0003 1

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 7

‫​زمیندار کی بیٹی‬

‫قسط نمبر ‪03‬‬


‫نوابزادہ‬

‫اس دن ھم لوگ شام تک کرکٹ کھیلتے رھے اور‬


‫میں پہلی بار گاؤں کے کھلے میدانوں میں بھاگ‬
‫دوڑ کر بہت تھک گیا تھا اسی لئیے ھم دونوں‬
‫چلتے چلتے کھیت کی ایک پگڈنڈی پر بیٹھ گئے‬
‫اور باتیں کرنے لگے شاہد نے مجھے بوال کہ آپ روز‬
‫ھمارے ساتھ کھیال کرو آپکے جلد ھی سب لوگ‬
‫دوست بن جائینگے تو گا ؤں کے سرسبز و شاداب‬
‫کھیتوں کا دل فریب نظارہ دیکھتے ھوۓ میں‬
‫بوال کہ یار میں تو تھک گیا ھوں آپ لوگوں کا ھی‬
‫حوصلہ ھے فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ بھی اور‬
‫کھیتوں کی جھاڑیوں سے گیند بھی ڈھونڈ کر الؤ‬
‫شاہد میری بات کا جواب دیتے ھوۓ بوال دیکھ‬
‫ذیشان ادھر جو بندہ مار کھا جاتا ھے وہ سخت‬
‫جان بن جاتاھے دنیا ایویں نئ پینڈو زندگی کی‬
‫فین ھوتی جارھی ھے‬

‫میں نے بوال یار لمبی مت چھوڑا کر شاہد ایسا جو‬


‫تجھے گاؤں بہت پسند ھیں تو وہ دبنگ لہجے‬
‫میں بوال ھم پینڈو لوگ نہ ایک دوسرے کے دکھ‬
‫سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور ھماری پہچان‬
‫ھماری گلی نمبر سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام‬
‫سے ھوتی ھے اور تم شہری لوگ ساتھ والے میت‬
‫پڑی ھوتی ھے اور دوسرے گھر میں میوزک چل‬
‫رہا ھوتا ھے میں جل کر بوال بس بس بس میری‬
‫جان آپکی بات سو فیصد درست ھے مگر ھمارے‬
‫گاؤں کے تو چند گھر ھیں قریب پچاس گھر‬
‫کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو سب کچھ ٹھیک ھوتا‬

‫میری بات سن کر شاہد بوال پاگل ھمارا گاؤں‬


‫چھوٹا ضرور ھے پر اس میں بسنے والے لوگوں کے‬
‫دل چھوٹے نہیں ھیں تم چاھتے ھو شہری کلچر‬
‫کہ یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر گھومیں اور میں‬
‫اپنی آنکھوں کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس بات پر‬
‫میں کھلکھال کر مسکرا دیا اور بوال تو بڑا شرارتی‬
‫ھے یار بھال اس عمرمیں یہ سب نہیں ھوگا تو‬
‫پھر کب ھوگا شام ڈھل رھی تھی اور پرندوں کی‬
‫قطاریں آسمان پر رخت سفر باندھے گھونسلوں‬
‫کو لوٹ رھیں تھیں بہت دلفریب منظر تھا شاہد‬
‫کی پیش گوئی سچ ثابت ھو رھی تھی وہ مجھے‬
‫آسمان کی طرف دیکھتے ھوۓ بوال ذیشان کیا‬
‫دیکھ رھے ھو تو میں بوال شاہد یار بال کا حسن‬
‫ھے تیرے گاؤں میں شاہد کیوں مان گئے نہ جو‬
‫مزہ پنڈ میں ھے وہ نہ شہرمیں ھے نہ ٹنڈ میں ھے‬

‫شاھد بوال ذیشان جگر ابھی تم نے حسن دیکھا‬


‫ھی کب ھے میں بوال کیوں کیا ھوا تو وہ بوال وہ‬
‫دیکھ میں نے کھالے کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا‬
‫تو دو حسین لڑکیاں ھمارے طرف ھی آرھی تھیں‬
‫ان کے کندھوں پر کئ تھی جو کھیتوں کو پانی‬
‫لگانے کے استعمال میں آتی ھے اردو میں شاید‬
‫اسے کسی بولتے ھیں‬

‫شاھد بوال اسمیں جو کالے سوٹ والی ھے وہ انعم‬


‫شہزادی ھے اور جو اسکے پیچھے والی ھے وہ‬
‫لبنی شہزادی ھے چاچے شیرو کی دو ھی بیٹیاں‬
‫ھیں جن کی ادھر سات ایکڑ زمیں ھے جسے اپنے‬
‫باپ کیساتھ یہ بھی کاشت کرتی ھیں میں بوال‬
‫واہ بھئ اب یہ کدھر جارھی ھیں اس سے پہلے‬
‫شاہد کچھ بولتا وہ دونوں ھمارے عین سر پر‬
‫پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں نوابزادے تم ادھر‬
‫بیٹھے ھو گھر نئیں جے جانا چاچی نے مجھے کہا‬
‫کہ اسکو جاتے ھی بھیج دو دودھ نکالنا ھے‬
‫بھینسوں کا تو شاہد اٹھ کر کھڑا ھوگیا اور بوال‬
‫ہاۓ میری راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس تو لے لو‬
‫دودھ بھی نکال لوں گا بھینسیں کونسا بھاگی‬
‫جارھی ھیں انعم شاہدکی ذومعنی بات سن کر‬
‫بولی یہ اجنبی کون ھے تو اس نے میرا تعارف‬
‫کرواتے ھوۓ کہا یہ ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا‬
‫نیا کسان اور نیا باشندہ اور ذیشان یہ ھمارے‬
‫شیرو چاچا کی بڑی بیٹی انعم شہزادی اورمیں‬
‫لبنی شہزادی دوسری نے اپنا تعارف خود ھی کرو‬
‫دیا تو میں بوال جی انعم ویسے آپ کو ڈر نہیں‬
‫لگتا اتنے رات گئے کھیتوں میں‬

‫میری بات کاٹتے ھوۓ لبنی بولی اج ساڈی پانی‬


‫دی واری اے اسیں پانی الن چلیاں واں یعنی‬
‫اسکامطلب تھا کہ آج ھماری کھیتوں کو پانی‬
‫دینے کی باری ھے اور ٹائم پیریڈ ھے سات بجے‬
‫سے نوبجے تک ھمارا باپ اکیال ھوتا ھے اور ھم نے‬
‫اپنی تعلیم مکمل کرلی ھے اور اب انہیں ریسٹ‬
‫دیا ھے اور اب ھم فارمر ھیں انعم نے سینے کو‬
‫تان کر کہا تو میں سوچنے لگا کہ جب کسان اتنے‬
‫حسین ھوں تو گھوبھی کتنی حسین ھوگی‬
‫مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر انعم شہزادی‬
‫بولی ذیشان صاحب آپکی زمین کدھر ھے تو شاہد‬
‫نے کہا انعم آپکا جو سبزی واال ایکڑھے جس پر‬
‫امرودوں کے دو پودے بھی ھیں دراصل اسکے‬
‫اگلے کھیت ذیشان کے ھیں اس کا ابو ریٹائرڈ‬
‫فوجی ھے اور اس کے ماموں نے اسے یہ زمیں‬
‫خرید کر دی ھے جس اب ذیشان آباد کرے گا‏‬

‫‪@X_Story_Zone‬‬

You might also like