پاکستان اور نظام تعلیم

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 2

‫پاکستان اور نظام تعلیم‬

‫لفظ تعلیم عربی زب ان کے لف ظ "علم" س ے نکال ہے۔ جس کے مع نی جانن ا‪ ،‬معل وم کرن ا‪ ،‬روش ن ہون ا‪ ،‬واقفیت ی ا حکمت‬
‫حاصل کرناہے۔‬
‫لفظ علم تین الفاظ کے پہلے حروف سے مل کر بنا ہے۔‬
‫یعنی بندہ یا عبادت کرنے واال‬ ‫ع سے عبد‬
‫یعنی روشن چمکدار یا واضح نظر آتا‬ ‫الم سے المع‬
‫یعنی عبادت کے الئق‬ ‫میم سے معبود‬
‫یوں علم کے معنی یہ ہوئے کہ عبد اپنے ارد گرد ج و بھی چ یز بغ ور دیکھے وہ معب ود ک ا ض رور اع تراف ک رے۔ یہ اں‬
‫روشن کا مطلب دیکھنا ہے کیونکہ لفظ المع یعنی روشن اور نظر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ روشنی کے بغیر آنکھ یا نظر‬
‫بےکار ہے اور نظر یا آنکھ کے بغیر روشنی بیکار ہے۔ یعنی دونوں الزم و ملزوم ہیں۔ ہللا تعالی نے کوئی بھی چیز بیکار‬
‫نہیں بنائی۔ ہر چیز کسی نہ کسی چیز کا سہارا چاہتی ہے۔ لفظی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علم وہ ہے جو عبد‬
‫کو معبود کی پہچان کرواتا ہے۔ ہللا کے قریب لے آتا ہے۔ انسان کی ترقی علم سے وابستہ ہے۔ دنیا میں ب ڑے ب ڑے انقالب‬
‫علم ہی کی وجہ سے آئے ہیں۔ انسانی تمدن نے اسی کے بل پر ترقی کی۔ جو فرد یا قوم علم میں پیچھے رہ ج اتی ہے۔ اس‬
‫کی سوچ پست ہو جاتی ہے اور وہ مادی ترقی میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ تعلیم اور تعلم کا یہ تاریخی س فر دراص ل فق یرانہ‬
‫شان لیے ہوئے ہے۔ آج حصول علم کی راہوں کو شوق اور محبت کی بجائے دولت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اور دولت‬
‫کی چمک انسان کی عقل پر ایسے پردے ڈالتی ہے کہ اس کو صحیح اور غلط کی تمیز باقی نہیں رہتی۔‬
‫ہمارا نظام تعلیم شروع سے ہی درست بنیادوں پر استوار نہیں ہوا۔ بلکہ دور غالمی کے ڈھ انچے کے س اتھ چ ل رہ ا ہے۔‬
‫جس میں جزوی تبدیلیاں اس کے مقاصد اور روح کو پ ورا ک رنے س ے قاص ر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلیمی نظ ام کے‬
‫برگ و بار آج معاشرے میں رستہ ہوا ناسور ہیں۔ جو دھوکہ‪ ،‬جھوٹ‪ ،‬مادیت پرس تی‪ ،‬امتحان ات میں ب دعنوانی‪ ،‬اس اتذہ کی‬
‫تذلیل‪ ،‬تعلیمی ماحول میں ل ڑائی جھگ ڑے‪ ،‬کرپش ن اور دیگ ر غ یر اخالقی ج رائم کی ش کل میں نظ ر آت ا ہے۔ دراص ل یہ‬
‫تعلیمی نظام جن بنیادوں پر استوار ہے وہ ہماری تعلیمی روایات اور بنیادوں سے بالکل مط ابقت نہیں رکھت ا۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ ہمیں رفعت و بلندی بھی عطا نہیں کرتا۔ بلکہ اپنے مادی اثرات سے زیادہ مغلوب و محکوم کر رہا ہے۔‬
‫تاریخ پر نظر ڈالیں تو برصغیر میں جدید تعلیم کے بنیادی بانی سر سید احم د خ ان ج و کہ انگری زی تعلیم کے س ب س ے‬
‫بڑے علمدار علم بردار اور حامی تھے نے آخری عمر میں جدید تعلیم سے اپ نی مایوس ی اور ب یزاری ک ا اظہ ار ان الف اظ‬
‫میں کیا تھا۔‬
‫"تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے ہیں اور جن سے قومی امیدوں کی بھالئی تھی مادیت پرست اور بدترین قوم بنتے جا رہے‬
‫ہیں۔"‬
‫عالمہ اقبال اور اکبر الہ آبادی نے بھی اپنی خداداد بصیرت اور دور اندیشی سے جدید تعلیم کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا‬
‫تھا۔ جو ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔‬
‫پاکستان اسالم کے نام پر حاصل کیا گیا آزادی کے بعد بھی ہماری غالمانہ ذہ نیت میں ک وئی تب دیلی نہیں آئی اور اس المی‬
‫مقاصد اور ضروریات کی طرف ہم نے کوئی ت وجہ نہ دی۔ ک ئی ب ار تعلیمی کمیش ن ق ائم ہ وئے۔ تعلیمی سفارش ات م رتب‬
‫ہوئی۔ نصابات میں تبدیلیاں کی گئیں۔ مگر کسی کو اس کی بنیادوں میں تبدیلی ک ا خی ال نہ آی ا۔ البتہ یہ تب دیلی ض رور الئی‬
‫گئی کہ اسالمیات کا بطور الزمی مضمون پڑھایا جانے لگ ا۔ مگ ر ایس ے نظ ام تعلیم میں جس کی بنی اد غ یر مس لموں نے‬
‫رکھی تھی اور جس کے مقاصد سراسر غیر اسالمی اور حاکم انہ ان داز ل یے ہ وئے تھے۔ اس المیات کی الزمی تعلیم ٹ اٹ‬
‫میں مخمل کا پیوند لگانے کے برابر تھی۔ ایک نظریاتی قوم کی ضروریات پوری کرنے کے ل یے ض روری ہے کہ نظ ام‬
‫تعلیم کو اسی نظریاتی بنیاد پر استوار کیا جاتا۔ موجودہ نظام تعلیم نہ تو ہماری نظریاتی اور دینی ضروریات کو پورا کرت ا‬
‫ہے۔ اور نہ ہی مادی اور دنیاوی لحاظ سے ہمارے لیے مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے مل ک میں بے روزگ اری کی‬
‫کثرت ہے۔ ایک مفکر نے نئی صورتحال کا بڑی عمدگی سے تجزیہ کیا ہے لکھتے ہیں کہ‬

‫"ایک مدت سےہم مادی ترقی کے لیے تعلیم تعلیم کا شور مچا رہے ہیں مگر ہماری تمام کوششیں کتابخان بنانے میں‬
‫صرف ہو جاتی ہیں۔ انسان بنانے اور مسلمان بنانے کی ہم نے کوئی فکر نہیں کی۔ بلکہ اس کے برعکس ہماری تعلیمی‬
‫گاہیں دھڑا دھڑ ایسے افراد تیار کر کے نکال رہیں ہیں۔ جو نہ صرف اسالمی اخالق بلکہ انسانی اخالق سے بھی عاری‬
‫ہیں۔ہمارا نصاب تعلیم طرز تعلیم اور تعلیمی ماحول میں سرے سے اس فکر کا کوئی نشان نہیں ملتا کہ ہمیں اپنے افراد‬
‫میں کوئی قومی سیرت بھی پیدا کرنی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت سمیت ہمارے تمام شعبہ ہائے حیات کو جو‬
‫کارکن مل رہے ہیں ان کے اندر کوئی بھی قابل اعتماد کردار نہیں پایا جاتا بہت کم کو چھوڑ کر جو روز بروز کم سے کم‬
‫تر ہوتے جا رہے ہیں ہمارے ہر شعبہ زندگی کو ادنی مراتب سے لے کر بلند ترین مناصب تک وہ لوگ چال رہے ہیں جن‬
‫کے اندر دیانت‪ ،‬امانت اور فرض شناسی کا فقدان ہے۔ جنہیں ذرا سا اللچ یا تھوڑا سا خوف بھی راستے سے ہٹا سکتا ہے۔‬
‫جو اپنے معمولی سے فائدے کے لیے دوسروں کو حتی کہ اپنی قوم اور اپنے ملک تک کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچا‬
‫دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ان کی نگاہ میں انسانی ضمیر کی کوئی قیمت نہیں۔ جنہیں اپنی ذاتی اغراض کے لیے‬
‫کسی اصول اور ضابطے کو توڑ دینے میں کوئی عارنہیں روحانی ترقی کا سوال تو بہت اونچا ہے۔ کیا یہ تعلیم کسی‬
‫مادی ماحول میں بھی ہمارے لیے واقعی مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟"‬

‫میرے خیال کے مطابق تعلیم ک ا مس ئلہ ہمیں دو ط رح س ے درپیش ہے۔ای ک ت و اس کی فک ری اور نظری اتی بنی ادیں اور‬
‫دوسرا اس کا انتظامی پہلو۔‬
‫پہال مسئلہ زیادہ اہم گمبھیر اور سنگین ہے اور دوسرے مسئلے کی جڑ بھی اسی پہلے مسئلے میں ہے۔ گویا مسئلہ صرف‬
‫ایک ہی ہے کہ تعلیم کسی اعلی اور عرفہ مقصد سے عاری ہے۔ معلومات کا بار اٹھائے جاہلوں کی بھ یڑ بڑھ تی چلی ج ا‬
‫رہی ہے۔ گویا ہمارا نظام تعلیم اپنے اصل مقصد سے عاری ہے۔ پاکستانی مسلم معاشرے میں تعلیم کا سب سے ب ڑا مقص د‬
‫ایک اچھے سے اچھے مسلمان‪ ،‬انسان اور اچھے پاکستانی تیار کرن ا ہے۔ ع ام تعلیم اور اس المی تعلیم میں ف رق یہ ہے کہ‬
‫عام تعلیم فرد کو عام شہری کی حیثیت سے تیار کرتی ہے۔ جبکہ اسالمی تعلیم فرد کو ایک مسلمان شہری کی حیثیت س ے‬
‫تیار کرتی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام کو اسالم کی اساس پر استوار کیا جائے ت اکہ ای ک مس لمان‬
‫تعلیم یافتہ کے ذہن پر اسالم کی حقانیت اور ملی وحدت کا نقش جم جائے۔ اور وہ کسی ذہنی غالمی یا احساس کم تری میں‬
‫مبتال نہ ہو سکے۔ بلکہ فخر کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے کا اظہار و اعالن کر سکے۔ بہت ضروری ہے کہ قران و حدیث‬
‫اور دین کی تعلیم کو صرف الگ ہی نہ پڑھائیں بلکہ تمام علوم و فنون بھی اسالمی نقطہ نظ ر کے مط ابق ت رتیب دے ک ر‬
‫یعنی اسالمی رنگ میں رنگ کر چڑھائے جائیں۔‬
‫مثال کے طور پر معاشیات کو ہی لے لیں اسالم میں سود حرام ہے اور اس گناہ کے ‪ 70‬درجے ہیں سب س ے ادنی درجہ‬
‫ماں سے زن ا کے براب ر ہے لیکن پھ ر بھی پاکس تان جیس ے اس المی مل ک میں یہ ع ام ہے م اہرین معش یت دان اس المک‬
‫اسکولوں کو بنیاد کیوں نہیں بن اتے؟ یہ ص رف پڑھن ا لکھن ا اور رٹ ا لگان ا ہی س یکھتے ہیں اس علم ک ا اطالق کی وں نہیں‬
‫کرتے؟ دراصل ہمارا یہ نظام تعلیم معلومات ہی دے رہ ا ہے ان معلوم ات ک و امپلیمنٹ ک رنے کے قاب ل بنات ا ہی نہیں ہے۔‬
‫اسالمی نظام تعلیم کی فکری اور نظریاتی بنیادوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مسلم معاشرے کے افراد کو ع المی قی ادت‬
‫کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کے لیے ہمیں جہاد کی تصور کو جدید دور سے ہم آہنگ کرن ا ہے مثًال می ڈیکل‪ ،‬انجینئرن گ‪،‬‬
‫اخالقی سائنس‪ ،‬کمپیوٹر‪ ،‬ٹیکنالوجی‪ ،‬اکنامکس‪ ،‬سرجری‪ ،‬ہارٹیکلچر‪ ،‬ایگریکلچر اور عرضیات وغیرہ کے علوم میں مسلم‬
‫اّم ہ کو ترقی یافتہ اقوام کے مد مقابل استوار کرنا وقت کا سب سے ب ڑا جہ اد ہے۔ تعلیمی می دان میں ہم ارا مس ئلہ دنی ا ک و‬
‫روشن خیال اور اعتدال پسند کھیپ فراہم کرنا نہیں۔ بلکہ تعلیم و ٹیکنالوجی کی ان بلندیوں تک پہنچانا ہے۔ جو ای ک ط رف‬
‫ہمیں اخالق و کردار کی بلندیوں سے آراستہ کرے اور دوسری طرف علمی قیادت کے منصب پ ر ف ائز ک ر س کیے۔ ہمیں‬
‫غالمی کی پستیوں سے نکال کر دنیا کی قیادت کے قابل بنا س کیے۔ اور یہ س ب تب ہی ممکن ہے جب ہم ای ک تم ام عل وم‬
‫کے سرچشمہ قران حکیم کو واقعی اپنی تعلیم کا سرچشمہ بنا لیں اور اس سے فائدہ اٹھ ائیں اور دنی اوی عل وم کی تحص یل‬
‫بھی اس کی روشنی میں کریں۔ اور اس کے الزوال اصولوں کا اطالق اپنی زندگی میں کریں۔‬
‫تعلیم کا دوسرا بڑا مسئلہ انتظامی پہلو اگرچہ اس وقت بے شمار مسائل ک ا ش کار ہے لیکن یہ مس ئلہ اس لح اظ س ے مزی د‬
‫الجھ جاتا ہے کہ بہت سے انتظامی مسائل کی بنیاد ہمارا نظ ری کھ وکھال پن ہے۔ اخالق وک ردار کی وہ کمزوری اں ج و ہم‬
‫بی۔اے‪ ،‬ایم۔اے اور اعلی تعلیم حاصل کر کے بھی اپنے اندر سے نکالنے کے قابل نہیں ہو پاتےمثًال امتحانات میں نق ل۔ ایم‬
‫اے کے امتحانات ‪ 16‬سال تعلیم بےکار ہے کہ اپنا اولین اور بنیادی مقصد بھی حاص ل نہ ک ر س کی۔ داخل وں میں جھ وٹ‪،‬‬
‫سفارش‪ ،‬دوسروں کی تحقیقی اور علمی کام کو اپ نے ن ام س ے منس وب کرن ا‪ ،‬ف رائض میں کوت اہی اورغفلت برتن ا‪،‬س ینٹر‬
‫مارکنگ میں الپرواہی‪ ،‬بنا پڑھے پرچے چیک کرنا‪ ،‬صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ق رار دے ک ر غل ط مارکن گ ان‬
‫تمام مسائل کا حل پہلے مسئلے کے حل میں پوش یدہ ہے۔اس کے عالوہ مس ائل مثال تعلیمی نظ ام‪ ،‬تعلیمی اداروں ک ا نظم و‬
‫ضبط‪ ،‬امتحانی نظام‪ ،‬نجکاری‪ ،‬مہنگی تعلیم‪،‬تعلیمی سیشن کی تبدیلی‪ ،‬ذریعہ تعلیم ک ا مس ئلہ‪ ،‬انٹرس ٹ‪ ،‬یکس اں نظ ام تعلیم‪،‬‬
‫انگریزی کو پہلی جماعت سے الزمی بنا دینا یہ وہ مسائل ہیں جن اتفاقی رائے سے حل کیا جا سکتے ہیں اور اس سلس لے‬
‫میں کوششیں وہی کامیاب ہوں گی جس میں آزادانہ طور پر تعلیم کے بنیادی عناصر استاد‪ ،‬شاگرد‪ ،‬والدین اور انتظامیہ کو‬
‫شریک کیا جائے گا۔ زبردستی کیے جانے والے فیصلے اور پولیسیاں ہمیشہ نئے مسائل پیدا کرتی ہیں۔‬

You might also like