Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 8

‫‪Page 1 of 8‬‬

‫مطالعہ پاکستان نوٹس‬


‫جماعت دہم‬
‫‪SLO NUMBER1& 2‬‬
‫ء تا ‪1977‬ء کے دوران ہونے والی اقتصادی اصالحات کے اہم پہلوؤں کی وضاحت کرسکیں ۔‬
‫صنعت تعلیم ‪ ،‬کامرس اور تجارت پر قومیانے کے اثرات پر بحث کر سکیں ۔‬
‫تعارف‬
‫ذوالفقار علی بھٹو نے ‪20‬۔ دمبر ‪1971‬ء کوصدر پاکستان اور چیف مارشل الیڈمنسٹریٹ کا عہدہ سنبھاال۔ انھ&وں نے اقت&دار س&نبھالتے‬
‫ہی پاکستان کی تعمیر نو کا آغاز کیا۔ انھوں نے ملک کی بہتری کے لیے فوری طور پر انقالبی اقدامات اٹھائے ۔ انھوں نے پاکستان‬
‫کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بہت سی معاشی اصالحات کیں۔ جن میں ٹینکوں اور بیمہ کمپنیوں کوقومی تحویل میں لی&&نے‬
‫کے عالوہ بے شمار زرعی اور صنعتی اصالحات کیں۔‬
‫پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا مقبول ترین نعرہ ‪:‬‬
‫تمام اصالحات کا مرکز پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور تھا جس میں مقبول عام نعرہ روٹی‪ ،‬کپڑا اور مکان کو نمایاں مقام حاصل تھا۔‬
‫ذوالفقار علی بھٹو کی معاشی حکمت عملی کی سمت ‪:‬‬
‫ذوالفقار علی بھٹوکی معاشی حکمت عملی کی سمت سوشلزم ( ‪ )Socialism‬تھی۔ ان کے واضح الفاظ تھے کہ اسالم ہمارا دین ہے۔‬

‫سوشلزم ہماری معیشت ہے۔“‬


‫قومیانا ( نیشالئزیشن یا قومی تحویل میں لینا) نیشنالئزیشن‬
‫قومیانا‪/‬‬
‫اگر ریاست ایسے نجی اداروں کو حکومتی تحویل میں لے لے جو خالصتا شہریوں کی ذاتی ملکیت ہوں تو اس عمل کوقومیانہ کہتے‬
‫ہیں۔‬
‫یا‬
‫نیشنالئزیشن پر ائیو یٹ بھے سے سنتوں اور اداروں کو اس نے حکومت تحلیل میں دانتوں یا داروں کی میل از بین کہالتا ہے۔‬
‫ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بے شمار صنعتیں اور انشورنس کمپنیاں قومی تحویل میں لیں۔‬
‫ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صنعتوں کا قومیانا‬
‫والفقارعلی بھٹونے ملک میں بنیادی تبدیلیاں التے ہوئے صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا ۔ جس کی تفصیل در را ازابیل ہے۔‬
‫‪ 22‬خاندانوں کی اجارہ داری‬
‫‪1971‬ء تک ملک کے ‪ 60‬فیصد صنعتی اجائے اور ‪ 80‬فیصد انشورنس کا کاروبار ص‪LL‬رف ‪ 22‬خان‪LL‬دانوں کی ملکیت تھ‪LL‬ا۔ ‪ 22‬دس‪LL‬مبر‬
‫‪ 1971‬کو بھٹو حکومت نے ‪ 22‬سرمایہ دار خاندانوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے ‪ 19‬کمپنیوں کو جاری ک‪LL‬یے گ‪LL‬ئے دس ک‪LL‬روڑ س‪LL‬ے‬
‫زائد کے صنعتی الئسنس غیر قانونی قراردے دیے۔‬
‫صدارتی آرد پلیس‪:‬‬
‫ذوالفقار علی بٹن پاکستان میں عتی ترقی اور احکام ک‪LL‬و ع‪L‬ام کی ت‪L‬رقی کیل‪L‬ئے ض‪LL‬روری خی‪L‬ال ک‪LL‬رتے تھے۔ ان کے دل میں ع‪L‬وام کی‬
‫بھائی کا جذبہ تھا۔ دوسرمایہ داروں ‪ ،‬دولت مندوں اور کارخ‪LL‬انہ داروں کی پالیس‪LL‬یوں س‪LL‬ے اتف‪LL‬اق نہیں ک‪LL‬رتے تھے۔ ع‪LL‬وام ک‪LL‬ون کی ن‪LL‬ا‬
‫انصافی س‪L‬ے نج‪L‬ات دالنے کے ل‪L‬یے ذوالفق‪L‬ارعلی بن‪L‬و نے ‪ 2‬جن‪L‬وری ‪1972‬ء ک‪L‬و ای‪L‬ک آرڈنینس ج‪L‬اری کی‪L‬ا جس کے تحت دس ب‪L‬ڑی‬
‫صنعتوں کوسرکاری کنٹرول میں لینے کا اعالن کیا۔‬
‫‪Page 2 of 8‬‬

‫قومی تحویل میں لی گئی صنعتیں‪:‬‬


‫قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں میں اہم درج ذیل تھیں۔‬

‫‪ .i‬پرزے جوڑ کر موٹر گاڑیاں بنانے کی صنعت‬


‫‪ .ii‬بھاری اور بنیادی کیمیکل کی صنعت‬
‫‪ .iii‬بنیادی ضروریات کا سامان بنانے کی صنعت‬
‫‪ .iv‬پیٹرو کیمیکلز کی صنعت‬
‫‪ .v‬فوالدسازی اور لوہے کی صنعت‬
‫‪ .vi‬سیمنٹ کی صنعت‬
‫‪ .vii‬مفاد عامہ کی سروسز کے تحت آنے والی صنعت ‪.‬‬
‫‪ .viii‬ٹریکٹر پالنٹ تیار کرنے کی صنعت‬
‫‪ .ix‬بھاری سامان برائے بجلی کی صنعت‬
‫‪ .x‬بھاری مشینری کی صنعت‬

‫میشالئزیشن کے صنعت پر اثرات‪:‬‬


‫ذیل میں نیشنالئزیشن کے صنعت پر مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫ثبت اثرات‬

‫‪ 1972‬ء کی لیبر اصالحات سے صنعتی مزدوروں کا اتحصال ختم ہوا۔ ان کی اجرتیں بڑھیں اور دوسری مراعات میں بھی‬ ‫‪.I‬‬
‫اضافہ ہوا۔‬
‫صنعتی ادارے حکومت کو پورے ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنے لگے جس سے قومی آمدنی میں اضافہ ہو اور ملک ترقی کی‬ ‫‪.II‬‬
‫راہ پر ہوا۔‬
‫مزدوروں سے مل مالکان کا رویہ بہتر ہوا۔ ہڑتالوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی۔‬ ‫‪.III‬‬
‫صنعتی اثاثوں پر صرف ‪ 22‬خاندانوں کا قبضہ تھا دوست ہوا اور سرمایہ دار طبقے کی حوصلہ لگتی ہوئی ۔‬ ‫‪.IV‬‬
‫صنعتی ادارے حکومت کی تحویل میں آنے سے حکومت کے لیے صنعتی اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھن‪LL‬ا آس‪LL‬ان ہ‪LL‬و‬ ‫‪.V‬‬
‫گیا۔‬
‫نفی اثرات‬

‫صنعتوں کوقومی تحویل میں لینے سے سرمایہ داروں نے پاکستان میں صنعتیں لگانا کم کردیں‪ ،‬جس سے صنعتی ترقی ک‪LL‬ا‬ ‫‪‬‬
‫عمل ست ہوگیا ۔‬
‫صنعتی اداروں کو تحویل میں لینے سے حکومت کے اخراجات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔‬ ‫‪‬‬
‫مزدور یونینز نے سیاسی آزادی کا بھرپ‪L‬ور فائ‪L‬دہ اٹھای‪L‬ا اور آئے دن مراع‪L‬ات میں اض‪LL‬افے کے ل‪L‬یے ہڑت‪L‬الیں اور مظ‪LL‬اہرے‬ ‫‪‬‬
‫ہونے لگئے‪ ،‬جس سے مزدوروں کی کار کردگی بہت متاثر ہوئی ۔‬
‫صنعتی اداروں میں ضرورت سے زیادہ سیاسی عملہ بھرتی ہوا جس کو ک‪LL‬ام س‪LL‬ے زی‪LL‬ادہ مراع‪LL‬ات س‪LL‬ے دلچیس‪LL‬پی تھی۔ اس‬ ‫‪‬‬
‫طرح کام کی استعدا دن بدن کم ہوتی چلی گئی۔‬
‫صنعتوں کے تنخواہ اور افسران نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا‪ ،‬جس ملک میں بدعنوانی فروغ پانے لگی۔‬ ‫‪‬‬
‫سرکاری تحویل میں ہونے کی وجہ سے بہت سے کم پیداوار دینے والے یونٹ بھی چلتے رہے‪ ،‬جس سے قومی خزانے پر‬ ‫‪‬‬
‫بوجھ بڑھتا ہے۔‬
‫بیمہ زندگی اور بینک‬

‫بیمہ زندگی کا کاروبار کرنے والی تمام کمپنیوں کو ‪ 19‬مارچ ‪1972‬ء کو قومی ملکیت میں لیا گیا اور ان تم&&ام ک&&و مال ک&&ر‬ ‫‪‬‬
‫نومبر ‪ 1972‬میں سٹیٹ الئف انشورنس کارپویشن قائم کر دی گئی‬
‫۔ ‪ 19‬مئی ‪1972‬ء کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے تمام بینک قومیائے گئے اور ان کا کنٹرول سٹیٹ بینک آف پاکستان‬ ‫‪‬‬
‫کے حوالے کیا گیا۔ تاہم اس اقدام سے ان کے کارکنوں کی کارکردگی کا معیار گر گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی لیبر‬
‫‪Page 3 of 8‬‬

‫ذو الفقار علی بھٹ کی لیبر اصالحات‬


‫ذوالفقار علی بھٹو ‪ 5‬جنوری ‪1928‬ء کوالڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ امریکہ اور برط‪L‬انیہ کی ی‪L‬و نیورس‪L‬ٹیوں س‪L‬ے ق‪L‬انون اور سیاس‪L‬یات کی‬
‫ڈگریاں حاصل کیں۔ ‪ 1967‬میں نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپل‪L‬ز پ‪L‬ارٹی کی بنی‪L‬اد رکھی ۔ ‪1971‬ء میں اقت‪L‬دار س‪L‬نبھال ‪1977‬ء میں ان‬
‫کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور‪ 1979‬ء میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔‬
‫ذو الفقار علی بھٹ کی لیبر اصالحات‬
‫بھٹو حکومت نے ‪ 10‬فروری ‪ 1972‬کو نئی لیبر پولسی کا اعالن کیا گیا۔‬
‫مزدوروں کی نمائندگی‬
‫ہر کارخانے میں انتظامی معامالت کو چالنے والی کمیٹی میں کے نمائن‪L‬دے بھی ش‪L‬امل ک‪L‬یے گ‪L‬ئے‪ ،‬ج‪L‬و ک‪L‬ل تع‪L‬داد ‪ 20‬فیص‪L‬د تھے ۔‬
‫مزدورں کو اختیاریل گیا کہ وہ کارخانے کے حسابات اور سٹوروں کی جانچ پڑتال اسے ریعے کرسکیں۔‬
‫بونس کا اعالن‬
‫مزدوروں کو ہر سال ایک تنخواہ کے برابر بونس دینے کا اعالن کیا گیا ۔ پیداوا نے کی صورت میں مزید خصوصی بونس دی‪LL‬نے ک‪LL‬ا‬
‫اعالن بھی کیا گیا۔ سال مزدور کو ایک تخواہ کے برابر ہنس دینے کا اعالن کیاگیا۔ زیادہ پیداوار کی صورت میں اضافی بونس دی‪LL‬نے‬
‫کا بھی اعالن کیا‬
‫اوقات کار میں کی‬
‫کارخانوں میں کام ک‪L‬رنے والے م‪L‬زدوروں کے اوق‪L‬ات ک‪L‬ار ک‪L‬وئی ش‪L‬کل دی گ‪L‬ئی۔ ان س‪L‬ے ای‪L‬ک ہفتہ میں ‪ 54‬گھنٹ‪L‬وں کی بج‪L‬ائے ‪48‬‬
‫گھنٹے کام لینے کی پابندی عائد کی گئی۔ اگر وہ اپنی مرضی سے اور ٹائم کام کریں تو ان کو الگ معاوضہ دینے کی ش‪LL‬رط عائ‪LL‬د کی‬
‫گئیں۔‬
‫‪ .‬پنشن‪ ،‬بیمہ اور گریجویٹی‬
‫ہر مزدور کو بڑھاپے میں پنشن بیمہ اور گر یجو یٹی کے حقوق حاصل ہوں گے۔‬
‫طبی سہولتیں‬
‫سماجی تحفظ کی سکیم کے تحت طبی امداد کی سہولتوں کے لیے مزدوروں کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ یہ مالکان کے‬
‫ذمے ہوگی۔‬
‫رہائش کی سہولتیں‪:‬‬
‫بر مزدورکو رہاشی مکان کی سہولت مہیا کی جائے گی۔‬
‫تعلیم کی سہوتیں‪:‬‬
‫مزدوروں کے بچوں کیلے تعلیم کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ کم ازکم ایک بچے کی کا رخانے کی طرف سے میٹرک کی تعلیم ک‪LL‬ا‬
‫انتظام ہوگا۔‬
‫صنعتی روابط کمیشن‬
‫ٹریڈ یونینز کے ذریعے مزدوروں کے جھگڑے مٹانے کے لیے صنعتی روابط کمیشن قائم کیا گیا۔‬
‫‪ .‬لیبر عدالت‬
‫جونیر عدالتیں قائم کی گئیں۔ اس طرح مزدورو کو ازخود مقدمہ لے جانے کا حق مل گیا۔‬
‫شپ اسٹیوارڈ‬
‫شپ اسٹیوارڈ کا ایک عہدہ تخلیق کیا گیا جس کے باعث مل مالکان اور مزدوروں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل حل کرنے میں آ‬
‫سانی ہوگی۔‬
‫‪Page 4 of 8‬‬

‫مزدوروں کو مالزمت کا تحفظ ‪:‬‬


‫مزدوروں کو مالزمت ہٹانے کیلے مالکان پ‪L‬ر یہ پابن‪L‬دی عائ‪L‬د ک‪L‬ردی گ‪L‬ئی کہ وہ م‪L‬زدوروں ک‪L‬و ب‪L‬ر ط‪L‬رف ک‪L‬رنے واض‪L‬ح اور ٹھ‪L‬وس‬
‫وجوہات بیان کرینگے۔‬
‫مزدوروں کے لیے صحت کی سہولتوں میں اضافہ‬
‫مزدوروں کے لیے صحت کی سہولتوں میں اضافہ کیا گیا۔ مزدوروں کے زخمی ہونے ‪ ،‬وفات پانے یا کسی حادثے کی ص‪LL‬ورت میں‬
‫ان کو ملنے والے معاوضے میں اضافہ کیا گیا۔۔‬
‫حاصل کالم‬
‫مندرجہ باال تمام تر بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حک‪LL‬ومت میں ص‪LL‬نعتی اص‪LL‬الحات کے ذریعے‬
‫مزدوروں کی مالزمتوں کو تحفظ دیا گیا ‪ ،‬مزدوروں کے مسائل کے حل اور مزدوروں کو معاشی و معاشرتی تحف‪LL‬ظ دی‪LL‬نے کے ل‪LL‬یے‬
‫بہترین قوانین وضع کیے گئے۔‬
‫زرعی اصالحات‬
‫پاکس‪LL‬تان کی اک‪LL‬ثریت آب‪LL‬ادی ک‪LL‬ا پیش‪LL‬ہ راعت ہے۔ ذوالفق‪LL‬ار علی بھٹ‪LL‬و نے کیم م‪LL‬ارچ ‪1972‬ء ک‪LL‬و زرعی اص‪LL‬الحات ک‪LL‬ا اعالن کی‪LL‬ا۔ ان‬
‫اصالحات کا مقصد زرعی نظام کو بہتر بنا کر زراعت سے وابستہ افراد کے معاشی حاالت کو بہتر بنان‪LL‬ا‪ ،‬زرعی پی‪LL‬دوار میں اض‪LL‬افہ‬
‫کرنا اور ملکی معیشت کی تعمیر نو تھا۔ اس کے عالوہ زرعی اصالحات کا بنیادی مقصد یہ بھی تھ‪LL‬ا کہ کس‪LL‬انوں ک‪LL‬و زمین‪LL‬داروں اور‬
‫جاگیرداروں کے چنگل سے نجات دالنا تھا۔‬
‫زمین کی انفرادی حد ملکیت‪:‬‬
‫بھٹو دور حکومت میں زمین کی انفرادی حد ملکیت نہری زمین کے لیے ‪ 150‬ایکٹر اور بارانی زمین کے ل‪LL‬یے‪ 300‬ایک‪LL‬ٹر مق‪LL‬رر کی‬
‫گئی۔ اس سے زائد زمین زمینداروں سے لے کر مزارعین اور کاشتکاروں میں بال معاوضہ تقسیم کی گ‪LL‬ئیں ۔ م‪LL‬ارچ ‪ 1976‬ء ت‪LL‬ک ‪15‬‬
‫الکھ ایکٹرزمین کسانوں میں تقسیم کی گئی۔‬
‫سرکاری مالزمین کی حد ملکیت‬
‫جن سرکاری مالزمین نے مالزمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے ان‪L‬در زمین خری‪L‬دی تھی ان کے ل‪L‬یے س‪LL‬وا س‪LL‬یکٹر‬
‫ملکیت کی حد مقرر کی گئی تھی اور باقی زمین حکومت نے اپنی تحویل میں لے لی لیکن افواج پاکستان کے مالزمین پ‪LL‬ر اس ح‪LL‬د ک‪LL‬ا‬
‫اطالق نہیں تھا۔‬
‫حد ملکیت میں رعایت‪:‬‬
‫تعلیمی اداروں یعنی کا لجوں اور یو نیورسٹیز وغیرہ کے عالوہ کوئی شخص مقررہ حد سے زائد زمین رکھنے کا حق دار نہ ہوگا۔‬
‫مالیہ اور آبیانہ‬
‫مالیہ اور آبیانہ کی ادائیگی کے لیے قانون وضع کیا گیا کہ تمام تر مالیہ اور آبیانہ صرف اور صرف زمیندار خود ادا کرے گا ۔ مزار‬
‫عین اس ادائیگی سے قطعا مستقلی قرار دیے گئے۔‬
‫مزارعین کو تحفظ ‪:‬‬
‫مالکان کو یک طرفہ طور پر مزار عین کو بے دخل کرنے کے حق سے محروم کر دی‪LL‬ا گی‪LL‬ا۔ ص‪LL‬رف بٹ‪LL‬ائی نہ دی‪LL‬نے والے ی‪LL‬ا مس‪LL‬لمہ‬
‫شرائط کی خالف ورزی کرنے والے مزارعین ہی بے دخل کیے جاسکیں گے۔‬
‫مشینی کاشت کی حوصلہ افزائی‪:‬‬
‫پاکستان میں مشینی کاشت کے ذریعے پیداوار میں اضافے کے لیے تحریک ام‪LL‬داد ب‪LL‬اہمی کی بھ‪LL‬ر پ‪LL‬ور حوص‪LL‬لہ اف‪LL‬زائی کی گ‪LL‬ئی اور‬
‫امداد باہمی کی انجمنوں کی مدد کے لیے رقوم مختص کر کے غریب کسان کے لیے مشینی کاشت کو ممکن اور آسان بنایا گیا۔‬
‫آسان قرضوں کی فراہمی‪:‬‬
‫‪Page 5 of 8‬‬

‫پاکستان میں کسانوں اور زمینداروں کی بہت زیادہ تعداد مالی ط‪L‬ور پ‪L‬ر مض‪L‬بوط نہ تھی ۔ وہ زراعت کے ل‪L‬یے مش‪L‬ینری خری‪L‬دنے کی‬
‫استطاعت ندر رکھتے تھے۔ حکومت نے ٹریکٹر اور دوس‪LL‬ری زرعی مش‪LL‬ینری خری‪LL‬دنے کی ل‪LL‬یے کس‪LL‬انوں اور زمین‪LL‬داروں ک‪LL‬و آس‪LL‬ان‬
‫اقساط پر قرینے دیے۔‬
‫حاصل کالم‬
‫درج باال تمام تر بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ذوالفق‪L‬ار علی بھٹ‪L‬و نے زرعی اص‪L‬الحات کے ذریعے غ‪L‬ریب م‪L‬زار مین اور‬
‫کسانوں کی حالت کو بہتر کیا ۔ انھیں زمینداروں اور جاگیرداروں کے مظالم سے نجات دالئی اور آس‪LL‬ان قرض‪LL‬وں کے ذریعے مش‪LL‬ینی‬
‫کاشت کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیا۔‬
‫نیشنالئزیشن کے کا مرس تجارت پر اثرات‪:‬‬
‫زیل میں نیشنا ئنر بین کے کامرس اور تجارت پر مثبت و منفی اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫ثبت اثرات‬

‫صنعتوں کے حکومتی تحویل میں آنے سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ بھٹو حکومت نے صنعتوں کو ف‪LL‬روغ دی‪LL‬نے کے‬ ‫‪‬‬
‫لیے مشینری او منعی خام مال کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کی۔ اس سے ملک ت‪LL‬رقی کی راہ پرگ‪LL‬امزن ہ‪LL‬وا۔ پاکس‪LL‬تان ک‪LL‬ا‬
‫توازن تجارت بہتر ہوا۔‬
‫مراعات میں اضافہ ہوانتی کہ سبزیاں اور پیاز بھی برآمد ہونے لگے۔‬ ‫‪‬‬
‫زری اصالحات سے زرگی پیداوار اور بہتر ہوئی جس سے کل اور غیرملکی تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔‬ ‫‪‬‬
‫علی اثرات‬

‫روپے کی قدر کم ہونے سے برآمدات میں اضافہ ہوالیکن مہنگائی میں ہی اضافہ ہوا۔ س‪LL‬امان ق‪LL‬دیمی در آم‪LL‬د ی‪LL‬اری مش‪LL‬ینری‬ ‫‪‬‬
‫کے درآمدی اخراجات میں اض‪L‬افہ ہ‪L‬وا‪ ،‬جس س‪L‬ے ت‪L‬وازن ادا ئیگی مت‪L‬اثر ہ‪L‬وا۔ کی خ‪L‬زانے پ‪L‬ر ب‪L‬وجھ پ‪L‬ڑنے س‪L‬ے زرمب‪L‬ادلہ‬
‫کےمخلوط خار کم ہونے لگے۔‬
‫‪ 1973‬میں تیل کی چھتیں زیادہ ہون سے پاکستان کا توازن تجارت خسارے کی طرف چال گیا‬ ‫‪‬‬
‫تعلیمی اصالحات‬
‫تعلیمی اصالحات کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫تعلیمی اداروں کوقومی تحویل میں لے لیا گیا۔ جس سے ان اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر مالزمین کی تنخ‪LL‬و‬ ‫‪.1‬‬
‫امیں سرکاری تعلیمی اداروں کے مالزمین کے برابر ہوگئیں۔‬
‫طلبہ کوستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے ان کو بسوں اور ریل گاڑیوں کے کرایوں میں خصوصی رعایت دی گئی۔‬ ‫‪.2‬‬
‫طلبہ کے وظائف میں اضافہ کیا گیا۔‬ ‫‪.3‬‬
‫کئی یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں۔ ‪1974‬ء میں اسالم آب‪L‬اد میں عالمہ اقب‪L‬ال علم او پن ی‪L‬ونی ورس‪L‬ٹی پران‪L‬ا ن‪L‬ام پیپل‪L‬ز اوپن ی‪L‬ونی‬ ‫‪.4‬‬
‫ورسٹی) قائم کی گئی۔ جس سے طلبہ کو بذریعہ خط د کتابت تعلیم کے حصول کے مواقع ملیں۔‬
‫تعلیم بالغاں کے مراکز بھی قائم کیے گئے۔‬ ‫‪.5‬‬
‫اساتذہ کی تربیت کے لیے تربیتی ادارے کھولے گئے۔‬ ‫‪.6‬‬
‫۔ نیشنالئزیشن سے تعلیم پراثرات‪:‬‬
‫ذیل میں نیشال ئر ین کے تعلیم پربت اورمنفی اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫ثبت اثرات‬

‫ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نجی تعلیمی ادارو ک‪L‬و ق‪L‬ومی تحوی‪L‬ل میں لے ل‪L‬یے۔ ان اداروں میں ک‪L‬ام ک‪L‬رنے والے س‪L‬یانے‬ ‫‪‬‬
‫سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالزمین کی تنخوا ہیں اور دیگر سہولتیں سرکاری تعلیمی اداروں کے برابر ہو گئیں۔‬
‫ملک کے طلبہ کو بسوں اور ریل گاڑیوں کے کرای‪LL‬وں میں کمی کی جس کی وجہ س‪LL‬ے غ‪LL‬ریب بھی اپ‪LL‬نے بچ‪LL‬وں ک‪LL‬و تعلیم‬ ‫‪‬‬
‫حاصل کرنے کے لیے بھیجنے لگے۔ طلبہ کے وظائف میں چار گنا اضافہ کیا گیا۔‬
‫‪Page 6 of 8‬‬

‫میڈیکل انجینرن‪LL‬گ اور دیگ‪LL‬ر پیش‪LL‬ہ ورانہ یونیورس‪LL‬ٹیاں ق‪LL‬ائم کی یونیورس‪LL‬ٹیوں میں تب‪LL‬دیل ک‪LL‬ر کے اعلی تعلیم کے دروازے‬ ‫‪‬‬
‫کھول دیے گئے ۔ کم درجہ ہوا۔ کرکے ہ میڈیکل انجینر میں اور دیگر پیشہ ورانام بتایا گیا۔ کالجوں‬
‫ملک بھر میں سکول اساتذہ کی تربیت کے لیے تربیتی ادارے کھول کر ے شار غیر تربیت یافتہ اسا تا دواتر بیت دی گ‪LL‬ئی۔‬ ‫‪‬‬
‫ہ عالمہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے قیام کی منظور دی گئی جس سے طلبہ کو ریڈیو‪ ،‬ٹی وی اور بذریعہ خ‪LL‬ط وکت‪LL‬ابت تعلیم‬
‫کے مواقع ملے۔ اس کے عالوہ تعلیم بالغاں کے مراکز بھی قائم کیے گئے۔‬
‫منفی اثرات‬

‫تعلیمی اداروں کو توی تحوی‪L‬ل میں لی‪L‬نے س‪L‬ے س‪L‬ات اور دیگ‪L‬ر ب‪L‬از میں تنخواہ‪L‬وں کی ادائیگی کے ل‪L‬یے حک‪L‬ومت کوق‪L‬ومی‬ ‫‪‬‬
‫خزانے سے تم خرچ کرنا پڑیں۔ قومی خزانے پر بوجھ پڑنے سے حکومت کی مشکالت میں اضافہ ہونے لگا۔‬
‫حکومت کے قومیانے کے اقدام سے پرائید بن تعلمی اداروں کے مالکان ناخوش تھے اور وہ پے تعلیمی ادارے واپس لینے‬ ‫‪‬‬
‫کی جدو جہد کرنے لگے۔‬
‫طلبہ کو کرایوں میں رعایت دینے سے ٹرانسپورٹ مالکان اور طلبہ کے درمیان کشمکش کی ای‪L‬ک ن‪L‬ئی ص‪LL‬ورت ح‪LL‬ال پی‪L‬دا‬ ‫‪‬‬
‫ہوگئی ۔‬
‫حد سے زیادہ آزادی دینے سے ال تعلیمی سرگرمیوں سے کنارہ کشی ک‪LL‬رنے لگے ‪ ،‬جس س‪LL‬ے وال‪LL‬دین کوتش‪LL‬ویش ہ‪LL‬و گ‪LL‬ئے‬ ‫‪‬‬
‫گی۔‬
‫کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں طلب حکیموں نے سیاسی جماعتوں کے ذریعے منظم شکل اختیار کر لی اور امن و امان ک‪LL‬ا‬ ‫‪‬‬
‫مسئلہ پیدا ہوا۔‬
‫صحت سے متعلق اصالحات‬
‫صحت کے متعلق اصالحات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لیے عالج کی مفت سہولت ۔‬ ‫‪.1‬‬
‫تعلیم اور عالج کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔‬ ‫‪.2‬‬
‫ملک میں نئے میڈیکل کا لجز قائم کیے گئے ۔‬ ‫‪.3‬‬
‫معاشرتی اصالحات کے اہم نکات‪:‬‬
‫ذوالفقار علی بھٹوکی معاشرتی اصالحات کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫بے گھر افراد کوگھر فراہم کرنے کے لیے پانچ (‪ )5‬مرلہ سکیم کا آغاز کیا۔‬ ‫‪.1‬‬
‫حکومت نے الکھوں بے روزگار نو جوانوں کو مشرق وسطی کے ممالک میں بھیجا۔ معاشرتی لحاظ س‪LL‬ے پاکس‪LL‬تان میں خ‪LL‬واتین‬ ‫‪.2‬‬
‫کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔‬
‫عوامی تعمیراتی پروگرام کے تحت دیہاتی عالقوں کی ترقی کے لیے ک‪L‬ئی عملی اق‪L‬دام اٹھ‪L‬ائے گ‪L‬ئے۔ س‪L‬یکڑوں دیہ‪L‬ات ک‪L‬و بجلی‬ ‫‪.3‬‬
‫فراہم کی گئی۔آ‬
‫أئینی اصالحات‬
‫ملک میں نیا آئین ‪14‬اگست ‪ 1973‬کو نافظ کیا گیا۔‬

‫‪SLO NUMBER3‬‬

‫‪1973‬‬
‫ء کے آئین کے اہم پہلوؤں کی نشاندہی کر سکیں ۔‬
‫‪1973‬ء کے آئین کے اہم پہلو یان کریں۔‬
‫‪1973‬ء کے آئین کے پہلو‬
‫‪ 1973‬کے آئین کے متلف پہلووں کی وضاحت سے قبل اسے مخصر تعارف درج ذیل ہے۔‬
‫آئین‬
‫‪Page 7 of 8‬‬

‫بنیادی اصولوں کا مجموعہ جس کے مطابق ریاست کا نظم ونسق پھالیا جائے ریاست کا آئین یا دستور کہالتا ہے۔ آئین ریاست کو‬
‫بنیادی اور حال ترین قانون ہوتا ہے جس کے بغیر ریاست کا تصور کن نہیں۔‬
‫‪1973 .‬ء کا آئین‪:‬‬
‫ذولفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے ‪ 25‬ارکان پرمش&تمل کمی&ٹی کے ذریعے آئین تی&ار کرای&ا۔ کمی&ٹی نے اپ&نی سفارش&ات ‪31‬‬
‫دسمبر ‪1972‬ء کوقومی اسمبلی میں پیش کیں ۔ قومی اسمبلی نے ‪ 10‬اپریل آئین منظور کیا۔ اے ‪ 14‬اگست ‪ 1973‬ک&&و اخ&&ذ کی&&ا گی&&ا‬
‫جوان بھی ملف تایم کے بعد دانتا ہے۔‬
‫‪ 1973‬ء کے آئین کے مختلف پہلو درج ذیل ہیں۔‬
‫التاجية‬
‫‪ 1956‬اور ‪1962‬ء کے آئین کی طرح ‪1973‬ء کے آئین میں بھی قرار مد کو اختتامیہ کے طور پر شامل کیا گی&&ا جس کے مط&&ابق‬
‫حاکیت ہللا تعالی کی ہے۔ عوام کے نمائندے اپنے اختیارات کا استعمال مقدس امانت کے ط&&ور پ&&ر ق&&ران وس&&نت کی ح&&دود کے ان&&در‬
‫رہتے ہوئے کریں۔‪ 1985‬میں ایک ترمیم کے زریعے أئین کا باقائدہ حصہ بنایا گیا۔‬
‫تحریری آئین‬
‫پہلے آئیوں کی طرح یہ تین بھی تحریری ہے جو ‪ 280‬دفعات‪ 12 ،‬حصوں اور ‪ 6‬گوشواروں پرمشتمل ہے۔‬
‫‪ ،‬وفاقی آئین‬
‫پہلے آئین&وں کی ط&رح ‪1973‬ء کے آئین میں بھی پاکس&تان ک&و وف&اقی مل&ک ق&رار دی&ا گی&ا ہے۔ آئین کے تحت وف&اقی پاکس&تان چ&ار‬
‫ص&&وبوں‪ ،‬وف&&اقی دار الک&&ومت اور اس س&&ے مع&&دہ اتے وف&&اق کے زی&&ر انتظ&&ام قب&&ائی عالقہ ج&&ات اوروں س&&ے ملحقہ قب&&ائی عالق&&وں‬
‫پرمشتمل ہے۔‬
‫ه تیم استوار آئین‪:‬‬
‫‪ 1973‬کا این نم استوار نوعیت کا ہے۔اس میں ترمیم کا طریق ک&ار نہ زی&ادہ مش&کل ہے اور نہ آس&ان ہے۔ ق&ومی اس&مبلی س&ینٹ کی‬
‫‪ 2/3‬اکثریت آئین میں ترمیم کی مجاز ہے۔‬
‫آئینی ترامیم‬
‫‪1973‬ء کے آئین میں اب تک ‪ 21‬ترامیم ہو چکی ہیں۔‬
‫قومی زبان‬
‫کے آئین کی رو سے اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی ۔ پندرہ س&&ال کے عرص&&ے میں اردو ک&&و س&&رکاری زب&&ان کی حی&&ثیت س&&ے‬
‫رائج کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ اس دوران انگریزی زبان اور سرکاری زبان استعمال جوگی گر آن تک ایسانہ ہو گا۔‬
‫اسالمی آئین‬
‫آئین کی اسالمی دفعات در ج ذیل ہیں۔‬
‫ہ پاکستان کے آئین میں اسالم کو سرکاری مذہب اسالم قراردیا گیا ہے۔‬
‫ه صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔‬
‫پاکستان کا مکمل نام اسالمی جمہوریہ پاکستان ہے۔‬
‫ہ اس آئین کا مقصد شہریوں میں اسالمی طرز زندگی کوتر وریج اور ترقی دینا ہے۔‬
‫ہ سود کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‬
‫‪Page 8 of 8‬‬

‫زکوۃ اور اوقاف کو منظم کرنے کے لیے کوشش کرے گی۔‬

‫آزاد خود مختار عدلیہ‬


‫اس أئین میںعدلیہ کی أزادی کی زم&&انت دی گ&&ئی ہے۔ جج&&وں ک&&و معق&ول معاوض&&ہ اور مالزمت کی آزادی دی گ&&ئی ہے۔ ع&دلیہ ک&&و‬
‫انتظامیہ سے الگ کر دیا گیا ہے۔ حج اپنے فرائض منصبی کسی خوف یاد بہاؤ سے آزاد ہوکر سر انجام دیتے ہئں۔‬
‫پارلیمانی آئین‪:‬‬
‫سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔ صدر کوقومی اسمبلی بین اور چاروں صوبائی اسمبلیاں منتب کرتی ہیں جب کہ وے عمل میں آتا ہے۔‬
‫آئین کی باال دستی‬
‫اگر کوئی شخص موجودہ آئین کو غیر آئینی طریقے سے توڑے گایا توڑنے کی کوشش کرے گ&&ا ت&&و اس پ&&ر تین غ&&داری کے ال&&زام‬
‫میں آرٹیکل ‪ 6‬کے تحت مقدمہ چالیا جائے گا۔‬
‫آئینی ادارے‬
‫‪ 1973‬کے آئین میں مرکزی اورصوبائی مفادات اور معامالت کے جوان کیلئے آئین نے کئی ایک ادارے بھی تشکیل دیے ہیں مثال‬
‫مشترکہ مفادات کی کونسل‬

‫ه قومی اقتصادی کونسل‬

‫ہ قومی مالیاتی کمیشن‬

‫الیکشن کمیشن‬

‫وفاقی متب وغیره یہ ادارے آئین کی حد کے اندرا نے فرائض نبی سرانجام دینے کےلیے کوشاں رہتے ہیں او یکی مفادات کو مق&&دم‬
‫رکھتے ہیں۔‬

You might also like