شھید عباس دانشگر

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 13

‫شہید_عباس_دانشگر_کی_مکمل_زندگی_نامہ_پڑھیں‬ ‫*‬

‫بسم رب الشهدا و الصالحین‬

‫ذندگی نامه شهید مدافع حرم‪#‬‬

‫شهید_عباس_دانشگر‪#‬‬

‫قسط نمبر ⃣‪1‬‬

‫عباس دانشگر‬
‫اردیبہشت ‪ 1372‬کو ایران کہ شہر سمنان میں ایک متدین گهرانے میں متولد ہوئے۔۔ ‪18‬‬

‫وہ بچپن ہی سے بہادر اور نڈر تهے۔۔ انکے والد نے بچپن ہی سے انکی یہ خوبصورت عادت بنائی کہ انہیں ہر نماز کیلیئے اپنے ساته‬
‫مسجد میں لے کر جاتے تهے۔۔‬
‫یہی انکے متدین اور بسیجی ہونے کا بهی سبب بنا۔۔کیونکہ انہوں نے یہیں سے اخالق و گفتار اسالمی کا لباس زیب تن کیا تها۔۔یہ بچپن‬
‫ہی سے ابتدائی احکام اور قرآن اور دینی تعلیمات سے آشنا ہو گئے تهے۔۔‬

‫انکے چہرے پر ہمیشہ موجود رہنے والی مسکراہٹ نے بہت سے لوگوں سے انکا دوستانہ رابطہ قائم کروا دیا تها۔۔‬

‫اتنا دوستانہ رابطہ کہ ہر کوئی ان سے پہلی بار مالقات میں ہی انکا عاشق بن جاتا تها۔۔‬

‫‪،‬جب شہید عباس دانشگر آٹه سال کہ تهے‬


‫تب ہی سے اپنے دوستوں کہ ساته مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹهتے تهے۔۔‬
‫انکی دعاؤں کی محافل میں شرکت۔۔۔اور بالخصوص دعای کمیل اور دعای ندبہ میں انکا گریہ قابل رشک ہوتا تها۔۔‬
‫وہ مسجد میں ہونے والے تمام دروس میں بهی پابندی کہ ساته شرکت کرتے تهے۔۔‬
‫پهر یہی باعث بنا کہ وہ آنے والے سالوں میں معنوی لحاظ سے بهی مضبوط رہے۔۔‬
‫‼اور اجتماعی میدان میں بهی فعال رہے۔۔‬

‫وہ اپنے تعلیمی زمانے میں الئق شاگردوں میں شمار ہوتے تهے۔۔ اپنی تعلیی ترقی کے لیے بہت محنت کرتے تهے۔۔۔۔‬
‫ا‬
‫عالی تعلیم کہ حصول کا شوق میں انکا قوی ارادہ ہی باعث بنا کہ وہ سمنان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں انجینئرنگ فیلڈ میں‬
‫داخلہ کے لیے انٹرویو میں کامیاب ہو گئے۔۔‬
‫یہ اپنی دور اندیشی سے جانتے تهے کہ انہیں مستقل میں سپاہ پاسداران کا حصہ بننا ہے اسی جذبہ سے انہوں نے‬
‫‼دانشگاہ امام حسین علیہ السالم کہ امتحانات میں بهی شرکت کی اور کامیاب ہو گئے۔۔‬

‫ایک ہفتے تک عباس اسی سوچ و بچار میں رہے کہ دونوں یونیورسٹیوں میں سے کونسی یونیورسٹی کا انتخاب کریں۔۔‬

‫انکے دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ وہ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی فیلڈ کا ہی انتخاب کرے اور اسی میں آگے بڑھے۔۔‬
‫لیکین انہوں نے دانشگاہ امام حسین علیہ السالم کا انتخاب کیا اور کہا کہ یہ دانشگاہ صرف دانشگاہ ہی نہیں بلکہ انسان سازی کا مرکز‬
‫بهی ہے۔۔ اور وہ اپنے دوستوں کو بهی اپنے مستقبل کہ بارے میں یہی مطلع کرتے تهے کہ۔۔‬

‫میں اسالم کی خدمت کے لیے سپاہ پاسداران میں شرکت کرنا چاہتا ہوں۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪2‬‬ ‫قسط‬

‫رھبر معظم انقالب آقای علی خامنهای کہ دیے ہوئے لقب کہ مطابق عباس دانشگر‬
‫‼جوان مؤمن انقالبی "ہیں۔۔"‬

‫عباس کی شروع ہی سے مطالعہ کی عادت تهی۔۔ انکا اپنا منظم ٹائم ٹیبل تها۔۔‬
‫جو امام علی علیہ السالم کہ اس فرمان کا عملی جامہ تها۔۔‬

‫❣و نظم امورکم❣‬

‫"اور اپنے امور کو منظم کرو۔۔۔"‬

‫انکا عبادتی برنامہ ریزی جو کہ انکی شہادت کہ بعد منظر عام پر آیا وہ یہ تها۔۔‬

‫نماز اول وقت‬

‫دعای کمیل۔۔ دعای ندبہ۔۔ مناجات امیر المومنین باقاعدگی سے پڑھنا۔۔‬

‫روزانہ ایک حدیث حفظ کرنا اور اس پر عمل کرنا۔۔‬

‫دن کہ حساب سے روزانہ کا ‪ 100‬بار ذکر پڑھنا۔۔‬

‫روزانہ تفسیر کہ ساته قرآن مجید کہ ایک صفحہ کی تالوت۔۔‬

‫کیونکہ رہبر معظم کا فرمان ہے کہ۔۔‬


‫‼قرآن مجید تدبر کہ ساته پڑھیں۔۔"‬
‫‼نماز شب باقاعدگی سے پڑھنا۔۔۔اور تنہائی میں طوالنی سجدے کرنا۔۔‬

‫‼عباس اکثر کہتے تهے کہ اگر آپ عاشق خدا نہیں بنیں گے تو خدا بهی آپ کا عاشق نہیں ہو گا۔۔۔‬

‫عباس عاشق خدا تهے۔۔ خود کو دنیا کی قید سے رہا کر چکے تهے۔۔‬

‫عباس تعلیمی میدان میں بهی بہت محنتی تهے۔۔ ہمیشہ کالس میں اپنے اساتذہ اور ہم کالسیوں کہ ساته حاالت حاضرہ پر بحث کرتے‬
‫تهے۔۔ علمی مقابلوں میں انکی بهرپور شرکت ہوتی تهی۔۔ عباس خود کو کبهی اس بات کی اجازت نہیں دیتے تهے کہ وہ ایک طالب‬
‫‼علم کہ عنوان سے صرف نصابی کتابیں پڑھیں۔۔ بلکہ ہمیشہ نۓ موضوعات پر تحقیق کرتے رہتے تهے۔۔‬

‫عباس ان تمام کاموں کو انجام دیتے تهے جو کہ ہم انجام نہیں دیتے۔۔‬


‫جن سے ہم غافل ہیں۔۔‬
‫عباس نے خود کو ان سب چیزوں سے دور رکها ہوا تها جن دنیاوی لغویات میں ہم آلودہ ہیں۔۔‬

‫عباس حرام نگاہ‪ ،‬جهوٹ‪ ،‬غیبت سے پرہیز کرتے تهے۔۔اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتے تهے کہ انہیں ان آنکهوں سے کہاں دیکهنا ہے‬
‫‼اور کہاں نہیں۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪3‬‬ ‫قسط‬

‫❣ازدواج شهید عباس‬

‫راوی ‪:‬سردار اباذری‬

‫سردار اباذری بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عباس میرے پاس آیا اور کہا کہ میں ازدواج کرنا چاہتا ہوں۔۔‬
‫میں نے پوچها کہ کس سے۔۔!؟؟؟؟‬

‫تو کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی سے۔۔‬


‫پهر میں نے ان سے پوچها کہ کیا تم نے اس سے بات کر کہ دیکهی ہے۔۔؟‬
‫اسکا اخالق دیکها ہے۔۔کہ کیسا ہے۔۔؟؟؟؟‬
‫تو عباس نے مسکرا کر کہا کہ میں نے تو ابهی تک اس کے چہرے کو بهی کبهی نہیں دیکها ہے تو‪ ،،،‬اسکا اخالق دیکهنا تو بہت دور‬
‫کی بات ہے۔۔‬

‫عباس بہت با حیا جوان تهے۔۔ یہاں تک کہ جب تک انکی شادی نہیں ہوئی تب تک انہوں نے اپنے چچا کی بیٹی کو بهی نہیں دیکها تها۔۔‬
‫‼سب سے پہلی لڑکی جو انہوں نے دیکهی تهی وہ انکی اپنی ہمسر تهی۔۔‬

‫سب_سے_پہلی_نامحرم‪#‬‬

‫سردار اباذری انکی شہادت کہ بعد بتاتے ہیں کہ تین سال سے عباس میرے ساته تهے۔۔‬
‫سب جانتے تهے کہ عباس نے اپنی ذندگی کہ آخری ایام میں شادی کی۔‬
‫میں۔۔۔جو کہ اسکا کمانڈر تها۔۔میرے لیے بهی نا قابل یقین تها لیکین سچ یہی تها کہ عباس نے آج تک کسی نا محرم پر نگاہ نہیں ڈالی‬
‫تهی۔۔‬
‫سب سے پہلی نا محرم انکی اپنی چچا کی بیٹی‪ ،‬یعنی انکی اپنی ہمسر تهی۔۔ حتی کہ اسے بهی ٹهیک سے نہیں دیکها تها جب تب یہ‬
‫‼انکی محرم نہیں بن گئیں تهیں۔۔‬

‫بہمن ‪ 1394‬کو ‪23‬‬

‫جب یہ اپنی شادی کے لیے گیا تها تو میں نے اس سے دوبارہ پوچها تها کہ کیا اب تم نے اپنے چچا کی بیٹی کو دیکها ہے۔۔؟؟؟؟‬
‫تو پهر اس نے کہا کہ واقعا میں نے اسے نہیں دیکها۔۔‬
‫!!!!عباس اپنے چچا کہ گهر ضرور آتا جاتا تها لیکین انکی بیٹی کو نہیں دیکها تها۔۔‬

‫‼اسی طرح کہ پاک سیرت جوان ہی پهر شہید ہوتے ہیں۔۔‬

‫‼شہید یعنی وہ جو اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتا ہو۔۔۔ جانتا ہو کہ اسے ان آنکهوں سے کہاں دیکهنا ہے اور کہاں نہیں۔۔‬

‫عباس کی شادی کو ابهی صرف تین ماہ ہی گزرے تهے کہ پهر یکم اردیبہشت ‪ 1395‬کو یہ سوریہ چلے گئے۔۔‬

‫جاری ہے‬

‫قسط نمبر ⃣‪4‬‬

‫با تہذیب_اور_با ورزش‪#‬‬

‫راوی ‪:‬دوست شہید‪#‬‬


‫عباس با ورزش جوان تها۔۔ ہم اسکول کہ زمانے سے ہی اکهٹے ورزش کرتے تهے۔۔ عباس اور میں فٹبال‪ ،‬کنگ فو‪ ،‬اور والیبال‬
‫باقاعدگی سے کهیلتے تهے۔۔ اس کے بعد ہم جب کالج میں داخل ہوئے تو بهی ہم ورزش میں ساته ساته تهے۔۔ پورے پلے گراونڈ کا‬
‫چکر لگاتے تهے۔۔‬
‫مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ آخری دنوں میں بهی عباس رات کہ وقت ورزشی شوز پہن کر اکیلے ورزش کرنے کیلے جاتا تها۔۔‬
‫‼سمنان میں موجود میدان مطہری کہ دوران دوڑتا تها۔۔‬

‫سیاسی_نقطہ_نظر‪#‬‬

‫عباس سیاسی‪ ،‬اعتقادی اور فکری لحاظ سے شہید مطہری کی پیروی کرتا تها۔۔ یہاں تک کہ دوسرں کو بهی اس سے آشنا کرنے کے‬
‫لیے انہوں نے دانشگاہ امام حسین علیہ السالم میں "شہید مطہری کی فکر کو فروغ دینے کی محافل "کی بنیاد رکهی۔ اور یوں عباس‬
‫‼نے شہید مطہری کی فکر کو زندہ رکها۔۔‬

‫اعتقادی_بحث_و_مباحثہ‪#‬‬

‫انکے ایک اور دوست بیان کرتے ہیں کہ عباس کو علمی مباحث میں شرکت کرنے کا بہت شوق ہوتا تها۔۔‬
‫مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ‬
‫جب ہم دونوں ایک ساته الئیبریری میں جایا کرتے تهے۔۔ تو کبهی کبهار تو عباس دوپہر کا کهانا کهانے بهی نہیں جاتا تها۔۔ صرف ایک‬
‫بیسکیٹ سے بهوک ختم کر دیتا تها۔۔آخری دنوں میں تو یہ "والیت مطلقہ فقیہ "کہ موضوع پر اعتقادی مباحث میں شرکت کرنے کے‬
‫لیے شہر مقدس قم جایا کرتا تها۔۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بهی اس سے استفادہ کرتا تها۔۔‬
‫‼شہید مطہری کی اخالقی اور تربیتی کتابوں سے اپنے باقی دوستوں کو بهی تدریس کرتا تها۔۔‬

‫عباس ڈاکٹر حسن عباسی کہ شاگردوں میں سے بهی تها۔۔ وہ جب بهی سمنان میں آتا تها تو انہی کی تعلیمی روش کو لوگوں میں منتقل‬
‫کرتا تها‪..‬۔‬

‫عباس کا علمی مباحث میں اس قدر وسیع پیمانہ تها کہ وہ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسالم کو مد نظر رکهتے ہوئے‬
‫‼بحث کرتا تها۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫قسط نمبر ⃣‪5‬‬

‫از_جنس_آسمان‪#‬‬

‫راوی ‪:‬دوست شهید‬

‫ایسے لگتا تها کہ جیسے عباس ہم میں سے ہے ہی نہیں ۔۔ وہ اہل آسمان میں سے تها۔۔‬
‫ہر انسان کی زندگی میں مشکالت و مصائب ہوتی ہیں۔۔۔ایسے ہی عباس کی ذندگی میں بهی جو درد تهے وہ زمین والوں کی طرح نہیں‬
‫تهے۔۔۔بلکہ جیسے وہ خود تها‪ ،‬اس کے جیسے ہی اس کہ درد و رنج و الم بهی اہل آسمان کی طرح تهے۔۔ عباس وہ تها جو اپنے عالج‬
‫و معالجے کے لیے گیا۔۔‬
‫عباس کے عالج کی راہ‬

‫عشق "تها۔۔ جو خدا نے اسکے وجود میں قرار دیا تها۔۔"‬

‫اہل_بیت_کی_راہ_میں‪#‬‬

‫عباس اپنے اس فرمان کا واضح مصداق تها کہ۔۔‬

‫"پہلے خود کو شہید کرو‪ ،‬پهر شہید ہو۔۔"‬

‫عباس اہل بیت علیہم السالم کی راہ کا مسافر تها۔۔ اسکی کامیابی کا راز ہی یہی تها کہ اس نے در اہل بیت علیہم السالم کی نوکری کا‬
‫‼انتخاب کیا تها۔۔ پهر اسی راہ میں اس نے ترقی بهی کی۔۔‬

‫مجهے اچهی طرح سے یاد ہے کہ میں اور عباس ہر ہفتے شب جمعہ میں امامزادہ یحیی علیہ السالم کہ مزار پر دعای کمیل پڑھنے‬
‫جاتے تهے۔۔‬
‫پهر جمعہ کی صبح میں دعاے ندبہ کی محفل میں شرکت کے لیے بهی جاتے تهے۔۔‬
‫نماز جمعہ کو بهی بہت اہمیت دیتا تها۔۔۔‬
‫‼عباس بہت خوش قسمت جوان تها کہ اس نے اہل بیت علیہم السالم کی راہ کا انتخاب کیا تها۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪6‬‬ ‫قسط‬

‫راوی ‪:‬مادر شهید‬

‫میرا بیٹا عباس ایسی طبیعت کا مالک تها کہ جب تک اس سے کچه پوچهو نہ تو وہ نہیں بتاتا تها۔۔‬
‫اور جب اس سے کچه پوچها بهی جاتا تو پہلے وہ سوال کرنے والے کی طرف دیکهتا اور پهر اسی کی استعداد کہ مطابق اسے جواب‬
‫دیتا۔۔‬
‫غالبا وہ بہت سوچ سمجه کہ ہر بات کا جواب دیتا تها۔۔ لیکین پوری بات کا نہیں۔۔‬
‫بلکہ بہت مختصر۔۔‬
‫ایک بار اسکا ہاته زخمی تها تو میں نے اس سے پوچها کہ تمہارا ہاته کیوں زخمی ہے۔۔؟‬
‫تو صرف اتنا جواب دیا کہ میں کشتی میں جلدی میں سوار ہوا تها تو جلد بازی میں میرا ہاته زخمی ہو گیا۔۔‬
‫‼اس کی شہادت کہ بعد مجهے معلوم ہوا کہ عباس مجه سے بہت سی باتوں کو چهپاتا تها۔۔‬

‫اسکی ایک اور عادت یہ تهی کہ یہ خوشبوؤں کا بہت استعمال کرتا تها۔۔ اس کے پاس ‪ 5‬قسم کہ عطر موجود تهے۔۔ جب بهی اسکول‬
‫اور مسجد میں جاتا تها تو ایک ایک عطر روزانہ استعمال کرکے جاتا تها۔۔‬
‫صبح اسکول جاتے وقت بهی روازنہ عباس پہلے اپنا سر دھوتا تها پهر شیشے کہ سامنے کهڑے ہو کر کنگهی کرکے کسی ایک عطر‬
‫کی شیشی کا استعمال کرتا تها۔۔‬
‫‼یہاں تک کہ موسم سرما میں بهی اسکی یہی عادت تهی جس کی وجہ سے اکثر اسے ٹهنڈا لگنے کی وجہ سے بخار ہو جاتا تها۔۔‬

‫نماز_اول_وقت‪#‬‬

‫انکے والد بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رات میں مسجد نماز پڑھنے کے لیے گیا تو ایک چہرہ مجهے آشنا نظر آیا۔۔ مجهے لگا کہ شاید‬
‫عباس ہے لیکین پهر میں نے کہا کہ نہیں۔۔اگر عباس نے تہران سے سمنان آنا ہوتا تو ہو وہ ہمیں ضرور آگاہ کرتا۔۔ پهر‬
‫جب میں مسجد سے جا رہا تها تو ایک شخص نے مجهے کہا کہ خوش آمدید۔۔عباس آ گیا ہے۔۔ تب مجهے یقیں ہوا کہ وہ عباس ہی تها۔۔‬
‫اور اس نے اپنے آنے کی خبر کسی کو بهی نہیں دی تهی۔۔‬
‫اس وقت ہی میں متوجہ ہوا کہ عباس اپنے آنے اور جانے کہ پروگرام کو اس طرح منظم کرتا ہے کہ اس کی پہلی نماز محلے کی‬
‫‼مسجد میں ادا ہو۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪7‬‬ ‫قسط‬

‫خواستگاری شهید عباس‪#‬‬

‫راوی ‪:‬ہمسر شہید‬

‫عباس سے میرا خاندانی رشتہ تها۔۔یہ میرے چچا کہ بیٹے تهے۔۔ انکی طرف سے سال ‪ 1394‬کہ‬

‫دی ماہ "کی ‪ 29‬تاریخ کو میرے لیے رشتہ آیا۔۔ ہم نے بهی اس رشتے کہ بارے میں غور و فکر کیا۔۔ میرا بلکل بهی ارادہ نہیں تها کہ"‬
‫میں اتنے کم سن و سال میں شادی کروں لیکین جب انکا رشتہ آیا تو ان میں وہ تمام خصوصیات موجود تهیں جو میں چاہتی تهی۔۔ ایک‬
‫ہمسر کہ طور پر جو کچه میرے ذہن میں تها وہ سب عباس میں موجود تها۔۔ میری سب سے بڑی شرط یہ تهی کہ میرا شوہر تہران میں‬
‫ہی سکونت پذیر ہو۔۔اور وہ وہیں کہ ہی تهے۔۔۔‬

‫رشتے کہ دنوں میں میرے امتحانات جاری تهے۔۔ اس لیے میرا ذہن بلکل بهی اس طرف ابهی آمادہ نہیں تها۔۔‬
‫لیکین جب عباس آئے تهے تو انہوں نے دو صفحات پر مشتمل اپنی زندگی کی تمام شرائط و خصوصیات لکه کر مجهے دیں جو وہ‬
‫چاہتے تهے۔۔ جو میں نے غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رضامندی سے قبول کر لیں۔۔‬

‫شادی کہ بعد ہم صرف تین ماہ اکهٹے رہے پهر عباس سوریہ چلے گئے۔۔‬
‫انکی شہادت کی خبر میں نے اس طرح سنی تهی کہ ہم ان دنوں سمنان سے تہران آئے ہوئے تهے۔۔‬
‫میرے والد کو عباس کہ بهائی کا ٹیلی فون آیا۔۔ انہوں نے میرے والد کو انکی شہادت کی خبر دی لیکین ابو نے ہمیں گهر میں کچه نہ‬
‫بتایا۔۔‬

‫اسی دن بعد از ظہر میں بہت ٹینشن میں تهی۔۔اور میری زبان پر صرف ذکر الہی جاری تها۔۔‬
‫کچه دیر بعد ابو نے کہا کہ میں باہر جا رہا ہوں۔۔عباس کہ بارے میں کچه خبر معلوم کر کہ آتا ہوں۔۔‬
‫اس کے بعد تقریبا ابو ایک گهنٹے کے بعد واپس آئے۔۔ اور مجهے بتایا کہ عباس بہت شدید زخمی ہوا ہے۔۔‬
‫یہ سن کر پریشانی سے میری حالت بہت بری ہو گئی تهی۔۔ لیکین پهر‬
‫اس حال میں بهی میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ عباس ذندہ ہے۔۔‬
‫اس کے بعد جب دوبارہ ابو کے پاس وہاں سے فون آیا تو تب میں سمجه گئی کہ عباس کی آرزو پوری ہو گئی ہے۔۔‬

‫میں خوش اس بات پر تهی کہ عباس نے آخر اپنی خواہش پوری کر لی ہے۔۔۔لیکین انکی دوری میرے لیے قابل برداشت نہیں تهی۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪8‬‬ ‫قسط‬

‫راوی ‪:‬ھمرزم شهید‬

‫میں اور عباس دونوں ایک بار ایک ساته آپریشن کر رہے تهے۔۔ یہ کام اتنا زیادہ سخت نہیں تها۔۔لیکیں اس کی شرائط سخت تهیں۔۔۔‬
‫ایک بار یہی آپریشن ہمیں موسم سرما کہ دوران کرنا پڑا۔۔ تب برف باری بهی ہو رہی تهی۔۔۔میری باری صبح ‪ 3‬بجے سے ‪ 6‬بجے تک‬
‫کی تهی۔۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شکر ہے کہ آج زیادہ ٹهنڈ نہیں ہے۔۔‬
‫اور میں پر سکون سو گیا۔۔ اچانک خوش قسمتی سے میں بیدار ہوا اور میں نے جلدی سے یونیفارم ‪ ،‬دستانے ‪،‬اور دوربین اٹهائی۔۔‬
‫اور میں اسلحہ خانے کی جانب گیا۔۔ میں نے جلدی سے اسلحہ اٹهایا اور اپنے مورچے پر پہنچ گیا۔۔ اب بات یہ ہوئی کہ اب بادل جهڑ‬
‫چکے تهے۔۔۔ہوا انتہائی ٹهنڈی اور وحشتناک صورت میں تهی۔۔ اس روز مجهے بہت سردی لگ رہی تهی جو کہ آج تک مجهے ایسی‬
‫ٹهنڈ پہلے کبهی نہیں لگی تهی۔۔ میرے ہاته سردی سے بے حس و حرکت ہو چکے تهے۔۔ میں ایسی جگہ کی تالش میں تها کہ جہاں‬
‫میں اپنے ہاته گرم کر سکتا۔۔ یہ بات میں ابهی صرف سوچ ہی رہا تها کہ عباس میرے پاس پہنچ گیا اور کہا پوچها کہ کیا ہوا ہے۔۔۔اتنا‬
‫جلدی کیوں واپس آ گئے۔۔‬
‫تو میں نے کہا کہ مجهے سردی لگ رہی تهی۔۔‬
‫یہ سن کر عباس نے میرے ہاتهوں پر بوسہ دیا اور کچه دیر میرے ہاته اپنے ہاته میں رکهے۔۔۔اسکے ہاته صحیح گرم تهے تو میرے‬
‫ہاتهوں پر بهی جلد اثر ہو گیا۔۔اور میرے ہاته نارمل ہو گئے۔۔‬
‫‼عباس نے مجهے کہا کہ جو ہاته وطن کی حفاظت میں استعمال ہوں وہ بوسہ دینے کہ الئق ہوتے ہیں۔۔‬

‫پهر عباس نے مجه سے پوچها کہ آخر تم نے دستانے کیوں اتار دیے تهے۔۔؟‬
‫میرے جواب دینے تک کمانڈر آ گئے اور انہوں نے عباس کو بال لیا۔۔‬
‫عباس پهر ایک گهنٹے کہ بعد میرے پاس دوبارہ واپس آیا اور میرا حال و احوال پوچها کہ اب بہتر ہوے ہو یا نہیں۔۔؟‬
‫خیر۔۔۔‬
‫اب میں بلکل ٹهیک ہو چکا تها۔۔‬
‫عباس نے مجهے دستانوں کا ایک جوڑا دیا اور کہا کہ یہ تمہارے ہیں۔۔‬
‫میں نے کہا کہ میرے پاس دستانے ہیں۔۔بس صرف کل رات نہیں پہنے تهے۔۔‬
‫تو عباس نے کہا کہ۔۔‬

‫انسان کو کسی کا ہدیہ ٹهکرانا نہیں چاہیئے۔۔بلکہ اسے قبول کر لینا چاہیےچاہیے۔۔"‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫⃣‬
‫نمبر‪9‬‬ ‫قسط‬

‫پیادہ_روی_اربعین‪#‬‬

‫راوی ‪:‬دوست شہید‬

‫میں نے اور عباس نے ‪ 1393‬اور ‪ 1394‬میں ایک ساته اربعین کے لیے مشی کی۔۔‬

‫اس دوران عباس کی زبان پر بس صرف ایک صدا ہوتی تهی۔۔۔۔۔یا ذینب۔۔۔‬

‫ہم سب بہت تهک چکے تهے تو رات میں آرام کے لیے ایک موکب میں گۓ۔۔ سب کے پاؤں زخمی تهے اس لیے جاتے ساته ہی کچه‬
‫لیٹ گئے۔۔اور کچه دوستوں نے مساج کروانا شروع کر دیا۔۔‬
‫ہم سب دوست بے شک بہت تهکے ہوئے تهے لیکین ہمارے موکب میں ہم میں بسیجی جذبہ نظر آ رہا تها۔۔ سب کے دلوں میں امام‬
‫حسین علیہ السالم کے عشق و محبت کا سمندر موجیں مار رہا تها۔۔‬
‫عباس نے خود کو تیار کیا اور کہ دوستوں میں سے جس جس نے پاؤں پر مساج کروانا ہے وہ مجه سے کروا لے۔۔‬
‫اور وہ اس بات پر فخر بهی محسوس کر رہا تها۔۔اور یہی کہتا کہ جو قدم امام حسین علیہ السالم اور حضرت ابالفضل العباس علیہ‬
‫‼السالم کے عشق میں اٹهے ہیں۔۔وہ میرے لیے بہت اہمیت رکهتے ہیں۔۔‬
‫میں آخری بار جو ہم نے ایک ساته مشی کی‪ ،‬یہ تب کی بات ہے کہ ہم کربال بین الحرمین میں بیٹهے ہوئے تهے تو عباس نے ‪1394‬‬
‫مجه سے کہا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کہ حق میں دعا کرتے ہیں ۔۔‬
‫میں نے کہا کہ ٹهیک ہے۔۔۔عباس نے پوچها کہ چلو بتاؤ پهر میں تمہارے لیے کیا دعا کروں۔۔؟؟؟‬

‫میں نے کہا کہ دعا کرو کہ میں شہید ہو جاؤں۔۔اور میرا جنازہ کبهی واپس نہ آۓ۔۔ میں گمنام رہوں۔۔‬

‫پهر میں نے عباس سے پوچها کہ اب تم بتاؤ کہ میں تمہارے حق میں کیا دعا کروں۔۔؟؟؟؟‬

‫تو عباس نے کہا کہ بس تم یہ دعا کرو کہ میں اگلے سال اربعین پر اپنے آقا (امام حسین علیہ السالم )کے پاس ہوں‬

‫ہاں۔۔۔عباس اس سال تم اربعین پر اپنے آقا کے پاس ہی ہو۔۔ تم تو چلے گئے ہو نہ لیکین جو تم نے بین الحرمین میں مجه سے وعدہ کیا‬
‫تها وہ مت بهولنا۔۔بس کچه ایسا کر دو کہ اگلے سال میرا اربعین بهی امام کے پاس ہو۔۔‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫قسط نمبر‪10‬‬

‫راوی ‪:‬خواھر شهید‬

‫ابهی ‪ 1395‬کے نۓ سال کا ہی آغاز ہوا تها کہ عباس اور بهابهی ہمارے گهر آۓ۔۔ بهائی کی شادی کہ ایک ماہ بعد ہی ہمارے گهر میں‬
‫انکے سوریہ جانے کی باتیں ہونا شروع ہو گئی تهیں۔۔ بهابهی جب کچن میں تهیں تو میں نے بهائی سے سوریہ جانے اور وہاں کہ‬
‫‼تکفیری لشکر کا پوچها تو بهائی نے کہا کہ آہستہ بات کرو۔۔کہیں وہ نہ سن لیں۔۔ورنہ ناراض ہو جائے گی۔۔‬

‫عباس کے ایک اور ہمکار بیان کرتے ہیں کہ اس کی آخری دن میں اس کے کمرے میں گیا تها تو عباس آخر وقت تک اپنے کام انجام‬
‫دے رہا تها۔۔‬
‫دفتر سے ارتباط وغیرہ۔۔‬

‫جب عباس اپنے کام سے فارغ ہو کر کمرے سے باہر نکال تو میں نے مذاق میں کہا کہ بهیا ایک تصویر تو بنانے دو۔۔۔اگر تم شہید ہو‬
‫گئے تو میرے پاس تمہاری ایک تصویر تو ہونی چاہیئے نہ۔۔‬
‫تو بس۔۔‬
‫عباس نے اسی وقت اپنی خوبصورت مسکراہٹ کہ ساته تصویر بنائی۔۔‬

‫اور پهر اپنی شہادت گاہ کی جانب روانہ ہو گیا۔۔‬


‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫قسط نمبر⃣ ⃣‬
‫‪11‬‬

‫خبر_شهادت‪#‬‬

‫راوی ‪:‬ھمرزم شهید‬

‫یعنی جس روز عباس شہید ہوئے اسی دن کی نماز ظہر کی جماعت کی حفاظت انہوں نے کی تهی۔۔ جماعت پر پہرہ دینا ‪3-20-1395‬‬
‫ان کے ذمے تها۔۔بلکل روز عاشورا یاران و اصحاب امام حسین علیہ السالم کی طرح۔۔‬
‫کوئی نہیں جانتا اس نماز کہ دواران عباس نے خدا سے کیا راز و نیاز کیا۔۔۔‬
‫کہ‬
‫اسی کہ چند گهنٹے بعد ہمیں آرڈر آیا ایک گاؤں کی طرف جا کر اس کو اپنے حصار میں لینے کا۔۔۔جہاں دشمن کہ حملے کا خطرہ بهی‬
‫تها۔۔اور اس لیے بهی کہ دشمن وہاں داخل نہ ہو سکے۔۔ اسی اثنا میں ہمارے کچه ساتهی بهی زخمی ہوئے تهے۔۔ میں نے عباس سے‬
‫کہا کہ ہم پہلے انہیں ہسپتال منتقل کر آتے ہیں لیکین عباس نہیں مانا۔۔ پهر کمانڈر صاحب نے کہا کہ عباس میرے ساته ایک نئے‬
‫عالقے میں آپریشن کرنے جاے گا۔۔ میں نے پهر دوبارہ عباس سے کہا کہ تم وہاں نہ جاؤ۔۔باقی لڑکے انکے ساته چلے جائیں گے۔۔ تم‬
‫میرے ساته آجاؤ۔۔ لیکین عباس پهر بهی نہیں مانا۔۔‬
‫خیر۔۔عباس جب جانے لگا تو اس نے میری طرف اپنی اسی مخصوص مسکراہٹ کے ساته آخری بار پیچهے مڑ کر دیکها اور پهر‬
‫چال گیا۔۔‬

‫اس کے دو گهنٹے بعد ہی ہم تک اس کی شہادت کی خبر پہنچ گئی۔۔اور بتایا گیا کہ ہم عباس کے جنازے کو واپس نہیں ال سکتے۔۔‬
‫کیونکہ وہ عالقہ دشمن کہ گهیراؤ میں تها۔۔اور خطرے سے بهر پور تها۔۔ کوئی چانس ہی نہیں تها کہ عباس کہ جنازے کو واپس الیا‬
‫جاتا۔۔‬

‫ہم نے صبر کیا اور‬ ‫اتفاقا یہ شب جمعہ بهی تهی اور اس شب عباس کا جنازہ تک و تنہا پڑا رہا‬

‫اگلے دن روز جمعہ‬


‫یا ‪ 12‬گهنٹے بعد اسی عالقے میں جا کر عباس کا جنازہ تالش کیا۔۔ ‪11‬‬

‫ہمیں یہی بتایا گیا تها کہ عباس پر ایک گاڑی کے قریب حملہ ہوا تها تو انکا جنازہ بهی گاڑی کے قریب تالش کیا جائے۔۔‬
‫ہم تالش کرتے کرتے دشمن کے قریب بهی چلے گئے لیکن ہمیں کوئی گاڑی نظر نہ آئی۔۔‬
‫ہم اپنے کچه ساتهیوں کا بهی جنازہ واپس نہیں ال سکے تهے اور ہم نے بہت درد برداشت کیا تها اس لیے اب اور ہمت نہیں تهی کہ ہم‬
‫اپنے اور دوست کو بهی واپس نہ ال سکیں۔۔‬
‫آخر کار۔۔‬
‫بہت دور جا کر ہم ایک گاڑی ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔۔‬
‫جب ہم اس کے نذدیک گئیے تو دیکها کہ ایک جنازہ اس جلی ہوئی گاڑی اور ٹوٹی ہوئی دیوار کہ درمیان میں پڑا تها۔۔۔ جتنا ہم اندازہ‬
‫لگاتے جاتے ہمیں وہ جنازہ عباس کا ہی لگ رہا تها۔۔ عباس کا چہرہ تو دیکهنے کہ قابل نہیں تها تو ہم نے‬

‫پهر عباس کے دراز قد اور کچه اور نشانیوں سے تشخیص دی کہ یہ عباس ہی ہے۔۔‬
‫کیونکہ میں نے عباس کہ ہاته میں دو انگوٹهیاں دیکهی تهیں جس سے مجهے پورا یقین ہوا کہ یہ عباس ہے۔۔‬

‫اس میں سے ایک انگوٹهی اسے سوریا کہ کسی لڑکے نے دی تهی اور کہا تها کہ جب میں شہید ہو جاوں گا تو میری یاد گار کہ طور‬
‫پر اسے اپنے پاس رکهنا۔۔۔‬
‫لیکین اب تو عباس خود بهی شہید ہو چکا تها۔۔‬
‫وہ بهی شب جمعہ میں۔۔۔۔۔اپنی مادر حضرت زھرا سالم ہللا علیہا کی طرح۔۔۔۔۔۔بلکل جلی ہوئی گاڑی اور ٹوٹی ہوئی دیوار کہ درمیان‬
‫میں‬

‫⚫جاری ہے۔۔‬

‫آخری_قسط‪#‬‬

‫راوی‪:‬مادر شہید‬

‫شہادت سے ایک دن پہلے جب میری عباس سے بات ہوئی تهی تو اس نے مجه سے کہا تها کہ میں واپس آرہا ہوں۔۔‬
‫میرا اس وقت بهی دل عجیب سا محسوس کر رہا تها جیسا عباس کی یہ آخری بار ہو بات کرنے کی۔۔‬
‫میں نے عباس سے کہا کہ میرے بیٹے آج تمہاری آواز بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔۔‬
‫تو عباس نے ہنس کر کہا کہ جی امی جان۔۔کہتے تو مجهے بهی یہاں سب یہی ہیں۔۔لیکیں میرے چہرے کہ بارے میں کہ بہت نورانی‬
‫ہو گیا ہے۔۔آواز کا تو مجهے کسی نے نہیں کہا۔۔‬

‫بس یہی عباس سے میری آخری بات چیت تهی۔۔عباس کی واپسی کی خاطر میں نے قربانی کرنے کے لیے بکرا خریدا تها۔۔ اور سب‬
‫مہمانوں کو بهی دعوت کی تهی۔۔‬

‫عباس ضرور واپس آیا۔۔۔لیکین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہادت کے لباس میں۔۔۔۔‬

‫عباس کی شہادت کے بعد ایران کہ ایک شاعر نے انکو اور انکی ہمسر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک نظم لکهی۔۔ جس کا‬
‫مفہوم آپ تمام عاشقان شہدا کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔۔‬

‫دوبارہ ایک جنگ کی کہانی ہے۔۔۔۔دوبارہ سے ایک اور عباس ہے۔۔۔‬

‫دوبارہ دشمن کی جانب سے حسینیون اور ذینبیون پر حملہ ہے۔۔۔‬

‫تم تو ابهی نۓ نۓ ہی دولہا تهے نہ عباس۔۔لیکین میں نے سنا ہے کہ تمہارا چہرہ خاک و خون میں بهیگ گیا ہے۔۔۔‬

‫شاید تمام عباس کی یہی قسمت ہوتی ہے۔۔ سوریہ میں بهی کربال کہ جیسے ہی کہانی پیش آئی ہے۔۔۔‬
‫ہمسر شہید عباس کہ نام۔۔‪#‬‬

‫‪،‬عباس۔۔۔۔شہادت کے اس لباس میں تم کتنے خوبصورت لگ رہے ہو نہ۔۔۔یہی قرار ہوا تها نہ کہ دلہن کے سفید لباس میں‬

‫میں تمہارے ساته ہوں گی۔۔۔ اور تم ہمیشہ میرے ساته رہو گے۔۔۔پهر کیوں اتنے جلدی چلے گئے۔۔‬

‫تم نے اتنا جلدی اس لیے سفید کفن پہن لیا نہ تاکہ میں تمہارے ساته نہ رہ سکوں۔۔۔۔؟؟؟؟‬
‫انشاء ہللا روز حشر میدان قیامت میں ایک دوسرے کو دیکهیں گے۔۔۔ پهر تم تو فرشتوں کہ پروں پر سوار ہو کر میدان قیامت میں آؤ‬
‫گے نہ۔۔۔‬

‫ہم دنیا میں تو کوئی جشن نہ منا سکے۔۔۔اب بہشت میں ہی منائیں گے۔۔‬

‫شاعر ‪:‬سید مهدی بنی ھاشمی‬

‫عشقم_شهدا‪#‬‬

‫فریحه_زھرا_شهانی‪#‬‬

‫بشکریه‪: #‬نوجوان_رھبر‪#‬‬

‫ملتمس دعا مهدوی گروپ*‬ ‫*‬

You might also like