Professional Documents
Culture Documents
شھید عباس دانشگر
شھید عباس دانشگر
شھید عباس دانشگر
شهید_عباس_دانشگر#
عباس دانشگر
اردیبہشت 1372کو ایران کہ شہر سمنان میں ایک متدین گهرانے میں متولد ہوئے۔۔ 18
وہ بچپن ہی سے بہادر اور نڈر تهے۔۔ انکے والد نے بچپن ہی سے انکی یہ خوبصورت عادت بنائی کہ انہیں ہر نماز کیلیئے اپنے ساته
مسجد میں لے کر جاتے تهے۔۔
یہی انکے متدین اور بسیجی ہونے کا بهی سبب بنا۔۔کیونکہ انہوں نے یہیں سے اخالق و گفتار اسالمی کا لباس زیب تن کیا تها۔۔یہ بچپن
ہی سے ابتدائی احکام اور قرآن اور دینی تعلیمات سے آشنا ہو گئے تهے۔۔
انکے چہرے پر ہمیشہ موجود رہنے والی مسکراہٹ نے بہت سے لوگوں سے انکا دوستانہ رابطہ قائم کروا دیا تها۔۔
اتنا دوستانہ رابطہ کہ ہر کوئی ان سے پہلی بار مالقات میں ہی انکا عاشق بن جاتا تها۔۔
وہ اپنے تعلیمی زمانے میں الئق شاگردوں میں شمار ہوتے تهے۔۔ اپنی تعلیی ترقی کے لیے بہت محنت کرتے تهے۔۔۔۔
ا
عالی تعلیم کہ حصول کا شوق میں انکا قوی ارادہ ہی باعث بنا کہ وہ سمنان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں انجینئرنگ فیلڈ میں
داخلہ کے لیے انٹرویو میں کامیاب ہو گئے۔۔
یہ اپنی دور اندیشی سے جانتے تهے کہ انہیں مستقل میں سپاہ پاسداران کا حصہ بننا ہے اسی جذبہ سے انہوں نے
‼دانشگاہ امام حسین علیہ السالم کہ امتحانات میں بهی شرکت کی اور کامیاب ہو گئے۔۔
ایک ہفتے تک عباس اسی سوچ و بچار میں رہے کہ دونوں یونیورسٹیوں میں سے کونسی یونیورسٹی کا انتخاب کریں۔۔
انکے دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ وہ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی فیلڈ کا ہی انتخاب کرے اور اسی میں آگے بڑھے۔۔
لیکین انہوں نے دانشگاہ امام حسین علیہ السالم کا انتخاب کیا اور کہا کہ یہ دانشگاہ صرف دانشگاہ ہی نہیں بلکہ انسان سازی کا مرکز
بهی ہے۔۔ اور وہ اپنے دوستوں کو بهی اپنے مستقبل کہ بارے میں یہی مطلع کرتے تهے کہ۔۔
میں اسالم کی خدمت کے لیے سپاہ پاسداران میں شرکت کرنا چاہتا ہوں۔۔
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر2 قسط
رھبر معظم انقالب آقای علی خامنهای کہ دیے ہوئے لقب کہ مطابق عباس دانشگر
‼جوان مؤمن انقالبی "ہیں۔۔"
عباس کی شروع ہی سے مطالعہ کی عادت تهی۔۔ انکا اپنا منظم ٹائم ٹیبل تها۔۔
جو امام علی علیہ السالم کہ اس فرمان کا عملی جامہ تها۔۔
انکا عبادتی برنامہ ریزی جو کہ انکی شہادت کہ بعد منظر عام پر آیا وہ یہ تها۔۔
‼عباس اکثر کہتے تهے کہ اگر آپ عاشق خدا نہیں بنیں گے تو خدا بهی آپ کا عاشق نہیں ہو گا۔۔۔
عباس عاشق خدا تهے۔۔ خود کو دنیا کی قید سے رہا کر چکے تهے۔۔
عباس تعلیمی میدان میں بهی بہت محنتی تهے۔۔ ہمیشہ کالس میں اپنے اساتذہ اور ہم کالسیوں کہ ساته حاالت حاضرہ پر بحث کرتے
تهے۔۔ علمی مقابلوں میں انکی بهرپور شرکت ہوتی تهی۔۔ عباس خود کو کبهی اس بات کی اجازت نہیں دیتے تهے کہ وہ ایک طالب
‼علم کہ عنوان سے صرف نصابی کتابیں پڑھیں۔۔ بلکہ ہمیشہ نۓ موضوعات پر تحقیق کرتے رہتے تهے۔۔
عباس حرام نگاہ ،جهوٹ ،غیبت سے پرہیز کرتے تهے۔۔اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتے تهے کہ انہیں ان آنکهوں سے کہاں دیکهنا ہے
‼اور کہاں نہیں۔۔
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر3 قسط
سردار اباذری بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عباس میرے پاس آیا اور کہا کہ میں ازدواج کرنا چاہتا ہوں۔۔
میں نے پوچها کہ کس سے۔۔!؟؟؟؟
عباس بہت با حیا جوان تهے۔۔ یہاں تک کہ جب تک انکی شادی نہیں ہوئی تب تک انہوں نے اپنے چچا کی بیٹی کو بهی نہیں دیکها تها۔۔
‼سب سے پہلی لڑکی جو انہوں نے دیکهی تهی وہ انکی اپنی ہمسر تهی۔۔
سب_سے_پہلی_نامحرم#
سردار اباذری انکی شہادت کہ بعد بتاتے ہیں کہ تین سال سے عباس میرے ساته تهے۔۔
سب جانتے تهے کہ عباس نے اپنی ذندگی کہ آخری ایام میں شادی کی۔
میں۔۔۔جو کہ اسکا کمانڈر تها۔۔میرے لیے بهی نا قابل یقین تها لیکین سچ یہی تها کہ عباس نے آج تک کسی نا محرم پر نگاہ نہیں ڈالی
تهی۔۔
سب سے پہلی نا محرم انکی اپنی چچا کی بیٹی ،یعنی انکی اپنی ہمسر تهی۔۔ حتی کہ اسے بهی ٹهیک سے نہیں دیکها تها جب تب یہ
‼انکی محرم نہیں بن گئیں تهیں۔۔
جب یہ اپنی شادی کے لیے گیا تها تو میں نے اس سے دوبارہ پوچها تها کہ کیا اب تم نے اپنے چچا کی بیٹی کو دیکها ہے۔۔؟؟؟؟
تو پهر اس نے کہا کہ واقعا میں نے اسے نہیں دیکها۔۔
!!!!عباس اپنے چچا کہ گهر ضرور آتا جاتا تها لیکین انکی بیٹی کو نہیں دیکها تها۔۔
‼شہید یعنی وہ جو اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتا ہو۔۔۔ جانتا ہو کہ اسے ان آنکهوں سے کہاں دیکهنا ہے اور کہاں نہیں۔۔
عباس کی شادی کو ابهی صرف تین ماہ ہی گزرے تهے کہ پهر یکم اردیبہشت 1395کو یہ سوریہ چلے گئے۔۔
جاری ہے
سیاسی_نقطہ_نظر#
عباس سیاسی ،اعتقادی اور فکری لحاظ سے شہید مطہری کی پیروی کرتا تها۔۔ یہاں تک کہ دوسرں کو بهی اس سے آشنا کرنے کے
لیے انہوں نے دانشگاہ امام حسین علیہ السالم میں "شہید مطہری کی فکر کو فروغ دینے کی محافل "کی بنیاد رکهی۔ اور یوں عباس
‼نے شہید مطہری کی فکر کو زندہ رکها۔۔
اعتقادی_بحث_و_مباحثہ#
انکے ایک اور دوست بیان کرتے ہیں کہ عباس کو علمی مباحث میں شرکت کرنے کا بہت شوق ہوتا تها۔۔
مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ
جب ہم دونوں ایک ساته الئیبریری میں جایا کرتے تهے۔۔ تو کبهی کبهار تو عباس دوپہر کا کهانا کهانے بهی نہیں جاتا تها۔۔ صرف ایک
بیسکیٹ سے بهوک ختم کر دیتا تها۔۔آخری دنوں میں تو یہ "والیت مطلقہ فقیہ "کہ موضوع پر اعتقادی مباحث میں شرکت کرنے کے
لیے شہر مقدس قم جایا کرتا تها۔۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بهی اس سے استفادہ کرتا تها۔۔
‼شہید مطہری کی اخالقی اور تربیتی کتابوں سے اپنے باقی دوستوں کو بهی تدریس کرتا تها۔۔
عباس ڈاکٹر حسن عباسی کہ شاگردوں میں سے بهی تها۔۔ وہ جب بهی سمنان میں آتا تها تو انہی کی تعلیمی روش کو لوگوں میں منتقل
کرتا تها..۔
عباس کا علمی مباحث میں اس قدر وسیع پیمانہ تها کہ وہ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسالم کو مد نظر رکهتے ہوئے
‼بحث کرتا تها۔۔
⚫جاری ہے۔۔
از_جنس_آسمان#
ایسے لگتا تها کہ جیسے عباس ہم میں سے ہے ہی نہیں ۔۔ وہ اہل آسمان میں سے تها۔۔
ہر انسان کی زندگی میں مشکالت و مصائب ہوتی ہیں۔۔۔ایسے ہی عباس کی ذندگی میں بهی جو درد تهے وہ زمین والوں کی طرح نہیں
تهے۔۔۔بلکہ جیسے وہ خود تها ،اس کے جیسے ہی اس کہ درد و رنج و الم بهی اہل آسمان کی طرح تهے۔۔ عباس وہ تها جو اپنے عالج
و معالجے کے لیے گیا۔۔
عباس کے عالج کی راہ
اہل_بیت_کی_راہ_میں#
عباس اہل بیت علیہم السالم کی راہ کا مسافر تها۔۔ اسکی کامیابی کا راز ہی یہی تها کہ اس نے در اہل بیت علیہم السالم کی نوکری کا
‼انتخاب کیا تها۔۔ پهر اسی راہ میں اس نے ترقی بهی کی۔۔
مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ میں اور عباس ہر ہفتے شب جمعہ میں امامزادہ یحیی علیہ السالم کہ مزار پر دعای کمیل پڑھنے
جاتے تهے۔۔
پهر جمعہ کی صبح میں دعاے ندبہ کی محفل میں شرکت کے لیے بهی جاتے تهے۔۔
نماز جمعہ کو بهی بہت اہمیت دیتا تها۔۔۔
‼عباس بہت خوش قسمت جوان تها کہ اس نے اہل بیت علیہم السالم کی راہ کا انتخاب کیا تها۔۔
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر6 قسط
میرا بیٹا عباس ایسی طبیعت کا مالک تها کہ جب تک اس سے کچه پوچهو نہ تو وہ نہیں بتاتا تها۔۔
اور جب اس سے کچه پوچها بهی جاتا تو پہلے وہ سوال کرنے والے کی طرف دیکهتا اور پهر اسی کی استعداد کہ مطابق اسے جواب
دیتا۔۔
غالبا وہ بہت سوچ سمجه کہ ہر بات کا جواب دیتا تها۔۔ لیکین پوری بات کا نہیں۔۔
بلکہ بہت مختصر۔۔
ایک بار اسکا ہاته زخمی تها تو میں نے اس سے پوچها کہ تمہارا ہاته کیوں زخمی ہے۔۔؟
تو صرف اتنا جواب دیا کہ میں کشتی میں جلدی میں سوار ہوا تها تو جلد بازی میں میرا ہاته زخمی ہو گیا۔۔
‼اس کی شہادت کہ بعد مجهے معلوم ہوا کہ عباس مجه سے بہت سی باتوں کو چهپاتا تها۔۔
اسکی ایک اور عادت یہ تهی کہ یہ خوشبوؤں کا بہت استعمال کرتا تها۔۔ اس کے پاس 5قسم کہ عطر موجود تهے۔۔ جب بهی اسکول
اور مسجد میں جاتا تها تو ایک ایک عطر روزانہ استعمال کرکے جاتا تها۔۔
صبح اسکول جاتے وقت بهی روازنہ عباس پہلے اپنا سر دھوتا تها پهر شیشے کہ سامنے کهڑے ہو کر کنگهی کرکے کسی ایک عطر
کی شیشی کا استعمال کرتا تها۔۔
‼یہاں تک کہ موسم سرما میں بهی اسکی یہی عادت تهی جس کی وجہ سے اکثر اسے ٹهنڈا لگنے کی وجہ سے بخار ہو جاتا تها۔۔
نماز_اول_وقت#
انکے والد بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رات میں مسجد نماز پڑھنے کے لیے گیا تو ایک چہرہ مجهے آشنا نظر آیا۔۔ مجهے لگا کہ شاید
عباس ہے لیکین پهر میں نے کہا کہ نہیں۔۔اگر عباس نے تہران سے سمنان آنا ہوتا تو ہو وہ ہمیں ضرور آگاہ کرتا۔۔ پهر
جب میں مسجد سے جا رہا تها تو ایک شخص نے مجهے کہا کہ خوش آمدید۔۔عباس آ گیا ہے۔۔ تب مجهے یقیں ہوا کہ وہ عباس ہی تها۔۔
اور اس نے اپنے آنے کی خبر کسی کو بهی نہیں دی تهی۔۔
اس وقت ہی میں متوجہ ہوا کہ عباس اپنے آنے اور جانے کہ پروگرام کو اس طرح منظم کرتا ہے کہ اس کی پہلی نماز محلے کی
‼مسجد میں ادا ہو۔۔
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر7 قسط
عباس سے میرا خاندانی رشتہ تها۔۔یہ میرے چچا کہ بیٹے تهے۔۔ انکی طرف سے سال 1394کہ
دی ماہ "کی 29تاریخ کو میرے لیے رشتہ آیا۔۔ ہم نے بهی اس رشتے کہ بارے میں غور و فکر کیا۔۔ میرا بلکل بهی ارادہ نہیں تها کہ"
میں اتنے کم سن و سال میں شادی کروں لیکین جب انکا رشتہ آیا تو ان میں وہ تمام خصوصیات موجود تهیں جو میں چاہتی تهی۔۔ ایک
ہمسر کہ طور پر جو کچه میرے ذہن میں تها وہ سب عباس میں موجود تها۔۔ میری سب سے بڑی شرط یہ تهی کہ میرا شوہر تہران میں
ہی سکونت پذیر ہو۔۔اور وہ وہیں کہ ہی تهے۔۔۔
رشتے کہ دنوں میں میرے امتحانات جاری تهے۔۔ اس لیے میرا ذہن بلکل بهی اس طرف ابهی آمادہ نہیں تها۔۔
لیکین جب عباس آئے تهے تو انہوں نے دو صفحات پر مشتمل اپنی زندگی کی تمام شرائط و خصوصیات لکه کر مجهے دیں جو وہ
چاہتے تهے۔۔ جو میں نے غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رضامندی سے قبول کر لیں۔۔
شادی کہ بعد ہم صرف تین ماہ اکهٹے رہے پهر عباس سوریہ چلے گئے۔۔
انکی شہادت کی خبر میں نے اس طرح سنی تهی کہ ہم ان دنوں سمنان سے تہران آئے ہوئے تهے۔۔
میرے والد کو عباس کہ بهائی کا ٹیلی فون آیا۔۔ انہوں نے میرے والد کو انکی شہادت کی خبر دی لیکین ابو نے ہمیں گهر میں کچه نہ
بتایا۔۔
اسی دن بعد از ظہر میں بہت ٹینشن میں تهی۔۔اور میری زبان پر صرف ذکر الہی جاری تها۔۔
کچه دیر بعد ابو نے کہا کہ میں باہر جا رہا ہوں۔۔عباس کہ بارے میں کچه خبر معلوم کر کہ آتا ہوں۔۔
اس کے بعد تقریبا ابو ایک گهنٹے کے بعد واپس آئے۔۔ اور مجهے بتایا کہ عباس بہت شدید زخمی ہوا ہے۔۔
یہ سن کر پریشانی سے میری حالت بہت بری ہو گئی تهی۔۔ لیکین پهر
اس حال میں بهی میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ عباس ذندہ ہے۔۔
اس کے بعد جب دوبارہ ابو کے پاس وہاں سے فون آیا تو تب میں سمجه گئی کہ عباس کی آرزو پوری ہو گئی ہے۔۔
میں خوش اس بات پر تهی کہ عباس نے آخر اپنی خواہش پوری کر لی ہے۔۔۔لیکین انکی دوری میرے لیے قابل برداشت نہیں تهی۔۔
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر8 قسط
میں اور عباس دونوں ایک بار ایک ساته آپریشن کر رہے تهے۔۔ یہ کام اتنا زیادہ سخت نہیں تها۔۔لیکیں اس کی شرائط سخت تهیں۔۔۔
ایک بار یہی آپریشن ہمیں موسم سرما کہ دوران کرنا پڑا۔۔ تب برف باری بهی ہو رہی تهی۔۔۔میری باری صبح 3بجے سے 6بجے تک
کی تهی۔۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شکر ہے کہ آج زیادہ ٹهنڈ نہیں ہے۔۔
اور میں پر سکون سو گیا۔۔ اچانک خوش قسمتی سے میں بیدار ہوا اور میں نے جلدی سے یونیفارم ،دستانے ،اور دوربین اٹهائی۔۔
اور میں اسلحہ خانے کی جانب گیا۔۔ میں نے جلدی سے اسلحہ اٹهایا اور اپنے مورچے پر پہنچ گیا۔۔ اب بات یہ ہوئی کہ اب بادل جهڑ
چکے تهے۔۔۔ہوا انتہائی ٹهنڈی اور وحشتناک صورت میں تهی۔۔ اس روز مجهے بہت سردی لگ رہی تهی جو کہ آج تک مجهے ایسی
ٹهنڈ پہلے کبهی نہیں لگی تهی۔۔ میرے ہاته سردی سے بے حس و حرکت ہو چکے تهے۔۔ میں ایسی جگہ کی تالش میں تها کہ جہاں
میں اپنے ہاته گرم کر سکتا۔۔ یہ بات میں ابهی صرف سوچ ہی رہا تها کہ عباس میرے پاس پہنچ گیا اور کہا پوچها کہ کیا ہوا ہے۔۔۔اتنا
جلدی کیوں واپس آ گئے۔۔
تو میں نے کہا کہ مجهے سردی لگ رہی تهی۔۔
یہ سن کر عباس نے میرے ہاتهوں پر بوسہ دیا اور کچه دیر میرے ہاته اپنے ہاته میں رکهے۔۔۔اسکے ہاته صحیح گرم تهے تو میرے
ہاتهوں پر بهی جلد اثر ہو گیا۔۔اور میرے ہاته نارمل ہو گئے۔۔
‼عباس نے مجهے کہا کہ جو ہاته وطن کی حفاظت میں استعمال ہوں وہ بوسہ دینے کہ الئق ہوتے ہیں۔۔
پهر عباس نے مجه سے پوچها کہ آخر تم نے دستانے کیوں اتار دیے تهے۔۔؟
میرے جواب دینے تک کمانڈر آ گئے اور انہوں نے عباس کو بال لیا۔۔
عباس پهر ایک گهنٹے کہ بعد میرے پاس دوبارہ واپس آیا اور میرا حال و احوال پوچها کہ اب بہتر ہوے ہو یا نہیں۔۔؟
خیر۔۔۔
اب میں بلکل ٹهیک ہو چکا تها۔۔
عباس نے مجهے دستانوں کا ایک جوڑا دیا اور کہا کہ یہ تمہارے ہیں۔۔
میں نے کہا کہ میرے پاس دستانے ہیں۔۔بس صرف کل رات نہیں پہنے تهے۔۔
تو عباس نے کہا کہ۔۔
انسان کو کسی کا ہدیہ ٹهکرانا نہیں چاہیئے۔۔بلکہ اسے قبول کر لینا چاہیےچاہیے۔۔"
⚫جاری ہے۔۔
⃣
نمبر9 قسط
پیادہ_روی_اربعین#
میں نے اور عباس نے 1393اور 1394میں ایک ساته اربعین کے لیے مشی کی۔۔
اس دوران عباس کی زبان پر بس صرف ایک صدا ہوتی تهی۔۔۔۔۔یا ذینب۔۔۔
ہم سب بہت تهک چکے تهے تو رات میں آرام کے لیے ایک موکب میں گۓ۔۔ سب کے پاؤں زخمی تهے اس لیے جاتے ساته ہی کچه
لیٹ گئے۔۔اور کچه دوستوں نے مساج کروانا شروع کر دیا۔۔
ہم سب دوست بے شک بہت تهکے ہوئے تهے لیکین ہمارے موکب میں ہم میں بسیجی جذبہ نظر آ رہا تها۔۔ سب کے دلوں میں امام
حسین علیہ السالم کے عشق و محبت کا سمندر موجیں مار رہا تها۔۔
عباس نے خود کو تیار کیا اور کہ دوستوں میں سے جس جس نے پاؤں پر مساج کروانا ہے وہ مجه سے کروا لے۔۔
اور وہ اس بات پر فخر بهی محسوس کر رہا تها۔۔اور یہی کہتا کہ جو قدم امام حسین علیہ السالم اور حضرت ابالفضل العباس علیہ
‼السالم کے عشق میں اٹهے ہیں۔۔وہ میرے لیے بہت اہمیت رکهتے ہیں۔۔
میں آخری بار جو ہم نے ایک ساته مشی کی ،یہ تب کی بات ہے کہ ہم کربال بین الحرمین میں بیٹهے ہوئے تهے تو عباس نے 1394
مجه سے کہا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کہ حق میں دعا کرتے ہیں ۔۔
میں نے کہا کہ ٹهیک ہے۔۔۔عباس نے پوچها کہ چلو بتاؤ پهر میں تمہارے لیے کیا دعا کروں۔۔؟؟؟
میں نے کہا کہ دعا کرو کہ میں شہید ہو جاؤں۔۔اور میرا جنازہ کبهی واپس نہ آۓ۔۔ میں گمنام رہوں۔۔
پهر میں نے عباس سے پوچها کہ اب تم بتاؤ کہ میں تمہارے حق میں کیا دعا کروں۔۔؟؟؟؟
تو عباس نے کہا کہ بس تم یہ دعا کرو کہ میں اگلے سال اربعین پر اپنے آقا (امام حسین علیہ السالم )کے پاس ہوں
ہاں۔۔۔عباس اس سال تم اربعین پر اپنے آقا کے پاس ہی ہو۔۔ تم تو چلے گئے ہو نہ لیکین جو تم نے بین الحرمین میں مجه سے وعدہ کیا
تها وہ مت بهولنا۔۔بس کچه ایسا کر دو کہ اگلے سال میرا اربعین بهی امام کے پاس ہو۔۔
⚫جاری ہے۔۔
قسط نمبر10
ابهی 1395کے نۓ سال کا ہی آغاز ہوا تها کہ عباس اور بهابهی ہمارے گهر آۓ۔۔ بهائی کی شادی کہ ایک ماہ بعد ہی ہمارے گهر میں
انکے سوریہ جانے کی باتیں ہونا شروع ہو گئی تهیں۔۔ بهابهی جب کچن میں تهیں تو میں نے بهائی سے سوریہ جانے اور وہاں کہ
‼تکفیری لشکر کا پوچها تو بهائی نے کہا کہ آہستہ بات کرو۔۔کہیں وہ نہ سن لیں۔۔ورنہ ناراض ہو جائے گی۔۔
عباس کے ایک اور ہمکار بیان کرتے ہیں کہ اس کی آخری دن میں اس کے کمرے میں گیا تها تو عباس آخر وقت تک اپنے کام انجام
دے رہا تها۔۔
دفتر سے ارتباط وغیرہ۔۔
جب عباس اپنے کام سے فارغ ہو کر کمرے سے باہر نکال تو میں نے مذاق میں کہا کہ بهیا ایک تصویر تو بنانے دو۔۔۔اگر تم شہید ہو
گئے تو میرے پاس تمہاری ایک تصویر تو ہونی چاہیئے نہ۔۔
تو بس۔۔
عباس نے اسی وقت اپنی خوبصورت مسکراہٹ کہ ساته تصویر بنائی۔۔
قسط نمبر⃣ ⃣
11
خبر_شهادت#
یعنی جس روز عباس شہید ہوئے اسی دن کی نماز ظہر کی جماعت کی حفاظت انہوں نے کی تهی۔۔ جماعت پر پہرہ دینا 3-20-1395
ان کے ذمے تها۔۔بلکل روز عاشورا یاران و اصحاب امام حسین علیہ السالم کی طرح۔۔
کوئی نہیں جانتا اس نماز کہ دواران عباس نے خدا سے کیا راز و نیاز کیا۔۔۔
کہ
اسی کہ چند گهنٹے بعد ہمیں آرڈر آیا ایک گاؤں کی طرف جا کر اس کو اپنے حصار میں لینے کا۔۔۔جہاں دشمن کہ حملے کا خطرہ بهی
تها۔۔اور اس لیے بهی کہ دشمن وہاں داخل نہ ہو سکے۔۔ اسی اثنا میں ہمارے کچه ساتهی بهی زخمی ہوئے تهے۔۔ میں نے عباس سے
کہا کہ ہم پہلے انہیں ہسپتال منتقل کر آتے ہیں لیکین عباس نہیں مانا۔۔ پهر کمانڈر صاحب نے کہا کہ عباس میرے ساته ایک نئے
عالقے میں آپریشن کرنے جاے گا۔۔ میں نے پهر دوبارہ عباس سے کہا کہ تم وہاں نہ جاؤ۔۔باقی لڑکے انکے ساته چلے جائیں گے۔۔ تم
میرے ساته آجاؤ۔۔ لیکین عباس پهر بهی نہیں مانا۔۔
خیر۔۔عباس جب جانے لگا تو اس نے میری طرف اپنی اسی مخصوص مسکراہٹ کے ساته آخری بار پیچهے مڑ کر دیکها اور پهر
چال گیا۔۔
اس کے دو گهنٹے بعد ہی ہم تک اس کی شہادت کی خبر پہنچ گئی۔۔اور بتایا گیا کہ ہم عباس کے جنازے کو واپس نہیں ال سکتے۔۔
کیونکہ وہ عالقہ دشمن کہ گهیراؤ میں تها۔۔اور خطرے سے بهر پور تها۔۔ کوئی چانس ہی نہیں تها کہ عباس کہ جنازے کو واپس الیا
جاتا۔۔
ہم نے صبر کیا اور اتفاقا یہ شب جمعہ بهی تهی اور اس شب عباس کا جنازہ تک و تنہا پڑا رہا
ہمیں یہی بتایا گیا تها کہ عباس پر ایک گاڑی کے قریب حملہ ہوا تها تو انکا جنازہ بهی گاڑی کے قریب تالش کیا جائے۔۔
ہم تالش کرتے کرتے دشمن کے قریب بهی چلے گئے لیکن ہمیں کوئی گاڑی نظر نہ آئی۔۔
ہم اپنے کچه ساتهیوں کا بهی جنازہ واپس نہیں ال سکے تهے اور ہم نے بہت درد برداشت کیا تها اس لیے اب اور ہمت نہیں تهی کہ ہم
اپنے اور دوست کو بهی واپس نہ ال سکیں۔۔
آخر کار۔۔
بہت دور جا کر ہم ایک گاڑی ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔۔
جب ہم اس کے نذدیک گئیے تو دیکها کہ ایک جنازہ اس جلی ہوئی گاڑی اور ٹوٹی ہوئی دیوار کہ درمیان میں پڑا تها۔۔۔ جتنا ہم اندازہ
لگاتے جاتے ہمیں وہ جنازہ عباس کا ہی لگ رہا تها۔۔ عباس کا چہرہ تو دیکهنے کہ قابل نہیں تها تو ہم نے
پهر عباس کے دراز قد اور کچه اور نشانیوں سے تشخیص دی کہ یہ عباس ہی ہے۔۔
کیونکہ میں نے عباس کہ ہاته میں دو انگوٹهیاں دیکهی تهیں جس سے مجهے پورا یقین ہوا کہ یہ عباس ہے۔۔
اس میں سے ایک انگوٹهی اسے سوریا کہ کسی لڑکے نے دی تهی اور کہا تها کہ جب میں شہید ہو جاوں گا تو میری یاد گار کہ طور
پر اسے اپنے پاس رکهنا۔۔۔
لیکین اب تو عباس خود بهی شہید ہو چکا تها۔۔
وہ بهی شب جمعہ میں۔۔۔۔۔اپنی مادر حضرت زھرا سالم ہللا علیہا کی طرح۔۔۔۔۔۔بلکل جلی ہوئی گاڑی اور ٹوٹی ہوئی دیوار کہ درمیان
میں
⚫جاری ہے۔۔
آخری_قسط#
راوی:مادر شہید
شہادت سے ایک دن پہلے جب میری عباس سے بات ہوئی تهی تو اس نے مجه سے کہا تها کہ میں واپس آرہا ہوں۔۔
میرا اس وقت بهی دل عجیب سا محسوس کر رہا تها جیسا عباس کی یہ آخری بار ہو بات کرنے کی۔۔
میں نے عباس سے کہا کہ میرے بیٹے آج تمہاری آواز بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔۔
تو عباس نے ہنس کر کہا کہ جی امی جان۔۔کہتے تو مجهے بهی یہاں سب یہی ہیں۔۔لیکیں میرے چہرے کہ بارے میں کہ بہت نورانی
ہو گیا ہے۔۔آواز کا تو مجهے کسی نے نہیں کہا۔۔
بس یہی عباس سے میری آخری بات چیت تهی۔۔عباس کی واپسی کی خاطر میں نے قربانی کرنے کے لیے بکرا خریدا تها۔۔ اور سب
مہمانوں کو بهی دعوت کی تهی۔۔
عباس کی شہادت کے بعد ایران کہ ایک شاعر نے انکو اور انکی ہمسر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک نظم لکهی۔۔ جس کا
مفہوم آپ تمام عاشقان شہدا کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔۔
تم تو ابهی نۓ نۓ ہی دولہا تهے نہ عباس۔۔لیکین میں نے سنا ہے کہ تمہارا چہرہ خاک و خون میں بهیگ گیا ہے۔۔۔
شاید تمام عباس کی یہی قسمت ہوتی ہے۔۔ سوریہ میں بهی کربال کہ جیسے ہی کہانی پیش آئی ہے۔۔۔
ہمسر شہید عباس کہ نام۔۔#
،عباس۔۔۔۔شہادت کے اس لباس میں تم کتنے خوبصورت لگ رہے ہو نہ۔۔۔یہی قرار ہوا تها نہ کہ دلہن کے سفید لباس میں
میں تمہارے ساته ہوں گی۔۔۔ اور تم ہمیشہ میرے ساته رہو گے۔۔۔پهر کیوں اتنے جلدی چلے گئے۔۔
تم نے اتنا جلدی اس لیے سفید کفن پہن لیا نہ تاکہ میں تمہارے ساته نہ رہ سکوں۔۔۔۔؟؟؟؟
انشاء ہللا روز حشر میدان قیامت میں ایک دوسرے کو دیکهیں گے۔۔۔ پهر تم تو فرشتوں کہ پروں پر سوار ہو کر میدان قیامت میں آؤ
گے نہ۔۔۔
ہم دنیا میں تو کوئی جشن نہ منا سکے۔۔۔اب بہشت میں ہی منائیں گے۔۔
عشقم_شهدا#
فریحه_زھرا_شهانی#
بشکریه: #نوجوان_رھبر#