Professional Documents
Culture Documents
Ghulam Qadyani
Ghulam Qadyani
احمد جوسلسلہ احمدیہ کے بانی تھا۔ اس کا پورانام غالم احمد تھا اور یہ قادیان کے
باشندہ تھا جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ 11میل ،امرتسرسے چوبیس24میل اور
الہور سے قریبًا ستاون 57میل جانب مشرق پرایک قصبہ ہے۔ آپ قریبًا1836ء یا
1837ء میں ِاسی گاؤں میں مرزا غالم مرتضٰی صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوا٭
اور اس کی والدت توام تھی یعنی اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی
ہی مدت بعدفوت ہوگئی۔
جماعت احمدیہ
احمدیہ جماعت 1889ء میں مرزا غالم احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم
کی۔ مرزا غالم احمد نے اعالن کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت
لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمؐد کے
تابع نبی ہونے کا بھی دعوٰی کیا۔ مرزا غالم احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو
ان کا پہال خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا 1914 ،ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو
پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت
اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسالم الہور کہالتا ہے۔
تحریک کا آغاز
مرزا غالم احمد نے اس تحریک کو 23مارچ 1889میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم
جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت
سنبھالی اور اب یہ جماعت 200ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے
خلیفہ کا نام مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک سے دو
.کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں
احمدیہ جماعت ایک منظم اور مربوط
جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔مرزا غالم احمد کی
نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختالفات کے سبب الہوری احمدیہ جماعت اصل
دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ
عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسالمی عقائد کے برخالف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس
سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔
مامور من ہللا ہونے کا دعٰو ی
میں مامور من ہللا ہونے کا دعوٰی کیا۔ اس دعوٰی کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان 1882
کیا ہے
” یا احمد بارک ہللا فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن ہللا رمٰی ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔
لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا
الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی ہللا علیہ وسلم۔ فتبارک
“من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔
ترجمہ :اے احمد ہللا نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چالیا ،تو نے نہیں
چالیا بلکہ خدا نے چالیا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو
ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔
کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا
ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد کی
طرف سے ہیں ،ہللا کی برکتیں اور سالمتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے
تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بوال ہے تو اس جرم کا وبال
مجھ پر ہے۔
وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف
کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو
میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں
پھراپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں
تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن شریف کی ہدایت کے برخالف ایک قدم بھی
نہ اٹھاو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے
ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند
کرتا ہے۔۔۔تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے
کسی سے نہ کیا ہوکیونکہ جیسا خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الخیر کلہ فی
القرآن کہ تمام قسم کی بھالیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے
وفات مسیحؑ کا مسئلہ
مرزا غالم احمد نے یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ بانی عیسائیت عیسٰی ؑ تمام دوسرے انبیا اور
انسانوں کی طرف اپنی طبعی عمر پوری کر کے وفات پا چکے ہیں۔ ان کے اس عقیدہ
کی بنیاد الہام پر ہے
جہاد کا تصور
جہاد کے متعلق مرزا غالم احمد نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تلوار کا جہاد حضرت
محمؐد نے محض اپنے دفاع میں اس وقت کیا تھا جب 13سال تک اہل مکہ کے مظالم
سہنے اور حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد بھی اہل مکہ نے مسلمانوں کا
پیچھا نہ چھوڑا اور ان کے خالف تلوار اٹھائے رکھی۔ ایسی صورت حال میں اپنے
دفاع کے سوا مسلمانوں کے پاس اور کچھ چارہ نہ تھا۔ ان کے نزدیک اسالم کو پھیالنے
کے لیے کسی تلوار کی ضرورت نہیں بلکہ اسالم آزادی مذہب کا علمبردار ہے۔ اسی
طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اسالم پر حملے تلوار سے نہیں بلکہ
اعتراضات کے ذریعہ کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس زمانہ میں تلوار کا دفاعی جہاد
..موقوف ہے اور اس کی بجائے قلم اور اشاعت دین کا جہاد فرض ہے۔ لکھتے ہیں
الفاظ جہاد کے بارے میں
یہ مت خیال کرو کہ ابتداء میں اسالم میں تلوار کا حکم ہوا۔ کیونکہ وہ تلوار دین کو
پھیالنے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو
بچانے کے لئے اور یا امن کو قائم کرنے کے لئےکھینچی گئی تھی۔مگر دین کے لئے
جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔
الفاظ بیعت
ان شرائط پر آمادگی کے بعد بیعت کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
” اشہد ان ال الہ اال ہللا وحدہ ال شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔اشہد ان ال
“ الہ اال ہللا وحدہ ال شریک لہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔
” آج میں مسرور کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل
ہوتا/ہوتی ہوں۔ میرا پختہ اور کامل ایمان ہے کہ حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم خاتم النبیین ہیں۔ میں حضرت مرزا غالم احمد قادیانی علیہ الصالۃ و السالم کو وہی
امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرتا/کرتی ہوں جس کی خوشخبری حضرت محمد
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ میں وعدہ کرتا/کرتی ہوں کہ مسیح
موعود علیہ الصالۃ والسالم کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت کا پابند رہنے کی کوشش
کروں گا/گی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا/گی۔ خالفت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وفا کا
تعلق رکھوں گا/گی۔ اور بحیثیت خلیفہ المسیح آپ کی تمام معروف ہدایات پر عمل کرنے
“ کی کوشش کروں گا/گی۔
” استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔
استغفرہللا ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ رب انی ظلمت نفسی و اعترافت بذنبی فغفرلی
ذنوبی فانہ ال یغفر الذنوب اال انت۔اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں
اپنے گناہوں کا اقرار کرتا/کرتی ہوں۔ تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے
واال نہیں۔ آمین(معاذہللا)
ء کی 23مارچ کو لدھیانہ میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس1889
روز چالیس افراد نے بیعت کی۔ پہلی بیعت کرنے والے مرزا غالم احمد کے نذدیکی
دوست اور معاون حکیم نور الدین تھے۔
ء میں مرزا غالم احمد نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعوٰی کیا۔ اسی سال1891
جماعت احمدیہ کا پہال اجتماع جلسہ ساالنہ وقوع پذیر ہوا ۔
ء میں مرزا غالم احمد نے نظام وصیت کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں بعد میں1905
بہشتی مقبرہ نامی قبرستان کا قیام عمل میں الیا گیا۔
ء میں 26مئی کو الہور میں مرزا غالم احمد نے وفات پائی۔ ان کی تدفین بہشتی1908
مقبرہ ،قادیان میں ہوئی۔
ء کی 27مئی کو حکیم نور الدین کو باالتفاق مرزا غالم احمد کا پہال خلیفہ منتخب1908
کیا گیا۔ ان کی وفات پر 1914ء جماعت احمدیہ دو حصوں میں منقسم ہو گی۔ ایک حصہ
مرزا بشیر الدین محمود احمد کی سربراہی میں نظام خالفت پر قائم رہا۔ اس حصہ کا
مرکز قادیان ہی رہا اور احمدیہ مسلم جماعت کہالتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مولوی
محمد علی کی سربراہی میں الہور چال گیا اور احمدیہ انجمن اشاعت اسالم الہور کے نام
سے موسوم ہے۔
ء میں پہلے خلیفہ المسیح کی وفات پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کو دوسرا1914
خلیفہ منتخب کیا گیا۔
ء میں تحریک جدید کے نام سے دنیا بھر میں تبلیغی مراکز کے قیام اور اشاعت1934
کا نظام شروع کیا گیا۔
ء میں تقسیم پاک و ہند کے نتیجہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو اپنا مرکز قادیان1947
سے عارضی طور پر الہور اور پھر مستقال نئے آباد کردہ شہر ربوہ منتقل کرنا پڑا۔
ء میں وقف جدید کے نام سے دیہی عالقوں کے ممبران جماعت احمدیہ کی تعلیم1957
و تربیت کے لئے منصوبہ کا آغاز ہوا۔
ء میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کا انتخاب ہوا۔1965
ء میں سقوط غرناطہ کے سات سو سال کے بعد ہسپانیہ کے شہر پیدروآباد میں1980
پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو ایک آئینی ترمیم کے1974
ذریعہ غیر مسلم قرار دیا۔
ء میں چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد کا انتخاب ہوا۔1982
ء میں پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت نے امتناع قادیانیت1984
آرڈیننس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی بہت سی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ احمدیوں
کے لئے اسالمی طریق پر سالم کرنا ،اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنا ،اذان دینا ،تالوت
کرنا ،اپنے عقیدہ کی تبلیغ و اشاعت کرنا وغیرہ قابل گرفت قرار پائے۔ اس آرڈیننس کے
پیش نظر چوتھے خلیفہ المسیح نے پاکستان سے اپنا مرکز لندن منتقل کیا۔
ء میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں اپنے قیام کی صد سالہ جوبلی منائی۔1989
ء میں پانچویں خلیفہ مرزا مسرور احمد کا انتخاب ہوا۔2003
ء میں احمدیہ مسلم جماعت نے خالفت احمدیہ کی سو سالہ جوبلی منائی۔2008
قادیانی فرشتے
ہللا تعالٰی کے چار فرشتے بہت زیادہ مشہور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السالم ،حضرت
میکائیل علیہ السالم ،حضرت اسرافیل علیہ السالم اور حضرت جبرائیل علیہ السالم۔
حضرت عزرائیل علیہ السالم کے ذمہ ہر جاندار کی روح قبض کرنا ہے۔ حضرت
میکائیل علیہ السالم کے ذمہ ہوائوں اور بارشوں کا نظام سپرد ہے ،حضرت اسرافیل
علیہ السالم کے ذمہ روِز قیامت صور پھونکنا ہے جس سے پوری کائنات درہم برہم
ہوجائے گی اور زمانہ آخرت شروع ہوجائے گا۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم ہللا تعالٰی
کا پیغام (وحی نبوت و رسالت) لے کر تمام انبیاء و رسل تک پہنچاتے رہے۔ حضور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہللا تعالٰی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپصلی اﷲ علیہ وسلم
پر سلسلہ نبوت اور رسالت ختم ہوگیا اور وحی کا دروازہ بھی۔ لٰہ ذا حضرت جبرائیل
علیہ السالم کی ڈیوٹی (ہللا کے نبیوں پر وحی پہنچانا) بھی ختم ہوگئی۔ ان چاروں
فرشتوں کے عالوہ بھی ہللا تعالٰی کے بے شمار فرشتے ہیں جو اپنے اپنے فرائِض
منصبی انجام دے رہے ہیں۔
جھوٹے مدعیاِن نبوت کا ہمیشہ یہ دعوٰی رہا ہے کہ ان پر بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں۔
کہاوت مشہور ہے :جیسی روح ،ویسے فرشتے!! یہ ضرب المثل جھوٹے مدعی نبوت
آنجہانی مرزا قادیانی پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ جس طرح مرزا قادیانی ایک
مخبوط الحواس اور مضحکہ خیز شخصیت کا مالک تھا ،اس کے نام نہاد فرشتے بھی
ایسی ہی خصلت رکھتے تھے۔ آئیے! ملتے ہیں مرزا قادیانی کے ”خصوصی” فرشتوں
سے۔
ٹیچی
کوئی شخص ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ تم حساب کر لو۔ مگر وہ نہیں کرتا۔” )(1
اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے ایک مٹھی بھر کر روپے مجھے دیے ہیں۔ اس
کے بعد ایک اور شخص آیا جو اٰل ہی بخش کی طرح ہے مگر انسان نہیں بلکہ فرشتہ
معلوم ہوتا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھ روپوں کے بھر کر میری جھولی میں ڈال دیے ہیں تو
وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ میں ان کو گن نہیں سکتا۔ پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس
”نے کہا۔ میرا کوئی نام نہیں۔ دوبارہ دریافت کرنے پر کہا کہ میرا نام ہے ٹیچی۔
)تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع دوم صفحہ 526از مرزا قادیانی(
ٹیچی ٹیچی مرزا قادیانی کا عجیب فرشتہ تھا۔ مرزا قادیانی نے اس سے نام پوچھا تو
پہلے اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ،میرا کوئی نام نہیں۔ پھر دوبارہ دریافت کرنے پر
بتایا کہ میرا نام ٹیچی ہے۔ قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ٹیچی ٹیچی تیز رفتار فرشتہ ہے جو
ٹچ کر کے جاتا ہے اور ٹچ کر کے آتا ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب
قادیانیوں کو ٹیچی ٹیچی کہا جاتا ہے تو وہ اس کا برا محسوس کرتے ہیں بلکہ بعض
دفعہ تو وہ غصے میں آ کر جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔
شیر علی
میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے” )(2
مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے۔ اس نے مجھے ایک جگہ لٹا
کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک
دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفا نور جو
آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا ،اس کو ایک
چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنا دیا ہے۔ ”
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 24طبع چہارم از مرزا قادیانی)
معلوم ہوتا ہے کہ اس فرشتے (آئی سپیشلسٹ) نے مرزا قادیانی کی آنکھیں صحیح
طریقے سے صاف نہیں کیں کیونکہ مرزا قادیانی آخر وقت تک آنکھوں کی بیماری
”مائی اوپیا” میں مبتال رہا جس کی وجہ سے وہ چاند بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔
)سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 119از مرزا بشیر احمد ایم اے(
خیراتی
عرصہ قریبًا پچیس برس کا گزرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رویا ہوا کہ” )(4
میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف مولوی عبدہللا صاحب
غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی
صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتار دوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف
کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین
”فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہو گئے جن میں سے ایک کا نام خیراتی تھا۔
)تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 23طبع چہارم از مرزا قادیانی(
مٹھن الل
فرمایا ،نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعا کی گئی۔ صبح” )(5
کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔ میں نے دیکھا کہ عبدہللا سنوری میرے پاس آیا ہے
اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا
ہے اور جلدی جانا ہے میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔
دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبدہللا کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ
اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ یہ لوگ
روکھے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی سپارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت۔ میں تیرا کاغذ لے
جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن الل نام جو
کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور
گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا
دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بالتامل
اسی وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا
اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ،ابھی دستخط گیلے ہیں اور پوچھا کہ عبدہللا کہاں ہے؟
انھوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی
حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں۔ مقبول کو بالئو۔ اس کے
کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔ فرمایا۔ یہ جو مٹھن الل دیکھا گیا ہے ،مالئک طرح طرح
کے تمثالت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن الل سے مراد ایک فرشتہ تھا۔
حفیظ
صوفی نبی بخش صاحب الہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا۔” )(6
بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب”
میں مال جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے ،وہ کہنے
لگا ،میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔”
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 643طبع چہارم از مرزا قادیانی)
درشنی
ایک فرشتہ کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔ صورت اس” )(7
کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا
”کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔
ہمد رد فرشتہ
میںنے کشف میںدیکھاکہ ایک فرشتہ میر ے سامنے آیااورکہتاہے کہ لوگ”…)(8
پھرتے جارہے ہیں تب میں نے اس کو خلو ت میںلے جاکر کہاکہ لو گ پھر تے جارہے
ہیںمگر کیاتم بھی پھر گئے تواس نے کہاہم تمہارے ساتھ ہیں”۔
نتیجہ :مرزا غالم احمدقادیانی کی یہ پیش گوئی حرف بحرف سچی نکلی۔ وہ 26مئی
1908ء کو موالنا مرحوم کی زندگی میں ہالک ہوگیا۔اور موالنا مرحوم 1949ء تک
سالمت باکرامت رہے۔ ثابت ہوا کہ مرزا غالم احمد قادیانی بقول خود ،ہللا تعالٰی کی نظر
میں مفتری اور کذاب و دجال تھا۔
نتیجہ:مرزا کی یہ پیش گوئی بھی سچی ثابت ہوئی۔ موالنا مرحوم مرزا کی زندگی میں
بفضل خدا تمام آفات سے محفوظ رہے۔ اور خود مرزا ،موالنا کی زندگی میں وبائی
ہیضہ کا شکار ہوگیا۔
(حیات ناصر صفحہ ،14بحوالہ قادیانی مذہب پہلی فصل نمبر)80
نتیجہ :پیش گوئی کی آخری میعاد 5ستمبر1894ء تھی ،مگر آتھم اس تاریخ تک نہیں
مرا ،اس لئے مرزا غالم احمد قادیانی کی یہ پیش گوئی سچی ثابت ہوئی کہ’’ :اگر آتھم
پندرہ ماہ کے عرصہ میں بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں جھوٹا ہوں ،میرے
لئے سولی تیار رکھو۔ اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے
‘‘لعنتی قرار دو۔
نتیجہ :احمد بیگ کا داماد (سلطان محمد ) مرز اکی زندگی میں نہیں مرا ،بلکہ مرزا
کے بعد ایک عرصہ تک زندہ سالمت رہا۔ اس لئے مرزا کی یہ پیش گوئی سوفیصد
سچی ثابت ہوئی کہ ’’اگر میں جھوٹا ہوں تو احمد بیگ کا داماد میری زندگی میں نہیں
‘‘مرے گا۔
نتیجہ :یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف سچی نکلی ،اور مرزا اپنی پیش گوئی کے
‘‘مطابق ’’ہربد سے بدتر ٹھہرا۔
:چھٹی پیش گوئی-06
مرزا نے پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ ایک ایسا زلزلہ آنے واال ہے جو قیامت کا نمونہ
ہوگا۔ مرزا نے اس کا نام زلزلۃ الساعۃ رکھا ،یعنی ’’قیامت کا زلزلہ‘‘ اس کے لئے بہت
سے اشتہارجاری کئے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا کہ’’:آئندہ زلزلہ کی نسبت
جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں ۔ اگر وہ آخر کو معمولی
بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا تعالٰی کی طرف سے
نہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ،93-92روحانی خزائن صفحہ ،253جلد)21
نتیجہ :مرزا کی یہ کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم اس کی وفات (26مئی 1908ء )
کے پونے پانچ مہینے بعد 15اکتوبر1908ء کو شائع ہوئی۔ اس کی زندگی میں یہ زلزلہ
نہ آیا ،لٰہ ذا مرزا کی یہ پیش گوئی حرف بحرف سچی نکلی کہ ’’اگر یہ زلزلہ میری
زندگی میں نہ آیا تو میں خدا کی طرف سے نہیں ،بلکہ جھوٹا ہوں۔
– جواب نمبر ا
آیت مذکورہ میں روح کے معنی نبوت کے نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے یہی معنی ہیں کہ
"َلُهُم اْلُبْش َر ى ِفي اْلَحَيوة الُّد ْنَيا " یعنی مومنوں کیلئے مبشرات باقی رہ گئے ہیں.فرمایا "لم
يبق من النبوت اال المبشرات " کہ خدا کا کالم مبشرات کے رنگ میں امت محمدیہ کے
لئے باقی رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے تحت گزشتہ چودہ سو سال میں ہزار ہا اولیاء
امت اور علماء حق کو انوار نبوت ملے اور آثار نبوت بھی انکے اندر موجزن تھے
مگر وہ نبی نہ تھے
– جواب نمبر ۲
روح کا لفظ محض کالم کے معنی میں آتا ہے ۔ اور ہللا تعالی کا کالم غیر نبی سے بھی
ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح "رجال يكلمون من غير ان يكونوا انبیاء سے ظاہر ہے۔
پس ہللا تعالی کا اپنے بندوں سے کالم کرنا اجرائے نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
دوسری
آیتُ :مَبِّش رًا ِبَر ُسوِل َيْأِتي ِم ْن َبْع ِد ي
– قادیانی استدالل
ُم بشرًا ِبَر ُسوٍل َيْأِتي ِم ْن َبْع ِد ي اْس ُم ُه َأْح َم ُد (صف) کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ اس سے
مراد مرزاغالم احمد قادیانی ہے۔
ا جواب ا۔
چودہ سو سال سے آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس )الف(
سے مرا در حمت دو عالم منیر کی ذات اقدس ہے۔
پھر یہ بشارت سید نا عیسی علیہ السالم نے من بعدی کے ساتھ دی تھی تو ظاہر )ب(
ہے کہ حضرت عیسی کے بعد رحمت عالم سلیم تشریف الئے تو اس کا آپ مصداق
ہوئے نہ کہ مرزا کانا۔
آپ سرکار کا اسم گرامی محمد اور احمد تھا۔ جیسا کے مشہور احادیث صحیحہ و )ج(
متواترہ میں وارد ہے۔ تفصیالت کے لئے کنز العمال ،مدارج النبوت وغیرہ مالحظہ ہو۔
اور مرزا کا نام محمد یا احمد نہیں بلکہ غالم احمد یا مرزاغالم احمد قادیانی ہے اس کے
لئے مرزائی کتب ،کتاب البريد تذکره ،ازالہ اوہام و غیرہ مالحظہ ہو
آپ سرکار خود ارشاد فرماتے ہیں " انا بشارۃ عیسٰی “ اور قرآن مجید میں آپ )و(
سرکار ہی کی نسبت بشارت عیسی وارد ہے۔ نہ کہ مرزا جیسے افیونی کے لے لئے۔
– جواب ۲
مرزاغالم احمد قادیانی کا اصل نام جو اس کے ماں باپ نے رکھا تو وہ غالم احمد تھا۔
مرزا بھی ساری زندگی یہی لکھتا رہا ،بکتا ر ہا۔ اس کا نام احمد نہیں تھا۔ تو غالم
احمد ،اسمہ احمد کا مصداق کیسے ہو گیا ؟
ایک دفعہ ایک قادیانی نے حضرت امیر شریعت سید عطاء ہللا شاہ بخاری کے سامنے
یہ بات کہہ دی آپ نے فی البدیہہ فرما یا غالم احمد سے مراد ،احمد ہے تو عطاء ہللا
سے مراد صرف ہللا ہو سکتا ہے۔ غالم احمد کو احمد مانتے ہو تو پھر عطاء ہللا کوہللا ما
نا پڑے گا۔ اگر ہللا مانو گے ! تو میرا پہال حکم یہ ہے کہ غالم احمد جھوٹا ہے۔ اسے
میں نے نبی نہیں بنایا۔ پس شاہ جی رحمۃ ہللا علیہ کی حاضر جوابی سے قادیانی یہ جا
!وہ جا
-جواب ۳
اگر احمد سے مراد مرزا قادیانی ہے تو پھر یہ مسیح موعود یا مہدی کیسے ہوا؟ اس
لئے کہ مسیح موعود اور مہدی میں سے کسی کا نام احمد نہیں۔
تیسری
آیتَ :و َلَقْد َض َّل َقْبَلُهْم َأْكَثُر اَألَّو ِليَن
:قادیانی استدالل
َلَقْد َض َّل َقْبَلُهْم َأْكَثُر اَأْلَّو ِليَن َو َلَقْد َأْر َس ْلَنا ِفيِهُم ُم ْنِذ ِر يَن (صافات ()۷۲
ان سے پہلے بھی بہت سے لوگوں میں گمراہ ہوئے اور یقینا ہم نے ان کے اندر ڈرانے
والے بھیجے ۔ جیسے پہلی گمراہیوں کے وقت نبی آتے رہے ویسے ہی اب بھی گمراہی
کے وقت مرزا غالم احمد قادیانی نبی مبعوث ہوا۔ معاذ ہللا
الف " خدا تعالی نے اس بارے میں بھی پیشینگوئی کر کے آپ فرمادیا یعنی شرک اور
مخلوق پرستی نہ کوئی اپنی نئی شاخ نکلے گی نہ پہلے حالت پر عود کرے گی۔
) برامین احمد یہ خا ص ۱۰۲ج(
اگر کوئی کہے کہ فساد اور بد عقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں پھر
اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ ( یعنی حضور سےپہلے
کا) توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہو گیا تھا۔ اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ
ال الہ اال ہللا کہنے والے موجود ہیں۔ اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالی نے مجدد کے
بھیجنے سے محروم نہیں رکھا
)نور القرآن خص ۹ ۳۳۹
چوتھی
آیتِ :إَّن َر ْح َم َت ِهَّللا َقِر يٌب
:قادیانی
ِإَّن َر ْح َم َت ِهَّللا َقِر يٌب ِّم َن اْلُم ْح ِسِنيَن “ (اعراف ()۵۲
نبوت بھی ایک رحمت ہے وہ بھی نیکوں کو ملنی چاہیے۔
جواب نمبر ا ۔
اس آیت میں جملہ رحمتیں مراد نہیں اور نہ ہر رحمت ہر ایک کے لئے ضروری ہے ۔
ورنہ دولت سلطنت ،بارش وغیرہ سب رحمت ہیں جبکہ اکثر محسنین خصوصا انبیاء
علیہم السالم دولت اور سلطنت وغیرہ کی رحمتوں سے خالی تھے۔ تو کیا وہ نبی نہ
تھے؟ معلوم ہوا کہ بہت ساری رحمتوں کی طرح نبوت بھی ایک رحمت ہے جو باری
تعالی کی مرضی پر ہے۔ جب چاہیں اور جس کو چاہیں دیں اور جس پر جس نعمت کی
چاہیں بندش فرمادیں۔
َو َم ا َأْر َس ُلنَك ِإاَّل َر ْح َم ًة ِلْلَع َلِم يَن " (انبیاء )۱۰۷
اس امت کے لئے دنیا میں سب سے بڑی رحمت حضور پاک کی ذات اقدس ہے۔ جو
شخص اب آنحضرت کے بعد کسی اور رحمت ،نبوت کو تالش کرتا ہے یا جاری
کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہللا کی سب سے بڑی رحمت محمد عربی سے منہ موڑتا
ہے اس سے بڑھ کر بد نصیب اور کون ہوگا ؟
حضور نے فرمایا ہے "انا حضكم من االنبياء وانتم حضى من االمم" نبیوں میں سے میں
محمد تمھارے حصہ میں آیا ہوں اور امتوں میں سے تم میرے حصہ میں آئے ہو معلوم
ہوا کہ جو شخص کسی اور نبی کی تالش میں ہے وہ حضور کی امت میں نہیں رہے گا
گویا وہ ہللا کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت سے محروم ہو جائے گا۔ اور جب کہ
مرزا نے خود ہی لکھا ہے
فال حاجة لنا الى نبي بعد محمد ( ،حملة البشری غ ص ۲۴۴ج " ) ۷
تو مرزائیوں کو نیانبی اور وہ بھی مرزا جیسا کوڑھ مغز نبی ڈھونڈنے کی ضرورت کیا
ہے۔ حضور کے بعد جو شخص نبوت کا دعوی کرے گا وہ اپنی وحی کی اتباع کا
پابندہو گا اور حضور کی اتباع سے محروم ہو کر خدا کی سب سے بڑی رحمت سے
محروم ہو جائے گا۔ اس محروم القسمت بدبخت کے لئے جو حضور کی اتباع سے منہ
موڑتا ہے مرزائی لوگ قرآن میں تحریف کر کے اس کی نبوت کے لئے دالئل تالش
کرتے ہیں۔ فیا للعجب ۔
پھر جناب اگر نبوت رحمت ہے تو سب سے بڑی رحمت نبوت تشریعیہ ہے۔ تومرزائی
اس کو بند کیوں مانتے ہیں؟
آیت " ِإَّن َر ْح َم َت ِهللا َقِر يٌب ِّم َن اْلُم ْح ِسِنیَن (اعراف ( )۵۶کے ساتھ ملحقہ اگلی آیت ُهَو ۵
اَّلِذ ي ُيْر ِس ُل الِّريَح ُبْش رًا َبْيَن َيَدی َر ْح َم ِتِه (اعراف )۵۷میں بارش کو رحمت کہا گیا ہے ۔
مگر پوری دنیا کا اتفاق ہے کہ اگر بارش والی رحمت ضرورت سے بڑھ جائے تو
رحمت کے بجائے زحمت یعنی عذاب بن جاتی ہے ۔ لیجئے جناب ! اس آیت شریفہ سے
ہی قادیانی لغویات کا بھر پور ابطال نکل آیا۔ بارش رحمت ہے مگر جو ضرورت سے
زیادہ بارش مانگے وہ خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح حضور کی نبوت رحمت
ہے اس رحمت کے ہوتے ہوئے اگر اور نبوت کی رحمت کو کوئی مانگتا ہے تو وہ بھی
عذاب خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔
پانچھویں
آیتَ :و اَل َأْن َتْنِكُحوا َأْز َو اَج ُه
– قادیانی استدالل
َو ال َأْن َتنِك ُحوا َأْز َو اَج ِه ِم ْن َبْع ِدِه َأَبدًا “ احزاب )۵۳اور نہ نکاح کرو نبی کی بیویوں "
سے انکی وفات کے بعد کبھی بھی۔ قادیانیوں کی طرف سے سب سے زیادہ مضحکہ
خیز استدالل اس آیت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ کہ اب انحضرت کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہو
گیا ہے تو کوئی نبی نہ آئیگا ۔ نہ اسکی وفات کے بعد اس کی بیویاں زندہ رہیں گی۔ اور
نہ ان کے نکاح کا سوال ہی زیر بحث آئے گا۔ اب اگر اس آیت کو قرآن مجید سے نکال
دیا جائے تو کونسا نقص الزم آتا ہے ور نہ مانا پڑتا ہے کہ آنحضرت کے بعد سلسلہ
نبوت جاری ہے۔ اور قیامت تک انبیاء کی ازواج مطہرات ان کی وفات کے بعد بیوی ہی
کی حالت میں رہیں گی۔ کیوں کہ رسول ہللا کا لفظ نکرہ ہے جس میں ہر رسول داخل
ہے۔
نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ اضافت معنوی نکرہ کو معرفہ بنا دیتی ہے۔ جیسے عنـده زيد
لفظ رسول ہللا کی طرف مضاف ہو کر معرفہ ہو گیا۔ فرمایاُ :مَحَّم ٌد َّرُسوُل ِهَّللا َو اَّلِذ يَن معة
( فتح )٢٩
یہ کہنا کہ اب نبی نہ آئے گا تو اس آیت کی کیا ضرورت ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی
یہ کہہ دے کہ آدم علیہ السالم کے بے ماں باپ یا عیسی علیہ السالم کے بے باپ ہونے
کا ذکر قرآن سے نکال دیئے جانے کے قابل ہے۔ کیونکہ اب کوئی اس طرح پیدا نہیں
ہوتا اور نہ ہوگا۔
یا یہ کہے کہ " َفَلَّم ا َقَض ى َز ْيٌد ِم ْنَها َو َطًرا َز َّو ُجنگها “ (احزاب )۳۷سے ظاہر ہے آئندہ
رسول بھی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کیا کریں گے۔ ورنہ اس آیت کو دیا
جائے ۔
قرآن مجید میں اس آیت کے باقی رکھنے کی ضرورت یہ تھی کہ عرب معاشرہ میں ۴
امراء کی وفات پر ان کی ازواج سے شادی کرنا فضیلت میں شمار ہوتا تھا۔ اور قرآن
نےسورۃ نور میں بیواؤں سے نکاح کا حکم دیا ہے۔
قرآن نے صریح حکم دیا ہے کہ حضور کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے ۔ وہ آخری
امہات المؤمنین ہیں اور آپ بوجہ خاتم النبیین ہونے کے آخری باپ ہیں اگریہ حکم
مذکور نہ ہوتا تو اس فضیلت کے حصول کے لئے کوشش کرتے ۔ اس امت میں فتنہ و
فساد پیدا ہوتا اور ازواج مطہرات کی پوزیشن بجائے امت کی معلمات دین ہونے کی
معمولی بھی نہ رہتی ۔ اس لئے اس تاریخی حکم کا تا قیامت باقی رکھنا ضروری تھا ۔ تا
کہ معلوم ہو کہ یہ خواتین مقدسہ آخری مائیں ہیں اور حضور اقدس آخری باپ ہیں۔
یہ آیت مبارکہ حضور کی شان و فضیلت کا اظہار کرتی ہے جو کہے کہ اسے نکال ۵-
دو۔ وہ حضور کی فضیلت کو مٹانے واال ہے۔ اس لئے ملعون کا فر جہنمی ۔ وہ یہود کا
مثیل ہے کل ایسے خبیث کہیں گے کہ قرآن مجید سے گذشتہ انبیاء علیہم السالم اب نہیں
ہیں تو آیات کی ضرورت نہیں اس لیے قرآن مجید سے انبیاء علیہ السالم کے قصص
:نکال دینے چاہئیں ۔ کیونکہ وہ انبیاء گزر چکے ہیں ۔ جیسا کہ لعین قادیانی نے کہا
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ہے اس سے بہتر غالم احمد ہے
) در شین اردو خاص ۱۸ ۲۴۰دافع السبال (
جو ایسی بیہودہ تحریف کرے اس کے متعلق لعین قادیانی نے کہا :تحریف ،تغیر کرنا
بندروں اور سوروں کا کام ہے ۔ (اتمام احبت ع ص ) ۸ : ۲۹۱
وما علینا اال البلغ