Professional Documents
Culture Documents
Quest for philosophy
Quest for philosophy
فلسفہ وہ جو انسان کی ماّد ی مشکالت کے ساتھ ساتھ ،عقلی ،انفرادی ،اجتماعی ،نظریاتی اور غرض انسان کی تمام ُبنیادی
ُمشکالت کا حل دے سکے۔
فلسفہ وہ جو ایسے نظریات کو تشکیل دے کہ جو انسانوں کے باہمی تعلق کو بہتر بنانے اور امن میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ فلسفہ ہر مسئلے کا مسَلم اور محکم جواب فراہم کرے لیکن فلسفہ سے ہم بہتر سے بہتر فریم
تیار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ) (Frameworkورک
چونکہ سقراط کو یہ بات بلکل ناگوار نہ تھی جو سوفسٹس کررہے تھے کیونکہ یہ گروہ مزید آگے جاکر مغالطوں سے سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ممکنہ کوشش کرتے تھا اور ان کا یہ ماننا تھا کہ سچ اور جھوٹ کوئی شے نہیں
ہے۔ بلکہ سچ اور جھوٹ ،اچھائی اور برائی کا فیصلہ خود انسان کرتا ہے یعنی؛
(Man is the measurement of everything).
اپنی تواضع و انکساری اور شاید سوفسطائیوں کی َص ف سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کے پیِش نظر جو خود کو "سوفیست"
یعنی محِب علم و حکمت کہا۔ )" (Philosopherیا "دانشوار" کہالنا پسند کرتے تھے ،سقراط نے خود کو "فیلسوف
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود سقراط نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ فلسفہ اور فیلسوف کی اصطالح بعد میں رائج ہوئی ہے
لیکن حتمی فیصلہ کرنا ،کہ سب سے پہلے کس نے یہ لفظ اپنے لئے استعمال کیا بہرحال مشکل ہے۔
مجموعی طور پر فلسفہ دراصل آپ کی قوِت تعقل اور قوِت گویائی کو اجاگر کر دیتا ہے یہ آپ کو یہ سکھاتا ہے کہ آپ نے
کیا اور کیسے سوچنا ہے۔
مزید یہ کہ فلسفہ انسان کی فکر کو جہت دیتا ہے اور فلسفہ ہی سے انسان کی سوچنے کی صالحیت کو وسعت ملتی ہے۔
مختلف موضوعات کو مختلف پہلوؤں پر کیسے سوچا جائے اور کیسے سوچنا چاہئے ،یہ صالحیت انسان کو فلسفہ دیتا ہے۔
یاد رہے علماء اور تاریخ دان بالخصوص اسالمی علماء و مصنفین کے مطابق لفظ "فلسفہ" تاریخ کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ
تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے ؛
جیسے ؛
الف؛
تمام حقیقی علوم کو آج کی اصطالح میں فلسفہ کہا جاتا تھا۔ یاد رہے حقیقی علوم کے مقابلے میں اعتباری علوم ہیں۔
اب ان دو علوم کے اقسام کو ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ صحیح طرح سے ہم سمجھ سکیں۔
ب؛
دوسری اصطالح میں مختصرًا ،فلسفہ وہ علوم کہالئے جو غیر تجربی ہو۔ جس میں خصوصًا منطق ،خدا شناسی ،جمالیات،
سیاسیات اور اخالقیات شامل ہیں۔
ج؛
ہے۔ )" (Metaphysicsتیسری اصطالح میں فلسفہ جو استعمال ہوا وہ "مابعدالطبیعات
یعنی فلسفہ زیادہ تر میٹافزکس کے امور ہر ہی بات کرتا ہے۔
د؛
فلسفہ ایک اور مخصوص معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جس میں ہر مخصوص علم کے مقاصد اور اغراض شامل ہوتے
ہیں۔
کہتے ہیں۔ " "Philosophy ofجسکو ہم انگریزی میں
مثََال ہم جب کہتے ہیں کہ "سائنس کا فلسفہ" کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سائنس کا ماخذ ،سائنس کے اغراض و
مقاصد کیا ہیں یا سائنس کن فلسفی اصولوں پر کام کرتی ہے یا جیسے "سیاسیات کا فلسفہ" یعنی کونسے اصولوں پر سیاسیات
کی بنیاد ہے اور ان تمام کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔
مغربی فلسفہ ،جس میں روم ،یمن ،عیسائی ،اسالمی اور ماڈرن فالسفی سب شامل ہیں۔
فلسفے کو پڑھ کر ہم دراصل سائنس کی سوچ کو سمجھ سکیں گے ،تاریخ کو سمجھ سکیں گے ،آج کی سماج کو ٹھیک کر
سکیں گے۔
ایک فالسفر کو کس طرح سمجھنا چاہیئے ؟ –
یاد رکھے ایک فالسفر کو ُک ھلے سوچ سے پڑھنا چاہئیے۔ اگر آپ ِاس سوچ کے ساتھ پڑھیں گے کہ مجھے پتا ہے یا اس کو ۰
کچھ نہیں آتا تھا یا غلط تھا تو تو آپ اس فالسفر کو صحیح طرح سمجھ نہیں سکیں گے۔
ہر فالسفر کو اپنے تاریخی تناظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ اگر آپ اسے تاریخی تناظر اور سماج سے باہر نکال دیں گے ۰
تو آپ یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ وہ کس حالت میں کس سوال کا جواب دے رہا تھا۔ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکیں
گے ،اس لئے اس کا تاریخی پس منظر ضروری ہے۔
چونکہ ہر فالسفر کسی دوسرے فالسفر کے سوال کا جواب دے رہا ہوتا ہے تو اس کے مخالف نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی ۰
ضروری ہے۔
ہے کہ کسی خاص عالقے کے بادشاہ نے تاریخ کو اپنی نگاہ سے )تعصب( biasسب سے پہلے فلسفے کی تاریخ میں یہ ۰
بیان کیا ہے ،خواہ وہ جنگ کی تاریخ ہو ،فلسفے کی تاریخ ہو یا سیاست کی تاریخ ہو .جو بادشاہ یا جو گروہ غالب تھے وہی
اپنے نقطۂ نظر سے تاریخ لکھتے تھے۔
یہ کہ فلسفے کی تاریخ کو صرف مرد کی نگاہ سے لکھا ہے کیونکہ اس وقت مرد عورتوں پر غالب تھے۔ biasدوسرا۰
بھی شامل ہوگی۔ patriarchal biasیعنی فلسفے کے ان اقساط میں
اور آخری یہ کہ جو تاریخ پڑھتا ،پڑھاتا اور لکھتا ہے اس کی اپنے خیاالت بھی شامل ہوتے ہیں لہزا یہ پڑھانے والے پر ۰
انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنے تجربے کے مطابق کن فالسفرز کو زیادہ نمایاں کرتا ہیں اور فالسفرز کے کن کن نظریات کو
بھی شامل ہوگی۔ ) (pedagogical biasزیادہ دقیق نگاہ سے پیش کرتے ہیں یعنی ان اقساط میں
ہو ؟ ) (biasesاب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تاریخ کو پڑھنے کا کیا فائدہ جس میں اتنے سارے تحفظات و تعصبات –
کو بھی سمجھیں گے کہ اگر مردوں نے تاریخ لکھی ہے تو کیا تاریخ لکھی ہے biases ،اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہم ان
اگر حکمران طبقے نے تاریخ لکھی ہے تو اس نے کیا تاریخ لکھی ہے۔ یعنی ان تحفظات و تعصبات کو کس نوعیت سے
کو بھی سمجھنا بہت اہم ہے۔ biasesلکھی گئی ہے کیونکہ اس تاریخ کے نتیجے میں ہی ہمارا معاشرہ بنا ہے اور ان سب
جیسے ارسطو کہتا ہے کہ آپ کسی چیز سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن اسے مکمل طور پر سمجھنا ہی تعلیم کا مقصد ہے۔
پرانے شہر –
) (Aleppoالیپو )1
کے اندر وہ پہلے منِدر قائم ہوئے کہ جس کے BCہے وہاں پہ تقریبًا Aleppo 9400شام کے اندر ایک شہر ہے جس کا نام
ِاردگرد آبادی کے نتیجے میں شاید پہلے شہر قائم ہوئے۔
غرض یہ کہ اب ہمیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کس جگہ سے زرعی انقالب شروع ہوا اور کیسے پہلے شہر قائم ہوئے جہاں پر
پھر بتدریج فلسفہ پیدا ہوا۔
دونوں کام کیا کرتے تھے۔ ) (Domesticتو اسپارٹا کے اندر تقریبًا آدھے سے زیادہ لوگ غالم تھے اور وہ زرعی و گھریلو
میں اس سے بھی زیادہ غالم تھے مگر اسپارٹا اور ایتھنز میں فرق یہ تھا کہ ایتھنز میں Athensکہا جاتا ہے کہ ایتھنز
کام کیا کرتا کرتے تھے جو نہ غالم طبقے سے ) (Demosتھی جس میں فری لوگ ) (Navyکے پاس ایک نیوی demos
کا نیوی میں ایک اہم کردار ) (Demosتعلق رکھتے تھے اور نہ اریسٹوکریسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے چونکہ ڈماس
تھا تو اس کے نتیجے میں ان کا سیاست اور ریاستی امور میں بھی ایک اہم کردار تھا۔
یاد رہے اسپارٹا اور ایتھنز کا جو سیاسی نظام تھا وہ بالکل مختلف تھا۔
اسپارٹا میں جو ارسٹوکریسی (آقا) واال طبقہ تھا وہ مکمل طور پر سیاست پر قابض تھا لیکن دوسری طرف ایتھنز میں
کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتہ تھا اور اس سمجھوتے کے نتیجے میں ہی پولیٹیکل ) (Demosارسٹوکریسی اور ڈماس
.کہا جاتا تھا ) (Democracyکو ڈیموکریسی ) (Political systemسسٹم
اہم تھے اور ان کا اہم کردار تھا۔ ) (Demosاس لئے کہا جاتا ہے کہ ایتھنز کے لئے ڈماس ) (Democracyڈیموکریسی
میں غالموں اور عورتوں کو کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ان لوگوں کا ) (Democracyیہ بھی یاد رہے اس ڈیموکریسی
کوئی کردار تھا جو یونان سے تعلق نہیں رکھتے۔
پر ایک بڑا ثقافتی اور ) (Greekسب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو پورا غالم داری کا نظام تھاِ ،اس غالم داری نظام کا یونان
نظریاتی اثر تھا وہ یہ کہ ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،ان لوگوں کو بھی حقارت
کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو تجارت کیا کرتے تھے یعنی حٰت ی تجارت کو بھی غالمی سے منسلک کیا گیا تھا۔
صرف ان لوگوں کو زیادہ اچھا اور محترم سمجھا جاتا تھا جو دماغ سے کام کیا کرتے تھے جو دانشور تھے اور جو خالص
فالسفرز ہوا کرتے تھے۔
) (Demagogueڈیماگاگ –
کہا جاتا تھا۔ Demagogueکی نمائندگی کرتے تھے اسے ) (Demosاس دور میں ایسے لیڈرز بھی پیدا ہوئے جو ڈماس
کا مطلب ہے زبان یعنی وہ لوگ جو ڈماس کی زبان بولتا ہو یعنی جو ڈماس کے نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتا ہو۔ gogue
ان لوگوں کو کہا جاتا ہیں جو تقریر کے دوران ایسے نقطہ نظر پیش کریں کہ جو سچ بھی Demagogueلیکن آج کل
ہوسکتا اور جھوٹ بھی۔
) (Tyrantٹائرینٹ –
کا مطلب نہایت برا قسم کا Tyrantکہا جاتا تھا آج کل Tyrantمزید ایک ایسا قسم کا سیاسی لیڈر بھی پیدا ہوگیا جس کو
عامر ہے مگر اس زمانے میں ایک ایسا فرد جو امیر طبقے سے ان کی جائداد غریب طبقے میں تقسیم کرتا تاکہ نظام اعتدال
سے چل سکے ،وہ نہ غالموں کا نمائندہ تھا اور نہ ڈماس کا۔ اس کا تعلق ارسٹوکریسی طبقے سے ہوتا تھا مگر فرق صرف
اتنا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح امیر طبقہ اور ڈماس کے درمیان سمجھوتا قائم ہو۔
عورتوں کے حقوق –
یونان کا جو نظام تھا اس میں عورتوں کے بہت کم حقوق تھے ،اس وقت مرد عورتوں پر غالب تھے بلکہ یونان والے یہ
ہے۔ ) (Superiorسمجھتے تھے کہ مرد ہی اعلٰی
اور فاتح ) (Sportsmanاور جو یونانی ہیرو تھا وہ ایک کھالڑی " "The Heroتھا ) (conceptیونانیوں کا ایک کانسیپٹ
ہوا کرتا تھا۔ ان کو جنگ کا بڑا شوق ہوتا تھا۔
تو عورتوں کے حوالے سے جو خیاالت و تصورات تھے وہ یہ تھے کہ یہ تو کمزور ہے ،جنگ نہیں کرسکتی لہزا ان کے
مطابق عورت مرد سے کم درجہ حیثیت رکھتی ہیں۔
اس وقت اگر کوئی خاتون اثر و رسوخ رکھتی بھی تھی تو وہ یا تو اپنی خاندان کی وجہ سے یا اپنے طاقتور شوہر کی وجہ
سے رکھتی تھی۔
فلسفے کا آغاز –
یہ وہ تمام پس منظر تھا جہاں سے فلسفے کا آغاز ہوتا ہے۔ فلسفہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں کہ جو
اپنے آپ کو اس زمانے کے مذہب سے علیحدہ کرکے قدرت کے اندر جو مختلف سواالت ان کو نظر آتے ہیں یا زندگی کے
اندر جو مختلف سواالت ان کس نظر آتے ہیں ،ان کو وہ قدرت کے اندر قوانین تالش کرکے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان میں مختلف شخصیات شامل ہیں جیسے تھلیس ،انیگزمینڈر ،اینگزیمنیس وغیرہ لیکن ان کو ہم اگلے اقساط میں پڑھیں گے۔
مگر سب سے اہم بات یہ کہ سب سے پہلے فالسفر کا یہ خیال تھا کہ یہ جو تمام چیزیں قدرت میں ہمیں نظر آتی ہیں یعنی
درخت ،پتے ،پہاڑ ،آسمان ،زمین ،انسان اور جانور اور یہ تمام چیزیں جو مادے کی شکل میں نظر آتے ہیںِ ،ان تمام چیزوں
کی بنیاد صرف ایک مادہ ہے اور وہ مختلف شکل اختیار کر لیتی ہے یعنی کبھی انسان کا ،کبھی جانور کا تو کبھی پہاڑ کا
وغیرہ۔
کیا ہے؟ ،میں کون ہوں؟ ،کہاں سے Existenceتو فالسفرز گویا کہ وہ لوگ تھے جو بنیادی سواالت پوچھتے تھے جیسے
آیا ہوں؟ ،چیزیں کس طرح تبدیل ہوتی ہے؟ ،زندگی کیا ہے اور زندگی کا مقصد کیا ہے وغیرہ۔
) (Monismموِنزم –
دنیا کس چیز سے بنی ہے؟ ،کب بنی ہے؟ ،کیوں بنی ہے؟ ،انسان کا مقصد کیا ہے؟ ،زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ،جو مختلف
چیزے ہمیں نظر آتی ہیں کیا ہماری آنکھیں ہمیں دھوکا دے رہی ہے؟ ،جس طرح ہمیں دنیا نظر آرہی ہے کیا واقعی اس طرح
ہے؟ ،اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ وغیرہ۔
جو پہلے فالسفرز تھے ان کا یہ خیال تھا کہ جتنی بھی کائنات ہے وہ بنیادی طور پر ایک چیز سے بنی ہوئی ہے اور اسی
کہا جاتا ہے۔ ) (Monismسوچ و تصور کہ سب چیزیں ایک ہی چیز سے بنی ہے کو موِنزم
قبل از سقراط کے فلسفہ کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہیں؛
) (Foundersبانیان )۱
) (Challengersچیلنجرز )۲
)ِ (Synthesizersس نتھسائزرس )۳
پہلے وہ لوگ جو فلسفہ کے فاؤنڈرز یعنی بنیاد رکھنے والے تھے ،دوسرے وہ لوگ جنہوں نے پہلے بنانے والوں پر تنقید کی
تیسرے وہ لوگ جو تنقید اور اس سے پہلے بنے ہوئے فلسفے کو مال کر نئے جوابات تالش کرلیتے challengers،یعنی
کہا جاتا ہیں۔ ) (Synthesizersتھے جن کو سنتھسائزرس
) (Miletusمائلیٹس –
مائلیٹس وہ شہر جہاں سے فلسفہ شروع ہوتا ہے جو کہ آج ترکی کا شہر ہے۔ مائلیٹس ایک ساحل واال شہر تھا جہاں بہت
تجارت کی جاتی تھی۔
۔" "Milesian Schoolجو پہال فلسفے کا سکول شروع ہوا اسے کہا جاتا ہے مائلیژن سکول
مائلیژن سکول کے اور بھی کئی سارے نام ہیں جیسے؛
• Primitive monist materialism
• Primitive materialism
• Natural philosophers
A
\/
\ /
___________D /____ \E
/ \
___________B/________\C
/ \
/ \
کی بنیاد ہے جس کو تھیلیس تھیرم کے نام Trigonometryپھر تھیلیس نے وہ تھیرم پیش کیا جو کہ آج بھی مثلثیات یعنی
) (Linesمزید دو لکیر parallel linesہو اور وہ دو parallel linesسے پہچانا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گر دو
اور مزید دو لکیر ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہو جس طرح سے آپ parallel linesکر رہی ہیں یعنی وہ intersect
بن رہے ہو تو پھر جو مخصوص فاصلے A،B،C،D،E،Fیعنی ) (Pointsمیں دیکھ سکتے ہو اور یہ نقاط Figure
ہیں وہ مخصوص انداز میں برابر ہونگے۔ یعنی؛ )(distances
AD/AB = AE/AC = DE/BC
) (Monismمونزم –
تھیلیس کا شاید سب سے اہم تصور یہ تھا کہ جس کا انسانی سوچ پر بہت بڑا اثر ہوا وہ یہ کہ تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں
وہ ایک ہی چیز کے بنے ہیں ،یعنی ایک ہی چیز مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔ تھیلیس کا خیال تھا کہ وہ چیز پانی ہے جو
مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں ،کبھی انسان ،کبھی پہاڑ ،پتھر ،کھبی درخت اور کھبی بادل وغیرہ۔
کے مختلف ) (Waterیعنی ہر چیز جو دنیا کے اندر جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ تمام چیزیں درحقیقت صرف اور صرف پانی
شکلیں ہیں۔
کہتے ہیں اور اس طرح کے سوچ رکھنے والے Monismیہ تصور کہ دنیا کی ہر ایک چیز ایک مادے سے بنی ہے اس کو
کی بحث افالطون کے دور سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ Dualismاور Monismکہا جاتا ہے۔ Monistکو
حٰت ی جدید سائنسی دنیا میں بھی اس تصور یعنی مونزم پہ بڑا مباحثہ ہوتا ہے۔
زلزلے کی اسباب –
اینیگزیمینیڈر کی طرح اینیگزیمینیز کا بھی یہ خیال تھا کہ دنیا تیر رہی ہے۔ اینیگزیمینڈر کا خیال تھا کہ دنیا پانی پر تیر رہی
ہے لیکن اینیگزیمینیز کا یہ تصور تھا کہ دنیا ہوا پر تیر رہی ہے اور جب ہوا میں اونچ نیچ آتی ہے تو نتیجے میں زلزلہ آتا
ہے نہ کہ پانی میں لہروں کی وجہ سے۔
) (Microcosmمائکروکوسم –
اینیگزیمینیز نے ایک زبردست تصور یہ دیا کہ کائنات میں جتنے بھی قدرتی اصول اور قوانین ہیں ،جو ہمیں نظر آ رہے ہیں،
Cosmosجو ہم سمجھ پارہے ہیں ،وہ تمام قدرتی اصول اور قوانین ایک ہی انسان کے اندر الگو ہوتے ہیں۔ یعنی اگر دنیا
ہے۔ microcosmہے تو انسان
کے قانون کو لیا اور اس نے ) (Unity of oppositesاینیگزیمینیز نے اپنے استاد "اینگزیمینڈر" سے یونیٹی آف آپوزیٹٹس
ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ہی ہمیں ایک ) (Unity of Oppositesکہا کہ بالکل الٹ قوتوں کا تضاد
مسلسل تبدیلی بھی نظر آرہی ہے۔
تھیلیس ،اینیگزیمینڈر اور اینیگزیمینیز پہلے فالسفرز تھے جنہوں نے سوچ کی ایک نئی روایت شروع کی جسے آج ہم فلسفہ
کہتے ہیں۔
فیثاغورث کے بارے میں ہم نے جو بیان کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیثاغورث ایک سیاسی لیڈر بھی تھا اور ایک فالسفر
بھی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک وہ ایک مذہبی لیڈر بھی تھا یعنی پائتگورین سوچ جو ہے اس میں مذہبی عنصر بھی تھا۔ وہ
کونسا مذہب تھا ؟
مذہب سے متاثر تھے جو یونانی سوسائٹی کے اندر موجود تھا۔ Orphicتاریخ دان لکھتے ہیں کہ فیثاغورث
یہ سمجھتے تھے کہ ایک انسان کی روح مرنے کے بعد کسی دوسرے انسان یا کوئی اور چیز میں منتقل Pythagoreans
کہتے ہیں ،اگر اچھے اعمال ہو تو انسان کے اندر اور اگر Transmigration of soulہو جاتی ہیں جس کو انگریزی میں
برے اعمال ہو تو کسی اور چیز کے اندر منتقل ہو جاتی ہے جیسے جانور وغیرہ۔
\|
\ |
\ |
| \
\_|90°
یہ ثابت کیا کہ بیلڈرز سیٹ سکویرز mathematicallyتو اس نے پہلی بار " "a² + b² = c ²جب اس نے یہ ثابت کیا کہ
ہمیشہ 90°اینگل کیوں دیتا ہے اور کیوں اتنا اہم ہے۔ )(Builder's Set Square
فیثاغورث اپنے تھیری کو تمام چیزوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے تھے۔
ہیراکالئٹس کے کئ نام –
کیونکہ وہ پہلیوں میں لکھا ) (Heraclitus, The Riddlerہیراکالئٹس کے کئی نام تھے ،جیسے ہیراکالئٹس دی ریڈلر
کرتے تھے ،اس کو پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل تھا۔
اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے انسانیت سے نفرت کرنا شروع کیا تھا اور پہاڑوں میں چال گیا تھا وہاں اس نے
گھاس کھانا شروع کر دیا تھا۔
اسے کوئی پروا نہیں تھی کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔
بھی کہتے ہیں اسلئے ) ( The weeping philosopher,The darkیعنی وہ ایک درویش آدمی جیسا تھا۔ ہیراکالئٹس کو
کہتے ہیں کیونکہ وہ زہنی مریض تھا اور بڑی ڈارک قسم کی باتیں لکھتا تھا۔
) (Fireآگ –
ہیراکالئٹس کا خیال یہ تھا کہ تھیلیس ،اینیگزیمینڈر اور اینیگزیمینیز درست کہہ رہے تھے کہ دنیا میں ہر ایک شے ایک ہی
اور نہ َہ وا بلکہ وہ چیز آگ ہے جس سے تمام چیزیں بنی ہیں حتٰی Aperionچیز سے بنی ہیں لیکن وہ چیز نہ پانی ہے ،نہ
انسان کی روح بھی آگ اور پانی کا مالپ ہے۔
اور جو انسان اچھا ہوتا ہو یعنی اچھی سوچ رکھتا ہو اس کی روح آگ سے بنی ہوتی ہے اور جو برا انسان ہے اس کی روح
پانی سے بنی ہوتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ آگ کے نتیجے میں دنیا تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کو آگ میں ڈالتے ہیں تو وہ جل کر ،اس
کی ) (crackingکا کچھ حصہ راکھ بن جاتا ہے ،کچھ حصہ ہوا بن جاتا ہے اور کچھ حصہ آگ بن جاتا ہے اور جو کریکنگ
آواز آتی ہے وہ پانی کی توڑ پھوڑ کی آواز ہے ۔
پرانے زمانے میں آگ کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ آگ ایک اوزار ہے جس کے زریعے آپ کسی بھی چیز کو
دوسری چیز میں تبدیل کر سکتے ہو۔
ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛ –
All things are interchanges of fire and fire for all things just like goods for gold and gold for
goods .
یعنی کہ جس طرح ہم مارکیٹ میں جا کر سونا بھیج کر کوئی اور چیز خرید لیتے ہیں اسی طرح آگ بھی چیزوں کو تبدیل
کرتا ہے۔
) (Dialectsجدلیات –
ہیراکالئٹس کو جدلیات کا استاد بھی کہا جاتا ہے۔ہیراکالئٹس سے پہلے اینیگزیمینڈر اور اینیگزمینیز نے بھی جدلیات
پر بات کی لیکن وہ الگ الگ نتیجے پر پہنچے۔ )(Dialects
اینیگزیمینڈر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہ اپنے الٹ کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں اور ان دو چیزوں میں
مسلسل ایک جنگ جاری ہے۔
اینیگزیمینیز نے تھوڑا سا تبدیل کیا اور کہا کہ ہاں جنگ تو جاری ہے مگر اس تضاد کے نتیجے میں ایک متوازن
اور مسلسل تبدیلی بھی آرہی ہے۔ )(balance
کون درست ہے؟ اینیگزیمینڈر درست ہے یا اینیگزمینیز؟
یہ ایک سوال ہے۔
کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ دونوں ہی درست ہیں اور دونوں ہی غلط ہیں۔ ) (Debateہیراکالئٹس نے اس
۔)اب یہ کیسے ہو سکتا ہے دونوں ہی درست ہیں اور دونوں ہی غلط ہیں(
یہ یونانی زبان کا اک فقرہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک چیز " "Panta Rhaiہیراکالئٹس نے پہلی بات یہ کہی کہ
۔) (Everything flowsمسلسل بہہ رہی ہے
ہیراکالئٹس کہتا تھا کہ؛
Motion is the existence of things.
یعنی کہ کوئی بھی چیز مکمل طور پر ٹھہراؤ میں نہیں ہے اور مکمل ٹھہراؤ ناممکن ہے یعنی کہ چیزوں کا وجود ہی حرکت
کی بدولت ہے اور وہ کہتا تھا کہ؛
Ever newer water flows on those who step into the same river .
اس فقرے کا کئی طرح ترجمہ کیا گیا ہے ،مثال کے طور پر
Everything changes and nothing remains still, You can not step twice into the same stream,
We both step and do not step in the same river, We are and we are not, no man ever step
the same river twice.
اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک دریا میں قدم رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے ،آپ ہے بھی اور نہیں بھی یا اگر ایک بندہ
دریا میں قدم رکھے تو نہ وہ دریا رہے گا اور نہ ہی وہ بندہ۔
ہیراکالئٹس کا مطلب تھا کہ ایک لمحے سے جب ہم دوسرے لمحے میں جاتے ہیں تو وہ دریا جو کہ پہلے تھا اس کا پانی اب
تبدیل ہو چکا ہے اور جس پانی میں آپ نے پہال قدم رکھا تھا جب آپ دوسرا قدم رکھیں گے وہ پانی تو آگے چال گیا اب جب
آپ نے دوسرا قدم رکھا ہے اب جو پانی آپ کے قدم کو چھو رہا ہے وہ نیا پانی ہے۔
atاور دوسرے لمحے وہ بندہ تھا at time 1.01دوسرا یہ کہ وہ بندہ بھی تبدیل ہو چکا ہے ،ایک لمحہ پہلے بندہ تھا
تو اس بندے میں تھوڑی ہلکی تبدیلی آئی ہے یعنی نہ تو وہ پانی وہی ہے اور نہ بندہ۔ time 1.02
مگر دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دریا تو وہی دریا ہے ،پہلے بھی وہ مثََال دریائے سندھ تھا اور آج بھی وہی
دریائے سندھ ہے اور پہلے بھی وہی بندہ تھا اور دوسرے لمحے میں بھی وہی بندہ ہیں۔
وہ نہیں ہے یعنی وہ فرد بھی ہے اور ایک نیا فرد بھی ہے اور یہ وہی دریا ہے ) (exactlyوہ وہی فرد ہے مگر بالکل
وہی نہیں بھی ہے۔ ) (exactlyدریائے سندھ مگر بالکل
!اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہی فرد ہے یعنی ٹھہراؤ بھی ہے مطلب یہ کہ دونوں ٹھہراؤ اور تبدیلی ایک ساتھ
ہے ) (Contradictionیہ جو تصور ہے کہ ٹھہراؤ اور تبدیلی اکٹھے ہو جائیں ایک ہی وقت میں ہو رہے ہیں یہ تو تضاد
کیونکہ ٹھہراؤ اور تبدیلی دونوں ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں تو یہ اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں۔
کہتے ہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ دو متضاد چیزیں اکٹھی ہوجاتی ) (Contradictory Predicateاس کو ہم فلسفے میں
ہیں۔
میں لکھا کریں۔ ) (Contradictory Predicatesہیریکالئٹس کو یہ بہت شوق تھا کہ تقریبًا وہ تمام فلسفے کو
مثال کے طور پر وہ لکھتا تھا؛
• God is day and night.
• God is winter and summer.
• God is war and piece.
یعنی خدا دونوں چیزیں ہے دن بھی ہے عات بھی ہے ،گرمی بھی ہے اور سردی بھی ،خدا جنگ بھی ہے ،امن بھی ہے یعنی
ہے یعنی جس طرح سے ہم چیزوں یا دنیا کو اس طرح سے نہیں سمجھ سکتے جس طرح سے ہم دنیا contradictoryخدا
کو سمجھتے ہیں۔
ہیراکالئٹس کی موت –
یعنی جب آپ کے ) (edemaہو گیا تھا۔ ورم ) (edemaہیراکالئٹس کی موت تقریبًا 60سال کی عمر ميں ہوئی اس کو ورم
جلد کے اندر بہت زیادہ پانی اکٹھا ہوجائے۔
اس وقت کے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔
کسی نے ان کو کہا کہ تم اپنے جسم کے اوپر گھوبر ڈال دو اور پھر آپ دھوپ میں لیٹ جانا اور یہ جو سارہ پانی بھرا پڑا
ہے یہ گھوبر اور سورج کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا لیکن وہ پانی تو ختم نہیں ہوا ہیریکالئٹس خود ہی ختم ہوگئے۔
بہرحال ہیراکالئٹس نے جو بنیادی تصور دیا جس تصور میں اس نے دو متضاد تصوروں کو اکٹھا دیکھایا کہ دو متضاد چیزیں
جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔ ) (Debateاکٹھی ہو سکتی ہیں اس پر ایک لمبی بحث
،کو اٹھائے Hegalآپ
،کو اٹھائے Derridaآپ
،کو اٹھائے Karl Marxآپ
،کو اٹھائے Existentialismآپ
،کو اٹھائے Post Modernismآپ
اس پر آج تک بحث و مباحثہ جاری ہے۔
جس کا ذکر ہم آگے جاکر کریں ) (Parmenidesہیراکالئٹس کے بالکل الٹ جو فالسفر کھڑا تھا اس کا نام تھا پرمینیڈیز –
کے نتیجے میں ) (debateگے۔ سقراط اور افالطون کی جو بنیادی فلسفہ ہے وہ ہیریکالئٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان بحث
پیدا ہوتی ہے۔
میں آتے ہیں۔ " "Hellenistic Periodنے بھی جاری رکھے جو Stoicہیراکالئٹس کے جو بنیادی خیاالت تھے وہ مزید –
اس کا ذکر بھی ہم آگے جاکر کریں گے۔
ہم نے تھیلیس کو دیکھا ،اینیگزیمینڈر کو دیکھا ،اینیگزیمینیز کو دیکھا ،فیثاغورث کو دیکھا ،ہیراکالئٹس کو دیکھا اور ان –
سب میں ہم نے ایک مشترک چیز دیکھ لی اور وہ یہ تھی کہ کوئی بنیادی اصول اور قوانین ہیں کہ جس کے نتیجے پوری
کائنات چل رہی ہے۔
کو چیلنچ کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ Foundersاس کے بعد ہم ان فالسفرز کے بارے میں بحث کریں گے جو
تھیریز غلط ہیں۔
– Eleatics Challengers
Xenophanes, Parmenides, Zeno, Melisus
کہتے ہیں ان میں شامل ہیں؛ Synthesizersپھر اس کے بعد جو جواب دینے والے لوگ ہیں جس کو ہم
"Ampedocles", "Anaxagoras", "Leucippus" and "Democritus".
) (Monismمونزم –
پرمینیڈیز یہ کہتا تھا کہ یہ جو ساری کائنات ہے اس کے اندر جو مادہ ہے تمام چیزیں وہ ایک ہے یعنی وہ ایک قسم کا مونسٹ
تھا۔ )(Monist
دوسری بات یہ کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی یہ نہیں کہ وہ کسی وقت پیدا ہوئی۔ یونانی معاشرے میں یہ
ایک عام فہم تھی کہ دنیا اور کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی۔
ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے " "uniformتیسری بات یہ کہ وہ مکمل طور پر
ہے۔ ) (Necessaryاور آخری بات یہ کہ وہ الزم
کس طرح پرمینیڈیز اس نتیجے تک پہنچا کہ کائنات میں سب چیزیں جو ہیں وہ ایک ہے ،وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہے
ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ "، "uniformگی ،وہ الزم ہے
کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوگی "being" ،ہے ،اس کے بارے ميں ہم جان سکتے ہیں کیونکہ " "beingاب جو ہے جو
"Nonکوئی بھی خصوصیت ہو ،مادے کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے کیونکہ وہ وجود رکھتی ہے اور جو
ہے جو چیز ہے ہی نہیں اس کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ ہے ہی نہیں اور جو چیز ہے ہی نہیں "being
اس کے حوالے سے ہم کیا بات کر سکتے ہیں ،کہ اس کا رنگ کیا ہے اس کا سائز کیا ہے کتنی وہ بڑی ہے ،کتنی وہ چھوٹی
ہے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ ہے ہی نہیں۔
اس سے پرمینیڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صرف اور صرف وہ چیز ہے جو ہے جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں اس کے
.ہے " "beingبارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لہذا جو کچھ ہے وہ صرف
The only thing which exist us being.
یعنی اس دنیا میں خالء کہی پر بھی ممکن نہیں ہے۔
دوسرا یہ کہ جو چیز ہے ہی نہیں وہ ،وہ چیز نہیں پیدا کر سکتی جو ہے۔
Nothing comes from nothing.
یہ صرف پرمینیڈیز کا خیال نہیں تھا بلکہ یونانی معاشرے میں یہ عام بات تھی کہ جو چیز ہے ہی نہیں وہ کسی چیز کو جنم
ہے جو کائنات ہے ،وہ ہمیشہ cosmosنہیں دے سکتی جو کہ ہے لہذا جو بھی چیز وجود رکھتی ہے ،جو حقیقت ہے ،جو
میں سے پیدا نہیں ہو سکتی اور جو چیز ہے اس میں تبدیلی بھی نا ممکن ہے اس میں تبدیلی " "Nothingہوگی کیونکہ وہ
نہیں ہو سکتی۔
پرمینیڈیز نے اپنے آپ کو بالکل ہیراکالئٹس کے ُالٹ کھڑا کر دیا ،ہیراکالئٹس کے مطابق ہر چیز تبدیل ہورہی ہے۔
پرمینیڈیز نے کہا کہ تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ تبدیلی صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ جو چیز ہے وہ جب
کے تعامل " "non beingاور " "beingتبدیل ہوتی ہے تو وہ وہ چیز بن جاتی ہے جو پہلے نہیں تھی یعنی کہ تبدیلی ہمیشہ
کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ )(interactions
پہلے اگر میں اس لمحے میں ہوں تو اگلے لمحے میں جو بن جاؤں گا وہ اس لمحے میں نہیں ہوں جو اگلے لمحے میں بن
جاؤں گا ،وہ اس لمحے میں تو ہے ہی نہیں ،تو جو چیز ہے ہی نہیں یعنی پرمینیڈیز نے پہلے ہی کہہ دیا کہ جو چیز سرے
سے ہے ہی نہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور جو چیز ہے ہی نہیں اس سے ایسی کوئی چیز پیدا نہیں ہو
سکتی جو کہ ہے۔
کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مطلب " "non existenceاور " "existenceلہذا اگر تبدیلی جو ہے وہ
جو چیز ہے اور جو چیز نہیں ہے اس کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے تو جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں
لہذا تعامل ممکن نہیں ہے لہذا تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی ،دوسرے الفاط میں پرمینیڈیز نے یہ کہا کہ ہیراکالئٹس بالکل غلط کہہ
رہا ہے ،اس دنیا میں قطعی طور پر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی ہے۔
کو کہا جاتا ہے "non being" ،پھر اس نے یہ بات کی کہ کہی پر بھی کسی قسم کا خالء موجود نہیں ہے ،خالء بذاِت خود
وہ چیز جو کہ نہیں ہے اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جو چیز نہیں ہے وہ تو نہیں ہے لہذا خالء بھی نہیں ہوسکتی۔
) (Multiplicityکثرت –
بالکل ناممکن چیز ہے تمام چیزیں ایک ہیں ،اس کے اندر مختلف شکلیں اختیار نہیں " "multiplicityپرمینیڈیز یہ کہتا ہے کہ
کی جا سکتی کیونکہ ایک ہی چیز کی جب مختلف شکلیں ہوں گی تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ایک چیز دوسری شکل میں
تبدیل ہوئی ہوگی تب ہی وہ مختلف شکلیں اختیار کر چکی ہیں لہذا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ جو چیز ہے اور جو چیز
نہیں ہے ان کے درمیان تعامل کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہےاور چونکہ جو چیز نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں لہذا تعامل نہیں ہو
بھی نہیں ہو سکتی۔ " "multiplicityسکتا لہذا کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی چونکہ تبدیلی نہیں ہو سکتی تو کثرت یعنی
ہر چیز ایک ہی ہوگی ایک ہی قسم اور ایک ہے شکل کی۔
اب جب دنیا میں ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں تو بہت سے مختلف چیزیں نظر اتی ہیں ،ہمیں تبدیلی بھی نظر آتی ہے ،کبھی خالء
بھی نظر آتا ہے ،ہمیں چیزوں میں پیدائش اور موت بھی نظر اتی ہے ،چیزیں ختم ہوتی ہیں ،مختلف شکلیں اختیار کر لیتی
ہیں ،تو پرمینیڈیز کس طرح اس بات کو سمجھائیں کہ دنیا کے اندر ہمیں اتنے ساری تبدیلی کیسے نظر آرہی ہے؟
سے ) (sensesپرمینیڈیز نہیں یہ کہا کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں وہ ہم اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے حواس
ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں۔ ) (sensesمحسوس کر رہے ہیں اور یہ تمام حواس
کیوں دھوکہ دے رہے ہیں ؟
سے یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں ک جو چیز نہیں ہے اس کی کوئی ) (Deductive logicکیونکہ ہم استخراجی منطق
خصوصیت نہیں ہے لہذا وہ ہے ہی نہیں ،لہذا جو کچھ ہے وہ ایک ہوگا ،ہمیشہ سے ہوگا ،جو چیز ہے وہ الزم ہوگا ،جو ہے
یعمی کثرت نہیں ہوگی ،جو چیز ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لہذا جب تمام چیزیں ایک " "multiplicityاس میں کوئی
ہیں ،جب ہم استخراجی منطق سے ثابت کر چکے ہیں تو جو چیز بھی ہم اپنے انکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو بھی ہم اپنے
ہے ایک خواب ہے ،یہ غلط ہے۔ " "illusionسے سمجھ رہے ہیں وہ سب ایک دھوکہ ) (sensesحواس
اجتماِع َن قیَض ین –
)(The principles of non contradiction
مزید یہ کہ پرمینیڈیز نے اپنی پوری کی پوری تھیری اس بنیاد پر بنائی تھی کہ جس کو ہم کہیں گے استخراجی منطق
اس نے مکمل طور پر منطقی طور پر اپنی تھیری بنائی۔ ""deductive logic
اسے کوئی غرض نہیں تھا کہ دنیا کے اندر جو ہمیں آنکھوں سے نظر آرہا ہے ،کانوں سے سنائی دے رہا ہے وغیرہ حواس
سے سمجھ رہے ہیں ،اسے ان باتوں سے کوئی غرض نہیں تھا وہ صرف یہ کہتا تھا کہ منطق کے اصول ہمیں حقیقت تک
پہنچا سکتے ہیں اور کوئی چیز نہیں اور وہ ایک اصول وضع کرتا ہے یعنی اجتماِع نقیَض ین
(The principles of non contradiction),
جس کو بعد میں افالطون و ارسطو مزید وضاحت کرتے ہیں وہ ہم بعد میں پڑھیں گے۔
یعنی اجتماع نقیضین محال (ناممکن) ہے ،یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک چیز ہے بھی اور ساتھ میں وہی چیز نہیں بھی
ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ ناممکن بات ہے کہ آپ کہے کہ کوئی چیز نہیں ہے اور وہی چیز ہے۔ یا تو کوئی چیز ہے یا وہ چیز
نہیں ہے دونوں چیزیں اکٹھے ممکن نہیں ہوسکتی۔
جیسے اگر میں کہوں کہ میرے سامنے موبائل ہے بھی اور نہیں بھی ،یہ محال ہے یعنی دونوں ساتھ میں درست نہیں
ہوسکتے ،ہونا اور نہ ہونا ساتھ میں اکھٹے نہیں ہوسکتے۔
:دوسرے مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ،سوچیں کہ ہم دو عبارات پر غور کر رہے ہیں
"میرے پاس پاس سیب ہیں"
اور
میرے پاس سیب نہیں ہیں"۔"
اگر یہ دونوں عبارات ایک ساتھ درست ہوں یا دونوں غلط ہوں تو یہ اجتماِع نقیضین کی صورت ہوگی لیکن حقیقت میں ایسا
نہیں ہوسکتا ہے۔ یا تو آپ کے پاس سیب ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ دونوں عبارات کے درمیان خالف ورک ہے اور وہ ایک
ساتھ درست نہیں ہوسکتے۔
جو ہے وہ ہے یا نہیں ہے یعنی Aیا تو
) A must be be equal to A or A is not equal to A. (A= A or A≠A
اس کو کہتے ہیں۔ ) A≠Aاور (A=Aمگر دونوں چیزیں ممکن نہیں ہیں کہ
The principles of non contradiction.
پرمینیڈیز نے اس کو ایجاد کیا مگر اس نے مکمل طور پر اس کی وضاحت نہیں کی ،مزید آگے آپ دیکھیں گے کہ اس کی
نکلیں گے جس کا آگے ذکر ہوگا۔ " "metaphysical principles of logicوضاحت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں
بہرحال فلسفہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا وہ جو ہیراکالئٹس کی بات درست سمجھ رہے تھے کہ دنیا میں جو تبدیلی ہم انکھوں
سے دیکھ رہے ہیں وہ واقعی حقیقت ہے اور وہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ آنکھیں جو ہمیں دکھا رہی ہیں وہ ایک دھوکہ ہے۔
دنیا تبدیلی کے عمل میں نہیں ہے دنیا جو ہے وہ ُر کی ہوئی ہے ساکن ہے اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں ہے۔
پرمینیڈیز اور میلیسس میں جو بنیادی فرق تھا وہ یہ تھا کہ پرمینیڈیز یہ سمجھتا تھا کہ وقت جیسی کوئی چیز نہیں ہے ،جو
میں موجود ہے یعنی کہ یہ جو " "Ever Presentرکھتی ہے ،وہ جو کہ ہے ایک )وجود( " "existحقیقت ہے ،جو چیز
لمحہ ہے ،جس کے اندر ہم کھڑے ہیں ،یہی لمحہ پوری تاریخ میں ہمیشہ سے رہا ہے یعنی؛
There was no time, reality was in ever present.
وقت گزرتا ہے ،وقت ) (Infiniteمگر میلیسس کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وقت جو ہے وہ گزرتا ہے ایک المحدود
کا بنا ہوا ہیں جو المحدود ہیں۔ )لمحات( " "instancesجو ہے وہ چھوٹے چھوٹے
Time was made of an infinite numbers of small instances.
اور یہی بنیادی فرق دونوں کے تھیریز میں۔
) (Diagenesڈائیوجنیز کا رد –
کو یہ تھیری بتائی کہ کس طرح سے حرکت اور تبدیلی جو ہے وہ ناممکن چیز ہے تو Diagenesجب زینو آف ایلیا نے
نے جواب نہیں دیا مگر ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کے اس نے یہ کہا کہ تمہاری تھیری غلط ثابت ہوئی۔ Diagenes
تھا اس کے " "Tyrantجو ایک ٹائرنٹ " "Demolisبہرحال زینو آف ایلیا ایک سنجیدہ اور سیاسی آدمی تھا اور وہ ڈیمولس
خالف اس نے بغاوت کی جب وہ بغاوت کامیاب نہیں ہوئی تو اس نے قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ قتل کرنے میں کامیاب
نے اس کو پکڑ لیا اور اس پر تشدد کی جب اس پر تشدد کیا تو زینو آف ایلیا نے اپنی زبان کو اپنے " "Demolisنہیں ہوا تو
دانتوں سے کاٹ کر اس کے منہ میں تھوک دی۔
ہو یا Arrow Paradoxہو Dichotomy Paradoxزینو آف ایلیا کا جو فلسفہ ہے وہ دو پہلو سے بڑھا ہے پہال یہ کہ
ہو تینوں پیراڈاکسز میں ریاضی کے حوالے سے ایک نیا تصور دیا گیا اور وہ ہے Tortoise and Achilles Paradox
۔ یہ ایک ایسا تصور تھا جو کہ اس زمانے میں یونانیوں کو کم از کم معلوم نہیں تھا اس کو یہ Mathematical Infinity
نمبرز ہو سکتے ہیں اور شاید سب سے اہم بات یہ تھی کہ زینو نے دلیل " "infinityواضح نہیں تھا کہ دو نمبرز کے درمیان
۔" "Reduction to the Absurdکا ایک نیا طریقہ مہیا کیا جس کو ہم کہتے ہیں ""Argument
کو جب آپ اس کے آخری نتیجے پر premisesکوئی بھی فلسفہ ،کوئی بھی نقطہ نظر ،کسی بھی تصور کو ،کسی بھی
چیز ہے ،تو پھر اس " "Absurdپہنچاتے ہیں اور اس آخری نتیجے کا جب آپ کو پتہ چلے کہ وہ بالکل ناممکن چیز یا وہ
غلط ہے " "logical reasoningغلط ہیں یا آپ کے " "premisesچیز سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یا تو آپ کے
کی بنیاد بنی یہ " "Socrates method of philosophyکا طریقہ تھا یہ " "Reduction to the Absurdیہ جو
کی جو بنیاد ہے وہ بنیادی طور پر زینو آف ایلیا کے فلسفے نے رکھی ہے۔ ""Socrates Dialectic
اب جب الیاٹیک سکول نے اپنا چیلنج پیش کیا تو اگلے فالسفر کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر پوری کائنات صرف ایک
"nonاور " "beingقسم کا مادہ ہے تو تبدیلی کسی طرح ممکن ہے۔ جس طرح پرمینیڈیز نے کہا کہ تبدلی جو ہے وہ اگر
تو ہے ہی نہیں اور رہتا ہے " "non beingکے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور ) (interactionکے درمیان تعامل "being
اور وہ ایک قسم کی چیز ہے ،تو پھر ایک ہی قسم کی چیز میں تبدلی ناممکن ہے۔ ""being
نے اس کا حل تالش کیا جو ہم آگے اقساط میں پڑھیں گے۔ ) (Ampedoclesایمپیڈیکلیز
) (Hippocratesہیپوکریٹس –
میں۔ BCEمیں اور وفات ہو جاتی ہے BCE 370ہیپوکریٹس کی پیدائش ہوتی ہے460 ،
ہیپوکریٹس نے یہ تھیری بنائی کہ بالکل جس طرح دنیا میں چار مختلف عناصر ہیں اسی طرح انسان کے اندر چار مختلف
ہیں یعنی ؛ ""Humours liquids
۔" "phlegmاور اس کے بعد " "yellow bileاس کے بعد " "black bileاس کے بعد " "Bloodلسب سے پہلے
بھی متوازن ہوتی ہے ہم صحت مند " "personalityہوتا ہے تو ہمارے شخصیت " "balanceجب ان میں جو بھی متوازن
ہو جائے تو ہماری شخصیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ) (imbalanceبھی ہوتے ہیں جب ان میں کوئی غیر متوازن
زیادہ ہیں تو آپ بہت " "black bileمثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں خون زیادہ ہوگا تو آپ خوش مزاج ہوں گے ،اگر
زیادہ ہیں تو اپ غصے والے بن جائیں گے اور اگر اپ " "yellow bileہوں گے ،اگر آپ کے اندر ""depress
زیادہ ہوگا تو اپ ڈھلے بن جائیں گے۔ ""phlegm
میں لے ائیں تو پھر ہم ) (Balanceہیپوکریٹس کا یہ خیال تھا کہ اگر ہم ان چار چیزوں کو کسی نہ کسی طرح بیلنس
بیماریوں کو حل کر سکیں گے۔
) (History of Philosophyفلسفہ کی تاریخ –
قسط– 18 :
) (Anaxagorasاناگَز گورس –
میں۔ BCEمیں پیدائش ہوتی ہے اور وفات ہوتی ہے BCE 428اناگَز گورس کی تقریبًا 510
پہنچایا۔ ) (Athensاناگَز گورس وہ فلسفی ہے کہ جس نے فلسفہ کو ایتھنز
یہ کہا جاتا ہے کہ اناگَز گورس سقراط کا استاد بھی تھا اور اگراناگَز گورس نہ ہوتا تو فلسفہ کے بنیادی خیاالت کبھی بھی ایتھنز
نہ آتے۔ نہ سقراط ،نہ افالطون اور نہ ارسطو شاید پیدا ہوتے۔
اناگَز گورس علم فلسفہ اور سیکھنے کے اس قدر شوقین تھے کہ اس نے ایک لمبا سفر طے کیا کہ میں دنیا دیکھنا چاہتا ہوں،
میں دنیا کو سمجھنا چاہتا ہوں ،جب سفر سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی تقریبًا ساری جائیداد تباہ و برباد ہو چکی
ہیں ،اس کی زمین بنجر ہو چکی ہے ،اس کا کسی نے خیال نہیں رکھا۔ مگر اس کو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ کہتا
تھا کہ بے شک یہ جائیدادیں میرے پاس نہ ہو ،مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ،میں صرف فلسفہ سیکھنا چاہتا ہوں ،میں
صرف علم سیکھنا چاہتا ہوں۔
اس کے ایک دوست نے اس کے ملکیت کے تباہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا تو اس نے یہ کہا کہ یا تو یہ بچتی یا میں بچتا
اب یہ تباہ ہوئی ہے ،اب میں اپنے اصل عشق یعنی فلسفے کی طرف جا سکتا ہوں۔
وہ بہت ہی اہم سیاستدان تھے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ایتھنز میں (Pericles)،ایتھنز کا ایک سیاستدان تھا جس کا نام تھا پیریکلیز
جو محدود جمہوریت نظام ،جس میں غالم اور عورتیں حصہ نہیں لے سکتی ،اشرافیہ اور ڈیموس حصہ لے سکتے ہیں ،وہ یہ
چاہتا تھا کہ اس جمہوری نظام میں رہتے ہوئے لوگ کچھ تہذیب سیکھے ،کچھ آرٹ کے بارے میں سیکھے ،کچھ فلسفے کے
بارے میں سیکھے ،کچھ دنیا اور سائنس کے بارے میں سیکھے۔
لہذا اس نے اناگَز گورس کو دعوت دی کہ کیوں نہ آپ ایتھنز آئیں اور یہاں آکر اپنا فلسفہ پڑھائے۔
اناگَز گورس ایتھنز گیا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو پڑھایا۔
سے بھی متاثر تھے۔ " "Eleatic School of Thoughtبھی تھا اور ) (Pluralistاناگَز گورس دراصل ایک فلورلسٹ
مثال کے طور پر وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ جو چیز ہم حس سے سمجھ رہے ہیں ،آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں وہ ضروری
نہیں کہ سو فیصد درست ہو۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جس چیز کو ہم تبدیلی سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں تبدیلی نہیں ہے مگر وہی
مادہ دوبارہ سے ،کسی اور تناسب سے ،کسی طرح سے مل رہے ہیں لہذا مادہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی ہے مگر مادہ
کس طرح ایک دوسرے سے مکس ہو رہے ہیں شاید اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ہے۔
اناگَز گورس یہ کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو بنیادی طور پر مادہ ہے وہ یا ختم ہو جائے یا پیدا ہو جائے۔
جو مادہ ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا اور اس میں تھوڑی بہت رد و بدل ،تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں مادہ
کی مختلف شکل میں نظر آتی ہے۔
وہ کہتا تھا کہ؛
""There is everything in everything.
یعنی ہر شے کے اندر ہر شے پائی جاتی ہے ،اس سے اس کی اصل مراد یہ تھی کہ اگر مادے کی ایک چیز دیکھے ،کوئی
بھی چیز جیسے سیب ،پتھر وغیرہ تو وہ عناصر جو پتھر کے اندر ہے وہی عناصر کھانے کے اندر بھی ہیں اور مختلف
تناسب میں مکس ہوئے ہیں مگر ہر عنصر جو ہے وہ ہر چیز کے اندر پایا جاتا ہے۔
اناگَز گورس کو یہ خیال اس حوالے سے آیا کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو کھانے کے اندر جو اجزاء ہیں وہ ہمارے جسم کے
اندر تبدیل ہو جاتی ہے ،مثال کے طور پر ہمارے بال لمبے ہو جاتے ہیں ہماری ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں وغیرہ۔
تو اناگَز گورس کا یہ خیال تھا کہ کھانے کے اندر ہڈیاں ہوں گی ،بال ہوں گے ،کھانے کے اندر خون ہوگا ،کھانے کے اندر
جلد ہوگا وہ تمام چیزیں جو ہماری جسم میں بن جاتی ہیں وہ دراصل کھانے کے اندر تھوڑی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتی
ہے۔
آج ہمیں پتہ ہے کہ واقعی یہ تھیری درست تو نہیں ہے بہرحال اناگَز گورس مگر اس حوالے سے درست کہہ رہا ہے کہ کھانے
کے اندر جو اجزاء ہیں وہ ہمارے جسم میں تبدیل ہوتی ہے۔
اس نے اس کو مزید بڑھا دیا اس نے کہا کہ ہر چیز میں ہر چیز ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ برف بالکل
سفید ہوتی ہے مگر جب وہ پگھل جاتی ہے تو اکثر وہ کالے پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اناگَز گورس نے کہا کہ اس سفید
برف کے اندر کاال پانی پہلے سے موجود تھا سفید کے اندر کاال موجود ہے اور کالے کے اندر سفید موجود ہے ،ہر شے ہر
شے میں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے چیزیں دوسری چیزوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
تھا۔ اناگَز گورس کا یہ کہنا تھا کہ کائنات کے اندر " "The mindکا " "Nousشاید سب سے اہم اناگَز گورس کا جو خیا تھا وہ
میں لے کر آتا ہے اس کو " "actionان کو عمل " "mindایک " "Nousوہ ایک ) (Mixtureتمام عناصر کا مرکب
مرکب میں لے کر آتا ہے ،ان کو گماتا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں۔
جو ہے وہ اناگَز گورس کے لئے دیوتا نہیں تھی بلکہ ایک قسم کا اصول تھا ،ایک قدرتی قانون تھا جس کے تحت " "mindیہ
تھی ،ایک میکینسٹیک " "mechanismیہ دنیا چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اناگَز گورس کے لئے دنیا ایک
تفصیل تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ جسے یونان کے لوگ سمجھتے )(mechanistic
تھے کہ سورج اور چاند دیوتا ہیں مگر اناگَز گورس ان کو بالکل دیوتا نہیں مانتا تھا بلکہ اس کا یہ کہنا تھا کہ تمام سیارے جو
ہمیں آسمان کے اندر نظر آتے ہیں درحقیقت وہ اسی مادے کے بنے ہوئے ہیں کہ جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔
اب یہ تصور ایتھنز کے لوگوں کو بالکل پسند نہیں آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ تو آپ نے ہمارے دیوتا کے بارے میں بڑی
عجیب و غریب قسم کی بات کی۔
یعنی ایک لوہا ہے جو بالکل الل اور گرم ہو چکا ہے اور جو کہ جل رہا ہے۔ metalاناگَز گورس نے کہا کہ سورج ایک
اسی طرح اس نے کہا کہ چاند بھی اس چیز سے بنا ہے جس چیز سے دنیا بنی ہے اور یہ کہ چاند جو ہے وہ سورج کے
کر رہی ہے اور ہم دراصل چاند پر سورج کی روشنی دیکھ رہے ہیں ،اس نے کہا کہ ستارے جو ہیں وہ reflectروشنی کو
ایک قسم کے اگ بگوال پتھر ہیں۔
پیدا eclipseکے حوالے سے بھی بالکل درست کہا کہ جب چاند سورج کے سامنے آجائے تو پھر ایک Eclipsesاس نے
پیدا ہوجاتا ہیں۔ eclipseہوتا ہے یا زمین کا جو سایہ ہے وہ چاند پہ گر جائے تو بھی ایک
یہ سب باتیں جب اس نے کہی تو ایتھنز کے لوگ اس کے سخت خالف ہوگئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں آج
مکمل طور پر سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے اس کی ایک بھی بات غلط نہیں ہوئی۔ واقعی سورج اس مادے سے بنا ہوا
ہے جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔ اس طرح چاند اور ستارے بھی اس مادے سے بنے ہوئے ہیں جس مادے سے یہ دنیا
بنی ہوئی ہے یہ بات بھی درست ہے کہ سورج پر آگ لگی ہوئی ہے ،سورج کی روشنی ہی چاند پر نظر آتی ہے جو ستارے
ہمیں نظر اتے ہیں وہ بھی درحقیقت مختلف قسم کے سورج ہیں وہاں پر بھی آگ ہے اور وہی آگ ہمیں نظر آتی ہے سب باتیں
درست ہیں۔
مگر ایتھنز کے لوگ اس کے سخت مخالف ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دہریہ ہے۔ اس نے ہمارے مذہب کے خالف بات کی ہے
دی گئی کہ یا تو تم زہر کا پیالہ پی کے مر جاؤ یا تو پھر ہمارے شہر سے نکل " "choiceلہذا اس کو مار دیں گے اس کو
جاؤ لہذا اناگَز گورس نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں اور اس نے ایتھنز کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔
اناگَز گورس نے ایتھنز کو تو چھوڑ دیا مگر اس کا اثر جو تھا اس نے پوری ایتھنز اور پوری دنیا پر غلبہ دیکھایا اور خاص
اس پر بہت زیادہ اثر ہوا وہ کیسے ؟ " "Socratesطور پر ایتھنز کے ایک شہری جس کا نام تھا سقراط
۔) (Socratesاس کا جو آگے شگرد تھا وہ تھا سقراط (Archelaus)،کہ اناگَز گورس کا جو شاگرد تھا آرکیلیس
انسان کی روح –
ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ انسان کی روح جو ہے وہ بھی ایٹم سے بنی ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ جو
ہماری روح کی ایٹمز ہیں وہ مرنے کے بعد پھیل جاتے ہیں اور کسی اور روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ جب ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایمپیڈُک لیز نے کہا تھا کہ ہماری آنکھوں
سے شعاعیں نکلتی ہیں لیکن اس کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔
ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ہم چاند کی طرف دیکھتے ہیں تو چاند کے جو ایٹمز ہیں وہ ہمارے انکھوں کے اندر آتے
ہیں۔ اس طرح ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں۔
یعنی چاند کے ایٹمز ہیں ،روح کے ایٹمز ہیں اور ہر قسم کے ایٹمز ہیں۔
ایک ایٹم اور دوسرے ایٹم کے درمیان خالء ہے وہ خالء جس کے بارے میں پرمینڈیز کہتا تھا کہ وہ وجود نہیں رکھتا اسی
ایٹم سے بنا ہوا ہے اور Internal Indestructibleطرح دنیا کا جو مادہ ہے جو ہر طرف پھیال ہوا ہے وہ بنیادی طور پر
ان کے درمیان صرف خالء ہے۔
نیز ڈیموکریٹس کی اس پوری تھیری میں دیوتاؤں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی اس کے مطابق دنیا ایٹمز سے بنی ہوئی
ہے۔ Materialistہے اور ایٹم سے چل رہی ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس جو ہے وہ ایک
، metaphysicsکی بنیاد پر ایک پورا فلسفہ کھڑا کیا ،علم کا فلسفہ Atomic Theoryاس کے عالوہ ڈیموکریٹس نے اپنی
کا فلسفہ۔ ، epistemologyکا فلسفہ
) (Epistemologyعلمیات –
ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ دو قسم کے علوم ہیں؛
) (Illegitimate Knowledgeاللیجٹمیٹ علم )1
) (Legitimate Knowledgeلیجیٹمیٹ علم )2
سوچنے کی بات ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج سے 26 ،25سو سال پہلے ایک بندہ جو ہے وہ اٹامک تھیری پیش
کرتا ہے ،وہ ایٹامک تھیری تو نہیں جو آج کی ہیں مگر ایک قسم کی اٹامک تھیری تو ہے مکمل طور پر درست نہیں مگر
اپنی بنیاد میں تا درست ہے۔
اگر اس کی منطق کی طرف ہم دیکھے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہراکالئٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان جو بحث ہے کہ تبدیلی
سے ہو رہی ہے اور اگر نہیں interactionکی non beingاور beingہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی ہے اگر ہو رہی ہے تو
non beingہے ہی نہیں لیکن ڈیموکریٹس یہ کہتا ہے کہ وہ non beingہو رہی ہے تو یہ انٹریکشن ناممکن ہے کیونکہ
ہے ،یعنی خالء ہے اگر خالء ہے تو جو مادہ ہمیں نظر اتا ہے اس کا جو سب سے چھوٹا ذرا ہے ان کے درمیان خالء ضرور
موجود ہیں۔ اسی طرح اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام مادہ جو ہے وہ چھوٹے چھوٹے ذروں سے بنا ہوا ہے۔ جس کو اس نے
نام دیا ایٹم۔
بہرحال ڈیموکریٹس کی یہ تھیری واقعًا حیران کن ہے کہ بغیر کسی آلے ،بغیر کسی مادے کے حوالے سے بنیادی علم کے،
صرف اور صرف منطق کی بنیاد پر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا ایٹم سے بنی ہوئی ہے۔
یہاں ذکر ) (Dialogueاسی کے تناظر میں ،ہم اپنی عام زبان میں اور آسانی سے سمجھنے کے لئے سقراط کا ایک ڈائالگ
کرتے ہیں۔
آخری نکتہ یہ کہ اس مادی دنیا کے اندر جو مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ ہم حسیات سے محسوس کررہے ہیں اور
چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں مثًال گھوڑے کی جو ہمیں مختلف شکلیں نظر ) (concreteاس کے نتیجے میں جو مختلف کنکریٹ
آتی ہے ان شکلوں کو ہم ایک کلی طور پر اور یونیورسل شکل میں اس لئے پہچانتے ہیں کیونکہ اس کا تصوراتی اور
روحانی دنیا میں ایک عالمگیر تصور موجود ہے یعنی کے ہر چیز کا تصوراتی دنیا میں ایک عالمگیر تصور پایا جاتا ہے اور
جب ہم اس چیز کو انفرادی طور پر دیکھتے ہیں جیسے اگر ہم ایک انفرادی گھوڑے کو دیکھتے ہیں تو ہماری روح یا ہمارا
ذہن دراصل اس انفرادی چیز کو اصل و تصوراتی دنیا سے مال کر ہی پہچان کراتی ہے۔
افالطون نے اس تھیری سے کئی مسائل حل کیں مثًال اخالقیات کا مسئلہ ،سیاست کا مسئلہ ،تبدیلی کا مسئلہ اور حرکت و
) (Holistic Philosophyسکون کا مسئلہ اور کئی ایسے مسائل کو افالطون ایک جامع فلسفہ
تشکیل کرکے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
افالطون اس مسئلے اس طرح حل کیا کہ افالطون نے اپنے استاد سقراط کے فلسفے پر واپس کیا۔
اگرچہ سقراط نے میں قدرتی دنیا پہ کچھ نہیں لکھا تھا ،کم سے کم سقراط کا کام اور سقراط کی اپروچ ہمارے تک پہنچا ہے
وہ اخالقیات ہے مگر سقراط کا چیزوں کو سمجھنے کا جو طریقۂ کار ہے ،اس میں کچھ بڑی بنیادی اور مزیدار قسم کی بات
پہ پہنچے ،مثال کے ) (Universal Definitionsہے وہ یہ کہ سقراط کی ہمیشہ کوشش یہ تھی کہ وہ یونیورسل ڈیفینیشن
میں پڑھا کہ بہادری کیا چیز ہے ،اس کو وہ کھولنا شروع کرتا ہے بہادری کے ) (Dialogueطور پہ ہم نے پچھلے مکالمے
کانسپٹ کو ،اس کی ڈیفینیشن کو کھولتا رہتا ہے توڑتا رہتا ہے توڑتا رہتا ہے کہ اچھائی کیا ہے ،بہادری کیا ہے ،سچ کیا ہے،
علم کیا ہے وغیرہ اور اسی کے زریعے وہ گفتگو میں موجود تضاد کو آشکار کرتا تھا۔
سقراط کی زندگی اپنی زندگی میں جو کوشش تھی وہ ہمیشہ یہ تھی کہ سوفیسٹس کا جو ریلیٹو ازم ہے یا سبجیکٹو ازم ہے اس
کو رد کیا جائے کیونکہ سوفسٹس یہ کہتے تھے کہ کوئی مطلق اور معروضی سچائی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی چیز ایسی ہے
) (Relativeہے ،وہ ریلیٹو ) (Subjectiveجو مکمل طور پہ سچ ہوسکے .دوسرے الفاظ میں ہر چیز جو ہے وہ سبجیکٹو
ہے یعنی کوئی مطلق و معروضی سچ و جھوٹ اور حق و باطل نہیں ہے۔
لیکن سقراط اس اپروچ کے بلکل الٹ تھا ،سقراط ان کو شدید رد کرتے ہوئے کہتا تھا کہ نہیں یا تو چیز سچ ہے یا چیز جھوٹ
اور یہ ناممکن چیز ہے کہ آپ یہ کہیں کہ آپ کے لئے سچ ہے اور میرے لئے جھوٹ ہے ،یہ نامکن ہے۔
تو یعنی سقراط اخالقیات میں بھی معروضی ،عالمگیر اور مطلق حقائق کی تالش کرتا تھا۔
(Mathematicalیہ جو تصور ہے کہ سچائی ُاس قسم کی ہونی چاہیے کہ جس قسم کے ریاضیاتی ایگزیومیٹک سچائیاں
.ہیں )Axiomatic truths
میں ہی سچ ہو۔ ) (Definitionsایگزیومیٹکل سچائیاں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو اپنی تعریف
تو افالطون کا یہ خیال تھا کہ تمام جو دنیا کے اندر ہم چیزیں نکالتی ہیں ان کی بنیاد پہ کچھ اسی قسم کے سچ ہونے چاہئے جو
کہ ریاضیاتی تصورات کی طرح کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے۔
اور تصورات ہیں جو کہ ریاضیاتی تصورات کی طرح ) (Definitionsیعنی کہ تبدیلی کی دنیا کی بنیاد پہ کچھ ایسے تعریفیں
کھبی بھی تبدیل نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر گھوڑے کا کوئی ایسا تصور ہے کہ جو کہ جتنے مزید مختلف قسم کے گھوڑے بن جائیں وہ تصور جو ہے
اپنی جگہ سے ایک ریاضیاتی سچائی کی طرح کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی۔
کہتے ہیں (جس کا ہم پچھلے قسط "افالطون ) (Dualismافالطون کی جو علمیاتی نظریہ یا تھیری آف نالج ہے اس کو ڈیولزم
کی ڈیولزم" میں ذکر کر چکے ہیں)۔
پر یہ علمیاتی نظریہ بنتا ہے۔ ) (Levelsدو پہلوں یا دو سطح
سب سے پہلے تو ؛
– The spirited element
ہے وہ کہتا ہے کہ اس کو چھانٹی سے مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور elementجو کہ اچھائی کا elementیعنی وہ
حکم سے اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے اور وہ ہمیشہ اچھائی کی طرف بھاگتا ہے۔
دوسری طرف؛
– The bodily Appetites
وہ حصہ جس کو مسلسل لگام میں رکھنا پڑتا ہے اس کو کبھی کبھار چھانٹہ بھی مارنا پڑتا ہے کہ وہ آگے پیچھے نہ دوڑے۔
بہر حال یہ ضروری بھی ہے۔
ہے۔ " "charioteerاب عقل جو ہے وہ
• The charioteer (reason) controls the two horses.
یعنی عقل ان دونوں گھوڑوں کو لگام میں رکھتی ہیں اور دونوں گھوڑوں کو ایک طرف چالتی ہے۔
وہ ہوتی ہے جو کہ ان دونوں گھوڑوں ) (Harmonious Societyاور افالطون کے مطابق ہم آہنگ اور بہتر معاشرہ یعنی
کو عقل کے قابو میں رکھ کر درست سمت میں چال سکے یعنی کہ سب سے ضروری جو چیز ہے وہ کیا ہوئی وہ عقل و
منطق کی قوت ہوئی اور وہ فالسفرز کا بنیادی نقظہ نظر ہوا جو کہ سماج کو چال سکتا ہے۔
کا تصور دیتا ہے ،وہ یہ کہتا ہے کہ جسم کے حوالے ) (Harmonious societyافالطون دراصل ایک ہم آہنگ اور معتدل
سے جو مختلف قوتیں آپ کو ملتی ہیں اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں آپ کو آپ کے روح کے حوالے سے ملتی ہیں ،اسی قسم
کے حوالے سے ملتی ہیں اور اسی قسم کی ملتی جلتی قوتیں " "virtueکی ملتی جلتی مختلف قسم کی صفتیں ہیں وہ آپ کو
آپ کو ریاست کے حوالے سے بھی ملتی ہیں۔
یعنی کے سب سے پہلے تمام چیزیں ہم جسم ،روح ،صفتوں اور ریاست میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
جسم کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف دماغ ہے ،دوسری طرف سینہ ہے اور تیسری طرف پیٹ ہے۔
کی کرسی ہے۔ Reasonیہ مختلف قسم کی قوتیں ہیں اور ذہین ہماری روح کے حوالے سے
""It is the seat of reason.
سر ،سینہ اور پیٹ –
سے ہماری بہادری نکلتی ہے جس سے ہم لڑ سکتے ہیں (chest) ،افالطون کے مطابق سر میں منطق بیٹھی ہوئی ہے ،سینے
وہ کام کرسکتے ہیں جو ضروری ہے اور پیٹ سے ہماری وہ قوتیں نکلتی ہیں جو ہماری ضروریات ہیں جس پر ہم نے قابو
پانا ہوتا ہے۔ ہم نے کھانا کھانا ہوتا ہے ہمیں جسم کو تمام غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور بھی جسمانی ضروریات وہ سارے
پیٹ سے جنم لیتی ہے۔
میں عقل ،چھاتی میں جرآت اور پیٹ میں ضرورت یعنی کہ مادے کا جو جسم ہے اس کی جتنی بھی Headیعنی کہ
ضرورت ہیں۔
) (Characteristicsصفتیں –
اسی کے ساتھ کچھ صفتیں جوڑی ہوئی ہیں۔
۔ یعنی اس پر قابو پانا کہ " "Temperanceچھاتی کے ساتھ بہادری اور پیٹ کے ساتھ اعتدال "wisdom"،ذہن کے ساتھ
یعنی پیٹ کے ضرورت جو ہیں وہ کبھی بھی بے قابو نہ ہو جائے۔ Appetitesکس طرح سے ہماری
جو لوگ چھاتی سے کام لیتے ہیں ،وہ لوگ بہادر ہیں ان کو سپاہی بننا چاہئے تاکہ وہ اس سماج کا دفاع کرسکے۔ •
اور وہ لوگ جن کی شخصیت پیٹ سے نکلتی ہے ،جو کام کرنے والے لوگ ہیں ،جو ہماری مادی ضروریات پورے کرتے •
۔""workersہیں ۔ وہ لوگ بنے تاجر اور مزدور۔
ہے وہ تین طبقوں میں تقسیم ہوئی ہیں ایک وہ جو دماغ سے کام لیتے ) (Ideal Republicیعنی افالطون کا جو مثالی ریاست
جو دفاع کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو solidersدوسرے وہ جو چھاتی سے کام لیتے ہیں وہ ہیں Guardians،ہیں یعنی
ہیں جس کی وجہ سے ریاست زندہ رہتی ہے اور جس کی وجہ سے ہماری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ workers
بھی دیکھ سکتے ہیں اور ہیپوکرائٹس microcosmکا ) (Anaximanesایک طرح ہم اس کے اندر ہم اینگزیمینز
کی وہ سوچ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جسم کے نظام کے اندر جب ہم آہنگی اور اعتدال ہوگی تو جسم کا )(Hippocrates
نظام اچھے سے چلے گا۔
جب چار عناصر جس کا ذکر ہیپوکرائٹس نے کیا تھا اگر درست تناسب میں ہونگے تو جسم ٹھیک چلے گا۔
اسی طرح سماج کے حوالے سے بھی جو تین قسم کے طبقے ہیں جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونگے تو اس کی
جو قدرتی قوت ہے وہ اپنے قدرتی کام کریں گے اور پھر ایک معتدل بنتی ہے اور بہتر چلی گی۔
یعنی سماج بھی ایک جسم کی مانند ہے کہ جس کے اندر جب درست تناسب سے چیزیں جوڑیں گی تو پھر سماج بہتر چلے گا۔
پیش کرتا ہے جو کہ ایتھنز اور اسپارٹا سے بہت مختلف ہے یعنی ایک نئی قسم کی ) (Republicافالطون ایک ایسے قسم کا
ریاست کا تصور ہے۔
جو ہے وہ ہیں ؛ categoryاس میں سب سے اہم
""Guardians and Rulers
نے اس نظام کو چالنا ہے جو کہ سماج کا وہ دانشور طبقہ ہیں جس نے عقل ) (Guardiansکیونکہ سرپرست اور حکمران
کی طاقت سے فیصلے کرنے ہیں۔
اور افالطون کے مطابق یہ جو دانشور طبقہ ہے یہ ان لوگوں کا بننا چاہئیے جو کہ اس سماج میں سب سے زیادہ ذہین ہو اور
کے لئے ہم ایک مکمل نظام قائم کریں تاکہ یہ مکمل طور پر آپنے ) (Trainingافالطون یہ پیش کرتا ہے کہ ان کی تربیت
زمانے کے ماہرین بنے۔
ہونی چاہئیے تاکہ علم کے نہج پر پہنچ جائے کہ وہ سماج کو چال ) (Trainingافالطون کہتا ہے کہ ان کی 35سال تربیت
سکے
اس تربیت میں یہ سب چیزیں شامل ہونگے؛
Mathematics, Physics, Art, Music, Physical training, Biology, Medicine, Psychology and
Literature.
یعنی کہ ان کو سماج کے تقریبًا تمام علوم پر عبور حاصل ہوگا ۔
افالطون کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ افالطون کا خیال تھا کہ دو بنیادی چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کے
نتیجے میں انسان جو ہے وہ اچھائی کے راستے کو چھوڑ کر غلطیاں کرتا ہے ،بد کرتا ہے اور وہ دو چیزیں ہیں؛
""Marriage and property
اس لئے کیونکہ شادی کے نتیجے میں جب انسان بچے پیدا کرتا ہیں تو پھر افالطون یہ کہتا ہے کہ سماج سے پہلے پھر وہ
پہلے اپنی فیملی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس کے عالوہ جب آپ کے پاس کوئی ملکیت ہوتی ہے تو پھر آپ اپنے
ملکیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔
تو افالطون یہ چاہتا ہے کہ حکمران (فالسفرز) جو عقل سے کام لیتے ہیں اور جن کا ان تمام علوم پر عبور ہوگا ،ان کی نہ تو
کوئی فیملی ہوگی اور نہ کوئی ملکیت ہوگی۔
وہ ایک ایسی جگہ پر رہینگے کہ جہاں کھانا ،کپڑے وغیرہ ان کو دیئے جائنگے اور اگر ان کے بچے ہوجائے تو ان کی
دیکھ بھال ریاست کرے گی ان کا اپنے بچوں سے زیادہ واسطہ نہیں ہوگا۔
کے اندر خواتین بھی شامل تھی۔ افالطون عورتوں کے حوالے سے بڑا ترقی پسند ) (Guardians classاس
آدمی تھا وہ کہتا تھا کہ عورتوں کے پاس بھی منطق کی قوت ہیں۔ وہ بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں اور )(Progressive
ہونی چاہئیے بلکہ افالطون نے کہا کہ اگر ایک ) (Physical Trainingافالطون کے مطابق خواتین کی بھی جسمانی تربیت
اپنی صرف ایک بازو کو ہی ) (Athletesکریں تو یہ ایسی بات ہے کہ جس طرح کھالڑی trainریاست صرف مردوں کو
کرے۔ train
یعنی جب تک ایک پہلوان دونوں بازوں کو تربیت نہیں دیتے وہ پہلوانی نہیں کر سکے گا تو خواتین کی تربیت بھی اس میں
شامل ہونی چاہئیے۔
مگر دونوں مرد اور عورت پر یہ اصول سختی سے الگو ہونگے۔کہ ان کا نہ کوئی خاندان ہوگا اور نہ کوئی جائیداد ہوگا۔
اس کے عالوہ افالطون کہتا ہے کہ وہ شاعر جو ادھر ادھر کی بیکار شاعری کرتے ہیں ان کی شاعری کی ضرورت نہیں
ہے۔
اس کے عالوہ افالطون یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے کو ایک جگہ معتدل انداز سے چالنے کے لئے حکمرانوں اور
بولنے کی اجازت ہے۔ اگر جھوٹ کے نتیجے میں ) (Noble lieکو اچھا جھوٹ ) (Guardiansسرپرستوں/حکمرانوں
معاشرہ صحیح سمت میں جائے تو وہ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔
ہم افالطون کے تصورات و نظریات کے ساتھ اختالف تو کرسکتے ہیں مگر افالطون کو کوئی بھی فلسفی نظرانداز نہیں
کرسکتا۔ تقریبًا دو ہزار سال تک ہر فلسفی وہی سے شروع کرتا ہے جہاں افالطون نے اپنی بات ختم کی تھی۔
یعنی اگر کلی طور پر ارسطو کے علم کو دیکھا جائے تو انہوں نے تقریبًا ہر علم پر کچھ نہ کچھ لکھا اور جو آج کے جدید
) (Classificationیونیورسٹیوں میں ہمیں مختلف مظامین اور موضوعات ملتے ہیں وہ وہی ہیں جن کی بنیادی درجہ بندی
ارسطو نے کی تھی۔
دراصل ارسطو نے سب سے پہلے ایک منظم منطقی نظام مرتب کیا اور جب وہی منطقی نظام انہوں نے مختلف موضوعات
پر الگو کیا تو ہر مضمون اور ہر موضوع میں کوئی نہ کوئی نئی دریافت انہوں نے دنیا کے سامنے رکھی۔
سے شروع کرتا ہے یعنی کہ ) (Literature reviewیعنی ادب کا جائزہ ) (Indoxaسب سے پہلے ارسطو ایک اینڈوکسا
اس سے پہلے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر دیں وہ یہ دیکھتا ہیں کہ باقی جنہوں نے لکھا ہیں وہ کیا اور کیسے لکھا ہیں اور ان کو
کہتے ہیں۔ )جدلیات( ، Dialecticsارسطو
اس سے دراصل ارسطو کی مراد یہ تھی کہ مختلف فلسفیوں کے ایک دوسرے کے مخالفت میں کیا آراء پائی جاتی ہیں ،ان کو
پہلے پڑھا اور سمجھا جائے۔
ہیں ) (Debateیعنی کہ پہلے اینڈوکسا یا ادب کا جائزہ اور دوسرا ڈائلیکٹکس یعنی فالسفرز کے درمیان جو اہم بحث و مباحثہ
اس کو سمجھنا۔
ارسطو اسی دو پہلوؤں کو اپنے منطقی نظام سے گزارتا ہے اور ان کو مزید تراشتا ہیں جب تک کہ وہ کوئی نئی دریافت نہ
کرلیں۔
کہا جاتا ہیں جس میں ان کے کئی کتب شامل ہیں ،جیسے؛ ) (Organonارسطو کے منطقی نظام کو آرگنون
• Categories
• On interpretation
• Prior Analytics
• Posterior Analytics
• Topics and the Sophistical Refutations
یہ وہ کتب ہیں جو ارسطو کی منطقی نظام کی وضاحت کرتی ہیں۔
کو ارسطو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں؛ ) (Sciencesباقی سائنسز
) (Theoretical Sciencesنطریاتی سائنسز )۱
جیسے؛ نیچرل فلسفہ ،ریاضی ،طبیعیات (فزکس) اور مابعدالطبیعیات۔
یہ علم برائے علم حاصل کیا جاتا تھا یعنی اس علم سے کوئی عملی زندگی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی تھی۔
) (Formفارم •
فارم وہ شکل و صورت ہے کہ جب وہ مادی چیز بن جاتی ہیں۔ مثًال ایک سفید اور چار منزلوں والی بلڈنگ کے یہی سفیدی
اور چار منزل کو فارم کہہ سکتے ہیں یعنی کس ترتیب سے کیسے بنی ہے اور جس مادی چیز سے وہ بنیادی طور پر بنی
ہے وہ اس کی "سبسٹانس" ہے۔
) (Potentialityصالحیت –
موجود ہوتی ہے۔ ) (Potentialityمزید ارسطو یہ کہتے کے کہ ہر سبسٹانس کے اندر فارم بننے کی ایک صالحیت
مثًال پتھر میں یہ صالحیت موجود ہے کہ اس سے ہم ایک بہترین قسم کا مجسمہ بنائے ،مٹی کے اندر یہ صالحیت ہے کہ وہ
برتن بن جائے ،یہاں پتھر اور مٹی "سبٹانسز" ہیں اور مجسمہ اور برتن "فارمز" ہیں۔
کے اندر یہ صالحیت نہیں ہے کہ وہ ایک مجسمہ بن جائے یعنی کہ ارسطو کے مطابق ہر سبسٹانس کی اندر ) (airلیکن ہوا
کی صالحیت موجود ہوتی ہیں۔ ) (Rangeرینج ) (Limitedایک محدود
ہوئے ہیں ،جب اس کو خوراک ،پانی اور ہوا ملتی ہیں تو وہ کس طرح سے اور ) (mixاس بیج کے اندر جو عناصر میکس
ہوا۔ ) (Formal Causeکس منفرد شکل و صورت اور خصوصیت کے ساتھ وہ درخت بنتا ہے یہ اس کا فارمل کاز
اس بیج کو جب ہم زمین کے اندر ڈالتے ہیں تو اس کو جو ہوا اور پانی وغیرہ ملتی ہیں تو یہ ہوا ،پانی اور خوراک وغیرہ ۰
ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ بیج مسلسل درخت بنتے جارہا ہیں۔ ) (Efficient Causesاس کے ایفشنٹ کازس
یا ) (Final Causeاور جب وہ بیج مکمل نتیجے تک پہنچ جائے یعنی ایک مکمل درخت بن جائے تو یہ اس کا فائنل کاز ۰
فائنل نتیجہ ہوا۔
) (Teleologyٹیلیولوجی –
ہے۔ ) (Teleologyارسطو کا یہ خیال تھا کہ قدرت کے اندر ٹیلیولوجی
"Teleology: "Purpose behind everything in nature.
یعنی ارسطو کے مطابق ہر چیز ایک خاص مقصد کے لئے بنی ہوئی ہیں اور وہ جو مقصد ہے جہاں تک اس چیز کو حتمی
ہے۔ وہاں جاکر وہ مزید تبدیل نہیں ہوتی ) (Final causeپہہنچنا ہے وہ دراصل اس چیز کی حتمی صالحیت اور حتمی وجہ
اور چیزوں کی ان کے آخری شکل و صورت اور حتمی مقصد سے ہی ہم اس کی مختلف کیٹگیریز بناتے ہیں۔
یعنی یہ جو مقصدیت ہیں اور ہر چیز کے اس کے مقصدیت سے ہی پہچانی جاسکتی )،آج کل کے سائنسدان یہ نہیں سمجھتے(
ہیں ،یہ آج کے دور میں سائنسدان تسلیم نہیں کرتے۔
بناتے ) (Premisesبناتے ہیں ،دوبارہ سے سیلوجزم یہ ہیں کہ ہم پہلے دو پرمسس ) (Syllogismمزید ارسطو سیلوجزم
ہیں جو اپنے آپ میں درست اور سچے ہو اور اس کی بنیاد پر ہم درست نتیجہ نکالتے ہیں۔
ہوتے ہیں اور ان دو پرمسس سے کوئی نہ کوئی نتیجہ ہم نکالتے ہیں۔ ) (Premisesیعنی سیلوجزم میں دراصل دو پریمسس
(Minorکہا جاتا ہے اور دوسرے پرمس کو مائنر پرمس ) (Major Premiseان دو پرمسس میں ایک کو میجر پرمس
کہا جاتا ہے۔ )Premise
مثال کے طور پر؛
"1st Premise: "All A's are B's
"2nd Premise: "All B's are C's
Conclusion: All A's are C's.
ہیں تو اس کا مطلب تمام اے ) (Cسی ) (Bہیں اور یہ بھی سچ ہیں کہ تمام بی ) (Bبی ) (Aاب اگر یہ سچ ہے کہ تمام اے
کے برابر ہیں۔ ) (Cسی )(A
آسان الفاظ میں یہ کہ؛
• If A = B
and
•B=C
then
•A=C
ایک روزمرہ زندگی کے مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے؛
،ہیں ) (Mammalsتمام گائے ممالیہ •
،تمام ممالیہ جانور ہیں •
نتیجہ یہ کہ؛
تمام گائے جانور ہیں۔ •