Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 21

‫غالم احمد قادیانی کا تعارف‬

‫احمد جوسلسلہ احمدیہ کے بانی تھا۔ اس کا پورانام غالم احمد تھا اور یہ قادیان کے‬
‫باشندہ تھا جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ ‪11‬میل‪ ،‬امرتسرسے چوبیس‪24‬میل اور‬
‫الہور سے قریبًا ستاون ‪57‬میل جانب مشرق پرایک قصبہ ہے۔ آپ قریبًا‪1836‬ء یا‬
‫‪1837‬ء میں ِاسی گاؤں میں مرزا غالم مرتضٰی صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوا٭‬
‫اور اس کی والدت توام تھی یعنی اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی‬
‫ہی مدت بعدفوت ہوگئی۔‬

‫جماعت احمدیہ‬
‫احمدیہ جماعت ‪1889‬ء میں مرزا غالم احمد (‪1835‬ء تا ‪1908‬ء) نے لدھیانہ میں قائم‬
‫کی۔ مرزا غالم احمد نے اعالن کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت‬
‫لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمؐد کے‬
‫تابع نبی ہونے کا بھی دعوٰی کیا۔ مرزا غالم احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو‬
‫ان کا پہال خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ‪1914 ،‬ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو‬
‫پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت‬
‫اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسالم الہور کہالتا ہے۔‬
‫تحریک کا آغاز‬
‫مرزا غالم احمد نے اس تحریک کو ‪ 23‬مارچ ‪ 1889‬میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم‬
‫جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت‬
‫سنبھالی اور اب یہ جماعت ‪ 200‬ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے‬
‫خلیفہ کا نام مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک سے دو‬
‫‪.‬کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں‬
‫احمدیہ جماعت ایک منظم اور مربوط‬
‫جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔مرزا غالم احمد کی‬
‫نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختالفات کے سبب الہوری احمدیہ جماعت اصل‬
‫دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ‬
‫عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسالمی عقائد کے برخالف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس‬
‫سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔‬
‫مامور من ہللا ہونے کا دعٰو ی‬
‫میں مامور من ہللا ہونے کا دعوٰی کیا۔ اس دعوٰی کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان ‪1882‬‬
‫کیا ہے‬
‫”‬ ‫یا احمد بارک ہللا فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن ہللا رمٰی ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔‬
‫لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا‬
‫الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی ہللا علیہ وسلم۔ فتبارک‬
‫“من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔‬
‫ترجمہ‪ :‬اے احمد ہللا نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چالیا‪ ،‬تو نے نہیں‬
‫چالیا بلکہ خدا نے چالیا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو‬
‫ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔‬
‫کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا‬
‫ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد کی‬
‫طرف سے ہیں‪ ،‬ہللا کی برکتیں اور سالمتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے‬
‫تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بوال ہے تو اس جرم کا وبال‬
‫مجھ پر ہے۔‬

‫مسیح موعودہونے کا دعوٰی‬


‫”‬ ‫مسیح ابن مریم رسول ہللا فوت ہو چکا ہے اور ُاس کے رنگ میں ہو کر وعدہ‬
‫“ کے موافق ُتو آیا ہے‬
‫دعوٰی مسیح موعود مسلمان علما کی جانب سے سخت مخالفت پر منتج ہوا۔‬
‫عقائد‬
‫عقیدہ قرآن‬
‫مرزا کے نزدیک قرآن کریم آخری کتاب ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی‬
‫گئی ہے اور جو ہمیشہ کے لیے غیر محرف و غیر مبدل ہے۔ لیکن عام مسلمان علما‬
‫کے مسئلہ ناسخ و منسوخ کو رد کرتے ہوئے اس نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی‬
‫بھی آیت منسوخ نہیں اور اس کی تمام تعلیمات ابدی ہیں۔ قرآن کے متعلق وہ لکھتا ہے‬

‫وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف‬
‫کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو‬
‫میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں‬
‫پھراپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬
‫تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن شریف کی ہدایت کے برخالف ایک قدم بھی‬
‫نہ اٹھاو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے‬
‫ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند‬
‫کرتا ہے۔۔۔تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے‬
‫کسی سے نہ کیا ہوکیونکہ جیسا خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الخیر کلہ فی‬
‫القرآن کہ تمام قسم کی بھالیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے‬
‫وفات مسیحؑ کا مسئلہ‬
‫مرزا غالم احمد نے یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ بانی عیسائیت عیسٰی ؑ تمام دوسرے انبیا اور‬
‫انسانوں کی طرف اپنی طبعی عمر پوری کر کے وفات پا چکے ہیں۔ ان کے اس عقیدہ‬
‫کی بنیاد الہام پر ہے‬

‫مسیح ابن مریم رسول ہللا فوت ہو چکا ہے(معاذہللا)‬


‫ان کا یہ دعوٰی ہے کہ قرآن کی ‪ 30‬آیات سے حضرت عیسٰی ؑ کی وفات ثابت ہوتی ہے۔‬
‫چنانچہ جس نبی عیسٰی نے مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں آنا تھا وہ درحقیقت ایک‬
‫تمثیلی نام ہے جو حاالت اور مزاج کی مشابہت کی بنا پر خود مرزا غالم احمد کو دیا‬
‫گیا ہے جیسا کہ کسی سورما کو اس کی طاقت کی بنا پر تمثیال "رستم" کا نام دیا جاتا‬
‫ہے۔ اس عقیدہ وفات مسیح اور دعوٰی نبوت پر مسلمان علما نے ان کی سخت مخالفت‬
‫کی اور کفر کا فتوٰی دیا۔ چنانچہ ان دونوں عقائد‪ ،‬یعنی وفات مسیح اور تشریح ختم نبوت‬
‫پر دونوں اطراف سے متعدد کتب لکھی گئی ہیں۔‬

‫جہاد کا تصور‬
‫جہاد کے متعلق مرزا غالم احمد نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تلوار کا جہاد حضرت‬
‫محمؐد نے محض اپنے دفاع میں اس وقت کیا تھا جب ‪ 13‬سال تک اہل مکہ کے مظالم‬
‫سہنے اور حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد بھی اہل مکہ نے مسلمانوں کا‬
‫پیچھا نہ چھوڑا اور ان کے خالف تلوار اٹھائے رکھی۔ ایسی صورت حال میں اپنے‬
‫دفاع کے سوا مسلمانوں کے پاس اور کچھ چارہ نہ تھا۔ ان کے نزدیک اسالم کو پھیالنے‬
‫کے لیے کسی تلوار کی ضرورت نہیں بلکہ اسالم آزادی مذہب کا علمبردار ہے۔ اسی‬
‫طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اسالم پر حملے تلوار سے نہیں بلکہ‬
‫اعتراضات کے ذریعہ کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس زمانہ میں تلوار کا دفاعی جہاد‬
‫‪..‬موقوف ہے اور اس کی بجائے قلم اور اشاعت دین کا جہاد فرض ہے۔ لکھتے ہیں‬
‫الفاظ جہاد کے بارے میں‬
‫یہ مت خیال کرو کہ ابتداء میں اسالم میں تلوار کا حکم ہوا۔ کیونکہ وہ تلوار دین کو‬
‫پھیالنے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو‬
‫بچانے کے لئے اور یا امن کو قائم کرنے کے لئےکھینچی گئی تھی۔مگر دین کے لئے‬
‫جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔‬

‫جماعت میں شمولیت کی دس شرائط‬


‫جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لئے مرزا غالم احمد نے دس شرائط مقرر کی ہیں جن‬
‫پر ہر احمدی کو کاربند ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ ان شرائط پر عمل پر آمادگی ظاہر‬
‫کرنے کے بعد باقاعدہ بیعت کرنا بھی ضروری ہے جو کہ احمدیہ مسلم جماعت میں‬
‫خلیفہ المسیح کے ہاتھ پر کی جاتی ہے۔ شرائط بیعت یہ ہیں‬
‫مجتنب الشرک‬
‫بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل‬
‫ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔‬
‫برے کاموں سے دور رہے‬
‫یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور‬
‫فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا‬
‫مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‬
‫نماز و استغفار‬
‫یہ کہ بالناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی‬
‫الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز‬
‫اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی‬
‫محبت سے خدا تعالٰی کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر‬
‫روزہ ورد بنائے گا۔‬
‫کسی کو تکلیف نہ دے گا‬
‫یہ کہ عام خلق ہللا کو عمومًا اور مسلمانوں کو خصوصًا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی‬
‫نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‬
‫ہللا کا وفادار و ثابت قدمی‬
‫یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور ُع سر اور ُیسر اور نعمت اور بال میں خدا تعالٰی کے‬
‫ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہو گا اور ہر ایک ِذ ّلت اور دکھ کے‬
‫قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر‬
‫اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔‬
‫اطاعت علی القرآن و رسول‬
‫یہ کہ اتباِع رسم اور متابعِت ہواوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت‬
‫کو بکّلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور َقاَل ہّٰللا اور َقاَل الَّر ُسْو ل کو اپنے ہر یک راہ میں‬
‫دستور العمل قرار دے گا۔‬
‫تکبر سے باز رہے گا‬
‫کہ تکبر اور نخوت کو بکّلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی‬
‫اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔‬
‫یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسالم کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی‬
‫عزت اور اپنی اوالد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔‬
‫خدمت خلق‬
‫یہ کہ عام خلق ہللا کی ہمدردی میں محض ہّٰلِل مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل‬
‫سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‬
‫اطاعت احمد (اپنا منجن)‬
‫یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض ہّٰلِل باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا‬
‫وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلٰی درجہ کا ہو گا کہ اس کی‬
‫نظیردنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‬

‫الفاظ بیعت‬
‫ان شرائط پر آمادگی کے بعد بیعت کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں‬
‫”‬ ‫اشہد ان ال الہ اال ہللا وحدہ ال شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔اشہد ان ال‬
‫“ الہ اال ہللا وحدہ ال شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔‬
‫”‬ ‫آج میں مسرور کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل‬
‫ہوتا‪/‬ہوتی ہوں۔ میرا پختہ اور کامل ایمان ہے کہ حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم خاتم النبیین ہیں۔ میں حضرت مرزا غالم احمد قادیانی علیہ الصالۃ و السالم کو وہی‬
‫امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرتا‪/‬کرتی ہوں جس کی خوشخبری حضرت محمد‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ میں وعدہ کرتا‪/‬کرتی ہوں کہ مسیح‬
‫موعود علیہ الصالۃ والسالم کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت کا پابند رہنے کی کوشش‬
‫کروں گا‪/‬گی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‪/‬گی۔ خالفت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وفا کا‬
‫تعلق رکھوں گا‪/‬گی۔ اور بحیثیت خلیفہ المسیح آپ کی تمام معروف ہدایات پر عمل کرنے‬
‫“ کی کوشش کروں گا‪/‬گی۔‬
‫”‬ ‫استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔‬
‫استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ رب انی ظلمت نفسی و اعترافت بذنبی فغفرلی‬
‫ذنوبی فانہ ال یغفر الذنوب اال انت۔اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں‬
‫اپنے گناہوں کا اقرار کرتا‪/‬کرتی ہوں۔ تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے‬
‫واال نہیں۔ آمین(معاذہللا)‬

‫تصنیف براہین احمدیہ‬


‫مرزا غالم احمد نے ‪1880‬ء میں اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ کے پہلے دو حصے‬
‫شائع کیے۔ تیسرا حصہ ‪1882‬ء میں جب کہ چوتھا ‪1884‬ء میں شائع ہوا۔ کتاب کا آخری‬
‫اور پانچواں حصہ ‪1905‬ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کا مقصد مصنف نے یہ بیان‬
‫کیا کہ ‪ 300‬دالئل سے مذہب اسالم کی سچائی اور تمام دوسرے ادیان پر برتری ثابت‬
‫کی جائے۔ کتاب کے ساتھ ہی مرزا صاحب نے ‪ 10000‬روپے انعام کا اشتہار بھی شائع‬
‫کیا جو اس شخص کو دیا جانا تھا جو کتاب میں اسالم کی تائید میں دیے گئے دالئل میں‬
‫سے پانچویں حصہ کو بھی غلط ثابت کر سکے۔ یہ رقم ‪ 1879‬میں مرزا صاحب کی کل‬
‫جائداد کی قیمت پر مشتمل تھی‬
‫اہم واقعات‬
‫‪:‬تاریخ احمدیت کے چند اہم واقعات‬

‫ء کی ‪ 23‬مارچ کو لدھیانہ میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس‪1889‬‬
‫روز چالیس افراد نے بیعت کی۔ پہلی بیعت کرنے والے مرزا غالم احمد کے نذدیکی‬
‫دوست اور معاون حکیم نور الدین تھے۔‬
‫ء میں مرزا غالم احمد نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعوٰی کیا۔ اسی سال‪1891‬‬
‫جماعت احمدیہ کا پہال اجتماع جلسہ ساالنہ وقوع پذیر ہوا ۔‬
‫ء میں مرزا غالم احمد نے نظام وصیت کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں بعد میں‪1905‬‬
‫بہشتی مقبرہ نامی قبرستان کا قیام عمل میں الیا گیا۔‬
‫ء میں ‪ 26‬مئی کو الہور میں مرزا غالم احمد نے وفات پائی۔ ان کی تدفین بہشتی‪1908‬‬
‫مقبرہ‪ ،‬قادیان میں ہوئی۔‬
‫ء کی ‪ 27‬مئی کو حکیم نور الدین کو باالتفاق مرزا غالم احمد کا پہال خلیفہ منتخب‪1908‬‬
‫کیا گیا۔ ان کی وفات پر ‪1914‬ء جماعت احمدیہ دو حصوں میں منقسم ہو گی۔ ایک حصہ‬
‫مرزا بشیر الدین محمود احمد کی سربراہی میں نظام خالفت پر قائم رہا۔ اس حصہ کا‬
‫مرکز قادیان ہی رہا اور احمدیہ مسلم جماعت کہالتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مولوی‬
‫محمد علی کی سربراہی میں الہور چال گیا اور احمدیہ انجمن اشاعت اسالم الہور کے نام‬
‫سے موسوم ہے۔‬
‫ء میں پہلے خلیفہ المسیح کی وفات پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کو دوسرا‪1914‬‬
‫خلیفہ منتخب کیا گیا۔‬
‫ء میں تحریک جدید کے نام سے دنیا بھر میں تبلیغی مراکز کے قیام اور اشاعت‪1934‬‬
‫کا نظام شروع کیا گیا۔‬
‫ء میں تقسیم پاک و ہند کے نتیجہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو اپنا مرکز قادیان‪1947‬‬
‫سے عارضی طور پر الہور اور پھر مستقال نئے آباد کردہ شہر ربوہ منتقل کرنا پڑا۔‬
‫ء میں وقف جدید کے نام سے دیہی عالقوں کے ممبران جماعت احمدیہ کی تعلیم‪1957‬‬
‫و تربیت کے لئے منصوبہ کا آغاز ہوا۔‬
‫ء میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کا انتخاب ہوا۔‪1965‬‬
‫ء میں سقوط غرناطہ کے سات سو سال کے بعد ہسپانیہ کے شہر پیدروآباد میں‪1980‬‬
‫پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔‬
‫ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو ایک آئینی ترمیم کے‪1974‬‬
‫ذریعہ غیر مسلم قرار دیا۔‬
‫ء میں چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد کا انتخاب ہوا۔‪1982‬‬
‫ء میں پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت نے امتناع قادیانیت‪1984‬‬
‫آرڈیننس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی بہت سی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ احمدیوں‬
‫کے لئے اسالمی طریق پر سالم کرنا‪ ،‬اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنا‪ ،‬اذان دینا‪ ،‬تالوت‬
‫کرنا‪ ،‬اپنے عقیدہ کی تبلیغ و اشاعت کرنا وغیرہ قابل گرفت قرار پائے۔ اس آرڈیننس کے‬
‫پیش نظر چوتھے خلیفہ المسیح نے پاکستان سے اپنا مرکز لندن منتقل کیا۔‬
‫ء میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں اپنے قیام کی صد سالہ جوبلی منائی۔‪1989‬‬
‫ء میں پانچویں خلیفہ مرزا مسرور احمد کا انتخاب ہوا۔‪2003‬‬
‫ء میں احمدیہ مسلم جماعت نے خالفت احمدیہ کی سو سالہ جوبلی منائی۔‪2008‬‬
‫قادیانی فرشتے‬
‫ہللا تعالٰی کے چار فرشتے بہت زیادہ مشہور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السالم‪ ،‬حضرت‬
‫میکائیل علیہ السالم‪ ،‬حضرت اسرافیل علیہ السالم اور حضرت جبرائیل علیہ السالم۔‬
‫حضرت عزرائیل علیہ السالم کے ذمہ ہر جاندار کی روح قبض کرنا ہے۔ حضرت‬
‫میکائیل علیہ السالم کے ذمہ ہوائوں اور بارشوں کا نظام سپرد ہے‪ ،‬حضرت اسرافیل‬
‫علیہ السالم کے ذمہ روِز قیامت صور پھونکنا ہے جس سے پوری کائنات درہم برہم‬
‫ہوجائے گی اور زمانہ آخرت شروع ہوجائے گا۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم ہللا تعالٰی‬
‫کا پیغام (وحی نبوت و رسالت) لے کر تمام انبیاء و رسل تک پہنچاتے رہے۔ حضور نبی‬
‫کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہللا تعالٰی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپصلی اﷲ علیہ وسلم‬
‫پر سلسلہ نبوت اور رسالت ختم ہوگیا اور وحی کا دروازہ بھی۔ لٰہ ذا حضرت جبرائیل‬
‫علیہ السالم کی ڈیوٹی (ہللا کے نبیوں پر وحی پہنچانا) بھی ختم ہوگئی۔ ان چاروں‬
‫فرشتوں کے عالوہ بھی ہللا تعالٰی کے بے شمار فرشتے ہیں جو اپنے اپنے فرائِض‬
‫منصبی انجام دے رہے ہیں۔‬
‫جھوٹے مدعیاِن نبوت کا ہمیشہ یہ دعوٰی رہا ہے کہ ان پر بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں۔‬
‫کہاوت مشہور ہے‪ :‬جیسی روح‪ ،‬ویسے فرشتے!! یہ ضرب المثل جھوٹے مدعی نبوت‬
‫آنجہانی مرزا قادیانی پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ جس طرح مرزا قادیانی ایک‬
‫مخبوط الحواس اور مضحکہ خیز شخصیت کا مالک تھا‪ ،‬اس کے نام نہاد فرشتے بھی‬
‫ایسی ہی خصلت رکھتے تھے۔ آئیے! ملتے ہیں مرزا قادیانی کے ”خصوصی” فرشتوں‬
‫سے۔‬
‫ٹیچی‬
‫کوئی شخص ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ تم حساب کر لو۔ مگر وہ نہیں کرتا۔” )‪(1‬‬
‫اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے ایک مٹھی بھر کر روپے مجھے دیے ہیں۔ اس‬
‫کے بعد ایک اور شخص آیا جو اٰل ہی بخش کی طرح ہے مگر انسان نہیں بلکہ فرشتہ‬
‫معلوم ہوتا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھ روپوں کے بھر کر میری جھولی میں ڈال دیے ہیں تو‬
‫وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ میں ان کو گن نہیں سکتا۔ پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس‬
‫”نے کہا۔ میرا کوئی نام نہیں۔ دوبارہ دریافت کرنے پر کہا کہ میرا نام ہے ٹیچی۔‬
‫)تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع دوم صفحہ ‪ 526‬از مرزا قادیانی(‬
‫ٹیچی ٹیچی مرزا قادیانی کا عجیب فرشتہ تھا۔ مرزا قادیانی نے اس سے نام پوچھا تو‬
‫پہلے اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا‪ ،‬میرا کوئی نام نہیں۔ پھر دوبارہ دریافت کرنے پر‬
‫بتایا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ٹیچی ٹیچی تیز رفتار فرشتہ ہے جو‬
‫ٹچ کر کے جاتا ہے اور ٹچ کر کے آتا ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب‬
‫قادیانیوں کو ٹیچی ٹیچی کہا جاتا ہے تو وہ اس کا برا محسوس کرتے ہیں بلکہ بعض‬
‫دفعہ تو وہ غصے میں آ کر جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔‬
‫شیر علی‬
‫میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے” )‪(2‬‬
‫مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے۔ اس نے مجھے ایک جگہ لٹا‬
‫کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک‬
‫دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفا نور جو‬
‫آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا‪ ،‬اس کو ایک‬
‫چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنا دیا ہے۔ ”‬
‫(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ‪ 24‬طبع چہارم از مرزا قادیانی)‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ اس فرشتے (آئی سپیشلسٹ) نے مرزا قادیانی کی آنکھیں صحیح‬
‫طریقے سے صاف نہیں کیں کیونکہ مرزا قادیانی آخر وقت تک آنکھوں کی بیماری‬
‫”مائی اوپیا” میں مبتال رہا جس کی وجہ سے وہ چاند بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔‬

‫)سیرت المہدی جلد سوم صفحہ ‪ 119‬از مرزا بشیر احمد ایم اے(‬

‫مرزا غالم قادر‬


‫میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے بڑے بھائی مرزا غالم قادر مرحوم کی” )‪(3‬‬
‫شکل پر ایک شخص آیا ہے۔ مگر مجھے فورًا معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے۔”‬
‫(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ‪ 151‬طبع چہارم از مرزا قادیانی)‬
‫یہ بات یاد رہے کہ یہ وہی مرزا غالم قادر ہے جس نے انگریز کی فوج کو کمک‬
‫پہنچائی اور جنگ آزادی کے کئی مجاہدین کو خاک و خون میں تڑپا دیا ۔‬

‫خیراتی‬
‫عرصہ قریبًا پچیس برس کا گزرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رویا ہوا کہ” )‪(4‬‬
‫میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف مولوی عبدہللا صاحب‬
‫غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی‬
‫صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتار دوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف‬
‫کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین‬
‫”فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہو گئے جن میں سے ایک کا نام خیراتی تھا۔‬
‫)تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ‪ 23‬طبع چہارم از مرزا قادیانی(‬

‫مٹھن الل‬
‫فرمایا‪ ،‬نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعا کی گئی۔ صبح” )‪(5‬‬
‫کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔ میں نے دیکھا کہ عبدہللا سنوری میرے پاس آیا ہے‬
‫اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا‬
‫ہے اور جلدی جانا ہے میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔‬
‫دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبدہللا کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ‬
‫اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ یہ لوگ‬
‫روکھے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی سپارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت۔ میں تیرا کاغذ لے‬
‫جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن الل نام جو‬
‫کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور‬
‫گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا‬
‫دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بالتامل‬
‫اسی وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا‬
‫اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو‪ ،‬ابھی دستخط گیلے ہیں اور پوچھا کہ عبدہللا کہاں ہے؟‬
‫انھوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی‬
‫حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں۔ مقبول کو بالئو۔ اس کے‬
‫کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔ فرمایا۔ یہ جو مٹھن الل دیکھا گیا ہے‪ ،‬مالئک طرح طرح‬
‫کے تمثالت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن الل سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‬

‫)تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ‪ 474‬طبع چہارم از مرزا قادیانی(‬

‫حفیظ‬
‫صوفی نبی بخش صاحب الہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا۔” )‪(6‬‬
‫بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب”‬
‫میں مال جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے‪ ،‬وہ کہنے‬
‫لگا‪ ،‬میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔”‬
‫(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ‪ 643‬طبع چہارم از مرزا قادیانی)‬
‫درشنی‬
‫ایک فرشتہ کو میں نے ‪ 20‬برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔ صورت اس” )‪(7‬‬
‫کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا‬
‫”کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‬

‫)ملفوظات جلد چہارم صفحہ ‪ 69‬طبع جدید از مرزا قادیانی(‬

‫ہمد رد فرشتہ‬
‫میںنے کشف میںدیکھاکہ ایک فرشتہ میر ے سامنے آیااورکہتاہے کہ لوگ”…)‪(8‬‬
‫پھرتے جارہے ہیں تب میں نے اس کو خلو ت میںلے جاکر کہاکہ لو گ پھر تے جارہے‬
‫ہیںمگر کیاتم بھی پھر گئے تواس نے کہاہم تمہارے ساتھ ہیں”۔‬

‫) انو ارالسالم ص ‪52‬مندرجہ روحانی خزائن جلد ‪9‬صفحہ ‪54‬مصنفہ مرزاقادیانی(‬

‫میٹھی روٹیوں والے فرشتے‬


‫ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب نے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ سالم نے’)‪(9‬‬
‫فرمایا”اس مینار کے سامنے دوفرشتے میرے سامنے آئے جن کے پاس دوشیریں‬
‫روٹیاں تھیں اوروہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیںاورکہاکہ ایک تمہارے لئے اوردوسری‬
‫تمہارے مریدوں کے لئے ہے ”۔‬

‫)سیرت المہدی حصہ سوم ص‪263‬مصنفہ مرزابشیرقادیانی(‬


‫پیشن گوئیاں‬
‫‪:‬پہلی پیش گوئی‪-01‬‬
‫موالنا ثناء ہللا امرتسری مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے مرزا غالم احمد قادیانی نے‬
‫لکھا‪’’:‬آپ اپنے پرچہ میں …… میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور‬
‫کذاب اور دجال ہے…… اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ‬
‫اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں‪ ،‬تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہالک‬
‫ہوجائوں گا۔‘‘‬
‫(مجموعہ اشتہارات صفحہ‪،578‬جلد‪)3‬‬

‫نتیجہ‪ :‬مرزا غالم احمدقادیانی کی یہ پیش گوئی حرف بحرف سچی نکلی۔ وہ ‪26‬مئی‬
‫‪1908‬ء کو موالنا مرحوم کی زندگی میں ہالک ہوگیا۔اور موالنا مرحوم ‪1949‬ء تک‬
‫سالمت باکرامت رہے۔ ثابت ہوا کہ مرزا غالم احمد قادیانی بقول خود‪ ،‬ہللا تعالٰی کی نظر‬
‫میں مفتری اور کذاب و دجال تھا۔‬

‫‪:‬دوسری پیش گوئی‪-02‬‬


‫اسی اشتہار میں موالنا مرحوم کومخاطب کر کے لکھا ‪’’ :‬اگر وہ سزا جو انسان کے‬
‫ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے‪ ،‬جیسے طاعون‪ ،‬ہیضہ وغیرہ‬
‫مہلک بیماریاں‪ ،‬آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا کی طرف سے‬
‫نہیں۔‘‘ (ایضًا)‬
‫(مجموعہ اشتہارات ……صفحہ‪،579,578‬جلد‪)3‬‬

‫نتیجہ‪:‬مرزا کی یہ پیش گوئی بھی سچی ثابت ہوئی۔ موالنا مرحوم مرزا کی زندگی میں‬
‫بفضل خدا تمام آفات سے محفوظ رہے۔ اور خود مرزا‪ ،‬موالنا کی زندگی میں وبائی‬
‫ہیضہ کا شکار ہوگیا۔‬
‫(حیات ناصر صفحہ‪ ،14‬بحوالہ قادیانی مذہب پہلی فصل نمبر‪)80‬‬

‫‪:‬تیسری پیش گوئی‪-03‬‬


‫مرزا غالم احمد قادیانی کا عبدہللا آتھم پادری کے ساتھ‪15‬دن تک مناظرہ ہوتا رہا۔ آخری‬
‫دن ‪5‬جون‪1893‬ء کو مرزا نے پیش گوئی کہ ان کا حریف پندرہ مہینے تک ہاویہ میں‬
‫گرایا جائے گا۔ اسی سلسلہ میں مرزا نے لکھا‪’’:‬میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوںکہ اگر‬
‫یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی‪ ،‬یعنی وہ فریق جو خدا تعالٰی کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ‬
‫پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں‬
‫ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔روسیاہ کیا جاوے‪،‬‬
‫میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے‪ ،‬مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے‬
‫تیار ہوں اور میں ہللا جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔‬
‫ضرور کرے گا‪ ،‬ضرور کرے گا‪ ،‬زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‬
‫…… اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو۔ اور تمام شیطانوں اور‬
‫بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘‬
‫(جنگ مقدس صفحہ‪ 210‬۔‪ 211‬روحانی خزائن ‪ ،‬جلد‪ 6‬صفحہ نمبر‪)293-292‬‬

‫نتیجہ‪ :‬پیش گوئی کی آخری میعاد ‪ 5‬ستمبر‪1894‬ء تھی‪ ،‬مگر آتھم اس تاریخ تک نہیں‬
‫مرا‪ ،‬اس لئے مرزا غالم احمد قادیانی کی یہ پیش گوئی سچی ثابت ہوئی کہ‪’’ :‬اگر آتھم‬
‫پندرہ ماہ کے عرصہ میں بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں جھوٹا ہوں‪ ،‬میرے‬
‫لئے سولی تیار رکھو۔ اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے‬
‫‘‘لعنتی قرار دو۔‬

‫‪:‬چوتھی پیش گوئی‪-04‬‬


‫مرزا غالم احمد قادیانی کو بقول اس کے الہام ہوا تھا کہ محمدی بیگم (دختر احمد بیگ‬
‫ہوشیارپوری) کا شوہر مرزا کی زندگی میں مرجائے گا اور محمدی بیگم بیوہ ہو کر‬
‫مرزا کے نکاح میں آئے گی۔ اس سلسلہ میں مرزا نے پیش گوئی کی کہ‪’’ :‬میں بار بار‬
‫کہتا ہوں کہہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ ا س کا انتظار کرو‪،‬‬
‫اور اگر میں جھوٹا ہوں تو پیش گوئی پوری نہیں ہوگی ۔ اور میری موت آجائے گی۔‘‘‬
‫( انجام آتھم صفحہ ‪31‬حاشیہ ‪،‬روحانی خزائن جلد ‪ 11‬صفحہ نمبر‪)31‬‬

‫نتیجہ‪ :‬احمد بیگ کا داماد (سلطان محمد ) مرز اکی زندگی میں نہیں مرا‪ ،‬بلکہ مرزا‬
‫کے بعد ایک عرصہ تک زندہ سالمت رہا۔ اس لئے مرزا کی یہ پیش گوئی سوفیصد‬
‫سچی ثابت ہوئی کہ ’’اگر میں جھوٹا ہوں تو احمد بیگ کا داماد میری زندگی میں نہیں‬
‫‘‘مرے گا۔‬

‫‪:‬پانچویں پیش گوئی‪-05‬‬


‫اسی سلسلہ میں مرزا نے لکھا ‪’’:‬یاد رکھو اگر اس پیش گوئی کی دوسری جز پوری نہ‬
‫ہوئی (یعنی احمد بیگ کا داماد مرزاکی زندگی میں نہ مرا……ناقل) تو میں ہر بد سے‬
‫بد تر ٹھہروں گا۔‘‘‬
‫(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ‪، 54‬روحانی خزائن جلد ‪11‬صفحہ نمبر ‪)338‬‬

‫نتیجہ‪ :‬یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف سچی نکلی ‪ ،‬اور مرزا اپنی پیش گوئی کے‬
‫‘‘مطابق ’’ہربد سے بدتر ٹھہرا۔‬
‫‪:‬چھٹی پیش گوئی‪-06‬‬
‫مرزا نے پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ ایک ایسا زلزلہ آنے واال ہے جو قیامت کا نمونہ‬
‫ہوگا۔ مرزا نے اس کا نام زلزلۃ الساعۃ رکھا‪ ،‬یعنی ’’قیامت کا زلزلہ‘‘ اس کے لئے بہت‬
‫سے اشتہارجاری کئے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا کہ‪’’:‬آئندہ زلزلہ کی نسبت‬
‫جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں ۔ اگر وہ آخر کو معمولی‬
‫بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا تعالٰی کی طرف سے‬
‫نہیں۔‘‘‬
‫(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ‪ ،93-92‬روحانی خزائن صفحہ‪ ،253‬جلد‪)21‬‬

‫نتیجہ‪ :‬مرزا کی یہ کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم اس کی وفات (‪26‬مئی ‪1908‬ء )‬
‫کے پونے پانچ مہینے بعد ‪15‬اکتوبر‪1908‬ء کو شائع ہوئی۔ اس کی زندگی میں یہ زلزلہ‬
‫نہ آیا‪ ،‬لٰہ ذا مرزا کی یہ پیش گوئی حرف بحرف سچی نکلی کہ ’’اگر یہ زلزلہ میری‬
‫زندگی میں نہ آیا تو میں خدا کی طرف سے نہیں ‪ ،‬بلکہ جھوٹا ہوں۔‬

‫تحریفات و انکے جوابات‬


‫‪:‬آیت‬
‫ُيْلِقي الُّر وَح ِم ْن َأْم ِر ِه‬
‫– قادیانی استدالل‬
‫ُيْلِقي الُّر وَح ِم ْن َأْم ِر ِه َع َلى َم ْن َيَش اُء " (مومن (‪" )۱۵‬‬
‫هللا تعالى اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے۔ یعنی منصب نبوت‬
‫اس کو بخشتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ نبی آتے رہیں گے۔‬

‫– جواب نمبر ا‬
‫آیت مذکورہ میں روح کے معنی نبوت کے نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے یہی معنی ہیں کہ‬
‫"َلُهُم اْلُبْش َر ى ِفي اْلَحَيوة الُّد ْنَيا " یعنی مومنوں کیلئے مبشرات باقی رہ گئے ہیں‪.‬فرمایا "لم‬
‫يبق من النبوت اال المبشرات " کہ خدا کا کالم مبشرات کے رنگ میں امت محمدیہ کے‬
‫لئے باقی رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے تحت گزشتہ چودہ سو سال میں ہزار ہا اولیاء‬
‫امت اور علماء حق کو انوار نبوت ملے اور آثار نبوت بھی انکے اندر موجزن تھے‬
‫مگر وہ نبی نہ تھے‬
‫– جواب نمبر ‪۲‬‬
‫روح کا لفظ محض کالم کے معنی میں آتا ہے ۔ اور ہللا تعالی کا کالم غیر نبی سے بھی‬
‫ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح "رجال يكلمون من غير ان يكونوا انبیاء سے ظاہر ہے۔‬
‫پس ہللا تعالی کا اپنے بندوں سے کالم کرنا اجرائے نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔‬

‫دوسری‬
‫آیت‪ُ :‬مَبِّش رًا ِبَر ُسوِل َيْأِتي ِم ْن َبْع ِد ي‬
‫– قادیانی استدالل‬
‫ُم بشرًا ِبَر ُسوٍل َيْأِتي ِم ْن َبْع ِد ي اْس ُم ُه َأْح َم ُد (صف) کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ اس سے‬
‫مراد مرزاغالم احمد قادیانی ہے۔‬

‫ا جواب ا۔‬
‫چودہ سو سال سے آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس )الف(‬
‫سے مرا در حمت دو عالم منیر کی ذات اقدس ہے۔‬

‫پھر یہ بشارت سید نا عیسی علیہ السالم نے من بعدی کے ساتھ دی تھی تو ظاہر )ب(‬
‫ہے کہ حضرت عیسی کے بعد رحمت عالم سلیم تشریف الئے تو اس کا آپ مصداق‬
‫ہوئے نہ کہ مرزا کانا۔‬

‫آپ سرکار کا اسم گرامی محمد اور احمد تھا۔ جیسا کے مشہور احادیث صحیحہ و )ج(‬
‫متواترہ میں وارد ہے۔ تفصیالت کے لئے کنز العمال‪ ،‬مدارج النبوت وغیرہ مالحظہ ہو۔‬
‫اور مرزا کا نام محمد یا احمد نہیں بلکہ غالم احمد یا مرزاغالم احمد قادیانی ہے اس کے‬
‫لئے مرزائی کتب ‪ ،‬کتاب البريد تذکره‪ ،‬ازالہ اوہام و غیرہ مالحظہ ہو‬

‫آپ سرکار خود ارشاد فرماتے ہیں " انا بشارۃ عیسٰی “ اور قرآن مجید میں آپ )و(‬
‫سرکار ہی کی نسبت بشارت عیسی وارد ہے۔ نہ کہ مرزا جیسے افیونی کے لے لئے۔‬
‫– جواب ‪۲‬‬
‫مرزاغالم احمد قادیانی کا اصل نام جو اس کے ماں باپ نے رکھا تو وہ غالم احمد تھا۔‬
‫مرزا بھی ساری زندگی یہی لکھتا رہا ‪ ،‬بکتا ر ہا۔ اس کا نام احمد نہیں تھا۔ تو غالم‬
‫احمد ‪ ،‬اسمہ احمد کا مصداق کیسے ہو گیا ؟‬

‫ایک دفعہ ایک قادیانی نے حضرت امیر شریعت سید عطاء ہللا شاہ بخاری کے سامنے‬
‫یہ بات کہہ دی آپ نے فی البدیہہ فرما یا غالم احمد سے مراد ‪ ،‬احمد ہے تو عطاء ہللا‬
‫سے مراد صرف ہللا ہو سکتا ہے۔ غالم احمد کو احمد مانتے ہو تو پھر عطاء ہللا کوہللا ما‬
‫نا پڑے گا۔ اگر ہللا مانو گے ! تو میرا پہال حکم یہ ہے کہ غالم احمد جھوٹا ہے۔ اسے‬
‫میں نے نبی نہیں بنایا۔ پس شاہ جی رحمۃ ہللا علیہ کی حاضر جوابی سے قادیانی یہ جا‬
‫!وہ جا‬

‫‪-‬جواب ‪۳‬‬
‫اگر احمد سے مراد مرزا قادیانی ہے تو پھر یہ مسیح موعود یا مہدی کیسے ہوا؟ اس‬
‫لئے کہ مسیح موعود اور مہدی میں سے کسی کا نام احمد نہیں۔‬

‫تیسری‬
‫آیت‪َ :‬و َلَقْد َض َّل َقْبَلُهْم َأْكَثُر اَألَّو ِليَن‬
‫‪ :‬قادیانی استدالل‬
‫َلَقْد َض َّل َقْبَلُهْم َأْكَثُر اَأْلَّو ِليَن َو َلَقْد َأْر َس ْلَنا ِفيِهُم ُم ْنِذ ِر يَن (صافات (‪)۷۲‬‬
‫ان سے پہلے بھی بہت سے لوگوں میں گمراہ ہوئے اور یقینا ہم نے ان کے اندر ڈرانے‬
‫والے بھیجے ۔ جیسے پہلی گمراہیوں کے وقت نبی آتے رہے ویسے ہی اب بھی گمراہی‬
‫کے وقت مرزا غالم احمد قادیانی نبی مبعوث ہوا۔ معاذ ہللا‬

‫جواب نمبر ‪۱‬۔‬


‫پہلے لوگوں میں گمراہی اس لئے پھیلی کہ ان کے انبیا کی تعلیمات محفوظ نہ رہیں۔ اس‬
‫میں ترمیم و اضافہ کر دیا گیا ۔ ہمارے نبی اکرم کی تعلیمات الحمد ہلل محفوظ ہیں جیسا‬
‫کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہللا نے اٹھائی ہے ارشاد باری تعالی "ِإَّنا َنْح ُن‬
‫َنَّز ْلَنا الِّذْك َر َو ِإَّنا َلُه َلْح ِفُظوَن " اس لئے حضور کی امت ‪ ،‬سابقہ امتوں کی طرح من حیث‬
‫المجموع گمراہ نہیں ہو سکتی ۔ حضور پاک کا ارشاد ہے ال تجتمع امتى على الضاللة‬
‫(مشکوۃ) اور پھر امت محمدیہ کے علماء وہی کام انجام دیں گے جو انبیاء بنی اسرائیل‬
‫دیتے تھے۔ چنانچہ اس حدیث پاک کو لعین قادیان مرزا نے بھی اپنی کتاب ( شہادت‬
‫القرآن ع ص ‪ ۳۲۳‬ج ‪ )۶‬پر تسلیم کیا ہے کہ اصالح و تبلیغ کا کام یہ صالحین امت و‬
‫ُأ‬
‫علماء دین کریں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے "َو َلَتُك ْن ِم ْنُك ْم َّم ٌة َيْدُع وَن ِإَلى اْلَخْيِر‬
‫َو َيْأُم ُروَنباْلَم ْعُروِف َو َيْنَهْو َن َع ِن اْلُم نَك ِر " (ال عمران ‪)۱۰۳‬‬

‫اب خود مرزا کے مسلمات پر غور کیجئے۔‬

‫الف " خدا تعالی نے اس بارے میں بھی پیشینگوئی کر کے آپ فرمادیا یعنی شرک اور‬
‫مخلوق پرستی نہ کوئی اپنی نئی شاخ نکلے گی نہ پہلے حالت پر عود کرے گی۔‬
‫) برامین احمد یہ خا ص ‪ ۱۰۲‬ج(‬

‫اگر کوئی کہے کہ فساد اور بد عقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں پھر‬
‫اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ ( یعنی حضور سےپہلے‬
‫کا) توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہو گیا تھا۔ اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ‬
‫ال الہ اال ہللا کہنے والے موجود ہیں۔ اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالی نے مجدد کے‬
‫بھیجنے سے محروم نہیں رکھا‬
‫)نور القرآن خص ‪۹ ۳۳۹‬‬

‫چوتھی‬
‫آیت‪ِ :‬إَّن َر ْح َم َت ِهَّللا َقِر يٌب‬
‫‪:‬قادیانی‬
‫ِإَّن َر ْح َم َت ِهَّللا َقِر يٌب ِّم َن اْلُم ْح ِسِنيَن “ (اعراف (‪)۵۲‬‬
‫نبوت بھی ایک رحمت ہے وہ بھی نیکوں کو ملنی چاہیے۔‬
‫جواب نمبر ا ۔‬
‫اس آیت میں جملہ رحمتیں مراد نہیں اور نہ ہر رحمت ہر ایک کے لئے ضروری ہے ۔‬
‫ورنہ دولت سلطنت‪ ،‬بارش وغیرہ سب رحمت ہیں جبکہ اکثر محسنین خصوصا انبیاء‬
‫علیہم السالم دولت اور سلطنت وغیرہ کی رحمتوں سے خالی تھے۔ تو کیا وہ نبی نہ‬
‫تھے؟ معلوم ہوا کہ بہت ساری رحمتوں کی طرح نبوت بھی ایک رحمت ہے جو باری‬
‫تعالی کی مرضی پر ہے۔ جب چاہیں اور جس کو چاہیں دیں اور جس پر جس نعمت کی‬
‫چاہیں بندش فرمادیں۔‬

‫َو َم ا َأْر َس ُلنَك ِإاَّل َر ْح َم ًة ِلْلَع َلِم يَن " (انبیاء ‪)۱۰۷‬‬
‫اس امت کے لئے دنیا میں سب سے بڑی رحمت حضور پاک کی ذات اقدس ہے۔ جو‬
‫شخص اب آنحضرت کے بعد کسی اور رحمت ‪ ،‬نبوت کو تالش کرتا ہے یا جاری‬
‫کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہللا کی سب سے بڑی رحمت محمد عربی سے منہ موڑتا‬
‫ہے اس سے بڑھ کر بد نصیب اور کون ہوگا ؟‬
‫حضور نے فرمایا ہے "انا حضكم من االنبياء وانتم حضى من االمم" نبیوں میں سے میں‬
‫محمد تمھارے حصہ میں آیا ہوں اور امتوں میں سے تم میرے حصہ میں آئے ہو معلوم‬
‫ہوا کہ جو شخص کسی اور نبی کی تالش میں ہے وہ حضور کی امت میں نہیں رہے گا‬
‫گویا وہ ہللا کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت سے محروم ہو جائے گا۔ اور جب کہ‬
‫مرزا نے خود ہی لکھا ہے‬
‫فال حاجة لنا الى نبي بعد محمد ‪( ،‬حملة البشری غ ص ‪ ۲۴۴‬ج ‪" ) ۷‬‬
‫تو مرزائیوں کو نیانبی اور وہ بھی مرزا جیسا کوڑھ مغز نبی ڈھونڈنے کی ضرورت کیا‬
‫ہے۔ حضور کے بعد جو شخص نبوت کا دعوی کرے گا وہ اپنی وحی کی اتباع کا‬
‫پابندہو گا اور حضور کی اتباع سے محروم ہو کر خدا کی سب سے بڑی رحمت سے‬
‫محروم ہو جائے گا۔ اس محروم القسمت بدبخت کے لئے جو حضور کی اتباع سے منہ‬
‫موڑتا ہے مرزائی لوگ قرآن میں تحریف کر کے اس کی نبوت کے لئے دالئل تالش‬
‫کرتے ہیں۔ فیا للعجب ۔‬

‫پھر جناب اگر نبوت رحمت ہے تو سب سے بڑی رحمت نبوت تشریعیہ ہے۔ تومرزائی‬
‫اس کو بند کیوں مانتے ہیں؟‬
‫آیت " ِإَّن َر ْح َم َت ِهللا َقِر يٌب ِّم َن اْلُم ْح ِسِنیَن (اعراف (‪ )۵۶‬کے ساتھ ملحقہ اگلی آیت ُهَو ‪۵‬‬
‫اَّلِذ ي ُيْر ِس ُل الِّريَح ُبْش رًا َبْيَن َيَدی َر ْح َم ِتِه (اعراف ‪ )۵۷‬میں بارش کو رحمت کہا گیا ہے ۔‬
‫مگر پوری دنیا کا اتفاق ہے کہ اگر بارش والی رحمت ضرورت سے بڑھ جائے تو‬
‫رحمت کے بجائے زحمت یعنی عذاب بن جاتی ہے ۔ لیجئے جناب ! اس آیت شریفہ سے‬
‫ہی قادیانی لغویات کا بھر پور ابطال نکل آیا۔ بارش رحمت ہے مگر جو ضرورت سے‬
‫زیادہ بارش مانگے وہ خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح حضور کی نبوت رحمت‬
‫ہے اس رحمت کے ہوتے ہوئے اگر اور نبوت کی رحمت کو کوئی مانگتا ہے تو وہ بھی‬
‫عذاب خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔‬
‫پانچھویں‬
‫آیت‪َ :‬و اَل َأْن َتْنِكُحوا َأْز َو اَج ُه‬
‫– قادیانی استدالل‬
‫َو ال َأْن َتنِك ُحوا َأْز َو اَج ِه ِم ْن َبْع ِدِه َأَبدًا “ احزاب ‪ )۵۳‬اور نہ نکاح کرو نبی کی بیویوں "‬
‫سے انکی وفات کے بعد کبھی بھی۔ قادیانیوں کی طرف سے سب سے زیادہ مضحکہ‬
‫خیز استدالل اس آیت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ کہ اب انحضرت کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہو‬
‫گیا ہے تو کوئی نبی نہ آئیگا ۔ نہ اسکی وفات کے بعد اس کی بیویاں زندہ رہیں گی۔ اور‬
‫نہ ان کے نکاح کا سوال ہی زیر بحث آئے گا۔ اب اگر اس آیت کو قرآن مجید سے نکال‬
‫دیا جائے تو کونسا نقص الزم آتا ہے ور نہ مانا پڑتا ہے کہ آنحضرت کے بعد سلسلہ‬
‫نبوت جاری ہے۔ اور قیامت تک انبیاء کی ازواج مطہرات ان کی وفات کے بعد بیوی ہی‬
‫کی حالت میں رہیں گی۔ کیوں کہ رسول ہللا کا لفظ نکرہ ہے جس میں ہر رسول داخل‬
‫ہے۔‬

‫– جواب نمبر ‪1‬‬


‫رسول ہللا کا لفظ معرفہ ہے اور یہاں بھی وہی رسول ہللا مراد ہے جس کا اس سورۃ میں‬
‫کئی بار ذکر آچکا ہے۔ جیسے "لقد كاَن َلُك ْم ِفي َر ُسوِل ِهَّللا َأْس َو ٌة َحَس َنٌة احزاب (‪ )۳‬تمہارے‬
‫لئے رسول ہللا صلہ پیار میں اسوہ حسنہ ہے َقاُلوا َهَذ ا َم ا َو َعَدَنا ُهَّللا ورسوله (احزاب (‪)۲‬‬
‫مومنوں نے کہا یہی ہے جسکا ہللا نے اور اس کے رسول نے وعدہ دیا تھا " َو َلِكْن‬
‫َّرُسوَل ِهَّللا َو َخاَتَم الَّنِبِّييَن " (احزاب ‪ ۴۰‬مگر ہللا کا رسول اور آخری نبی ہے " ان كنُتَّن‬
‫ُتِر ْد َن َهَّللا َو َر ُسوَلُه ( احزاب (‪ )۲‬اگر تم ہللا اور اس کی رسول سے پیار کو چاہتی ہو۔‬
‫اور وہی رسول ہللا مراد ہے جس کے متعلق کتب حدیث میں ہزار ہا مرتبہ یہ الفاظ ہیں "‬
‫قال رسول ہللا ۔ کیا کوئی بندہ جاہل یہ کہہ سکتا ہے کہ قال رسول ہللا نکرہ ہے تو اس‬
‫سے مراد مرزا قادیانی ہے۔ معاذ ہللا ۔‬

‫نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ اضافت معنوی نکرہ کو معرفہ بنا دیتی ہے۔ جیسے عنـده زيد‬
‫لفظ رسول ہللا کی طرف مضاف ہو کر معرفہ ہو گیا۔ فرمایا‪ُ :‬مَحَّم ٌد َّرُسوُل ِهَّللا َو اَّلِذ يَن معة‬
‫( فتح ‪)٢٩‬‬

‫یہ کہنا کہ اب نبی نہ آئے گا تو اس آیت کی کیا ضرورت ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی‬
‫یہ کہہ دے کہ آدم علیہ السالم کے بے ماں باپ یا عیسی علیہ السالم کے بے باپ ہونے‬
‫کا ذکر قرآن سے نکال دیئے جانے کے قابل ہے۔ کیونکہ اب کوئی اس طرح پیدا نہیں‬
‫ہوتا اور نہ ہوگا۔‬

‫یا یہ کہے کہ " َفَلَّم ا َقَض ى َز ْيٌد ِم ْنَها َو َطًرا َز َّو ُجنگها “ (احزاب ‪ )۳۷‬سے ظاہر ہے آئندہ‬
‫رسول بھی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کیا کریں گے۔ ورنہ اس آیت کو دیا‬
‫جائے ۔‬

‫قرآن مجید میں اس آیت کے باقی رکھنے کی ضرورت یہ تھی کہ عرب معاشرہ میں ‪۴‬‬
‫امراء کی وفات پر ان کی ازواج سے شادی کرنا فضیلت میں شمار ہوتا تھا۔ اور قرآن‬
‫نےسورۃ نور میں بیواؤں سے نکاح کا حکم دیا ہے۔‬

‫قرآن نے صریح حکم دیا ہے کہ حضور کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے ۔ وہ آخری‬
‫امہات المؤمنین ہیں اور آپ بوجہ خاتم النبیین ہونے کے آخری باپ ہیں اگریہ حکم‬
‫مذکور نہ ہوتا تو اس فضیلت کے حصول کے لئے کوشش کرتے ۔ اس امت میں فتنہ و‬
‫فساد پیدا ہوتا اور ازواج مطہرات کی پوزیشن بجائے امت کی معلمات دین ہونے کی‬
‫معمولی بھی نہ رہتی ۔ اس لئے اس تاریخی حکم کا تا قیامت باقی رکھنا ضروری تھا ۔ تا‬
‫کہ معلوم ہو کہ یہ خواتین مقدسہ آخری مائیں ہیں اور حضور اقدس آخری باپ ہیں۔‬

‫یہ آیت مبارکہ حضور کی شان و فضیلت کا اظہار کرتی ہے جو کہے کہ اسے نکال ‪۵-‬‬
‫دو۔ وہ حضور کی فضیلت کو مٹانے واال ہے۔ اس لئے ملعون کا فر جہنمی ۔ وہ یہود کا‬
‫مثیل ہے کل ایسے خبیث کہیں گے کہ قرآن مجید سے گذشتہ انبیاء علیہم السالم اب نہیں‬
‫ہیں تو آیات کی ضرورت نہیں اس لیے قرآن مجید سے انبیاء علیہ السالم کے قصص‬
‫‪:‬نکال دینے چاہئیں ۔ کیونکہ وہ انبیاء گزر چکے ہیں ۔ جیسا کہ لعین قادیانی نے کہا‬
‫ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ہے اس سے بہتر غالم احمد ہے‬
‫) در شین اردو خاص ‪ ۱۸ ۲۴۰‬دافع السبال (‬

‫جو ایسی بیہودہ تحریف کرے اس کے متعلق لعین قادیانی نے کہا‪ :‬تحریف‪ ،‬تغیر کرنا‬
‫بندروں اور سوروں کا کام ہے ۔ (اتمام احبت ع ص ‪) ۸ : ۲۹۱‬‬
‫وما علینا اال البلغ‬

You might also like