Professional Documents
Culture Documents
عصمت انبیا
عصمت انبیا
عصمت انبیا:علما اہل سنت کے نزدیک انبیا (علیہم السالم) گناہوں پر قدرت اور اختیار کے باوجود خود خدا کے غلبہ سے
گناہوں سے بازرہتے ہیں ،صغیرہ اور کبیرہ عمدا نہیں کرتے ‘ البتہ نسیان یا اجتہادی خطا سے بعض اوقات صغیرہ کا صدور
ہوجاتا ہے یا تبلیغی مصلحت کی وجہ سے وہ کسی افضل اور اولی کام کو ترک کردیتے ہیں۔
عصمت کے معنی
عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ہے جو انبیا کو ترِک طاعت ،فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ہے شرح عقائد
نسفی میں ہے
عصمت ،اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا لطف ہے جو اللہ تعالٰی کے مقدس بندہ (نبی) کو فعل خیر پر برانگیختہ کرتا اور
اسے شر سے بچاتا ہے۔ مع ابقاء اختیار کے تاکہ ابتال کے معنی برقرار رہیں۔
عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالٰی کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ
[]1
کرنا۔
عصمت کا مفہوم
میر سید شریف جرجانی لکھتے ہیں :ہمارے نزدیک عصمت کا معنی ہے کہ اللہ تعالٰی انبیاء (علیہم السالم) میں گناہ پیدا نہ
کرے اور حکماء کے نزدیک عصمت ایک ملکہ (صفت راسخہ ‘ صفت نفسانیہ) ہے جو معاصی کی قباحت اور عبادت کی
فضیلت کے علم کی وجہ سے ان کو گناہوں سے روکتی ہے اور عبادت پر برانگیختہ کرتی ہے اور اوامر اور نواہی کی مسلسل
وحی کی وجہ سے یہ صفت اور راسخ ہوجاتی ہے ‘ اور انبیا (علیہم السالم) سے جو سہوا اور بعض کے نزدیک عمدا صغائر
صادر ہوتے ہیں یا وہ کسی اولی اور افضل کام کو ترک کردیتے ہیں ‘ اس سے ان کی عصمت پر اعتراض نہیں ہوگا ‘ کیونکہ
صفات نفسانیہ ابتدا غیر راسخ ہوتی ہیں ،پھر بتدریج راسخ ہوجاتی ہیں (اور راسخ ہونے کے بعد وہ صفات ملکیہ کہالتی
ہیں) اور ایک قوم نے عصمت کی تعریف میں یہ کہا ہے کہ کسی انسان کی روح یا اس کے بدن میں ایسی خاصیت ہوتی ہے
جس کی وجہ سے اس سے گناہوں کا صدور واقع ہوتا ہے ‘ یہ تعریف اس لیے باطل ہے کہ اگر ان سے گناہوں کا صدور محال
ہو تو وہ گناہوں کے ترک پر دنیا میں مدح اور آخرت میں ثواب کے مستحق نہ ہوں ‘ کیونکہ جو چیز محال ہو اس کے ترک
سے تعریف ہوتی ہے نہ ثواب ‘ کیونکہ اس کا کرنا قدرت اور اختیار میں نہیں ہے ‘ نیز اس پر اجماع منعقد ہے کہ انبیا (علیہم
السالم) کو گناہوں کے ترک سے ثواب ہوتا ہے اور وہ گناہوں کے ترک کرنے کے مکلف ہیں اور اگر ان سے گناہوں کا صدور محال
ہوتا تو ان کو مکلف نہ کیا جاتا نہ ثواب دیا جاتا کیونکہ محال کو ترک کرنے کا مکلف نہیں کیا جاتا نہ اس پر ثواب دیا جاتا
ہے ‘ نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا :آپ کہیے کہ میں تمھاری مثل بشر ہوں ‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے ‘ یہ آیت اس پر داللت
کرتی ہے کہ جو امور بشریت کی طرف راجع ہیں آپ ان میں تمام بشروں کی مثل ہیں اور آپ کا امتیاز صرف وحی سے ہے ‘
اس لیے جس طرح اور بشروں سے گناہوں کا صدور محال نہیں ہے ‘ انبیا (علیہم السالم) سے بھی گناہوں کا صدور محال
نہیں ہوگا۔[ ]2انبیا کرام (علیہم السالم) اور عام بشروں میں صرف وحی کے لحاظ سے ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ خصوصیات کے
لحاظ سے بھی فرق ہوتا ہے ‘ ان کی بشریت مادی کثافتوں سے منزہ ہوتی ہے اور کمال قرب الہی کی وجہ سے ان کا قلب
انوار الہیہ کی جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جس قدر خوف خد ان کو ہوتا ہے مخلوق میں سے کسی کو نہیں ہوتا۔
عصمت انبیا پر دالئل
انبیا (علیہم السالم) کے معصوم ہونے پر حسب ذیل دلیل ہیں # :اگر انبیا (علیہم السالم) سے گناہ صادر ہو تو ان کی اتباع
حرام ہوگی ‘ حاالنکہ ان کی اتباع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
ُق ْل ِإ ن ُكنُت ْم ُت ِح ُّب وَن اَهّلل َف اَّت ِب ُع وِن ي ُي ْح ِب ْب ُكُم اُهّلل َو َي ْغ ِف ْر َلُكْم ُذ ُن وَب ُكْم َو اُهّلل َغ ُف وٌر َّر ِح يٌم
آپ فرما دیجیے :اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ‘ اللہ تعالٰی تمھیں محبوب بنالے گا اور تمھارے گناہ
بخش دے گا۔
محمد قاسم نانوتوی نے اسی آیت سے عصمت انبیا کی دلیل پکڑی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعِت
مطلقہ کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ رسول غلطی نہیں کرتا۔ اگر غلطی کا امکان ہوتا۔ تو اللہ تعالٰی اطاعت
مطلقہ کا حکم نہ دیتا[ )2( *]3جس شخص سے گناہ صادر ہوں اس کی شہادت کو بالتحقیق قبول کرنا جائز نہیں ‘
کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
َي ا َأ ُّي َه ا اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِإ ن َج اءُكْم َف اِس ٌق ِب َن َب ٍأ َف َت َبَّي ُنوا َأ ن ُت ِص يُب وا َق ْو ًم ا ِب َج َه اَلٍة َف ُت ْص ِب ُح وا َع َلى َم ا َف َع ْلُت ْم َن اِد ِم يَن
اے ایمان والو! اگر فاسق تمھارے پاس کوئی خبر الئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔
اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ انبیا کرام (علیہم السالم) کی شہادت کو بال تحقیق قبول کرنا واجب ہے۔
َو ِإ ِذ اْبَت َلى ِإْبَر اِه يَم َرُّب ُه ِب َكِلَم اٍت َف َأ َت َّم ُه َّن َق اَل ِإ ِّن ي َج اِع ُلَك ِل لَّناِس ِإَم اًم ا َق اَل َو ِم ن ُذ ِّر َّي ِت ي َق اَل َال َي َناُل َع ْه ِد ي الَّظ اِلِم يَن
( )4اگر نبی سے گناہ صادر ہوں تو ان کو (العیاذ باللہ) مالمت کرنا جائز ہوگا اور اس سے نبی کو ایذا پہنچے گی اور انبیا
کرام (علیہم السالم) کو ایذاء پہنچانا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
ِإ َّن اَّلِذ يَن ُي ْؤ ُذ وَن اَهَّلل َو َر ُس وَلُه َلَع َنُه ُم اُهَّلل ِف ي الُّد ْن َي ا َو اآْل ِخ َر ِة َو َأ َع َّد َلُه ْم َع َذ اًبا ُّم ِه يًنا
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے۔
( )5انبیا (علیہم السالم) کے مخلص بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
َل
ِإ َّن ا َأ ْخ ْص َناُه م ِب َخ اِلَص ٍة ِذ ْكَر ى الَّد اِر َو اْذ ُكْر ِع َب اَد َن ا إْبَر اِه يَم َو ِإْس َح َق َو َي ْع ُق وَب ُأ ْو ِل ي اَأْلْي ِد ي َو اَأْلْبَص اِر
اور ہمارے بندوں براہیم (علیہ السالم) اسحاق (علیہ السالم) اور یعقوب (علیہ السالم) کو یاد کیجئے جو قوت اور نگاہ
بصیرت والے ہیں ہم نے ان کو مخلص کر دیا۔
ِإ اَّل َق اَل َف ِب ِع َّز ِتَك ُأَلْغ ِو َي َّنُه ْم َأ ْج َم ِع يَن اور اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ مخلصین کو شیطان گمراہ نہیں کر سکتا * :
ِع َب اَد َك ِم ْنُه ُم اْلُم ْخ َلِص يَن
ترجمہ :ابلیس نے کہا :تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا سوا تیرے مخلص بندوں کے
( )6گناہ گار الئق مذمت ہے اور اللہ تعالٰی نے انبیا (علیہم السالم) کی عزت افزائی کی ہے :
َل ْل
َو ِإ َّن ُه ْم ِع نَد َن ا ِم َن ا ُم ْص َط َف ْي َن اَأْلْخ َي اِر
اور بیشک وہ (سب) ہماری بارگاہ میں ضرور پسندیدہ بندوں میں سے ہیں
( )7انبیا (علیہم السالم) لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں ‘ اگر وہ خود گناہ کریں تو اللہ تعالٰی ان پر ناراض ہوگا کیونکہ
* اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بات سخت ناراضی اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔ * َكُب َر َم ْق ًت ا ِع نَد اِهَّلل َأ ن َتُق وُلوا َم ا اَل َتْف َع ُلوَن
کی موجب ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے
ِإ اَّل َم ِن اْر َتَض ى ِم ن َّر ُس وٍل َف ِإ َّن ُه َي ْس ُلُك ِم ن َب ْي ِن َي َد ْي ِه َو ِم ْن َخ ْلِف ِه َرَص ًد ا َع اِلُم اْلَغ ْي ِب َف اَل ُي ْظ ِه ُر َع َلى َغ ْي ِب ِه َأ َح ًد ا
وہ عالم الغیب ہے ‘ تو وہ اپنے غیب پر کسی کو (بذریعہ وحی) مطلع نہیں فرماتا بجز ان کے جن سے وہ رضی ہے جو اس
کے (سب) رسول ہیں۔
اس آیت میں واضح فرمایا دیا کہ اللہ تعالٰی سب رسولوں سے راضی ہے ‘ اور نیکی کا حکم دے کر خود عمل نہ کرنے والے
سے وہ راضی نہیں ہے۔
( )8اگر معاذ اللہ انبیا (علیہم السالم) سے گناہوں کا صدور ہوتا تو وہ مستحق عذاب ہوتے ‘ کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
ِإ اَّل َب اَل ًغ ا ِّم َن اِهَّلل َو ِرَس ااَل ِتِه َو َم ن َي ْع ِص اَهَّلل َو َر ُس وَلُه َف ِإ َّن َلُه َن اَر َج َه َّن َم َخ اِلِد يَن ِف يَه ا َأ َبًد ا
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو الریب اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ
رہے گا
اور امت کا اجماع ہے کہ انبیا (علیہم السالم) جہنم سے محفوظ اور مامون ہیں اور ان کا مقام جنت خلد ہے۔
( )9انبیا (علیہم السالم) فرشتوں سے افضل ہیں اور فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتے تو انبیا (علیہم السالم) سے
بطریق اولی گناہ صادر نہیں ہوں گے فرشتوں سے افضلیت کی دلیل یہ ہے کہ فرشتے عالمین میں داخل ہیں اور اللہ تعالٰی
نے انبیا (علیہم السالم) کو تمام عالمین پر فضیلت دی ہے ‘ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
ِإ َّن اَهّلل اْص َط َف ى آَد َم َو ُن وًح ا َو آَل ِإْبَر اِه يَم َو آَل ِع ْم َر اَن َع َلى اْلَع اَلِم يَن
بیشک اللہ تعالٰی نے آدم ‘ نوح ‘ آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے
( )10اگر انبیا (علیہم السالم) معصیت کریں ‘ تو ہم پر معصیت کرنا واجب ہوگی کیونکہ ان کی اتباع واجب ہے اور
دوسرے دالئل سے ہم پر معصیت کرنا حرام ہے ‘ سو الزم آئے گا کہ ہم پر معصیت کرنا واجب بھی ہو اور یہ اجتماع
[]4
ضدین ہے۔
امام رازی (رح) نے عصمت انبیا کے متعلق حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
( )1حشویہ کا مذہب ہے کہ انبیا (علیہم السالم) سے عمدا گناہ کبیرہ کا صدور جائز ہے۔
( )2اکثر معتزلہ کا مذہب ہے کہ انبیا (علیہم السالم) سے عمدا گناہ کبیرہ کا صدور جائز نہیں البتہ عمدا گناہ صغیرہ کا
صدور جائز ہے البتہ ان صغائر کا صدور جائز نہیں جن سے لوگ متنفر ہوں۔
( )3جبائی کا مذہب ہے کہ انبیا (علیہم السالم) سے عمدا کبائر اور صغائر دونوں اصدور جائز نہیں البتہ تاویال جائز ہے۔
( )4انبیا (علیہم السالم) سے بغیر سہو اور خطا کے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا لیکن ان سے سہو اور خطاء پر بھی
مواخذہ ہوتا ہے۔
( )5رافضیوں کا مذہب ہے کہ انبیا (علیہم السالم) سے کسی گناہ کا صدور ممکن نہیں ہے صغیرہ نہ کبیرہ ‘ سہوا نہ عمدا
[]5
تاویال نہ خطا۔
امام مالک ،امام ابوحنیفہ ،امام شافعی ،ان کے اصحاب اور جمہور فقہا اور محدثین کا یہ مذہب ہے کہ انبیا (علیہم السالم)
جس طرح کبائر سے معصوم ہوتے ہیں اسی طرح صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں ،کیونکہ ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم
ان کے افعال ،ان کے آثار اور ان کی سیرتوں کی اتباع کریں اور یہ حکم مطلق دیا گیا ہے اس میں کوئی استثناء نہیں ہے اگر
ہم انبیا (علیہم السالم) سے صغائر کے وقوع کو جائز قرار دیں تو ان کی اقتداء کرنا ممکن نہیں ہوگی ،کیونکہ ان کے افعال
میں سے ہر فعل اس سے علیحدا نہیں ہے کہ وہ عبادت ہے یا اباحت ہے یا ممنوع ہے یا معصیت ہے اور نہ کسی شخص کو یہ
[]6
حکم دینا صحیح ہوگا کہ وہ ان کے کسی حکم پر عمل کرے کیونکہ ہو سکتا ہے ان کا وہ حکم معصیت ہو۔
امام رازی
ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ انبیا (علیہم السالم) سے زمانہ نبوت میں یقینی طور پر کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا ‘ کبیرہ نہ
[]7
صغیرہ :
عالمہ تفتازانی
ہمارا مذہب یہ ہے کہ انبیا (علیہم السالم) اعالن نبوت کے بعد گناہ کبیرہ مطلقا نہیں کرتے ‘ اور صغائر عمدا نہیں کرتے ‘ البتہ
ان سے سہوا صغیرہ کا صدور ہوجاتا ہے ‘ لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کرتے اور نہ وہ اس پر برقرار رکھے جاتے ہیں بلکہ ان
[]8
کو تنبیہ کی جاتی ہے اور وہ متنبہ ہوجاتے ہیں۔
شریف جرجانی
میر سید شریف جرجانی حنفی لکھتے ہیں :ہمارے نزدیک مختاریہ ہے کہ انبیا (علیہم السالم) اپنے زمانہ نبوت میں مطلقا
[]9
گناہ کبیرہ سے اور عمدہ صیغرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔
حوالہ جات
.4تفسیر تبیان القرآن غالم رسول سعیدی صفحہ 348تا ،350فرید بکسٹال اردو بازار الہور
.5تفسیر کبیر ج 1ص 301مطبوعہ دارالفکر بیروت