Professional Documents
Culture Documents
میر چاکر رند - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
میر چاکر رند - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
چاکر اعظم
میر چاکر خان رند ،میر شاہک خان رند کے بیٹے ہیں۔ میر چاکر خان رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں
بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت ،تاریخ و تمدن ،معیشت و معاشرت ،اخالق و عادات ،بہادری و جوانمردی ،جوش و جذبہ،
گفتار و کردار ،ایثار و قربانی ،ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں
ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے
جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران میں اپنی ابھرتی
جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قالت پر حملے کے دوران میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت
بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند عالقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا
سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ
پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوش
حالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے۔ بلوچ آج بھی میر چاکر کا نام عزت و
احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے
قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں
الشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور الشاریوں کو خاک و
خون میں نہال گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے عالوہ میرھان ،ھمل ،جاڑو ،چناور ،ھلیر ،سپر ،جیند ،بیبگر،
پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خالفی کے عالوہ جھوٹ بولنا
معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے"
بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خالفی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور
ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوئے رند کو کوئی راستہ نہیں
ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے ،مہمان اور مہمان
نوازی بلوچ معاشرے کا ایک الزمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ
پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1468ء اور قالت کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار
چاکر کی عمر صرف 16سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند
اور الشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ہوا جس سے بلوچ قبائل انتشار کا شکار ھونے لگے اور پھر
تمام بلوچ قبائل کا جرگہ بالیا گیا جس میں متفقہ سرداری کا طرہ جتوئ قبیلے کو مال اور بلوچ قبائل کے نائب امیر عظیم
جنگجو(فاتح ہندوستان) اور جتوئ قبیلے کے سردار میر بجار خان میروانی نواب آف قالت مقرر ھوئے تاہم رند اور الشار
کی جنگ بندی تو ھو گئی مگر ان کی صلح نہ ہو سکی 1519ء کے آخر میں ایک بار پھر تمام بلوچ قبائل کا جرگہ بالیا گیا
جس کا مقصد صلح نا کرنے والے قبیلے کے خالف اعالن جنگ کرنا تھا تاہم میر چاکر خان نے بغیر کسی قصاص لینے کے
جنگ بندی کا اعالن کرتے ہوئے الشار قبیلے کے ساتھ دشمنی ختم کر دی اور اس بڑی اور نا ختم ہونے والی جنگ کا
1519ءمیں اختتام ہوا ۔ 1520ء میں میر چاکر خان اپنے بھانجے اور داماد میر بجار خان کے بڑے بیٹے میر نوتک خان کے
ساتھ ملتان کو روانہ ہوئے اور میر بجار خان کی ملکیتی ہندوستان کی بڑی کاروباری بندرگاہ میروانہ کی سرپرستی اپنے
نواسے میر لوہار خان کو دی اور اس کے اطراف کی ساری جاگیر میر نوتک خان کے حوالے کر دی اور 1523ء میں مستقل
طور پر موجودہ پاکستان کے ضلع اوکاڑہ کے ایک قصبہ ستگھرہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں میر بجار خان جتوئی کی
سرپرستی میں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا۔
1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھرہ میں دفن ہوئے۔ جہاں
ان کی قبر آج بھی موجود ہے۔
معلومات شخصیت
سنہ تاریخ
1468ء پیدائش
سنہ تاریخ
1565ء وفات
(97–96
سال)