میں پہلی بار گاؤں کے کھلے میدانوں میں بھاگ دوڑ کر بہت تھک گیا تھا اسی لئیے ھم دونوں چلتے چلتے کھیت کی ایک پگڈنڈی پر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے شاہد نے مجھے بوال کہ آپ روز ھمارے ساتھ کھیال کرو آپکے جلد ھی سب لوگ دوست بن جائینگے تو گا ؤں کے سرسبز و شاداب کھیتوں کا دل فریب نظارہ دیکھتے ھوۓ میں بوال کہ یار میں تو تھک گیا ھوں آپ لوگوں کا ھی حوصلہ ھے فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ بھی اور کھیتوں کی جھاڑیوں سے گیند بھی ڈھونڈ کر الؤ شاہد میری بات کا جواب دیتے ھوۓ بوال دیکھ ذیشان ادھر جو بندہ مار کھا جاتا ھے وہ سخت جان بن جاتاھے دنیا ایویں نئ پینڈو زندگی کی فین ھوتی جارھی ھے
میں نے بوال یار لمبی مت چھوڑا کر شاہد ایسا جو
تجھے گاؤں بہت پسند ھیں تو وہ دبنگ لہجے میں بوال ھم پینڈو لوگ نہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور ھماری پہچان ھماری گلی نمبر سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام سے ھوتی ھے اور تم شہری لوگ ساتھ والے میت پڑی ھوتی ھے اور دوسرے گھر میں میوزک چل رہا ھوتا ھے میں جل کر بوال بس بس بس میری جان آپکی بات سو فیصد درست ھے مگر ھمارے گاؤں کے تو چند گھر ھیں قریب پچاس گھر کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو سب کچھ ٹھیک ھوتا
میری بات سن کر شاہد بوال پاگل ھمارا گاؤں
چھوٹا ضرور ھے پر اس میں بسنے والے لوگوں کے دل چھوٹے نہیں ھیں تم چاھتے ھو شہری کلچر کہ یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر گھومیں اور میں اپنی آنکھوں کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس بات پر میں کھلکھال کر مسکرا دیا اور بوال تو بڑا شرارتی ھے یار بھال اس عمرمیں یہ سب نہیں ھوگا تو پھر کب ھوگا شام ڈھل رھی تھی اور پرندوں کی قطاریں آسمان پر رخت سفر باندھے گھونسلوں کو لوٹ رھیں تھیں بہت دلفریب منظر تھا شاہد کی پیش گوئی سچ ثابت ھو رھی تھی وہ مجھے آسمان کی طرف دیکھتے ھوۓ بوال ذیشان کیا دیکھ رھے ھو تو میں بوال شاہد یار بال کا حسن ھے تیرے گاؤں میں شاہد کیوں مان گئے نہ جو مزہ پنڈ میں ھے وہ نہ شہرمیں ھے نہ ٹنڈ میں ھے
شاھد بوال ذیشان جگر ابھی تم نے حسن دیکھا
ھی کب ھے میں بوال کیوں کیا ھوا تو وہ بوال وہ دیکھ میں نے کھالے کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا تو دو حسین لڑکیاں ھمارے طرف ھی آرھی تھیں ان کے کندھوں پر کئ تھی جو کھیتوں کو پانی لگانے کے استعمال میں آتی ھے اردو میں شاید اسے کسی بولتے ھیں
شاھد بوال اسمیں جو کالے سوٹ والی ھے وہ انعم
شہزادی ھے اور جو اسکے پیچھے والی ھے وہ لبنی شہزادی ھے چاچے شیرو کی دو ھی بیٹیاں ھیں جن کی ادھر سات ایکڑ زمیں ھے جسے اپنے باپ کیساتھ یہ بھی کاشت کرتی ھیں میں بوال واہ بھئ اب یہ کدھر جارھی ھیں اس سے پہلے شاہد کچھ بولتا وہ دونوں ھمارے عین سر پر پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں نوابزادے تم ادھر بیٹھے ھو گھر نئیں جے جانا چاچی نے مجھے کہا کہ اسکو جاتے ھی بھیج دو دودھ نکالنا ھے بھینسوں کا تو شاہد اٹھ کر کھڑا ھوگیا اور بوال ہاۓ میری راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس تو لے لو دودھ بھی نکال لوں گا بھینسیں کونسا بھاگی جارھی ھیں انعم شاہدکی ذومعنی بات سن کر بولی یہ اجنبی کون ھے تو اس نے میرا تعارف کرواتے ھوۓ کہا یہ ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا نیا کسان اور نیا باشندہ اور ذیشان یہ ھمارے شیرو چاچا کی بڑی بیٹی انعم شہزادی اورمیں لبنی شہزادی دوسری نے اپنا تعارف خود ھی کرو دیا تو میں بوال جی انعم ویسے آپ کو ڈر نہیں لگتا اتنے رات گئے کھیتوں میں
میری بات کاٹتے ھوۓ لبنی بولی اج ساڈی پانی
دی واری اے اسیں پانی الن چلیاں واں یعنی اسکامطلب تھا کہ آج ھماری کھیتوں کو پانی دینے کی باری ھے اور ٹائم پیریڈ ھے سات بجے سے نوبجے تک ھمارا باپ اکیال ھوتا ھے اور ھم نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ھے اور اب انہیں ریسٹ دیا ھے اور اب ھم فارمر ھیں انعم نے سینے کو تان کر کہا تو میں سوچنے لگا کہ جب کسان اتنے حسین ھوں تو گھوبھی کتنی حسین ھوگی مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر انعم شہزادی بولی ذیشان صاحب آپکی زمین کدھر ھے تو شاہد نے کہا انعم آپکا جو سبزی واال ایکڑھے جس پر امرودوں کے دو پودے بھی ھیں دراصل اسکے اگلے کھیت ذیشان کے ھیں اس کا ابو ریٹائرڈ فوجی ھے اور اس کے ماموں نے اسے یہ زمیں خرید کر دی ھے جس اب ذیشان آباد کرے گا