Professional Documents
Culture Documents
4592 2
4592 2
اصل وارثین کی عدم موجودگی میں ذوی االرحام میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ،اس بارے میں اختالف ہے۔ ایک قول یہ
ہے کہ ہر رحمی رشتہ دار جس وارث کا رشتہ دار بنے گا ،اسے اسی وارث کاحصہ دے دیا جائے گا اس طریقے کو
تنزیل کا طریقہ کہتے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر اس وارث کا حصہ اسے دے دینا ۔
ہماری نظر میں یہی قول راجح ہے ۔
تنزیل کے قائلین میں آپس میں ایک اختالف یہ ہے کہ جن اصل وارثین کو (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )(عورت کے مقابل
میں مرد کو ڈبل)ملتا ہے ان کے رحمی رشتہ داروں میں بھی اسی اصول پرعمل کریں گے ،یا اخوة الم پرسب کو قیاس
کرتے ہوئے سارے رحمی رشتہ داروں میں برابری کے ساتھ تقسیم کریں گے ۔
پہال قول:
اکثر یت کاکہنا یہ ہے کہ اصل وارثین میں ،رحمی رشتہ دار اخوہ الم کے مابین ،تساوی اور برابری کا معاملہ ہوتا ہے؛
اور چونکہ ذوی االرحام سب رحمی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں اس لئے اخوة الم پر قیاس کرتے ہوئے سب کے مابین
برابری کا معاملہ کیاجائے گا۔
دوسرا قول:
اخوة الم کے جو رحمی رشتہ دار ہوں گے ان کے مابین تو برابری کے اصول پر عمل کیا جائے گا ،لیکن دیگر رحمی
رشتہ داروں کے مابین ایسا نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ تنزیل میں ہم رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر
حصہ دیتے ہیں ،لٰہذا اصل وارثین کے مابین جہاں تساوی ہیں وہاں تساوی پر عمل کریں گے جیسے اخوہ الم کامعاملہ
ہے ،اورجہاں (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )کا اصول کار فرما ہے وہا ں اسی اصول پر عمل کریں گے۔
شیخ ابن عثیمین aنے امام احمد aسے ایک قول یہی نقل کیا ہے اور اسے قوی قرار دیا ہے [،تسہیل الفرائض:ص
]٦٠،٦١
یہی دوسرا قول ہی قوی ہے لیکن ہمارے نزدیک مناسب بات یہ ہے کہ اخوہ الم کے رحمی رشتہ داروں میں تساوی کی
بات کرنے کے بجائے ،ان رشتہ داروں کے مابین تساوی کی بات کہنی چاہئے جو حقیقی وارث کے اخوہ الم بنتے
ہوں ،جیسے باپ کے ماں شریک بھائی یابہن ۔
کیونکہ جب ہم تنزیل کے اصول پر عمل کررہے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو حقیقی وارث کا مقام دے رہے ہیں ،تو
حقیقی وارث کی جس حالت میں جو کیفیت ہوتی ہے ،اس حالت میں رحمی رشتہ دار کی بھی وہی کیفیت ہونی چاہئے ۔
طریقہ تقسیم:
رحمی رشتہ دارایک ہوں یا ایک سے زائد ،یہ جن حقیقی وارثین کے رشتہ دار ہوں ،ان حقیقی وارثین ہی کو سب سے
پہلے میراث کے اصول کے مطابق حصہ دیں گے ،اس کے بعد ان حقیقی وارثین میں سے ہرایک کا حصہ ،اس کے
رحمی رشتہ دار کے حوالے کردیں گے۔یعنی دو مرحلوں میں عمل کیا جائے گا۔
پہال مرحلہ-:پہلے یہ فرض کرلیں گے کہ حقیقی وارثین ہی زندہ ہیں ،پھر اسی اعتبار سے ان سب کو حصہ دیں گے۔
دوسرا مرحلہ-:اس کے بعد ان حقیقی وارثین کر مردہ مان کر ،ان میں سے ہرایک کا حصہ اس کے رشتہ داروں میں
تقسیم کردیں گے۔
مثال:
زید فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے ،لیکن رحمی رشتہ داروں میں اس کا نانا(ابواالم) مصطفی ہے ،
نواسہ(ابن البنت) حسن ہے ،نواسی(بنت البنت) فاطمہ ہے ،اور بھتیجی(بنت االخ الشقیق) رابعہ ہے ۔
حل:
رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر کے حقیقی وارثین کو حصہ دیں گے ،یہاں حقیقی وارثین میں
مصطفی کی جگہ میت کی ام (ماں) ہے ،اور حسن اور فاطمہ کی جگہ میت کی بنت(بیٹی) ہے ،اور بھتیجی رابعہ کی
جگہ اخ شقیق(سگا بھائی) ہے۔
سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔
اصل مسئلہ ()٦ہوگا ،ام(ماں) کو سدس یعنی ()١حصہ مال ،بنت(بیٹی) کو نصف یعنی ( )٣حصے ملے ،باقی یعنی (
)٢حصے اخ ش(سگے بھائی) کوملے۔
اس کے بعد ان حقیقی وارثین کو مردہ مان کر ان کے حصہ کو میراث کے اصول کے تحت ان کے ورثاء میں تقسیم
کریں گے۔
ام (ماں)کے حصہ کی تقسیم:
ام(ماں) کو ()١حصہ مال ہے ،اس کا ایک ہی وارث اس کا باپ مصطفی ہے لٰہذا یہ حصہ مصطفی کو ملے گا۔
بنت (بیٹی) کے حصہ کی تقسیم:
بنت (بیٹی) کو()٣حصے ملے ہیں اور اس کے دو وارث بیٹا حسن اوربیٹی فاطمہ ہیں ،لٰہذا ( )٣حصے ان دونوں کو دیں
گے ،اصول (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )کے تحت حسن کو ()٢حصہ ،اور فاطمہ کو ()١حصہ ملے گا۔
اخ شقیق (سگے بھائی) کے حصہ کی تقسیم:
اخ شقیق(سگے بھائی) کو ()٢حصے ملے ہیں اور اس کی ایک وارث ایک بیٹی رابعہ ہے ،لٰہذا یہ ()٢حصے رابعہ کو
ملیں گے۔(حکما فرض ورد کے اعتبارسے)
دوسری مثال:
خالد فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے لیکن رحمی رشتہ داروں میں ایک ماں شریک چچا (باپ کا اخ
الم )عباس ہے ،اور ایک ماں شریک پھوپھی(باپ کی اخت الم) مریم ہے۔اور ایک سگی بھتیجی (بنت االخ
الشقیق)رخسانہ ہے۔
حل:
رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر حقیقی وارثین میں عباس اور مریم کی جگہ ،میت کا اب (باپ)ہے۔
اور رخسانہ کی جگہ ،میت کا اخ شقیق ہے۔
سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔
باپ کی موجودگی میں اخ شقیق محجوب ہوجائے گا لہذا اس کی بیٹی یعنی خالد کی بھتیجی رخسانہ کو کچھ نہیں ملے
گا۔
اس کے بعد صرف اب (باپ )بچا لٰہذا خالد کا پورا ترکہ اسی کو ملے گا۔
اس کے بعد حقیقی وارث خالدکے باپ کو مردہ مان کر،اس ترکہ کو میراث کے اصول کے تحت اس کے ورثاء میں
تقسیم کریں گے۔
باپ کو پوری جائداد ملی ہے اور اس کے وارثین میں اس کا ایک ماں شریک بھائی عباس اور ایک ماں شریک بہن
مریم ہے ۔یہ دونوں اخوہ الم ہیں ،لٰہذا خالد کا ترکہ ان دونوں میں برابر تقسیم کردیا جائے گا۔(حکما فرض ورد کے
اعتبارسے)
نوٹ-:اگر ذوی االرحام میں کوئی دو واسطوں سے میت سے جڑتا ہوتو اسے دونوں واسطوں کاحصہ ملے گا،مثال ایک
شخص فوت ہوا،اس کے رشتہ داروں میں اس کی نواسی کا ایک بیٹا ہے جواس کے نواسے کا بھی بیٹا ہے ۔ نیز اس کی
ایک پھوپھی ہے۔