2629-2 Unique

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 47

‫‪ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY‬‬

‫)‪Course: (2629‬‬
‫‪Level: Ma Islamait‬‬
‫‪Semester: Spring, 2022‬‬

‫‪ASSIGMENT NO:2‬‬

‫عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسالم آباد‬


‫‪ASSIGNMENT No. 2‬‬

‫‪ANS 01‬‬

‫اسالم خاندان کا وسیع ترین تصو ررکھتا ہے۔ انک مسلم خاندان میں صرف متاں ب یوی اور بچے ہی سامل نہیں ہوتے نلکہ دادا ‪ ،‬دادی ‪ ،‬نانا ‪ ،‬نانی ‪،‬‬
‫چچا ‪ ،‬چچی ‪ ،‬پھوپھتاں ‪ ،‬ماموں ‪ ،‬خالہ وغیرہ پھی سامل ہوتے ہیں ۔‬

‫ٰ‬
‫اسالم ا یسے خاندان کا انک تصور پیش کرنا ہے جو حقوق و فراتض اور خلوص و محبت ‪ ،‬ابتار و فرنانی کے اعلی ترین قلبی احساسات اور خذنات کی‬

‫مضیوط ڈوریوں سے بتدھا ہوا ہو ۔ اسالم خاندان سے پننے والے معاشرے کے جملہ معامالت کی اساس اخالق کو بتانا ہے ۔‬

‫ٰ‬ ‫ٓ‬
‫فران کریم میں ارساد ناری تعالی ہے‪:‬‬

‫’’اے لوگو! ا ب نے تروردگار سے ڈرو حس تے یم کو انک خاندار سے بتدا کتا اور اس خاندار سے تمہارا جوڑابتدا کتا اور ان دویوں سے نہت سے مرد اور‬

‫عورپیں پھتالپیں‘‘۔(الیساء‪(۱:‬‬

‫ٰ‬
‫سورہ الحجرات میں ہللا تعالی مزند فرمانا ہے‪:‬‬

‫’’اور یم کو محتلف قومیں اور محتلف خاندان بتانا ناکہ انک دوشرے کو شتاخت کر سکو ہللا کے تزدنک یم میں سب سے زنادہ شرتف وہ ہے جو‬

‫سب سے زنادہ ترہیز گار ہو‘‘۔(الحجرات‪)۱۳:‬‬

‫اسالم کے تزدنک معاشرے کا پنتادی ادارہ خاندان ہے حس کی نہیری ‪ ،‬پھالنی اورابیری اور ترنادی تر معاشرے کی خالت کا ابحصار ہونا ہے‬

‫۔اسالم تے خاندان کی طرف حصوصی یوجہ دی ہے ناکہ اس ادارے کو مضیوط سے مضیوط بتانا خاتے اور انک مضیوط‪ ،‬صا لح اور قالحی‬
‫ٓ‬
‫معاشرے کا قتام وجود میں اتے جو اتفرادی و اجتماعی حقوق و فراتض کے بحفظ کی ضمابت فراہم کرے ۔‬

‫مس‬
‫اسالم خاندان کی پنتاد ناکیزہ اور تچکم رکھنے کا خکم د ب تا ہے اسالم دین فطرت ہے ۔ جتابچہ اسالمی خاندانی اصولوں ‪ ،‬قواپین و صواتط اور اقدار میں‬

‫ٰ‬
‫اس نات کو فطعی فراموش نہنتکتا گتا کہ بحین بت ایسان اس کی فطری جواہسات اور صرورنا ت کتا ہیں ک یونکہ ایسان کو ہللا تعالی تے بچل یق کتا‬

‫ہے جتابچہ وہی خابتا ہے کہ اس کے لنے اس کی فطرت ‪ ،‬جتلت اور صرورت کے مطایق کتا خیز ہو سکبی ہے ۔ ایسان کے اندر نانا خاتے واال‬

‫صیفی متالن ایسانی تقاء اور یسل ایسانی کے فروغ کے لنے ابتہانی صروری ہے اور اس صیفی متالن کے جوالے سے وہ نا اخنتار ہے کہ ا یسے‬

‫طر تقے اخنتار کرے جو خاندان کے اشتحکام کا ناغث ہوں نا اپیسار کا موخب ہوں ۔‬

‫اسالم فرد کو اہمبت د ب تا ہے لتکن اس کے ساپھ ساپھ خاندان کو اور خاندایوں کے ناہمی اشیراک سے بتدا ہوتے والے قنتلے اورترادری کو اور‬
‫قتانل اور ترادریوں سے یسکتل ناتے والی قوم نا امت کوپھی اہمبت د ب تا ہے ۔ معاشرے کے ہر داترے کے حقوق کا بحفظ اور فراتض کا‬

‫تعین کرنا ہے یوں اسالمی معاشرے میں ہر اکانی کی اہمبت اببی خگہ مسلم ہونی ہے ۔ ایسانی زندگی فرد سے شروع ہو کر لہر در لہر پھتلبی خلی‬
‫ٓ‬
‫خابت ہے انک داترے سے دوشرا بتدا ہونا ہے اور ناالخر اسالم کا داترہ نا امت مسلمہ کا داترہ سب داتروں تر مح یط ہو خانا ہے حس کی وصاخت‬

‫اس طرح کی خا سکبی ہے‪:‬‬

‫)‪(1‬فرد‬

‫)‪(2‬گھر‬

‫)‪(3‬معاشرہ‬

‫)‪(4‬امت مسلمہ‬

‫خاندان نا کننے کا مفہوم اگرجہ کافی وسیع مع یوں میں اسیعمال ہو سکتا ہے نہاں نک کہ اس میں گ ھر کے خادم ‪ ،‬یوکر وغیرہ پھی سامل ہو سکنے‬

‫ہیں ۔ لتکن پنتادی طور تر کببہ متاں ب یوی اور اوالد تر مستمل ہونا ہے نہی مفہوم ساری دبتا میں لتا خانا ہے ۔ اس لنے خانگی زندگی پہ خب بحث‬
‫س‬
‫کی خانی ہے یو اس کے اراکین سوہر ‪ ،‬ب یوی اور اوالد ہی مجھنے خاتے ہیں ۔‬

‫اسالمی تفطہ تطر سے خاندان کے مقاصدنہت نلتد اور اہم ہیں اس لنے رسول اکرم ؐ تے اسے تصف دین فرار دنا ہے ۔‬
‫ٓ‬
‫ہرمسلمان کو بتکی کی ابتداء ا ب نے گھر سے کرتے کی ہدابت ہے اور اہل خاپہ کو فران میں پھی ’’اہل‘‘ کے نام سے تکارا گتا ہے ۔‬

‫ٰ‬
‫جتابچہ ارساد ناری تعالی ہے ۔‬

‫’’ا ب نے اہل و عتال کو تماز کا خکم د ب نے رہو اور جود پھی اس تر قایم رہو(‘‘ ‪)۲‬‬

‫انک اور خگہ ارسادہوا ۔‬


‫ٓ‬
‫’’اے اتمان والو! جود کو اور ا ب نے اہل خاپہ کو اگ سے بچایو‘‘۔(‪)۳‬‬

‫حصور اکرم ؐ کی پہ خدبث متارکہ اہل خاپہ سے می علق انک مسلمان کی ذمہ داریوں اور خاندان کی اسالم میں اہمبت کو تڑی صراخت سے واضح‬
‫کرنی ہے ۔‬

‫حضرت عتدہللا این عمر ؓ فرماتے ہیں‪ ،‬میں تے رسول ؐ کو پہ فرماتے ہوتے شتا کہ ’’ یم میں سے ہر شحص نگہتان اور ذمہ دار ہے اور ہر انک‬

‫سے اس کے زتر کقالت و زتر نگرانی افراد سے میعلق یوجھ گجھ ہوگی ۔ امام پھی راعی ہے اور ذمہ دار ہے ۔ اور پہ کہ اس سے اس کی رعبت‬
‫ٓ‬
‫کے نارے میں ناز ترس ہو گی ۔ ادمی پھی ا ب نے گھر کا خاکم ہے اور اس سے پھی زتر دست افراد کے میعلق سوال ہو گا ۔ عورت پھی ا ب نے‬

‫سوہر کے گھر کی نگراں ہے ۔ اس سے پھی اس کے زتر نگرانی امور کے نارے میں ناز ترس ہوگی ۔ ‘‘(بچاری و مسلم )‬

‫’’تکاح‘‘ خاندان کی پنتاد کا اسالمی طرتقہ کار‬

‫اسالم تے تکاح کو خاندان کی پنتاد بتانا ہے ۔ اسالم تے ند کاری کو خرام اورتکاح کو یستدندہ فرار دناہے ۔ ک یونکہ اسالم انک خاندان کو مضیوط‬
‫ً‬
‫پنتادیں فراہم کرنا خاہتا ہے ۔ اسالم کی رو سے خاندان کی مضیوط پنتاد تکاح کے ذر تعے تڑنی ہے ۔ جتابچہ وہ اس پنتاد کو خالصتا خلوص ‪ ،‬محبت ‪،‬‬

‫ناکیزگی ‪ ،‬دنابتداری اور مضیوط معاہدے خیسے پھوس مادے سے ڈا لنے کا خکم د ب تا ہے ۔‬

‫ٰ‬
‫سورہ روم میں ارساد ناری تعالی ہے ۔‬

‫’’اور اس کی یساب یوں میں سے انک پہ ہے کہ اس تے تمہارے لنے جود یم ہی میں سے جوڑے بتدا کنے ناکہ یم ان کے ناس سکون خاصل‬

‫کرو اور اس تے تمہارے درمتان محبت اور رجمت بتدا کر دی ہے ‘‘۔(‪)۴‬‬

‫اسالم کی رو سے کسی قوم کی تقاء و سالمبی تکاح خیسے ناکیزہ بتدھن کی مرہون مبت ہے ۔‬

‫‪ANS 02‬‬

‫اوالد میں پننے اور ب ینتاں دویوں سامل ہیں۔اوالد کے نہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اجھی اور صا لح ترب بت کرنا ہے ناکہ وہ‬

‫معاشرے کے نہیرین فرد ین سکیں۔‬

‫ٰ‬
‫ہللا تعالی تے فرمانا‪:‬‬
‫َٰٓ َ ُّ َ َّ َ َ َ ُ ُ ٓ َ ت ُف َس ُ ْ َ َ ْہ ِلت ُ ْ َ ً َ ُ ُ َ َّ ُ َ ْ َ َ ُ‬
‫نأنہا ٱل ِذین ءام یوا۟ قوا۟ أ کم وأ کم نار۟ا وقودہا ٱلتاس وٱل ِحچارة‬
‫ترجمہ‪ :‬موم یو! ا ب نے آپ کو اور ا ب نے اہل عتال کو آیش (جہتم) سے بچاؤ حس کا ابتدھن آدمی اور بت ھر ہیں (سورۃ التجریم‪،‬آبت ‪)6‬‬

‫ببی کریم ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫کلکم راع وکلکم مسوول عن رعببہ‪،‬والرخل راع فی اھلہ ومسوول عن رعببہ (ضحتح بچاری وضحتح مسلم)‬

‫"یم میں سے ہر کونی نگران ہے اور ہر کونی اببی رعبت کے می علق جواب دہ ہے اور آدمی ا ب نے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعبت‬

‫کے میعلق ناز ترس ہو گی۔‬

‫اوالد والدین کے لنے امابت ہے اور قتامت کے دن وہ اوالد کے می علق جواب دہ ہوں گے۔اگر انہوں تے اوالد کی ترب بت اسالمی انداز سے کی‬

‫ٰ‬
‫ہو گی یو وہ والدین کے لنے دنہا و آخرت میں ناغث راخت ہو گی۔ہللا تعالی تے فرمانا‪:‬‬

‫َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُک ُّ‬ ‫ْ‬ ‫َ َّ َ َ َ ُ َ َّبیَ َ ْ ُ ْ ُ َّ ُ ُ َٰ َ ْ َ ْ َ ْ ُ َّ َ ُ ْ َ َ َ ْ ٰ َ ُ ِّ ْ َ َم ِّ َ‬


‫ہ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫وٱل ِذین ءام یوا۟ وٱ عتهم ذ ِّربتهم ِنإتم ٍن ألحقتا ِن ِهم ذ ِّربتهم و َمآ ألنتهم من ع ل ِِهم من شی ٍء۟ ۟ ل ٱمِر ٍئ۟ ِتما کسب ر ِ ین۟ ﴿‪﴾21‬‬
‫َ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور جو لوگ اتمان التے اور ان کی اوالد تے اتمان میں ان کی بیروی کی ہم ان کے ساپھ ان کی اوالد کو پھی (ج بت) میں مال دیں گے اور‬

‫ان کے عمل میں سے کجھ پھی کم پہ کریں گے ہر شحص ا ب نے عمل کے ساپھ وایسبہ ہے (سورۃ الطور‪،‬آبت ‪)21‬‬

‫ببی کریم ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫إذا مات اإلیسان اتفطع غبہ عملہ إال من نالپة إال من صدقة خارپة أو علم پنیفع پہ أو ولد صا لح ندعو لہ (ضحتح مسلم)‬

‫"خب بتدہ مر خانا ہے یو اس کا عمل جتم ہو خانا ہے مگر پین عمل نافی رہنے ہیں۔صدقہ خارپہ‪،‬ایسا علم کہ لوگ اس کے تعد اس سے قاندہ‬

‫اپھاپیں نا صالح اوالد جو اس کے لنے دعا کرنی رہے۔"‬

‫پہ اوالد کی ترب بت کا تمر ہے۔خب ان کی صالح ترب بت کی خاتے یو وہ والدین کے لنے ان کی زندگی میں پھی قاندہ متد ہونی ہے اور ان کی وقات‬

‫کے تعد پھی۔‬


‫س‬
‫نہت سے والدین اوالد کے جق کو معمولی مجھنے ہیں ‪،‬وہ اببی اوالد کو صا تع کرتے ہیں اور پہ پھول خاتے ہیں کہ ان کے نارے میں ان سے‬

‫ناز ترس ہو گی۔وہ اببی اوالد کے مساعل اور ان کی شرگرم یوں سے عاقل ہوتے ہیں۔انہیں معلوم نہیں ہونا کہ ان کی اوالد کتا کر ہی ہے۔‬
‫وہ کہاں خاتے ہیں اور کب وایس گھر آتے ہیں۔(پہ) وہ انہیں بتکی کی طرف روجہ دالتے ہیں پہ تری حصل یوں سے میع کرتے ہیں اور عح بب‬
‫ُ‬
‫تر نات پہ ہے کہ وہ ا ب نے مال کی حقاظت اور اس کو تڑھاتے میں شحت خرتص ہوتے ہیں کہ ہر اس نات کے لنے مسیعد رہنے ہیں جو ان‬

‫کے مال میں اخافے کا ناغث ب نے‪،‬خاالنکہ انہیں پہ معلوم ہونا ہے کہ حس مال کو وہ تڑھا رہے ہیں وہ دوشروں کا ہے۔رہا اوالد کا مستلہ یو پہ‬

‫ان کی تطروں میں کجھ نہیں ہونا ‪،‬خاالنکہ ان کی مچافظت دبتا و آخرت دویوں لھاظ سے ان کے لنے نہیر اورمقتد پھی‪،‬بیز خیسے والدتر بچے کے‬

‫جوردیوش اور یوساک کی ذمہ داری ہے‪،‬ا یسے ہی ا ب نے بچے کے دل کو علم و اتمان کی عذا مہتا کرنا اور تقوی کا لتاس نہتانا پھی واخب ہے اور پہ‬

‫نات نہلی نات سے کہیں نہیر ہے۔‬

‫اوالد کے حقوق میں سے انک پہ پھی ہے کہ ان تر دسیور کے مطایق خرچ کتا خاتے حس میں اشراف ہو پہ بچل ک یونکہ اوالد تر خرچ کرنا ناپ‬

‫کی الزمی ذمہ داری ہےاور اس میں ہللا کی تعمت کا سکر پھی ہے۔‬

‫اوالد کے جق میں سے انک پہ پھی ہے کہ اوالد کو ہبہ اور عظبہ د ب نے میں کسی انک دوشرے تر فصتلت پہ دے کہ کسی کو کجھ دے دے‬

‫اور دوشرے کو مجروم ر کھے ک یونکہ پہ ظلم ہے اور ہللا ظالموں کو یستدنہیں کرنا‪،‬بیز اس سے خاندانی زندگی میں تگاڑ بتدا ہو خانا ہے۔‬

‫ضحتحین ‪،‬تعبی بچاری و مسلم میں حضرت تعمان ین یشیر رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ ان کے ووالد یشیر ین سعد رصی ہللا غبہ تے انہیں انک‬

‫عالم ہبہ کتا اور ببی کریم ﷺ کو پہ نات بتانی یو آپ (ﷺ) تے درناقت فرمانا‪: :‬کتا یو تے ہر پننے کو انک انک عالم ہبہ کتا ہے؟"یشیر رصی ہللا‬

‫غبہ کہنے لگے‪ :‬نہیں ! آپ ﷺ تے فرمانا‪" :‬یو پھر اس عالم کو وایس لے لے ۔" اور انک روابت میں ہے کہ آپ (ﷺ) تے فرمانا ‪:‬‬

‫اتقوا ہللا واعدلوا پین اوالدکم (ضحتح بچ اری)‬

‫"ہللا سے ڈرو ‪،‬اور اببی اوالد کےدرمتان اتصاف کرو۔"‬

‫انک اور روابت کے القاظ یوں ہیں‪:‬‬

‫قال یشہدنی اذا قانی ال اسھد علی جور (ضحتح بچ اری و ضحتح مسلم)‬

‫"بب مجھے گواہ مت بتاؤ ‪،‬میں ظلم تر گواہ نہیں ین سکتا۔"‬


‫حقیقت پہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ تے اوالد میں سے کسی انک کو دوشروں تر فصتلت د ب نے کا نام "جور" رکھا اور "جور" کے معبی ظلم کے ہیں‬

‫جو خرام ہیں۔‬

‫لتکن اگر کسی پننے کو ایسی خیز دے حس کی اس کو یو صرورت ہو لتکن دوشرے بچوں کو صرورت پہ ہویو پھر اس میں کونی خرج نہیں ک یونکہ‬

‫پہ بحضیص نا فصتلت کی بتا تر نہیں نلکہ خاخت کی بتا تر ہے‪،‬لہذا پہ تفقہ ہی کی صورت ہے اور خب والد وہ تمام ناپیں جو اس تر واخب ہیں‬

‫یوری کر دے‪،‬خیسے ترب بت اور تفقہ وغیرہ یو وہ اس نات کا مستچق ہے کہ اوالد اس سے بتکی کرے اور اس کے حقوق کا جتال ر کھے۔‬

‫عن أیس ین مالك رصي ہللا غبہ أن رسول ہللا صلی ہللا علبہ وسلم قال ‪ :‬إن ہللا سانل کل راع عما اشیرعاہ ‪ ،‬أحفظ ذلك أم صیع ؟ جبی یسأل‬

‫الرخل عن أہل پببہ ‪.‬‬

‫(سین الیساني الكیرى ‪ ،9174 :‬ج ‪ 5 :‬ص‪/374 :‬‬

‫ضحتح این جتان ‪ ، 4475 :‬ج ‪ ، 6 :‬ص‪) 465 :‬‬

‫ترجمہ ‪ :‬حضرت ایس ین مالک رصی ہللا غبہ سے مروی ہے کہ ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے ارساد فرمانا ‪ :‬ہللا بتارک وتعالی ہر ذمہ دار‬

‫سے اسکی رعانا کے نارے میں یو جھے گا کہ اس تے ا نکے نارے میں اببی ذمہ داری کو بت ھانا ‪ ،‬نا صا تع کردنا ‪ ،‬جبی کہ بتدے سے اسکے اہل و‬

‫عتال کے نارے میں پھی یوجھا خاتے گا ۔‬

‫یشربح ‪ :‬اوالد والدین کی آنکھوں کی پھتڈک ‪ ،‬زندگی کی جوشی اور مسیقتل کی امتد ہیں ‪ ،‬ایسان کے گھر کی رویق اوالد سے ہے ‪ ،‬انکی زندگی میں لذت‬

‫و شرور ‪ ،‬اوالد ہی سے ہے نلکہ شرعی طور تر اوالد انک ایسا ذخیرہ ہیں کہ ایسان کے اس دبتا سے رحصت ہو خاتے کے تعد پھی نافی رہتا ہے ‪،‬‬

‫ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے ارساد فرمانا ‪ :‬خب ایسان مرخانا ہے یو اسکے عمل کا سلسلہ جتم ہو خانا ہے ‪ ،‬سواتے پین خیزوں کے [ کہ‬

‫اتکا قیض انہیں نہتحتا رہتا ہے ] صدقہ خارپہ ‪ ،‬نا وہ علم حس سے قاندہ اپھانا خا رہا ہو ‪ ،‬بتک اوالد جو اسکے لنے دعا کرے ۔‬

‫[ضحتح مسلم ‪ :‬تروابت ایو ہرترہ ]‬

‫لتکن کسی پھی ناپ و ماں کو پہ تعمت اس وقت خاصل ہوگی خب وہ ا ب نے بچوں کے حقوق کو ادا کریں ‪ ،‬ذنل میں اوالد کے جتد حقوق ذکر‬
‫کنے خاتے ہیں ‪:‬‬

‫] ‪[ 1‬ماں کا ابتچاب ‪ :‬پہ وہ نہال مرخلہ ہے جہاں سے اوالد کے حقوق شروع ہوتے ہیں ‪ ،‬ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم کا ارساد ہے ‪:‬‬

‫ا ب نے تطقے کتلنے [ ا جھے رجم کا ] ابتچاب کرو جتابچہ کقو میں [ ا ب نے مردوں کی ] سادی کرو اور [ لڑک یوں کی سادی میں پھی ] کقو کا لچاظ رکھو ۔‬

‫{سین این ماجہ ‪ ، 1968 :‬تروابت عایشہ }‬

‫] ‪[ 2‬زندگی کی حقاظت ‪ :‬تعبی اسیفرار جمل کے تعد اسے صا تع کرتے نا والدت کے تعد اسے قتل کرتے سے ترہیز کریں ۔‬

‫ہللا تعالی ارساد فرمانا ہے ‪ :‬وال تقتلوا اوالدکم من امالق بحن ترزقکم و اناکم [ االتعام ‪ ] 151 :‬اور اببی اوالد کو بتگ دشبی کے ڈر سے قتل پہ کرو ‪ ،‬ہم‬

‫ہی تمہیں اور انہیں رزق د ب نے ہیں ۔‬

‫حضرت عتد ہللا ین مسعود رصی ہللا غبہ کہنے ہیں کہ میں تے ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم سے سوال کتا ‪ :‬ہللا تعالی کے تزدنک سب سے‬

‫تڑا گتاہ کتا ہے ؟ ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے جواب دنا ‪ :‬ہللا کے ساپھ شرنک پھہراتے خاالنکہ اشی تے بجھے بتدا کتا ‪ ،‬میں تے کہا ‪:‬‬

‫پہ یو نہت تڑا خرم ہے ‪ ،‬پ ھر اسکے تعد کتا ؟ آپ صلی ہللا علبہ وسلم تے فرمانا ‪ :‬یو ا ب نے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ بیرے ساپھ‬

‫کھاتے گا ‪ ،‬میں تے عرض کتا ‪ :‬پھر اسکے تعد کتا ؟ آپ تے فرمانا ‪ :‬پہ کہ یو ا ب نے تڑوشی کی ب یوی کے ساپھ زنا کرے ۔‬

‫[ضحتح بچاری و ضحتح مسلم ]‬

‫ن‬
‫] ‪[ 3‬رصاغت و حصابت ‪ :‬بحین اور نلوغت کو ہتحنے کے مرخلے نک والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے کھالتے نالتے کا ابیطام کریں ‪:‬‬

‫ی‬ ‫ل‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫م‬‫َ ْ َ َ ُ ُ ْ ِض ْ َ َ ْ َ َ ُ َّ َ ْ َل ْ َ ِم َل ْ ِل َ ْ َ َ َ َ بُتِ َّ َّ َ َ َ َ ع َ ْل َ ْ ُ َ ُ ْ ُق ُ َّ َ ِ ْ َ ُن ُ َّ ْل َ‬


‫وف ( سورة ا فرة ‪) 233 :‬‬
‫والو ِالدات تر عن أوالدهن جو ی ِن کا ی ِن من أراد أن م الرصاعة و لی ا مول ِود لہ ِرز هن وکسو هن ِنا عر ِ‬

‫اور ماپیں ا ب نے بچوں کو یورے دو سال دودھ نالپیں پہ (خکم) اس شحص کے لنے ہے جو یوری مدت نک دودھ نلوانا خاہے۔ اور دودھ نالتے والی‬

‫ماؤں کا کھانا اور کیڑا دسیور کے مطایق ناپ کے ذمے ہوگا۔‬

‫ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے ارساد فرمانا ‪ :‬آدمی کے گتاہ گار ہوتے کتلنے نہی کافی ہتکہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے‬

‫حقوق صا تع کردے [ تعبی نان و تفقہ میں کوناہی کرے ]‬


‫{سین ایو داود ‪ ،‬تروابت عتد ہللا ین عمرو }‬

‫ت‬ ‫ت‬
‫] ‪ [ 4‬علتم و ترب بت ‪ :‬اوالد کا انک اہم جق پہ ہے کہ والدین انکی علتم وترب بت کا جتال رک ھیں ‪:‬‬

‫ل‬ ‫َ َ ُّ َ َّ َ َ ُ ُ َ ت ُف َس ُ ْ َ َ ْہ ِلت ُ ْ َ ً َ ُ ُ َ َّ ُ َ ْ َ َ ُ‬
‫نا أنہا ال ِذین آم یوا قوا أ کم وأ کم نارا وقودہا التاس وال ِحچارة ( سورة ا تجریم ‪) 6 :‬‬

‫موم یو! ا ب نے آپ کو اور ا ب نے اہل عتال کو آیش (جہتم) سے بچاؤ حس کا ابتدھن آدمی اور بت ھر ہیں‬

‫ہللا کے رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے ارساد فرمانا ‪ :‬یم ا ب نے بچے کو سات سال کی عمر میں تماز سکھاو اور دس سال کی عمر میں اس [ تماز میں‬

‫کوناہی کرتے ] تر انکی گوش مالی کرو ۔‬

‫[سین ایو داود ‪ ،‬ترمذی ‪ ،‬تروابت شیرہ ین معتد ]‬

‫] ‪[ 5‬عقیقہ اور نام ‪ :‬بتدایش کے تعد والدین کی سب سےاہم ذمہ داری بچے کا عقیقہ کرنااور اسکے لنے عمدہ نام کا ابتچاب کرنا ہے ‪ ،‬ہللا کے‬

‫رسول صلی ہللا علبہ وسلم تے فرمانا ‪ :‬ہر بچہ ا ب نے عقیقہ کے عوض گروی رہتا ہے ‪ ،‬سایویں دن اسکی طرف سے عقیقہ کتا خاتے ‪ ،‬اس سے‬

‫گتدگی کو دور کتا خاتے تعبی اسکے نال اترواتے خاپیں اور نام رکھا خاتے ۔‬

‫[مستد اجمد اور سین وغیرہ تروابت ‪ :‬سمرہ ]‬

‫] ‪[6‬عدل و مساوات ‪ :‬دو بچے حس طرح انک ماں ناپ کی اوالد ہیں اشی طرح اتکا جق پہ ہتکہ ا نکے درمتان عدل و مساوات کا ترناو کتا خاتے‬

‫انک لڑکے کو دوشرے لڑکے تر نا انک خیس کو دوشری خیس تر ترجتح پہ دی خاتے ۔‬

‫شتدنا ایو ہرترہ رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ افرع ین خایس (رصی ہللا غبہ) تے دنکھا کہ ببی صلی ہللا علبہ وسلم(ا ب نے یواسے)حسن(ین علی‬

‫رصی ہللا عتهما) کا یوسہ لے رہے پھے یو افرع (رصی ہللا غبہ) تے کہا‪ :‬میرے دس لڑکے ہیں مگر میں کسی کا پھی یوسہ نہیں لنتا یو رسول ہللا‬

‫صلی ہللا علبہ وسلم تے فرمانا‪ :‬من ال ترجم ال ترجم جو رجم نہیں کرنا اس تر رجم نہیں ہو گا۔(ضحتح التچاری‪۵۹۹۷ :‬و ضحتح مسلم‪۶۵:‬؍‪)۲۳۱۸‬‬

‫شتدنا ایس ین مالک رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علبہ وسلم تے (ا ب نے پننے) اتراہتم کو (گود میں ) لتا اور اس کا یوسہ‬

‫لتا(اور بتار سے ) اس کی جوسیو لی(ضحتح التچاری‪۳۰۳:‬او ضحتح مسلم ‪)۲۳۱۵ :‬‬


‫رسول ہللا صلی ہللا علبہ وسلم کے ناس انک اعرانی (دنہانی) آنا اور کہا‪ :‬کتا آپ بچوں کا یوسہ لننے ہیں؟ ہم یو بچوں کا یوسہ نہیں لننے! آپ‬

‫صلی ہللا علبہ وسلم تے فرمانا کہ‪ :‬اگر ہللا تے تمہارے دل سے رجمت تکال دی ہے یو میں کتا کر سکتا ہوں؟(ضحتح التچاری‪۵۹۹۸ :‬و ضحتح مسلم‪:‬‬

‫‪)۲۳۱۷‬‬

‫شتدنا تعلی ین مرہ رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ ببی صلی ہللا علبہ وسلم کے ساپھ وہ کھاتے کی انک دعوت تر خا رہے پھے ۔ کتا دنکھنے ہیں‬

‫کہ (را شنے میں) انک گلی میں (شتدنا) حسین رصی ہللا غبہ کھتل رہے ہیں۔ ببی صلی ہللا علبہ وسلم تے لوگوں کے درمتان سے آگے تڑھ کر‬
‫ُ‬
‫ا ب نے دویوں نازو پھتال لنے۔ (شتدنا) حسین رصی ہللا غبہ اِ دھر ادھر پھا گنے لگے۔ آپ صلی ہللا علبہ وسلم تے ہیسنے ہیساتے ہوتے انہیں(شتدنا‬

‫حسین رصی ہللا غبہ کو) نکڑ لتا۔ آپ تے ابتا انک ہاپھ شتدنا حسین رصی ہللا غبہ کی پھوڑی کے بتچے اور دوشرا ان کے شر تر رکھا۔ آپ تے‬
‫ُ‬
‫(معاتقہ کرتے ہوتے) ان کا یوسہ لتا اور فرمانا‪:‬‬

‫‘‘حسین مبی وان من حسین‪ ،‬اخب ہللا من اخب حسنتا‪ ،‬حسین سیط من االشتاط’’‬

‫حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ ہللا اس شحص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرنا ہے‪ ،‬حسین یواسوں میں سے انک‬
‫ٓ‬
‫(خلتل القدر ) یواسا ہے۔(سین این ماجہ‪۱۴۴:‬اوإشتادہ حسن و حسبہ الیرمذی‪۳۷۷۵ :‬و ضحچہ این جتان‪ ،‬موارد الظمان‪۲۲۴۰:‬و‬

‫الچاکم‪۳‬؍‪۲۷۷‬والذھبی وقال ال یوصیری‪‘‘:‬ھذا إشتاد حسن رخالہ تقات’’ ؍یسھتل الچاجۃ فی الیعل یق علی سین این ماجہ لشحنتا خافظ زبیر علی زنی حفطہ‬

‫ہللا ص ‪ ،۱۰‬وحسبہ الستخ االلتانی رجمہ ہللا)‬

‫ام المؤمیین شتدہ عایشہ رصی ہللا عتہا سے روابت ہے کہ (رسول ہللا صلی ہللا علبہ کی پنبی) قاطمہ رصی ہللا عتہا خب رسول ہللا صلی کے ناس‬
‫ُ‬
‫آ پیں یو آپ اپھ کر اس کے ناس خاتے اور ان (قاطمہ رصی ہللا عتہا)کا ہاپھ نکڑ لننے پھر ان کا یوسہ لننے اور اببی خگہ بت ھاتے(سین انی‬

‫داؤد‪۵۲۱۷:‬وإشتادہ حسن و حسبہ الیرمذی‪)۳۸۷۲ :‬‬

‫انک ضحتح خدبث میں آنا ہے کہ ببی صلی ہللا علبہ وسلم تے فرمانا‪ :‬جو شحص ہمارے تڑوں کی عزت پہ کرے ‪ ،‬ہمارے جھویوں (تعبی بچوں) تر‬

‫رجم پہ کرے اور ہمارے (اہل جق) عالم کا جق پہ نہچاتے‪ ،‬وہ ہم میں (تعبی اہ ِل جق میں) سے نہیں ہے۔(مسکل اآلنار‪۲‬؍‪۱۳۳‬ح‪،۱۸۵‬‬
‫الچدبث‪۴:‬ص‪)۴۵‬‬

‫ان اخادبث اور دنگر دالنل سے نابت ہے کہ والدین کو اببی اوالد سے محبت کرنی خا ہننے۔ ناد رہے کہ محبت کا تقاصا پہ ہے کہ دبتاوی سہولییں‬

‫مہتا کرتے کے ساپھ ساپھ اببی اوالد کی اجھی ترب بت کرنی خا ہننے۔ انہیں فرآن و خدبث اور تمام نہیرین اخالق سک ھاتے خاہییں۔ یوجتد و سبت‬

‫کی دعوت اور سب ِت مطہرہ کے مطایق تماز تڑھنے کا خکم د ب تا خا ہننے۔‬

‫ارساد ناری تعالی ہے کہ‬


‫ت‬
‫نا پھالذین آم یو اقوا ا فسکم و اھلتکم نارا‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫اے اتمان والو! ا ب نے اپ کو اور ا ب نے گ ھر والوں کو (جہتم کی ) اگ سے بچا لو(سورۃ التجریم‪)۶:‬‬
‫ٓ‬
‫کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعنتہتم میں سے ہر ادمی نگران ہے اور اس کی زتر نگرانی لوگوں کے نارے میں (قتامت کے دن) یوجھا خاتے‬
‫ٓ‬
‫گا(التچاری‪۸۹۳:‬و مسلم‪ )۱۸۲۹:‬کی رو سے ہر ادمی سے اس کی اھل و اوالد کے نارے میں سوال ہو گا۔‬

‫ٰ‬
‫ہللا تعالی سے دعا ہے کہ وہ والدین اور ان کی اوالد دویوں کو کتاب و سبت کا منیع اور بتک بتا دے‬

‫اوالد تر والدین کو جو فصتلت خاصل ہے‪،‬وہ انک معروف اور مسلم حقیقت ہے ک یونکہ والدین ہی اوالد کے وجود میں آتے کا ذرتعہ ہیں‪،‬لہذا ان‬

‫کا اوالد تر تڑا جق ہے۔‬

‫ان دویوں تے اسے بحین میں ناال۔اسے ہر طرح کا آرام نہتچاتے کے لنے جود تکلیفیں ترداست کیں۔اے ایسان! بیری ماں تے تفربتا یو ماہ نک‬

‫ٰ‬
‫بجھے ا ب نے ب بٹ میں اپھاتے رکھا اور اس کا جون بیری عذا کا ناغث بتا۔خیسا کہ ہللا تعالی تے فرمانا ہے‪:‬‬

‫ترجمہ‪":‬اس کی ماں تے اسے تکلیف تر تکلیف اپھا کر ا ب نے ب بٹ میں رکھا۔"(سورۃ لقمان‪،‬آبت ‪)14‬‬

‫پھر اس کے تعد دو سال دودھ نالتے کا معاملہ ہے حس میں پھکن پھی ہونی ہے ‪،‬کوقت اور ضعوبت پھی۔اشی طرح ناپ بیری زندگی اور تقا‬

‫کے لنے بیرے بحین ہی سے دوڑ دھوپ کرتے لگا۔جبی کہ یو کود ا ب نے نل تر کھڑا ہوتے کے قانل ہو گتا اور وہ بجھے قانل عزت بتاتے کے‬

‫ٰ‬
‫لنے کوشش کرنا رہا‪،‬اشی لنے ہللا تعالی تے اوالد کو والدین سے حسن سلوک کا خکم دنا ہے‪،‬ارساد رنانی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم تے ایسان کو اس کے ماں ناپ کے میعلق ناکتد کی ہے اس کی ماں تے ضعف تر ضعف اپھا کر اسے ب بٹ میں رکھا اور دو ترس‬

‫میں اس کا دودھ جھڑانا ہے یو میری اور ا ب نے ماں ناپ کی سکر گزاری کرے میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (سورۃ لقمان‪،‬آبت ‪)14‬‬

‫ترجمہ‪ :‬اور تمہارے تروردگار تے ارساد فرمانا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عتادت پہ کرو اور ماں ناپ کے ساپھ پھالنی کرتے رہو۔ اگر ان میں‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫سے انک نا دویوں تمہارے سامنے تڑھاتے کو نہتچ خاپیں یو ان کو اف نک پہ کہ تا اور پہ انہیں ج ھڑکتا اور ان سے نات ادب کے ساپھ کرنا اور‬

‫عجزو بتاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے جق میں دعا کرو کہ اے تروردگار خیسا انہوں تے مجھے بحین میں (سفقت سے) ترورش کتا ہے‬
‫ُ‬
‫یو پھی ان (کے خال) تر رجمت فرما (سورۃ ببی اشرابتل‪،‬آبت ‪)24-23‬‬
‫ُ‬
‫والدین کا یم تر جق پہ ہے کہ ان سے بتکی کرو اور پہ اس طرح ہو گا کہ یم ہر لچاظ سے ان سے نہیر سلوک کرو۔ان کا خکم بچا الؤ۔اگر ان‬

‫کے کسی خکم میں ہللا کی نافرمانی ہونی ہو یو وہ خکم پہ مایو۔ان سے ترمی سے نات کرو اور جتدہ پیسانی سے پیش آؤ۔ان کے متاسب خال ان کی‬

‫خدمت کرو۔تڑھاتے‪،‬بتماری اور کمزوری کے وقت ان کو جھڑکو نہیں اور اس نات کو یوجھ پھی محسوس پہ کرو۔ک یونکہ کجھ وقت تعد یم پھی ان‬

‫ن‬
‫کے مقام تر ہتحنے والے ہو۔یم پھی ناپ ین خاؤ گے خیسا کہ پہ تمہارے والدین ہیں۔عیفربب یم پھی اوالد کے سامنے یوڑھے ہو خاؤ گے حس‬

‫طرح پہ تمہارے سامنے یوڑھے ہوتے ہیں اور یم پھی اببی اوالد سے بتکی کے محتاج ہو گے خیسا کہ آج پہ ہیں۔اگر آج یم ان سے بتکی کر رہے‬

‫ہو یو تمہیں نہت تڑے اخر اور اوالد سے ا یسے ہی سلوک کی جوشحیری ہو۔ک یونکہ حس تے ا ب نے والدین سے بتکی کی اس کی اوالد اس سے بتکی‬

‫ٰ‬
‫کرے گی اور حس تے والدین کو شتانا اس کی اوالد صرور اسے شتاتے گی۔پہ مکاقات عمل ہے کہ خیسا کرو گے ویسا پھرو گے ۔ہللا تعالی تے‬

‫ٰ‬
‫والدین کے جق کو تڑی اہمبت دی ہے۔اس لنے اس تے ا ب نے جق (عتادت) کے ساپھ والدین کے جق کا ذکر کتا ہے۔ہللا تعالی تے فرمانا‪:‬‬

‫ترجمہ‪" :‬ہللا کی عتادت کرو اور اس کے ساپھ کسی کو شرنک پہ پھہراؤ اور والدین کے ساپھ پھالنی کرو۔"(سورۃ الیساء‪،‬آبت ‪)36‬‬

‫بیز فرمانا‪:‬‬

‫ترجمہ‪" :‬کہ یو میرا سکر ادا کر اور ا ب نے والدین کا پھی۔"(سورۃ لقمان‪،‬آبت ‪)14‬‬

‫ببی کریم ﷺ تے والدین سے بتکی کرتے کے عمل کو جہاد فی سنتل ہللا تر مقدم رکھا ہے۔خیسا کہ حضرت عتدہللا ین مسعود رصی ہللا غبہ کی‬
‫خدبث میں ہے‪،‬وہ کہنے ہیں ‪،‬میں تے یوجھا‪" :‬اے ہللا کے رسول ! ہللا کو کون سا عمل سب سے زنادہ یستد ہے؟"‬

‫آپ تے فرمانا‪:‬‬

‫"تماز کو اس کے وقت تر تڑھتا۔میں تے یوجھا‪،‬پھر کون سا؟آپ تے فرمانا‪ :‬والدین سے اجھا سلوک کرنا۔میں تے کہا‪ :‬پھر کون سا؟ آپ تے‬

‫فرمانا‪ :‬ہللا کی راہ میں جہاد کرنا۔"‬

‫(ضحتح بچاری و ضحتح مسلم)‬

‫اس خدبث کو بچاری اور مسلم دویوں تے روابت کتا ہے اور والدین کے اس جق کی اہمبت تر دلتل ہے حسے اکیر لوگوں تے صا تع کر رکھا ہے‬
‫س‬
‫وہ ان کو شتاتے اور فطع رجمی کرتے ہیں‪،‬پھر کجھ ا یسے پھی ہیں جو انہیں حقیر مجھنے ‪،‬ڈا پننے اور ان تر آوازیں نلتد کرتے ہیں۔ا یسے لوگ‬

‫عیفربب اس کی شزا ناپیں گے۔‬

‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ہللا تعالی کی تعم یوں میں سے انک تعمت بتک اوالد کا ہونا ہے ۔ حسے ہللا تعالی تے آنکھوں کی پھتڈک کہا ہے اس لنے اوالد کا ہونا جوش بحبی‬

‫تصور کتا خانا ہے۔جتہیں پہ تعمت میشر آنی ہے ۔وہ نہت جوش و خرم رہنے ہیں ‪،‬اور جن کے ہاں اوالد نہیں ہونی ‪،‬وہ ہمیشہ اوالد کی مجرومبت‬

‫ٰ‬ ‫س‬
‫کے صدمے میں تڑے رہنے ہیں ۔مگر خب انہیں اوالد مل خانی ہے یو گوناوہ مجھنے ہیں کہ دبتا کی ہر تعمت مل گبی ۔فرآن محتد میں ہللا تعالی‬

‫تے اببی اس تعمت کا یوں ذکر فرمانا ہے ۔‬

‫ٰ‬
‫’’ہللا تعالی فرمانا ہے ‪،‬رجمان کے بتدے وہ ہیں جو پہ دعا کرتے رہنے ہیں ‪،‬کہ اے ہمارے تروردگار یو ہمیں ب یویوں اور اوالد سے آنکھوں کی‬

‫پھتڈک عطا فرما ‪،‬اور ہمیں ترہیز گاروں کا پیسوا بتا ۔نہی وہ لوگ ہیں ‪،‬جتہیں ان کے صیر کے ندلے ج بت کے نلتد ناال خاتے د ب نے خاپیں گے‬

‫‪،‬جہاں انہیں سالم نہتچانا خاتے گا۔ اس میں پہ ہمیشہ رہیں گے ۔جونہت ہی اجھی خگہ اور عمدہ مقام ہے ۔‘‘(سورۃ الفرقان)‬

‫اس آبت میں حصول اوالد کے لنے ہللا کے حصور التچا کا طرتقہ بتانا گتا ہے اور اشی اوالد کو خاصل کرتے کے لنے ہللا کے خلتل القدر بیعمیر‬

‫ٰ‬
‫وں تے ہللا کے حصور دعاپیں کیں ۔جو ہللا تعالی تے ق یول فرما کرانہیں اوالد کی تعمت سے یوازا۔‬

‫حضرت زکرنا علبہ السالم تے اس طرح دعا مانگی ۔’’اے تروردگار !یو عطا فرما ابب ی خابب سے بتک اوالد یو ہی یو دعاؤں کا سننے واال ہے ۔(آل‬
‫عمران)‬

‫حضرت اتراہتم علبہ السالم تے پہ دعا کی پھی ۔’’ اے ہللا !یو ہمیں بتک اوالد عطا فرما۔‘‘(الصاقات)‬

‫بتک اوالد والدین کی زندگی کا تڑا قتمبی شرماپہ ہے جہاں ہللا تے اوالد تر والدین کی خدمت کا فرض عاند فرمانا ہے کتا وہیں اوالد کے کجھ حقوق‬

‫پھی والدین کے ذمے لگاتے ہیں ناکہ فطری تقاضے قایم رہیں اور کسی فریق کی جق نلفی پہ ہو۔‬

‫انک شحص تے عرض کتا نا رسول ہللا ﷺ! بتکی کس سے کروں؟ فرمانا۔ا ب نے ماں ناپ سے کرو۔ اس تے کہا وہ یو قوت ہو خکے ۔فرمانا پھر اوالد‬

‫سے کرو۔ ک یونکہ حس طرح ماں ناپ کے حقوق ہیں اشی طرح اوالد کے پھی یو حقوق ہیں اور فرزند کے حقوق میں سے انک پہ ہے کہ اس کی‬

‫ند جونی کی وجہ سے صروری نہیں کہ اسے عاق ہی کتا خاتے اور فرمانا کہ ۔ہللا رجمت کرے اس ناپ تر جو ا ب نے پننے کو نافرمانی کی راہ تر نہیں‬

‫خلنے د ب تا۔‬

‫اوالد کے حقوق کی تفصتل حسب ذنل ہے ۔‬

‫ٰ‬
‫‪۱‬۔ حقاظت اوالد‪:‬اوالد کا فطری جق ہے کہ اس کی حقاظت کی خاتے ک یونکہ بچے کی بتدایش کا ہللا تعالی تے ایسان کو انک ذرتعہ بتا رکھا ہے اس‬

‫لنے اس تر پہ فرتضہ عاند کتا ہے کہ اببی اوالد کی حقاظت کرے۔ اسالم سے نہلے اوالد کو خننے کا جق خاصل پہ پھا نلکہ اوالد کی زندگی کو‬

‫محتلف صوریوں سے جتم کر دنا خانا پھا ۔ اوالد کی خان کو جتم کرتے کی انک صورت پہ پھی کہ والدین اببی اوالد کو دیو ناؤں کی جوسیودی کے‬

‫لنے جود ذبح کر کے ان تر خڑھا وا خڑھاد ب نے پھے پہ رسم عریوں اور دنگر قوموں میں تڑی عام پھی ۔اوالد کو مارتے کی دوشری صورت پہ پھی کہ‬

‫تعض لوگ ففر و قاقہ کے جوف سے جود اوالد کو قتل کر د ب نے پھے ۔ا یسے ہی اوالد کو قتل کرتے کی پیشری صورت پہ پھی کہ تعض لوگ اببی‬

‫لڑک یوں کو زندہ دفن کر د ب نے پھے ۔ک یونکہ وہ لڑک یوں کو اببی ذلت اور شرم کی عالمت جتال کرتے پھے ۔اسالم تے اوالد کسی کی ان تمام‬

‫صوریوں کا ایسداد کتا اور اوالد کو ہر طرح سے بحفظ کا جق دنا ۔فرآن ناک میں ان تمام طرتقوں کی مذمت کرتے ہوتے اوالد کو قتل کر تے سے‬

‫ٰ‬
‫میع فرمانا نلکہ قتل کو شتگین خرم اور گتاہ فرار دے کر قا نل کو شزا وار پھہرانا ہے ۔ہللا تعالی فرآن خکتم میں فرمانا ہے‪:‬۔‬

‫‪۱‬۔ ترجمہ ’’اببی اوالد کو قتل پہ کرو مقلسی کے ڈر سے ہم انہیں پھی روزی دیں گے اور تمہیں پھی تے سک ان کا قتل تڑی حطاہ ہے ۔‘‘‬
‫‪۲‬۔ اور دوشری خگہ ارساد ہوا۔ترجمہ‪ ’’:‬یم فرما دو میں تمہیں تڑھ کر شتاؤں جو یم تر تمہارے رے تے خرام کتا ۔پہ کہ اس کا کونی شرنک پہ کرو‬

‫اور ماں ناپ کے ساپھ پھالنی کرو اور اببی اوالد قتل پہ کرو مقلسی کے ناغث ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے ۔‘‘‬

‫‪۳‬۔ انک اور خگہ ارساد ہونا ہے ‪:‬۔ترجمہ‪ ’’:‬اور خب ان میں کسی کو پنبی ہوتے کی جوشحیری دی خانی ہے یو دن پھر اس کا مبہ کاال رہتا ہے اور‬

‫وہ عضہ کھانا ہے لوگوں سے جھنتا پھرنا ہے اس یسارت کی ترانی کے سبب ‪،‬کتا اسے ذلت کے ساپھ ر کھے گا نا اسے مبی میں دنا دے گا۔‬

‫ارے نہت ہی ُترا خکم التے ہیں۔‘‘‬

‫رصاغت‪:‬مسلمایوں کے گھر میں بتدا ہوتے والے بچے کے کایوں میں سب سے نہلے اذان دی خاتے ببی اکرم ﷺ کی پھی سبت ہے ک یونکہ‬

‫انک روابت میں ہے کہ آپ ﷺ تے نذات جود حضرت حسن ین علی رصی ہللا غبہ کے کان میں تماز والی اذان دی خب حضرت قاطمہ رصی ہللا‬

‫عتہا کے ہاں ان کی والدت ہونی۔‘‘(ترمذی ۔ایو داؤد)‬

‫ٰ‬
‫ایواتعلی کی انک روابت میں ہے کہ انک موفع تر حصور اکرم ﷺ تے فرمانا‪’’:‬حس کے گھر بچہ بتدا ہو اور وہ اس کے داپیں کان میں اذان ناپیں‬

‫میں نكبیر کہے وہ بچہ ام الضنتان بتماری سے محقوظ رہے گا۔‬

‫ت‬
‫اس خدبث میں حضرت رسول مق یول ﷺ تے دا ہنے کان میں اذان اور ناپیں کان میں نكبیر اقامت تڑھنے کی علتم و ترع بب دی ہے اور اس‬

‫کی ترکت بتان فرمانی ہے ۔ (کیزالعمال)‬

‫م‬
‫اذان کے تعد بچے کے مبہ میں نت ھی خیز ڈالتا پھی سبت ہے حسے’’ بحنتک‘‘ کہا خانا ہے ۔ببی اکرم ﷺ کے زماتے میں کھچور جتا کر بچے کے‬

‫مبہ میں لگا دی خانی نا نالو تر مل دی خانی ۔اس کے نارے میں حضرت عایشہ صدتقہ رصی ہللا عتہا فرمانی ہیں کہ خب رسول اکرم ﷺ کے ناس‬

‫یو مولود بچوں کو النا خانا یو آپﷺ ان کے جق میں ترکت کی دعا فرماتے اور ان کے نالو میں کھچور جتا کر لگا د ب نے ۔ہجرت کے تعد مدببہ م یورہ‬

‫میں مسلمایوں کے ہاں جو سب سے نہال بچہ بتدا ہوا وہ حضرت عتد ہللا ین زبیر رصی ہللا عتهما پھے ۔حضرت اسما رصی ہللا عتہا روابت کرنی ہیں‬

‫کہ خب این زبیر بتدا ہوتے یو انہیں رسول ہللاﷺ کی گود میں دنا گتا۔ آپﷺ تے خرما متگوانا ۔اسے جتا کر ابتا لعاب دهن کے ساپھ بچہ کے‬

‫مبہ میں ڈاال اور خرما نالوں میں مال ۔بیز خیرو ترکت کی دعا دی۔(کبب شیرت)‬
‫بچہ بتدا ہوتے کے سایویں روز بچے کے شر کے نالوں کو متڈاکر خاندی کے تراتر یول کر اس خاندی کو صدقہ و خیرات کر د ب تا خا ہنے اور اس‬

‫کے تعد بچے کی طرف سے عقیقہ کتا خاتے ۔خیسا کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا ۔ہر بچہ ا ب نے عقیقہ کے ندلے میں گروی رکھا ہوا ہے ۔سایویں روز‬

‫اس کی طرف سے کونی خایور ذبح کتا خاتے اور اشی دن اس کا نام رکھا خاتے اور اس کے نالوں کو مونڈدنا خاتے ۔(کبب اخادبث)‬

‫حضرت سلمان ین عامر رصی ہللا غبہ روابت کرتے ہیں کہ میں تے ہللا کے رسول ﷺ کو پہ فرماتے ہوتے شتا ہے کہ پننے کے لنے عقیقہ‬

‫ہے ‪،‬سوا س کی طرف سے خایور کی فرنانی دو اور گتدگی صاف کرو ۔شر کے نالوں کو متڈوا دو۔‬

‫ٰ‬
‫حضرت علی رصی ہللا غبہ بتان کرتے ہیں کہ ہللا تعالی کے رسول ﷺ تے حسن علبہ السالم کے عقیقہ میں انک نکری ذبح کی ۔اور فرمانا اے‬

‫قاطمہ رصی ہللا عتہا! اس کا شر متڈاؤ اور اس کے نالوں کے وزن کے تراتر خاندی صدقہ کردو سو انہوں تے نالوں کا وزن کتا یو وہ انک درہم‬

‫کے تراتر‪ ،‬نا کجھ کم تکلے ۔حس کے تراتر خاندی صدقہ کر دی گبی ۔(کبب اخاد بث)‬

‫حضرت عمر ین سعبب رصی ہللا غبہ بتان کرتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا حس کے گھر میں بچہ بتدا ہوا ور وہ اس کے عقیقہ کے طور تر‬

‫فرنانی کرنا خاہے یو عقیقے کی فرنانی لڑکے کے لنے دو نکرناں اور لڑکی کے لنے انک نکری ہے ۔(ایو داؤد)‬

‫اس خدبث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ اس خایور کو کہنے ہیں ‪،‬جو یوزابتدہ بچے کی طرف سے خدا کے سکرپہ میں ذبح کتا خانا ہے لڑکے کی خابب‬

‫سے دو خایور اور لڑکی کی طرف سے انک ہے ۔‬

‫اگر کسی وجہ سے سایویں دن عق یقہ پہ ہو سکے یو جودہویں نا اکیسویں ناربخ نا خب ممکن ہو کر د ب تا خا ہ نے ک یوں کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا ہے کہ‬

‫عقیقہ سایویں ‪،‬نا جودھویں نا اکیسویں روز کتا خاتے گا۔‬

‫بچے کا اجھا سا نام رکھتا والدین کا فرض ہے ک یونکہ فرمان مصط ٰقے ﷺ ہے کہ آدمی سب سے نہلے اببی اوالد کو جو بحقہ د ب تا ہے وہ اس کا نام ہے‬

‫ٰ‬
‫۔لہذا اجھا نام رکھتا خا ہننے ک یونکہ یم قتامت کے دن ا ب نے ناپ کے ر کھے ہوتے ناموں سے تکارے خاؤ گے اس لنے یم اجھا نام رکھو۔ (ترمذی)‬

‫ٰ‬
‫حضرت عتد ہللا ین عمر رصی ہللا غبہ روابت کرتے ہیں کہ ہللا کے رسول ﷺ تے فرمانا‪ ’’:‬ہللا تعالی کے تزدنک تمہارے سب سے بتارے نام‬

‫عتد ہللا ‪،‬عتد الرجمن اور اس خیسے ہیں۔‘‘(ضحتح مسلم)‬


‫جتکہ ان ناموں کے ساپھ حصور ببی اکرم ﷺ کے نام متارک’’مجمد ﷺ‘‘ اور ’’اجمد ﷺ‘‘ کا اصاقہ ابتہانی متارک ہے۔انک دوشری خدبث میں‬

‫فرمانا ’’پن یوں کے ناموں تر نام رکھا کرو۔‘‘(سین ایو داؤد)‬

‫الببہ علط قسم کے نام نہیں رکھنے خاہیں۔‬

‫بچے کا خببہ کرنا پھی سبت ہے ک یونکہ رسول ہللا ﷺ تے سایویں روز حضرت حسن اور حضرت حسین رصی ہللا عتهما کا خببہ کروانا۔‬
‫ٰ‬
‫بچے کو شیر جوارگی کے زماتے میں دودھ نالنا پھی صروری ہے ۔ک یونکہ ارساد الہی ہے کہ ‪ ’’:‬جو ناپ خا ہنے ہیں کہ ان کی اوالد یوری مدت رصا‬

‫غت نک دودھ ب نے ۔یو ماپیں ا ب نے بچوں کو کامل دو سال دودھ نالپیں اس صورت میں اس کے ناپ کو معروف طر تقے سے انہیں کھانا کیڑا‬

‫د ب تا ہو گا۔‘‘(الیفرہ ‪)233،‬‬

‫ًح‬
‫اسالم تے پہ پھی اخازت دی ہے کہ والدہ کے عالوہ دوشری عورت پھی بچہ کو دودھ نال سکبی ہے اور رصاعی ماں کا درجہ پھی تفربتا قیفی ماں‬

‫کے تراتر ہے۔ ماں بتماری اور تقاہت کی صورت میں بچے کی عام دودھ سے یسو و تماپھی کر سکبی ہے ۔نہر خال مفصد بچے کو معببہ عرصہ نک‬

‫دودھ نالنا ہے ‪،‬ناکہ اس کی متاسب یسو و تما ہو ۔متدرجہ ناال آبت کی رو سے شیر جوار گی کی مدت دو سال ہے اگر بچہ خدا بچواسبہ ماں اور ناپ‬

‫دویوں سے مجروم ہو خاتے یو اس کے ورنا کو دودھ نالتے کا ابیطام کرنا خا ہنے ۔‬

‫ت‬
‫اوالد کی صالح حطوط تر ترورش کے ساپھ ساپھ انہیں علتم سے آراسبہ کرنا پھی والدین کا فرض ہے ک یونکہ علم خاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض‬

‫ع‬ ‫َ َ ُ ْل ِع ْ َ ْ َ َ َع ٰ ُک ِّ ُ ْ‬
‫س‬
‫ہے ۔اس کے میعلق ارساد ب یوی پہ ہے کہ ظلب ا ِلم فِرتضۃ لی ل م ٍم۔’’ م خا ل کرنا ہر م لمان تر فرض ہے۔‘‘انک اور خدبث‬
‫س‬ ‫ص‬ ‫ل‬ ‫ِ‬
‫ل‬

‫ُ‬ ‫ت‬
‫میں ہے ’’انہیں فراتض کی علتم دو اور فرآن کی ۔اور لوگوں کو علم سکھاؤ ک یونکہ میں یو اپھ خاتے واال ہوں۔‘‘‬

‫سین بتہفی کی روابت ہے کہ کلمہ طببہ ال الہ اال ہللا ۔۔۔سے بچہ کو یولی سکھاتے کا آعاز کرو۔‬

‫ت‬ ‫ٰ‬
‫حضرت ایوب ین موشی رصی ہللا غبہ یواسطہ ا ب نے والد ا ب نے دادا سے روابت کرتے ہیں کہ ببی اکرم ﷺ تے فرمانا‪ ’’:‬اجھی علتم و ترب بت سے‬

‫زنادہ انک ناپ کا اببی اوالد کے لنے کونی عظبہ نہیں ہے ۔‘‘(ترمذی)‬

‫۔لہذا والدین تر فرض ہے کہ وہ جود علم خاصل کریں اور اببی اوالد کو پھی‬
‫علم و ہ دولت ہے کہ حس سے ایسان کی صالخنییں اخاگر ہونی ہیں ٰ‬
‫دولت علم سے ماال مال کریں ۔والدہ کی گود بچے کی نہلی اور نہیرین درس گاہ ہے ۔جہاں ایسانی شیرت سیورنی ہے ۔ک یونکہ بچے کا سب سے‬

‫ت‬
‫۔لہذا والدہ کو بچے کی ابتدانی علتم کی طرف حصوصی یوجہ‬
‫زنادہ راتطہ ماں کے ساپھ ہونا ہے اور وہ ماں اور اس کے ماجول کا اتر ق یول کرنا ہے ٰ‬

‫ت‬
‫د ببی خا ہنے ۔نہی وجہ ہے کہ اسالم میں علم کو تڑی اہمبت دی گبی ہے ۔ علتم کی قدر و قتمت ببی اکرم ﷺ کے اس عمل سے ظاہر ہونی‬

‫ہے کہ ندر کے قتدیوں کا قدپہ مفرر کرتے ہوتے فرمانا کہ’’ جو قتدی تڑھے لک ھے ہیں وہ مسلمایوں کے دس دس بچوں کو لکھتا تڑھتا سکھا دیں یو‬

‫انہیں آزاد کر دنا خاتے گا۔‘‘‬

‫حضرت امام ربیعہ رجمۃ ہللا علبہ انک نہت تڑے مشہور مچدث اور عالم گذرے ہیں جو حضرت امام مالک رجمۃ ہللا علبہ کے اشتاد پھے ۔بحین میں‬

‫ان کے والد کسی سفر میں خلے گنے ۔خلنے وقت ربیعہ کی والدہ کو پیس ہزار اشرقتاں دے گنے پھے ۔حضرت ربیعہ کی والدہ تے ا ب نے بچے کی‬

‫ت‬ ‫ت‬
‫اجھی علتم اور اجھی ترب بت کے لنے بتک عالموں اور تڑے تڑے مچدیو ں اور اد ب یوں کے ناس بت ھانا اور بچے کی علتم و ترب بت میں پیس ہزار‬

‫اشرقتاں جتم کر دیں ۔خب حضرت رب یعہ لکھ تڑھ کرقارغ ہو گنے ۔یو رب یعہ کے والد انک عرصہ کے تعد یشرتف التے ۔یو ب یوی سے درناقت کتا‬

‫کہ وہ پیس ہزار اشرقتاں کہاں ہیں ؟ب یوی تے کہا نہت حقاظت سے رکھی ہیں ۔پھر خب مشچد میں آتے ‪،‬یو ا ب نے پننے امام رب یعہ کو دنکھا کہ‬

‫درس خدبث کی مستد تر پنت ھے ہوتے ہیں اور مچدپین کو درس دے رہے ہیں لوگ ان کو ابتا امام اور پیسوا بتاتے ہوتے ہیں ‪،‬یو مارے جوشی‬

‫ت‬
‫کے پھولے پہ سماتے ‪،‬خب گھر وایس یشرتف التے یو ب یوی تے کہا کہ وہ تمام اشرقتاں تمہارے پننے کی علتم تر خرچ ہو خکی ہیں ۔آپ تے‬

‫اب ا ب نے صاخیزادے کو دنکھ لتا ہے ۔اب فرما ب نے کہ آپ کی پیس ہزار اشرقتاں اپھی ہیں نا پہ دولت جو صاخیزادے کو خاصل ہونی ہے یو وہ‬

‫فرماتے لگے ۔بچدا اس عزت کے مقا نلے میں اشرق یوں کو کتا حقیقت خاصل ہے ‪،‬یم تے اشرق یوں کو صا تع نہیں کتا۔‬
‫ٰ‬
‫اسالمی تعلتمات کے مطایق بچوں کی ترب بت کرنا والدین کا فرض ہے ناکہ بچوں کی عادت میں بحین میں ہی اظاغت الہی کا خذپہ بتدا ہو خاتے‬
‫ٰ‬
‫اور وہ جوان ہو کر احکام الہی کے مطایق زندگی یشر کر سکیں ۔ایسانی زندگی کے لنے دب یوی جوش خالی کے عالوہ آخرت میں بچات کی پھی صرورت‬

‫ٰ‬
‫ہے اس کے میعلق ارساد ناری تعالی ہے کہ ‪ ’’:‬اے اتمان والو! یم ا ب نے آپ کو اور ا ب نے اہل و عتال کو آگ سے بچاؤ حس کاا بتدھن ایسان‬

‫اور بت ھر ہوں گے۔(التجریم ۔‪)6‬‬


‫اس آبت میں نہی ناکتد کی گبی ہے کہ ا ب نے اہل و عتال کو آگ سے بچاؤ تعبی اببی اوالد کی ترب بت ایسی اخالفی اور د ببی پنتادوں تر کرو ناکہ‬

‫تراب یوں سے بچ خاپیں اور بتک یوں کی طرف مانل رہیں ۔اس طرح وہ آخرت میں دوزخ کی آگ سے خالص ناپیں گے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اوالد‬

‫کی ترب بت عمدہ طر تقے سے کرنا ماں ناپ کی ذمہ داری ہے ۔‬

‫حضرت ایس رصی ہللا غبہ فرماتے ہیں کہ حصور اکرم ﷺ تے فرمانا‪’’ :‬اببی اوالد کا اکرام و اخیرام کرو اور انہیں ا جھے آداب سکھاؤ۔‘‘(این ماجہ)‬

‫حضرت خاتر ین سمر ہ رصی ہللا غبہ دتے کہا کہ حصور علبہ السالم تے فرمانا کہ ‪’’:‬کونی شحص اببی اوالد کو ادب سکھاتے یو اس کے لنے انک‬

‫صاع صدقہ کرتے سے نہیر ہے ۔‘‘(ترمذی)‬


‫ُ‬
‫حصور ﷺ کا انک اور ارساد ہے کہ خب بچہ سات سال کا ہو خاتے یو اسے تماز تڑھنے کا خکم دو اور خب دس ترس کا ہو خاتے اور تماز پہ تڑھے‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫یو اسے مار کر تماز تڑھا ؤ اور اسے الگ سالنا کرو۔‘‘(ایو داؤد)‬

‫اس ارساد گرامی کے پیش تطر والدین کو خا ہنے کہ وہ ا ب نے بچوں کو سات سال کی عمر نک تماز اور اخالق کے پنتادی اصول سکھاپیں۔‬

‫عام طور تر والدین کی ترب بت کا عکس ان کی اوالد تر مربب ہو نا ہے ۔حضرت قاطمہ رصی ہللا عتہا کی شحضبت سے اندازہ کتا خا سکتا ہے کہ‬

‫حصو ر اکرم ﷺ تے ان کی کنبی تے متال ترب بت کی پھی ۔حضرت عایشہ صدتقہ رصی ہللا عتہا سے مروی ہے کہ حضرت قاطمہ رصی ہللا عتہا‬

‫سب عوریوں سے تڑھ کر دانا پھیں ۔انداز کالم ‪،‬حسن اخالق اور وقار متابت میں حصور اکرم ﷺ کے سوا ان کا کونی نانی پہ پھا ۔‬

‫صالح ترب بت کے ساپھ اوالد سے سفقت سے پیش آناپھی والدین کے لنے صروری ہے ک یونکہ اوالد تر رجم کرنا مسلمان ہوتے کی یسانی ہے‬

‫۔رسول ہللاﷺ کا فرمان ہے ‪’’:‬جو ہمارے جھویوں تر رجم پہ کرے اور ہمارے تڑوں کا اخیرام پہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘ بچہ جھونا‬

‫ہو اسے یوسہ د ب تا سبت ہے ۔ رسول ہللا ﷺ حضرت حسن رصی ہللا غبہ کو جوما کرتے پھے ۔انک دن فرع ین خایس تے عرض کتا کہ میرے‬

‫دس بچے ہیں لتکن میں تے ان میں سے کسی کو کت ھی یوسہ نہیں دنا ۔فرمانا جو ان تر رجم نہیں کرنا۔( اسے ناد رہے کہ) جود اس تر پھی رجم‬

‫نہیں کتا خاتے گا۔‬


‫ُ‬ ‫ً‬
‫انک مرببہ آپ ﷺ مبیر تر یشرتف فرما پھے کہ حضرت حسن رصی ہللا غبہ اوندھے مبہ گر تڑے ۔آپ ﷺ تے قورا مبیر سے اتر کر ان کو گود ی‬
‫ُ‬
‫میں اپھالتا۔ اور پہ آبت تڑھی ‪’’:‬تمہارے اموال اور اوالد یس تمہارے لنے آزمایش ہیں۔‘‘ (سورۃ الیعاین آبت تمیر‪)15‬‬

‫انک مرببہ حصور اکرم ﷺ تماز ادا کر رہے پھے ۔شچدہ میں گنے یو حضرت حسین رصی ہللا غبہ تے آپ ﷺ کی گردن تر سعار ہو گنے۔آپ ﷺ‬
‫ً‬ ‫س‬
‫تے خالت شچدہ میں اس قدر یوفف کتا کہ ضچاپہ مجھے عالتا وحی آگبی ہے جو شچدہ میں اببی دتر کر دی ہے ‪،‬تماز سے قار غ ہو تے یو ضچاپہ کرام‬

‫رصی ہللا عتهم تے یوجھا کہ حصور ! وحی آنی ہے کتا؟فرمانا ‪(:‬نہیں نلکہ)حسین تے مجھ تر سواری کی ہونی پھی۔ مجھے اجھا پہ لگا کہ اسے ا ب نے‬

‫سے خدا کروں۔‬

‫اوالد کو کجھ د ب نے وقت نا سلوک کرتے وقت پھی والدین کو خا ہنے کہ عدل و اتصاف کو مد تطر رکھیں اسالم میں جھوتے تڑے لڑکے اور لڑکی‬

‫کے حقوق نکساں ہیں ۔اسالم لڑکوں کے ساپھ لڑک یوں کے مقانلہ میں ترجتچی سلوک کو روا نہیں رکھتا لڑکے اور لڑک یوں کا جو حضہ ورابت میں‬

‫مفرر ہے انہیں د ب تا خا ہنے ک یوں کہ اشی سے اتصاف کا تقاصا یورا ہونا ہے ۔اوالد میں سے کسی کو کونی خیز دے د ب تا اور دوشرے کو مجروم رکھتا‬

‫خاتز نہیں ۔نلکہ ایسا کرنا ظلم ہو گا ۔جو خالف اسالم ہے ۔‬

‫انک مرببہ انک ضچانی تے ا ب نے انک پننے کو انک عالم دنا اور حصور اکرم ﷺ سے آکر عرض کرتے لگا آپ اس کی گواہی دیں ۔آپ ﷺ تے یوجھا‬

‫کتا دوشرے بچوں کو پھی انک انک عالم دنا ہے ۔اس تے عرض کتا نہیں آقا دو جہان ﷺ تے فرمانا میں اس ظلم کا گواہ نہیں پنتا خاہتا۔اوالد‬

‫سے نااتصافی کا سب سے تڑا تفصان پہ ہونا ہے کہ نهن پھاب یوں میں عداوت اور دسمبی کے خذنات بتدا ہو خاتے ہیں حس سے سکون جتم ہو‬

‫خانا ہے ۔‬

‫بچوں کی ترورش کے لنے مال و زر خرچ کرنا اور ان کی ہر طرح کی صرورنات یوری کرنا پھی والدین کے ذمے ہیں تعبی بچوں کی کقالت کا تمام تر‬

‫ذمہ ناپ کے ذمے ہے ۔خیسے حصور جتم المرسلین ﷺ فرماتے ہیں ۔’’اہل و عتال تر اببی اسیطاغت کے مطایق خرچ کرو‪ ،‬اور مؤدت کرتے‬

‫کے لنے (حسب صرورت) شحبی پھی کرو اور انہیں ہللا سے ڈرانا پھی کرو۔‘‘(مستد اجمد)‬

‫حضرت عمر و ین سعبب رصی ہللا غبہ یواسطہ ا ب نے والد ا ب نے دادا سے روابت کرتے ہیں کہ انک عورت تے عرض کتا ۔نا رسول ہللا ﷺ میرا پہ‬

‫پنتا ہے مدیوں میرا ب بٹ اس کا ترین رہااور میری جھانی اس کی مسک رہی اور میری گود اس کا گہوارہ ۔تعبی میں تے ا ب نے اس پننے کو مدیوں ناال‬
‫ہے ۔اب اس کا ناپ اسے تے مجھ سے جھین لنتا خاہتا ہے ۔رسول ہللا ﷺ تے فرمانا ۔خب نک یو اورتکاح پہ کرے اس کی ترورش کی زنادہ‬

‫مستچق ہے ۔(ایو داؤد)‬

‫والدین کا فرض ہے کہ خب بچے جوان ہو خاپیں یو ان کی سادی کر دیں۔ لتکن سادی میں لڑکے اور لڑکی کا رصا متد ہونا صروری ہے ک یونکہ‬

‫اسالم میں زتردشبی نہیں ۔حضرت ایو ہرترہ رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ تے فرمانا کہ ب یوہ عورت کا اس وقت نک تکاح پہ‬

‫کتا خاتے خب نک اس کی اخازت خاصل پہ کر لی خاتے اشی طرح ک یواری عورت کا تکاح پہ کتا خاتے خب نک اس سے درناقت پہ کتا‬

‫خاتے ۔عرض کہ اسالم تے سادی میں مرد اور عورت کا جق انک خیسا رکھا ہے لتکن لڑکے کے لنے مزند ناال دشبی پہ رکھی ہے کہ اگر وہ لڑکی کو‬

‫انک تطر دنکھ پھی لے یو اس میں کونی خرج نہیں ۔‬

‫حضرت عتد ہللا ین عتاس رصی ہللا عتهما سے روابت ہے کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا کہ حس گھر میں بچہ بتدا ہو وہ اسے اجھا نام دے اس کی‬

‫ترب بت کرے خب نالغ ہو خاتے اس کی سادی کرے ۔اگر نالغ ہوتے تر اس کی سادی پہ کی اور وہ گتاہ میں تڑ گتا یو اس گتاہ میں اس کا‬

‫ناپ پھی شرنک ہو گا۔(بتہفی)‬

‫حضرت ایس رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ حصور اکرم ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫‪۱‬۔ بچہ خب انک ہقنے کا ہو خاتے یو اس کا عقیقہ کرو اور نام رکھو اور اسے ناک کرو۔‬

‫ت‬
‫‪۲‬۔ جھ سال کا ہو خاتے یو اسے آداب کی علتم دو۔‬

‫‪۳‬۔ یو سال کا ہو خاتے یو اس کا یشیر علتچدہ کردو۔‬

‫‪۴‬۔ بیرہ سال کا ہو خاتے یو تمازپہ تڑھنے تر اسے شزا دو (مارو پن یو) ۔‬

‫‪۵‬۔ سولہ سال کا ہو خاتے یو اس کا بتاہ کرو۔(بب اس کا ہاپھ نکڑ کر کہو کہ لو پنتا میں تے بجھے (ناال یوسا) ادب و نہذبب سے آراسبہ کتا‬

‫ت‬
‫۔جن خیزوں کی علتم الزمی پھی وہ بجھے دلوانی اور اب بیرا تکاح پھی کر دنا ۔یس اب میں اس دبتا میں بیرے قببہ سے اور آخرت میں بیرے‬

‫ٰ‬
‫عذاب سے ہللا تعالی کی بتاہ مانگتا ہوں۔‬
‫اشی طرح لڑکی کے نار میں حضرت عمر رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا ہے کہ خب لڑکی نارہ ترس کی ہو خاتے (عرب‬

‫میں پہ نلوغت کی عمر پھی) اور اس کے والدین سادی پہ کریں یو اب اگر اس لڑکی سے کونی گتاہ ہو گتا یو اس گتاہ کی ذمہ داری ماں ناپ کی‬

‫ہو گی ۔(بتہفی)‬

‫بین یوں کے سلسلے میں اسالم تے ان کے حقوق خاص طور تر ادا کرتے کی تڑی ناکتد کی ہے ۔ک یونکہ اسالم سے نہلے بین یوں کے ساپھ نہت‬

‫تراسلوک کتا خانا پھا اس لنے اسالم تے اس تصو ر کی تردند کی اور بین یوں کو ارفع مقام عطا کتا ۔رسول اکرم ﷺ کو اببی بین یوں سے تڑا بتار پھا‬

‫۔ل ٰہذا بین یوں سے اجھا سلوک کرنا خا ہنے اس سلسلے میں آپ ﷺ کی جتد اخادبث متدرجہ ذنل ہیں۔‬

‫حضرت ایو سعتد رصی ہللا غبہ کہنے ہیں ببی اکرم ﷺ تے فرمانا‪ ’’:‬حس تے پین بین یوں نا پین نہ یوں کو نا دو نہ یوں نا دو بین یوں کو ناال اور ان کے‬

‫ساپھ اجھا سلوک کتا ۔اس شحص کے لنے ج بت ہے ۔(ترمذی)‬

‫اس خدبث میں بتانا گتا ہے کہ بین یوں کی ترورش حصول ج بت کا نہیرین ذرتعہ ہے ۔انک اور روابت میں ہے کہ حضرت عایشہ صدتقہ رصی ہللا‬

‫عتہا تے بتان کتا کہ انک دفعہ انک عورت میرے ناس آنی دو بحتاں اس کے ساپھ پھیں اس تے مجھ سے سوال کتا ۔میرے ناس اس‬

‫وقت صرف انک کھچور پھی ۔میں تے وہی دے دی اس تے کھچور کے دو نکڑے کنے اور دویوں بح یوں کو دے دتے جود کجھ مبہ میں پہ رکھا‬

‫۔حصور اقدس ﷺ یشرتف التے یو میں تے انہیں پہ وافعہ پھی شتانا ۔ آپ ﷺ تے فرمانا ان بح یوں کی وجہ سے جو شحص تکلیف میں منتال ہو‪ ،‬پھر‬

‫حسن سلوک کرے ‪،‬وہ بحتاں اس کے اور دوزخ کے درمتان دیوار ین خاپیں گی۔‘‘(بچاری و مسلم)‬
‫ھی ان سے ِ‬
‫پ‬

‫س‬
‫حضرت این عتاس رصی ہللا غبہ کہنے ہیں کہ ببی اکرم ﷺ تے فرمانا‪’’:‬حس کی پنبی ہو اور وہ اسے پہ زندہ درگور کرے اور پہ اسے حقیر مجھے اور‬

‫ٰ‬
‫پہ اس تر پن یوں کو ترجتح دے یو ہللا تعالی اسے ج بت میں داخل فرماتے گا۔‘‘(ایو داؤد)‬

‫اس سلسلہ میں حضرت ایس رصی ہللا غبہ کی روابت ہے ۔(حصور اقدس ﷺ تے ا ب نے دویوں متارک ہاپھوں کی اتگلتاں انک دوشرے میں‬

‫ب یوست کر کے فرمانا ) حس کی دو بینتاں ہوپیں اور اس تے ان کی کقالت کی ‪،‬نہاں نک کہ وہ سن نلوغت کو نہتچ گییں ۔قتامت کے دن وہ‬

‫اور میں اس طرح نکچا ہوں گے۔‘‘(ضحتح مسلم)‬


‫ٰ‬
‫حضرت رسول اکرم ﷺ تے فرمانا ۔خب کسی کے گھر لڑکی بتدا ہونی ہے یو اس کے ہاں ہللا تعالی فرشنے پھتحتا ہے جو آکر کہنے ہیں ۔گھر والو! یم‬

‫تر سالمبی ہو ۔پھر فرشنے بچی کو ا ب نے ساپہ میں لے لننے ہیں اس کے شر تر ہاپھ پھیرتے ہیں اور کہنے ہیں ‪،‬پہ کمزور خان ہے ۔جو انک کمزور‬

‫خان سے بتدا ہونی ہے ۔ جو اس کی ترورش اور ترب بت کرے گا۔ ‘‘ روز حشر ہللا کی مدد اس کے سامل خال ہو گی ۔(طیرانی)‬

‫حضرت شراقہ ین مالک رصی ہللا غبہ سے روابت ہے کہ حصور ﷺ تے فرمانا کہ کتا میں یم کو پہ پہ بتادوں کہ افصل صدقہ کتا ہے ‪،‬اور وہ اببی‬

‫اس لڑکی تر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ نا ب یوہ ہوتے کے سبب) وایس لوٹ آنی اور تمہارے سوا کونی اور افصل نہیں ۔(این ماجہ)‬

‫‪ANS 03‬‬

‫فرد اور معاشرہ ناہم الزم و ملزوم ہیں‪ ،‬حس طرح فرد معاشرے سے الگ ہو کر انک تے حقیقت اکانی کی جین بت اخنتار کر لنتا ہے‪ ،‬اشی طرح‬
‫ٓ‬
‫معاشرہ سے افراد کے تغیر وجود میں نہیں اسکتا۔ دوشرے لفطوں میں افراد کی مجموعی جین بت کا نام معاشرہ ہے۔ اس لچاظ سے فرد کی اصالح‬

‫معاشرہ کی اصالح تر منتج ہو گی اور فرد کا تگاڑ یور معاشرہ کے تگاڑ کا ناغث ب نے گا۔ اشی لنے اسالم تے فرد اور معاشرہ دویوں کی اصالح کا‬

‫اہتمام کتا ہے۔ جتابچہ خلقہ اسالم میں داخل ہوتے کے تعد فرد تر جو سب سے نہلی ذمہ داری عاند ہونی ہے وہ تماز ہے۔ ناکہ تماز اس کی‬

‫ع ٰ‬
‫حسمانی اخالفی اور روخانی بتماریوں کی اصالح کر سکے۔ ذنل کی خدبث تماز کے اس قاندہ ظمی کی ساہد ہے‪:‬‬

‫ت‬
‫«عن أنی ھرترۃ قال قال رسول ہللا ﷺ أرابتم لو أن پھرا بتاب أخدکم عیسل فبہ کل یوم جمسا ھل بیفي من درپہ شي قالوا ال ب یفي من درپہ شي‬

‫قال قذالك متل الصلوات الجمس تمچو ہللا پھن الحطانا( »میقق علبہ)‬

‫ؓ‬
‫حضرت ایو ہرت ؓرہ سے روابت ہے کہ ببی ﷺ تے ضچاپہ کرام سے فرمانا کہ اگر کسی شحص کے گھر کے سامنے سے انک نہر گزرنی ہو اور وہ اس‬
‫ؓ‬
‫میں روزاپہ نابچ مرببہ غسل کرنا ہو یو کتا اس کے حسم تر کونی متل کحتل نافی رہ خانا ہے؟ ضچاپہ کرام تے عرض کتا۔''نہیں نا رسول ہللا ﷺ!''‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫اس تر اپ ﷺ تے فرمانا‪'' ،‬نالکل اشی طرح جو ادمی روزاپہ نابچ مرببہ (مشچد میں خاصر ہو کر)تماز ادا کرنا ہے وہ گتاہوں سے اشی طرح ناک ہو‬

‫خانا ہے گونا اس تے گتاہ کتا ہی نہیں۔''‬


‫ٓ‬
‫فرد کی اصالح کے تعد معاشرنی اصالح کا تمیر ا نا ہے جتابچہ خب نہت سے افراد مل کر انک معاشرہ کی سل اخنتار کر لننے ہیں یو ان کی‬

‫اصالح و تطہیر کے لنے اسالم تے تماز نا جماغت کو الزمی فرار دنا ہے ۔ حس کے لنے مشچد کا قتام ناگزتر ہے اور نہی وجہ ہے کہ اسالم تے‬
‫ٓ ؑ‬ ‫ٓ‬
‫خب ّاولین معاشرہ یسکتل دنا یو اس کے ساپھ ہی مساخد کی انادی شروع ہو گبی۔ حضرت ادم کی اوالد تے خب انک معاشرہ کی سکل اخنتار‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫کر لی یو اپ کا سب سے نہال کام ب بت ہللا کی تعمیر پھا۔ پھر خب اپ کی اوالد افط ِار دبتا میں پھتلی یو اپ ہی کے انک صاخیزادے تے (ب بت‬
‫ّ‬
‫ہللا کی تعمیر کے خالیس ترس تعد ) ب بت المقدس کی پنتاد رکھی۔ اس کے تعد مل ِت اسالمبہ کے نانی حضرت اتراہتم اور ان کے صاخیزادے‬
‫ٓ‬
‫شر یو تعمیر یو فران مح تد سے پھی نابت ہے۔ اشی طرح حضرت رسول اکرم ﷺ تے‬ ‫ت ع‬
‫حضرت اسماع ل لتهما السالم کے ہاپھوں ب بت ہللا کی از ِ‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ُ‬
‫خب دعوت الی الچق کا بیڑا اپھانا یو اپ ﷺ تے ابتا مرکز خاپہ کغبہ نا مشچد الجرام کو بتانا اور خب کقار کی طرف سے اعالببہ مچالقت ہوی یو اپ‬

‫امر مح یوری ِدار ارقم کو اس کام کے لنے منتحب فرمانا۔ لتکن حضرت ع ؓمر کے اسالم التے ہین پھر سے خاپہ کغبہ اور مشچد الجرام کی‬
‫ﷺ تے ن ِ‬
‫ٓ‬
‫دیواریں نكبیر کے تعروں اور یوجتد کے کلمات سے گوبحنے لگیں۔ اور پھر خب کقار کی مچالقت ابتہا کو نہتچ گبی اور اپ ﷺ ہجرت کر کے مدببہ‬
‫ٓ‬ ‫س‬
‫شرتف یشرتف لے گنے یو نہاں کی فصا کو مسلم معاشرہ کے لنے سازگار مجھنے ہوتے اپ ﷺ تے سب سے نہال کام جو کتا وہ مشچ ِد ب یوی کی‬

‫تعمیر پھی۔ اس کے تعد جوں جوں مسلمایوں کی تعداد میں اصاقہ ہونا گتا۔ ہر قنتلہ اور ہر مچلہ میں الگ الگ مشچدیں تعمیر ہونی خلی گییں۔‬

‫ت‬
‫اگرجہ عام عربت اور سادگی کی وجہ سے اس دور میں جو عام مساخد عمیر ہوپیں وہ زنادہ دتر نک قایم پہ رہ سکیں اور ِ‬
‫مرور زماپہ کے ساپھ ساپھ‬

‫نہت سوں کا نام و یسان پھی مٹ گتا ناہم ناربخ ہمیں بتالنی ہے کہ اسالم کی روشبی تے خب عرب کے گوسے گوسے کو م یور کر دنا یو عرب‬

‫کا کونی گاوں‪ ،‬سہر اور مچلہ مساخد سے خالی پہ پھا۔‬

‫پھر اسالم تے شر زمی ِن عرب سے قدم ناہر تکال کر خب ا ب نے ق ِوم متمبت لزوم سے بی ِ‬
‫رون دبتا کو یوازنا شروع کتا یو جہاں جہاں اسالم کی‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ن‬
‫روشبی ہتچی اور مسلم معاشرہ کا قتام عمل میں انا‪ ،‬مساخد تعمیر ہونی خلی گییں۔ جن میں سے تعض اج پھی اببی رواببی سان و سوکت کے‬

‫ساپھ موجود ہیں۔ موجودہ دور کے غیر مسلم ممالک پھی جہاں کجھ پھی مسلمان موجود ہیں۔ مساخد سے خالی نہیں اور مسلمان ممالک کا یو ذکر‬
‫ٓ‬
‫ہی کتا‪ ،‬ہر گاوں‪ ،‬ہر مچلہ اور ہر سہر میں مساخد کے ساندار منتار اببی عظمت و رفغت کی گواہی د ب نے تطر اتے ہیں۔‬
‫متدرجہ ناال ناربچی حقایق مسلم معاشرہ کے قتام میں مشچ د کی اہمبت و صرورت کی واضح ترجمانی کرتے ہیں۔ عالوہ ازیں پہ پھی انک ناربچی‬

‫حقیقت ہے کہ ببی اکرم ﷺ کے دور کا وہ معاشرہ جو اشتحکام‪ ،‬نابتداری اور عظمت و رفغت کی نہیرین متال پھا‪ ،‬مساخد ہی کا مرہ ِون مبت پھا‬

‫اور ہمیں پہ کہنے میں ناک نہیں کہ خب نک مساخد ُتر رویق رہیں اور مسلم معاشرہ میں ان کی صرورت و اقادبت کو محسوس کتا خانا رہا۔ اسالم‬
‫ٓ‬
‫پھی شر نلتد رہا۔ لتکن جونہی مساخد کی مرکزی جین بت میزلزل ہونی اور فران و خدبث کو جھوڑ کر دوشری تعلتمات کا دور دورہ ہوا۔ لوگ مساخد‬

‫ٰ‬
‫رون اولی میں پھا یو مسلمان پھی اببی سان و سوکت کھو کر بیزل و یسقل‬ ‫ص‬
‫سے دور ہوتے لگے اور معاشرہ میں مساخد کو وہ مقام خا ل پہ رہا جو ف ِ‬
‫ٓ‬
‫کا سکار ہوتے خلے گنے اور ناالخر اسالم کو عربت سے ہمکتار ہونا تڑا۔‬
‫ٰ‬
‫ٰلہذا پہ کہتا تے خا پہ ہو گا کہ اسالمی معاشرہ کی یسکتل و تعمیر کا تمام تر دارو مدار ہی مساخد تر ہے۔ ناہم ا ب نے اس دعوی کی صداقت کے لنے‬

‫ہمارے لنے اس امر تر روشبی ڈالتا از یس صروری ہے کہ مسلم معاشرہ کے قتام میں مساخد کتا کردار ادا کرنی ہیں اور معاشرہ میں ان کی‬

‫تع‬
‫د ببی‪ ،‬لتمی‪ ،‬سماحی اور شتاشی اہمبت کتا ہے؟‬

‫)‪(1‬مساخد کی د ببی اہمبت‬

‫صد بچل یق ہی عتادت ہے اور اشی‬ ‫َ َ َ ُ َّ َ َ ّ َ‬ ‫ٓ‬


‫فران محتد میں ارس ِاد رنانی ہے‪﴿:‬وما خلقت ا ِلحن واإلِیس ِإال لِیع ُت ِ‬
‫دون ﴿‪... ﴾٥٦‬سورة الذارنات "کہ ایسان کا مف ِ‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫صد بچل یق ہی عتادت ہے اور اشی خیز تر اخرت میں ایسان کی‬
‫خیز تر اخرت میں ایسان کی کامتانی کا ابحصار ہے۔ عتادات کہ ایسان کا مف ِ‬

‫کامتانی کا ابحصار ہے۔ عتادات کا مط ِہر ّاول تماز ہے اور جونکہ مشچد اضطالح میں اس خگہ کو کہنے ہیں جو تماز کے لنے وفف کر دی گبی ہو۔‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫ٰلہذا د ببی اعنتار سے مشچد کو نہت اہمبت خاصل ہے۔ اس ضمن میں فران و خدبث میں کافی انات و اخادبث مذکور ہیں جن میں نا یو مشچد کی‬

‫د ببی اہمبت بتان کی گبی ہے اور نا تماز ناجماغت کے قواند و یواب تر روشبی ڈالی گبی ہے۔ ذنل میں جتد انک تصوص مالحطہ فرماپیں۔‬
‫ٓ‬
‫مشچدوں کی انادی اتمان کی دلتل ہے‪:‬‬
‫ٓ‬
‫فران محتد میں ہے‪:‬‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫َّ َ‬
‫﴿ ِإتما تع ُم ُر َمسـ ِٰچ َد اَّللَِّ من ءام َن ِناَّللَِّ َوال َی ِوم الءاخ ِِر‪... ﴾١٨...‬سورة ال یوپة‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫کہ پیسک ہللا کی مشچدوں کو وہی اناد کرتے ہیں جو ہللا اور ی ِوم اخرت تر تفین رک ھنے ہیں۔ اس ابت میں جہاں پہ بتالنا گتا ہے کہ مساخد کے اناد‬

‫کار مومن ہی ہو سکنے ہیں۔ وہاں ان کو پہ یسارت پھی دی گبی ہے کہ پہ ان کے اتمان ی دلتل پھی ہے خیسا کہ متدرجہ ذنل خدبث سے‬
‫ٓ‬
‫ظاہر ہے جو اشی ابت کی تفشیر میں وارد ہے‪:‬‬
‫ؓ‬
‫ایو سعتد خدری فرماتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫«إذا رأبتم الرخل بیعاھد المشچ د قاسھدوا لہ ناإلتمان قإن ہللا تقول إتما تعمر مساخد ہللا من امن ناهلل وال یوم االخر( »ترمذي‪ ،‬این ماجہ‪ ،‬دارمي)‬

‫ٰ‬ ‫ٓ‬
‫کہ خب یم کسی ادمی کے میعلق خایو کہ وہ (خدمت اور عتادت سے) مشچد کی نگہتانی کرنا ہے یو اس کے اتمان کی گواہی دو۔ ک یونکہ ہللا تعالی‬
‫ٓ‬
‫کا فرمان ہے کہ پیسک مساخد کو اتماندار ہی اناد کرتے ہیں۔‬
‫ٓ‬
‫مساخد میں اتے والے ہللا کے مهمان ہیں‪:‬‬

‫حضرت ایو ہرت ؓرہ فرماتے ہیں کہ ببی ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫«من عدا إلی الم چد أو راح ّ‬


‫أعد ہللا تزلہ من الحبة کلما عدا أوراح( »بچاری‪ ،‬مسلم)‬ ‫ش‬
‫ٰ‬
‫کہ جو شحص صتح نا سام کو مشچد میں خانا ہے‪ ،‬ہللا تعالی اس کے لنے ج بت میں مهمانی کا کھانا بتار کرنا ہے۔ جو ج بت میں صتح و سام پیش کتا‬
‫ٓ‬
‫خاتے گا (ک یونکہ مشچد ہللا کا گھر ہے اور اس میں اتے والے ہللا کے مهمان ہیں)‬

‫ی ِور کامل کی یسارت‪:‬‬

‫ترمذی‪ ،‬این ماجہ اور ایو داود میں ہے کہ ببی ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫«یشر المساپین في الطلم إلی المساخد نال یور التام یوم القتامة»‬

‫کہ ا یسے لوگوں کو جو نارنکی میں مشچد کی طرف (تماز تڑھنے کے لنے) خاتے ہیں‪ ،‬ی ِور کامل کی یسارت دو جو قتامت کے دن ان کو خاصل ہو گا۔‬
‫ٰ‬
‫مت الہی کا ذرتعہ ہے‪:‬‬
‫مشچد کی خاصری رج ِ‬
‫بچاری اور مسلم میں ہے۔ حضرت ایو ہرت ؓرہ فرماتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ تے فرمانا‪:‬‬

‫ٰ‬
‫''سات شحصوں کو ہللا تعالی ا ب نے عرش کے ساپہ نلے اس دن خگہ دے گا خب کہ عرش کے ساپہ کے سوا اور کونی ساپہ ہی پہ ہو گا اور ان‬

‫سات شحصوں میں سے انک شحص وہ پھی ہو گا کہ خب مشچد سے تکلتا ہے یو وایسی نک اس کا دھتان مشچد ہی کی طرف لگا رہتا ہے ۔‬

‫گتاہوں کا کقارہ‪:‬‬

‫ترمذی میں ہے‪:‬‬

‫«والکقارات المكث في المساخد تعد الص ٰلوة والمسي علي األقدام إلي الجماعات»‬
‫ٰ‬
‫کہ مشچدوں میں تماز کے تعد (اگلی تماز کے ابیطار نا ِذکر الہی وغیرہ کے لنے) پنتھ رہتا اور تماز نا جماغت کی ادابتگی کے لنے بتدل خل کر خانا‬

‫گتاہوں کا کقارہ ہے۔‬

‫ب بت یوری ہو گی‪:‬‬

‫ایو داود میں حضرت ایو ہرت ؓرہ سے روابت ہے کہ ببی ﷺ تے فرمانا‪:‬‬
‫ٓ‬
‫''من أنی المشچ د لسیء قھو حطہ ''کہ جو شحص مشچد میں حس کام کے لنے اتے گا‪ ،‬وہ اس کا حضہ ہے۔‬
‫ٓ‬
‫تعبی اگر یواب کی ب بت سے اتے گا یو یواب ملے گا اور اگر دبتا کا طمع خاصل کرتے نا سہرت خاصل کرتے اور تمود و تمایش کے حصول کے‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫لنے مشچد میں اتے ا یو اس کی پہ جواہش پھی یوری ہو گی۔ لتکن ظاہر ہے پہ خیز صرف دبتا میں قاندہ دے گی اور اخرت میں اس کا کجھ حضہ‬

‫پہ ہو گا۔ نا اس سے مراد پہ ہے کہ مشچد میں دعا ق یول ہو گی۔‬

‫ٰ‬
‫مذکورہ ناال اخادبث کی روشبی میں کسی ا یسے معاشرہ کے اعلی و ارفع اور صا لح ہوتے میں کیسے سبہ کتا خا سکتا ہے حس کے افراد نابچ وقت مشچد‬

‫میں جمع ہو کر فرتضہ تماز ادا کرتے ہوں؟‬


‫تع‬
‫)‪(2‬مساخد کی لتمی اہمبت‬

‫اغت علم میں مشچ د کا کردار‪:‬‬


‫اس ِ‬
‫اغت علم کی اہمبت سے اتکار نہیں کتا خا سکتا اور نالسبہ مسلمایوں کی ناربخ میں پہ کردار مساخد تے‬ ‫س‬
‫م لم معاشرہ کے قتام کے لنے اس ِ‬
‫ّ‬
‫دور ب یوی کی نہلی مشچد‪ ،‬مشچ ِد ب یوی پھی اور نہی مشچد مل ِت اسالمبہ کا ّاولین مرکز فرار نانی۔ دنگر گوناگوں حصاتص‬
‫نہابت نہیر طرتقہ سے ادا کتا۔ ِ‬
‫ٰ‬
‫کے عالوہ اس مشچد کو اعلی ترین درس گاہ نلکہ اس َدور کی یوب یورشبی ہوتے کا فجر پھی خاصل پھا۔ جہاں سب و روز ضچاپہ کرام رصوان ہللا علتهم‬
‫ح ً‬ ‫ّ‬
‫چاب ضقہ یو مشچد ب یوی میں رہ کر اشی کام کے لنے کمر یسبہ رہنے۔ اشی‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ص‬‫صو‬ ‫ے‪،‬‬ ‫کرت‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫ا‬‫خ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ر‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫م‬‫ت‬‫ل‬‫اجمعین معلم ا ساب بت سے تع‬
‫ض ِ‬ ‫ِ ی‬
‫ع‬ ‫ٓ‬
‫مشچد میں خلقہ ہاتے درس نہاں میعقد ہوتے اور یسیگ ِان علم دور دراز سے اکر ان لمی شر حسموں سے اببی بتاس بجھاتے۔ ب یو امبہ اور ب یو‬

‫دور اقتدار نک مشچد اشی اہمبت کی خامل رہی۔ اس زماتے میں خلقاء کی وایستگی پھی مساخد سے خد درجہ قایم رہی اور وہ ان کی‬
‫عتاس کے ِ‬
‫ع‬
‫شرترشبی کرتے رہے۔ مساخد میں امامت کے فراتض ابچام د ب نے‪ ،‬جمعہ کے روز مبیر کی زب بت پننے اور لمی مسانل خل کر کے لوگوں کو‬

‫َ‬
‫مسیقتد فرماتے۔ عتاشی دور میں مامون و ہارون اس رغب و داب کے خلقاء پھے کہ قی ِ‬
‫ضر روم ان کا نام سن کر لرزہ تراندام ہو خانا پھا‪ ،‬خب‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫تماز کا وقت ا نا یو ناج و بحت سے الگ ہو کر مشچد میں اتے اور فرات ِ‬
‫ض امامت ادا کرتے۔ العرض نارب ِخ اسالم کے محتلف ادوار میں مساخد کو‬

‫امنتازی جین بت خاصل رہی اور پہ خاپہ خدا ہوتے کے عالوہ نہیرین درسگاہیں اور یوب یورسنتاں تصور کی خانی پھیں۔‬
‫ٓ‬
‫موجودہ زماتے میں پھی کجھ عرصہ قتل نک مشچد کو مکبب کی جین بت خاصل رہی لتکن ناالخر لوگوں تے اس د ببی مسعلہ کو کارونار بتا لتا۔ جتد‬
‫ٓ‬
‫تفس ترسیوں اور ہوس کے بتدوں تے مچلص لوگوں کو پھی ندنام کر کے رکھ دنا۔ اور پنتچ ًۃ اج لوگ مساخد میں قایم مدارس کے نام سے پھی دور‬
‫ع‬
‫پھا گنے لگے ہیں۔ لتکن اس میں مشچد کا کونی تصور نہیں نلکہ پہ ہماری اببی ذہین یوں کا فصور ہے اور اس سے مساخد کی لتمی اہمبت و‬

‫ع‬ ‫ٰ‬
‫رون اولی کے مسلمایوں کی ناد نازہ ہو سکبی ہے اور ان لمی شر‬ ‫ٓ پ‬
‫جین بت تر کونی زد نہیں تڑنی۔ خلوص پنبی سے اگر کام کتا خاتے یو اج ھی ف ِ‬

‫حسموں سے اببی بتاس بجھا کر اببی عظ ِ‬


‫مت رفبہ کو بچال کتا خا سکتا ہے۔‬

‫)‪(3‬مشچد کی سماحی و اق یصادی اہمبت‬

‫انک کامتاب معاشرہ کی حصوصبت پہ پھی ہے کہ اس کے افراد انک دوشرے کے ہمدرد و عمگسار ہوں۔ انک کا دکھ سب کا دکھ اور انک کی‬

‫جوشی سب کی جوشی ہو۔ رسول اکرم ﷺ تے مسلمایوں کی متال بتان کرتے ہوتے فرمانا ہے کہ‪:‬‬
‫''تمام مسلمان انک حسم کی مابتد ہیں۔ اگر حسم کے انک حضہ کو تکلیف نہتچے یو یورا حسم اس کی وجہ سے تے خین و تے فرار رہتا ہے۔''‬
‫ٓ‬
‫عالوہ ازیں فران محتد تے پھی فرپن یوں‪ ،‬تڑوسیوں اور اہ ِل مچلہ وغیرہ سے حسن سلوک کا خکم اکیر مقامات تر دنا ہے۔ لتکن اس خکم تر عمل بیرا‬

‫ہوتے کے لنے پہ صروری ہے کہ اہ ِل مچلہ انک دوشرے کے خاالت سے وافف ہوں‪ ،‬اور معاشرہ میں پہ کردار پھی حس جونی اور حس ساندار‬
‫ٓ‬
‫طر تقے سے مشچد ادا کرنی ہے وہ اببی متال اپ ہے۔ انک مچلہ نا انک گاوں کے مسلمان دن میں نابچ مرببہ مشچ د میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر ہر‬

‫جمعہ کے روز تڑے بتماپہ تر انک اجتماع عام ہونا ہے۔ حس کے ناغث لوگوں کو انک دوشرے کے فربب ہوتے اور انک دوشرے کے‬
‫ٓ‬
‫خاالت خا ب نے کا موفع ملتا ہے اور ناالخر پہ خیز انک دوشرے کی ہمدردی‪ ،‬انک دوشرے کا دکھ درد نا پننے اور ناہمی مسانل کے خل کے لنے ممد‬

‫و معاون نابت ہونی ہے اور اس طرح معاشرہ تروبج و ترفی کی راہ تر گامزن ہو خانا ہے۔ ناربخ ہمیں پہ بتانی ہے کہ ِ‬
‫دور ب یوی اور اس کے تعد‬

‫خالق ِت راسدہ کے ادوار میں مسلمان صرف تماز کے لنے ہی مساخد میں اکت ھے نہیں ہنے پھے نلکہ ان کے تمام اجتماعی مسانل کے خل کے لنے‬

‫صالح و مسورے اور قی صلے وغیرہ پھی مساخد ہی میں ہوتے پھے۔‬
‫ٓ‬
‫اج ہم مسلمان مساخد سے دور ہوتے کی بتا تر ا ب نے اہل مچلہ‪ ،‬فرپن یوں اور ہمسایوں سے پھی کٹ کر رہ گنے ہیں اور ہمدردی وغیرہ کے خذنات‬

‫سے نکشر عاری ہو خکے ہیں۔ ہمساپہ کی خیر خیربت یوجھتا‪ ،‬بتماری میں اس کی بتمار داری کرنا۔ اس کے دکھ سکھ میں شرنک ہونا اور مضن بت‬
‫ٓ‬
‫میں اس کے کام انا یو کچا اکیر لوگوں کو ا ب نے ہمساپہ کے نام اور کام کے میعلق پھی خیر نہیں ہونی۔ نلکہ ال تعلفی اور تے حسی یو اس ابتہا کو‬

‫نہتچ خکی ہے کہ رات کو تڑوس میں کسی شحص کے ہاں جوری ہو خانی ہے۔ نا کونی قتل ہو خانا ہے اور فرببی مکان والے کو اس کی خیر نک‬
‫ٓ‬
‫نہیں ہونی اور اگر وہ خاالت سے اگاہ ہو پھی خاتے یو پھی اببی زجمت گوارا نہیں کرنا کہ ہمدردی و یسفی کے جتد یول ہی کہہ دے۔ مساخد میں‬

‫روزاپہ نابچ مرببہ جمع ہو کر تماز تڑھنے والے افر ِاد معاشرہ ان ندترین متالوں کا تصور پھی نہیں کر سکنے۔‬

‫جتد دنگر قواند‪:‬‬

‫نا اتصافی ہو گی اگر ہم مشچد کی سماحی اہمبت کے ضمن میں ان قواند کبیرہ کا ذکر پہ کریں جو انک معاشرے کو مشچد کے قتام سے صرف‬

‫خاصل ہی نہیں ہوتے نلکہ ان کے تغیر انک ضحتح معاشرہ تروان ہی نہیں خڑھ سکتا اور تروبج و ترفی کی راہوں تر گامزن ہوتے میں ناکام رہ خانا‬
‫ہے۔‬

‫نابتدی وقت‪:‬‬

‫وقت کی نابتدی کسی قوم کی بتداری اور معاشرہ کی جوشچالی کی صامن ہے۔ اس کے ترعکس سہل اتگار اور اص ِ‬
‫اغت وقت کے مرنكب ہوتے‬
‫ً‬
‫والے افراد انک نہیر معاشرہ کی تعمیر میں ناکام رہنے ہیں حس سے یوری قوم تری طرح متاتر ہونی ہے۔ ایسی قوم کے افراد عموما اقالس‪ ،‬بتماری‪،‬‬
‫ٓ‬
‫کمزوری اور ففر و قاقہ کے سکار ہوتے ہیں۔ نلکہ یوں کہتا تے خا پہ ہو گا کہ ایسی قومیں ازادی کی حقاظت کرنا یو درکتار زندہ رہنے کا جق پھی کھو‬
‫ٓ‬ ‫ت‬ ‫ٓ‬ ‫پ‬
‫نت ھبی ہیں۔ اور شر نلتدی اور ازادی کی عم ییں صرف ایسی قوموں کے حضہ میں انی ہیں جن کے افراد خاق و جوبتد‪ ،‬مسیعد‪ ،‬وقت کی قدر‬

‫کرتے والے اور ہر کام میں ناقاعدگی کو ابتا سعار بتاتے والے ہوتے ہیں۔ مشچد ہمیں دنگر قواند سے مسیقتد کرتے کے عالوہ نابتدی وقت کا‬

‫درس پھی د ببی ہے۔ دن میں نابچ مرببہ اوق ِ‬


‫ات مفررہ تر اذان دے کر لوگوں کو مشچد میں نالنا خانا ہے کہ تمام لوگ وق ِت مفررہ تر خاصر ہو کر‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫فرتضہ تماز ناجماغت ادا کریں اور اس تم ِاز ناجماغت کی ابحصور ﷺ تے نہابت شحبی کے ساپھ ناکتد فرمانی ہے۔ اپ ﷺ کا ارساد گرامی ہے کہ‪:‬‬
‫ٓ‬
‫''اگر مجھے عوریوں اور بچوں کا جتال پہ ہو یو میں اببی خگہ کسی اور کو امام مفرر کر کے ان لوگوں کے گھروں کو خا کر اگ لگا دوں جو اذان سننے‬
‫ٓ‬
‫کے ناوجود مشچد میں نہیں اتے۔'' (اجمد)‬

‫(بچاری اور مسلم میں پھی پہ خدبث موجود ہے لتکن اس میں ''عوریوں اور بچوں'' کا ِذکر نہیں)‬
‫ٓ‬ ‫ن‬
‫پہ فرمان اس ببی عرنی ﷺ کا ہے حس کے ہاپھوں کسی دسمن کو پھی کت ھی کونی تکلیف نہیں ہتحبی اس سے اندازہ کتا خا سکتا ہے کہ اپ‬
‫ٓ‬
‫ﷺ تماز ناجماغت کو جو کہ نابتدی وقت کے لنے نہیرین ترپنتگ کی ج ین بت رکھب ی ہے‪ ،‬کس قدر اہمبت د ب نے پھے۔ اقسوس اج مسلمان مشچد‬

‫ی‬
‫سے ابتا تعلق م فطع کر کے اس کے قوان ِد کبیرہ اور ترک ِ‬
‫ات وافرہ سے مجروم ہو گتا ہے۔ اس کے ترعکس غیر مذاہب اور غیر اقوام تے ان‬
‫ٓ‬ ‫ُ‬
‫اسالمی خیزوں کو یونی پھونی سکلوں میں ابتانا اور ان سے پھریور قاندہ اپھانا۔ ہماری ند قسمبی کہ ہم پہ صرف ان خیزوں کو جھوڑ پنت ھے نلکہ اج اس‬
‫س‬
‫نات سے پھی عاقل ہو گنے ہیں کہ پہ اسالمی خیزیں ہیں اور نال سوچے مجھے وقت کی نابتدی کو اتگلش نایم )‪ (English Time‬کا نام‬

‫د ب نے ہیں۔ اس سے پھی تڑھ کر اقسوشتاک امر پہ ہے کہ ہم تے اببی خیزیں غیروں کو دے کر ان کی تری‪ ،‬فحش اور ذلتل عادات و اطوار کو‬
‫یو ا ب نے گلے کا طوق بتا لتا ہے۔ لتکن ان میں موجود ا جھے طور طریق کو۔ جو نالسبہ ہمارے ہی مذہب کی تعلتمات ہیں۔ ان کی اقادبت کے قانل‬
‫س‬
‫ہوتے کے ناوجود‪ ،‬ا ب نے لنے ن ِار خاطر مجھنے ہیں ۔ ساند ہم تے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر اس نات سے دور رہیں گے حسے اسالم سے ذرا پھی‬
‫ٓ‬
‫متاسبت ہو گی اور حس میں ذرہ پھر پھی اجھانی موجود ہو گی۔ اہ !ام علی قلوب افقالھا!‬

‫بیظتم‪(Discipline):‬‬
‫ٓ‬
‫بیظتم کے ضمن میں وہ سب خیزیں انی ہیں جو کسی قوم کے زندہ رہنے کے لنے ابتہانی صروری ہیں۔ گھر میں نا گھر سے ناہر‪ ،‬درس گاہ ہو نا‬

‫کھتل کا متدان‪ ،‬سفر ہو نا حضر‪ ،‬دفیر ہو نا مارکبٹ‪ ،‬زراغت کے کھبت ہوں نا صیغت و خرقت کی قتكیرناں اور کارخاتے‪ ،‬خ ِ‬
‫الت امن ہو نا جتگ‪،‬‬
‫ُ‬ ‫ٰ‬
‫جبی کہ ک ھاتے پننے‪ ،‬سوتے خا گنے‪ ،‬اپھنے پنت ھنے اور خلنے پھرتے میں پھی تظم و صیط اور ڈشتلن کا قایم رکھتا ابتہانی صروری ہے۔ بیظتم کے تغیر‬

‫کونی معاشرہ پہ یو ب بپ سکتا ہے اور پہ ہی کونی قوم می ِزل مراد سے ہم کتار ہو سکبی ہے۔ ایسی قوم کی متال جو تظم و صیط سے عاری ہو‪ ،‬اس‬

‫گاڑی کی شی ہے حس کی ترنکیں پہ ہو۔ حس کا کونی راسبہ م یعین پہ ہو‪ ،‬حس کا پہ کونی ڈراب یور ہو اور پہ ہی کونی گارڈ نا کبیرولر‪ ،‬یس اسے‬

‫شتارٹ کر کے جھوڑ دنا خاتے۔ یو حس طرح اس گاڑی کا حقاظت و خیربت سے کسی خگہ نہتحتا ناممکن ہے نالکل اشی طرح بیظتم اور تظم و‬

‫صیط کے تغیر کسی قوم نا معاشرے کی کامتانی کے م یعلق سوخا نک نہیں خا سکتا اور اس تظم و صیط کا رس ہمیں تماز اور مساخد ہی سے ملتا‬

‫ہے۔ دن میں نابچ نار تمازی مشچد میں خاصر ہو کر انک امام کی اقتداء میں تماز تڑھنے ہیں اور ہر مقتدی تر پہ الزم ہے کہ امام کے اساروں تر‬

‫خرکت کرے۔ اس اقتداء میں تظم و صیط کا اندازہ ذنل کے فرم ِان ب یوی سے لگا ب نے‪ ،‬فرمانا‪:‬‬
‫ٰ‬
‫«ال بتادروا اإلمام إذا کیر قكیروا وإذا قال وال الصالین فقولوا امین وإذا رکع قارکعوا( »مسلم)‬
‫ٓ‬
‫کہ امام سے نہل پہ کرو‪ ،‬خب وہ ہللا اکیر کہے‪ ،‬یم پھی ہللا اکیر کہو اور خب وہ ''وال الصالین'' کہے یو یم امین کہو اور خب رکوع کرے یو یم‬

‫رکوع کرو۔‬
‫ً‬
‫نالسبہ پہ تظم و صیط کی نہیرین ترپنتگ ہے۔ پھر نہی نہیں کہ اس نات کو محض خکما بتان کر دنا گتا ہو نلکہ اس کی خالف ورزی کرتے والے‬
‫ٓ‬
‫کے میعلق شحت وعتد انی ہے۔ حضرت ایو ہرترہ رصی ہللا غبہ فرماتے ہیں کہ ببی ﷺ تے فرمانا‪:‬‬
‫َ‬
‫«ا َما بحسي الذي ترفع رأسہ قتل اإلمام أن بچول ہللا رأسہ رأس جمار»‬

‫ٰ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬


‫کہ کتا وہ شحص جو امام کے شر اپھاتے سے نہلے ابتا شر اپھانا ہے اس نات سے نہیں ڈرنا کہ ہللا تعالی اس کے شر کوگدھے کے شر خیسا بتا‬

‫دے؟‬

‫اندازہ فرما ب نے کہ حس معاشرہ کے افراد ا یسے ہی ترب بت نافبہ ہوں گے اور وہ ابب ی زندگی کے ہر سغبہ میں اشی تظم و صیط کو ابتا سعار بتاپیں گے‬

‫یو کتا اس کے کامتاب و کامران ہوتے میں کسی کو سبہ ہو سکتا ہے؟ اور ک تا زندگی کی دوڑ میں ایسی قوم سے کونی دوشری قوم۔ جو اس سیق‬
‫ٓ‬
‫سے نا اشتا ہو۔ سیقت لے سکبی ہے؟ ہرگز نہیں!‬

‫ابچاد اور مساوات‪:‬‬


‫ٓ‬
‫طیقانی کش مکش اور لسانی تعصتات دبتا کی کسی پھی قوم کے لنے مقتد نابت نہیں ہوتے نلکہ ہمیشہ اپیسار و افیراق کا ناغث ین کر ناالخر‬
‫ٓ‬
‫بتاہی اور ہالکت تر منتج ہوتے ہیں۔ اشی لنے اسالم تے اس کو خڑ سے اکھاڑ کر پھنتک دنا۔ فران کریم میں ہے‪:‬‬
‫ٓ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬
‫﴿ ِإت َما ال ُمؤ ِم یون ِإج َوة‪... ﴾١٠...‬سورة الحجرات "مسلمان ایس میں سگے پھاب یوں کی طرح ہیں۔‬

‫اور خدبث میں ہے‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫«ال فصل لعرنی علی أ مي وال أل مي لی عرني وال أل ض لی أسود وال أل ض لی أجمر إال نال قوی أو کما قال علبہ ا لوۃ وال الم»‬
‫س‬ ‫ص‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫عج‬ ‫عج‬

‫تعبی عالفے‪ ،‬رنگ نا زنان کی وجہ سے کسی کو دوشرے تر فصتلت نہیں نلکہ یم میں سے ہللا کے تزدنک عزت واال وہ ہے جو سب سے زنادہ‬

‫میفی اور ترہیز گار ہو۔‬

‫نالسبہ پہ وہ سیق ہے جو ابچاد‪ ،‬مساوات‪ ،‬اجوت‪ ،‬ہمدردی اور تعاون کے خذنات کا مرکزی تفطہ ہے۔ حس کو ابتا کر ہم دبتا میں شر نلتد اور‬
‫ٓ‬ ‫ً‬ ‫ٓ‬
‫ناعزت ہوتے اور حس کو خیر ناد کہہ کر اج ہم انک دوشرے کی گردن کا ب نے تر مح یور ہو گنے ہیں اور پنتحتا ہمیں ابتا مسیقتل نارنک تطر ا نا‬

‫پ‬
‫ہے۔ اق ِوام غیر ہمیں تریوالہ سمجھ کر ہڑپ کرتے تر نلی نت ھی ہیں اور ہمارے مطل ِع جتات تر بتاہی و ترنادی کے نادل جھا رہے ہیں۔ اسالم‬

‫تے مساخد میں تماز ناجماغت کے ذر تعے اس سیق کو عملی رنگ میں ہمارے سامنے پیش کتا ہے۔ ؎‬
‫انک ہی ضف میں کھڑے ہو گنے مجمود و اناز‬

‫پہ کونی بتدہ رہا‪ ،‬پہ کونی بتدہ یواز!‬

‫تمام مسلمان امیر ہوں نا عربب‪ ،‬سقتد قام ہوں نا سبہ قام‪ ،‬خاکم ہوں نا مچکوم‪ ،‬ناخر ہوں نا مزدور‪ ،‬دراز قد ضحتح الحسم ہوں نا یسبہ قد اناہج اور معذور‪،‬‬
‫ٓ‬
‫پنتا ہوں نا ناپنتا‪ ،‬کم سن ہوں نا عمر رشتدہ‪ ،‬بتچانی ہوں نا شتدھی‪ ،‬نلوحی اور بت ھان‪ ،‬اذان سننے کے تعد شت ھی مشچد میں اخاتے ہیں اور وصو کر کے‬

‫انک دوشرے کے ساپہ سے ساپہ مالتے ہیں انک ہی امام کی اقتداء میں رب العزت کی نارگاہ میں مودب کھڑے ہو خاتے ہیں۔ ان سب کا‬
‫ٓ‬
‫مفصد انک اور ان کے جتاالت میں نک جہبی اور ہم اہتگی نانی خانی ہے جو اجوت کا شتگ پنتاد ہے۔ ہر روز دن میں نابچ مرببہ انہیں نہی عمل‬

‫ُدہرانا تڑنا ہے اور رسبہ اجوت و ابچاد مضیوط سے مضیوط تر ہونا خال خانا ہے۔ تماز نا جماغت کے تغیر اس کا تصور پھی ممکن نہیں اور نالسبہ اس‬

‫تعمت سے وہی معاشرہ نا قوم شرفراز ہو سکبی ہے حس کا مساخد کے ساپھ پہ یو ب نے واال تعلق موجود ہو۔‬

‫)‪(4‬مساخد کی شتاشی اہمبت‬

‫ٰ‬ ‫ص‬ ‫پ‬


‫رون اولی میں مسلمان مساخد میں صرف تماز ہی کے لنے اکت ھے‬
‫شتاشی تفطہ تگاہ سے ھی مشچد کو انک تماناں اور م یفرد ج ین بت خا ل ہے۔ ف ِ‬

‫نہیں ہوتے پھے نلکہ ان کے تمام اجتماعی‪ ،‬معاشرنی اور شتاشی مسانل کے خل کے لنے صالح و مسورے اور قیصلے وغیرہ پھی مساخد ہی میں‬
‫ٓ‬ ‫ٰ‬
‫ہنے پھے۔ ہر تماز کے تعد مچلس سوری م یعقد ہونی حس میں محتلف مسانل زتر بحث اتے اور ان کے قوری ندارک کے لنے بچاوتز اور تروگرام‬
‫ٓ‬
‫مربب کنے خاتے پھے۔ (گونا کہ پہ اس دور کی اسم تلی پھی پھی) اشی طرح ناہر سے جو وقود اور سفراء وغیرہ اتے ان سے مالقات و مذاکرات پھی‬

‫مشچد ہی میں ہوتے اور اگر کہیں لسکر کسی کا ارادہ ہونا یو اس کے لنے پھی بچاوتز مشچ د ہی میں ناس کی خانی پھیں۔ نہاں نک کہ مشچ د ب یوی‬

‫میں یو لوگ ق ی ِون خرب کی مسق پھی کتا کرتے پھے۔ جتابچہ چحضرت عایش ؓہ فرمانی ہیں کہ‪:‬‬

‫''مشچد ب یوی میں خیش کے لوگ گیکا کھتلنے اور میں حصور ﷺ کی اوٹ میں پنت ھ کر انہیں دنکھا کرنی پھی۔( ''بچاری تمعتاہ)‬

‫دور ب یوی اور اس کے تعد خالق ِت راسدہ کے زماپہ میں مشچد کو عدالت کی جین بت خاصل رہی۔ مقدمات نہیں قیصل ہوتے اور مجرموں کی‬
‫ِ‬

‫شزاپیں وغیرہ پھی نہیں بچوتز ہونی پھیں۔ خد الببہ مشچ د سے ناہر لگانی خانی پھی۔‬
‫شتاشی لچاظ سے مشچد کی اہمبت کا اندازہ اس نات سے لگانا خا سکتا ہے کہ امیر المومیین کی خالقت کے لنے مشچد کی امامت کو دلتل نکڑا خانا‬
‫ٓ‬ ‫ؓ ٓ‬
‫پھا۔ جتابچہ حضرت ایو نکر صدیق جو ابحضرت ﷺ کے تعد نہلے خلیقہ ہیں‪ ،‬کی خالقت کے لنے مسلمایوں کے تزدنک انک شتد پہ پھی پھی کہ اپ‬
‫ٓ‬
‫کو رسول ہللا ﷺ کی زندگی میں ہی امامت کا شرف خاصل ہو حکا پھا اور رسول اکرم ﷺ تے اببی عدم موجودگی نا بتماری کے انام میں اپ ہی کو‬

‫امام مفرر فرمانا پھا۔‬


‫ٓ ٓ‬ ‫ٓ‬
‫عزوات میں ابحصور ﷺ کا معمول پہ پھا کہ اگر کہیں جملے کا ارادہ فرماتے یو رات پھر ابیطار کرتے۔ صتح کو جہاں سے اذان کی اواز انی‪ ،‬وہاں‬
‫ٓ ٓ ٓ‬ ‫ٓ‬
‫جملہ کرتے سے روک د ب نے۔ جتابچہ انک سفِر جہاد میں اپ کے کایوں میں انک طرف سے ''ہللا اکیر'' کی اواز انی یو اپ تے فرمانا‪:‬‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ٰ‬ ‫ٓ‬
‫''فطری سہادت ہے۔'' اس کے تعد اپ تے ''أسہد أن ال إلہ إال ہللا'' کی اواز شبی یو فرمانا‪'' ،‬اگ سے بچات ہو گی۔( ''ضحتح مسلم)‬
‫ٓ‬
‫تمام مچاہدین کو پھی اپ ﷺ کا نہی خکم پھا‪:‬‬

‫«إذا رأبتم مشچدا أو سمعتم صونا قال تقتلوا أخدا(» ترمذی۔ ایو داود)‬
‫ٓ‬
‫کہ اگر کہیں مشچ د دنکھو نا اذان کی اواز سیو یو وہاں کسی شحص کو قتل پہ کرو۔‬
‫تع‬
‫متدرجہ ناال یوصتچات سے پہ اندازہ لگانا مسکل نہیں کہ مشچ د کو د ببی‪ ،‬لتمی‪ ،‬معاشرنی اور سماحی اہمبت کے عالوہ شتاشی لچاظ سے پھی نہت‬

‫زنادہ اہمبت خاصل پھی۔ حقیقت یو پہ ہے کہ دی ِن اسالم کی پنتاد ہی مشچد تر رکھی گبی ہے۔ مشچد ہمارا د ببی سعار ہے۔ اور کسی قوم کی زندگی‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫اس کے سعار ہی سے وایسبہ ہونی ہے۔ ٰلہذا اگر اج ہماری مشچدیں اناد اور تر رویق ہیں یو اس کا واضح مطلب پہ ہے کہ ہم غی ِ‬
‫رت اسالمی‪ ،‬اور‬

‫جمب ِت د ببی موجود ہے ورپہ۔ مفقود!‬

‫خاسبہ‬
‫ٓ‬
‫تماز نا جماغت سے معاشرہ کی اصالح ک یونکر ممکن ہے؟ ابتدہ سطور میں اس کی وصاخت کی گبی ہے۔‬

‫ٰ‬
‫مشچد افصی کی تعمیر خاپہ کغبہ کے خالیس سال تعد ہونی۔ (این خرتر‪،‬۔ خلد ‪ ،۴‬ص ‪)۷‬‬

‫رسول ہللا ﷺ کا فرمان ہے‪ ،‬ہر مچلہ میں مشچد بتاو اور انہیں صاف اور جوسیو دار رکھو۔ (ایو داود‪ ،‬ترمذی‪ ،‬این ماجہ)‬
‫القاظ پہ ہیں۔ قتلہ معلق نالمشچد إذا خرج مبہ جب ي تعود إلبہ (الچدبث)‬

‫اس سلسلہ میں تے سمار متالیں پیش کی خا سکبی ہیں لتکن اس وقت پہ موصوع بحث نہیں۔‬

‫بچاری میں پھی پہ خدبث موجود ہے لتکن اس میں ''وال الصالین'' کا ذکر نہیں۔‬

‫موجودہ دور کی مہذب اور ترفی نافبہ اقوام جن کی ہر خرکت کی تقلتد کو ہم اتمان کا درجہ د ب نے ہیں اس قدر گتدی اور ناناک رہنے کی عادی ہیں کہ‬

‫کراہت محسوس ہونی ہے لتکن واتے ند قسمبی کہ ہم انہیں اس معا ملے میں پھی ابتا ہیرو جتال کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ''مچدث'' میں‬
‫ٓ‬
‫انک مضمون ''روسن دور کی نارنکتاں'' کے ع یوان سے بجھلے ہی ماہ سا تع ہوا ہے حسے تڑھ کر اپ محسوس کریں گے کہ عاروں میں ترہبہ رہنے‬

‫واال قدیم زماتے کا ایسان پھی ان کی یسبت زنادہ مہذب پھا۔‬

‫‪ANS 04‬‬

‫ٰ‬
‫کونی تطام خکومت ہو اس میں جوب یوں کے ساپھ خامتاں پھی نانی خانی ہیں اور اس سے جمہوری خکومت پھی مسینبی نہیں ہے۔ نہی وجہ ہے‬

‫اب شتاست تے جمہوربت تر ب یقتد کی ہے اور اس کے تعض اصولوں کو علط بتانا ہے۔‬ ‫ع‬
‫کہ نہت سے اہ ِل لم اور ارن ِ‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫ً‬
‫متال ارسطو تے آزادی اور مساوات کے جمہوری تصورات تر بحث کرتے ہوتے لکھا ہے کہ لمی اور عقلی طح تر آسانی کے ساپھ ان دویوں‬

‫س‬ ‫ت ّ‬
‫صورات کی یشربح کی خاسکبی ہے لتکن بجرنی طح ترایسا کرنا مسکل ہے۔ آزادی اور مساوات کسی سماج میں ک یوں کر ممکن ہے؟ آزادی کا‬

‫ّ‬
‫طرز جتات کی تفی کرنا ہے۔ اشی طرح مساوات کا تصور ت ِظم‬ ‫ت‬
‫تصور ظم و صیط کے تصور سے میصادم ہے‪ ،‬دوشرے لفطوں میں وہ انک میعین ِ‬

‫تزرگاں)‪ ، (Hierarchy‬عمدگی اور جود اتصاف کے خالف ہے۔؂‪۶‬‬

‫ت ّ‬
‫صو ِر مساوات کی وصاخت میں ارسطو تے بیرانڈر )‪ (Perander‬کی راتے تقل کی ہے جو امیریستا )‪ (Ambracia‬کا انک ظالم خکم‬
‫ً‬
‫راں )‪(Tyrant‬پھا ۔ خب پھراسانی یولس )‪ (Thrasybulus‬تے بیرانڈر سے مسورنا یوجھا کہ اس کی رناست میں مم تاز افراد تے جو‬
‫ّ‬
‫سورش ترنا کر رکھی ہے اس سلسلے میں کتا کرنا خا ہنے؟ یو اس تے جواب میں انک لفظ نہیں کہا نلکہ اس کے سامنے متدان میں علے کی جو‬

‫فصل ک ھڑی پھی اس کے ان جوسوں کے شر اس تے کاٹ لنے جو دوشرے جوسوں سے تماناں پھے۔ اس سے پھراسانی یولس تے پہ سمجھا‬
‫کہ اسے اببی رناست کے مم تاز افراد کے شر کاٹ لننے خاہییں۔؂‪۷‬‬

‫ارسطو اصولی جین بت سے آزادی کا خامی پھا‪ ،‬لتکن مطلق آزادی کے تصور کا مچ الف پھا۔ اس کے تزدنک انک جمہوری سماج میں آزادی کا‬

‫مطلب قایون کے اندر آزادی )‪ (Freedom within the law‬ہے۔؂‪۸‬‬


‫س‬
‫لتکن اس حقیقت سے کون اتکار کرسکتا ہے کہ زنادہ تر جمہوری ملکوں کے لوگ اس آزادی کا مطلب مطلق آزادی مجھنے ہیں‪ ،‬نالحصوص وہ‬

‫لوگ جن کا تعلق عددی اعنتار سے عالب طیقہ سے ہونا ہے۔ خیرت یو پہ ہے کہ اہ ِل معرب پھی جن کو جمہوربت اور اس کی پنتادی قدروں تر‬

‫تڑا ناز ہے‪ ،‬اس قکری تے اعتدالی سے محقوظ نہیں ہیں‪ ،‬اور اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس صورت خال کو دنکھ کر عہد خاصر کے کبی انک‬

‫شتاشی مقکرین تے پہ سوال اپھانا ہے کہ کہیں ایسا یو نہیں کہ جمہوربت ہی میں کونی خرانی ہے حس کی وجہ سے وہ لوگوں کے مسانل خل‬

‫کرتے سے قاصر ہے‪ ،‬دوشرے لفطوں میں مقیصت ِ‬


‫ات زماپہ کا ساپھ پہ دے نارہی ہو۔؂‪۹‬‬

‫آزادی کے تصور کا انک دوشرا تڑا تفص پہ ہے کہ اس میں شتاشی آزادی تر زنادہ زور دنا خانا ہے اورمعاشی آزادی سے تڑی خد نک ِ‬
‫صرف تطر کتا‬

‫خانا ہے‪ ،‬حس کی وجہ سے سماج کا انک تڑا طیقہ شتاشی آزادی کے ناوجود ترفی اور جوش خالی سے مجروم رہتاہے۔ آمربت کی طرح جمہوربت میں‬

‫پھی دولت ملک کے معدودے جتد افراد ناخاندایوں میں مچدود رہبی ہے اور نہی لوگ ی ِس تردہ خکومت تراتر انداز ہوکر اس کی معاشی نالیسی کو‬

‫ا ب نے جق میں وضع کراتے میں کامتاب ہوخاتے ہیں۔ اس کا پنتچہ پہ ہونا ہے کہ جو لوگ نہلے سے امیر ہوتے ہیں وہ اور زنادہ امیر ہوخاتے‬

‫ہیں اور عربب طیقہ کی عربت میں ان کی ترفی کی پہ یسبت اصاقہ ہوخانا ہے۔ اس ِ‬
‫صورت خال کی وصاخت کرتے ہوتے جواہر الل نہرو‬

‫فرماتے ہیں‪:‬‬

‫’’لفظ جمہوربت کے نارے میں گقتگو کرنا کجھ اجھا نہیں ہے‪ ،‬نا کسی خاص ِ‬
‫طرز خکومت )‪ (Form of governance‬کے نارے میں‬

‫پہ کہتا کہ پہ سب سے اجھا‪ ،‬ناقان ِل تغ ّیر اور بیقتد سے ناالتر ہے‪ ،‬کجھ مقتد نہیں ہے۔ دراصل ہمیں اساس کولنتا خا ہنے۔ اس کی پنتاد دراصل‬

‫افراد اور جماغت دویوں کی ترفی ہے۔ تعض لوگ کہنے ہیں کہ افرادکو زنادہ اہمبت د ب تا خا ہنے‪ ،‬ک یوں کہ اشی طر تقے سے جماغت جوش خال‬

‫ہوسکبی ہے۔ کجھ دوشرے لوگ کہنے ہیں کہ جماغت (مراد رناست) جوش خال ہوگی یو افراد پھی جوش خال ہوں گے۔‬
‫طرزخکومت ہو‪ ،‬اصل خیز جو مفصود ہے وہ لوگوں کی قالح ونہ یود ہے اوراس قالح میں نہلی خیز م ّادی قالح ہے‪ ،‬تعبی پھوک‬
‫نہرخال کونی پھی ِ‬

‫اوراقالس سے آزادی۔ اس لنے کہ خب نک کونی شحص معاشی دناؤ سے آزاد نہیں ہوخانا اس سے آگے تڑھنے کی یوفع کرنا فصول ہے۔‘‘؂‪۱۰‬‬

‫وہ مزند فرماتے ہیں‪:‬‬

‫’’معاشی دناؤ کے بحت شتاشی آزادی انک نہت مچدود آزادی ہے۔ اس لنے کہ ایسان اشی وقت ترفی کرسکتاہے اور اس کی فطری صالخنییں‬

‫یسو وتما ناسکبی ہیں خب کہ وہ معاشی اور دوشرے طرح کے دناؤ سے نالکل آزاد ہوخاتے۔ ایسان کی بچلیفی صالجبت عربت وقاقہ کی خالت میں‬

‫ک یوں کر ترفی کرسکبی ہے‪ ،‬جواہ اس کوووٹ کا جق خاصل ہو۔‬

‫صورت خال کے پیش تطر تعض لوگ شتاشی آزادی سے زنادہ معاشی قالح تر زور د ب نے ہیں‪،‬؂‪ ۱۱‬جواہ اس کے عوض شتاشی آزادی سے‬
‫اس ِ‬

‫دست تردار ہونا تڑے۔ اس خل سے دوشری مسکالت بتدا ہوسکبی ہیں۔ اگر آپ لوگ فی الوافع خا ہنے ہیں کہ لوگ ترفی کریں اور اپھیں ترفی‬

‫کے موافع خاصل ہوں یو اس کے لنے معاشی آزا دی کے ساپھ شتاشی آزادی پھی صروری ہے۔‘‘؂‪۱۲‬‬

‫دوشری آزادیوں کے عالوہ جن میں عقتدہ و ضمیر کی آزادی پھی سامل ہے‪ ،‬اظہ ِار راتے کی آزادی جمہوربت کی انک تڑی جونی ہے۔ انک جمہوری‬

‫معاشرے میں ہر شحص کو عور وقکر اور بحث ومتاخبہ کی آزادی خاصل ہونی ہے‪ ،‬وہ حس جتال کو ضحتح سمجھتا ہے اس کو کسی جوف اور اند یسے‬

‫کے تغیر ظاہر کرسکتاہے۔ اس میں مچالف راتے کو پھی اہمبت دی خانی ہے۔ اس ِ‬
‫طرز عمل کا سب سے تڑا قاندہ پہ ہے کہ ضحتح تفطۂ تطر کو‬

‫عالب آتے کا موفع ملتا ہے۔ اس طرح افراد اور جماغت (رناست) دویوں علط تفطۂ تطر کے تفصانات سے محقوظ ہوخاتے ہیں۔ نہت سے اہ ِل‬

‫علم تے جمہوربت کی اس غیرمعمولی جونی کو شراہا ہے۔؂‪۱۳‬‬

‫لتکن اظہ ِار راتے کی پہ آزادی اشی وقت نک مقتد ہے خب نک وہ قایونی خدود کی نابتد ہو۔ قایونی خدود سے بچاوز کرتے کے تعد پہ آزادی قببہ و‬

‫قساد کا انک تڑا ذرتعہ ین خانی ہے۔ ہتدوشتان میں ہتدو فرقہ ترست جماع یوں کی طرف سے اس ملک کی اقلن یوں کے ساپھ جو نازب تا سلوک کتا‬

‫خانا ہے اوران کے خالف ہر طرح کی زہر اقسانی کی خانی ہے وہ آزادی کے علط اسیعمال کی انک واضح متال ہے۔‬
‫ٰ‬
‫روپہ پھی غیر جمہوری ہے‪ ،‬خاالں کہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ جمہوربت کے سب سے تڑے علم تردار ہیں‬
‫اس معا ملے میں معرنی ممالک کا ّ‬
‫اوراظہار راتے کی آزادی کو خان سے زنادہ عزتز رک ھنے ہیں۔ لتکن وہ دوشروں نالحصوص مسلمایوں کے معا ملے میں اکیراس آزادی کا علط اسیعمال‬

‫کرتے ہیں۔ ان کے خاص و عام سب اسالم اور اس کے بیعمیر تراس خد نک خارخاپہ بیقتد کرتے ہیں کہ وہ یسا اوقات نہذبب و سایستگی کی‬

‫خدوں سے بچاوز کرکے نذلتل واہابت کی خد میں داخل ہوخانی ہے۔ خب مسلمان ان کی اِ س ناسایسبہ خرکت تر اجتچاج کرتے ہیں یو کہنے ہیں‬

‫ٰ‬
‫کہ وہ اظہار راتے کی آزادی کے قانل ہیں۔ ترظایوی قایون میں حضرت عیسی علبہ السالم تر بیقتد مم یوع ہے لتکن اسالم کے بیعمیر تر بیقتد ہی‬

‫نہیں ان کی نذلتل کی ہر شحص کو آزادی خاصل ہے۔ پہ کیسا اتصاف ہے؟‬

‫لک کھ‬ ‫معرب کا پہ متافقاپہ ّ‬


‫روپہ اس وقت نا ل ل خانا ہے خب کونی شحص ہولوکاسٹ تر بیقتد کرنا ہے اور اس کی ناربچی جین بت کو م ِ‬
‫عرض بحث‬

‫میں لے آنا ہے۔ ا یسے شحص کو پہ صرف مطعون کتا خانا ہے نلکہ تعض معرنی ملکوں میں اس ب یقتد کی شزا قتد وبتد ہے۔ پہ کیسی اظہ ِار راتے‬

‫کی آزادی ہے؟ نہاں پہ نات پیش تطر رہے کہ ہولوکاسٹ حس میں کہا خانا ہے کہ ‪ ۶۰‬الکھ نہودیوں کو زندہ خال دنا گتا پھا‪ ،‬کونی مذہبی مستلہ‬

‫نہیں نلکہ انک ناربچی وافعہ ہے اوراپھی ب یوت کا محتاج ہے۔ جتال و عمل میببہ فرق اس نات کا ب یوت ہے کہ معرب اببی تمام روسن جتالی‬

‫اور وسیع المشرنی کے ناوجود اسالم اور مسلمایوں کے نارے میں میفی اور میعصتاپہ اور غیر جمہوری ّ‬
‫روپہ رکھتا ہے۔‬

‫جمہوربت کے عملی تقاتص میں انک تڑا تفص پہ ہے کہ اس میں سارے لوگ جواہ جواندہ ہوں نا ناجواندہ‪ ،‬ابتچاب میں حضہ لے سکنے ہیں اور‬

‫ق‬
‫اس کے پنتچے میں نااہل افراد پھی محض ع ّتاری نا شرماتے کے نل تر منتحب ہوخاتے ہیں۔ترظایوی لسفی خان اسیوارٹ مل (م ‪ )۱۸۷۳‬جو تمابتدہ‬

‫جمہوربت )‪ (Representative democracy‬کا زتردست خامی پھا‪ ،‬لکھتاہے‪:‬‬

‫’’جمہوربت نالسبہ صروری اور الزمی خیز ہے لتکن پہ ا ب نے اندر کجھ ترابتاں پھی رکھبی ہے۔ اس کا سب سے تڑا تفص پہ ہے کہ اس میں اکیربت‬

‫نالعموم معمولی صالجبت کے خامل افراد کو خکم رانی کے لنے منتحب کرنی ہے اوراس کا پنتچہ پہ ہوناہے کہ آزادی‪ ،‬اصلبت‬

‫)‪(Originality‬اور المرکزبت )‪ (Decentralization‬کو ی ِس یست ڈال دنا خانا ہے۔‘‘؂‪۱۴‬‬

‫جمہوربت کے تعض دوشرے عملی تقاتص پھی ہیں جن کا ذکر آگے آتے گا۔‬

‫س‬
‫جمہوربت کے ان تقاتص کے ناوجود جن کا اوتر ذکر ہوا‪ ،‬ی لتم کرنا ہوگا کہ وہ آمربت کے مقا نلے میں نہیر ِ‬
‫طرز خکومت ہے۔ آمربت میں ایسان‬
‫کے فطری حقوق سلب کر لنے خاتے ہیں اور جتد لوگ خاکم اور ایسایوں کی کبیر تعداد ان کی مچکوم ہونی ہے۔ وہ حس طرح خا ہنے ہیں ان تر‬
‫ّ‬
‫خکومت کرتے ہیں‪ ،‬جبی کہ ظلم و شتم سے پھی گرتز نہیں کرتے۔ جمہوربت میں پہ صرف ایسان کے فطری حقوق کا لچاظ کتا خانا ہے نلکہ وہ‬

‫آمروں کے ظلم و شتم سے پھی محقوظ ہوخاتے ہیں‪ ،‬ک یوں کہ زم ِام خکومت عام لوگوں کے ہاپھوں میں ہونی ہے‪ ،‬وہی ا ب نے خکم راں کا ابتچاب‬

‫کرتے ہیں اور ان کو معزول کرتے کا اخنتار پھی رکھنے ہیں۔ نال شتہہ پہ خیزجمہوری ِ‬
‫طرزخکومت کی انک تڑی جونی ہے جو کسی اور دب یوی تطام‬

‫میں موجود نہیں ہے۔ سوامی ناپھن لکھنے ہیں‪:‬‬

‫?‪“Why, despite all this, do we regard democracy as th best political system‬‬

‫‪Because it is grounded in choice for the ordinary man, and freedom to chooze is a‬‬

‫‪permanent virtue that makes other freedoms possible. In democracies, the ruler is‬‬

‫”‪choozen by ordinary citizens and voted out by them too.‬؂‪۱۵‬‬

‫’’ان سب (تقاتص) کے ناوجود ہم ک یوں جمہوربت کو انک عمدہ شتاشی تطام ج تال کرتے ہیں؟ اس لنے کہ اس کی پنتاد عام لوگوں کی یستد‬

‫ترقایم ہے‪ ،‬اور ابتچاب کی آزادی انک ایسی داتمی جونی ہے جو دوشری آزادیوں کے حصول کو ممکن بتانی ہے۔جمہوربت میں عوام ا ب نے فرماں روا‬

‫کرشی اقتدار سے ہتا د ب نے ہیں۔‘‘‬


‫کا ابتچاب کرتے ہیں اور وہی ان کو ِ‬

‫اس معا ملے میں سایق ترظایوی وزتر اعظم خرخل (م ‪۱۹۶۵‬ء) کی راتے زنادہ صابب ہے۔ ان کا جتال پھا کہ جمہوربت کونی متالی تطام‬

‫)‪(Ideal system‬نہیں ہے لتکن دوشرے شتاشی تطامات اس سے زنادہ ترے ہیں۔؂‪ ۱۶‬اس جتال سے اجتالف کی گتچایش نہت کم‬

‫ہے۔‬

‫کتا جمہوربت اور اسالم میں مطاتقت ہے؟‬

‫جمہوربت میں خکومت سازی کے عمل میں عوام کی شرکت اوراس معا ملے میں ان کی قیصلہ کن ج ین بت‪ ،‬بیز سماحی مساوات اور شتاشی و‬

‫چاب علم کا جتال ہے کہ اسالم اور جمہوربت میں مطاتقت نانی خانی ہے‬ ‫س‬ ‫ّ‬
‫معاشی آزادی کے تصورات کی جوب یوں کو دنکھ کر نہت سے م لم اض ِ‬
‫طرز خکومت ہے حس کو اخنتار کرتے میں مذہب اسالم کے تفطۂ تطر سے کونی قتاخت نہیں ہے۔ اس معا ملے میں ہمارے‬
‫اور وہ انک ایسا ِ‬

‫تعض علماء تے کجھ زنادہ ہی فراخ دلی کا مطاہرہ کتا ہے۔ جتابچہ عالمہ رشتد رصامضری تے خالقت راسدہ کو جمہوربت ہی کی انک سکل فرار دنا‬

‫ہے۔؂‪۱۷‬‬

‫ؒ‬
‫عالمہ شتلی تعمانی تے اببی معروف کتاب ’القاروق‘ میں کبی مقامات تر جمہوربت اور سوسلزم کی اضطالخات اسیعمال کی ہیں۔ اس سے ان کا‬

‫مفصود پہ دکھانا ہے کہ اسالم اور جمہوربت میں کونی معاترت نہیں ہے۔ لکھنے ہیں‪’’:‬حضرت ع ؓمر تے خالقت کے میعلق جو تفرتر کی پھی وہ در‬

‫کومت جمہوری کی اصلی تصوتر ہے اورخکومت جمہوری کی حقیقت آج پھی اس سے واضح تر وضحتح تر نہیں بتان کی خاسکبی۔‘‘؂‪۱۸‬‬
‫حقیقت خ ِ‬
‫ٰ‬
‫اس معا ملے میں تعض مسلم دایسوروں تے علو کی خد نک جمہوربت اور اسالم میں مطاتقت کا دعوی کتا ہے۔ انک صاخب فرماتے ہیں‪:‬‬

‫’’خیرت ہے کہ لوگ اس طرح کی جمہوربت رکھنے والے اسالم کے نارے میں کہنے ہیں کہ اسالم کا جمہوربت سے کونی تعلق نہیں خاالں کہ‬

‫جمہوربت کے خالف یولتا دراصل اسالم کے خالف یولتا ہے‪ ،‬جمہوربت کے خالف یولتا ہللا اور اس کے رسول کے خالف یولتا ہے۔‘‘؂‪۱۹‬‬

‫لتکن کبی معروف مسلم دایسور اور علماء جمہوربت کے ناقد ہیں اور تعض خزوی مسانہ یوں کے ناوجود اسالم اور جمہوربت میں کونی مطاتقت نہیں‬
‫ً‬
‫دنکھنے نلکہ کہنے ہیں کہ تعض معامالت میں جمہوربت اسالم سے صربچا میصادم ہے۔‬

‫صور خکومت کی تفی کی ہے۔ ان کی مشہور‬ ‫ت‬


‫عالمہ اقتال (م ‪۱۹۳۸‬ء)جمہوربت کے سدند مچالف پھے۔ اپھوں تے اببی ظم و بیر دویوں میں اس ت ِ‬

‫تظم ’حضِرراہ‘ کے درج ذنل اسعار مالحطہ ہوں ؂‬

‫ہے وہی س ِاز کهن معرب کا جمہوری تطام‬

‫حس کے تردوں میں نہیں غیر از یواتے قیضری‬

‫دیو اسنتداد جمہوری قتا میں ناتے کوب‬

‫یو سمجھتاہے پہ آزادی کی ہے بتلم تری‬

‫لس آ پین و اصالح و رعانات و حقوق‬ ‫چ‬


‫م ِ‬
‫ِّ‬
‫ظب معرب میں مزے منت ھے‪ ،‬اتر جواب آوری‬

‫گرمی گقت ِار اعصاتے مچالس‪ ،‬االماں‬


‫ِ‬

‫پہ پھی اک شرماپہ داروں کی ہے جت ِگ زر گری‬

‫اب رنگ و یو کو گلستاں سمجھاہے یو‬


‫اس شر ِ‬

‫آہ! اے ناداں ففس کو آشتاں سمجھا ہے یو؂‪۲۰‬‬

‫اقتال کا جتال ہے کہ جمہوربت دراصل شرماپہ داروں کے ذهن کی بتداوار ہے ناکہ وہ اتفرادی آزادی کے جمہوری تصور کے تردے میں کسی‬

‫رکاوٹ کے تغیر اببی بچارت کو فروغ دیں اور زنادہ سے زنادہ شرماپہ جمع کرکے جوب عیش کریں۔‬

‫پ‬
‫اقتال کا پہ ھی جتال ہے کہ جمہوربت ملوکبت ہی کی انک بتدنل سدہ صورت ہے۔ اس کا ظاہر نالسبہ حسین اور خ ِ‬
‫اذب تطر ہے لتکن اس کا‬
‫ٰ‬
‫ناطن نارنک اور تڑا ہی جوف ناک ہے۔ ان کی مشہور تظم ’انلیس کی مچلس سوری‘ کے درج ذنل اسعار مالحطہ ہوں‪:‬‬

‫دوشرا مشیر‬

‫خیر ہے سلطان ِی جمہور کا عوعا کہ شر؟‬

‫یو جہاں کے نازہ قن یوں سے نہیں ہے ناخیر‬

‫نہال مشیر‬

‫ہوں‪ ،‬مگر میری جہاں پنبی بتانی ہے مجھے‬

‫جو ملوکبت کا اک تردہ ہو کتا اس سے حطر‬

‫ہم تے جود ساہی کو نہتانا ہے جمہوری لتاس‬

‫خب ذرا آدم ہواہے جود شتاس و جود نگر‬

‫کارون ِار سہرناری کی حقیقت اورہے‬


‫پہ وج ِود میر و سلطاں تر نہیں ہے متحضر‬
‫چ ّ‬
‫م ِ‬
‫لس ملت ہو نا تروتز کا درنار ہو‬

‫ہے وہ سلطاں غیر کی کھنبی پہ ہو حس کی تطر‬

‫یو تے کتا دنکھا نہیں معرب کا جمہوری تطام‬

‫جہرہ روسن‪ ،‬اندرون جتگیز سے نارنک تر؂‪۲۱‬‬


‫س‬
‫اقتال جمہوربت کو اجمقوں کی خکومت مجھنے پھے ک یوں کہ اس میں انک خاہل اور عالم دویوں ابتچ ِ‬
‫اب خکومت میں مساوی جین بت رکھنے ہیں‪:‬‬

‫جمہوربت اک ِ‬
‫طرز خکومت ہے کہ حس میں‬

‫بتدوں کو گتا کرتے ہیں‪ ،‬یوال نہیں کرتے؂‪۲۲‬‬

‫طرز جمہوری‪ ،‬ع ِالم بحبہ کارے سو‬


‫گرتز از ِ‬

‫کہ از معِز دو صد خر قکر ایسانی تمی آند‬

‫معلوم ہے کہ جمہوربت میں مذہب انک اتفرادی معاملہ ہے‪ ،‬رناست کا اس سے کونی تعلق نہیں اور اقتال کے تزدنک رناست اور مذہب میں‬

‫ٰ‬
‫خدانی ممکن نہیں‪ ،‬ک یوں کہ مذہب کی رو سے خدا ہی خاکم اعلی ہے اور بتدوں کو اشی کے قایون کی اظاغت کرنی ہے‪ ،‬خب کہ جمہوربت میں‬

‫معاملہ اس کے ترعکس ہے۔ اس میں خدا کے بچاتے عوام ہی خاکم اور قایون ساز ہوتے ہیں۔ اقتال ہر اس شتاشی تطام کو حس میں مذہب‬

‫کو قتادت کا مقام خاصل پہ ہو‪ ،‬جتگیزی خکومت فرار د ب نے ہیں ؂‬

‫الل نادساہی ہو کہ جمہوری تماسا ہو‬


‫خ ِ‬

‫خدا ہو دیں شتاست سے یو رہ خانی ہے جتگیزی؂‪۲۳‬‬


‫ّ‬
‫اقتال تے ا ب نے تعض مصامین میں پھی جمہوربت کے نارے میں ا ب نے ذہبی بحفطات کا اظہار کتا ہے۔ معروف معرنی دایسور بتگ ہس ینتڈ کے‬

‫انک مضمون تر اظہار جتال کرتے ہوتے اپھوں تے لکھا ہے کہ ’’جمہوربت کے ساپھ جھگڑے اور قساد الزم و ملزوم ہیں۔ اگر کونی شحص پہ‬
‫جتال کرے کہ جمہوربت کامل شتاشی سکون کی صامن ہے یو وہ دبتا کی ناربخ سے نالکل ناوافف ہے۔ حقیقت اس کے نالکل ترعکس ہے۔‬

‫جمہوربت میں ایسی تمام جواہسات اور سکانات کو پھر سے اپھرتے کا موفع ملتا ہے جت ھیں شحصی خکومت کے دور میں دنا دنا گتاہو نا یورا پہ کتا‬

‫گتا ہو۔ جمہوربت ایسی آرزوؤں اور تم تاؤں کی موخد ہونی ہے جو یسا اوقات ناقان ِل عمل ہونی ہیں۔‘‘؂‪۲۴‬‬

‫ؒ‬
‫ہتدوشتان کے معروف عالم اور مف ّشِر فرآن عالمہ جم تد الدین فراہی (م ‪۱۹۳۰‬ء) اشیراکبت؂‪ ۲۵‬اور جمہوربت دویوں کے متکر پھے۔ وہ جمہوربت‬

‫کے میعلق لکھنے ہیں‪:‬‬

‫’’قوصی (ایسی خکومت حس میں سب کی جین بت مساوی ہو) عریوں کے تزدنک انک نایستدندہ طرتقۂ خکومت پھا اور اسے وہ اجمقوں کی خکومت‬
‫ّ‬
‫فرار د ب نے پھے لتکن اس وقت معرب میں نہت سے لوگ اس طرز خکومت کے داعی و متلغ ہیں اور اس سے عوام کو گم راہ کرتے ہیں‪ ،‬مگر‬

‫ٰ‬
‫پہ طرتقہ پھی نہلے ِ‬
‫طرز خکومت کی طرح قببہ اور تطام ایسانی کی سکست و ربحت کا انک ذرتعہ ہے۔ ہللا تعالی تے فرمانا ہے‪ :‬اطیعوااَّللہ و اطیعوا‬

‫الرسول واولی االمر متکم (سورۂ یسآ‪’’ )۵۹:‬ہللا کی اظاغت کرو اور رسول کی اظاغت کرو اورجو یم میں صاخب امر ہوں ان کی پھی۔ دوشری خگہ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ہے‪ :‬وامرہم سوری پنتهم (سوری‪’’ )۳۸ :‬اور ان کے معامالت ناہم مسورہ سے ابچام ناتے ہیں۔‘‘؂‪۲۶‬‬

‫ؒ‬
‫موالنا امین احسن اصالحی (م ‪۱۹۹۸‬ء) کا پھی جتال پھا کہ جمہوربت اسالم کے نالکل ترخالف تصور خکومت ہے۔ انک سوال کے جواب میں‬

‫فرماتے ہیں‪:‬‬

‫’’نارنکی اور روشبی میں‪ ،‬رات اور دن میں‪ ،‬ندی اور بتکی میں جو فرق ہے وہی جمہوربت اور اسالم میں ہے۔ آپ قلسقہ کی رو سے پھی عور کرلیں۔‬

‫آپ جمہوربت کی تعرتف کریں۔ عوام کی خکومت‪ ،‬عوام کے لنے‪ ،‬عوام کے ذرتعہ سے‪ ،‬عوام کی نہ یود کے لنے‪ ،‬نہی تعرتف ہے آپ کسی خگہ‬

‫تڑھ لتحنے۔ اسالم میں ہللا کی خاکمبت‪ ،‬ہللا کی خکومت‪ ،‬ہللا کے قایون کے ذرتعہ سے‪ ،‬ہللا کے ما ب نے والوں کے لنے‪ ،‬مونی شی پہ تعرتف ہے‪،‬‬

‫کہیں تڑھ لیں۔ اب ان دویوں میں ذرا جوڑ مال ب نے۔ ہے کونی جوڑ ملتا ہوا‪ ،‬کونی نک ہے۔‘‘‬

‫‪ANS 05‬‬
‫اقتال کو محتلف الجہات کماالت تضبب ہوتے‪ ،‬ان کا انک کمال پہ پھی ہے کہ معرب میں خا کر ‪ ،‬رہ کر‪ ،‬تڑھ کر پھی‪ ،‬اس طرح سے معرب‬
‫ُ‬
‫زدہ نہیں ہوتے حس طرح سے اس دور کے نا کجھ آگے بتجھے کے ادوار میں‪ ،‬یورپ خاب یوالوں میں پیشیر مشرقین اببی مشرفی لنتا ہی معرب میں‬

‫ڈیو پنت ھے۔ شر شتد اجمد خان ‪17‬اک یوتر ‪1817‬ءدہلی ‪ 28‬مارچ ‪1898‬ءعلی گڑھ) خیسے زعماءپھی تقلتد معرب کی عالمت ین گنے۔ اقتال‬

‫ناکمال التا معرب تر کڑی بیقتد کرتے ہیں۔ معرنی نہذبب تے یو اقتال کا کتا تگاڑنا پھا التا نہذبب معرب کو مبہ کی کھانا تڑی۔ پیسن گونی سے‬

‫لیرتز پہ سعر اقتال تڑھنے اور خاالت و ناربخ میں دنکھنے کتا جوب شچانی تطر آنی ہے۔ فرماتے ہیں کہ‪:‬‬

‫پہ نہذبب آپ ا ب نے جتجر سے جود کسی کرے گی‬

‫جو ساخ نازک پہ آشتاپہ ب نے گا نانابتدار ہوگا‬

‫دبتا تے دنکھا کہ دو عظتم ترین عالمی ظاق یوں میں سے انک تعبی روس جو ‪1917‬ءمیں خدند الدین روشی سلظبت معرض وجود میں آنی اور کارل‬

‫مارکسی تطرپہ کے بچاری لیین اور اس کے بیروکاروں کے نل یوتے تر تروان خڑھی پھی ناآلخر تغیر کسی بیرونی جملے کے جود کسی کرکے یوٹ‬

‫پھوٹ گبی اور اس کی راکھ کے ڈھیر سے درجن پھر کے فربب مسلم رناشییں وجود میں آ گییں۔ سعر ناال کی شچانی تر پہ عظتم وافعہ جود کسی‬

‫ع ٰ‬
‫سلظبت ظمی کتا جوب داللت کرنا ہے۔‬

‫معرب کی زن یستدناں اقتال کو انک آنکھ نہیں پھاپیں۔ وہ اس طوقان سیظبت سے یوں بچ کر تکلنے ہیں خیسے فطرت جود انہیں سنت ھالے‬

‫ہوتے ہے‪ :‬ع‬

‫”کہ فطرت جود بچود کرنی ہے اللے کی جتا بتدی“‬

‫معرب کی معرب بت کے انک اہم اور مشہور مرکز سہر لتدن میں جہاں صتح صادق و اشراق یو کتا ساند خاست کے وقت میں پھی خاگ خاتے کا‬

‫ماجول پہ پھا‪ ،‬وہاں اقتال آداب ِ شجر خیزی کو حس طرح زندہ ر کھے ہوتے پھے پہ وہاں انہی کا خاصہ پھا بت ھی یو نہابت اطمنتان و اقتچار پھرے‬

‫لہچے میں یوں کہا ہے‪:‬‬

‫”زمستانی ہوا میں گرجہ پھی سمشیر کی بیزی‬


‫ُ‬
‫پہ جھوتے مجھ سے لتدن میں پھی آداب شجر خیزی“‬

‫(نال خیرنل)‬
‫ٰ‬ ‫ً‬
‫نار لوگ عموما مشرق سے معرب نہتچ کر اببی مشرفی اوقات پھول خاتے ہیں۔ انک اقتال ہیں کہ انہیں رومة الكیری میں پھی دلی نہیں پھولی‪:‬‬
‫ٰ‬
‫سوادرومة الكیری میں دلی ناد آنی ہے‬
‫” ِ‬

‫وہی غیرت وہی عظمت‪ ،‬وہی س ِان دآلوتزی“‬

‫(نال خیرنل)‬
‫ن‬ ‫ت ن‬
‫علتم کم تل کو کتا ہتچی اقتال کتلنے معرب میں انک دن پھی رکتا مچال ہوا۔ مزند پھہرتے پھی یو ک یونکر! کہ ان کا ج یون انہیں کساں کساں‬

‫لنے آنا پھا‪:‬‬

‫”فرنگ میں کونی دن اور پھی پھہر خاﺅں‬

‫میرے ج یوں کو سنت ھالے اگر پہ وتراپہ“‬

‫(نال خیرنل)‬

‫ت‬ ‫ت‬
‫دن ِار غیر سے ببی علتم ناتے کا سوق عالمہ اقتال کو معرب میں لے یو گتا اور خدند رسمی علتم خاصل پھی کی لتکن اعنتار کے افکار و بحتالت کی‬

‫گدانی اقتال کی جودی کو ک یوں کر گوارا ہونی‪:‬‬

‫”اعتار کے افکار و بحتل کی گدانی!‬

‫کتا بجھ کو نہیں اببی جود نک پھی رسانی؟“‬

‫(صرب کلتم)‬

‫یورپ کو ظاہر ترست‪ ،‬مادہ ترست اور ندن یستد نانا یو روح اقتال تڑپ کر تکار اپھی‪:‬‬

‫”رفص“‬
‫”جھوڑ یوروپ کتلنے رفص ندن کے جم و بتچ‬
‫ہ‬
‫روح کے رفص میں ہے صرب کلتم اللہی!‬
‫ُ‬
‫صلہ اس رفص کا ہے یستگی ¿ کام و دهن‬

‫صلہ اس رفص کا ہے درویسی و سہیساہی“!‬

‫ت‬
‫معرب میں قتام وہ پھی حصول علتم خدند کتلنے! پھال اقتال‪ ،‬کارل مارکس کی آواز سن کر تڑتے تغیر کیسے رہ سکنے پھے۔ جتابچہ تکار ا پھے‪:‬‬

‫”کارل مارکس“‬

‫پہ علم و خکمت کی مہرہ نازی پہ بحث نکرار کی تمایش‬

‫نہیں ہے دبتا کو اب گوارہ تراتے افکار کی تمایش‬

‫تری کتایوں میں اے خکتم معاش رکھا ہی کتا ہے آخر‬

‫حطوط جم دار کی تمایش! مرتز و کچدار کی تمایش!‬

‫جہان معرب کے بتکدوں میں کلیساﺅں میں مدرسوں میں‬

‫ہوس کی جوترتزناں جھتانی ہے عقل عتار کی تمایش!‬

‫(صرب کلتم)‬

‫ایستاءمیں جودی کی موت کا م یطر نامہ یو اقتال کی روح میں لرزا ظاری کرنا ہی ہے یوروپ میں ضمیر کی موت دنکھ کر دل پھی تڑپ اپھتا ہے‪:‬‬

‫”پہ ایستا میں پہ یوروپ میں سوزوساز جتات‬

‫جودی کی موت ہے پہ‪ ،‬اور وہ ضمیر کی موت“‬

You might also like