Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 2

‫''خوابوں کی رانی مجھے چھوڑ گئی''‬

‫رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی آسمانوں میں کالی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھی۔ بجلیوں کی آواز سے ماحول‬
‫میں سنسنی پھیلی ہوئی تھیں۔ دھیمی دھیمی برسات کا پیغام لئے چہار جانب سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بادلوں کو چھیڑ رہی‬
‫تھی۔ تاروں نے رات کی گہری سیاہ زلفوں پر پھیلے چھپا چھپی کھیل رہے تھے۔ اس بھیانک ماحول میں کہیں دور سے‬
‫ڈراؤنی آوازیں رہ رہ کر سنائی دے رہی تھی۔ جس سے دل پر اور زیادہ ہیجان ہو رہا تھا۔‬
‫میں ایک سیاہ کمرہ میں ایک کھڑکی کے بازو کھڑا باہر کی اور جھانک رہا تھا۔ میری تنہائی مجھے اپنے آغوش‬
‫میں دبوچے ہنس رہی تھی۔ میرے چہرے پر ہمیشہ غموں کی بادل چھایا ہوا رہتا تھا ۔ اب جب میرے چہرے پر اداسی کے‬
‫بادل ہوں۔ اسی اثنا میں کئی خیاالت کے بیچ مجھے اچانک نیند نے حملہ کر دیا ۔ اور مجھے گرفتار کئے خوابوں کی دنیا‬
‫میں پہنچا دیا۔‬
‫چڑ یوں کی چہچہا ہٹ اور مرغے کی بانگ اور مکھیوں کی بھنبھنا ہٹ کو سن کر میں بیدار ہو گیا۔ امّی نا شتہ تیار کر‬
‫چکی تھی۔ اور میں جلدی تّیار ہو کر میری بکھری ہوئی کتا بیں اور میرا بستہ تیار کر چکا تھا میں جلدی سے کھا کر‬
‫فارغ ہوا اور اپنا بیگ کاندھے پر رکھ کر اسکول کی اور روانہ ہوگیا۔ دن کسی قدر روشن تھا اور چلچال ہوئی دھوپ جو‬
‫جال دینی والی تھی۔ اسکول جلدی پہنچنے کےلئےمیں بیچ راستے میں دوڑنے لگا تھا کہ اسی اثنا میںراستے پر مجھے‬
‫ایک خوبصورت حسین وجمیل لڑ کا کی آنکھوں سے میری آکھیں جاملی جسکی زلفوں سے دو پٹا ہٹی ہوئی تھی اور‬
‫اسکی آنکھوں کی چمک اور اسی کی ہونٹوں کی مسکراہٹ نے مجھے گھایل کر دیا ۔ اور میرا قدم پر سکتہ طاری ہوگیا‬
‫ایسا محسوس ہورہا تھا جیساکہ کسی نے مجھ پہ جا دوں کئے جکڑ رکھا ہو۔‬
‫میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گیا۔ ایسا محسو س ہو نے لگا کہ یہ نادان دل بھی بحر عشق میں چرماں چرماں ڈوب رہا ہے۔‬
‫مگر ہمت نہ ہوئی لفظوں کی ڈور میں احساس دل کو پرو یا جاسکے۔ اسی چیا لی اثنا میں میں اسکول آپہنچا میرا تن‬
‫توحاضر تھا لیکن دل و دماغ وہیں چھو ڑ آیا تھا۔ لہذا دن بھر میں خیا لوں خوابوں کی دنیا میں سیر کرتا رہا۔ جب میں‬
‫خیا لوں کی دنیا سے لوٹ آیا تب میں نے سوچا کہ ایسے درد بھری باتوں کو دل میں رکھا نہیں جاتا‪ ،‬کب تک اسی احساس‬
‫کا پاس بان رہوں۔ چلوں آصف جو میرا خاص دوست تھا اسے بتا دوں جوں ہی انٹر ویل ہوئی میں آصف اکو بال یا اور‬
‫کہا‪ ،‬بھائی تجھ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے آصف‪ ،‬کیا بات ہے بھائی صبح سے کھوئے کھوئے افسر دی میں‬
‫نظرآر ہے ہو۔‬
‫اّول اّو ل میں تو ذرا سی جھجک ہوئی مگر ہمت کر کے سارا ماجرا بولنا شروع کیا۔ کہ اّو ال میں جب صبح کو بیدار ہوکر‬
‫اپنی تمام حاجتوں سے فارغ ہوا ۔ تب ماں کی اچھی سی تّیار کئی ہوئی ناشتہ کھاکر فارغ ہوا اور اپنا بیگ کاندھے پر‬
‫رکھکر اسکول کی اور چل دیا۔۔۔۔‬
‫چلنے کے اثنا میں میں نے گمان کیا کہ شاید وقت بہت ہی کم ہوگا۔۔۔ اس لئے میں نے دوڑنا شروع کیا جوں ہی میں‬
‫نے دوڑنا شروع کیا اسی اثنا میں میں نے وہ لڑکی دیکھائی دی۔۔۔ جس کی حسن کی کوئی مثال نہ تھی۔ جس کی زلفوں سے‬
‫دوپٹا ہٹی ہوئی تھی۔ جس کی آنکھوں کی سرمنگی اور اس کی ہونٹوں کی مسکراہٹ نے مجھے بہت بڑا‬
‫گھایل کر دیا۔۔۔ میرا دوست آصف میرے تشبہات و استعارات پر کبھی داد دیتا۔ اور کبھی وہ‬
‫میری بات پر ہنستا۔ اسی طرح میں نے سارا ماجرا سنا دیا۔ یہ سن کر اسنے مجھے ہمت دیا۔ جس سے‬
‫میری جان میں جان آئی۔۔۔اور میری دھرکن کم‬
‫میریجانمیںجانآئی۔۔۔اورمیریدھرکنکمہوئی۔ ارو ذرا سکون سا محسوس ہونے لگا۔۔۔ زہے نصیب یہ‬
‫تھی کے وہ لڑکی میرے دوست آصف کی پڑوسن تھی۔ اور آصف سے اچھا تعلق بھی تھا۔ اور بچپن میں وہ دونوں‬
‫ایکساں مکتب میں پڑھتے تھے۔ سو آصف میرا دوست اسے کھیل کے بہانے شام کو باہر الیا اور پہلی دفعہ مجھ سے‬
‫ملوایا۔۔‬
‫میں نے خبر و خیریت و تعارف کے بعد چند رسمی جملہ کہا۔ اس کے آگے تو میری زبان کھال ہی نہیں رہا تھا۔۔ سانس‬
‫پھول رہا تھا۔ دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔‬
‫یوں ہی میں نے دھیرے دھیرے اسکی تعارف پوچھنا شروع کیا۔ پہلے تو اسکی ہونٹوں میں ہلکی سی مسکراہٹ‬
‫آئی پھر وہ مسکراتی ہوئی بولی میری نام آصفی ہے اور مجھ سے پوچھنے لگی 'آپ کا نام کیا ہے' تب میں نے ایک لمبی‬
‫سانس لیکر اپنا دل کو تھامتے ہوئے میں نے اپنا نام خوش رضا بتا یا ۔ تب وہ خوشی ہوئی۔۔ تب اس نے بھی اپنی تعارف‬
‫کرنے لگی۔ تب میں اتنا زیادہ ہو رہا تھا کہ آج تک میں نے ایسا مسرور نہیں ہوا تھا۔۔ مجھے تو اسکی باتوں سےزیادہ‬
‫اسکی تبسم اور مسکراہٹ اور اسکی زلفوں کی لہرے بس میں یہی دیکھ رہا تھا۔۔ایساہی باتوں کے درمیان تبھی ایک پانی‬
‫پوڑی کی دکان آ پہنچا ۔ میری تو بہت دنوں سے چاہت تھی کہ کم از کم ایک بار تو پانی پوڑی کھاؤں۔۔ تبھی میں نے دکان‬
‫کو روکا تین پلیٹ طلب کیا۔ ہم سب ہنسی خوشی پانی پوڑی کھائیں۔ تب تک سورج اپنی روشنی کو چھپا رہا تھا۔ اور‬
‫چڑواہے اپنی اپنی جانورں کو لیکر اپنی کھیتوں سے اپنے اپنے گھر کی اور آرہے تھے ۔ اور درختوں پر بعض چڑیوں‬
‫کی چہچہا رہی تھی ۔ اور بعض اپنی گوسلوں کی اور چل دئے تھے۔ تبھی آصفی نے کہی کہ میں گھر کی اور جا رہی ہوں‬
‫۔ تب میں نے کہا تھیک ہے لیکن اتنا تو بتا دو کے تم کونسی اسکول میں پڑھتی ہو۔‬
‫وہ مسکرا تی ہوئی بولی میں انسان پبلک اسکول مین پڑ ھتی ہون۔ تب میں نے خوشی کے ما رے جھوم اٹھا کیوں کہ میں‬
‫بھی اور میرا دوست بھی اسی اسکو ل میں پڑ ھتا تھا۔ ایسا ہی ہماری مال قات ہر شا م کو ہو رہی۔ یکا یک میری داستان‬
‫میں ایک دل بجھا مور آیا کہ ساری امیدو پر طوفان جیسا آبرسا ‪ ،‬سارے ارما نوں کا بیڑا ڈوب گیااس دن کا سو رج میر ے‬
‫لئے دنیا کو اندھیرا کیا اور دنیا والوں کے لئے رو شن کیا ۔ جب مجھے خبر پہنچی کے کل رات وہ سارے گھر چھور کر‬
‫کہی اور منتقل ہو گئے ہیں اور مجھے کچ خبر تک نہی آئ ۔ آصف۔ بھا ئی زند گی میں کبھی کبھی ایسے موڑ آتے‬
‫رہتے ہیں صبر کرو اچھا بد لہ ملے گا ۔ شاعر کیا ہی خوب کہتا ہے۔‬
‫کبھی رونا بھی ہو گا کبھی ہنسنا بھی ہوگا‬
‫زند گی سک دکھ کا ہو تا ہے‬
‫مجھے تو سب سے زیا دہ حیرا ن کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک ماں کی تعلق کی بعد بھی مجھے خبر تک نہیں دی۔‬
‫میں کبھی اسے تو بھول جا ؤنگا لیکن وہ شا م کی منظ وہ باتیں کیسے بھول سکتا ہوں ۔ جیسے آصف ۔ در اصل یہ تیرا‬
‫خواب تھا۔‬
‫محمد رهبر اسالم رهبری‬
‫[ دارالهدی پنگنور]‬

You might also like