Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 8

‫فاروقی خاندان اور انکے نسب کی تاریخی حقیقت‬

‫خاندیش کے جعلی اور خود ساختہ فاروقی‬


‫تحقیق کے آغاز سے میرا مقصد یہ نتایج نہیں تھے جو دوران تحقیق اخذ ہوئے بہر حال میرا مقصد‬
‫خاندان فاروقی خاندیش پر روشنی ڈالنا تھا کہ فاروقی سب سے پہلے کب برصغیر میں وارد ہوئے لیکن‬
‫جب خاندیش کے ملک راجہ خان کے نسب پر تاریخ کی کتب اور حاالت و واقعات کا موازنہ کیا تو میں‬
‫حیران رہ گیاکہ تمام الجھی ہوئی تاریخ نسب میرے سامنے واضع ہونے لگی جو اہم نتائج اس تحقیق سے‬
‫وصول ہوئے وہ کچھ یوں ہیں۔‬
‫خاندیش کے فاروقی سالطین کا نسب ابراہیم بن ادھم شاہ بلخی سے ہوتا ہوا حضرت عمر فارو ق رضہ‬
‫پر ختم ہوتا ہے۔خاندیش کا ملک راجہ خان جو خود کو فاروقی کہتا تھا اسکا والد ملک مقبل خان جہاں‬
‫پہلے خلجی اور بعد ازاں سلطان محمد تغلق کے دربار میں قاضی کے عہدہ پر فائز رہا جب سلطان‬
‫محمد تغلق نے اپنا دارلحکومت دہلی سے دولت آباد منتقل کیا تو ملک مقبل خان جہاں کو بھی گجرات‬
‫بھیج دیا۔ جب ملک مقبل خان جہاں گجرات گیا تو اس وقت وہاں سید معز الدین بن عالوالدین بن بدر الدین‬
‫سلیمان بن فرید الدین مسعود رحمۃ ہللا علیہ کو معز الملک بنا کر محمد تغلق نے بھیجا ہی تھا کہ گجرات‬
‫میں فسادات شروع ہو گئے۔ اسی دوران ملک مقبل خان جہاں والد ملک راجہ بھی سید معز الدین‬
‫اجودھنی کے ہمراہ باغیوں سے جنگ کرتا رہا واضع ہو کہ یہ واقع ‪ 1344‬عیسوی کا ہے جب سید معز‬
‫الدین ناظم گجرات کو شہید کر دیا گیا اور یہ باغی حضرات حیدر آباد اور دکن کے شیعہ نظریات کے‬
‫حامل افراد جنہیں امران صدہ بھی کہا جاتا تھا جو سلطان محمد تغلق سے باغی ہو گئے تھے۔‬
‫دوسری جانب ملک مقبل خان جہاں کے بیٹے نے خاندیش میں برہان پور اور زین پور کے نام سے شہر‬
‫آباد کے جو تپتی دریا کے کنارے تھے ان شہروں کے نام اس نے چشتی صوفیاء کے نام پر رکھے‬
‫اسکی وجہ یہ تھی کی سطان محمد تغلق جو سید عالوالدین موج دریا بن سید بدر الدین سلیمان کا مرید تھا‬
‫اور چشتیہ سلسلہ کی بہت عزت کرتا تھا اس کی حکومت سے علیحدہ اپنی حکومت میں چشتی صوفی‬
‫بنام برہان الدین غریب اور زین الدین شیرازی چشتی کو اپنی طرف مائل کیا جو چشتیہ سلسلہ کے اس‬
‫وقت کے اہم کردار تھے۔‬
‫ملک خان راجہ نے اس ساری صورت حال کا یوں فائدہ اٹھایا کہ اس نے ایک شجرہ نسب مرتب کیا‬
‫جس میں اس نے پہلے تو ابراہیم بن ادھم بلخی سے مالیا جو شجرہ طریقت چشتی میں شامل تھے یہ‬
‫جانتے بھی ہوئے کہ وہ عجلی تھے اس نے انکو فاروقی بنا دیا اور عجیب و غریب نام کا نسب مرتب‬
‫کیا اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو چشتی علماء کی حمایت حاصل کرنا کہ یہ تو اوال دابراہیم بن ادھم‬
‫بلخی کی اوالد ہیں۔دوسری جانب ابراہیم بن ادھم کو فاروقی بنانے کے یہ فوائد تھے کہ ہمسایہ ریاستیں‬
‫شیعہ عقائد کی حامل تھیں جن کے ہمسایہ میں اگر فاروقی حکومت قائم ہو جاتی تو انکی نطریاتی‬
‫مخالفت تو ہوتی ہی انکے لیے بہت بڑی ٹکر تھی۔اسی دوران جب خاندیش کے ملک راجہ نے ‪1382‬‬
‫عیسوی میں محمد تغلق سے آزاد اپنی حکومت قائم کی ساتھ کی ریاستوں میں بہمنی ریاست نے جنم لیا‬
‫جو دکن حیدر آباد احمد نگر کے شیعہ امراں صدہ تھے جنہوں نے محمد تغلق کے خالف پہلے ہی‬
‫باغاوت کر رکھی تھی۔ اس وقت تک برصغیر کے کسی فاروقی کا شجرہ مرتب نہیں تھا کیونکہ ابھی‬
‫تک ابراہیم بن ادھم بلخی عجلی یاں تمیمی کا علم تھا لیکن جیسے ہی خاندیش کے جعلی فاروقیوں نے‬
‫شجرہ مرتب کیا تو ایک سلسلہ چل پڑا پھر تو بابا سید فرید کو کئی سو سال بعد تقریبا ‪ 1473‬عیسوی میں‬
‫پہال قول انکے فاروقی ہونے پر ظاہر ہوا جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ‬
‫‪ 1266‬عیسوی میں وفات پانے والے سید فرید کا نسب تقریبا دو سو سال بعد صرف اس صورت میں‬
‫سامنے آئے کہ آپ والد کی طرف سے فاروقی ہیں اور تقریبا تین سو سال بعد یعنی ‪ 1600‬عیسوی کی‬
‫کتب میں آپ کو فاروقی النسب لکھنا شروع کر دیا گیا۔ ایسے کیسے ممکن ہے کہ بابا جی نے خود اپنی‬
‫حیات میں خود کو ایک دفعہ بھی حضرت عمر فاروق رضہ کی اوالد ظاہر کیا ہو اور ان کے خلفاء نے‬
‫اس کا ذکر نا کیا ہو۔ پھر کیسے ‪ 300‬سال بعد مصنفین کو یہ انکشاف ہوا کہ آپ کا شجرہ نسب فاروقی‬
‫ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زبانی کالمی آپ کی پوتوں پڑپوتوں کو یہ علم ہو کہ آپ کے جد فرخ شاہ یاں ابراہیم‬
‫بن ادھم ہیں ۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ ابراہیم بن ادھم بلخی کو جو کہ عجلی و تمیمی ہیں انکو فاروقی‬
‫النسب بنا دیا گیا تو اسکے پیچھے آخر کیا وجہ تھی اس کے پیچھے مذہبی سیاسی و فرقہ ورانہ تعصب‬
‫تھا جس کا شکار بابا سید فرید الدین مسعود گنجشکررحمۃ ہللا علیہ کا نسب ہوا اور بھی بہت سارے‬
‫اولیاء ہللا جن کا ذکر ہم کریں گے جن کے نسب کے ساتھ یہ کھیل کھیال گیا اب آپ کے سامنے خاندیش‬
‫کے فاروقیوں کا حال احوال پیش کرتے ہیں جنہوں نے نسب کو اپنی طاقت کے لیے استعمال کیا اور وہ‬
‫کس طرح جعلی ہے اسکا بھی ذکر اگلی سطور میں آئے گا۔‬
‫‪1‬۔نسب ملک راجہ خان کی حقیقت‪ 1300‬عیسوی تا ‪ 1601‬عیسوی‬
‫برہان پور مدھیہ پردیش موجودہ ہندوستان میں واقع ہے‪ ،‬اسے "باب دکن" بھی کہا جاتا ہے۔ اس برہان‬
‫پور کو ملک ناصر خان نے ‪ 1388‬ء میں خاندیش سلطنت کا پایہ تخت بنایا اور برہان پور کو ملک‬
‫ناصر نے شیخ زین الدین چشتی کے کہنے پر اپنا مرکز بنایا اور اسکا نام مشہور صوفی بزرگ برہان‬
‫الدین غریب چشتی کے نام پر برہان پور رکھا۔‬
‫خاندیش کے فاروقی‬
‫خاندیش خلجیوں اور تغلقوں کے عہد میں سلطنت دہلی کا ایک صوبہ رہا۔ فیروز خان تغلق نے ملک‬
‫راجا فاروقی کو خاندیش کا صوبیدار مقرر کیا۔ تیمور کے حملے کے بعد خاندیش کا صوبہ خود مختار‬
‫ہو گیا۔ ‪1601‬ء میں اکبر نے اس پر قبضہ کر لیا۔ خاندیش کا فاروقی خاندان جو فاروقی ہونے کی وجہ‬
‫سے مشہور ہے سب سے اہم فاروقی خاندان ہے جس نے برصغیر میں حکمرانی کی اس امر پر تحقیق‬
‫کی غرض سے جب میں نے مطالعہ کیا تو یہاں بھی وہی اہم نقص میرے سامنے آیا پہلے تو مجھے یہ‬
‫خیال ذہن کی حد تک تھا کہ حضرت عمر فاروق رضہ کی اوالد پاک ہند میں ممکن ہے آئی ہو جیسے‬
‫کہ یہ برہان پور کے سالطین لیکن انکی حقیقت اسوقت اشکار ہوئی جب میں نے تحقیق کی اب کوئی‬
‫بھی قاری جو نسب یاں تاریخ کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہے یہ بات اخذ کر سکتا ہے کہ کسی بھی نسب‬
‫یاں قوم سے تعلق رکھنے واال اپنی سلطنت کو اسی سے جوڑتا آیا ہے۔ اب خاندیش کا نام ہی اس بات کی‬
‫گواہی ہے کہ کہ خان اور دیش یعنی خان قبیلہ کے رہنے والے افراد کا جائے مسکن اول تو نام ہی سے‬
‫ظاہر ہے کہ یہ فاروقی خاندان کا شجرہ نسب بلکل جعلی تھا کیونکہ انہوں نے برصغیر میں ایک‬
‫اسالمی سلطنت بنانی تھی اس لیے خود کو فارقی ظاہر کیا حاالنکہ یہ عرب شیخ نہیں تھے بلکہ خان‬
‫تھے۔‬
‫سالطین خاندیش کے نام جو ترتیب سے لکھے گئے ہیں جن میں سے کسی کے نام کے ساتھ بھی‬
‫فاروقی کسی بھی کتاب میں درج نہیں ہے۔‬
‫ملک راجہ‪ ،‬ناصر خان‪ ،‬میران عادل خان اول‪ ،‬میران مبارک خان‪ ،‬میران عادل خان دوم‪ ،‬داود خان‪،‬‬
‫غزنی خان‪ ،‬عالم خان‪ ،‬عادل خان تریہم‪ ،‬میران محمد شاہ اول‪ ،‬میران مبارک شاہ‪ ،‬میران محمد شاہ دوم‪،‬‬
‫حسن خان‪ ،‬راجہ علی خان‪ ،‬بہادر شاہ‬
‫ملک راجا کا شجرہ نسب جس کو تاریخ فرشتہ میں قاسم فرشتہ نے درج کیا ہے۔‬
‫ملک راجہ بن خان جہاں بن علی خان بن عثمان بن شمعون شاہ بن اشعت شاہ بن سکندرشاہ بن طلعہ شاہ‬
‫بن دانیال شاہ بن اشعت شاہ بن ارمیانہ شاہ بن ابراہیم شاہ بلخی بن ادھم شاہ بن محمود شاہ بن احمد شاہ بن‬
‫شاہ بن اعظم شاہ بن اصغر بن محمد احمد بن محمد بن عبدہللا بن حضرت عمر فاروق ۔‬
‫تبصرہ شجرہ نسب ملک راجہ‬
‫اگر ہم نسب ملک راجہ پر غور کریں جو اس نے اپنے فاروقی ہونے کی دلیل میں پیش کیا بلکل تحقیق‬
‫سے ثابت نہیں اس کی بہت ساری تاریخی اور نسبی غطیاں ہیں اول عبدہللا بن عمر رضہ کے کسی‬
‫فرزند کا نام محمد نہیں تھا دوم ابراہیم شاہ بلخی کے والد کانام ادھم لکھا ہے جبکہ ادھم لقب ہے نام نہیں‬
‫ہے یہ ابراہیم بلخی جو ادھم کے نام سے مشہور ہیں عجلی ہیں جو شجرہ طریقت چشتی کا حصہ ہیں ۔‬
‫سوم بہت سارے نام ایسے ہیں جن کا عرب اباؤاجداد ہونے سے کوئی تعلق نہیں اس زمانے میں شیخ‬
‫حضرات کے اشعت یاں شمعون نام نہیں ہیں۔ چہارم ابراہیم بلخی بن ادھم کے فرزند کا نام ارمیانہ شاہ‬
‫لکھا ہے جس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔پنجم سب سے اہم بات یہ کہ اس خاندان نے اپنے نام کے‬
‫ساتھ خان تو متواتر لکھا لیکن فاروقی نہیں لکھا فاروقی اس لیے مشہور کیا کی انکے خریف زیادہ تر‬
‫شیعہ سالطین تھے اسی لیے انہوں اس حسب نسب کو ترجیح دی۔ اور سب سے قبل میراں محمد شاہ اول‬
‫نے فاروقی کی بجائے شاہ لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ کہ اس دور میں ان کے گرد و نواع میں شیعہ‬
‫سالطین نے بہت مضبوط قدم جما لیے تھے۔‬
‫اب آتے ہیں کچھ تعارف ان چشتی صوفیاء کا جن کو فاروقی سالطین اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‬
‫برہان الدین غریب چشتی‬
‫برہان الدین غریب اولیاء چشتی سلسلہ کے عظیم صوفی بزرگ ہیں ۔ جب ملک ناصر خان نے‬
‫‪1399‬عیسوی میں اسیر گڑھ پر قبضہ کیا تو تپتی دریا کے کنارے موجود قصبہ کو برہان الدین چشتی‬
‫کے نام پر رکھا آپ کے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء تھے۔آپ کا مزار خلد آباد میں ہے۔ آپ ملک‬
‫راجہ خان اور اسکے فرزند ناصر خان کے مرشد تھے اسی لیے انہوں نے برہان پور کا نام انکے نام‬
‫پر رکھا۔‬
‫زین الدین شیرازی چشتی‬
‫زین الدین شیرازی مرید تھے برہان الدین غریب کے جو دولت آباد کو چھوڑ کر اسیر آباد آ گئے تھے‬
‫اس دیش پر اس خاندان نے ‪ 1370‬عیسوی سے لیکر ‪ 1601‬عیسوی تک حکومت کی ہے اس سلطنت‬
‫کی بنیاد ملک راجہ نے رکھی اس کے والد کا نام خان جہاں تھا ملک راجہ نے ‪ 1370‬عیسوی میں‬
‫حکومت کی بنیاد رکھی جو سلطنت کا سابقہ وزیر تھا اس نے ‪ 1382‬عیسوی میں آزاد حکومت قائم کر‬
‫لی سب سے پہلے ملک راجہ نے اپنے فاروقی ہونے کا دعوی کیا اور یہ دعوی اسکی حکومت کی‬
‫مظبوطی کی وجہ بنا کیونکہ اردگرد کی حکومتیں گجرات اور احمد نگر جیسی تھیں۔ چشتی سلسلہ‬
‫طریقت کی سر پرستی کی بدولت سلطنت خاندیش نے فاروقیت پر زور دیا یہی نہیں بلکہ اس دور کے‬
‫شیعہ افکار کے متضاد نظریات کو فروغ دینے کے لیے نا صرف خود کو فاروقی ظاہر کیا بلکہ شجرہ‬
‫نسب بھی مرتب کر لیا۔ ملک راجہ جو کہ شیخ زین الدین شیرازی کا مرید تھا اسکی چادر ‪1605‬ء میں‬
‫محمد قاسم فرشتہ کو دیکھائی گئی اسی لیے خلد آباد میں برہان الدین چشتی و زین الدین شیرازی کا مزار‬
‫موجود ہے‪-‬آخری خاندیش حکمرانوں میں مشہور راجہ علی خان نے مغلوں سے لڑائی کی بجائے ان‬
‫سے ملکر احمد نگر سلطنت پر حملہ اسی لیے وہ شیعہ حکمرانوں کے خالف جنگ کرنے کے لیے‬
‫مشہور تھے‬
‫اس تفصیلی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فاروقی سالطین نے جو ‪ 1300‬ء کے‬
‫قریب برسر اقتدار ہوئے انہوں نے اپنی سلطنت کو قائم کرنے کی غرض سے اپنے ارد گرد شیعہ‬
‫سالطین سے جنگیں کی اور اپنی نظریاتی جنگ جیتنے کے لیے خود کو فاروقی سلطنت بنا لیا اور اپنا‬
‫جعلی نسب سیدنا عمر فاروق رضہ سے منسوب کر لیا جو کہ بلکل بے بنیاد تھا ۔ انہوں نے اپنی اس‬
‫سیاسی جیت کے لیے سنی مشائخ چشت میں سے اہم ترین ولی سلطان ابراہیم بن ادھم کو فاروقی بنا دیا‬
‫اور پھر بہت سارے سنی اولیاء کا شجرہ نسب وقتا فوقتا اسی نسب سے ملتا گیا جو بغیر تحقیق کے یہ‬
‫سلسلہ چل نکال۔ اس تحقیق کا اہم رخ بابا فرید ہیں جن کو اسی تناظر میں فاروقی بنایا گیا لیکن کیونکہ‬
‫انکے شجرہ نسب میں ناصر نام تھا اس لیے جعلی نسب بنانے والوں کو اس بات کا اندزاہ نہیں تھا کہ‬
‫کوئی تحقیق بھی کرے گا۔ اس لیے انہوں نے ابراہیم بن ادھم کے فرزند ارمیانہ کی بجائے اسحاق سے‬
‫جوڑ لیا کیونکہ ابراہیم بن ادھم کی کنیت ابو اسحاق ہے۔ اور مصنفین کو مشکل میں ڈالنے والے جعلی‬
‫خاندیشی فاروقیوں نے یہ نا بتایا کہ ابراہیم بن ادھم کی اوالد میں ارمیانہ نامی شخص بھی ہے ۔‬
‫اگر ہم نقشہ چیک کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ بہمنی ریاست اور خاندیشی ریاست ساتھ ساتھ ہے‬
‫قسط دوم‬
‫شیعہ ریاستیں اور اسکے نسب بابا فرید پر اثرات‬
‫جیسا کہ پہلئ قسط میں ہم نے بیان کیا تھا کہ خاندیش کے جعلی فاروقیوں نے کس طرح اپنی ہمسایہ شیعہ ریاستوں کے مد‬
‫مقابل ایک فاروقی شجرہ نسب گھڑاجس کے نتیجہ میں پورے شیعہ افکار کے مترادف ایک ماحول بنا لیا تھا اسی طرح شیعہ‬
‫سالطین نے بھی ایک تو چشتی اولیاء کو اپنی طرف مائل کیا جس طرح فاروقیوں نے شیخ برہان الدین اور زین الدین‬
‫شیرازی کو اپنے عالقے میں بالیا تھا بلکل اسی طرح شیعہ سالطین جو بظاہر اہلسنت یاں غیر جانبدار نظر آتے تھے ایران‬
‫اور اسکے گرد نواع سے آئے تھے انہوں نے بھی چشتی صوفیاء حضرت بندہ نواز گیسودراز کو بالیا اور اسی طرح انکے‬
‫پوتے ابو الفیض من ہللا کو اپنے پاس بالنے میں کامیاب ہو گئے انہوں نے کیسے نسب بابا فرید پر اپنا اثر چھوڑا یہ اگلی‬
‫سطور میں ہم ذکر کریں گے۔‬
‫پہلے پہل شیعہ سرزمین دکن میں کچھ پھلے پھولے تاریخ ہند میں سالطین بہمنی کا عہد شیعوں کی نموداور ترقی کا پہال باب‬
‫ہے‪،‬ان شیعہ حکمراں خاندان کے عہد سے شیعہ شعرا اور علماء کا مجمع دکن اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں نظر‬
‫ٓانے لگا ۔سالطین مغلیہ کے عہد سے پہلے بھی ہندوستان کی مملکت کے اور حصوں میں شیعہ برسراقتدار تھے۔بابربانی‬
‫سلطنت مغلیہ کے معتمد دوست بیرم خاں کا یہ اثر واقتدار تھا کہ مرتے وقت بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کا ہاتھ بیرم خاں کے‬
‫ہاتھ میں یہ کہہ کر دیا تھا" سپردم بہ تو مایہ خویش را" بیرم خاں نے بھی وہ کام کیا کہ اپنے خاندان میں اور فرقے کا نام‬
‫رکھ لیا اور شیر شاہ سوری کے پنجے سے ملک کو پھر چھین لیا اور شاہ ایران کی مدد سے ہندوستان کی کھوئی ہوئی‬
‫سلطنت پھر ہمایوں کو دالدیاکبر کے دربار کے نورتن میں پانچ شیعہ تھے جو روح روان سلطنت تھے۔ جہانگیر کے زمانے‬
‫میں قاضی نور ہللا شوستری اعلٰی ہللا مقامہ( ملقب بہ شہید ثالث) دار القضا کے عہدے پر مامور تھے ۔‬
‫‪1347‬ء میں جنوبی ہندوستان کے عالقے دکن میں پہلی شیعہ سلطنت قائم ہوئی جس نے شیعہ علما کو ہندوستان کی طرف‬
‫دعوت دی۔ دکن میں شیعہ اقتدار کسی نہ کسی شکل میں ‪ 1687‬ء تک قائم رہا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں‬
‫اس کے زوال کے اسی سال بعد جنوبی ہندوستان میں ‪1765‬ء میں میسور کے ہندو راجا کے شیعہ سپاہ ساالر حیدر علی نے‬
‫بغاوت کر کے سلطنت خداداد میسور قائم کی جو انگریزوں کےساتھ مسلسل جنگوں کے نتیجے میں ‪1799‬ء میں فتح علی‬
‫ٹیپو کی شکست کے ساتھ ختم ہو گئی۔‬
‫بہمنی سلطنت کا آغاز‬
‫سلطان محمد بن تغلق نے ‪1342‬ء میں ظفر خان(عالء الدین حسن گنگو بہمن شاہ) کو جنوبی ہند کا صوبہ دار مقرر کیا‪ -‬اس‬
‫نے دکن کے سرداروں کو اپنے ساتھ مال کردہلی سے علیحدگی اختیار کی اور ‪1347‬ء میں عالء الدین حسن گنگو بہمنی کا‬
‫لقب اختیار کر کے آزاد بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی دی ۔بیدر کے ممتاز مؤرخ محمد عبد الصمدلکھتے ہیں سلطان محمد بن‬
‫تغلق نے دکن میں اپنے داماد عمادالملک کو نائب مقرر کیا سندھ اور پنجاب میں بغاوت کو ختم کرنے کی وجہ سے خود‬
‫سلطان دکن نہ آ سکا ‪.‬امراءںصدہ نے پہلے اسٰم عیل ُمخ کو اور بعد میں حسن ظفر خان(عالء الدین حسن گنگو بہمن شاہ) کو‬
‫اپنا امیر چن لیا۔ اس نے بیدر کے قریب سلطانی فوج کو شکست دی اور عمادالملک داماد محمد تغلق کو قتل کر دیا۔ حسن‬
‫ظفر خان (عالء الدین حسن گنگو بہمن شاہ )نے ‪1347‬ء میں دولت آباد میں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی"بیدر کے آثاِر قدیمہ۔‬
‫ص ‪ 16‬۔ ‪1490‬ء کے قریب بہمنی سلطنت کو زوال آنا شروع ہوا۔ ‪1538‬ء تک اس کا خاتمہ ہو گیا اور بہمنی سلطنت کی‬
‫جگہ پانچ چھوٹی سلطنتوں برید شاہی سلطنت‪ ،‬عماد شاہی سلطنت‪ ،‬نظام شاہی سلطنت‪ ،‬عادل شاہی سلطنت اور قطب شاہی‬
‫سلطنت کی بنیادیں رکھی گئیں۔ یہ ساری ریاستیں شیعہ افکار کی حامل تھیں۔‬
‫عالء الدین حسن گنگو بہمن شاہ‪ ،‬بہمنی سلطنت کا بانی تھا ‪-‬ابتدائی مورخین‪ ،‬غالم حسین طباطبایی اور نظام الدین احمد کا‬
‫خیال ہے کہ حسن فارسی بادشاہ بہمن ابن اسفندیار کے آل اوالد سے تھا‪ -‬مگر محمد قاسم فرشتہ مصنف تاریخ فرشتہ کے‬
‫مطابق یہ شجرہ نسب عالء الدین حسن گنگو بہمن شاہ نام کے الحاق کے بعد اس کے حمایتیوں نے ُخ وشامدی میں من گھڑت‬
‫قصہ رواں کیا تھا‪ -‬محمد قاسم ہ فرشتہ کہتے ہیں کہ حسن کے اصل نژاد کے بارے میں پتہ لگانا ناممکن ہے‪ -‬محمد قاسم‬
‫ہندو شاہ فرشتہ کا خیال ہے کہ حسن پیدائش سے شاید ایک افغان تھا‪ ،‬جو دہلی کے ایک مشہور نجومی برہمن‪ ،‬گنگا دھر‬
‫شاستری وابلے المعروف "گنگو" کا خادم تھا‪ 1347 - -‬میں اس نے دولت آباد میں فوج کا امیر بنا‪ 3 -‬اگست ‪ 1347‬ناصر‬
‫الدین اسماعیل شاہ‪ ،‬جسے ‪ 1345‬میں دولت آباد کے تخت پر دکن کی باغی امرا ں صدہ نے بٹھایا تھا جو حسن گنگو کے حق‬
‫میں بادشاہت سے دستبردار ہوا اور حسن آباد موجودہ گلبرگہ کو اپنی نئی بہمنی سلطنت کا دار الحکومت بنایا‪-‬‬
‫ق‬
‫ف ق‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫تت‬ ‫ت‬ ‫تفب ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫سوم‬ ‫سط‬
‫ے ول کی طرف ج وضب اب ا س ی د ری د کی ارو ی ت‬ ‫ے ذکر ک ی ا ھا اب ہ م آ فے ہ ی تں اس پہل‬ ‫ن ہم نی کا پہل‬ ‫ی‬‫تج یسا کہ ہ م ظے ی عہ سالط‬
‫ےاس‬ ‫ہ‬ ‫رور ی‬ ‫ب‬ ‫ے ب ہت‬ ‫ے ی ہ ص ی ل تمام ماہ ر ی ن کے ن ی‬
‫ل‬ ‫تہ ئ‬ ‫ے تدرج کی ج ا رہ ی‬ ‫چ‬ ‫اس کی ص ی تلی‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫فکے م طلق اہ ر ہ وا‬
‫ں گےج ن‬ ‫ب‬
‫کے ب عد ہ م ر ی ب سے مام ک قب کا ذکر کر لفے ج ا ی ں گے اور نمام اول یناء کے سب پر ھی ف حث فکری ق‬ ‫فص ی قل ن‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫سے ب اب ا س ی د ریلدک کو ارو ی ل نکھا‬
‫ے ہوں ے سب ن‬ ‫لکوی ارو ئی ال سب ب ا دی ا گ ی ا۔م درجنہ ذی ل ول س ی د اب و ا ی ضن رحمۃ تکا ہ‬
‫کس ج گہ آپ ے ی ہ ب ات ھی اس کا ا دازہ‬ ‫اس کا پ ضس م ظ ر ک ی ا ھا اورہ کب ن ق‬
‫ہ‬
‫اب ئکا ذکر ہی ں تک ی ا اور‬ ‫حوالہ ی اں کت‬
‫ےئم طا عہ ف رما ی ں۔ اب‬
‫کن کو ی ئ‬
‫ے ہ ی ں جس سے اس‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ڑھ‬ ‫ب‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫طہ‬ ‫اس‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬‫ج‬ ‫مون‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ک‬ ‫ھی‬ ‫ل‬ ‫آپ کو ہ و ج ا‬
‫حس ن‬ ‫کام کیلفاب ت داء ہ و ی ۔‬
‫س ی د اب و ا ی فض دمحم دمحم من ہللا ی ی‬
‫ل‬ ‫خ‬
‫س ی د واج ہ اب و ا ی ض رحمۃ ‪ 1408‬عی سوی بم طابق ‪ 811‬ہ ج ری کو گلبرگہ ریاست کرناٹک میں پید ا ہوئے خواجہ بندہ نوا ز گی سو دراز نے‬
‫آپکا نام گرامی سید من ہللا رکھا اور کنیت ابو الفیض تھی۔آپ کے تعارف میں تھوڑا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا تعارف‬
‫ضروری ہے تاکہ شجرہ نسب بابا فرید پر بہمنی سالطین کا کیا اثر ہوا اس کو زی‪‰‰‬ر بحث الی‪‰‰‬ا ج‪‰‰‬ا س‪‰‰‬کے جس پ‪‰‰‬ر ص‪‰‰‬دیوں‬
‫سے پردہ پڑا تھا۔ ایک طر ف تو خاندیشی جعلی فاروقی سالطین نے نسب بابا فرید پر گہرے اثر چھوڑے دوسری جانب‬
‫بہمنی سلطنت کے اثرات ہیں۔ خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی کے گھر میں عیس‪‰‰‬وی ‪ 1321‬میں پی‪‰‰‬دا ہ‪‰‰‬وئے تھے۔ جب‬
‫وہ چار سال کے تھے‪ ،‬ان کا خاندان دولت آباد منتقل ہو گیا (اب وہ مہاراشٹرا میں ہے)۔ ‪ 1397‬میں وہ گلبرگہ‪ ،‬دکن تشریف‬
‫لے گئے (جو اب کرناٹک میں ہے) کیونکہ سلطان تاج الدین فیروز ش‪‰‰‬اہ بہم‪‰‰‬نی نے انہیں دع‪‰‰‬وت دی تھی۔ نوم‪‰‰‬بر ‪1422‬ء‬
‫اپ کا وصال ہو گیا اور تاج الدین فیروز شاہ بہم‪‰‰‬نی ک‪‰‰‬ا دور حک‪‰‰‬ومت تھ‪‰‰‬ا بھی ‪ 1397‬عیس‪‰‰‬وی میں ش‪‰‰‬روع ہ‪‰‰‬و ک‪‰‰‬ر ‪1422‬‬
‫عیسوی پر احتتام پذیر ہوا۔‬
‫خواجہ بندہ نواز گیسودراز رحمتہ ابو الفیض رحمۃکے دادا تھے اور والد کا نام سید اصغر حسینی عرف میاں لہرا تھا‬
‫جو گیسودراز کے دوسرے فرزند تھے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز کی وفات کے بعد سید اصغر حسینی میاں‬
‫لہرا مسند نشین ہوئے انہی دنوں احمد شاہ ولی بہمنی نے بیدر کو پایا تخت بنایا تھا ۔احمد شاہ ولی بہمنی نے ‪1422‬‬
‫عیسوی میں اقتدار سنبھالہ اور ‪ 1436‬عیسوی تک حکومت کی اسکے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اسی لیے‬
‫وہاں سے بہت سارے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو الیا تھا۔‬
‫احمد شاہ ولی بہمنی مسلسل سید اصغر حسینی والد گرامی سید ابو الفیض کو بید ربالتا رہا لیکن سید اصغر حسینی نے‬
‫اس دعوت کو قوبل نہیں کیا لیکن جب ‪ 868‬ہجری میں سید اصغر حسینی بھی وفات پا گئے تو سید ابو الفیض کے بڑے‬
‫بھائی سید یدہللا حسینی مسند آراء ہو ئے تو سلطان احمد شاہ بہمنی نے آپ سے بھی درخواست کی لیکن آپ نے بھی یہ‬
‫دعوت قبول نہیں کی اس کے بعد احمد شاہ ولی بہمنی کا انتقال ہو گیا اور سلطنت بیدر پر سطان عالؤالدین بہمنی کی‬
‫حکومت آ گئی وہ بھی سید یدہللا حسینی کو بیدر آنے کی دعوت دیتا رہا لیکن جیسے ہی انہوں نے اس کی دعوت قبول‬
‫نہیں کی تو اس نے کہا کہ اگر آپ نہیں آتے تو کسی اور کو بیدر بھیج دیں اس پر سید یدہللا حسینی نے سید ابو الفیض کو‬
‫بیدر بہمنی سالطین کے پاس بھیج دیا ۔‬
‫عالؤ الدین احمد شاہ بہمنی نے بیدر پر ‪ 1436‬عیسوی سے ‪ 1458‬عیسوی تک حکومت کی اسی دوران سید ابوالفیض‬
‫وہاں موجود تھے ۔ آپ بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے اور محمود گاوان کے داماد تھے ‪ .‬خواجہ عمادالدین محمود گاوان‬
‫بہمنی سلطنت کے وزیر تھے اصل نام خواجہ محمود گیالنی تھا۔ ایران کے شہر گاوان سے ہندوستان آئے تھے ۔ ‪1411‬‬
‫عیسوی سے لیکر آپ ‪ 1482‬تک آپ کسی نا کسی عہدہ پر فائز رہے۔بیدر میں ایک دینی علوم کی درسگاہ محمود گوان‬
‫مدرسہ قائم کیا گیا اس کا مینار اور گنبد‪ ،‬سمرقند کے تعمیرات کے مشابہ ہیں۔محمود ایک تاجر تھے‪ ،‬ایران کے‬
‫شہر گیالن سے ہندوستان آئے تھے۔ قسمت نے ایران کے اس تاجر کو بہمنی سلطنت کا وزیِر اعظم بنادیا تھا۔ انہوں نے‬
‫اپنی ذاتی رقم سے اس کی تعمیر کروائی۔ یہ ایک اقامتی مدرسہ تھا۔‬
‫دکنی سالطین اکثر و پیشتر مسلک‘ اثنا عشری رکھتے تھے۔ اہل ایران کے لیے سفر دکن آسان تھا ۔ دابل اور گواکی‬
‫بندرگاہوں پر سیاح‘ اہل مصرفہ‘ صاحباں علم و دانش اترتے تھے۔ ایرانی اہل علم و دانش اپنی ذہانت خداداد تدابیر‘‬
‫مصالح سلطنت میں درک و ادراک کے باعث اعلٰی عہدوں پر فائز ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ دربار‬
‫سالطین بہمنی میں شیعہ عمائدین کی بڑی تعداد جمع ہوتی گئی۔فضل ہللا انجو‘ وزیر‘ صدر جہاں‘ وزارت امور مذہبی کا‬
‫سربراہ سعد الدین تفتا زانی مشہور شیعی عالم کا شاگرد تھا وزیر السلطنت محمود گاوان خواجہ جہاں ایرانی نژاد تھا۔‬
‫یوسف عادل شاہ بیچاپور کا خود مختار سلطان ہوا یہ محمور گاوان سے تربیت یافتہ تھا۔ بیچاپور کی جامع مسجد میں نقیب‬
‫خان نے نماز جمعہ کے لئے لوگوں کوبالیا اورشیعہ مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق اذان کہلوائی۔شیعت سرکاری مذہب‬
‫ہوا‘ ایران‘ عراق سے شیعہ مجتہدین کو طلب فرمایا گیا۔ اور درس و تدریس رعایا کا انتظام کیا گیا و جے نگر کے‬
‫مہاراجہ نے تخت فیروز محمد شاہ بہمنی کو بھیجا اس کی سرکاری تقریب جشن نوروز کے موقع پر ہوئی نوروز‬
‫ایرانیوں کے لئے مبارک دن ہے اسی دن علی ابن ابی طالب علیہ السالم پر خالفت نصب ہوئی۔دکن میں مجلس عزاء کا‬
‫عالؤ الدین بہمنی کے عہد میں اہتمام کیا جاتا تھا ۔ یکے بعد دیگرے سالطین بہمنی کے دور میں شیعہ رسومات میں‬
‫مجالس عزا کو ایک طرف مستحکم روایت کا مقام حاصل ہوگیا دوسری طرف ارباب بست وکشاد کے مقتدر طبقہ کا اہل‬
‫بیت اطہار سے وابستگی کے باعث دکنی مرثیہ کے لئے فضا سازگار ہوئی۔خود شیعیت کا بیدر کے کونے کونے میں پایا‬
‫جانا ‪ ،‬ایک دلیل بنتاہے اس بات کی کہ محمود گاوان شیعہ تھے اور کرمانشاھیوں کو اپنے مدرسہ میں تدرکس کے لیے‬
‫بالنا ایک واضح دلیل ہے کیونکہ بے شمار بالئے جانے والوں میں سب سے زیادہ مشھور جن کے مقبرےنظر آتے ہیں‬
‫وہ چوکھنڈی کے کرمانشاھی مزارات ھی ہیں جو اس شان و شکوہ سے تعمیر کئے گئے ہیں جس سے اس بات کا پتہ‬
‫چلتاہے کہ ان کی منزلت و اثر ان کی حیات میں کتنا تھا ۔ چنانچہ متعدد ممتاز شیعوں مثال میر سید علی ہمدانی‪ ،‬خواجہ‬
‫محمود گاوان اور حضرت گیسو دراز کی نسبت اختالف ہے کہ وہ شیعہ تھے یا سنی لیکن انکے شیعہ ہونے کے قوی‬
‫امکان ہیں۔‬
‫نعمت اللہی سلسلہ طریقت شیعہ صوفیاء ہیں سلطان احمد شاہ ولی نے نعمت ہللا شاہ کو بیدر آنے کی دعوت دی تھی‬
‫انہوں نے کہا کہ میری عمر بہت زیادہ ہے اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے شاہ خلیل ہللا کو دکن بھیج دیا جو ‪ 1430‬عیسوی‬
‫کی بات ہے ۔ اسی لیے سلسلہ نعمت اللہی بیدر شہر کے باہر استور منتقل ہو گئے اس جگہ کواب خلیل آباد کہا جاتا ہے۔‬
‫حضرت خلیل ہللا کا مقبرہ قلعہ بیدر کے باہر چوکھنڈی میں موجود ہے جو اس کی عالمت ہے کہ بہمنی ریاست میں نا‬
‫صرف بہت سارے امراء شیعہ عقیدہ رکھتے تھے بلکہ صوفی بھی اہل تشیع عقیدہ رکھتے تھے۔‬
‫سید ابو الفیض سید من ہللا رحمتہ نے ‪ 65‬سال کی عمر میں جب آپ بیدر میں تھے اور بہمنی سالطین کے پاس تھے اسی‬
‫ن گیا‬ ‫جس میں بابا فرید کو فاروقی کہا‬ ‫ن سب سے پہال مسودہ ہے ق‬ ‫نسخہ اب تک کا‬ ‫مرتب کیا تیہ قلمی ف‬ ‫ایک قلمی نسخہش ئ‬ ‫دور میں ش‬
‫ت‬ ‫ل‬
‫اس کا نام وامل ا جلمل در ما ل الکمل ھا ی ہ اب خو ا ی ض نمن ہللا ے ‪ 1473‬عی سوی می ں لکھا جشوت اس و ت گلتب رگہ درگاہن کے ک ب خ اشے‬
‫م ں موج ود ے۔ اب ا ک طرف آ پ کے دادا واتہ ب ن تدہ واز گی سودراز ہ وں اں ان کی اوالد ج و چ ی س سلہن ع ک‬
‫سے ی عہ‬ ‫نج ہب ہ ن‬ ‫ے کی و‬ ‫سے ل نق ر ھ‬ ‫نل‬ ‫ین‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫تن‬ ‫غی ش‬ ‫ہ‬ ‫ین‬
‫ے شاور ا نکی اوالد ے م ی‬ ‫ن‬ ‫ے ج ت ی نکے اہ ل س ت مس نلک کی اسی ا ہوں‬ ‫س ی معاملہ می ں پڑےق ب ی ر ن ی عہ کی ب ھی ا ی لفعزت کر بے ھ‬
‫ئسجم ھ لی ں ۔ اسی‬ ‫ک‬ ‫لسفالطی ن کی‬
‫طرح اب و‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫لک والے ا کو ی عہ ا‬
‫ش‬ ‫ل‬ ‫ن‬
‫ت مس‬‫کے اہ علتس ج ن‬ ‫دعوت کو ب ول ہی ں ک ی ا جن ب کہ اب و ا ی ض کو یھ فج ا کہ ہی ں ہ دوست ان ش‬ ‫م‬
‫آج ک‬ ‫ق‬
‫کی اوالد ن‬ ‫ی‬
‫سارے ی عہ لماء کو وبی نہ دوست ان می ں کر آ فے ن ف‬ ‫ران سے ہت ع ت‬ ‫ب‬ ‫نں اور ای ل‬ ‫گ‬ ‫ج‬
‫کے سسر مود گاوان و کہ ی النی س ی د ہ ی‬‫ح‬ ‫ا یض ن‬
‫اب ا کا ی ہ ب ی ان آی ا کہ"ن ی خ ری د الدی ن ار ی ب ود د از‬ ‫ے ہ ی الب و ا ی ض کی ب نھی لمی رب ی ت کی ھی‬ ‫ہوں ت‬ ‫ےا ن‬ ‫ن‬ ‫ود‬ ‫ج‬ ‫و‬‫م‬ ‫صورت‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫وہ ناں کسی‬
‫ے‬‫ان سے پہل‬ ‫لکہ‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ئسی مورخ کا ن ت‬
‫حوالہ‬ ‫ک‬ ‫اں‬ ‫اب‬
‫غ‬ ‫ت‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫حوالہ‬ ‫کا‬ ‫ا‬ ‫کن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫کھ‬‫ہ ہوں ے ل‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ارت‬ ‫اس‬ ‫اب‬ ‫در"‬
‫ن‬ ‫جا ب‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ض‬
‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫نپ‬
‫ے کہ خ ا دی ی ج علی‬ ‫ہ‬ ‫ے جس کاص ی ج ہ وا ع ن‬ ‫ےشب ھی زیرف ور ال خ ش‬
‫ے نگ‬ ‫وہ پہل‬ ‫کے یچ ھ‬
‫ے ت‬ ‫اس ش‬ ‫ے سق‬‫حرکات ھ‬
‫ف‬ ‫دوسری ج ا ب ہک ی ا م ب خ‬
‫ن‬
‫ںشلتکھاشج ب کہ ق‬ ‫ی‬‫ن‬‫فکسیق ے ہ‬
‫کے ابنرا ی م ب ن ل ی کو ارو ی م ہور کرمقدی ا اکہ چ ت ی ہ صو ی ناء کی و ت شودی حا ل ہ و خاسی ب ی اد پرع ج ب متعز الدی ن‬
‫م‬ ‫ارو ی وں ے چ ی ج رہ طری تن‬
‫ع‬ ‫ت‬
‫سے ل کرئ ج گ کی و ن ی عہ لماء و مور ف ی ن کو ی ہ فلم ہ وقگ ی ا ن ھا کہ آل‬ ‫بف ن عالو الدب ن ب ندر الدی ن سلی مان ے شدک ی اور امران صدہ سے ملک‬
‫ب‬ ‫ق بل ن ق‬ ‫ع‬ ‫ب ب‬
‫ہ‬
‫ے دم ج ما ی ں اسی کا ی ج ہ ی ہ وا کہ ب اب ا ری د کو ھی ارو ی ب ا دی ا گ ی ا۔‬ ‫اروق ک ھی ھی ہی ں چ اہ ی ں گے کہ ی عہ امراء ی اں لماء اس عالے می ں اپ‬
‫تنظ‬ ‫تق‬ ‫ق ن‬ ‫ع ن ت ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫اب ب ہ ان اب و ال ی ض کی ان‬
‫ق ے اس پر ح ی ق کی کہ خاسش ا ر‬ ‫کے مح ن‬ ‫سے ھنا ج ن کا ی عہ ہ قو ا کسیثکو تلم ہی ں ھا ا ہ ی کسی ب عد ف‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫بج ی ب ی ف ق‬
‫ے ادی ی‬ ‫ے ی ہی ہ وا کہ ب اب ا ری د کاخ سبضب فدل دی ا گ ی ا اسیتلی‬ ‫ے اس لی‬ ‫ہ‬‫کس سم نکا ا ر ہ و ا ت‬ ‫ے فکہ قر ہ واران ہ مش عصب اف کار کا سب پر ن‬ ‫فمی ںق ھی سوچق‬
‫ےش انتم ں ا راہ ی م ن ادھم ب ل ی کا ا ا ہ ک ا گ ا اور سا ھ اوالد ت‬ ‫ھ‬ ‫لوم‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫ا‬ ‫سب‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫رق‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫رہ‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ارو‬ ‫ی‬‫ئ‬ ‫ارو ی وں باور ب ا‬
‫ع‬ ‫می ی‬ ‫ب ش‬ ‫ی ب‬ ‫سے چ ال لی کی ونہکہ ا نراہ ی یم ئکی ک ش‬‫ی‬ ‫ن ب‬
‫گاوان می ںضزیر لی م‬ ‫ف‬ ‫مود‬ ‫ح‬ ‫مدرسہ‬
‫ض‬ ‫اء‬‫م‬‫ل‬ ‫ع‬ ‫عہ‬ ‫ی‬‫ٹ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫اب‬ ‫ھی۔‬ ‫ہور‬ ‫م‬ ‫حاق‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ب‬‫ا‬‫خ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫بن‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫امی‬ ‫حاق‬ ‫س‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫تارم یتان ہنکی ج ا‬
‫ے ی اں ح رت عمر اروق ر ہ کی‬ ‫ج‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ے و ا فہوں ے اس ب ات کو اور ظ ب وط ک ی ا کہ ا ل س ت کو ی ھی ص و دعوی س ی ادت کرے وہ ھو ا ہ‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫ش ئ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ل‬ ‫اوالد‬
‫درق ما ل‬ ‫ے ا فہوںقای ک رسالہ ب ن ام" ظ وامل ا جلمل ت‬ ‫اس ھ‬‫‪ 1474‬عی سوی می ں ج ب وہ ہم نی خ ی عہ سالطی ن کے پ ف‬ ‫ہللا خے‬ ‫من ن‬ ‫س د اب و ا ی ض ق‬
‫ی‬
‫دور ری ب ا دوسو‬ ‫ہ‬
‫کے بتارے اہ ر وا ی ہ ظ‬ ‫ن‬
‫ق‬
‫کی ارو ی نت‬ ‫ج‬
‫ے فو ب اب ا ری د ف‬ ‫ش‬
‫ے ی ہ پ ہال سلہکی تاں ب ی ان ہ‬ ‫ف‬ ‫گ‬
‫آج ٹھی لب رگہٹ می ں پ لڑا ہ‬
‫ب‬ ‫الکمل" لکھی ی ہ می ئس ہ‬
‫ل‬
‫ے کہ‬ ‫سے نی ہ اہ رنہ‬ ‫ب پ در" اس ت‬ ‫ے ہ ی ں کہ " خی نخ رشی د الدی نن ار ی ب بود دن از ج ا ش‬ ‫ے اور ک ی سو کلومی ر دور ب ی ھ کر اب و ا ی ض صاحب ت ھ ن‬ ‫سال ب عدق کا ہ‬‫ن ف‬
‫ہوں ے ی ہ‬ ‫نا ج ق‬‫ت اور ہم ی اہنل ی ع کانکردار ھ‬ ‫ا کی شارو ی تتکے م طلق ج و دو سو سال ب عد گھڑا گ ی ااس می ں پ اکپ ن ت ہی ں ب لکہ ا دی ی اہ لس ئ‬
‫یک‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫درج ہی ں کہ ا ہوں ے ی ہ ول کہاں‬ ‫حوالہت ت‬
‫سودے تکو د ھی ں و اس می ںظاس ب ات کا کو خی خ‬ ‫ن‬ ‫ب ی ا ی ہ م ہور ک ی ا ھا۔ دوسری ج ا ب اگر ہ م اس م‬
‫ے کہ ی ہ ود سا ہ ھا۔‬ ‫سے ی اں کس کت اب ی اں حوالہ سے ل ی ا ی اں کس سے س ا ھااس سے صاف اہ ر ہ‬

‫ن نظ‬
‫ملک ج ب ا ا م گج رات‬
‫نظ‬ ‫مق ت ن ن‬
‫ملک ب ل ل گی ائ ب ا م‬
‫نظ‬ ‫مق ت‬
‫ص ن ن ص ن س‬ ‫لن ن ئ‬
‫ملک ب ل گی ا ب ا م جس کا ا ل ام ک و درا ل و م لم ہ‬
‫ے۔‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫اس کا وام الملک طاب ملت ان می ں ھا‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ج ب گج رات ب یھ ج ا و خ ان ج ہاں کا ل ب مال‬

You might also like