Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 13

‫‪ANS 01‬‬

‫جب آبادی میں اضافے کی شرح معاشی اور سماجی ترقی کی رفتار سے زیادہ ہو تو اس‬
‫صورت حال کو کثرت آبادی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے س‪##‬اتھ معاش‪##‬ی‬
‫وسائل میں بھی اضافہ ہوتا اگر آبادی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ تاہم اگر آبادی بڑھ‪##‬تی ہے اور‬
‫وسائل یکساں رہے تو سماجی مسائل پیدا ہوں گے اور معاش‪##‬رے پ‪##‬ر منفی اث‪##‬رات م‪##‬رتب‬
‫ہوں گے۔‬
‫معاشرے پر کثرت آبادی کے اثرات درج ذیل ہیں؛‬
‫٭آبادی میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہ‪##‬ونے کی وجہ س‪##‬ے کم‪##‬انے وال‪##‬وں ک‪##‬و اپ‪##‬نے‬
‫زیر کفالت بچوں اور خواتین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زی‪##‬ادہ ک‪##‬ام کرن‪##‬ا پڑت‪##‬ا‬
‫ہے۔ملک کی ترقی کے لیے تمام وسائل بروئے کار الئے جائیں۔ اب بڑھ‪##‬تی ہ‪##‬وئی آب‪##‬ادی‬
‫کی تعلیم‪ ،‬صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی پر خ‪##‬رچ کی‪##‬ا ج‪##‬ا رہ‪##‬ا ہے جس‬
‫سے ملکی معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں معاشی ترقی کے منصوبوں کا فق‪##‬دان‬
‫ہے‪ ،‬نوجوان مایوس ہوتے ہوئے نوجوانوں کو خوشحالی کی روشنی دکھا سکتے ہیں۔‬
‫٭تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی غربت‪ ،‬بے روزگاری‪ ،‬معاشی و سماجی ب‪##‬دحالی‪ ،‬ج‪##‬رائم‬
‫اور دیگر سماجی برائیوں کو فروغ دے رہی ہے۔‬
‫٭روزگار اور آرام دہ زندگی کے حصول کے لیے گہ‪#‬رے عالق‪#‬وں س‪#‬ے نق‪#‬ل مک‪#‬انی ک‪#‬ا‬
‫رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے شہروں میں لوگوں ک‪##‬ا ہج‪##‬وم‪ ،‬مکان‪##‬ات‬
‫کی قلت‪ ،‬صفائی کا ن‪##‬اقص انتظ‪##‬ام‪ ،‬تعلیم کی کم س‪##‬طح اور خ‪##‬وراک کی قلت ہے جس کی‬
‫وجہ سے لوگوں کو مشکالت کا سامنا ہے۔ ‪ .‬ہے‬
‫٭بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ س‪#‬ے فی کس آم‪##‬دنی میں بھی کمی واق‪#‬ع ہ‪##‬وتی ہے جس نے‬
‫مہنگائی کو جنم دی‪##‬ا ہے جس ک‪##‬ا ب‪##‬راہ راس‪##‬ت اث‪##‬ر اف‪##‬راد کی ص‪##‬حت‪ ،‬جس‪##‬مانی اور ذہ‪##‬نی‬
‫نشوونما اور عصری زندگی پر پڑتا ہے۔ سماجی بدحالی اور بدنظمی ب‪#‬ڑھ ج‪#‬اتی ہے اور‬
‫ملک سماجی مسائل کا شکار ہوتا ہے۔‬
‫٭ملک کے سرمائے کا بڑا حصہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے پ‪##‬ر خ‪##‬رچ‬
‫ہونا شروع ہو جاتا ہے نہ کہ زیادہ سرمایہ پیدا کرنے پر۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان توان‪##‬ائی‬
‫اور مہنگائی کے بحران میں پھنسا رہے گا۔‬
‫٭بڑھتی ہوئی آب‪#‬ادی نہ ص‪#‬رف مس‪#‬ابقتی منص‪#‬وبوں کے ل‪#‬یے نقص‪#‬ان دہ ہے بلکہ معی‪#‬ار‬
‫زندگی کو بہتر بنانے کا ہدف کسی حد تک خواب ہی رہ جاتا ہے۔‬
‫٭کثرت آبادی کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کی وجہ س‪##‬ے ق‪##‬درتی وس‪##‬ائل اور لوگ‪##‬وں‬
‫کی تعداد کا توازن بگڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔ چونکہ اکثریت کا انحصار زراعت پر ہے اور‬
‫زرعی وسائل کم ہیں اس لیے بہت سے خاندان غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔‬
‫‪ .‬اس طرح حد بندی کی وجہ سے آنے والی نسلوں کی فالح و بہبود بھی متاثر ہوتی ہے۔‬
‫پیتے بچے کم عمری میں ہی موت کا شکار ہو ج‪#‬اتے ہیں ۔ بچ‪#‬وں کی اس ش‪#‬رح ام‪##‬وات‬
‫کے پیش نظر دنیا کے بہت سے غریب ممالک میں اکثر لوگ زیادہ بچے پیدا ک‪##‬رتے ہیں‬
‫جس کی وجہ سے بڑے کنبے وجود میں آتے ہیں اورآ با دی میں اضافے کاب‪##‬اعث بن‪##‬تے‬
‫ہیں ۔‬
‫٭سن ‪19‬ویں اور ‪ 20‬ویں صدی میں ہونی والی عالمی سطح پ‪##‬ر تب‪##‬دیلیاں اور ٹیکن‪##‬الوجی‬
‫نے دنیا میں آبادی کی صورت حال کا فی تبدیل کر دی تر قی یافتہ ممالک میں خواتین کا‬
‫روزگار میں شامل ہونا وہاں پر آب‪##‬ادی میں کمی کاب‪##‬اعث بن‪##‬ا ت‪##‬و ت‪##‬رقی پ‪##‬ذیر ممال‪##‬ک میں‬
‫جدید سہولیات زندگی نے شرح اموات کو قابو کیا اور چ‪##‬ونکہ زرعی معیش‪##‬ت ہ‪##‬ونے کی‬
‫وجہ سے شرح افزائش کو قابونہیں کیا جاسکا اور یوں ترقی پذیر ممالک میں ک‪##‬ثرت آب‪##‬ا‬
‫دی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن کر ابھری۔‬
‫٭پاکستان جیسے ممالک میں اضافہ آب‪##‬ادی کی ای‪##‬ک ب‪##‬ڑی وجہ ق‪##‬دامت پرس‪##‬تی بھی ہے ۔‬
‫لوگ پرانے ریت رواج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ جدید رجحانات کو تسلیم کرنا اکثریت‬
‫کے لئے کافی مشکل ہے ۔ آج بھی پاکس‪#‬تان میں بی‪#‬ٹے کی خ‪#‬واہش میں بی‪#‬ٹیوں کی قط‪#‬ار‬
‫پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ج‪##‬و نہ ص‪##‬رف ملکی معیش‪##‬ت پ‪##‬ر ب‪##‬وجھ میں‬
‫اضافہ کا باعث بنتا جا رہا ہے بلکہ انفرادی طور پر خاندان میں بہت سے مسائل ک‪##‬و جنم‬
‫دیتا ہے ۔‬
‫٭نا خواندگی کی وجہ سے پاکستان میں آج تک آبادی کے کنٹرول سے متعلق پروگرام‪##‬ز‬
‫اور پالیسیاں خاطر خواہ نتائج نہیں حاص‪#‬ل کرس‪#‬کیں ۔ل‪#‬وگ اف‪#‬زائش اوالدکن‪#‬ٹرول ک‪#‬رنے‬
‫کے طریقوں کے بارے میں ہی بنیا دی آ گاہی نہیں رکھتے ۔اور ی‪##‬وں پاکس‪#‬تان میں پھیلی‬
‫گئی دہائیوں سے آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔‬
‫٭پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ اوالد کابڑھ‪##‬اپے ک‪##‬ا س‪##‬ہارا ہون‪##‬ا بھی‬
‫ہے ۔ پاکستان جیسے ملکوں میں چونکہ ریاست کی طرف س‪##‬ے بچ‪##‬وں اور بوڑھ‪##‬وں کی‬
‫سوشل سیکورٹی کے لئے ک‪##‬وئی خ‪##‬اطر خ‪##‬وا ہ انتظ‪##‬ام نہیں ہوت‪##‬ا لہ‪##‬ذا اپ‪##‬نے بڑھ‪##‬اپے ک‪##‬و‬
‫محفوظ کرنے کے لئے بھی لوگ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ روایتی معاشرہ ہ‪##‬ونے کے‬
‫ناطے پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کرنا ان سے ک‪##‬ثرت اوالد کے امک‪##‬ان‬
‫کو بڑھاتا ہے۔‬
‫٭پاکستان جیسے ملکوں میں اکثر یہ تصور کیا جا تا ہے کہ زیا دو ب‪##‬ڑے کن‪##‬بے معیش‪##‬ت‬
‫کے لئے سہارا بنتے ہیں ۔ پاکستان میں زیا دہ بچے معاش‪##‬ی آم‪##‬دنی ک‪##‬ا ای‪##‬ک اچھ‪##‬ا خاص‪##‬ا‬
‫ذریعہ سمجھے ج‪##‬اتے ہیں ۔ کی‪##‬ونکہ مناس‪##‬ب تعلیمی س‪##‬ہولتیں نہیں ہ‪##‬وتیں اس ل‪##‬ئے زی‪##‬ادہ‬
‫بچوں کی پرورش نسبتا ان کی کمائی سے مشکل نہیں ہے ۔ ہم‪##‬ارے دیہ‪##‬اتوں میں ل‪##‬ڑکے‬
‫اور لڑکیاں صرف کھیتوں میں کام کرتے ہیں بلکہ مویش‪##‬یوں کی دیکھ بھ‪##‬ال اوران س‪##‬ے‬
‫متعلقہ دیگر کام سرانجام دیتے ہیں ۔ جبکہ شہروں میں یہ لوگوں کے گھروں میں کام کر‬
‫کے خاندان کی معیشت میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔‬
‫٭پاکستان میں کثرت آب‪#‬ادی کی ای‪#‬ک ب‪#‬ڑی وجہ ان‪#‬دھی م‪#‬ذہبی تقلی‪#‬د بھی ہے ۔ یہ‪#‬اں اک‪#‬ثر‬
‫مذہبی دالئل چھوٹے کنبوں کی مخالفت میں ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر اکثر یہ کہ‪##‬ا ج‪##‬ا‬
‫تا ہے کہ جو بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے و ہ ا پنی خوراک اپنے ساتھ خ‪##‬و دالت‪##‬ا ہے ی‪##‬ا‬
‫یہ جس کی روح نے اس دنیا میں آنا ہوتا ہے وہ ضرور آتی ہے ۔‬
‫٭حکومتی سطح پر آبا دی کے کنٹرول س‪##‬ے متعل‪##‬ق پروگرام‪##‬وں ک‪##‬ا فق‪##‬دان ہون‪##‬ا ن‪##‬یز ج‪##‬و‬
‫پروگرامز میں ان کا ناقص ہونا بھی لوگوں میں چھوٹے کنبے کی افادیت ک‪##‬ا ش‪##‬عور پی‪##‬دا‬
‫کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔‬
‫٭ذاتی وجوہات جیسے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینا بچوں س‪##‬ے محبت ‪ ،‬ای‪##‬ک س‪##‬ے‬
‫زیادہ شادیوں کی خواہش ‪،‬ایک بڑے کنبے ک‪##‬ا س‪##‬ربراہ ہ‪##‬ونے کی خ‪##‬واہش‪ ،‬ب‪##‬رادری میں‬
‫مق‪##‬ام و غ‪##‬یرہ بھی پاکس‪##‬تان میں ک‪##‬ثرت آب‪##‬ادی کے اس‪##‬باب میں س‪##‬ے ہیں اس کے عالوہ‬
‫پاکستان میں تفریحات مثال کھیل کود کے میدان ‪ ،‬پارک ‪،‬میلوں کا انعق‪##‬اد‪ ،‬نم‪##‬ائش وغ‪##‬یرہ‬
‫کی کمی بھی بڑی جہ سے اضافہ آ با دی کی کیوں کہ لوگوں کے پ‪##‬اس ف‪##‬ارغ اوق‪##‬ات ک‪##‬ا‬
‫صحیح استعمال موجودنہیں ہوت‪##‬ا ۔ لہ‪##‬ذا ف‪##‬ارغ وقت میں گھ‪##‬روں میں بیٹھ ک‪##‬ر گزارن‪##‬ا بھی‬
‫اضافہ آبادی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں ۔ عورت‪##‬وں ک‪##‬ا معاش‪##‬رے میں کم ت‪##‬ر مق‪##‬ام اس‬
‫مسئلے کو اور بھی سنگین بناتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں مرد کی حکمرانی ہ‪##‬و وہ‪##‬اں‬
‫عورت اس کے باوجود کہ بعض اوقات بچے پیدا نہیں کرنا چاہتی ایسا نہیں کر پاتی۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ ‪ 11‬بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے‬
‫ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے ک‪##‬ام ک‪##‬رنے والےای‪##‬ک غ‪##‬یر‬
‫س‪#################‬رکاری ادارے ’س‪#################‬احل‘ نے ج‪#################‬اری ک‪#################‬یے ہیں۔‬
‫رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ ‪ 2016‬کے دوران بچوں سے جنسی زی‪##‬ادتی اور تش‪##‬دد‬
‫کے واقعات میں دس فیص‪##‬د اض‪##‬افہ ہ‪##‬وا ہے۔ ادارہ کہت‪##‬ا ہے کہ گذش‪##‬تہ ب‪##‬رس بچ‪##‬وں س‪##‬ے‬
‫جنسی زیادتی سمیت اغوا‪ ،‬گمشدگی اور جبری شادیوں کے ‪ 4139‬کیس رجس‪##‬ٹرڈ ہ‪##‬وئے‬
‫اور یہ تع‪#############‬داد ‪ 2015‬کے مق‪#############‬ابلےمیں دس فیص‪#############‬د زی‪#############‬ادہ ہے۔‬
‫کرؤول نم‪#‬برز‘ ی‪#‬ا ’ظالم‪#‬انہ اع‪#‬داد و ش‪#‬مار‘ کے عن‪#‬وان س‪#‬ے ش‪#‬ایع کی ج‪#‬انے والی اس‬
‫رپورٹ کے لیے ادارے نے‪ 86‬قومی‪ ،‬عالقائی اور مقامی اخبارات کی نگرانی کی۔‬
‫گذشتہ برس بچوں کے خالف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ُان میں اغ‪##‬وا کے‬
‫‪ 1455‬کیس‪ ،‬ریپ کے ‪ 502‬کیس‪ ،‬بچ‪#‬وں کے س‪#‬اتھ ب‪##‬دفعلی کے ‪ 453‬کیس‪ ،‬گین‪##‬گ ریپ‬
‫کے ‪ 271‬کیس‪ ،‬اجتم‪##‬اعی زی‪##‬ادتی کے ‪ 268‬کیس جبکہ زی‪##‬ادتی ی‪##‬ا ریپ کی کوش‪##‬ش کے‬
‫‪ 362‬کیس س ‪##################################################################################################‬امنے آئے۔‬
‫ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی ک‪##‬ا ش‪##‬کار ہ‪##‬ونے والے بچ‪##‬وں ک‪##‬ا قت‪##‬ل‬
‫ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے ُک ل ‪ 100‬واقع‪##‬ات س‪##‬امنے آئے۔‬
‫ادارے کی تحقیقات کےمطابق بچوں سےجنسی زی‪#‬ادتی اور تش‪#‬دد ک‪#‬رنے والے مجرم‪#‬ان‬
‫میں گھر کے اندر کے افراد‪ ،‬رشتہ دار اور واقِف کار بھی ہو سکتے ہیں۔‬
‫گذشتہ سال بھی۔ بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی ج‪##‬و بچ‪##‬وں‬
‫کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد‪ 1765‬ہے۔ ‪798‬اجن‪##‬بی‪589 ،‬ا جن‪##‬بی واق‪##‬ف ک‪##‬ار‪ 76 ،‬رش‪##‬تہ‬
‫دار‪ 64 ،‬پڑوسی‪ 44 ،‬مولوی‪ 37 ،‬اساتذہ اور ‪ 28‬پولیس والے بھی بچوں پر جنس‪##‬ی تش‪##‬دد‬
‫میں مل‪##################################‬وث پ‪##################################‬ائے گ‪##################################‬ئے۔‬
‫ادارے نے ایس‪##‬ے لوگ‪##‬وں کی نش‪##‬اندہی ک‪##‬رتے ہ‪##‬وئے لکھ‪##‬ا ہے کہ ’یہ ل‪##‬وگ بچ‪##‬وں ک‪##‬و‬
‫پھسانے کے لیے تحائف کی پیش‪##‬کش ک‪##‬رتے ہیں‪ُ ،‬ان س‪##‬ے محبت ک‪##‬ا اظہ‪##‬ار اور مختل‪##‬ف‬
‫کاموں میں ُان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ جنسی زیادتی میں کامیابی کے بعد یہ افراد بچ‪##‬وں‬
‫پر اس راز کو خفیہ رکھنے کے لئے دبأو بھی ڈالتے ہیں۔ ‘‬
‫رپ‪##‬ورٹ کے مط‪##‬ابق س‪##‬ال ‪ 2016‬میں پاکس‪##‬تان کے دیہی عالق‪##‬وں س‪##‬ے ‪ 76‬فیص‪##‬د جبکہ‬
‫ش‪########‬ہری عالق‪########‬وں س‪########‬ے ‪ 24‬فیص‪########‬د واقع‪########‬ات رپ‪########‬ورٹ ہ‪########‬وئے۔‬
‫ان میں زیادتی کے واقعات کی شرح کچھ یوں رہی‪ :‬پنجاب میں ‪ ،2676‬س‪##‬ندھ میں ‪،987‬‬
‫بلوچستان میں ‪ ،166‬اسالم آب‪##‬اد میں ‪ ،156‬خی‪##‬بر پختونخ‪##‬وا میں ‪ ،141‬پاکس‪##‬تان کے زی‪ِ#‬ر‬
‫انتظام کشمیر میں نو‪ ،‬اور گلگت بلتستان سے چار واقعات رپورٹ ہ‪##‬وئے جبکہ اس س‪##‬ال‬
‫فاٹا سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ‪ 11‬سے ‪ 18‬سال‬
‫کے بچے سب سے زیادہ اغوا ہوئے۔ ‪ 16‬سے ‪ 18‬سال کی لڑکیوں کے اغوا کے واقعات‬
‫میں اضافہ جبکہ لڑکوں کے اغوا کے واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔‬
‫کم عم‪##‬ری کی ش‪##‬ادی کے ُک ل ‪ 176‬واقع‪##‬ات میں س‪##‬ے ‪ 112‬ص‪##‬وبہ س‪##‬ندھ میں جبکہ ‪43‬‬
‫پنج‪################################‬اب میں رپ‪################################‬ورٹ ہ‪################################‬وئے۔‬
‫ادارے نے ذرائع ابالغ میں متاثرہ بچ‪##‬وں کی ش‪##‬ناخت ظ‪##‬اہر ک‪##‬رنے پرافس‪##‬وس ک‪##‬ا اظہ‪##‬ار‬
‫کرتے ہوئے لکھ‪##‬ا ہے کہ مل‪##‬ک میں خ‪##‬بر کی رپورٹن‪##‬گ کے ب‪##‬ارے میں ض‪##‬ابطۂ اخالق‬
‫موجود ہونے کے باوجود ‪ 47‬فیصد بچوں کے نام‪ 23 ،‬فیصد بچ‪##‬وں کے وال‪##‬دین کے ن‪##‬ام‬
‫جبکہ چھ فیص‪#####‬د واقع‪#####‬ات میں ن‪#####‬ام کے س‪#####‬اتھ تص‪#####‬اویر بھی ش‪#####‬ائع کی گ‪#####‬ئیں۔‬
‫رپورٹ۔ کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے وال‪##‬وں کی‬
‫بڑی تعداد ان کے رشتہ داروں اور جاننے والوں کی ہوتی ہے‬
‫دہشت گ‪##‬ردی کی اص‪##‬طالح ک‪##‬ا کین‪##‬وس بہت ب‪##‬ڑاہے۔مث‪##‬ال کے ط‪##‬ورپرفی زم‪##‬انہ ُد نی‪##‬اکے‬
‫مختلف خطوں اور ممال‪##‬ک میں تین نظری‪##‬ات کے تحت مس‪##‬لح جدوجہ‪##‬د ہ‪##‬ورہی ہیں۔بعض‬
‫ممالک میں مذہبی بنیاد پر مسلح جدوجہدہورہی ہیں۔ بعض ممالک میں قومیت کی بنیاد پر‬
‫توبعض ممالک میں الدینی یادوسرے لفظوں میں ترقی پسند یا کمیونزم کی بنیاد پرمس‪##‬لح‬
‫جدوجہ‪###‬د ہ‪###‬ورہی ہیں۔آج کی اس نشس‪###‬ت میں ہم ق‪###‬ومی اور الدی‪###‬نی قوت‪###‬وں کی مس‪###‬لح‬
‫سرگرمیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مذہبی مس‪#‬لح ک‪#‬اروائیوں ک‪#‬وزیربحث الئیں گے۔‬
‫اگرمزیدگہرائی کے ساتھ اس موضوع ک‪##‬و زی‪##‬ربحث الیاج‪##‬ائے ت‪##‬و میں کہونگ‪##‬اکہ م‪##‬ذہبی‬
‫مسلح کاروائیوں کاکینوس بھی بہت بڑاہے۔ کیونکہ ُد نیاکے بڑے مذاہب جیسے عیس‪##‬ایت‪،‬‬
‫یہودیت‪ ،‬ہندومت اور اسالم وغیرہ کے پیروکاروں نے تاریخ کے مختلف ادوارمیں مسلح‬
‫جدوجہدکیں ہیں اورُان تمام مذاہب کے پیروکاروں کی مسلح جدوجہداس عنوان کے تحت‬
‫شمارہونگی۔ لہذا مذہبی مسلح سرگرمیوں میں ہماراموضوع ُسخن اس‪##‬الم ہے۔ لیکن اس‪##‬الم‬
‫کے بھی مختلف مکاتب فکرکے پیروک‪##‬اروں نے ت‪##‬اریخ کے کس‪##‬ی نہ کس‪##‬ی موڑپرمس‪##‬لح‬
‫جدوجہدکیں ہیں۔ لہذا اسالم کے اندرہم دوسرے مکاتب فکرکوایک ط‪##‬رف رکھ‪##‬تے ہ‪##‬وئے‬
‫سلفی مکتب فکر (‪)Salafism‬کے پیروکاروں کی حالیہ دہشت گردانہ ک‪##‬اروائیوں ک‪##‬و آج‬
‫زیربحث الئیں گے۔سلفی اور دیوبند مک‪##‬اتب فک‪##‬رکے اتحادس‪##‬ے آج اس قدرم‪##‬ذہبی دہش‪##‬ت‬
‫گردتنظیمیں وجودمیں آنے کے بعدُد نیاکے کئی خطوں میں پھیل چکی ہیں کہ ُان سب کی‬
‫جنگی حکمت عملی‪##‬وں اور تزوی‪##‬راتی حمل‪##‬وں ک‪##‬ا بغورمش‪##‬اہدہ کرناای‪##‬ک ش‪##‬خص کیل‪##‬ئے‬
‫ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے۔‬
‫م‪#‬روجہ بین االق‪#‬وامی ُاص‪#‬ول کے مط‪#‬ابق مس‪#‬لح جدوجہ‪#‬دایک فری‪#‬ق کے نزدی‪#‬ک دہش‪#‬ت‬
‫گردی کی حیثیت رکھتی ہے توفریق مخالف کیلئے ُحریت و آزادی کی مقدس جنگ۔‬
‫وجوہات اور اثرات‪:‬۔‬
‫آج کی اس نشست میں ہم سلفی اور دیوبندمکاتب فکرکی دہشت گردی کی ک‪##‬اروائیوں کی‬
‫وجوہات کااگرمجموعی جائزہ لیں تواس موضوع کے پھیلنے کاامکان پیداہوجاتاہے۔سلفی‬
‫اوردیوبن‪##‬دمکاتب فک‪##‬رکی مس‪##‬لح ک‪##‬اروائیوں اور دہش‪##‬ت گ‪##‬ردی کے واقع‪##‬ات کومجم‪##‬وعی‬
‫طورپردوحص‪##‬وں میں تقس‪##‬یم کیاجاس‪##‬کتا ہے۔ ای‪##‬ک حص‪##‬ہ اس پ‪##‬ر مش‪##‬تمل ہے جس‪##‬میں یہ‬
‫مذہبی دہشت گردتنظیمیں دوسرے مذاہب اور مکاتب فکرکودہشت گردی کانش‪##‬انہ بن‪##‬ارہی‬
‫ہیں۔جبکہ دوس‪##‬را حص‪##‬ہ اس پ‪##‬ر مش‪##‬تمل ہے جس‪##‬میں اس خطے کے اہ‪##‬ل تش‪##‬یع کونش‪##‬انہ‬
‫بنایاجارہاہے۔ لہذا تنگئی وقت کومِد نظررکھتے ہ‪##‬وئے میں اپ‪##‬نے اس مق‪##‬الے کواہ‪##‬ل تش‪##‬یع‬
‫اورہزارہ ق‪#‬وم کے س‪#‬اتھ رونم‪##‬اہونے والے م‪##‬ذہبی دہش‪#‬ت گ‪##‬ردی کی وجوہ‪##‬ات اوراث‪##‬رات‬
‫پرمرکوزکرناچاہتاہوں۔‬
‫اس سلس‪###‬لے میں پہالس‪###‬وال یہ پی‪###‬داہوجاتاہے کہ اہ‪###‬ل تش‪###‬یع اورہ‪###‬زارہ ق‪###‬وم کے س‪###‬اتھ‬
‫رونماہونے والے مذہبی دہشت گردی کے واقعات ک‪##‬ا ت‪##‬اریخی پس منظ‪##‬ربھی ہے ی‪##‬انہیں؟‬
‫جب تک ہم تاریخی پس منظرکاجائزہ نہیں لیں گے تب ت‪##‬ک ش‪##‬ایدہم ص‪##‬حیح ن‪##‬تیجہ اخ‪##‬ذنہ‬
‫کرسکیں۔‬
‫س‪##‬لفیوں کی دہش‪##‬ت گ‪##‬ردانہ ک‪##‬اروائیوں کی وجوہ‪##‬ات پرغورکیاج‪##‬ائے ت‪##‬وہمیں دووجوہ‪##‬ات‬
‫نظ‪##‬رآئیں گی۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ س‪##‬لفیوں کے م‪##‬ذہبی پیش‪##‬واؤں اور ام‪##‬اموں نے اپ‪##‬نے‬
‫پیروکاروں کوایسی کاروائیاں کرنے کیلئے مذہبی طورپرپابن‪##‬دبنایاہے۔آپ س‪##‬ب حض‪##‬رات‬
‫اس حقیقت سے باخبرہیں کہ اہل سنت کے چ‪#‬ارآئمہ ک‪##‬رام ہیں۔ یع‪##‬نی ام‪##‬ام ابوح‪#‬نیفہ‪ ،‬ام‪##‬ام‬
‫مالک‪ ،‬امام ادریس شافعی اور امام احمدبن ُحنب‪##‬ل۔ ان چ‪#‬ارمیں س‪#‬ے آخ‪#‬ری ام‪##‬ام احم‪##‬د بن‬
‫ُح نبل نے سب پہلے مسلمانوں کومشرک اورُم رتدقراردیکرُانکے خالف قتل و قتال کرنے‬
‫اورُانکے مال و اسباب کوماِل غنیمت قراردینے کافتوٰی جاری کیاتھا۔ دس‪##‬ویں ص‪##‬دی میں‬
‫بغداد کے ایوان اقتدارپرجب ُحنبلی فرقہ غالب آگیاتھاتوُاس َدورمیں اہل تشیع کے مساجد‪،‬‬
‫مذہبی جلوسوں اور رہائشی عالقوں پر آئے دن حملے ہوتے تھے جبکہ ریاست کیط‪##‬رف‬
‫سے ُان حملہ آوروں کو مکمل آزادی ملی ہوئی تھی۔ گیارہویں صدی میں ُحنبلی فرقہ نے‬
‫اہل تشیع کیلئے حاالت کو اس قدر ناقابل برداشت بنادیا تھا کہ ُانکی طرف س‪##‬ے یہ فت‪##‬وٰی‬
‫جاری ہواتھاکہ اہل تشیع کاکوئی فرد کسی نماِز جماعت ک‪##‬اپیش ام‪##‬ام نہیں بن س‪##‬کتا۔ اس‪##‬ی‬
‫ط‪##‬رح اہ‪##‬ل تش‪##‬یع ک‪##‬ا ذبح کیاگی‪##‬احالل ج‪##‬انور ک‪##‬ا گوش‪##‬ت اہ‪##‬ل ُس نت کیل‪##‬ئے کھان‪##‬احرام‬
‫قراردیاگیاتھا۔ ُح نبلی فرقہ اس بات پر یقین رکھتاہے کہ اہل تشیع اس‪##‬الم کیل‪##‬ئے عیس‪##‬ائیوں‬
‫اور یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔‬
‫امام احمدبن ُحنبل کا ایک پیروکارجو امام ابِن تیمیہ کے نام س‪##‬ے ت‪##‬اریخ میں مش‪##‬ہورہے‪،‬‬
‫اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خالف جن‪##‬گ وج‪##‬دل کے اس فت‪##‬وٰی کومزیدپھیالیااوراس‪##‬الم‬
‫کے اندرفرقہ وارانہ قتل و قتال کی آگ کو مذہبی لبادہ پہنایا۔امام ابن تیمیہ کی کئی جلدوں‬
‫پر مشتمل کتاب منہاج السنہ النبوۃمیں اہل تشیع کے عقیدے کو غل‪##‬ط ث‪##‬ابت ک‪##‬رنے کیل‪##‬ئے‬
‫ک‪##‬ئی اقس‪##‬ام کی ال‪##‬زام تراش‪##‬یاں کی گ‪##‬ئیں ہیں۔ام‪##‬ام احم‪##‬دبن ُحنب‪##‬ل اور ام‪##‬ام ابن تیمیہ کے‬
‫بعداسی مکتب فکرکاایک اور مش‪##‬ہورمذہبی پیش‪##‬وامحمدبن عب‪##‬دالوہاب تھ‪##‬اجواپنے پیش‪##‬رو‬
‫ام‪##‬اموں س‪##‬ے بھی ک‪##‬ئی ق‪##‬دم آگے نک‪##‬ل گی‪##‬ا۔ ام‪##‬ام احم‪##‬دبن حنب‪##‬ل س‪##‬ے لیکرام‪##‬ام محم‪##‬دبن‬
‫عبدالوہاب تک ان تینوں اماموں کی تبلیغات کا مرک‪##‬ز س‪#‬عودی ع‪##‬رب رہ‪##‬اہے جس‪#‬کانتیجہ‬
‫اسطرح ہمارے سامنے آجاتاہے کہ ای‪##‬ک مغ‪##‬ربی محق‪##‬ق اور مص‪##‬نف پیٹرتھ‪##‬یراکس اپ‪##‬نی‬
‫کتاب دی اسٹرینج ِڈ س اپئ‪##‬یرنس آف ُم وس‪ٰ##‬ی الص‪##‬درمیں رقمط‪##‬راز ہے کہ آجک‪##‬ل س‪##‬عودی‬
‫عرب کی یونیورسٹیوں کی درسی نص‪##‬اب میں باقاع‪##‬دہ ط‪##‬ورپراس موض‪##‬وع ک‪##‬وزیربحث‬
‫الیاجات‪#####‬اہے کہ اہ‪#####‬ل تش‪#####‬یع ک‪#####‬ا ُد م بھی ہے۔جبکہ ای‪#####‬ک اورام‪#####‬ریکی محق‪#####‬ق و‬
‫دانشورپروفیسرڈاکٹرولی نصرکی تحقیق کے مط‪##‬ابق س‪##‬عودی ع‪##‬رب میں یہ اف‪##‬واہ حقیقت‬
‫کی شکل اختیارکرچکا ہے کہ اہل تشیع جب دوسرے مک‪##‬اتب فک‪##‬رکے افرادکواپ‪##‬نے ہ‪##‬اں‬
‫مہمان بناتے ہیں توُانکے کھانوں میں تھوکتے ہیں۔ اسی ط‪##‬رح ُان میں یہ بھی مش‪##‬ہورہے‬
‫کہ اہل تشیع سے ہاتھ مالنے سے انسان ناپاک ہوجاتاہے لہذااپنی اس ناپاکی کوُد ورکرنے‬
‫کیلئے وضولیناضروری ہوجاتاہے۔ پھرمص‪#‬نف خودن‪#‬تیجہ اخ‪#‬ذکرتے ہ‪#‬وئے لکھت‪#‬اہے کہ‬
‫اس مذہبی تعص‪##‬ب کامقص‪##‬د اہ‪##‬ل تش‪##‬یع اوردوس‪##‬رے مک‪##‬اتب فک‪##‬ر کے درمی‪##‬ان س‪##‬ماجی و‬
‫مذہبی روابط کوختم کرناہے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی دیہی عالقوں میں رہتی ہے اور زی‪##‬ادہ ت‪##‬ر زرعی‬
‫شعبے سے وابستہ ہے۔ ہمارا کس‪##‬ان دن رات محنت ک‪##‬رکے وطن عزی‪##‬ز کیل‪##‬ئے خ‪##‬وراک‬
‫اور صنعتوں کیلئے خام مال فراہم کرتا ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات کا تقریبًا ‪ 60‬فیص‪##‬د‬
‫سے زائد حصہ ب‪##‬راہ راس‪#‬ت ی‪##‬ا بالواس‪#‬طہ زرعی ش‪#‬عبے ک‪##‬ا ہی مرہ‪##‬ون منت ہے۔ مق‪##‬امی‬
‫سطح پر روزگار کی فراہمی میں بھی یہ شعبہ اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ ملک کی‬
‫اقتصادی‘ مالی‘ معاشرتی صورتحال کوترقی دینے اور اسے مستحکم بنانے میں زرعی‬
‫شعبے کا ہمیشہ سے ہی قابل ذکر حصہ رہا ہے اس کی ساالنہ شرح نمو دوسرے شعبوں‬
‫کی نسبت اوسطًا بہتر رہی ہے۔ اس کے باوجود زرعی شعبہ ہمیشہ س‪##‬ے حکمران‪##‬وں کی‬
‫نظروں میں عملی طور پر غیر اہم رہا ہے۔ یہ الگ ب‪##‬ات ہے کہ نع‪##‬روں اور دع‪##‬وﺅں میں‬
‫ہمیش‪##‬ہ زرعی اور دیہی ت‪##‬رقی ک‪##‬ا خ‪##‬واب دکھای‪##‬ا جات‪##‬ا رہ‪##‬ا ہے۔ آج ح‪##‬الت یہ ہے کہ آپ‬
‫پاکستان کے کس‪#‬ی بھی دیہی عالقے میں چلے ج‪#‬ائیں آپ ک‪##‬و ‪ 16‬ویں ص‪##‬دی ی‪##‬اد آج‪#‬ائے‬
‫گی۔ گھپ اندھیروں میں ڈوبے دیہات آپ کو یقینًا پتھر اور غاروں کے زمانے کی یاد دال‬
‫دینگے۔ شہروں میں چند گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ س‪##‬ے ہ‪##‬ر ط‪##‬رف طوف‪##‬ان برپ‪##‬ا ہوجات‪##‬ا ہے‬
‫جبکہ دیہی عالقوں میں بجلی ص‪#‬رف اپ‪#‬نی موج‪#‬ودگی ک‪#‬ا احس‪#‬اس دالنے کیل‪#‬ئے آتی ہے‬
‫یہی حال تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ نکاسی آب‘ سڑکوں ‘ صفائی اور دوسرے ش‪##‬عبوں ک‪##‬ا ہے۔‬
‫بارش کے موسموں میں ایک دیہات ک‪##‬ا دوس‪##‬رے دیہ‪##‬ات کے س‪##‬اتھ رابطہ ممکن ہی نہیں‬
‫رہتا ہے۔ ہر گاﺅں کے اردگرد گندے پانی کے تاالب اور گن‪##‬دگی کے ڈھ‪##‬یر حک‪##‬ومت اور‬
‫ماحولیاتی آلودگی کے ماہرین کو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ یہاں بھی ت‪##‬و انس‪##‬ان بس‪##‬تے‬
‫ہیں تعلیمی اداروں کی عم‪###‬ارتوں کی ح‪###‬الت زار‘ اس‪###‬اتذہ کی کمی اور تعلیمی معی‪###‬ار‘‬
‫خواندگی کی شرح کے بڑھتے ہوئے جعلی گراف کو بے نقاب ک‪##‬رنے کیل‪##‬ئے ک‪##‬افی ہے۔‬
‫صحت عامہ کی اگر اصل صورتحال سامنے آج‪##‬ائے ت‪##‬و ل‪##‬وگ دانت‪##‬وں میں اپ‪##‬نی انگلی‪##‬اں‬
‫دبالیں گے اور سوچنے پر مجب‪##‬ور ہوج‪##‬ائیں گے کہ ایس‪##‬ے م‪##‬احول میں دیہی ع‪##‬وام زن‪##‬دہ‬
‫کیسے ہے؟ پینے کا آلودہ پانی دیہی عوام کو کینسر‘ جگر‘ معدے‘ ہیض‪##‬ے ‘ ہ‪##‬ڈیوں اور‬
‫کئی ج‪##‬ان لی‪##‬وا بیم‪##‬اریوں ک‪##‬ا ش‪##‬کار کررہ‪##‬ا ہے۔ زچہ بچہ کی ص‪##‬حت کے ن‪##‬ام پ‪##‬ر ع‪##‬المی‬
‫اداروں سے قرضے اور امداد بٹورنے وال‪##‬وں ک‪##‬و ش‪##‬اید دیہی عالق‪##‬وں میں بڑھ‪##‬تی ہ‪##‬وئی‬
‫شرح اموات اس لئے نظر نہیں آتی کہ ان کی ترجیح صرف بڑے بڑے شہر ہی ہیں جس‬
‫ک‪##‬ا ثب‪##‬وت یہ ہے کہ زچہ بچہ کی ص‪##‬حت کے ب‪##‬ارے میں ج‪##‬و بھی س‪##‬یمینار م‪##‬ذاکرے ی‪##‬ا‬
‫س‪##‬مپوزیم ہ‪##‬وتے ہیں وہ ش‪##‬ہر کے ب‪##‬ڑے ب‪##‬ڑے فائیوس‪##‬ٹار ہوٹل‪##‬وں میں ہی ہ‪##‬وتے ہیں۔‬
‫ماحولیاتی آلودگی کے ماہرین کو دیکھ لیں ان کی س‪##‬رگرمیاں اور ح‪##‬یران کن ک‪##‬ارکردگی‬
‫سب بڑے اور کبھی کبھی چھوٹے شہروں تک ہی مح‪#‬دود نظ‪#‬ر آتی ہے۔ ش‪#‬ہری عالق‪#‬وں‬
‫کے نوجوان‪##‬وں ک‪##‬و کس ح‪##‬د ت‪##‬ک کھیل‪##‬وں کے می‪##‬دان اور ان ڈور س‪##‬پورٹس کی س‪##‬ہولتیں‬
‫میس‪##‬رہیں لیکن دیہی عالق‪##‬وں کے نوجوان‪##‬وں ک‪##‬و کچھ بھی ت‪##‬و میس‪##‬ر نہیں وہ بے چ‪##‬ارے‬
‫کسی کھیت میں جاکر اپنا یہ شوق پ‪#‬ورا کرلی‪#‬تے ہیں۔آپ ح‪#‬یران ہ‪#‬ونگے کہ حک‪#‬ومت ہ‪#‬ر‬
‫سال دیہی ترقی کے نام پر بیرون ممالک سے قرضے اور ام‪##‬داد ت‪##‬و حاص‪##‬ل کرلی‪##‬تی ہے‬
‫لیکن وہ کہاں خرچ ہوتے ہیں اس سے دیہی عالقوں میں کون کون سے منصوبے شروع‬
‫ہوئے‘ دیہات میں کس قدر ترقی ہ‪##‬وئی یہ‪##‬اں کے رہ‪##‬نے وال‪##‬وںکے الئ‪##‬ف س‪##‬ٹائل میں کی‪##‬ا‬
‫تبدیلی آئی ہے۔ یہاں سے بیروزگ‪##‬اری کی ش‪##‬رح میں کس ق‪##‬در کمی ہ‪##‬وئی کس‪##‬ی ک‪##‬و کچھ‬
‫نہیں پتہ۔کیونکہ نام نہ‪##‬اد اور نمائش‪##‬ی ک‪##‬ارکردگی انس‪##‬انی آنکھ س‪##‬ے کبھی بھی نظ‪##‬ر نہیں‬
‫آتی۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ اپ‪##‬نے مخص‪##‬وص سیاس‪##‬ی مف‪##‬ادات کے‬
‫حصول کیلئے دیہی ترقی کے بلند بانگ دعوے کئے ان غ‪##‬ریب ع‪##‬وام کی ہم‪##‬دردیاں اور‬
‫ووٹ حاصل کئے اور پھر انہیں یکسر فرام‪##‬وش کردی‪##‬ا جس س‪##‬ے دیہی ت‪##‬رقی ک‪##‬ا خ‪##‬واب‬
‫ابھی تک ش‪#‬رمندہ تعب‪#‬یر نہ ہوس‪#‬کا۔ اس وقت پاکس‪#‬تان ‪ 30‬ہ‪#‬زار ارب روپے کے ب‪#‬یرونی‬
‫قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کے عالوہ ملکی معیش‪#‬ت ک‪#‬و چالنے کیل‪#‬ئے ب‪#‬ارہ‬
‫ارب ڈالر کی فوری ض‪##‬رورت تھی جس کے حص‪##‬ول کیل‪##‬ئے ہمیں ج‪#‬و کچھ کرن‪##‬ا پ‪##‬ڑا وہ‬
‫سب کے سامنے ہے۔ ہم‪#‬ارے حکمران‪#‬وں اور اقتص‪#‬ادی م‪#‬اہرین ک‪#‬و یہ ب‪#‬ات س‪#‬مجھ لی‪#‬نی‬
‫چاہئے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ہر راس‪##‬تہ زرعی ش‪##‬عبے ک‪##‬ا مرہ‪##‬ون منت ہے‬
‫لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہا۔ ہم یہ راگ تو اکثر االپ‪##‬تے‬
‫رہتے ہیں کہ ہماری معیشت کا زی‪##‬ادہ ت‪##‬ر داروم‪##‬دار زراعت پ‪##‬ر ہے لیکن عمًال کچھ بھی‬
‫نہیں کرنا چاہتے۔ آپ حیران ہونگے کہ اس وقت پاکستان میں ص‪##‬رف ‪ 23.25‬ملین ہیک‪##‬ڑ‬
‫رقبے پر کاشتکاری ہورہی جبکہ ‪ 8.25‬ملین ہیک‪##‬ڑ رقبہ قاب‪##‬ل کاش‪##‬ت ہ‪##‬ونے کے ب‪##‬اوجود‬
‫زیراستعمال نہیں ہے۔ زرعی ماہرین ک‪#‬ا یہ کہن‪#‬ا بالک‪#‬ل درس‪#‬ت ہے کہ اگ‪#‬ر ہم ‪ 8.25‬ملین‬
‫ہیکڑ قابل کاشت رقبے کا صرف ایک چوتھائی بھی استعمال میں لے آئیں تو ہماری خود‬
‫کفالت کا خواب حقیقت ک‪##‬ا روپ دھ‪##‬ار س‪##‬کتا ہے اس س‪##‬ے ہم‪##‬اری زراعت‘ دیہی عالقے‬
‫اور کاشت کار سب خوشحال ہوجائیں گے۔ یہ قومی مفاد پر مبنی کام آخر کون کرے گ‪##‬ا؟‬
‫ہمارے سیاست دانوں کو اپنے مفادات اور سیاسی لڑائی جھگڑوں سے فرصت ہ‪##‬وگی ت‪##‬و‬
‫وہ ملک و قوم کیلئے کچھ کرنے کے قابل ہونگے۔ ملکی تاریخ اس بات کی گ‪##‬واہ ہے کہ‬
‫زرعی شعبے کی ترقی کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی منص‪##‬وبہ بن‪##‬دی نہیں کی ج‪##‬و‬
‫کچھ بھی کیا فرضی اور گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی رہا۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫سوسائٹی کے کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ایک مکمل نظ‪##‬ام کی نمائن‪##‬دگی کرت‪##‬ا ہے‪ .‬ان‬
‫میں سے ای‪##‬ک ای‪##‬ک سوش‪##‬ل کمیون‪##‬ٹی ہے‪ .‬کس‪##‬ی بھی کمیون‪##‬ٹی کے لوگ‪##‬وں ک‪##‬و ای‪##‬ک ہی‬
‫(مثال‪ ،‬مفادات‪ ،‬مقاصد ی‪##‬ا مقاص‪##‬د) کچھ ہے ج‪##‬و کے ای‪##‬ک ہج‪##‬وم مطلب‪ .‬ل‪##‬وگ کس‪##‬ی بھی‬
‫کمیون‪##‬ٹی میں ای‪##‬ک س‪##‬اتھ آ رہے ہیں‪ ،‬ع‪##‬ام ط‪##‬ور پ‪##‬ر اس‪##‬ی ط‪##‬رح کے خی‪##‬االت زن‪##‬دگی‪،‬‬
‫معاشرے جیسے سماجی کرداروں میں کھیل کے بارے میں ہے‪.‬‬
‫انسانی افراد کا ایک مجموعہ‪ ،‬زندگی کے اسی طرح کے ح‪##‬االت کی ط‪##‬رف س‪##‬ے متح‪##‬د‬
‫ایک ہی مفادات‪ ،‬اقدار ہیں‪ ،‬اور ان سے آگاہ ہیں ‪ -‬ت‪#‬و‪ ،‬ہم اس س‪#‬ماجی ب‪#‬رادری کہہ س‪#‬کتا‬
‫سماجی شناخت‪ .‬لوگوں کو ایک ساتھ النے کے ل‪##‬ئے بنی‪##‬اد ہ‪##‬و س‪##‬کتا ہے‪ :‬ای‪##‬ک دوس‪##‬رے‬
‫کے ساتھ ان کے قریبی رابطہ‪ ،‬کل سرگرمیوں‪ ،‬مفادات کی مم‪##‬اثلت کی بی‪##‬داری‪ ،‬اس کی‬
‫اپنی ثقافت‪ ،‬اس کمیون‪##‬ٹی‪ ،‬اخالقی تص‪##‬ورات‪ ،‬وغ‪##‬یرہ‪ ،‬خ‪##‬ود حک‪##‬ومت کی موج‪##‬ودگی کے‬
‫مقصد کے بارے میں اسی طرح کے خیاالت کی بنیاد پر قائم ہے‪.‬‬
‫ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد ہے کہ زیادہ تر مق‪##‬دمات میں س‪##‬ماجی کمیونٹ‪##‬یز اور‬
‫گروپس پر ‪ spontaneously‬پیدا نہیں کرتے یقین رکھتا ہے‪ .‬ان کی اصل میں سے ایک‬
‫تصور امریکی ‪ J. Homans‬طرف سے تجویز‪ ،‬لوگ بعض فوائد کو حاصل ک‪##‬رنے کی‬
‫کوشش کر‪ ،‬ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت ہے کہ یقین رکھتا ہے‪ .‬زیادہ اہم فائدہ زیادہ‬
‫کوشش یہ دوسرے لوگوں کے قریب حاصل کرنے کے لئے ایک ش‪##‬خص کی ض‪##‬رورت‬
‫کو دیکھتے ہوئے جن کے لئے یہ فائ‪##‬دہ بھی بہت اہم ہے‪ .‬ع‪##‬ام الف‪##‬اظ میں‪ ،‬ام‪##‬ریکی م‪##‬اہر‬
‫عمرانیات کے مطابق‪ ،‬لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ایک خ‪##‬اص مقص‪##‬د ک‪##‬و حاص‪##‬ل‬
‫کرنے کے لئے ایک کمیونٹی اور کمیون‪#‬ٹی کی تش‪#‬کیل کے ل‪#‬ئے گ‪#‬روپ بن‪#‬دی ک‪#‬ر رہے‬
‫ہیں‪.‬‬
‫ایک سوشل کمیونٹی اور ان کی تعلیم کے دوسرے مقصد سے مختلف ہو‪ ،‬اور تشکیل کر‬
‫سکتے خیاالت‪ .‬اقسام کے لوگوں کی طرح انجمنوں کی مندرجہ ذیل وجوہ‪##‬ات کی بن‪##‬ا پ‪##‬ر‬
‫اختالف‪:‬‬
‫‪ -‬وج‪##‬ود کے وقت‪ :‬س‪##‬ارا ص‪##‬دیوں (ال‪##‬گ ال‪##‬گ لے جای‪##‬ا ق‪##‬وم) کے ل‪##‬ئے چن‪##‬د منٹ (ای‪##‬ک‬
‫کنسرٹ ہال میٹنگ کے سامعین) سے؛‬
‫‪ -‬کئی ہزار (ایک مخصوص پارٹی کے ارکان) تک دو افراد سے ان کی آئین ساز لوگوں‬
‫کی ساخت؛‬
‫‪ -‬قریب سے اہم نمائندوں کے درمیان کثافت کنکشنز ایکجوٹ ٹیم (آفس اسٹاف) کے ل‪##‬ئے‬
‫بہت امورفووس‪ ،‬مشکل سے تعامل فارمیشنوں (فٹ بال کے پرستار)‪.‬‬
‫ماہرین عمرانیات کے ایک بڑے پیمانے پر سماجی برادری جیسی کوئی چیز تمیز‪ ،‬ط‪#‬رہ‬
‫امتیاز ہے جس کے ہیں‪:‬‬
‫‪ -‬وجود کے عدم استحکام؛‬
‫‪ -‬اس کے اتحادی لوگوں‪ ،‬عین مط‪##‬ابق رقم ک‪##‬ا تعین ک‪##‬رنے کے ن‪##‬اممکن کی تش‪##‬کیل کے‬
‫‪heterogeneity‬؛‬
‫‪ -‬کسی سرگرمی کی بنیاد پر آپریشن اور اس کے باہر موجود نہیں کر سکتے‪.‬‬
‫ایک مثال کے طور پر‪ ،‬بڑے پیمانے پر س‪##‬ماجی ب‪##‬رادری ش‪##‬ائقین ای‪##‬ک مخص‪##‬وص پ‪##‬اپ‬
‫ستاروں‪ ،‬کھیلوں کے پرستار‪ ،‬کلب‪ ،‬مختلف انجمنوں کے اراکین ال سکتے ہیں‪ .‬نیو گ‪#‬نی‪،‬‬
‫انفرادی قوم‪ ،‬ایک نسل‪ ،‬کمپنی کی انتظامیہ کے قریب مظاہرین کے ایک ہجوم کے ق‪##‬بیلہ‬
‫باشندے بھی بڑے پیمانے پر سماجی کمیونٹیز ہیں‪.‬‬
‫دیگر تنظیموں کے درمیان ایک خاص جگہ نسلی گروہ لیت‪##‬ا ہے ‪ -‬مس‪##‬تحکم اپ‪##‬نی ثق‪##‬افت‪،‬‬
‫خود شعور کی طرف سے خصوصیات کے ساتھ‪ ،‬ایک خاص عالقے میں وقت کی ای‪##‬ک‬
‫طوی‪##‬ل م‪##‬دت کے رہ‪##‬نے والے لوگ‪##‬وں کی ای‪##‬ک مجم‪##‬وعہ ہے کہ اس ط‪##‬رح کی دوس‪##‬ری‬
‫انجمنوں سے اس فرق کا ہوش ہے‪ .‬ایتھنک کمیونٹی ‪ ،‬ای‪##‬ک اص‪##‬ول کے ط‪##‬ور پ‪##‬ر‪ ،‬زن‪##‬دہ‬
‫کے لئے کل زمین کے عالقے کی بنیاد پ‪##‬ر‪ ،‬ای‪##‬ک دوس‪##‬رے کے س‪##‬اتھ انس‪##‬انی ب‪##‬ات چیت‬
‫کے لئے تمام ضروری حاالت پیدا قائم ہے‪ .‬اس کے عالوہ‪ ،‬اس طرح کے طور پر ای‪##‬ک‬
‫سماجی برادری نسل پہلے ہی تشکیل دی‪ ،‬جب اس خصوصیت ثانوی اہمیت کا حام‪##‬ل ہ‪##‬و‬
‫جاتا ہے‪ ،‬یا اس سے بھی اس کی اہمیت کو کھو دیں‪ .‬کسی خاص نسل کے طور پر خ‪##‬ود‬
‫کی شناخت ہے جو لوگوں کو ایک ہی وقت میں‪ ،‬زمین کے مختلف کون‪##‬وں میں رہ س‪##‬کتا‬
‫اور یاد رکھیں اور ان کے نسلی گروہ‪ ،‬ان کی تعطیالت منانے کے لئے قائم کی روای‪##‬ات‬
‫کا احترام اور وہ طرز عمل کے بعض قوانین پر عمل‪.‬‬
‫شخص کی سماجیکرن انسانی نسل کے دیگر اراکین کے ساتھ اپ‪##‬نی ب‪##‬ات چیت کے بغ‪##‬یر‬
‫ن‪#‬اممکن ہے‪ .‬ہم میں س‪#‬ے ہ‪#‬ر ڈگ‪#‬ری مختل‪#‬ف میں‪ ،‬ای‪#‬ک س‪#‬ے تعل‪#‬ق نہیں ہے‪ ،‬لیکن ک‪#‬ئی‬
‫سماجی کمیونٹ‪#‬یز‪ .‬معاش‪#‬رے کے ب‪#‬اہر آدمی‪ ،‬ای‪#‬ک آدمی کی ط‪#‬رح محس‪#‬وس ک‪#‬رنے کے‬
‫لئے رہتا ایک جالوتن بن جاتا ہے‪.‬‬
‫‪ANS 05‬‬
‫‪1‬‬
‫غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب‬
‫سر پر بھوک منڈالئے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وس‪#‬ائل نہ ہ‪##‬وں‬
‫تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے ک‪##‬ئی مس‪##‬ائل میں‬
‫سے ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرائم‪ ،‬جہ‪##‬الت‪،‬‬
‫معاشرتی و اقتصادی پسماندگی ان کی جڑ غربت ہی ہے۔ غربت پر قابو پائے بغیر کس‪##‬ی‬
‫بھی معاشرے کا ترقی کی راہ پر گامزن ہون‪##‬ا ممکن نہیں۔ غ‪##‬ربت زدہ معاش‪##‬رے ک‪##‬ا س‪##‬ب‬
‫سے مظلوم طبقہ بچے ہیں جو زندگی کی بنی‪##‬ادی ض‪##‬روریات اور وال‪##‬دین کی ع‪##‬دم ت‪##‬وجہ‬
‫کے باعث شخصیت سازی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر نہ ص‪##‬رف ان کے ٓانے‬
‫والے کل پر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور ٓانے والی نسلیں بھی اس سے مت‪##‬اثر ہ‪##‬وتی ہیں۔ٓاپ‬
‫نے اکثر اپنے ارد گرد ایسے کئی چہرے دیکھے ہوں گے جن کی ٓانکھوں میں یہ س‪##‬وال‬
‫ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ہم سے امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ س‪##‬راپا س‪##‬وال چہ‪##‬رے یہ‬
‫جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ان کی ٓانکھیں پڑھ لکھ کر بڑا ٓادمی بن‪##‬نے ک‪##‬ا خ‪#‬واب نہیں دیکھ‬
‫سکتیں۔ وہ اپنے گھر کے بڑے کب تک گیراجوں اور ہوٹلوں کے چھوٹے بن کر زن‪##‬دگی‬
‫گزاریں گے؟ انہیں کیوں بے فک‪#‬ر بچپن‪ ،‬س‪#‬کون کی نین‪#‬د اور کھیل‪#‬نے ک‪#‬ودنے کے ل‪#‬یے‬
‫سہہ پہریں میسر نہیں؟ان کی ٓانکھیں ہر راہ گیر سے یہ سوال ک‪##‬رتی ہیں کے ان میں اور‬
‫ان شان دار گاڑیوں میں بیٹھے بچوں میں کیا فرق ہے؟ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کت‪##‬اب‬
‫اور ہمارے ہاتھوں میں مزدوری کے اوزار کیوں ہیں؟ ہم بھی تو بچے ہیں‪ ،‬ہمارا بھی تو‬
‫بچپن ہے۔ ہم بھی خواب دیکھنے والی ٓانکھیں اور خواہش‪##‬ات ک‪##‬رنے واال دل رکھ‪##‬تے ہیں‬
‫پھر اس معاشرے میں ہمارا کوئی پرسان حال کیوں نہیں۔ہمارے معاش‪##‬رے میں غ‪##‬ربت و‬
‫امارت کی اس تقسیم نے کئی معصوموں کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہمیں روز اپ‪##‬نے ارد گ‪##‬رد‬
‫کبھی کسی فٹ پ‪#‬اتھ پ‪#‬ر ت‪#‬و کبھی کس‪#‬ی ہوٹ‪#‬ل ی‪#‬ا ش‪#‬اہراہ پ‪#‬ر ننھے ننھے معص‪#‬وم م‪#‬زدور‬
‫دکھائی دی‪#‬تے ہیں۔ کبھی کچ‪#‬را چن‪#‬تے نظ‪#‬ر ٓاتے ہیں ت‪#‬و کبھی رزق حالل کی تالش انہیں‬
‫ادھ موا کردیتی ہے۔ ہماری بے حسی ہے کے روز ایسے کئی مناظر اپنی ٓانکھ‪##‬وں س‪##‬ے‬
‫دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ ہم چائلڈ لیبر کے خالف ٓاواز بلند نہیں ک‪##‬رتے کی‪##‬وں‬
‫کے در پ‪##‬ردہ اس میں ہم‪##‬ارا ہی فائ‪##‬دہ ہے۔ بچے ان ننھی کلی‪##‬وں اور کونپل‪##‬وں کی مانن‪##‬د‬
‫ہوتے ہیں جومستقبل میں کسی بھی ملک و قوم کے ل‪##‬یے ش‪##‬جر س‪##‬ایہ دار بن‪##‬تے ہیں۔ یہی‬
‫ہمارے مستقبل ک‪##‬ا معم‪##‬ار ہیں جن س‪#‬ے ہم نے ان ک‪##‬ا ٓاج چھین لی‪##‬ا ہے۔ یہی بچے ک‪##‬ل ک‪##‬و‬
‫حقوق کی عدم دست یابی و استحصال کے سبب غلط راہ پر گامزن ہو س‪##‬کتے ہیں۔ غ‪##‬ور‬
‫طلب بات یہ ہے کے ہم ہماری ٓانی والی نسلوں کوغربت و جہل زد ہ معاشرہ وراثت میں‬
‫سونپ کر جا رہے ہیں۔ یہ بچے جہ‪#‬اں رزق‪ ،‬تعلیم و ص‪#‬حت جیس‪#‬ے بنی‪#‬ادی حق‪#‬وق س‪#‬ے‬
‫محروم ہیں وہیں جبری مشقت‪ ،‬اغواء برائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے مظالم ک‪##‬ا بھی‬
‫ش‪##‬کار ہیں۔ دیگ‪##‬ر ممال‪##‬ک کی ط‪##‬رح پاکس‪##‬تان کے ٓائین میں بھی بچ‪##‬وں کے حق‪##‬وق کے‬
‫حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کی ضروریات کی طرح ان کے تحفظات کو بھی‬
‫نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر سال الکھوں بچے جنس‪##‬ی تش‪##‬دد ک‪##‬ا ش‪##‬کار ہ‪##‬وتے ہیں‪ ،‬اغ‪##‬وا‬
‫کرکے ان کے جسمانی اعضاء فروخت کیئے جاتے ہیں لیکن اہ‪##‬ل اقت‪##‬دار کے ک‪##‬انوں پ‪##‬ر‬
‫جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس اگر کسی امیر شخص کا بچہ اغ‪##‬وا ہوج‪##‬ائے ت‪##‬و‬
‫اس کی بازی‪##‬ابی کے ل‪##‬یے تم‪##‬ام ادارے ح‪##‬رکت میں ٓاج‪##‬اتے ہیں۔ ان بچ‪##‬وں کے حق‪##‬وق ک‪##‬ا‬
‫استحصال صرف اس لیے کے ان کا تعلق ای‪##‬ک ایس‪##‬ے گھ‪##‬رانے س‪##‬ے جہ‪##‬اں دو وقت کی‬
‫روٹی بھی میس‪##‬ر نہیں۔ یہ طبقہ حکمران‪##‬وں کی ترجیح‪##‬ات ک‪##‬ا کبھی حص‪##‬ہ نہیں رہ‪##‬ا۔ یہی‬
‫بچے جو ٓانے والے کل میں اس ملک و قوم کا مستقبل ہیں طبی سہولیات کی عدم فراہمی‬
‫اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گزش‪#‬تہ چن‪#‬د س‪#‬ال کے دوران پاکس‪#‬تان کے ریگس‪#‬تانی‬
‫عالقے تھرپ‪##‬ارکر اور چولس‪##‬تان میں خ‪##‬وراک کی کمی کے ب‪##‬اعث س‪##‬ینکڑوں بچ‪##‬وں کی‬
‫ہالکتیں ہوچکی ہیں۔دیگر بنیادی س‪##‬ہولیات کی ط‪##‬رح اس طبقے میں ش‪##‬رح خوان‪##‬دگی بھی‬
‫صفر ہے۔ صحت و خوراک کے ساتھ تعلیم کا حص‪##‬ول بھی ان بچ‪##‬وں کی پہنچ س‪##‬ے دور‬
‫ہے۔ غریب والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہ ک‪##‬رنے کے ب‪##‬اعث انہیں تعلیم دل‪##‬وانے ک‪##‬ا‬
‫ت‪##‬ردد نہیں ک‪##‬رتے بلکہ انہیں چھ‪##‬وٹی عم‪##‬روں س‪##‬ے ہی محنت و مش‪##‬قت کی بھ‪##‬ٹی میں‬
‫جھونک دیا جاتا ہے۔اس طبقے میں بچوں سے محنت مشقت اور مزدوری کروانا معمول‬
‫کی بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ڈھائی ک‪##‬ڑوڑ س‪##‬ے زائ‪##‬د بچے اس‪##‬کول نہیں‬
‫جاتے۔ اس کے برعکس امراء و وزراء کے بچوں کو پر تعیش زن‪##‬دگی بس‪##‬ر ک‪##‬رنے کے‬
‫ل‪##‬یے نہ ص‪##‬رف ہ‪##‬ر ٓاس‪##‬ائش میس‪##‬ر ہے بلکہ جدی‪##‬دو معی‪##‬ار ی تعلیم کی ف‪##‬راہمی کے ل‪##‬یے‬
‫باقاعدہ غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ ک‪#‬ا تق‪#‬رر کی‪#‬ا جات‪#‬ا ہے۔ یہ معاش‪#‬رتی س‪#‬طح پ‪#‬ر کھال‬
‫تضاد نہیں تو کیا ہے۔ یہ بچے تعلیم‪ ،‬خوراک‪ ،‬کھی‪#‬ل ک‪#‬ود‪ ،‬تف‪#‬ریح ہ‪#‬ر ش‪#‬ے س‪#‬ے مح‪#‬روم‬
‫کردیے گ‪##‬ئے ہیں۔ غ‪##‬ریب ہون‪##‬ا گوی‪##‬ا گن‪##‬اہ عظیم ہوگی‪##‬ا ہے۔ وس‪##‬ائل کی کمی کے س‪##‬بب یہ‬
‫پسماندہ زن‪##‬دگی گ‪##‬زارنے پ‪##‬ر مجب‪##‬ور ہیں لیکن س‪##‬ماجی و معاش‪##‬رتی رویے انہیں جنس‪##‬ی‪،‬‬
‫جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ غربت سے بر سر پیکار ہونے کے س‪##‬اتھ‬
‫ساتھ جنسی و نفسیاتی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کے خالف اب‬
‫تک جتنی بھی قانون سازی کی گئی اور جس قدر تعزیرات بھی متعارف کروائی گئیں ان‬
‫کے خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہو سکے بلکہ ملک میں منشیات کا استعمال اس‪#‬ی ق‪#‬در‬
‫تیزی سے پھیال۔ حتٰی کہ اب منشیات ہم‪#‬ارے تعلیمی اداروں میں بھی داخ‪#‬ل ہ‪#‬و گ‪#‬ئی ہیں۔‬
‫حکومت نے بھلے سے منشیات کنٹرول ت‪##‬رمیمی ایکٹ ‪2022‬ءمیں مختل‪##‬ف ن‪##‬وع ک‪##‬ا نش‪##‬ہ‬
‫کرنے والوں کے لیے بھاری بھرکم جرمانے اور سزائیں تجویز کی ہیں لیکن یہ ص‪##‬رف‬
‫فائلوں کی حد تک ہی ہیں۔ عمًال ان کا نفاذ نہ تو ماضی میں کبھی ہوا اور نہ ہی آئن‪##‬دہ اس‬
‫کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ ک‪##‬رنے والے انتہ‪##‬ائی ب‪##‬ااثر ل‪##‬وگ ہیں۔ یہ‬
‫ایک مافیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک منشیات کی اسمگلنگ میں کبھی کوئی بڑا ک‪##‬ردار‬
‫یا سرغنہ نہیں پکڑا گیا۔ عموم‪ً#‬ا اس کے کارن‪##‬دے ہی ق‪##‬ابو میں آتے ہیں۔ س‪##‬وال یہ ہے کہ‬
‫جب منشیات کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بھی موجود ہیں‪ ،‬سپیشل عدالتیں بھی ق‪##‬ائم‬
‫ہیں تو پھر یہ مکروہ دھندہ کس طرح پھیلتا پھولتا جا رہا ہے؟ اس کا سادہ ج‪##‬واب ت‪##‬و یہی‬
‫ہے کہ قوانین پر عم‪##‬ل درآم‪##‬د ک‪##‬ا نظ‪##‬ام غ‪##‬یرمو¿ث‪##‬ر ہے۔ ہ‪##‬ر جگہ منش‪##‬یات فروش‪##‬وں کے‬
‫سہولت کار موجود ہیں جو انھیں قانون کے شکنجے میں کسنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔‬
‫اب تو ہماری سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ دینے والوں میں بھی جرائم پیشہ مافی‪##‬از ک‪##‬ا ن‪##‬ام‬
‫لیا جاتا ہے جو انتخابی سیزن میں اپنے پسندیدہ سیاست دان‪##‬وں کی م‪##‬الی م‪##‬دد ک‪##‬رتے اور‬
‫اس کے عوض مفادات حاص‪##‬ل ک‪##‬رتے ہیں۔ ان ح‪##‬االت میں جس ق‪##‬در س‪##‬خت س‪##‬زائیں بھی‬
‫تجویز کرلی جائیں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اس مکروہ دھندے پر ق‪##‬ابو‬
‫پانے اور اس کے انسداد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عوام میں آگاہی مہم چالئے۔‬
‫لوگوں کو قانون کے بارے میں جان کاری ہوگی اور ان میں شعور پیدا ہوگا تو اس س‪##‬ے‬
‫بچاﺅ کی بھی صورت نکالی جا سکے گی۔ فوری فیصلے اور سزاﺅں پ‪##‬ر بالت‪##‬اخیر عم‪##‬ل‬
‫درآمد بھی اس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حام‪##‬ل ہے۔ عالوہ ازیں‪ ،‬اگ‪##‬ر حک‪##‬ومت واقعی‬
‫جرائم کا تدارک چاہتی ہے تو اس‪##‬ے ق‪##‬انون ناف‪##‬ذ ک‪##‬رنے والے اداروں کی ک‪##‬اکرردگی ک‪##‬و‬
‫بہتر بنانا ہوگا۔‬
‫‪2‬‬
‫قدامت پسندی اپ‪##‬نی اق‪##‬دار اور روای‪##‬ات کے محاف‪##‬ظ ک‪##‬و روایت پرس‪##‬ت‪ ،‬ق‪##‬دامت پرس‪##‬ت ی‪##‬ا‬
‫قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ قدامت پسندی س‪#‬ے م‪#‬راد سیاس‪#‬ی‪ ،‬س‪#‬ماجی‪ ،‬اخالقی روای‪#‬ات پ‪#‬ر‬
‫ڈٹے رہنا‪ ،‬تبلیغ و ترویج کرنا اور ان کی حمایت کرن‪##‬ا ہے۔ انس‪##‬ان فطرت‪ً#‬ا مہم ج‪##‬و‪ ،‬ج‪##‬دت‬
‫پسند‪ ،‬حریص اور یکسانیت سے بیزار واقع ہوا ہے۔ انسان کے ح‪#‬ریص ہ‪##‬ونے ک‪##‬ا ان‪##‬دازہ‬
‫اس ب‪##‬ات س‪##‬ے بخ‪##‬وبی لگای‪##‬ا جاس‪##‬کتا ہے کہ جنت جیس‪##‬ی جگہ پ‪##‬ر بھی اس‪##‬ے ب‪##‬یزاریت‬
‫محسوس ہونے لگی اور پھ‪##‬ر جب زمین جیس‪#‬ی آزاد فض‪##‬اء میں ق‪#‬دم رکھ‪##‬ا تب بھی اس‪#‬ے‬
‫سکون میسر نہ ہوا اور لحظہ بہ لحظہ نت نئے تجربات اور نئی چیزوں سے آش‪##‬نائی اس‬
‫کا مشغلہ بن گئی اور ظاہری طور پر اس میں مضائقہ بھی نہیں کیونکہ تنوع اس کائن‪##‬ات‬
‫کا حسن ہے۔ ہم نے قدامت پسندی کو روگ اس لئے کہا ہے کہ اس کا تعل‪##‬ق ہم اق‪##‬دار اور‬
‫کلچر میں ڈھل جانے کو نہیں لے رہے بلکہ اس ک‪#‬ا مقص‪#‬د ص‪#‬رف نظری‪#‬ات اور مختل‪#‬ف‬
‫تص‪##‬ورات ک‪##‬و قب‪##‬ول ک‪##‬رنے اور انہیں اپ‪##‬نی عملی زن‪##‬دگی میں الگ‪##‬و ک‪##‬رنے میں جھج‪##‬ک‬
‫محسوس کرنے کی حد تک لیا جا رہا ہے۔ یعنی دنیا میں اگر کوئی چیز متعارف ک‪##‬روائی‬
‫گئی ہے اور ظاہری طور پر وہ آپ کی معاش‪##‬ی اور س‪##‬ماجی زن‪##‬دگی کے ل‪##‬ئے فائ‪##‬دہ من‪##‬د‬
‫معلوم ہوتی ہے تو آپ کو اپنی حدود اور متعین شدہ روایات کے اندر رہتے ہ‪##‬وئے اس‪##‬ے‬
‫قب‪#‬ول ک‪#‬رنے میں ک‪#‬وئی ع‪#‬ار محس‪#‬وس ک‪#‬رنے کی ض‪#‬رورت نہیں۔ ف‪#‬رض ک‪#‬ریں اگ‪#‬ر ہم‬
‫انگریزی زبان اور اس کے نفاذ کی ب‪##‬ات ک‪##‬رتے ہیں ت‪##‬و ہمیں یہ تس‪##‬لیم کرلین‪##‬ا چ‪##‬اہیے کہ‬
‫ادب ہمیشہ زبان کی قید سے آزاد ہوت‪##‬ا ہے ت‪##‬و ادب ک‪##‬و ادب کے پ‪##‬یرائے میں لے ک‪##‬ر ہی‬
‫سمجھا جائے اور اس کو سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ انگریزی زبان پر کس‪##‬ی خ‪##‬اص‬
‫عالقے یا خطے کی اجارہ داری نہیں بلکہ وہ ص‪##‬رف ای‪##‬ک زب‪##‬ان ہے ج‪##‬و ہ‪##‬ر اس طبقے‬
‫کی ہو سکتی ہے جو اسے استعمال کر لے گا۔‬
‫رہی بات کسی زبان کے تسلط کی تو بڑی سکرین پر ہمیشہ زبان استعمال ہوگی جو ق‪##‬وم‬
‫معاشی اور استعماری طور پر خود کو من‪##‬وائے گی اور ہم ہیں کہ معاش‪##‬ی ط‪##‬ور پ‪##‬ر کچھ‬
‫کرنے کی بجائے صرف لفاظی طور پر کسی زبان سے انکاری ہ‪##‬ونے ک‪##‬و حب الوط‪##‬نی‬
‫قوم پرس‪##‬تی اور روایت پس‪##‬ندی کے ل‪##‬ئے ای‪##‬ک بہت ب‪##‬ڑی قرب‪##‬انی گ‪##‬ردان لی‪##‬تے ہیں۔ اگ‪##‬ر‬
‫پاپائے روم کا سکہ دنیا پر چل رہا تھا تو رومن زب‪##‬ان اپ‪##‬نی ت‪##‬رویج کے زوروں پ‪##‬ر تھی‪،‬‬
‫پھر یونانیوں نے دنیا کو اپنی صالحیتوں سے متحیر کیا تو یونانی زبان کا بول باال ہونے‬
‫لگا۔ جب فرانسیسی دنیا پر قبضہ جمانے کا سوچ رہے تھے تو فرانسیسی زبان کو پرواز‬
‫کا موقع مال۔ الطینی لوگ جب اپنی تحقیق سے دنیا کو نیا س‪##‬ورج دکھ‪##‬ا رہے ت‪##‬و الطی‪##‬نی‬
‫زبان کو اہم گردانا جانے لگا۔ انہی تمام اسباب کو دیکھتے ہوئے برط‪##‬انیہ کے ل‪##‬وگ ج‪##‬و‬
‫اس وقت ایک منتشر قوم کی مانند تھے‬
‫اپنی ایک الگ زبان بنانے پر سوچنے لگے ج‪##‬و کہ ان س‪##‬ب زب‪##‬انوں ک‪##‬ا آم‪##‬یزہ تھی۔ پھ‪##‬ر‬
‫تحقیق و تنقید کا سایہ ان پر مہربان ہوا تو ساری قوموں کو اسی آمیزے کو ہی اہمیت دینا‬
‫پڑی۔‬
‫امریکہ نے اگرچہ دنیا پر اپن‪##‬ا ڈنک‪##‬ا بج‪##‬انے میں حص‪##‬ہ ڈال لی‪##‬ا ہے لیکن چ‪##‬وں کہ ان کی‬
‫اپنی الگ سے زبان موجود نہ تھی اس لئے وہ الگ لہجہ اپنا ک‪##‬ر ہی خ‪##‬وش ہیں اور وہی‬
‫الگ لہجہ ہی اب دنیا پر راج کرے گا جلد۔‬
‫یہاں یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ روس اور چائنہ نے بھی تو دنی‪#‬ا پ‪#‬ر راج ک‪#‬رنے‬
‫میں اپنا مقتدرہ حصہ ڈاال ہے تو ان کی زبان کو وہ اہمیت اور مقام کیوں نہیں مل سکا؟‬
‫اس سوال کا دو ٹوک جواب ہمارا اپنا موضوع ہی ہے۔ کسی زبان کے عالمی منظرنامے‬
‫پر مقبولیت کے سفر کو طے کرنے کے لئے اس کا لچک دار‪ ،‬سہل اور موض‪##‬وع ت‪##‬رین‬
‫ہونا بہت ضروری ہے جو کہ روسی اور چینی زبان میں نای‪##‬اب ہیں اور انگری‪##‬زی زب‪##‬ان‬
‫میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انگری‪##‬زی زب‪##‬ان نے جس بھی خطے اور عالقے ک‪##‬ا س‪##‬فر کی‪##‬ا‬
‫اسی عالقے کے مخصوص اور مستعمل الفاظ اور استعارات کو اپن‪##‬انے میں ک‪##‬وئی ع‪##‬ار‬
‫محسوس نہیں کی اور یہی اس کی پھلنے پھول‪##‬نے ک‪##‬ا راز ہے ج‪##‬و اس ک‪##‬و ہ‪##‬ر دل عزی‪##‬ز‬
‫زبان بنانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔‬
‫اردو زبان میں کسی حد تک یہ خصوصیت ہے لیکن کچھ نابالغ اذہان اس ب‪##‬ات ک‪##‬و تس‪##‬لیم‬
‫کرنے سے ناالں نظر آتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ شاید اس طرح زبان آلودہ ہو جائے‬
‫گی حاالنکہ ایسا بالکل نہیں۔ ہمارے ہاں قدامت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ج‪##‬و ص‪##‬احب علم‬
‫لوگ ہیں وہ اپنا مدعا سمجھانے سے قاص‪##‬ر ہیں اور ج‪##‬و ل‪##‬وگ دین کے ب‪##‬ارے کچھ نہیں‬
‫جانتے وہ تبلیغ کر رہے ہیں اغیار کے سامنے اور اسی وجہ سے تو وہ اسالم کا درس‪##‬ت‬
‫امیج پیش کرنے سے رہے۔‬
‫اسالموفوبیا اور اس سے جڑے مختلف مسائل کو مغ‪##‬رب کے س‪##‬امنے درس‪##‬ت ان‪##‬داز میں‬
‫پیش ک‪###‬رنے کی اش‪###‬د ض‪###‬رورت ہے لیکن مس‪###‬ئلہ یہ ہے کہ وہ ہم‪###‬ارے خطے ک‪###‬و ت‪###‬و‬
‫سمجھانے کی ض‪##‬رورت نہیں‪” ،‬ہم خی‪##‬ال ک‪##‬و ہم خی‪##‬ال“ بن‪##‬انے والی ب‪##‬ات ہے۔ یہ س‪#‬ب ان‬
‫لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو ہماری تہ‪##‬ذیب و ت‪##‬اریخ س‪##‬ے نابل‪##‬د ہیں اور ان‬
‫کو ہم یہ سب کسی ایسے واس‪#‬طے اور زب‪#‬ان کے ذریعے س‪#‬مجھا س‪#‬کتے ہیں ج‪#‬و ان کی‬
‫سمجھ آئے اور اس کے لئے ہمیں ان کی زبان سیکھنے کی ضرورت بھی ضرور پ‪##‬ڑے‬
‫گی۔‬
‫دوسرا اہم مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے‪ ،‬وہ صنعتی اور معاشی ذرائع کو قبول نہ کرنے ک‪##‬ا‬
‫ہے جو ہمیں مغرب سے معلوم ہوں اور یہ ہماری قوم س‪##‬ے ہ‪##‬ونے والی س‪##‬ب س‪##‬ے ب‪##‬ڑی‬
‫کرپشن ہے۔ میں یہاں پر وجاہت مسعود صاحب کی جن‪##‬گ کے اداریے میں لکھی ج‪##‬انے‬
‫والی جنوری ‪ 2017‬کی بات کو ہی شامل کرنا چاہوں گا۔‬
‫” اصل کرپشن یہ ہے کہ مسلم قدامت پسند ذہن جدید علم کی بنیاد پر پی‪##‬داواری‪ ،‬ص‪##‬نعتی‬
‫اور تجارتی معیشت کی دنیا میں داخل ہ‪##‬ونے س‪##‬ے گری‪##‬زاں ہے۔ مس‪##‬لم اکثری‪##‬تی دنی‪##‬ا کے‬
‫کلچ‪##‬ر کی چ‪##‬ار بنی‪##‬ادی خصوص‪##‬یات ہیں۔ تش‪##‬دد‪ ،‬ن‪##‬ا انص‪##‬افی‪ ،‬اونچ نیچ اور تب‪##‬دیلی کی‬
‫مزاحمت۔ یہ ناکامی کا نسخہ ہے۔ “‬

You might also like