Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 14

‫تف‬

‫ص‬ ‫ث‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫شن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬


‫سوال مب ر‪01‬۔ رآن و س ت کی رو ی می ں عص ب ات کی عریف ا سام اور ان کی ورا ت کے احکام ی ل‬
‫ت‬
‫سے حریر کری ں۔‬
‫‪ANS 01‬‬
‫عصبات کی لغوی اور ِاصطالحی تعریف ‪:‬‬
‫ُلغًۃ‪:‬‬
‫عصبات ”عصبۃ“ کی جمع مؤّنث سالم ہے ‪،‬اور لغت میں اس کا معنی ”کسی چیز کا ِاحاطہ کرنے“کے آتے ہیں ‪،‬چنانچہ‬
‫عربوں کے ُم حاورے میں کہا جاتا ہے”َع َص َب الَقوُم ِبفالٍن “لوگوں نے فالں شخص کو چاروں ط‪::‬رف س‪::‬ے گھ‪::‬یر لی‪::‬ا ہے۔‬
‫اور چونکہ عصبات بھی مّیت کو چاروں جانب سےگھیر لیتے ہیں چنانچہ نیچے کی جانب بیٹا پوتا وغیرہ‪،‬اوپر کی جانب‬
‫والد اور دادا وغیرہ‪َ،‬اطراف اور َج وانب میں بھائی اور چچا‪ ،‬گوی‪:‬ا مّیت ِان س‪:‬ب عص‪:‬بات کے درمی‪:‬ان گھ‪:‬ری ہ‪:‬وئی ہ‪:‬وتی‬
‫ہے‪ِ،‬اس لئے ِان کو عصبات کہا جاتا ہے۔‬
‫ِاصطالحًا‪:‬‬
‫ُك ُّل َم ْن َلْيَس َلُه َس ْهٌم ُم َقَّد ٌر َو َيْأُخ ُذ َم ا َبِقَي ِم ْن ِس َهاِم َذ ِو ي اْلُفُروِض َو ِإَذ ا اْنَفَر َد َأَخ َذ َجِم يَع اْلَم اِل ۔ہر وہ رش‪::‬تہ دار جس ک‪::‬ا ش‪::‬ریعت‬
‫میں کوئی مقررہ حصہ نہ ہو اور ذوی الفروض کے ساتھ آنے کی صورت میں ذوی الفروض کا باقی مان‪::‬دہ م‪::‬ال حاص‪::‬ل‬
‫کرے اور اکیلے ہونے کی صورت میں جمیع مال کا مستحق ہو۔(عالمگیری ‪)6/451:‬‬
‫عصبہ کی اقسام ‪:‬‬
‫(‪)2‬عصبہ سببیہ ۔‬ ‫(‪)1‬عصبہ نسبیہ ۔‬ ‫عصبہ کی ابتداًء دو قسمیں ہیں ‪:‬‬
‫پھر عصبہ نسبیہ کی تین قسمیں ہیں ‪:‬‬
‫(‪)3‬عصبہ مع الغیر۔‬ ‫(‪)2‬عصبہ بالغیر ۔‬ ‫(‪)1‬عصبہ بنفسٖہ ۔‬
‫عصبہ نسبیہ ‪:‬‬
‫عصبہ نسبیہ ُان رشتہ داروں کو کہتے ہیں جن کا میت سے والدت کا تعّلق ہو ۔(طرازی ‪)104:‬‬
‫عصبہ نسبیہ کی تین قسمیں مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫عصبہ بنفسٖہ ‪:‬‬
‫ُهَو ُك ُّل َذ َك ٍر اَل َيْد ُخ ُل ِفي ِنْس َبِتِه إَلى اْلَم ِّيِت ُأْنَثى۔‬
‫ہ‪::‬ر وہ م‪::‬ذکر جس کی میت کی ط‪::‬رف نس‪::‬بت ک‪::‬رتے ہ‪::‬وئے م‪::‬ؤنث ک‪::‬ا واس‪::‬طہ نہ آئے ۔جیس‪::‬ے ‪ :‬بیٹ‪::‬ا اور وال‪::‬د وغ‪::‬یرہ ۔‬
‫(عالمگیری ‪()6/451:‬سراجی ‪)14 :‬‬
‫عصبہ بنفسٖہ کی چار اصناف ہیں‪:‬‬
‫بیٹا‪،‬پوتا‪،‬پڑپوتا وغیرہ نیچےتک۔‬ ‫(‪)1‬جزء المّیت ‪:‬‬
‫والد ‪،‬دادا‪،‬پڑدادا وغیرہ اوپر تک۔‬ ‫(‪)2‬اصل المّیت ‪:‬‬
‫حقیقی بھائی ‪،‬عاّل تی بھائی ‪،‬حقیقی بھائی کے بیٹے‪،‬عاّل تی بھائی کے بیٹے۔‬ ‫(‪)3‬جزء اب المّیت ‪:‬‬
‫(‪)4‬جزء جِّد المّیت ‪ :‬چچا ‪،‬چچا کے بیٹے۔‬
‫عصبہ بالغیر‪:‬‬
‫ِهَي ُك ُّل ُأْنَثى َتِص يُر َع َص َبًة ِبَذ َك ٍر ُيَو اِز يَها۔‬
‫ہر وہ مؤنث ج‪::‬و اپ‪::‬نے بھ‪::‬ائی کے س‪::‬اتھ آج‪::‬انے کی وجہ س‪::‬ے عص‪::‬بہ بن ج‪::‬ائے وہ عص‪::‬بہ بالغیر کہالتی ہے۔اور ایس‪::‬ی‬
‫عورتیں جو اپنے بھائی کے ساتھ آکر عصبہ بنتی ہیں وہ چ‪::‬ار ہیں۔اور یہ وہی ہیں جن ک‪::‬اذوی الف‪::‬روض کے اح‪::‬وال میں‬
‫تذکرہ گزرچکا ہے یعنی وہ عورتیں جو ایک ہونے کی صورت میں نص‪::‬ف اور ای‪::‬ک س‪::‬ے زائ‪::‬د ہ‪::‬ونے کی ص‪::‬ورت میں‬
‫ثلثان کی مستحق ہوتی ہیں ‪،‬یعنی بیٹی ‪،‬پوتی‪،‬حقیقی بہن اور عاّل تی بہن۔(عالمگیری ‪()6/451:‬سراجی ‪)15:‬‬
‫عصبہ مع الغیر‪:‬‬
‫ُك ُّل ُأْنَثى َتِص يُر َع َص َبًة َم َع ُأْنَثى ُأْخ َر ى۔‬
‫ہر وہ مؤنث جو کسی دوسری م‪:‬ؤنث کے س‪:‬اتھ آنے کی وجہ س‪:‬ے عص‪::‬بہ بن ج‪:‬ائے ۔جیس‪:‬ے ‪ :‬حقیقی بہن اور عاّل تی بہن‬
‫جبکہ یہ دون‪:‬وں بنت ی‪:‬ا بنت اِال بن یع‪:‬نی بی‪:‬ٹی ی‪:‬ا پ‪:‬وتی کے س‪:‬اتھ آج‪:‬ائیں ت‪:‬و عص‪::‬بہ بن ج‪:‬اتی ہیں ۔(ع‪:‬المگیری ‪)6/451 :‬‬
‫(سراجی ‪)15:‬‬
‫عصبات میں ترجیح کے طریقے ‪:‬‬
‫عصبات کی پہلی قسم عصبہ بنفسٖہ میں غور کیا جائے تو تین طرح کے فرق نظر آتے ہیں‪:‬‬
‫(‪)3‬قّو ت کا فرق۔‬ ‫(‪)2‬واسطہ کا فرق۔‬ ‫(‪)1‬صنف کا فرق۔‬
‫پہال فرق‪ :‬صنف کا فرق ‪:‬‬
‫بیٹے اور والد کے د رمیان ‪،‬یا والد اور بھائی کے درمیان ‪،‬یا بھائی اور چچا کے درمیان صنف کا ف‪::‬رق ہے‪ِ ،‬اس ل‪::‬ئے کہ‬
‫بیٹا پہلی صنف سے‪،‬والد دوسری ص‪::‬نف س‪::‬ے‪،‬بھ‪::‬ائی تیس‪::‬ری ص‪::‬نف س‪::‬ے اور چچ‪::‬ا چ‪::‬وتھی ص‪::‬نف س‪::‬ے تعّل ق رکھ‪::‬تے‬
‫ہیں ‪،‬لٰہذا مذکورہ مثالوں میں ِان سب کے درمیان صنف کا واضح فرق نظر آتا ہے۔‬
‫دوسرا فرق‪:‬واسطہ کا فرق ‪:‬‬
‫بیٹے اور پوتے کے درمیان‪،‬یا والد اور دادا کے درمیان‪،‬حقیقی بھائی اور ُاس کے بیٹے کے درمیان ‪،‬یا چچ‪::‬ا اور ُان کے‬
‫بیٹے کے درمیان واسطہ کا واضح فرق پایا جاتا ہے‪ِ،‬اس لئے کہبیٹا بال واسطہ ہے جبکہ پوتا واس‪::‬طہ کے س‪::‬اتھ ہے‪ِ،‬اس‬
‫طرح والد بالواسطہ ہیں جبکہ دادا واسطہ کے ساتھ ہیں ِاسی طرح حقیقی بھائی بالواسطہ ہے جبکہ حقیقی بھائی ک‪::‬ا بیٹ‪::‬ا‬
‫واسطہ کے ساتھ ہےاور یہی معاملہ چچا اور ُان کے بیٹے میں بھی ہے۔‬
‫تیسرا فرق‪:‬قّو ت کا فرق ‪:‬‬
‫جیسے حقیقی بھائی اور عاّل تی بھائی کے درمیان ‪ ،‬یا حقیقی چچا اور عاّل تی چچا کے درمیان صنف ی‪::‬ا واس‪::‬طہ ک‪::‬ا ف‪::‬رق‬
‫نہیں ‪،‬کیونکہ دونوں ایک ہی صنف میں سے ہیں اور بغیر واسطہ کے مّیت سے تعّلق رکھتے ہیں ‪،‬لیکن ان کے درمیان‬
‫رشتہ کے قوی یا ضعیف ہونے کا فرق ہے‪ِ،‬اس لئے کہ حقیقی بھائی مّیت کیلئے ماں اور باپ دونوں کی جانب سے رشتہ‬
‫دار ہے جبکہ عاّل تی صرف والد کی جانب سے رش‪::‬تہ رکھت‪::‬ا ہے ‪،‬م‪::‬اں کی ج‪::‬انب س‪::‬ے نہیں ‪ ،‬اور یہی ح‪::‬ال حقیقی اور‬
‫عاّل تی چچا کے درمیان بھی واضح ہے۔‬
‫ث‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫شن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫‪02‬۔ رآن و س ت کی رو ی می ں ذوی االرحام کی عریف ا سام اور ان کی ورا ت کے احکام‬ ‫فسوال مب ر ت‬
‫ص ی ل سے حریر کری ں۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫وارثین کی قسموں کے بیان میں ذوی االرحام کی تفصیل نہیں پیش کی گئی تھی‪ ،‬کیونکہ ان کو حصہ دینے کی نوبت‬
‫بہت کم آتی ہے ۔لیکن اخیر میں ان کے بارے میں مختصرا صرف اتنی باتیں عرض کی جارہی ہیں جو ہمارے نزدیک‬
‫راجح ہیں‪ ،‬اور ذوی االرحام میں تقسیم میراث کا طریقہ سیکھنے کے لئے کافی ہیں۔‬

‫لغوی معنی ‪-:‬‬


‫ارحام یہ رحم کی جمع ہے اور رحم کا مطلب عورت کی بچہ دانی ہے ۔عام مفہوم میں ہر اس شخص کو رحمی رشتہ‬
‫دار کہا جاتا ہے جو رحم کے واسطے سے رشتہ میں جڑتا ہو۔‬
‫اصطالحی معنی‪-:‬‬
‫فرائض کی اصطالح میں ذوی االرحام سے مراد میت کے صرف وہ رحمی رشتہ دار ہیں جو نہ اصحاب الفروض میں‬
‫سے ہوں اور نہ عصبہ میں سے ہوں۔‬
‫ذوی االرحام کو میراث دینے کی دلیل‪:‬‬
‫﴿َو ُأوُلو اَأْلْر َح اِم َبْعُض ُهْم َأْو َلى ِبَبْع ٍض ِفي ِكَتاِب ِهَّللا﴾‬
‫اور رشتے دار کتاب ہللا کی رو سے‪ ،‬بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حق دار ہیں [‬
‫‪/٣٣‬احزاب‪]٦:‬‬
‫اس آیت میں یہ اصولی بیان ہے کہ میت کے رحمی رشتہ دار میت کی میراث کے مستحق ہیں‪ ،‬لٰہذا اگراصل اور‬
‫منصوص وارثین میں سے کوئی نہ ہو تو میت کا مال اس کے دیگر رحمی رشتہ داروں ہی کو دیا جائے گا۔‬

‫ذوی االرحام کی فہرست ‪-:‬‬


‫اصل وارثین کی طرح ذوی االرحام کو بھی ہم گروپوں میں تقسیم کرسکتے ہیں‪ ،‬زوجین چونکہ ذوی االرحام میں نہیں‬
‫آتے‪ ،‬اس لئے اس گروپ کو چھوڑکر باقی تین گروپ ذوی االرحام کے بھی بنیں گے ۔‬

‫✿ فروع‪ٔ-:‬اوالد البنات وبنات االبن(بیٹی اور پوتی کی اوالد )‬


‫اس گروہ میں بیٹا اور اس کی اوالد نیز بیٹی اور پوتی وارث ہوتے ہیں ‪ ،‬باقی بچے بیٹی اور پوتی کی اوالد تو یہ ذوی‬
‫االرحام ہیں ۔‬
‫✿ اصول‪-:‬الجد الفاسد والجدة الفاسدة (جد فاسد اور جدة فاسدہ )‬
‫اس گروہ میں والدین ‪،‬جد صحیح اور جدة صحیحة وارث ہیں ‪ ،‬باقی بچے جد فاسد اور جدة فاسدہ تو یہ ذوی االرحام میں‬
‫سے ہیں ۔‬
‫✿ حواشی‪:‬‬
‫اخوة‪:‬‬
‫ٔاوالد الخوة ٔالم وأالخوات مطلقا ‪ ،‬وبنات الخوة لغیر ام ‪ ،‬وبنات بنیھم(اخوہ الم اورہرطرح کی (سگی‪،‬باپ ‪،‬ماں شریک)‬
‫بہنوں کی اوالد ‪،‬اوراخوہ لغیر ام کی بیٹیاں‪ ،‬نیز ان کے بیٹوں کی بیٹیاں)‬
‫عمومة‪:‬‬
‫٭(باپ کی جانب سے‪،‬یعنی باپ کے اخوہ)‬
‫العم ٔالم والعمات مطلقا(ماں شریک چچا اور ہرطرح کی(سگی‪،‬باپ یاماںشریک) پھوپھیاں )‬
‫بنات العم لغیرٔام وبنات بنیھم (سگے اور باپ شریک چچا کی لڑکیاں اوران کے لڑکوں کی لڑکیاں )‬
‫٭(ماں کی جانب سے‪،‬یعنی ماں کے اخوہ )‬
‫أالخوال مطلقا والخاالت مطلقا (ہرطرح کے ماموں اور ہرطرح کی خاالئیں )‬
‫نوٹ‪:‬ـمذکورہ باال تمام ذوی االرحام میں سے کسی کے واسطے سے کوئی اور شخص میت کارشتہ دارہوگا تو وہ بھی‬
‫ذوی االرحام میں شامل ہوگا۔جیسے ابن الخال (ماموں کا لڑکا) ابن العمہ(پھوپھی کالڑکا) وغیرہ۔‬

‫ذوی الرحام میں تقسیم میراث‬

‫اصل وارثین کی عدم موجودگی میں ذوی االرحام میں میراث کیسے تقسیم ہوگی‪ ،‬اس بارے میں اختالف ہے۔ ایک قول یہ‬
‫ہے کہ ہر رحمی رشتہ دار جس وارث کا رشتہ دار بنے گا‪ ،‬اسے اسی وارث کاحصہ دے دیا جائے گا اس طریقے کو‬
‫تنزیل کا طریقہ کہتے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر اس وارث کا حصہ اسے دے دینا ۔‬
‫ہماری نظر میں یہی قول راجح ہے ۔‬
‫تنزیل کے قائلین میں آپس میں ایک اختالف یہ ہے کہ جن اصل وارثین کو (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )(عورت کے مقابل‬
‫میں مرد کو ڈبل)ملتا ہے ان کے رحمی رشتہ داروں میں بھی اسی اصول پرعمل کریں گے‪ ،‬یا اخوة الم پرسب کو قیاس‬
‫کرتے ہوئے سارے رحمی رشتہ داروں میں برابری کے ساتھ تقسیم کریں گے ۔‬
‫پہال قول‪:‬‬
‫اکثر یت کاکہنا یہ ہے کہ اصل وارثین میں‪ ،‬رحمی رشتہ دار اخوہ الم کے مابین‪ ،‬تساوی اور برابری کا معاملہ ہوتا ہے؛‬
‫اور چونکہ ذوی االرحام سب رحمی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں اس لئے اخوة الم پر قیاس کرتے ہوئے سب کے مابین‬
‫برابری کا معاملہ کیاجائے گا۔‬
‫دوسرا قول‪:‬‬
‫اخوة الم کے جو رحمی رشتہ دار ہوں گے ان کے مابین تو برابری کے اصول پر عمل کیا جائے گا‪ ،‬لیکن دیگر رحمی‬
‫رشتہ داروں کے مابین ایسا نہیں کیا جائے گا ‪،‬کیونکہ تنزیل میں ہم رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر‬
‫حصہ دیتے ہیں‪ ،‬لٰہذا اصل وارثین کے مابین جہاں تساوی ہیں وہاں تساوی پر عمل کریں گے جیسے اخوہ الم کامعاملہ‬
‫ہے ‪،‬اورجہاں (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )کا اصول کار فرما ہے وہا ں اسی اصول پر عمل کریں گے۔‬
‫شیخ ابن عثیمین ‪a‬نے امام احمد ‪a‬سے ایک قول یہی نقل کیا ہے اور اسے قوی قرار دیا ہے ‪ [،‬تسہیل الفرائض‪:‬ص‬
‫‪]٦٠،٦١‬‬
‫یہی دوسرا قول ہی قوی ہے لیکن ہمارے نزدیک مناسب بات یہ ہے کہ اخوہ الم کے رحمی رشتہ داروں میں تساوی کی‬
‫بات کرنے کے بجائے‪ ،‬ان رشتہ داروں کے مابین تساوی کی بات کہنی چاہئے جو حقیقی وارث کے اخوہ الم بنتے‬
‫ہوں ‪،‬جیسے باپ کے ماں شریک بھائی یابہن ۔‬
‫کیونکہ جب ہم تنزیل کے اصول پر عمل کررہے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو حقیقی وارث کا مقام دے رہے ہیں‪ ،‬تو‬
‫حقیقی وارث کی جس حالت میں جو کیفیت ہوتی ہے ‪ ،‬اس حالت میں رحمی رشتہ دار کی بھی وہی کیفیت ہونی چاہئے ۔‬

‫طریقہ تقسیم‪:‬‬
‫رحمی رشتہ دارایک ہوں یا ایک سے زائد‪ ،‬یہ جن حقیقی وارثین کے رشتہ دار ہوں‪ ،‬ان حقیقی وارثین ہی کو سب سے‬
‫پہلے میراث کے اصول کے مطابق حصہ دیں گے ‪ ،‬اس کے بعد ان حقیقی وارثین میں سے ہرایک کا حصہ‪ ،‬اس کے‬
‫رحمی رشتہ دار کے حوالے کردیں گے۔یعنی دو مرحلوں میں عمل کیا جائے گا۔‬
‫پہال مرحلہ‪-:‬پہلے یہ فرض کرلیں گے کہ حقیقی وارثین ہی زندہ ہیں ‪ ،‬پھر اسی اعتبار سے ان سب کو حصہ دیں گے۔‬
‫دوسرا مرحلہ‪-:‬اس کے بعد ان حقیقی وارثین کر مردہ مان کر‪ ،‬ان میں سے ہرایک کا حصہ اس کے رشتہ داروں میں‬
‫تقسیم کردیں گے۔‬
‫مثال‪:‬‬
‫زید فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے ‪ ،‬لیکن رحمی رشتہ داروں میں اس کا نانا(ابواالم) مصطفی ہے ‪،‬‬
‫نواسہ(ابن البنت) حسن ہے ‪ ،‬نواسی(بنت البنت) فاطمہ ہے ‪ ،‬اور بھتیجی(بنت االخ الشقیق) رابعہ ہے ۔‬
‫حل‪:‬‬
‫رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر کے حقیقی وارثین کو حصہ دیں گے‪ ،‬یہاں حقیقی وارثین میں‬
‫مصطفی کی جگہ میت کی ام (ماں) ہے‪ ،‬اور حسن اور فاطمہ کی جگہ میت کی بنت(بیٹی) ہے ‪ ،‬اور بھتیجی رابعہ کی‬
‫جگہ اخ شقیق(سگا بھائی) ہے۔‬
‫سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔‬
‫اصل مسئلہ (‪)٦‬ہوگا ‪ ،‬ام(ماں) کو سدس یعنی (‪)١‬حصہ مال ‪ ،‬بنت(بیٹی) کو نصف یعنی (‪ )٣‬حصے ملے ‪ ،‬باقی یعنی (‬
‫‪)٢‬حصے اخ ش(سگے بھائی) کوملے۔‬
‫اس کے بعد ان حقیقی وارثین کو مردہ مان کر ان کے حصہ کو میراث کے اصول کے تحت ان کے ورثاء میں تقسیم‬
‫کریں گے۔‬
‫ام (ماں)کے حصہ کی تقسیم‪:‬‬
‫ام(ماں) کو (‪)١‬حصہ مال ہے‪ ،‬اس کا ایک ہی وارث اس کا باپ مصطفی ہے لٰہذا یہ حصہ مصطفی کو ملے گا۔‬
‫بنت (بیٹی) کے حصہ کی تقسیم‪:‬‬
‫بنت (بیٹی) کو(‪)٣‬حصے ملے ہیں اور اس کے دو وارث بیٹا حسن اوربیٹی فاطمہ ہیں ‪ ،‬لٰہذا (‪ )٣‬حصے ان دونوں کو دیں‬
‫گے ‪ ،‬اصول (ِللَّذ َک ِر ِم ْثُل َح ِّظ أُاْلْنَثَیْیِن )کے تحت حسن کو (‪)٢‬حصہ‪ ،‬اور فاطمہ کو (‪)١‬حصہ ملے گا۔‬
‫اخ شقیق (سگے بھائی) کے حصہ کی تقسیم‪:‬‬
‫اخ شقیق(سگے بھائی) کو (‪)٢‬حصے ملے ہیں اور اس کی ایک وارث ایک بیٹی رابعہ ہے ‪ ،‬لٰہذا یہ (‪)٢‬حصے رابعہ کو‬
‫ملیں گے۔(حکما فرض ورد کے اعتبارسے)‬

‫دوسری مثال‪:‬‬
‫خالد فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے لیکن رحمی رشتہ داروں میں ایک ماں شریک چچا (باپ کا اخ‬
‫الم )عباس ہے ‪،‬اور ایک ماں شریک پھوپھی(باپ کی اخت الم) مریم ہے۔اور ایک سگی بھتیجی (بنت االخ‬
‫الشقیق)رخسانہ ہے۔‬
‫حل‪:‬‬
‫رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر حقیقی وارثین میں عباس اور مریم کی جگہ‪ ،‬میت کا اب (باپ)ہے۔‬
‫اور رخسانہ کی جگہ‪ ،‬میت کا اخ شقیق ہے۔‬
‫سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔‬
‫باپ کی موجودگی میں اخ شقیق محجوب ہوجائے گا لہذا اس کی بیٹی یعنی خالد کی بھتیجی رخسانہ کو کچھ نہیں ملے‬
‫گا۔‬
‫اس کے بعد صرف اب (باپ )بچا لٰہذا خالد کا پورا ترکہ اسی کو ملے گا۔‬

‫اس کے بعد حقیقی وارث خالدکے باپ کو مردہ مان کر‪،‬اس ترکہ کو میراث کے اصول کے تحت اس کے ورثاء میں‬
‫تقسیم کریں گے۔‬
‫باپ کو پوری جائداد ملی ہے اور اس کے وارثین میں اس کا ایک ماں شریک بھائی عباس اور ایک ماں شریک بہن‬
‫مریم ہے ۔یہ دونوں اخوہ الم ہیں‪ ،‬لٰہذا خالد کا ترکہ ان دونوں میں برابر تقسیم کردیا جائے گا۔(حکما فرض ورد کے‬
‫اعتبارسے)‬

‫نوٹ‪-:‬اگر ذوی االرحام میں کوئی دو واسطوں سے میت سے جڑتا ہوتو اسے دونوں واسطوں کاحصہ ملے گا‪،‬مثال ایک‬
‫شخص فوت ہوا‪،‬اس کے رشتہ داروں میں اس کی نواسی کا ایک بیٹا ہے جواس کے نواسے کا بھی بیٹا ہے ۔ نیز اس کی‬
‫ایک پھوپھی ہے۔‬

‫ت‬ ‫تف‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬


‫ص‬
‫سوال مب ر ‪03‬۔ روض کے مخ ارج اور مسا ل کے اصول کی عریف اور احکام پر ی ل سے حریر کری ں۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫مخارج فروض کا بیان‬
‫مخارج ‪ ،‬مخرج کی جمع ہے جس کے معنی نکل‪::‬نے کی جگہ کے ہیں اور ف‪::‬روض ‪ ،‬ف‪::‬رض کی جم‪::‬ع ہے جس‬
‫کے معنی حصہ کے ہیں ‪ ،‬مخارجِ فروض کے معنی حصہ نکلنے کی جگہیں ہیں ۔‬
‫اصطالحی تعریف ‪:‬‬
‫فرائض کی اصطالح میں مخارج ان اعداد کو کہتے ہیں جن س‪::‬ے تم‪::‬ام ورث‪::‬اء کے متعینہ حص‪::‬ے نکل‪::‬تے ہیں ‪،‬‬
‫مخرج کو مسئلہ بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫مخارج سات ہیں ‪ :‬دو ‪ ،‬تین ‪ ،‬چار ‪ ،‬چھ ‪ ،‬آٹھ ‪ ،‬بارہ ‪ ،‬چوبیس ‪ ،‬اور فروضِ مقدرہ چھ ہیں ‪:‬‬
‫نصف ‪ ،‬ربع ‪ ،‬ثمن ‪ ،‬اسے صنف اول کہتے ہیں۔‬
‫ثلثان ‪ ،‬ثلث ‪ ،‬سدس ‪ ،‬اسے صنف ثانی کہتے ہیں ۔‬
‫مخارج سے حصوں کو نکالنے کے لئے چند قاعدوں کو جاننا ضروری ہے ‪:‬‬
‫قاعدہ ‪۱‬‬
‫اگر قرآن مجید میں ذکر کردہ فروضِ مقدرہ ( نصف ‪ ،‬ربع‪ ،‬ثمن ‪ ،‬ثلثان ‪ ،‬ثلث ‪ ،‬سدس ) میں سے ص‪::‬رف ای‪::‬ک‬
‫حصہ آئے تو مسئلہ اسی حصہ کے ہم نام عدد سے بنے گا ۔‬
‫ہم نام عدد کا مطلب ‪:‬‬
‫ہم نام عدد کا مطلب یہ ہے کہ ربع اربعۃ سے نکالہے اور اربعۃ کے معنی چار کے ہیں ت‪::‬و مس‪::‬ئلہ چ‪::‬ار س‪::‬ے‬
‫بنے گا‪ ،‬اسی طرح ثلثان ‪ ،‬ثلث کا ہم نام عدد ثلثۃ ہے جس کے معنی تین کے ہیں اور سدس کا ہم نام ع‪::‬دد سادس‪::‬ۃ ہے جس‬
‫کے معنی چھ کے ہیں اور ثمن کا ہم نام عدد ثامنۃ ہے جس کے معنی آٹھ کے ہیں لہذا مس‪::‬ئلہ تین‪ ،‬چھ‪ ،‬آٹھ س‪::‬ے بنے گ‪::‬ا؛‬
‫لیکن نصف کا ہم نام کوئی عدد نہیں ہے؛ کیونکہ وہ کسی سے نکال ہ‪::‬وا نہیں ہے؛ اس‪::‬لئے اس ک‪::‬ا ہم ن‪::‬ام ع‪::‬دد ‪ ۲‬م‪::‬ان لی‪::‬ا‬
‫گیاہے تو نصف کا ہم نام عدد ‪ ۲‬ہوا ۔مثًال‬
‫مسئلہ ‪۲‬‬ ‫مسئلہ ‪۴‬‬
‫زینب میـــــــــــــــــــت‬ ‫زید میـــــــــــــــــــت‬
‫باپ‬ ‫شوہر‬ ‫چچا‬ ‫بیوی‬
‫عصبہ بنفسہ‬ ‫نصف‬ ‫عصبہ بنفسہ‬ ‫ربع‬
‫‪۱‬‬ ‫‪۱‬‬ ‫‪۳‬‬ ‫‪۱‬‬
‫قاعدہ ‪۲‬‬
‫جب کسی مسئلہ میں دو یا تین حصے آئیں اور وہ ف‪::‬روِض مقدرہ کے ای‪::‬ک ہی ص‪::‬نف کے ہ‪::‬وں ت‪::‬و س‪::‬ب س‪::‬ے‬
‫چھوٹے ہم نام عدد سے مس‪:‬ئلہ بنے گ‪:‬ا ‪ ،‬اور اس‪:‬ی چھ‪:‬وٹے ہم ن‪:‬ام ع‪:‬دد س‪:‬ے تم‪:‬ام ورث‪:‬اء کے حص‪:‬ے نک‪:‬الیں گے ‪،‬مثًال‪:‬‬
‫نصف ‪ ،‬ربع ‪ ،‬ثمن آئے تو ثمن ( ثامنۃ ‪ ) ۸‬سے مسئلہ بنے گا ؛کیونکہ یہی ان میں سب س‪::‬ے چھوٹ‪::‬ا ع‪::‬دد ہے ‪،‬پھ‪::‬ر اس‪::‬ی‬
‫میں سے نصف اور ربع والے ورثہ کو بھی دیا جائے گا ۔ مثًال‪:‬‬
‫مسئلہ ‪۴‬‬
‫زینب میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت‬
‫چچا‬ ‫بیٹی‬ ‫شوہر‬
‫عصبہ بنفسہ‬ ‫نصف‬ ‫ربع‬
‫‪۱‬‬ ‫‪۲‬‬ ‫‪۱‬‬
‫قاعدہ ‪۳‬‬
‫اگر فروِض مقدرہ کے صنف اول کے نصف صنف ثانی کے تمام یا بعض حصوں کے ساتھ آئے ت‪::‬و مس‪::‬ئلہ چھ‬

‫ت‬ ‫ق‬ ‫لخ َو ُد ن‬ ‫شن‬ ‫قن‬ ‫ن‬


‫سے بنے گا اور چھ میں سے ہی تمام ورثہ کے حصے متعین کئے جائیں گے ۔‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ث‬ ‫ت‬
‫سوال مب ر ‪04‬۔ اس فالمی ا ون قورا ت کی رو ی می ں ا ن ٰثی َل الز ا وا لعان وا ی ط کی عریف اور ان کی‬
‫وراث ت کے احکام ص ی ل سے لم ب ن د کری ں۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ں۔‬ ‫ل‬
‫تف‬ ‫سوال مب ر‪05‬۔ م درتج ہ ذی ل پر وٹ ھی ت‬
‫صی ت کے م رق احکام‬ ‫و‬ ‫ق‬ ‫الف)۔موصی کی عریف اور اس سے م عل‬
‫ئ‬ ‫ت‬
‫ب) موصی لہ ‪،‬موصی ب ہ کی عریف اور احکام مسا ل‬
‫‪ANS 05‬‬
‫‪1‬‬
2

You might also like