔ خدا تمام چھوٹے مقاصد کے معاملے میں ایک بڑا اور حتمی‬ ‫خاص مقصد نظرآتا ہے ۔‬

‫مقصد ہے ۔ جیسا کہ ہر چیز کا مقصد یہ ہےکہ اسکی ذاتکی تعمیل ہو لہذا خدا چونکہ‬ ‫پوری کائنات میں فقط انسان ہی ایک ایسی جنس ہے جو شعوری طور پر اپنے‬

‫سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین مقصد ہے اس لیے وہ ہر طرح سے مکمل ہے تعمیل اس‬ ‫ذاتی مقاصد سے آگاہ ہے اس کے علاوہ بعض جانور اور جاندار بھی بظاہر عقلی عمل‬

‫کی ذات پر پوری ہوتی ہے ۔ خدا ماہر اور کاریگر بھی ہے اور اصل قوت محرکہ ہے ۔‬ ‫کرتے نظرآتے ہیں لیکن ان کا عمل عقلی یا شعوری نہیں بلکہ جبلی ہے اور ان کا‬

‫تمام حرکت اور تبدیلی اسی کے باعث ہے ۔‬ ‫عمل خود ریزن ہے اور یہ ریزن انسان سے نچلے درجے کی چیزوں میں جبلی اور غیر‬

‫ارسطو کے نزدیک " حرکت اور تبدیلی کی بنیادی وجہ ایک عظیم تر مقصدکی‬ ‫شعوری صورت میں اپنا اظہارکرتا ہے ۔‬

‫کشش اور لگن ہے اور ہر چیزکا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد کی طرف‬ ‫دنیا کی ساری حرکت دراصل صورتکی اسکوشش کا نتیجہ ہے جو مادےکو‬

‫حرکت کرے اور چونکہ پہلا محرک ہی تمام چیزوںکو اپنے خاص مقصد کی طرف‬ ‫اپنے اندر ڈھالنے کے لیے کرتی ہے ۔ مادے میں فطری قوت مدافعت کے باعث‬

‫حرکت دیتا ہے اس لیے وہ خود بے حرکت ہے اور یہ اس لیے بھی ہے کہ حرکت‬ ‫ضروری نہیں ہے کہ صورت ہمیشہ اپنی اسی کوشش میں کامیاب ہو جائے اسی لیے یہ‬

‫مادےکو اپنے اصل مقصد کی شکل کی طرف بڑھانے کا ایک مرحلہ ہے اور چونکہ‬ ‫شاذ و نادر ہی ہوتا ہےکہ مادہ پوری طرح صورت میں ڈھل جائے اس لحاظ سے نیچر‬

‫سب سے اعلیٰ یا عظیم تر صورت سے بڑھکر کسی اور صورتکاکوئی اور درجہ یا‬ ‫( ‪ ) Nature‬کافی حد تک اپنے مقصد میں ناکامیاب ہے ۔ "‬

‫مقام نہیں ہے لہذا اعلیٰ یا عظیم ترین صورت کے لیے اپنے سے بہترکی طرف بڑھنے‬ ‫ارسطو کے مطابق " ہر چیز کی تخلیق میں چار ملتیں کار فرما ہوتی ہیں ۔ پہلی‬

‫کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا اسے حرکت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے ۔‬ ‫علت مادہ ہے ۔ دوسری علت وہ مہارت ہے جو مادےکو ایک شکل دیتی ہے ۔ تیسری‬

‫یہی علت دراصل مقصدیتی علت ہے جو ایک مقصد کے حوالے سے کامکرتی‬ ‫علت وہ بنیادی تصور ہے جس کے مطابق مادےکو شکل ملتی ہے اور چوتھی علت ایک‬

‫ہے ۔ یہ علت مادی نہیں بلکہ خیالی طور پر مادے پر مقدم ہے یا اس سے قبل ہے‬ ‫خاص یا عظیم مقصد ہے جس کے تحت پہلی تین ملتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔ یہ مقصد‬

‫اس لیے یہ صرف منطقی طور پر تمام یا ہر قسمکی ابتدا سے قبل یا اول ہے جیسا کہ اس‬ ‫صورت ( ‪ )Form‬میں موجود ہے چونکہ حرکت اور تبدیلی ایک مقصد کے تحت واقع‬
‫‪100‬‬
‫‪101‬‬

‫حواس کے ذریعے مشاہدہ ممکن ہے اور اس کے موجوداتکو اپنی زندگی کی تکمیل‬ ‫کائناتکی وقت کے لحاظ سے کوئی ابتدا نہیں ہے اسی طرح وقت کے لحاظ سے اس‬

‫کی کوئی انتہا بھی نہیں ہے ۔ "‬


‫کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔ کائنات میں تغیر اور تبدیلی بھی ایک حقیقت ہے‬
‫لیکن یہ فطرت کے قوانین کے تابع عمل میں آتی ہے اور اس سے کائناتکو ایک‬ ‫صورت ( ‪ ) Form‬چونکہ آفاقی ہے لہذا وہ خیال ہے‬ ‫ارسطو کے نزدیک‬

‫مسلسل ساحت ملتی ہے ۔‬ ‫اور خدا خیال کا خیال ہے ۔ وہ صرف اپنی ہستی یا ذاتکو سوچتا ہے وہ نہ اپنی ذاتیا‬

‫انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے جو نہایت ہی اعلیٰ قسم کے اعصابی نظام اور ایک‬ ‫ہستی کا فاعل ہے اور نہ ہی مفعول ۔ وہ آفاقی تصورات کا خالق ہے اور آفاقی‬

‫معاشرتی مزاج کا عامل ہے ۔ ذہن یا روح دراصل عضویہ کے ایک اعلیٰ اور پیچیدہ‬ ‫تصورات کے بارے میں سوچتا ہے ۔ وہ ابدی رحمت میں رہتا ہے اور اسکی ابدی‬

‫فعل کا نام ہے ۔ مادی کائنات انسانی ذہن میں موجود تصورات سے علیحدہ ٹھوس مادی‬ ‫رحمت یہ ہے کہ وہ مسلسل اپنی ذاتکی تکمیل کے حسن کے بارہ میں سوچتا اور فکر‬

‫وجود رکھتی ہے اور یہ ایسے قوانین کے تحت منظم ہے جن پر انسان کا بس نہیں بلکہ‬ ‫کرتا ہے اور یہی فکر اور سوچ اسکی ابدی رحمت ہے ۔‬

‫انسان بذات خود قوانین کا تابع ہے ۔ انسان بحیثیت مادی وجود اور اعلی و پیچیده‬ ‫خدا ایک ایسا محرک ہے جسکو کوئی حرکت نہیں دیتا ۔ وہ جسم معرفی ہے ۔‬

‫عضویئے کے منظم کائنات کا ایک حصہ ہے جس کی تخلیق دیگر مظاہر فطرت کی طرح‬ ‫وہ منقسم نہیں ہو سکتا۔ لامکان ہے ۔ اس کی کوئی جنس نہیں ۔ جذبے سے خالی ہے‬

‫با مقصد ہوئی ۔"‬ ‫تغیر سے معرفی ہے ‪ ،‬کامل اور ابدی ہے ‪ ،‬وہ دنیا کی تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ اسے‬

‫حرکت دیتا ہے ۔ دنیا کے تمام اعمال و افعال کا محرک وہی ہے ۔ وہ دنیا کو اس طرح‬
‫ارسطو کے نزدیک "کائنات کا موجودہ وجود مواد حقیقی صرف اور صرف ایک‬

‫ہے ۔ مبداء کائنات مادہ ہے اور مادے کے علاوہکوئی اور حقیقت مطلقہ موجود نہیں ۔‬ ‫حرکت دیتا ہے جس طرح محبوب چیز محبکو حرکت میں لے آتی ہے ۔ وہ فطرتکی‬

‫حیات بھی اسی مادےکی طبیعی ‪،‬کیمیائی ترکیبکی لطیف ترین صورت ہے ۔ نفس یا‬ ‫علت نمائی اور خالص توانائی ہے ۔ وہ ان تمام کلکو یہ قوت بخشتا ہے کہ جزو وکل‬

‫ذہن بھی اسی مادےکی ایک عضویاتی ترکیبکا مو قعتی مظہرہے ۔ "‬ ‫اپنی غائیتکو پہچاننے لگتے ہیں ۔ خدا وہ روح ہے جسے شعور ذات حاصل ہے یہ روح‬

‫بڑی پر اسرار ہے اس سےکوئی فعل سرزد نہیں ہو تا اسے کسی شے کی تمنا نہیں وہ‬
‫ارسطو کے نزدیک "مادہ ہی تمام کائنات کا مبداء اوٹی اور جزو اساسی‬
‫خود تمام اشیاءکی مائیت اور علت نمائی ہے ۔ "‬
‫ہے ۔ ساری کائنات کی ابتدا مادے سے ہوئی ۔ مادے کے علاوہ کوئی شے حقیقی نہیں‬

‫پوری مادی و طبیعی دنیا مادی حقیقتوں اور جوہروں کا ایک میکانکی کل ہے جو ایک‬ ‫ارسطو نے فلسفہ حقیقت افلاطون کے فلسفہ مثالیت کے رد عمل کے طور پر‬

‫دو سرے پر قوانین حرکت کے تحت عمل اور رد عمل میں مصروف ہیں موجو د شےکی‬ ‫پیشکیا ۔ ارسطو کے خیال میں مادہ ہی بنیادی طور پر اپنی اصل میں حقیقت اولی ہے‬

‫توجیہ مادہ اور حرکتکی اصطلاحوں سے کی جاسکتی ہے ۔ کائناتکبھی خلق نہیں کی گئی‬ ‫اور مادی دنیا اپنی ہیئت میں ہی حقیقی اور ابدی دنیا ہے اور یہ اپنی وجودی بیت میں‬

‫بلکہ یہ ایک ابدی عمل ہے ۔ "‬ ‫اصل ہے ۔ کائنات اور موجودات محض انسان کے ذہن میں موجود تصورات کا عکس‬

‫ہی نہیں بلکہ انسانی ذہن کا تصوراتی مشاہدے سے ہٹکر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں اور‬
‫ارسطو کے نزدیک ”دنیا اپنی اصل میں ماورائے کائناتکوئی تصوراتی ابدی‬

‫حقیقت نہیں بلکہ یہ اپنی مادی شکل میں انسانی حواسکو جیسے نظرآتی ہے ویسے ہی‬ ‫کائنات معروضی حواس ہے ۔ کائنات ایک اصل اور ٹھوس ابدی حقیقت ہے جسکا‬
‫‪103‬‬ ‫‪102‬‬

‫ہے ۔ کائنات کی اصلیت اور علمیت اور قدرتی ترتیب موجوداتکائنات کی مختلف‬

‫خامتیں ہیں ۔ علم کائنات موجدات کائناتکی حقیقتکا نام ہے ۔ حقیقت تک رسائی‬

‫کے لیے جو ذرائع بھی اختیار کئے جاتے ہیں وہ ذرائع علم ہیں اور انسانی خواس بہترین‬

‫ذریعہ علم ہے ۔‬

‫اس کے نزدیک " وقت کے ساتھ انسان نے علوم کے حصول میں عروج‬

‫حاصلکیا اور ان حاصلکردہ علوم کی سچائی کو آزمایا بھی گیا ۔ لہذا مجموعی طور پر اس‬
‫ارسطوکا فلسفه اخلاقیات‬
‫حوالے سے علم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ موجودات کائنات کی اصلیت اور حقیقت‬

‫کو انسان کے لیے آسان تر بنا دے۔ "‬

‫اقدار بنیادی طور پر معروضی ہوتی ہیں اور معروضیت‬ ‫از سطور کے نزدیک‬
‫ارسطو کے خیال میں ہر انسان خوشی اور سکون کا متلاشی ہے اور اصل خوشی‬
‫دراصل حقیقتکی ایک صفت ہوتی ہے جس کا انحصارکسی شخص کی نفسی ترجیحات پر‬
‫وہ ہے جو اچھے کاموں سے حاصل ہوتی ہے ۔ ساری کائنات میں ہر چیزکا ایک خاص‬
‫نہیں ہوتا ۔ کائنات میں ایک ہمہ گیر اخلاقی قانون موجود ہے جسکو دلیل کے ذریعے‬
‫مقصد ہے اور اسی خاص مقصد کا حصول ہی اس چیزکاکردار یا عمل ہے لنڈا کائنات‬
‫ثابت کیا جا سکتا ہے اور جس کا اطلاق تمام افراد پر بطور عاقل انسانوں کے ہوتا ہے ۔‬
‫کی ہر چیزکی اچھائی یہ ہےکہ وہ اپناکردار درست طور پر اداکرے ۔ انسانکی حقیقی‬
‫اس لیے اقدار مستقل ‪ ،‬ابدی ‪ ،‬غیرمتغیر اور غیر زوال پذیر ہوتی ہیں ۔ "‬
‫راحت حسیاتی لذت میں نہیں ہے ۔ ایسی خوشی حیوانات جن کا ہر عمل جبلی ہوتا ہے‬
‫آئیے اب ارسطو کے فلسفہ اخلاقیات کے اہم جزویات کا جائزہ لیتے ہیں ۔‬
‫حاصلکرتے ہیں جبکہ انسانکا ہر حقیقی عمل عقلی استدلالکی بنیاد پر ہے ۔ لہذا انسان‬

‫کو حقیقی خوشی عقلی استدلال کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔‬

‫انسان عقلی استدلال کے علاوہ حواس خمسہکی وجہ سے حسیاتکا بھی اسیر‬

‫ہے ۔ حواس خمسہ انسانی جسم کا حصہ ہیں اس لیے انسان حسیات سے بھی اسی طرح‬

‫متاثر ہوتا ہے جیسے عقلی استدلال ہے ۔ عقلی استدلال انسانی زندگی کے طور اطوار‬

‫میں پنہاں ہے اور نچلے اور چھوٹے درجے کی اچھائی یا جبلت اس کے جذبات اور‬

‫حسیاتی بھوک سے منسلک ہے ۔ اس کیفیت میں انسان پر عقلی استدلال ‪ ،‬اخلاق اور‬

‫خیال چھایا ہوتا ہے اور اس مقام پر وہ خدا کا پر تو بن جاتا ہے ۔ بیرونی حالات و‬

‫وسائل بھی انسانکو اعلیٰ و ارفع درجے کی اچھائی اور اخلاق کے حصول میں معاون و‬
‫‪105‬‬
‫‪104‬‬

‫کے مطابق درجات یا مراتب عطا کرتا ہے جبکہ ‪ Corrective‬انصاف مجرموںکی‬ ‫مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ ایک امیر شخص کو اپنی دنیاوی دولت کے سبب فراغت میر‬

‫اصلاح کے لیے ان کے جرائم کے مطابق سزا دیتا ہے ۔ فرد فطری طور پر آزاد ہے‬ ‫آتی ہے اور وہ آزادی سے فلسفیانہ نظریات کا مطالعہ کر کے اعلیٰ و ارفع اخلاقیات‬

‫اگر وہ قانون اور انصافکی طرف سے وارد ہونے والی سزا سے نہیں ڈرتا تو وہ اپنی‬ ‫تک پہنچ سکتا ہے ۔‬

‫مرضی سے اچھا یا برا راستہ اختیارکر سکتا ہے لیکن برے کام کی صورت میں قانونکی‬ ‫انسان کے اندر موجود سفلہ جذبات اور حیاتی بھوککو عقلی استدلال سے‬

‫طرف سے اسے سزا ضرور ملے گی ۔ ارسطو اس عملکو فطری آزادی کا نام دیتاہے ۔‬ ‫آہستہ آہستہ مسلسل کوشش اور مجاہدے سے قابو پایا جاسکتا ہے اس لیے ضروری‬

‫سیاسی فکر کے آغاز کا تعین بڑا دشوار ہے البتہ چھٹی صدی عیسوی میں یونان‬ ‫ہےکہ انسان میں آہستہ آہستہ اخلاقی عادات پیدا کی جائیں ۔ جن لوگوں میں عقلی و‬

‫میں شہری ریاستوںکی ابتداء ہو چکی تھی ۔ آئیے چھٹی صدی سے افلاطون تک یونانی‬ ‫اخلاقی استدلالکی حیثیتکم درجہ کی ہوتی ہے ان لوگوں پر ان کے سفلہ جذبات‬

‫ریاستوں میں موجود سیاسی فکر کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے ارسطو کے فلسفہ سیاسیات کا‬ ‫اور حیاتی بھوککسی وقت بھی غلبہ پاکر ان کے عقلی استدلالکی قوتکو مفلوجکر‬

‫دور حاضرکے ماہرین کی تنقید کے ساتھ مطالعہکرتے ہیں ۔‬ ‫سکتی ہے ۔ لہذا یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے استدلال و انصاف کے اصولوں کی حتمی‬

‫وضاحت کر کے ان کے آفاقی تصورات قائم کئے جائیں اور بعد ازاں انہیں عوامکی‬

‫رضامندی اور منظوری سے قانونکی شکل یا حیثیت دی جائے ۔‬

‫نیکی کا مطلب سفلہ جذبات اور حیاتی بھوک پر عقلی استدلال کے ذریعے غلبہ‬

‫پانا ہے ۔ سفلہ جذباتکو عقلی استدلال کے ذریعے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا‬

‫کیونکہ اگر اعلیٰ و ارفع درجہ ادنی درجہ کو ختمکر دے تو انسانی نفسیات کا ارتقارُک‬

‫جائے گا ۔ اس لیے حیاتی بھوک اور عقلی استدلال دونوں کا ہونا ضروری ہے ۔‬

‫بصیرت نیکی کی علت بھی ہے اور معلول بھی ۔ علت اس لیے کہ جو شخص‬

‫گرنی بصیرت رکھتا ہے وہی صحیح طور پر جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور معلوم‬

‫اس لحاظ سے کہگہری بصیرت مسلسلکوشش اور ریاض سے پیدا ہوتی ہے ۔‬

‫بهادری دراصل بزدلی اور اندھی دلیری کے درمیان اور معتدلی دراصل‬

‫سخاوت‪،‬کنجوسی اور فضول خرچی کے درمیان ایک رشتہ تعلق یا اعتدال کا ذریعہ‬

‫ہے ۔‬

‫انصاف کی دو قسمیں ہیں ۔ ‪ Distributive‬اور ‪Corrective-‬‬

‫‪ Distributive‬انصاف اچھے اور باصلاحیت افراد کو ان کے کارناموں یا کارکردگی‬


‫‪107‬‬ ‫‪106‬‬

‫پولس ( ‪ )Polis‬سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی "شہری مملکت سے متعلق امور "‬

‫کے ہیں اس لیے خیالکیا جاتا ہے کہ سیاسی فکر کا باقاعدہ آغاز قدیم یونان سے ہوا‬

‫تھا ۔ یونان میں بیداری کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی‬

‫جب کسان سونے اور چاندی کے سکے رائج ہونے کی وجہ سے بدحال ہوئے اور فوجی‬

‫زمینیں خرید لیں‬ ‫طبقہ کاشتکاروں پر چھا گیا۔ ساہوکاروں نے کسانوں کی‬

‫اورکاشتکاروں نے معاشی دشواریوں کے پیش نظران کی غلامی کو قبولکر لیا ۔ اس‬

‫نازک حالت میں " ڈلفی " کی غیبی آواز نے اخلاقی تعلیم شروعکی جسکا معاشرہ کے‬ ‫ارسطو کا فلسفه سیاسیات‬

‫ہر طبقہ پر گہرا اثر پڑا اور اس تعلیم کے زیر اثر ایسے قانون ساز پیدا ہوئے جنہوں نے‬

‫یونان کے لیے سیاسی دستور مرتب کئے ۔ ریاست تھیوری (‪ )Theory‬کا آئین‬

‫آئین سولون ( ‪ )Solon‬نے‬


‫پروٹے کورس اور یونان کی خاص ریاساتیتھنزکا‬ ‫علم سیاسیات انسانی زندگی ‪ ،‬اس کے نظام اور اس کے تدریجی نشوونمات‬

‫بنایا۔‬ ‫ہے اور اس کا دوسرے معاشرتی علوم جن میں اجتماعیات‪ ،‬تاریخ‬ ‫بحث کرتا‬

‫یونان میں شہری ریاستوں کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح میں اس وقت شروع‬ ‫اخلاقیات ‪ ،‬معاشیات ‪ ،‬علم الانسان اور نفسیات شامل ہیں سے گہرا تعلق ہے ۔‬

‫ہوئی جب معاشی انقلاب موثر ہو چکا تھا۔ سپارٹا میں ایک فوجی اشرافی حکومت قائم‬ ‫ہے ۔ اس کے‬
‫سیاسیاتکو تین تاریخی ‪ ،‬نظری اور علمی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا‬

‫ہوئی جسے لی کر گیس کے قوانین نے مزید مضبوط بناتے ہوئے کاشتکاروں کو‬ ‫تاریخی حصہ میں ابتدا سے آخر تک ہر دور کے فلسفیوں کے نظریات ‪ ،‬نظری حصہ‬

‫زمینداروں کے عملاً غلام بنا دیا ۔ دوسری جانب ایتھنزکی ریاست میں سولن کے‬ ‫میں سیاسیات کے اصول اور علمی حصہ میں مخصوص نظامکو بنانے یا کسی مجوزہ نظام‬

‫آئین نے جمہوریت کا بیج بویا ۔ سولن نے حتی المقدور معاشرے میں ہم آہنگی اور‬ ‫عمل میں لانے کی تدابیر اور تراکیب زیر بحث آتی ہیں ۔‬

‫توازن پیدا کرنے کی کوششکی جس میں وہ کامیاب رہا۔ اس نے اپنی نظموں میں‬ ‫سیاسیات اگرچہ معاشی نظام کی ہر شکل میں موجود ہے لیکن اس کا خاص‬

‫اے جنکو وہ بہتر سمجھتا تھا اور جن کو اس نے ایتھنز‬


‫کہیں کہیں ان اصولوںکا ذکرکیہ‬ ‫موضوع ریاست ہے ۔ ریاست کا ہر دور میں مختلف مفہوم رہا ہے اور اسکی تعریف‬

‫کے دستوری قوانین بناتے وقت مد نظر رکھا تھا ۔ اس نے کاشتکاروں کا قرضہ منسوخ‬ ‫اور شکل ہر دور میں بدلتی رہی ہے ۔ یونان میں ریاستکی شکل ایک شہرتک محدود‬

‫۔ ہر فردکو اس باتکا حق دیاکہ وہ محتاج‬


‫کرکے انکو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا‬ ‫تھی جبکہ قرون وسطی میں اس کی حیثیت عالمگیری اور دور جدید میں اس کا دائرہ تو‬

‫اور بے بس لوگوںکی طرف سے عدالت میں انصاف طلبکرے ۔ مقدماتکا فیصلہ‬ ‫یا نسل ‪ ،‬زبان یا تہذیب کے مطابق ہے‬

‫کرنے کے لیے ایک جیوری مقررکی جس کا انتخاب عوام میں سے ہو تا تھا ۔‬ ‫سیاسی فکر کے آغاز کا تعین بڑا دشوار ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی خاصہ‬

‫سولن کے شہر چھوڑ جانے کے بعد اس کا رشتہ دار پی سکس ٹرےٹس چھوٹے‬ ‫یا مخصوص علاقے کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔ لفظ ‪ Politics‬دراصل یونانی اصطلاح‬
‫‪109‬‬ ‫‪108‬‬

‫زندگی قانون کے مطابق بسر کرنا چاہیے تمام انسانی قوانین ایک قانون الٹی پر مبنی‬ ‫۔ اس نے ان زمینداروںکی مالی‬
‫اینزکا بادشاہبنا‬
‫چھوٹے زمینداروںکی مدد سے‬

‫ہوتے ہیں ۔ سو فسطائی پروٹے گوریس نے خیال ظاہرکیا کہ " ریاستکی بنیاد اور اس‬ ‫مدد کر کے ان کی مالی مشکلات میں مزیدکمی کی۔ اس نےوہ تمام ادارے قائم رکھے جو‬

‫کے قائم ہونے کی محرکانسانی ضروریات ہیں ۔ ادب اور اخلاق کے اصول خدا کی‬ ‫سولن کے آئین کے مطابق معرض وجود میں آئے تھے ۔ بعد میں کلائیں تمیزے‬

‫طرف سے برائے راست نازل ہوتے ہیں اور ان کےبغیر ریاستکی حیثیت افراد‬ ‫ریاستکی آبادیکو نئے سرے سے نئے اصولوں کے تحت تقسیم کیا اور کلیساکو ملک‬

‫کے ایک مجموعے سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور اس کا مقصد صرفانسانی زندگی کی ادنیٰ‬ ‫کمیٹیوںکو عملی اختیارات دے کر‬
‫کا فرمانروا بنا دیا۔ اس نے کلیسا کی منتخبکردہ اس‬

‫ضرورتوںکو رفع کرنے تک محدود رہتا ہے ۔ ریاست ایک تعلیمی ادارہ ہے اور‬ ‫مکمل جمہوریت نافذکی ۔‬

‫ریاست قانون کے ذریعے سے سیاسی اور اخلاقی زندگی کو بہترین شکل دیتی ہے ۔ " سو‬ ‫اس دور میں سپارٹا میں شہریوں کو زمین کی ملکیت کا حق تھا لیکن کھانا سب‬

‫تمام سیاسی دشواریوںکی وجہ معاشی بد نظمی ہے " اور سو‬ ‫فسطائی نے لی نے کہا کہ‬ ‫ایکساتھ کھاتے تھے اور ہر شہری کو اناج وغیرہکی ایک خاص مقدار اپنے حصے کے‬

‫فسطائی ہپوڑے میں نے خیال ظاہرکیاکہ ”آبادی کوکسان دستکار اور سپاہی کے تین‬ ‫طور پرمہیا کرنا پڑتی تھی۔ شہری ایک خاص وردی پہنتے تھے اور ان کے کھانے کی‬

‫طبقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور حاکموں کے انتخاب کا حق ان تینوں طبقوں کو یکساں‬ ‫چیزیں مقرر تھیں ۔ کریٹ کے جزیرے میں تمام زمینیں ریاستکی ملکیت تھیں ۔‬

‫ہونا چاہیے ۔ مزید براں زمین کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے ایک وہ جو‬ ‫ریاست ان پر کاشتکرواتی اور پیداوار شریوں کے صرف میں یکساں آتی تھی ۔‬

‫کسانکی ذاتی ملکیت ہو ۔ دوسری وہ جو ریاست کی ملکیت ہو جس سے سپاہی طبقےکی‬ ‫ایتینرکی ریاست چاندی اور پتھر کی کانوں اور جنگلوںکی مالکتھی اور اس میں‬

‫ضرورتیں پوری کی جائیں اور تیسری وہ جو نہ ہی اغراض کے لیے وقف ہوں ۔ "‬ ‫شہریوں کی ملکیت پر ایک حد تنکگرانی رکھی جاتی تھی ۔ مل کرکھانے اور زمین کی‬
‫ایتھنزکی جمہوریت کا نصب العین ‪ 441‬ق م میں سپارٹا کی جنگ کے آغاز تک‬ ‫ملکیت میں شرکت کی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی تعلیم دینا ریاستکی ذمہ داری میں‬

‫قائم رہا لیکن جلد ہی لوگ بے اصولی اور بے غرضی کی طرف راغب ہو گئے ۔ سقراط‬ ‫شامل تھا ۔‬

‫اور افلاطون ایتھنزکی سیاسی اور اخلاقی تنزلی کی وجہ بیانکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "‬ ‫سولن کے بعد فیثا غورث اور ای او نیا کے فلسفیوں نے بہت سے ایسے‬

‫تنزلی کی اصل وجہ یہ تھی کہ ایتھنز کے لوگوںکو اخلاق و معاشرت کا صحیح علم حاصل نہ‬ ‫اصول مدون کیے جن کا بعد کے آنے والے فلسفیوں نے گہرا اثر قبول کیا۔‬

‫تھا جب تک ان کی ذہنیت پر ان کے رہبروںکی روایات اور قدیمی اخلاقی تعلیم کا اثر‬ ‫فیثاغورث نےماہر ریاضیت ہونے کے باوجود ایک خاص فلسفہ حیات روشناسکروایا‬

‫رہا وہ سنبھلتے رہے لیکن ایرانی جنگوں میں فتح یاب ہونے کے ساتھ ہی عقلیتکا دور‬ ‫جس کا سیاسی پہلو یہ تھاکہ ” ایک عدد اس وقت تک سالم رہتا ہے جبتک اس کے‬

‫شروع ہوا اور عقلکی پرستش میں لوگ اس آئین حیاتکو بھول گئے جس نے اس‬ ‫اجزا برابر ہیں ۔ ریاستکی بنا انصاف پر اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کے‬

‫وقت انکی راہنمائی کی تھی ۔ چنانچہ یونان کی سیاسی اور اخلاقی زندگی میں انتشارپیدا‬ ‫اجزا میں مساوات ہو اور انصاف کا مقصد مساداتکا قائم رکھنا ہے ۔ انسان کی تین‬
‫ہوا اور ایک صدی کے اندر اندر نہ صرف ایتھنزکی عظمت خاک میں ملگئی بلکہ‬ ‫قسمیں ہیں عقل پرست ‪ ،‬شہرت پرست اور دولت پرست اور یہ تینوں قسمیں‬

‫تقریباً یونانکی تمام شہری ریاستیں تباہ ہوگئیں ۔ "‬ ‫معاشرے اور ریاست کے اجزا ہیں ۔ " ہیریک لی ٹس نے کہا کہ " انسانکو اپنی‬
‫‪111‬‬ ‫‪110‬‬

‫سے زیادہ مکمل ہوتی ہے ۔ حکومت کرنے کا حق ان ہی لوگوں کا ہوتا ہے ۔ اس طرح‬ ‫ایتھنزکے بگڑے ہوئے سیاسی اور اخلاقی فلسفے کے خلاف سب سے پہلے سقراط‬

‫معاشرے کا پہلا اصول معاشرے کے تین طبقے ہیں اور ہر طبقے کے سپرد وہ کام کیا جانا‬ ‫( ‪ 399-470‬ق م ) نے بغاوت کی اور کہا کہ ” قانون کی پیروی ہر شخص کا اخلاقی‬

‫چاہیے جس کی وہ اہلیت رکھتا ہو ۔ اس اصول پر عمل کرکے ہر شخص اپنی سرشت‬ ‫فرض ہے اور قانونی سزا سے گریز کرنے کا اس شخص کو بھی حق نہیں ہے جسے یقین‬

‫کے مطابق سکون آسودگی اور اطمینان حاصلکر سکتا ہے ۔ "‬ ‫ہو کہ وہ بے گناہ ہے ۔ مدبری ایک فن ہے جس میں بغیر استعداد اور تعلیم کے‬

‫افلاطون کے نزدیک " ریاست میں کامل ربط اور اتحاد‪ ،‬دانائی ‪ ،‬ہمت اور‬ ‫مہارت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ ریاست اور سیاسی زندگی کا مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا‬

‫اعتدال کے عناصر کو عدل کے ذریعے ہم آہنگکرنے سے پیدا ہوتا ہے اور اگر‬ ‫ہے جب ایسی شخصیتیں جن کا علم اور عمل کامل ہو اس کی رہبر اور حکمران بنائی‬

‫افراد کمال حاصلکرنا چاہئیں تو انہیں بھی اپنی طبیعتوں میں عدل کے ذریعے توازن‬ ‫جائیں ۔ سیاسی قابلیتکوئی اونی چیز نہیں جس کا ہرکس و ناکس ہر ورزی اور قلعی گر‬

‫اور ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے ۔ ریاست میں کاشتکار اور دستکار جسمانی خواہش ‪،‬‬ ‫دعوے دار ہو سکے ۔ ریاست کا کام ماہران سیاست کے بغیر نہیں چل سکتا ہے اور‬

‫سیاسی ہمت اور محافظ عقل جیسی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ریاستکو چاہیےکہ نچلے طبقے‬ ‫سیاسی زندگی کی اصلاح ان لوگوں کے بغیر ممکن نہیں جو ہر علم و ہنر اور اخلاقی صفت‬

‫کی ذہنی پرورش اس عقیدے سے کی جائے کہ خدا نے محافظوںکو سونے سے‬ ‫میں کامل ہوں ۔ناجائز طرز عمل اور وہ زیادتیاں جو بے اصول حکمران کرتے ہیں ان‬

‫سپاہیوںکو چاندی سے اور نچلے طبقےکو تانبے سے بنایا ہے اور نچلے طبقے کا فرض ہے‬ ‫تو بھی اتنا ہی صدمہ پہنچاتی ہیں جتنا اوروں کو ۔ سیاسی اقتدار ان ہی لوگوں کا‬
‫کی ذاک‬

‫کہ وہ انسانیت کے بہتر عصرکی اطاعت کرے ۔ محافظوں اور سپاہیوںکو ایسی تعلیم‬ ‫حق ہے جو اس کی ذہنی اور رومانی استعداد رکھتے ہیں ۔ صرف فائدہ حاصلکرنےکو‬

‫دی جائےکہ وہ اعلیٰ مرتبے کا حق ادا کر سکیں ۔ "‬ ‫زندگی کا مقصد بنانا ایک انتہائی اونی معیار ہے ۔ "‬

‫افلاطون نے ادب میں موسیقی اور جسمانی نشوونما میں غذا اور حفظان‬ ‫سقراط کے بعد افلاطون نے اپنی تصنیف "الجمہوریہ " میں اخلاقی " ما فلسفیانہ‬

‫کے اصولوںکی تعلیم کا اضافہ کیا۔ محافظ بننے کے لیے سترہ سالکی عمرکے بعد دس‬ ‫مافوق الطبعی ‪ ،‬مذہبی ‪ ،‬تعلیمی نفسیاتی اور تاریخی عقیدوں کی آمیزش سے ایک ایسا‬

‫تیک‬
‫ک ریاضیات ‪ ،‬ہیت اور پانچ سال تک فلسفے کی تعلیم ضروری قرار دی ۔‬ ‫سال ن‬ ‫فلسفہ حیات مرتب کیا جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل کے لیے رہبری کی حیثیت‬

‫محافظوں کے لیے پندرہ سال تک حکومتکرنا لازم قرار دیا ۔ محافظوںکی تعلیم کے‬ ‫رکھتا ہے ۔ افلاطون کے مطابق ” ریاست کا قیام اس وجہ سے عمل میں آیا کہ انسان‬

‫لیے اس نے اور بہت ساری تجاویز پیش کیں جو اشتمالیت کے نام سے مشہور ہیں ۔‬ ‫خود اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ۔ ابتدائی شکل میں ریاست صرف ایک بستی‬

‫اس نے اپنے نظام حیات میںکاشتکاروںکو تعلیم سے اور سپاہیوں اور محافظوںکو ان‬ ‫ہوتی ہے ۔ جس میںکاشتکار اور مختلف قسم کے دستکار آباد ہوتے ہیں ۔ اس زمانہ میں‬

‫لذتوں سےنا آشنا رہنے پرمجبورکیا جو کاشتکاروں کے حصہ میں آئیں ۔ اس نے تعلیم‬ ‫محض آسودگی مد نظر ہوتی ہے ۔ رفتہ رفتہ حفاظت کی ضرورت سپاہیوں کا ایک طبقہ‬

‫میں مرد اور عورتمیں کوئی امتیاز روا نہ رکھا اور دونوں کے لیے ایک ہی نصاب‬ ‫پیداکر دیتی ہے جس میں جسمانی خواہشوں کے علاوہ اوالعزمی اور جوش کا جذبہ بھی‬

‫مرتبکیا ۔ اس کے نظام حیات میں مرد یا عورتکوئی بھی محافظ بن سکتا ہے ۔‬ ‫ہوتا ہے ۔ ترقی کرتےکرتے سپاہیوں میں ایسے افراد سامنے آتے ہیں جن میں دیگر‬

‫افلاطون نے صحت مند اور تندرست اولاد پیداکرنے کے لیے یہ اصول بنایا‬ ‫اوصاف کے علاوہ عقل اور غور کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور جن کی شخصیت سب‬
‫‪113‬‬ ‫‪112‬‬

‫میں غنیمت اور قانونی ریاستوں میں سب سے کم تر ہے ۔‬ ‫سپاہیوں اور محافظوں کے طبقوں میں سے ان مردوں اور عورتوں کے عارضی‬

‫افلاطون کے نزدیک ” ملکیت کا حق سب کا ہے لیکن اس پر ریاستکی نگرانی‬ ‫نکاحکر دیئے جائیں جو جسمانی اور روحانی خوبیوں کے لحاظ سے شہریوں کے اعلی‬

‫ہونی چاہیے ۔ شہریوں کو جو زمین دی جائے اس کا ایک حصہ شہر کے قریب اور‬ ‫نمونے ہوں ۔ پیدائش کے وقت بچہ ماں سے جدا کر دیا جائے تاکہ کسی ماں کو یہ‬

‫دوسرا حصہ سرحد کے پاس ہونا چاہیے ۔ شہریوں کے لیے صرف زراعت ہی کسب‬ ‫معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا بچہ کون سا ہے ۔ اس کے مطابق اس لاعلمی سے ہر ماں کی‬

‫معاش کا ذریعہ ہونا چاہیے ۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دولت پیدا‬ ‫نظر میں وہ تمام بچے جن کی پیدائش کا زمانہ ایک ہوگا یکساں عزیز ہو جائیں گے ۔‬

‫کرنے سے روکے اور دست کاری اور تجارت ریاستکی نگرانی میں غیرملکیوںکے‬ ‫نکاح صرف عمر‪ ،‬صحت اور طبیعت کے لحاظ سے باہم مناسبت سے ہوگا۔ مرد و عورت‬

‫سپردکرے ۔ عورتوںکو سیاسی حقوقکی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے اور ہر‬ ‫کی یک جائی کی اجازت محافظ کی مرضی سے ہوگی اور وہ اولاد جن میں ذرا برابر بھی‬

‫شخصکو مرضی یا پسندکی شادیکرنے سے روکے ۔ "‬ ‫نقص ہو تلفکر دی جائے گی ۔ ریاست کی آبادی میں تناسب سے زیادہ اضافہ‬

‫افلاطون کے نزدیک وہ دستور زیادہ پائیدار ہوتا ہے جس میں حکومت کے‬ ‫اور نکاحوں کی تعداد کو ایک خاص حد تک محدودکرنے کی ذمہ داری محافظوں پر‬

‫مختلف اصولوں کی آمیزش ہو اور اس بنا پر جمہوریتکی ایک ایسی آمیزش کا تصور‬ ‫ہو گی ۔ شادی کے دس سال بعد تک میاں بیوی کو تجربہ کار عورتوںکی نگرانی میں‬

‫پیش کرتا ہے جس میں دانائی اور آزادی دونوں شامل ہوں ۔ اس نے حاکموں کی‬ ‫رکھا جائے گا ۔‬

‫کارگزاریکی جانچ پڑتال کے لیے محتسبوںکی انجمن اور شہریوں کے اخلاقکی نگرانی‬ ‫افلاطون کے نزدیک شہروں بلکہ نوع انسانی کو اپنے مصائب سے اس وقت‬

‫کے لیے مجلس شبینہ تجویزکیں ۔‬ ‫تک نجات نہیں مل سکتی جب تک دنیا میں فلسفی بادشاہ نہ ہوں یا بادشاہوں اور‬

‫سب سے اہم بات یہ ہےکہ خداکی وحدت اور اس‬ ‫افلاطون کے نزدیک‬ ‫شہزادوں میں فلسفے کی روح اور فلسفے کی قوت نہ آجائے ۔ افلاطون کی دوسری‬

‫کی قدرتکاملہ پر یقین رکھا جائے ۔ حقیقی اطاعت کے لیے لازمی ہے کہ شہری اپنے‬ ‫تصانیف "مدبر " اور " نوامیس " ہیں ۔ مدبر میں فلسفی کی جگہ "مدبر " لے لیتا ہے ۔‬

‫قانون کی دل سے قدرکریں اور انکی مرضی حکومتکی مرضی کے تابع ہو ۔ قانون‬ ‫اس کے نزدیک "مدبر میں فلسفی کی تمام صفات اور عملی علوم پر فضیلت حاصل ہونی‬

‫میں اس وقت تک تبدیلی یا ترمیم نہ کی جائے جب تک تمام حاکم ‪ ،‬تمام شہری اورتمام‬ ‫چاہیے ۔ مدبر کو اپنے ماتحتوں پر کامل اقتدار حاصل ہونا چاہیے ۔ اسے قانونکا پابند‬

‫غیبی آواز میں اس پر متفق نہ ہوں ۔ قانون کے مطابق سزا دینے کا مطلب سزا پانے‬ ‫نہیں ہونا چاہیے ۔ "‬

‫والے کی نیکی میں اضافہ یا بدی میںکمی ہوتا ہے ۔ "‬ ‫یونان میں عام طور پر ریاستوں کی پانچ قسمیں بادشاہت ‪ ،‬مطلق العنانی‬

‫نوامیس میں وہ تعلیم کے اصول بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بچوںکی تعلیم‬ ‫بادشاہت اشرافیہ چند سری اور جمہوریت مانی جاتی تھیں ۔ افلاطون نے ان میں مینی‬

‫گہوارے سے شروعکرنی چاہیے اور گہوارے سے ہی تعلیم ریاستکی نگرانی میں‬ ‫بادشاہت اور بے آئینی جمہوریت کا اضافہ کیا ۔ اس کے نزدیک تین طرحکی‬

‫ہونی چاہیے ۔ تین سالکی عمر سے ورزش شروعکی جائے ۔ چھ سالکی عمر میں‬ ‫حکومتیں دستوری بادشاہت اشرافیہ اور معتدل جمہوریت قانونی ہیں ۔ عینی بادشاہت‬

‫سکول داخلکروایا جائے ۔ ہر ضلع میں الگ سکول ہونا چاہیے اور سکولوں کے ساتھ‬ ‫کا درجہ سب سے بلند ہے ۔ اس کے بعد بادشاہت ہے جبکہ جمہوریت جبری ریاستوں‬
‫‪115‬‬ ‫‪114‬‬

‫ہوتا ہے اس لیے خاندان ایک فطری ادارہ ہے ۔ خاندانکی ضروریات کے وسیع‬


‫ورزش گاہیں اور کھیل کے میدان ہونے چاہیں ۔ سکول میں چار سال تک ابتدائی‬
‫ہونے پر چند خاندان مل کر گاؤںکی بنیاد رکھتے ہیں ۔ یہ گاؤں بہت سارے خاندانوں‬
‫تعلیم دی جائے جس میں گھوڑ سواری‪ ،‬تیر اندازی اور نیزہ بازی سکھانا چاہیے ۔ دس‬
‫کی مادی ‪ ،‬اخلاقی اور حیاتیاتی ضروریاتکی تکمیلکرتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت آتا‬
‫سال سے تیرہ سال تک ادب اور تیرہ سے سولہ سال تک موسیقی کی تعلیم دینی‬
‫ہےکہ یہ ادارہ بھی ضروریاتکو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور اس ادارے‬
‫چاہیے ۔ شادی کی اجازت پچیس برس تک نہیں ہونی چاہیے ۔ "‬
‫کیکمی کو پورا کرنے کے لیے ایک منظم و مستحکم اور خود کفیل ادارےکی ضرورت‬
‫ارسطو افلاطون کا شاگرد تھا۔ وہ ہیں سال اکٹھے رہے اس لیے افلاطونکی‬
‫محسوس ہوتی ہے اور یہ ادارہ بلاشبہ مملکت ہوتا ہے ۔ مملکت بہت سارے گاؤں کا‬
‫شخصیت کا اثر اس پر نمایاں نظرآتا ہے ۔ قدیم یونان میں سیاست اور معاشرت میں‬
‫اجتماع ہے جہاں انسانکی تمام تر مادی ‪ ،‬حیاتیاتی اور اخلاقی ضروریاتکی تکمیل ہوتی‬
‫مملکت اور حکومت میں اور معاشرہ اور حکومت میںکوئی فرق نہیں سمجھا جاتا تھا اس‬

‫ہے ۔ یہ ادارہ نہ صرف فرد کی انفرادی زندگی کے جملہ پہلوؤںکی حفاظتکرتا ہے‬
‫لیے انسان کے لیے معاشرتی حیوانکی اصطلاح استعمال ہوتی تھی ۔ ارسطو نے انسان‬
‫بلکہ مختلف خاندانوں اور گاؤں و قصبوں کے اجتماعی زندگی کے جملہ ضروریات کے‬ ‫کو سیاسی حیوان قرار دیا اور کہا کہ " تنما انسان یا تو خدا ہو سکتا ہے یا شیطان جبکہ‬

‫علاوہ ان کے مثالی ارتقا کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔ مملکت کے آغاز سے متعلقہ دو‬
‫انسان بحیثیت سیاسی حیوان کے نہ تو خدا ہے اور نہ شیطان ۔ اس لیے انسان‬

‫ابتدائی ادار نے خاندان اور گاؤں نامکمل ادارے ہیں جبکہ مملکت انسانی ضروریات‬ ‫معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ " ارسطو نے اپنی مثالی ریاست کے وجود کے‬

‫کی تکمیل کا واحد فطری ادارہ ہے ۔"‬ ‫قیام کے لیے طبعی ‪ ،‬عقلی اور جغرافیائی حالات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اس کے تصور‬

‫ارسطو کے نزدیک " ریاست کل ہے اور افراد اور دیگر تنظیمیں اس کے‬
‫آغاز مملکت کے مطابق ”بنیادی طور پر آغاز مملکت انسانی فطرت سے ہے اورمملکت‬

‫اجزاء ہیں ۔ ریاست تنظیموں کے اجتماع کا نام ہے اور یہ سب سے اعلیٰ تنظیم ہے ۔‬ ‫کا ارتقا انسانی ضروریات اور اس کی فطری جبلتوں کے تسلسل اور ارتقا کے ساتھ‬

‫یہ تنظیم معاشرتی ارتقاء قدر و مقصد اور افراد کی بہبود کے لیے سب سے بہتر ہے‬ ‫ساتھ ہوا ۔ انسان اپنی چند مادی اور اخلاقی ضروریات پورا کرنے کے لیے دوسروں‬

‫اور انسان کی فطری منزل کا مقصود ہے ۔ اسکی بنیاد انصاف کے عصرپر مبنی ہے ۔‬ ‫کے تعاون کا طالب ہوتا ہے اور اس تعاونکی ابتدائی شکل خاندان بہتر شکل گاؤں‬

‫ریاستکا فرض ہےکہ وہ افرادکو مکمل اور خودمختار زندگی کی یقین دہانیکرائے‪ ،‬ان‬
‫اور اعلیٰ ترین شکل مملکت ہے ۔ "‬
‫کی نیک خصلتوںکو نیک افعالکی صورت اختیار کرنے میں معاونتکرے افرادکی‬
‫انسانی بقا اور محافظت کی ضرورتکی وجہ سے خاندان‬ ‫ارسطو کے مطابق‬

‫جبلی ضروریاتکو پوری کرے اور افراد کو ذہنی اخلاقی اور جسمانی ارتقا کے حصول‬ ‫وجود میں آیا ۔ حیاتیاتی رشتہ کچھ مادی ‪ ،‬جنسی اور اخلاقی ضروریات کے تحت مرد اور‬

‫کے لیے ذرائع اور مناسب وسائل مہیا کرے ۔ "‬ ‫عورت میں ملاپ ہوا جو خاندانکی ابتدا کا باعث بنا۔ خاندان کے وسیع ہونے سے‬

‫بارکر کے مطابق " ارسطو تاریخی ترتیب کے اعتبار سے فردکو ریاست سے‬
‫ضرو ریاست بھی وسیع ہو جاتی ہیں اور یہ ضروریات باہمی تعاون سے پوری ہوتی ہیں‬

‫پہلے اور منطقی لحاظ سے ریاستکو فرد سے پہلے سمجھتا ہے ۔ " فاسٹرکے مطابق " ارسطو‬ ‫جس سے خاندان مستحکم ہوتا ہے ۔ مرد اور عورتکا باہمی تعاون فطری اور حیاتیاتی‬

‫کی مملکت انسانی ارتقاکو پھلنے پھولنے کا موقع دیتی ہے اور یہ ایک آشیانہ کی مانند‬ ‫تقاضوں کا متقاضی ہوتا ہے اور انسانی ضروریات کا تعلق انسان کی فطری جبلت سے‬
‫‪117‬‬ ‫‪116‬‬

‫چند اشخاص کے پاس سیاسی اقتدار ہو ۔‬ ‫ہے ۔ " ‪ Macilman‬کے مطابق " ارسطو کی ریاست ایک طرح کی تنظیم ہے جو‬
‫‪-2‬‬

‫سب سے بہتر اور اعلیٰ و ارفع ہے ۔ "‬


‫بہت سے لوگوں کے پاس سیاسی اقتدار ہو ۔‬ ‫‪-3‬‬
‫‪-3‬‬

‫ارسطو کے خیال میں یہ مملکتیں اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بری بھی ۔‬ ‫ارسطو نے مملکتکو حکومت کے ہم معنی سمجھکرکئی اصولوںکی بنیاد پر تقسیم‬

‫کیا ہے ۔ اس کے مطابق بعضملکتیں تشکیلی بنیادوں پر اخلاقی مقاصد کی حامل ہوتی‬


‫ارسطو کے نزدیک چند سری حکومت بنیادی طور پر خراب حکومت نہیں ہے‬
‫بلکہ یہ دولت مندوںکی حکومت ہوتی ہے جو تعداد میںکم اور اپنی نیت اور ارادے‬ ‫ہیں ۔ ان میں حکمران طبقہ بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کے پیش نظر‬

‫میں خود غرض ہوتے ہیں ۔ انکی خودغرضی کی وجہ سے یہ حکومت غیرمعیاری ہوتی‬ ‫رعایا کی خدمت اور فلاح و بہبود ہوتی ہے ۔ ان مملکتوں کے مقاصد اخلاقی ہوتے ہیں‬

‫ہے ۔ جمہوریت غریبوںکی حکومت ہوتی ہے جو تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں جس‬ ‫اور ان میں عوامی فلاح و بہبود اور نیک معاشرتی زندگی کے اصول کار فرما ہوتے‬

‫کے باعث مملکتی مقاصد کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اس کے نزدیک بالخصوص‬ ‫ہیں ۔ یہ مملکتیں معیاری ہوتی ہیں جبکہ بعض مملکتوں میں اخلاقی مقاصد اور قواعد و‬

‫اشرافیہ طرز حکومت میں شہریوںکو نیکی کے اصولوں اور اخلاقی اقدارکی بنیاد پر‬ ‫ضوابط کے علاوہ دیگر مقاصد کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔ حکمران طبقہ فلاح و بہبودکی‬

‫القابات ‪ ،‬اعزازات ‘ عہدے اور مراعات دی جاتی ہیں ۔ چند سری حکومت محض‬ ‫بجائے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل میں مصروف رہتا ہے ۔ ذاتی مفادکو اجتماعی مفاد‬

‫دولت کی بنیاد پر عہدوں اور مراعاتکی تقسیمکرتی ہے جبکہ جمہوریت میں عہدے‬ ‫پر ترجیح دی جاتی ہے اور عوامی فلاح و بہبود اور مملکتی مقاصد کو پیس اندازکر دیا جاتا‬

‫اور مراعات صرف پیدائشکی بنا پر دیئے جاتے ہیں اور اس میں نیکی یا اطاعت کا‬ ‫ہے ایسی مملکت بگڑی ہوئی مملکت کہلاتی ہے ۔‬

‫کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ جمہوریت میں شہری اہمیت اور قابلیتکی بنیاد پر مقننہ‬ ‫ارسطو مملکت کو حکمران طبقے کی تعداد کی بنیاد پر تقسیمکرتے ہوئے چھ قسمکی‬

‫حکومتوںکی نسبت سے مملکتوںکی درج ذیل چھ اقسام بیانکرتا ہے ۔‬


‫اور عدلیہ کے رکن نہیں بنتے بلکہ پیدائش اور قرعہ اندازی کے ذریعے رکنیت‬

‫‪Monarchy‬‬ ‫بادشاہت‬ ‫ایک شخص کی اچھی حکومت‬ ‫‪-1‬‬


‫حاصلکرتے ہیں ۔‬

‫ارسطو کے نزدیکمملکت ایک مرکب اور کل ہے اور اس مرکب اور کل‬ ‫‪Tyrnny‬‬ ‫استبدادیت‬ ‫‪ 2-‬ایک شخصکی بری حکومت‬
‫‪-2‬‬

‫‪Aristocracy‬‬ ‫اشرافیہ‬ ‫چند اشخاصکی اچھی حکومت‬ ‫‪-3‬‬


‫کے لازمی اجزا شہری ہیں ۔ وہ شہریتکی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ ” ہر وہ شخص‬

‫جو مملکت کے قانون اور انتظامی معاملات میں شریک ہونے کا حق رکھے وہ مملکت کا‬ ‫‪Oligarchy‬‬ ‫چند سری‬ ‫چند اشخاصکی بری حکومت‬ ‫‪-4‬‬

‫شہری ہے ۔ " اس کے نزدیک شہریتکی لازمی شرط یہ ہےکہ افراد مملکت میں خانونی‬ ‫‪Polity‬‬ ‫بہت سے افرادکی اچھی حکومت آئینی حکومت‬ ‫‪-5‬‬

‫اور انتظامی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ ان سرگرمیوں اور فرائضکی انجام دہی میں‬ ‫‪Democracy‬‬ ‫جمهوریت‬ ‫بہت سے افرادکی بری حکومت‬ ‫‪6‬‬

‫ان سے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔ افراد مملکت میں عدلیہ اور دیگر انتظامی‬ ‫ارسطو ان چھ اقسام کی نسبت سے مملکت کے مقاصد اور حکمران طبقے کے‬

‫شعبوں سے متعلق فرائضکی بجا آوری کرکے ہی شہری بن سکتے ہیں اور جو لوگ ایسا‬ ‫مقاصد کے تحتمملکتکو تین اقسام میں تقسیم کرتاہے ۔‬

‫ایک شخص کی جہاں حکمرانی ہو ۔‬ ‫‪-1‬‬


‫نہیں کریں گے وہ شہری کہلانے کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ شہری میں حاکم اور محکوم‬
‫‪119‬‬
‫‪118‬‬

‫اپنی ملکیتکو جس طرح چاہیں استعمال میں لائیں اور جس کے نام چاہیں حقوق ملکیت‬ ‫رہنے کی بیک وقت دونوں صلاحیتیں ہونی چاہئیں اور اسے معمولی روزی کے لیے‬

‫منتقلکریں ۔ غلامگھریلو زندگی کالازمی جزو ہے اور وہ بے عقل ہونے کی وجہ سے‬
‫مصروف کار نہیں رہنا چاہیے ۔ اس کے نزدیک بچوں ‪ ،‬بوڑھوں‪ ،‬عورتوں اور ان‬

‫رائے اور ارادے میں اپنے آقا کی راہنمائی کا محتاج ہوتا ہے ۔ غلامی فطری اور اس‬ ‫لوگوںکو جو ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرتے ہیں اور مزدور طبقہ جسے صلاحیتوں‬

‫لحاظ سے عین انصاف کے مطابق ہے کہ انجمنوں ‪ ،‬مرکبات اور انسانوں کے درمیان‬ ‫کو اجاگر کرنے کا وقت میسرنہیں ہو تاکو شہری بننے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ثانوی‬

‫جو تعلقات ہوتے ہیں ان میں کچھ عناصر برتر اور کچھ کم تر ہوتے ہیں اور ان کے‬ ‫شرائط کے طور پر اس کے خیال کے مطابق یونانی شہری کے لیے ضروری ہےکہ وہ‬

‫درمیان حاکمیت اور محکومیت کا رشتہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ۔ معاشرےکی‬ ‫ماں اور باپکی طرف سے یونانی ہو ۔ ایتھنزکا مستقل رہائشی ہو ۔ اسکی پیدائش‬

‫ابتدائی اکائی خاندان ایک مرکب اور انجمن ہے ۔ خاندان کے افراد یا اجزا کے‬ ‫یونان میں ہوئی ہو ۔ اس کے نزدیک غلام والدین کی اولاد اور غیر یونانی شہری نہیں‬

‫درمیان برتری وکمتری کے پہلو اور ان میں اطاعت و فرمانبرداری کا تصور نمایاں‬ ‫ہو سکتے ۔‬

‫ہے ۔ بیوی شوہر سے اولاد والدین سےکمتر ہیں اور غلام ان سب میں سے کمترین‬ ‫ارسطو غلامی کے ادارے کے جائز ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ‬

‫ہیں ۔‬ ‫" معاشرت کے دیگر ادارت کی طرح غلامی کا ادارہ بھی مملکت کا ایک جزو ہے جو‬

‫ارسطو کے نزدیککائنات میں انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات میں بھی برتری‬
‫لیے سرگرم عمل ہے ۔ انسان صلاحیت کے اعتبار‬ ‫معاشرے کے عمومی استحکام کے‬

‫اور کمتری پائی جاتی ہے ۔ اس طرح برتری اورکمتری کا تصور جاری و ساری رہنے‬ ‫سے پیدائشی طور پر غیر مساوی ہیں ۔ آدمی کو چونکہ جبلی طور پر مختلف خصوصیات دنی‬

‫والی اور ابدی اور فطری حقیقت ہے ۔ غلامی کا ادارہ آقا اور غلام دونوں کے لیے‬ ‫گئی ہیں ۔ اس لیے فطرت کا تقاضا ہے کہ تمام انسان ذہنی اور جسمانی طور پر برابر نہ‬

‫فائدہ مند ہے ۔ آقا کا زیادہ کام غلام کرتا ہے جس سے آقاکو فراغت میسرآتی ہے‬ ‫ہوں ۔کچھ لوگ پیدائشی آقا نہیں اور کچھ لوگ پیدائشی محکوم ۔ پہلاگروہ ذہنی اعتبار‬

‫اور وہ مملکتی امور کی بجا آوری بہترطور پر کر سکتا ہے جبکہ غلام کے پاس عقل نہیں‬ ‫سے اور دوسراگروہ جسمانی قوت کے لحاظ سے گھریلو زندگی کی قوت ہیں ۔ حاکم اور‬

‫ہوتی اور وہ اپنی زندگی کو مربوط منتظم اور باربط بنانے کے لیے عقلی کاموں کی انجام‬ ‫محکوم ہونا فطری عمل ہے اور اس طرح جسم کو روح‪ ،‬اشتہا کو فہم حیوان کو انسان‬

‫وہی میں اپنے آقا سے راہنمائی حاصلکرتا ہے ۔‬ ‫اور عورتکو مرد کے زیر نگیں رہنا چاہیے ۔ آقا روح اور غلام جسم کی مانند ہوتا‬

‫ارسطو کے نزدیک آقا کی حیثیت روح کی اور غلام کی حیثیت جسم کی سی‬
‫ہے اور روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے ۔ غلام اپنے آقا کے ساتھ رہکر اپنی‬
‫ہے ۔ انسانی جسم پر روحکو اس لیے برتری حاصل ہےکہ جسم روحکی مرضی کے‬
‫شخصیتکو ارتقا بخشتا ہے اور آقا غلام کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔‬

‫مطابق اعمال و افعال سرانجام دیتا ہے ۔ بین ہی غلام کے لیے بھی ضروری ہےکہ وہ‬ ‫ارسطو کے مطابق مملکت ایک فطری ادارہ ہے اور اس کے مختلف اجزا بھی‬

‫اپنے تمام تر اعمال و افعال آقا کی مرضی کے مطابق سرانجام دے اسی میں اسکی‬
‫فطری ہو سکتے ہیں ۔ معاشرے میں غلام اپنے مالک یا آقاکا آلہ کار ہے اور وہ جاندار‬

‫بھلائی اور فائدہ ہے ۔‬ ‫آلہ کارکی حیثیت سے اپنے مالکوں کے احکاماتکی تکمیل کرتا ہے ۔ غلامکی حیثیت‬

‫ارسطو کے نزدیک غلامی کی مدافعتکرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس‬


‫محض نجی ملکیت جیسی ہوتی ہے اس لیے آقاؤںکو یہ پورا پورا حق حاصل ہےکہ وہ‬
‫‪121‬‬
‫‪120‬‬

‫معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور وہاں اہمیت کی مساوات کے خلاف مطلق‬ ‫دور میں دنیا کے ہر حصے میں غلامی کا رواج تھا اور غلامی کے ادارے کو قومی‬

‫ساداتکا مطالبہ کرنے والے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ ارسطو کی نظرمیں‬ ‫اقتصادیات اور استحکام کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا ۔ ہر یونانی شہری ریاست میں‬

‫انقلابکی دوسری اہم وجہ معاشری ناہمواری اور ملکیتکی غیرمنصفانہ تقسیم ہے ۔‬ ‫بے شمار غلام ہوتے تھے اس ادارہ کو ختمکرنے سے ایتھنزکا سیاسی نظام نہ صرف غیر‬

‫اگر معاشرے میں معاشی تفاوت امیر اور غریب کے فرق کو خوب نمایاں کرے تو‬ ‫متوازن ہو جاتا بلکہ سارا معاشرتی ڈھانچہ منزل ہو جاتا ۔ اس لیے ارسطو غلامی کے‬

‫حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں اور بالآخر معاشی نظام میں تبدیلی رونما ہو جاتی ہے ۔‬
‫ادارہ کی چند خاصشرائط پر مدافعتکرتا ہے جو اس طرح ہیں ۔‬
‫سیاسی جانب‬ ‫ارسطو کی نظر میں تیسری اہم وجہ جس کے باعث انقلاب آتا ہے‬ ‫پیدائشی غلام اور قانونی غلام میں امتیاز ہونا چاہیے ۔ جنگی قیدی قانونی‬ ‫‪-1‬‬

‫داری ہے جبکوئی حکومت یا بر سر اقتدار طبقہ بدعنوانیوں میں ملوث ہو کر ظلم و‬


‫غلام تصور کئے جائیں گے ۔‬
‫زیادتی کے قوانین بنائے اور عوام کی خواہشات و فلاح و بہبود کا خیال نہ رکھے تو‬
‫قانون کے بل بوتے پر غلام نہیں بنائے جانے چاہئیں ۔‬

‫شناه‬
‫عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ انقلاب آنے کی چوتھی وجہ متوسط‬ ‫آقا کو غلام کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے دوستانہ‬
‫‪-3‬‬

‫طبقےکا نہ ہونا بتائیگئی ہے ۔ ارسطو کے مطابق اپر اور اورکلاس طبقات میں مراعات‬
‫رویہ رکھنا چاہیے ۔‬

‫جو معاشرے میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے ۔ اس‬ ‫کے لحاظ سے تصادم پیدا ہوتا ہے‬ ‫تمام غلاموں کو آزادی کی امید دلانی چاہیے اور انہیں آزادی حاصل‬ ‫‪-4‬‬

‫لیے معاشرہ کے استحکام کے لیے متوسط طبقے کا ہونا لازمی ہے اس کے نزدیک متوسط‬ ‫کرنے کا اور آزادی کے قابل خود کو ثابتکرنے کا موقع دینا چاہیے ۔‬

‫طبقہ ہی معاشرےکو متوازن رکھتا ہے ۔ ارسطو انقلابکی پانچویں اور آخری وجہ‬ ‫جنگی قیدیوں اور قانونی غلاموں کو اس وقت غلام قرار دینا چاہیے‬ ‫‪-5‬‬

‫انتہا پسندانہ نظریاتکو قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ " اگر کسی معاشرے میں افرادیا‬
‫جب مفتوح لوگ فاتحین سے ذہنی طور پر پست ہوں ۔‬

‫طبقے انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ہوں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے اور‬ ‫ارسطو کے نزدیک کم و بیش ہرمملکت میں سیاسی عدم استحکام رہتا ہے جس کی‬

‫نظریاتی انتہا پسندی ہمیشہ تصادمکی طرف لے جاتی ہے ۔ " اس کے نزدیک بغاوت‬ ‫وجہ سے عمومی معاشرتی صورت حال بد تر ہو جاتی ہے ۔ جس کے لیے انقلابناگزیر‬

‫اور انقلابکا اصل سبب مساوی حقوق کی خواہش اور اصل سیاسی قوت جو مختلف‬ ‫ہے ۔ اس کے خیال میں عدم مساواتکا احساس ‪ ،‬معاشی ناہمواری سیاسی جانبداری‬

‫طبقات کے پاس ہوتی ہے کا باہمی تضاد ہے ۔ دوسرے اسباب میں حصولکی محبت‬
‫متوسط طبقےکا نہ ہونا اور انتہا پسند نظریات انقلاباتکا باعث بنتے ہیں ۔‬
‫اعزاز کی محبت ‪ ،‬غیر شائستگی ‪ ،‬خوف‪ ،‬انتخابی سازشیں ‪ ،‬وفا ناشناسی ‪ ،‬لوگوں کو حکومتی‬ ‫ارسطو کے خیال میں انقلابکی پہلی اور اہم وجہ عدم مساوات کا احساس‬

‫محمدے دیتے وقت احتیاط نہ کرنا معمولی تغیرات اور ریاست کے مختلف عناصرکے‬ ‫ہے اور یہ احساس مختلف لوگوں میں مختلفانداز میں ابھرتا ہے ۔ لوگوں میں اتفاق‬

‫اختلاف کو نظر انداز کرتا ہیں ۔ اس کے مطابق انقلابکی درجہ ذیل عمومی اقسام‬ ‫رائے موجود نہ ہونے کے باوجود بھی عدم مساوات کا احساس موجود ہو تا ہے ۔۔ جو‬

‫ہیں ۔‬ ‫مملکتیں مطلق مساواتکی بنیاد پر استوار ہوں وہاں اہمیتکو مساواتکا معیار بنانے کا‬
‫‪Complete‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫مطالبہ ابھرتا ہے جسے تعلیم نہ کرنے پر عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔کئی مملکتوں میں‬
‫‪ -1‬مکمل انقلاب‬
‫‪123‬‬ ‫‪122‬‬

‫‪Un- Complete‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪-2-‬نامکمل انقلاب‬


‫کہلاتاہے ۔‬
‫انقلاب‬
‫‪Blood‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪ -3‬خونی انقلاب‬
‫اس کے نزدیک شخصی انقلاب صرف مقتدر اعلیٰ کی تبدیلی تک محدود ہوتے‬
‫‪Constitutional‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪ 4-‬آئینی انقلاب‬
‫ہیں جبکہ عمومی سیاسی نظام اور دیگر سماجی نظام کے ساختی عناصر برقرار رہتے ہیں ۔‬
‫‪Personal‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪ 5-‬شخصی انقلاب‬
‫جبکہ غیر شخصی انقلاب وہ انقلاب ہے جس میں سیاسی نظام کے اصولوں اور ضابطوں‬
‫‪Un - personal‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫غیرشخصی انقلاب‬ ‫‪6‬‬
‫کے علاوہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے ساختی عناصر اور ان کے جملہ قاعدوںکو مکمل‬
‫‪Classified‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪ -7‬طبقاتی انقلاب‬
‫طور پر تبدیلکر دیا جاتا ہے ۔‬
‫‪Aimles‬‬ ‫‪Revolution‬‬ ‫‪ 8-‬بے مقصد انقلاب‬
‫ارسطو کے مطابق طبقاتی انقلاب سے مراد محض بر سر اقتدار طبقاتکی تبدیلی‬

‫اشرافیہ‬ ‫ہوتی ہے ۔ چند سری حکومت جو در حقیقت دولتمندوںکی حکومت ہوتی ہے‬ ‫ارسطو کے نزدیک مکمل انقلاب وہ ہوتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے عمومی‬

‫کی بگڑی شکل ہے ۔ اس لیے اگر غریب طبقہ اسکو ختم کر دے تو یہ طبقاتی انقلاب‬ ‫سماجی اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے کے علاوہ اس کے اساسی اصولوں میں تبدیلی‬

‫ہوگا ۔ اس قسم کے انقلاکبا بظاہرکوئی مقصد نہیں ہوتا‬


‫۔ شعلہ بیاں مقرر اپنی شعلہ‬ ‫لانے کا باعث بنے ۔ (دور حاضرمیں ‪1917‬ء کا انقلاب روس اسکی ایک مثال ہے )‬

‫پانی سے لوگوںکو حکومت کے خلاف اکسا کر ذاتی طور پر اقتدار حاصلکرنے کے‬ ‫نامکمل انقلاب سے مراد ایسا انقلاب ہے جس میں صرف ایک ہی چیز تبدیلکی جائے‬

‫لیے انقلابکی راہ ہموارکرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ اپنی کوشش میںکامیاب‬ ‫یعنی سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں ‪ ،‬معاشرتی و معاشی نظام کے بنیادی ڈھانچے یا پھر‬

‫ہو جائیں تو یہ انقلاب بے مقصد انقلابہوگا‬


‫۔‬ ‫حکومت میں سے کسی ایککو تبدیل کرتے ہوئے سیاسی و سماجی نظام کو بدستور قائم و‬

‫ارسطو اس قسم کے انقلاب کے سدباب کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کرتے‬ ‫دائم رکھا جائے ۔ ( جیسے دور جدید میں ایران کے انقلابی گروہ نے حکمران طبقے کو‬

‫تبدیلکیا تھا ۔‬
‫ہوئے کہتا ہے کہ " مملکت میں صحیح تصور مساوات موجود ہونا چاہیے ۔ مساوات کا‬

‫طریقہ درست اور دیرپا ہے لہذا اہلیتی مساواتکو عملاً نافذ ہونا چاہیے جس سے‬ ‫ارسطو کے نزدیک خونی انقلاب مکمل بھی ہوسکتے ہیں اور نامکمل بھی لیکن ہر‬

‫سیاسی عدم استحکام رک جاتا ہے ۔ ذاتی ملکیت اس شرط کے ساتھ ہونی چاہیے کہ‬ ‫دو صورتوں میں تبدیلی کے عمل کے لئے مملکت میں خون خرابہ ہوتا ہے اور اسے‬

‫اس طرح ارسطو ملکیتکا محدود‬ ‫اس سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ حاصلکریں ۔‬ ‫انقلاب روس‬ ‫ہی خونی انقلابکہا جاتا ہے ۔ ( دنیا کے تینوں انقلاب انقلاب فرانس‬

‫تصور پیشکرکے دراصل زیادہ سے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچاکر اور معاشی تفاوت‬ ‫اور انقلاب ایران میں سے کچھ مکمل اور کچھ نا مکمل ہیں لیکن قبل و غارتگری ہر‬

‫ایک میں ہوئی ہے )‬


‫دور کر کے معاشی عصر سے معاشرے کے ہر فرد کو مستفید دیکھنا چاہتا ہے اس کے‬
‫خیال میں سیاسی عدم استحکام کی ایک اور بنیادی وجہ سیاسی بد عنوانیان ہے ۔ اس کے‬ ‫اس کے نزدیک آئینی طریقہ کار کے مطابق الیکشن کے ذریعے اپنی اکثریت‬

‫نزدیک اس قسم کی صورت حال پر کنٹرول رکھنے کے لیے افسرانبالا اور حکمرانوں پر‬ ‫کی بنیاد پر بر سراقتدار طبقے سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے یا اسمبلی کے اندر انقلابی‬

‫کڑی نگرانی رکھنی چاہیے تاکہ وہ مملکتی مقاصد کے مطابق انصاف سے کام کریں ۔‬ ‫آئینی طریقہ کار کے مطابق بغیرکسی بڑے بحران کے اقتدار حاصلکرنے کو آئینی‬
‫‪125‬‬ ‫‪124‬‬

‫حاصل ہو سکیں گے ۔‬
‫اقربا پروری اور دوسری سیاسی بدعنوانیوں سے دور رہیں اور حساب وکتاب صاف‬
‫ارسطو کے نزدیک تعلیم کا اہم اور کلیدی مقصد افراد کی فطری صلاحیتوںکو‬
‫ستھرے رکھیں ۔ اس کے خیال میں انقلابکو روکنے کے لیے نظام تعلیم ‪ ،‬سیاسی ‪،‬‬
‫اجاگرکرتا ہے ۔ تعلیم انسانی ذہنکی لامحدود صلاحیتوں اور اسرار و رموزکو عملی شکل‬
‫دینے کے لیے بنیادی محرککی حیثیت رکھتی ہے اور تعلیمہی کے ذریعے فردکی ذہنی‬ ‫معاشرتی اور معاشی نظام و دیگر نظریات کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی ضروری‬

‫ہے ۔ تعلیم ہی سے انصافکی تکمیل اور فرائضکی صحیح طور پر بجا آوری ممکن ہے‬
‫صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔ اس کے نزدیک تعلیم کا دوسرا بڑا مقصد‬
‫اور معاشرتی نظام کی بقا کے لیے صحیح نظام تعلیم کا ہونا ضروری ہے ۔ ارسطو کے‬

‫معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فروغ ہے ۔ اور یہ مقصد صرف تعلیم ہی کے ذریعے‬ ‫نزدیک انقلاب کے سدباب کے لیے متوسط طبقے کا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے‬

‫سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ مزید تعلیم کے ذریعے ایک اخلاقی اور نیک زندگی کا حصول‬ ‫خیال میں اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں طبقے انتہا پسند ہوتے ہیں اور کسی مشترکہ نقطہ نظریر‬

‫بھی ممکن ہے۔تعلیمکا تیرا بڑا مقصد انسانی سیرتکی نشود نما ہے اور اسی کے ذریعے‬ ‫متفق نہیں ہو سکتے اس لیے ایسا متوسط طبقہ موجود ہوناچاہیے جو ان دونوں میں صلح‬

‫افرادکی دنیاوی زندگیکو بہترین اخلاقی اصولوں میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔ تعلیم سے ہی‬ ‫کروا سکے ۔ اس کے خیال میں مملکت کا آئین مخلوط عناصر پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ‬

‫افراد " عمل " جس کا دوسرا نام "پُر مسرت اور نیک زندگی ہے "کرنا سیکھتے ہیں ۔ تعلیم‬
‫معاشرہ سے انتہا پسندی ختم ہو سکے ۔‬
‫سے ہی عمدہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے افراد میں نیکیکو ابھارنے‬ ‫انسان کی جسمانی اور ذہنی نشونما‬ ‫ارسطو اپنے تصور تعلیم میں کہتاہے کہ‬

‫اور بدیکو ترککرنے کی تحریکپیدا ہوتی ہے ۔تعلیم کے ذریعے ہیمملکتی مقاصد‬ ‫تعلیم کے ذریعے ہوتی ہے اور معاشرے کے افراد کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست‬

‫حاصل ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے حقیقت تک رسائی ممکن ہے ۔‬ ‫ہونا چاہیے جس سے نہ صرف وہ اپنی ذمہ داریوںکو سمجھ سکیں بلکہ مملکتی مقاصد کی‬

‫ارسطو کے خیال میں ہر مملکتکو چاہیےکہ وہ تعلیمی نصاب وضعکرتے وقت‬


‫تکمیل بھی کرسکیں ۔ " انسان کو جسم اور روح کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے ارسطو انسانی‬
‫ضروریات‪ ،‬معاشرہ اور دیگر عناصرکو‬ ‫مقاصد افراد کے ذہنی رجحانات طرز زندگی‬
‫معقل کو عقلی انفعالی جس کا تعلق برائے راست جسم سے ہوتا ہے اور عقل فعالی میں‬

‫مد نظر رکھے ۔ بچے کی پیدائش سے لے کر مابعد کے ادوار تک ہر دور میں بچےکی‬ ‫تقسیم کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں جسم کی نشونما اور بہترین تربیت کے لیے تعلیم‬

‫ذہنی حالت مختلفہوتی ہے ۔‬


‫لنڈا بچےکو تعلیم انکی ذہنی حالتوںکو مد نظر رکھ کر دینی‬ ‫ورزش اور مختلفکھیل ہیں ۔ بچوں کی جسمانی نشوونماکے ساتھ ساتھ اخلاقی نشود نما‬

‫چاہیے ۔ ارسطو نے اپنے نظام تعلیم میں بچےکو تعلیم دینے کے لیے عمرکے حساب‬
‫بھی ہونی چاہیے ۔ اخلاقی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ موسیقی جو انسانی دل اور‬
‫سے مختلف سطحیں مقرر کی ہیں جو اس طرح ہیں ۔‬
‫دماغ پر گہرے اثرات مرتبکرتی ہے کی تعلیم دی جائے ۔‬

‫قبل از ابتدائی تعلیم‬ ‫الف‪-‬‬ ‫ارسطو کے نزدیک عقل فعالی کی نشوونما اور دماغ کی خوابیدہ صلاحیتیوںکو‬

‫انکی نفسیات کے مطابق ‪ ،‬خالصتا " فلسفیانہ مضامین‬ ‫بیدار کرنے کے لیے بچوں کی‬

‫جن میں مابعد الطبیعیات ‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬طبیعی تاریخ ‪ ،‬طبیعات ‪ ،‬ریاضی ‪ ،‬حیاتیات ‪ ،‬علمنجوم‬
‫ارسطو کے خیال میں ابتدائی تعلیم کا عرصہ پیدائش سے پانچ سال تککی عمرکا‬

‫منطق اور جمالیات پڑھانے چاہیں ۔ جس سے نہ صرف انفرادی بلکہ مملکتی فوائد بھی‬
‫‪127‬‬ ‫‪126‬‬

‫سکول بھیجنا چاہیے اور سکول میں اساتذہ کے لیے ضروری ہےکہ وہ بچے کی ذہنی‬ ‫ہے ۔ یہ اور بچوںکی نشو نما کے لیے بہت اہم ہے ۔ اس دور میں بچے میں عقل‬

‫صلاحیتوں کے مطابق تعلیم دیں بچے کی نفسیات اور اس کے طبعی میلاناتکو سامنے‬ ‫برائے نام ہوتی ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچےکو ایسی باتیں سکھائیں جو‬

‫رکھ کر اسکی صلاحیتوںکو اجاگر کریں اور اس کے ذہن پر جو اس وقتکورے کاغذ‬ ‫اس کے مشاہدہ کے قریب تر ہوں ۔ بچےکو یہ تعلیم والدین کو اپنے گھرمیں دینی‬

‫کی مانند ہوتا ہے بہترین تربیت رقم کریں ۔‬ ‫چاہیے جو ورزش اور مختلف قسم کے ہلکے پھلکےکھیلوں پر مشتمل ہونی چاہیے ۔ مزید‬

‫اس دور میں جسمانی نشوونما کے لیے ورزش‪ ،‬کھیل اور دوسرے ذرائع‬ ‫والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے جسم کو مضبوط اور توانا بنانے کے طریقے اپنائیں‬

‫استعمال کرنے چاہیں اور ذہنی نشوونما کے لیے موسیقی اور ریاضی سکھانی چاہیے ۔‬ ‫کیونکہ ایک توانا جسم میں ہی تو انا دماغ پرورشپاتا ہے ۔‬

‫اس کے خیال میں موسیقی سے نہ صرف روحانی اور ذہنی تربیت ہوگی بلکہ بچوں کا‬

‫اخلاق درست ہوگا اور جمالیاتی شعور پیدا ہو گا ۔ جبکہ ریاضی سے بچے کے دماغکی‬ ‫ابتدائی تعلیم‬

‫خوابیدہ صلاحیت بیدار ہوگی ۔‬

‫ارسطو کے خیال میں ابتدائی تعلیم کے لیے پانچ سال سے سات سالکی عمر‬

‫ثانوی تعلیم‬ ‫‪-‬‬ ‫موزوں ہے ۔ یہ تعلیم گھر میں ہی والدین کو خود دینی چاہیے ۔ البتہ کبھی کبھار‬

‫سرکاری معلمینکو معائنہکرنا چاہیے ناکہ اگر بچےکی نشو نما میں والدین سےکوتاہی‬

‫ارسطو اپنے نظام تعلیم میں ‪ 14‬سے ‪ 21‬سال تک کی عمرکا عرصہ ثانوی تعلیم‬ ‫ہو رہی ہو تو سرکاری معلمین والدین کو وہ اصول بتائیں جن پر عمل کرکے بچے کی‬

‫کے لیے مقرر کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں اس عرصے میں بچے شعور کو پہنچ جاتے‬ ‫بهترین نشو و نما اور بالیدگی ممکن ہو سکتی ہو ۔ ارسطو کے مطابق اس دور میں والدین کو‬

‫ہیں لنڈا اس سطح پر تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ انکی جسمانی ‪ ،‬ذہنی اور اخلاقی نشو و نما‬ ‫چاہیےکہ وہ ہر وہ طریقہ آزمائیں جن سے بچے کی خوابیدہ صلاحیتیں پروان چڑھ‬

‫میں ایک توازن پیدا ہو سکے ۔ مملکت کو اس دور کی تعلیم اپنی نگرانی میں دینی چاہیے‬ ‫سکیں ۔‬

‫تاکہ اس دور کی تعلیم مکمل کرکے افراد مملکتی امور میں برائے راست حصہ لے‬

‫سکیں ۔‬ ‫پرائمری تعلیم‬ ‫ج‬

‫اس سطح پر بچوں کو علم ریاضی ‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬علم نجوم‪ ،‬قانون ‪ ،‬اخلاقیات‬

‫ادب‪ ،‬فن تقریر‪ ،‬فلسفہ اور سیاسیاتکی تعلیم دی جانی ضروری ہے تاکہ طلبہ فطرتکو‬ ‫ارسطو کے نظام تعلیم میں پرائمری تعلیمکی سطح ‪ 7‬سے ‪ 14‬سال تککی عمر ہے‬

‫مجھنے اور بہترین زندگی گزارنے کے اہل بن سکیں ۔ طلباءکی ذہنی نشوو نما کے ساتھ‬ ‫اور یہی سطح اس کے نزدیک زیادہ اہم ہے ۔ ارسطو کے خیال کے مطابق ابتدائی تعلیم‬

‫ساتھ اخلاقی اور جسمانی نشو و نما بھی ضروری ہے جس کے لیے فلسفہ سائنس ادب‬ ‫کے بعد بچے میں اچھائی اور برائی کی تمیز پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اردگرد کے ماحول‬

‫نفسیات اور سیاسیات جیسے مضامین مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔‬ ‫اور چیزوںکو دیکھنا شروعکر دیتا ہے لہذا بچے کو سات سالکی عمر پوری ہوتے ہی‬
‫‪129‬‬ ‫‪128‬‬

‫دلچسپی کا باعث ہوں ۔ " ارسطو نے اپنے نظام تعلیم میں تحقیقکو بنیاد بنایا اور کہا کہ "‬
‫اعلیٰ تعلیم‬
‫تعلیم کی بنیاد تحقیق اور مشاہدات پر ہونی چاہیے ۔ “ اس نے علوم کے مطالعہ کے‬

‫لیے استقراری طریقے کا استعمال کر کے سائنسی تعلیم کی بنیاد رکھی اور اس کے یہی‬
‫اصول جدید دنیا کے لیے راہنما اصول بنے ۔ ارسطو اپنے نظام تعلیم میں صرف مثالی‬ ‫ارسطو کے نظام تعلیم میں اعلیٰ تعلیم کی عمر‪ 21‬سال سے بعد کی ہے ۔ چونکہ‬

‫شہری کو تعلیم دینے پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ”غلام طبقے کے لیے تعلیم اس لیے‬ ‫اس سطح پر پہنچنے والے لوگ محنتی اور ذہین ہوتے ہیں لہذا مملکتکی ذمہ داری ہے‬

‫ضروری نہیں کہ انکا پیشہ تعلیم و تربیت کے لیے موزوں نہیں اور ان کے پاس‬ ‫کہ ان کی مناسب تعلیم و تربیتکرے ۔ یہ دور صرف ذہنی تعلیم و تربیت کے لیے‬

‫عقل بھی نہیں ہوتی ۔ " ارسطو عورتوںکی اعلیٰ تعلیم کے حق میں نہیں ہے اس کے‬ ‫مخصوص ہونا چاہیے اور اس دور میں طلبہ کو ایسے مضامینکی تعلیم دینی چاہیے جن‬

‫سے انکی ذہنی صلاحیتیں زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوں ۔‬


‫خیال کے مطابق مرد عورتپر حکمرانی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور عورتوںکو ان‬
‫کے دائرہ کارکو سامنے رکھ کر تھوڑی بہت تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ اچھی مائیں اور‬ ‫ارسطو اس سطح کی تعلیم کے نصاب کے لیے علم طبیعات ‪ ،‬حیاتیات‪ ،‬نفسیات‬

‫اچھی بیویاں بن سکیں اور امور خانہ داریکو بہتر طور پر چلا سکیں ۔‬ ‫ان‬ ‫فلسفہ الہیات ‪ ،‬منطق اور مابعد الطبیعیات ضروری قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ‬

‫علوم کے ذریعے حقیقت تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور فطری قوانین اور فطری‬
‫ارسطو کا نظریہ انصاف کامل اخلاقی اچھائی اورکردار کی پاکیزگی سے متشابہ‬
‫ہے اور معاشرتی و قومی تعلقات میں اخلاقی اچھائی کا مجموعہ ہے ۔ اس کے خیال میں "‬ ‫اسرار و رموزکو سمجھا جاسکتا ہے ۔ " وہ ان مضامین کی تعلیم کے لیے استقراری طریقہ‬

‫مطالعہکو ضروری قرار دیتا ہے ۔‬


‫انصافکامل ان لوگوں میں موجود ہوتا ہے جو خودکفالت کے پیش نظراور آزادی‬
‫مساوات کے حصولکی خاطرایک مشترکہ زندگی میں منسلک ہیں ۔ انصافکامل قانون‬ ‫ارسطو اپنے نظام تعلیم میں تعلیم نجی ہاتھوں میں دینے کی بجائے مملکتیکنٹرول‬

‫سے ہم اہنگی رکھنے میں مضمر ہے ۔ یہ انسانی عمر میں پائی جانے والی نیکی ہے ۔ " ارسطو‬ ‫افراد ایک مثالی زندگی اسی وقت‬ ‫میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اس کے نزدیک‬

‫کے نزدیک انصاف کی دو قسمیں ہیں ۔ ” عسیمی انصاف " اور " اصلاح کن‬ ‫گزار سکتے ہیں جب وہ تعلیم سے بہرہ ور ہوں ۔ تعلیم مملکتی مقاصد کی تکمیل کا اہم‬

‫انصاف ۔ پہلا انصاف فردکو معاشرہ کا رکن ہونے کی وجہ سے اس کا حق دیتا ہے‬ ‫ذریعہ ہے لہذا مملکتکو چاہیے کہ وہ تعلیمی نصاب مملکتی ضروریات اور مقاصد کے‬

‫تحت تیارکرے تاکہ اچھے شہری پیدا ا ہو سکیں ۔ " ارسطو اپنے نظام تعلیم میں والدینکو‬
‫جس کا مقصد ہر فردکو اس کی اہمیت و قابلیت کے اعتبار سے صلہ دینا ہے ۔ معاشرہ‬
‫کے ہر فرد کا حق ہےکہ وہ ریاستی سرگرمیوں میں حصہ لے ۔ ریاستی عہدوں پر تقسیم‬ ‫ابتدائی معلمین کا درجہ دیتے ہوئے تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے‬

‫غیر جانبدار ہونی چاہیے کسی شخص کو غیر موزوں طریقہ سے عمدہ پر متعین نہیں کرنا‬ ‫اس کی ذہنی اور جسمانی نشوونماکی طرف بھر پور توجہ‬ ‫بچے کے پیدا ہوتے ہی‬ ‫ہوئے‬

‫تعلیم‬ ‫دیں ۔ اس نے اپنے نظام تعلیم میں نفسیاتکو تعلیم کی بنیاد قرار دیا اورکہاکہ‬
‫چاہیے ۔ عہدوں کا حصول سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے کسی طبقہ کی اجارہ داری‬
‫وہی بامقصد ہو سکتی ہے جو بچوںکی نفسیاتکو مد نظر رکھ کر دی جائے اور بچوں کے‬
‫نہیں ہونی چاہیے اور امیرو غریبکو ریاستی امور میں حصہ لینے کے برابر مواقع‬
‫طبعی میلانات اور رجحاناتکو سامنے رکھ کر ایسے مضامینپڑھائیے جائیں جو انکی‬
‫ارسطو کے نزدیک اصلاحکن انصاف ایک منفی انداز فکر‬ ‫فراہم ہونے چاہیں ۔‬
‫‪131‬‬
‫‪130‬‬

‫ہوگا تو لوگ زیادہ ترقی کریں گے ۔ حصول زر کا مقصد اخلاقی ہے اور ہر فرد پر لازم‬ ‫ہے ۔ اس کا بڑا مقصد ایک شخصکو دوسرے کے خلاف حق دلانا اورگمشدہ مساوات‬

‫ہے کہ وہ اتنی دولت ضرور حاصلکرے جو اس کی بہتر اور خوشحال زندگی کی ضمانت‬ ‫کا اعادہکرتا ہے ۔‬

‫بنے ۔ اس کے نزدیک دولت حاصلکرنے کے جائز طریقے وہ ہیں جن کی بدولت‬ ‫ارسطو کے نزدیک جائیداد گھریلو زندگی کے وجود مناسب کارکردگی اور‬

‫شہری زیادہ سے زیادہ ضروریات زندگی حاصل کرتا ہے ۔ ان جائز ذرائع میں‬ ‫شخصیت کے نشو نمکاے لیے ضروری ہے ۔ یہ فرد کو خود سے محبتکرنا سکھاتی ہے‬

‫زراعت ‪ ،‬مویشی پالنا اور شکارکرنا شامل ہیں ۔ اس کے خیال میں تجارت ایک ناجائز‬ ‫اور معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے ۔ جائیداد رکھنے والا ریاست سے‬

‫اور غیرفطری ذریعہ ہے کیونکہ تجارتکا حتمی مقصد حصول زر ہے ۔‬ ‫مخلص ہو گا ۔ ریاست کے معاملات میں گرمجوشی سے حصہ لے گا‪ ،‬ٹیکس ادا کرے گا‬

‫جدید ماہرین کا خیال ہے کہ ارسطو کے تصور آغاز مملکت میں اقتدار اعلیٰ جو‬
‫اور ریاست سے بہتر صلہکی توقع رکھے گا ۔ وہ ریاست کے بجٹ میں بھی دلچسپی رکھے‬

‫مملکت کا استحکام اور بقا کی اہم ضرورت ہے کا کسی بھی سطح پر تصور موجود نہیں ہے‬ ‫گا۔ وہ اپنی جائیداد کے بہتر انتظام میں دلچسپی لےگا جس سے اس کے اندر ریاستی‬

‫اور نہ ہی اقتدار اعلیٰ کی طرح مملکت کے دیگر لازمی عناصر حکومت اور علاقے کا ذکر‬ ‫انتظام کی صلاحیت پیدا ہوگی ۔ اس کے خیال میں جائیداد رکھنے اور اس کے استعمال‬

‫ہے حالانکہ مملکت کی تشکیل میں اقتدار اعلیٰ کی طرح علاقہ اور حکومتکو اولین‬ ‫کے لیے ضروری ہے کہ ( ‪ )i‬جائیداد فردکی ذاتی ملکیت ہو مگر منفعت میں سب شریک‬

‫اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ ارسطو نے اپنے ان نظریات میں ملکیت کے ذکر کے ساتھ‬ ‫ہوں ۔ ( ‪ )ii‬جائیداد پر حق مشترکہ ہو لیکن ما حصل ذاتی طور پر استعمالکیا جائے ۔ اور‬

‫ان عناصرکا ذکر نہیں کیا ہے جو ملکیت کی غیر منصفانہ تقسیم کا سبب بنتے ہیں اس نے‬ ‫(‪ ) iii‬جائیداد پر حق ملکیت اور حق منفعت دونوں مشترکہ ہوں ان طریقوں میں "حق‬

‫استقراری طریقہ مطالعہ کی بجائے استخراجی اور مقصدی طریقہ ہائے مطالعہ استعمالکیا‬ ‫ملکیت ذاتی ہو مگر منفعت میں سب شریک ہوں " بہترین طریقہ ہے ۔‬

‫اور وہ منزلکی اس حد تکپہنچنے میں ناکام رہا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا ۔ پروفیسرگارنر‬ ‫ارسطو کے نزدیک جائیداد اورکنبہ کے بغیرکسی معاشرہ کا تصور ممکن نہیں ‪،‬‬

‫کے خیال میں ارسطو کے تصور تقسیم مملکت میں برسر اقتدار طبقے کا اصول موزوں‬ ‫اگر جائیداد صرف ذریعہ معاش و رہائش کے معنی میں لیا جائے تو یہ ایک ایسی شے‬

‫اور مناسب نہیں اس اصول کے اطلاق سے مملکت کی مائیت اور نوعیت کا اندازہ‬ ‫ہے جو فطرت خود ہر حالت میں سبکو عطا کرتی ہے ۔ جائیداد در اصلگھریلو زندگی یا‬

‫نہیں ہو تا صرف تعداد کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کا یہ تصور صرف شہری مملکت کے لیے ہی‬ ‫ریاست میں ہونے والے آلاتکا مجموعہ ہے ۔ اس کے نزدیک جائیداد کی دو قسمیں‬

‫موزوں ہے ۔ ارسطو نے اپنے اس تصور میں ان وفاقی نظام کے اصولوںکو یکسر نظر ‪.‬‬ ‫منقولہ اور غیرمنقولہ ہیں ۔ جائیداد ذاتی بھی ہوتی ہے اور عوامی بھی ۔ ذاتی ملکیتکی‬

‫انداز کر دیا ہے جو قدیم یونان کی بہت ساری مملکتوں میں رائج تھے ۔ آج کلن‬ ‫قدر و قیمت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ اس کا تحفظ ریاست کا کام ہے ورنہ اس پر‬

‫حکومتیں زیادہ تر مخلوط نوعیتکی ہوتی ہیں اس لیے اسکا یہ کہنا درست نہیں ہےکہ کی‬ ‫دو سرے قبضہکرلیں گے ۔‬

‫حکومتوں کی نسبت سے مملکتیں صرف ایک ہی نوعیتکی ہوتی ہیں ۔ اس طرح اس‬
‫دن‬ ‫ارسطو کے نزدیک بہترزندگی کے حصول کے لیے دولتکا ہونا ضروری ہے ۔‬

‫تصورکو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا اور اگر اس کا عملی اطلاقکیا جائے تو بہت‬ ‫دولت سے ہی فیاضی مہمان نوازی اور دوستی جیسی اقدار کا اظہار ہوتا ہے ۔ ذاتی‬

‫ساری دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں ‪ ،‬اس کے ان نظریات میں عالمہ اور مقننہ کے‬ ‫املاک معاشرتی اقتصادیات کا لازمی جزو ہے ۔ جب ہر آدمی کا اپنا واضع نصب العین‬
‫‪133‬‬ ‫‪132‬‬
‫‪1.‬‬

‫ہمیشہ غلام ہی رہنا چاہیے ۔ اگر غلام پیدا ہوا تو غلام کی حیثیت سے بھی مرنا چاہیے‬ ‫درمیان تعلق یا مملکت پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت یا پھروحدانی اور وفاقی طرف‬

‫لیکن دوسری جانب اپنی تصنیف سیاسیات میں غلاموںکی آزادی کا ترجمان نظرآتا‬ ‫مملکت کا ذکر موجود نہیں ہے ۔ جدید ماہرین کی نظر میں ارسطو کا یہکہناکہ شہری مملکت‬

‫ہے ۔ اس طرح اس کے تصور میں متضاد آراء موجود ہیں ۔ تنقید نگاروں کے نزدیک‬ ‫کے لازمی جزو ہیں اسکی اپنی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ تصور یونانی سیاسی و سماجی‬

‫فطری چیزہمیشہ فطری رہتی ہے اور جو غیر فطری ہے وہ فطری نہیں رہتی ۔‬ ‫زندگی کا ایک مروجہ طریقہ تھا اور ارسطو نے جو شہریت کی تعریف کی ہے اور جو‬

‫ارسطو کے تصور غلامی میں دوسرا منطقی تضاد یہ ہے کہ وہ ایک جانب تو‬ ‫خصوصیات بیانکی ہیں وہ ایتھنزکی مروجہ نظام سے مستعار لی ہیں ۔ یہ تصور نہ صرف‬

‫غلاموں میں عقل سے عاری سمجھتا ہے لیکن دوسری جانب کہتا ہے کہ غلاموں کے‬ ‫ایتھنز میں بلکہ اسپارٹا بھی رائج تھا ۔ اس کے تصور شہریت سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے‬

‫پاس عقل تو ہوسکتی ہے لیکن وہ اتنی پختہ نہیں ہو سکتی جتنیکہ آقاؤںکی ہوتی ہے‬ ‫کہ وہ صرف مراعات یافتہ فارغ لوگوںکو شہری سمجھتاہے اور اسکی نظر میں معاشی‬

‫اور اگر انہیں آزاد کردیا جائے تو وہ عاقل بن جاتا ہے ۔ یہ تینوں باتیں ایک‬ ‫تگ و دو میں مصروف لوگ شہری نہیں ہیں ۔ ارسطو کا تصور شہریت اخلاقی زیادہ اور‬

‫دوسرے سے متصادم ہیں ۔‬ ‫قانونی کم ہے جبکہ موجودہ عہد میں مملکتی مسائل کا حل اور ادراککی تشکیل قانونی‬

‫ارسطو ایک جگہ آقا کو برتر اور غلام کو مکمل طور پر کم تر سمجھتا ہے اور‬ ‫جواز کے تحت اور اصولوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ ارسطو کے نظریات کے تحت‬

‫دوسری جگہ کہتا ہے کہ غلام آقا کا دوست بھی ہو سکتا ہے اور وہ آقا سے معاہدہ بھی‬ ‫شہریت ایک مخصوص اکثریتی طبقہ ہے ۔ اس لیے تعداد اور مقدار کے لحاظ سے جدید‬

‫کر سکتا ہے جبکہ برتری اور کمتری کی بنا پر دوستی ممکن نہیں ہوتی ۔ مزید معاہدہ کی‬ ‫تصور شہریت زیادہ بہتر ہے ۔ ارسطو کا تصور شہریت اشرافی ہے جبکہ جدید شہریت‬

‫موزونیتکا دار و مدار فریقین کے ایکسطح پر ہوتا ہے ۔‬ ‫جمہوری ہے ۔ اس کے نزدیک اصل شہریوں کی مادی ضروریاتکی تکمیل اس معاشی‬

‫جدید ماہرین تعلیم کے مطابق از سطو کا نظام تعلیم طبقاتی ہے وہ ایک مخصوص‬ ‫طبقہکو کرنی چاہیے جو خود شہریت سے محروم ہے جبکہ جدید تصور کے مطابق مملکت کا‬

‫طبقہ کے لیے تعلیم ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں تعلیم اعلی و ارفع طبقہ‬ ‫ہرطبقہ شہری ہے ۔‬

‫کے لیے ہے اس کے تمام تصورات تعلیم افلاطون کے تصورات سے اخذ کئے گئے‬ ‫جدید ماہرین کے مطابق ارسطو کا تصور غلامی انسانی اقدار جو کسی بھی مہذب‬

‫ہیں اس لیے اس میں کوئی نیا تین نہیں ہے ۔ اس نے انسانی عقل کی جو درجہ بندی‬ ‫معاشرےکی بنیاد ہوتی ہے سے متصادم ہے ۔ ارسطو ایک مثالی معاشرے کی تشکیل‬

‫انسان ہر لحاظ سے اور ہرزاویے‬ ‫کی ہے وہ اس لحاظ سے مناسب نہیں ہے کہ فطرتا‬ ‫کے لیے ایک طرف غلامی کو جائز اور فطری اور دوسری جانب غلاموں کو عام‬

‫سے تقریباً برابر ہوتے ہیں البتہ عقل میںکمی بیشی ہو سکتی ہے جسکو ناپنے کے لیے‬ ‫انسانوں سے کم تر اور عقل اور ارادے سے عاری قرار دیتا ہے ۔ وہ ایک قدامت‬

‫آج تککوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا ۔ اس کے نظام تعلیم میں غلاموںکی تعلیم کاکوئی‬ ‫پسند مفکرکی طرح غلامی کو جائز غلام کو نجی ملکیت ‪ ،‬عقل اور روح سے عاری اور‬

‫نظام موجود نہیں بلکہ وہ انہیں عقل سے عاری قرار دیتا ہے ۔ اس کے نظام تعلیم میں‬ ‫محض جسم اور جائیداد خیالکر کے انسانیت کے ہمہ گیر اصولوںکی نفی کرتا ہے ۔‬

‫عورتوںکو مردوں کے مقابلے میں کمتر ظاہرکر کے واجی تعلیم دینے کی تلقین کی گئی‬ ‫ارسطو کے تصور غلامی میں منطقی تضادات موجود میں جن میں پہلا منطقی تضاد یہ ہے‬

‫ہے حالانکہ بنیادی طور پر تجربات اور مشاہدات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہےکہ‬ ‫کہ وہ غلامیکو فطری اور انصاف پر مبنی قرار دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غلامکو‬
‫‪135‬‬
‫‪134‬‬

‫عورتیں کسی بھی لحاظ سے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں موجودہ دور میں عورتیں‬

‫مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں اور تاریخی‬

‫لحاظ سے دیکھا جائے تو ہربڑی تبدیلی کے پیچھےکسی عورتکا ہاتھ ہوتا ہے ۔‬

‫موجودہ ماہرین کی متذکرہ تنقید موجودہ حالات کے مطابق درست ہے لیکن‬

‫ارسطو اس دور کی پیداوار ہے جب انسان اپنی معاشرتی اور سیاسی زندگی کے ارتقاء‬

‫نظریات و تعلیمات ارسطو‬ ‫کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا اور اس کے فکر و عمل میں اتنی وسعتپیدا نہیں‬

‫ہوئی تھی جتنی کہ آج ہے لہذا اس کے نظریات دور جدید کے تقاضوں کے عین‬

‫مطابق نہیں ہو سکتے تھے ۔ لیکن پھر بھی اس نے فلسفہ حقیقتکی روشنی میں ایسے‬

‫میٹا فزکس ( ‪ ) Meta Physics‬ہی سب سے اہم سائنس ہے ۔ '‬ ‫اصول وضع کئے ہیں جن کی اہمیت و افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔‬

‫‪ 200ology‬کے قوانین کا تعلق صرف جانوروں کے وجود اور ان کی‬ ‫آئیے ارسطو کے نظریات و تعلیمات پر اس طرح اختصار سے ذکر کرتے ہیں‬

‫زندگی سے ہے لیکن فرسٹ فلاسفی کے اصولوں کا تعلق ہرمادی چیز سے‬ ‫کہ قاری نہ صرف ان سے لطف اندوز ہو بلکہاسے ذہن نشین بھی کرسکے ۔‬

‫آفاقی تصوراتفطرتکی دائمی اشیاء کے سوا کچھ نہیں ۔‬

‫ہر چیزکا آفاقی تصور اس چیزکی ذات کے حوالے سے ہے ۔‬

‫اگرچہ آفاقیت حتمی سچائی ہے لیکن یہ انفرادیت میں ملتی ہے ۔‬

‫اصل حقیقت یا مادہ وہی ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہے اور اسے اپنی‬

‫ذات یا وجود کے ہونے کے لیےکسی دوسرے سہارےکی ضرورت نہیں‬

‫ہے ۔‬

‫کسی چیزکا آفاقی تصور اس چیز کے مادی وجود کے بغیرناممکن ہے ۔‬

‫انسانیت کا تصور دنیا میں موجود مادی وجود رکھنے والے انسانوں کے‬

‫باعث ہے ۔‬

‫بارے سے مادے کی صفاتکو علیحدہ کرنے کا مطلب مادےکو مادے‬


‫‪137‬‬ ‫‪136‬‬

‫سے علیحدہکرتاہے ۔‬
‫رقیق چیزوںکی طرح ملتے اور جذب ہوتے ہیں ۔‬
‫طاقت کی نفسیات غرور اور جارحیت جبکہکمزوریکی نفسیات انکساری‬
‫شکل مادہکی اصل حقیقت ہے ۔‬
‫اور مصالحت پسندی کے عناصر سے تشکیل پاتی ہے ۔‬
‫جس کے‬ ‫شکل ہی اپنے اندر کسی مادی چیز کے اس مقصد کو رکھتی ہے‬
‫مادے کی صفات آفاقی ہیں جو اپنے اپنے طور پر مادے کا ایک آفاقی‬
‫لیے وہ چیز وجود میں آتی ہے ۔‬
‫تصور پیشکرتی ہیں ۔‬
‫فارم ( ‪ ) Form‬میں مادے کی تمام صفات موجود ہوتی ہیں ۔ مادےکی‬

‫تمام صفات آفاقی ہیں اور یہ ہر جگہ اور ہر وقت ایک جیسی ہیں ۔‬ ‫آدمی میں اگر اس کی مخصوص صفات ختم ہو جائیں تو وہ ایک فرد تنہا‬

‫رہ جاتا ہے ۔‬
‫مادہ جو بنیادی طور پر ایک بے شکل مواد ہے پر اس مادی چیزکی بنیاد‬
‫اصل مواد مادہ ہے ۔‬
‫ہے جو شکل رکھتی ہے ۔‬

‫مادہ بنیادی طور پر بے صفت بےکردار اور بے نقش ہے ۔‬ ‫کسی چیز کے بنانے میں چار ملتیں کار فرما ہوتی ہیں ۔ پہلی چیز وہ مواد یا‬ ‫ة‬

‫مادہ ہے جس سے چیزکو بنایا جائے ۔ پھر بنانے والےکی مہارت تیسرا وہ‬
‫کوئی چیز جو ایک خاص صفت رکھتی ہے وہ اپنی جیسی صفت رکھنے والی‬

‫تصور یا شکل ہے جس کے مطابق چیز نے تیار ہوتا ہے اور چوتھا وہ خاص‬


‫چیز سے مل کر ایک جماعت بنتی ہے اور ایک چیزکو دوسری چیز سے صرف‬
‫مقصد ہے جس کے تحتکوئی چیز تشکیل پاتی ہے ۔ دوسری تیسری اور‬
‫صفاتکی بنیاد پر الی‬
‫گا علیحدہ یا ممیزکیا جاسکتا ہے ۔‬

‫تے ہوئے بھی‬ ‫چوتھی علتوں کا مرکب جو پہلی علت پر مقدم ہے "فارم " ہے اور یہی خدا‬
‫مادہ صرف ایک اہمیت یا امکانکی مانند ہے جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی‬

‫ہے اور چونکہ تینوں ملتیں مادہ نہیں ہیں بلکہ خیالی ہیں لہذا خدا ایک خیال‬
‫ہر قسم کی چیز بن سکتا ہے ۔‬
‫ہے ۔‬
‫ہر شکل میں ایک خاص مقصد پنہاں ہے اس لیے ہر شکل ہر قسم کے‬ ‫ه‬

‫چیز کے وجود میں آنے کا اصل مقصد اس چیز کی صورتکا اظہار ہے ۔‬


‫مادےکو یکساں طور پر متحرککر سکتی ہے ۔‬
‫اشیاء کامل کا اصل جوہر ان صور پر مشتمل ہے جو ہمارے تصورات کا‬
‫اہلیت یا امکان اپنے اندر اہلیت اور امکان کی صفات رکھتا ہے اور‬
‫موضوع ہیں اور صور اشیاء کا باطنی جو ہر ہے ۔‬
‫کسی وقت بھی شکل میں آکر حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے ۔‬

‫فطرت ایک خاص مقصد کی طرف متحرک ہے اور اس حرکت کا مق‬


‫حرکت ایک اندرونی خیالی کشش ہے جو کسی چیز کو ایک خاص مقصد‬
‫صورتکا اظہار ہے ۔‬
‫کے لیے حرکت پر مجبورکرتی ہے ۔‬
‫انسان بڑے سے بڑا کام جذبے سے مجبور ہو کرگزرتا ہے ۔‬
‫مادہ ایک خاص مقصد کے تحت حرکت کرتا ہے اور یہی مقصدیت اس‬
‫مادہ اور شکل ناقابل تقسیم ہیں ۔‬
‫پر اثر انداز ہو کر اسے متحرک یا تبدیلکرتی ہے ۔‬
‫مادہ اور شکل دونوں رقیق ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے میں‬
‫مقصد اور شکل کا اصول خیال حقیقت میں حتمی اولیتکا حامل ہے ۔‬
‫‪139‬‬ ‫‪138‬‬

‫جب ایک تصور دوسرے تصور کی مطلق نفی ہو تو انہیں ناقص کہا جاتا‬
‫مقصد ہی فارم کا اصول ہے اور فارم آفاقی ہے ۔‬

‫ہے ۔‬ ‫انتقام یعنی اصل مقصد ابتدا پر مقدم ہے ۔‬


‫مقولات عشرہ یعنی جو ہر کمیت‪،‬کیفیت ‪ ،‬اضافت‬ ‫ہر قسم کا تصور‬
‫علم منطق فن تحقیقکی تعمید اور حکمی اسلوبیات ہے ۔‬

‫این متی ‪ ،‬مقام ‪ ،‬قبضہ ‪ ،‬فعلیت اور انفعال میں سے ایک نہ ایک کے تحت‬ ‫جزو کو کل سے اور معلول کو اس کے علل سے اخذ کرنا دراصل‬

‫ضرور آتا ہے ۔‬ ‫حکمت ہے ۔‬

‫حرکت کی چار قسمیں ہیں ۔ حرکت جوہری‪ ،‬حرکت کمیتی ‪ ،‬حرکت‬ ‫انسانی زندگی میں علم کا حصول معکوس سمت سے شروع ہوتاہے ۔‬
‫کمیتی ‪،‬حرکت ‪.‬‬

‫کیفیتی اور حرکت مکانی ۔‬ ‫روح اپنی فطرت عاقلہ میں تمام علم کا امکان رکھتی ہے ۔‬

‫عالم کے باہرنہ زماں ہے اور نہ مکاں ۔‬ ‫یقینی علم کے حصول کے لیے انفرادی مشاہدات سے کلی تجرباتکی‬

‫جسم محیط کے باہر کی حد ہے اور وقت ماقبل اور مابعد کی جانب حرکت‬
‫تجریدکرنیپڑتی ہے ۔‬

‫کا شمار ہے ۔‬ ‫ہم حافظےکی مدد سے ادراک سے تجربے اور تجربے سے علم کی طرف‬

‫فطرتکوئی کام بغیرمقصد کے نہیں کرتی ۔‬ ‫بڑھتے ہیں ۔‬

‫عالم دو حصوں عالم فوق القمر اور عالم تحت القمر میں منقسم ہے اور عالم‬
‫تمام تر انسانی غلطیاں جو اس کی شہادتکی غلط تاویل سے پیدا ہوتی‬

‫نئی شکل محدود ہے ۔‬ ‫ہیں ۔‬

‫ستارے ذی حیات اور ذی عقل الہی ہستیاں ہیں جو نوع انسانی سے‬ ‫سلو چرم ایک بیان ہے جس میں بعض مقدماتکی بنیاد پر ایک نیا‬

‫بہت بالا تر ہیں ۔‬ ‫مقدمہ بطور نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔‬

‫حیات حرکت ذاتی کی استعداد کا نام ہے ۔‬ ‫تصدیق موضوع اور محمول پر مشتمل ہوتی ہے ۔‬

‫نباتاتکی زندگی تعزیہ اور تناسل پر مشتمل ہے ۔‬ ‫متخالف تناقص اور تضاد پر مشتمل ہوتا ہے ۔‬

‫روح حسنی اور روح عقلی پر مشتمل‬ ‫ایک روح تین اجزا روح غذائی‬ ‫صحیح اور غلطکا دار و مدار تصوراتکی تحریک اور اجتماع پر ہوتا ہے ۔‬ ‫‪O.‬‬

‫ہوتی ہے ۔‬ ‫ثبوت قیاسیاتکی ترکیب سے حاصل ہوتا ہے ۔‬

‫بالواسطہ علم کے لیےبلاواسطہ علم مقدم ہے ۔‬


‫روحکا محل نفسگرم ( ‪ )Pneuna‬زندگی کا ماخذ ہے ۔‬

‫انفعالی نفس جسم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور فنا ہوتاہے جبکہ فعلی‬ ‫قانون اجتماع تقیقین فکر کا سب سے اعلی اور سب سے زیادہ یقینی ‪،‬‬

‫اصول ہے ۔‬
‫نفس ازلی اور ابدی ہے ۔‬

‫انسان کے وہ روحانی افعال جو اس کو حیوانی زندگی سے بلندکرتے ہیں‬ ‫جب دو چیزیں ایک دوسرے سے بعید ترین ہوں تو متضادکہلاتی ہیں ۔‬
‫‪141‬‬
‫‪140‬‬
‫اس پوری کائنات میں فقط انسان ہی ایک ایسی جنس ہے جو شعوری‬

‫عقل کے ساتھ روحکی ادنی قوتوں کے اتحاد پر مبنی ہیں ۔‬


‫طور پر اپنے ذاتی مقاصد سے آگاہ ہے ۔‬

‫جو جانور یا جاندار بظاہر عقلی عمل کرتے نظر آتے ہیں ان کا ہر عمل‬ ‫جن صفات پر سعادتکا مدار ہے وہ فکر ارادےکی خوبیاں ہیں ۔‬

‫ة‬
‫جبلی ہوتا ہے ۔‬ ‫نیکی ارادے کی پاکیزہ صفت ہے اور ہماری فطرت کے مطابق عقل‬

‫کے مقررکردہ اعتدال پر مشتمل ہے ۔‬


‫معیارکی مقدار کے علاوہ اپنی ایک الگ حیثیت ہے ۔‬

‫اخلاقکا مطلب افراط و تفریط کا درمیانی راستہ اختیارکرنا ہے ۔‬


‫چیزوںکی نوع ابدی ہے ۔ انکی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ۔‬
‫عدل جزا و سزا کا صحیح تعین ہے ۔‬
‫ہر انسان خوشی یا سکون کا متلاشی ہے اور اصل خوشی وہی ہے جو اچھے‬

‫نککیی وجہ سے پیدا ہونے‬


‫ھقش‬ ‫نفس سب سے بڑا وحشی درندہ ہے ۔‬
‫۔گن‬
‫کام سے حاصل ہوتی ہے ۔‬
‫والے جذبات انسانی اذہانکو بے راہروکر دیتے ہیں ۔‬
‫کائنات کی ہر چیزکی اچھائی یہ ہے کہ وہ اپناکردار درست طور پر ادا‬
‫حرکت اور تبدیلی کی بنیادی وجہ ایک عظیم تر مقصد کی کشش ہے اور‬
‫کرے ۔‬

‫یہ مقصد فارم (‪ )Form‬میں ہے ۔‬


‫انسانکو حقیقی خوشی عقلی استدلال کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔‬
‫خدا خیال اور عقلی استدلال ہے ۔ وہی حتمی مقصد ہے ۔ تمام مادی‬
‫انسان عقلی استدلال کے علاوہ حواس خمسہ کے باعث حسیات کا بھی‬

‫وجود بے اختیار ایک خاصکشش کے تحت اس کی طرف رجوع کرتے‬


‫اسیر ہے ۔‬
‫ہیں ۔ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین مقصد ہونے کی بنا پر اس کی ذات‬
‫انسانکی عقلی اور استدلالی زندگی اطوار میں موجود ہوتی ہے اور نچلے‬
‫مکمل ہے ۔ وہ ماہر اور کاریگر ہے اور اصل قوت محرکہ ہے ۔ تمام حرکت‬
‫یا چھوٹے درجے کی اچھائی یا جبلت اس کے جذبات اور حیاتی بھوک سے‬
‫اور تبدیلی اس کے باعث ہے وہ پہلا اور ایک ایسا محرک ہے جو خود ذرا‬
‫مسلک ہے ۔‬

‫ی بھی حرکت کیے بغیر سب چیزوںکو متحرک کرتاہے ۔ وہ خود بے حرکت‬


‫نیکی اور اچھائی کی اعلیٰ و ارفع قسم " ‪ " Dianoetic‬ہے اور اس‬
‫ہے کیونکہ وہ اپنے خاص مقصد کے لیے ہر چیزکو متحرککرتا ہے ۔ وہ خیال‬
‫کیفیت میں انسان پر عقلی استدلال‪ ،‬اخلاق اور خیال چھایا ہوتا ہے اور یہ‬
‫کا خیال ہے صرف اپنی ہستی کو سوچتا ہے ۔ وہ نہ اپنی ذاتکا فاعل ہے اور‬
‫مقام وہ ہے جہاں وہ خدا کی ذاتکا پر تو بن جاتا ہے ۔‬
‫نہ ہی مفعول ۔ وہ مادی اشیاء کا نہیں بلکہ آفاقی تصوراتکا خالق ہے ۔ وہ‬
‫بیرونی حالات اور وسائل انسان کو اعلیٰ و ارفع درجے کی اچھائی اور‬

‫ابدی رحمت میں رہتا ہے اور اسکی ابدی رحمت یہ ہے کہ وہ مسلسل‬


‫اخلاقکو حاصلکرنے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں ۔‬
‫اپنی ذاتکی تکمیل کے حسن کے بارے میں سوچتا یا فکرکرتا ہے ۔‬
‫سفلی جذبات اور حیاتی بھوک انسانی نفسیات کا جزو ہے ۔‬
‫ایک حتمی تصور باقاعدہ وجود نہیں رکھتا بلکہ خیال ہی کی حد تک حتمی‬
‫اصل نیکی اور اچھائی یہ ہے کہ عمومی یا نچلے درجے کے جذبات اور‬
‫اور حقیقی ہوتاہے ۔‬
‫‪143‬‬ ‫‪142‬‬

‫انسان دراصل حیوان ناطق ہے اور اس کے نطق نے معاشرہ کو جنم‬ ‫حیاتی بھوککو عقلی استدلال اور اخلاق کے تحت لایا جائے ۔‬

‫دیا ۔‬ ‫انسان کے اندر موجود سفلہ جذبات اور حیاتی بھوک پر عقلی استدلال‬
‫ہر اسم نکرہ جس کاکلیتہ " ایک جماعت کے افراد پر اطلاق ہو سکے کلی‬
‫سے قابو پایا جاسکتا ہے ۔‬

‫ہوتا ہے اور یوں حیوان انسان کتاب اور درختکلی ہیں ۔ یہ اسماء ہیں‬
‫انسان میں آہستہ آہستہ اخلاقی عادات پیداکی جانی چاہیے ۔‬

‫اشیاء نہیں ۔‬ ‫اعلیٰ درجہ کبھی اونی درجہ کو ختم نہیں کرتا ورنہ انسانی نفسیات کا ارتقا‬

‫ہم سے جو کچھ بھی خارج ہے وہ انفرادی اور مخصوص اشیاء کا عالم‬ ‫رک جاتا ۔‬

‫ہے ۔ یہ عالم کلیاتکا نہیں ہے اور نہ ہی انسانکلی کاکوئی وجود ہے ۔‬ ‫بصیرت نیکی کی علت اور معقول ہے ۔‬

‫ہر انسانکو چاہیے کہ وہ اشیاء کی طرف لوٹے ‪ ،‬فطرت اور حقیقت کا‬ ‫گہری بصیرت مسلسلکوشش اور ریاض سے پیدا ہوتی ہے ۔‬

‫نظارہکرے ۔ حقیقی اور اصلی جزئیاتکو دوسری اشیاء پر ترجیح دے اور‬ ‫جو شخص گہری بصیرت رکھتا ہے وہی صحیح طور پر جانتا ہے کہ اسے کیا‬

‫گوشت پوست کے انسانکو پسند کرے ۔‬ ‫کرنا ہے ۔‬

‫اگر کسی فرد میں اس جماعت کے جس کا وہ رکن ہے بہت سے‬ ‫بهادری در اصل بزدلی اور اندھی دلیری کے درمیان اعتدال کا ذریعہ‬

‫خصائص موجود ہوں تو اس باتکا قوی امکان موجود ہوگا کہ اس فرد میں‬
‫اور ایک تصور ہے ۔‬

‫اس جماعت کے مخصوص اوصاف بھی موجود ہوں ۔‬ ‫معتدل سخاوت دراصلکنجوسی اور فضول خرچی کے درمیان ایک‬

‫قیاس استدلال کا بیان ہے ۔ فکر مقدمات سے شروع ہوتا ہے اور‬ ‫معتدلکیفیت یا حالت ہے ۔‬

‫نتائجکا طالب ہوتا ہے ۔‬ ‫‪ Distributive‬انصاف کا کام اچھے اور باصلاحیت افراد کو ان کی‬

‫فطرت میں خلا نا ممکن ہے کیونکہ خلا میں تمام انسانوں کے گرنے کی‬ ‫کارکردگی کے مطابق درجات عطا کرتا ہے جبکہ ‪ Corrective‬انصاف کا‬

‫رفتاریکساں ہوگی اور یہ خود ناممکن ہے ۔‬ ‫کام مجرموں کو اصلاحکی غرض سے ان کے جرائم یا غلطیوں کے مطابق‬

‫ہمارے نظام کا محور زمین ہے ۔‬ ‫سزا دینا ہے ۔‬

‫دنیا عالم کا دور ہے ۔ سورج مستقل طور پر سمندری پانی کو بخارات‬


‫ہر اچھی چیز کے دو جزو ہوتے ہیں پہلا جزو یہ ہے کہ تعریف کے‬
‫میں تبدیل کرتا رہتا ہے اور آخر کار یہ سمندر خشک ہوکر محض چٹانوںکی‬
‫ذریعے متذکرہ شےکو ایک جماعت میں داخلکیا جائے اور دوسرا جزو یہ‬

‫صورت اختیارکر لیتا ہے ۔ اس کے برعکس بخارات بادلوں میں تبدیل ہو‬


‫ہے کہ اس باتکی توضیع کی جائے کہ زیر بحث ہے اسی قسمکی دوسری‬
‫کر پانی برساتے ہیں اور سمندروں اور دریاؤںکو نئی زندگی بخشتے ہیں اور‬
‫اشیاء سے مختلفکس طرح ہے ۔‬

‫مئوثر لیکن غیر مرئی طریقے سے جاری رہتا‬ ‫اس طرح تغییرکا عمل دائما‬
‫انسانی دماغکی دو صورتیں ہیں اول کسی چیزکو دیکھنا دوم اس پر سوچنا ۔‬
‫‪145‬‬ ‫‪144‬‬

‫پیدا ہوتے ہیں جو نوع کے لیے مخصوص ہیں جبکہ کسی نوع کے مخصوص‬ ‫ہے ۔‬

‫فرد کی صفات سب سے بعد میں ظاہر ہوتی ہیں ۔‬


‫پہلے انسان قلمند ہوا اور پھر اس نے ہاتھوں کا نیا استعمال سیکھا۔ اس‬
‫کوئی نوع یا فرد جس قدر ارتقا یافته یا صاحب تخصیص ہوگا اسی قدر‬ ‫طرح زندگی بتدریج قوی تر اور پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی ۔‬

‫اسکی اولادکم ہوگی ۔‬


‫عقل انسان نے ساخت کی پیچیدگی اور جسم کی حرکت پذیری کے‬

‫لوٹتاہے ۔‬ ‫جاندار اپنے اصل نمونےکی طرف‬ ‫مطابق ترقی کی ۔ اس طرح افعال و اعمال میں تخصیص بڑھا ‪ ،‬عضویاتی‬

‫پمچھلیاںگھونسلے بناتی ہیں ۔‬


‫اختیار ایک مرکز پر جمع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ زندگی نے اپنے تقاضے‬

‫جو شخص ابتدا سے ہی جانداروں کی نشوونما پر دھیان رکھتا ہے اس کا‬


‫پورے کرنے کے لیے ایک نظام اصلی اور دماغ پیدا کیا اور پھر ذہن‬

‫اسلوب نظر بہترین ہوتا ہے ۔‬ ‫انسانی ماحولکی تسخیرکی طرف بڑھا ۔‬

‫بچے کی جنس کا انحصار اس بات پر ہےکہ نطفہ کس بیضے سے نکلا ہے ۔‬ ‫عمل تولید میں مرد کا نطفہ محرک کا کامکرتا ہے ۔‬

‫دنیا میں ہر چیز ایک داخلی تحریک سے متاثر ہوکر اصل سے بڑی بننے کی‬ ‫دماغ خونکو ٹھنڈاکرنے کا ایک آلہ ہے ۔‬

‫خواہش رکھتی ہے ۔‬ ‫مرد کی کھوپڑی میں عورتکی کھوپڑی کی نسبت زیادہ جوڑ ہیں ۔‬

‫ہر چیز بیک وقت اس خام مواد جس سے وہ پیدا ہوتی ہے کی صورت‬ ‫مرد کے دونوں طرف آٹھ آٹھ پسلیاں ہوتی ہیں ۔‬

‫اور اس صورت کا خام مواد بھی ہوتی ہے ۔ بچہ صورت اور جین اس کا‬ ‫عورتوں کے دانت مردوں سےکم ہوتے ہیں ۔‬

‫خام مواد جبکہ حسین صورت اور بیضہ اس کا خام مواد ہوتا ہے ۔‬ ‫پرندے اور رینگنے والے جانور ساخت کے اعتبار سے بہت متشابہ‬

‫ہر شے کی صورت ہوتی ہے اور صورت خام مواد کی حقیقتکی تکمیل‬ ‫ہوتے ہیں ۔‬

‫یافتہ شکل ہے ۔ صورت شکل ہی نہیں بلکہ قوت شکل ساز بھی ہے اور‬
‫بندر چوپائے اور انسان کے بین بین شکل و صورت رکھتا ہے ۔‬

‫ایک تحریک اس سے کام لیتی ہے ۔‬


‫دراصل انسان کا تعلق دودھ پلانے والے جانوروں کے گروہ سے‬
‫زندگی کا ارتقا در اصل فطرت حقیقی میں صورت کے ہاتھوں خام مواد‬ ‫ہے ۔‬

‫کی تسخیرہے ۔‬ ‫بچپن میں انسان اور جانورکی روح میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔‬

‫دنیا میں ہر چیز اپنے منصبکی تکمیل میں لگی ہوئی ہے اور ہر چیز داخلی‬
‫غذا سے طرز حیات متعین ہوتاہے ۔‬

‫تحریک کی راہنمائی میں کامکرتی ہے ۔‬ ‫کچھ جانور مل جل کر اور کچھ تنہا رہنا پسند کرتے ہیں لیکن ان سب کا‬

‫مرغی کے چوزہ کا بلخ نہ ہونا مقدرات امور میں داخل ہے ۔‬ ‫مقصد حیات صرف اور صرف حصول غذا ہے ۔‬

‫اشیاء کی نوعیت اور انکی غائیت ایک داخلی چیز ہے اور اس شے سے‬ ‫جنس کے اوصاف ارتقا پانے والے عضویے میں ان صفات سے پہلے‬
‫‪147‬‬ ‫‪146‬‬

‫ہم مسرتکی تحصیل اس لیے کرتے ہیں کہ مسرت کے خواہاں ہیں اور‬
‫جو کام بھی لینا مقصود ہے اس سے مربوط ہے مشیت الہی کلی طور پر علل‬
‫ہمارا مقصد اس سے آگے کچھ اور نہیں ہوتا ۔‬
‫فطری کے عمل سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔‬
‫مسرت در اصل ایک بہترین پر تعیش اخلاقی زندگی ہے ۔‬
‫ہم یہ طے کر سکتے ہیںکہ ہم نے کیا بنناہے ۔‬
‫انسانی مسرت یہ ہے کہ انسانیت کی اس صفت لازمی کے تقاضوںکو‬
‫ہمیں یہ اختیار حاصل ہے کہ ہم اپنے احباب کتب‪ ،‬مشاغل اور‬
‫پورا کیا جائے جو ہمیں دوسرے جانداروں سے ممتازکرتی ہے ۔‬
‫تفریحاتکا انتخابکر کے اپنی مسرتکو مطلوبہ خطوط پر ڈھال سکیں ۔‬
‫زندگی کا مقصد حصول مسرت ہے اور یہ عاقلانہ زندگی بسرکرنے سے‬
‫ہم جو بہ تسلسل تحسین و مذمت کرتے ہیں اس سے لازم ہے کہ ہم‬
‫مشروط ہے بلکہ یہ انسان کامل کے تجربات کا ماحصل ایک راہنما اور راہ‬
‫اخلاقی طور پر اپنے افعال کے ذمہ دار اور اپنے اعمال میں مختار ہیں ۔‬
‫اعتدال ہے ۔‬
‫روح ہر عضویے کی اصل موثر کی کلیت ہے ۔‬

‫فضائل اعمال کے نتائج ہوتے ہیں ۔‬


‫پودوں میں روح محض قوتتغیزیہ و تولید کا نام ہے ۔‬

‫فضیلت ایک فن ہے جو عادت اور ترتیب سے حاصل ہوتا ہے ۔‬


‫جانوروں میں روح صاحب حس ہو جاتی ہے اور یہی روح حرکت کی‬

‫اعمال فضائلکی تکرار سے سیرت متعین ہوتی ہے ۔‬ ‫قوتکا ماخذ اور انسان میں استدلال اور فکرکی طاقت ہوتی ہے ۔‬

‫جوانی انتہا پسند ہوتی ہے اور قصور وار نوجوان کا رخ افراط و انتما کی‬
‫روح جسم کی تمام قوتوں کا مجموعہ ہے اس لیے جسم کے بغیر متصور‬
‫طرف ہوتا ہے ۔‬ ‫نہیں ہوسکتی ۔‬

‫جہاں خلوص نہیں ہوتا وہاں اس کا اظہار شدومد سے کیا جاتا ہے ۔‬


‫روح انسانی کی قوت ناطقہ کا ایک جزو انفعالی ہے جو قوت حافظہ سے‬

‫گیز دائرہ غرور کے نزدیک تر ہوتا ہے اور کسی وقت بھی غرور میں‬
‫مربوط اور قابل تا ہے جبکہ عقل فعلی انحطاط سے ماوراہے ۔‬

‫تبدیل ہو سکتا ہے ۔‬ ‫تخلیقات فنی کا ماخذ تحریک تشکیل ہے ‪ ،‬جذبے کے اظہار کی آرزو فن‬

‫راہ اعتدال حاصل کرنے کے لیے مقابلے کی افراط و تفریط کا مرتکب‬ ‫حقیقتکی نقل ہے اور ادنیٰ درجے کے جاندار نقالیکی لذت سے نا آشنا ‪.‬‬

‫ہونا چاہیے ۔‬
‫ہیں ۔‬

‫بقدر ضرورت دولت ضرور حاصلکرنی چاہیے ۔‬


‫آرٹ یا فن کا مقصد باطنی معنویت کا اظہار ہے ۔ اچھا آرٹ یا فن‬
‫دولت تفکرات و حرص سے نجات دلاتی ہے ۔‬
‫عقل و احساسکو متاثرکرتا ہے ۔‬

‫افلاس انسانکو بخیل اور حریص بناتی ہے ۔‬


‫غنائی داستان تشکیل و ارتقا کی بنا پر ہمیں متاثر کرتی ہے ذہن و عقل‬
‫دوستی کا مطلبیک جان دو قالب ہونا چاہیے ۔‬
‫کو اس طرح جو لذت ملتی ہے وہ انسانکی بہترین مسرت ہے ۔‬
‫دوستکم ہونے چاہیں جس کے بہت دوست ہیں اس کاکوئی دوست‬
‫انسانی زندگی کا بنیادی مقصد مسرت کا حصول ہے ۔‬
‫‪148‬‬

‫‪149‬‬
‫ہے ۔‬ ‫نہیں ۔‬

‫قوانین میں تغیر سے اگر کوئی فائدہ حاصل ہو تو قانون اور فرمانروا کے‬ ‫صحیح دوستی کا انحصار امتداد زماں پر ہے ۔‬

‫نقائص کے بارہ میں فلسفیانہ تحمل سے کام لینا چاہیے ۔‬ ‫دوستوںکی سیرت میں استقلال ضروری ہے ۔‬

‫شہری کی نافرمانی کی عادت سے جو نقصان ہوتا ہے وہ تغیر سے ہونے‬ ‫محسن ان لوگوں کے دوست ہوتے ہیں جن پر احسان کرتے ہیں لیکن‬

‫والے فائدہ سےکہیں زیادہ ہوتا ہے ۔‬ ‫جن لوگوں پر احسان کیا جاتا ہے وہ اپنے محسنوںکو دوست نہیں رکھتے ۔‬

‫پرانے قوانین کی جگہ نئے قوانین کا نفاذ قانونکی بنیادکمزورکرنے کے‬ ‫محسن کو جو محبت ان لوگوں سے ہوتی ہے جن پر وہ احسانکرتے ہیں اس‬

‫مترادف ہے ۔‬ ‫کی مثال وہ محبت ہے جو فنکارکو مخلوقات ہنر سے ہوتی ہے یا ماںکو بچے‬

‫اگر تمام لوگ تمہارے بھائی ہیں تو سمجھ لیںکہ تمہارا کوئی بھائی‬

‫نہیں ۔ معاصرکو بھائی یا بہن کہنا درست نہیں ہے ۔‬ ‫معیاری اور فوق الانسان خود کو خواہ مخواہ خطروں میں نہیں ڈالتا لیکن )‬

‫جو چیز بہت سے لوگوں کے درمیان مشترک ہوتی ہے اس کی کوئی‬ ‫نازک آزمائشوں میں اپنی جان قربانکر دیتا ہے ۔ وہ دوسروں کے کام آتا‬

‫پرواہ نہیں کرتا ۔ اشتراک ملکیتکی راہ میں مشکلاتپیدا کرتا ہے ۔‬ ‫ہے لیکن خود دوسروں کا احسان لینے سے گریز کرتا ہے ۔ کھیل تماشوں میں‬

‫ولادت کے وقت سے ہی کچھ لوگ حکومت کے لیے اور کچھ محکومیت‬ ‫حصہ نہیں لیتا ۔ وہ اپنی پسند اور ناپسند کا کھلا اظہارکرتا ہے ۔ اس کے قول‬

‫کے لیے موضوع ہوتے ہیں ۔‬ ‫و فعل میں تضاد نہیں ہوتا ۔ اس کے دل میں جذبات تحسین کا جوش نہیں‬

‫تمام کم رتبہ ذہن رکھنے والے انسانوں کو کسی آقا کی حکومتکو تسلیم‬ ‫ہوتا۔ وہ کسی بھی قسم کی غلامی کی زندگی کو ناپسند کرتاہے ۔ وہ بغض سے‬

‫کرنا چاہیے ۔‬ ‫میرا ہوتا ہے ۔ انتقامی کارروائی نہیں کرتا ۔ وہ دکھ بھول جانے کا عادی‬

‫غلام ذی روح آلہ کار ہے اور آلہ کار بے روح غلام ہے ۔‬ ‫ہوتا ہے ۔ وہ نہ تو باتونی ہوتا ہے اور نہ ہی خوشامدی ۔ وہ دو سروںکو برا‬

‫اگر کسی ہاتھ کی دخل اندازی کے بغیرکپڑے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے‬ ‫بھلا نہیں کہتا ۔ دشمنوں کی مخالفت منہ پرکرتا ہے ۔ اس کی چال باوقار‬

‫اور مضراب براہا پر خود بخود پھرنے لگے تو مزدوروں کے سرگرد ہوںکو‬ ‫اس کی آواز گرجدار اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات اٹل اور الفاظ‬

‫ملازموں کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آقا غلام کے محتاج نہیں ہوں‬ ‫بڑے بچے تلے ہوتے ہیں ۔ وہ جلدی نہیں کرتا اور نہ ہی جلد متاثر ہوتا‬
‫گے ۔‬
‫ہے ۔ وہ جو شیلا نہیں ہو تا بلکہ دنیا کے واقعات بڑی بردباری سے برداشت‬

‫محنت مزدوری ذہنکوکند اور روبہ زوالکر دیتی ہے ۔‬ ‫کرتا ہے ۔ حالاتکو اپنے رنگ میں ڈھالکر فائدہ اٹھاتا ہے ۔ وہ بہترین‬

‫مزدور کے پاس نہ تو سیاسی ذہانت کا وقت بچتا ہے اور نہ طاقت باقی‬ ‫دوست ہوتا ہے اور تنہائی میں خوش رہتا ہے ۔‬

‫رہتی ہے ۔ لہذا حکومت میں ان لوگوںکو دخل دینا چاہیے جن کے پاس‬ ‫معمولی سی بات کے لیے قوانین میں تغیر و تبدلکرنا باعث فساد ہوتا‬
‫‪151‬‬
‫‪150‬‬

‫چھوٹی عمرمیں شادیکرنے سے بچےکمزورپیدا ہوتے ہیں ۔‬ ‫وقت ہو ۔‬

‫صحت محبت سے زیادہ اہم ہے ۔‬ ‫پرچونکی تجارت غیر فطری ہے ۔‬

‫جلدی شادی نہکرنے والا شخص دائرہ اعتدال میں رہتا ہے ۔‬ ‫باهی استفادے کی سب سے شرمناک صورت سود خوری ہے جو محض‬

‫جو عورتیں جلدی شادی کر لیتی ہیں ان میں جنسی گمراہی پیدا ہو جاتی‬
‫روپے کے وجود سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔‬

‫ہے ۔‬ ‫سود کا ماخذ سود خوری نفع اندوزی کی بدترین صورت ہے ۔ روپے کو‬

‫جو مرد جلدی شادی کر لیتے ہیں انکی نشوونما رک جاتی ہے ۔‬ ‫‪O‬‬ ‫جننے کی اجازت نہیں دینا چاہیے ۔‬

‫آبادی میں اضافے کی صورت میں اسقاط سے کام لینا چاہیے اور یہ‬
‫شادی بیاہ میں کم سے کم اور زیادہ عمر کے تعین اور آبادی پر کنٹرول‬

‫استقاط آغاز زندگی سے پہلے ہو جانا چاہیے ۔‬ ‫مملکتکی ذمہ داری میں شامل ہے ۔‬

‫جس مملکتکی آبادیکم ہوگی وہ خود کفیل نہیں ہوگی ۔‬


‫مرد عورت پر فوقیت رکھتا ہے اور یہ اصول تمام عالم انسانیت میں‬

‫جس مملکت کی آبادی زیادہ ہوگی وہ مملکت نہیں بلکہ قوم بن جاتی ہے‬ ‫جاری و ساری ہے ۔‬

‫اور اس مملکت میں آئینی حکومتممکن نہیں رہتی ۔‬ ‫ذہین ‪ ،‬مہذب اور حاکم ہے جبکہ عورت نامکمل مرد ‪،‬کنیز‬ ‫مرد آقا‬

‫دس ہزار سے زیادہ آبادی ناپسندیدہ ہے ۔‬ ‫وحشی ‪ ،‬مفتوح اور ارتقا کی زبان میں ایک قدم پیچھےکھڑی ہے ۔‬

‫تعلیمی نظام حکومتکی ذمہ داری ہے ۔‬ ‫عورتکی قوت ارادیکمزور ہوتی ہے ۔‬


‫صنعت و‬ ‫مدرسوں پر حکومت کے کنٹرول سے شہریوں کو زراعت‬ ‫عورت کا فرض ہے کہ وہ گھرکے کام کاجکرے اور خارجی معاملات‬

‫حرفت اور تجارتکی طرف راغبکیا جاسکتا ہے ۔‬ ‫میں مردکی مطیع رہے ۔‬

‫عام لوگوں کو تمام اشیاء کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے اور‬ ‫عورتوںکو مرد کے متشابہہ نہیں ہونا چاہیے ۔‬

‫لوگوںکو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ملکیتی اشیاء ان کی مرضی سے اگر‬ ‫مرد اور عورتکی شجاعت میں واضع فرق موجود ہے ۔‬

‫دوسرے لوگ استعمالکرلیں تو اس میںکوئی حرج واقع نہیں ہو تا ۔‬ ‫مرد اور عورت میں اختلافات رہنے چاہیں کیونکہ اختلافات ہی باعث‬

‫ہر شہریکو مطابقت قانونکی تعلیم دینا ضروری ہے ۔‬ ‫کشش ہوتے ہیں ۔‬

‫جس نے قانون کی اطاعت نہیں سیکھی وہ حکومت کرنا بھی نہیں سیکھ‬ ‫جو کام مرد کی دست درازی سے نہیں ہوتا وہ عورتکی زبان درازی‬

‫سکتا ۔‬ ‫سے ہو جاتا ہے ۔‬

‫قانون کے نفاذ سے آزادی پیدا ہوتی ہے ۔‬ ‫‪ 37‬سال کے مرد کو ‪ 20‬سالکی عورت سے شادیکرنی چاہیے ۔‬

‫انسان مکمل ہو تو اشرف المخلوقات اور تنا ہو تو بدترین حیوان ہوتا‬ ‫مرد ‪ 70‬سال تک اور عورت ‪ 50‬سال تک بچے پیدا کرسکتی ہے ۔‬
‫‪152‬‬
‫‪153‬‬

‫حکومت کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ تمام اقتدار بهترین فرد میں‬ ‫ہے ۔‬

‫مرکوز ہو جائے ۔‬ ‫مسلح نا انصافی بڑی خطرناک ہوتی ہے ۔‬

‫شمنٹائیت حکومت کی بد ترین اور اشرافیہ بہترین صورت ہے ۔‬ ‫انسان پیدا ہوتے ہی عقل اور سیرت سے متصف ہوتا ہے اور وہ‬

‫طیبکا ممتحن طبیب ہی ہونا چاہیے ۔‬ ‫انہیں بدترین مقاصد کے لیے استعمالکرسکتا ہے ۔‬

‫صحیح انتخاب وہی لوگکرسکتے ہیں جو خود باخبر ہوں ۔‬ ‫اگر انسان فضیلت سے معری ہو تو ناپاک اور وحشی جانور سے بدتر‬

‫مملکت کے جلیل القدر عہدے اور منصب کی خریداری بلاشبہ بہت‬ ‫ہے ۔‬

‫مری بات ہے ۔ جو قانون اس فساد کو جائز قرار دیتا ہے وہگویا دولتکو‬ ‫معاشرتی نگرانی ہی انسانکو فضیلت سے آراستہکرتی ہے ۔‬

‫لیاقت پر ترجیح دیتا‬


‫ہے ۔‬ ‫معاشرے سے عقل ‪ ،‬عقل سے تنظیم ‪ ،‬تنظیم سے تہذیب پیدا ہوتی‬

‫کسی مملکت میں منصب دار جس چیزکو قابل تعظیم قرار تصور کریں گے‬ ‫ہے۔‬

‫تو شهری بھی انکی تقلید کریں گے ۔‬ ‫منظم مملکت میں فرد کی ترقی کے ایسے امکانات روشن ہوتے ہیں جن‬

‫عمومیه بالعموم سرمایه داری کے خلاف بغاوت ہوتی ہے ۔‬ ‫کا تنہائی کی زندگی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔‬

‫ارباب حکومت کی مفاد پرستی ان کی تعداد کو مستقل طور پر کم اور‬ ‫معاشرتی تنظیم اطمینان پیداکرتی ہے لیکن اسکی قدر نہیں کی جاتی ۔‬

‫عوامکو طاقت بخشتی ہے جس سے عمومیہ قائم ہوتی ہے ۔‬ ‫انقلاب غیر دانشمندانہ فعل ہے ۔ اس سے تنظیم درہم برہم ہو کر فتا‬

‫عمومیہ اشرافیہ کے مقابلے میں فرمانروائی کی اونی صورت ہے ۔‬ ‫ہو جاتی ہے ۔‬

‫قانون کی نظر میں عام لوگ آزاد یکساں اور ہر معاملے میں مساوی‬ ‫نوجوان آدمی جلد امیدیں وابستہ کرنے کی وجہ سے جلد دھوکہ کھا جاتا‬

‫ہیں ۔‬ ‫ہے ۔‬

‫عوام بہت جلد گمراہ ہوتی ہے ۔ ان کے خیالات و عقائد بدلتے رہتے‬ ‫انقلاب کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومتیں رعایا کی عادات مستمرہ کو‬

‫ہیں ۔‬ ‫بدلنے کیکوشش میں مٹ جاتی ہیں ۔‬

‫خفیہ رائے دہی ارباب عقلکو ملنی چاہیے ۔‬ ‫آئین کے استحکام کے لیے ضروری ہےکہ معاشرے کے تمام اجزا‬

‫اشرافیہ اور جمہوریہ پر مبنی دستوری حکومت سے بہتر حکومت کا قیام‬ ‫اس کے قیام کے لیے خواہاں ہوں ۔‬

‫عملاً ممکن نہیں ہے ۔‬ ‫انقلاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ فرمانروا نہ تو لوگوں کو‬

‫محض آرزو پر مبنی معیاری مملکت کا تصور بیکار ہے ۔‬ ‫مفلس ہونے دے اور نہ امیر۔ نو آبادیات قائمکریں اور مذہبی راہنماؤں‬

‫زندگی ایسی متصور ہونی چاہیے کہ لوگوں کی اکثریت اس میں شریک‬ ‫کی تربیتکرے اور خود بھی مذہبی شعائرکا پابند رہے ۔‬
‫‪155‬‬ ‫‪154‬‬

‫کے ذریعے مشاہدہ کرسکتے ہیں اور اس کے موجوداتکو اپنی تمدنی زندگی‬ ‫ہو سکے اور طرز حکومت ایسا ہونا چاہیے کہبالعموم مملکتیں اس کے قیام میں‬

‫کی تکمیل کے لیے بروئے کار لا سکتے ہیں ۔‬


‫کامیاب ہوسکیں ۔‬

‫کائنات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ ابدی اور مستقل ہے اس‬ ‫مملکت کا وہ جزو جو حکومتکی بقا کا متمنی ہو مخالف جزو سے قوی ہونا‬

‫کی تغیر پذیری اور تبدیلی ایک حقیقت ہے لیکن یہ فطرت کے مستقل‬
‫چاہیے ۔‬
‫<‬
‫قوانین کے تابع عمل میں آتی ہے جس سے کائناتکو ایک مسلسل ساخت‬ ‫قوت محض تعداد ثروت ‪ ،‬فوجی و سیاسی استعداد و لیاقت سے نہیں‬

‫ملتی ہے ۔‬
‫بلکہ ان کے مجموعے سے پیدا ہوتی ہے ۔‬

‫مادہ ہی بنیادی طور پر اپنی اصل میں حقیقت اولی ہے ۔ اس لیے مادی‬
‫متکا کام مقاصد و غائیتکا تعینکرتا ہے ۔‬
‫دنیا ہی اپنی جگہ حقیقی اور ابدی ہے یہ اپنی اصل میں کوئی نقل نہیں بلکہ‬
‫وسائل و ذرائع کا انتخاب اور ان سے کام لینا ماہرین کا کام ہے ۔‬
‫اپنی وجودی ہیت میں اصل ہے اس لیے مظاہراتکائنات محض افراد کے‬
‫نصب اور‬
‫اور عہدوں پر موزوں اور تجربہ کار لوگ متعین ہونے‬
‫ذہن میں موجود تصورات کا عکس ہی نہیں بلکہ انسانی ذہن کے تصوراتی‬
‫چاہیں ۔‬

‫مشاہدے سے ہٹکر بھی یہ اپنا وجود رکھتے ہیں ۔‬


‫فطرت انسانی زندگی پر محیط ہے اور فطری اصول حیات انسانی کا احاطہ‬

‫انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے جو نہایت اعلیٰ قسم کے اعصابی نظام اور‬ ‫کئے ہوئے ہیں ۔‬

‫ایک معاشرتی مزاجکا حامل ہے ۔‬


‫افراد فطری اصول و قوانین پر عمل کر کے مستحکم معاشرہ قائم کر سکتے‬
‫یہ فرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ انسان کا ثقافتی کارنامہ اس کے‬
‫ہیں اور اسی سے ہی مملکت کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے ۔‬

‫کسی علیحدہ وجودکی وجہ سے ہے ۔ ذہن یا روح دراصل عضویہ کے ایک‬ ‫افراد کا اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنا فطرت کے عین مطابق ہے ۔‬

‫اعلیٰ پیچیدہ فعلکا نام ہے ۔‬ ‫فطری اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرکے افراد اور معاشرہ اور فطرت‬

‫مادی کائنات انسانی ذہن میں موجود تصورات سے علیحدہ ٹھوس مادی‬ ‫کے مابین مثالی ربط قائم کیا جاسکتا ہے ۔ جس سے انسان اور فطرت دونوں‬

‫وجود رکھتی ہے اور یہ ایسے قوانین کے تحت منظم ہے جس پر انسان کو‬ ‫کی تکمیل ممکن ہے ۔‬

‫قطعا "کوئی کنٹرول حاصل نہیں بلکہ انسان بذات خود بھی ان قوانین کا تابع‬
‫علم سیاسیات کا ماہر جو صرف مثالی مملکت یا اخلاقی اقدار پر مبنی مملکت کا‬

‫ہے ۔‬
‫خاکہ پیشکرے برائے نام مفکر ہوتا ہے ۔‬

‫انسان بحیثیت مادی وجود اور اعلیٰ و پیچیدہ عضوئے کے منظم کائنات کا‬
‫ایک ماہر سیاسیات کو حقیقی مملکتوں کے یا اپنے سیاسی ‪ ،‬معاشرتی‬
‫ایک حصہ ہے جس کی تخلیق ہر مظاہر فطرتکی طرح با مقصد ہوتی ہے ۔‬
‫اور تعلیمی نظاموںکا جو جاری و ساری ہوںکا جائزہ لیتے رہنا چاہیے ۔‬
‫کائنات کا موجودہ وجود کا مواد حقیقی صرف اور صرف ایک ہے ۔‬
‫کائنات ایک اصل اور ٹھوس ابدی حقیقت ہے جس کا ہم اپنے حواس‬
‫‪15 /‬‬

‫' ‪156‬‬
‫جاسکتی جب تک کہ ہم ان عناصرکی حقیقتکو اپنے حواس اور معروضی‬

‫مبداء كائنات مادہ ہے اور مادے کے علاوہ کوئی اور حقیقت مطلقہ‬
‫مشاہدےکی بنیاد پر تعین نہیںکرتے ۔‬

‫بلاشبہ عقل کسی حد تک کائنات اور مظاہرات کی حقیقت تک انسان‬ ‫موجود نہیں ۔ حیات بھی اسی مادےکی طبعی اور کیمیائی ترکیب کی لطیف‬

‫کی راہنمائیکرتی ہے لیکن مکمل طور پر حقیقت تک رسائی کے لیے عقل‬ ‫ترین صورت ہے ۔ نفس یا ذہن بھی اسی مادےکی ایک عضویاتی ترکیبکا‬

‫پر بھروسہ نہیںکیا جاسکتا۔‬ ‫مو تحتی مظہرہے ۔‬

‫اگر انسان عقل کے ساتھ اپنے حواس اور مشاہدے کو بروئے کار‬ ‫دنیا اپنی اصل میں اپنی مادی شکل میں انسانی حواسکو جیسے نظر آتی ہے‬

‫ویسے ہی ہے ۔‬
‫لائے تو حقیقت اس پر آشکار ہو سکتی ہے ۔‬

‫مملکت بحیثیت کل مختلف اجزا یا عناصر کا مجموعہ ہے اور یہ اجزا‬ ‫انسانی حواس بہترین ذریعہ علم ہے ۔‬

‫خاندان گاؤں اور تھے ہیں ۔‬ ‫علم کا مقصد موجودات کائنات کی اصلیت اور حقیقتکو انسان کے لیے‬

‫آسان تر بنانا ہے ۔‬
‫انسانی ضروریات دو قسم کی ہوتی ہیں ‪ ،‬اخلاقی ضرورت اور مادی‬

‫ضروریات ۔ اور ان ضروریاتکی تکمیل وہ اکیلے نہیں بلکہ دوسروںکے‬ ‫اقدار بنیادی طور پر معروضی ہوتی ہیں اور معروضیت دراصل حقیقت‬

‫کی ایک صفت ہوتی ہے ۔‬


‫تعاون سے کر سکتا ہے ۔ تعاون کی ابتدائی شکل خاندان جو دراصل ایک‬

‫کائنات میں ایک ہمہ گیر اخلاقی قانون موجود ہے جس کو دلیل کے‬
‫فطری ادارہ اور مملکت کی تشکیلکی ابتدائی اکائی ہے بہترشکل گاؤں ہے ‪،‬‬

‫ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے اور جس کا اطلاق تمام افراد پر بطور عاقل‬
‫جسکی بنیاد چند خاندان مل کر رکھتے ہیں اور اعلیٰ ترین شکل مملکت ہے جو‬
‫انسانوں کے ہوتا ہے ۔‬
‫بہت سارے گاؤں کا اجتماع ہے اور جو تمام انسانی ضروریاتکی تکمیل کے‬

‫اقدار‪ ،‬مستقل‪ ،‬ابدی‪ ،‬غیرمتغیر اور غیر زوال ہوتاہے ۔‬


‫لیے ایک منظم و مستحکم ادارہ ہے ۔‬

‫انسان سیاسی حیوان ہے ۔‬


‫مملکت ایک فطری ادارہ ہے جو فطری تسلسل کے باعث مرحلہ وار‬

‫تشکیل پایا ۔ مملکت کے ارتقا یا آغاز میں انسانی ارادہ کاکوئی دخل نہیں‬ ‫انسان کی انفرادی شخصیت اور اجتماعی زندگی کی تکمیل ایسے مقتدر‬

‫ہے ۔‬ ‫سیاسی اداروں کے بغیر ممکن نہیں جو اپنی ہمہ گیریت اور دائرہ کار و‬

‫تنها انسان یا تو خدا ہو سکتا ہے یا شیطان جبکہ انسان بحیثیت سیاسی حیوان‬ ‫وظائف کے حوالے سے فردکی شخصیت پر مکمل انداز میں ہادی ہوں ۔‬

‫نہ تو خدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی شیطان ۔ اس لیے انسانکو لازمی طور پر‬ ‫انسانی حواس انسانی زندگی کے مختلف سیاسی و سماجی ادارت‪ ،‬اقدار‬

‫عقائد اور خود انسان کی حقیقتکو پرکھنے کی کسوٹی ہے ۔‬


‫معاشرتی زندگی اختیارکرنی پڑتی ہے ۔‬

‫بعض مملکتیں شکیل بنیادوں پر اخلاقی مقاصد کی حامل اور بعض اخلاقی‬ ‫محض خیالات کی بنیاد پر کائنات کے مادی وجود اور خود انسان کے‬

‫حیاتیاتی وجود کے بارے میں کوئی حتمی رائے اس وقت تک قائم نہیں کی‬
‫‪159‬‬ ‫‪158‬‬

‫ملکتیں طرز ہائے حکومتوں کی نسبت سے اپنی ہیت میں یا جمہوری ہوتی‬ ‫اصولوں میں مطابقت نہیں رکھتیں ۔‬

‫ہیں یا چند سری ۔‬ ‫معیاری مملکت کے مقاصد اخلاقی ہوتے ہیں جبکہ غیر معیاری مملکت‬

‫مملکت ایک مرکب اور کل ہے اور اس کا لازمی جزو اس کے شہری‬ ‫میں اخلاقی مقاصد اور قواعد و ضوابط کے علاوہ دیگر مقاصد کو بھی اہمیت‬

‫ہیں ۔‬ ‫حاصل نہیں ہوتی ۔‬

‫ہر وہ شخص جو مملکت کے قانونی اور انتظامی معاملات میں شریک ہونے‬
‫معیاری مملکتوں کا حکمران طبقہ بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور‬

‫کا حق رکھے اس مملکت کا شہری ہے ۔‬


‫اس کے پیش نظر عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود ہوتی ہے جبکہ غیر‬
‫قانونی اور انتظامی معاملات یا عدلیہ اور دیگر انتظامی شعبوں سے تعلق‬
‫معیاری مملکتوں کا حکمران طبقہ ذاتی اغراض و مقاصد میں مصروفکار رہتا‬

‫فرائضکی بجا آوری ہی وہ ‪ Exclusive‬معیار ہے جسکی بنیاد پر ہرفرد‬ ‫ہے ۔‬

‫کو شہریکہا جا سکتا ہے ۔‬


‫ایک شخص کی اچھی حکومت بادشاہت اور ایک شخص کی بڑی حکومت‬

‫مراعات یافتہ اور فراغت یافتہ طبقہ ہی شہریت کے لائق ہے ۔‬


‫استبدادیت کہلاتی ہے ۔ چند اشخاص کی اچھی حکومت اشرافیہ اور چند‬

‫غلامی فطرت اور انصاف پر مبنی ہے اور غلامی کا ادارہ مملکت کا ایک‬
‫اشخاصکی بُری حکومت چند سری کہلاتی ہے جبکہ بہت سے افراد کی اچھی‬

‫جزو ہے ۔ غلام مالک کے لیے ایک آلہ کار اورگھریلو زندگی کا لازمی جزو‬ ‫حکومت آئینی حکومت اور بہت سے افراد کی بُری حکومت جمہوریت‬

‫ہے ۔ آقا کی حیثیت روح اور غلامکی حیثیت جسمکی سی ہوتی ہے ۔‬ ‫کہلاتی ہے ۔‬

‫غلاموںکی حیثیت محض نجی ملکیت جیسی ہوتی ہے اس لیے آقا جب‬
‫چند سری حکومت بنیادی طور پر خراب نہیں بلکہ دولت مندوںکی‬

‫چاہیں انہیں فروخت کر سکتے ہیں اور جس کے نام چاہیں حقوق ملکیت منتقل‬ ‫حکومت ہوتی ہے اور دولت مند نیت اور ارادے سے خود غرض ہوتے‬

‫کرسکتے ہیں ۔‬ ‫ہیں ۔‬

‫کائنات میں انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات میں بھی برتری اور کم‬ ‫جمہوریت غریبوں کی حکومت ہوتی ہے اور بہت زیادہ تعداد کی وجہ‬

‫تریکا نظریہ کار فرما ہے ۔‬ ‫سےمملکتی مقاصد کا حصول‬


‫ناممکن ہو جاتا ہے ۔‬

‫آقا کے پاس وقت اور غلام کے پاس عقل نہیں ہوتی ۔‬


‫اشرافیہ طرز حکومت میں اخلاقی اصولوںکی بنیاد پر القابات ‘ اعزازات‬

‫غلامی کا ادارہ آقا اور غلام دونوں کے لیے فائدہ مند ہے ۔ غلام آقا کا‬ ‫اور عہدوں کی تقسیم کی جاتی ہے ۔ چند سری حکومت میں عہدوں اور‬

‫بہت سارا کام کرتا ہے جسکی وجہ سے آقاکو فراغت میسرآتی ہے ۔ اور‬ ‫مراعاتکی تقسیم کی بنیاد دولت اور جمہوریت میں عہدے اور مراعات‬

‫وہ مملکتی مقاصد کے حصول ممکن بناتا ہے جبکہ غلام کے پاس عقل نہیں‬
‫صرف پیدائش کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں اور اس میں نیکی یا اطاعت کا‬

‫ہوتی اور وہ اپنے آقا کی عقل رائے اور ارادے کے باعث اپنی زندگیکو‬
‫کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔‬
‫‪161‬‬ ‫‪160‬‬

‫محض بر سراقتدار طبقاتکی تبدیلی طبقاتی انقلابکہلاتی ہے ۔‬ ‫مربوط ‪ ،‬منتظم اورباربط بنانے کیکوششکرتا ہے ۔‬

‫جن مملکتوں میں معاشرتی فلاح اور اخلاقی اصول و ضوابط کا خیال نہیں‬ ‫غلامی غلام کی فطری منزل ہے ۔ غلام کا نصب العین یہی ہےکہ وہ غلام‬

‫رہے اسی میں اس کی بقا اور اس میں اس کا فائدہ ہے ۔‬


‫کیا جاتا وہاں کے عوام حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اٹھ‬

‫کھڑے ہوتے ہیں ۔‬ ‫غلام کو اپنے تمام تر اعمال و افعال آقا کے کہنے کے مطابق سرانجام‬

‫معاشی ناہمواری ‪ ،‬عدم مساوات کا احساس ‪ ،‬سیاسی جانب داری ‪ ،‬متوسط‬ ‫دینے چاہیے بالکل اسی طرح جیسے جسم روحکی منشا کے مطابق عملکرتا‬

‫طبقے کا نہ ہونا اور انتہا پسندانہ نظریات بالاخر انقلابکا باعث بنتے ہیں ۔‬

‫‪٠٥٠‬‬ ‫عکممال‬
‫لنتاهنقلاب نامکمل انقلاب خونی انقلاب‪ ،‬شخصی انقلاب‪ ،‬غیر شخصی‬ ‫م‬
‫مساوات ‪ ،‬سیاسی بدعنوانیوں کا خاتمہ‪ ،‬نظام تعلیم اور نظام‬ ‫معاشی‬

‫معاشرت میں مطابقت اور متوسط طبقے کی موجودگی انقلابات کو مسدود‬ ‫انقلاب‪ ،‬طبقاتی انقلاب اور بے مقصد انقلاب دراصل انقلابکی عمومی‬

‫کردیتی ہیں ۔‬ ‫شکلیں ہیں ۔‬

‫مساوات کا صحیح تصور ‪ Merite Equality‬ہے ۔‬ ‫کسی بھی معاشرے کے عمومی ‪ ،‬سماجی اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے‬

‫کے علاوہ اس کے اساسی اصولوں میں تبدیلی مکمل انقلابکہلاتی ہے ۔‬


‫ذاتی ملکیت کا ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ‬

‫فائدہ حاصلکرسکیں ۔‬ ‫نامکمل انقلاب کی صورت میں یا تو صرف سیاسی نظام کے بنیادی‬

‫افسران بالا اور حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ انصاف سے کام‬ ‫اصولوں کو تبدیل کیا جاتا ہے یا پھر معاشی و معاشرتی نظام کے بنیادی‬

‫ڈھانچے یا صرف حکومتکو تبدیلکیا جاتاہے ۔‬


‫کریں ۔ اقربا پروری اور مالی معاملات میں سیاسی بدعنوانیوں سے گریز‬

‫خونی نوعیت کے انقلاب مکمل یا نامکمل دونوں صورت میں وقوع پذیر‬
‫کریں ۔‬

‫ہوتے ہیں اور دونوں صورتوں میں تبدیلی کے عمل کے لیے خون ریزی‬
‫تعلیمی نظامکسی بھی مملکت میں معاشرتی زندگی کی مختلف سمتوں کا تعین‬
‫ہوتی ہے ۔‬
‫کرتا ہے ۔ معاشرتی مقاصد اور اقدار و عقائد کے مطابق افراد کی تربیت‬

‫کرتا ہے ۔‬ ‫الیکشن کے ذریعے اکثریت کی بنا پر یا پھر اسمبلی کے اندر آئینی طریقہ‬

‫کار کے مطابق تبدیلی آئینی انقلابکہلاتی ہے ۔‬


‫اعلیٰ اور ادنی دونوں طبقے اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہا پسند ہوتے‬
‫‪٥٠‬‬
‫ہیں اس لیے متوسط طبقہ کا ہونا ضروری ہے ۔‬ ‫مقتدر اعلیٰ کی تبدیلی کو شخصی انقلاب جبکہ مقتدر اعلیٰ کے خاتمہ کے‬

‫ساتھ سیاسی نظام کے اصولوں اور ضابطوں کے علاوہ معاشرتی‬ ‫ساتھ‬


‫تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے افراد اور مملکت کے‬

‫ڈھانچے کے ساختی عناصر اور ان کے جملہ قاعدوں کے خاتمہ کو غیر شخصی‬


‫حقوق و فرائض اور اختیارات کے دائرہ کارکا تعین کیا جاسکتا ہے ۔‬
‫انقلابکہا جاتا ہے ۔‬
‫معاشرے کے افراد کے لیے اپنی تعلیم کا بندوبست ہونا چاہیے جس‬
‫‪162‬‬
‫‪163‬‬

‫سے وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوںکو سمجھ سکیں بلکہ مملکتی مقاصد کی تکمیل‬
‫تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جس کو بروئے کار لا کر افراد کی بہترین خطوط پر‬
‫بھی کرسکیں ۔‬
‫تربیتکی جاسکتی ہے ۔ تعلیم سے ہی افراد عمل کرنا سیکھتے ہیں اور عمل ہی کا‬
‫تعلیم کے ذریعے انسانکی جسمانی اور ذہنی نشو و نما ہو سکتی ہے ۔‬
‫دوسرا نام ایک پر مسرت اور نیک زندگی کا حصول ہے ۔‬
‫تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو عقل انفعالی اور عقلی فعالی کی بہترین تربیت‬
‫تعلیم کے ذریعے افراد میں بہترین اوصاف پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔‬
‫کا باعث ہو ۔‬
‫تعلیم کے ذریعے مملکتی مقاصد کی تکمیل کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے ۔‬

‫جسم کی نشوونما اور بہترین تربیت کے لیے بہترین تعلیم ورزش اور‬
‫تعلیم کے ذریعے ہی انسان حقیقت تک رسائی حاصلکر سکتا ہے ۔ اور‬
‫مختلفکھیل ہیں ۔‬
‫جانچپرکھ کے بعد اپنے لیے لائحہ عمل مرتبکر سکتا ہے ۔‬
‫اخلاقی نشو و نما کے لیے موسیقی کی تعلیم لازمی ہے ۔‬
‫ہر مملکت کی ضروریات مقاصد اور اس میں رہنے والے لوگوں کے‬
‫موسیقی انسانی دل اور دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ اس‬
‫طبعی رجحانات مختلف ہوتے ہیں اس لیے ہر مملکت کے لیے لازمی ہے کہ‬
‫سے نہ صرف روحانی اور ذہنی تربیت ہوتی ہے بلکہ اس سے اخلاق بہتر‬
‫ضروریات معاشرہ اور دیگر‬ ‫مقاصد افراد کے ذہنی رجحانات طرز زندگی‬
‫ہوتا ہے اور جمالیاتی شعور پیدا ہوتا ہے۔‬
‫عناصکرو مد نظر رکھتے ہوئے نصاب تعلیم مرتب کرے ۔‬
‫عقل فعالی کے لیے سائنسی اور خالص فلسفے کی تعلیم ضروری ہے ۔‬
‫بعد کے ادوار تک ہر دور میں بچے کی ذہنی‬ ‫بچے کی پیدائش سے‬

‫عقل کی نشوونما کے لیے بچوں کی نفسیات کے مطابق خالصتا " فلسفیانہ‬


‫حالت مختلف ہوتی ہے ۔ لہذا پیدائش سے پانچ سال تک قبل از ابتدائی‬
‫م‬
‫طبعیات‪ ،‬ریاضی ‪،‬‬ ‫ضامین مثلاً مابعد الطبعیات‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬طبعی تاریخ‬
‫تعلیم ‪ 5 ،‬سے ‪ 7‬سال تک ابتدائی تعلیم ‪ 7 ،‬سے ‪ 14‬سال تک پرائمری تعلیم ‪،‬‬
‫حیاتیات ‪ ،‬علم نجوم‪ ،‬منطق اور جمالیات پڑھانا چاہیے ۔‬
‫بعد تک اعلیٰ تعلیم دی جانی‬ ‫‪ 14‬سے ‪ 21‬سال تک ثانوی تعلیم اور ‪ 21‬سے‬

‫تعلیم کا سب سے اہم اور کلیدی مقصد افراد کی فطری صلاحیتیوں کو‬


‫چاہیے ۔ قبل از ابتدائی تعلیم بچے کی تربیت والدین خود کریں اور اس‬
‫اجاگرکرتا ہے ۔‬
‫تعلیم کے ذریعے بچے کو ورزش اور معمولی کھیل کھلانا چاہیے تاکہ اس کا‬
‫تعلیم کے ذریعے ہی انسانی ذہن کی خوابیدہ صلاحیتوں اور ان گنت‬
‫جسم مضبوط اور توانا ہو ۔ ابتدائی تعلیم بھی گھرمیں معلمین کی نگرانی میں‬
‫اسرار و رموز سے آگاہی حاصل ہو سکتی ہے ۔‬
‫ہونی چاہیے ۔ معلمین کو اس باتکا معائنہ کرنا چاہیے کہ آیا بچے کی‬

‫نشوونما اور بالیدگی فطری اصولوں کے مطابق ہو رہی ہے ۔ اس دور میں‬ ‫تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں اخلاقی اقدار کو‬

‫فروغ دیا جاسکتا ہے ۔‬


‫والدین کو چاہیے کہ وہ ہر وہ طریقہ آزمائیں جن سے بچے کی خوابیدہ‬

‫تعلیم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کے ذریعے اچھائی اور برائی کی تمیز‬


‫صلاحیتیں اجاگر ہوں ۔ پرائمری سطح کی تعلیم کے لیے بچےکو سکول بھیجنا‬

‫ہو سکتی ہے اور ایک اخلاقی اور نیک زندگی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے ۔‬
‫چاہیے ۔ اس دور میں بچے کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے لہذا‬
‫‪164‬‬

‫‪165‬‬ ‫اساتذہکو چاہیے کہ وہ بچے کی نفسیات اور طبعی میلانکو سامنے رکھ کر‬

‫اسکورےکاغذ پر بہترین تربیت رقم کریں ۔ اس دور میں بچےکو موسیقی‬


‫ہے ۔‬
‫اور ریاضی کی تعلیم دینی چاہیے ۔ ثانوی تعلیم مملکت کی زیر نگرانی ہوئی‬
‫شاعر انسانکو حالت عمل میں پیشکرتا ہے ۔‬
‫چاہیے اور اس سطح کے لیے علم ریاضی ‪ ،‬علم ہندسہ ‪ ،‬علوم نجوم ‪ ،‬قانون ‪،‬‬
‫نقل کرنے کی جبلت انسان میں ازل سے ہے وہ ساری مخلوق میں‬
‫!‬ ‫اخلاقیات ‪ ،‬ادب ‪ ،‬فن تقریر‪ ،‬فلسفہ اور سیاسیاتکی تعلیم ضروری ہے ۔‬
‫سب سے بڑا نقال ہے اور نقل سے وجود میں آنے والے کاموں سے‬
‫اعلیٰ تعلیم کا دور صرف اور صرف ذہنی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص‬
‫لطفاندوز ہوتا ہے ۔‬
‫ہونا چاہیے اور اعلیٰ تعلیم کے نصاب میں علم طبیعات حیاتیات ‪ ،‬نفسیات‬
‫سنجیدہ شاعر شائستہ اعمال اور اعلی لوگوں کے کاموںکو پیش کرتے ہیں‬
‫فلسفہ الہیات‪ ،‬منطق اور مابعد الطبیعیات کے مضامین لازمی ہونے چاہیے‬
‫جبکہکم ذہن شاعرادنی لوگوںکی عکاسیکرتے ہیں ۔‬
‫کیونکہ ان علوم کے ذریعے ہی حقیقت تک رسائی اور فطری قوانینکو‬
‫شاعری تاریخ کے مقابلے میں زیادہ فلسفیانہ اور زیادہ لائق توجہ ہے ۔‬
‫سمجھا جاسکتا ہے ۔‬
‫تنسیخ ایک حالت سے بالکل ایسی متضاد حالت میں تبدیل ہو جانے کا‬
‫تعلیم نجی ہاتھوں کی بجائے مملکتیکنٹرول میں ہونی چاہیے ۔‬
‫نام ہے جو قیاس اور ضرورت کے مطابق ہو اور انکشاف ناواقفیت سے‬
‫ابتدائی طور پر والدین ہی بچوں کی بہترین جسمانی اور ذہنی تربیت‬
‫واقفیت میں تبدیل ہو جانے کا نام ہے ۔‬
‫رکتے ہیں ۔‬
‫ک س‬
‫شاعر یا تو زبردست فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے یا پھرصحیح الدماغ‬
‫تعلیم وہی بامقصد ہوتی ہے جو بچوں کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر دی‬
‫نہیں ہوتا ۔ اول الذکر بہت زیادہ حساس ہوتا ہے اور آخر الذکر عالم‬
‫جائے ۔‬
‫جذب میں ہوتا ہے ۔‬
‫تعلیمکی بنیاد تحقیق اور مشاہدات پر ہونی چاہیے ۔‬

‫غلام طبقے کے لیے تعلیم اس لیے ضروری نہیں کہ ان کا پیشہ تعلیم و‬

‫تربیت کے لیے موزوں نہیں ۔‬

‫مرد کے مقابلے میں عورت ہر لحاظ سے کمتر ہوتی ہے اس لیے اسکو‬

‫اعلیٰ تعلیم نہیں دی جانی چاہیے ۔‬

‫شاعری انسانی نفسیات ‪ ،‬تزکیہ باطن اور تہذیب نفس کے لیے ضروری‬

‫۔‬ ‫ہے اور اس فن کا تعلق انسانی فطرت سے ہے ۔‬

‫شاعر کا ذریعہ زبان ہے جس میں بحر کی وجہ سے موسیقیت پیدا ہوتی‬


‫‪166‬‬
‫‪167‬‬

‫ہوگئی ۔ اسوکر تیز کے دبستانی خطابات کے ارکان اور ڈیما سیتھنز کے فصیح و بلیغ طنزکے‬

‫متوالوں نے ارسطوکی موت یا جلاوطنی کا مطالبہکیا ۔ ایتھنزکی آزادی کا اعلانکر دیا‬

‫گیا جس پر سکندراعظم کی حامی مقدومی جماعت کے بیشترارکان فرار ہو گئے ۔ ارسطو‬

‫چونکہ مقدونیہ کا معتمد اور سکندر کا استاد تھا اس لیے اس کے خلافکارروائی کرنا‬

‫اتنا آسان کام نہ تھا لہذا کافی سوچ بچار کے بعد لامیہ کی جنگ میں سیاسی دشمنی کے‬
‫ارسطوکی موت‬
‫باعث شہر کے بڑے پروہت یوری میدون نے ارسطو پر دینی امور میں دخل اندازی‬

‫وہ دعا اور قربانی کا مخالف ہے ۔" لہذا ارسطو یہکہتے ہوئے‬ ‫کا الزام لگایا اور کہا کہ‬

‫کہ ”میں ایتھنز کے شہریوں کو یہ موقعہ نہیں دے سکتا کہ وہ دوسری بار فلسفے پر ظلم‬
‫ڈھائیں ۔ " ‪ 322‬ق م میں ایتھنز شہر چھوڑکر مقدونیہ کے مضبوط اور متمول شہر لیکس‬ ‫سکندر اعظم کے تخت سلطنت پر متمکن ہونے کے بعد ارسطو کے تمام‬

‫یا چالیس ( ‪ ) Chalics‬کی طرف بھاگگیا ۔ وہاں وہ بیمار ہوا اور کچھ مہینے تنہائی میں‬ ‫ارشاداتکو عملی جامہ پہنایا گیا اور اس کی عطاکردہ قابلیت کے ذریعے سکندر اعظم‬

‫گزارکر سکندراعظم کی موت کے ٹھیک دو سال بعد ‪ 63‬سالکی عمرمیں موسمگرما کی‬ ‫نے حکومت اور سیاسی نظام کی جدید بنیادوں پر تشکیل نو کی ۔ جوانی میں ہی سکندر‬

‫ایک شام اپنی جان خالق حقیقی کے سپردکر دی اور اس طرح انسانیتکو علمکی اوج‬ ‫اعظم کی فتوحات کی دھاک بیٹھ چکی تھی لیکن کسی بھی محاذ پر شکست نہ کھانے والا‬

‫سکندر آخر دجلہ کے کنارے موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔‬


‫ثریا پر لے جانے والا فلسفی ییووببییاا کے مقام پر چپ چاپ منوں مٹی کے تلے جا سویا ۔‬

‫ارسطو نے مرنے سے پہلے ایک مختصر اور عہد آفرین وصیت نامے کے ذریعے اپنے‬ ‫سکندر اعظم نے ‪ 323‬ق م میں عین جوانی کے عالم میں وفات پائی ۔ وفات‬

‫تمام غلاموںکو آزادی بخشی اور یہ تاریخ کا سب سے پہلا اعلان آزادی تھا۔‬ ‫‪ ،‬قبل سکندر اعظم سے ارسطو کے تعلقاتکشیدہ ہو چکے تھے۔ سکندر اعظم نے‬

‫اس کے بھتیجے کا تمیزکو ہلاککروا دیا تھا جس پر ارسطو نے احتجاجکیا ۔ ارسطو کے‬
‫ارسطو کے برائے راست شاگردوں میں تھیور فراسٹس اور یوڈ ۔مس تھے‬

‫جنہوں نے ارسطوکی تعلیماتکو آگے بڑھایا ۔ تھیو فراسٹس ارسطو کا وفادار دوست‬ ‫احتجاج پر سکندر اعظم نے کہا تھا کہ ”میں قدرت کاملہ رکھتا ہوں اور فلسفیوں کو‬

‫اور عالم ہونے کے علاوہ فصیح و بلیغ خطیب تھا ۔ اس نے ارسطوکی قائم کردہ اکیڈیمی‬ ‫بلاککر سکتا ہوں۔ " اس مخالفت کے باوجود ارسطو نے سکندراعظم کی حمایت جاری‬

‫رکھی ۔‬
‫) ق م ) کام کیا اور بڑا کامیاب معلم ثابت ہوا جبکہ یوڈ یمس‬
‫میں نامرگ ( ‪286‬‬
‫رہوڈس شہر میں فلسفے کا معلم تھا ۔ عملیسوس کے مطابق وہ ارسطو کا سب سے زیادہ‬ ‫یونان کی چھوٹی چھوٹی جمہوری ریاستیں سکند را عظم سے خوش نہ تھیں ۔ لہذا‬

‫و فادار شاگرد تھا ۔وہ تھیو فراسٹس سے زیادہ اپنے استاد کے نقش قدم پر چلا اور اسی‬ ‫اس کی وفات کے ساتھ ہی ایتھنزکی وہ حکومت جو سکندراعظمکی فتوحاتکی حامی تھی‬

‫باعث اس نے منطق میں تو تھیو فراسٹسکی اصلاحاتکو قبولکیا لیکن طبیعیات میں وہ‬ ‫ناکام ہوگئی اور مخالفپارٹی برسراقتدار آگئی جس سے ایتھنزکی سیاسی فضا یکسر تبدیل‬

‫پوری طرح ارسطو کا ہمنوا رہا ۔‬


‫‪168‬‬

‫تھیو فراسٹس نے اپنی ساری جائیداد اکیڈیمی کے نام منتقلکر دی تھی وہ اگرچہ‬

‫ارسطو کے نظام فلسفہ کے اندر رہ کر کام کرتا رہا لیکن وہ جزوی امور میں آزادانہ‬

‫تحقیقات کے ذریعے ترمیم و اضافہ بھی کرتا رہا۔ اس نے ارسطوکی منطق میں بہت‬

‫سے اضافے اور تبدیلیاںکیں ۔ اس نے منطق سے قضا یا کی بحثکو الگکر کے‬

‫قیاس استخراجی میں افتراضی اور انفعالی انتاجکو داخلکیا ۔ اس نے ارسطو کے نظریہ‬

‫حرکت میں بھی تبدیلی کی جس سے اہم شکوک پیدا ہوئے ۔ تھیو فراسٹس تفکر انسانی کو‬

‫روحکی حرکت قرار دیتا ہے ۔ شادی اور تامل کے خلاف تھا جانداروںکی قربانی اور‬

‫گوشت خوریکو ناجائز سمجھتا تھا ۔‬

‫یوڈ میں کے نزدیک " اخلاقیات اور دینیات ایک ہیں ۔ نیکی کا میلان خدا‬

‫کی جانب سے ہے اور تفکر خدا کی ذات کا تفکر ہے اور تمام اشیاء و اعمالکی قیمت‬

‫‪+‬‬
‫ای تفکرپر منحصرہے ۔"‬

‫بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے تھے ۔‬ ‫ارکسٹو کسینوس اور ڈیسرکس‬

‫ارکسٹو کسینوس کو اپنی تصنیف موسیقیات ( ‪ )Harmonies‬کے باعث شہرت ملی ۔‬

‫اس کے نزدیک " روح جسم کی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے " وہ بقائے روحکا مخالف تھا ۔‬

‫ڈیسیرکس اگرچہ عملی زندگی کو عملی زندگی پر ترجیح دیتا تھا لیکن سیاسیات میں وہ ارسطو‬

‫کا قائل تھا اور مرتے دم تک ارسطو کے اساسی تصورات پر قائم رہا ۔‬

‫سٹرائو تھیو فراسٹسکی موت کے بعد اس کا جانشین مقرر ہوا ۔ وہ نظریات‬

‫ارسطوکو قابل تصحیح سمجھتا تھا اور وہ ارسطو کے روحی اور سوینی نظریہ عالم کا بالکل‬

‫مخالف تھا ۔ اس کے نزدیک گرمی مظاہرکا عام ترین ماخذ ہے اور انسانی روح مطلق‬

‫حیوانی روح سے الگ ہے ۔ روح کے تمام افعال تفکر اور تاثر انسانی عقلی وجود کے‬

‫حرکاتکا نتیجہ ہے جس کا مقام دو ابروں کے درمیان ہے ۔ "‬

‫سٹراٹو کے بعد لائکو ارسٹو کرئیولاس ‪ ،‬ڈیوڈورس اور ار میسوس ارسطو مکتبہ‬

‫فکر کے امام رہے ۔ لیکن یہ لوگ زیادہ تر عملی فلسفےکی جانب راغب تھے ۔‬

You might also like