Professional Documents
Culture Documents
5415 2
5415 2
جب آبادی میں اضافے کی شرح معاشی اور سماجی ترقی کی رفتار سے زیادہ ہو تو اس
صورت حال کو کثرت آبادی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے س##اتھ معاش##ی
وسائل میں بھی اضافہ ہوتا اگر آبادی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ تاہم اگر آبادی بڑھ##تی ہے اور
وسائل یکساں رہے تو سماجی مسائل پیدا ہوں گے اور معاش##رے پ##ر منفی اث##رات م##رتب
ہوں گے۔
معاشرے پر کثرت آبادی کے اثرات درج ذیل ہیں؛
٭آبادی میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہ##ونے کی وجہ س##ے کم##انے وال##وں ک##و اپ##نے
زیر کفالت بچوں اور خواتین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زی##ادہ ک##ام کرن##ا پڑت##ا
ہے۔ملک کی ترقی کے لیے تمام وسائل بروئے کار الئے جائیں۔ اب بڑھ##تی ہ##وئی آب##ادی
کی تعلیم ،صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی پر خ##رچ کی##ا ج##ا رہ##ا ہے جس
سے ملکی معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں معاشی ترقی کے منصوبوں کا فق##دان
ہے ،نوجوان مایوس ہوتے ہوئے نوجوانوں کو خوشحالی کی روشنی دکھا سکتے ہیں۔
٭تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی غربت ،بے روزگاری ،معاشی و سماجی ب##دحالی ،ج##رائم
اور دیگر سماجی برائیوں کو فروغ دے رہی ہے۔
٭روزگار اور آرام دہ زندگی کے حصول کے لیے گہ#رے عالق#وں س#ے نق#ل مک#انی ک#ا
رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے شہروں میں لوگوں ک##ا ہج##وم ،مکان##ات
کی قلت ،صفائی کا ن##اقص انتظ##ام ،تعلیم کی کم س##طح اور خ##وراک کی قلت ہے جس کی
وجہ سے لوگوں کو مشکالت کا سامنا ہے۔ .ہے
٭بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ س#ے فی کس آم##دنی میں بھی کمی واق#ع ہ##وتی ہے جس نے
مہنگائی کو جنم دی##ا ہے جس ک##ا ب##راہ راس##ت اث##ر اف##راد کی ص##حت ،جس##مانی اور ذہ##نی
نشوونما اور عصری زندگی پر پڑتا ہے۔ سماجی بدحالی اور بدنظمی ب#ڑھ ج#اتی ہے اور
ملک سماجی مسائل کا شکار ہوتا ہے۔
٭ملک کے سرمائے کا بڑا حصہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے پ##ر خ##رچ
ہونا شروع ہو جاتا ہے نہ کہ زیادہ سرمایہ پیدا کرنے پر۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان توان##ائی
اور مہنگائی کے بحران میں پھنسا رہے گا۔
٭بڑھتی ہوئی آب#ادی نہ ص#رف مس#ابقتی منص#وبوں کے ل#یے نقص#ان دہ ہے بلکہ معی#ار
زندگی کو بہتر بنانے کا ہدف کسی حد تک خواب ہی رہ جاتا ہے۔
٭کثرت آبادی کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کی وجہ س##ے ق##درتی وس##ائل اور لوگ##وں
کی تعداد کا توازن بگڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔ چونکہ اکثریت کا انحصار زراعت پر ہے اور
زرعی وسائل کم ہیں اس لیے بہت سے خاندان غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
.اس طرح حد بندی کی وجہ سے آنے والی نسلوں کی فالح و بہبود بھی متاثر ہوتی ہے۔
پیتے بچے کم عمری میں ہی موت کا شکار ہو ج#اتے ہیں ۔ بچ#وں کی اس ش#رح ام##وات
کے پیش نظر دنیا کے بہت سے غریب ممالک میں اکثر لوگ زیادہ بچے پیدا ک##رتے ہیں
جس کی وجہ سے بڑے کنبے وجود میں آتے ہیں اورآ با دی میں اضافے کاب##اعث بن##تے
ہیں ۔
٭سن 19ویں اور 20ویں صدی میں ہونی والی عالمی سطح پ##ر تب##دیلیاں اور ٹیکن##الوجی
نے دنیا میں آبادی کی صورت حال کا فی تبدیل کر دی تر قی یافتہ ممالک میں خواتین کا
روزگار میں شامل ہونا وہاں پر آب##ادی میں کمی کاب##اعث بن##ا ت##و ت##رقی پ##ذیر ممال##ک میں
جدید سہولیات زندگی نے شرح اموات کو قابو کیا اور چ##ونکہ زرعی معیش##ت ہ##ونے کی
وجہ سے شرح افزائش کو قابونہیں کیا جاسکا اور یوں ترقی پذیر ممالک میں ک##ثرت آب##ا
دی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن کر ابھری۔
٭پاکستان جیسے ممالک میں اضافہ آب##ادی کی ای##ک ب##ڑی وجہ ق##دامت پرس##تی بھی ہے ۔
لوگ پرانے ریت رواج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ جدید رجحانات کو تسلیم کرنا اکثریت
کے لئے کافی مشکل ہے ۔ آج بھی پاکس#تان میں بی#ٹے کی خ#واہش میں بی#ٹیوں کی قط#ار
پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ج##و نہ ص##رف ملکی معیش##ت پ##ر ب##وجھ میں
اضافہ کا باعث بنتا جا رہا ہے بلکہ انفرادی طور پر خاندان میں بہت سے مسائل ک##و جنم
دیتا ہے ۔
٭نا خواندگی کی وجہ سے پاکستان میں آج تک آبادی کے کنٹرول سے متعلق پروگرام##ز
اور پالیسیاں خاطر خواہ نتائج نہیں حاص#ل کرس#کیں ۔ل#وگ اف#زائش اوالدکن#ٹرول ک#رنے
کے طریقوں کے بارے میں ہی بنیا دی آ گاہی نہیں رکھتے ۔اور ی##وں پاکس#تان میں پھیلی
گئی دہائیوں سے آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔
٭پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ اوالد کابڑھ##اپے ک##ا س##ہارا ہون##ا بھی
ہے ۔ پاکستان جیسے ملکوں میں چونکہ ریاست کی طرف س##ے بچ##وں اور بوڑھ##وں کی
سوشل سیکورٹی کے لئے ک##وئی خ##اطر خ##وا ہ انتظ##ام نہیں ہوت##ا لہ##ذا اپ##نے بڑھ##اپے ک##و
محفوظ کرنے کے لئے بھی لوگ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ روایتی معاشرہ ہ##ونے کے
ناطے پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں شادی کرنا ان سے ک##ثرت اوالد کے امک##ان
کو بڑھاتا ہے۔
٭پاکستان جیسے ملکوں میں اکثر یہ تصور کیا جا تا ہے کہ زیا دو ب##ڑے کن##بے معیش##ت
کے لئے سہارا بنتے ہیں ۔ پاکستان میں زیا دہ بچے معاش##ی آم##دنی ک##ا ای##ک اچھ##ا خاص##ا
ذریعہ سمجھے ج##اتے ہیں ۔ کی##ونکہ مناس##ب تعلیمی س##ہولتیں نہیں ہ##وتیں اس ل##ئے زی##ادہ
بچوں کی پرورش نسبتا ان کی کمائی سے مشکل نہیں ہے ۔ ہم##ارے دیہ##اتوں میں ل##ڑکے
اور لڑکیاں صرف کھیتوں میں کام کرتے ہیں بلکہ مویش##یوں کی دیکھ بھ##ال اوران س##ے
متعلقہ دیگر کام سرانجام دیتے ہیں ۔ جبکہ شہروں میں یہ لوگوں کے گھروں میں کام کر
کے خاندان کی معیشت میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔
٭پاکستان میں کثرت آب#ادی کی ای#ک ب#ڑی وجہ ان#دھی م#ذہبی تقلی#د بھی ہے ۔ یہ#اں اک#ثر
مذہبی دالئل چھوٹے کنبوں کی مخالفت میں ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر اکثر یہ کہ##ا ج##ا
تا ہے کہ جو بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے و ہ ا پنی خوراک اپنے ساتھ خ##و دالت##ا ہے ی##ا
یہ جس کی روح نے اس دنیا میں آنا ہوتا ہے وہ ضرور آتی ہے ۔
٭حکومتی سطح پر آبا دی کے کنٹرول س##ے متعل##ق پروگرام##وں ک##ا فق##دان ہون##ا ن##یز ج##و
پروگرامز میں ان کا ناقص ہونا بھی لوگوں میں چھوٹے کنبے کی افادیت ک##ا ش##عور پی##دا
کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔
٭ذاتی وجوہات جیسے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینا بچوں س##ے محبت ،ای##ک س##ے
زیادہ شادیوں کی خواہش ،ایک بڑے کنبے ک##ا س##ربراہ ہ##ونے کی خ##واہش ،ب##رادری میں
مق##ام و غ##یرہ بھی پاکس##تان میں ک##ثرت آب##ادی کے اس##باب میں س##ے ہیں اس کے عالوہ
پاکستان میں تفریحات مثال کھیل کود کے میدان ،پارک ،میلوں کا انعق##اد ،نم##ائش وغ##یرہ
کی کمی بھی بڑی جہ سے اضافہ آ با دی کی کیوں کہ لوگوں کے پ##اس ف##ارغ اوق##ات ک##ا
صحیح استعمال موجودنہیں ہوت##ا ۔ لہ##ذا ف##ارغ وقت میں گھ##روں میں بیٹھ ک##ر گزارن##ا بھی
اضافہ آبادی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں ۔ عورت##وں ک##ا معاش##رے میں کم ت##ر مق##ام اس
مسئلے کو اور بھی سنگین بناتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں مرد کی حکمرانی ہ##و وہ##اں
عورت اس کے باوجود کہ بعض اوقات بچے پیدا نہیں کرنا چاہتی ایسا نہیں کر پاتی۔
ANS 02
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے
ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے ک##ام ک##رنے والےای##ک غ##یر
س#################رکاری ادارے ’س#################احل‘ نے ج#################اری ک#################یے ہیں۔
رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ 2016کے دوران بچوں سے جنسی زی##ادتی اور تش##دد
کے واقعات میں دس فیص##د اض##افہ ہ##وا ہے۔ ادارہ کہت##ا ہے کہ گذش##تہ ب##رس بچ##وں س##ے
جنسی زیادتی سمیت اغوا ،گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139کیس رجس##ٹرڈ ہ##وئے
اور یہ تع#############داد 2015کے مق#############ابلےمیں دس فیص#############د زی#############ادہ ہے۔
کرؤول نم#برز‘ ی#ا ’ظالم#انہ اع#داد و ش#مار‘ کے عن#وان س#ے ش#ایع کی ج#انے والی اس
رپورٹ کے لیے ادارے نے 86قومی ،عالقائی اور مقامی اخبارات کی نگرانی کی۔
گذشتہ برس بچوں کے خالف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ُان میں اغ##وا کے
1455کیس ،ریپ کے 502کیس ،بچ#وں کے س#اتھ ب##دفعلی کے 453کیس ،گین##گ ریپ
کے 271کیس ،اجتم##اعی زی##ادتی کے 268کیس جبکہ زی##ادتی ی##ا ریپ کی کوش##ش کے
362کیس س ##################################################################################################امنے آئے۔
ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی ک##ا ش##کار ہ##ونے والے بچ##وں ک##ا قت##ل
ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے ُک ل 100واقع##ات س##امنے آئے۔
ادارے کی تحقیقات کےمطابق بچوں سےجنسی زی#ادتی اور تش#دد ک#رنے والے مجرم#ان
میں گھر کے اندر کے افراد ،رشتہ دار اور واقِف کار بھی ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ سال بھی۔ بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی ج##و بچ##وں
کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد 1765ہے۔ 798اجن##بی589 ،ا جن##بی واق##ف ک##ار 76 ،رش##تہ
دار 64 ،پڑوسی 44 ،مولوی 37 ،اساتذہ اور 28پولیس والے بھی بچوں پر جنس##ی تش##دد
میں مل##################################وث پ##################################ائے گ##################################ئے۔
ادارے نے ایس##ے لوگ##وں کی نش##اندہی ک##رتے ہ##وئے لکھ##ا ہے کہ ’یہ ل##وگ بچ##وں ک##و
پھسانے کے لیے تحائف کی پیش##کش ک##رتے ہیںُ ،ان س##ے محبت ک##ا اظہ##ار اور مختل##ف
کاموں میں ُان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ جنسی زیادتی میں کامیابی کے بعد یہ افراد بچ##وں
پر اس راز کو خفیہ رکھنے کے لئے دبأو بھی ڈالتے ہیں۔ ‘
رپ##ورٹ کے مط##ابق س##ال 2016میں پاکس##تان کے دیہی عالق##وں س##ے 76فیص##د جبکہ
ش########ہری عالق########وں س########ے 24فیص########د واقع########ات رپ########ورٹ ہ########وئے۔
ان میں زیادتی کے واقعات کی شرح کچھ یوں رہی :پنجاب میں ،2676س##ندھ میں ،987
بلوچستان میں ،166اسالم آب##اد میں ،156خی##بر پختونخ##وا میں ،141پاکس##تان کے زیِ#ر
انتظام کشمیر میں نو ،اور گلگت بلتستان سے چار واقعات رپورٹ ہ##وئے جبکہ اس س##ال
فاٹا سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 11سے 18سال
کے بچے سب سے زیادہ اغوا ہوئے۔ 16سے 18سال کی لڑکیوں کے اغوا کے واقعات
میں اضافہ جبکہ لڑکوں کے اغوا کے واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
کم عم##ری کی ش##ادی کے ُک ل 176واقع##ات میں س##ے 112ص##وبہ س##ندھ میں جبکہ 43
پنج################################اب میں رپ################################ورٹ ہ################################وئے۔
ادارے نے ذرائع ابالغ میں متاثرہ بچ##وں کی ش##ناخت ظ##اہر ک##رنے پرافس##وس ک##ا اظہ##ار
کرتے ہوئے لکھ##ا ہے کہ مل##ک میں خ##بر کی رپورٹن##گ کے ب##ارے میں ض##ابطۂ اخالق
موجود ہونے کے باوجود 47فیصد بچوں کے نام 23 ،فیصد بچ##وں کے وال##دین کے ن##ام
جبکہ چھ فیص#####د واقع#####ات میں ن#####ام کے س#####اتھ تص#####اویر بھی ش#####ائع کی گ#####ئیں۔
رپورٹ۔ کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے وال##وں کی
بڑی تعداد ان کے رشتہ داروں اور جاننے والوں کی ہوتی ہے
دہشت گ##ردی کی اص##طالح ک##ا کین##وس بہت ب##ڑاہے۔مث##ال کے ط##ورپرفی زم##انہ ُد نی##اکے
مختلف خطوں اور ممال##ک میں تین نظری##ات کے تحت مس##لح جدوجہ##د ہ##ورہی ہیں۔بعض
ممالک میں مذہبی بنیاد پر مسلح جدوجہدہورہی ہیں۔ بعض ممالک میں قومیت کی بنیاد پر
توبعض ممالک میں الدینی یادوسرے لفظوں میں ترقی پسند یا کمیونزم کی بنیاد پرمس##لح
جدوجہ###د ہ###ورہی ہیں۔آج کی اس نشس###ت میں ہم ق###ومی اور الدی###نی قوت###وں کی مس###لح
سرگرمیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے مذہبی مس#لح ک#اروائیوں ک#وزیربحث الئیں گے۔
اگرمزیدگہرائی کے ساتھ اس موضوع ک##و زی##ربحث الیاج##ائے ت##و میں کہونگ##اکہ م##ذہبی
مسلح کاروائیوں کاکینوس بھی بہت بڑاہے۔ کیونکہ ُد نیاکے بڑے مذاہب جیسے عیس##ایت،
یہودیت ،ہندومت اور اسالم وغیرہ کے پیروکاروں نے تاریخ کے مختلف ادوارمیں مسلح
جدوجہدکیں ہیں اورُان تمام مذاہب کے پیروکاروں کی مسلح جدوجہداس عنوان کے تحت
شمارہونگی۔ لہذا مذہبی مسلح سرگرمیوں میں ہماراموضوع ُسخن اس##الم ہے۔ لیکن اس##الم
کے بھی مختلف مکاتب فکرکے پیروک##اروں نے ت##اریخ کے کس##ی نہ کس##ی موڑپرمس##لح
جدوجہدکیں ہیں۔ لہذا اسالم کے اندرہم دوسرے مکاتب فکرکوایک ط##رف رکھ##تے ہ##وئے
سلفی مکتب فکر ()Salafismکے پیروکاروں کی حالیہ دہشت گردانہ ک##اروائیوں ک##و آج
زیربحث الئیں گے۔سلفی اور دیوبند مک##اتب فک##رکے اتحادس##ے آج اس قدرم##ذہبی دہش##ت
گردتنظیمیں وجودمیں آنے کے بعدُد نیاکے کئی خطوں میں پھیل چکی ہیں کہ ُان سب کی
جنگی حکمت عملی##وں اور تزوی##راتی حمل##وں ک##ا بغورمش##اہدہ کرناای##ک ش##خص کیل##ئے
ناممکن نہیں تومشکل ضرورہے۔
م#روجہ بین االق#وامی ُاص#ول کے مط#ابق مس#لح جدوجہ#دایک فری#ق کے نزدی#ک دہش#ت
گردی کی حیثیت رکھتی ہے توفریق مخالف کیلئے ُحریت و آزادی کی مقدس جنگ۔
وجوہات اور اثرات:۔
آج کی اس نشست میں ہم سلفی اور دیوبندمکاتب فکرکی دہشت گردی کی ک##اروائیوں کی
وجوہات کااگرمجموعی جائزہ لیں تواس موضوع کے پھیلنے کاامکان پیداہوجاتاہے۔سلفی
اوردیوبن##دمکاتب فک##رکی مس##لح ک##اروائیوں اور دہش##ت گ##ردی کے واقع##ات کومجم##وعی
طورپردوحص##وں میں تقس##یم کیاجاس##کتا ہے۔ ای##ک حص##ہ اس پ##ر مش##تمل ہے جس##میں یہ
مذہبی دہشت گردتنظیمیں دوسرے مذاہب اور مکاتب فکرکودہشت گردی کانش##انہ بن##ارہی
ہیں۔جبکہ دوس##را حص##ہ اس پ##ر مش##تمل ہے جس##میں اس خطے کے اہ##ل تش##یع کونش##انہ
بنایاجارہاہے۔ لہذا تنگئی وقت کومِد نظررکھتے ہ##وئے میں اپ##نے اس مق##الے کواہ##ل تش##یع
اورہزارہ ق#وم کے س#اتھ رونم##اہونے والے م##ذہبی دہش#ت گ##ردی کی وجوہ##ات اوراث##رات
پرمرکوزکرناچاہتاہوں۔
اس سلس###لے میں پہالس###وال یہ پی###داہوجاتاہے کہ اہ###ل تش###یع اورہ###زارہ ق###وم کے س###اتھ
رونماہونے والے مذہبی دہشت گردی کے واقعات ک##ا ت##اریخی پس منظ##ربھی ہے ی##انہیں؟
جب تک ہم تاریخی پس منظرکاجائزہ نہیں لیں گے تب ت##ک ش##ایدہم ص##حیح ن##تیجہ اخ##ذنہ
کرسکیں۔
س##لفیوں کی دہش##ت گ##ردانہ ک##اروائیوں کی وجوہ##ات پرغورکیاج##ائے ت##وہمیں دووجوہ##ات
نظ##رآئیں گی۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ س##لفیوں کے م##ذہبی پیش##واؤں اور ام##اموں نے اپ##نے
پیروکاروں کوایسی کاروائیاں کرنے کیلئے مذہبی طورپرپابن##دبنایاہے۔آپ س##ب حض##رات
اس حقیقت سے باخبرہیں کہ اہل سنت کے چ#ارآئمہ ک##رام ہیں۔ یع##نی ام##ام ابوح#نیفہ ،ام##ام
مالک ،امام ادریس شافعی اور امام احمدبن ُحنب##ل۔ ان چ#ارمیں س#ے آخ#ری ام##ام احم##د بن
ُح نبل نے سب پہلے مسلمانوں کومشرک اورُم رتدقراردیکرُانکے خالف قتل و قتال کرنے
اورُانکے مال و اسباب کوماِل غنیمت قراردینے کافتوٰی جاری کیاتھا۔ دس##ویں ص##دی میں
بغداد کے ایوان اقتدارپرجب ُحنبلی فرقہ غالب آگیاتھاتوُاس َدورمیں اہل تشیع کے مساجد،
مذہبی جلوسوں اور رہائشی عالقوں پر آئے دن حملے ہوتے تھے جبکہ ریاست کیط##رف
سے ُان حملہ آوروں کو مکمل آزادی ملی ہوئی تھی۔ گیارہویں صدی میں ُحنبلی فرقہ نے
اہل تشیع کیلئے حاالت کو اس قدر ناقابل برداشت بنادیا تھا کہ ُانکی طرف س##ے یہ فت##وٰی
جاری ہواتھاکہ اہل تشیع کاکوئی فرد کسی نماِز جماعت ک##اپیش ام##ام نہیں بن س##کتا۔ اس##ی
ط##رح اہ##ل تش##یع ک##ا ذبح کیاگی##احالل ج##انور ک##ا گوش##ت اہ##ل ُس نت کیل##ئے کھان##احرام
قراردیاگیاتھا۔ ُح نبلی فرقہ اس بات پر یقین رکھتاہے کہ اہل تشیع اس##الم کیل##ئے عیس##ائیوں
اور یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
امام احمدبن ُحنبل کا ایک پیروکارجو امام ابِن تیمیہ کے نام س##ے ت##اریخ میں مش##ہورہے،
اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خالف جن##گ وج##دل کے اس فت##وٰی کومزیدپھیالیااوراس##الم
کے اندرفرقہ وارانہ قتل و قتال کی آگ کو مذہبی لبادہ پہنایا۔امام ابن تیمیہ کی کئی جلدوں
پر مشتمل کتاب منہاج السنہ النبوۃمیں اہل تشیع کے عقیدے کو غل##ط ث##ابت ک##رنے کیل##ئے
ک##ئی اقس##ام کی ال##زام تراش##یاں کی گ##ئیں ہیں۔ام##ام احم##دبن ُحنب##ل اور ام##ام ابن تیمیہ کے
بعداسی مکتب فکرکاایک اور مش##ہورمذہبی پیش##وامحمدبن عب##دالوہاب تھ##اجواپنے پیش##رو
ام##اموں س##ے بھی ک##ئی ق##دم آگے نک##ل گی##ا۔ ام##ام احم##دبن حنب##ل س##ے لیکرام##ام محم##دبن
عبدالوہاب تک ان تینوں اماموں کی تبلیغات کا مرک##ز س#عودی ع##رب رہ##اہے جس#کانتیجہ
اسطرح ہمارے سامنے آجاتاہے کہ ای##ک مغ##ربی محق##ق اور مص##نف پیٹرتھ##یراکس اپ##نی
کتاب دی اسٹرینج ِڈ س اپئ##یرنس آف ُم وسٰ##ی الص##درمیں رقمط##راز ہے کہ آجک##ل س##عودی
عرب کی یونیورسٹیوں کی درسی نص##اب میں باقاع##دہ ط##ورپراس موض##وع ک##وزیربحث
الیاجات#####اہے کہ اہ#####ل تش#####یع ک#####ا ُد م بھی ہے۔جبکہ ای#####ک اورام#####ریکی محق#####ق و
دانشورپروفیسرڈاکٹرولی نصرکی تحقیق کے مط##ابق س##عودی ع##رب میں یہ اف##واہ حقیقت
کی شکل اختیارکرچکا ہے کہ اہل تشیع جب دوسرے مک##اتب فک##رکے افرادکواپ##نے ہ##اں
مہمان بناتے ہیں توُانکے کھانوں میں تھوکتے ہیں۔ اسی ط##رح ُان میں یہ بھی مش##ہورہے
کہ اہل تشیع سے ہاتھ مالنے سے انسان ناپاک ہوجاتاہے لہذااپنی اس ناپاکی کوُد ورکرنے
کیلئے وضولیناضروری ہوجاتاہے۔ پھرمص#نف خودن#تیجہ اخ#ذکرتے ہ#وئے لکھت#اہے کہ
اس مذہبی تعص##ب کامقص##د اہ##ل تش##یع اوردوس##رے مک##اتب فک##ر کے درمی##ان س##ماجی و
مذہبی روابط کوختم کرناہے۔
ANS 03
پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی دیہی عالقوں میں رہتی ہے اور زی##ادہ ت##ر زرعی
شعبے سے وابستہ ہے۔ ہمارا کس##ان دن رات محنت ک##رکے وطن عزی##ز کیل##ئے خ##وراک
اور صنعتوں کیلئے خام مال فراہم کرتا ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات کا تقریبًا 60فیص##د
سے زائد حصہ ب##راہ راس#ت ی##ا بالواس#طہ زرعی ش#عبے ک##ا ہی مرہ##ون منت ہے۔ مق##امی
سطح پر روزگار کی فراہمی میں بھی یہ شعبہ اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ ملک کی
اقتصادی‘ مالی‘ معاشرتی صورتحال کوترقی دینے اور اسے مستحکم بنانے میں زرعی
شعبے کا ہمیشہ سے ہی قابل ذکر حصہ رہا ہے اس کی ساالنہ شرح نمو دوسرے شعبوں
کی نسبت اوسطًا بہتر رہی ہے۔ اس کے باوجود زرعی شعبہ ہمیشہ س##ے حکمران##وں کی
نظروں میں عملی طور پر غیر اہم رہا ہے۔ یہ الگ ب##ات ہے کہ نع##روں اور دع##وﺅں میں
ہمیش##ہ زرعی اور دیہی ت##رقی ک##ا خ##واب دکھای##ا جات##ا رہ##ا ہے۔ آج ح##الت یہ ہے کہ آپ
پاکستان کے کس#ی بھی دیہی عالقے میں چلے ج#ائیں آپ ک##و 16ویں ص##دی ی##اد آج#ائے
گی۔ گھپ اندھیروں میں ڈوبے دیہات آپ کو یقینًا پتھر اور غاروں کے زمانے کی یاد دال
دینگے۔ شہروں میں چند گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ س##ے ہ##ر ط##رف طوف##ان برپ##ا ہوجات##ا ہے
جبکہ دیہی عالقوں میں بجلی ص#رف اپ#نی موج#ودگی ک#ا احس#اس دالنے کیل#ئے آتی ہے
یہی حال تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ نکاسی آب‘ سڑکوں ‘ صفائی اور دوسرے ش##عبوں ک##ا ہے۔
بارش کے موسموں میں ایک دیہات ک##ا دوس##رے دیہ##ات کے س##اتھ رابطہ ممکن ہی نہیں
رہتا ہے۔ ہر گاﺅں کے اردگرد گندے پانی کے تاالب اور گن##دگی کے ڈھ##یر حک##ومت اور
ماحولیاتی آلودگی کے ماہرین کو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ یہاں بھی ت##و انس##ان بس##تے
ہیں تعلیمی اداروں کی عم###ارتوں کی ح###الت زار‘ اس###اتذہ کی کمی اور تعلیمی معی###ار‘
خواندگی کی شرح کے بڑھتے ہوئے جعلی گراف کو بے نقاب ک##رنے کیل##ئے ک##افی ہے۔
صحت عامہ کی اگر اصل صورتحال سامنے آج##ائے ت##و ل##وگ دانت##وں میں اپ##نی انگلی##اں
دبالیں گے اور سوچنے پر مجب##ور ہوج##ائیں گے کہ ایس##ے م##احول میں دیہی ع##وام زن##دہ
کیسے ہے؟ پینے کا آلودہ پانی دیہی عوام کو کینسر‘ جگر‘ معدے‘ ہیض##ے ‘ ہ##ڈیوں اور
کئی ج##ان لی##وا بیم##اریوں ک##ا ش##کار کررہ##ا ہے۔ زچہ بچہ کی ص##حت کے ن##ام پ##ر ع##المی
اداروں سے قرضے اور امداد بٹورنے وال##وں ک##و ش##اید دیہی عالق##وں میں بڑھ##تی ہ##وئی
شرح اموات اس لئے نظر نہیں آتی کہ ان کی ترجیح صرف بڑے بڑے شہر ہی ہیں جس
ک##ا ثب##وت یہ ہے کہ زچہ بچہ کی ص##حت کے ب##ارے میں ج##و بھی س##یمینار م##ذاکرے ی##ا
س##مپوزیم ہ##وتے ہیں وہ ش##ہر کے ب##ڑے ب##ڑے فائیوس##ٹار ہوٹل##وں میں ہی ہ##وتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے ماہرین کو دیکھ لیں ان کی س##رگرمیاں اور ح##یران کن ک##ارکردگی
سب بڑے اور کبھی کبھی چھوٹے شہروں تک ہی مح#دود نظ#ر آتی ہے۔ ش#ہری عالق#وں
کے نوجوان##وں ک##و کس ح##د ت##ک کھیل##وں کے می##دان اور ان ڈور س##پورٹس کی س##ہولتیں
میس##رہیں لیکن دیہی عالق##وں کے نوجوان##وں ک##و کچھ بھی ت##و میس##ر نہیں وہ بے چ##ارے
کسی کھیت میں جاکر اپنا یہ شوق پ#ورا کرلی#تے ہیں۔آپ ح#یران ہ#ونگے کہ حک#ومت ہ#ر
سال دیہی ترقی کے نام پر بیرون ممالک سے قرضے اور ام##داد ت##و حاص##ل کرلی##تی ہے
لیکن وہ کہاں خرچ ہوتے ہیں اس سے دیہی عالقوں میں کون کون سے منصوبے شروع
ہوئے‘ دیہات میں کس قدر ترقی ہ##وئی یہ##اں کے رہ##نے وال##وںکے الئ##ف س##ٹائل میں کی##ا
تبدیلی آئی ہے۔ یہاں سے بیروزگ##اری کی ش##رح میں کس ق##در کمی ہ##وئی کس##ی ک##و کچھ
نہیں پتہ۔کیونکہ نام نہ##اد اور نمائش##ی ک##ارکردگی انس##انی آنکھ س##ے کبھی بھی نظ##ر نہیں
آتی۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ اپ##نے مخص##وص سیاس##ی مف##ادات کے
حصول کیلئے دیہی ترقی کے بلند بانگ دعوے کئے ان غ##ریب ع##وام کی ہم##دردیاں اور
ووٹ حاصل کئے اور پھر انہیں یکسر فرام##وش کردی##ا جس س##ے دیہی ت##رقی ک##ا خ##واب
ابھی تک ش#رمندہ تعب#یر نہ ہوس#کا۔ اس وقت پاکس#تان 30ہ#زار ارب روپے کے ب#یرونی
قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کے عالوہ ملکی معیش#ت ک#و چالنے کیل#ئے ب#ارہ
ارب ڈالر کی فوری ض##رورت تھی جس کے حص##ول کیل##ئے ہمیں ج#و کچھ کرن##ا پ##ڑا وہ
سب کے سامنے ہے۔ ہم#ارے حکمران#وں اور اقتص#ادی م#اہرین ک#و یہ ب#ات س#مجھ لی#نی
چاہئے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ہر راس##تہ زرعی ش##عبے ک##ا مرہ##ون منت ہے
لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہا۔ ہم یہ راگ تو اکثر االپ##تے
رہتے ہیں کہ ہماری معیشت کا زی##ادہ ت##ر داروم##دار زراعت پ##ر ہے لیکن عمًال کچھ بھی
نہیں کرنا چاہتے۔ آپ حیران ہونگے کہ اس وقت پاکستان میں ص##رف 23.25ملین ہیک##ڑ
رقبے پر کاشتکاری ہورہی جبکہ 8.25ملین ہیک##ڑ رقبہ قاب##ل کاش##ت ہ##ونے کے ب##اوجود
زیراستعمال نہیں ہے۔ زرعی ماہرین ک#ا یہ کہن#ا بالک#ل درس#ت ہے کہ اگ#ر ہم 8.25ملین
ہیکڑ قابل کاشت رقبے کا صرف ایک چوتھائی بھی استعمال میں لے آئیں تو ہماری خود
کفالت کا خواب حقیقت ک##ا روپ دھ##ار س##کتا ہے اس س##ے ہم##اری زراعت‘ دیہی عالقے
اور کاشت کار سب خوشحال ہوجائیں گے۔ یہ قومی مفاد پر مبنی کام آخر کون کرے گ##ا؟
ہمارے سیاست دانوں کو اپنے مفادات اور سیاسی لڑائی جھگڑوں سے فرصت ہ##وگی ت##و
وہ ملک و قوم کیلئے کچھ کرنے کے قابل ہونگے۔ ملکی تاریخ اس بات کی گ##واہ ہے کہ
زرعی شعبے کی ترقی کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی منص##وبہ بن##دی نہیں کی ج##و
کچھ بھی کیا فرضی اور گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی رہا۔
ANS 04
سوسائٹی کے کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ایک مکمل نظ##ام کی نمائن##دگی کرت##ا ہے .ان
میں سے ای##ک ای##ک سوش##ل کمیون##ٹی ہے .کس##ی بھی کمیون##ٹی کے لوگ##وں ک##و ای##ک ہی
(مثال ،مفادات ،مقاصد ی##ا مقاص##د) کچھ ہے ج##و کے ای##ک ہج##وم مطلب .ل##وگ کس##ی بھی
کمیون##ٹی میں ای##ک س##اتھ آ رہے ہیں ،ع##ام ط##ور پ##ر اس##ی ط##رح کے خی##االت زن##دگی،
معاشرے جیسے سماجی کرداروں میں کھیل کے بارے میں ہے.
انسانی افراد کا ایک مجموعہ ،زندگی کے اسی طرح کے ح##االت کی ط##رف س##ے متح##د
ایک ہی مفادات ،اقدار ہیں ،اور ان سے آگاہ ہیں -ت#و ،ہم اس س#ماجی ب#رادری کہہ س#کتا
سماجی شناخت .لوگوں کو ایک ساتھ النے کے ل##ئے بنی##اد ہ##و س##کتا ہے :ای##ک دوس##رے
کے ساتھ ان کے قریبی رابطہ ،کل سرگرمیوں ،مفادات کی مم##اثلت کی بی##داری ،اس کی
اپنی ثقافت ،اس کمیون##ٹی ،اخالقی تص##ورات ،وغ##یرہ ،خ##ود حک##ومت کی موج##ودگی کے
مقصد کے بارے میں اسی طرح کے خیاالت کی بنیاد پر قائم ہے.
ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد ہے کہ زیادہ تر مق##دمات میں س##ماجی کمیونٹ##یز اور
گروپس پر spontaneouslyپیدا نہیں کرتے یقین رکھتا ہے .ان کی اصل میں سے ایک
تصور امریکی J. Homansطرف سے تجویز ،لوگ بعض فوائد کو حاصل ک##رنے کی
کوشش کر ،ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت ہے کہ یقین رکھتا ہے .زیادہ اہم فائدہ زیادہ
کوشش یہ دوسرے لوگوں کے قریب حاصل کرنے کے لئے ایک ش##خص کی ض##رورت
کو دیکھتے ہوئے جن کے لئے یہ فائ##دہ بھی بہت اہم ہے .ع##ام الف##اظ میں ،ام##ریکی م##اہر
عمرانیات کے مطابق ،لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ایک خ##اص مقص##د ک##و حاص##ل
کرنے کے لئے ایک کمیونٹی اور کمیون#ٹی کی تش#کیل کے ل#ئے گ#روپ بن#دی ک#ر رہے
ہیں.
ایک سوشل کمیونٹی اور ان کی تعلیم کے دوسرے مقصد سے مختلف ہو ،اور تشکیل کر
سکتے خیاالت .اقسام کے لوگوں کی طرح انجمنوں کی مندرجہ ذیل وجوہ##ات کی بن##ا پ##ر
اختالف:
-وج##ود کے وقت :س##ارا ص##دیوں (ال##گ ال##گ لے جای##ا ق##وم) کے ل##ئے چن##د منٹ (ای##ک
کنسرٹ ہال میٹنگ کے سامعین) سے؛
-کئی ہزار (ایک مخصوص پارٹی کے ارکان) تک دو افراد سے ان کی آئین ساز لوگوں
کی ساخت؛
-قریب سے اہم نمائندوں کے درمیان کثافت کنکشنز ایکجوٹ ٹیم (آفس اسٹاف) کے ل##ئے
بہت امورفووس ،مشکل سے تعامل فارمیشنوں (فٹ بال کے پرستار).
ماہرین عمرانیات کے ایک بڑے پیمانے پر سماجی برادری جیسی کوئی چیز تمیز ،ط#رہ
امتیاز ہے جس کے ہیں:
-وجود کے عدم استحکام؛
-اس کے اتحادی لوگوں ،عین مط##ابق رقم ک##ا تعین ک##رنے کے ن##اممکن کی تش##کیل کے
heterogeneity؛
-کسی سرگرمی کی بنیاد پر آپریشن اور اس کے باہر موجود نہیں کر سکتے.
ایک مثال کے طور پر ،بڑے پیمانے پر س##ماجی ب##رادری ش##ائقین ای##ک مخص##وص پ##اپ
ستاروں ،کھیلوں کے پرستار ،کلب ،مختلف انجمنوں کے اراکین ال سکتے ہیں .نیو گ#نی،
انفرادی قوم ،ایک نسل ،کمپنی کی انتظامیہ کے قریب مظاہرین کے ایک ہجوم کے ق##بیلہ
باشندے بھی بڑے پیمانے پر سماجی کمیونٹیز ہیں.
دیگر تنظیموں کے درمیان ایک خاص جگہ نسلی گروہ لیت##ا ہے -مس##تحکم اپ##نی ثق##افت،
خود شعور کی طرف سے خصوصیات کے ساتھ ،ایک خاص عالقے میں وقت کی ای##ک
طوی##ل م##دت کے رہ##نے والے لوگ##وں کی ای##ک مجم##وعہ ہے کہ اس ط##رح کی دوس##ری
انجمنوں سے اس فرق کا ہوش ہے .ایتھنک کمیونٹی ،ای##ک اص##ول کے ط##ور پ##ر ،زن##دہ
کے لئے کل زمین کے عالقے کی بنیاد پ##ر ،ای##ک دوس##رے کے س##اتھ انس##انی ب##ات چیت
کے لئے تمام ضروری حاالت پیدا قائم ہے .اس کے عالوہ ،اس طرح کے طور پر ای##ک
سماجی برادری نسل پہلے ہی تشکیل دی ،جب اس خصوصیت ثانوی اہمیت کا حام##ل ہ##و
جاتا ہے ،یا اس سے بھی اس کی اہمیت کو کھو دیں .کسی خاص نسل کے طور پر خ##ود
کی شناخت ہے جو لوگوں کو ایک ہی وقت میں ،زمین کے مختلف کون##وں میں رہ س##کتا
اور یاد رکھیں اور ان کے نسلی گروہ ،ان کی تعطیالت منانے کے لئے قائم کی روای##ات
کا احترام اور وہ طرز عمل کے بعض قوانین پر عمل.
شخص کی سماجیکرن انسانی نسل کے دیگر اراکین کے ساتھ اپ##نی ب##ات چیت کے بغ##یر
ن#اممکن ہے .ہم میں س#ے ہ#ر ڈگ#ری مختل#ف میں ،ای#ک س#ے تعل#ق نہیں ہے ،لیکن ک#ئی
سماجی کمیونٹ#یز .معاش#رے کے ب#اہر آدمی ،ای#ک آدمی کی ط#رح محس#وس ک#رنے کے
لئے رہتا ایک جالوتن بن جاتا ہے.
ANS 05
1
غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب
سر پر بھوک منڈالئے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وس#ائل نہ ہ##وں
تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے ک##ئی مس##ائل میں
سے ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جرائم ،جہ##الت،
معاشرتی و اقتصادی پسماندگی ان کی جڑ غربت ہی ہے۔ غربت پر قابو پائے بغیر کس##ی
بھی معاشرے کا ترقی کی راہ پر گامزن ہون##ا ممکن نہیں۔ غ##ربت زدہ معاش##رے ک##ا س##ب
سے مظلوم طبقہ بچے ہیں جو زندگی کی بنی##ادی ض##روریات اور وال##دین کی ع##دم ت##وجہ
کے باعث شخصیت سازی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر نہ ص##رف ان کے ٓانے
والے کل پر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور ٓانے والی نسلیں بھی اس سے مت##اثر ہ##وتی ہیں۔ٓاپ
نے اکثر اپنے ارد گرد ایسے کئی چہرے دیکھے ہوں گے جن کی ٓانکھوں میں یہ س##وال
ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ہم سے امتیازی سلوک کیوں کرتا ہے؟ وہ س##راپا س##وال چہ##رے یہ
جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ان کی ٓانکھیں پڑھ لکھ کر بڑا ٓادمی بن##نے ک##ا خ#واب نہیں دیکھ
سکتیں۔ وہ اپنے گھر کے بڑے کب تک گیراجوں اور ہوٹلوں کے چھوٹے بن کر زن##دگی
گزاریں گے؟ انہیں کیوں بے فک#ر بچپن ،س#کون کی نین#د اور کھیل#نے ک#ودنے کے ل#یے
سہہ پہریں میسر نہیں؟ان کی ٓانکھیں ہر راہ گیر سے یہ سوال ک##رتی ہیں کے ان میں اور
ان شان دار گاڑیوں میں بیٹھے بچوں میں کیا فرق ہے؟ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کت##اب
اور ہمارے ہاتھوں میں مزدوری کے اوزار کیوں ہیں؟ ہم بھی تو بچے ہیں ،ہمارا بھی تو
بچپن ہے۔ ہم بھی خواب دیکھنے والی ٓانکھیں اور خواہش##ات ک##رنے واال دل رکھ##تے ہیں
پھر اس معاشرے میں ہمارا کوئی پرسان حال کیوں نہیں۔ہمارے معاش##رے میں غ##ربت و
امارت کی اس تقسیم نے کئی معصوموں کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہمیں روز اپ##نے ارد گ##رد
کبھی کسی فٹ پ#اتھ پ#ر ت#و کبھی کس#ی ہوٹ#ل ی#ا ش#اہراہ پ#ر ننھے ننھے معص#وم م#زدور
دکھائی دی#تے ہیں۔ کبھی کچ#را چن#تے نظ#ر ٓاتے ہیں ت#و کبھی رزق حالل کی تالش انہیں
ادھ موا کردیتی ہے۔ ہماری بے حسی ہے کے روز ایسے کئی مناظر اپنی ٓانکھ##وں س##ے
دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ ہم چائلڈ لیبر کے خالف ٓاواز بلند نہیں ک##رتے کی##وں
کے در پ##ردہ اس میں ہم##ارا ہی فائ##دہ ہے۔ بچے ان ننھی کلی##وں اور کونپل##وں کی مانن##د
ہوتے ہیں جومستقبل میں کسی بھی ملک و قوم کے ل##یے ش##جر س##ایہ دار بن##تے ہیں۔ یہی
ہمارے مستقبل ک##ا معم##ار ہیں جن س#ے ہم نے ان ک##ا ٓاج چھین لی##ا ہے۔ یہی بچے ک##ل ک##و
حقوق کی عدم دست یابی و استحصال کے سبب غلط راہ پر گامزن ہو س##کتے ہیں۔ غ##ور
طلب بات یہ ہے کے ہم ہماری ٓانی والی نسلوں کوغربت و جہل زد ہ معاشرہ وراثت میں
سونپ کر جا رہے ہیں۔ یہ بچے جہ#اں رزق ،تعلیم و ص#حت جیس#ے بنی#ادی حق#وق س#ے
محروم ہیں وہیں جبری مشقت ،اغواء برائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے مظالم ک##ا بھی
ش##کار ہیں۔ دیگ##ر ممال##ک کی ط##رح پاکس##تان کے ٓائین میں بھی بچ##وں کے حق##وق کے
حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کی ضروریات کی طرح ان کے تحفظات کو بھی
نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر سال الکھوں بچے جنس##ی تش##دد ک##ا ش##کار ہ##وتے ہیں ،اغ##وا
کرکے ان کے جسمانی اعضاء فروخت کیئے جاتے ہیں لیکن اہ##ل اقت##دار کے ک##انوں پ##ر
جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس اگر کسی امیر شخص کا بچہ اغ##وا ہوج##ائے ت##و
اس کی بازی##ابی کے ل##یے تم##ام ادارے ح##رکت میں ٓاج##اتے ہیں۔ ان بچ##وں کے حق##وق ک##ا
استحصال صرف اس لیے کے ان کا تعلق ای##ک ایس##ے گھ##رانے س##ے جہ##اں دو وقت کی
روٹی بھی میس##ر نہیں۔ یہ طبقہ حکمران##وں کی ترجیح##ات ک##ا کبھی حص##ہ نہیں رہ##ا۔ یہی
بچے جو ٓانے والے کل میں اس ملک و قوم کا مستقبل ہیں طبی سہولیات کی عدم فراہمی
اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گزش#تہ چن#د س#ال کے دوران پاکس#تان کے ریگس#تانی
عالقے تھرپ##ارکر اور چولس##تان میں خ##وراک کی کمی کے ب##اعث س##ینکڑوں بچ##وں کی
ہالکتیں ہوچکی ہیں۔دیگر بنیادی س##ہولیات کی ط##رح اس طبقے میں ش##رح خوان##دگی بھی
صفر ہے۔ صحت و خوراک کے ساتھ تعلیم کا حص##ول بھی ان بچ##وں کی پہنچ س##ے دور
ہے۔ غریب والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہ ک##رنے کے ب##اعث انہیں تعلیم دل##وانے ک##ا
ت##ردد نہیں ک##رتے بلکہ انہیں چھ##وٹی عم##روں س##ے ہی محنت و مش##قت کی بھ##ٹی میں
جھونک دیا جاتا ہے۔اس طبقے میں بچوں سے محنت مشقت اور مزدوری کروانا معمول
کی بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ڈھائی ک##ڑوڑ س##ے زائ##د بچے اس##کول نہیں
جاتے۔ اس کے برعکس امراء و وزراء کے بچوں کو پر تعیش زن##دگی بس##ر ک##رنے کے
ل##یے نہ ص##رف ہ##ر ٓاس##ائش میس##ر ہے بلکہ جدی##دو معی##ار ی تعلیم کی ف##راہمی کے ل##یے
باقاعدہ غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ ک#ا تق#رر کی#ا جات#ا ہے۔ یہ معاش#رتی س#طح پ#ر کھال
تضاد نہیں تو کیا ہے۔ یہ بچے تعلیم ،خوراک ،کھی#ل ک#ود ،تف#ریح ہ#ر ش#ے س#ے مح#روم
کردیے گ##ئے ہیں۔ غ##ریب ہون##ا گوی##ا گن##اہ عظیم ہوگی##ا ہے۔ وس##ائل کی کمی کے س##بب یہ
پسماندہ زن##دگی گ##زارنے پ##ر مجب##ور ہیں لیکن س##ماجی و معاش##رتی رویے انہیں جنس##ی،
جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ غربت سے بر سر پیکار ہونے کے س##اتھ
ساتھ جنسی و نفسیاتی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کے خالف اب
تک جتنی بھی قانون سازی کی گئی اور جس قدر تعزیرات بھی متعارف کروائی گئیں ان
کے خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہو سکے بلکہ ملک میں منشیات کا استعمال اس#ی ق#در
تیزی سے پھیال۔ حتٰی کہ اب منشیات ہم#ارے تعلیمی اداروں میں بھی داخ#ل ہ#و گ#ئی ہیں۔
حکومت نے بھلے سے منشیات کنٹرول ت##رمیمی ایکٹ 2022ءمیں مختل##ف ن##وع ک##ا نش##ہ
کرنے والوں کے لیے بھاری بھرکم جرمانے اور سزائیں تجویز کی ہیں لیکن یہ ص##رف
فائلوں کی حد تک ہی ہیں۔ عمًال ان کا نفاذ نہ تو ماضی میں کبھی ہوا اور نہ ہی آئن##دہ اس
کے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ ک##رنے والے انتہ##ائی ب##ااثر ل##وگ ہیں۔ یہ
ایک مافیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک منشیات کی اسمگلنگ میں کبھی کوئی بڑا ک##ردار
یا سرغنہ نہیں پکڑا گیا۔ عمومً#ا اس کے کارن##دے ہی ق##ابو میں آتے ہیں۔ س##وال یہ ہے کہ
جب منشیات کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بھی موجود ہیں ،سپیشل عدالتیں بھی ق##ائم
ہیں تو پھر یہ مکروہ دھندہ کس طرح پھیلتا پھولتا جا رہا ہے؟ اس کا سادہ ج##واب ت##و یہی
ہے کہ قوانین پر عم##ل درآم##د ک##ا نظ##ام غ##یرمو¿ث##ر ہے۔ ہ##ر جگہ منش##یات فروش##وں کے
سہولت کار موجود ہیں جو انھیں قانون کے شکنجے میں کسنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اب تو ہماری سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ دینے والوں میں بھی جرائم پیشہ مافی##از ک##ا ن##ام
لیا جاتا ہے جو انتخابی سیزن میں اپنے پسندیدہ سیاست دان##وں کی م##الی م##دد ک##رتے اور
اس کے عوض مفادات حاص##ل ک##رتے ہیں۔ ان ح##االت میں جس ق##در س##خت س##زائیں بھی
تجویز کرلی جائیں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اس مکروہ دھندے پر ق##ابو
پانے اور اس کے انسداد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عوام میں آگاہی مہم چالئے۔
لوگوں کو قانون کے بارے میں جان کاری ہوگی اور ان میں شعور پیدا ہوگا تو اس س##ے
بچاﺅ کی بھی صورت نکالی جا سکے گی۔ فوری فیصلے اور سزاﺅں پ##ر بالت##اخیر عم##ل
درآمد بھی اس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حام##ل ہے۔ عالوہ ازیں ،اگ##ر حک##ومت واقعی
جرائم کا تدارک چاہتی ہے تو اس##ے ق##انون ناف##ذ ک##رنے والے اداروں کی ک##اکرردگی ک##و
بہتر بنانا ہوگا۔
2
قدامت پسندی اپ##نی اق##دار اور روای##ات کے محاف##ظ ک##و روایت پرس##ت ،ق##دامت پرس##ت ی##ا
قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ قدامت پسندی س#ے م#راد سیاس#ی ،س#ماجی ،اخالقی روای#ات پ#ر
ڈٹے رہنا ،تبلیغ و ترویج کرنا اور ان کی حمایت کرن##ا ہے۔ انس##ان فطرتً#ا مہم ج##و ،ج##دت
پسند ،حریص اور یکسانیت سے بیزار واقع ہوا ہے۔ انسان کے ح#ریص ہ##ونے ک##ا ان##دازہ
اس ب##ات س##ے بخ##وبی لگای##ا جاس##کتا ہے کہ جنت جیس##ی جگہ پ##ر بھی اس##ے ب##یزاریت
محسوس ہونے لگی اور پھ##ر جب زمین جیس#ی آزاد فض##اء میں ق#دم رکھ##ا تب بھی اس#ے
سکون میسر نہ ہوا اور لحظہ بہ لحظہ نت نئے تجربات اور نئی چیزوں سے آش##نائی اس
کا مشغلہ بن گئی اور ظاہری طور پر اس میں مضائقہ بھی نہیں کیونکہ تنوع اس کائن##ات
کا حسن ہے۔ ہم نے قدامت پسندی کو روگ اس لئے کہا ہے کہ اس کا تعل##ق ہم اق##دار اور
کلچر میں ڈھل جانے کو نہیں لے رہے بلکہ اس ک#ا مقص#د ص#رف نظری#ات اور مختل#ف
تص##ورات ک##و قب##ول ک##رنے اور انہیں اپ##نی عملی زن##دگی میں الگ##و ک##رنے میں جھج##ک
محسوس کرنے کی حد تک لیا جا رہا ہے۔ یعنی دنیا میں اگر کوئی چیز متعارف ک##روائی
گئی ہے اور ظاہری طور پر وہ آپ کی معاش##ی اور س##ماجی زن##دگی کے ل##ئے فائ##دہ من##د
معلوم ہوتی ہے تو آپ کو اپنی حدود اور متعین شدہ روایات کے اندر رہتے ہ##وئے اس##ے
قب#ول ک#رنے میں ک#وئی ع#ار محس#وس ک#رنے کی ض#رورت نہیں۔ ف#رض ک#ریں اگ#ر ہم
انگریزی زبان اور اس کے نفاذ کی ب##ات ک##رتے ہیں ت##و ہمیں یہ تس##لیم کرلین##ا چ##اہیے کہ
ادب ہمیشہ زبان کی قید سے آزاد ہوت##ا ہے ت##و ادب ک##و ادب کے پ##یرائے میں لے ک##ر ہی
سمجھا جائے اور اس کو سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ انگریزی زبان پر کس##ی خ##اص
عالقے یا خطے کی اجارہ داری نہیں بلکہ وہ ص##رف ای##ک زب##ان ہے ج##و ہ##ر اس طبقے
کی ہو سکتی ہے جو اسے استعمال کر لے گا۔
رہی بات کسی زبان کے تسلط کی تو بڑی سکرین پر ہمیشہ زبان استعمال ہوگی جو ق##وم
معاشی اور استعماری طور پر خود کو من##وائے گی اور ہم ہیں کہ معاش##ی ط##ور پ##ر کچھ
کرنے کی بجائے صرف لفاظی طور پر کسی زبان سے انکاری ہ##ونے ک##و حب الوط##نی
قوم پرس##تی اور روایت پس##ندی کے ل##ئے ای##ک بہت ب##ڑی قرب##انی گ##ردان لی##تے ہیں۔ اگ##ر
پاپائے روم کا سکہ دنیا پر چل رہا تھا تو رومن زب##ان اپ##نی ت##رویج کے زوروں پ##ر تھی،
پھر یونانیوں نے دنیا کو اپنی صالحیتوں سے متحیر کیا تو یونانی زبان کا بول باال ہونے
لگا۔ جب فرانسیسی دنیا پر قبضہ جمانے کا سوچ رہے تھے تو فرانسیسی زبان کو پرواز
کا موقع مال۔ الطینی لوگ جب اپنی تحقیق سے دنیا کو نیا س##ورج دکھ##ا رہے ت##و الطی##نی
زبان کو اہم گردانا جانے لگا۔ انہی تمام اسباب کو دیکھتے ہوئے برط##انیہ کے ل##وگ ج##و
اس وقت ایک منتشر قوم کی مانند تھے
اپنی ایک الگ زبان بنانے پر سوچنے لگے ج##و کہ ان س##ب زب##انوں ک##ا آم##یزہ تھی۔ پھ##ر
تحقیق و تنقید کا سایہ ان پر مہربان ہوا تو ساری قوموں کو اسی آمیزے کو ہی اہمیت دینا
پڑی۔
امریکہ نے اگرچہ دنیا پر اپن##ا ڈنک##ا بج##انے میں حص##ہ ڈال لی##ا ہے لیکن چ##وں کہ ان کی
اپنی الگ سے زبان موجود نہ تھی اس لئے وہ الگ لہجہ اپنا ک##ر ہی خ##وش ہیں اور وہی
الگ لہجہ ہی اب دنیا پر راج کرے گا جلد۔
یہاں یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ روس اور چائنہ نے بھی تو دنی#ا پ#ر راج ک#رنے
میں اپنا مقتدرہ حصہ ڈاال ہے تو ان کی زبان کو وہ اہمیت اور مقام کیوں نہیں مل سکا؟
اس سوال کا دو ٹوک جواب ہمارا اپنا موضوع ہی ہے۔ کسی زبان کے عالمی منظرنامے
پر مقبولیت کے سفر کو طے کرنے کے لئے اس کا لچک دار ،سہل اور موض##وع ت##رین
ہونا بہت ضروری ہے جو کہ روسی اور چینی زبان میں نای##اب ہیں اور انگری##زی زب##ان
میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انگری##زی زب##ان نے جس بھی خطے اور عالقے ک##ا س##فر کی##ا
اسی عالقے کے مخصوص اور مستعمل الفاظ اور استعارات کو اپن##انے میں ک##وئی ع##ار
محسوس نہیں کی اور یہی اس کی پھلنے پھول##نے ک##ا راز ہے ج##و اس ک##و ہ##ر دل عزی##ز
زبان بنانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔
اردو زبان میں کسی حد تک یہ خصوصیت ہے لیکن کچھ نابالغ اذہان اس ب##ات ک##و تس##لیم
کرنے سے ناالں نظر آتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ شاید اس طرح زبان آلودہ ہو جائے
گی حاالنکہ ایسا بالکل نہیں۔ ہمارے ہاں قدامت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ج##و ص##احب علم
لوگ ہیں وہ اپنا مدعا سمجھانے سے قاص##ر ہیں اور ج##و ل##وگ دین کے ب##ارے کچھ نہیں
جانتے وہ تبلیغ کر رہے ہیں اغیار کے سامنے اور اسی وجہ سے تو وہ اسالم کا درس##ت
امیج پیش کرنے سے رہے۔
اسالموفوبیا اور اس سے جڑے مختلف مسائل کو مغ##رب کے س##امنے درس##ت ان##داز میں
پیش ک###رنے کی اش###د ض###رورت ہے لیکن مس###ئلہ یہ ہے کہ وہ ہم###ارے خطے ک###و ت###و
سمجھانے کی ض##رورت نہیں” ،ہم خی##ال ک##و ہم خی##ال“ بن##انے والی ب##ات ہے۔ یہ س#ب ان
لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو ہماری تہ##ذیب و ت##اریخ س##ے نابل##د ہیں اور ان
کو ہم یہ سب کسی ایسے واس#طے اور زب#ان کے ذریعے س#مجھا س#کتے ہیں ج#و ان کی
سمجھ آئے اور اس کے لئے ہمیں ان کی زبان سیکھنے کی ضرورت بھی ضرور پ##ڑے
گی۔
دوسرا اہم مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے ،وہ صنعتی اور معاشی ذرائع کو قبول نہ کرنے ک##ا
ہے جو ہمیں مغرب سے معلوم ہوں اور یہ ہماری قوم س##ے ہ##ونے والی س##ب س##ے ب##ڑی
کرپشن ہے۔ میں یہاں پر وجاہت مسعود صاحب کی جن##گ کے اداریے میں لکھی ج##انے
والی جنوری 2017کی بات کو ہی شامل کرنا چاہوں گا۔
” اصل کرپشن یہ ہے کہ مسلم قدامت پسند ذہن جدید علم کی بنیاد پر پی##داواری ،ص##نعتی
اور تجارتی معیشت کی دنیا میں داخل ہ##ونے س##ے گری##زاں ہے۔ مس##لم اکثری##تی دنی##ا کے
کلچ##ر کی چ##ار بنی##ادی خصوص##یات ہیں۔ تش##دد ،ن##ا انص##افی ،اونچ نیچ اور تب##دیلی کی
مزاحمت۔ یہ ناکامی کا نسخہ ہے۔ “