Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 39

‫منحوس سے معصوم تک‬

‫قسط نمبر ‪19‬‬

‫کھیتوں میں شیرو مہوش کے بارے میں ہی‬


‫سوچتا رہتا ہے ‪ . . .‬شام جب ڈھلنے لگتی ہے‬
‫تو راجو اس کے پاس آ جاتا ہے ‪ . . .‬راجو کو‬
‫دیکھ کر شیرو خوش ہو جاتا ہے ‪. . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫کیسی ہے مہوش ؟ وہ ٹھیک تو ہے نہ ؟‬
‫وہ آج آئی کیوں نہیں ؟ کہیں کوئی بات تو نہیں‬
‫اس کے گھر پر ؟ ‪. . . .‬‬

‫راجو ‪:‬‬
‫ارے میرے مجنوں ٹھہر زرا صبر کر اتنا اتاول‬
‫کیوں ہو رہا ہے ‪ . . . .‬کچھ نہیں ہوا تیری لیلی‬
‫کو ‪ . . .‬شہناز بول رہی تھی کہ مہوش کو بس‬
‫آج ہلکا سا بخار ہوگیا تھا ‪ . . .‬کل اسے کوئی‬
‫چوٹ لگ گئی تھی گرنے سے جس کی وجہ سے‬
‫یہ ہوا ہے ‪ . . .‬اور آج اس نے سارا دن آرام کیا‬
‫ہے کل وہ جائے گی کالج ‪. . . .‬‬

‫شیرو سمجھ گیا تھا مہوش نے چوٹ کا بہانہ‬


‫بنایا تھا ‪ . . . .‬اپنی بگڑی ہوئی چال کو چھپانے‬
‫کے لیے اور پہلی چدائی میں جو اس کی چوت‬
‫پھٹنے سے اس کا خون نکال ہے شاید اسی سے‬
‫بخار ہوگیا ہو ‪. . .‬‬

‫شیرو کو مہوش کی طبیعت کے بارے جان کر‬


‫تسلی ملتی ہے اور اس کی ساری پریشانی ختم‬
‫ہو جاتی ہے ‪ . . .‬پھر شیرو راجو کو شاکر کے‬
‫بارے میں بتاتا ہے کہ ‪ . . .‬کیسے اس نے اس‬
‫کی طبیعت سے ٹھکائی کی ہے ‪ . . .‬تو راجو‬
‫بہت خوش ہوتا ہے ‪ . . .‬مگر شیرو مامی والی‬
‫بات گول کر دیتا ہے ‪. . . .‬‬
‫کھیتوں سے شام کو لوٹ کر شیرو سب کے‬
‫ساتھ كھانا کھاتا ہے ‪. . .‬‬

‫سرور ‪:‬‬
‫‪ 3‬دن بعد شاکر کو اسپتال سے چھٹی مل جائے‬
‫گی ‪ . .‬مگر اسے ابھی بیڈ ریسٹ چاہیے ‪ . . .‬ہم‬
‫اسے گھر تو اب کسی قیمت پر نہیں ل سکتے ‪. .‬‬
‫‪ .‬اور اسے ایسے چھوڑنا بھی غلط ہوگا اِس‬
‫لیے دلدار تم اپنے سالے کو بالوا لو تاکہ وہ‬
‫اپنے بیٹے کو آکر لے جائے ‪. . . .‬‬

‫دلدار ‪:‬‬
‫دِل تو کرتا ہے اپنے ہاتھوں سے اس کی جان‬
‫لے لوں ‪ . . .‬مگر اپنے ماں باپ کا وہ اکلوتا‬
‫وارث ہے ‪ . . .‬اِس لیے ان کے نام پر چھوڑ دیا‬
‫‪...‬‬
‫آپ بے فکر رہیں ‪ . . .‬میں ان کو بول دوں گا‬
‫اور ساتھ میں ان کی بھی اچھی خاطر داری‬
‫کروں گا جب وہ آئیں گے ‪ . . .‬پتہ نہیں کیسی‬
‫تربیت دی ہے ‪. . .‬‬

‫سرور ‪:‬‬
‫جانے دو دلدار ‪ . . .‬اولد اگر گندی نکل آئے تو‬
‫یہ کیا کم سزا ہے ماں باپ کے لیے ‪ . . .‬تم بس‬
‫انہیں بال لو پرسوں ‪. . . .‬‬

‫کھانے سے فارغ ہو کر سب اپنے اپنے کمروں‬


‫میں چلے جاتے ہیں ‪ . . .‬آج بختیار اسپتال میں‬
‫روکتا ہے ‪. . .‬‬
‫دیبا کل کی حرکت سے شرمندہ تھی اِس لیے وہ‬
‫آج شیرو کے کمرے میں نہیں جاتی ‪. . . .‬‬
‫وہیں بختیار کے نہ ہونے سے ماہرہ شیرو کے‬
‫روم میں چلی جاتی ہے ‪ . . .‬اور مزے سے دو‬
‫رائونڈ چدائی کرواتی ہے شیرو سے ‪. . . .‬‬
‫چدائی کے دوران ماہرہ شیرو سے اس کی‬
‫پریشانی کا سبب پوچھتی ہے ‪ . . . .‬شیرو پہلے‬
‫انکار کر دیتا ہے مگر ماہرہ سچ اگلوا ہی لیتی‬
‫ہے ‪. . . .‬‬
‫شیرو ماہرہ کو مہوش کے ساتھ ہوئی چدائی‬
‫کے بارے میں بتا دیتا ہے ‪ . . .‬ماہرہ خوش ہو‬
‫جاتی ہے مگر یہ بھی ہدایت دیتی ہے کہ ‪. . .‬‬
‫وہ کنواری ہے اِس لیے کوئی غلطی مت کرنا‬
‫اپنی پڑھائی ختم ہونے تک ابھی صرف پڑھائی‬
‫پر دھیان دو ‪ . . . .‬ایسے ہی تھوڑی دیر باتیں‬
‫کرنے کے بعد دونوں سو جاتے ہیں ‪. . .‬‬

‫اگلے دن مہوش اسکول میں شیرو سے ملتی‬


‫ہے شیرو اسے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے ‪. . .‬‬
‫‪.‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫تم کل نہیں آئی مجھے کتنی فکر ہو رہی تھی ‪. .‬‬
‫‪ ، .‬اب کیسی طبیعت ہے آج تمہاری ؟‬
‫مہوش ‪:‬‬
‫پتہ ہے آپ کتنے پریشان تھے میری وجہ سے ‪.‬‬
‫‪ ، .‬شہناز کو دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی‬
‫کہ ‪ . . .‬اسے آپ نے ہی بھجوایا ہے ‪ . . .‬اور یہ‬
‫اچھی بات ہے آپ کی خود ہی درد دیتے ہو پہلے‬
‫اور پھر خود ہی پریشان ہونے لگتے ہو ‪. . .‬‬

‫مہوش شیرو کو ریلکس کرنے کے لیے بات‬


‫مذاق میں ٹال دیتی ہے ‪. . . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫تمہیں کالج میں نہ دیکھ کر میرے دماغ میں پتہ‬
‫نہیں کیسے کیسے خیال آ رہے تھے ‪. . . .‬‬

‫مہوش ‪:‬‬
‫آپ تو ایسے ہی گھبرا گئے ‪ . . . .‬ارے یہ سب‬
‫پہلی بار ہوتا ہی ہے ‪ . . .‬میری کزن نے بتایا تھا‬
‫جب اس کی سہاگ رات تھی تو اس کے بعد دو‬
‫دن تک وہ بستر سے نہیں اٹھی تھی میں تو پھر‬
‫بھی اچھی بھلی ہوں ‪. . . .‬‬

‫شیرو مہوش ایسے ہی بریک میں باتیں کر کے‬


‫اپنی کالس میں چلے جاتے ہیں ‪ . . .‬اور پھر‬
‫شیرو کالج سے گھر آ جاتا ہے ‪. . . .‬‬

‫سارا دن ایسے ہی نکل جاتا ہے ‪ . . .‬اور رات‬


‫میں پھر ماہرہ بختیار کو نیند کی دوا دینے کے‬
‫بعد شیرو کے پاس جاتی ہے ‪ . . .‬اور چدائی‬
‫کروا کر واپس آ جاتی ہے ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ جب چدائی کروا کر شیرو کے کمرے سے‬


‫واپس آ رہی تھی ‪ . . .‬تو ایک شخصیت جاگ‬
‫رہی تھی ‪ . . .‬جو ماہرہ کو شیرو کے کمرے‬
‫سے رات کے دو بجے نکلتے ہوئے دیکھ لیتی‬
‫ہے ‪. . . .‬‬
‫وہ شخصیت ‪:‬‬
‫ماہرہ اتنی رات کو شیرو کے کمرے میں کیا کر‬
‫رہی تھی ؟‬
‫کہیں شیرو کی طبیعت تو نہیں خراب ؟‬
‫مگر اس نے کسی اور کو کیوں آواز نہیں دی ؟‬
‫آخر چل کیا رہا ہے ‪ . . .‬کہیں واقعی تو شیرو کی‬
‫طبیعت خراب تو نہیں ؟‬
‫مجھے دیکھ لینا چاہیے ‪. . .‬‬
‫پھر وہ شخصیت شیرو کے کمرے کی طرف آتی‬
‫ہے ‪ ، . . .‬دروازہ بند تھا مگر لوک نہیں تھا‬
‫اِس لیے وہ شخصیت جب دروازے کو کھولنے‬
‫کی کوشش کرتی ہے تو دروازہ کھل جاتا ہے ‪. .‬‬
‫‪..‬‬
‫کمرے کے اندر نائٹ بلب کی ہلکی روشنی تھی‬
‫مگر وہ شخصیت اچھی طرح دیکھ پا رہی تھی‬
‫کہ ‪ . . .‬شیرو کا جسم کمر سے اوپر بالکل ننگا‬
‫تھا اور وہ سو رہا تھا ‪ . . . .‬بستر پر بیڈ شیٹ‬
‫پوری است وست تھی ‪. . . .‬‬
‫ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ شخصیت دروازہ‬
‫بند کر کے ُچپ چاپ اپنے کمرے میں لوٹ آتی‬
‫ہے ‪ . . .‬اور شیرو اور ماہرہ کے بارے میں‬
‫سوچتے ہوئے سو جاتی ہے ‪. . . .‬‬

‫صبح شیرو اپنی روٹین سے کالج جاتا ہے ‪. . .‬‬


‫آج ٹیچر فائنل ایگزامس کی تاریخ بتا دیتے ہیں ‪.‬‬
‫‪ . .‬بورڈ کی کالس ہونے کی وجہ سے پیر سے‬
‫سب کو کالج سے فری کر دیا گیا ‪ . . .‬اور‬
‫ایگزامس کی تیاری گھر بیٹھ کر کرنے کو کہہ‬
‫دیا گیا ‪. . . .‬‬
‫امتحانات دس دن بعد شروع ہونے والے تھے ‪.‬‬
‫‪ . .‬کالج سے گھر آکر شیرو سب کو اپنے‬
‫امتحانات کا بتا دیتا ہے ‪. . . .‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫ٹھیک ہے پیر سے تو کہیں باہر نہیں جانا ‪. . .‬‬
‫نہ کسی دوست سے ملنا نہ ہی کھیتوں میں جانا‬
‫‪، ...‬‬
‫فائنل ایگزامس ہے دل لگا کر پڑھو اور اچھے‬
‫مارکس لے کر پاس ہو ‪. . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫اما اتنے دن تو میں بَور ہو جاؤں گا ‪ . . .‬کم سے‬
‫کم کھیتوں میں جانے کی تو اجازت دے دیجئے ‪.‬‬
‫‪..‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫بالکل نہیں اور تو کھیتوں میں کیا کرے گا ‪. . .‬‬
‫ایگزامس دینے کے بعد لگے رہنا کھیتوں میں ‪.‬‬
‫‪..‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫اما میری پوری تیاری ہے آپ فکر نہ کریں ‪. . .‬‬
‫میں سب کر لوں گا ‪. . . .‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫ایک بار کہہ دیا تو کہہ دیا بس ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫باجی ٹھیک کہہ رہی ہے ‪ . . .‬بس تھوڑے دنوں‬
‫کی تو بات ہے ویسے بھی چاہے تو نے ساری‬
‫تیاری کی ہوئی ہے ‪ . . .‬لیکن بار بار اپنی تیاری‬
‫کو اور پکا کر اور کالج میں اول پوزیشن لے کر‬
‫دیکھا ‪. . .‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫اب صرف پڑھائی پر ہی دھیان دینا باقی سب کم‬
‫بند کر دے ‪. . .‬‬
‫كھانا کھانے کے بعد سب آرام کرنے چلے جاتے‬
‫ہیں ‪ . . .‬نائلہ شیرو کو آج سے ہی گھر میں رہ‬
‫کر پڑھائی کرنے کا بول دیتی ہے ‪. . .‬‬

‫شام تک شیرو اپنے کمرے میں ہی آرام کرتا ہے‬


‫‪...‬‬
‫اور شام کو بیٹھ کر پڑھنے لگتا ہے ‪. . . .‬‬
‫اسپتال میں آج رات کو سرور روکنے وال تھا ‪. .‬‬
‫‪ .‬رات کا كھانا سب مل کر کھاتے ہیں ‪ . . .‬دلدار‬
‫اور بختیار گھر پر تھے سرور جا چکا تھا ‪. . .‬‬
‫كھانا کھا کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے‬
‫جاتے ہیں سونے ‪. . .‬‬

‫شیرو کمرے میں آ کر پڑھنے لگتا ہے ‪. . .‬‬


‫رات کو بارہ بجے کے بعد ماہرہ کمرے میں آ‬
‫جاتی ہے اور شیرو پڑھائی کر رہا تھا ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫ہم م م ‪ . . .‬تو آج سے ہی کام شروع کر دیا تم‬
‫نے ‪. . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫اما نے آج سے ہی کھیتوں میں جانے سے منع‬
‫کر دیا تو سوچا آج سے تیاری بھی شروع کر‬
‫دی جائے ‪. .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫یہ تم نے اچھا سوچا اگر کسی بھی مدد کی‬
‫ضرورت ہو پڑھائی میں تو بنا ججھک کے بتا‬
‫دینا مجھے خوشی ہوگی ‪. . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫ضرور مامی جی آپ کو ہی تو بتاتا ہوں پہلے‬
‫بھی ‪. . .‬‬
‫ماہرہ ‪:‬‬
‫اور ایک بات ‪ . . .‬اب تمھارے ایگزامس آ گئے‬
‫ہیں ‪ . . .‬تو ہم تمھارے ایگزامس ختم ہونے تک‬
‫سیکس نہیں کریں گے ‪. . . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫آپ اتنی ٹینشن مت لیجیے میں مینج کر سکتا‬
‫ہوں ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫نہیں میں چاہتی ہوں تم صرف اسٹڈی پر‬
‫کونسنٹریٹ کرو ‪ . . .‬اور پوزیشن لو تاکہ آگے‬
‫پڑھائی کر کے اپنی لئف کو سیٹ کر سکو ‪. . .‬‬
‫ورنہ تم بھی یہیں کھیتوں میں ہی پھنس کر رہ‬
‫جاؤ گے ‪. . . . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫مامی جی میں آگے پڑھنا تو چاہتا ہوں ‪ . . .‬مگر‬
‫جو سکون یہاں گاؤں کی مٹی میں مجھے ملتا‬
‫ہے وہ شہر میں نہیں ملے گا ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫وہ بعد کی بات ہے ‪ . .‬کیا کرنا ہے کیا نہیں فی‬
‫الحال تمھارے ایگزامس ہیں تو کل سے سیکس‬
‫بند ‪. . .‬‬

‫شیرو ‪:‬‬
‫کل سے ؟‬

‫ماہرہ ‪ ( :‬مسکراتے ہوئے )‬


‫آج آخری بار اس کے بعد ایگزامس ختم ہونے‬
‫کے بعد ‪. . .‬‬
‫شیرو اپنی کتابیں بند کر کے ماہرہ پر ٹوٹ پڑتا‬
‫ہے اور اس کی دھواں دار چدائی کرتا ہے ‪. . .‬‬
‫کیونکہ اس کے بعد ایک مہینے تک اسے دوبارہ‬
‫موقع نہیں ملنے وال تھا ‪ . . . .‬اِس لیے شیرو‬
‫آج ہی ساری کسر نکل دینا چاہتا تھا ‪. . .‬‬
‫شیرو ماہرہ کو ساری رات اپنے لنڈ پر ناچاتا‬
‫رہتا ہے اور ماہرہ بھی مزے لے لے کر چدائی‬
‫کرواتی رہتی ہے ‪. . . .‬‬
‫صبح چار بجے تک تین رائونڈ چدائی کر کے‬
‫دونوں تھک گئے تھے ‪ . . . .‬ماہرہ بڑی مشکل‬
‫سے خود کو سنبھال کر اپنے کمرے میں لوٹ‬
‫جاتی ہے ‪. . .‬‬

‫مگر آج دو آنكھوں نے شیرو اور ماہرہ کی رس‬


‫لیال کا لئیو شو دیکھا تھا ‪ . . .‬اور اس‬
‫شخصیت کی ہوس اِس شو کے بعد بہت بھڑک‬
‫گئی تھی ‪. . . . .‬‬
‫مگر مامی بانجھے کا یہ ناجائز رشتہ جان کر‬
‫اس کو غصہ بھی بہت آ رہا تھا ‪. . . .‬‬
‫آدھے گھنٹے تک ماہرہ کو شیرو کا تگڑا لوہے‬
‫جیسا لنڈ ُچوستے اور اس لوڑے کی سواری‬
‫کرتے دیکھ کر ‪ . . .‬وہ شخصیت حیران تھی ‪. .‬‬
‫‪ .‬اور اس کی چوت سے پانی کی ندیاں بہنے‬
‫لگی تھی ‪، . . .‬‬
‫سارا جسم ہوس سے گرم ہو کر کانپنے لگا تھا‬
‫‪ . . .‬چدائی کا لئیو شو دیکھتے دیکھتے ہی اس‬
‫شخصیت کے کپڑے چوت کے پانی سے بھیگ‬
‫گئے تھے ‪ . . .‬اور چوت کا رس چوت سے بہتا‬
‫ہوا پاؤں کی ایڑیوں تک پہنچ گیا تھا ‪ . . . .‬اور‬
‫زیادہ اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ‬
‫شخصیت ایک بار باتھ روم میں جا کر اپنی پھدی‬
‫میں انگلی کرتی ہے ‪ . . .‬اور پھر سے پانی بہا‬
‫کر خود کو پرسکون کرتی ہے ‪ . .‬مگر اس کی‬
‫آنكھوں میں بار بار شیرو کا ہی لنڈ گھوم رہا تھا‬
‫‪.....‬‬
‫رات دیر تک جاگنے اور چدائی کی محنت سے‬
‫شیرو صبح دیر تک سوتا رہتا ہے اور ماہرہ بھی‬
‫دیر سے جاگتی ہے ‪. . .‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫آج کیا بات ہے ‪ . . .‬دونوں مامی بھانجے دیر‬
‫تک سوئے ‪ ، . .‬کیا کرتے رہے رات بھر ‪. . . .‬‬

‫نائلہ دیبا کے سوال سے ہڑبڑا جاتی ہے ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫وہ ‪ . . .‬وہ میں تو اپنے کمرے میں ہی تھی‬
‫مجھے کیا پتہ شیرو کا ‪. . . .‬‬

‫نائلہ ‪:‬‬
‫میں نے کب کہا تجھے پتہ ہے ‪ . . .‬میں نے تو‬
‫اِس لیے پوچھا کہ تم آج دیر سے اٹھی روز تو‬
‫جلدی اٹھ جاتی ہو ‪ . . .‬اور وہ بھی ابھی جاگا‬
‫ہے آج اکھاڑے بھی نہیں گیا ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫کیا باجی آپ بھی ‪، . . .‬‬
‫لگتا ہے دیوار جی نے سونے نہیں دیا ہوگا ‪. .‬‬
‫‪ .‬ہی ہی ہی‬

‫ماہرہ شرما جاتی ہے ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫کیا باجی آپ بھی شروع ہوگئی ‪ . . .‬ایسی کوئی‬
‫بات نہیں ہے اور رہی شیرو کی بات تو وہ ساری‬
‫رات پڑھائی کر رہا تھا ‪ . . .‬میں دودھ دینے گئی‬
‫تھی تو میں نے دیکھا تھا ‪. . . .‬‬

‫شیرو ناشتہ کر کے کالج چال جاتا ہے ‪. . .‬‬


‫گھر کے کام سے فری ہوکر نائلہ اپنے کمرے‬
‫میں چلی جاتی ہے اور ماہرہ اپنے کمرے میں ‪.‬‬
‫‪ . . .‬دیبا ماہرہ سے ملنے اس کے کمرے میں‬
‫جاتی ہے ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ دیبا کو کمرے میں دیکھ کر ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫باجی آپ ؟ ‪ . . .‬مجھے آواز دے دیتی میں آ‬
‫جاتی آپ کے پاس ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫کیوں ‪ ، . . .‬میں نہیں آ سکتی کیا ؟‬
‫ویسے بھی مجھے تم سے بات کرنی تھی اسی‬
‫لیے میں چلی آئی ‪. . . .‬‬
‫ماہرہ ‪:‬‬
‫کہیے کیا بات کرنی تھی ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫اتنے سالوں بعد تم ماں بننے جا رہی ہو کیسے‬
‫لگتا ہے تمہیں ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫کیا بتاؤں باجی ‪ . . .‬میں کتنی خوش ہوں ‪. . .‬‬
‫میری سن لی گئی ‪ . . .‬مجھ سے تو انتظار نہیں‬
‫ہو رہا بس جی چاہتا ہے ‪ . . .‬جلدی سے میں‬
‫ماں بن جاؤں اور اپنے بچے کو اپنی گود میں‬
‫کھالؤں ‪ . . .‬دُنیا بھر کی باتیں سن سن کر میرے‬
‫کان پک گئے تھے ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫ویسے یہ سب ہوا کیسے ‪ . . .‬میرا مطلب ہے‬
‫کے شادی کے اتنے سالوں تک تم ماں نہیں بن‬
‫پائی ‪ . . .‬اور اب اچانک یہ سب کیسے ہوگیا یہ‬
‫کرشمہ کیسے ہوا ؟‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫مطلب ؟‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫مطلب یہ کے اِس بچے کا اصلی باپ کون ہے ‪. .‬‬
‫‪.‬‬

‫ماہرہ دیبا کی بات سنتے ہی غصے میں آ جاتی‬


‫ہے اور دیبا سے کہتی ہے ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫یہ آپ کیا کہہ رہی ہے باجی ‪ . . .‬آپ ہوش میں‬
‫تو ہے ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫میں اچھی طرح جانتی ہوں ‪ . . .‬میں کیا کہہ رہی‬
‫ہوں اور تو اب مجھے سب کچھ سچ سچ بتا ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫لگتا ہے آپ کا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے ‪. . .‬‬
‫جو آپ مجھ سے ایسے بات کر رہی ہیں آپ‬
‫جائیں اپنے کمرے میں آرام کیجیے ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫پہلے میرے سوال کا جواب دو کہ تمھارے پیٹ‬
‫میں کس کا بچہ ہے ‪. . .‬‬
‫ماہرہ کا غصہ کنٹرول سے باہر ہونے لگتا ہے ‪.‬‬
‫‪..‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫بس باجی ‪ . . . .‬اور کوئی بات مت کیجئے‬
‫میں آپ کی عزت کرتی ہوں ‪ . . .‬مگر لگتا ہے‬
‫آپ رشتوں کا لحاظ بھول گئی ہے ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫رشتوں کا لحاظ میں بھول گئی ہوں ؟‬
‫اور تم جو اپنے ہی بیٹے جیسے بھانجے سے‬
‫رات کو چھپ چھپ کر چدائی کرواتی پھیرتی ہو‬
‫‪ . . .‬تب تمہیں رشتوں کی فکر نہیں ہوتی ‪. . .‬‬

‫دیبا کی بات سنتے ہی ماہرہ کے ہوش اُڑ جاتے‬


‫ہے ‪ . . .‬اس کی حالت ایسے ہو جاتی ہے‬
‫جیسے ‪ . . .‬کاٹو تو خون نہیں ‪ . . .‬ماہرہ سر‬
‫جھکا لیتی ہے اور شرمندگی سے وہ زمین میں‬
‫دھنسی جا رہی تھی ‪ . . .‬اس کی آنكھوں سے‬
‫آنسو بہنے لگتے ہیں ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫اب ُچپ کیوں ہو جواب دو ‪. . . .‬‬
‫ماہرہ کوئی جواب نہیں دیتی بس روئے جاتی ہے‬
‫‪...‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫کیا تمھارے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کا باپ‬
‫شیرو ہے ؟‬

‫ماہرہ پھر بھی کوئی جواب نہیں دیتی ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫لگتا ہے مجھے باجی سے بات کرنی پڑے گی‪. .‬‬
‫‪..‬‬
‫ماہرہ جلدی سے دیبا کے پاؤں میں گر جاتی ہے‬
‫‪...‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫نہیں ایسا مت کرنا باجی ‪ . . .‬ورنہ سب کچھ تباہ‬
‫ہو جائے گا ‪ . . .‬پلیز آپ معاف کر دو مجھے‬
‫پلیز باجی اگر آپ نے بڑی باجی کو بتا دیا تو وہ‬
‫برداشت نہیں کر پائیں گی اور پھر شیرو کا کیا‬
‫ہوگا ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫اچھا ! ! ‪ . . .‬تو تجھے اپنی نہیں اس کی ٹینشن‬
‫ہے ‪ ، . . .‬اتنا پیارا ہو گیا وہ تجھے ‪، ،‬‬
‫ہو بھی کیوں نہ تجھے ماں جو بنا دیا ہے اس‬
‫نے ‪. . .‬‬
‫دیبا کی ایک ایک بات ماہرہ کے دِل کو چھلنی کر‬
‫رہی تھی ‪ . . .‬اور ماہرہ کے پاس اس کی کسی‬
‫بات کا کوئی جواب نہیں تھا ‪، . . .‬‬
‫ماہرہ چاہ رہی تھی کہ ‪ . . . .‬کاش زمین پھٹ‬
‫جائے اور وہ اس میں سماں جائے ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫چھی میں نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا‬
‫کہ ‪ . . .‬تو ایسی نکلے گی تجھے ذرا بھی خیال‬
‫نہیں آیا عزت کا ‪. . .‬‬
‫اور وہ شیرو مجھے لگنے لگا تھا کہ ‪ . .‬میں‬
‫ساری عمر اسے ذلیل کرتی رہی ‪ . . .‬میں نے‬
‫اس کے ساتھ غلط کیا ‪ . . .‬مگر اب لگتا ہے وہ‬
‫اسی کے لیک ہے ‪ ، . . .‬وہ تو شاکر سے بھی‬
‫ایک قدم آگے نکال ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ شیرو کے بارے میں دیبا کی باتیں برداشت‬


‫نہیں کر پائی اور بول پڑی ‪. . . .‬‬
‫ماہرہ ‪:‬‬
‫آپ مجھے جو چاہے کہہ لیں ‪ . . .‬مگر شیرو‬
‫کو کچھ مت کہیے ‪ . . .‬اس میں اس کی کوئی‬
‫غلطی نہیں ہے ‪ ، . .‬اسے میں نے ہی مجبور‬
‫کیا تھا ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫تو اس کے گناہ پر پردہ ڈال رہی ہے ‪ . . .‬اس‬
‫کی بھال کیا مجبوری ہوگی ایسا گناہ کرنے کی ‪. .‬‬
‫‪.‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫آپ جانتی ہی کیا ہے ‪ . . .‬اگر سچ جاننا ہے تو‬
‫سنیں ‪. . . .‬‬
‫ہاں میرے پیٹ میں پلنے والے بچے کا باپ‬
‫شیرو ہے اور میں خوش ہوں کہ ‪ . . .‬میں اس‬
‫کے بچے کی ماں بننے والی ہوں ‪ . . .‬آپ کا‬
‫دیوار تو مجھے ماں بنا نہیں سکا اُلٹا اپنی‬
‫کمزوری کو میرے ماتھے پر داغ دیا اور مجھے‬
‫با ْنجھ کہنے لگا ‪ . . .‬کون سی عورت بھال یہ‬
‫برداشت کر سکتی ہے ‪. . . .‬‬
‫پھر ماہرہ دیبا کو بختیار اور مینا کے چکر کے‬
‫بارے میں سب بتاتی ہے ‪ . . .‬اور یہ بھی کہ ‪. .‬‬
‫‪ .‬کیسے اس رات شیرو نے اسے بچایا اور اس‬
‫نے شیرو کو مجبور کیا ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫شیرو کا کوئی قصور نہیں ہے باجی ‪ . . .‬اس‬
‫نے تو مجھے سرخرو کیا ہے ‪ . . .‬اور اِس گھر‬
‫کو لٹنے سے بچایا ہے ‪،‬‬
‫شیرو جیسا تو کوئی لکھوں میں ایک ہوتا ہے‬
‫میں خوش ہوں کہ ‪ . . .‬میں اس کے بچے کی‬
‫ماں بنوں گی اور مجھے پُورا یقین ہے کہ یہ‬
‫بچہ اس کے جیسا ہوگا ‪. . . .‬‬
‫دیبا ماہرہ کی ساری کہانی سنے کے بعد ساری‬
‫باتوں کو غور سے سوچ رہی تھی ‪ . . .‬آخر‬
‫ماہرہ نے جو کیا وہ غلط تو نہیں تھا ‪. . . .‬‬
‫با ْنجھ ہونے کا دکھ وہ اچھی طرح جانتی تھی ‪. .‬‬
‫‪ .‬اوپر سے بختیار نے جو کچھ کیا کوئی بھی‬
‫عورت ایسا ہی کرے گی یا جان دے دے گی ‪. . .‬‬
‫‪ .‬شیرو نے ماہرہ کی نہ‬
‫صرف جان بچائی تھی بلکہ اسے نئی زندگی‬
‫بھی دی تھی ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫میں نے آپ کو سب سچ بتا دیا باجی ‪ . . .‬آگے‬
‫جو آپ کا فیصلہ ہوگا وہ مجھے منظور ہوگا ‪. . .‬‬
‫‪.‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫رو مت چھوٹی مجھے معاف کردے ‪ . . .‬میں‬
‫نے تجھے غلط سمجھا ‪ . . .‬تم نے جو بھی کیا‬
‫وہ زمانے کی نظر میں چاہے غلط ہو ‪ . . .‬مگر‬
‫ایک عورت کی نظر سے غلط نہیں ہو سکتا ‪. . .‬‬
‫‪ .‬تو مجھے معاف کر دے میں کسی سے کچھ‬
‫نہیں کہوں گی ‪. . . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫باجی آپ پلیز شیرو کی طرف سے من میال مت‬
‫کرنا ‪ . . .‬وہ بہت اچھا ہے اس کا دِل بہت بڑا ہے‬
‫وہ سب سے پیار کرتا ہے ‪. . . .‬‬

‫دیبا ماہرہ کا موڈ ٹھیک کرنے اور ماحول کو‬


‫ہلکا کرنے کے لیے ماہرہ کو چھیڑتی ہے ‪. . .‬‬
‫‪.‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫ہاں دِل کے ساتھ اس کا اور بھی کچھ بڑا ہے‬
‫دیکھا ہے میں نے ‪. . . .‬‬
‫ماہرہ حیران ہو جاتی ہے ‪ . . .‬اور اگلے ہی پل‬
‫دیبا کو اسی کی زبان میں جواب دیتی ہے ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫لگتا ہے آپ کو پسند آ گیا ہے شیرو کا "بڑا"‬
‫پن ‪. . .‬‬

‫ماہرہ جان بجھ کر "بڑا" لفظ کو کھینچتی ہے ‪. .‬‬


‫‪.‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫نہ بابا نہ ‪ . . .‬تمہیں ہی مبارک مجھے ضرورت‬
‫نہیں ہے ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫آپ کو ضرورت کیوں نہیں ؟‬
‫کب تک انگلی کرتی رہیں گی ‪ . . .‬میں تو کہتی‬
‫ہوں گھر کی بات ہے آپ بھی موقعے کا فائدہ‬
‫اٹھا لیجیے ‪ . . .‬آپ کو ڈبل فائدہ ہوگا ‪ . . .‬ایک‬
‫تو آپ بھی ماں بن جائیں گی ‪ . . . .‬اوپر سے‬
‫آپ کی اتنے سال کی تڑپ بھی مٹ جائے گی ‪. .‬‬
‫‪..‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫رہنے دے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫ایک بار ٹرائی تو کیجیے آپ سب بھول جائیں‬
‫گی ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫لگتا ہے تمہیں گھوڑے کی سواری کچھ زیادہ‬
‫ہی راس آ گئی ہے ‪. . . .‬‬
‫ماہرہ سوالیہ نظروں سے دیبا کو دیکھتی ہے ‪. .‬‬
‫‪.‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫کل رات تمہارا لئیو شو دیکھا میں نے ‪. . .‬‬
‫کیسے تم گھوڑا سواری کر رہی تھی ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫پھر تو آپ کو لئیو دیکھ کر پُورا مزہ آیا ہوگا ‪.‬‬
‫‪ .‬اور پھر آپ کی انگلیاں تھک گئی ہوں گی ‪. .‬‬
‫‪.‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫ہٹ بے شرم میں ایسا کچھ نہیں کرتی ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫جھوٹ مت بولیں ‪ . . .‬میں نے کئی بار رات کو‬
‫آپ کو باتھ روم میں انگلی کرتے اپنے کانوں‬
‫سے سنا ہے ‪. . .‬‬

‫دیبا شرما جاتی ہے ‪. . . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫وہ ‪ . .‬وہ ‪ . .‬وہ ‪ . . .‬ضروری تھوڑی ہے میں‬
‫ہی ہوں وہ باجی بھی تو ہو سکتی ہے ‪. . . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫وہ آپ ہی تھی کیونکہ نائلہ باجی کو تو بڑے‬
‫جیٹھ جی ٹھنڈا کر دیتے ہوں گے ‪ . . .‬مگر‬
‫دلدار بھئیا کے بارے میں آپ مجھے خود بتا‬
‫چکی ہے ‪. . . .‬‬

‫دیبا کو کوئی جواب نہیں سوجھتا ‪. . . .‬‬


‫ماہرہ دیبا کے کاندھے پر ہاتھ رکھتی ہے ‪. . .‬‬

‫ماہرہ ‪:‬‬
‫میں جانتی ہوں باجی ‪ . . .‬ہر عورت کو مرد کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے اور آپ اتنے سالوں سے جو‬
‫سزا ب ُھگت رہی ہے ‪ . . .‬اب اس سے دستبردار‬
‫ہو جائیں ‪ . . .‬اگر آپ کہیں تو میں شیرو کو تیار‬
‫کرتی ہوں آپ کے لیے ‪. . .‬‬

‫دیبا ‪:‬‬
‫نہیں نہیں چھوٹی یہ سب غلط ہے ‪ . .‬تم نے تو‬
‫اپنی مجبوری میں یہ سب کیا مگر میں یہ نہیں‬
‫کر سکتی اگر کسی کو پتہ چل گیا تو میں کسی‬
‫کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہوں گی ‪. . .‬‬
‫اور شیرو کیا سوچے گا میرے بارے میں ‪، . . .‬‬
‫نہیں نہیں تو رہنے دے جیسے چل رہا ہے چلنے‬
‫دے ‪ . . .‬اب تو آرام کر میں چلتی ہوں ‪. . .‬‬
‫دیبا اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ماہرہ دیبا‬
‫کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہے ‪. . .‬‬
‫‪.‬‬
‫“ باجی کب سے کانٹوں کی سیج پر سو رہی‬
‫ہے ‪ . . .‬ان کا دِل بھی تو کرتا ہوگا وہ سب‬
‫کرنے کا ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ ‪. . . .‬‬
‫وہ بھی کرنا تو چاہتی ہے مگر ڈرتی ہے ‪. . .‬‬
‫کسی کو پتہ نہ چلے اور شیرو کیا سوچے گا ان‬
‫کے بارے میں ‪، . . . .‬‬
‫مجھے شیرو سے بات کرنی ہوگی اور اس کو‬
‫منانا ہوگا مگر ابھی تو اس کو ایگزامس تک‬
‫کچھ نہیں کہہ سکتی ”‬

‫دیبا اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر لیٹ جاتی ہے‬


‫‪ . . .‬مگر اس کا دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا‬
‫‪ . . .‬آج پہلی بار اس نے کسی سے ایسی باتیں‬
‫کی تھی ‪، . . .‬‬
‫صرف باتوں سے ہی وہ کتنا گرم ہوگئی تھی‬
‫اور اس کی آنكھوں کے سامنے رات کا شیرو‬
‫اور ماہرہ کی چدائی کا منظر آنے لگا ‪. . . .‬‬
‫دیبا کو پتہ ہی نہ چال کب اس کا ہاتھ اس کی‬
‫چوت پر پہنچ کر اسے سہالنے لگا ‪ ، . . .‬دیبا‬
‫پھر سے گرم ہوگئی ‪ . . .‬اور جلدی سے اپنے‬
‫کمرے کا دروازہ بند کر کے قمیض اوپر اُٹھا کر‬
‫شلوار نیچے کر کے چوت میں انگلی کرنے لگی‬
‫‪ . . . .‬چوت میں انگلی کرتے کرتے دیبا‬
‫آنکھیں بند کر کے شیرو کے لنڈ کو یاد کرنے‬
‫لگی ‪. . .‬‬
‫“آہ ‪ . . .‬س س س ‪ . . .‬کتنا بڑا ہے ‪ . . .‬آہ ‪. . .‬‬
‫س س س ‪ . . .‬یہ تو میری پھدی پھاڑ کر رکھ‬
‫دے گا ‪ . . .‬آہ ‪ . . .‬س س س ‪ . . .‬میری پھدی‬
‫پھٹ جاۓ گی ‪ . . .‬س س س ‪ . . .‬آہ ‪ . .‬کتنا مزا‬
‫آئے گا ‪ . . . .‬س س س ‪ . .‬چوت بھوسرا بن‬
‫جاۓ گی ‪. . .‬آہ ‪ . .‬س س س ‪ . . .‬آں ‪ . . .‬میں‬
‫بھی تو تیری مامی ہوں ‪ . . .‬آہ ‪ . . . .‬مجھے‬
‫بھی اپنے لنڈ کی سواری کروا دے ‪ . .‬آہ ‪. . . .‬‬
‫ہم م م م“‬

‫ایسے سسکیاں لیتے چوت میں انگلی چالتے‬


‫شیرو کے لنڈ کو یاد کرتے دیبا اپنا پانی چھوڑ‬
‫دیتی ہے ‪. . . .‬‬

‫شیرو اسکول سے واپس آ کر كھانا کھاتا ہے‬


‫اپنے کمرے میں آرام کرنے لگتا ہے ‪. . .‬‬

‫جاری ہے ‪. . . .‬‬

You might also like