Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 61

‫فلسفہ لفظ کے معانی اور فلسفہ کی ضرورت و اہمیت – ●‬

‫)‪(Meaning of Philosophy and its importance‬‬


‫فلسفہ کی انفرادی ضرورت )‪1‬‬
‫فکر کرنا‪ ،‬سوچنا اور مسلسل سوال کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے ہاں وہ الگ بات ہے کہ ماحول یہ سوال کرنے اور‬
‫پوچھنے کو چھین لے لیکن بنیادی طور پر انسان خود سے لیکر خدا تک سب چیزوں پر سوال کرتا ہے۔‬
‫ہر انسان شعوری طور پر یا الشعوری پر مسلسل سوچتا اور غور و فکر کرتا ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ ِاس‬
‫سوچ و فکر کو تسلی بخش جہت اور تقویت ملے۔‬
‫انسان یہ چاہتا ہے کہ میں جو دیکھ رہا ہوں یا محسوس کررہا ہوں اسکی بآالخر حقیقت کیا ہے‪ ،‬میں کون ہوں‪ ،‬کہاں سے آیا‬
‫ہوں‪ ،‬بآالخر میں نے جانا کہاں ہے اور ایسے کئی سواالت انسان کے ذہن میں ابھرتے ہیں۔‬
‫فلسفہ دراصل ِاس سوچ و فکر کو تقویت عطا کرتا ہے اور فلسفہ انسان کی فکر کے خدوخال کو مزید پختہ کرتا ہے۔‬
‫فلسفہ دراصل انسان کی سوچ اور فکر کو جہت دیتا ہے کہ انسان کو کیا اور کیسے سوچنا چاہئے۔‬

‫فلسفہ کی اجتماعی ضرورت )‪2‬‬


‫ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرے سے الگ تھلگ رہنا اور وہ بھی ِاس زمانے میں ناممکن ہے اور یہ صرف آج‬
‫کی بات نہیں ہے بلکہ انسان صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں‪ ،‬ایک دوسرے کے مشکالت کو حل کرنے کی‬
‫کوشش کررہے ہیں۔ ہمارا اپنے اردگرد معاشرے سے ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں کا ہمارے جسم کے‬
‫ساتھ۔ ہم اکیلے رہنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں مستقل طور پر ہمارا اکیال رہنا ناممکن ہے۔‬
‫سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم نے اردگرد معاشرے کو خوبصورت کیسے بنانا ہے‪ ،‬کیسے ہم عقل و برہان کے ذریعے اپنے‬
‫سوسائٹی کو بہتر سے بہتر بناسکتے ہیں‪ ،‬کیسے ہم ایک دوسرے کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ رہ سکتے ہیں‪ ،‬کیسے ہم‬
‫اپنے باہمی تعلق کو خوبصورت بنا سکتے ہیں اور کیسے اجتماعیت کو برقرار رکھ کر انفرادیت کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں۔‬
‫ہم جانتے ہیں کہ اجتماعی طور پر انسانی زندگی اور انسانی معاشروں کو بنانے اور سنوارنے کے لئے "علوِم انسانی" کی‬
‫شدید ضرورت ہے‪ ،‬جو انسانی معاشروں کو اس کے موجودہ تقاضوں کے مطابق سنوارتے ہیں‪ ،‬جن علوم کا نام سیاسیات‪،‬‬
‫اخالقیات اور سوشیالوجی ہیں۔‬
‫اب انہی علوم میں اگر ہم نے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہر نئے دور کے لئے جدید فکر اور سوچ النا ہو تو ُاس کے لئے‬
‫بالشک و شبہ فلسفے کی اشد ضرورت ہے۔‬
‫یعنی کیسے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنا بنیادی اور فطرتی انسانی معاشرہ برقرار رکھنا ہے‪ ،‬یہ دراصل فلسفہ سمجھاتا‬
‫ہے۔‬
‫زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہتری کے لئے نظریات کی تشکیل میں فلسفہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ فلسفہ ہی ہے‬
‫جو انسان کے نظریات کو صحیح جہت دے سکتا ہے۔‬
‫آج سائنس نے اگر اتنی ترقی کی ہے تو یہ فلسفہ کی بدولت ہے‪ ،‬آج جو ہم کائنات کی سیر کر رہے ہیں یہ سائنس کا تحفہ ہے‬
‫اور سائنس فلسفے کے بطن سے ہی نکلی ہے۔‬
‫یہ بات قابِل غور ہے کہ ہمیں اگرچہ ٹیکنالوجی اور مشینوں کی اشد ضرورت ہے اور یہ کارنامہ کوئی شک نہیں سائنس نے‬
‫ادا کیا ہے اور ادا کررہی ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کو مالحظہ کریں‪ ،‬ایک خال پائی جاتی ہے‪ ،‬اب مجھے نہیں معلوم‬
‫مگر یہ ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ انسانی زندگی میں ایک عجیب قسم کی خال پیدا ہوگئی ہے‪ ،‬اتنی سہولیات کے باوجود آج‬
‫معاشرے کا جوان خودکشی کرنے تک کو تیار ہوتا ہے‪ ،‬ایک گھٹن ذدہ معاشرہ تشکیل پاگیا ہے اس لئے فلسفہ اگر صرف‬
‫مادی چیزوں پر انحصار کرتا ہو تو شاید ہم بہت سی اور چیزوں کو نظرانداز کردیں۔‬

‫فلسفہ وہ جو انسان کی ماّد ی مشکالت کے ساتھ ساتھ‪ ،‬عقلی‪ ،‬انفرادی‪ ،‬اجتماعی‪ ،‬نظریاتی اور غرض انسان کی تمام ُبنیادی‬
‫ُمشکالت کا حل دے سکے۔‬
‫فلسفہ وہ جو ایسے نظریات کو تشکیل دے کہ جو انسانوں کے باہمی تعلق کو بہتر بنانے اور امن میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‬
‫یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ فلسفہ ہر مسئلے کا مسَلم اور محکم جواب فراہم کرے لیکن فلسفہ سے ہم بہتر سے بہتر فریم‬
‫تیار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ )‪ (Framework‬ورک‬

‫فلسفہ کی لفظی معنی )‪3‬‬


‫اس لفظ کی اصل یونانی ہے۔ لفِظ فلسفہ یونانی لفظ‪" ،‬فیلوسوفیا" سے نکال ہے۔ لفظ "فیلوسوفیا" دو لفظوں کا مرکب ہے۔ "فیلو"‬
‫اور "سوفیا"‪ ،‬فیلو کا معنی دوستی اور محبت ہے اور سوفیا کا معنی علم و حکمت ہے۔ پس فیلوسوفیا کے لفظی معنی "علم و‬
‫حکمت سے محبت ہے"۔‬

‫فیلوسوفیا لفظ کا استعمال –‬


‫)‪ (Possibilities‬احتماالت –‬
‫اگرچہ اس لفظ کی اصل استعمال کو کسی مخصوص فرد سے منسوب کرنا مشکل ہے لیکن مجموعی طور پر ابتدائی یونانی‬
‫فلسفیوں جیسے پائتھاگورس‪ ،‬تھیلس اور ہیراکلیٹس کو اکثر فلسفیوں کے طور پر پہچانے جانے والے پہلے لوگوں میں شمار‬
‫کیا جاتا ہے۔‬
‫لیکن علماء اور مصنفین کے مطابق مشہور احتمال یہی ہے کہ سب سے پہلے یہ لفظ سقراط نے استعمال کیا۔‬
‫تھا جو اپنے آپ کو )‪ (active‬دوسرا احتمال یہ ہے کہ سقراط سے پہلے یا سقراط کے زمانے میں ہی ایک مشہود گروہ فعال‬
‫"سوفیسٹ" (سوفسطائی) یعنی دانشور جو کہ معاشرے کی مشکالت کو دلیل و برہان سے حل کرتے تھے اور اپنے استدالل‬
‫میں مغالطوں سے کام لیتے تھے۔‬

‫سوفسطائوں کا ماننا تھا کہ اپنا مفاد ہی سب کچھ ہے۔‬


‫رفتہ رفتہ "سوفیسٹ" اپنا اصلی مفہوم کھو بیٹھا اور مغالطہ کرنے والے معنی میں استعمال ہونے لگا۔‬

‫چونکہ سقراط کو یہ بات بلکل ناگوار نہ تھی جو سوفسٹس کررہے تھے کیونکہ یہ گروہ مزید آگے جاکر مغالطوں سے سچ کو‬
‫جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ممکنہ کوشش کرتے تھا اور ان کا یہ ماننا تھا کہ سچ اور جھوٹ کوئی شے نہیں‬
‫ہے۔ بلکہ سچ اور جھوٹ‪ ،‬اچھائی اور برائی کا فیصلہ خود انسان کرتا ہے یعنی؛‬
‫‪(Man is the measurement of everything).‬‬

‫اپنی تواضع و انکساری اور شاید سوفسطائیوں کی َص ف سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کے پیِش نظر جو خود کو "سوفیست"‬
‫یعنی محِب علم و حکمت کہا۔ )‪" (Philosopher‬یا "دانشوار" کہالنا پسند کرتے تھے‪ ،‬سقراط نے خود کو "فیلسوف‬

‫یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود سقراط نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ فلسفہ اور فیلسوف کی اصطالح بعد میں رائج ہوئی ہے‬
‫لیکن حتمی فیصلہ کرنا‪ ،‬کہ سب سے پہلے کس نے یہ لفظ اپنے لئے استعمال کیا بہرحال مشکل ہے۔‬

‫فلسفہ کے اصطالحی معنی )‪4‬‬


‫نہیں کرسکتے کہ جی یہی فلسفہ کی مکمل تعریف ہے۔ )‪ (Definition‬ہم فلسفہ کی مکمل ایک ٹھوس تعریف‬
‫لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ یعنی "وہ علم جو اشیاء کی ماہیت و حقیقت اور ان کے وجود کے اسباب و علل پر عقل و‬
‫برہان اور استدالل کے ساتھ بحث کرتا ہے"۔‬

‫مجموعی طور پر فلسفہ دراصل آپ کی قوِت تعقل اور قوِت گویائی کو اجاگر کر دیتا ہے یہ آپ کو یہ سکھاتا ہے کہ آپ نے‬
‫کیا اور کیسے سوچنا ہے۔‬
‫مزید یہ کہ فلسفہ انسان کی فکر کو جہت دیتا ہے اور فلسفہ ہی سے انسان کی سوچنے کی صالحیت کو وسعت ملتی ہے۔‬
‫مختلف موضوعات کو مختلف پہلوؤں پر کیسے سوچا جائے اور کیسے سوچنا چاہئے‪ ،‬یہ صالحیت انسان کو فلسفہ دیتا ہے۔‬

‫یاد رہے علماء اور تاریخ دان بالخصوص اسالمی علماء و مصنفین کے مطابق لفظ "فلسفہ" تاریخ کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ‬
‫تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے ؛‬
‫جیسے ؛‬
‫الف؛‬
‫تمام حقیقی علوم کو آج کی اصطالح میں فلسفہ کہا جاتا تھا۔ یاد رہے حقیقی علوم کے مقابلے میں اعتباری علوم ہیں۔‬
‫اب ان دو علوم کے اقسام کو ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ صحیح طرح سے ہم سمجھ سکیں۔‬

‫حقیقی علوم ؛ ‪-‬‬


‫وہ علوم جن کے قوانین نہیں بنائے گئے ہوتے‪ ،‬بلکہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں‪ ،‬ان کو منظم کرکے کشف کیا جاتا ہے‪،‬‬
‫جیسے آج سائنسدان کشف کرتے ہیں۔‬
‫پھر بھی ہوتا۔ )‪ (Gravitation‬یعنی چھپے قوانیں کو سامنے التے ہیں‪ ،‬جیسے اگر نیوٹن ہوتا یا نہ ہوتا‪ ،‬کشِش ثقل‬

‫اعتباری علوم ؛ ‪-‬‬


‫اعتباری علوم وہ ہوتے ہیں جس میں وہ قوانین اور اصول شامل ہیں جو ایک مخصوص معاشرہ اور خود انسان طے کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫پس اس معنی میں"فلسفہ" صرف "حقیقی علوم" کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا۔‬
‫جتنے بھی حقیقی علوم تھے‪ ،‬انکو آج کی اصطالح کے مطابق "فلسفہ" کہا جاتا تھا۔‬

‫ب؛‬
‫دوسری اصطالح میں مختصرًا‪ ،‬فلسفہ وہ علوم کہالئے جو غیر تجربی ہو۔ جس میں خصوصًا منطق‪ ،‬خدا شناسی‪ ،‬جمالیات‪،‬‬
‫سیاسیات اور اخالقیات شامل ہیں۔‬

‫ج؛‬
‫ہے۔ )‪" (Metaphysics‬تیسری اصطالح میں فلسفہ جو استعمال ہوا وہ "مابعدالطبیعات‬
‫یعنی فلسفہ زیادہ تر میٹافزکس کے امور ہر ہی بات کرتا ہے۔‬

‫د؛‬
‫فلسفہ ایک اور مخصوص معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جس میں ہر مخصوص علم کے مقاصد اور اغراض شامل ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫کہتے ہیں۔ "‪ "Philosophy of‬جسکو ہم انگریزی میں‬
‫مثََال ہم جب کہتے ہیں کہ "سائنس کا فلسفہ" کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سائنس کا ماخذ‪ ،‬سائنس کے اغراض و‬
‫مقاصد کیا ہیں یا سائنس کن فلسفی اصولوں پر کام کرتی ہے یا جیسے "سیاسیات کا فلسفہ" یعنی کونسے اصولوں پر سیاسیات‬
‫کی بنیاد ہے اور ان تمام کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 01 :‬‬
‫فلسفہ –‬
‫۔"‪ "sophia‬اور "‪ "philo‬دراصل یونانی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ سے مل کر بنا ہے )‪ (philosophy‬فلسفہ‬
‫کا مطلب علم یا حکمت۔ یعنی فلسفے کا "‪ "sophia‬کا مطلب محبت اور "‪ "philo‬اس میں‬
‫مطلب علم سے محبت۔‬
‫ظاہر ہے جو سماج علم سے پیار کرتا ہے وہ ترقی کرسکتا ہے اور جو سماج علم سے محبت نہیں کرتا وہ ترقی نہیں‬
‫کرسکتا۔ فلسفہ درحقیقت تمام علوم کی ماں ہے‪ ،‬چاہے سیاست ہو‪ ،‬قانون ہو‪ ،‬سائنس ہو‪ ،‬ریاضی ہو‪ ،‬تاریخ ہو‪ ،‬غرض تمام علوم‬
‫کی ماں فلسفہ ہے۔‬

‫ہم فلسفہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ –‬


‫نیوٹن نے ایک بار کہا تھا کہ اگر ایک شخص دیو کے کندھوں پر کھڑا ہو جائے تو وہ ُاس دیو سے بھی دور دیکھ سکتا ہے۔‬
‫اگر ہم تاریخ کو پڑھے تو ہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ فالسفرز میں ہر شعبے کے لوگ تھے۔ کچھ امیر تھے تو کچھ‬
‫غریب‪ ،‬کچھ بادشاہ تو کچھ فقیر تھے‪ ،‬ان میں تھوڑے کچھ پاگل بھی تھے تو کچھ ڈاکٹر تھے لیکن بہت کم خواتین تھے جنہوں‬
‫نے فلسفے میں حصہ لیا۔‬

‫فلسفے کو پڑھنے کے تین طریقے –‬


‫)‪ (Thematic study‬تھیمیٹیک سٹڈی )‪1‬‬
‫)‪ (Methodological Study‬میتھاڈالیجیکل سٹڈی )‪2‬‬
‫)‪ (Chronological Study‬کرونولوجیکل سٹڈی )‪3‬‬

‫)‪ (Thematic study‬تھیمیٹیک سٹڈی )‪1‬‬


‫اس میں ہم مابعدالطبیعات‪ ،‬اخالقیات‪ ،‬جمالیات‪ ،‬علمیات وغیرہ پڑھتے ہیں۔‬
‫کی نگاہ سے دیکھے تو ان میں اہم سواالت یہ آتے ہیں جیسے؛ ‪ theme‬اگر ہم فلسفے کو‬
‫وجود کیا ہے ؟‬
‫حقیقِت وجود کیا ہے ؟‬
‫علم کیا اور علم کی حقیقت کیا ہے ؟‬
‫میڑیرریلزم‪ ،‬آئدیلزم‪ ،‬ریشلنزم‪ ،‬اور سکیفٹزم وغیرہ کیا ہیں ؟‬
‫اخالقیات کیا ہے اور اخالقیات کے معیارات کیا ہیں ؟‬
‫فری ول اور ڈٹرمنزم کیا ہے ؟‬
‫انسان کی قدرت کیا ہے؟‬
‫زندگی کا کیا مقصد ہے؟‬
‫ریاست کا کیا مقصد ہے؟ وغیرہ‬

‫)‪ (Methodological Study‬میتھاڈالیجیکل سٹڈی )‪2‬‬


‫کیا ہے اور ‪ inductive method‬کا مطالعہ کریں تو ان میں یہ آتا ہے کہ )‪ (Methods‬اگر ہم فلسفے کی میتڑڈز‬
‫‪.‬ہے )ارسطو( ‪ Aristotle‬ہے تو دوسری طرف )افالطون( )‪ (Plato‬کیا ہے‪ ،‬جہاں ایک طرف ‪deductive method‬‬

‫)‪ (Chronological Study‬کرونولوجیکل سٹڈی )‪3‬‬


‫فلسفہ کو تاریخ کی نگاہ سے دیکھنا بہت ضروری ہے اگر ہم نے اس کی تاریخ کو نہیں پڑھا تو ہمیں فلسفے کی سمجھ نہیں‬
‫آئی گی۔ جیسے اگر ہم ایک فلم کو بیچ سے دیکھنا شروع کرے تو اس کی کہانی کو ہم نہیں سمجھ سکیں گے۔‬
‫چلیں گے تو ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ ایک فالسفر سے پہلے کون تھا‪ ،‬کیا تھا اور کس طرح ایک ‪ chronologically‬اگر ہم‬
‫مسئلہ کے حل کے نتیجے میں دوسرا مسئلہ پیدا ہوا اور دوسرے مسئلے کے حل کے نتیجے میں کس طرح تیسرا مسئلہ پیدا‬
‫ہوا اور اس طرح چوتھا اور پانچواں ۔۔۔‬
‫کو سمجھ سکیں گے‪ ،‬اور یہ سمجھیں گے کہ کس طرح سوال پہ )‪ (direction‬یعنی تاریخ اور سوچ کے ارتقا کے ڈائرکشن‬
‫سوال پیدا ہو گیا‪ ،‬کس فالسفر نے کس طرح جواب دینے کی کوشش کی‪ ،‬ہر فالسفر کو انفرادی سمجھ سکیں گے‪ ،‬اس کے‬
‫سیاق و سباق کو سمجھ سکیں گے اس کے تاریخی تناظر کو سمجھ سکیں گے کہ کس طرح ایک فالسفر نے دوسرے فالسفر‬
‫کو متاثر کیا‪ ،‬کس طرح دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کی وجہ دوسرے کونے کے لوگوں کی سوچ تبدیل ہوئی‬
‫وغیرہ۔‬

‫فلسفے کی تاریخ میں تین اہم مراکز –‬


‫فلسفہ تین اہم اور بڑے مراکز پر مشتمل ہیں ؛‬
‫)‪ (Chinese philosophy‬چائینیز فلسفہ )‪1‬‬
‫)‪ (Indian philosophy‬ہندوستانی فلسفہ )‪2‬‬
‫)‪ (Western philosophy‬مغربی فلسفہ )‪3‬‬

‫مغربی فلسفہ‪ ،‬جس میں روم‪ ،‬یمن‪ ،‬عیسائی‪ ،‬اسالمی اور ماڈرن فالسفی سب شامل ہیں۔‬
‫فلسفے کو پڑھ کر ہم دراصل سائنس کی سوچ کو سمجھ سکیں گے‪ ،‬تاریخ کو سمجھ سکیں گے‪ ،‬آج کی سماج کو ٹھیک کر‬
‫سکیں گے۔‬
‫ایک فالسفر کو کس طرح سمجھنا چاہیئے ؟ –‬

‫یاد رکھے ایک فالسفر کو ُک ھلے سوچ سے پڑھنا چاہئیے۔ اگر آپ ِاس سوچ کے ساتھ پڑھیں گے کہ مجھے پتا ہے یا اس کو ‪۰‬‬
‫کچھ نہیں آتا تھا یا غلط تھا تو تو آپ اس فالسفر کو صحیح طرح سمجھ نہیں سکیں گے۔‬

‫ہر فالسفر کو اپنے تاریخی تناظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ اگر آپ اسے تاریخی تناظر اور سماج سے باہر نکال دیں گے ‪۰‬‬
‫تو آپ یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ وہ کس حالت میں کس سوال کا جواب دے رہا تھا۔ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکیں‬
‫گے ‪،‬اس لئے اس کا تاریخی پس منظر ضروری ہے۔‬

‫چونکہ ہر فالسفر کسی دوسرے فالسفر کے سوال کا جواب دے رہا ہوتا ہے تو اس کے مخالف نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی ‪۰‬‬
‫ضروری ہے۔‬

‫)‪ (Biases‬کچھ َت َح ُّفظات و تعصبات –‬


‫فلسفہ ہو‪ ،‬سوشیالوجی ہو یا کوئی اور سبجیکٹ ہو کچھ تحفظات و تعصبات سے آزاد نہیں ہے‪ ،‬اس لئے پہلے بیان کرنا‬
‫ضروری ہے۔‬

‫ہے کہ کسی خاص عالقے کے بادشاہ نے تاریخ کو اپنی نگاہ سے )تعصب( ‪ bias‬سب سے پہلے فلسفے کی تاریخ میں یہ ‪۰‬‬
‫بیان کیا ہے‪ ،‬خواہ وہ جنگ کی تاریخ ہو‪ ،‬فلسفے کی تاریخ ہو یا سیاست کی تاریخ ہو‪ .‬جو بادشاہ یا جو گروہ غالب تھے وہی‬
‫اپنے نقطۂ نظر سے تاریخ لکھتے تھے۔‬

‫یہ کہ فلسفے کی تاریخ کو صرف مرد کی نگاہ سے لکھا ہے کیونکہ اس وقت مرد عورتوں پر غالب تھے۔ ‪ bias‬دوسرا‪۰‬‬
‫بھی شامل ہوگی۔ ‪ patriarchal bias‬یعنی فلسفے کے ان اقساط میں‬

‫اور آخری یہ کہ جو تاریخ پڑھتا‪ ،‬پڑھاتا اور لکھتا ہے اس کی اپنے خیاالت بھی شامل ہوتے ہیں لہزا یہ پڑھانے والے پر ‪۰‬‬
‫انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنے تجربے کے مطابق کن فالسفرز کو زیادہ نمایاں کرتا ہیں اور فالسفرز کے کن کن نظریات کو‬
‫بھی شامل ہوگی۔ )‪ (pedagogical bias‬زیادہ دقیق نگاہ سے پیش کرتے ہیں یعنی ان اقساط میں‬

‫ہو ؟ )‪ (biases‬اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تاریخ کو پڑھنے کا کیا فائدہ جس میں اتنے سارے تحفظات و تعصبات –‬
‫کو بھی سمجھیں گے کہ اگر مردوں نے تاریخ لکھی ہے تو کیا تاریخ لکھی ہے‪ biases ،‬اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہم ان‬
‫اگر حکمران طبقے نے تاریخ لکھی ہے تو اس نے کیا تاریخ لکھی ہے۔ یعنی ان تحفظات و تعصبات کو کس نوعیت سے‬
‫کو بھی سمجھنا بہت اہم ہے۔ ‪ biases‬لکھی گئی ہے کیونکہ اس تاریخ کے نتیجے میں ہی ہمارا معاشرہ بنا ہے اور ان سب‬
‫جیسے ارسطو کہتا ہے کہ آپ کسی چیز سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن اسے مکمل طور پر سمجھنا ہی تعلیم کا مقصد ہے۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 02 :‬‬
‫فلسفے کی تاریخ تب شروع ہوتی ہے جب لکھائی اور پڑھائی کی تاریخ شروع ہوئی‪ ،‬لکھائی اور پڑھائی کی تاریخ تب شروع‬
‫یعنی (زرعی ‪ Agriculture Revolution‬ہوتی ہے جب شہروں کی تاریخ شروع ہوئی اور شہر تب بن پائے کہ جب‬
‫بھی کہا جاتا ہے۔ ‪ Neolithic Revolution‬انقالب) ہوا جس کو‬
‫کہتے )‪ (stone age‬یہ تقریبًا ‪ 12000‬سال پہلے کی تاریخ ہے۔ ُاس سے پہلے جتنی تاریخ تھی ُاس کو ہم پتھروں کا زمانہ‬
‫پرانی تاریخ ہے۔ جب انسان خانہ بدوش اور شکاری ہوا کرتا تھا۔ ‪million‬ہیں جو آج سے تقریبًا ‪3.4‬‬
‫دراصل مصر سے شروع ہوتا ہے پھر فلسطین‪ ،‬اس کے بعد شام اور پھر )‪ (Agriculture revolution‬زرعی انقالب یعنی‬
‫عراق۔ یہ پورا عالقہ یعنی مصر سے لیکر شام و عراق تک‪ ،‬یہاں بہت سارے دریا ہیں جس کے نتیجے میں یہاں پہ مٹی بڑی‬
‫زرخیز ہے۔‬
‫کو مٹی کے اندر بویا جائے‪ ،‬اس کو پانی دیا جائے‪ ،‬اس کا خیال کیا جائے )‪ (seed‬انسان نے یہ سیکھا کہ کس طرح سے بیج‬
‫اور اس میں سے فصل پیدا کیں جائے۔‬
‫ِاس کے ساتھ ساتھ تقریبًا آج سے ‪ 12000‬سال پہلے انسان نے یہ سیکھا کہ مٹی کے برتن کس طرح بنائے جاتے ہیں‪ ،‬اس‬
‫کے ساتھ مٹی کے گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں اور پھر جو مختلف جانور ہیں ان کو کس طرح زرعی کاموں کے لئے‬
‫ایجاد کی گئی اور سب سے پہلے درانتیاں )‪ (Sickle‬استعمال کیا جاسکتا ہیں۔ سب سے اہم ایجاد فصل کاٹنے کیلئے درانتی‬
‫جو بنی وہ پتھر کی بنی ہوئی ہوتی تھی۔‬
‫پھر آہستہ آہستہ انسان نے لوہے سے درانتیاں بنانا شروع کیا اور ظاہر ہے جب درانتیاں بنی تو پھر فصل کو کاٹنا بھی‬
‫اتنا ہی آسان ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی انسان نے یہ سیکھا کہ کس طرح سے پتھر کی کلہاڑی بنائی جاسکتی ہے جس سے انسان‬
‫نے جنگالت کو صاف کیا اور وہاں پہ زراعت شروع کی اور شاید سب سے اہم زرعی ایجاد "ہل" کی ایجاد تھی کہ کس طرح‬
‫سے ہل چال کر زمین کو مزید زرخیز بنایا جاسکتا ہے‪ ،‬یہ تقریبًا آج سے ‪ 8000‬سال پہلی کی تاریخ ہے۔‬

‫پرانے شہر –‬
‫)‪ (Aleppo‬الیپو )‪1‬‬
‫کے اندر وہ پہلے منِدر قائم ہوئے کہ جس کے ‪BC‬ہے وہاں پہ تقریبًا ‪ Aleppo 9400‬شام کے اندر ایک شہر ہے جس کا نام‬
‫ِاردگرد آبادی کے نتیجے میں شاید پہلے شہر قائم ہوئے۔‬

‫)‪ (Jericho‬جیریکو )‪2‬‬


‫کے اندر قائم ہوا جس کی آبادی دو سے تین ہزار تھی۔ ‪BC‬جیریکو فلسطین کا ایک پرانا شہر ہے جو ‪8000‬‬
‫یاد رہے ُاس زمانے میں وہ جگہ جہاں دو سے تین ہزار کی آبادی ہوتی تھی ُاس کو شہر مانا جاتا تھا۔‬

‫)‪ُ (Susa‬سوسہ )‪3‬‬


‫پرانا ہیں۔ ‪BC‬سوسہ ایران کے اندر ایک پرانا شہر ہے جو تقریبًا ‪6000‬‬

‫)‪ (Egypt‬مصر )‪4‬‬


‫میں قائم ہوا جو کہ فرعونوں کی تاریخ سے جوڑی ہے۔ ‪BC/5000BC‬مصر ایک پرانا شہر ہے جو تقریبًا ‪6000‬‬

‫)‪ (Indus Valley Civilization‬وادی سندھ )‪5‬‬


‫میں قائم ہوا۔ ‪BC‬جو کہ تقریبًا ‪ Indus Valley Civilization 5000‬وادی سندھ کی تہذیب یعنی‬

‫)‪ (Xia Dynasty‬چیا ڈائنسٹی )‪6‬‬


‫میں قائم ہوا۔ ‪BC‬چین میں چیا ڈائنسٹی تقریبًا ‪4000‬‬

‫غرض یہ کہ اب ہمیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کس جگہ سے زرعی انقالب شروع ہوا اور کیسے پہلے شہر قائم ہوئے جہاں پر‬
‫پھر بتدریج فلسفہ پیدا ہوا۔‬

‫)‪ (Bronze age‬کانسی کا دور –‬


‫کی ایجاد سیکھی۔ یہ ‪ Bronze‬میں یعنی آج سے آٹھ ہزار (‪ )8000‬سال پہلے انسان نے کانسی یعنی ‪BC‬تقریبًا ‪6000‬‬
‫سے انسان نے )‪ (metal‬سے سخت ہوتا ہے‪ ،‬اس نئی دھات ‪ copper‬کو مال کر بنایا جاتا ہے جو کہ ‪ Tin‬اور ‪copper‬‬
‫َاوزار بھی بنائے اور ہتھیار بھی۔‬
‫کا یہ فائدہ ہوا کہ اس سے انسان کی پیداواری قوتوں میں بہت بڑا بہت اضافہ ہوا۔ )‪ (tools‬اوزار‬

‫زائد پیداوار اور حکومت و بادشاہت –‬


‫انسان اب اتنا کچھ پیدا کر سکتا تھا کہ اپنی بنیادی اور اپنی سماج کی ضروریات سے بھی بہت زائد تھا جس کو ہم زائد پیداوار‬
‫کہتے ہیں۔ )‪ (Surplus Product‬یعنی‬
‫کے نتیجے میں پرانے قبیلوں کی قیادت بتدریج حکمران طبقے میں تبدیل ہوئی‪ ،‬جہاں )‪ (Surplus product‬زائد پیداوار‬
‫سے پھر ریاست بنی اور ریاست کے ساتھ بادشاہت قائم ہوئی۔‬
‫یہی وہ دور ہے کہ جب مردوں نے عورتوں پر غلبہ حاصل کیا اور یہی وہ دور تھا کہ جب ایک قبیلے نے ہتھیاروں کے‬
‫زریعے دوسرے قبیلے پر حملہ کرنا شروع کیا اور جس قبیلے کو وہ فتح کرلیتے تھے ُاس قبیلے کو وہ اپنا غالم بنا لیتے‬
‫سے ہی غالمی کا تصور ُابھر جاتا ہے۔ ‪BC‬تھے۔ تو یہاں یعنی تقریبًا ‪6000‬‬
‫)‪ (Iron age‬لوہے کا دور –‬
‫میں ‪BC‬تقریبًا ‪ (Iron age) 3000‬کا دور شروع ہوتا ہے۔ لوہے کا دور )‪ (iron‬کے بعد لوہے )‪ (Bronze age‬برانز ایج‬
‫کے اندر تبدیل کیا گیا۔ )‪ (tools‬کے اندر پہلی دفعہ لوہے کو پگھال کر مختلف اوزار )‪ (Nigeria‬شروع ہوتا ہے اور نائیجیریا‬
‫کے ساتھ مالیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے )‪ (Carbon‬کو جب کاربن )‪ (iron‬بہت ہی نرم ہوتا ہے مگر آئرن )‪ (iron‬آئرن‬
‫بنتا ہے جو کہ آئرن اور برانز سے سخت ہوتا ہے۔ سٹیل کا بہت اہم استعمال "ہل" چالنے میں استعمال ہوا )‪ (Steal‬میں سٹیل‬
‫جس کے نتیجے میں زراعت کی پیدواری قوتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔‬
‫کہتے ہیں اور یہی وہ دور ہے کہ جب انسان نے سب سے پہلے لکھائی کی )‪ (Iron age‬یہی وہ دور ہے جس کو ہم آئرن ایج‬
‫کی دریافت ہوئی‪ ،‬نتیجتًا سب سے پہال )‪ (Alphabets‬دریافت کی اور جیسے ہی لکھائی دریافت ہوئی تو مختلف حروِف یعنی‬
‫قائم ہوئے۔ )‪ (Historical records‬پیدا ہوا اور سب سے پہلے تاریخی ریکارڈز )‪ (Literature‬ادب‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 03 :‬‬
‫قدیم یونان کی تاریخ –‬
‫قدیم یونانی تاریخ کو ہم چار ُبنیادی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ؛‬
‫)‪ (The Greek Dark Age‬یونانی ڈارک ایج )‪1‬‬
‫)‪ (The Archaic Period‬آرکیک دور )‪2‬‬
‫)‪ (Classical Period‬کالسیکل دور )‪3‬‬
‫)‪ (Hellenistic Period‬ہیلینسٹیک دور )‪4‬‬

‫)‪ (The Greek Dark Age‬یونانی ڈارک ایج )‪1‬‬


‫تک جاری رہتا ہے اور اس کو ڈارک ایج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے بارے ‪BC‬سے ‪BC 800‬ڈارک ایج تقریبًا ‪1200‬‬
‫کوئی تاریخی ریکارڈز موجود نہیں ہے یعنی ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ اس دور کے اندر کیا ہوا تھا اور کیا خیاالت و رجحانات‬
‫ہوا کرتے تھے۔‬
‫وغیرہ مل جاتے ‪ Odyssey‬اور ‪ (works) Iliad‬کے وہ ورکس ‪ Hesiod‬اور ‪ Homer‬میں ہمیں پہلی بار ‪BC‬تقریبًا ‪800‬‬
‫ہیں کہ جس کے نتیجے ہمارے پاس پہلی دفعہ تاریخی ریکارڈ آتا ہے کہ جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قدیم یونانی سوچ کیا‬
‫سے لے کر " ‪BC‬تک جاری رہتا ہے۔ ‪BC 500‬سے ‪BC 500‬تھی جس کو پھر ہم آرکیک دور کہتے ہیں جو ‪800‬‬
‫کی موت کی تاریخ ہے‪ ،‬ایک اگال دور یعنی کالسیک دور شروع ہوتا ہے )‪ (Alexander‬تک جو کہ سکندر اعظم "‪323BC‬‬
‫حصہ ہے جس میں یونانی فلسفے کو )‪ (golden‬جس میں افالطون‪ ،‬سقراط اور ارسطو آتے ہیں یہ دور تاریخ کا ایک گولڈن‬
‫‪ BC‬فروغ ملتا ہے۔ آخری دور کو ہیلینیسٹک دور کہا جاتا ہے جو سکندر اعظم کے موت کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی ‪323‬‬
‫تک۔ ‪BC‬سے تقریبًا ‪146‬‬

‫)‪ (The Archaic Period‬آرکیک دور )‪2‬‬


‫عام لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ قدیم یونانی تہذیب کا تعلق مغرب سے ہے‪ ،‬ہے بھی مگر یونانی تہذیب عروج پر نہ پہنچتی اگر‬
‫کا اثر نہ ہوتا۔ )‪ (East‬اس پر مشرق‬
‫اور مصر کا بہت گہرا اثر ہے۔ )‪ (Phoenicians‬کا اثر‪ ،‬فونییشینز )‪ (Assyrians‬خاص طور پر ایسرینز‬
‫نے ہی سب سے پہلے لکھائی ایجاد کی اور یونانیوں نے بھی وہی لکھائی فونییشینز سے )‪ (Phoenicians‬بلکہ فونییشینز‬
‫لی۔ لکھائی کے نتیجے میں سب سے پہلے وہ ورکس (کام) تیار کیے گئے جو یونانی مذہبی نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے۔‬
‫دو ایسے افراد تھے کہ جنہوں نے شاعری کے انداز میں ان خیاالت و رسومات کو )‪ (Hesiod‬اور ہیسیوڈ )‪ (Homer‬ہومر‬
‫درج کیا جو کہ یونانی تہزیب کا حصہ تھی۔‬

‫)‪ (Works of Homer‬ہومر کے ورکس –‬


‫)‪ (The Iliad and the Odyssey‬ایلَی ڈ اور اوڈیسی ‪۰‬‬

‫)‪ (Work of Hesiod‬ہیسیوڈ کے ورکس –‬


‫)‪ (Works and Days‬ورکس اینڈ ڈیز ‪۰‬‬
‫)‪ (Theogony‬تیوجینی ‪۰‬‬
‫)‪ (Shield of Heracles‬شیلڈ آف ہیریکلی ‪۰‬‬
‫یہ ورکس قدیم یونان کے لوگوں کے لئے وہ حیثیت رکھتی تھی جو آج مسلمانوں کے لئے قرآن اور عیسائیوں کے لئے انجیل‬
‫حیثیت رکھتی ہے۔‬
‫میں منعقد ہوئی۔ یہ وہ تاریخ ہے جس میں ڈارک ایج ختم ہوتی ہے اور ‪ (Olympic) 776BC‬تاریخ میں پہلی بار اولیمپیک‬
‫)‪ (The Archaic Period‬ایک نیا دور یعنی آرکیک‬
‫دور شروع ہوتا ہے۔‬
‫تھے یعنی ان کے کئی دیوتا یا خدا ہوا کرتے تھے جن کی وہ پوجا کرتے )‪ (Polytheists‬یونانی لوگ دراصل پولیتیئسٹس‬
‫تھے۔‬
‫کہا جاتا ہیں اور ان کے مزید ‪ 370‬دیوتا تھے جو اس کی پرستش ‪ Olympian Gods‬ان کے چودھا (‪ )14‬دیوتا تھے جنہیں‬
‫کرتے تھے۔‬
‫تھے ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان میں انسانوں جیسی خصوصیات تھیں۔ ‪ Olympian Gods‬جو ان کے‬
‫مثال کے طور پر وہ برائی بھی کرتے تھے اور اچھائی بھی کرتے تھے۔‬
‫جو بالکل اس کے مخالف ‪ Hades‬کا بھائی تھا اس کا نام تھا ‪ Zeus‬اور جو ‪ Zeus،‬جو دیوتا کا بادشاہ تھا اس کا نام تھا‬
‫میں رہتا تھا۔ )‪ (under world‬کھڑا تھا اور وہ انڈر ورلڈ‬
‫‪،‬الئٹ کی دیوتا ‪، Apollo‬جنگ کی دیوتا ‪، Aries‬پیار کی دیوتا ‪، Aphrodite‬شادی کی دیوتا تھی )‪ (Hera‬ہرا‬
‫سمندر کی دیوتا اور اس طرح مختلف دیوتا کا تعلق مختلف چیزوں سے تھا۔ ‪Poseidon‬‬
‫یونانیوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا میں انسان پر مصیبت تب آتی ہے جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے۔‬
‫کم ہو جاتی ہے اور ان کی )‪ (Power‬ان کا خیال تھا کہ جب انسان ان دیوتاؤں کی پرستش چھوڑ دے تو ان دیوتاؤں کی پاور‬
‫انسانوں کی دیکھ بھال میں دلچسپی نہیں رہتی۔ یونانیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ انسانوں کے درمیان‪ ،‬دو قبیلوں‪ ،‬دو ریاستوں یا‬
‫دو فوجوں کی درمیان جنگ کی وجہ بھی دو دیوتاؤں کے درمیان تضاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔‬

‫)‪ (Classical Period‬کالسیکل دور )‪2‬‬


‫میں شروع ہوا۔ یہی وہ دور تھا جس میں نئے پیداواری قوت کے نتیجے میں زیادہ پیداوار پیدا ہوتی ‪BC‬کالسیکل دور ‪500‬‬
‫ہیں اور بہت زیادہ خوشحالی آتی ہے۔‬
‫یہی وہ دور ہے جس کے اندر آبادی پانچ گنا بڑھ جاتی ہے اور نئے پیداوار اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں نیا لٹریچر‪،‬‬
‫اور نئے علوم پیدا ہوتے ہیں۔ )‪ (Arts‬نئے آرٹس‬
‫جو سیاسی ڈھانچہ تھا ان میں چھوٹے چھوٹے شہر تھے اور ان کی اپنی اپنی حکومت ہوا کرتی تھی۔‬
‫ان چھوٹے چھوٹے شہروں کا کوئی مذہب نہیں تھا کیونکہ لوگ مختلف دیوتا کی پرستش کرتے تھے اور ایک مشترکہ مزہب‬
‫نہیں تھا اس لئے ایک مذہبی ریاست بنانا ممکن نہیں تھا۔ ان کے درمیان کوئی اتفاق نہیں تھا اور اکثر و بیشتر آپس میں لڑتے‬
‫رہتے تھے۔‬
‫ہے جس کا ریاستی ڈھانچہ بنیادی طور غالم )‪ (Sparta‬اور اسپارٹا )‪ (Athens‬دو سب سے اہم جو ریاست تھے وہ ایتھنز‬
‫لوگوں کو اپنا غالم بنایا تھا اور وہ چھوٹے اور بڑے کام ان سے کرواتے ‪ Non-Greek‬داری نظام پر کھڑا تھا۔ انہوں نے‬
‫تھے۔‬
‫کو کم ازکم تین حصوں‪/‬طبقات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ )‪ (societies‬اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سوسائٹیز‬

‫تین قسم کے طبقات –‬


‫)‪ (Aristocracy‬اریسٹاکریسی )‪۱‬‬
‫)‪ (Freeman/Demos‬فری مین یا ڈماس )‪۲‬‬
‫)‪ (Slaves‬غالم )‪۳‬‬
‫کہا جاتا ہے‪ ،‬جو غالموں کے آقا تھے۔ )‪ (Aristocracy‬یعنی ایک وہ طبقہ تھا جس کو ارسٹوکریسی‬
‫کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خود غالم تھے اور ‪ Demos‬یا یونانی زبان میں ‪ Freeman‬جو دوسرا طبقہ تھا اسے‬
‫نہ ان کے کوئی غالم تھے۔‬
‫طبقے کے نیچے )‪ (Aristocracy‬کے نیچھے جو طبقہ تھا وہ غالم ہوا کرتے تھے‪ ،‬جو ارسٹوکریسی )‪ (Demos‬ڈماس‬
‫زندگی گزار رہے تھے۔‬

‫دونوں کام کیا کرتے تھے۔ )‪ (Domestic‬تو اسپارٹا کے اندر تقریبًا آدھے سے زیادہ لوگ غالم تھے اور وہ زرعی و گھریلو‬
‫میں اس سے بھی زیادہ غالم تھے مگر اسپارٹا اور ایتھنز میں فرق یہ تھا کہ ایتھنز میں ‪ Athens‬کہا جاتا ہے کہ ایتھنز‬
‫کام کیا کرتا کرتے تھے جو نہ غالم طبقے سے )‪ (Demos‬تھی جس میں فری لوگ )‪ (Navy‬کے پاس ایک نیوی ‪demos‬‬
‫کا نیوی میں ایک اہم کردار )‪ (Demos‬تعلق رکھتے تھے اور نہ اریسٹوکریسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے چونکہ ڈماس‬
‫تھا تو اس کے نتیجے میں ان کا سیاست اور ریاستی امور میں بھی ایک اہم کردار تھا۔‬
‫یاد رہے اسپارٹا اور ایتھنز کا جو سیاسی نظام تھا وہ بالکل مختلف تھا۔‬
‫اسپارٹا میں جو ارسٹوکریسی (آقا) واال طبقہ تھا وہ مکمل طور پر سیاست پر قابض تھا لیکن دوسری طرف ایتھنز میں‬
‫کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتہ تھا اور اس سمجھوتے کے نتیجے میں ہی پولیٹیکل )‪ (Demos‬ارسٹوکریسی اور ڈماس‬
‫‪.‬کہا جاتا تھا )‪ (Democracy‬کو ڈیموکریسی )‪ (Political system‬سسٹم‬
‫اہم تھے اور ان کا اہم کردار تھا۔ )‪ (Demos‬اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایتھنز کے لئے ڈماس )‪ (Democracy‬ڈیموکریسی‬
‫میں غالموں اور عورتوں کو کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ان لوگوں کا )‪ (Democracy‬یہ بھی یاد رہے اس ڈیموکریسی‬
‫کوئی کردار تھا جو یونان سے تعلق نہیں رکھتے۔‬
‫پر ایک بڑا ثقافتی اور )‪ (Greek‬سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو پورا غالم داری کا نظام تھا‪ِ ،‬اس غالم داری نظام کا یونان‬
‫نظریاتی اثر تھا وہ یہ کہ ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‪ ،‬ان لوگوں کو بھی حقارت‬
‫کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو تجارت کیا کرتے تھے یعنی حٰت ی تجارت کو بھی غالمی سے منسلک کیا گیا تھا۔‬
‫صرف ان لوگوں کو زیادہ اچھا اور محترم سمجھا جاتا تھا جو دماغ سے کام کیا کرتے تھے جو دانشور تھے اور جو خالص‬
‫فالسفرز ہوا کرتے تھے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 04 :‬‬
‫مختلف اہم طبقات اور اہم تاریخی جھڑپیں –‬
‫یونان کی سیاسی نظام میں تبدیلی آرہی تھی اور غالمی نظام کے نتیجے میں جو اتنی ساری دولت اکٹھا ہو رہی تھی‪ ،‬اس دولت‬
‫کے نتیجے میں ایک نیا طبقہ وجود میں آتا ہے جو کہ پرانے قبائلی لیڈرز کے نسبت مضبوط تر تھے اور اس نئے طبقے کے‬
‫کہا جاتا تھا۔ )‪ (Oligarchy‬نظام کو اولیگارکی‬
‫ایک طرف پرانے قبائلی قیادت تھی اور دوسری طرف پیسے واال طبقہ تھا‪ ،‬ان کا آپس ميں ایک سیاسی تضاد ہوتا ہے۔‬

‫)‪ (Demagogue‬ڈیماگاگ –‬
‫کہا جاتا تھا۔ ‪ Demagogue‬کی نمائندگی کرتے تھے اسے )‪ (Demos‬اس دور میں ایسے لیڈرز بھی پیدا ہوئے جو ڈماس‬
‫کا مطلب ہے زبان یعنی وہ لوگ جو ڈماس کی زبان بولتا ہو یعنی جو ڈماس کے نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتا ہو۔ ‪gogue‬‬
‫ان لوگوں کو کہا جاتا ہیں جو تقریر کے دوران ایسے نقطہ نظر پیش کریں کہ جو سچ بھی ‪ Demagogue‬لیکن آج کل‬
‫ہوسکتا اور جھوٹ بھی۔‬

‫)‪ (Tyrant‬ٹائرینٹ –‬
‫کا مطلب نہایت برا قسم کا ‪ Tyrant‬کہا جاتا تھا آج کل ‪ Tyrant‬مزید ایک ایسا قسم کا سیاسی لیڈر بھی پیدا ہوگیا جس کو‬
‫عامر ہے مگر اس زمانے میں ایک ایسا فرد جو امیر طبقے سے ان کی جائداد غریب طبقے میں تقسیم کرتا تاکہ نظام اعتدال‬
‫سے چل سکے‪ ،‬وہ نہ غالموں کا نمائندہ تھا اور نہ ڈماس کا۔ اس کا تعلق ارسٹوکریسی طبقے سے ہوتا تھا مگر فرق صرف‬
‫اتنا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح امیر طبقہ اور ڈماس کے درمیان سمجھوتا قائم ہو۔‬

‫ڈماس اور ارسٹوکریسی کے مابین جھڑپیں –‬


‫)‪(Clashes between Demos and Aristocracy‬‬
‫یہ کہنا بڑا ضروری ہے کہ ایک ایسا دور تھا کہ جہاں طبقاتی تضاد بڑا کھل کے نظر آتا تھا۔‬
‫شہر جو کہ فلسفے میں ایک اہم کردار ادا کریگا بلکہ فلسفے ‪ Miletus‬لکھتے ہے کہ )‪ (Bertrand Russell‬برٹرنڈ رسل‬
‫کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہاں بہت تیزی سے کھال تضاد نظر ‪ Miletus‬کا آغاز ہی یہی سے شروع ہوتا ہے لیکن رسل‬
‫یعنی ڈماس ارسٹوکریسی طبقے کے عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیتے ہیں‪ ،‬بدلے ميں )‪ (Freeman‬آرہا تھا۔ فری مین‬
‫ارسٹوکریسی کے طبقے کے لوگ نہ صرف ڈماس کے لیڈرز کو بلکہ ڈماس کے تقریبًا تمام لوگوں کو پکڑ کر شہر کے‬
‫چوکوں پر زندہ جال دیتے ہیں۔‬
‫تو اس قسم کا بڑا طبقاتی تضاد ہمیں یونان میں نظر آتا ہے۔‬

‫عورتوں کے حقوق –‬
‫یونان کا جو نظام تھا اس میں عورتوں کے بہت کم حقوق تھے‪ ،‬اس وقت مرد عورتوں پر غالب تھے بلکہ یونان والے یہ‬
‫ہے۔ )‪ (Superior‬سمجھتے تھے کہ مرد ہی اعلٰی‬
‫اور فاتح )‪ (Sportsman‬اور جو یونانی ہیرو تھا وہ ایک کھالڑی "‪ "The Hero‬تھا )‪ (concept‬یونانیوں کا ایک کانسیپٹ‬
‫ہوا کرتا تھا۔ ان کو جنگ کا بڑا شوق ہوتا تھا۔‬
‫تو عورتوں کے حوالے سے جو خیاالت و تصورات تھے وہ یہ تھے کہ یہ تو کمزور ہے‪ ،‬جنگ نہیں کرسکتی لہزا ان کے‬
‫مطابق عورت مرد سے کم درجہ حیثیت رکھتی ہیں۔‬
‫اس وقت اگر کوئی خاتون اثر و رسوخ رکھتی بھی تھی تو وہ یا تو اپنی خاندان کی وجہ سے یا اپنے طاقتور شوہر کی وجہ‬
‫سے رکھتی تھی۔‬

‫)‪ (Greco-Persian Wars‬یونان و فارس جنگیں –‬


‫چلتی ‪ Greek/Persian War‬سے تھا۔ تقریبًا ‪ 50‬سال تک "‪" Persian Empire‬یونانیوں کے لئے جو بڑا خطرہ تھا وہ‬
‫تک۔ ‪BC‬سے ‪BC 449‬رہی‪ ،‬یعنی ‪499‬‬
‫اس دوران یونان پر بہت حملے ہوتے رہے‪ ،‬فارس نے یونان کی فتح کی بہت کوشش کی لیکن آخر میں یونان اس وجہ سے بچ‬
‫گیا کہ جب اسپارٹا اور ایتھنز نے ساتھ میں مل کر فارس کا مقابلہ کیا۔‬
‫اسپارٹا اور ایتھنز مل کر فارس کے خالف دفاع تو کرلیتا ہے مگر دفاع کے فورًا بعد ان کی آپس میں جنگ شروع ہوتی ہے‬
‫تک وہ آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ اسپارٹا کو آخرکار کامیابی ملتی ہے‪ ،‬جیسے ہم نے پہلے ‪BC‬سے ‪BC 404‬اور ‪431‬‬
‫بھی ذکر کیا تھا کہ اسپارٹا اور ایھتنز کا سیاسی نظام بالکل مختلف تھا۔‬
‫اسپارٹا میں حکومت مکمل طور پر ارسٹوکریسی کے ہاتھ میں تھی اور ایتھنز میں حکومت ڈماس اور ارسٹوکریسی کے‬
‫درمیان سمجھوتے کے بنیاد پر تھی۔‬

‫)‪ (Alexander‬سکندر اعظم –‬


‫بہرحال یونان نے اپنا دفاع تو کر لیا لیکن جب سکندر اعظم اپنی فوج کے ساتھ نکلتا ہے تو وہ نہ صرف یونان کا دفاع کرتا‬
‫کو بھی فتح کرلیتا ہے۔ وہاں سے افغانستان کے عالقوں کو فتح کرتا ہے۔ پھر آج کے پاکستان و انڈیا اور ‪ Persia‬ہے بلکہ‬
‫دریائے سندھ کے عالقوں تک آجاتا ہیں اور یہاں تیر کھا کر واپس دریا کے زریعے ایران چال جاتا ہے جہاں اس کی وفات‬
‫بھی ہوجاتی ہے۔‬
‫کے درمیان تضادات و )‪ (Persia‬ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ یونان کی جو اپنی اندرونی سوچ و سمجھ تھی وہ یونان اور فرژیا‬
‫لڑائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔‬

‫فلسفے کا آغاز –‬
‫یہ وہ تمام پس منظر تھا جہاں سے فلسفے کا آغاز ہوتا ہے۔ فلسفہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں کہ جو‬
‫اپنے آپ کو اس زمانے کے مذہب سے علیحدہ کرکے قدرت کے اندر جو مختلف سواالت ان کو نظر آتے ہیں یا زندگی کے‬
‫اندر جو مختلف سواالت ان کس نظر آتے ہیں‪ ،‬ان کو وہ قدرت کے اندر قوانین تالش کرکے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫ان میں مختلف شخصیات شامل ہیں جیسے تھلیس‪ ،‬انیگزمینڈر‪ ،‬اینگزیمنیس وغیرہ لیکن ان کو ہم اگلے اقساط میں پڑھیں گے۔‬
‫مگر سب سے اہم بات یہ کہ سب سے پہلے فالسفر کا یہ خیال تھا کہ یہ جو تمام چیزیں قدرت میں ہمیں نظر آتی ہیں یعنی‬
‫درخت‪ ،‬پتے‪ ،‬پہاڑ‪ ،‬آسمان‪ ،‬زمین‪ ،‬انسان اور جانور اور یہ تمام چیزیں جو مادے کی شکل میں نظر آتے ہیں‪ِ ،‬ان تمام چیزوں‬
‫کی بنیاد صرف ایک مادہ ہے اور وہ مختلف شکل اختیار کر لیتی ہے یعنی کبھی انسان کا‪ ،‬کبھی جانور کا تو کبھی پہاڑ کا‬
‫وغیرہ۔‬
‫کیا ہے؟‪ ،‬میں کون ہوں؟‪ ،‬کہاں سے ‪ Existence‬تو فالسفرز گویا کہ وہ لوگ تھے جو بنیادی سواالت پوچھتے تھے جیسے‬
‫آیا ہوں؟‪ ،‬چیزیں کس طرح تبدیل ہوتی ہے؟‪ ،‬زندگی کیا ہے اور زندگی کا مقصد کیا ہے وغیرہ۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 05 :‬‬
‫یونانی فلسفہ کے مختلف ادوار اور مائلیژن سکول –‬
‫اس سے پہلے ہم نے فلسفے کے تاریخ کو تھوڑا بیان کیا لیکن فالسفرز کی ذکر نہیں کی۔ اس کے بعد ہم کچھ فاالسفرز کے‬
‫‪BC‬کے بارے میں ذکر کیا جنہوں نے تقریبًا ‪ Hesiod 700‬اور ‪ Homer‬بارے میں بحث کریں گے۔ اس سے پہلے ہم نے‬
‫کو لکھ دیا جس کے نتیجے میں یونانی مائتھالوجی پر تنقید بھی شروع )‪ (Mythology‬میں تمام یونانی افسانوں یا مائتھالوجی‬
‫ہوئی۔‬
‫پہلے فالسفرز وہی لوگ تھے جو ِاس مائتالوجی سے ٹوٹ کر نئے سوال اور نئے جواب تالش کر رہے تھے۔ ان فالسفرز کا‬
‫یہ کہنا تھا کہ یہ جو یونانی مائتھالوجی میں دیوتا ہیں یہ تو بالکل انسانوں جیسے ہیں اور کوئی خدا انسان جیسا تو نہیں ہو‬
‫سکتا لہذا وہ یہ چاہتے تھے کہ قدرت اور سماج کے بارے ميں جو سواالت ہیں ان کے جوابات قدرت کے قوانین کو سمجھ کر‬
‫قدرت میں ہی تالش کیا جائے۔‬
‫اس زمانے میں فالسفرز اس لئے فلسفہ کرتے تھے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ حق و سچ کو تالش کر رہے ہیں۔‬
‫یعنی ان کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں تھا کہ ان کا فلسفے کے نتیجے میں معاشی ترقی ہوتی ہے یا نہیں‪ ،‬کوئی ان کو‬
‫پسند کرتا ہے یا نہیں کرتا‪ ،‬اس سے ان کو پیسے ملتے ہیں یا نہیں ملتے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں علم اس لئے حاصل کرنا‬
‫چاہئیے تاکہ ہم مزید چیزوں کے بارے میں جان سکے اور مزید سے مزید تر علم حاصل کرسکے یعنی؛‬
‫‪Seek knowledge for the sake of Knowledge.‬‬
‫اس کے پیچھے شاید یہ بھی ایک وجہ ہے‪ ،‬جیسے ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ چونکہ اس وقت سماج کے اندر غالم داری‬
‫نظام ہوا کرتا تھا تو ہاتھ سے کام کرنے کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انتہائی برا سمجھتے تھے۔‬
‫لہزا جب یونانی فلسفہ شروع ہوا تو اس کا عملی و معاشی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ یہی‬
‫دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ )‪ (Practical‬سمجھتے ہیں کہ فلسفے کا عملی‬

‫)‪ (Monism‬موِنزم –‬
‫دنیا کس چیز سے بنی ہے؟‪ ،‬کب بنی ہے؟‪ ،‬کیوں بنی ہے؟‪ ،‬انسان کا مقصد کیا ہے؟‪ ،‬زندگی کا مقصد کیا ہے؟‪ ،‬جو مختلف‬
‫چیزے ہمیں نظر آتی ہیں کیا ہماری آنکھیں ہمیں دھوکا دے رہی ہے؟‪ ،‬جس طرح ہمیں دنیا نظر آرہی ہے کیا واقعی اس طرح‬
‫ہے؟‪ ،‬اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ وغیرہ۔‬
‫جو پہلے فالسفرز تھے ان کا یہ خیال تھا کہ جتنی بھی کائنات ہے وہ بنیادی طور پر ایک چیز سے بنی ہوئی ہے اور اسی‬
‫کہا جاتا ہے۔ )‪ (Monism‬سوچ و تصور کہ سب چیزیں ایک ہی چیز سے بنی ہے کو موِنزم‬

‫یونانی فلسفہ کے مختلف ادوار –‬


‫یونانی فلسفہ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہیں؛‬
‫)‪ (Pre-Socratic philosophy‬قبل از سقراط کا فلسفہ )‪1‬‬
‫)‪ (Socratic philosophy‬سقراط کا فلسفہ )‪2‬‬
‫)‪ (Hellenistic philosophy‬ہیلینسٹیک فلسفہ )‪3‬‬

‫)‪ (Pre-Socratic philosophy‬قبل از سقراط کا فلسفہ )‪1‬‬


‫‪ (Pythagoras)،‬پائتاگرس ‪ (Anaximenes)،‬ایناگزمینیس ‪ (Anaximander)،‬ایناگزمینڈر ‪ (Thales)،‬اس میں تھلیس‬
‫شامل ہیں۔ )‪ (Heraclitus‬اور ہیراکالئٹس‬

‫)‪ (Socratic philosophy‬سقراط کا فلسفہ )‪2‬‬


‫‪.‬شامل ہیں )‪ (Socrates‬اور خود سقراط )‪ (Aristotle‬ارسطو ‪ (Plato)،‬اس دور میں افالطون‬

‫)‪ (Hellenistic philosophy‬ہیلینسٹیک فلسفہ )‪3‬‬


‫اور نیو ‪ (Epicureans)،‬ایپیکیورینز ‪ (Skeptics)،‬سکیپٹیکس ‪ (Stoics)،‬سٹوئکس ‪ (Cynics)،‬اس میں سینیکس‬
‫شامل ہیں۔ )‪ (Neo-Platonists‬پلیٹونسٹس‬

‫قبل از سقراط کے فلسفہ کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہیں؛‬
‫)‪ (Founders‬بانیان )‪۱‬‬
‫)‪ (Challengers‬چیلنجرز )‪۲‬‬
‫)‪ِ (Synthesizers‬س نتھسائزرس )‪۳‬‬

‫پہلے وہ لوگ جو فلسفہ کے فاؤنڈرز یعنی بنیاد رکھنے والے تھے‪ ،‬دوسرے وہ لوگ جنہوں نے پہلے بنانے والوں پر تنقید کی‬
‫تیسرے وہ لوگ جو تنقید اور اس سے پہلے بنے ہوئے فلسفے کو مال کر نئے جوابات تالش کرلیتے ‪ challengers،‬یعنی‬
‫کہا جاتا ہیں۔ )‪ (Synthesizers‬تھے جن کو سنتھسائزرس‬

‫)‪ (Miletus‬مائلیٹس –‬
‫مائلیٹس وہ شہر جہاں سے فلسفہ شروع ہوتا ہے جو کہ آج ترکی کا شہر ہے۔ مائلیٹس ایک ساحل واال شہر تھا جہاں بہت‬
‫تجارت کی جاتی تھی۔‬
‫۔"‪ "Milesian School‬جو پہال فلسفے کا سکول شروع ہوا اسے کہا جاتا ہے مائلیژن سکول‬
‫مائلیژن سکول کے اور بھی کئی سارے نام ہیں جیسے؛‬
‫‪• Primitive monist materialism‬‬
‫‪• Primitive materialism‬‬
‫‪• Natural philosophers‬‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 06 :‬‬
‫)‪ (Thales‬تھیلیس –‬
‫میں اس کی وفات ہوجاتی ہے۔ ‪BC‬میں ہوتی ہے اور تقریبًا ‪BC 545‬تھیلیس کی پیدائش تقریبًا ‪624‬‬
‫تاریخ میں شاید سب سے پہلے فالسفر کا نام تھیلیس ہے۔‬
‫یعنی ہر چیز میں زندگی پائی جاتی ہے۔ شائد یہ خیال اسے اسلئے آیا کہ "‪ "Everything is full of life‬اس کا یہ کہنا تھا کہ‬
‫جب اس نے مٹی کو دیکھا‪ ،‬اس میں سے اسے نکلتے ہوئے پھول نظر آئے‪ ،‬درخت نظر آئے‪ ،‬گھاس نظر آئے‪ ،‬چھوٹے‬
‫نظر آئے۔ اس کا یہ تصور تھا کہ ہر چیز مٹی سے نکلتی ہیں اور مٹی میں ہی چلی جاتی )‪ (insects‬چھوٹے کیڑے مکوڑے‬
‫ہیں۔‬
‫آج اگر ہم جدید سائنس کی اعتبار سے دیکھے تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہر چیز کے اندر زندگی واقعی موجود ہے‪ ،‬مطلب یہ کہ‬
‫ہر جگہ آپ کو کئی نہ کئی اور کوئی نہ کوئی چھوٹے چھوٹے اور خوردبینی جاندار ملیں گے‪ ،‬جیسے اگر ہم چھوٹے چھوٹے‬
‫کو دیکھے تو اس میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔ )‪ (Virus‬اور وائرس )‪ (Bacteria‬بیکٹیریا‬
‫تھیلیس ایک قسم کا نیچرل فالسفر تھا اور اگر ہم سائنس کی نگاہ سے دیکھے تو شاید تھیلیس کو ہم پہال سائنسدان بھی کہہ‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫کے لوگوں کو حیران و پریشان کردیا تھا۔ اس نے پہلی سورج گرہن کی پیشنگوئی کی ‪ Miletus‬اس نے اپنے زمانے میں‬
‫تھی۔ اس نے کہا تھا کہ فالں تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آئے گا واقعی اسی تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آگیا۔‬

‫تھیلیس بحیثیت ایک ریاضی دان –‬


‫تھیلیس کو ریاضی کا بھی شوق تھا‪ ،‬اس کو حساب کا بہت شوق تھا اور اس نے کئی ایسے دریافت کیں جو کہ واقعی سچی‬
‫ثابت ہوئی۔‬
‫کو تقسیم کرکے مرکز )‪ (Circle‬کا تصور دیا کہ وہ الئن جو ایک دائرے ‪ diameter‬تھیلیس شاید وہ پہال فرد تھا کہ جس نے‬
‫کہتے ہیں۔ ‪ diameter‬سے گرتی ہے اس الئن کو‬
‫کرتا ‪ touch‬کو ‪ Circumference‬کے ‪ Circle‬کھینچا جو کہ اس )‪ (Triangle‬مزید جب اس نے اس کے اندر ایک مثلث‬
‫پر ایک مثلث ‪ diameter‬تھی یعنی اس نے یہ کہا کہ اگر ہم دائرے کے اندر ‪ diameter‬تھا جس کی ایک سائیڈ اس کی‬
‫جو زاویہ )‪ (opposite‬کے مخالف ‪ diameter‬بنائے اور پھر اس مثلث کو چاہے جس طرح کھینچے اس کے )‪(Triangle‬‬
‫ہیں اور دونوں رائت اینگل )‪ (Triangles‬بنے گا وہ ہمیشہ ‪ 90°‬کا ہوگا اور پھر یہ بھی ثابت کیا کہ اگر دو مثلث )‪(angle‬‬
‫برابر ہے تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ ان )‪ (side‬ہیں اور اگر ان کی ایک سائیڈ )‪ (Right angle triangles‬ٹرائی اینگلز‬
‫بھی برابر ہوگا۔ ‪ Area‬کا )‪ (Triangles‬دونوں مثلث‬

‫)‪ (Thales Theorem‬تھیلیس تھیرم –‬

‫‪A‬‬
‫\‪/‬‬
‫\ ‪/‬‬
‫______‪_____D /____ \E‬‬
‫‪/‬‬ ‫\‬
‫_____‪______B/________\C‬‬
‫‪/‬‬ ‫\‬
‫‪/‬‬ ‫\‬
‫کی بنیاد ہے جس کو تھیلیس تھیرم کے نام ‪ Trigonometry‬پھر تھیلیس نے وہ تھیرم پیش کیا جو کہ آج بھی مثلثیات یعنی‬
‫)‪ (Lines‬مزید دو لکیر ‪ parallel lines‬ہو اور وہ دو ‪ parallel lines‬سے پہچانا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گر دو‬
‫اور مزید دو لکیر ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہو جس طرح سے آپ ‪ parallel lines‬کر رہی ہیں یعنی وہ ‪intersect‬‬
‫بن رہے ہو تو پھر جو مخصوص فاصلے ‪ A،B،C،D،E،F‬یعنی )‪ (Points‬میں دیکھ سکتے ہو اور یہ نقاط ‪Figure‬‬
‫ہیں وہ مخصوص انداز میں برابر ہونگے۔ یعنی؛ )‪(distances‬‬
‫‪AD/AB = AE/AC = DE/BC‬‬

‫)‪ (Height of Pyramid‬پرامڈ کی اونچائی –‬


‫تھیلیس کے اس تھیرم سے ہم کسی بھی مینار کے اونچائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تھیلیس نے کہا کہ وہ مصر کے پرامڈ کے‬
‫اونچائی کا اندازہ لگائے گا۔‬
‫کو ناپ لیا‪ ،‬فرض کرلے وہ ‪ 6‬فٹ کا تھا اور پھر دھوپ میں کھڑے ہوکر اس )‪ (Height‬سب سے پہلے اس نے اپنے اونچائی‬
‫‪ length‬نے اس وقت تک انتظار کیا کہ جب اس کا اپنا سایہ ‪ 6‬فٹ کا ہوگیا اور عین اسی وقت اس نے پراماڈ کے سائے کی‬
‫ناپی اور اس کو یہ پتہ چل گیا کہ جو سائے کی لمبائی کی پیمائش ہے وہی اس پرامڈ کی اونچائی ہے۔‬

‫انسان سوچتا کیسے ہے ؟ –‬


‫ایک انتہائی اہم سوال جس پر ہر فالسفر نے لکھا ہے وہ یہ کہ انسان سوچتا کیسے ہے‪ ،‬انسان حرکت کیسے کرتا ہے اور‬
‫اپنے فیصلے خود کیسے کرتا ہے۔‬
‫تھیلیس کا خیال تھا کہ ہر وہ چیز جو حرکت کرتی ہے اور اپنے فیصلے خود کرتی ہے اس کے اندر در حقیقت روح ہے۔‬
‫انسان چونکہ اپنا فیصلہ خود کرتا ہے تو انسان کے اندر بھی روح ہے۔ تھیلیس کا یہ بھی خیال تھا کہ جانوروں کے اندر بھی‬
‫روح ضرور ہوگا مزید یہ کہ جو مقناطیس خود سے ہلنے کی صالحیت رکھتی ہے اپنی مقناطیسیت کی وجہ سے‪ ،‬لہذا‬
‫مقناطیس کے اندر بھی روح ہے۔‬
‫یعنی وہ تمام چیزیں جو خود سے ہل سکتی ہیں اس میں دراصل ایک روح پائی جاتی ہے۔‬

‫)‪ (Monism‬مونزم –‬
‫تھیلیس کا شاید سب سے اہم تصور یہ تھا کہ جس کا انسانی سوچ پر بہت بڑا اثر ہوا وہ یہ کہ تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں‬
‫وہ ایک ہی چیز کے بنے ہیں‪ ،‬یعنی ایک ہی چیز مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔ تھیلیس کا خیال تھا کہ وہ چیز پانی ہے جو‬
‫مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں‪ ،‬کبھی انسان‪ ،‬کبھی پہاڑ‪ ،‬پتھر‪ ،‬کھبی درخت اور کھبی بادل وغیرہ۔‬
‫کے مختلف )‪ (Water‬یعنی ہر چیز جو دنیا کے اندر جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ تمام چیزیں درحقیقت صرف اور صرف پانی‬
‫شکلیں ہیں۔‬
‫کہتے ہیں اور اس طرح کے سوچ رکھنے والے ‪ Monism‬یہ تصور کہ دنیا کی ہر ایک چیز ایک مادے سے بنی ہے اس کو‬
‫کی بحث افالطون کے دور سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ ‪ Dualism‬اور ‪ Monism‬کہا جاتا ہے۔ ‪ Monist‬کو‬
‫حٰت ی جدید سائنسی دنیا میں بھی اس تصور یعنی مونزم پہ بڑا مباحثہ ہوتا ہے۔‬

‫زلزلے کی وجہ دیوتاؤں کی ناراضگی –‬


‫یونان کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جب دیوتائیں ناراض ہو جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔‬
‫تھیلیس وہ پہال انسان تھا کہ جس نے کہا کہ زلزلہ دیوتاؤں کی ناراضگی کی وجہ سے نہیں آتا‪ ،‬بلکہ تھیلیس نے کہا کہ‬
‫دراصل دنیا کا زمینی حصہ پانی پر تیر رہا ہے اور جب پانی ہلتا ہے تو بڑے بڑے لہرے پیدا ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے‬
‫زلزلے آتے ہیں۔‬
‫بہرحال تھیلیس پہال انسان تھا کہ جس نے فلسفے کی بنیاد رکھی بلکہ صرف فلسفے کے نہیں بلکہ سائنس کی بھی بنیاد رکھی۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ–‬


‫قسط‪– 07 :‬‬
‫)‪ (Anaximander‬اینیگزیمنڈر –‬
‫میں۔ ‪BC‬میں اور وفات ہوتی ہے ‪BC 546‬اینیگزیمینڈر‪ ،‬تھیلیس کا شاگرد تھا۔ اس کی پیدائنش ہوتی ہے ‪610‬‬
‫کا استاد تھا۔ اپنے استاد "تھیلیس" کی طرح اینیگزیمینڈر کا "‪ "Milesian School‬کا رہنے واال تھا اور ‪ Miletus‬وہ بھی‬
‫بھی یہی خیال تھا کہ یہ پوری کائنات ایک ہی چیز سے بنی ہوئی ہے مگر اس کا تھیلیس سے اختالف یہ تھا کہ جس چیز سے‬
‫پوری کائنات بنی ہے وہ کیا ہے؟‬
‫نام دے ‪ Apeiron‬اینیگزیمینڈر کا خیال تھا کہ یہ پوری کائنات پانی سے نہیں بلکہ ایک اور چیز سے بنی ہے جس کا اس نے‬
‫دیا۔‬
‫شے ہے جس پر کوئی حدود نہیں لگائی جاسکتی اور اس کے مطابق ‪ boundless‬اور )‪ (infinite‬یہ ایک المحدود‬
‫نکلتی ہیں۔ )‪ (Elements‬سے ہی تمام عناصر ‪Apeiron‬‬
‫سے نکلتی ہیں۔ ‪ Apeiron‬دنیا‪ ،‬زمین‪ ،‬ہوا‪ ،‬آگ‪ ،‬پانی‪ ،‬غرض تمام چیزیں‬

‫)‪ (Unite of Opposites‬متضاد قوتوں کا اتحاد –‬


‫پیدا ہوئے ہیں یعنی کہ اگر ایک طرف روشنی ہے تو دوسری طرف اندھیرا‪ Opposites ،‬کے نتیجے میں ہی ‪ Aperion‬نیز‬
‫اگر ایک طرف مرد ہے تو دوسری طرف عورت‪ ،‬اگر ایک طرف زندگی ہے تو دوسری طرف موت‪ ،‬اگر ایک طرف دن ہے‬
‫تو دوسری طرف رات‪ ،‬اگر ایک طرف کاال تو دوسری طرف سفید‪ ،‬اگر ایک طرف رنگین تو دوسری طرف بے رنگ۔ یعنی‬
‫ہوتی ہیں۔ جیسے ‪ define‬تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ اپنے مخالف سے ہی پیدا ہوتی ہیں اور اپنے مخالف سے ہی‬
‫یعنی عورت موجود ہو۔ ‪ Opposite‬مرد تب پیدا ہوتا ہے جب اس کا‬
‫یہ دنیا کے اندر ہمیں جو متضاد چیزیں نظر آتی ہیں یا یہ جو ہمیں دو الٹ قوتیں نظر آتی ہیں اس قانون کو اینیگزیمینڈر نے‬
‫یعنی متضاد چیزیں ہمیشہ اکھٹی پیدا ہوتی ہیں اور اتحاد میں پائی جاتی ہے۔ "‪ "Unity of Opposites‬کہا‬
‫مزید یہ کہ ان مخالف قوتوں یا اشیاء کے درمیان ایک مسلسل جنگ ہے‪ ،‬یعنی الٹ قوتوں کا جو تضاد ہے یہ کائنات کے ہر‬
‫ایک چیز میں پایا جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں کائنات کے اصول اور قوانین قائم ہیں۔‬
‫کو ہم ایک جدلیاتی عمل سمجھتے ہے۔ جدلیات کہتے ہیں جب دو چیزیں )‪ (Unity of Opposites‬اس یونیٹی آف آپوزیٹس‬
‫جدل میں ہو یعنی آپس میں ٹکراؤ میں ہو۔‬
‫کہتے ہیں اور آج بھی اس پر بہت وسیع پیمانے میں بحث ہوتی ہیں۔ ‪ Dialectics‬جدلیات کو ہم انگریزی میں‬

‫زمین سے سورج کی دوری –‬


‫ہے اور زمین سے انتہائی دور ہے اتنا دور کہ کہ ‪ Mass‬اینیگزیمینڈر وہ پہال انسان تھا جس نے کہا کہ سورج ایک بہت بڑا‬
‫ہمیں چھوٹا نظر آتا ہے اور یہ بھی کہا کہ زمین کے گرد جو ستارے گھومتے ہیں وہ مختلف رفتار سے گھوم رہے ہیں۔‬

‫دنیا کا پہال نقشہ –‬


‫یہ بھی کہا جاتا ہیں کہ اینیگزیمینڈر نے دنیا کا پہال نقشہ بنایا‪ ،‬نقشہ درست تو نہیں تھا مگر بہرحال اس زمانے کے لحاظ سے‬
‫جو انسان جانتا تھا اس کے حساب سے انہوں نے نقشہ تیار کیا تھا۔‬

‫)‪ (Theory of revolution‬انسانی ارتقاء کا نظریہ –‬


‫کو بھی پیش کیا۔ اینیگزیمینڈر کا یہ خیال تھا کہ انسان کی شروعات پانی اور "‪ "Theory of revolution‬اینیگزیمینڈر نے‬
‫مٹی کے مالپ سے ہوئی ہے جبکہ وہ مچھلیوں کے اندر موجود تھا‪ ،‬مچھلیوں کے اندر سے جب وہ آہستہ آہستہ بالغ اور بڑا‬
‫ہوا تو مچھلی جیسا انسان مچھلی کے اندر سے نکل آیا اور آہستہ آہستہ آج کے انسان میں تبدیل ہوگیا۔‬
‫کی بنیاد بنی اور اس لحاظ )‪ (Dialectic Thinking‬کی سوچ جدلیاتی سوچ ‪ Unity of Opposites‬بہرحال اینیگزیمینڈر کا‬
‫سے اینیگزیمینڈر کا پوری تاریخ پر ایک گہرا اثر ہے۔‬

‫)‪ (History Of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 08 :‬‬
‫)‪ (Anaximenes‬اینیگزیمینیز –‬
‫کارہنے واال تھا ‪ Miletus‬میں۔ اینیگزمینیس بھی ‪BC‬میں اور وفات ہوتی ہے ‪BC 525‬اینیگزمینیز کی پیدائش ہوتی ہے ‪585‬‬
‫اور اپنے استاد "اینیگزیمینڈر" کی طرح اینیگزیمینیز کا بھی یہی خیال تھا کہ دنیا کی ہر ایک چیز ایک ہی مادے سے بنی ہے‬
‫لیکن اینیگزیمینیز کا تھیلیس اور اینیگزیمینڈر کے ساتھ اس بات پر اختالف تھا کہ نہ تو وہ چیز پانی ہے اور نہ ہی‬
‫بلکہ وہ چیز "َہوا" ہے۔ ‪Aperion،‬‬
‫اینیگزیمینڈر کے مطابق َہ وا جب ٹھنڈی ہوتی ہے تو اس سے پانی بن جاتا ہے اور جب پانی ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو اس سے‬
‫برف بن جاتا ہے‪ ،‬برف جب مزید ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو اس سے پتھر بن جاتا ہے اور جب ہوا گرم ہوجاتی ہے تو اس سے بادل‬
‫اور آگ بن جاتا ہے۔‬
‫یعنی دنیا کی ہر چیز صرف اور صرف ہوا سے بنی ہے حتٰی زندگی کے ضروریات بھی۔ اینیگزیمینیز کو اس کا تصور اس‬
‫طرح آیا ہوگا کہ جب کوئی انسان یا جانور مر جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے سانس لینا چھوڑ جاتا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ اس کا خیال تھا کہ انسان کی روح یا کسی بھی چیز کی روح دراصل َہ وا ہی ہے۔‬

‫زلزلے کی اسباب –‬
‫اینیگزیمینیڈر کی طرح اینیگزیمینیز کا بھی یہ خیال تھا کہ دنیا تیر رہی ہے۔ اینیگزیمینڈر کا خیال تھا کہ دنیا پانی پر تیر رہی‬
‫ہے لیکن اینیگزیمینیز کا یہ تصور تھا کہ دنیا ہوا پر تیر رہی ہے اور جب ہوا میں اونچ نیچ آتی ہے تو نتیجے میں زلزلہ آتا‬
‫ہے نہ کہ پانی میں لہروں کی وجہ سے۔‬

‫سورج‪ ،‬چاند اور دنیا –‬


‫اینیگزیمینیز کا یہ خیال تھا کہ سورج اور چاند اسی مادے سے بنے ہیں جس مادے سے یہ دنیا بنی ہے۔ اس وقت یہ بہت بڑی‬
‫بات تھی کیونکہ اس وقت کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا بلکہ اکثر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سورج اور چاند دیوتا ہیں۔‬

‫)‪ (Microcosm‬مائکروکوسم –‬
‫اینیگزیمینیز نے ایک زبردست تصور یہ دیا کہ کائنات میں جتنے بھی قدرتی اصول اور قوانین ہیں‪ ،‬جو ہمیں نظر آ رہے ہیں‪،‬‬
‫‪ Cosmos‬جو ہم سمجھ پارہے ہیں‪ ،‬وہ تمام قدرتی اصول اور قوانین ایک ہی انسان کے اندر الگو ہوتے ہیں۔ یعنی اگر دنیا‬
‫ہے۔ ‪ microcosm‬ہے تو انسان‬
‫کے قانون کو لیا اور اس نے )‪ (Unity of opposites‬اینیگزیمینیز نے اپنے استاد "اینگزیمینڈر" سے یونیٹی آف آپوزیٹٹس‬
‫ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ہی ہمیں ایک )‪ (Unity of Opposites‬کہا کہ بالکل الٹ قوتوں کا تضاد‬
‫مسلسل تبدیلی بھی نظر آرہی ہے۔‬
‫تھیلیس‪ ،‬اینیگزیمینڈر اور اینیگزیمینیز پہلے فالسفرز تھے جنہوں نے سوچ کی ایک نئی روایت شروع کی جسے آج ہم فلسفہ‬
‫کہتے ہیں۔‬

‫)‪ (History Of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 09 :‬‬
‫فیثاغورث اور فیثاغورث کا اسکول –‬
‫)‪(Pythagoras and Pythagoreanism‬‬
‫میں۔ ‪BC‬میں اور وفات ہوتی ہے ‪BC 495‬فیثاغورث کی پیدائش ہوتی ہے ‪570‬‬
‫کے قریب ہے مگر اس نے اپنے زندگی وہاں پر ‪ Miletus‬شہر میں ہوتی ہے جو ‪ Samos‬فیثاغورث کی پیدائش دراصل‬
‫نہیں گزاری۔ یہ کہا جاتا ہے کہ فیثاغورث کئی ممالک کے اندر سفر کرتا رہا مطلب ان کو سفر کا بہت شوق تھا۔‬
‫میں رہنے ‪ Croton‬کوئی کہتا ہے کہ وہ مصر بھی گیا‪ ،‬کوئی کہتا ہے کہ انڈیا بھی گیا تھا اور آخرکار اس نے اٹلی کے شہر‬
‫کا فیصلہ کیا اور باقی زندگی وہاں گزاری۔‬
‫یونان کے تاریخ دان کہتے ہیں کہ فیثاغورث‪ ،‬اینیگزیمینڈر کا شاگرد تھا‪ ،‬یہ بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور درست بھی‪ ،‬مگر‬
‫سے ضرور متاثر ہوا ہوگا۔ )‪ (Milesian School‬اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فیثاغورث‪ ،‬مائلژن سکول‬
‫فیثاغورث میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے زندگی کے بارے میں ہم حقیقت میں بہت کم جانتے ہیں بلکہ یہ کہنا‬
‫بھی ضروری ہوگا کہ جن پچھلے فالسفرز کو ہم نے پڑھا تھا یعنی تھیلیس‪ ،‬اینگزمینڈر‪ ،‬اینگمینیز‪ ،‬ان کے بارے میں بھی ہم‬
‫حقیقت میں بہت کم جانتے ہیں۔‬
‫ہم اس کے بارے میں دوسرے لوگوں کے زریعے جانتے ہیں جیسے مثال کے طور پر جو ارسطو نے ان پر لکھا ہیں وغیرہ۔‬
‫مطلب یہ کہ تاریخ میں فیثاغورث کا ریکارڈ کم ملتا ہے اور اس کی لکھائی بھی نہ بچ سکی۔‬
‫فیثاغورث کے بارے میں بہت سی باتیں بنی ہیں جو کہ خود بہت مزے دار تھی۔‬
‫کا بیٹا ہے‪ ،‬تو کوئی کہتا کہ اس کی تھائی گولڈ سے بنی ہوئی ہے‪ ،‬کوئی کہتا ‪ Apollo‬مثال کے طور پر کوئی کہتا تھا کہ وہ‬
‫بھی کر سکتا تھا‪ ،‬ہوا میں ِادھر ُادھر جا سکتا تھا‪ ،‬جانوروں سے باتیں کرتا تھا‪ ،‬وہ خود کہتا تھا کہ ‪ time travel‬تھا کہ وہ‬
‫وہ کئی زندگی گزار چکا ہے اور ان میں سے چار ان کو یاد ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ چاند پر لکھ سکتا تھا۔‬
‫بہر حال فیثاغورث وہ پہال شخص تھا کہ جس نے اپنے لئے فالسفر کا لفظ استعمال کیا۔‬

‫)‪ (School of Pythagoras‬فیثاغورث کا اسکول –‬


‫فیثاغورث وہ پہال شخص تھا کہ جس نے اپنا ایک سکول بنایا‪ ،‬اکیڈمی بنائی جہاں سب سیکھ سکتے تھے۔ وہ سکول ایک‬
‫منفرد سکول تھا جہاں سب برابر ہوا کرتے تھے۔‬
‫پر چال کرتا تھا مگر یہ ایک مختلف قسم کی اشتراکیت تھی۔ ‪ Communist Principles‬یعنی کہ یہ سکول‬
‫اس میں صرف وہ شامل ہوسکتا تھا جو اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔‬
‫سکول تھا۔ ‪ aristocratic communist School‬یعنی یہ دراصل ایک‬
‫طبقے کی ‪ Demos‬میں "‪ "Croton‬اس سکول کا اس زمانے کی سیاست پر بھی اثر تھا اور یہ اثر مزید بڑھتا جا رہا تھا۔‬
‫ڈیموکریٹک عروج کے نتیجے میں یہ سکول مکمل طور پر ختم ہوا۔‬
‫ڈماس جو کہ ہم نے پچھلے اقساط میں وضاحت کی ہے یہ وہ طبقہ ہوا کرتا تھا جو نہ خود غالم تھے اور نہ انہوں نے‬
‫میں ایک سیاسی اثرورسوخ بڑھ رہا تھا مگر ان کو اس طرح دبایا گیا کہ دوبارہ ‪ Croton‬دوسروں کو غالم بنایا تھا۔ ان کا‬
‫کھڑے نہ ہوسکے اور وہ سکول تباہ و برباد ہوگیا۔‬

‫سکول کے تباہ و برباد ہونے کے اسباب و وجوہات –‬


‫اس سکول کی تباہ ہونے کے کیا اسباب و وجوہات تھے اس کو سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ فیثاغورث کے سکول کی سیاست کو‬
‫سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا سا یونانی سیاست دوبارہ سے دہرانا ہوگا۔‬
‫دوسرا )اشرافیہ( ‪ Aristocracy‬جیسے ہم نے ذکر کیا تھا کہ یونانی سوسائٹی میں کم سے کم تین طبقے موجود تھے۔ ایک‬
‫اور تیسرا غالم طبقہ۔ )فری مین( ‪Demos‬‬
‫کے درمیان ہمیشہ لڑائی چلتی رہتی تھی۔ اشرافیہ طبقے کے اندر ‪ Demos‬اور ‪ Aristocracy‬ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہیں کہ‬
‫بھی ایک بہت تبدیلی آرہی تھی یعنی پرانا قبائلی نظام بتدریج ٹوٹتا جارہا تھا اور غالم طبقے یا غالم داری کے نظام کی وجہ‬
‫سے اشرافیہ اور حکمران طبقے کے اندر جو خوشحالی آرہی تھی اس سے لوگوں کی تصورات و خیاالت اور ثقافت تبدیل‬
‫ہوتی جارہی تھی اور جیسے جیسے ان کی سوچ اور ثقافت تبدیل ہو رہی تھی تو تضادات بھی ان کے درمیان آرہے تھے یعنی‬
‫پرانے سردار اور نئے سردار جو دولت اکٹھا کرنے کے نتیجے میں نئے امیر ہوئے تھے کے درمیان تضادات بھی بڑھتے‬
‫چلے گئے۔‬
‫تو لہزا اشرافیہ طبقے کے اندر بھی ایک تھوڑ پھوڑ کا عمل جاری رہا اور اس کے نتیجے میں پرانے قبائلی خیاالت و‬
‫تصورات کو بتدریج رد کیا جارہا تھا۔‬
‫ظاہر ہے اس کےخالف ردعمل بھی تھا‪ ،‬ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی تھی۔ یہ ایک ترقی کا قدم تھا۔ اس کیفیت میں کہ جہاں پرانا‬
‫قبائلی نظام ٹوٹ رہا تھا اور نئی سوچ اور نیا نظام جنم لے رہا تھا۔ یعنی ایک نیا سماج ابھر گیا۔‬
‫بہرحال اشرافیہ طبقے کے اندر ایک ردعمل تھا کہ کس طرح سے یہ سماج تیزی سے تبدیل ہوا نظر آرہا ہیں اور جیسے ہم‬
‫کے درمیان ایک تضاد موجود تھا۔ ‪ Demos‬اور ‪ Aristocratic‬نے پہلے بھی ذکر کیا ہیں کہ‬
‫تو اس کیفیت میں فیثاغورث نے ایک سوسائٹی بنائی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان خیاالت‪ ،‬اصول‪ ،‬تصورات و اقدار کو بچا‬
‫کر رکھ سکے کہ جو کہ وہ سمجھتا تھا کہ درست ہیں۔ لہذا اس نے یہ جو سکول بنایا‪ ،‬اس میں میں اشرافیہ کے وہ لوگ تھے‬
‫جو چاہتے تھے کہ پرانے اصول و قوانین اور سوچ مکمل طور پر تباہ نہ ہو۔‬
‫سوسائٹی بنائی۔ )‪ (secret‬اس سکول کو قائم رکھنے کیلئے فیثاغورث نے اس سکول کو ایک پوشیدہ‬
‫وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان کی تمام سوچ اور خیاالت ہر طرف پھیل جائے‪ ،‬ان کے دشمن اور دوستوں کو معلوم نہ ہو بلکہ راز‬
‫‪ Listener،‬اور دوسرا ‪ Learner‬رہے۔ سکول کے اندر بھی ان کے شاگردوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہیں ایک‬
‫یعنی ایک وہ جو صرف سنتا ہیں اور ایک وہ جو سیکھتا ہیں۔ سکول کے اندر کوئی نجی ملکیت نہیں تھی‪ ،‬وہ کہتے تھے کہ؛‬
‫"‪"All land money possession will be common property.‬‬
‫سکول کے بارے ميں ایک خوبصورت بات یہ تھی کہ اس سکول میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ یہ نہیں تھا کہ یہ صرف‬
‫مردوں کا سکول تھا۔‬
‫فیثاغورث کا خیال تھا کہ عورت بھی مکمل طور پر علم و منطق کی قوت رکھتی ہیں یعنی عورت بھی ایک فالسفر بن سکتی‬
‫ہے۔‬
‫۔)‪ (TETRAKTYS‬بھی تھا ‪ symbol‬اس سکول کا ایک‬
‫کیلئے استعمال ہوتی ہیں کیونکہ ‪ Secret Society‬اکثر ‪ symbol‬بنا ہوا تھا اور مثلث کا )‪ (triangle‬اس پر ایک مثلث‬
‫اور "‪ "Freemasons"،"Illuminati‬اکثر سیکرٹ سوسائٹی فیثا غورث کے سیکرٹ سوسائٹی سے متاثر ہیں جیسے‬
‫وغیرہ۔ ‪Rosicrucianism‬‬
‫افالطون کی اپنی اکیڈمی کی عالمت بھی ٹرائی اینگل تھی۔ جس پر انہوں نے لکھا تھا؛‬
‫"‪"Let no man enter who does not know geometry.‬‬
‫یعنی اگر جیومیٹری نہیں جانتے تو یہاں سکول میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫فیثاغورث کے بارے میں ہم نے جو بیان کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیثاغورث ایک سیاسی لیڈر بھی تھا اور ایک فالسفر‬
‫بھی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک وہ ایک مذہبی لیڈر بھی تھا یعنی پائتگورین سوچ جو ہے اس میں مذہبی عنصر بھی تھا۔ وہ‬
‫کونسا مذہب تھا ؟‬
‫مذہب سے متاثر تھے جو یونانی سوسائٹی کے اندر موجود تھا۔ ‪ Orphic‬تاریخ دان لکھتے ہیں کہ فیثاغورث‬
‫یہ سمجھتے تھے کہ ایک انسان کی روح مرنے کے بعد کسی دوسرے انسان یا کوئی اور چیز میں منتقل ‪Pythagoreans‬‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬اگر اچھے اعمال ہو تو انسان کے اندر اور اگر ‪ Transmigration of soul‬ہو جاتی ہیں جس کو انگریزی میں‬
‫برے اعمال ہو تو کسی اور چیز کے اندر منتقل ہو جاتی ہے جیسے جانور وغیرہ۔‬

‫)‪ (History Of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 10 :‬‬
‫)‪ (Pythagoras‬فیثاغورث‪ ،‬ریاضی اور موسیقی –‬
‫میں ہے۔ )‪ (Music‬اور موسیقی )‪ (Mathematics‬کا سب سے اہم کردار ریاضی ‪ Pythagoreans‬فیثاغورث اور‬
‫فیثاغورث یہ سمجھتا تھا کہ؛‬
‫"‪"Mathematics is the highest form of knowledge." or "The world is numbers.‬‬
‫ارسطو فیثاغورث کے بارے میں کہتے ہے کہ فیثاغورث کا موقف تھا کہ؛‬
‫‪The principles of mathematics are the principles of all things‬‬
‫یعنی حساب کے جو اصول اور قوانین ہیں وہ تمام کائنات کے اصول اور قوانین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جتنے‬
‫بھی چیزوں کے درمیان رشتے‪ ،‬تعلقات اور اصول و قوانین ہمیں نظر آتے ہیں‪ ،‬وہ بنیادی طور پر ریاضیاتی تناسب‬
‫یہ بات اس طرح کرتے ہیں کہ دنیا کے اندر جتنے بھی ‪ Pythagoreans‬پر بنیاد ہیں۔ )‪(Mathematical proportion‬‬
‫میں کیا جا سکتا ہے۔ ‪ whole number ratio‬اصول اور قوانین ہیں ان سب کا اظہار‬

‫)‪ (Pythagoras' Theorem‬فیثاغورث تھیرم –‬


‫ہے۔ جب ہم پرانے عمارات دیکھتے ‪ Pythagoras' Theorem‬فیثاغورث کی سب سے اہم دریافت فیثاغورث تھیرم یعنی‬
‫تو بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ انہوں نے ُاس زمانے میں اتنے بڑے اور اونچے عمارات کیسے تعمیر ‪ pyramids،‬ہیں جیسے‬
‫کئے‪ ،‬اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو عمارت بنانے کا طریقہ بہت اچھے طريقے سے آتا تھا اور عمارت بنانے میں استعمال‬
‫کہتے ہیں۔ ‪ Builder's Set Square‬ہونے والے جو اہم اوزار استعمال ہوتت تھے اسے‬
‫آپ نے سکول میں جیومیٹری بکس استعمال کیا ہوگا‪ ،‬اس میں دو مثلث ہوتے ہیں۔ ایک مثلث کے تین سائڈز برابر ہوتے ہیں‬
‫اور دوسرے مثلث کا ایک کونا نکال ہوا ہوتا ہے اس کا ایک سائڈ ‪ 3‬دوسرا سائڈ ‪ 4‬اور تیسرا سائڈ ‪ 5‬ہوتا ہے۔‬
‫اس مثلث کو چاہے آپ چھوٹا کرلے یا بڑا‪ 3 ،‬اور ‪ 4‬کے درمیان اینگل ‪ 90°‬آتا ہے اور اس سے آپ اچھے اچھے عمارت بنا‬
‫سکتے ہیں کیونکہ ایک سیدھی دیوار اور کونا بنانے کیلئے‪ 90°‬الزمی ہے اس زمانے میں وہ لوگ عمارت بنانے کیلئے ‪،3‬‬
‫سے بڑے بڑے مثلث بناتے تھے۔ یہ علم مصر اور دوسرے لوگوں کے پاس تھا اور وہ لوگ اس )‪ 4 (ratio‬اور ‪ 5‬کے تناسب‬
‫ثابت نہیں کر ‪ mathematically‬بنانے کیلئے استعمال کرتے تھے لیکن وہ اس کو )‪ (Tunnels‬کو عمارت اور سورنگ‬
‫پائے کہ جب آپ ‪ 4 ،3‬اور ‪ 5‬سائڈز کا مثلث بناؤ گے تو ‪ 3‬اور ‪ 4‬کے درمیان اینگل ‪ 90°‬بنتا ہے۔‬
‫اس مسئلے کو فیثاغورث نے حل کیا۔ آج ہمیں نہیں پتا کہ فیثاغورث نے ذاتی طور پر یہ کیا یا ان کے شاگردوں نے حل کیا‬
‫کو استعمال کرکے جب اس نے اس کو اکٹھا رکھا تو اسے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ ‪ set squares‬لیکن اس نے چار‬
‫۔‪ b²‬اور ‪ a²‬جو ہے وہ ہمیشہ برابر ہوگا ‪ square‬کہتے ہیں اس کا ‪ hypotenuse‬بڑی والی سائڈ جس کو‬

‫\|‬
‫\ |‬
‫\ |‬
‫|‬ ‫\‬
‫\_‪|90°‬‬

‫یہ ثابت کیا کہ بیلڈرز سیٹ سکویرز ‪ mathematically‬تو اس نے پہلی بار "‪ "a² + b² = c ²‬جب اس نے یہ ثابت کیا کہ‬
‫ہمیشہ ‪ 90°‬اینگل کیوں دیتا ہے اور کیوں اتنا اہم ہے۔ )‪(Builder's Set Square‬‬
‫فیثاغورث اپنے تھیری کو تمام چیزوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے تھے۔‬

‫فیثاغورث اور موسیقی –‬


‫ایک دن فیثاغورث لوہار کے دکان سے گزر رہا تھا تو اس نے لوہار کے دکان سے ہتھوڑے کی آواز سنی جب لوہار ہتھوڑا‬
‫لوہے پر مار رہا تھا تو اس نے سوچا کہ کہ یہ تو بڑی دلچسپ قسم کی میوزیکل آواز آرہی ہے‬
‫اس کا یہ خیال تھا کہ اگر ہتھوڑا بھاری ہو تو ایک قسم کی آواز نکلتی ہے اور اگر ہلکی ہو تو دوسرے قسم کی۔ مطلب جو‬
‫مختلف قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جو کہ ایک مسیقی کی طرح ہیں یہ ہتھوڑے کی وزن پر انحصار کرتا ہے۔‬
‫کررہی ہوتی ہے اگر اس کی لمبائی زیادہ ہو تو ‪ strick‬مگر آج ہمیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہتھوڑا جس چیز کو‬
‫والی آواز نکلی گی اور اگر لمبائی کم ہو تو پتلی آواز نکلی گی۔ ‪ node‬نیچلے‬
‫پر الگو کر دیا۔ ‪ String Instrument‬فیثاغورث کو یہ بات پتا تھی یا نہیں مگر اس نے یہ تصور ایک‬
‫کی لمبائی معلوم کی پھر جب اس نے ادھا کیا تو ایک قسم کی آواز نکلی اور اس طرح اس نے ‪ (string) 3‬اس نے پہلے تار‬
‫اور پھر چار حصوں میں تقسیم کیا تو اسے مختلف آوازیں سنائی دیئے‬
‫نکاال۔ )‪ (scale‬کا پیمانہ ‪ nodes‬اس طرح اس نے ‪7‬‬
‫کے حساب )‪ (Modern‬کے حساب سے نہیں ہیں بلکہ جدید ‪ Pythagoras Scale‬آج کل کے جو میوزیکل آالت ہیں وہ‬
‫کا فرق ہے باقی برابر ہے۔ ‪rd node‬سے ہیں۔ آج کل کے میوزیکل سکیل اور فیثاغورث کے میوزیکل سکیل میں صرف ‪3‬‬
‫کے مطابق موسیقی پچھلے صدی تک بجایا جاتا تھا۔ ‪ Pythagoras Scale‬مسلمانوں کے اندر‬

‫موسیقی اور شاعری‪ ،‬روح اور جسم کیلئے دوا –‬


‫فیثاغورث کا خیال تھا کہ موسیقی اور شاعری دونوں چیزیں روح اور جسم کے لئے شفا ہے۔ یعنی موسیقی روح اور جسم‬
‫کیلئے دوا کا کردار ادا کر سکتا ہے‪ ،‬روح کو صاف کر دیتا ہے‪ ،‬اس سے تمام برائیاں اور بیماریاں نکال دیتی ہے۔‬
‫لہذا فیثاغورث موسیقی اور شاعری تحریر کرتا تھا تاکہ لوگوں کی بیماریاں دور ہوجائے۔‬
‫" ‪ "ether‬فیثا غورث کا خیال تھا کہ ہم ہر وقت موسیقی سن رہے ہیں‪ ،‬یہ جو ستارے دنیا کے اردگرد گھوم رہے ہیں تو یہ‬
‫ہوا جیسے چیز سے گزرتے ہیں اور اس سے ایک میوزیکل قسم کی آواز سنائی دے سکتی ہے‪ ،‬یہ جو ستارے ہیں یہ دنیا‬
‫میں دور ہیں اس وجہ سے اس کی اجتماعی آواز ایک موسیقی ہے۔ )‪ (proportion‬سے مختلف تناسب‬
‫وہ کہتا تھا کہ ؛‬
‫‪The harmony of spheres.‬‬
‫یعنی پوری کائنات میں ایک طرح کی موسیقی پائی جاتی ہے۔‬
‫فیثاغورث کے سکول کا خاتمہ –‬
‫بہرحال اس کی نظریاتی مسائل کی وجہ سے سکول ختم نہیں ہوا بلکہ سیاسی مسائل کی وجہ سے ختم ہوا چونکہ فیثاغورث‬
‫اشرافیہ طبقے کا ساتھ دیا کرتا تھا۔‬
‫تھے۔ ‪ demos‬کے اندر ایک بہت بڑی جنگ ہوئی جس میں ایک طرف اشرافیہ طبقہ تو دوسرے طرف )‪ (Croton‬کروٹن‬
‫تھا۔ "‪ "Cylon‬کا جو لیڈر تھا اس کا نام ‪Demos‬‬
‫کو اپنا ‪ Cylon‬کی جو بغاوت تھی وہ کامیاب ہوگئی‪ ،‬وہ فیثاغورث کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اور فیثا غورث )‪ (Cylon‬سائلن‬
‫‪ Cylon‬ڈیماس کی نمائندگی کرتا تھا اور فیثا غورث اشرافیہ طبقے کی نمائندگی کرتا تھا۔ ‪ Cylon‬دشمن سمجھتا تھا کیونکہ‬
‫کے پاس جب اقتدار آیا تو اس نے بہت سے اقدامات کئے۔‬
‫اس نے سب سے پہلے اشرافیہ طبقے سے زمین چھین کر غریبوں میں تقسیم کئے اور غریبوں کے قرضے معاف کئے۔‬
‫نے فیثاغورث کے سکول کو ختم کردیا اور ‪ Cylon‬فیثاغورث نے اس کی مزاحمت کی‪ ،‬مزاحمت کے نتیجے میں‬
‫‪،‬کو دبانا شروع کر دیا )‪ (Pythagoreans‬پائتھاگورینز‬
‫کا گھر جال دیا اس وقت اس کے گھر میں فیثاغورث بھی ‪ Milo‬نے فیثاغورث کے دوست ‪ Cylon‬بلکہ کہا جاتا ہے کہ جب‬
‫موجود تھا اور جل کر راکھ ہوگیا۔‬
‫کا کہنا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ وہاں سے نکال اور کہی اور چال گیا اور اس کی )‪ (Pythagoreans‬پائتھاگورینز‬
‫موت کہی اور ہوئی۔‬
‫کا سکول تقریبًا ‪ 50‬سال تک اور چلتا رہا مگر مسلسل دباؤ کے نتیجے میں ختم )‪ (Pythagoreans‬بہرحال پائتھاگورینز‬
‫ہوگیا۔‬

‫فیثاغورث کا فلسفے کے تاریخ پر اثر اور افالطون –‬


‫)‪(The secret Pythagorean‬‬
‫فیثاغورث کے جو سیاسی نطریات تھے اس پہ جو بھی ہمارے اراء ہو‪ ،‬اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے‪ ،‬مگر ِاس میں کوئی‬
‫شک نہیں ہے کہ فیثاغورث اور فیثاغورین کے فلسفی نطریات اور ریاضی کے متعلق ایک بہت اہم کردار ہیں۔‬
‫تاریخ میں فیثاغورث کے فلسفے کا انسانی زندگی کے حوالے سے بہت اہم کردار ہے۔‬
‫۔‪ a² + b² = c²‬سب سے پہلے فیثا غورث کا اپنا تھیرم جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ‬
‫دوسرا یہ کہ فیثاغورث کے سوچ کا افالطون کے ذریعے انسانی سوچ پر بہت گہرا اثر ہوا۔‬
‫تھا یعنی وہ فیثاغورث )‪ (Secret Pythagorean‬بلکہ بعض لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ افالطون ایک خفیہ پائتھاگورین‬
‫سے متاثر تھا اور ان کے کئی خیاالت سے متفق تھا۔‬
‫مثال کے طور پر افالطون بھی یہ سمجھتا تھا کہ؛‬
‫‪Mathematics is the highest form of knowledge.‬‬
‫میں نہیں۔ ‪ Mathematics‬یعنی ریاضی بالکل غلط نہیں ہوسکتی‪ ،‬باقی تمام چیزوں میں ہم غلطی کر سکتے ہیں مگر‬
‫تھا ‪ symbol‬کو ٹرائی اینگل (∆) رکھا تھا جو فیثاغورث کا بھی )‪ (symbol‬اس لئے افالطون نے اپنے اکیڈمی کی عالمت‬
‫اور اکیڈمی کے باہر یہی لکھا تھا کہ؛‬
‫"‪"Let no man enter who does not know geometry.‬‬
‫یعنی کہ جو جیومیٹری نہیں جانتے اسے سکول کے اندر داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫افالطون کا روح کے حوالے بھی ملتا جولتا وہی سوچ تھا جو فیثاغورث کا تھا۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 11 :‬‬
‫)‪ (Heraclitus‬ہیراکالئٹس –‬
‫میں۔ ‪BC‬میں اور وفات ہوتی ہے ‪BC 475‬ہیراکالئٹس کی پیدائش ہوتی ہے ‪535‬‬
‫ہیراکالئٹس کا دراصل اشرافیہ طبقے سے تعلق تھا۔ وہ ایک امیر انسان تھا لیکن اسے یہ شوق نہیں تھا کہ میں مزید پیسے‬
‫کماؤں اور عیش و عشرت کی زندگی گزاروں۔‬
‫میں رکھوائی۔ ٹیمپل آف ارٹیمیس "‪ "Temple of Artemis‬ہیراکالئٹس نے جب اپنی کتاب لکھی تو اس نے وہ کتاب‬
‫جو کہ دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ہے۔ )‪(Temple of Artemis‬‬
‫آدمی تھا۔ )‪ (Arrogant‬اور بہت متکبر )‪ (Confident‬ہیراکالئٹس بہت پراعتماد‬
‫کے بارے ميں وہ کہتا تھا کہ ہاں کچھ پڑھے لکھے تھے لیکن ان کے پاس مکمل ‪ Hesiod‬مثال کے طور پر فیثاغورث اور‬
‫کے بارے ميں تو ان کا خیال تھا کہ انہیں تو چھتر سے مارنا چاہئیے۔ ‪ Homer‬علم نہیں تھا۔‬

‫ہیراکالئٹس کے کئ نام –‬
‫کیونکہ وہ پہلیوں میں لکھا )‪ (Heraclitus, The Riddler‬ہیراکالئٹس کے کئی نام تھے‪ ،‬جیسے ہیراکالئٹس دی ریڈلر‬
‫کرتے تھے‪ ،‬اس کو پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل تھا۔‬
‫اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے انسانیت سے نفرت کرنا شروع کیا تھا اور پہاڑوں میں چال گیا تھا وہاں اس نے‬
‫گھاس کھانا شروع کر دیا تھا۔‬
‫اسے کوئی پروا نہیں تھی کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔‬
‫بھی کہتے ہیں اسلئے )‪ ( The weeping philosopher,The dark‬یعنی وہ ایک درویش آدمی جیسا تھا۔ ہیراکالئٹس کو‬
‫کہتے ہیں کیونکہ وہ زہنی مریض تھا اور بڑی ڈارک قسم کی باتیں لکھتا تھا۔‬

‫)‪ (Fire‬آگ –‬
‫ہیراکالئٹس کا خیال یہ تھا کہ تھیلیس‪ ،‬اینیگزیمینڈر اور اینیگزیمینیز درست کہہ رہے تھے کہ دنیا میں ہر ایک شے ایک ہی‬
‫اور نہ َہ وا بلکہ وہ چیز آگ ہے جس سے تمام چیزیں بنی ہیں حتٰی ‪ Aperion‬چیز سے بنی ہیں لیکن وہ چیز نہ پانی ہے‪ ،‬نہ‬
‫انسان کی روح بھی آگ اور پانی کا مالپ ہے۔‬
‫اور جو انسان اچھا ہوتا ہو یعنی اچھی سوچ رکھتا ہو اس کی روح آگ سے بنی ہوتی ہے اور جو برا انسان ہے اس کی روح‬
‫پانی سے بنی ہوتی ہے۔‬
‫اس کا کہنا تھا کہ آگ کے نتیجے میں دنیا تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کو آگ میں ڈالتے ہیں تو وہ جل کر‪ ،‬اس‬
‫کی )‪ (cracking‬کا کچھ حصہ راکھ بن جاتا ہے‪ ،‬کچھ حصہ ہوا بن جاتا ہے اور کچھ حصہ آگ بن جاتا ہے اور جو کریکنگ‬
‫آواز آتی ہے وہ پانی کی توڑ پھوڑ کی آواز ہے ۔‬
‫پرانے زمانے میں آگ کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ آگ ایک اوزار ہے جس کے زریعے آپ کسی بھی چیز کو‬
‫دوسری چیز میں تبدیل کر سکتے ہو۔‬
‫ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛ –‬
‫‪All things are interchanges of fire and fire for all things just like goods for gold and gold for‬‬
‫‪goods .‬‬
‫یعنی کہ جس طرح ہم مارکیٹ میں جا کر سونا بھیج کر کوئی اور چیز خرید لیتے ہیں اسی طرح آگ بھی چیزوں کو تبدیل‬
‫کرتا ہے۔‬

‫کا تصور )‪ (logos‬لوگاس –‬


‫کا تصور تھا یعنی ایک ایسا بنیادی تصور جس کا )‪ (Logos‬ہیراکالئٹس نے جو ایک اہم تصور پیش کیا وہ تصور لوگاس‬
‫لفظ کا مطلب تھا؛ ‪ Logos‬پوری فلسفے کی تاریخ پر اثر ہوا‪ ،‬یونانی زبان میں‬
‫‪A ground, an opinion, expectation, word, speech, account, reason, formula, measure,‬‬
‫‪proportion etc.‬‬
‫۔)‪ (Argument‬یعنی کہ ایک دلیل‬
‫بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے جن کو ہم بعد کے اقساط میں پڑھیں گے۔ )‪ (Sophists‬سوفسطائی‬
‫ارسطو نے بھی یہ لفظ استعمال کیا اور ارسطو کا اس سے مطلب تھا ایک منطقی نقطہ نظر مگر ہیراکالئٹس کا مطلب تھا ایک‬
‫یعنی کہ دنیا میں جو علم ہے اس کے پیچھے ایک پوشیدہ اصول ہے۔ )‪ (Order of knowledge‬بنیادی اصول‬
‫کا استعمال کرتے تھے اور ‪ Logos‬استعمال کرتے تھے‪ ،‬کہی پر ‪ interchangeable‬کا لفظ ‪ god‬اور ‪ logos‬ہیراکالئٹس‬
‫کا لفظ استعمال کرتے تھے یعنی کہ وہ بنیادی اصول اور وہ بنیادی چیز جس سے پوری کائنات چلتی ہے۔ ‪ god‬کہی پر‬
‫ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛‬
‫‪This logos holds always but human always prove unable to understand it .‬‬
‫ہر جگہ قائم ہے لیکن انسان کی سوچ اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ )‪ (Logos‬یعنی یہ لوگاس‬

‫)‪ (Dialects‬جدلیات –‬
‫ہیراکالئٹس کو جدلیات کا استاد بھی کہا جاتا ہے۔ہیراکالئٹس سے پہلے اینیگزیمینڈر اور اینیگزمینیز نے بھی جدلیات‬
‫پر بات کی لیکن وہ الگ الگ نتیجے پر پہنچے۔ )‪(Dialects‬‬
‫اینیگزیمینڈر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہ اپنے الٹ کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں اور ان دو چیزوں میں‬
‫مسلسل ایک جنگ جاری ہے۔‬
‫اینیگزیمینیز نے تھوڑا سا تبدیل کیا اور کہا کہ ہاں جنگ تو جاری ہے مگر اس تضاد کے نتیجے میں ایک متوازن‬
‫اور مسلسل تبدیلی بھی آرہی ہے۔ )‪(balance‬‬
‫کون درست ہے؟ اینیگزیمینڈر درست ہے یا اینیگزمینیز؟‬
‫یہ ایک سوال ہے۔‬
‫کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ دونوں ہی درست ہیں اور دونوں ہی غلط ہیں۔ )‪ (Debate‬ہیراکالئٹس نے اس‬
‫۔)اب یہ کیسے ہو سکتا ہے دونوں ہی درست ہیں اور دونوں ہی غلط ہیں(‬
‫یہ یونانی زبان کا اک فقرہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک چیز "‪ "Panta Rhai‬ہیراکالئٹس نے پہلی بات یہ کہی کہ‬
‫۔)‪ (Everything flows‬مسلسل بہہ رہی ہے‬
‫ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛‬
‫‪Motion is the existence of things.‬‬
‫یعنی کہ کوئی بھی چیز مکمل طور پر ٹھہراؤ میں نہیں ہے اور مکمل ٹھہراؤ ناممکن ہے یعنی کہ چیزوں کا وجود ہی حرکت‬
‫کی بدولت ہے اور وہ کہتا تھا کہ؛‬
‫‪Ever newer water flows on those who step into the same river .‬‬
‫اس فقرے کا کئی طرح ترجمہ کیا گیا ہے‪ ،‬مثال کے طور پر‬
‫‪Everything changes and nothing remains still, You can not step twice into the same stream,‬‬
‫‪We both step and do not step in the same river, We are and we are not, no man ever step‬‬
‫‪the same river twice.‬‬
‫اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک دریا میں قدم رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے‪ ،‬آپ ہے بھی اور نہیں بھی یا اگر ایک بندہ‬
‫دریا میں قدم رکھے تو نہ وہ دریا رہے گا اور نہ ہی وہ بندہ۔‬
‫ہیراکالئٹس کا مطلب تھا کہ ایک لمحے سے جب ہم دوسرے لمحے میں جاتے ہیں تو وہ دریا جو کہ پہلے تھا اس کا پانی اب‬
‫تبدیل ہو چکا ہے اور جس پانی میں آپ نے پہال قدم رکھا تھا جب آپ دوسرا قدم رکھیں گے وہ پانی تو آگے چال گیا اب جب‬
‫آپ نے دوسرا قدم رکھا ہے اب جو پانی آپ کے قدم کو چھو رہا ہے وہ نیا پانی ہے۔‬
‫‪ at‬اور دوسرے لمحے وہ بندہ تھا ‪ at time 1.01‬دوسرا یہ کہ وہ بندہ بھی تبدیل ہو چکا ہے‪ ،‬ایک لمحہ پہلے بندہ تھا‬
‫تو اس بندے میں تھوڑی ہلکی تبدیلی آئی ہے یعنی نہ تو وہ پانی وہی ہے اور نہ بندہ۔ ‪time 1.02‬‬
‫مگر دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دریا تو وہی دریا ہے‪ ،‬پہلے بھی وہ مثََال دریائے سندھ تھا اور آج بھی وہی‬
‫دریائے سندھ ہے اور پہلے بھی وہی بندہ تھا اور دوسرے لمحے میں بھی وہی بندہ ہیں۔‬
‫وہ نہیں ہے یعنی وہ فرد بھی ہے اور ایک نیا فرد بھی ہے اور یہ وہی دریا ہے )‪ (exactly‬وہ وہی فرد ہے مگر بالکل‬
‫وہی نہیں بھی ہے۔ )‪ (exactly‬دریائے سندھ مگر بالکل‬
‫!اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہی فرد ہے یعنی ٹھہراؤ بھی ہے مطلب یہ کہ دونوں ٹھہراؤ اور تبدیلی ایک ساتھ‬
‫ہے )‪ (Contradiction‬یہ جو تصور ہے کہ ٹھہراؤ اور تبدیلی اکٹھے ہو جائیں ایک ہی وقت میں ہو رہے ہیں یہ تو تضاد‬
‫کیونکہ ٹھہراؤ اور تبدیلی دونوں ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں تو یہ اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں۔‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬اس کا مطلب یہ ہے کہ دو متضاد چیزیں اکٹھی ہوجاتی )‪ (Contradictory Predicate‬اس کو ہم فلسفے میں‬
‫ہیں۔‬

‫میں لکھا کریں۔ )‪ (Contradictory Predicates‬ہیریکالئٹس کو یہ بہت شوق تھا کہ تقریبًا وہ تمام فلسفے کو‬
‫مثال کے طور پر وہ لکھتا تھا؛‬
‫‪• God is day and night.‬‬
‫‪• God is winter and summer.‬‬
‫‪• God is war and piece.‬‬
‫یعنی خدا دونوں چیزیں ہے دن بھی ہے عات بھی ہے‪ ،‬گرمی بھی ہے اور سردی بھی‪ ،‬خدا جنگ بھی ہے‪ ،‬امن بھی ہے یعنی‬
‫ہے یعنی جس طرح سے ہم چیزوں یا دنیا کو اس طرح سے نہیں سمجھ سکتے جس طرح سے ہم دنیا ‪ contradictory‬خدا‬
‫کو سمجھتے ہیں۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 12 :‬‬
‫)‪ (Hodos ano kato‬ہیراکالئٹس اور ہوڈوز انو کاٹو –‬
‫"‪ "Hodos ano kato‬تصور کو آگے جاری رکھ کرکہتا ہے؛ ‪ Contradictory Predict‬ہیراکلیٹس‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ؛‬
‫‪The path up the path down are one and same, all existence entities are made of pairs of‬‬
‫‪contradictory predicates.‬‬
‫اب یہ بہت مبہم بات ہے کہ‬
‫‪The path up the path down are one and same.‬‬
‫یعنی وہ راستہ جو نیچے کی طرف جاتا ہے اور وہ راستہ جو اوپر کی طرف ہے برابر ہے۔‬
‫فرض کریں ! آپ پہاڑ پہ چڑھ رہے ہیں اور آپ کسی سے پوچھتے ہیں کہ بھائی اوپر جانے واال راستہ کدھر ہے اگر وہ‬
‫یعنی اوپر جانے اور نیچے آنے کا راستہ ایک ہی ہے تو آپ تو ‪ Hodos anu Kato‬ہیریکالئٹس ہوا تو وہ جواب دے گا کہ‬
‫کنفیوز ہو جاؤ گے۔ ہیراکالئٹس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مادے کے اندر جو تبدیلی کا عمل ہے اس کا نیچھے کا عمل اور‬
‫اوپر کا عمل ایک ہی ہے (پیدا اور ختم ہونے کا عمل)۔‬
‫مثال کے طور پر ؛‬
‫‪The death of fire is the birth of air.‬‬
‫‪The death of air is the birth of water.‬‬
‫یعنی آگ کے موت کے نتیجے میں َہ وا پیدا ہوتی ہے اور ہوا کے موت کے نتیجے میں پانی پیدا ہوتا ہے یعنی کہ اوپر جانے‬
‫کا راستہ‪ ،‬جب آگ ہوا میں تبدیل ہوتا ہے اور ہوا مزید آگے پانی میں تبدیل ہوتی ہے اور نیچھے جانے کا راستہ جب پانی‬
‫واپس ہوا میں تبدیل ہوتا ہے اور ہوا آگ میں‪ ،‬یہ ایک ہی رستہ ہے۔‬
‫اور بہت مزیدار تصور ہے جو آج بھی سائنس کی دنیا استعمال ہوتا ہے کہ جب مادہ تبدیل ہوتا ہے اور جو "راستہ" تبدیلی کا‬
‫اختیار کرلیتا ہے وہ ایک ہی راستہ ہے۔‬

‫مزید ہیراکالئٹس کہتا ہے کہ –‬


‫‪"Strife is justice".‬‬
‫یعنی جنگ ہی عدل ہے۔‬
‫یہ کیا عجیب و غریب قسم کی بات ہے آج کل دنیا میں اتنی جنگیں ہورہی ہے کوئی بندہ یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ عدل و انصاف‬
‫ہورہا ہے لیکن ہیریکالئٹس کا کیا مطلب تھا ؟‬
‫ہیریکالئٹس کا مطلب یہ تھا کہ تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ متضاد قوتوں کے درمیان جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوتی‬
‫اور اس کے نتیجے میں ہی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ )‪ (balance‬ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہی عدل‪ ،‬اس کے نتیجے ہی توازن‬
‫وہ کہتا تھا ؛‬
‫‪All the things come into being by conflict of opposites and the sum of things flow like a‬‬
‫‪stream.‬‬
‫یعنی ٹکراؤ سےجو نتیجہ بنتا ہے وہ ایک دریا کی طرح بہتا ہے۔ اس حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں کہ؛‬
‫‪There is a harmony in the bending back as in the case of the bow and the lyre.‬‬
‫کہ جس طرح ایک تیر اور کمان کھینچنے سے اس کے درمیان قوتے پیدا ہوتی ہیں اسی طرح دنیا میں جو تبدیلیاں ہیں وہ ان‬
‫متضاد قوتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔‬

‫‪ "Follow the common".‬ہیراکالئٹس کہتا تھا –‬


‫ہے ہر جگہ موجود ہے‪ ،‬مادے کے اندر بھی‪ ،‬انسان کے اندر بھی‪ ،‬مادے )‪ (common‬مشترکہ "‪ "logos‬وہ سمجھتا تھا کہ‬
‫اور انسان کے ارتقاء میں بھی‪ ،‬کائنات میں ہر طرف موجود ہیں مگر انسان اس قانون کو سمجھنے سے قاصر ہے‪ ،‬ہم اس کو‬
‫مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے اور اگر سمجھ جائے اور پھر ان پر عمل کرے تو علم آپ کی ہو سکتی ہے ۔‬

‫ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛ –‬


‫‪Wisdom is to know the thought by which all things are steered through all things.‬‬
‫کہ علم وہ چیز ہے کہ جس کے ذریعے آپ کو وہ اصول پتا چل جائے جو ہر چیز پر الگو ہیں اور وہ اصول آپ اپنے بہتری‬
‫کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔‬

‫سیاست کے حوالے سے وہ کہتا تھا کہ؛ –‬


‫‪Laws must be defended like walls of city.‬‬
‫کہ جس طرح شہر کے دیواروں کا دفاع کرتے ہیں‪ ،‬جب دشمن آپ پر حملہ کردے اور آپ دیواروں پر کھڑے ہوکر دفاع‬
‫کرتے ہیں اپنے شہر اور اور دیواروں کا کہ وہ نہ ٹوٹے‪ ،‬بلکل اسی طرح قوانین کا بھی تحفظ کرنا چاہیئے۔‬
‫وہ انقالبی نہیں تھا بس وہ چاہتا تھا کہ جو قوانین ہیں وہ قائم رہے ۔‬

‫ہیراکالئٹس کی موت –‬
‫یعنی جب آپ کے )‪ (edema‬ہو گیا تھا۔ ورم )‪ (edema‬ہیراکالئٹس کی موت تقریبًا ‪ 60‬سال کی عمر ميں ہوئی اس کو ورم‬
‫جلد کے اندر بہت زیادہ پانی اکٹھا ہوجائے۔‬
‫اس وقت کے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔‬
‫کسی نے ان کو کہا کہ تم اپنے جسم کے اوپر گھوبر ڈال دو اور پھر آپ دھوپ میں لیٹ جانا اور یہ جو سارہ پانی بھرا پڑا‬
‫ہے یہ گھوبر اور سورج کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا لیکن وہ پانی تو ختم نہیں ہوا ہیریکالئٹس خود ہی ختم ہوگئے۔‬

‫بہرحال ہیراکالئٹس نے جو بنیادی تصور دیا جس تصور میں اس نے دو متضاد تصوروں کو اکٹھا دیکھایا کہ دو متضاد چیزیں‬
‫جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔ )‪ (Debate‬اکٹھی ہو سکتی ہیں اس پر ایک لمبی بحث‬
‫‪،‬کو اٹھائے ‪ Hegal‬آپ‬
‫‪،‬کو اٹھائے ‪ Derrida‬آپ‬
‫‪،‬کو اٹھائے ‪ Karl Marx‬آپ‬
‫‪،‬کو اٹھائے ‪ Existentialism‬آپ‬
‫‪،‬کو اٹھائے ‪ Post Modernism‬آپ‬
‫اس پر آج تک بحث و مباحثہ جاری ہے۔‬

‫جس کا ذکر ہم آگے جاکر کریں )‪ (Parmenides‬ہیراکالئٹس کے بالکل الٹ جو فالسفر کھڑا تھا اس کا نام تھا پرمینیڈیز –‬
‫کے نتیجے میں )‪ (debate‬گے۔ سقراط اور افالطون کی جو بنیادی فلسفہ ہے وہ ہیریکالئٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان بحث‬
‫پیدا ہوتی ہے۔‬
‫میں آتے ہیں۔ "‪ "Hellenistic Period‬نے بھی جاری رکھے جو ‪ Stoic‬ہیراکالئٹس کے جو بنیادی خیاالت تھے وہ مزید –‬
‫اس کا ذکر بھی ہم آگے جاکر کریں گے۔‬

‫ہم نے تھیلیس کو دیکھا‪ ،‬اینیگزیمینڈر کو دیکھا‪ ،‬اینیگزیمینیز کو دیکھا‪ ،‬فیثاغورث کو دیکھا‪ ،‬ہیراکالئٹس کو دیکھا اور ان –‬
‫سب میں ہم نے ایک مشترک چیز دیکھ لی اور وہ یہ تھی کہ کوئی بنیادی اصول اور قوانین ہیں کہ جس کے نتیجے پوری‬
‫کائنات چل رہی ہے۔‬

‫‪،‬تھیلیس کہتا تھا کہ تمام مادے کی بنیاد پانی ہے ‪۰‬‬


‫ہے ‪ Aperion‬اینیگزیمینڈر کہتا تھا کہ تمام مادے کی بنیاد ‪۰‬‬
‫‪،‬اینیگزیمینیز کہتا کہ وہ چیز َہ وا ہے ‪۰‬‬
‫فیثاغورث کہتا تھا کہ وہ چیز حساب کے اصول اور قوانین ہیں۔ ‪۰‬‬
‫جبکہ ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ وہ چیز آگ ہے۔ ‪۰‬‬
‫حقیقت کیا ہے ابھی نہیں جانتے مگر اس بحث کے نتیجے میں وہ بنیادی خیاالت اور تصورات قائم ہوئے کہ جس کو تمام‬
‫فالسفرز نے مدنظر رکھتے ہوئے وہ تھیریز بنائی جو تقریبًا ‪ 2000‬سال تک انسان کی سوچ پر غالب رہی۔‬

‫)‪ (The eleatics‬ایلیٹیکس –‬


‫ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ فلسفے کے تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛‬
‫‪– Pre-Socratic philosophy‬‬
‫‪– Socratic philosophy‬‬
‫‪– Hellenistic philosophy‬‬
‫فلسفہ کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہیں جو کہ ہیں؛ )‪ (Pre-Socratic‬پری‪-‬سوکریٹیک‬
‫‪– The Founders‬‬
‫‪– The Challengers‬‬
‫‪– The Synthesizer‬‬
‫کا ذکر کیا جس میں تھیلیس‪ ،‬اینیگزیمینڈر‪ ،‬اینیگزیمینیز‪ ،‬فیثاغورث اور ہیریکالئٹس ‪ Founders‬اس سے پہلے ہم نے ہم نے‬
‫شامل ہیں۔‬
‫ان سب کے حوالے سے جو مشترک بات تھی وہ یہ تھی کہ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا اور کائنات کے مادے کی بنیاد ایک ہی‬
‫چیز ہے‪ ،‬ایک اصول ہے‪ ،‬ایک ہی قسم کی چیز ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔‬
‫ہے‪ ،‬اینیگزیمینیز کہتا تھا کہ وہ چیز َہ وا ہے‪ Aperion ،‬تھیلیس کہتا تھا کہ وہ چیز پانی ہے‪ ،‬اینیگزیمینڈر کہتا تھا کہ وہ چیز‬
‫ہیریکالئٹس کہتا تھا کہ وہ چیز آگ ہے۔‬

‫کو چیلنچ کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ ‪ Founders‬اس کے بعد ہم ان فالسفرز کے بارے میں بحث کریں گے جو‬
‫تھیریز غلط ہیں۔‬
‫‪– Eleatics Challengers‬‬
‫‪Xenophanes, Parmenides, Zeno, Melisus‬‬

‫کہتے ہیں ان میں شامل ہیں؛ ‪ Synthesizers‬پھر اس کے بعد جو جواب دینے والے لوگ ہیں جس کو ہم‬
‫‪"Ampedocles", "Anaxagoras", "Leucippus" and "Democritus".‬‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 13 :‬‬
‫)‪ Xenophanes (570–475 BCE‬زینوپھنیز –‬
‫شہر میں رہا کرتا تھا جو کہ ترکی کے اندر موجود ہے ۔ )‪ (Colophon‬زینوپھنیز کوُلفون‬
‫قسم کا فالسفر تھا جنہوں نے اپنے زمانے کے مذہبی نقطہ نظر کو چیلنج کیا جو )‪ (unconventional‬وہ ایک غیر روایتی‬
‫ہومر اور ہیسیئڈ کا نقطہ نظر تھا۔‬
‫ہیں وہ بالکل غلط )‪ (Polytheism‬وہ یہ سمجھتا تھا کہ یونانی کی جو روایات ہیں خاص طور پر جو ایک سے زیادہ دیوتائیں‬
‫ہے۔‬
‫وہ یونانی ثقافت کو بھی چیلنج کرتا تھا اس کے اندر جو مائلیٹس عنصر تھا اس کے خالف اس نے سخت تنقید لکھی اور اس‬
‫کا ہونا اور جسمانی طور پر بڑا مضبوط ہونا‪ ،‬اس کو بھی اس نے تنقید )‪ (Athlete‬کے اندر جو یہ ثقافت تھی کہ ایک ایتھلیٹ‬
‫کا نشانہ بنایا۔‬
‫وہ اپنا تمام فلسفہ شاعری کی شکل میں لکھا کرتا تھا۔‬

‫زینوپھنیز کی کچھ سائنسی دریافت بھی ہیں جیسے؛ –‬


‫مثال کے طور پر اس نے یہ سمجھا کہ کسی نہ کسی قدیم زمانے میں دنیا کے تمام کونوں میں پانی ضرور رہا ہوگا اس نے‬
‫کو دیکھا ‪،‬اس کے بعد اس نے زمین کو غور سے تجزیہ کیا تو وہ اس نے اس بات کو سمجھا کہ کسی نہ کسی ‪ fossils‬جب‬
‫زمانے میں پوری زمین پر پانی موجود تھا۔‬
‫بنیادی طور پر زینوپھنیز سے ہی شروع ‪ Skepticism‬تھا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ‪ Skeptic‬زینو فینز اپنے زمانے کا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫‪ opinion‬اس نے یہ کہا کہ ہمارا نقطہ نظر تو ایک ہو سکتا ہے مگر نقطہ نظر اور علم کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ یعنی‬
‫میں فرق ہے‪ ،‬آپ یہ ضروری سمجھتے ہوں گے کہ آپ کسی چیز کو اچھی طرح جان چکے ہیں‪ ،‬اس کے ‪ knowledge‬اور‬
‫بارے میں علم رکھتے ہیں مگر یہ قطعی طور پر ضروری نہیں کہ واقعی آپ اس حوالے سے علم رکھتے ہیں۔‬
‫زینوپھنیز نے خاص طور پر اپنے زمانے کے علم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مذہبی نقطہ نظر کو بھی۔‬
‫اس نے یہ کہا کہ جس طرح یونانی کے مذہب میں دیوتاؤں کو انسان جیسا بنایا گیا ہے تو یہ بالکل غلط ہے اور ناممکن ہے ۔‬
‫زینوپھنیز نے یہ کہا کہ اگر مویشی‪ ،‬گھوڑے‪ ،‬شیر کے انسان کی طرح ہاتھ ہوتے اور اگر یہ پینٹ کر سکتے‪ ،‬جس طرح‬
‫انسان پینٹ کرتے ہیں تو پھر مویشی جو ہیں وہ مویشی جیسے اور گھوڑے جو ہیں وہ گھوڑے جیسے اور شیر جو ہے وہ‬
‫شیر جیسے خدا بناتے اور ان کی پرستش کرتے۔‬
‫جیسا )‪ (Ethiopian‬اپنے دیوتا بناتے تو وہ بالکل اپنے دیوتاؤں کو ایتھوپین )‪ (Ethiopian‬یہی وجہ ہے کہ جب ایتھوپین‬
‫اپنے دیوتائیں بناتے تو وہ بھی اپنے جیسا بناتے تھے۔ )‪ (Thracian‬بناتے تھے اور جب تھریشین‬
‫زینوپھنیز کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب تصورات غلط ہیں اچھا برا جو انسان کو لگتا ہے خدا ان تمام چیزوں سے بالتر ہے خدا‬
‫‪ .‬ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا‬
‫جو ہے وہ دیوتاؤں کا بادشاہ ہے ان کے نتیجے کئی )‪ (Zeus‬خدا ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتے مثال کے طور پر زوس‬
‫دیوتائیں ہیں ایسا نہیں ہے یعنی اس زینوپھنیز کے مطابق یہ ناممکن ہے۔‬
‫اس کے مطابق خدا انسان کی زندگی میں عمل دخل بھی نہیں کرتا۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 14 :‬‬
‫‪ (515BCE – 460BCE) Parmenides‬پرمینیڈیز –‬
‫کا استاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ پانچوی صدی میں پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬مکمل طور پر )‪ (Metaphysics‬پرمینیڈیز کو مابعدالطبیعات‬
‫میں پیدا ہوتے ہیں۔ )‪ (Elea‬اس کی پیدائش اور وفات کا نہیں پتہ مگر وہ اٹلی کے ایک شہر ایلیا‬
‫شہر کے سیاست میں بھی بڑا کردار رہا ہے اور ایلیا کے بہت سے قوانین پرمینیڈیز نے خود لکھے۔ )‪ (Elea‬پرمینیڈیز کا ایلیا‬
‫پرمینیڈیز پر زینوفینز کی تھیری اور سوچ کا ایک بڑا اثر تھا۔‬
‫رکھا جو بالکل زینوفینز کے کتاب کا بھی عنوان تھا اور "‪ "On nature‬مثال کے طور پر پرمینیڈیز نے اپنی کتاب کا عنوان‬
‫پرمینیڈیز بھی زینوفینز کی طرح اپنی تھیری شاعری میں پیش کیا کرتا تھا۔‬
‫پرمینیڈیز کی سوچ و فکر کو سمجھنے کے لئے شاید ہمیں نتیجے سے شروع کرنا چاہیئے اور بعد میں ان کی منطق سمجھنی‬
‫چاہیئے۔‬

‫)‪ (Monism‬مونزم –‬
‫پرمینیڈیز یہ کہتا تھا کہ یہ جو ساری کائنات ہے اس کے اندر جو مادہ ہے تمام چیزیں وہ ایک ہے یعنی وہ ایک قسم کا مونسٹ‬
‫تھا۔ )‪(Monist‬‬
‫دوسری بات یہ کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی یہ نہیں کہ وہ کسی وقت پیدا ہوئی۔ یونانی معاشرے میں یہ‬
‫ایک عام فہم تھی کہ دنیا اور کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی۔‬
‫ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے "‪ "uniform‬تیسری بات یہ کہ وہ مکمل طور پر‬
‫ہے۔ )‪ (Necessary‬اور آخری بات یہ کہ وہ الزم‬
‫کس طرح پرمینیڈیز اس نتیجے تک پہنچا کہ کائنات میں سب چیزیں جو ہیں وہ ایک ہے‪ ،‬وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہے‬
‫ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ "‪، "uniform‬گی‪ ،‬وہ الزم ہے‬

‫)‪ (Unity of opposites‬دو متضاد قوتیں –‬


‫ہوتی ہیں۔ پرمینیڈیز )‪ (Opposites‬سب سے پہلے ہم نے ذکر کیا کہ اینیگزیمینڈر کا خیال تھا کہ دنیا میں دو متضاد قوتیں‬
‫‪ "Non‬اور"‪ "Being‬ہیں وہ ) ‪ (Opposites‬نے بھی اس نکتے سے شروع کیا اس نے کہا کہ سب سے اہم جو متضاد قوتیں‬
‫کے )‪ (interaction‬ہیں یعنی وہ چیز جو کہ ہے اور وہ چیز جو کہ نہیں ہے‪ ،‬ان دو قوتوں کے درمیان تعامل "‪being‬‬
‫نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔‬

‫کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوگی‪ "being" ،‬ہے‪ ،‬اس کے بارے ميں ہم جان سکتے ہیں کیونکہ "‪ "being‬اب جو ہے جو‬
‫‪ "Non‬کوئی بھی خصوصیت ہو‪ ،‬مادے کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے کیونکہ وہ وجود رکھتی ہے اور جو‬
‫ہے جو چیز ہے ہی نہیں اس کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ ہے ہی نہیں اور جو چیز ہے ہی نہیں "‪being‬‬
‫اس کے حوالے سے ہم کیا بات کر سکتے ہیں‪ ،‬کہ اس کا رنگ کیا ہے اس کا سائز کیا ہے کتنی وہ بڑی ہے‪ ،‬کتنی وہ چھوٹی‬
‫ہے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ ہے ہی نہیں۔‬
‫اس سے پرمینیڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صرف اور صرف وہ چیز ہے جو ہے جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں اس کے‬
‫‪.‬ہے "‪ "being‬بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لہذا جو کچھ ہے وہ صرف‬
‫‪The only thing which exist us being.‬‬
‫یعنی اس دنیا میں خالء کہی پر بھی ممکن نہیں ہے۔‬
‫دوسرا یہ کہ جو چیز ہے ہی نہیں وہ‪ ،‬وہ چیز نہیں پیدا کر سکتی جو ہے۔‬
‫‪Nothing comes from nothing.‬‬
‫یہ صرف پرمینیڈیز کا خیال نہیں تھا بلکہ یونانی معاشرے میں یہ عام بات تھی کہ جو چیز ہے ہی نہیں وہ کسی چیز کو جنم‬
‫ہے جو کائنات ہے‪ ،‬وہ ہمیشہ ‪ cosmos‬نہیں دے سکتی جو کہ ہے لہذا جو بھی چیز وجود رکھتی ہے‪ ،‬جو حقیقت ہے‪ ،‬جو‬
‫میں سے پیدا نہیں ہو سکتی اور جو چیز ہے اس میں تبدیلی بھی نا ممکن ہے اس میں تبدیلی "‪ "Nothing‬ہوگی کیونکہ وہ‬
‫نہیں ہو سکتی۔‬
‫پرمینیڈیز نے اپنے آپ کو بالکل ہیراکالئٹس کے ُالٹ کھڑا کر دیا‪ ،‬ہیراکالئٹس کے مطابق ہر چیز تبدیل ہورہی ہے۔‬
‫پرمینیڈیز نے کہا کہ تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ تبدیلی صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ جو چیز ہے وہ جب‬
‫کے تعامل "‪ "non being‬اور "‪ "being‬تبدیل ہوتی ہے تو وہ وہ چیز بن جاتی ہے جو پہلے نہیں تھی یعنی کہ تبدیلی ہمیشہ‬
‫کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ )‪(interactions‬‬
‫پہلے اگر میں اس لمحے میں ہوں تو اگلے لمحے میں جو بن جاؤں گا وہ اس لمحے میں نہیں ہوں جو اگلے لمحے میں بن‬
‫جاؤں گا‪ ،‬وہ اس لمحے میں تو ہے ہی نہیں‪ ،‬تو جو چیز ہے ہی نہیں یعنی پرمینیڈیز نے پہلے ہی کہہ دیا کہ جو چیز سرے‬
‫سے ہے ہی نہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور جو چیز ہے ہی نہیں اس سے ایسی کوئی چیز پیدا نہیں ہو‬
‫سکتی جو کہ ہے۔‬
‫کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مطلب "‪ "non existence‬اور "‪ "existence‬لہذا اگر تبدیلی جو ہے وہ‬
‫جو چیز ہے اور جو چیز نہیں ہے اس کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے تو جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں‬
‫لہذا تعامل ممکن نہیں ہے لہذا تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی‪ ،‬دوسرے الفاط میں پرمینیڈیز نے یہ کہا کہ ہیراکالئٹس بالکل غلط کہہ‬
‫رہا ہے‪ ،‬اس دنیا میں قطعی طور پر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی ہے۔‬

‫کو کہا جاتا ہے‪ "non being" ،‬پھر اس نے یہ بات کی کہ کہی پر بھی کسی قسم کا خالء موجود نہیں ہے ‪ ،‬خالء بذاِت خود‬
‫وہ چیز جو کہ نہیں ہے اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جو چیز نہیں ہے وہ تو نہیں ہے لہذا خالء بھی نہیں ہوسکتی۔‬

‫پرمینیڈیز کہتا ہے؛ –‬


‫‪You could not know what is not, nor can you say what cannot be thought cannot exist. Since‬‬
‫‪we cannot think of nothing therefore there can be no void or vacuum.‬‬
‫جس چیز کا کوئی تصور نہیں رکھا جا سکتا وہ چیز حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھ سکتی‪ ،‬جو چیز ہے ہی نہیں اس کے‬
‫حوالے سے ہم کوئی تصور نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔‬
‫اب میں بہت سے چیزوں کے بارے میں تصور نہیں رکھتا جو کہ ہے۔‬
‫مثال کہ طور پر آپ جو تحریر پڑھ رہے ہیں جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں مجھے ان کی شکل کے حوالے سے کوئی تصور‬
‫نہیں‪ ،‬مگر یہ تو ایک حقیقت ہے کہ آپ وہاں پر بیٹھے ہیں‪ ،‬چاہے اپ کے بارے میں تصور ہے یا نہیں‪ ،‬تو پھر پرمینیڈیز کا‬
‫کیا مطلب تھا کہ جس چیز کا کوئی تصور نہیں رکھا جا سکتا وہ وجود ہی نہیں رکھتی۔‬
‫کی بات کر رہا تھا جس کو "‪ "Universal intelligence‬لیکن دراصل وہ کسی فرد کی دماغ کی بات نہیں کر رہا تھا وہ اس‬
‫کہا جاتا ہے جس کی ہم اگلے اقساط میں وضاحت کریں گے۔ یعنی جس چیز کا کوئی تصور نہ رکھ سکے وہ چیز "‪"Nous‬‬
‫وجود ہی نہیں رکھتی کیونکہ وہ چیز کوئی وجود اور خصوصیت نہیں رکھتی۔‬

‫)‪ (Multiplicity‬کثرت –‬
‫بالکل ناممکن چیز ہے تمام چیزیں ایک ہیں‪ ،‬اس کے اندر مختلف شکلیں اختیار نہیں "‪ "multiplicity‬پرمینیڈیز یہ کہتا ہے کہ‬
‫کی جا سکتی کیونکہ ایک ہی چیز کی جب مختلف شکلیں ہوں گی تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ایک چیز دوسری شکل میں‬
‫تبدیل ہوئی ہوگی تب ہی وہ مختلف شکلیں اختیار کر چکی ہیں لہذا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ جو چیز ہے اور جو چیز‬
‫نہیں ہے ان کے درمیان تعامل کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہےاور چونکہ جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں لہذا تعامل نہیں ہو‬
‫بھی نہیں ہو سکتی۔ "‪ "multiplicity‬سکتا لہذا کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی چونکہ تبدیلی نہیں ہو سکتی تو کثرت یعنی‬
‫ہر چیز ایک ہی ہوگی ایک ہی قسم اور ایک ہے شکل کی۔‬
‫اب جب دنیا میں ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں تو بہت سے مختلف چیزیں نظر اتی ہیں‪ ،‬ہمیں تبدیلی بھی نظر آتی ہے‪ ،‬کبھی خالء‬
‫بھی نظر آتا ہے‪ ،‬ہمیں چیزوں میں پیدائش اور موت بھی نظر اتی ہے‪ ،‬چیزیں ختم ہوتی ہیں‪ ،‬مختلف شکلیں اختیار کر لیتی‬
‫ہیں‪ ،‬تو پرمینیڈیز کس طرح اس بات کو سمجھائیں کہ دنیا کے اندر ہمیں اتنے ساری تبدیلی کیسے نظر آرہی ہے؟‬
‫سے )‪ (senses‬پرمینیڈیز نہیں یہ کہا کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں وہ ہم اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے حواس‬
‫ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں۔ )‪ (senses‬محسوس کر رہے ہیں اور یہ تمام حواس‬
‫کیوں دھوکہ دے رہے ہیں ؟‬
‫سے یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں ک جو چیز نہیں ہے اس کی کوئی )‪ (Deductive logic‬کیونکہ ہم استخراجی منطق‬
‫خصوصیت نہیں ہے لہذا وہ ہے ہی نہیں‪ ،‬لہذا جو کچھ ہے وہ ایک ہوگا‪ ،‬ہمیشہ سے ہوگا‪ ،‬جو چیز ہے وہ الزم ہوگا‪ ،‬جو ہے‬
‫یعمی کثرت نہیں ہوگی‪ ،‬جو چیز ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لہذا جب تمام چیزیں ایک "‪ "multiplicity‬اس میں کوئی‬
‫ہیں‪ ،‬جب ہم استخراجی منطق سے ثابت کر چکے ہیں تو جو چیز بھی ہم اپنے انکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو بھی ہم اپنے‬
‫ہے ایک خواب ہے‪ ،‬یہ غلط ہے۔ "‪ "illusion‬سے سمجھ رہے ہیں وہ سب ایک دھوکہ )‪ (senses‬حواس‬

‫پرمینیڈیز کی تھیری کا مقصد –‬


‫پہلے ہم نے ہیراکالئٹس کے بارے میں ذکر کیا ہیراکالئٹس نے ہمیں فَلکس تھیری دی تھی۔ اس نے ہمیں کہا تھا کہ ہر چیز‬
‫نہیں کر )‪ (Definition‬تبدیلی کے عمل میں ہے۔ اگر ہر چیز تبدیلی کے عمل میں ہے تو اس کی ہم وضاحت یا تعریف‬
‫سکتے‪ ،‬اس کے حوالے سے کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ وہ ہر وقت تبدیلی کے عمل میں ہے۔‬
‫اب اگر میں یہ کہوں کہ یہ چیز الل رنگ کی ہے تو ہیراکالئٹس جواب دے گا کہ وہ الل رنگ کی ہے بھی اور نہیں بھی ہے‬
‫کیونکہ اس الل رنگ میں تبدیلی آرہی ہے۔‬
‫اور اگر میں کہوں کہ فالں انسان زندہ ہے تو وہ کہے گا کہ وہ زندہ بھی ہے اور مردہ بھی ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس کے‬
‫زندہ بھی ہے اور مر بھی رہے ہیں۔ )‪ (cells‬خلیے‬
‫لہزا تبدیلی کے عمل میں ہیں۔‬
‫کسی بھی چیز کو آپ کسی بھی حوالے سے لے لیں اس کی آپ وضاحت نہیں کر سکتے کیونکہ جن صفتوں سے اپ اس کی‬
‫وضاحت کریں گے وہ صفتیں تو مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہیں۔ اگر تمام صفتیں تبدیلی کے عمل میں ہیں تو کسی چیز کو‬
‫کس طرح واضح کریں گے۔‬
‫بن گیا۔ )‪ (intellectual challenge‬یہ بہت بڑا فکری چیلنج‬
‫پرمینیڈیز یہ سمجھتا تھا کہ اس چیلنج کا جو درست جواب ہے وہ یہ ہے کہ ہیریکالئٹس مکمل طور پر غلط کہہ رہا ہے یہ تمام‬
‫ہے۔ "‪ "illusion‬تبدیلی ایک خواب اور دھوکہ‬
‫لہذا اصل میں جو حقیقت ہے وہ بالکل ٹھہراؤ کے ساتھ ہے اور ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں‪ ،‬اس کی وضاحت کر سکتے ہیں‬
‫اس کے بارے میں منطق رکھ سکتے ہیں۔‬

‫فلسفہ کا دو حصوں میں تقسیم –‬


‫یہ جو تصور ہے اس کے نتیجے میں فلسفہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک طرف وہ لوگ جو ہیراکالئٹس کے ساتھ کھڑے‬
‫تھے جو کہہ رہے تھے کہ جو ہم اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جو تبدیلی نظر ارہی ہے یہ حقیقت ہے اس کو سمجھنا اور‬
‫سمجھانا ضروری ہے۔‬
‫دوسری طرف وہ لوگ جو پرمینیڈیز کے ساتھ کھڑے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ جو ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں سمجھ‬
‫)‪ (illusion‬ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس دھوکہ )‪ (illusion‬رہے ہیں یہ حقیقت نہیں ہے ایک خواب ہے ایک دھوکہ و فریب‬
‫کے پیچھے ایک مستحکم حقیقت ہے‪ ،‬ایک ایسی حقیقت جس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے لہذا ہم اس کو‬
‫سمجھ سکتے ہیں۔‬

‫اجتماِع َن قیَض ین –‬
‫)‪(The principles of non contradiction‬‬
‫مزید یہ کہ پرمینیڈیز نے اپنی پوری کی پوری تھیری اس بنیاد پر بنائی تھی کہ جس کو ہم کہیں گے استخراجی منطق‬
‫اس نے مکمل طور پر منطقی طور پر اپنی تھیری بنائی۔ "‪"deductive logic‬‬
‫اسے کوئی غرض نہیں تھا کہ دنیا کے اندر جو ہمیں آنکھوں سے نظر آرہا ہے‪ ،‬کانوں سے سنائی دے رہا ہے وغیرہ حواس‬
‫سے سمجھ رہے ہیں‪ ،‬اسے ان باتوں سے کوئی غرض نہیں تھا وہ صرف یہ کہتا تھا کہ منطق کے اصول ہمیں حقیقت تک‬
‫پہنچا سکتے ہیں اور کوئی چیز نہیں اور وہ ایک اصول وضع کرتا ہے یعنی اجتماِع نقیَض ین‬
‫‪(The principles of non contradiction),‬‬
‫جس کو بعد میں افالطون و ارسطو مزید وضاحت کرتے ہیں وہ ہم بعد میں پڑھیں گے۔‬
‫یعنی اجتماع نقیضین محال (ناممکن) ہے‪ ،‬یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک چیز ہے بھی اور ساتھ میں وہی چیز نہیں بھی‬
‫ہے۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یہ ناممکن بات ہے کہ آپ کہے کہ کوئی چیز نہیں ہے اور وہی چیز ہے۔ یا تو کوئی چیز ہے یا وہ چیز‬
‫نہیں ہے دونوں چیزیں اکٹھے ممکن نہیں ہوسکتی۔‬
‫جیسے اگر میں کہوں کہ میرے سامنے موبائل ہے بھی اور نہیں بھی‪ ،‬یہ محال ہے یعنی دونوں ساتھ میں درست نہیں‬
‫ہوسکتے‪ ،‬ہونا اور نہ ہونا ساتھ میں اکھٹے نہیں ہوسکتے۔‬
‫‪:‬دوسرے مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے مثال کے طور پر‪ ،‬سوچیں کہ ہم دو عبارات پر غور کر رہے ہیں‬
‫"میرے پاس پاس سیب ہیں"‬
‫اور‬
‫میرے پاس سیب نہیں ہیں"۔"‬
‫اگر یہ دونوں عبارات ایک ساتھ درست ہوں یا دونوں غلط ہوں تو یہ اجتماِع نقیضین کی صورت ہوگی لیکن حقیقت میں ایسا‬
‫نہیں ہوسکتا ہے۔ یا تو آپ کے پاس سیب ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ دونوں عبارات کے درمیان خالف ورک ہے اور وہ ایک‬
‫ساتھ درست نہیں ہوسکتے۔‬
‫جو ہے وہ ہے یا نہیں ہے یعنی ‪ A‬یا تو‬
‫) ‪A must be be equal to A or A is not equal to A. (A= A or A≠A‬‬
‫اس کو کہتے ہیں۔ ) ‪ A≠A‬اور ‪ (A=A‬مگر دونوں چیزیں ممکن نہیں ہیں کہ‬
‫‪The principles of non contradiction.‬‬
‫پرمینیڈیز نے اس کو ایجاد کیا مگر اس نے مکمل طور پر اس کی وضاحت نہیں کی‪ ،‬مزید آگے آپ دیکھیں گے کہ اس کی‬
‫نکلیں گے جس کا آگے ذکر ہوگا۔ "‪ "metaphysical principles of logic‬وضاحت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں‬
‫بہرحال فلسفہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا وہ جو ہیراکالئٹس کی بات درست سمجھ رہے تھے کہ دنیا میں جو تبدیلی ہم انکھوں‬
‫سے دیکھ رہے ہیں وہ واقعی حقیقت ہے اور وہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ آنکھیں جو ہمیں دکھا رہی ہیں وہ ایک دھوکہ ہے۔‬
‫دنیا تبدیلی کے عمل میں نہیں ہے دنیا جو ہے وہ ُر کی ہوئی ہے ساکن ہے اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں ہے۔‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 15 :‬‬
‫)‪ (Melissus of Samos‬میلیسس –‬
‫میں "‪ "Samos‬کے تیسرے اور آخری فالسفر پہ آتے ہیں جس کا نام میلیسس ہے۔ میلیسس "‪ "Eleatic School‬اب ہم‬
‫(پانچویں صدی) رہتا تھا۔‬
‫میں حصہ بھی لیا جہاں اس نے پیریکلیز )‪ (Ponnesian War‬جوانی میں نیوی کا ممبر تھا بلکہ اس نے پونیشیئن جنگ‬
‫کے نیوی کو شکست دی۔‬
‫پرمینیڈیز اور میلیسس کے فلسفے میں کوئی زیادہ فرق نہیں سوائے ایک دو نکتوں کے عالوہ‪ ،‬مگر میلیسس کے جو کام ہیں‪،‬‬
‫کو بنیادی طور پر سمجھا۔ "‪ "Eleatic School‬انہی کو دیکھ کر ارسطو اور افالطون نے ایلیاٹک سکول‬
‫رکھا‪ ،‬مگر اس نے شاعری کے انداز "‪ "On Nature‬میلیسس نے بھی اپنے کتاب کا عنوان زینوپینیز اور پرمینیڈیز کی طرح‬
‫میں نہیں لکھا بلکہ اس نے نثر کے انداز میں لکھا۔‬
‫میلیسس کی یہی تھیری تھی کہ ؛‬
‫‪Reality is ungenerated, indestructible, indivisible,changeless and motionless.‬‬
‫ہے یعنی ہمیشہ سے ہے۔ "‪ "Ungenerated‬کہ حقیقت جو ہے وہ‬
‫ہے یعنی ہمیشہ تک رہے گی۔ "‪ "Indestructible‬وہ‬
‫ہے یعنی اس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا یعنی کہ وہ ایک ہے۔ "‪ "Indivisible‬وہ‬
‫ہے یعنی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ "‪ "Changeless‬وہ‬
‫ہے مکمل طور ٹھرا ہوا ہے۔ "‪ "Motionless‬وہ‬

‫پرمینیڈیز اور میلیسس میں جو بنیادی فرق تھا وہ یہ تھا کہ پرمینیڈیز یہ سمجھتا تھا کہ وقت جیسی کوئی چیز نہیں ہے‪ ،‬جو‬
‫میں موجود ہے یعنی کہ یہ جو "‪ "Ever Present‬رکھتی ہے‪ ،‬وہ جو کہ ہے ایک )وجود( "‪ "exist‬حقیقت ہے‪ ،‬جو چیز‬
‫لمحہ ہے‪ ،‬جس کے اندر ہم کھڑے ہیں‪ ،‬یہی لمحہ پوری تاریخ میں ہمیشہ سے رہا ہے یعنی؛‬
‫‪There was no time, reality was in ever present.‬‬
‫وقت گزرتا ہے‪ ،‬وقت )‪ (Infinite‬مگر میلیسس کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وقت جو ہے وہ گزرتا ہے ایک المحدود‬
‫کا بنا ہوا ہیں جو المحدود ہیں۔ )لمحات( "‪ "instances‬جو ہے وہ چھوٹے چھوٹے‬
‫‪Time was made of an infinite numbers of small instances.‬‬
‫اور یہی بنیادی فرق دونوں کے تھیریز میں۔‬

‫پرمینیڈیز اور میلیسس کی تھیری میں دوسرا بڑا فرق یہ تھا؛ –‬


‫ہے‪ ،‬وہ ایک دائرے کی طرح ہے )‪ (limited‬کرتی ہے وہ محدود "‪ "exist‬پرمینیڈیز یہ کہتا تھا کہ جو حقیقت ہے‪ ،‬جو چیز‬
‫ہے وہ ہر طرف پھیلی "‪ "Existence‬جو کہ جس کے کچھ حدود ہیں لیکن میلیسس کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے جو وجود‬
‫ہر طرف پھیلی "‪ "infinity‬ہے اور )‪ (infinite‬ہوئی ہے اس کے قطع طور کوئی حدود نہیں ہیں۔ وہ ایک ہے مگر وہ المحدود‬
‫ہوئی ہے یعنی یہ کائنات جو ہے اس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔‬
‫میلیسس اور پرمینیڈیز اس چیز پر بالکل متفق تھے کہ جو چیز ہے وہ ایک ہے اور ایک جیسی ہے‪ ،‬اس کے اندر کوئی کثرت‬
‫نہیں ہے‪ ،‬اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ "‪ "Plurality‬نہیں ہے‪ ،‬اس میں کوئی "‪"multiplicity‬‬
‫‪The one is everywhere and is the same.‬‬
‫ایک ہی چیز ہے ہر طرف ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا عنصر بھی نظر نہیں آتا‪ ،‬کوئی حرکت نہیں ہے‪ ،‬کوئی تبدیلی‬
‫‪،‬نہیں ہے‪ ،‬کوئی ایک شکل سے دوسری شکل کے اندر تبدیل ہی نہیں ہے‬
‫‪....‬پھر یہ کہ‬
‫‪The one is full.‬‬
‫نہیں ہے‪ ،‬ہر چیز جو ہے وہی ہے جو کہ ہے ایسی کوئی "‪ "void‬پعنی اس میں کسی قسم کی خالء نہیں ہے‪ ،‬کسی قسم کا‬
‫چیز نہیں کہ جو کہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ناممکن بات ہے۔‬
‫ہے‪ ،‬یعنی اس کا کوئی جسم نہیں ہے کیونکہ اس کے کوئی حدود "‪ "Incorporeal‬پھر مزید یہ کہ جو چیز ہے وہ غیر حقیقی‬
‫ہوتا ہے "‪ "define‬نہیں ہیں لہذا اس کا کوئی جسم نہیں ہے۔ جسم تو یہی ہوتا ہے جس کے کوئی حدود ہو۔ جسم تو صرف تب‬
‫جب اس کی کوئی حدود ہو‪ ،‬مگر کائنات کی کسی قسم کی حدود نہیں۔‬
‫لیکن یہی پہ میلیسس کی بنیادی کمزوری بھی تھی کیونکہ جہاں پر وہ ایک طرف یہ کہہ رہا ہے کہ جو چیز ہے‪ ،‬یہ کائنات‬
‫"‪، "Indivisible‬ہے ہمیشہ تک رہی گی "‪ ، "Indestructible‬ہے ‪ ،‬یعنی ہمیشہ سے تھی "‪ "Ungenerated‬جو ہے یہ‬
‫ہے مگر "‪ "Motionless‬اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور "‪، "Changeless‬ہے اس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا‬
‫رکھتا ہے ! پرمینیڈیز یہ نہیں کہتا کہ وقت )وجود( "‪ "exist‬ساتھ ساتھ میلیسس یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وقت جو ہے وہ‬
‫کرتا ہے اگر ایک لمحے سے دوسرا لمحہ مختلف ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ایک"‪ "exist‬کرتا ہے تو اگر وقت "‪"exist‬‬
‫لمحے سے دوسرے لمحے میں کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ مختلف ہے۔‬
‫کیا جب اس نے یہ قبول کر لیا کہ ایک لمحے سے دوسرے لمحے "‪ "contradict‬لہذا میلیسس نے اپنے آپ کو بری طرح‬
‫میں کوئی فرق ہے‪ ،‬وقت جو ہے وہ اگے بڑھتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کم از کم تو یہ تبدیلی ہو رہی ہے کہ وقت جو‬
‫ہے وہ پہلے سے اگے بڑھ رہا ہے۔‬
‫سکول کا جو نکتہ نظر ہے‪ "Eleatic School" ،‬تھی وہ یہ تھی کہ "‪ "contribution‬میلیسس کی جو سب سے بڑی اور اہم‬
‫اس نے اس کو نثر میں لکھا اور بعد میں جو فالسفرز آئے‪ ،‬خاص طور پر ارسطو اور افالطون انہوں نے میلیسس کو پڑھ کر‬
‫کے بنیاد فلسفے کو ‪ ،‬بنیادی نکتہ نظر کو‪ ،‬پرمینیڈیز کے نکتہ نظر کو سمجھا۔ "‪"Eleatic School‬‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط ‪– 16 :‬‬
‫)‪ (Zeno of Elea‬زینو آف ایلیا –‬
‫میں اور وفات ہوتی ہیں ‪BC‬کا فالسفر تھا۔ اس کی پیدائش ہوتی ہے ‪ (Eleatic School) 490‬زینو بھی ایلیاٹک اسکول‬
‫میں۔ ‪430BC‬‬
‫کا استاد۔ )‪ (Paradoxes‬پرمینڈیز کا شاگرد بھی تھا اور زینو آف ایلیا کو کہتے ہیں پیراڈاکسس‬
‫وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس کا استاد یعنی پرمینیڈیز سو فیصد درست ہے اور خاص طور پر اس حوالے سے کہ دنیا کے‬
‫اندر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی اور کسی قسم کی حرکت نہیں ہیں۔‬

‫بنائے جیسے؛ )‪ (Paradoxes‬اس حوالے سے اس نے کچھ پیراڈاکسس‬


‫اکیلیز اور ٹارٹائز پیراڈاکس‬
‫)‪(Achillies and the tortoise paradox‬‬
‫لیکن میں یہاں اکیلیز کے بجائے نسیم حمید مثال دوں گا‪ ،‬نسیم حمید دراصل برصغیر کی تیز ترین عورت ہے‪ ،‬یعنی بہت تیز‬
‫بھاگتی ہے لیکن زینو آف ایلیا کے مطابق وہ ایک کچوے کو بھی نہیں پکڑ سکتی۔‬
‫دیتے ہیں اب جتنی دیر ‪ lead‬ہے‪ ،‬کچھوے کو ہم ‪ 100‬میٹر کی )‪ (Race‬فرض کرے کہ نسیم حمید اور کچھوے کی دوڑ‬
‫میں نسیم حمید وہاں پہنچی گی جہاں کچھوا اس وقت موجود ہے تو اتنی دیر میں کچھوا اگے پہنچ چکا ہوگا اور پھر نسیم حمید‬
‫جب وہاں پہنچی گی کہ جہاں اب کچھوا ہے تو اتنی دیر میں کچھوا اور آگے پہنچے جائے گا اور پھر نسیم حمید جب وہاں‬
‫پہنچی گی جب تیسری پوزیشن پر کچھوا ہے تو کچھوا چوتھی پوزیشن پر چال جائے گا اور جب نسیم حمید وہاں پہنچی گی‬
‫تک چلتے "‪ "infinity‬جہاں کچھوا چوتھی پوزیشن پر ہے تو کچھوا پانچویں پوزیشن سے آگے ہو جائے گا اس طرح تو ہم‬
‫نہیں کر سکتا لہذا کچھوا جیت جائے "‪ "cross‬جائیں گے یہ تو کبھی بھی ختم نہیں ہوگا تو نسیم حمید کبھی بھی کچھوے کو‬
‫گا۔‬

‫)‪ (Dichotomy Paradox‬ڈائچاٹمی پیراڈاکس –‬


‫فرض کرے مجھے الہور سے اسالم آباد جانا ہے‪ ،‬اب اسالم آباد پہنچنے کے لئے کم از کم مجھے اسالم آباد کا جو ادھا راستہ‬
‫ہے پہلے وہاں پہنچنا پڑے گا اور اس ادھے راستے کو پہنچنے کے لئے پہلے اس کا ادھا راستہ جو ہے وہاں پہنچنا پڑے گا‬
‫اور اس راستے تک پہنچنے کے لئے اس کا ادھا راستہ طے کرنا پڑے گا اور پھر اس ادھے راستے تک پہچنے کیلئے اس‬
‫تک جا سکتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں "‪ "infinity‬کا اداھا راستہ طے کرنا پڑے گا‪ ،‬اس طرح تو کرتے کرتے میں‬
‫اسالم آباد جانا تو دور کی بات ہے میں اپنی جگہ سے بھی نہیں ہل سکتا‬

‫)‪ (Arrow Paradox‬ایرو پیراڈاکس –‬


‫زینو آف ایلیا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر ہم ایک تیر کو چالئیں اب کسی ایک لمحے میں یہ تیر کھڑا رہے بالکل نہ ہلے اب یہ‬
‫اگلے لمحے تک پہنچا نہیں تو یہ اگلے پوزیشن تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ وقت جو ہے وہ مختلف اس قسم کے لمحوں سے بنا‬
‫ہوا ہے اور ہر لمحے میں یہ تیر اپنی جگہ صرف اور صرف کھڑا ہے ہل نہیں سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہر لمحے میں یہ‬
‫لمحے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تیر کہیں بھی نہیں جا "‪ "infinite‬تیر کھڑا ہے ہل نہیں سکتا اور اس قسم کی ان‬
‫سکتا یہ تیر وہاں پہ پہنچا ہی نہیں ہے یہ میرے پاس ہی ہے۔‬

‫)‪ (Diagenes‬ڈائیوجنیز کا رد –‬
‫کو یہ تھیری بتائی کہ کس طرح سے حرکت اور تبدیلی جو ہے وہ ناممکن چیز ہے تو ‪ Diagenes‬جب زینو آف ایلیا نے‬
‫نے جواب نہیں دیا مگر ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کے اس نے یہ کہا کہ تمہاری تھیری غلط ثابت ہوئی۔ ‪Diagenes‬‬

‫تھا اس کے "‪ "Tyrant‬جو ایک ٹائرنٹ "‪ "Demolis‬بہرحال زینو آف ایلیا ایک سنجیدہ اور سیاسی آدمی تھا اور وہ ڈیمولس‬
‫خالف اس نے بغاوت کی جب وہ بغاوت کامیاب نہیں ہوئی تو اس نے قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ قتل کرنے میں کامیاب‬
‫نے اس کو پکڑ لیا اور اس پر تشدد کی جب اس پر تشدد کیا تو زینو آف ایلیا نے اپنی زبان کو اپنے "‪ "Demolis‬نہیں ہوا تو‬
‫دانتوں سے کاٹ کر اس کے منہ میں تھوک دی۔‬

‫ہو یا ‪ Arrow Paradox‬ہو ‪ Dichotomy Paradox‬زینو آف ایلیا کا جو فلسفہ ہے وہ دو پہلو سے بڑھا ہے پہال یہ کہ‬
‫ہو تینوں پیراڈاکسز میں ریاضی کے حوالے سے ایک نیا تصور دیا گیا اور وہ ہے ‪Tortoise and Achilles Paradox‬‬
‫۔ یہ ایک ایسا تصور تھا جو کہ اس زمانے میں یونانیوں کو کم از کم معلوم نہیں تھا اس کو یہ ‪Mathematical Infinity‬‬
‫نمبرز ہو سکتے ہیں اور شاید سب سے اہم بات یہ تھی کہ زینو نے دلیل "‪ "infinity‬واضح نہیں تھا کہ دو نمبرز کے درمیان‬
‫۔"‪ "Reduction to the Absurd‬کا ایک نیا طریقہ مہیا کیا جس کو ہم کہتے ہیں "‪"Argument‬‬
‫کو جب آپ اس کے آخری نتیجے پر ‪ premises‬کوئی بھی فلسفہ‪ ،‬کوئی بھی نقطہ نظر‪ ،‬کسی بھی تصور کو‪ ،‬کسی بھی‬
‫چیز ہے‪ ،‬تو پھر اس "‪ "Absurd‬پہنچاتے ہیں اور اس آخری نتیجے کا جب آپ کو پتہ چلے کہ وہ بالکل ناممکن چیز یا وہ‬
‫غلط ہے "‪ "logical reasoning‬غلط ہیں یا آپ کے "‪ "premises‬چیز سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یا تو آپ کے‬
‫کی بنیاد بنی یہ "‪ "Socrates method of philosophy‬کا طریقہ تھا یہ "‪ "Reduction to the Absurd‬یہ جو‬
‫کی جو بنیاد ہے وہ بنیادی طور پر زینو آف ایلیا کے فلسفے نے رکھی ہے۔ "‪"Socrates Dialectic‬‬
‫اب جب الیاٹیک سکول نے اپنا چیلنج پیش کیا تو اگلے فالسفر کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر پوری کائنات صرف ایک‬
‫‪ "non‬اور "‪ "being‬قسم کا مادہ ہے تو تبدیلی کسی طرح ممکن ہے۔ جس طرح پرمینیڈیز نے کہا کہ تبدلی جو ہے وہ اگر‬
‫تو ہے ہی نہیں اور رہتا ہے "‪ "non being‬کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور )‪ (interaction‬کے درمیان تعامل "‪being‬‬
‫اور وہ ایک قسم کی چیز ہے‪ ،‬تو پھر ایک ہی قسم کی چیز میں تبدلی ناممکن ہے۔ "‪"being‬‬
‫نے اس کا حل تالش کیا جو ہم آگے اقساط میں پڑھیں گے۔ )‪ (Ampedocles‬ایمپیڈیکلیز‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 17 :‬‬
‫)‪ (Empedocles‬ایمپیڈیُکلیز –‬
‫میں۔ ‪BCE‬اور وفات ہوتی ہے ‪BCE 430‬ایمپیڈیکلیز کی پیدائش ہوتی ہے ‪490‬‬
‫ایمپیڈیُکلیز اٹلی کا رہنے واال تھا وہ بھی شاعری کے انداز میں لکھتا تھا۔‬
‫ایمپیڈکلیز نے بھی اس بات سے شروع کیا کہ اگر ایک ہی قسم کا مادہ ہے‪ ،‬چیز ہے‪ ،‬تو پھر تبدیلی ناممکن ہے مگر اس نے‬
‫اس کا حل یہ دیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادہ جو ہے وہ ایک ہی قسم کی چیز نہیں ہے حقیقت میں وہ چار عناصر ہیں۔‬
‫‪،‬تھیلیس نے پانی کا ذکر کیا تھا •‬
‫‪،‬اینیگزیمنیز نے ہوا کا ذکر کیا تھا •‬
‫‪،‬ہیراکالئٹس نے آگ کا ذکر کیا تھا •‬
‫پیش کی۔ )‪، (Four elemental theory‬اور ایمپیڈیُکلیز نے ایک اور عنصر شامل کرکے یعنی‬
‫وہ کیا ہے ؟‬
‫سب سے پہلے زمین یعنی مٹی ہے جن سے زندگی جنم لیتی ہے اس کے بعد ہوا‪ ،‬اس کے بعد آگ اور اس کے بعد پانی۔‬
‫اس طرح یہ چار عناصر ہیں مٹی‪ ،‬پانی‪ ،‬ہوا اور اگ جن سے تمام مادہ بنا ہوا ہے۔‬
‫شاید ایمپیڈُک لیز کو یہ خیال اس طرح آیا کہ جب اس نے آگ میں لکڑی کو جلتے ہوئے دیکھا اس نے یہ اندازہ لگایا کہ جو چیز‬
‫جل کر بچ جاتی ہے وہ ہے زمین یعنی راکھ‪ ،‬جو چیز جل کر اڑ جاتی ہے اس کو ہم کہتے ہیں ہوا اور جو چیز جلنے کی عمل‬
‫میں ہوتی ہے وہ ہے آگ اور آگ میں کریکنگ کی جو آواز آتی ہے وہ ہے پانی۔‬
‫بنائی۔ ‪ cosmology‬تو ایمپیڈُک لیز نے اس تصور کو پوری کائنات کے تصور کے ساتھ جوڑا اور پوری‬
‫جب یہ عناصر مختلف تناسب سے‪ ،‬مختلف طریقوں سے اکھٹی ہوتی ہیں یا جدا ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مادہ مختلف‬
‫شکل اختیار کر لیتا ہے۔‬
‫یہ کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں کس طرح جدا ہوتے ہیں؟‬
‫یعنی جنگ‪ ،‬یہ )‪ (strife‬اور دوسرا ہے )‪ (love‬اس حوالے سے ایمپیڈُک لیز نے کہا کہ دو قوتیں کام کرتی ہیں؛ ایک ہے پیار‬
‫دو قوتیں ان چار چیزوں کو مختلف تناسب سے یا تو اکٹھا کرتی ہے یا جدا کرتی ہے اور اس طرح مادہ مختلف شکل اختیار‬
‫کر لیتا ہے۔‬
‫ایمپیڈُک لیز کا یہ خیال تھا کہ اول تو یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ تک رہے گی مگر کسی ایک زمانے میں ایسا دور آیا‬
‫کہ یہ چاروں عناصر ایک دائرے کے اندر موجود تھے اس دائرے کے اندر صرف اور صرف پیار تھا۔ جو ان چاروں‬
‫تھی۔ )‪ (strife‬عناصر کو جوڑتا تھا‪ ،‬اس دائرے سے باہر سب نفرت‬
‫پھر جو نفرت کی قوت تھی وہ اس دائرے کے اندر داخل ہوئی جب داخل ہوئی تو اس کے نتیجے میں یہ چار عناصر بکھر‬
‫گئے جب بکھر گئے تو ستارے‪ ،‬دنیا‪ ،‬انسان اور کائنات کی شروعات ہوئی اور اب نفرت اور پیار ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫ِم کس ہو کے ان چار عناصر کو مکس کرکے اس کے نتیجے میں مادے کی تمام شکلیں بنی اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا‬
‫کہ جو نفرت ہے وہ مرکز میں آجائے گی اور تمام عناصر بھکر جائیں گے۔‬
‫ہوگا ‪ repeat‬پیار کی قوت جو ہے وہ کائنات کے آخری کونوں میں ہوگی اور نفرت مرکز میں اور اس کے بعد یہ سائیکل‬
‫اس کائنات کا )‪ (cycle‬کہ پیار جو ہے وہ دوبارہ مرکز میں آجائے گا اور نفرت باہر جائی گی اس طرح یہ پورا سائیکل‬
‫ہوگا۔ ‪repeat‬‬
‫ایمپیڈیُکلیز کا یہ خیال تھا کہ دنیا اس قسم کی سائیکل سے گزر چکی ہے اور ہمیشہ یہ کائنات اور دنیا گزرتی رہی گی۔‬
‫ایمپیڈیُکلیز کا یہ کہنا تھا کہ جب نفرت اور پیار کے نتیجے میں مختلف عناصر آگے پیچھے ہوتے ہیں‪ ،‬ان کی ترتیب تبدیل‬
‫ہوتی ہے تو اس سے پہلے زندگی پیدا ہوتی ہے مگر زندگی عجیب و غریب طرح سے پیدا ہوتی ہے۔‬
‫یعنی کہ کہی پر بازو پیدا ہو جاتی ہے مگر اس کے ساتھ کوئی بدن نہیں ہوتا‪ ،‬کہی پر سر بدن کے بغیر‪ ،‬کہی پر جسم کا ایک‬
‫قسم کا حصہ اور کہی پر جسم کا دوسرا قسم کا حصہ اور پھر مزید یہ کہ یہ جسم کے حصے بے ترتیبی سے عجیب و غریب‬
‫ترتیب میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں‪ ،‬کہی پر بازو ٹانگ کے ساتھ جوڑی ہوئی ہے‪ ،‬کہی پر انسان کا چہرہ‬
‫گھوڑے کے جسم کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔‬
‫نہیں کر ‪ survive‬ایمپیڈیُکلیز یہ کہتا تھا کہ بہت سارے ان میں سے جو شکلیں ہیں وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ‬
‫کر جاتی ہے وہی آج کے موجود جانور ہیں۔ ‪ survive‬سکتی اور جو‬
‫مزید یہ کہ ایمپیڈیُکلیز نے پہلے وہ تھیری پیش کی کہ انسان دیکھتا کیسے ہے؟‬
‫ایمپیڈیکلیز کا یہ خیال تھا کہ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لئے آنکھوں سے شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ شعاعیں کسی‬
‫چیز کو چھوتی ہے تو جس چیز کو چھوتی ہے وہ ہمارے انکھ میں پہلے سے موجود ہے۔‬
‫مثال کے طور پر اگر میں مٹی کو دیکھ رہا ہوں تو جو زمین کا عنصر ہے وہ میرے انکھوں میں موجود ہے۔‬
‫یعنی اگر میں آگ کو دیکھتا ہوں تو اگ کا عنصر میرے انکھوں میں موجود ہے۔‬
‫اس طرح پانی اور ہوا کا عنصر بھی‪ ،‬تو جس عنصر کو میں باہر دیکھتا ہوں وہ میرے آنکھوں میں بھی موجود ہے اور وہاں‬
‫جاتی ہے تو اس چیز کو میں دیکھتا ہوں۔ )‪ (connect‬آنکھ سے شعاعیں نکلتی ہیں اور وہ عنصر سے جوڑ جوڑ‬
‫یہ تھیری درست نہیں مگر یہ پہلی تھیری تھی کہ جو کہ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ انسان دیکھتا کیسے ہے؟‬
‫اور اس پر بہت لوگوں نے یقین بھی رکھا۔‬
‫کی طرح کہ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کی )‪ (Pythagoras‬آخر میں یہ کہ ایمپیڈیُکلیز کا یہ خیال تھا‪ ،‬بالکل فیثاغورث‬
‫روح کسی اور جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔‬
‫ایمپیڈیُکلیز کا جو نقطہ نظر تھا اس کا بہت اثر ہوا‪ ،‬خاص طور پر سائنس کی دنیا میں‪ ،‬یہ نقطہ نظر کہ‪ ،‬دنیا کا جو مادہ ہے‬
‫دریافت نہیں ہوا‪ "Periodic Table" ،‬وہ چار عناصر سے بنا ہوا ہے یہ ‪ 2000‬سال تک سائنس کی بنیاد بنی یعنی جب تک‬
‫بنیادی طور پر تمام سائنسدان یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کے اندر تمام مادہ چار عناصر سے بنا ہوا ہیں۔ایمپیڈیُکلیز کی وفات اس‬
‫میں پھینک دیا کیوں؟ "‪ "volcano‬طرح ہوئی کہ اس نے اپنے آپ کو ایک‬
‫کیونکہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ خود ایک قسم کے دیوتا ہیں۔‬
‫ایمپیڈیُکلیز کے تھیری کے ساتھ ایک اور بڑی دلچسپ تھیری ہے جو کہ میڈیکل سائنس میں اس کا بڑا کردار ہے اور وہ ہے‬
‫ڈاکٹرز جب لیتے ہیں تو وہ اسی فرد پر بنیاد رکھتا ہے۔ )‪ (Hippocratic Oath‬کی تھیری۔ ‪Hippocrates‬‬

‫)‪ (Hippocrates‬ہیپوکریٹس –‬
‫میں۔ ‪BCE‬میں اور وفات ہو جاتی ہے ‪BCE 370‬ہیپوکریٹس کی پیدائش ہوتی ہے‪460 ،‬‬
‫ہیپوکریٹس نے یہ تھیری بنائی کہ بالکل جس طرح دنیا میں چار مختلف عناصر ہیں اسی طرح انسان کے اندر چار مختلف‬
‫ہیں یعنی ؛ "‪"Humours liquids‬‬
‫۔"‪ "phlegm‬اور اس کے بعد "‪ "yellow bile‬اس کے بعد "‪ "black bile‬اس کے بعد "‪ "Blood‬لسب سے پہلے‬
‫بھی متوازن ہوتی ہے ہم صحت مند "‪ "personality‬ہوتا ہے تو ہمارے شخصیت "‪ "balance‬جب ان میں جو بھی متوازن‬
‫ہو جائے تو ہماری شخصیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ )‪ (imbalance‬بھی ہوتے ہیں جب ان میں کوئی غیر متوازن‬
‫زیادہ ہیں تو آپ بہت "‪ "black bile‬مثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں خون زیادہ ہوگا تو آپ خوش مزاج ہوں گے‪ ،‬اگر‬
‫زیادہ ہیں تو اپ غصے والے بن جائیں گے اور اگر اپ "‪ "yellow bile‬ہوں گے‪ ،‬اگر آپ کے اندر "‪"depress‬‬
‫زیادہ ہوگا تو اپ ڈھلے بن جائیں گے۔ "‪"phlegm‬‬
‫میں لے ائیں تو پھر ہم )‪ (Balance‬ہیپوکریٹس کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم ان چار چیزوں کو کسی نہ کسی طرح بیلنس‬
‫بیماریوں کو حل کر سکیں گے۔‬
‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬
‫قسط‪– 18 :‬‬
‫)‪ (Anaxagoras‬اناگَز گورس –‬
‫میں۔ ‪BCE‬میں پیدائش ہوتی ہے اور وفات ہوتی ہے ‪BCE 428‬اناگَز گورس کی تقریبًا ‪510‬‬
‫پہنچایا۔ )‪ (Athens‬اناگَز گورس وہ فلسفی ہے کہ جس نے فلسفہ کو ایتھنز‬
‫یہ کہا جاتا ہے کہ اناگَز گورس سقراط کا استاد بھی تھا اور اگراناگَز گورس نہ ہوتا تو فلسفہ کے بنیادی خیاالت کبھی بھی ایتھنز‬
‫نہ آتے۔ نہ سقراط‪ ،‬نہ افالطون اور نہ ارسطو شاید پیدا ہوتے۔‬
‫اناگَز گورس علم فلسفہ اور سیکھنے کے اس قدر شوقین تھے کہ اس نے ایک لمبا سفر طے کیا کہ میں دنیا دیکھنا چاہتا ہوں‪،‬‬
‫میں دنیا کو سمجھنا چاہتا ہوں‪ ،‬جب سفر سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی تقریبًا ساری جائیداد تباہ و برباد ہو چکی‬
‫ہیں‪ ،‬اس کی زمین بنجر ہو چکی ہے‪ ،‬اس کا کسی نے خیال نہیں رکھا۔ مگر اس کو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ کہتا‬
‫تھا کہ بے شک یہ جائیدادیں میرے پاس نہ ہو‪ ،‬مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں‪ ،‬میں صرف فلسفہ سیکھنا چاہتا ہوں‪ ،‬میں‬
‫صرف علم سیکھنا چاہتا ہوں۔‬
‫اس کے ایک دوست نے اس کے ملکیت کے تباہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا تو اس نے یہ کہا کہ یا تو یہ بچتی یا میں بچتا‬
‫اب یہ تباہ ہوئی ہے‪ ،‬اب میں اپنے اصل عشق یعنی فلسفے کی طرف جا سکتا ہوں۔‬
‫وہ بہت ہی اہم سیاستدان تھے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ایتھنز میں ‪ (Pericles)،‬ایتھنز کا ایک سیاستدان تھا جس کا نام تھا پیریکلیز‬
‫جو محدود جمہوریت نظام‪ ،‬جس میں غالم اور عورتیں حصہ نہیں لے سکتی‪ ،‬اشرافیہ اور ڈیموس حصہ لے سکتے ہیں‪ ،‬وہ یہ‬
‫چاہتا تھا کہ اس جمہوری نظام میں رہتے ہوئے لوگ کچھ تہذیب سیکھے‪ ،‬کچھ آرٹ کے بارے میں سیکھے‪ ،‬کچھ فلسفے کے‬
‫بارے میں سیکھے‪ ،‬کچھ دنیا اور سائنس کے بارے میں سیکھے۔‬
‫لہذا اس نے اناگَز گورس کو دعوت دی کہ کیوں نہ آپ ایتھنز آئیں اور یہاں آکر اپنا فلسفہ پڑھائے۔‬
‫اناگَز گورس ایتھنز گیا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو پڑھایا۔‬
‫سے بھی متاثر تھے۔ "‪ "Eleatic School of Thought‬بھی تھا اور )‪ (Pluralist‬اناگَز گورس دراصل ایک فلورلسٹ‬
‫مثال کے طور پر وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ جو چیز ہم حس سے سمجھ رہے ہیں‪ ،‬آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں وہ ضروری‬
‫نہیں کہ سو فیصد درست ہو۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جس چیز کو ہم تبدیلی سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں تبدیلی نہیں ہے مگر وہی‬
‫مادہ دوبارہ سے‪ ،‬کسی اور تناسب سے‪ ،‬کسی طرح سے مل رہے ہیں لہذا مادہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے مگر مادہ‬
‫کس طرح ایک دوسرے سے مکس ہو رہے ہیں شاید اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ہے۔‬
‫اناگَز گورس یہ کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو بنیادی طور پر مادہ ہے وہ یا ختم ہو جائے یا پیدا ہو جائے۔‬
‫جو مادہ ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا اور اس میں تھوڑی بہت رد و بدل‪ ،‬تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں مادہ‬
‫کی مختلف شکل میں نظر آتی ہے۔‬
‫وہ کہتا تھا کہ؛‬
‫"‪"There is everything in everything.‬‬
‫یعنی ہر شے کے اندر ہر شے پائی جاتی ہے‪ ،‬اس سے اس کی اصل مراد یہ تھی کہ اگر مادے کی ایک چیز دیکھے‪ ،‬کوئی‬
‫بھی چیز جیسے سیب‪ ،‬پتھر وغیرہ تو وہ عناصر جو پتھر کے اندر ہے وہی عناصر کھانے کے اندر بھی ہیں اور مختلف‬
‫تناسب میں مکس ہوئے ہیں مگر ہر عنصر جو ہے وہ ہر چیز کے اندر پایا جاتا ہے۔‬
‫اناگَز گورس کو یہ خیال اس حوالے سے آیا کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو کھانے کے اندر جو اجزاء ہیں وہ ہمارے جسم کے‬
‫اندر تبدیل ہو جاتی ہے‪ ،‬مثال کے طور پر ہمارے بال لمبے ہو جاتے ہیں ہماری ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں وغیرہ۔‬
‫تو اناگَز گورس کا یہ خیال تھا کہ کھانے کے اندر ہڈیاں ہوں گی‪ ،‬بال ہوں گے‪ ،‬کھانے کے اندر خون ہوگا‪ ،‬کھانے کے اندر‬
‫جلد ہوگا وہ تمام چیزیں جو ہماری جسم میں بن جاتی ہیں وہ دراصل کھانے کے اندر تھوڑی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫آج ہمیں پتہ ہے کہ واقعی یہ تھیری درست تو نہیں ہے بہرحال اناگَز گورس مگر اس حوالے سے درست کہہ رہا ہے کہ کھانے‬
‫کے اندر جو اجزاء ہیں وہ ہمارے جسم میں تبدیل ہوتی ہے۔‬
‫اس نے اس کو مزید بڑھا دیا اس نے کہا کہ ہر چیز میں ہر چیز ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ برف بالکل‬
‫سفید ہوتی ہے مگر جب وہ پگھل جاتی ہے تو اکثر وہ کالے پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اناگَز گورس نے کہا کہ اس سفید‬
‫برف کے اندر کاال پانی پہلے سے موجود تھا سفید کے اندر کاال موجود ہے اور کالے کے اندر سفید موجود ہے‪ ،‬ہر شے ہر‬
‫شے میں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے چیزیں دوسری چیزوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔‬
‫تھا۔ اناگَز گورس کا یہ کہنا تھا کہ کائنات کے اندر "‪ "The mind‬کا "‪ "Nous‬شاید سب سے اہم اناگَز گورس کا جو خیا تھا وہ‬
‫میں لے کر آتا ہے اس کو "‪ "action‬ان کو عمل "‪ "mind‬ایک "‪ "Nous‬وہ ایک )‪ (Mixture‬تمام عناصر کا مرکب‬
‫مرکب میں لے کر آتا ہے‪ ،‬ان کو گماتا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں۔‬
‫جو ہے وہ اناگَز گورس کے لئے دیوتا نہیں تھی بلکہ ایک قسم کا اصول تھا‪ ،‬ایک قدرتی قانون تھا جس کے تحت "‪ "mind‬یہ‬
‫تھی‪ ،‬ایک میکینسٹیک "‪ "mechanism‬یہ دنیا چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اناگَز گورس کے لئے دنیا ایک‬
‫تفصیل تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ جسے یونان کے لوگ سمجھتے )‪(mechanistic‬‬
‫تھے کہ سورج اور چاند دیوتا ہیں مگر اناگَز گورس ان کو بالکل دیوتا نہیں مانتا تھا بلکہ اس کا یہ کہنا تھا کہ تمام سیارے جو‬
‫ہمیں آسمان کے اندر نظر آتے ہیں درحقیقت وہ اسی مادے کے بنے ہوئے ہیں کہ جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔‬
‫اب یہ تصور ایتھنز کے لوگوں کو بالکل پسند نہیں آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ تو آپ نے ہمارے دیوتا کے بارے میں بڑی‬
‫عجیب و غریب قسم کی بات کی۔‬
‫یعنی ایک لوہا ہے جو بالکل الل اور گرم ہو چکا ہے اور جو کہ جل رہا ہے۔ ‪ metal‬اناگَز گورس نے کہا کہ سورج ایک‬
‫اسی طرح اس نے کہا کہ چاند بھی اس چیز سے بنا ہے جس چیز سے دنیا بنی ہے اور یہ کہ چاند جو ہے وہ سورج کے‬
‫کر رہی ہے اور ہم دراصل چاند پر سورج کی روشنی دیکھ رہے ہیں‪ ،‬اس نے کہا کہ ستارے جو ہیں وہ ‪ reflect‬روشنی کو‬
‫ایک قسم کے اگ بگوال پتھر ہیں۔‬
‫پیدا ‪ eclipse‬کے حوالے سے بھی بالکل درست کہا کہ جب چاند سورج کے سامنے آجائے تو پھر ایک ‪ Eclipses‬اس نے‬
‫پیدا ہوجاتا ہیں۔ ‪ eclipse‬ہوتا ہے یا زمین کا جو سایہ ہے وہ چاند پہ گر جائے تو بھی ایک‬
‫یہ سب باتیں جب اس نے کہی تو ایتھنز کے لوگ اس کے سخت خالف ہوگئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں آج‬
‫مکمل طور پر سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے اس کی ایک بھی بات غلط نہیں ہوئی۔ واقعی سورج اس مادے سے بنا ہوا‬
‫ہے جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔ اس طرح چاند اور ستارے بھی اس مادے سے بنے ہوئے ہیں جس مادے سے یہ دنیا‬
‫بنی ہوئی ہے یہ بات بھی درست ہے کہ سورج پر آگ لگی ہوئی ہے‪ ،‬سورج کی روشنی ہی چاند پر نظر آتی ہے جو ستارے‬
‫ہمیں نظر اتے ہیں وہ بھی درحقیقت مختلف قسم کے سورج ہیں وہاں پر بھی آگ ہے اور وہی آگ ہمیں نظر آتی ہے سب باتیں‬
‫درست ہیں۔‬
‫مگر ایتھنز کے لوگ اس کے سخت مخالف ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دہریہ ہے۔ اس نے ہمارے مذہب کے خالف بات کی ہے‬
‫دی گئی کہ یا تو تم زہر کا پیالہ پی کے مر جاؤ یا تو پھر ہمارے شہر سے نکل "‪ "choice‬لہذا اس کو مار دیں گے اس کو‬
‫جاؤ لہذا اناگَز گورس نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں اور اس نے ایتھنز کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔‬
‫اناگَز گورس نے ایتھنز کو تو چھوڑ دیا مگر اس کا اثر جو تھا اس نے پوری ایتھنز اور پوری دنیا پر غلبہ دیکھایا اور خاص‬
‫اس پر بہت زیادہ اثر ہوا وہ کیسے ؟ "‪ "Socrates‬طور پر ایتھنز کے ایک شہری جس کا نام تھا سقراط‬
‫۔)‪ (Socrates‬اس کا جو آگے شگرد تھا وہ تھا سقراط ‪ (Archelaus)،‬کہ اناگَز گورس کا جو شاگرد تھا آرکیلیس‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 19 :‬‬
‫)‪ (Democritus‬ڈیموکریٹس –‬
‫میں پیدائنس ہوتی ہے ‪BCE‬ڈیموکریٹس کی تقریبًا ‪460‬‬
‫میں اس کی وفات ہوجاتی ہے۔ ‪BCE‬اور ‪370‬‬
‫زندگی گزارنی چاہیئے‪ ،‬ایسی زندگی کہ جس میں آپ علم حاصل کریں اور "‪ "untrouble‬ڈیموکریٹس کا یہ ماننا تھا کہ ایک‬
‫خوش رہے۔‬
‫ڈیموکریٹس کہتا تھا کہ جب آپ دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگو گے تو آپ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتے۔‬
‫‪ base‬ہوتا ہے وہ اس کے "‪ "volume‬کا جو "‪ "Prism‬ریاضی میں ڈیموکریٹس شاید پہال ہی بندہ تھا جس نے مشاہدہ کیا کہ‬
‫بنائیں تو وہ سلنڈر ‪ prism‬کا اگر ہم ‪ base‬اور ایک ہی اسی ‪ cylinder‬کا ‪ base‬کے حساب سے ہوتا ہے یعنی کہ ایک ہی‬
‫ہوگا۔ ‪rd‬کا ‪ volume 1/3‬کے‬
‫مزید یہ کہ ڈیموکریٹس نے پرمینڈیز کے تھیری پر غور کرنا شروع کر لیا‪ ،‬اس نے اس چیز سے اتفاق کیا کہ ہمارے سامنے‬
‫چیزیں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ جو تبدیلی ہمیں نظر آرہی ہے اس کی بنیاد‬
‫چیز ہے جو کہ تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ "‪ "Parmenidian‬کوئی ایسی پرمینیڈین‬
‫پرمینیڈیز کی تھیری کو پڑھ کر وہ یہ کہتا تھا کہ خالء میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی مگر پرمینیڈیز جب اس نتیجے پر‬
‫پہنچا کہ خالء میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہو سکتی تو خالء ہے ہی نہیں لیکن ڈیموکریٹس بالکل اس کے الٹ نتیجے پر پہنچا‬
‫کہ اگر خالء میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہو سکتی تو وہ جو چیز ہے وہ خالء سے علیحدہ ہے یعنی خالء جو ہے وہ مختلف‬
‫چیزوں کے درمیان پائی جا سکتی ہے۔‬
‫اس نے سوچا کہ اگر آپ کوئی بھی چیز لے‪ ،‬جیسے سیب لے لیں‪ ،‬اس کا ادھا حصہ کر لیں‪ ،‬پھر اس ادھے حصے کا ادھا‬
‫حصہ کر لیں‪ ،‬پھر اس ادھے حصے کا ادھا حصہ کر لے تو ایک ایسا ذرا نکلے گا کہ جس کو مزید ادھا نہیں کیا جا سکتا وہ‬
‫کہتے ہیں۔ )‪ (atom‬ہوگا اور جس کو مزید کاٹا نہیں جا سکتا اس کو یونانی زبان میں ایٹم ‪uncuttable‬‬
‫۔"‪ "The Atomic Theory‬ڈیموکریٹس نے تھیری بنائی‬
‫ذرے ہیں اور ان ذروں کے "‪ "uncuttable‬وہ تھیری یہ تھی کہ دنیا کے اندر جو چیز مادی کی بنیاد ہے وہ چھوٹے چھوٹے‬
‫درمیان صرف اور صرف خالء ہے وہ خالء جس کی پرمینڈیز بات کر رہا تھا وہ ذرے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہیں۔‬
‫ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ )‪ (atoms‬ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ ایٹمز‬
‫ایٹم ہیں اور کچھ گول ہیں‪ ،‬کچھ ایٹمز کا ایک رنگ تو کچھ ایٹمز کا دوسرا رنگ ہے۔ ‪ smooth‬وہ یہ کہتا تھے کہ کچھ‬
‫نیز ڈیموکریٹس کہتا تھا کہ ایٹم کے اندر ایٹم جیسے ہوکس بنے ہوئے ہیں۔ اور وہ جب ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ جاتے ہیں‬
‫اس سے ایٹمز ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ جاتے ہیں۔ آج ہمیں پتہ ہے کہ ایٹم کی کوئی ہوکس نہیں ہوتے۔ ان میں مختلف قسم‬
‫وغیرہ۔ ‪ metallic‬اور ‪ (Ionic bond)، covalent‬ہوتے ہیں جیسے ایونک بونڈ )‪ (bonds‬کے بونڈز‬
‫مگر تصور کتنا مذیدار ہے کہ کسی آلے کے بغیر ڈیموکریٹس بتا رہا ہے کہ ایٹم کس طرح جوڑتے اقر ٹوٹتے کس طرح ہیں‬
‫اور مختلف شکلیں اور خصوصیات کیا ہیں۔‬

‫انسان کی روح –‬
‫ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ انسان کی روح جو ہے وہ بھی ایٹم سے بنی ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ جو‬
‫ہماری روح کی ایٹمز ہیں وہ مرنے کے بعد پھیل جاتے ہیں اور کسی اور روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔‬
‫اسی طرح ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ جب ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایمپیڈُک لیز نے کہا تھا کہ ہماری آنکھوں‬
‫سے شعاعیں نکلتی ہیں لیکن اس کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔‬
‫ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ہم چاند کی طرف دیکھتے ہیں تو چاند کے جو ایٹمز ہیں وہ ہمارے انکھوں کے اندر آتے‬
‫ہیں۔ اس طرح ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں۔‬
‫یعنی چاند کے ایٹمز ہیں‪ ،‬روح کے ایٹمز ہیں اور ہر قسم کے ایٹمز ہیں۔‬
‫ایک ایٹم اور دوسرے ایٹم کے درمیان خالء ہے وہ خالء جس کے بارے میں پرمینڈیز کہتا تھا کہ وہ وجود نہیں رکھتا اسی‬
‫ایٹم سے بنا ہوا ہے اور ‪ Internal Indestructible‬طرح دنیا کا جو مادہ ہے جو ہر طرف پھیال ہوا ہے وہ بنیادی طور پر‬
‫ان کے درمیان صرف خالء ہے۔‬

‫نیز ڈیموکریٹس کی اس پوری تھیری میں دیوتاؤں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی اس کے مطابق دنیا ایٹمز سے بنی ہوئی‬
‫ہے۔ ‪ Materialist‬ہے اور ایٹم سے چل رہی ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس جو ہے وہ ایک‬

‫‪، metaphysics‬کی بنیاد پر ایک پورا فلسفہ کھڑا کیا‪ ،‬علم کا فلسفہ ‪ Atomic Theory‬اس کے عالوہ ڈیموکریٹس نے اپنی‬
‫کا فلسفہ۔ ‪، epistemology‬کا فلسفہ‬

‫)‪ (Epistemology‬علمیات –‬
‫ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ دو قسم کے علوم ہیں؛‬
‫)‪ (Illegitimate Knowledge‬اللیجٹمیٹ علم )‪1‬‬
‫)‪ (Legitimate Knowledge‬لیجیٹمیٹ علم )‪2‬‬

‫)‪ (Illegitimate Knowledge‬اللیجٹمیٹ علم )‪1‬‬


‫یہ علم کا وہ اپروچ ہے کہ جو ہم اپنی حس سے دیکھتے ہیں‪ ،‬سنتے ہیں یا چھو کر محسوس کرکے ہمارے ذہنوں تک پہنچتی‬
‫ہے اور یہ کبھی سو فیصد درست نہیں ہو سکتی۔‬

‫)‪ (Legitimate Knowledge‬لیجیٹمیٹ علم )‪2‬‬


‫سے گزرنا ہوگا‪ ،‬ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ‪ Inductive logic process‬ان معلومات کو درست کرنے کے لئے ہم نے اس کو‬
‫تو نہیں کرتا اور ان دونوں میں سے کون سی معلومات درست ہیں ‪ conflict‬ایک معلومات جو ہے وہ دوسرے معلومات کو‬
‫کے ذریعے گزار کے ‪ inductive logic‬کرکے جو ہم معلومات حاصل کرتے ہیں جس کو ‪ process‬اور اس طرح اس کو‬
‫علم ہے اور وہی صرف درست علم ہے۔ ‪ Legitimate‬جو علم ہم حاصل کرتے ہیں وہی صرف‬

‫)‪ (Natural Mechanism‬نیچرل میکینزم –‬


‫ہے‪ ،‬ایک قدرتی نظام ہے‪ ،‬جو کہ دنیا کو چال ‪ natural mechanism‬ڈیموکریٹس کی جو ایٹامک تھیری تھی اس میں ایک‬
‫رہا ہے اس میں کسی ایسے ذہن کی ضرورت نہیں کہ وہ اس کو حکم دے اس کو تبدیل کرے‪ ،‬وہ اس کو اگے لے کے جائیں‬
‫یا پیچھے لے کے جائیں‪ ،‬پس یہ کائنات ایک مشین کی طرح ہے۔‬
‫‪ milky‬کو اخذ کیا اور اس نے تصور دیا کہ یہ تمام ‪ milky way‬اخر میں یہ کہ ڈیموکریٹس وہ پہال فرد تھا کہ جس نے‬
‫جو ہیں یہ دور ستارے ہیں‪ ،‬دور سورج ہیں‪ ،‬مختلف سورج ہیں جو کہ ہم سے انتہائی دور ہیں۔ ‪way‬‬
‫ڈیموکریٹس کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ تاریخ میں پہال ریکارڈیڈ شخص ہے کہ جس نے یہ پیش کیا کہ کائنات کے‬
‫اندر کئی دنیا ہیں اور کوئی ایسی دنیا بھی ضرور ہوگی کہ جہاں ذہانت کی زندگی ہوگی کہ جہاں اور قسم کے لوگ اور قسم‬
‫کی جانور بستے ہوں گے۔‬
‫آج بھی اس پر فلمیں بناتی ہیں کہ جہاں ایلین ہیں‪ ،‬کسی اور دنیا پر‪ ،‬یہ تصور ڈیموکریٹس نے دیا۔ ‪ fiction‬سائنس‬

‫سوچنے کی بات ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج سے ‪ 26 ،25‬سو سال پہلے ایک بندہ جو ہے وہ اٹامک تھیری پیش‬
‫کرتا ہے‪ ،‬وہ ایٹامک تھیری تو نہیں جو آج کی ہیں مگر ایک قسم کی اٹامک تھیری تو ہے مکمل طور پر درست نہیں مگر‬
‫اپنی بنیاد میں تا درست ہے۔‬
‫اگر اس کی منطق کی طرف ہم دیکھے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہراکالئٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان جو بحث ہے کہ تبدیلی‬
‫سے ہو رہی ہے اور اگر نہیں ‪ interaction‬کی ‪ non being‬اور ‪ being‬ہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی ہے اگر ہو رہی ہے تو‬
‫‪ non being‬ہے ہی نہیں لیکن ڈیموکریٹس یہ کہتا ہے کہ وہ ‪ non being‬ہو رہی ہے تو یہ انٹریکشن ناممکن ہے کیونکہ‬
‫ہے‪ ،‬یعنی خالء ہے اگر خالء ہے تو جو مادہ ہمیں نظر اتا ہے اس کا جو سب سے چھوٹا ذرا ہے ان کے درمیان خالء ضرور‬
‫موجود ہیں۔ اسی طرح اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام مادہ جو ہے وہ چھوٹے چھوٹے ذروں سے بنا ہوا ہے۔ جس کو اس نے‬
‫نام دیا ایٹم۔‬
‫بہرحال ڈیموکریٹس کی یہ تھیری واقعًا حیران کن ہے کہ بغیر کسی آلے‪ ،‬بغیر کسی مادے کے حوالے سے بنیادی علم کے‪،‬‬
‫صرف اور صرف منطق کی بنیاد پر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا ایٹم سے بنی ہوئی ہے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 20 :‬‬
‫)‪ (Natural Philosophy‬قدرتی فلسفہ –‬
‫ہم نے اس سے پہلے جتنے بھی فالسفرز کے بارے میں ذکر کیا ہیں وہ ایک طرف تو فالسفرز ہیں تو دوسری طرف ایک‬
‫طرح کے سائنسدان بھی ہیں۔ مطلب یہ کہ جس طرح وہ سوال پوچھ رہے تھے وہ آج کے فالسفرز نہیں پوچھتے بلکہ وہ آج‬
‫کے سائنسدان پوچھتے ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر سب سے اہم بات یہ کہ مادے کے حوالے سے جو سواالت ہیں‪ ،‬قدرت کے حوالے سے جو سواالت ہیں‪،‬‬
‫ہے۔ پرمینڈیر نے اس پر کتاب لکھی‪ ،‬زینوپھنیز نے اس پر کتاب )قدرت پر( "‪ "On nature‬کئی ورکس ہیں ان کا نام ہی‬
‫نے ریاضی پر کتنا "‪، "Pythagorean‬لکھی‪ ،‬تھیلیس نے ریاضی پر کتنا کچھ لکھا‪ ،‬اس طرح پرمینیڈیز نے ریاضی پر لکھا‬
‫کچھ لکھا‪ِ ،‬اناگزگورس نے چاند‪ ،‬سورج اور ستاروں پر کیا کچھ لکھا اور بتایا‪ ،‬کتنا کچھ دریافت کیا‪ ،‬ڈیموکریٹس نے ایٹم کے‬
‫حوالے سے کتنا کچھ لکھا۔‬
‫پھر بنیادی طور پر مادہ جس چیز سے بنا ہوا ہے اس پر کتنی بحث چلی‪ ،‬ایک چیز سے بنا ہے‪ ،‬چار چیزوں سے بنا ہے‬
‫وغیرہ۔ اس طرح مادے کے اندر تبدیلی کس طرح ہوتی ہے ؟ یہ وہ سوال نہیں ہیں جو ہم آج کے فلسفے سے جوڑتے ہیں بلکہ‬
‫یہ وہ سوال ہے جو آج ہم سائنس سے جوڑتے ہیں۔‬
‫لہذا جو فلسفے کی شروعات ہے وہی درحقیقت سائنس کی شروعات ہے۔ سائنس اور فلسفے کو آج کے دور میں الگ الگ‬
‫نہیں لکھا جاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان فالسفرز کو نیچرل فالسفرز بھی کہتے ہیں۔ اور ان کے فلسفے کو ہم نیچرل فالُسفی‬
‫بھی کہتے ہیں۔‬
‫یہ جو نیچرل فالسفی ہے اس کے نتیجے میں یونان کے لوگوں کی سوچ کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہونا شروع ہو‬
‫گئی ایک انقالب شروع ہوا۔ اگرچہ ایک سیاسی انقالب تو نہیں تھا یعنی سیاسی بغاوتیں جاری تھی مگر ایک بہت بڑی‬
‫نظریاتی تبدیلی آئی۔‬

‫یونانی لوگوں کی روایتی سوچ –‬


‫جو یونان کے روایتی لوگ تھے ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ان کے زندگی کے اندر جو تمام چیزیں ہوتی ہیں‪ ،‬واقعات ہوتے ہیں‬
‫اس کے پیچھے انسانوں کی اپنی مرضی نہیں ہوتی‪ ،‬بلکہ دیوتا کی مرضی ہوتی ہے۔ انسان کا تقدیر پہلے سے لکھا ہے ہر‬
‫اس پر بڑا بڑا یہ درج تھا ‪ "Appolo at Delphi"،‬انسان کا تقدیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور ان کا جو سب سے بڑا مندر تھا‬
‫جس سے یونان کے لوگوں کی یہ مراد تھی کہ اس بات کو جانو کہ تمہاری ‪)،‬اپنے اپ کو پہچانو( "‪ "know thyself‬کہ‬
‫تقدیر تبدیل نہیں ہو سکتی یعنی اگر تم اس غلط فہمی میں ہو کہ تم اپنے مقدر کو تبدیل کرلو گے تو یہ بالکل ایک بھول ہے‪،‬‬
‫ایک خواب ہے۔‬
‫میں "‪، "Greek Tragedies‬جو ہے وہ بنیادی طور پہ اسی تصور کو نمایاں کرتی ہے "‪ "Greek Tragedies‬کہ‬
‫ہیرو ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں اپنے مقدر کو تبدیل کر لوں گا میں اپنے ‪Traged‬‬
‫مرضی کے فیصلے میں کامیاب رہوں گا اور تقدیر کو دوبارہ لکھ لوں گا مگر کبھی بھی اس ہیرو کی جیت نہیں ہوتی ہمیشہ‬
‫اس ہیرو کی شکست ہوتی ہے اور بار بار اس بات کو یونان کے ذہنوں میں اجاگر کر رہے تھے کہ آپ کے مقدر میں جو بات‬
‫لکھی ہے وہ وہی ہوگی جو ہوتا ہے وہ ہوگا۔‬
‫! ‪What will be shall be‬‬
‫پر "‪ "Fatalism‬اب جب نیچرل فالسفی مقبول ہونا شروع ہوا تو اس نے اس "‪ "Greek Fatalism‬اس کو ہم کہتے ہیں‬
‫سوال کرنا شروع کیا۔‬
‫اس نے یہ کہا کہ نیچرل فلسفہ میں ایسا نہیں ہے بلکہ قدرت کے اندر کچھ قدرتی اصول اور قوانین ہیں۔ وہ کسی دیوتا کے‬
‫نتیجے میں قائم نہیں ہوئے۔ وہ قدرت کے اپنے قدرت میں شامل ہیں۔ وہ مادے کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہیں‪ ،‬لہذا اس‬
‫کے اندر جو تبدیلی آپ دیکھتے ہیں وہ کسی دیوتا کے نتیجے میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ وہ قدرت کے اندر اپنے قدرتی اصول‬
‫کے نتیجے میں آتی ہے ۔‬
‫سب سے اچھی مثال اس کی یہ دی جا سکتی ہے کہ جب یونان میں زلزلہ آتا تھا تو یونان کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ‬
‫کوئی دیوتا ہم سے ناراض ہو گیا ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں زلزلہ آیا ہے۔ مگر اپ نے دیکھا کہ جو نیچرل فالسفرز تھے وہ‬
‫اس چیز کو اس طرح بالکل نہیں دیکھتے تھے۔ وہ یہ جواب دیتے تھے کہ زلزلہ یا تو سمندر میں لہروں کی وجہ سے آتا ہے‬
‫جس پر پوری دنیا تیر رہی ہے یا پھر وہ ہوا کے لہروں کے نتیجے میں آتا ہے۔‬
‫اس طرح اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب نیچرل فالسفی انسان کے ذہن اور ارتقا پر اثر‬
‫انداز ہونا شروع ہوا تو یونان کے لوگوں نے اپنی تاریخ مختلف انداز میں لکھنا شروع کر دیا۔‬
‫انہوں نے یہ سوچا کہ جو مختلف چیزیں انسانوں کے ساتھ ہوئی ہیں تاریخ میں وہ انسانوں کے اپنے فیصلوں کے نتیجے میں‬
‫‪ .‬تھے "‪ "Historians‬ہوئی ہے لہذا دو ایسے فرد پیدا ہوئیں کہ جس کو ہم کریڈٹ کرتے ہیں کہ وہ پہلے‬
‫‪Herodotus and Thucydides.‬‬
‫یہ پہلے وہ لوگ تھے جنہوں نے تاریخ کو قدرتی عمل کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ‬
‫کا جو عنوان ہے ان کو جنم دیا۔‬
‫نیچرل فلسفہ کا جو دوسرا بڑا عظیم اثر تھا وہ تھا‪ ،‬صحت کے حوالے سے۔ صحت کے علم کے حوالے سے قدیمی یونان میں‬
‫روایتی سوچ یہ تھی کہ انسان بیمار اس وجہ سے ہوتا ہے کہ جب دیوتا انسان سے ناراض ہو۔‬
‫بلکہ ان کا یہ بھی تصور تھا کہ جو مختلف سیارے اور ستارے ہیں جب وہ تبدیل ہوتے ہیں اس تبدیلی کے نتیجے میں انسان‬
‫صحت مند یا بیمار ہو جاتا ہے۔‬
‫بھی ایک یونانی لفظ ہے ‪ Influenza‬کہتے ہیں۔ ‪ common cold‬کے بارے میں سنا ہوگا جس کو ہم ‪ Influenza‬آپ نے‬
‫سے نکال ہے جس کا مطلب ہے ‪ influence‬جو‬
‫;‪Malign influence of the stare‬‬
‫ہو جاتا ہے آپ بیمار ہو جاتے ہو۔ ‪ influenza‬ہو تو آپ کو ‪ influence‬کہ جب ستاروں سے آپ متاثر ہو یعنی‬
‫تو نیچرل فلسفہ جیسے جیسے یونان کے اندر پھیلی تو ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے قدرتی تفصیالت ڈھونڈنا شروع کیں‪،‬‬
‫قدرتی جواب ڈھونڈنا شروع کیں کہ انسان بیمار کیوں ہوتا ہے وغیرہ۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 21 :‬‬
‫)‪ (Sophists‬سوفسطائی –‬
‫تھے اور جو )‪ (Demos‬پچھلے اقساط میں ہم نے اتھینین جمہوریت کے بارے میں پڑھ لیا ہیں کہ ایتھنز کے اندر جو ڈماس‬
‫اشرافیہ طبقہ تھا ان کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتہ تھا کہ جس میں غالم اور عورتیں بلکل شامل نہیں تھے۔ اس سمجھوتے‬
‫کی وجہ سے کچھ ایسے ادارے قائم ہوئے کہ جس میں ہر فرد اپنے نقطۂ نظر کو عوام کے سامنے پیش کرسکتا تھا۔ یعنی کہ‬
‫جو فرد اچھا مقرر ہوتا تھا وہ اپنا نقط نظر آگے پہنچا سکتا تھا‪ ،‬لوگوں کو متوجہ اور قائل کرسکتا تھا‪ ،‬اسمبلی کو متوجہ‬
‫کو قائل کرسکتے تھے کہ ان کا نقطہ نظر درست ہے لہزا اشرافیہ طبقے کے اندر ایسی )‪ (Courts‬کرسکتا تھا‪ ،‬عدالتوں‬
‫تھی۔ ایتھنز میں بھی اور یونان کے اور مختلف شہروں میں بھی تاکہ ان کو تقریر کرنا سیکھا ‪ demand‬لوگوں کی زیادہ‬
‫کو پورا کرنے والے لوگ تھے ان کو ہم سوفسطائی یعنی ‪ demand‬سکے‪ ،‬یا تاکہ انکی تقریر کو پراثر بناسکے۔ اس‬
‫کہتے ہیں۔ ‪Sophists‬‬
‫سوفسطائی بنیادی طور پر اساتذہ ہوا کرتے تھے‪ ،‬وہ ایک جگہ سے دوسرے جگہ سفر کرتے اور مختلف لوگوں کو پڑھاتے‬
‫اور سیکھاتے چلے جاتے تھے۔ ظاہر ہے اس زمانے میں باقاعدہ طور پر اسکول اور یونیورسٹیاں تو ہوتی نہیں تھی لہزا ایک‬
‫ہے وہ کسی استاد یا عقلمند انسان کو بال )‪ (Aristocrat‬ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ایرسٹکوریٹ ‪ Private Tuition‬قسم کی‬
‫لیتا تھا اور اس سے کہتا تھا کہ مجھے سیکھنا ہے۔‬
‫تھی وہاں لوگوں کق پڑھاتے رہتے تھے ‪ colonies‬چونکہ سوفسطائی پورے یونان کے اندر اور یونان سے باہر جو یونانی‬
‫لہزا یہ (سوفسطائی) مختلف عالقوں کے مختلف قوانین‪ ،‬روایات اور رسومات سے واقف ہوگئے تھے مگر انہوں نے اپنے‬
‫بنالیا تھا‪ ،‬انکی ایک قسم کی اپروچ تھی وہ یہ کہ انہوں نے تمام مختلف نقطۂ نظر پڑھانے ہیں‪ ethos ،‬درمیان ایک قسم کا‬
‫یعنی وہ کوئی سچائی کے تالش میں نہیں تھے بلکہ انکی کوشش یہ تھی کہ تمام جو مختلف نقطۂ نظر ہیں ان کو سمجھا جائے‬
‫اور شاگردوں کو پڑھایا جائے۔‬
‫سوفسطائیوں کا دعوٰی یہ تھا کہ وہ کسی بھی کمزور پوزیشن اور کسی بھی کمزور نقطۂ مظر کو ُپراثر اور طاقتور بناسکتا‬
‫ہے۔ ایک طرح سے آج کے دور کے وکیل کے طرح ہوتے تھے کہ جو کسی بھی نقطۂ نظر کو سچا ثابت کرتا ہو‪ ،‬خوب اسی‬
‫طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوفسطائی بھی اس زمانے کے وکالء کی طرح ہوتے تھے۔‬
‫لہزا سوفسطائی کسی بھی ایک نقطۂ نظر کے لوگ نہیں تھے۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ ہم تمام علوم سے واقف ہو اور ان کو‬
‫بہتر طریقے سے پیش بھی کرسکے۔‬
‫ایک طرح سے دیکھا جائے تو جدید زمانے کے یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی یہی کام کرتے ہیں کہ اپنے شاگردوں کو کئ‬
‫مختلف علوم اور نقطۂ نظر پڑھائے اور سمجھائے۔‬

‫ریلٹوزم اور سبجیکٹوزم کے بانیان –‬


‫)‪(Founders of Relativism and Subjectivism‬‬
‫کے بانیان )‪ (Subjectivism‬اور سبجیکٹویزم )‪ (Relativism‬آج جدید زمانے میں سوفسطائوں کو ہم ریلٹوزم‬
‫سمجھتے ہیں۔ )‪(Founders‬‬
‫ریلٹوزم اور سبجیکٹوزم کو اگر ہم مختصرًا بیان کریں تو وہ یہ کہ؛‬
‫"‪"Man is the measure of all things.‬‬
‫)‪(Protagoras‬‬
‫یعنی تمام چیزوں کا معیار اور پیمانہ انسان خود ہے۔‬
‫یہ فیصلہ کرنا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ‪ ،‬اس کا فیصلہ انسان خود کرتا ہے‪ ،‬کوئی بھی مکمل اور معروضی سچ نہیں ہے‬
‫اور نہ کوئی مکمل جھوٹ ہے۔‬
‫"‪"Man decides what is true and false. There is no absolute truth, there is no absolute reason.‬‬
‫)‪(Protagoras‬‬
‫سبجیکوزم کا مطلب یہی ہے ہر چیز ہم اپنی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں‪ ،‬ایک چیز جو آپ کی نقطۂ نظر سے سچ ہے وہ شاید‬
‫کسی اور کے نقطۂ نظر سے غلط ہو کیونکہ ایک چیز ایک کے نقطۂ نظر سے سچ ہے اور دوسرے کے نقطۂ نظر سے‬
‫جھوٹ ہے تو یعنی کوئی بھی ایسی چیز‪ ،‬حقیقت‪ ،‬کوئی اصول یا قدر نہیں ہیں جو کہ مکمل اور تمام نقطۂ نظر سے سچ ہو‬
‫ہے۔ )‪ (Subjectivism‬اور یہی دراصل سبجیکٹویزم‬
‫"‪"What is true for you is true for you and what is true for me is true for me.‬‬
‫)‪(Protagoras‬‬
‫یعنی جو آپ کے لئے سچ ہے وہ آپ کے لئے سچ ہے اور جو میرے لئے سچ ہے وہ میرے لئے سچ ہے۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہر مختلف جگہ و ثقافت کی مختلف اصول و اقدار ہوا کرتے ہیں‪ ،‬تو جب ایک شہر سے دوسرے شہر‬
‫سوفسطائی جایا کرتے تھے تو وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ مثًال ُاس شہر کے اقدار درست ہیں اور آپ کے غلط ہیں بلکہ وہ‬
‫کہتے تھے کہ فالں شہر کے یہ اصول و قوانین اور اقدار ہے اور فالں کے یہ‪ ،‬دونوں کو آپ دیکھ لے جو آپ کو بہتر لگتے‬
‫ہیں ان کو آپ اپنائے۔‬

‫کہا کرتا تھا؛ )‪ (Protagoras‬پروٹاگوراس‬


‫"‪"It is equally possible to affirm or deny anything of anything.‬‬
‫یعنی کسی بھی چیز کو سچا یا جھوٹا ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مطلب کوئی مکمل سچ اور جھوٹ ہے ہی نہیں۔‬
‫پروٹاگوراس سے جب کسی نے یہ پوچھا کہ یونانی دیوتاؤں کے بارے میں کیا خیال ہے تو اس کا جواب یہ تھا؛‬
‫"‪"The question is complex and life is short.‬‬
‫یعنی کہ سوال بڑا گھمبیر ہے اور زندگی بہت چھوٹی۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 22 :‬‬
‫)‪ (Socrates‬سقراط –‬
‫سقراط دراصل سوفسطائیوں کی نقطۂ نظر کا سخت مخالف تھا‪ ،‬وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو سچی چیز ہے وہ سچی ہے اور جو‬
‫جھوٹی چیز ہے وہ جھوٹی ہے۔ سقراط کے مطابق سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا صرف الفاظ کا ہیر‬
‫پیر ہے۔‬
‫بھی دینا چاہیئے۔ کریڈٹ اس حوالے سے دینا )‪ (credit‬اگرچہ سقراط کی تنقید بڑی اہم ہے مگر سوفسطائیوں کو کچھ کریڈٹ‬
‫چاہئیے کہ سوفیسٹس بہرحال روایتی یونانی سوچ نہیں رکھتے تھے‪ ،‬ان کا شاید سب سے جو اہم کردار تھا وہ یہ تھا کہ سقراط‬
‫سے پہلے جتنی بھی نیچرل فالسفی تھی‪ ،‬سوفیسٹس نے اس کو عام بنایا‪ ،‬انہوں نے اس کو اشرافیہ طبقے میں پھیالیا اور جو‬
‫تھیلیس‪ ،‬انگزمینڈر‪ ،‬انیگزمینیز‪ ،‬پائتاگرس‪ ،‬اور پرمینڈیز وغیرہ کی سوچ تھی‪ ،‬وہ سوچ سوفسٹس بحث و مباحثے میں لے کر‬
‫آئے۔ اس کے عالوہ سبجیکٹوزم اور ریلٹوزم کا اپروچ سقراط کی تنقید سے بلکل ختم نہیں ہوا بلکہ آج تک اس پر بحث و‬
‫مباحثہ کیا جاتا ہے۔‬
‫لیکن سوفسطائیوں کی اپروچ سے ایک بڑا اخالقی المیہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ درست اور غلط کے درمیان کوئی بھی واضح‬
‫تفریق بچتی ہی نہیں اور جب کوئی تفریق بچتی ہی نہیں تو انسان جو ہے وہ بنیادی فیصلے کرنے کہ صالحیت کھو بیٹھتا ہے۔‬
‫کے اس نقطۂ نظر کو چیلنج کیا۔ )‪ (Sophists‬سقراط وہ فرد تھا کہ جس نے سوفسطائیوں‬
‫میں ہوتی ہے۔ ‪BCE‬سقراط کی پیدائش دراصل ‪469‬‬
‫سقراط کو فلسفے کا بانی اور فلسفے کا بنیادی استاد بھی مانا جاتا ہے۔‬
‫فالسفرز کہتے ہیں اور سقراط کے بعد )‪ (Pre Socratic‬سقراط سے پہلے فالسفرز کو ہم قبل از سقراط کے فالسفرز یعنی‬
‫کا دور کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ )‪ (Socratic Philosophy‬سے جو پورا دور شروع ہوجاتا ہے اس کو ہم سقراطی فلسفے‬
‫سقراط کا اتنا بڑا اثر تھا کہ سقراط سے پہلے جو فلسفی آئے یا جو سقراط کے زمانے میں بھی تھے ان تمام کو کم قبل از‬
‫سقراطی فلسفہ میں شامل کردیتے ہیں اور جو سقراط کے بعد آئے ان کو ہم سقراط کے بعد واال فلسفہ کہتے ہیں۔‬
‫یعنی سقراط کا لوگوں کے اذہان پر اتنا بنیادی گہرا اثر تھا کہ اس کے فلسفے اور اس کے نقطۂ نظر کے ساتھ فلسفے اور‬
‫انسانی سوچ کا دور شروع ہوجاتا ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ سقراط نے اپنی زندگی میں ایک بھی کوئی کتاب نہیں لکھی۔‬
‫اب وہ کون لوگ تھے کہ جنہوں نے سقراط کو متاثر کیا ؟‬
‫کا نام شامل کیا جانا چاہئیے کیونکہ اناگَز گورس وہ فرد ہے جس نے قدرتی )‪ (Anaxagoras‬سب سے پہلے تو اناگَز گورس‬
‫کو ایتھنز میں متعارف کروایا‪ ،‬اگر اناگَز گورس نہ ہوتے تو ایتھنز کے لوگ ِان بنیادی )‪ (Natural Philosophy‬فلسفہ‬
‫خیاالت سے متعارف نہ ہوتے۔‬
‫اس کے ساتھ ہی سقراط تین خواتین سے انتہائی متاثر تھے۔ سب سے اول نمبر پر وہ اپنی ماں سے متاثر تھے‪ ،‬اس کی ماں‬
‫دراصل بچوں کی پیدائش میں خواتین کی مدد کرتی تھی۔‬
‫تھی جس سے سقراط نے پیار و )‪ (Diotima of Mantinea‬دوسری خاتون جن سے سقراط متاثر تھے وہ ڈایوٹما آف مینٹنیا‬
‫محبت کے حوالے سیکھا ہے۔‬
‫ہے جس سے سقراط نے گفتگو اور تقریر کرنے کا انداز سیکھ لیا۔ )‪ (Aspasia‬اور تیسری خاتون اسپاسیا‬
‫چونکہ سقراط نے اپنی زندگی میں کوئی بھی کتاب نہیں لکھی لہزا جو کچھ ہم سقراط کے بارے میں جانتے ہیں وہ اس کے‬
‫طالب علموں اور شاگردوں سے جانتے ہیں۔‬
‫جس نے سقراط کے )‪ (Xenophon‬ہے‪ ،‬اس کے عالوہ زینوفون )‪ (Plato‬سقراط کے سب سے اہم شاگرد کا نام افالطون‬
‫بارے میں لکھا۔‬
‫افالطون اور زینوفون نے سقراط کے بارے میں کو لکھا اسی کے نتیجے میں ہی آج ہم سقراط کے بارے جانتے ہیں۔‬
‫دونوں افالطون اور زینوفون اس بات پر متفق ہیں کہ سقراط ایک انتہائی بدصورت انسان تھا۔‬
‫تھا۔ )‪ (Stone cutter‬سقراط جب ایک نوجوان تھے تو وہ دراصل سنگ تراش یعنی‬
‫سقراط نے کھبی پیسے لے کر نہیں پڑھایا‪ ،‬وہ دراصل سوفسطائیوں کی اس عادت سے بڑی نفرت کرتا تھا کہ پیسے لے کر‬
‫پڑھایا جائے۔‬
‫سقراط بہت سادہ زندگی گزارتا تھا‪ ،‬یعنی عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا تھا۔‬
‫اپنی نوجوانی میں سقراط انتہائی بہادر فرد بھی سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے بڑی جنگوں میں حصہ لیا۔‬
‫فلسفے کے اعتبار سے سقراط کا سب سے اہم اثر یہ ہوا کہ اس نے فلسفے کو آسمان سے کھینچ کر نیچھے زمین پر لے الیا‬
‫اور انہوں نے لوگوں کی زندگی میں فلسفہ شامل کیا۔‬
‫یعنی کہ جو بنیادی سواالت سقراط پوچھ رہے تھے وہ یہ نہیں تھے کہ ستارے اور سیارے کیا ہیں‪ ،‬کس طرح چلتے ہیں یا‬
‫ریاضی میں کیا ہوتا ہے‪ ،‬ایٹم کیا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا‪ ،‬بلکہ ان سواالت کے بجائے یہ سوال اٹھایا کہ اچھائی کیا ہے‪ ،‬برائی‬
‫کے سوال پوچھے اور ظاہر ہے اخالقیات کے جو )‪ (Ethics‬کیا ہے‪ ،‬زندگی کا مقصد کیا ہے۔ یعنی کے سقراط نے اخالقیات‬
‫سوال تھے وہ ذاتی سوال بھی تھے‪ ،‬وہ انفرادی‪ ،‬سیاسی و اجتماعی سوال بھی تھے۔‬
‫یعنی اس بارے میں سوال کہ سماج کو کس طرح سے چلنا اور منظم رہنا چاہئیے‪ ،‬انسان کو کس خاص چیز کے لئے جدوجہد‬
‫کرلینے چاہئیے‪ ،‬غرض زندگی کا کیا مقصد ہے۔‬
‫سقراط یہ کہتا تھا کہ؛‬
‫"‪"Athens is a sluggish horse. I am the gadfly trying to sting it back to life.‬‬
‫یعنی ایتھنز ایک گھوڑے کی مانند ہے کہ جس کو نیند آئی ہوئی ہے اور میرا کام یہ ہے کہ میں اس مکھی کا کردار ادا کروں‬
‫کہ جس کے نتیجے میں گھوڑا بیدار اور جاگ جاتا ہے۔ یعنی میرا کام ہی یہ ہے کہ میں نے سماج زندہ رکھنا ہے‪ ،‬ان کو بیدار‬
‫رکھنا ہے‪ ،‬ایسے سوال پوچھ کہ جن کا سماج جواب نہ دینا چاہے۔‬
‫جب سقراط نے اس قسم کے مشکل مشکل سواالت پوچھنے شروع کیں تو ایتھنز کا جو سماج تھا وہ سقراط سے بہت ناخوش‬
‫‪ BCE‬تھا بلکہ اس قدر ناخوش کہ سقراط کو سزائے موت سنائی گئی اور اس نے زہر کا پیاال پی لیا اور اس طرح سے ‪399‬‬
‫میں سقراط کی وفات ہوجاتی ہے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 23 :‬‬
‫)‪ (Socratic Method‬سقراط کا طریقۂ کار –‬
‫سقراط کہتا تھا کہ؛‬
‫"‪"Doubt is the origin of Truth.‬‬
‫یعنی کہ شک اور سوال کرنا ہی آپ کو سچائی کے رستے پہ ڈالتا ہے۔ مطلب یہ کہ جب آپ شک کریں گے تو آپ سوال کریں‬
‫گے‪ ،‬جب سوال کریں گے تو اس میں سے جواب تالش کریں گے‪ ،‬ان جوابات کے نتیجے میں مزید آگے سوال بنیں گے اور‬
‫چلتا رہے گا اور آپ ایک مسلسل سچائی کے جستجو میں رہیں گے یعنی ہر فلسفی کا بنیادی )‪ (process‬اس طرح یہ عمل‬
‫کام ہی یہی ہے کہ سوال پوچھے۔‬
‫دوسرا یہ کہ سقراط یہ سمجھتا تھا کہ صرف ہم نے کسی اور سے سوال نہیں پوچھنے بلکہ سب سے اہم وہ سواالت ہیں جو ہم‬
‫نے اپنے آپ سے پوچھنے ہیں۔‬
‫اپنے آپ سے سوال کرنا کہ آپ کے زندگی کا کیا مقصد ہے‪ ،‬آپ نے جو کام کیا یا کررہے ہو وہ ‪ self examination،‬یعنی‬
‫درست ہے بھی کہ نہیں۔‬
‫اس کے عالوہ یونان کے قدیم فلسفے میں بتایا جاتا تھا کہ؛‬
‫"‪"Know thyself.‬‬
‫جس سے مراد انکی یہ تھی کہ اپنے تقدیر کو پہچانو۔‬
‫کے معنی یہ کہ آپ اپنے سے سوال پوچھے کہ اچھائی کیا ہے‪ ،‬برائی کیا ہے اور ‪ Know thyself‬مگر سقراط کے مطابق‬
‫زندگی کا مقصد کیا ہے۔‬
‫سقراط کا یہ کہنا تھا کہ؛‬
‫"‪"The unexamined life is not worth living.‬‬
‫یعنی سقراط کے مطابق اگر آپ نے اپنی زندگی کے حوالے سے سوال ہی نہیں پوچھے تو یہ آپکی مکمل طور پر بے کار‬
‫زندگی ہے۔‬
‫سقراط اپنے حوالے سے بھی یہی کہتا تھا کہ؛‬
‫"‪"What I do not know I do not think I know.‬‬
‫یعنی جو میں نہیں جانتا اس کے حوالے سے میں یہ سوچتا بھی نہیں کہ میں اس کو جانتا ہوں‪ ،‬لہزا اس کے حوالے سے میں‬
‫سوال پوچھتا ہوں‪ ،‬مسلسل اسکی سچائی و گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔‬
‫سقراط نے اپنے زمانے کے بنیادی چیزوں پر سوال پوچھنا شروع کیا‪ ،‬جیسے؛‬
‫اچھائی اور برائی کیا ہے ؟ ‪۰‬‬
‫علم کیا ہیں ؟ ‪۰‬‬
‫بہادری کیا ہے ؟ ‪۰‬‬
‫عدل و انصاف کیا ہے ؟ وغیرہ ‪۰‬‬

‫)‪ (Socratic Dialectics‬سقراطی مکالمہ –‬


‫سقراط کا جو طریقہ تھا اس کا نام ہے سقراط کا جدلیاتی مکالمہ یا صرد سقراطی مکالمہ۔‬
‫;‪Dialectics means‬‬
‫‪• Di: Two‬‬
‫‪• Lectics: Words‬‬
‫لیا۔ )‪ (concept‬یعنی دو نقطۂ نظر کا ٹکراؤ‪ ،‬اینگزیمینڈر سے سقراط نے یہ تصور‬
‫اب جو دو نقطۂ نظر کا ٹکراؤ ہورہا ہے‪ ،‬یعنی ایک جو دعوٰی ہے اور ایک جو اس پر سوال ہے تو اس سے سقراط یہ ثابت‬
‫کرنا چاہتا تھا کہ کوئی بھی دعوٰی جو ہے اس کی بنیاد پر کئی اور دعوے ہیں۔ سقراط یہ چاہتا تھا کہ ہم دراصل اس دعوے‬
‫کی جو بنیاد ہے اس تک پہنچے اور یہ دیکھے کہ اس کی بنیاد میں کہی کوئی ایسا دعوٰی تو نہیں کہ جوکہ اسی میں ہمارے‬
‫کسی اور دعوے کے متضاد ہو۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ سقراطی مکالمہ کی بنیاد ایک اصول پر ہے جس کو ہم کہتے ہیں؛‬
‫"‪"Principal of non contradiction‬‬
‫یعنی کوئی بھی چیز دوسرے چیز کی متضاد کھڑی نہیں ہوسکتی‪ ،‬کوئی بھی دعوٰی دوسرے دعوے کے متضاد کھڑا نہیں‬
‫ہوسکتا اور اگر ہم کسی دعوے کے حوالے سے سوال پوچھتے چلے جائے اور اس سواالت و جوابات کے سلسلے کے اندر‬
‫اگر ہمیں کوئی ایسے دو دعوے نظر آئے جوکہ ایک دوسرے سے متضاد ہے‪ ،‬اس کا مطلب پھر یہ ہے کہ ہم نے اپنی سوچ‬
‫میں کہی نہ کہی کوئی غلطی کی ہے اور اسی غلطی کو تالش کرنے کے لئے سقراط ڈائلیکٹکس کا استعمال کرتا تھا۔‬
‫سقراط اپنے حوالے سے بھی کہتا تھا‪ ،‬اگر چہ وہ خود انتہائی ذہین تھے لیکن وہ پھر بھی یہ کہتا تھا کہ؛‬
‫"‪"I know only one thing that I know nothing.‬‬
‫یعنی میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔‬
‫لہزا وہ دوسروں کو یہ نہیں کہتا تھا کہ میں آپ کو جواب دیتا ہوں بلکہ وہ اس طرح سے پیش آتا تھا کہ مجھے تو کچھ نہیں‬
‫معلوم‪ ،‬اچھا آپ بتائے کہ کیا درست ہے اور اس پر سقراط سوال پوچھتا تھا۔‬
‫یعنی سقراط یہ ظاہر کرتا تھا کہ مجھے تو کچھ نہیں معلوم‪ ،‬حاالنکہ وہ تھا نہیں‪ ،‬یہ اس کے فلسفی طریقۂ کار کا ایک حصہ‬
‫تھا۔‬
‫اس کے عالوہ سقراط کو یہ شوق نہیں تھا کہ وہ کسی کمرے کے کونے میں بیٹھ جائے یا پہاڑ کی چوٹی پر چال جائے اور‬
‫لکھنا شروع کردے بلکہ سقراط کے فلسفہ کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مارکیٹ (بازار) میں جایا کرتا تھا اور وہاں لوگوں‬
‫سے سوال پوچھتا تھا۔‬
‫مطلب یہ کہ اس کا فلسفہ سیکھانے کا جو طریقہ تھا وہ بلکل یہ نہیں تھا کہ وہ استاد ہیں اور جو لوگ اس کی بات سن رہے‬
‫ہیں وہ شاگرد ہیں بلکہ اس کے مطابق جس پر وہ سوال کرتا تھا اس کو وہ استاد سمجھتا تھا اور خود کو شاگرد سمجھتا تھا۔‬
‫اس نقطۂ نظر کو سقراط اس طرح سے بیان کرتا تھا کہ میں کوئی استاد نہیں ہوں میرا کام یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جو خیال‬
‫اور تصور ہے اس کو پیدا کرنے اور اس کو صحیح سمت دینے میں‪ ،‬میں مدد کرسکتا ہوں‪ ،‬یعنی دوسرے کے اندر جو‬
‫پوشیدہ علم ہے اس کو سقراط نمایاں کرنے میں دوسروں کی مدد کرتا تھا۔‬

‫یہاں ذکر )‪ (Dialogue‬اسی کے تناظر میں‪ ،‬ہم اپنی عام زبان میں اور آسانی سے سمجھنے کے لئے سقراط کا ایک ڈائالگ‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫سقراط بمقابلہ لیچس –‬


‫)‪(Socrates vs Laches‬‬
‫سقراط‪ :‬میرا ایک سوال ہے کہ بہادری کیا چیز ہے ؟ •‬
‫لیچس‪ :‬بہادری یعنی ڈٹ جانا۔ ‪۰‬‬
‫سقراط‪ :‬اس کا مطلب ہے کہ بہادری ایک اچھی چیز ہے‪ ،‬ہے نہ ؟ •‬
‫لیچس‪ :‬ہاں جی اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں۔ ‪۰‬‬
‫سقراط‪ :‬تو کیا ہم غلط چیز پر بھی ڈٹ سکتے ہیں ؟ •‬
‫لیچس‪ :‬ہاں جی یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ ‪۰‬‬
‫! سقراط‪ :‬اس کا مطلب اگر ہم غلط چیز پر ڈٹ جائے پھر تو یہ اچھی چیز نہ ہوئی •‬
‫لیچس‪ :‬جی یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ ‪۰‬‬
‫سقراط‪ :‬اس کا مطلب بہادری جو ہے وہ جب کسی اچھی چیز پر بندہ ڈٹ جائے تب اس کو بہادری کہتے ہیں ؟ •‬
‫لیچس‪ :‬ہاں جی یہ بھی مناسب بات ہے۔ ‪۰‬‬
‫سقراط‪ :‬اس کا مطلب بہادری جو ہے ڈٹنا نہیں ہے بلکہ وہ تو علم ہے اور علم تو بہت وسیع چیز ہے‪ ،‬بہادری علم کا ایک •‬
‫حصہ ہوسکتا ہے‪ ،‬مکمل علم بھی بہادری نہیں ہوسکتی ؟‬
‫لیچس‪ :‬بلکل یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ ‪۰‬‬
‫! سقراط‪ :‬اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی تک ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ بہادری دراصل ہے کیا چیز •‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 24 :‬‬
‫)‪ (Plato‬افالطون –‬
‫اس قسط میں ہم مختصرًا اس شخصیت کے بارے میں بات کریں گے جو فلسفے کے تاریخ میں سب سے زیادہ بااثر فلسفی رہا‬
‫ہے۔‬
‫یعنی ہم بات کررہے ہیں سقراط کا شاگرد‪ ،‬افالطون۔‬
‫میں۔ ‪BCE‬میں ہوئی اور وفات ہوئی ‪BCE 347‬افالطون کی پیدائش ‪426‬‬
‫تھا‪ ،‬افالطون اس کو اسلئے کہا جاتا تھا کیونکہ جب وہ نوجوان تھا تو وہ )‪"(Aristocles‬افالطون کا اصل نام "اریسٹکلیس‬
‫ایک پہلوان تھا اور افالطون کا مطلب ہی چوڑھا ہے‪ ،‬مگر میرا خیال ہے کہ اس کا نام افالطون اسلئے رکھا گیا تھا کہ اس کا‬
‫"علم" انتہائی وسیع تھا۔‬
‫کے نام پر اپنے فلسفے کی ایک اکیڈمی بھی قائم کی۔ )‪"(Academus‬افالطون نے یونانی ہیرو "اکیڈمس‬
‫اج اکیڈمی کا لفظ ہر اس ادارے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں پر لکھائی پڑھائی کا کام ہو۔‬
‫کے حدود میں ہی قائم کی اور یہاں پہ وہ فلسفہ بھی پڑھاتا تھا‪ ،‬ریاضی بھی )‪ (Athens‬افالطون نے اپنی اکیڈمی‪ ،‬ایتھنز‬
‫پڑھاتا تھا‪ ،‬یہاں پر منطق‪ ،‬مابعدالطبعیات‪ ،‬علمیات اور موسیقی پہ بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور حتٰی کہ یہاں مختلف قسم کے‬
‫بھی کھیلی جاتی تھی۔ )‪ (Sports‬کھیل‬

‫الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ کا مشہور بیان –‬


‫جو کہ خود بھی ایک بڑا مشہور فالسفر تھا‪ ،‬اس کا یہ کہنا ہے؛ )‪ (Alfred North Whitehead‬الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ‬
‫‪"The safest general characterization of the European philosophical tradition is that it consists‬‬
‫"‪of a series of footnotes to Plato.‬‬
‫یعنی کہ یورپی فلسفیانہ روایت کی سب سے محفوظ عمومی خصوصیت یہ ہے کہ یہ افالطون کے فوٹ نوٹوں کی ایک سیریز‬
‫پر مشتمل ہے۔‬

‫)‪ (Holistic Philosopher‬افالطون ایک جامع فلسفی –‬


‫افالطون نے نہ صرف سقراط کے زندگی‪ ،‬سقراطی طریقۂ کار کی وضاحت کی بلکہ انہوں نے مزید اپنا بھی بہت کچھ سقراط‬
‫‪ (Holistic‬کے ساتھ جوڑ کر ہمیں پیش کیا اور افالطون شاید وہ پہال فالسفر ہے کہ جو ہمیں ایک ہولیسٹک فلسفہ‬
‫دیتا ہے‪ ،‬ایک مکمل اور جامع فلسفی نظام ہمیں دیتا ہیں‪ ،‬جس سے مراد یہ ہے کہ جو اسکی علمیاتی اصول )‪Philosophy‬‬
‫کا نتیجہ نکلتا ہے‪ ،‬ان اخالقی اصولوں سے )‪ (Ethical Principles‬ہے‪ ،‬اسی سے اخالقی اصول )‪(Epistemology‬‬
‫سیاست کا بھی نتیجہ نکلتا ہے اور جو سیاست ہے اس کی دوبارہ علمیاتی اصول اخذ ہوتے ہیں یعنی مکمل ایک نظام افالطون‬
‫نے پیش کیا۔‬
‫پچھلے جو فالسفرز تھے ان کی دریافت اور اپروچ ایک مخصوص شعبے میں تھی یعنی انہوں نے ایک مکمل نظام پیش نہیں‬
‫‪ (First Holistic‬کیا لیکن افالطون نے ایک جامع فلسفی نظام پیش کیا اور اس لحاظ سے ہم افالطون کو اول جامع فلسفی‬
‫کہہ سکتے ہیں۔ )‪Philosopher‬‬
‫کے حوالے سے )‪ (Literature‬مزید افالطون کا جو کام ہے اس کے بارے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں ادب‬
‫انتہائی ذہین تھا‪ ،‬ادب کے حوالے سے اس نے جو لکھا وہ بہت ہی زبردست ہے‪ ،‬آج بھی لوگ اس کو پڑھتے اور سمجھتے‬
‫ہیں۔‬

‫افالطون کے لکھنے کا طریقۂ کار –‬


‫کی شکل میں لکھ‪ ،‬جس طرح سے سقراط کا مکالماتی ایک انداز تھا‪ ،‬بلکل اسی )‪ (Dialogues‬افالطون نے دراصل مکالموں‬
‫طرح سے افالطون نے بھی لکھا کہ (دو لوگوں کے درمیان ایک گفتگو ہورہی ہے)۔‬
‫اکثر اس کا اہم کردار اور ہیرو سقراط ہوا کرتا تھا‪ ،‬افالطون نے کھبی اپنے آپ کو ہیرو جیسا پیش نہیں کیا‪ ،‬ہمیشہ انہوں نے‬
‫میں سے باہر رکھا ہوا تھا۔ )‪ (Dialogues‬اپنے آپ کو ان مکالموں‬
‫کو پڑھ کر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہیں کہ افالطون واقعًا ایک غیر معمولی ذہن )‪ (Platonic Dialogues‬افالطونی مکالمے‬
‫رکھتا تھا‪ ،‬یعنی تقریبًا ہر چیز پر انہوں نے لکھا اور تخلیقی انداز سے نیا نقطۂ نظر ہمیں پیش کیا۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 25 :‬‬
‫)‪ (Plato's Dualism‬افالطونی ڈیلوزم‪/‬ثنویت –‬
‫ہے‪ (Soul Understanding) ،‬افالطون کہتا ہے کہ جو چیز ہم جانتے ہیں یا جو ہماری روح کے حوالے سے سمجھ‬
‫کو ایک طرح سے دیکھتے تھے یعنی جب وہ روح لکھتے تھے )‪ (Soul‬اور روح )‪ (mind‬چونکہ یونان کے لوگ اکثر مائنڈ‬
‫تو اس سے ان کی مراد وہ روح بھی تھی کہ جس کو ہم آج جانتے اور پہچانتے ہیں یا جس روح کا ذکر ہمیں مذہبی متون‬
‫میں ملتا ہے مگر یونانی جب روح کا لفظ استعمال کرتے تھے تو اس سے ان کی مراد ذہن بھی ہوتی )‪(Religious Texts‬‬
‫تھی۔‬
‫افالطون کا یہ خیال تھا کہ ہماری پیدائش سے پہلے ہماری جو روح ہے وہ تصوراتی دنیا کے اندر تھی اور روح‪ ،‬اس‬
‫تصوراتی دنیا کے اندر جو مختلف تصورات ہیں ان کو جانتی تھی‪ ،‬ان کو پہچانتی اور سمجھتی بھی تھی۔‬
‫افالطون کے مطابق جب ہماری پیدائش ہوئی تو ہماری روح وہ تمام تصورات بھول گئے اور جب ہم اس دنیا کے اندر پیدا‬
‫چیزیں دیکھیں یعنی مادے کی بنی ہوئی چیزیں دیکھیں ان کی مختلف )‪ (concrete‬ہوئے اور ہم نے اس دنیا کی کنکریٹ‬
‫شکلیں دیکھیں تو ہماری روح نے پہچان لیا کہ ہاں یہ چیز میں نے پچھلے زندگی یا تصوراتی دنیا میں دیکھی ہوئی ہیں۔‬
‫یعنی علم جو ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے جو ہمارے ذہن میں آتی ہے بلکہ علم تو ایک قسم کی یاد دہانی اور ایک قسم کا‬
‫دوبارہ سے یاد کرنا ہے کہ جو ہماری روح ہمارے پیدا ہونے سے پہلی جانتی تھی مگر اب بھول گئی۔‬

‫سقراطی مکالمے کی اہمیت –‬


‫)‪(Importance of Socratic Dialectics‬‬
‫کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے اس معنوں )‪ (Socratic Dialects‬اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم بنیادی طور پہ سقراطی مکالمے‬
‫میں کہ سقراطی مکالمے بنیادی طور پہ ُاسی چیز کو نمایاں کرسکتا ہے‪ُ ،‬اسی راز کو دریافت اور کھول سکتا ہے جو کہ آپ‬
‫کے اندر پہلے سے موجود ہے کیونکہ اگر کوئی علم آپ کے اندر پہلے سے موجود ہی نہیں تو جتنی مرضی کوئی آپ سے‬
‫سوال پوچھے‪ ،‬جو نہیں معلوم وہ نہیں معلوم۔‬
‫مگر اگر علم یاد دہانی ہے یا علم آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے تو پھر سوال کرنے سے آپ اس علم کو دوبارہ سے‬
‫کے )‪ (Socratic Method‬یاد کر سکتے ہیں لہذا افالطون کی یہ جو ڈیولزم کی تھیری تھی‪ ،‬اس کی سقراطی طریقۂ کار‬
‫ساتھ ہم آہنگی ہوجاتی ہیں۔‬

‫)‪ (Desire of the soul‬روح کی خواہش –‬


‫مزید افالطون یہ کہتا ہے کہ انسان کی روح کے اندر ایک طلب اور خواہش ہے کہ وہ اس تصوراتی دنیا میں واپس ان‬
‫تصورات کے ساتھ دوبارہ سے جڑ جائے۔‬
‫یعنی ہر انسان کو اس چیز کی طلب ہے کہ اس کی روح اس تصوراتی دنیا سے دوبارہ جڑ جائے بالخصوص فالسفرز کی جو‬
‫روح ہے جیسے افالطون کی روح یا سقراط کی جو روح ہے اس میں ایک طلب ہے کہ ہماری روح جو ہے وہ یہ چاہتی ہے‬
‫کہ ہم علم کے ساتھ (یعنی اس تصوراتی ) دنیا کے ساھ جڑ جائیں۔‬
‫اسلئے کوئی چیز انسان کو اتنا خوش نہیں کرتی کہ جتنا ایک علم کو حاصل کرنا انسان کو خوش کرتا ہے۔‬
‫"‪"Virtue is knowledge.‬‬
‫یعنی کہ روح کو خوش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ علم حاصل کیا جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں روح جوکہ اس تصوراتی‬
‫دنیا سے علیحدہ ہوکر ِاس مادی دنیا میں شامل ہوگئ ہے لیکن روح کی یہ خواہش اور طلب ہے کہ میں اس تصوراتی دنیا میں‬
‫واپس چلی جاؤں۔‬
‫اسلئے سقراط بھی موت کے سامنے اتنی بہادری کے ساتھ کھڑا ہوا کیونکہ اس کو پتہ تھا کہ اس کی روح اب ُاس تصوراتی‬
‫دنیا کے ساتھ دوبارہ سے جڑ جائے گی۔‬
‫مادی دنیا بمقابلہ روحانی و تصوراتی دنیا –‬
‫)‪(World of matter Vs World of forms‬‬
‫افالطون نے ایک انتہائی اہم مسئلے کا جواب بھی دیا کہ جو پرمینیڈیز اور ہیراکالئٹس کے درمیان تھا۔‬
‫ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ پوری دنیا ہل رہی ہے اور حرکت میں ہے اور اس کے برعکس پرمینڈیز کا کہنا تھا کہ دنیا میں بلکل‬
‫کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں ہے اور یہ سب (حرکت) ایک دھوکہ ہے۔‬

‫افالطون کا نقطۂ نظر •‬


‫افالطون کا یہ کہنا تھا کہ جو جو دنیا ہل رہی ہے یعنی ہلنے والی دنیا دراصل مادی دنیا ہے؛ یعنی‬
‫")‪• "World of matter (body‬‬
‫دوسری طرف افالطون کے مطابق جو ہیراکالئٹس والی دنیا (حرکت والی) وہ دراصل تصوراتی دنیا ہے؛ یعنی‬
‫")‪• "World of forms (Mind/Soul‬‬
‫سے محسوس کرتے ہیں اور جو روحانی یا )‪ (senses‬اور افالطون کے مطابق مادی دنیا کو ہم اپنی آنکھوں یا اپنے حسیات‬
‫تصوراتی دنیا ہے اس کو ہم علم اور روح کی طاقت سے سمجھتے ہیں۔‬
‫یعنی ہماری روح پہلے اسی دنیا میں تھی اور تمام جو علم تھا وہ اس دنیا کے اندر ہماری روح پہچانتی تھی لیکن ہماری روح‬
‫اس دنیا سے علیحدہ ہوکر مادی دنیا کے اندر داخل ہوئی اور اس کی ہمیشہ یہ طلب رہی کہ وہ دوبارہ سے اس روحانی دنیا‬
‫اور اس تصورتی دنیا کے ساتھ جڑ جائے۔ علم حاصل کرنا روح کو دوبارہ یاد دالتی ہے کہ وہ اس تصوراتی دنیا میں کیا تھی‪،‬‬
‫کیا کچھ جانتی تھی اور کیا کچھ پہچانتی تھی۔‬
‫"‪"Socratic dialects help us remember knowledge that the soul has forgotten.‬‬
‫یعنی سوال و جواب و مکالمے کا سلسلہ ہی ہمیں اس تمام علم کے حوالے سے یاد دہانی کرتا ہے جو کہ ہر انسان کے اندر‬
‫پوشیدہ ہے اور ایک فلسفی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی روح اس تصوراتی و روحانی دنیا سے دوبارہ جڑ جائے۔‬

‫آخری نکتہ یہ کہ اس مادی دنیا کے اندر جو مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ ہم حسیات سے محسوس کررہے ہیں اور‬
‫چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں مثًال گھوڑے کی جو ہمیں مختلف شکلیں نظر )‪ (concrete‬اس کے نتیجے میں جو مختلف کنکریٹ‬
‫آتی ہے ان شکلوں کو ہم ایک کلی طور پر اور یونیورسل شکل میں اس لئے پہچانتے ہیں کیونکہ اس کا تصوراتی اور‬
‫روحانی دنیا میں ایک عالمگیر تصور موجود ہے یعنی کے ہر چیز کا تصوراتی دنیا میں ایک عالمگیر تصور پایا جاتا ہے اور‬
‫جب ہم اس چیز کو انفرادی طور پر دیکھتے ہیں جیسے اگر ہم ایک انفرادی گھوڑے کو دیکھتے ہیں تو ہماری روح یا ہمارا‬
‫ذہن دراصل اس انفرادی چیز کو اصل و تصوراتی دنیا سے مال کر ہی پہچان کراتی ہے۔‬
‫افالطون نے اس تھیری سے کئی مسائل حل کیں مثًال اخالقیات کا مسئلہ‪ ،‬سیاست کا مسئلہ‪ ،‬تبدیلی کا مسئلہ اور حرکت و‬
‫)‪ (Holistic Philosophy‬سکون کا مسئلہ اور کئی ایسے مسائل کو افالطون ایک جامع فلسفہ‬
‫تشکیل کرکے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 26 :‬‬
‫)‪ (Problem of Universals‬کلیات کا مسئلہ –‬
‫افالطون نے اتنے مختلف موضوعات پر لکھا کہ ہم کہیں سے بھی اس کے فلسفے کو بیان کرنا شروع کرسکتے ہیں۔‬
‫سائیکالوجی پہ لکھا‪ ،‬ریاضی پہ لکھا‪ ،‬اخالقیات پہ لکھا‪ ،‬سیاست پہ لکھا مگر وہ دریافت جس کا کہ سب سے زیادہ اثر ہوا وہ‬
‫یعنی کس طرح سے وہ علم کو دیکھتا ہے۔ ‪ (Epistemology)،‬ہے افالطون کی علمیاتی نظریہ یا معرفت شناسی‬
‫)‪ (debate‬پچھلے اقساط میں ہم ایک بحث پڑھ چکے ہیں جو کہ انتہائی اہم ہے جس نے افالطون کو بھی متاثر کیا وہ بحث‬
‫تھی‪ ،‬ہیراکالئٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان۔‬
‫جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہیراکالئٹس کا یہ ماننا تھا کہ ہماری اردگرد جو تمام دنیا ہے وہ مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہے‬
‫یعنی ہم کسی بھی چیز کو دیکھیں تو ہر چیز جو ہمیں نظر اتی ہے وہ تبدیلی کے عمل میں ہے۔‬
‫حتٰی پہاڑ بھی ہو جو کہ ہمیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بالکل ساکن اور ثابت ہے لیکن اگر ہم تھوڑا سا وقت اس کو دیکھیں‬
‫تو ہمیں محسوس ہوجائے گا کہ پہاڑ بھی مسلسل تبدیل ہورہا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ دریا اپنا راستہ تبدیل کرتا ہے‪ ،‬وادیاں تبدیل ہوتی ہیں اور انسان زندہ ہوتا ہے مرجاتا ہے۔‬
‫کریں‪ (Definition) ،‬تو اگر ہر چیز تبدیلی میں ہے تو پھر بڑا اور اہم مسئلہ یہ آتا ہے کہ پھر ہم کیسے کسی چیز کی تعریف‬
‫کسی چیز کو کیسے کلی طور پر سمجھیں‪ ،‬کس طرح کسی چیز کے بارے میں اعتماد اور وثوق سے اس کو شناخت کریں۔‬
‫نیلی ہے تو آپ اس پہ بھی سوالیہ نشان اٹھا سکتے ہیں کہ جی )‪ (Shirt‬مثًال اگر میں یہ کہوں کہ آج میری شرٹ‬
‫اس لمحے تو نیلی ہے مگر مسلسل اس کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے‪ ،‬ہو سکتا ہے وہ سفید ہو رہی ہے اس کی جو رنگت ہے وہ‬
‫کم ہو رہی ہو یا بڑھ رہی ہے تو لہذا اس کے بارے میں یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ نیلی ہے کیونکہ وہ تو مسلسل تبدیلی کے‬
‫عمل میں ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ یہی اپروچ کسی بھی چیز پہ یہ الگو کیا جاسکتا ہے یعنی کہ ہم ہیراکالئٹس سے ایک ایسا نتیجہ نکال سکتے‬
‫کہ چونکہ ہر چیز تبدیلی کے عمل میں ہے تو )‪ (Subjective Relativism‬ہیں کہ جس کو ہم کہیں گے‪ ،‬سبجیکٹو ریلٹوزم‬
‫نہ تو کوئی مسلم سچ ہے نہ کوئی مسلم جھوٹ۔‬
‫نے اس قسم )‪ (Sophists‬ہیراکالئٹس نے خود تو شاید اس قسم کی اپروچ اخذ نہیں کی مگر لوگوں نے بالخصوص سوفسٹس‬
‫کی اپروچ کی بنیاد ڈالی۔‬
‫اس کے برعکس پرمینڈیز کا یہ خیال تھا کہ تبدیلی جو ہے وہ ہے ہی نہیں یعنی جو اس دنیا کے اندر تبدیلی ہے یہ دراصل‬
‫کا دھوکا ہے اور وہ یہ کہتا تھا کہ تبدیلی جو ہے )‪ (senses‬ایک خواب اور دھوکہ ہے اور یہ مکمل طور پہ ہماری حسیات‬
‫اس چیز کا نام ہے کہ جو چیز ہے وہ اس چیز میں تبدیل ہو جائے گی جو چیز نہیں ہے اور کیونکہ جو چیز نہیں ہے اس کے‬
‫بارے میں ہم نہ سوچ سکتے ہیں نہ اس کی کوئی صفت ہے نا اس کے بارے میں کوئی اس کی کوئی حقیقت ہے کیونکہ وہ‬
‫ہے ہی نہیں لہذا اس کو تو آپ نکال لیں تو صرف جو چیز بچ جاتی ہے وہ ہے کہ جو ہے لہذا تبدیلی نام کی کوئی چیز نہیں‬
‫ہے۔‬

‫)‪ (Problem of Universals‬کلیات کا مسئلہ –‬


‫کرسکتا ہے۔ ‪ exist‬پرمینذیز کے تھیری ہمارے ذہن کو درست نہیں محسوس ہوتی کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ خال جو ہے وہ‬
‫کی )‪ (Definition‬بہرحال پرمینڈیز ایک اہم بات ضرور کررہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو چیز ساکن ہوگی اسی کی تعریف‬
‫جاسکے گی اور افالطون بھی اس کے ساتھ اس بات پہ متفق ہے یعنی کہ جو چیز قائم ہے یا جو تبدیلی کے عمل میں نہیں ہے‬
‫کرسکتے ہیں۔ ‪ define‬اسی کو سمجھ سکتے ہیں اور اسی کو ہم‬
‫مگر دوسری طرف پرمینڈیز کا مسئلہ یہ تھا کہ اردگرد دنیا کے اندر ہم جو تبدیلی دیکھ رہے ہیں اس کو کس طرح ہم صرف‬
‫یہ کہہ کر کہ یہ تو فقط خواب ہے‪ ،‬دھوکہ ہے‪ ،‬جھٹال سکتے ہیں یعنی پھر اس کی ہم وضاحت کیسے کریں گے ! اس کو‬
‫۔)‪" (Problem of Universals‬کہتے ہے فلسفے کی زبان میں "کلیات کا مسئلہ‬
‫اس کا مطب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ہم کئ قسم کے درخت دیکھتے ہیں اور کوئی بھی ایک درخت بلکل سو فیصد دوسرے‬
‫درخت کے طرح نہیں ہے‪ ،‬کوئی بھی ایک انسان بلکل دوسرے انسان کی طرح نہیں ہے‪ ،‬کوئی بھی ایک پھل دوسرے پھل‬
‫کے طرح نہیں ہے‪ ،‬یعنی کہیں نہ کہیں اس کی شکل صورت میں کوئی نہ کوئی چیز مختلف ہے۔‬
‫تو پھر کس طرح سے ہم اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں جب ہم دو جیسے دو انسانوں کو دیکھتے ہیں ہم دونوں کے بارے میں یہ‬
‫کہتے ہیں کہ یہ دونوں انسان ہیں اس کا مطلب ہے کہ کوئی ان دونوں کے درمیان ہمیں مشترکہ خصوصیت نظر آئی یا مثال‬
‫کے طور پر کہ یہ سب جو ہیں گھوڑے ہیں‪ ،‬حاالنکہ ہر انفرادی گھوڑا جو ہے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہے ہر رنگ‬
‫جو ہم مقوالت )‪ (Universal‬ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہر انفرادی انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے تو یہ یونیورسل‬
‫بناتے ہیں‪ ،‬انسان‪ ،‬آدمی‪ ،‬عورت‪ ،‬درخت‪ ،‬کاال‪ ،‬سفید وغیرہ۔ مزید پھر اس میں بھی ایک اور چیز شامل کر )‪(Categories‬‬
‫کر رہے ہیں وہ تو ازخود مسلسل حرکت اور تبدیلی کے عمل میں ہیں‪ ،‬پھر تو )‪ (Define‬دیں کہ جس چیز کو ہم ڈیفائن‬
‫معاملہ اور بھی الجھ جاتا ہے کہ اگر تمام دنیا میں جتنے چیزیں ہم دیکھتے ہیں اس میں ہر انفرادی چیز ایک دوسرے سے‬
‫مختلف ہے اور ہر انفرادی چیز مسلسل تبدیلی کے عمل میں بھی ہے اور کوئی ایک چیز دوسری چیز کے ساتھ مکمل طور پہ‬
‫‪ (Universal‬کبھی بھی میچ بھی نہیں کرتی۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ذہنی طور پہ یہ یونیورسل مقوالت‬
‫بناتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں یہ انسان ہیں‪ ،‬یہ تمام چیزیں مثًال بلیاں ہیں‪ ،‬فالں رنگ کو ہم کاال کہیں گے )‪categories‬‬
‫اور فالں کو ہم الل کہیں گے وغیرہ۔‬
‫تو یہ کیسے ممکن ہے یہ ایک ایسا سوال تھا اور ہے جس کو کہ افالطون کے عالوہ بھی‪ ،‬قدیم فلسفہ سے لیکر ماڈرن فلسفہ‬
‫تک یعنی آج تک سارے مختلف فالسفرز نے اس پر بات چیت کی مگر بہرحال یہ سوال ابھی تک جاری ہے یعنی کلیات کا‬
‫۔)‪ (Problem of Universals‬مسئلہ‬

‫افالطون اس مسئلے اس طرح حل کیا کہ افالطون نے اپنے استاد سقراط کے فلسفے پر واپس کیا۔‬
‫اگرچہ سقراط نے میں قدرتی دنیا پہ کچھ نہیں لکھا تھا‪ ،‬کم سے کم سقراط کا کام اور سقراط کی اپروچ ہمارے تک پہنچا ہے‬
‫وہ اخالقیات ہے مگر سقراط کا چیزوں کو سمجھنے کا جو طریقۂ کار ہے‪ ،‬اس میں کچھ بڑی بنیادی اور مزیدار قسم کی بات‬
‫پہ پہنچے‪ ،‬مثال کے )‪ (Universal Definitions‬ہے وہ یہ کہ سقراط کی ہمیشہ کوشش یہ تھی کہ وہ یونیورسل ڈیفینیشن‬
‫میں پڑھا کہ بہادری کیا چیز ہے‪ ،‬اس کو وہ کھولنا شروع کرتا ہے بہادری کے )‪ (Dialogue‬طور پہ ہم نے پچھلے مکالمے‬
‫کانسپٹ کو‪ ،‬اس کی ڈیفینیشن کو کھولتا رہتا ہے توڑتا رہتا ہے توڑتا رہتا ہے کہ اچھائی کیا ہے‪ ،‬بہادری کیا ہے‪ ،‬سچ کیا ہے‪،‬‬
‫علم کیا ہے وغیرہ اور اسی کے زریعے وہ گفتگو میں موجود تضاد کو آشکار کرتا تھا۔‬

‫سقراط کی زندگی اپنی زندگی میں جو کوشش تھی وہ ہمیشہ یہ تھی کہ سوفیسٹس کا جو ریلیٹو ازم ہے یا سبجیکٹو ازم ہے اس‬
‫کو رد کیا جائے کیونکہ سوفسٹس یہ کہتے تھے کہ کوئی مطلق اور معروضی سچائی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی چیز ایسی ہے‬
‫)‪ (Relative‬ہے‪ ،‬وہ ریلیٹو )‪ (Subjective‬جو مکمل طور پہ سچ ہوسکے‪ .‬دوسرے الفاظ میں ہر چیز جو ہے وہ سبجیکٹو‬
‫ہے یعنی کوئی مطلق و معروضی سچ و جھوٹ اور حق و باطل نہیں ہے۔‬

‫لیکن سقراط اس اپروچ کے بلکل الٹ تھا‪ ،‬سقراط ان کو شدید رد کرتے ہوئے کہتا تھا کہ نہیں یا تو چیز سچ ہے یا چیز جھوٹ‬
‫اور یہ ناممکن چیز ہے کہ آپ یہ کہیں کہ آپ کے لئے سچ ہے اور میرے لئے جھوٹ ہے‪ ،‬یہ نامکن ہے۔‬
‫تو یعنی سقراط اخالقیات میں بھی معروضی‪ ،‬عالمگیر اور مطلق حقائق کی تالش کرتا تھا۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 27 :‬‬
‫کلیات کا مسئلہ اور افالطون –‬
‫)‪(Problem of Universals and Plato‬‬
‫)‪ (Box‬افالطون کا یہ تصور تھا کہ جو مختلف انفرادی اور الگ الگ چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں اگر ہم ان کو ایک بڑے ڈبے‬
‫ہیں اور اس )‪ (Universal‬میں ڈال رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں ان کو ہم کہتے ہیں یہ عالمگیر‬
‫یونیورسل میں مثًال یہ تمام چیزیں گھوڑے ہیں‪ ،‬فالں تمام چیزیں انسان ہیں‪ ،‬فالں بلیاں ہیں وغیرہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ‬
‫تصورات جو ہیں یعنی انسان‪ ،‬مرد‪ ،‬عورت‪ ،‬گھوڑا‪ ،‬بلی‪ ،‬میز‪ ،‬کرسی وغیرہ‪ ،‬یہ یونیورسل تصورات جو ہیں ان کی ہی بنیاد پر‬
‫جو فردًا فردًا گھوڑے بنتے ہیں یا فردًا فردًا بلیاں بنتی ہیں یا فردًا فردًا انسان‪ ،‬مرد وعورت‪ ،‬کرسیاں یا میز وغیرہ جو بن رہی‬
‫ہیں وہ انہی بنیادی تصورات پر بنیاد ہیں جو کہ مثالی اور ساکن ہیں۔‬
‫مثال کے طور پہ جب ہم کرسی کا ذکر کرتے ہیں تو آپ کے ذہن میں ایک خاکہ ضرور آجاتا ہے کہ کرسی یہ چیز ہوتی ہے‪،‬‬
‫وہ زمین سے اٹھی بھی ہوگی‪ ،‬چار ٹانگیں ہیں یا تین ٹانگیں ہیں‪ ،‬اتنی چھوٹی ہو‪ ،‬فالں قسم کی طرح انکی ساخت ہے وغیرہ‬
‫مگر آپ کے ذہن میں کرسی کا کوئی بنیادی ایک تصور ہے‪ ،‬جب آپ کرسی کا ذکر کرتے ہیں‪ ،‬اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت‬
‫کے اندر جو مختلف چیزیں ہمیں ملتی ہیں تو کوئی ایسا کوئی اس چیز کا تصور ہے کہ جس سانچے کی بنیاد پر وہ چیز‬
‫مختلف چیزیں وجود میں آجاتی ہیں۔‬
‫اب وہ تصور کہاں پر ہے‪ ،‬کدھر ہے وہ تصورز کس کے ذہن میں ہے وغیرہ۔ وہ دراصل کسی فرد کے ذہن میں نہیں ہے وہ‬
‫میں ہے۔ )‪ (Ideal World‬تصور جو ہے ایک تصوراتی دنیا میں ہے جس افالطون کے مطابق ایک مثالی دنیا‬
‫کے خیاالت شامل تھی۔ )‪ (Pythagoras‬افالطون کی یہ اپروچ اسلئے تھی کہ شاید اس کے ذہن میں فیثاغورث‬
‫ہم نے پچھلے اقساط میں یہ ذکر کیا ہے کہ پائتاگرس کے مطابق؛‬
‫‪The world is numbers.‬‬
‫میں ہیں اور اس کے )‪ (Mathematical Proportion‬یعنی ہر چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ ایک ریاضیاتی تناسب‬
‫نیچھے ریاضیاتی اصول کارفرما ہیں۔‬
‫افالطون کو یہ تصور بہت پسند تھا جس طرح سے نے افالطون کی قسط میں یہ پڑھا کہ افالطون نے اپنے اکیڈمی پر لکھا تھا‬
‫کہ؛‬
‫"‪"Let no man enter who does not know geometry.‬‬
‫رکھا تھا۔ )‪ (Triangle‬بھی مثلث )‪ (Symbol‬افالطون نے اپنے اکیڈمی کا نشان‬
‫بہرحال افالطون کو یہ تصور بہت اچھا لگا کہ ریاضی جو ہے وہ دنیا کی اصل اور مطلق بنیاد ہے۔‬
‫ایک دفعہ انہوں نے اپنا لیکچر سنانے کے لئے ایتھنز کے لوگوں کو بالیا کہ ہم اچھائی کو سمجھیں گے‪ ،‬لوگ ادھر پہنچ گئے‬
‫کہ اخالقی لیکچر ہوگا لیکن افالطون نے لیکچر ریاضی پر دیا۔ لوگ پریشان اور نامید ہوجاتے ہیں کہ افالطون نے تو‬
‫سارا لیکچر ریاضی پر دیا ہم تو کچھ اور سمجھ رہے تھے۔‬
‫تو ریاضی کی کونسی بات تھی جو افالطون کو اتنی پسند تھی ؟‬
‫دراصل افالطون کو ریاضی کی یہ بات بڑی پسند تھی کہ دنیا ِادھر سے ُادھر ہوجائے‪ ،‬چاہے زلزلہ آجائے‪ ،‬چاہے پوری دنیا‬
‫نیست و نابود ہوجائے‪ ،‬انسان ختم ہو جائے لیکن ریاضیاتی سچائیاں جو پیں‪ ،‬وہ ختم نہیں ہوسکتے۔‬
‫یعنی ریاضی کا وقت اور حاالت کے ساتھ اور مادے کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر دو جمع دو چار ہی ہونگے‪ ،‬ہمیشہ ہی ہونگے‪ ،‬چاہے کچھ بھی ہو۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ افالطون کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ؛‬
‫‪Mathematical truths are absolute.‬‬
‫یعنی کہ ریاضیاتی سچائیاں مطلق ہیں‪ ،‬جو کہ زمان و مکان اور مادے کے حاالت پر ان کا کوئی انحصار نہیں ہیں۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یہ کہ ریاضی اس تبدیلی والی دنیا (ہیراکالئٹس والی دنیا) سے آزاد ہیں۔‬

‫‪ (Mathematical‬یہ جو تصور ہے کہ سچائی ُاس قسم کی ہونی چاہیے کہ جس قسم کے ریاضیاتی ایگزیومیٹک سچائیاں‬
‫‪.‬ہیں )‪Axiomatic truths‬‬
‫میں ہی سچ ہو۔ )‪ (Definitions‬ایگزیومیٹکل سچائیاں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو اپنی تعریف‬
‫تو افالطون کا یہ خیال تھا کہ تمام جو دنیا کے اندر ہم چیزیں نکالتی ہیں ان کی بنیاد پہ کچھ اسی قسم کے سچ ہونے چاہئے جو‬
‫کہ ریاضیاتی تصورات کی طرح کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے۔‬
‫اور تصورات ہیں جو کہ ریاضیاتی تصورات کی طرح )‪ (Definitions‬یعنی کہ تبدیلی کی دنیا کی بنیاد پہ کچھ ایسے تعریفیں‬
‫کھبی بھی تبدیل نہیں ہوتے۔‬
‫مثال کے طور پر گھوڑے کا کوئی ایسا تصور ہے کہ جو کہ جتنے مزید مختلف قسم کے گھوڑے بن جائیں وہ تصور جو ہے‬
‫اپنی جگہ سے ایک ریاضیاتی سچائی کی طرح کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی۔‬
‫کہتے ہیں (جس کا ہم پچھلے قسط "افالطون )‪ (Dualism‬افالطون کی جو علمیاتی نظریہ یا تھیری آف نالج ہے اس کو ڈیولزم‬
‫کی ڈیولزم" میں ذکر کر چکے ہیں)۔‬
‫پر یہ علمیاتی نظریہ بنتا ہے۔ )‪ (Levels‬دو پہلوں یا دو سطح‬

‫)‪ (World of Forms/Mind‬تصوراتی اور مثالی دنیا –‬


‫دنیا میں ہیں اور وہ )‪ (ideal‬ایک لیول پہ وہ تصورات جو کہ اس دنیا میں نہیں بلکہ ایک تصوراتی دنیا میں ہیں‪ ،‬ایک مثالی‬
‫مثالی دنیا پرمینڈیز کہ دنیا ہے یعنی کہ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ ایگزیومیٹکلی‬
‫ایک مثلث )‪ (Exactly‬بلکل )‪ (Triangle‬اور ریاضی کی طرح سچ ہوتی ہے یعنی اس میں ایک مثلث )‪(Axiomatically‬‬
‫ہوتا ہے وغیرہ اور وہ کبھی تبدیل بھی نہیں ہوتی۔‬

‫)‪ (World of matter/Body‬مادی دنیا –‬


‫اس تصوراتی دنیا کی بنیاد پر ہمیں مادے کی دنیا نظر آتی ہے جوکہ ہیراکالئٹس کی دنیا ہے‪ ،‬جس کے اندر ہر وقت تبدیلی‬
‫نظر آتی ہے۔ مگر تبدیلی بھی جو اس کے اندر نظر آتی ہے وہ ایک لیول پہ جو تصورات کی دنیا ہے اس سے جڑی ہوئی ہے‬
‫اور اس کی اردگرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ جیسے گھوڑے کا جو مادی تصور ہے وہ اسی تصوراتی دنیا کے اردگرد ہی‬
‫گھومتی رہتی ہے۔‬

‫یعنی کہ دو قسم کی دنیا ہے؛‬


‫۔)‪ (World of matter/Body‬اور مادی دنیا یعنی )‪ (World of Forms/Mind‬تصوراتی دنیا‬
‫سے دیکھ اور محسوس کررہے ہیں۔ )‪ (senses‬جو مادی دنیا ہے وہ ہر وقت تبدیل ہورہی ہے اور یہ تبدیلی ہم اپنی حسیات‬
‫اور دوسری دنیا تصوراتی دنیا ہے جس میں نہ تبدیل ہونے والے تصوراتی سچائیاں ہیں۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 28 :‬‬
‫)‪ (Allegory of the cave‬غار کی تمثیل‪/‬محاورہ –‬
‫کو آسانی سے سمجھانے کے لئے ایک محاورہ )‪ (Epistemology‬افالطون نے اپنی علمیاتی نظریے یا معرفت شناسی یعنی‬
‫کہا جاتا ہے۔ )‪ (Allegory of the Cave‬یا تمثیلی مثال پیش کی ہے جس کو غار کی تمثیل یا غار واال محاورہ یعنی‬
‫اس تمثیل‪/‬محاورے میں افالطون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آپ فرض کریں کہ جو انسانیت یا انسان ہیں وہ رسی میں جھکڑی ہوئی‬
‫ہے‪ ،‬وہ ادھر ادھر بھی نہیں دیکھ سکتے اور اس کے پیچھے آگ جل رہی ہے جس کی روشنی میں کچھ لوگ ہمیں مختلف‬
‫چیزوں کی سائے دیکھا رہے ہیں۔ نہ وہ آگ کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ وہ ان لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو سائے پیدا‬
‫کررہے ہیں تو ان کو صرف اور صرف ان چیزوں کے سائے نظر آرہے ہیں اور کیونکہ انہوں نے صرف ان سائوں کو دیکھا‬
‫ہوتا ہیں تو لہزا ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہی اصلیت اور حقیقت ہے۔‬
‫اب ان میں سے ایک رسی کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ وہاں غار سے باہر نکلتا ہے۔‬
‫جب وہ غار سے باہر نکلتا ہے تو وہ تمام چیزوں کو پہلی دفعہ دیکھتے ہیں اور ان کو تمام چیزیں اپنی اصلی اور حقیقی‬
‫رنگوں کے ساتھ سورج کی روشنی میں دیکھائی پڑتی ہیں۔‬
‫وہ دیکھتا ہے کہ حقیقت میں دنیا کیسی ہے‪ ،‬نیلی آسمان کو دیکھتا ہے‪ ،‬درختوں کو دیکھتا ہیں‪ ،‬پرندوں اور جانوروں کو‬
‫دیکھتا ہے‪ ،‬اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی میں چیزیں کس حد تک خوبصورت‬
‫دیکھ رہی ہیں۔‬
‫ان سب چیزوں کو دیکھ کر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی غار سے باہر لے کر آئے اور ان کو‬
‫سورج کی روشنی میں دنیا کی اصل حقیقت دیکھائے۔‬
‫جب وہ دوبارہ غار کے اندر جاتا ہے اور لوگوں کو سورج کی روشنی اور باہر کی حقیقت کے حوالے سے اطالع دیتا ہے تو‬
‫! ان لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ کیا عجیب و غریب قسم کی باتیں ہیں‪ ،‬ایسے کیسے ہوسکتا ہیں‬
‫کیونکہ انہوں نے بچپن سے صرف اور صرف ان سائوں کو ہی دیکھا ہی پہچانا ہوتا ہیں لہزا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج‬
‫جیسی کوئی چیز نہیں ہیں یعنی وہ تمام اس باہر جانے واکے شخص کو رد کردیتے ہیں۔‬
‫سے دنیا کو دیکھتے ہیں‪ (Senses) ،‬افالطوں کا اس تمثیلی زبان اور محاورے سے مقصد یہ تھا کہ ہم جب اپنی حسیات‬
‫یعنی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‪ ،‬کانوں سے سنتے ہیں‪ ،‬ناک سے سونگھتے ہیں وغیرہ یہ صرف اور صرف سائوں‬
‫کی دنیا ہیں اور یہ اصل حقیقت نہیں ہیں کیونکہ جب تک ہم عقل و منطق کی روشنی میں چیزوں کو نہیں دیکھیں گے تب تک‬
‫ہم وقعًا سچ و جھوٹ اور غلط و صحیح کو نہیں پہچان سکیں گے۔‬
‫افالطون اپنی اخالقیاتی نظریہ بھی اسی محاورے سے نکالتے ہیں یعنی اچھائی کیا ہے ؟‬
‫اچھائی افالطون کے لئے بلکل اسی طرح ہے کہ جس طرح اس دنیا کے اندر مختلف چیزوں کو حقیقی علم اور عقل و منطق‬
‫کی روشنی میں دیکھے؛‬
‫افالطون کے مطابق؛‬
‫"‪"The Good is like the light of the sun.‬‬
‫"‪"The Good is the light of understanding.‬‬
‫یعنی عقل و منطق اور حقیقی سمجھ کی روشنی میں جب ہم اس دنیا کو دیکھیں گے تو تب ہمیں صحیح و غلط اور اچھائی و‬
‫برائی کی مکمل اور حقیقی پہچان ہوگی۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یہ کہ جب ہم دنیا کو عقل و منطق کی روشنی میں دیکھیں گے‪ ،‬جس طرح سے ہم آنکھوں سے سورج کی‬
‫روشنی میں چیزوں کو دیکھتے ہیں‪ ،‬اسی طرح سے جب ہم اچھائی اور برائی کو عقل و منطق کی روشنی میں دیکھیں گے تو‬
‫تب ہی ہمیں اچھے اور برے کی صحیح پہچان ہوگی اور صرف وہ لوگ اچھائی اور برائی کو پہچان سکتے ہیں جو اس غار‬
‫سے نکل کر حقیقی علم کی روشنی میں اس پوری دنیا کو دیکھے اور سمجھے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 29 :‬‬
‫)‪ (The Republic‬افالطون کی ری پبلک‪/‬ریاست –‬
‫کی بنیاد رکھی یعنی کہ )‪ (Ethics‬کی بنیاد پر اخالقیات )‪ (Theory of Knowledge‬افالطون نے اپنے علمیاتی نظریے‬
‫جو اچھائی ہے وہ صرف منطق کی روشنی میں ہم پہچان سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی افالطون نے ساری سیاست کی بنیاد‬
‫رکھی اور اس نے ایک کتاب لکھی؛‬
‫"‪"The Republic‬‬
‫پہلی "‪ "The Republic‬اس کتاب نے سیاسی سوچ کو اس قدر متاثر کیا کہ تمام سیاسیات کے پروفیسرز یہ سمجھتے ہیں کہ‬
‫کی کتاب ہے۔ "‪ "Political Science‬ایسی کتاب ہے جو کہ ایک بہت اہم سیاسیات‬
‫میں افالطون لکھتا ہے کہ سماج کی سیاست کو اس پوری تھیری یعنی اپنے علمیاتی و اخالقی "‪ "The Republic‬اس کتاب‬
‫نظریے کے ساتھ جوڑنا ہے اور جب تک وہ اس پوری تھیری کے ساتھ جوڑی نہیں ہوگی تو وہ کبھی بھی درست سیاست نہیں‬
‫ہو سکیں گی۔‬
‫کی تھیری بناتا ہے کہ انسان کی قدرت )‪ (Human nature‬اس علمی و اخالقی تھیری سے سے وہ ایک نئی انسانی فطرت‬
‫‪.‬میں کچھ اصول و قوانین ہیں‬
‫یعنی تین قسم کے قوانین انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور افالطون ایک محاورہ‪/‬تمثیل استعمال کرتا ہے کہ انسان اس طرح‬
‫ہے جیسے ایک ٹانگے پر بیٹھا ہوا ہو اور اس کے سامنے دو قسم کے گھوڑے ہیں جن کو اپنے قابو میں اس نے رکھا ہے۔‬
‫یعنی کہ افالطون تین مختلف قسم کے قوتیں افالطون شامل کرتے ہیں۔‬
‫‪– Tripartite nature of the body and the soul‬‬
‫پہلے دو گھوڑے جو مختلف سمتوں میں انسان کو کھینچ کر لے کر جاتے ہیں اب وہ کیا ہے؟‬

‫سب سے پہلے تو ؛‬
‫‪– The spirited element‬‬
‫ہے وہ کہتا ہے کہ اس کو چھانٹی سے مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ‪ element‬جو کہ اچھائی کا ‪ element‬یعنی وہ‬
‫حکم سے اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے اور وہ ہمیشہ اچھائی کی طرف بھاگتا ہے۔‬
‫دوسری طرف؛‬
‫‪– The bodily Appetites‬‬
‫وہ حصہ جس کو مسلسل لگام میں رکھنا پڑتا ہے اس کو کبھی کبھار چھانٹہ بھی مارنا پڑتا ہے کہ وہ آگے پیچھے نہ دوڑے۔‬
‫بہر حال یہ ضروری بھی ہے۔‬
‫ہے۔ "‪ "charioteer‬اب عقل جو ہے وہ‬
‫‪• The charioteer (reason) controls the two horses.‬‬
‫یعنی عقل ان دونوں گھوڑوں کو لگام میں رکھتی ہیں اور دونوں گھوڑوں کو ایک طرف چالتی ہے۔‬
‫وہ ہوتی ہے جو کہ ان دونوں گھوڑوں )‪ (Harmonious Society‬اور افالطون کے مطابق ہم آہنگ اور بہتر معاشرہ یعنی‬
‫کو عقل کے قابو میں رکھ کر درست سمت میں چال سکے یعنی کہ سب سے ضروری جو چیز ہے وہ کیا ہوئی وہ عقل و‬
‫منطق کی قوت ہوئی اور وہ فالسفرز کا بنیادی نقظہ نظر ہوا جو کہ سماج کو چال سکتا ہے۔‬
‫کا تصور دیتا ہے‪ ،‬وہ یہ کہتا ہے کہ جسم کے حوالے )‪ (Harmonious society‬افالطون دراصل ایک ہم آہنگ اور معتدل‬
‫سے جو مختلف قوتیں آپ کو ملتی ہیں اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں آپ کو آپ کے روح کے حوالے سے ملتی ہیں‪ ،‬اسی قسم‬
‫کے حوالے سے ملتی ہیں اور اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں "‪ "virtue‬کی ملتی جلتی مختلف قسم کی صفتیں ہیں وہ آپ کو‬
‫آپ کو ریاست کے حوالے سے بھی ملتی ہیں۔‬
‫یعنی کے سب سے پہلے تمام چیزیں ہم جسم‪ ،‬روح‪ ،‬صفتوں اور ریاست میں تقسیم کرسکتے ہیں۔‬
‫جسم کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف دماغ ہے‪ ،‬دوسری طرف سینہ ہے اور تیسری طرف پیٹ ہے۔‬
‫کی کرسی ہے۔ ‪ Reason‬یہ مختلف قسم کی قوتیں ہیں اور ذہین ہماری روح کے حوالے سے‬
‫"‪"It is the seat of reason.‬‬
‫سر‪ ،‬سینہ اور پیٹ –‬
‫سے ہماری بہادری نکلتی ہے جس سے ہم لڑ سکتے ہیں‪ (chest) ،‬افالطون کے مطابق سر میں منطق بیٹھی ہوئی ہے‪ ،‬سینے‬
‫وہ کام کرسکتے ہیں جو ضروری ہے اور پیٹ سے ہماری وہ قوتیں نکلتی ہیں جو ہماری ضروریات ہیں جس پر ہم نے قابو‬
‫پانا ہوتا ہے۔ ہم نے کھانا کھانا ہوتا ہے ہمیں جسم کو تمام غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور بھی جسمانی ضروریات وہ سارے‬
‫پیٹ سے جنم لیتی ہے۔‬
‫میں عقل‪ ،‬چھاتی میں جرآت اور پیٹ میں ضرورت یعنی کہ مادے کا جو جسم ہے اس کی جتنی بھی ‪ Head‬یعنی کہ‬
‫ضرورت ہیں۔‬

‫)‪ (Characteristics‬صفتیں –‬
‫اسی کے ساتھ کچھ صفتیں جوڑی ہوئی ہیں۔‬
‫۔ یعنی اس پر قابو پانا کہ "‪ "Temperance‬چھاتی کے ساتھ بہادری اور پیٹ کے ساتھ اعتدال ‪ "wisdom"،‬ذہن کے ساتھ‬
‫یعنی پیٹ کے ضرورت جو ہیں وہ کبھی بھی بے قابو نہ ہو جائے۔ ‪ Appetites‬کس طرح سے ہماری‬

‫)‪ (Classification‬لوگوں کی گروہ بندی –‬


‫اسی کے ساتھ جوڑے ہوئے مختلف قسم کے لوگ ہونگے۔‬
‫یعنی وہ لوگ جو بنیادی طور پر عقل و ذہن سے کام لیتے ہیں وہ بنتے ہیں فالسفرز۔ •‬
‫وہ لوگ ہے جو بنیادی طور پہ چھاتی سے کام لیتے ہیں وہ لوگ اکثر بڑے بہادر ہوتے ہیں اور وہ اکثر بنتے ہیں سپاہی •‬
‫۔‪ Soldiers‬یعنی‬
‫اور وہ لوگ جو پیٹ سے کام لیتے ہیں ان کی بنیادی طور شخصیت ان کے پیٹ سے جوڑی ہوتی ہے وہ بھی ضروری ہے •‬
‫اور وہ لوگ تاجر اور مزدور بنتے ہیں جو دنیا کے اندر مادے سے مختلف چیزیں بناتے ہیں‪ ،‬کھانا بناتے ہیں‪ ،‬پانی کو کنوں‬
‫سے نکالتے ہیں وہ گھر بناتے ہیں اور وہ ہماری بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔‬
‫یعنی کہ ہمارے جسم کے تین مختلف حصوں کے ساتھ ہماری روح کے مختلف حصے جوڑے ہیں اسی کے ساتھ ہماری‬
‫کی بنیاد پر بنائی جائے پھر یہی ریاست ایک ‪ nature‬مختلف صفتیں جوڑی ہوتی ہیں اور ریاست بھی جو ہے اگر اسی‬
‫بن جائے گی۔ "‪"Harmonous society‬‬
‫مطلب یہ کہ اگر سماج اس انسانی فطرت کو سمجھ کر بنایا جائے تو پھر ایک اچھا سماج بن سکے گا جو کہ اچھی طرح کام‬
‫کرے گا۔‬
‫‪The perfect republic would exist when the social structure is in harmony with the‬‬
‫‪characteristics of body, soul and virtue .‬‬
‫افالطون کا اس سے مقصد یہ تھا کہ؛‬
‫بننا چاہیے یعنی جو عقل سے کام لیتے ہیں ان ہی کو اقتدار میں )‪ (Rulers‬جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کو حکمران •‬
‫ہونا چاہیے۔‬

‫جو لوگ چھاتی سے کام لیتے ہیں‪ ،‬وہ لوگ بہادر ہیں ان کو سپاہی بننا چاہئے تاکہ وہ اس سماج کا دفاع کرسکے۔ •‬

‫اور وہ لوگ جن کی شخصیت پیٹ سے نکلتی ہے‪ ،‬جو کام کرنے والے لوگ ہیں‪ ،‬جو ہماری مادی ضروریات پورے کرتے •‬
‫۔"‪"workers‬ہیں ۔ وہ لوگ بنے تاجر اور مزدور۔‬

‫ہے وہ تین طبقوں میں تقسیم ہوئی ہیں ایک وہ جو دماغ سے کام لیتے )‪ (Ideal Republic‬یعنی افالطون کا جو مثالی ریاست‬
‫جو دفاع کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو ‪ soliders‬دوسرے وہ جو چھاتی سے کام لیتے ہیں وہ ہیں ‪ Guardians،‬ہیں یعنی‬
‫ہیں جس کی وجہ سے ریاست زندہ رہتی ہے اور جس کی وجہ سے ہماری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ‪workers‬‬
‫بھی دیکھ سکتے ہیں اور ہیپوکرائٹس ‪ microcosm‬کا )‪ (Anaximanes‬ایک طرح ہم اس کے اندر ہم اینگزیمینز‬
‫کی وہ سوچ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جسم کے نظام کے اندر جب ہم آہنگی اور اعتدال ہوگی تو جسم کا )‪(Hippocrates‬‬
‫نظام اچھے سے چلے گا۔‬
‫جب چار عناصر جس کا ذکر ہیپوکرائٹس نے کیا تھا اگر درست تناسب میں ہونگے تو جسم ٹھیک چلے گا۔‬

‫اسی طرح سماج کے حوالے سے بھی جو تین قسم کے طبقے ہیں جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونگے تو اس کی‬
‫جو قدرتی قوت ہے وہ اپنے قدرتی کام کریں گے اور پھر ایک معتدل بنتی ہے اور بہتر چلی گی۔‬
‫یعنی سماج بھی ایک جسم کی مانند ہے کہ جس کے اندر جب درست تناسب سے چیزیں جوڑیں گی تو پھر سماج بہتر چلے گا۔‬
‫پیش کرتا ہے جو کہ ایتھنز اور اسپارٹا سے بہت مختلف ہے یعنی ایک نئی قسم کی )‪ (Republic‬افالطون ایک ایسے قسم کا‬
‫ریاست کا تصور ہے۔‬
‫جو ہے وہ ہیں ؛ ‪ category‬اس میں سب سے اہم‬
‫"‪"Guardians and Rulers‬‬
‫نے اس نظام کو چالنا ہے جو کہ سماج کا وہ دانشور طبقہ ہیں جس نے عقل )‪ (Guardians‬کیونکہ سرپرست اور حکمران‬
‫کی طاقت سے فیصلے کرنے ہیں۔‬
‫اور افالطون کے مطابق یہ جو دانشور طبقہ ہے یہ ان لوگوں کا بننا چاہئیے جو کہ اس سماج میں سب سے زیادہ ذہین ہو اور‬
‫کے لئے ہم ایک مکمل نظام قائم کریں تاکہ یہ مکمل طور پر آپنے )‪ (Training‬افالطون یہ پیش کرتا ہے کہ ان کی تربیت‬
‫زمانے کے ماہرین بنے۔‬
‫ہونی چاہئیے تاکہ علم کے نہج پر پہنچ جائے کہ وہ سماج کو چال )‪ (Training‬افالطون کہتا ہے کہ ان کی ‪ 35‬سال تربیت‬
‫سکے‬
‫اس تربیت میں یہ سب چیزیں شامل ہونگے؛‬
‫‪Mathematics, Physics, Art, Music, Physical training, Biology, Medicine, Psychology and‬‬
‫‪Literature.‬‬
‫یعنی کہ ان کو سماج کے تقریبًا تمام علوم پر عبور حاصل ہوگا ۔‬
‫افالطون کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ افالطون کا خیال تھا کہ دو بنیادی چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کے‬
‫نتیجے میں انسان جو ہے وہ اچھائی کے راستے کو چھوڑ کر غلطیاں کرتا ہے‪ ،‬بد کرتا ہے اور وہ دو چیزیں ہیں؛‬
‫"‪"Marriage and property‬‬
‫اس لئے کیونکہ شادی کے نتیجے میں جب انسان بچے پیدا کرتا ہیں تو پھر افالطون یہ کہتا ہے کہ سماج سے پہلے پھر وہ‬
‫پہلے اپنی فیملی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس کے عالوہ جب آپ کے پاس کوئی ملکیت ہوتی ہے تو پھر آپ اپنے‬
‫ملکیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔‬
‫تو افالطون یہ چاہتا ہے کہ حکمران (فالسفرز) جو عقل سے کام لیتے ہیں اور جن کا ان تمام علوم پر عبور ہوگا‪ ،‬ان کی نہ تو‬
‫کوئی فیملی ہوگی اور نہ کوئی ملکیت ہوگی۔‬
‫وہ ایک ایسی جگہ پر رہینگے کہ جہاں کھانا‪ ،‬کپڑے وغیرہ ان کو دیئے جائنگے اور اگر ان کے بچے ہوجائے تو ان کی‬
‫دیکھ بھال ریاست کرے گی ان کا اپنے بچوں سے زیادہ واسطہ نہیں ہوگا۔‬
‫کے اندر خواتین بھی شامل تھی۔ افالطون عورتوں کے حوالے سے بڑا ترقی پسند )‪ (Guardians class‬اس‬
‫آدمی تھا وہ کہتا تھا کہ عورتوں کے پاس بھی منطق کی قوت ہیں۔ وہ بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں اور )‪(Progressive‬‬
‫ہونی چاہئیے بلکہ افالطون نے کہا کہ اگر ایک )‪ (Physical Training‬افالطون کے مطابق خواتین کی بھی جسمانی تربیت‬
‫اپنی صرف ایک بازو کو ہی )‪ (Athletes‬کریں تو یہ ایسی بات ہے کہ جس طرح کھالڑی ‪ train‬ریاست صرف مردوں کو‬
‫کرے۔ ‪train‬‬
‫یعنی جب تک ایک پہلوان دونوں بازوں کو تربیت نہیں دیتے وہ پہلوانی نہیں کر سکے گا تو خواتین کی تربیت بھی اس میں‬
‫شامل ہونی چاہئیے۔‬
‫مگر دونوں مرد اور عورت پر یہ اصول سختی سے الگو ہونگے۔کہ ان کا نہ کوئی خاندان ہوگا اور نہ کوئی جائیداد ہوگا۔‬
‫اس کے عالوہ افالطون کہتا ہے کہ وہ شاعر جو ادھر ادھر کی بیکار شاعری کرتے ہیں ان کی شاعری کی ضرورت نہیں‬
‫ہے۔‬
‫اس کے عالوہ افالطون یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے کو ایک جگہ معتدل انداز سے چالنے کے لئے حکمرانوں اور‬
‫بولنے کی اجازت ہے۔ اگر جھوٹ کے نتیجے میں )‪ (Noble lie‬کو اچھا جھوٹ )‪ (Guardians‬سرپرستوں‪/‬حکمرانوں‬
‫معاشرہ صحیح سمت میں جائے تو وہ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 30 :‬‬
‫افالطون کا نظریہ کمیونزم –‬
‫)‪(Plato’s theory of communism‬‬
‫افالطونی کا نظریہ کمیونزم دراصل صرف سرپرست اور حکمران طبقے پر الگو ہوتا تھا‪ ،‬عام لوگ افالطون کے مطابق‬
‫خاندان بھی رکھ سکتے تھے‪ ،‬ملکیت بھی رکھ سکتے تھے اور جائیداد وغیرہ بھی رکھ سکتے تھے مگر افالطون کے مطابق‬
‫حکمران یہ نہیں رکھ سکتے جس کو "افالطونی کمیونزم" کہا جاتا ہیں۔‬
‫افالطون کا کمیونزم کا تصور ایک طرح سے فیثاورث کے کمیونزم کے بڑا قریب تھا۔‬
‫ان دونوں کا تصور دراصل اشرافیہ طبقے پر بنیاد رکھتا ہے۔ (یہ کارل مارکس کے کمیونزم سے بلکل مختلف ایک تصور‬
‫ہے)۔‬
‫یعنی کہ اس طبقاتی نظام میں اشرافیہ اور حکمران طبقہ کوئی ملکیت اور جائیداد نہیں رکھ سکتا اور حکمران طبقے کے‬
‫بچوں کو ریاست اس حکمران سے الگ ان کی تربیت کریں گے۔‬
‫تھی۔ ‪ Intellectual Oligarchy‬اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک راست کس طرح سے قائم ہوگا وہ ایک قسم کی‬
‫یعنی کہ دانشور اور علمی لوگوں کا ہی سماج میں مکمل گرفت اور اثر و رسوخ ہوگا اور یہ جو دانشور طبقہ ہے ان کو کسی‬
‫ووٹنگ کے ذریعے حکمران طبقہ نہیں بنایا جائے گا (مطلب جمہوریت نہیں ہوگی)۔ بلکہ افالطون جمہوریت کے سخت مخالف‬
‫کو بہتر سمجھتا تھا کہ جو لوگ قابل‪ ،‬بہادر اور جنگجوؤں ہیں ان کو )‪ (Sparta‬تھے اور اسی لحاظ سے افالطون اسپاراٹا‬
‫حکمران طبقہ ہونا چاہیئے۔‬
‫افالطون یہی سمجھتا تھا کہ جمہوریت ہی نے تو سقراط جیسے عظیم بندے کو ایک عام بندے کے ساتھ برابر کرکے سقراط‬
‫کے اوپر مظالم ڈھائے۔‬
‫افالطون کے مطابق اسپارٹا کا ماڈل بہتر ماڈل تھا‪ ،‬یعنی ایک ایسا ماڈل جس میں وہ لوگ حکمران طبقہ بنتا جو کہ واقعی‬
‫سماج کے سب سے تیز اور بہادر لوگ ہوا کرتے تھے۔‬
‫اسپارٹا اور افالطونی ریاستی تصور میں فرق صرف اتنا تھا کہ اسپارٹا میں وہ لوگ اوپر آتے تھے جو کہ بہترین لڑائی اور‬
‫جنگ کرنے والے ہوتے تھے اور افالطونی ریاستی تصور کے مطابق بہترین جنگجوؤں نہیں بلکہ وہ جو سب سے زیادہ‬
‫عقلمند ہو اور سب سے زیادہ جو عقل کا استعمال کرنا جانتے ہو یعنی کہ افالطون کے مطابق فالسفرز کو حکمران طبقہ ہونا‬
‫چاہئیے۔‬
‫)‪ (Utopia‬یوٹوپیا –‬
‫افالطون نے جب بھی اس ماڈل کو الگو کرنے کی کوشش کی تو اس کو صرف ناکامی ہی ہوئی‪ ،‬افالطون کا یہ تصور آج تک‬
‫کھبی بھی ایک نظام کے طور پر کامیاب نہیں ہوا۔‬
‫تھا اور کھبی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ )‪ (Utopia‬افالطون کی ریاست کا یہ تصور ایک قسم کا یوٹوپیا‬
‫سسلی میں جب افالطون نے دو دفعہ اس نظام کو الگو کرنے کی کوشش کی تو وہ نہ صرف مکمل ناکام ہوا بلکہ افالطون اپنی‬
‫جان بچا کر بڑی مشکل سے وہاں سے لوٹ آیا۔‬

‫)‪ (Plato's Laws‬افالطونی قوانین –‬


‫ایسی کتاب تھی کہ جس میں افالطون نے بغیر پرواہ کے وہ سب کچھ لکھا جو افالطون )‪ (The Republic‬دی ری پبلک‬
‫سمجھتا تھا کہ نظام اگر ہونا چاہئیے تو ایسا ہی ہونا چاہئیے لیکن بار بار ناکامی کے بعد افالطون نے اپنے آخری وقت میں‬
‫۔)‪ (Plato's Laws‬ایک کتاب لکھی افالطونی قوانین‬
‫پر مبنی تھی کہ چلو اگر "دی ری پبلک" قائم نہیں )‪ (Compromise‬افالطون کہ یہ کتاب ایسے سمجھو کہ ایک سمجھوتے‬
‫ہے۔ )‪" (Constitutional State‬ہوسکی تو اس سے کمتر بہتر ماڈل "آئینی ریاست‬
‫یعنی ایک ایسی ریاست قائم ہو جو خاص قوانین پر مبنی ہو اور جس کے اندر قانون کی پاسداری ہو۔‬

‫ہم افالطون کے تصورات و نظریات کے ساتھ اختالف تو کرسکتے ہیں مگر افالطون کو کوئی بھی فلسفی نظرانداز نہیں‬
‫کرسکتا۔ تقریبًا دو ہزار سال تک ہر فلسفی وہی سے شروع کرتا ہے جہاں افالطون نے اپنی بات ختم کی تھی۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 31 :‬‬
‫)‪ (Aristotle‬ارسطو –‬
‫اس قسط میں ہم قدیم یونان کے شاید سب سے زیادہ زرخیز اور تخلیقی دماغ کی بات کریں گے یعنی ہم عظیم استاد ارسطو‬
‫کی بات کررہے ہیں۔ )‪(Aristotle‬‬
‫میں ہوتی ہیں۔ ‪BCE‬میں اور وفات ‪BCE 322‬ارسطو کی پیدائش ہوتی ہیں ‪384‬‬
‫میں پیدا ہوتے ہیں مگر وہ تقریبًا تمام نوجوانی کی عمر افالطون کی )‪ (Stagira‬ارسطو یونان کے ایک چھوٹے شہر سٹیگیرا‬
‫اکیڈمی میں گزارتے ہیں‪ ،‬انہوں نے بیس سال تک افالطون کی شاگردی اختیار کی۔‬
‫کا نام دیتے ہیں۔ )‪ (Lyceum‬بیس سال شاگردی کے بعد وہ اپنی ایک اکیڈمی بناتے ہیں جس کو وہ الئسیم‬
‫سکندر اعظم دراصل ارسطو کا شاگرد تھا اور تقریبًا ڈھائی سے تین سال تک سکندر اعظم ارسطو سے پڑھتا رہا۔‬
‫اسلئے سکندر اعظم کے دشمن ارسطو کے بھی دشمن تھے اور ان دشمنوں کی پوری کوشش تھی کہ ارسطو کو جتنا ہوسکے‬
‫چھوڑنا پڑا اور ان کا کہنا تھا کہ؛ )‪ (Athens‬دبایا جائے۔ لہزا ارسطو کو اپنے زندگی کے آخری وقت میں ایتھنز‬
‫"‪"I see no reason to permit Athens to sin twice against philosophy.‬‬
‫یعنی کہ مجھے کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں دوبارہ سے ایتھنز کو یہ موقع دوں کہ وہ فلسفے کو نقصان پہنچائے۔‬
‫پہلی دفعہ یہ نقصان پہنچایا تھا کہ جب سقراط کو سزائے موت ملی اور ارسطو نہیں چاہتے تھے کہ دوسری دفعہ بھی فلسفے‬
‫کو نقصان پہنچے۔‬
‫ارسطو نے تقریبًا ہر علم پہ لکھا جیسے؛‬
‫)سماجی سائنس( ‪• Social Science‬‬
‫)سیاسیات( ‪• Political Science‬‬
‫)آخالقیات( ‪• Ethics‬‬
‫)نیچرل فلسفہ( ‪• Natural Philosophy‬‬
‫)طبیعیات( ‪• Physics‬‬
‫)فلکیات( ‪• Astronomy‬‬
‫)حیاتیات( ‪• Biology‬‬
‫)ادویات( ‪• Medicine‬‬
‫)نفسیات( ‪• Psychology‬‬
‫)مابعدالطبیعیات( ‪• Metaphysics‬‬
‫)آنٹولوجی( ‪• Ontology‬‬
‫)علمیات( ‪• Epistemology‬‬
‫)منطق( ‪• Logic‬‬
‫)ریاضی( ‪• Mathematics‬‬
‫)فلسفہ کی تاریخ( ‪• History of philosophy‬‬
‫)سیاست کی تاریخ( ‪• Political History‬‬
‫)دینیات( ‪• Theology‬‬
‫)شاعری( ‪• Poetry‬‬
‫)حکومت( ‪• Government‬‬
‫)آرٹ( ‪• Art‬‬
‫)موسیقی( ‪• Music‬‬

‫یعنی اگر کلی طور پر ارسطو کے علم کو دیکھا جائے تو انہوں نے تقریبًا ہر علم پر کچھ نہ کچھ لکھا اور جو آج کے جدید‬
‫)‪ (Classification‬یونیورسٹیوں میں ہمیں مختلف مظامین اور موضوعات ملتے ہیں وہ وہی ہیں جن کی بنیادی درجہ بندی‬
‫ارسطو نے کی تھی۔‬

‫دراصل ارسطو نے سب سے پہلے ایک منظم منطقی نظام مرتب کیا اور جب وہی منطقی نظام انہوں نے مختلف موضوعات‬
‫پر الگو کیا تو ہر مضمون اور ہر موضوع میں کوئی نہ کوئی نئی دریافت انہوں نے دنیا کے سامنے رکھی۔‬
‫سے شروع کرتا ہے یعنی کہ )‪ (Literature review‬یعنی ادب کا جائزہ )‪ (Indoxa‬سب سے پہلے ارسطو ایک اینڈوکسا‬
‫اس سے پہلے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر دیں وہ یہ دیکھتا ہیں کہ باقی جنہوں نے لکھا ہیں وہ کیا اور کیسے لکھا ہیں اور ان کو‬
‫کہتے ہیں۔ )جدلیات( ‪، Dialectics‬ارسطو‬
‫اس سے دراصل ارسطو کی مراد یہ تھی کہ مختلف فلسفیوں کے ایک دوسرے کے مخالفت میں کیا آراء پائی جاتی ہیں‪ ،‬ان کو‬
‫پہلے پڑھا اور سمجھا جائے۔‬
‫ہیں )‪ (Debate‬یعنی کہ پہلے اینڈوکسا یا ادب کا جائزہ اور دوسرا ڈائلیکٹکس یعنی فالسفرز کے درمیان جو اہم بحث و مباحثہ‬
‫اس کو سمجھنا۔‬
‫ارسطو اسی دو پہلوؤں کو اپنے منطقی نظام سے گزارتا ہے اور ان کو مزید تراشتا ہیں جب تک کہ وہ کوئی نئی دریافت نہ‬
‫کرلیں۔‬
‫کہا جاتا ہیں جس میں ان کے کئی کتب شامل ہیں‪ ،‬جیسے؛ )‪ (Organon‬ارسطو کے منطقی نظام کو آرگنون‬
‫‪• Categories‬‬
‫‪• On interpretation‬‬
‫‪• Prior Analytics‬‬
‫‪• Posterior Analytics‬‬
‫‪• Topics and the Sophistical Refutations‬‬
‫یہ وہ کتب ہیں جو ارسطو کی منطقی نظام کی وضاحت کرتی ہیں۔‬

‫کو ارسطو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں؛ )‪ (Sciences‬باقی سائنسز‬
‫)‪ (Theoretical Sciences‬نطریاتی سائنسز )‪۱‬‬
‫جیسے؛ نیچرل فلسفہ‪ ،‬ریاضی‪ ،‬طبیعیات (فزکس) اور مابعدالطبیعیات۔‬
‫یہ علم برائے علم حاصل کیا جاتا تھا یعنی اس علم سے کوئی عملی زندگی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی تھی۔‬

‫)‪ (Practical Sciences‬عملی سائنسز )‪۲‬‬


‫جیسے؛ سیاسیات اور آخالقیات۔‬
‫یعنی اس میں وہ علوم شامل تھے جس کے زریعے انسان ایک بہتر سماج بناسکے۔‬

‫)‪ (Productive Sciences‬مفید سائنسز )‪۳‬‬


‫جیسے؛ زراعت‪ ،‬ادویات‪ ،‬آرٹس‪ ،‬موسیقی وغیرہ۔‬
‫یعنی وہ چیزیں جو زندگی میں خوبصورتی پیدا کریں یا وہ چیزیں جو لوگوں کے زندگیاں آسان بنائے۔‬
‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬
‫قسط‪– 32 :‬‬
‫افالطون پر ارسطو کی تنقید –‬
‫)‪(Aristotle's Critique on Plato‬‬
‫پر اعتراض کرتے ہیں۔ )‪ (Theory of Knowledge‬ارسطو دراصل افالطون کے بنیادی علمیاتی نظریے یعنی‬
‫جیسا کہ ہم نے پچھلے اقساط میں یہ پڑھا کہ افالطون کے مطابق جو ہمیں مادی چیزیں نظر آتے ہیں مثًال مختلف قسم کے‬
‫انسان یا مختلف قسم کے جانور وغیرہ‪ ،‬ان سب کے پیچھے تصوراتی سانچے ہیں اور اس تصوراتی دنیا کے اندر جو سانچے‬
‫ہیں وہ محدود تعداد کے ہونے چاہئیے اور ان محدود تعداد کے نتیجے میں ہی ہمیں مختلف قسم کے مادی چیزیں نظر آتی ہیں۔‬
‫اب ارسطو نے یہ تنقید کی کہ جو افالطونی تصوراتی سانچے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو مختلف مادی چیزیں پیدا ہوئی‬
‫ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسے سانچے بھی ہونے چاپئیے جو ان )‪ (Differences‬ہیں‪ ،‬ان کے درمیان جو تفریق و اختالفات‬
‫اختالفات کی وضاحت بھی کرسکتا ہیں یعنی مثًال ایک فرد کا دوسرے فرد کے درمیان جو فرق ہے (اگرچہ دونوں ایک ہی‬
‫سانچے سے نکلے ہیں)‪ ،‬تو ان دونوں کے درمیان جو فرق پیدا ہوا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی سانچہ ہوگا اور مزید یہ کہ‬
‫اگر دو سانچے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کے کوئی چیز بناتے ہیں تو وہ دو سانچے کس طرح سے اور کس تعداد میں‬
‫جوڑتے ہیں اس کے پیچھے بھی کوئی سانچہ ہونا چاہیئے۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم حقیقت میں التعداد سانچے بناسکتے ہیں کہ جس کی بنیاد پر دنیا کے اندر مختلف مادی چیزیوں کو‬
‫غلط ثابت ہوجاتی ہیں یعنی کہ افالطون کا یہ کہنا کہ سانچوں کی )‪ (Premise‬ہم سمجھ سکے جس سے افالطون کی پریمس‬
‫محدود تعداد ہونے چاہئیے کہ جس کی بنیاد پر ہم ان تمام مادی چیزوں کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔‬

‫مادی بمقابلہ تصوراتی دنیا –‬


‫)‪(Matter/Body Vs Mind/Soul‬‬
‫دوسرا یہ کہ ارسطو نے افالطون کے تھیری کو الٹ کردیا یعنی کہ جہاں پہ افالطون یہ کہہ رہا تھا کہ جو کچھ بھی ہم اپنے‬
‫سے دیکھ اور محسوس کررہے ہیں وہ سب ایک غلط فہمی ہیں اور مکمل حقیقت نہیں ہیں اور اصل )‪ (senses‬حسیات‬
‫حقیقت وہی ہیں جو ہم اپنے عقل و منطق کے قوت سے حاصل کرتے ہیں لیکن ارسطو بلکل افالطون کے الٹ بتاتے ہیں کہ؛‬
‫"‪"Nature is the real world.‬‬
‫ارسطو کے مطابق اصل اور حقیقی دنیا یہی مادی دنیا ہے اور اس مادی دنیا کے اندر جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‪ ،‬سن رہے‬
‫ہیں اور محسوس کررہے ہیں‪ ،‬اسی کے نتیجے میں ہی ہمارے تمام ذہنی تصورات قائم ہوئے ہیں۔‬
‫یعنی افالطون کے مطابق تصوراتی دنیا حقیقی دنیا ہے اور مادی دنیا ایک فریب اور ایک قسم کی خواب کی دنیا ہیں لیکن‬
‫ارسطو کے مطابق جو مادی دنیا ہے وہی اصل اور حقیقی دنیا ہے اور تمام ہمارے خیاالت اس مادی دنیا اور ہمارے حسیات‬
‫سے ہی ملی ہیں۔ )‪(senses‬‬
‫ارسطو کے مطابق کوئی ایسا سانچہ نہیں ہے جو کہ تصوراتی دنیا میں موجود ہو بلکہ ارسطو کے مطابق بلکل اس کے ُالٹ‬
‫ہے کہ جب ہم قدرت کے اندر مخلتف چیزوں کو ان کے مختلف صفات و خصوصیات سے دیکھتے ہیں تو ہم اسی کے مطابق‬
‫اپنے ذہنی تصورات بناتے ہیں۔‬
‫مثًال ایک ایسا جانور ہے کہ جس کی چار ٹانگیں ہیں‪ ،‬اتنی لمبی گردن ہے‪ ،‬اتنا بڑا ہے‪ ،‬وغیرہ‪ ،‬اس کے بعد ارسطو کے‬
‫مطابق دراصل ہم پہچان لیتے ہیں اور اس کو نام دیتے ہیں جیسے کہ مثًال فالں گھوڑا ہے۔‬
‫اور درجہ بندی کرتے ہیں جس کو ہم مثًال گھوڑا وغیرہ کہتے )‪ (Generalization‬یعنی حسیات کے ذریعے ہم جنرالئزیشن‬
‫ہے وہی گھوڑے کا جوہر )‪ (Common property‬ہیں اور جو ہر مختلف گھوڑے کے درمیان مشترک خصوصیت‬
‫ہے اور وہی گھوڑے کی ایک قسم کی روح ہے۔ )‪(Essence‬‬

‫)‪ (Remembrance of Knowledge‬علم کی یاد دہانی –‬


‫ہم نے پچھلے اقساط میں یہ بھی پڑھا کہ افالطون کے مطابق؛‬
‫"‪"Before birth the soul existed in an ideal world in which it had knowledge of all the forms.‬‬
‫یعنی کہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے تصوراتی دنیا میں ہی روح کے پاس تمام علم ہوتا ہیں‪ ،‬اس مادی دنیا میں پیدا ہونے‬
‫کے بعد روح یہ تمام علم بھول جاتی ہے اور جب ہم اس مادی دنیا کے اندر مادی اشیاء دیکھتے ہیں تو روح جو ہے اس چیز‬
‫کو یاد کرتے ہیں جو وہ بھول گیا ہے یعنی روح کے لئے اس چیز کی دوبارہ سے یاد دہانی ہوجاتی ہے اور علم بھی ایک قسم‬
‫کی یاد دہانی ہی ہے۔‬
‫لیکن ارسطو بلکل افالطون کے الٹ کہتا ہے‪ ،‬ارسطو کے مطابق؛‬
‫"‪"Man has no innate ideas.‬‬
‫یعنی انسان کے کوئی ایسے تصورات نہیں ہیں کہ جن کے ساتھ وہ پیدا ہوا تھا یا پیدا ہونے سے پیلے اس کو معلوم تھے بلکہ‬
‫ارسطو کے مطابق مادی دنیا کو دیکھ کر اور اپنے حسیات سے ہی انسان نے سارے مادی چیزوں کے بارے میں اپنے ذہنی‬
‫کے اندر ڈالتے ہیں۔ یعنی ان چیزوں )‪ (Categories‬تصورات بنائے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ہی چیزوں کو مختلف کیٹگریز‬
‫کی ساخت وخصوصیات کے بنیاد پر انسان ان تمام اشیاء کے ذہنی تصورات بناتے ہیں۔‬
‫چیزوں کے مادی صفات و خصوصیات کی بنیاد پر ہم دنیا میں مختلف چیزوں کی کیٹگریز‪ ،‬درجہ بندی اور گروہ بندی کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 33 :‬‬
‫ارسطو کے چار اسباب اور خدا کا تصور –‬
‫)‪(Aristotle's Four Causes and Concept of God‬‬
‫کے اندر تفریق کو واضح کرتے ہیں۔ )‪ (Form‬اور فارم )‪ (Substance‬ارسطو پہلے سبسٹانس‬
‫)‪ (Substance‬سبسٹانس •‬
‫سبسٹانس وہ مادی چیز ہے کہ جس سے یہ مادی دنیا بنی ہے۔ مثًال؛ پتھروں کی بلڈنگ کی سبسٹانس "پتھر" ہے‪ ،‬مٹی سے بنی‬
‫ہوئی مکان کی سبسٹانس "مٹی" ہوگی۔‬
‫یعنی آسان الفاظ میں سبسٹانس وہ مادی چیز ہے کہ جس سے کوئی بھی دوسری مادی چیز بنی ہو۔‬

‫)‪ (Form‬فارم •‬
‫فارم وہ شکل و صورت ہے کہ جب وہ مادی چیز بن جاتی ہیں۔ مثًال ایک سفید اور چار منزلوں والی بلڈنگ کے یہی سفیدی‬
‫اور چار منزل کو فارم کہہ سکتے ہیں یعنی کس ترتیب سے کیسے بنی ہے اور جس مادی چیز سے وہ بنیادی طور پر بنی‬
‫ہے وہ اس کی "سبسٹانس" ہے۔‬

‫)‪ (Potentiality‬صالحیت –‬
‫موجود ہوتی ہے۔ )‪ (Potentiality‬مزید ارسطو یہ کہتے کے کہ ہر سبسٹانس کے اندر فارم بننے کی ایک صالحیت‬
‫مثًال پتھر میں یہ صالحیت موجود ہے کہ اس سے ہم ایک بہترین قسم کا مجسمہ بنائے‪ ،‬مٹی کے اندر یہ صالحیت ہے کہ وہ‬
‫برتن بن جائے‪ ،‬یہاں پتھر اور مٹی "سبٹانسز" ہیں اور مجسمہ اور برتن "فارمز" ہیں۔‬
‫کے اندر یہ صالحیت نہیں ہے کہ وہ ایک مجسمہ بن جائے یعنی کہ ارسطو کے مطابق ہر سبسٹانس کی اندر )‪ (air‬لیکن ہوا‬
‫کی صالحیت موجود ہوتی ہیں۔ )‪ (Range‬رینج )‪ (Limited‬ایک محدود‬

‫کیسے سبسٹانس سے ایک فارم بنتا ہے ؟ •‬


‫?‪How does substance become a form‬‬
‫اب ارسطو اس سوال کی وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح ایک سبسٹانس ایک فارم بنتا ہے یا بن سکتا ہیں۔‬

‫ہے۔ )‪ (Material Cause‬ارسطو کے مطابق سب سے پہلے اس عمل کے پیچھے مادی وجہ‬


‫‪1) Material Cause‬‬
‫‪Determined by the material of which the thing is made.‬‬
‫یعنی کہ وہ مادی چیز کہ جس سے وہ بنی ہے۔‬

‫‪2) Formal Cause‬‬


‫‪Determined by the form, arrangement, shape, and essence the thing is made of.‬‬
‫یعنی کہ اس چیز کی ایک مخصوص اور منفرد شکل و صورت یا خصوصیت جو اس چیز کو وہ چیز بناتی ہے اور اس چیز‬
‫کے اندرونی اصول و قوانین کہ جس کے تحت اس کے اندر تبدیلی رونما ہوتی ہیں۔‬

‫‪3) Efficient Cause‬‬


‫‪Determined by an external agent or force.‬‬
‫مل کر اس کو تبدیل کرکے )‪ (Causes‬وہ بیرونی قوتیں کہ جن کے نتیجے میں اندرونی اصول و قوانین اور بیرونی وجوہات‬
‫اس کو ان کے مکمل صالحیات تک پہنچائے۔‬

‫‪4) Final Cause‬‬


‫‪Determined by the Final aim or purpose that the thing is serving.‬‬
‫یعنی وہ آخری صالحیت یا نتیجہ کہ جہاں تک وہ چیز پہچنا چاہتی ہے۔‬
‫اب اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے‪ ،‬کسی درخت کا مثال لیتے ہیں؛‬
‫ہوا۔ )‪ (Material cause‬ایک مادے کا بنا ہوا ہوتا ہے اور یہ مادہ اس کا میٹریل کاز )‪ (seed‬بیج ‪۰‬‬

‫ہوئے ہیں‪ ،‬جب اس کو خوراک‪ ،‬پانی اور ہوا ملتی ہیں تو وہ کس طرح سے اور )‪ (mix‬اس بیج کے اندر جو عناصر میکس‬
‫ہوا۔ )‪ (Formal Cause‬کس منفرد شکل و صورت اور خصوصیت کے ساتھ وہ درخت بنتا ہے یہ اس کا فارمل کاز‬

‫اس بیج کو جب ہم زمین کے اندر ڈالتے ہیں تو اس کو جو ہوا اور پانی وغیرہ ملتی ہیں تو یہ ہوا‪ ،‬پانی اور خوراک وغیرہ ‪۰‬‬
‫ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ بیج مسلسل درخت بنتے جارہا ہیں۔ )‪ (Efficient Causes‬اس کے ایفشنٹ کازس‬

‫یا )‪ (Final Cause‬اور جب وہ بیج مکمل نتیجے تک پہنچ جائے یعنی ایک مکمل درخت بن جائے تو یہ اس کا فائنل کاز ‪۰‬‬
‫فائنل نتیجہ ہوا۔‬

‫)‪ (Teleology‬ٹیلیولوجی –‬
‫ہے۔ )‪ (Teleology‬ارسطو کا یہ خیال تھا کہ قدرت کے اندر ٹیلیولوجی‬
‫"‪Teleology: "Purpose behind everything in nature.‬‬
‫یعنی ارسطو کے مطابق ہر چیز ایک خاص مقصد کے لئے بنی ہوئی ہیں اور وہ جو مقصد ہے جہاں تک اس چیز کو حتمی‬
‫ہے۔ وہاں جاکر وہ مزید تبدیل نہیں ہوتی )‪ (Final cause‬پہہنچنا ہے وہ دراصل اس چیز کی حتمی صالحیت اور حتمی وجہ‬
‫اور چیزوں کی ان کے آخری شکل و صورت اور حتمی مقصد سے ہی ہم اس کی مختلف کیٹگیریز بناتے ہیں۔‬
‫یعنی یہ جو مقصدیت ہیں اور ہر چیز کے اس کے مقصدیت سے ہی پہچانی جاسکتی ‪)،‬آج کل کے سائنسدان یہ نہیں سمجھتے(‬
‫ہیں‪ ،‬یہ آج کے دور میں سائنسدان تسلیم نہیں کرتے۔‬

‫)‪ (Aristotle's Concept God‬ارسطوئی تصوِر خدا –‬


‫"‪"The unmoved Mover‬‬
‫ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے )‪ (Cause‬مزید ارسطو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہر تبدیلی کی کسی نہ کسی طرح ایک سبب‪/‬وجہ‬
‫سے طاقتور ہونا الزمی ہے کیونکہ اگر وہ سبب یا )‪ (Effect‬وہ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس سبب کا اس کے نتیجے‪/‬اثر‬
‫وجہ طاقتور نہیں ہے تو بال وہ کیسے دوسرے چیز کو تبدیل کر سکتی ہے یا حرکت میں السکتی ہے۔‬
‫سے پہلے جو وجہ یا سبب ہے وہ اس عمل کے نتیجے میں تبدیلی سے زیادہ طاقتور ہوگا‪ ،‬اس )‪ (Process‬لہزا ایک عمل‬
‫ہے وہ اس سے زیادہ طاقتور ہوگا‪ ،‬اور اس سے بھی پہلےجو کاز ہوگا وہ اس سے طاقتور ہوگا )‪ (Cause‬سے پہلے جو کاز‬
‫تک پیچھے لے چلے اور پہلے وجہ‪/‬سبب )‪ (Infinity‬کے سلسلے کو انیفینٹی )‪ (Causes‬اور اس طرح سے ہم اس کازس‬
‫‪ (The‬جنم میں آئے ہیں تو اس کو ارسطو )‪ (Causes‬پر پہنچ جائے کہ جس کے نتیجے میں تمام اسباب )‪(First Cause‬‬
‫جس کی نہ کوئی اور )‪ (Cause‬کہتے ہیں یعنی قدرت کے اندر تمام اسباب و تبدیلیوں کا ایسا سبب )‪unmoved Mover‬‬
‫سبب ہے اور نہ ہی اس کو کوئی اور سبب ہال سکتی ہے۔‬
‫ارسطو کے مطابق وہ اس پوری کائنات کی فارمل کاز بھی ہیں‪ ،‬ایفشنٹ کاز بھی ہیں اور وہ اس کائنات کا فائنل کازِ بھی ہے‬
‫کا نام دیتے ہیں۔ )‪ (God‬کو ارسطو خدا )‪ (First Cause‬اور اسی اول سبب‬
‫ارسطو کا جو یہ خدا کا تصور ہے وہ ایک قسم کی خالص توانائی اور خالص قوت ہے جو اس کائنات کو چال رہی ہے‪ ،‬اسی‬
‫نے اس کائنات کو تبدیلی کے عمل میں شروع کیا ہے اور ہر چیز کی آخری منزل تک پہنچنے میں بھی یہی قوت ہے جس کو‬
‫کہتے ہیں اور وہ ایک قسم کی قدرتی طاقت ہے جس کی وجہ سے تمام کائنات چل رہی ہیں ‪ Unmoved Mover‬ارسطو‬
‫اور تبدیل ہورہی ہیں۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 34 :‬‬
‫ارسطو اور استخراجی منطق کے قوانین –‬
‫)‪(Aristotle and Laws of Deductive Logic‬‬
‫اس قسط میں ہم ارسطو کے استخراجی منطق کے قوانین پڑھیں گے بہت زیادہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔‬
‫کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ )‪ (Syllogism‬ارسطو اپنے منطقی تھیری کو سیلوجزم‬
‫‪Syllogism: Logical argument that implies deductive reasoning based on two or more‬‬
‫‪propositions assumed to be true.‬‬
‫دراصل سقراطی مکالمے و جدلیات سے ماخوذ ایک تصور ہے جس طرح )‪ (Dialects‬سیلوجزم بنیادی طور پر ڈائلکٹس‬
‫سے سقراط کا طریقہ تھا یا جس طرح افالطون مکالموں کے ذریعے لکھتا تھا اور ان مکالموں میں سقراط کی یہ کوشش کی‬
‫ہوتی تھی کہ مختلف اپروچس اور مختلف باتوں کے اندر جو اندرونی تضاد یا اندرونی اختالف ہیں ان کو تالش کرلیا جائے‬
‫اور اگر کسی دلیل یا بات کے اندر اندرونی تضاد پایا جاتا ہے تو وہ دلیل منطقی لحاظ سے درست نہیں ہیں۔‬
‫کہتے ہیں۔ ‪ Law of non contradiction‬اس کا مطلب منطقی لحاظ سے ایک قانون مشترکہ ہے کہ جس کو ہم‬
‫اسی قانون کے بنیاد پر ارسطو مزید تین قوانین پیش کرتے ہیں یعنی؛‬
‫‪1) Law of Identity‬‬
‫‪2) Law of non contradiction‬‬
‫‪3) Law of Excluded Middle‬‬

‫‪1) Law of Identity‬‬


‫۔‪ A=A‬اس قانون کے مطابق ہر ایک چیز اپنے آپ کے برابر ہے یعنی اگر اس کو ہم ریاضی زبان میں بیان کریں تو‬

‫‪2) Law of Non-Contradiction‬‬


‫اس قانون کے مطابق ایک چیز دونوں نہیں ہوسکتے یعنی یا تو ایک چیز ہے یا نہیں ہے دونوں ایک وقت پر نہیں ہو سکتے‬
‫کہ ایک چیز ہو بھی اور نہیں بھی ہو۔‬
‫مثًال میں کہوں کہ "میرا موبائل ابھی موجود بھی ہے اور نہیں بھی ہے" دونوں امکانات ممکن نہیں ہیں۔‬
‫ریاضی کے زبان میں اگر ہم اس کو بیان کریں تو؛‬
‫‪If, A=A then, "A" ≠ "not A".‬‬

‫‪3) Law of Excluded Middle‬‬


‫اس قانون کے مطابق یا تو ایک چیز چیز ہے یا جھوٹ‪ ،‬دونوں سچ نہیں ہو سکتے۔ ایک ہمیشہ سچ ہوگا اور اس کے مقابلے‬
‫میں دوسرا ہمیشہ غلط ہوگا۔‬

‫بناتے )‪ (Premises‬بناتے ہیں‪ ،‬دوبارہ سے سیلوجزم یہ ہیں کہ ہم پہلے دو پرمسس )‪ (Syllogism‬مزید ارسطو سیلوجزم‬
‫ہیں جو اپنے آپ میں درست اور سچے ہو اور اس کی بنیاد پر ہم درست نتیجہ نکالتے ہیں۔‬
‫ہوتے ہیں اور ان دو پرمسس سے کوئی نہ کوئی نتیجہ ہم نکالتے ہیں۔ )‪ (Premises‬یعنی سیلوجزم میں دراصل دو پریمسس‬
‫‪ (Minor‬کہا جاتا ہے اور دوسرے پرمس کو مائنر پرمس )‪ (Major Premise‬ان دو پرمسس میں ایک کو میجر پرمس‬
‫کہا جاتا ہے۔ )‪Premise‬‬
‫مثال کے طور پر؛‬
‫"‪1st Premise: "All A's are B's‬‬
‫"‪2nd Premise: "All B's are C's‬‬
‫‪Conclusion: All A's are C's.‬‬
‫ہیں تو اس کا مطلب تمام اے )‪ (C‬سی )‪ (B‬ہیں اور یہ بھی سچ ہیں کہ تمام بی )‪ (B‬بی )‪ (A‬اب اگر یہ سچ ہے کہ تمام اے‬
‫کے برابر ہیں۔ )‪ (C‬سی )‪(A‬‬
‫آسان الفاظ میں یہ کہ؛‬
‫‪• If A = B‬‬
‫‪and‬‬
‫‪•B=C‬‬
‫‪then‬‬
‫‪•A=C‬‬
‫ایک روزمرہ زندگی کے مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے؛‬
‫‪،‬ہیں )‪ (Mammals‬تمام گائے ممالیہ •‬
‫‪،‬تمام ممالیہ جانور ہیں •‬
‫نتیجہ یہ کہ؛‬
‫تمام گائے جانور ہیں۔ •‬

‫)‪ (History of philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 35 :‬‬
‫استقراء اور ارسطوئی منطقی نظام کا ڈھانچہ –‬
‫)‪(Induction and Aristotelian Logical System‬‬
‫کا مطلب یہ ہے کہ جب )‪ (Induction‬ارسطو کے مطابق چیزوں کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ استقرائی منطق ہے۔ استقراء‬
‫یا مثالوں کی بنیاد پر کوئی عمومی نتیجہ اخذ کرتے ہیں یعنی کہ ہم بہت سارے مشاہدات )‪ (pattern‬ہم مخصوص پیٹرن‬
‫نظر آتا ہیں تو پھر ہم اسی کے مطابق )‪ (pattern‬کریں اور ان مشاہدات میں اگر کوئی خاص پیٹرن )‪(Observations‬‬
‫کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر میں کوے میں دیکھنا شروع کردوں‪ ،‬ایک کوے کو دیکھتا ہوں کہ جو کاال ہے‪ ،‬دوسرا بھی کاال ہے اور‬
‫ایسے تیسرا‪ ،‬چوتھا اور اس طرح سے میں سو کوے بیٹھ کر مشاہدہ کروں اور وہ سارے مجھے کالے ہی نظر آئے تو میں یہ‬
‫نتیجہ اخذ کروں گا کہ کوے کالے ہی ہوتی ہیں۔‬
‫سمجھنے اور پہچاننے کے اس طریقے کو ہم منطق کا استقرائی طریقہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم نے کالے رنگ کے عالوہ‬
‫کسی اور رنگ کے کوے نہیں دیکھے ہیں تو اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کوا کاال ہی ہوتا ہے۔‬
‫ارسطو کا بنیادی طور پر یہ خیال تھا کہ اس کا منطقی نظام کسی بھی چیز یا موضوع کو سمجھنے کے لئے الگو کیا جاسکتا‬
‫ہیں۔‬
‫ارسطوئی منطقی نظام کا ڈھانچہ اور خالصہ کچھ یوں ہیں؛‬
‫‪1) Endoxa‬‬
‫یعنی کہ اس سے پہلے کہ ہم کوئی اپنا نقطۂ نظر پیش )‪ (Literature review‬مطلب ادب کا جائزہ )‪ (Indoxa‬اینڈوکسا‬
‫کریں پہلے ہمیں یہ دیکھنا اور پڑھنا چاہئیے کہ باقی جنہوں نے لکھا ہیں وہ کیا اور کیسے لکھا ہیں یا تمام قبول شدہ عقائد اور‬
‫اصولوں کے تحت اخالقی اور اخالقی فیصلوں کی بنیادیں کیا ہیں۔‬
‫‪2) Dialects‬‬
‫میں جو مرکزی اور اہم بحث ہے اس کو سمجھا جائے۔ )‪ (Endoxa‬یعنی اس اینڈوکسا‬
‫‪3) Laws of Deductive Logic‬‬
‫‪• Law of Identity‬‬
‫‪• Law of Non-Contraduction‬‬
‫‪• Law of excluded middle‬‬
‫‪4) Syllogistic form‬‬
‫یعنی ان تمام نتائج اور بحث و مباحثے کو منطقی قوانین سے گزار کر سیلوجسٹک شکل میں پیش کیا جائے۔‬
‫‪5) Inductive evidence‬‬
‫اور پھر ان تمام نتائج کو استقرائی طریقے سے گزار کر اور حسیات سے مشاہدہ و تجربہ کرکے ثبوت کے ساتھ درست‬
‫نتیجے تک پہنچایا جائے۔‬

‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬


‫قسط‪– 36 :‬‬
‫ارسطو کی جانداروں کی درجہ بندی اور گولڈن مین –‬
‫)‪(Aristotle's Classification and Golden Mean‬‬
‫ارسطو نے اپنے منطقی نظام کو قدرت پر بھی الگو کیا۔ قدرت کو وہ دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی؛‬
‫‪• Living things and Non-Living things.‬‬
‫جاندار چیزوں میں وہ چیزیں شامل تھی کہ جو ازخود خود کو اور اردگرد ماحول کو تبدیل کرسکتے ہیں اور غیر جاندار‬
‫چیزیں وہ جو ازخود کسی ماحول کے اندر کوئی تبدیلی نہیں السکتے اور نہ ہی ازخود وہ ماحول میں کسی قسم کی تبدیلی ال‬
‫سکتے ہیں۔‬

‫جاندار چیزیں دو مزید جاندار چیزوں پر مشتمل ہیں؛ •‬


‫‪۱) Plants‬‬
‫‪۲) Creatures‬‬
‫کو مزید دو حصوں میں تقسیم لرتے ہیں یعنی؛ )‪ (Creatures‬مخلوقات •‬
‫‪۱) Animals‬‬
‫‪۲) Humans‬‬
‫اور ارسطو کے مطابق انسان باقی تمام چیزوں‪/‬جانداروں سے اسلئے مختلف ہیں کیونکہ انسان کے پاس عقل و منطق کی قوت‬
‫ہیں یعنی کہ عقل و منطق کی جو قوت ہے وہ انسان کو باقی تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔‬
‫ارسطو کا یہ بھی خیال تھا کہ ان تمام چیزوں (جو ہم دیکھ رہے یا جن کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں) پر باقی سیارے اور ستارے‬
‫ہے جو کہ تمام ‪ Unmoved Mover‬اثرانداز ہیں اور مزید ان سیاروں اور ستاروں کے پیچھے ایک اور قوت ہے جو‬
‫سیاروں اور ستاروں کو چال رہی ہیں اور تبدیل کررہی ہیں۔‬

‫)‪ (Golden Mean‬گولڈن مین •‬


‫ارسطو کے مطابق اس پوری کائنات میں تمام جاندار اور غیر جاندار چیزوں میں ایک ایسا جاندار ہیں جو عقل و منطق کی‬
‫قوت رکھتا ہے وہ ہے انسان۔‬
‫ارسطو کے مطابق انسان کو اسی عقل و منطق کی قوت سے ایک اچھی اور معتدل زندگی گزارنے چاہئیے۔‬
‫ارسطو کے مطابق تین قسم کی طرح زندگیاں‪/‬خوشیاں ہوتی ہیں؛‬
‫‪1) Life of Pleasure and enjoyment‬‬
‫ایک ایسی زندگی جو سیر و تفریح پر مبنی ہو‪ ،‬جس میں ہم صرف زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہو جیسے کھیل کھودنا‪،‬‬
‫موسیقی سننا‪ ،‬فلمیں و ڈرامے دیکھنا‪ ،‬دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح پر نکلنا اور زندگی سے مزے لینا۔ یعنی ایسے لوگوں کو‬
‫کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ قومی و ملکی حاالت کیا ہیں اور نہ ان کو ایسے چیزوں سے کوئی غرض ہوتا ہیں۔‬

‫‪2) Life of Responsible and a good Citizen‬‬


‫دوسری ایسی زندگی جس میں انسان اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو ادا کرتا ہو‪ ،‬ایک ذمہ دار انسان بنے‪ ،‬یعنی کہ وہ ہمیشہ اس‬
‫کوشش میں ہوتا ہے کہ میں ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دوں۔ مطلب کہ میں گندگی نہ پھیالؤ‪ ،‬میں قانون کی پاسداری کروں‬
‫اور میں اپنے رشتہ داروں اور دوسرے شہریوں کی بھی کسی نہ کسی قسم کی طرح کوئی مدد کروں۔‬
‫‪3) Life of Thinker and Philosopher‬‬
‫تیسری اہم زندگی ایک فلسفی اور تھنکر کی زندگی ہے جس کے لئے سب سے زیادہ خوشی یہ ہوتی ہیں کہ وہ علم کے‬
‫جستجو کریں‪ ،‬نئے علم کو سیکھے اور نئے نئے تصورات کو دریافت کریں۔‬
‫اس سے پہلے ہم نے سقراط اور افالطون کے اس بارے میں پڑھا ہیں‪ ،‬کہ ان کے مطابق اچھی اور اعلٰی معیار والی زندگی‬
‫صرف ایک فالسفر اور تھنکر کی زندگی ہے۔‬
‫مگر ارسطو کے مطابق یہ تینوں انسان کے مختلف پہلؤوں ہیں اور ارسطو کے مطابق ان تینوں پہلوؤں کو انسان اکھٹا لیکر‬
‫زندگی گزارے۔ ارسطو کے مطابق بہترین اور اعلٰی زندگی وہی ہیں جو مناسب اور معتدل ہو۔‬
‫یعنی کہ ہمیں ہماری زندگیوں میں علم کی جستجو بھی کرنے چاہئیے‪ ،‬اس کے ساتھ یہ بھی کہ ہم ایک ذمہ دار اور اچھے‬
‫)‪ (Harmony‬شہری ہونے کا بھی ثبوت دیں اور ساتھ میں سیر و تفریح بھی کریں۔ مطلب زندگی میں میانہ روی‪ ،‬ہم آہنگی‬
‫ہونی چاہیئے۔ )‪ (Moderation‬اعتدال‬
‫کا نام دیتے ہیں یعنی کہ دو انتہاؤں کے درمیان ایک متوازن درمیانی رستہ تالش کرنا۔ "‪ "Golden Mean‬اس کو ارسطو‬
‫اس کا مطلب بہادر شخص وہ نہیں ہے جو پاگلوں کی طرح کسی بھی جگہ لڑنا شروع کردے بلکہ اصل بہادر وہ ہے جو جانچ‬
‫پڑتال کرکے اعتدال اور سوچ سمجھ کے ساتھ لڑے‪ ،‬اسی طرح میانہ روی کا رستہ یہ نہیں ہیں کہ آپ پھٹے کپڑے پہنے یا‬
‫‪ (History of‬پھر یہ کہ آپ مہنگے مہنگے چیزیں خریدیں بلکہ یہ کہ آپ خوش لباس بھی ہو‪ ،‬صاف – فلسفہ کی تاریخ‬
‫)‪Philosophy‬‬
‫)‪ (History of Philosophy‬فلسفہ کی تاریخ –‬
‫قسط‪– 37 :‬‬
‫)‪ (Aristotle's Politics‬ارسطوئی سیاسیات –‬
‫اپنے منطقی نظام پر ارسطو اپنی سیاسیات کی بنیادیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ ارسطو کا یہ خیال تھا کہ؛‬
‫"‪"Man is a political animal.‬‬
‫یعنی انسان ایک سیاسی حیوان ہے‪ ،‬اس سے ارسطو کی مراد یہ تھی کہ انسان فطرتی طور پر دوسرے انسانوں کے ساتھ مل‬
‫حاصل )‪ (Potentials‬کر رہنا چاہتا ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے سے ہی انسان کو اپنی تمام صالحیات‬
‫کرنے میں مدد مل سکتی ہیں۔ یعنی جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے خیاالت و تصورات شئر نہیں کرتے اور ان سے‬
‫بھی مزید سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے تو سیکھنے کے بجائے ہم مزید علم سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو خود سیکھے‬
‫ہوۓ ہوتے ہیں وہ بھی ہم بھول جاتے ہیں۔ اس کا مطلب انسان ایک سیاسی و سماجی حیوان (حیات رکھنے واال) جاندار ہے‬
‫اور ارسطو کے مطابق انسانوں کی سب سے بہتر شکل ہے؛‬
‫"‪"Polis: city-state‬‬
‫یعنی ایک شہر کے جو شہری ہیں جب وہ اکھٹے ہوکر ایک بہتر اور منظم ریاست و حکومت کو تشکیل دیتے ہیں تو اس‬
‫حکومت و ریاست کے اندر ہی انسان اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے اور ایک بہترین ریاست کی تشکیل ہی انسانوں کی رینے‬
‫کی بہترین شکل ہیں۔‬
‫ارسطو کے مطابق ریاست ایک قدرتی و فطری امر ہے یعنی انسان کی فطرت میں یہ عنصر ہے کہ ہم نے چونکہ ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا ہیں اور جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں‪ ،‬ظاہر ہے ہمیں کچھ اصول و‬
‫قوانین کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہیں تو ان اصول و قوانین کی نتیجے میں ہی ریاستی ڈھانچہ بنتا ہیں اس کا مطلب؛‬
‫"‪"The city-state is a product of human nature.‬‬
‫یعنی ریاست کو تشکیل دینا انسانی فطرت ہے۔ انسان قدرتی طور پر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بہتر اصول و قوانین کے مطابق‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارے۔‬

‫)‪ (Population‬شہر کی آبادی •‬


‫کے حوالے سے ارسطو کا یہ خیال تھا کہ؛ )‪ (city-state‬سٹی اسٹیٹ‬
‫‪The number of citizens must not be more than 10,000; that is, the total population (i.e‬‬
‫‪including slaves, families, and so on) must not be more than 10,000.‬‬
‫یعنی ایک ریاست کے ماتحت کوئی بھی ایسا شہر نہیں ہونا چاہئیے کہ جس کی آبادی دس ہزار سے زیادہ ہو۔‬
‫ارسطو کا یہ خیال تھا کہ اگر کسی شہر کی آبادی دس ہزار سے زیادہ ہوجائے تو لوگ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے تک‬
‫نہیں ہونگے اور جہاں پہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے نہیں ہونگے تو وہاں قدرتی تعلق ہے وہ ٹوٹ جاتا ہیں اور وہ‬
‫شہر اتنا بڑا ہوجائے گا کہ وہ حکومت و ریاست کے کنٹرول سے باہر ہوجائے گا اور وہاں پھر قانون کی پاسداری ختم‬
‫ہوجاتی ہیں۔ اگر چہ آج الکھوں انسانوں کی آبادی پر مشتمل شہر موجود ہیں مگر بہرحال قدیم دور میں بالخصوص یونان میں‬
‫اتنے آبادی پر مشتمل شہر بھی بڑے شہر تصور ہوتے تھے۔‬

‫افالطون کی ری پبلک پر ارسطو کے تنقید •‬


‫)‪(Aristotle's Criticism of Plato's Republic‬‬
‫‪ (The‬جیسا کے ارسطو نے افالطون کے علمیاتی نظریے کو چیلنج کیا تھا‪ ،‬اسی طرح ارسطو افالطون کی دی ری پبلک‬
‫کو بھی چیلنج کرتا ہیں۔ )‪Republic‬‬
‫ارسطو کے مطابق افالطون نے ایک ایسی قسم کی ریاست کا تصور دیا ہیں جس میں انہوں نے زرائع پیدوار سے متعلق‪،‬‬
‫تجار (تاجر کی جمع) اور مزدوروں کے بارے کچھ لکھا ہی نہیں اور مزید یہ کہ افالطون کا جو حکمرانوں طبقے کے بارے‬
‫میں تصور تھا (یعنی نہ تو وہ اپنے ساتھ خاندان رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی زمین اور جائیداد ہوگی)‪ ،‬ارسطو کے‬
‫مطابق افالطون کے تصور کے مطابق حکمران تو زندگی کے ہر لطف اور خوشی سے دور ہوگئے اور اس کا مطلب جو‬
‫ہیں اگر وہ اس طرح سے ناخوشی کی زندگی گزار رہا ہیں تو ارسطو کے "‪ "Guardians‬سماج کا سب سے اہم طبقہ یعنی‬
‫مطابق پھر یہ کیسے ممکن ہیں کہ پورا سماج خوشحال ہوگا۔‬

‫ارسطو کی نیجی ملکیت کی ہمایت •‬


‫)‪(Aristotle's advocacy of private property‬‬
‫"‪"Aristotle depende private property and family.‬‬
‫ارسطو کے مطابق نیجی ملکیت کے نتیجے میں انسان اپنے نیجی ملکیت کو بڑھانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں‪ ،‬محنت‬
‫کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک سماج ترقی کی راہ پر‬
‫گامزن رہتا ہیں۔‬

‫ارسطوئی ریاست کا تصور •‬


‫)‪(Aristotle's concept of the State‬‬
‫ارسطو کے حوالے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ارسطو کا سیاسیات کا تصور افالطون کے بلکل الٹ ہیں۔‬
‫جیسے افالطون ایک مثالی سانچہ سے شروع کرتے ہیں کہ ایک مثالی ریاست ایسی ہونے چاہئیے جبکہ ارسطو اس کے بلکل‬
‫الٹ جاتے ہیں‪ ،‬ارسطو کے مطابق یہ اہم نہیں ہیں کہ ہم پہلے سے ہی ایک مثالی ریاست کا ڈھانچہ بنائے کہ ریاست ایسی‬
‫ہونے چاہیئے‪ ،‬ارسطو کے مطابق سب سے پہلے اس موجودہ ریاست و نظام کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ جو ابھی موجود ہیں۔‬
‫ارسطو اپنی شاگردوں کو بھی ادھر ادھر کے مختلف شہروں کی طرف بھیج دیتے ہیں اور ان شہروں کے تقریبًا ڈیڑھ سو آئین‬
‫کو اکھٹے کرتے ہیں اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔‬
‫مطالعہ کرنے کے بعد وہ ارسطو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو مختلف شہر ہیں ان کے مختلف اصول و قوانین اور نظام‬
‫ہیں۔‬
‫یعنی ایک طرف وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ ایسی ریاستیں‪/‬شہر ہیں کہ جن کا فقط ایک حکمران ہیں‪ ،‬کچھ ایسے ہیں جن کے کچھ‬
‫حکمران ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے بہت سارے حکمران ہیں۔‬

‫ارسطو کی مختلف ریاستوں کی درجہ بندی •‬


‫)‪(Aristotle's Categorization of the different type of States‬‬
‫)‪ (States with one Ruler‬ایک حکمران والے ریاستیں )‪۱‬‬
‫اب جن ریاستوں کا ایک حکمران ہے اور وہ ریاست بھی اچھے طریقے سے چال رہے ہیں تو ان کو ارسطو بادشاہت‬
‫یعنی )‪ (Tyranny‬کہتے ہے اور اگر وہ ریاست بری طریقے سے چل رہے ہیں تو اس کو ارسطو ٹئیرینی )‪(Kingship‬‬
‫ظالمانہ بادشاہت کہتے ہیں۔‬

‫کچھ حکمرانوں والے ریاستیں )‪۲‬‬


‫)‪(States with few Rulers‬‬
‫حکمران ہیں‪ ،‬اگر وہ اچھے طریقے سے ریاست و نظام کو چال رہے ہیں تو اس کو ارسطو )‪ (Few‬جہاں پہ کچھ‬
‫کا نام دیتے ہیں اور اگر وہ برے طریقے سے چال رہے ہیں تو ان کو ارسطو اولیگارکی )‪ (Aristocracy‬اریسٹکوریسی‬
‫کا نام دیتے ہیں۔ )‪(Oligarchy‬‬

‫بہت سارے حکمرانوں والے ریاستیں )‪۳‬‬


‫)‪(States with Many Rulers‬‬
‫اس طرح اگر بہت سارے حکمران ایک نظام‪/‬ریاست کو اگر اچھے طریقے سے نظام چال رہے ہیں تو اس کو ارسطو پولیٹی‬
‫کا نام دیتے )‪ (Democracy‬کا نام دیتے ہیں اور اگر وہ برے طریقے سے چال رہے ہیں تو اس کو وہ ڈیموکریسی )‪(Polity‬‬
‫ہیں۔‬
‫کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیں کہ ڈھائی ہزار سال بعد بھی ہم ابھی )‪ (Categorization‬اس درجہ بندی‬
‫میں یہی ارسطو کے اصطالحات استعمال کررہے ہیں۔ )‪ (Politics‬بھی سیاسیات‬

‫ٹیلیولوجی کا ریاست کی درجہ بندی میں کردار •‬


‫)‪(The role of Teleology in States Categorization‬‬
‫ہیں اور کونسی ٹئیرینی )‪ (Kingship‬اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارسطو نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ کونسی بادشاہت‬
‫کونسی پولیٹی ‪ (Oligarchy)،‬کا ہے اور کونسی اولگارکی )‪ (Aristocracy‬ہیں‪ ،‬کونسا ڈھانچہ اریسٹکرویسی )‪(Tyranny‬‬
‫۔)‪ (Democracy‬ہیں اور کونسی ڈیموکریسی )‪(Polity‬‬
‫پر یقین رکھتا تھا یعنی یہ نقطہ نظر کہ ہر چیز کا )‪ (Teleology‬ہم نے پچھلے اقساط میں یہ پڑھا ہے کہ ارسطو ٹیلیولوجی‬
‫کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اس تصور کو ارسطو نے یہاں پر بھی الگو کیا یعنی کہ ریاست بھی جس مقصد کے لئے بنائی ہے‪،‬‬
‫اس مقصد سے ہم اس چیز کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا وہ ریاست اچھی ہے یا بری یعنی؛‬
‫"‪"The end goals of the state determine its character/role.‬‬
‫لہزا ارسطو کے مطابق اگر ایک ریاست کا حکمران ایک ہو اور اس ریاست کے اندر تمام لوگ خوشخال بھی ہو تو ارسطو‬
‫ہے اور اس کے بجائے اگر وہ ریاست صرف چند مخصوص لوگوں کی مفاد میں )‪ (Kingship‬کے مطابق وہ اچھی بادشاہت‬
‫اولیگارکی میں اور پولیٹی )‪ (Aristocracy‬میں‪ ،‬اریٹسکوریسی )‪ (Tyranny‬ٹئیرینی )‪ (Kingship‬ہو تو وہ اچھی بادشاہت‬
‫میں ہو جاتے ہیں۔ )‪ (Democracy‬ڈیموکریسی )‪(Polity‬‬
‫نیز ارسطو ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہیں کہ ایک بری ریاست کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک انسان اچھا شہری‬
‫ہوسکتا ہیں‪ ،‬اگر وہ ریاست کے قانون کی پاسداری کرتا ہے اور ریاست کے قوانین نہ توڑتا ہو تو ارسطو کے مطابق وہ اچھا‬
‫شہری ضرور ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ اچھا انسان بھی ہے‪ ،‬اس کے الٹ ارسطو کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایک‬
‫غلط ریاست کے اندر ایک انسان قوانین کو نہ مانتا ہو اور نہ ہی وہ قانون کی پاسداری کرتا ہو‪ ،‬تو اگرچہ وہ اچھا شہری نہیں‬
‫سمجھا جاسکتا لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ انسان ہی برا ہو‪ ،‬وہ اچھا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جس اسباب کی وجہ سے وہ‬
‫قانون تھوڑ رہا ہیں شاید وہ اسباب اس انسان کی درست ہو۔‬

You might also like