Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 89

‫یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ‬

‫بواسطة‬
‫‪Editor‬‬
‫‪-‬‬
‫فروری ‪2021 ,12‬‬
‫‪0‬‬
‫‪728‬‬

‫حاصل مطالعہ ‪ :‬مقصوداحمدضیائی‬


‫دنیائے اسالم کی ‪ 80‬سے زیادہ مشہور زمانہ علمی شخصیات و اہل قلم کے مطالعہ اور علمی سفر کی دل نشیں روداد نئی "‬
‫نسل کے لیے مفید کتابوں کے انتخاب اور مطالعاتی زندگی کی رہنمائی پر مشتمل مدیر ماہنامہ النخیل کے سوال نامہ کے‬
‫جواب میں لکھی گئی ناقابل فراموش تحریروں کا سدا بہار مجموعہ ” مذکورہ تمہیدی سطور ماہنامہ النخیل کی خصوصی پیش‬
‫کش ” یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ” کی ہیں ‪ 832‬صفحات کا یہ مجموعہ میری اس وقت تک کی گزری زندگی‬
‫میں مطالعے میں آنے والی یہ دوسری کتاب ہے جس کا ایک عشرے میں باالستیعاب مطالعہ کرکے میں فارغ ہوا ہوں اس سے‬
‫بہت پہلے موالنا محمد عالء الدین ندوی دامت برکاتہم العالیہ استاذ دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنو کی معروف و مشہور کتاب ”‬
‫ذرا قرن اول کو آواز دینا ” باالستیعاب پڑھنے کی توفیق ہوگئی تھی مدیر ماہنامہ النخیل نے جس عنوان پر اہل علم سے‬
‫مضامین لکھوائے ہیں وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ہمیں اعتراف ہے کہ آج مطالعہ رخت سفر باندھ رہا ہے کتب بینی کی‬
‫عادتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں پڑھنے اور پڑھانے کی روایتیں دم توڑ رہی ہیں افادہ و استفادہ کا شوق چر مرا رہا ہے اسالمی‬
‫کتابوں اور کتب خانوں کی جگہ فحش اور اخالق سوز لٹریچر لیتا جا رہا ہے نتیجتا صالح افکار اور تعمیری ذہن کے بجائے‬
‫نئی اسالمی پود کے حصہ میں فاسد افکار اور منفی سوچ کا شیوع ہو رہا ہے اور معاف کیجئے ! ہم دنیا کے کام کے تو کبھی‬
‫تھے ہی نہیں ‪ ،‬اب تحفظ دین یا اشاعت دین کے بھی نہیں رہے ‪ ،‬کچھ کہتے بھی ہیں تو ڈرے ڈرے ‪ ،‬سہمے سہمے ‪ ،‬جیسے‬
‫دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے جا رہے ہیں ‪ ،‬مخاطب کی تردید کے خوف سے مجرموں کی طرح گردن خم ‪ ،‬نگاہیں سجدہ‬
‫میں ‪ ،‬حواس گم ‪ ،‬اوسان خطا اس صورتحال میں موالنا ابن الحسن عباسی مرحوم کا یہ کارنامہ مثالی اور اہمیت کا حامل ہے‬
‫یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ پڑھ کر دل باغ و بہار ہوگیا ماہنامہ النخیل کے مدیر موالنا ابن الحسن عباسی مرحوم‬
‫جو رونق قلم تھے ہم سب کو چھوڑ کر اب وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے پھر کوئی واپس نہیں آیا کرتا مرحوم کی جد و جہد کا‬
‫یہ عظیم الشان کارنامہ نئی نسل پر احسان عظیم رہے گا اہل قلم کی اکثریت نے مدیر ماہنامہ النخیل کے سوالنامہ کو ملحوظ‬
‫رکھ کر مضامین لکھے ہیں کتاب عجائب و غرائب سے بھرپور ہے دوران مطالعہ مجھے ذاتی طور پر بہت احساس ہوا کہ‬
‫مجھے کرنا کیا چاہئے تھا اور ہوتا کیا رہا ہے لیکن ہللا پاک کی اس نوازش پر الکھ الکھ شکر کہ جس نے زندگی کے اس‬
‫مرحلے میں جب کہ انسان کچھ کرسکنے کی پوزیشن میں ہوا کرتا ہے رہنما خطوط پڑھنے کی توفیق دی راقم الحروف عاجز‬
‫حضرت موالنا مفتی ہالل الدین بن ابراہیم علیمی زیدہ مجدہ استاذ جامعہ اسالمیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کا ممنون کرم‬
‫ہے کہ آں محترم نے زیر نظر کتاب اور شاہراہ علم کا خصوصی شمارہ بر فراق ‪ :‬حضرت موالنا عبدالرحیم فالحی حضرت‬
‫مفتی عبدہللا صاحب مظاہری رویدری حضرت مفتی سعیداحمد پالن پوری ‪ ،‬حضرت موالنا محمدسلمان صاحب نورہللا مراقدہم‬
‫قیمتی دستاویزات مہیا فرما دیں خدائے رحمن و رحیم مکارم ‪ ،‬معارف و محاسن علم و عمل کے شایان شان زندگی کے ساتھ‬
‫بہترین صحت تندرستی اور سالمتی عطا فرمائے اس عاجز کی کوشش رہتی ہے کہ جس کتاب کا بھی مطالعہ کیا جائے اس‬
‫کے تعلق سے اپنے علم اور سمجھ کے مطابق مثبت تبصرہ بھی ہدیہ قارئین کروں لیکن زیر نظر کتاب میں جن ارباب قلم کی‬
‫نگارشات شامل ہیں ان عظیم المرتبت اکابر علماء و مشائخ کے انتہائی قیمتی مضامین پر کچھ کہنا مجھ جیسے کوتاہ علم اور‬
‫ناقص العقل طالب علم کے لیے ناممکن ہے لہذا اس پرتبصرہ کی میں اپنے قلم میں طاقت نہیں پاتا البتہ دوران مطالعہ جو باتیں‬
‫دل کو چھوتی گئیں ان قیمتی تراشوں کے چند نمونے بطور حاصل مطالعہ بقید صفحہ ہدیہ قارئین ہیں‬
‫ناقابل فراموش تحریروں کا گلدستہ‬
‫حضرت موالنا ابن الحسن عباسی قدس سرہ رقم طراز ہیں کہ ” مطالعہ بنیادی طور پر عبارت بینی کو کہتے ہیں ‪ ،‬کاغذ کے‬
‫صفحات پر ہو یا شیشے کی اسکرین پر ‪ ،‬نئے زمانے نے مطالعہ کو کاغذ کے صفحات سے اسکرین کی طرف منتقل کیا ‪،‬‬
‫ہوسکتا ہے انقالب زمانہ کیساتھ یہ اسکرین سے فضا کی طرف منتقل ہو یعنی کسی اسکرین کی ضرورت ہی نہ رہے ‪ ،‬آپ کی‬
‫نگاہ کے سامنے فضا میں عبارتیں نظر آنے لگیں ‪ ،‬برقی مطالعہ نے مطالعہ کی رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا ‪ ،‬لیکن اسی رفتار‬
‫سے اس کے اندر سطحیت آگئی ‪ ،‬گیرائی نے گہرائی کو ختم کر دیا ‪ ،‬وسعت سطحیت کو لے آئی جب کہ علم پختگی چاہتا ہے‬
‫اور ثمر بار مطالعہ گہرائی کا تقاضہ کرتا ہے ‪ ،‬بہ ہرحال ورقی کتاب کی اہمیت اب بھی ختم نہیں ہوئی اور شاید کبھی ختم نہ‬
‫ہو ۔ (صفحہ ‪)۸‬‬
‫ذوق مطالعہ درحقیقت مطالعہ سے لذت پانے کا نام ہے ‪ ،‬یہ ذوق ماحول سے پروان چڑھتا ہے اور ماحول اصحاب ذوق کی‬
‫صحبت اور رابطے سے بنتا ہے ۔ جن معاشروں میں علم و مطالعہ کا ذوق ہو ‪ ،‬وہاں عام لوگ سفر کرتے ہوئے کوئی کتاب یا‬
‫‪ :‬رسالہ پڑھتے ہیں ‪ ،‬ہمارے ہاں سفر کی مسافتوں کو گانے سن سن کر طے کیا جاتا ہے‬
‫نگاہ شوق گر میسر نہیں تجھ کو‬
‫! تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی‬
‫پیغام ‪ :‬حضرت موالنا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند اپنے پیغام میں فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ شخصیت کی‬
‫تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے ‪ ،‬مطالعہ اہل علم کی غذا اور طالب علم کا راس المال ہے ‪ ،‬ذوق مطالعہ ایسی بے بہا نعمت‬
‫ہے جو انسان کو اقران و امثال میں امتیازی مقام عطا کرتا ہے لیکن نتیجہ خیز مطالعہ کے لیے مقصدیت انتہائی ضروری ہے‬
‫ورنہ ہر رطب و یابس کا مطالعہ منزل مقصود پر لے جانے کے بجائے افکار و خیاالت کی وادئ تیہہ میں بھٹکا سکتا ہے ۔‬
‫موجودہ زمانے میں جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے عموم کی وجہ سے معلومات کا سیالب آ رہا ہے ‪ ،‬ایسے‬
‫حاالت میں با مقصد مطالعہ اور سود مند کتب بینی کی ضرورت دو چند ہوگئی ہے ‪ ،‬اعلی مقاصد کے لیے مطالعہ و کتب بینی‬
‫کا شوق آج کل اضمحالل اور زوال کا شکار ہو رہا ہے اس لیے نہایت ضروری ہے کہ مسلمان اور خصوصا علماء اور طلبہ با‬
‫مقصد مطالعہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس ذوق کی آبیاری کی سنجیدہ کوشش کریں (صفحہ ‪)۱۱‬‬
‫پیغام ‪ :‬حضرت موالنا محمدسفیان قاسمی مدظلہ مہتمم دارالعلوم (وقف) دیوبند فرماتے ہیں ” یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ‬
‫اکتساب علم کے حصول ‪ ،‬اس کی بقاء و اضافت اور منتقلی کے جملہ رموز ہائے سربستہ اور اس کی ماہیت و حقیقت مطالعہ‬
‫میں ہی پوشیدہ ہیں ‪ ،‬گویا کہ مطالعہ اپنی ہمہ جہت اہمیت کے لحاظ سے علم و ادراک ‪ ،‬شعور و آگہی ‪ ،‬تعمق فکر ‪ ،‬تیقن وایقان‬
‫‪،‬تحلیل و تجزیہ ‪ ،‬افکار و نظریات غرض کہ جملہ دوائر علمیہ کو مستدالت کی اساس فراہم کرنے میں اس کی اہمیت کو‬
‫مرکزیت و محوریت کا درجہ عطا کرتا ہے اور اکتساب علم کے جملہ مراحل و مظاہر اسی حقیقت اجتماعیہ کے گرد قائم ہیں‬
‫اور تمام علمی و فکری محاور کے گرد یہی حقیقت مرکزیہ جلوہ طراز ہے (ص ‪)۱۲ :‬‬
‫پیغام ‪ :‬موالنا محمدسعیدی مدظلہ ناظم و متولی مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور فرماتے ہیں کہ یقین جانئے کہ آج اس ایک مبائل‬
‫کی وجہ سے فاتح قوم مفتوح ‪ ،‬غالب قوم مغلوب اور بہادر قوم مرعوب ہو کر دام ہمرنگ زمین ہوچکی ہے وکی پیڈیا کی غیر‬
‫معتبر تحریرات کو حوالہ ‪ ،‬گوگل کی باتوں کو الئق اعتماد ‪ ،‬یوٹیوب کی چیزوں کو سند کا درجہ دے کر اپنی کتابوں اپنے‬
‫بزرگوں ‪ ،‬اپنے کتب خانوں ‪ ،‬اپنی درس گاہوں اور اپنی شریعت سے اظہار بے زاری و ناگواری کرکے کشاں کشاں دامن‬
‫اسالم سے دور اور دام ابلیس میں گرفتار و شکار ہوتی جا رہی ہے مطالعہ نمبر سے ممکن ہے اپنی قوم کا مزاج بدلے ‪،‬‬
‫حاالت بدلیں ‪ ،‬ماحول بدلے اور پھر دلوں کو پیغام سجدہ و سجود یاد آجائے پھر ہماری قوم علم و کتاب سے آراستہ تہذیب و‬
‫شرافت سے پیراستہ اور فضل و کمال کو پانے کے لیے آمادہ و کمر بستہ ہوجائے (ص ‪)۱۳ :‬‬
‫پیغام ‪ :‬حضرت موالنا مفتی خالد سیف ہللا گنگوہی نقشبندی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت شبہ سے باالتر ہے کہ قلم و‬
‫کتاب سے وابستگی سعادت مندوں کا وظیفہ حیات رہا ہے بادئ النظر میں راست مطالعہ کتب ہی اہل علم کی سب سے طاقتور‬
‫غذا ہے جس سے روح کو تازگی ‪ ،‬فکر کو پاکیزگی اور خیاالت کو بلندی نصیب ہوتی ہے (ص ‪)۱۵ :‬‬
‫مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گئی کتابوں پر ایک تعارفی نظر‬
‫جن لوگوں کی زندگیاں کتابوں کے سنگ گزری ہیں ان کی مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گئی کتابوں پر ایک تعارفی‬
‫نظر ‪ ،‬سے معنون اپنے مضمون میں موالنا بشارت نواز مدظلہ معاون مدیر ماہنامہ النخیل نے قیمتی جواہرات کو سمویا ہے ”‬
‫مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ” کی ترتیب جدید کے مقدمہ کے حوالہ سے موالنا سید محمد رابع حسنی ندوی زیدہ مجدہ کی‬
‫یہ تحریر شامل کی ہے فرماتے ہیں ” اگر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ باصالحیت شخصیتوں کی تشکیل میں تین اہم عوامل‬
‫کام کرتے ہیں ایک ان کے مربیوں کا ‪ ،‬جن میں اولین مقام ماں باپ کا ‪ ،‬پھر خاندان کے بزرگوں کا اور پھر گھر اور باہر کے‬
‫ماحول کا ہوتا ہے دوسرا عامل معلمین اور اساتذہ کا ہوتا ہے ‪ ،‬جن کے زیر اثر وہ شخصیت اپنی طالب علمی کا دور گزارتی‬
‫ہے ‪ ،‬تیسرا عامل ان کتابوں کا ہوتا ہے جن کا مطالعہ وہ شخصیت اپنے نشوونما کے زمانے میں کرتی ہے یہ عوامل مختلف‬
‫لوگوں کو مختلف نوعیتوں اور مختلف اثرات کے لحاظ سے ملتے ہیں اور انہیں نوعیتوں اور اثرات کے لحاظ سے اثر ڈالتے‬
‫ہیں اور شخصیت سازی میں ان کا حصہ ہوتا ہے ” (ص ‪)۲۱ :‬‬
‫مشہور محقق اور ادیب ‪ ،‬بانی ماہنامہ معارف موالنا سید سلیمان ندوی اپنی محسن کتابوں کے ذیل میں(تقوی االیمان) لکھتے‬
‫ہیں کہ ” یہ پہلی کتاب تھی جس نے مجھے دین حق کی باتیں سکھائیں اور ایسی سکھائیں کی اثنائے تعلیم و مطالعہ میں‬
‫بیسیوں آندھیاں آئیں کتنی دفعہ خیاالت کے طوفان اٹھے مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں ان میں سے ایک بھی اپنی‬
‫جگہ سے ہل نہ سکی ” (ص ‪)۲۴ :‬‬
‫حضرت موالنا زاہدالراشدی دامت برکاتہم اپنی طالب علمی کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ہفت روزہ ترجمان‬
‫اسالم الہور اور کوہستان میں مضامین شائع ہونے کی وجہ سے میرا صحافت کی طرف رجحان بڑھنے لگا تو میرے چچا‬
‫موالنا عبدالحمید سواتی صاحب رحمہ ہللا نے نصیحت کی ‪ :‬بیٹا ! صحافت اور خطابت لوگوں تک کوئی بات پہنچانے کا ایک‬
‫ذریعہ ہے ‪ ،‬یہ ضرور آدمی کے پاس ہونا چاہیے لیکن پہنچانے کی کوئی چیز بھی پاس موجود ہونی چاہیے اگر اپنے پاس کچھ‬
‫ہوگا تو دوسروں تک پہنچاو گے اور اپنا سینہ خالی ہوگا تو دوسروں کو کیا دوگے ؟ ٹونٹی کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو ‪،‬‬
‫وہی چیز باہر نکالے گی جو ٹینکی میں ہوگی اور اگر ٹینکی میں کچھ نہیں ہوگا تو "شاں شاں” کرے گی ‪ ،‬فرمایا کہ حضرت‬
‫صوفی صاحب رحمہ ہللا کے محبت بھرے لہجے اور "شاں شاں” کی مثال نے ایک لمحے میں دل و دماغ کا کانٹا بدل دیا اور‬
‫یہ جملے اب بھی میرے کانوں میں "شاں شاں” کرتے رہتے ہیں (ص ‪)۲۹ :‬‬
‫مطالعہ کتب ‪-‬کیوں اورکس طرح ؟ (دیباچہ)‬
‫حضرت موالنا عبدالمتین عثمان منیری بھٹکل ‪ ،‬کرناٹک کا طویل مضمون بیحد اہمیت کا حامل ہے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ‬
‫” تعلیم گاہوں کا مقصد علم و فہم کی عمارت کی تعمیر نہیں بلکہ طالب علم کو ایک بنیاد فراہم کرنا ہے ‪ ،‬اب یہ بات ایک طالب‬
‫علم پر منحصر ہے کہ چودہ پندرہ سال کے دوران علم و فہم کی جو بنیاد اس کے دل و دماغ میں ڈالی گئی ہے اس پر وہ کیسی‬
‫عمارت تعمیر کرتا ہے ؟ یا وہ بنیاد ہی کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور اس پر مزید کسی تعمیر کا ارادہ دل سے نکال دیتا ہے ؟ یہ‬
‫قانون قدرت ہے ‪ ،‬بنیاد پر کوئی تعمیر نہ ہو تو بادو باراں اور موسموں کے تھپیڑوں سے بوسیدہ ہوجاتی ہے (ص ‪)۳۸ :‬‬
‫میری علمی زندگی کے چند ورق‬
‫حضرت موالنا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ نے اپنے مطالعہ کے تجربات کی روشنی میں قیمتی مشورے دئیے ہیں جن‬
‫میں سے پہال مشورہ ہدیہ قارئین ہے ” فرمایا ! ایک تو یہ کہ آزاد مطالعہ لطف و لذت کی چیز ضرور ہے ‪ ،‬مگر شخصیت کی‬
‫تعمیر اور سیرت سازی میں کم مفید ہوتا ہے ‪ ،‬البتہ سطحی مطالعہ سے گریز ضروری ہے ‪ ،‬اس سے بہت کم دلچسپی رکھنا‬
‫چاہئے تحقیقی مطالعہ کا مزاج بنانے کی طرف توجہ دینا چاہئے اور مطالعہ کے لیے کسی کو ضرور رہبر چننا چاہئے ورنہ‬
‫بعد میں کمزوری اور کمی کا علمی اور دینی دونوں لحاظ سے بہت احساس ہوتا ہے (ص ‪)۸۶ :‬‬
‫میری علمی زندگی کا سفر‬
‫حضرت موالنا مفتی فضیل الرحمن ہالل عثمانی قدس سرہ نئے لکھنے والوں کو نصیحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” بعض‬
‫اچھا لکھنے والے غیر اسالمی فکر کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی کتابیں گمراہی کا سبب ہوتی ہیں ان کی کتابیں نہیں پڑھنی‬
‫چاہیے طرز تحریر کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی فکر بھی ٹھیک ہونا ضروری ہے اس بات کا دھیان رہے کہ کہیں وہ عمدہ‬
‫طرز تحریر کے ذریعے گمراہ تو نہیں کر رہا ہے فرمایا کہ اچھی سوچ رکھنے والے ‪ ،‬قابل اور جن کی زندگی اسالمی خطوط‬
‫پر ہو ‪ ،‬کتابوں کے سلسلہ میں ان کا مشورہ ضرور لیا جائے (ص ‪)۱۰۰ :‬‬
‫داستان کتاب شناسی‬
‫حضرت موالنا نذرالحفیظ ندوی مدظلہ فرماتے ہیں کہ ” کتابوں کے انتخاب میں نوجوانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے‬
‫بڑوں کے مشورے سے منتخب کتابیں ان کی نگرانی میں پڑھیں اپنی ذہانت پر اعتماد نہ کریں ‪ ،‬مصنف کی شخصیت اور اس‬
‫کی سیرت و کردار کا اثر قاری پر پڑتا ہے (ص ‪)۱۰۵ :‬‬
‫علمی سفرنامے کی روداد‬
‫جناب عطاء الحق قاسمی ؛ صاحب طرز ادیب و مزاح نگار کا مضمون بڑا ہی البیال ہے قدرت نے لکھنے کا اچھا ملکہ عطا کیا‬
‫ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جون ایلیا مجھے عطاء الحق کی بجائے ” ” الحق ہمزہ کے پیش کے ساتھ ” کہتے تھے ‪ ،‬فرمایا‬
‫کہ ایک دفعہ غالبا قطر میں ہم کافی لوگ ایک جگہ بیٹھے تھے جون ایلیا کہنے لگے ” الحق مجھے سیرکراو ! ” میں نے‬
‫کہا ‪ :‬میں سیر کیسے کراوں ؟ میرے پاس تو یہاں کوئی گاڑی تو نہیں ہے ‪ ،‬کہنے لگے کون گاڑی کا کہتا ہے ؟ مجھے اپنے‬
‫کندھے پر بٹھاو ! پالکی مار کر (چھالنگ لگا کر ) میرے کندھے پر چڑھ بیٹھے اب میں انہیں لے کر باہر پھر رہا ہوں ‪ ،‬میں‬
‫نے کہا جون بھائی اور جھولے دوں ‪ ،‬کہنے لگے ” الحق بس ” ! آپ تھک جاوگے ‪ ،‬میں نے کہا کہ آپ کا وزن ہی کتنا ہے کہ‬
‫میں تھک جاوں گا ‪ ،‬اس طرح میری زندگی ان لوگوں کے درمیان گزری ہے ۔ (ص ‪ )۱۰۸ :‬نئے لکھنے والوں کے لیے میں‬
‫کوئی نصیحت نہیں کرتا ‪ ،‬کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے کسی دوست نے آٹو گراف دینے کا کہا کہ کوئی نصیحت لکھ دوں تو‬
‫میں نے آٹو گراف میں لکھا کہ ” میری نصیحت ہے کہ کسی کو نصیحت نہ کرنا ” اس معاملے میں ہر ایک کا اپنا ذوق اور‬
‫شوق ہوتا ہے جو اس کو کسی طرف لے جاتا ہے ‪ ،‬کسی کے کہنے سے نہیں بنتا ‪ ،‬البتہ کوئی اپنا ذوق بتائے تو اس موضوع‬
‫پر کتابوں کے حوالے سے اپنی معلومات بیان کرسکتے ہیں (ص ‪)۱۰۹ :‬‬
‫میرا شوق مطالعہ‬
‫حضرت موالنا سیدمحمد ولی رحمانی مدظلہ کے مضمون کا ابتدائیہ البیال اور معنی خیز ہے لکھتے ہیں کہ ” اسکول کی‬
‫تیسری جماعت میں تھا اس زمانے میں یہ عمر کھیلنے ‪ ،‬کھانے کی سمجھی جاتی تھی اور مجھے کوئی اصول یاد ہو یا نہ ہو ‪،‬‬
‫یہ اصول یاد تھا ‪ ،‬اس لیے کھیلنے سے زیادہ اور کھانے سے کچھ کم دلچسپی تھی ‪ ،‬پڑھائی لکھائی بدرجہ مجبوری ہوا کرتی‬
‫تھی ایک دن کالس میں ہمارے ماسٹر فضل الرحمن صاحب مرحوم و مغفور نے ایک اصول سمجھایا کہ جس لفظ کے آخر میں‬
‫یا (ی) ہو وہ مونث ہے ‪ ،‬چھٹی کا وقت آیا ‪ ،‬ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو ہدایت دی ” اس قاعدہ کو سوچ کر آنا اور کچھ‬
‫مثالیں بھی تیار رکھنا ” دوپہر کا وقت ‪ ،‬بہت تیز گرمی ‪ ،‬گرم ہوائیں چل رہی تھیں ‪ ،‬میں ماسٹر صاحب کے بتائے قاعدہ پر‬
‫غور کر رہا تھا ‪ ،‬اسی ” مرحلہ غور و فکر ” میں خیال آیا کہ بیشک مرغی تو مونث ہے ‪ ،‬مگر ہاتھی ‪ ،‬اتنا بڑا جانور ‪ ،‬یہ‬
‫مونث کس طرح ہوسکتا ہے ؟ جوش تحقیق میں ماسٹر صاحب کی قیام گاہ پہنچا ‪ ،‬کنڈی کھٹکھٹائی ‪ ،‬ان کی آنکھ لگ گئی تھی ‪،‬‬
‫اٹھے دروازہ کھوال اور شفقت سے پوچھا ” اس چلچالتی دھوپ میں کیوں گھوم رہے ہو ؟ ” میں نے ہاتھی کے سائز کا مسئلہ‬
‫ان کے سامنے رکھ دیا ‪ ،‬ان کی آواز بلند ہوئی ‪ ،‬بیوقوف ! کل صبح سمجھاوں گا پہلے خود سوچو ! واپس ہوگیا ‪ ،‬راستہ ہی‬
‫میں تھا کہ سوچ کا ایک اور خالصہ سامنے آگیا ‪ ،‬کہ میرا نام ولی اور اس کے آخر میں بھی (ی) ہے ‪ ،‬میں کیسے مونث‬
‫ہوسکتا ہوں ؟ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حجرہ کی مرمت ہو رہی تھی ‪ ،‬عصر کے بعد ابا جان (موالنا منت ہللا رحمانی قدس‬
‫سرہ) کے ہمراہ اس حجرہ میں چال گیا مستری چھت کی مرمت کر رہا تھا ‪ ،‬ابا جان ! نے اسے مخاطب کیا "مستری” اس سے‬
‫پہلے کہ وہ کچھ بولتا ‪ ،‬میں نے لب کشائی کی ‪ ” ،‬بالکل غلط ” ابا جان نے پوچھا کیا مطلب ؟ سامنے مستری کی معاون‬
‫!!! عورت کھڑی تھی میں نے کہا ‪( :‬عورت کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے) یہ مستری ‪ ،‬وہ مسترا‬
‫ابا جان نے دریافت کیا کہ یہ فرق تم نے کہاں سے سیکھا ؟ مجھے احساس ہوچال تھا کہ )جو چھت میں کاریگری کر رہا تھا(‬
‫کچھ غلطی ہوگئی ہے ‪ ،‬مگر جی کڑاکر کے میں نے کہہ دیا کہ ” ماسٹر صاحب نے بتایا ہے ” مغرب کے بعد ابا جان اور‬
‫ماسٹر صاحب کی موجودگی میں ‪ ،‬میں نے اپنی ” تحقیقات انیقہ ” پیش کیں پھر ماسٹر صاحب کے قاعدے پر میں نے اپنے‬
‫اشکاالت واضح کیے دونوں نے سمجھایا دونوں نے ہمت افزائی کی میں مولوی حبیب الرحمن صاحب کی خدمت میں قرآن‬
‫پاک سنانے جا رہا تھا اور ماسٹر صاحب کے الفاظ میرا پیچھا کر رہے تھے کہ ” سوچو اور سوچو ” شاید یہی وہ دن تھا کہ‬
‫جب کسی موضوع پر سنجیدہ غور و فکر کی بنیاد پڑی یہ اس وقت ہوا کہ جب میں کسی کام میں سنجیدہ نہیں تھا ‪ ،‬چھوٹی سی‬
‫عمر تھی ‪ ،‬کھیلنے کے دن تھے ” (ص ‪)۱۱۵ :‬‬
‫میری علمی و مطالعاتی زندگی‬
‫شیخ االسالم مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی کے مضمون کی آخری سطریں کچھ اس طرح سے ہیں فرماتے ہیں کہ ” نرا‬
‫مطالعہ انسان کی زندگی پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتا جتنا اثر کسی شخصیت کی صحبت سے ہوتا ہے اور مطالعہ سے معلومات‬
‫میں اضافہ تو ہوجاتا ہے لیکن صحیح فہم ‪ ،‬اعتدال مزاج اور اصالح نفس شخصیات کی صحبت ہی سے حاصل ہوتی ہے‬
‫(ص ‪)۱۲۱ :‬‬
‫نہ کتابوں سے نہ کالج سے نہ زر سے پیدا‬
‫دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا‬
‫میرا قلمی اور کتابی سفر‬
‫عالمہ اختر کاشمیری حفظہ ہللا فرماتے ہیں کہ کتاب کے مطالعے نے مجھے کتاب کا اتنا عادی بنا دیا ہے کہ اگر کبھی کسی‬
‫دوست کے گھر جانا ہو اور اس کے گھر پر کوئی کتاب موجود نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے مجھے ایک انسان کے‬
‫بجائے ایک حیوان کیساتھ وقت بسر کرنے کی سزا دیدی ہے (ص ‪ )۲۰۷ :‬فرمایا کہ ایک ماہ میں ڈائجسٹ سائز کے تیس ہزار‬
‫سے زیادہ صفحات پڑھ لیتا ہوں ‪ ،‬روز کے روز پڑھنا میرا معمول ہے اور مجھے یقین ہے کہ جس روز مطالعے کا یہ معمول‬
‫ختم ہوگا اسی روز سانس کی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی اس لیے میں ہر روز پڑھتا ہوں چاہے صرف ایک صفحہ ہی پڑھوں‬
‫(ص ‪)۲۰۸ :‬‬
‫مطالعہ کی افادیت اور طریقہ کار‬
‫موالنا سراج الدین ندوی حفظہ ہللا فرماتے ہیں کہ کسی مدرسہ کی سند اور یونیورسٹی کی ڈگری چاہے وہ کتنی ہی اونچی ہو‬
‫وہ صرف نقوش راہ کا پتہ دیتی ہے مگر منزل تک نہیں پہنچاتی ‪ ،‬منزل تک پہنچنے کے لیے ہر آن علم و کتاب سے وابستگی‬
‫ضروری ہے (ص ‪)۲۱۶ :‬‬
‫علمی سفرنامے کی روداد‬
‫شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد زرولی خاں قدس سرہ کا مضمون بار بار پڑھنے الئق ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ حضرت شیخ‬
‫اپنی والدہ ماجدہ کے نقش قدم پر اپنے اساتذہ و مشائخ کا تذکرہ اس شان و احترام سے کراتے نظر آتے ہیں کہ جیسے آسمان‬
‫کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سے بڑی عزت اور شرافت کوئی اور نہیں ‪ ،‬حضرت مفتی صاحب قدس سرہ اپنے استاذ‬
‫محترم امام التاریخ حضرت موالنا لطف ہللا خاں قدس سرہ کا تذکرہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں کہ میرا پہال سبق جو تمام‬
‫علوم و فنون اور آگے مراحل دین کے لیے اساس اور اصل االصل تھا وہ شروع ہوا حضرت االستاذ موالنا لطف ہللا صاحب‬
‫نے ” نفحتہ الیمن ” کے ابتدائی اشعار میں ایک شعر کی تشریح میں اس عاجز سے سوال کیا جس پر اتفاقا جواب درست منطبق‬
‫ہوا حضرت بے انتہاء خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں اس دور کے بے ذوق لوگوں کو دیکھ کر پڑھانا چھوڑ چکا ہوں لیکن آپ‬
‫کا ذوق و شوق دیکھ کر شاید مجھے نئے سرے سے بڑھ کر پڑھانا ہوگا یہ سن کر یہ عاجز و فقیر نہایت شرمندہ ہوا کیوں کہ‬
‫حضرت کا دینی و دنیاوی مقام بہت بڑا تھا اور ہماری حیثیت ان کے سامنے بحر بیکراں کے سامنے قطرہ اور گلزار دبستان‬
‫کے سامنے شاخ بے ثمر کی تھی ” حضرت مفتی صاحب انگلی پکڑ پکڑ کر قاری کو علم و کتاب سے دوستی بھی کراتے‬
‫دکھائی دیتے ہیں حضرت شیخ تقریر تحریر اور تدریس ہر تین میدانوں کے عظیم شہ سوار تھے بطور خاص کتاب و قلم سے‬
‫آپ کا تعلق وجدانی قسم کا تھا آپ علمی کتابوں کے شیفتہ اور گرویدہ تھے کتابوں کی ذخیرہ اندوزی اور علوم و معارف کے‬
‫موتیوں کی تالش ان سے استفادہ اور دوسروں کو بھی ان گنجہائے گراں مایہ کا سودائی بنائے بغیر آپ کو چین نہیں آتا تھا‬
‫فرماتے ہیں کہ ” کتاب کی اپنی ایک برکت ہے آج کل سنا ہے کہ لوگ نیٹ کے ذریعہ کتب بینی کر رہے ہیں یہ انتہائی غلط‬
‫ہے اور مطالعہ کی روح سے بغاوت ہے اس میں احتیاط ضروری ہے پورے دن میں مطالعہ کے لیے کوئی نا کوئی وقت‬
‫ضرور مقرر ہونا چاہئے (ص ‪)۲۴۳ :‬‬
‫میری علمی اور مطالعاتی زندگی‬
‫موالنا ندیم الواجدی مدیر ماہنامہ ترجمان دیوبند کا مضمون اپنی مثال آپ معلوم ہوا آپ کے مضمون کی آخری سطریں ہدیہ‬
‫قارئین ہیں فرماتے ہیں کہ میری رائے میں تو ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے کسی ایک موضوع کو پسند کرنا یا‬
‫کسی ایک مصنف کو محبوب رکھنا اچھی بات ہے لیکن اسی موضوع میں محدود رہ جانا یا اس مصنف کی کتابوں سے آگے نہ‬
‫بڑھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے کوئی بہترین رہنما اور مشفق و مربی استاذ مل جائے تو اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کی بات‬
‫نہیں ہوسکتی نہ ملے تو اپنے ذوق کے مطابق مطالعہ کرتے رہنا چاہیے (ص ‪)۲۵۹ :‬‬
‫ذوق کتب بینی و مطالعہ‬
‫حضرت موالنا عتیق احمد قاسمی صاحب بستوی کا مضمون کافی اہم ہے ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ آج کل اسالم کے حوالے‬
‫سے تجدید و تجدد کا جو طوفان برپا ہے اور باطل جس طرح حق کو زیر کرنے کے لیے سرگرم اور بے چین ہے علماء کے‬
‫لیے یہ ضروری ہے کہ باطل کے ان افکار و نظریات سے بھی واقف ہوں عصر حاضر بعض مستقل اسباب کی بناء پر بالعموم‬
‫مطالعہ کے فقدان اور کتابوں سے بے اعتنائی کا دور کہالتا ہے اس سلسلہ میں سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ نئی‬
‫نسل کے دل و دماغ میں علم کی اہمیت جاگزیں کرائی جائے علم کو صرف حصول معاش کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے‬
‫ہللا کی ایک صفت قرار دے کر اس کی اہمیت اور عظمت دلوں میں بٹھائی جائے حیرت ناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ‬
‫امریکہ اور یورپ میں کتابوں اور رسائل و جرائد سے وہ بے اعتنائی اور سرد مہری نہیں ہے جیسی ایشاء و افریقہ میں ہے‬
‫امریکہ اور یورپ میں سفر کے دوران بار بار یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بسوں ‪ ،‬ٹرینوں ‪ ،‬اور ہوائی جہاز میں بھی وہاں کے لوگ‬
‫کسی کتاب یا میگزین کے مطالعہ میں مشغول رہتے ہیں بسا اوقات بسوں اور ٹرینوں میں کھڑے کھڑے مطالعہ کرتے رہتے‬
‫ہیں وہاں کی الئبریریاں مطالعہ کرنے والوں سے آباد رہتی ہیں کتابوں سے بیزاری اور مطالعہ سے بے رغبتی کی بیماری‬
‫ایشاء اور افریقہ میں خصوصا مسلمانوں میں زیادہ ہے جب تک نوجوانوں کے دلوں میں علم کی اہمیت نہیں بیٹھے گی اور‬
‫انہیں اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوگا کہ دنیا اور آخرت کی ترقی علم میں مضمر ہے اس وقت تک حاالت میں تبدیلی نہیں‬
‫آسکتی دوسری قومیں اپنے نوجوانوں میں علم کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور مطالعہ کتب کا عادی بنانے کے لیے جن ترغیبی‬
‫وسائل کا استعمال کرتی ہیں ہمیں بھی انہیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے مختلف ممالک میں ‪ ،‬مختلف عالقوں میں اس کے‬
‫طریقے کچھ مختلف بھی ہوسکتے ہیں (ص ‪)۲۷۰ :‬‬
‫میری علمی و مطالعاتی زندگی‬
‫حضرت موالنا خلیل الرحمن سجاد نعمانی پڑھنے لکھنے والوں سے فرماتے ہیں کہ میرے استاذ گرامی حضرت موالنا اویس‬
‫ندوی نگرامی اپنے استاذ عالمہ سید سلیمان ندوی کی یہ نصیحت بکثرت نقل کرتے تھے کہ دس صفحے لکھنے سے پہلے کم‬
‫از کم پانچ سو صفحات کا مطالعہ کرنا چاہئے مطالعہ کے سلسلہ میں میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر پیرا گراف کو کئی بار پڑھا‬
‫جائے اور مصنف کا مدعا پوری طرح سمجھے بغیر آگے نہ بڑھا جائے اور پورے مضمون کا خالصہ لوح دماغ اور لوح‬
‫قرطاس دونوں میں ضرور محفوظ کیا جائے اور کیا ہی اچھا ہو کہ اگر دو تین پڑھنے والے باہم مذاکرہ بھی کریں مطالعہ کسی‬
‫کی رہنمائی میں کیا جائے کیوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز کی صالحیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے (ص ‪)۲۷۶ :‬‬
‫نگاربیتی‬
‫محترمہ ڈاکٹر نگارسجادظہیر صاحبہ شعبہ تاریخ ‪ ،‬کراچی یونیورسٹی کا مضمون ” نگاربیتی ” ان کی خدمات جلیلہ کا ایک‬
‫بہترین تعارف بھی ہے ان کا مضمون پڑھ کر رشک آیا موصوفہ کے کام کرنے کے جذبات الئق تحسین ہیں میرا مشورہ ہے‬
‫کہ ان کا یہ مضمون تعلیم یافتہ خواتین ضرور پڑھیں وہ فرماتی ہیں کہ‬
‫ہمارے یہاں بہت سے لوگ خصوصا مرد حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ منٹ کے بعد وہ اپنی فراغت سے پریشان ”‬
‫ہوجاتے ہیں لیکن میں اپنے بعض کاموں کے لیے اپنی سبکدوشی کا انتظار کر رہی تھی انتظامی معامالت تخلیقی کاموں سے‬
‫روکتے ہیں ‪ ،‬مالزمت کے دوران ہم دوسروں کی مرضی اور ادارے کے اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں ‪ ،‬سبکدوشی کے‬
‫بعد آپ اپنا کام اپنی مرضی اور اپنے مزاج کے مطابق کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں لہذا سبکدوشی کے بعد میری‬
‫مصروفیتوں کے محور قرطاس اور االیام ہیں اس کے ساتھ ساتھ اسالمی تاریخ کے ماخذ پر مستند کام کرنے کا پروگرام ہے‬
‫اسالمی تاریخ کے بنیادی ماخذ زیادہ تر عربی زبان میں ہیں ان کا مستند اردو ترجمہ کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے بعض‬
‫کتابوں کے تراجم میں بڑی غلطیاں اور تسامحات ہیں ان کی نشاندہی اور درستگی کرنے کی خواہش مند ہوں اس کے عالوہ‬
‫تخلیقی کام یعنی شعرو ادب کا جو کام ہو جائے وہ غنیمت ہے الحمدہلل میں آج بھی بارہ گھنٹے کام کرتی ہوں (ص ‪)۲۸۷ :‬‬
‫جی رہی ہوں اس اعتماد کے ساتھ‬
‫زندگی کو میری ضرورت ہے‬
‫مطالعہ کا ذوق اور اس کے فوائد‬
‫حضرت موالنا بدرالحسن القاسمی مدظلہ العالی نائب صدر اسالمک فقہ اکیڈمی فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ کتابوں کا بھی‬
‫ضروری ہے اور کتاب ہستی کا بھی ایک سے عام معلومات میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسرے سے خالق کائنات کی عظمت اور‬
‫اس کی قدرت کی نیر نگیوں کو دیکھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں کا‬
‫نظارہ کرنے سے دل جھکتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور جبین نیاز سے سجدے بیتابی کے ساتھ نکلنا چاہتے ہیں‬
‫(ص ‪ )۳۰۸ :‬دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ‬
‫مطالعہ اردو کا ہو یا عربی کا کسی مبصر کی نگرانی میں ہونا چاہئے یا پھر کچھ اصولوں کی روشنی میں ورنہ آدمی بزعم ”‬
‫خود ہمہ دانی کا دعوی کرنے لگتا ہے لیکن حقیقت میں اپنے ذہنی انتشار کی وجہ سے دوسروں کو بھی پریشان رکھتا ہے‬
‫(ص ‪)۳۱۴ :‬‬
‫مطالعہ کی سرگزشت‬
‫حضرت موالنا خالد سیف ہللا رحمانی مدظلہ بانی و ناظم المعہد االسالمی فرماتے ہیں کہ اسالمیات کا مطالعہ کرنے والوں کو‬
‫چاہئے کہ ہر موضوع کی کم سے کم ایک کتاب چاہے وہ مختصر متن ہو باالستیعاب اور توجہ کے ساتھ پڑھے اس سے آئندہ‬
‫کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے کیوں کہ انسان آسانی سے جب کسی بات کو سمجھتا ہے تو اس کو پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوتی‬
‫ہے (ص ‪)۳۲۲ :‬‬
‫میری مطالعاتی زندگی کی چند باتیں‬
‫موالنا محمدکلیم صدیقی مدظلہ اپنے مضمون میں ایک مقام پر فرماتے ہیں ” اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ بہتر یہ ہے‬
‫آدمی کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیدے اور دوسرے کی گاڑی میں سوار ہو کر سفر کرے اس میں بڑی عافیت ہے اور کسی کی‬
‫ارادت میں شامل ہوجائے تو پھر ارادت کا مزا ” فٹ بال ” بن جانے میں ہے اپنے دعوتی سفر کے ابتدائی تذکرے کے ذیل میں‬
‫حضرت رائے پوری قدس سرہ کا ایک ملفوظ ” ارادت کا مزا فٹ بال بن جانے میں ہے ” ذکر کرکے فرماتے ہیں ہندوستان‬
‫ٹائمز میں ایک خبر دیکھی اس وقت فٹ بال کا ایک ورلڈ کپ ہوا تھا تو ایک کھالڑی جس نے جیت واال آخری گول کیا تھا اس‬
‫بال کی قیمت تھی پچاس ڈالر اس کی نیالمی ہوئی تو اس کو پچاس ہزار ڈالر دے کر خریدا گیا میں نے خیال کیا کہ ایک فٹ‬
‫بالر کے قدموں میں لگ کر ایک فٹ بال کی قیمت اتنی لگ سکتی ہے تو ایک ہللا والے کا فٹ بال بن جانے میں کتنی قیمت‬
‫بڑھ جائے گی اس کے بعد دل میں دھن ہوئی کہ حضرت واال کا فٹ بال بن کر رہیں گے فٹ بال تو نہیں بن سکے لیکن بننے‬
‫کی کوشش ضرور کی اور الحمدہلل یہ سارا دعوت کے کام کا جو کچھ بھی شور شرابا ہوا ہے کام کے نہیں بن سکے لیکن نام‬
‫ہوگیا ہے یہ سب کچھ اس فٹ بال بن جانے کی نیت کی وجہ سے ہے پھر ہر چیز اور مطالعہ بھی حضرت واال نورہللا مرقدہ‬
‫کے مشورہ سے کرنے لگا (ص ‪)۳۲۹ :‬‬
‫رزق حرف‬
‫جناب سعودعثمانی صاحب ادیب ‪ ،‬شاعر و کالم نگار ” کا ادبی ذوق قابل تعریف ہے اپنے مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے‬
‫ہیں کہ میرا شمار تو خوشہ چینوں میں ہوتا ہے ان گھنے ثمر بار درختوں کی چھاوں اور شیرینی سے فیض حاصل کرنے‬
‫والوں میں ‪ ،‬جن کا فیض عام بھی ہے اور تام بھی ان لوگوں کے درمیان ‪ ،‬جن کے دسترخوانوں سے مجھے رزق حرف ملتا‬
‫رہا ہے (ص ‪)۳۳۹ :‬‬
‫فرمایا کہ کتاب تو ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے جس طرح کسی دلدار دوست اور عزیز کا ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے پھسلتا‬
‫جائے ‪ ،‬آپ اسے مضبوطی سےپکڑنے کے لیے اپنی طاقت صرف کر دیں لیکن انچ انچ اور پورا پورا وہ ہاتھ آپ کے ہاتھوں‬
‫سے نکلتا جائے اور آپ بے بسی سے آنسو بہاتے رہ جائیں کچھ عرصہ پہلے انہی بے بسی کے آنسووں میں بہتے ہوئے میں‬
‫نے ایک شعر لکھا اور فیس بک پر اپنے احوال (سٹیٹس) پر درج کر دیا شعر تھا‬
‫کاغذ کی یہ مہک ‪ ،‬یہ نشہ روٹھنے کو ہے‬
‫یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‬
‫شعر دل سے نکال اور بے شمار دلوں میں جالگا ‪ ،‬شعر کا دائرہ در دائرہ پھیلتا گیا اس قبیلے نے اور اس نسل نے اور ہر اس‬
‫فرد نے یہ دکھ محسوس کیا جو کتاب سے عشق کرتے آئے ہیں (ص ‪)۳۴۲ /۳۴۱ :‬‬
‫فرماتے ہیں کہ آئندہ کتابوں کی جو بھی شکل ہو ‪ ،‬اس کے اپنے لطف ہوں گے اور اپنی وابستگیاں ‪ ،‬لیکن وہ بہرحال کاغذی‬
‫کتاب سے مختلف ہوں گی تو اگر وہ نسل ‪ ،‬وہ قبیلہ ‪ ،‬ایک عہد بتدریج ختم ہونے پر اپنا آپ ختم ہوتا محسوس کرے تو کیا غلط‬
‫ہے ۔ ؟ برا نہ مانیے اگر وہ اس خدشے کا اظہار کرے کہ‬
‫کاغذ کی یہ مہک ‪ ،‬یہ نشہ روٹھنے کو ہے‬
‫یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی (ص ‪)۳۴۳ :‬‬
‫اوراق شناسی‬
‫حضرت موالنا نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ دل جمعی کے ساتھ کیجئے ‪ ،‬ادھر ادھر سے دھیان ہٹا کر‬
‫کیجئے خیاالت و تصورات کے ہجوم میں مطالعہ سودمند نہیں ہوتا آپ کچھ اور سوچ رہے ہیں ذہن کہیں اور ہے اور نگاہیں‬
‫کتاب پر ٹکی ہوئی حروف و الفاظ پڑھنے میں تو آرہے ہیں لیکن جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہیں یکسوئی اور ذہنی سکون‬
‫مطالعہ کا الزمہ ہے یہ اگر میسر ہیں تو مطالعہ فائدہ مند بھی ہوگا اور اثر انگیز بھی اور اس کے نتائج بھی جلد نظر آئیں گے‬
‫(ص ‪)۳۵۶ :‬‬
‫داستان کتاب شناسی‬
‫پروفیسر ڈاکٹر محمدسعود عالم قاسمی صاحب سابق صدر شعبہ دینیات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی فرماتے ہیں کہ میرا دل‬
‫چاہتا ہے کہ ہر مسلمان سیرت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی کوئی کتاب ضرور پڑھے ہر مدرسے میں سیرت کی کوئی کتاب‬
‫داخل نصاب ہو اور گھر میں سیرت کی کتابیں موجود ہوں قرآن اگر دستور زندگی ہے تو اس کا ذیلی قانون سنت ہے اور اس‬
‫کو انسانی زندگی میں ڈھالنے کا نمونہ سیرت محمدی ہے اگر اپنی اور انسانوں کی زندگی کو منور کرنا ہے تو سیرت محمدی‬
‫کے چراغ سے روشن کیجئے ۔ (ص ‪) ۴۰۳ :‬‬
‫خود کو روشن کیجئے خود جلوہ گر ہو جائیے‬
‫خود نگاہ و خود نظیر و خود نگر ہوجائیے‬
‫لوگ چن لیں جسکی تحریریں حوالوں کیلئے‬
‫زندگی کی وہ کتاب معتبر ہوجائیے‬
‫بیان میرے مطالعہ کا‬
‫ڈاکٹرمحمداکرم ندوی پروفیسر آکسفورڈ ‪ ،‬انگلینڈ نے اپنے مضمون کے آخر میں بے حد اہم مسئلہ زیر قلم الیا ہے فرماتے ہیں‬
‫” افسوس کہ عام مسلمانوں میں مطالعہ سے بے نیازی و بیزاری ہے آج کل علمی اداروں میں بھی سیاسیات کا اس قدر غلبہ‬
‫ہے کہ علم و ادب سے اعتنا کو طفالنہ مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور جو سیاست باز نہیں وہ سیاست کی لونڈی یعنی صحافت کے‬
‫دام میں گرفتار ہیں اور ملک کا ملک اس عام بدتمیزی میں مبتال ہے آج دنیا کو کس قدر ضرورت ہے غیر سیاسی انسانوں‬
‫کی ‪ ،‬ان فرزانوں کی جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے ماحول اور زمانہ سے رشتہ منقطع‬
‫کرلے ایک خالق ‪ ،‬مصنف خالء میں نہیں رہتا ‪ ،‬نہ کسی میوزیم میں سانس لیتا ہے ‪ ،‬بلکہ وہ اپنے معاشرہ اور اپنے زمانہ سے‬
‫مربوط ہوتا ہے ‪ ،‬اس کے ماحول کے انقالبات اس کے افکار و خیاالت میں منعکس ہوتے ہیں عہد حاضر کی سیاست و‬
‫صحافت کا نہ علم سے تعلق ہے اور نہ حاالت و ماحول سے ‪ ،‬یہ بالعموم جہالت ‪ ،‬نفاق ‪ ،‬تدلیس اور تضلیل پر قائم ہے (ص ‪:‬‬
‫‪)۴۸۴‬‬
‫میرا مطالعہ‬
‫حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری نائب مفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد‬
‫فرماتے ہیں کہ ” اصل کتابوں کو نظر انداز کرکے صرف ڈیجیٹل ذخائر پر انحصار کرنا نقصان دہ ہے خصوصا طلبہ کو‬
‫سہولت پسندی سے بچنا چاہئے اور کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئے اس کے بغیر علمی گیرائی اور‬
‫نظر میں وسعت پیدا نہیں ہوسکتی (ص ‪)۵۰۳ :‬‬
‫میرے مطالعہ کا سفر‬
‫موالنا اختر امام عادل قاسمی مدظلہ بانی و مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف بہار لکھتے ہیں کہ موالنا اعجاز احمداعظمی قدس‬
‫سرہ بے حد غزیرالعلم ‪ ،‬وسیع المطالعہ اور قوی الحفظ شخص تھے کتابوں سے ان کا عشق دیدنی تھا ‪ ،‬اتنا تیز مطالعہ کرنے‬
‫واال شخص میں نے نہیں دیکھا وہ ایک ایک سطر نہیں بلکہ کئی کئی سطروں پر ایک ساتھ نظر رکھتے ہوئے پڑھتے تھے ہم‬
‫لوگوں کے اظہار حیرت پر انہوں نے بتایا کہ میں تم لوگوں کی طرح ایک ایک سطر نہیں پڑھتا بلکہ اوپر نیچے کئی سطریں‬
‫ایک ساتھ مال کر پڑھتا ہوں اور از راہ تلطف فرمایا کہ ” یوں سمجھو کہ میرا مطالعہ کالم نفسی جیسا ہے اور تم لوگوں کا‬
‫مطالعہ کالم لفظی کی طرح کا ہے ” لذت مطالعہ ‪ ،‬آتش شوق ” کے تحت لکھتے ہیں کہ” موالنا اعجاز احمدصاحب طلبہ کو‬
‫مطالعہ کی ترغیب دیتے تھے ایک دن میں نے دوران سبق (کافیہ) موالنا سے ایک سوال کیا موالنا نے فرمایا کہ تمہارے اس‬
‫سوال کا جواب کتاب میں موجود ہے اگر تم چاہو تو مطالعہ کرکے اس کا جواب حاصل کرسکتے ہو موالنا نے ماخذ کی‬
‫نشاندہی فرمائی اور مجھے اس کا جواب ڈھونڈنے کی کل تک مہلت دی چنانچہ کل ہوکر موالنا نے جواب مالحظہ فرمایا تو‬
‫تصویب وتحسین فرمائی اس کے بعد مطالعہ کی ایسی لذت ہاتھ آئی کہ یہ زندگی کا ایک روگ بن گیا اور آج تک اس روگ‬
‫سے پیچھا نہیں چھوٹا ‪ ،‬سخت سے سخت بیماری میں بھی ڈاکٹروں اور اہل خانہ کی ہزار صالحوں کے با وجود لکھے پڑھے‬
‫بغیر چین نہیں آتا ‪ ،‬لکھنے پڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں نہ معلوم کتنوں سے ہی دشمنی مول لی ‪ ،‬کتنے مالی و‬
‫جانی نقصانات گوارا کیئے اپنی صحت خراب کی لیکن اس جنون سے نجات نہ ملی بقول میر‬
‫میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب‬
‫اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‬
‫)ص ‪(۵۰۹ /۵۰۸ :‬‬
‫میرا دور طالب علمی اور مطالعہ‬
‫حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم ‪ ،‬سہانپور نے ” اہل مدارس کو نہایت قیمتی مشورہ دیا ہے وہ‬
‫فرماتے ہیں ” کسی بھی مدرسہ کی کتابیں صرف مدرسہ سے متعلق طلبہ یا اساتذہ کے لئے خاص نہیں ہوتی ہیں کتابیں پوری‬
‫ملت کا قیمتی سرمایہ ہیں کتابوں کی حفاظت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جگہ جگہ الماریوں پر لکھ دیا جائے "برائے مہربانی‬
‫کتابوں کو ہاتھ لگانا منع ہے ” جب کسی قوم کا یہ مزاج بن جائے تو اس کا ہللا ہی حافظ ہے ایسے لوگ کتابوں اور کتب خانوں‬
‫کے محافظ نہیں ہوتے بلکہ کتابوں کے کسی (گودام) کے چوکیدار تو ہوسکتے ہیں کتب خانوں کے نہیں کتابوں کی اصل‬
‫حفاظت یہ ہے کہ وہ کتاب زیادہ سے زیادہ پڑھی جائے اس کے علوم و معارف سے دوسرے لوگ بھی روشنی حاصل‬
‫کرسکیں کیوں کہ وہ چراغ ہی اصل چراغ ہے جس کی روشنی سے دوسرے مستفید ہوسکیں اور وہ چراغ کسی شمار میں نہیں‬
‫ہوتا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے سوچیں کیا مصنفین نے اسی لیے اپنے بہترین دماغ کھپائے تھے کہ ان کی کتاب ” طاق‬
‫نسیاں ” کی زینت بن جائے یا کسی شاندار و جاندار آہنی یا شیشے کی الماریوں میں ہمیشہ کے لیے قید کر دی جائے ؟‬
‫دارلمطالعہ کے بغیر مدارس ناقص ہیں ‪ ،‬کتابوں کے بغیر علماء محروم ہیں ‪ ،‬اس لیے اپنے اپنے مدارس دارالمطالعہ کا نظم‬
‫کریں اور اپنی مقدور بھر کوشش اور محنت سے کام کی کتابیں بھی خریدنے کا مزاج بنائیں فرمایا کہ پہلے زمانہ میں عوامی‬
‫کتب خانے ہوئے کرتے تھے اب سب عنقا ہوتے جا رہے ہیں لے دے کے مدارس ہی باقی بچے ہیں جہاں کتابوں کا قیمتی‬
‫ذخیرہ موجود ہے اہل مدارس اپنے اپنے طور پر بہترین نظام مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز فرمائیں ورنہ معصوم کتابوں کی‬
‫شکایت پر ہم اپنا دامن کسی طور بچا نہ سکیں گے‬
‫)ص ‪(۵۸۵/۵۸۶ :‬‬
‫میرے مطالعہ کی روداد‬
‫موالنا ضیاء الحق خیرآبادی ایڈیٹر ماہنامہ ضیاءاالسالم ‪ ،‬شیخوپورہ ” فرماتے ہیں کہ شیخ الحدیث حضرت موالنا محمد زکریا‬
‫صاحب کی ” آپ بیتی ” جو ” آپ بیتی ” اور ” جگ بیتی ” دونوں ہے اسے ایک بار پڑھا ‪ ،‬دوبار پڑھا ‪ ،‬پھر نہ جانے کتنی‬
‫بار پڑھا یاد نہیں ہے یہ میری محسن کتابوں میں سے ہے اس نے میری زندگی میں گہرے اثرات مرتب کیے اس کتاب کو پڑھ‬
‫کر یہ بات دل میں جم گئی کہ اساتذہ کی بے احترامی علم سے محرومی کا سب سے بڑا سبب ہے جس نے اساتذہ کی جس‬
‫قدرتعظیم و تکریم کی اسی کے بقدر اس کے علم کا فیضان عام ہوا اس کے عالوہ موالنا عبدالماجد دریا بادی کی ” آپ بیتی ”‬
‫” موالنا علی میاں کی ” کاروان زندگی ” شورش کاشمیری کی ” بوئے گل ‪ ،‬نالہ دل دود چراغ محفل‬
‫اس کے بارے میں شورش کاشمیری سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی ” خود نوشت سوانح ” کا )یہ ایک بہترین خود نوشت ہے(‬
‫نام ” بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل ” کس رعایت سے رکھا ہے ؟ تو انہوں نے نہایت شاندار ادیبانہ جواب دیا کہ ‪ ” :‬بوئے‬
‫گل ” میرا بچپن تھا ‪ ،‬آہوئے رمیدہ کی طرح اڑن چھو ہوگیا ‪ ” :‬نالہ دل” میری جوانی تھی جو زندگی کے ترکش سے تیرکی‬
‫طرح نکل گئی ‪ ” :‬دود چراغ محفل ” ان سانحات و حادثات کا نچوڑ ہے جنہیں مرحوم جوانی کے دوش پر اٹھائے پھرتا ہوں‬
‫(غرض اپنی طویل تلخیوں کی نعش خونچکاں میں نے الفاظ میں کفنا دی ہے) (ص ‪) ۶۵۴/۶۵۵ :‬‬
‫میرا عشق ‪ ،‬میری کتابیں‬
‫حضرت موالنا فضیل احمد ناصری استاذ جامعہ محمدانور شاہ دیوبند ” رقم طراز ہیں کہ پی ڈی ایف کلچر نے مطالعہ کو مار‬
‫دیا ‪ :‬میں علم کے باب میں اب بھی کورا ہوں مگر دیگر باذوق اہل علم کی طرح میرا سفر مطالعہ بھی حسب روایت جاری ہے‬
‫نئی کتابیں آجائیں تو انہیں پڑھے بغیر چھوڑ نہیں پاتا ‪ ،‬پرانی کتابوں کی تالش ہمیشہ رہتی ہے اور مل جانے پر ان کا مطالعہ‬
‫اپنے لیے خوراک باور کرتا ہوں میری کوشش ہوتی ہے کہ زیر مطالعہ کتابیں دستی ہی ہوں پی ڈی ایف سے بوقت ضرورت‬
‫اگرچہ استفادہ کر لیتا ہوں مگر بال ضرورت نہیں پی ڈی ایف کلچر میری نظر میں ذوق مطالعہ کے لیے زہر ہالہل ہے جب‬
‫سے اس کلچر نے فروغ پایا ہے کتب بینی کا رواج سرد پڑگیا ہے پڑھنا لکھنا گویا کفن دفن کے مرحلے سے بھی گزرگیا (ص‬
‫‪)۶۷۸ :‬‬
‫ڈیجیٹل الئبریری سے تائب ہونا پڑے گا ڈیجیٹل الئبریری نے مطالعے کا ذوق تو ختم کیا ہی ‪ ،‬تاجران کتب کے رزق پر بھی‬
‫خط تنسیخ کھینچ دیا ہے طلبہ میں مطالعے کی عادت دکھائی نہیں پڑتی مدارس میں مبائل پر گرچہ سخت پابندی ہے مگر یہ‬
‫کفر ٹوٹتا نظر نہیں آتا درسگاہوں میں طلبہ کی رسائی پڑھنے کے لیے کم اور رجسٹر کے عتاب سے بچنے کے لیے زیادہ ہو‬
‫رہی ہے اساتذہ نصیحت کر رہے ہیں سمجھانے کا ہر اسلوب اختیار کیا جا رہا ہے لیکن جمود ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے‬
‫رہا ‪ ،‬نتیجتا صالحیتوں کا فقدان اب عام سی بات ہوچکی ہے ایسے ایسے طلبہ فاضل بن کر نکل رہے ہیں جنہیں کلمہ طیبہ کا‬
‫امال تک نہیں آتا ‪ ،‬یہ محض فرضی اور اختراعی نہیں حقیقی اور مشاہداتی ہے اگر بازار علم کی رونق بحال دیکھنی ہو تو پھر‬
‫اسی قدیم ڈگر پر لوٹنا پڑے گا جس پر چل کر ہمارے اسالف راسخین فی العلم بنے یہ حقیقت کل ہی کی طرح آج بھی مسلم ہے‬
‫(ص ‪)۶۷۹ :‬‬
‫مطالعہ – میرا سرمایہ حیات‬
‫حضرت موالنا اشرف عباس قاسمی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند ” لکھتے ہیں کہ بہت سے مبتدی طلبہ اسی شش و پنج میں رہ‬
‫جاتے ہیں کہ کوئی استاذ ہماری نگارش کو دیکھ لے تو اگال مضمون لکھیں گے یا مطالعہ کریں گے اور اساتذہ اپنی عدیم‬
‫الفرصتی کی وجہ سے نہیں دیکھ پاتے تو طالب علم کا یا تو حوصلہ پست ہو جاتا ہے یا اگال مضمون وہ کافی وقفے کے بعد‬
‫لکھتا ہے اس صورتحال اور سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے طالب علم کو بس لکھتے رہنا چاہئے اگر استاذ محترم کے پاس‬
‫وقت نہیں ہے تو اپنا لکھا ہوا کسی ساتھی سے پڑھوا لے ‪ ،‬خود پڑھے ‪ ،‬اگر اس نے اپنا مضمون دس بار پڑھا تو دسویں بار‬
‫بھی اسے کہیں نہ کہیں سقم نظر آئے گا اس کی اصالح کرے اور آگے بڑھتا رہے بہت جلد وہ ایک اچھا قلم کار اور کتابوں پر‬
‫نظر رکھنے واال بابصیرت عالم بن جائے گا ۔ ان شاء ہللا (ص ‪)۷۰۵ :‬‬
‫میرے مطالعے کا مختصرسفر‬
‫ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی زیدہ مجدہ استاذ معہد تعلیم االسالم شکاگو ‪ ،‬امریکہ ” لکھتے ہیں کہ میں جب بھی نوجوان فضالء‬
‫مدارس سے ملتا ہوں تو ان سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مطالعہ کرتے وقت اسالم کی وسعت اور آفاقیت کو ملحوظ‬
‫رکھیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دین کی عقلی تشریح پر توجہ دیں سوشل میڈیا کے دور نے بہت سے لوگوں کو‬
‫قلم کار بنا دیا ہے نوجوان فضالء اگر اس ٹیکنالوجی کا مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کریں تو جہاں معاشرتی سطح پر‬
‫اس کا فائدہ ہوگا ذاتی سطح پر بھی خود ان کو اس کا فائدہ پہنچے گا ‪ ،‬اگر وہ ” ٹرینڈ ” کرتے موضوعات پر مثبت اور‬
‫مختصر تحریر بھی لکھیں گے تو قارئین کی فوری پزیرائی سے ان کا حوصلہ مہمیز ہوگا ان میں زیادہ سے زیادہ لکھنے کا‬
‫شوق پیدا ہوگا اور وہ الکھوں لوگوں کی اصالح کا فریضہ انجام دے سکیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلکی‬
‫تنازعات اور تنقیص پر مبنی مضامین سے دور رکھیں (ص ‪)۷۱۸ :‬‬
‫میرے آدھے ادھورے مطالعہ کی سرگزشت‬
‫حضرت موالنا مفتی محمد ساجد کھجناوری مدیر ماہنامہ صدائے حق ‪ ،‬گنگوہ فرماتے ہیں کہ اب جبکہ علم و مطالعہ سے‬
‫وابستگی زوال پذیر ہے شمع تحقیق کی لو مدھم ہوتی جاتی ہے اور وسائل اعالم و نشر کی ریل پیل نے کھرے اور کھوٹے‬
‫کے امتیاز پر شب خون مارا ہے تو صحت مند مواد کی فراہمی اور نفع بخش لٹریچر کی نشان دہی ‪ ،‬ہماری مطالعاتی ذمے‬
‫داریوں کو ایک نئے احساس و جذبہ سے آشنا کرتی ہے برقی مواصالت سے مربوط آج کی نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت‬
‫ہے کہ یہ صدی علم و تحقیق کے چراغ روشن کرنے والوں کی صدی ہے تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے معلم انسانیت‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے اقراء کی صورت میں جو نسخہ امت کے لیے تجویز فرمایا تھا مطالعہ کتب اسی کی یاد دہانی ہے (ص‬
‫‪)۷۳۰ :‬‬
‫مطالعہ کی سرگزشت‬
‫موالنا محمد عمرین محفوظ رحمانی سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل الء بورڈ کا طویل مضمون معلومات سے لبریز ہے فرمایا‬
‫کہ مطالعہ سے فکر و نظر اور ذہن و دل کو جال ملتی ہے کتاب کے ذریعے نئے نئے اشخاص اور مختلف افکار و نظریات‬
‫سے انسان کو شناسائی حاصل ہوتی ہے کتاب کی صحبت خود اعتمادی اور بے نیازی پیدا کرتی ہے اور کتنی ایسی کتابیں ہیں‬
‫جنہیں پڑھ کر انسان قرب ربانی اور مقام روحانی حاصل کرتا ہے کاغذ پر ابھرے ہوئے الفاظ میدان عمل میں آگے اور بہت‬
‫آگے بڑھنے کا حوصلہ اور کچھ کرنے اور کر گزرنے کا جذبہ بخشتے ہیں گزرے ہوئے نامور انسانوں کے حاالت زندگی‬
‫فرش سے عرش تک سفر کا ذوق پیدا کرتے ہیں شوق کی دولت بیدار بھی کتابوں کے اوراق سے حاصل کی جاسکتی ہے اس‬
‫لیے پڑھنے اور خوب پڑھنے کا مزاج بنانا چاہئے ایسا اور اتنا پڑھنا چاہئے کہ علم رگ و پے میں سما جائے اور پیمانہ‬
‫معلومات لبریز ہوکر چھلک جائے الیعنی مشاغل میں انہماک ‪ ،‬نئے آالت سے اشتغال اور تعلقات کی کثرت مطالعہ کتاب کی‬
‫راہ کا روڑا ہیں وقت کے صحیح استعمال کی عادت انسان کو آگے بہت آگے لے جاتی ہیں ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے‬
‫چھوٹی چھوٹی عمر میں جو بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے اور شرف و شعور کی اعلی ترین بلندیوں تک پہنچے اس کا راز‬
‫وقت کا صحیح استعمال ہے ہمارے لیے بھی یہی راہ عمل اور جادہ خیر ہے ہاتف غیبی پکار کر کہہ رہا ہے‬
‫دقات قلب المرء قائلہ لہ‬
‫بان الحیاہ دقائق و ثوبان‬
‫)ص ‪) (۷۷۱ :‬انسان کے دل کی دھڑکنیں اس سے مخاطب ہیں کہ زندگی تو بس یہی منٹ اور سیکنڈ ہیں(‬
‫وقت کا ہر لمحہ یہ کہتا ہوا گذرا مجھ سے‬
‫ساتھ چلنا ہے تو چل میں چال جاوں گا‬
‫بچوں میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں ؟ موالنا سراج الدین ندوی صاحب کا یہ مختصر مگر نہایت اہم مضمون ہے (ص ‪:‬‬
‫‪)۸۱۸‬‬
‫علوم اسالمیہ اور ڈیجیٹل دنیا‬
‫حضرت موالنا محمد حذیفہ وستانوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کا کتاب سے بڑا گہرا تعلق رہا‬
‫ہے جب کوئی قوم کتاب کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگاتی ہے تو اسے پر پرواز مل جاتے ہیں اور وہ اپنی پرواز میں ستاروں‬
‫سے بھی آگے نکل جاتی ہے اور جب اس کے ہاتھ کتاب اٹھانے کے قابل نہیں رہتے تو وہ زمین کی پستیوں میں بھٹکنے لگتی‬
‫ہے کیوں کہ پرواز تو اسے کتاب نے ہی دی تھی انسان کتاب لکھتا ہے اور کتاب انسان کا مقدر تحریر کرتی ہے زندہ قوم کی‬
‫الئبریری زندہ متحرک ہوتی ہے جس سے ہر لمحہ زندگی کی برکتوں کی شعائیں پھوٹتی رہتی ہیں اور جب قوم مردہ ہوجاتی‬
‫ہے تو یہ الئبریری بھی مردہ خانے میں تبدیل ہوجاتی ہے کتاب ہر اس شخص اور ہر اس قوم کے لیے ہے جو اس کی طرف‬
‫محبت کا ہاتھ بڑھاتی ہے جب یورپ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو مشرق کی فضاوں میں علم و حکمت کی تجلیاں ہر‬
‫جہت بکھرتی چلی گئیں تھیں اور جب تجلیوں کے اس کارواں نے مشرق کی فضاوں سے نکل کر مغرب کا رخ کیا تو ہمارا‬
‫شاعر درد و غم کے عالم میں پکار اٹھا‬
‫مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی‬
‫دیکھیں انکو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ‬
‫)ص ‪(۸۲۲ /۸۲۱ :‬‬
‫آخری بات ‪ :‬ماہنامہ النخیل کے مطالعہ نمبر کے اکابر و اساطین علم کی تحریروں کا اختصار شایان شان پیش کرنا اس ناکارہ‬
‫کے بس کی بات تھی بھی نہیں بس ایک دلی شوق تھا جس کی تکمیل پر ہللا پاک کے حضور شرف قبولیت کے لیے دست بدعا‬
‫ہوں دوران مطالعہ اگر کوئی کسی غلطی پر متنبہ ہوں تو اسے اس عاجز کی جانب منسوب کرکے اصالح فرما دیں یقینا ان کا‬
‫یہ تعاون علمی امانتوں کی صحیح نشر و اشاعت کا ذریعہ ہوگا ارباب ذوق سے بندہ کی درخواست ہے کہ ماہنامہ النخیل کے‬
‫اس مطالعہ نمبر کو اپنی عالمانہ التفات سے نوازیں مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے کتب خانوں تک اس کی رسائی کو‬
‫ممکن بنائیں یہی اس کتاب کا حق بھی ہے ہللا پاک تمام لکھنے والوں کو جزائے خیر دے جو باحیات ہیں ان کے فیض کو عام و‬
‫تام فرمائے اور جو ہللا کی جوار رحمت میں پہنچ گئے ہیں ہللا پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور امت کو نعم البدل عطا‬
‫فرمائے‬

‫بالگز‬

‫آپ کی تحریر کیلئے رہنما اصول‬


‫جنوری ‪Last updated 2022 ,13‬‬
‫‪767‬‬

‫‪ShareFacebookTwitterGoogle+ReddIt‬‬
‫تحریر‪ :‬زینب وحید‬
‫ٹک ٹک ٹک‪ ،‬گھر ہو یا سڑک ‪،‬دفتر ہو یا ہوٹل‪ ،‬ہر طرف ٹک ٹک ٹک اور‬
‫ہیش ٹیگ کا شور‪ ،‬ٹرینڈز کے چکر میں نوجوان امی ابو کا خالہ اور چاچو‬
‫سے باتیں کرنا تو دور کی بات‪ ،‬کھانا پینا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو نہالنے‬
‫اور کھالنے تک سے العلم ہو چکے ہیں۔ نگوڑے موبائل نے جہاں د نیا بھر‬
‫کی معلومات آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے‪ ،‬وہیں ایک گھر کے اندر بھی‬
‫دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ اسالم آباد کی ایک ٹھنڈی شام میں ایک ریسٹورنٹ‬
‫کے کونے میں بیٹھی ایک آنٹی نے کولڈ کافی کی لمبی سے چسکی لی اور‬
‫ساتھ بیٹھی خاتون سے گلہ کیا‪ ،‬دوسری خاتون نے بھی مہنگی شال درست‬
‫کرتے ہوئے نزاکت اور شائستگی سے پلیٹ سے بار بی کیو کی ایک بوٹی‬
‫کا ٹکڑا اٹھایا‪ ،‬پھر بولیں ‪ ،‬ہاں بھئی یہ تو ہے‪ ،‬میری بیٹی کے پا س تو وقت‬
‫نہیں مجھ سے بات کرنے کےلئے‪ ،‬اسی لئے یہاں تمہارے پاس آگئی ہوں‪،‬‬
‫انہوں نے ساتھ ہی پرس سے ٹشو پیپر نکال کر ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک‬
‫صاف کی۔ ایک اہم میٹنگ کے لئے میں بھی اسالم آباد کے اسی ریسٹورنٹ‬
‫میں اقوام متحدہ کے ایک اعلٰی افسر کا انتظار کر رہی تھی۔ اسی لئے سوچ‬
‫لیا کہ گھر واپس آکر اس موضوع پر ضرور لکھوں گی کہ آخر لکھنے‬
‫لکھانے کے فائدے کیا ہیں۔‬
‫اگرچہ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ واقعی لکھنا آپ کی دماغی صحت‬
‫کو بہتر بنا سکتا ہے یا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکن ماہرین آپ کے دماغ کے‬
‫اندر جذبات اور احساسات کوباتوں کو بوتل میں بند کوئی توانائی سمجھتے‬
‫ہیں کہ جو باہر آجائے تو آپ کی شخصیت میں بہتری ال سکتا ہے ۔ بعض‬
‫ڈاکٹروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر آپ لکھنا شروع کر دیں تو ذہنی صحت‬
‫بہتر ہو گی اور اس سے آپ کو خود کو تالش کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔‬
‫ایک اچھا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود اعتمادی بڑھانے سے لے کر بہتر‬
‫فیصلے کرنے تک کی صالحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔‬
‫ارنسٹ ہیمنگوے مشہور امریکی ناول نگا ر ہیں۔ ان کا عہد اکیس جوالئی‬
‫‪ 1899‬سے لے کر ‪ 1961‬تک رہا۔ ُان کا مشہور قول ہے ” لکھنے والے‬
‫اپنے اندر جو درد محسوس کرتے ہیں‪ ،‬انہیں وہ درد سپرد قلم کرنا چاہیے‪،‬ا‬
‫” س دکھ اور کرب میں دوسروں کو بھی شامل کرنا چاہیے‬
‫اگرچہ اس وقت ہیمنگوے کو تو علم نہیں تھا‪ ،‬لیکن تحقیق نےثابت کر دیا ہے‬
‫کہ کوئی بھی اپنے اندر کا دکھ‪ ،‬درد‪ ،‬کرب یا کوئی بھی خوشی کی کیفیت‬
‫ضبط تحریر میں التا ہے تو یہ عمل دماغی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر‬
‫سکتا ہے۔ اب تک ایسے دو سو تحقیقاتی مکالے چھپ چکے ہیں کہ جن سے‬
‫پتا چلتا ہے کہ اگر آپ اپنے جذبات کو تحریر میں لے آئیں تو دماغی صحت‬
‫پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‪ ،‬لیکن نفسیاتی فوائد کے حوالے سے‬
‫الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔‬
‫ایک نظریئے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر آپ دل کی بات زبان پر نہیں‬
‫الئیں گے یا اس کو تحریر کی شکل نہیں دیں گے تو یہ نفسیاتی الجھنیں پیدا‬
‫کرے گی۔ دوسری صورت میں آپ کی تحریر دماغی صحت کومطمئن حد‬
‫تک لے جا سکتی ہے کیونکہ آپ نے ان جذبات کو محفوظ‪ ،‬رازدارانہ اور‬
‫آزاد طریقے سے ظاہر کر دیا ہے۔ یوں اندر کا کرب باہر آنے سے آپ کو‬
‫سکون بھی محسوس ہو سکتا ہے ‪ ،‬تو میری بات کا خالصہ یہ ہے کہ کس‬
‫طرح خود شناسی آپ کی توجہ اپنے اندر کی طرف موڑ سکتی ہے جس سے‬
‫ہم اپنے خصائص‪ ،‬برتاؤ‪ ،‬احساسات‪ ،‬عقائد‪ ،‬اقدار اور محرکات کے بارے‬
‫میں مزید آگاہ ہو سکتے ہیں۔‬
‫تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے اندر چُھپی صالحیتوں کے بارے میں خود‬
‫آگاہ ہونا ایک دو نہیں‪ ،‬کئی طریقوں سے فائدہ مند ہو سکتا ہے‪ ،‬یعنی خود‬
‫اعتمادی بڑھ سکتی ہے‪ ،‬دوسروں کے نظریات اور عقائد زیادہ اچھے انداز‬
‫میں قبول کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے‪ ،‬ہمیں مزید(سلیف کنٹرول) یا خود‬
‫پر قابو پانے اور اپنے اہداف کے مطابق بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد مل‬
‫سکتی ہے ۔نتیجہ یہ نکال کہ اپنے احساسات تحریر کرنا یا خوداپنے بارے‬
‫میں آگاہی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے‪ ،‬اس کی دلیل یہ ہے کہ‬
‫آپ روزانہ اپنی ڈائری لکھیں گے تو آپ کی پریکٹس ہو گی اور دماغ بھی‬
‫بہتر انداز میں کام کر ے گا ‪ ،‬اسی طرح اپنی تحریر کو بار بار پڑھنے سے‬
‫اپنے خیاالت‪ ،‬احساسات‪ ،‬رویے اور عقائد کے بارے میں بھی گہری بصیرت‬
‫فراہم ہو سکتی ہے ۔‬
‫ماہرین نے تین قسم کی تحروں کا ذکر کیا ہے جو ذہنی صحت کو بہتر بنا‬
‫۔ یہ تاثراتی ‪، Expressive writing‬سکتی ہیں۔ ان میں سے نمبر ایک ہے‬
‫تحریر عام طور پر الجھن کا شکار لوگوں کو کچھ سکون دینے کےلیے‬
‫لکھوائی جاتی ہے۔ یعنی ُان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرب و اذیت والے‬
‫زندگی کے واقعات یا تجربات کے بارے میں اپنے خیاالت اور احساسات‬
‫لکھیں۔ ایسی تحریر کا مقصد کسی مشکل چیز کو جذباتی طور پر آسان‬
‫کرنے میں مدد کرنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تاثراتی تحریر خود آگاہی‬
‫کو بڑھا سکتی ہے‪ ،‬ڈپریشن کی عالمات‪ ،‬فکر مند خیاالت اور سمجھے‬
‫‪ Reflective‬جانے والے تناؤ کو کم کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ہے‬
‫۔ یہ وہ انداز تحریر ہے کہ جس میں باقاعدگی سے پیشہ ورانہ انداز ‪writing‬‬
‫استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬نرسوں‪ ،‬ڈاکٹروں‪ ،‬اساتذہ‪ ،‬ماہر ین نفسیات اور سماجی‬
‫کارکنوں کو لوگوں سے گہرے لگاؤ کے لئے مدد ملتی ہے۔ تحریر کا یہ‬
‫طریقہ لوگوں کو سیکھنے اور ترقی کے لیے واضح طور پر اپنے عقائد اور‬
‫‪،‬اعمال کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ فراہم کرنا ہے۔تیسرے نمبر پر ہے‬
‫۔ نظمیں‪ ،‬مختصر کہانیاں‪ ،‬ناول اور سبھی تخلیقی ‪Creative writing‬‬
‫تحریریں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ تخلیقی تحریر کسی شخص کے تخیل کے‬
‫ساتھ ساتھ ایک طرح سے اس کی یادداشت کو بھی امتحان میں ڈالتی ہے جس‬
‫سے دماغ تیزی سے کام کرتاہے ۔ کہا جاتا ہےکہ تخلیقی تحریر خیاالت‪،‬‬
‫احساسات اور عقائد دریافت کرنے کا منفرد طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر‪،‬‬
‫آپ ایک سائنس فکشن ناول لکھ سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے بارے‬
‫میں آپ کے خدشات کی نمائندگی کرتا ہے یا بچوں کی کہانی جو دوستی کے‬
‫بارے میں آپ کے عقائد کو بیان کرتا ہے۔ تخلیقی تحریر لوگوں کی حوصلہ‬
‫افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ‪ ،‬استعاروں اور تصاویر کا انتخاب اس‬
‫انداز میں کریں کہ وہ واقعی کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اور‬
‫کہتے ہیں۔ ماہرین ‪ Writing for self-awareness‬انداز تحریر ہے جس کو‬
‫کے نزدیک اچھی ذہنی صحت کے لئے خود آگاہی ایک اہم جز ہے اور لکھنا‬
‫شروع کرنے کے لئے ایک بہترین وجہ ہے۔ اگر آپ روزانہ پندرہ منٹ ایسا‬
‫کر لیں تو آپ کی دماغی صحت میں بہتری آسکتی ہے ۔‬
‫ویسے وہ دن تو گئے جب کسی اخبار میں چھپوانے کےلئے تحریر نہایت‬
‫َنپی ُتلی‪ُ ،‬پر مغز اور اعلٰی اخالقی معیارات کے مطابق ہوتی تھی‪ ،‬قلم کاروں‬
‫کو معاشرے میں بلند مقام حاصل تھا اور لوگ انہیں مشعِل راہ کے طور پر‬
‫دیکھتے تھے۔سوشل میڈیا کے اس دور اور ٹیکنالوجی کے انقالب کے بعد‬
‫آن الئن بالگز نے تو ہر مشکل ہی حل کر دی ہے۔ آپ کے لئے اپنے خیاالت‬
‫بڑی آڈیئنس تک پہنچانے کا آسان ذریعہ مل گیا ہے۔آپ اپنا ذاتی بالگ بنا‬
‫سکتے ہیں‪ ،‬آن الئن پلیٹ فارمز پر چھپوا سکتےہیں۔ اب تو ایسے پلیٹ فارم‬
‫موجود ہیں کہ آپ لکھ کر اس کی آڈیو ریکارڈ کریں اور اپ لوڈ کر دیں‪،‬‬
‫بڑی بڑی کمپنیاں میدان میں آچکی ہیں جو آپ کی اپنی آواز میں آپ کی‬
‫تحریر کی آڈیو پوڈکاسٹ کی صورت میں اپ لوڈ کر نے کا آپشن دیتی ہیں‪،‬‬
‫صرف اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کی تحریر تخلیقی اور کچھ منفرد ہو۔‬
‫چوٹی کے ماہرین کا خیال ہے کہ چند منٹ کی دلچسپ آڈیو سننا ہزاروں‬
‫الفاظ پر مشتمل خشک تحریر پڑھنے سے آسان اور اپیلنگ ہے ‪ ،‬اس لئے‬
‫آپ کی تحریرمیں جان ہے تو ہزاروں لوگ آپ کے خیاالت اور ماہرانہ رائے‬
‫سننے کےمنتظر بیٹھے ہیں۔ لیکن زارا ٹھیریئے۔ ماہرین نے آپ کے لئے‬
‫کچھ نکات ڈھونڈ نکالے ہیں کہ کیا اور کیسے لکھنا ہے۔‬
‫استاد لوگ کہتے ہیں کہ کچھ بھی لکھنے سے پہلےاس کا مقصد واضح ہونا‬
‫چاہیے۔ ویسے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‪ ،‬لیکن سب سے اہم‬
‫مقصد یہ ہو کہ اپنے خیاالت‪ ،‬مشاہدات‪ ،‬علم اور تجربے کو الفاظ اور جملوں‬
‫میں ڈھال کر ایسی تحریر تخلیق کریں جس سے قاری کا عمل بہتری کی‬
‫طرف گامزن ہو۔ اسی طرح دوسری چیز واضح مرکزی خیال ہے۔ اگر آپ‬
‫اپنی ذہنی صالحیت بڑھنا اور موبائل سے جان چھڑانا چاہتےہیں تو بالگ‬
‫لکھا کریں‪ ،‬مگر آپ کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال بالکل واضح ہونا‬
‫چاہیے ۔ اگرآپ خود کسی کنفیوژن کا شکار ہیں تو متاثر کن تحریر ہرگز‬
‫وجود میں نہیں آ سکتی ۔ آپ کو اپنے اردگرد ایسےکئی موضوعات بکھرے‬
‫ملیں گے جن پر لکھ کراپنے اندر کا تذبذب دور کیا جا سکتا ہے اور اصالِح‬
‫معاشرہ میں بھی اپنا حصہ ڈاال جا سکتا ہے۔‬
‫ایک درخواست ہے کہ ایسے موضوع کا انتخاب ہرگز نہ کریں جس پر پہلے‬
‫ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور اس ایشو پر پہلے سے رائے عامہ ہموار ہو‬
‫چکی ہو۔ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے معلوم کریں کہ کسی ایشو پر اب تک کیا‬
‫لکھا جا چکا ہے‪ ،‬آپ اپنا نقطہ نظر اس منزل سے آگے شروع کریں۔‬
‫میری آپ کو تجویز ہے کہ دوراِن تحریر خیاالت‪ ،‬حاالت اور واقعات ایک‬
‫منطقی ترتیب سے اس طرح پیش کریں کہ ہر پیراگراف سے قاری کی‬
‫معلومات میں سلسلہ وار اضافہ ہو اور وہ اگلے سے اگال پیراگراف پڑھنے‬
‫پر مجبور ہوتا چال جائے۔ بے ڈھنگی ترتیب قاری کو کنفیوز کر دیتی ہے‬
‫اور وہ دلچسپی کھو دے گا۔ ایک منظم ترتیب ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے‬
‫کہ قاری کےلیے تحریر کے آخر تک دلچسپی برقرار رہے گی۔ اساتذہ کرام‬
‫اور ماہرین کہتے ہیں کہ تحریر کی مقصدیت دو حصوں پر مشتمل ہے؛ اول‬
‫یہ کہ قاری کچھ حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ قاری کسی نتیجے پر‬
‫پہنچ رہا ہے یا نہیں؟ تو آپ بہترین معلومات فراہم کیجیے تاکہ قاری تحریر‬
‫سے کچھ حاصل کرے اور معلومات کو منظم انداز میں پیش کریں ۔ایک اور‬
‫اہم نکتہ یہ ہے کہ معلومات‪ ،‬واقعات یا حوالہ جات میں غلطی ہر گزنہ کریں۔‬
‫اسی طرح مصدقہ و مستند معلومات کو معیاری جملوں اور درست الفاظ میں‬
‫بیان کریں۔‬
‫آج کل لوگوں کے پاس پڑھنے کےلئے بالکل وقت نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ‬
‫آپ کی تحریر کی طرف آہی گئے ہیں تو ان کے راستے میں مشکل الفاظ‬
‫کے روڑے نہ اٹکائیں‪ ،‬طویل پیچیدہ جملوں کی سرنگیں نہ بچھا ئیں ‪ ،‬غیر‬
‫ضروری ڈیٹا میں مت الجھائیں ‪ ،‬الفاظ اور مفہوم کی تکرار سے دور رہیں۔‬
‫سادہ الفاظ سے بنے ہوئے چھوٹے اور بامعنی جملے استعمال کریں جن سے‬
‫مفہوم خود بخود چھلکتا جائے۔ چونکہ لوگ لمبی چوری تحریر نہیں پڑھتے‪،‬‬
‫اس لئے آپ کی تحریر حد سے زیادہ طویل ہو گی تو تاثیر کھو دے گی۔ ایک‬
‫عام بالگ کو بارہ سو سے پندرہ سو الفاظ تک محدود ہونا چاہیے ‪ ،‬لیکن‬
‫مضمون کی مناسبت سے اس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اخبارت‬
‫میں لکھنا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں کہ کالم نگاری الفاظ‪ ،‬جملوں‪ ،‬خیاالت اور‬
‫معلومات کے فنکارانہ امتزاج کا نام ہے۔ مطالعہ وسیع کریں تاکہ آپ کے‬
‫پاس الفاظ‪ ،‬خیاالت اور معلومات کا بہترین مجموعہ اکٹھا ہو سکے۔‬
‫آخر میں کچھ گذارشات ہیں کہ سائنسی تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے‬
‫کہ اپنے ہاتھ سے لکھنے کی عام عادت انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت‬
‫کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس سے زندگی کے مثبت تصور کو‬
‫قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہاتھ سے تحریر کرنے کی عادت دماغی‬
‫نشوونما میں بہتری اور افعال کو متحرک کرتی ہے کیونکہ اس عمل کے‬
‫دوران دماغ کی بورڈ پر ٹائپنگ کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے۔‬
‫تحریر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار مزاج کو بہتر‪،‬تناؤ کو کم اور‬
‫زندگی پر اطمینان بڑھا دیتا ہے۔‬
‫کسی کارڈ کو خریدنے کے بعد آپ اس میں کوئی اچھا پیغام لکھنے کے لیے‬
‫مجبور ہوجاتے ہیں جو دوسرے فرد کے دل کو بھی چھو جائے‪ ،‬اس کے‬
‫مقابلے میں واٹس ایپ‪ ،‬ٹویٹر‪ ،‬انسٹاگرام‪ ،‬فیس بک یا یوٹیوب پر پیغامات میں‬
‫بہت مختصر جملے استعمال ہوتے ہیں ۔ کاغذ اور قلم کا امتزاج بصری اور‬
‫دماغی افعال کو مختلف انداز میں متحرک کردیتا ہے ۔ ہاتھ سے تحریر کے‬
‫لیے تمام حصوں سے مدد لینا پڑتی ہے اور ملٹی ٹاسکنگ کی عادت کو ذہن‬
‫سے نکالنا پڑتا ہے۔ آپ ڈائری لکھنے کو بھی اپنا مشغلہ بنا سکتے ہیں جس‬
‫سے عام طور پر ذہن میں آنے والے مختلف خیاالت کو درج کر لینا ہوتا ہے۔‬
‫زندگی کے مختلف تجربات ہمیں مختلف احساسات سے گزارتے ہیں‪ ،‬کئی‬
‫بار ذہن مختلف قسم کے خیاالت میں الجھ جاتا ہے لیکن ان خیاالت اور‬
‫احساسات کو بعد میں یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے ڈائری میں انھیں‬
‫درج کر لینے سے وہ آپ کے پاس رہتے ہیں۔ اگر آپ مستقل ڈائری میں‬
‫لکھتے رہیں تو آپ کو ان مسائل کو پہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے جو غیر‬
‫ضروری طور پر آپ کو روزمرہ کی بنیاد پر پریشان کرتے ہیں۔ کاغذ پر‬
‫لکھے لفظ کہنے کو ساکت و جامد ہوتے ہیں ‪،‬لیکن ان میں دنیا جہاں کے‬
‫رنگ‪ ،‬ذائقے‪ ،‬لمس‪ ،‬خوشبوئیں اور جذبے پائے جاتے ہیں ‪ ،‬یہ سوچوں اور‬
‫مزاج کا آئینہ بن کر انجانے لوگوں کو ایک دوسرے سے یوں منسلک‬
‫کردیتے ہیں جیسے وہ زمانوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہو۔‬
‫میں نے اس تحریر میں آپ کو کئی ایسی ٹپس دی ہیں جن کا اطالق آپ کو‬
‫اس بالگ میں نظر نہیں آئے گا ‪ ،‬جیسے آپ کا بالگ طویل نہ ہو‪ ،‬الفاظ سادہ‬
‫اور آسان ہوں وغیرہ‪ ،‬تو آپ یہ بات نوٹ کر لیں کہ اس بالگ کا مقصد‬
‫چونکہ اپنے قارئین تک ایک خاص پیغام پہنچانا تھا‪ ،‬اس لئے آپ کو اس‬
‫تحریر میں بعض اصولوں کی خالف ورزی نظر آئے گی‪ ،‬لیکن یہ خالف‬
‫ورزی تحریر کے بنیادی اصولوں کے خالف نہیں بلکہ اس کا ایک اصالحی‬
‫پہلو بھی ہے‬
‫لکھنے کی مہارت کو کیسے بہتر بنایا جائے‬
‫‪on June 15, 2022‬‬

‫تحریر‬

‫احمدیار‬

‫اور اردو نصاب میں اس کو "لکھائی" ‪ writing competency‬پاکستان کے ا نگریزی کے نصاب ‪ 2020‬میں اس مہارت کو‬

‫اور "تخلیقی لکھائی" کے نام دئیے گئے ہیں۔ قومی نصاب میں اس مہارت کا مقصد بچے کے احساسات ‪ ،‬جذبات اور مافی آلضمیر‬

‫کا خط ‪,‬کہانی مضمون‪ ،‬رپورٹ‪ ،‬شاعری ‪،‬پیراگراف یا کردارنگاری کی شکل میں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ کوشش کیجاتی ہے کہ‬

‫بچوں کی لکھائی رواں صحیح اور بامقصد ہو۔اور وہ رسمی اور غیر رسمی انداز تحریر کے فرق کو مد نظر رکھ کر قواعد اور‬

‫‪.‬ذخیرہ الفاظ کا استعمال کرسکیں‬

‫خطوط نویسی مضمون نویسی‪ ،‬رپورٹ لکھنا‪ ،‬نظم لکھنا ‪،‬پیراگراف ) ‪ (story writing‬تخلیقی لکھائی کی مختلف قسمیں کہانی‬

‫‪.‬لکھنا روزنامچہ لکھنا وغیرہ ہیں‬

‫کا نام دیا گیاہے ۔ اردو کی ‪ Creative Writing‬اور ‪ٓ Guided Writing‬افاق کی انگلش سن کی کتاب میں ان مہارتوں کو‬

‫کتاب میں اس کے لیے "لکھیں" اور کچھ "نیا لکھیں" کے نام سے سرگرمیاں دی گئی ہیں۔‬

‫بچوں کو سکھانے میں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اساتذہ اس کو تین درجوں میں ‪ Creative Writing‬تخلیقی لکھائی یا‬

‫سکھائیں۔ پہلے درجے میں وہ طلباء کو طریقہ کار کی ہ سکھائیں اور سمجھائیں۔ مثال کے طور پر کہانی لکھنے کا طریقہ کار کیا‬

‫ہے یا مضمون کیسے لکھا جاتا ہے۔ دوسرے درجے میں اساتذہ بچوں کو نمونے کی کہانیاں‪ ،‬مضامین یا خطوط لکھوائیں یا‬

‫سمجھائیں جیسے کسی جگہ پر مضمون‪ ،‬اللچی کتا یا اخبار کے ایڈیٹر کو خط ۔ بچے یہ نمونے دیکھ کر لکھنے کے طریقہ کار‬

‫کو سمجھ جائیں گے اور وہ ہدایات کی روشنی میں اس قابل ہوجائیں گے کہ وہ خود کوئی تخلیقی مواد کسی موضوع پر لکھ‬

‫سکیں۔‬
‫تیسرے درجے میں استاد بچوں کو سمجھائیں گے اور ان کو لکھنے کا ٹاسک دیں گے۔ مثال کے طورپر' اللچ بری بال ہے" کی‬

‫کہانی اپنے ماحول ‪ ،‬پڑوس یا عالقے سے ایک مثال لے کر لکھیں گے۔اس طرح بچے اللچ پر ماحول یا عالقے سے اپنی تخلیقی‬

‫صالحیتوں کو استعمال کرکے نئی کہانی تخلیق کر سکیں گے۔تخلیقی لکھائی میں بچوں کے قواعد کی غلطیوں پر زیادہ توجہ نہیں‬

‫اور تخلیقی صالحیتوں کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ‪ presentation skills‬دی جاتی بلکہ اظہار‬

‫ہمارے سکولوں میں اکثر براہ راست مضامین ‪،‬خطوط اور کہانیاں لکھوائی جاتی ہیں اور بچوں سے زبانی یاد کرائی جاتی ہیں‬

‫اور پرچوں میں وہی کہانیاں یا مضامین دیئے جاتے ہیں سب بچے ایک جیسی کہانیاں لکھتے ہیں اور پھر اس کے نمبر دئیے‬

‫جاتے ہیں۔جس سے رٹہ سسٹم کو فروغ ملتا ہے‬

‫تخلیقی لکھائی اور انشا پردازی کے لئے پاکستان کے قومی نصاب میں مجوزہ ضابطہ معیار‬

‫پیراگراف‬

‫آغاز ۔ ربط و تسلسل ۔ الفاظ کا چناؤ ۔ اختتام۔ امال۔ رموز اوقاف‬

‫درخواست نویسی‬

‫آغاز اور پتہ ۔ القاب وآداب ‪،‬مدعا۔اختتام درخواست کنندہ کا نام و پتا‪ ،‬تاریخ ‪ ،‬امال۔ رموز اوقاف‬

‫کہانی نویسی‬

‫پالٹ ‪ /‬ابتدا۔ موضوع سے مطابقت ۔ نکتہ عروج و دلچسپی۔ ربط و تسلسل ۔ اختتام ‪ /‬اخالق‬

‫)نوٹ۔ یہ مضموں خاص طور پر پاکستان کے سکولوں کے اساتذہ کے رہنمائ کے لیے لکھا گیا ہے(‬
‫‪ http://anqasha.blogspot.com/2010/06/blog-post_20.html?m=1‬مزید جانیے‬

‫خالدہ حسین سے ایک یادگار انٹرویو۔ مصاحبہ کار‪ :‬نجیبہ عارف‬


‫ب م‪By‬‬

‫جوالئی‪Posted18 2021 ,‬‬


‫یاد نگاری‪In‬‬

‫خالدہ حسین ہمیشہ میرے لیے ایک اساطیری کردار کی طرح رہی ہیں‪ ،‬جس کے بارے میں یقین‬

‫نہیں ہوتا کہ سچ مچ ہے بھی یا نہیں! زندگی کے عمومی حجم سے کچھ بڑا کردار‪ ،‬جو وقت اور‬

‫فاصلے کے حجاب چیر کر پار اتر سکتا ہے‪ ،‬ذہن کی خشک پپڑیوں کے اندر تک ِر س کر انھیں‬

‫سرسبز کر سکتا ہے اور عقبی بصری پردوں پر ایسے مناظر منعکس کر سکتا ہے جو کبھی نظر‬

‫کے سامنے سے نہ گزرے ہوں۔ ان کی کہانیوں میں معانی کی ایسی تہیں ہوتی ہیں جنھیں کھولنا‬

‫دلچسپ‪ ،‬تحیر زا اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو ہر پہلو سے چھو چھو کر دیکھتی ہیں اور‬
‫اس کا لمس اپنی تحریر میں زندہ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ زندگی پڑھنے والے کے اندر جذب ہوجاتی‬

‫ہے۔ بڑی خاموشی اور دھیمے پن سے۔ شور مچا کر‪ ،‬زور اور قوت سے نہیں‪ ،‬مدھم مدھم‪ ،‬ہولے‬

‫ہولے‪ ،‬بے آواز بارش کی طرح‪ ،‬بے رنگ پانی کی طرح‪ ،‬جو نظروں میں آئے بغیر اپنا کام کر‬

‫گزرتا ہے۔ خالدہ حسین کی تحریر میں ویسا ہی اسرار ہے جیسا زندگی کی ابتدا اور انتہا کے‬

‫بارے میں سوچنے‪ ،‬اچھے اور برے‪ ،‬خیر اور شر‪ ،‬نیک اور بد کے باہم مل جانے کے مقام کو‬

‫سمجھنے اور اس سے آگے نکل جانے کی تگ و دو میں ہوتا ہے۔‬


‫اسرار کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی طرف بالتا ہے۔ ایسے معنی خیز اشارے کرتا‬

‫ہے‪ ،‬جن پر لبیک کہے بنا چارہ نہیں رہتا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں اس کاسہم بھی رہتا‬

‫ہے۔ پتا نہیں سمجھ میں آئے یا نہیں‪ ،‬پتا نہیں ٹھیک ہو یا غلط۔ سمجھ بھی جائیں تو دھڑکا لگا رہتا‬

‫ہے کہ پتا نہیں ٹھیک سمجھا ہے یا نہیں۔‬

‫خالدہ حسین کی تحریروں میں بھی ایسی ہی کشش ہے‪ ،‬ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ڈر وابستہ ہے۔‬

‫ان کی تفہیم و تعبیر کرتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ پتا نہیں یہ بات ان کی تحریر میں تھی‪ ،‬یا خود‬

‫ہمارے اندر کہیں موجود تھی جو چپکے سے باہر نکل آئی ہے‪ ،‬بوتل کے جن کی طرح۔‬

‫اسی لیے جی چاہتا تھا کہ کسی روز انھیں اچھی طرح چھو کر ٹٹول کر دیکھوں کہ وہ سچ مچ کی‬

‫ہیں یا کوئی اساطیری کردار ہیں۔ تخیل کا تراشا ہوا‪ ،‬وہم و گمان کا زائیدہ۔‬

‫کئی برس سے میں انھیں ملنے اور ان سے تفصیلی گفتگو کرنے کے پروگرام بنا رہی تھی مگر‬

‫نجانے کیا حجاب تھا جو بار بار حائل ہو جاتا تھا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے میں پچیس برس‬

‫تک ان سے نہ مل پائی اور جب ملی تو ایسا لگا کہ کئی پچیس برسوں سے ملتی چلی آ رہی ہوں۔‬

‫میں نے ان کی گوشہ نشینی کے بارے میں‪ ،‬ان کی مردم گزیدگی اور تنہائی پسندی کے بارے‬

‫میں‪ ،‬ان کی خود مکتفی بے نیازی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔‬

‫وہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتیں۔‬

‫وہ محفلوں میں نہیں جاتیں۔‬

‫انھیں انٹرویو وغیرہ دینے سے چڑ ہے۔‬

‫یہ سب باتیں مجھے روک دیتی تھیں مگر اس روز جب میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ساتھ پہلی بار‬

‫ان سے ملنے گئی تو وہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے گزر رہی تھیں۔ یوں تو‬
‫زندگی کا ہر صدمہ ہی بڑا لگتا ہے لیکن ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میں سمجھ سکتی ہوں کہ‬

‫جوان اکلوتے بیٹے کی موت دل پر کیسا وار کر سکتی ہے۔ وہ بالکل نڈھال تھیں مگرخود کو‬

‫سنبھالنے کی تگ و دو میں لگی تھیں۔ میں بھی چاہتی تھی کہ تھوڑی دیر کو سہی مگر وہ اس‬

‫احساِس زیاں کو ذرا سا بھول جائیں۔ میں نے ان سے اس خواہش کا اظہار کر دیاکہ کسی روز‬

‫میں ان سے تفصیلی گفتگو کے لیے آنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے شاید مروتًا انکار نہیں کیا لیکن اس‬

‫خواہش کو عمل میں ڈھالنے میں مزید نجانے کتنا وقت لگ جاتا اگر ڈاکٹر فاطمہ حسن یہ فرمائش‬

‫نہ کرتیں کہ خالدہ حسین سے کچھ باتیں ریکارڈ کر کے انھیں بھیجی جائیں۔ لٰہ ذا میری اس دیرینہ‬

‫خواہش کی فوری تکمیل اگر ہوئی تو اس میں بہت ہاتھ ڈاکٹر فاطمہ حسن کا بھی ہے۔‬

‫دسمبر‪۲۰۱۶ ،‬ء کی شام‪ ،‬اپنی عزیز شاگرد اور اب ہم کار امینہ کے ساتھ ساز و سامان سے ‪۶‬‬

‫لیس ہو کرجب میں ان کے ہاں پہنچی تو وہ بالکل تیار تھیں۔ صدمے نے انھیں کمزور ضرور کر‬

‫دیا تھا مگر ذہنی طور پر وہ بالکل چست وتوانا تھیں۔ امینہ نے کیمرہ اور ریکارڈنگ کا سامان‬

‫تیار کر لیا تو میں نے ان سے باتیں چھیڑ دیں۔ کسی رسمی باقاعدہ انٹرویو کی طرح نہیں‪ ،‬بالکل‬

‫غیر رسمی اور بے قاعدہ انداز میں۔ خالدہ آپا کی گفتگو سننا آرٹ فلم دیکھنے جیسا تجربہ تھا۔ وہ‬

‫بار بار اپنے اندر اتر جاتی تھیں۔ ان کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس میں‬

‫لمبے وقفے آتے تھے۔ دھیمے دھیمے لب و لہجے میں‪ ،‬کبھی ہلکے ہلکے قہقہے لگاتے ہوئے‪،‬‬

‫کبھی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے‪ ،‬کبھی گلوگیر ہو کر‪ ،‬وہ ہر سوال کا جواب دیتی رہیں۔ یہاں‬

‫تک کہ میں بھول ہی گئی کہ میں کوئی رسمی انٹرویو لینے آئی تھی اور ان سے اپنی باتیں کرنے‬

‫لگی۔ اس لیے اس انٹرویو کا کوئی باقاعدہ اختتامی جملہ نہیں ہے۔ بس بات یکا یک مڑ گئی اور‬

‫انٹرویو کے دائرے سے نکل کر پھیل گئی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کے لب و لہجے‬

‫کوجوں کا توں پیش کر دوں اس لیے اس مکالمے میں گفتگو کا آہنگ ہے‪ ،‬تحریر کا نظم و ضبط‬

‫اور دم خم نہیں ہے۔‬


‫سوال‪ :‬تو خالدہ آپا! پاکستان میں رہتے ہوئے‪ ،‬ایک خاتون ادیب ہونا کیسا تجربہ ہے؟‬

‫‪ Exceptional‬خالدہ حسین‪ :‬خاتون ادیب ہونا۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں پر کچھ‬

‫چیزیں ہیں۔ مثًال اگر ہم شمار کریں تو بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کہ قابِل ذکر ہیں ہمارے ہاں‬

‫فنوِن لطیفہ میں اور اس کے مقابلے میں میرا خیال ہے مردوں کی تعداد شاید برابر ہو‪ ،‬برابر نہیں‬

‫تو شاید کم ہو۔ تو یہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک کے لیے ایک بڑی عجیب و غریب صورِت حال‬

‫ہے۔‬

‫سوال‪ :‬اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہی جو لوگ کہتے ہیں کہ فنون کا تعلق چونکہ‬

‫مردوں کی نسبت خواتین کے ہاں زیادہ ہے؟ ‪ Sensitivity‬سے ہے اور ‪Sensitivity‬‬

‫بھی چاہییں اس کو باہر النے ‪ Opportunities‬خالدہ حسین‪ :‬لیکن اس کے لیے آپ دیکھیں کہ وہ‬

‫ہے اور یا اگر اس کے اندر کوئی ٹیلنٹ ‪ Sensitivity‬کے لیے۔ وہ ساری جو اس کی‬

‫‪ encouragement‬تو اس کوبھی باہر النے کے لیے کوئی ماحول چاہیے‪ ،‬کوئی ‪hidden،‬ہے‬

‫چاہیے جوکہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ پر اس کے‬

‫باوجود آپ دیکھیں کہ خواتین کی ایک خاصی تعداد ہے جو کہ فنوِن لطیفہ میں اپنا نام پیدا کر‬

‫رہی ہے۔‬

‫سوال‪ :‬اچھا خالدہ آپا! اپنے بارے میں بتائیے کہ زندگی کیسی گزری؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬زندگی کیسی گزری؟؟ بہت مشکل سوال ہے۔ ۔ ۔ بہت اچھی گزری۔ شاید اسے اسی‬

‫طرح ہی گزرنا تھا اور میرا یہ خیال ہے کہ جس چیز کو جس طرح ہونا ہوتا ہے وہ اسی طرح‬

‫ہوتی ہے اور کسی طرح سے نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ تو اس زندگی کو اسی طرح ہی ہونا چاہیے تھا‬
‫جس طرح بھی ‪ pre determination،‬اور وہ ہوگئی۔ شاید اس کو آپ تقدیر کا تصور کہہ لیں یا‬

‫آپ سمجھ لیں لیکن میرا یہ خیال ہے کہ پہلے سے مقرر ہوتا ہے کہ کیا ہوگا اور کس طرح ہوگا۔‬

‫سوال‪ :‬وہ کیا چیز یں ہیں جو یہ سب مقرر کرتی ہیں؟ جو یہ طے کرتی ہیں کہ اس طرح ہوگا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬یہاں پر آکر تو مجھے تقدیر ہی کا قائل ہونا پڑتا ہے اب دیکھیں نا کہ کسی ایک‬

‫خاص گھر میں پیدا ہونا۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ تو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کسی گھر میں ہم پیدا ہو‬

‫گئے وہاں پہ جو ہمارے والدین ہیں جو شروع میں ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں‪ ،‬وہ کس‬

‫طرح کے ہیں‪ ،‬ان کے تصورات کیا ہیں اور زندگی کے بارے میں ان کے کیا خیاالت ہیں‪ ،‬ان‬

‫کے کیا رویے ہیں تو وہ سب چیزیں بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ وہ پہلے سے ہو چکی ہیں‬

‫اورہم اس میں آکے داخل ہو جاتے ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬یعنی کہ ہمارے والدین‪ ،‬ہمارا عرصۂ حیات‪ ،‬جس زمانے میں ہم پیدا ہوئے‪ ،‬یہی چیزیں ہیں‬

‫جو ہماری شخصیت کو متعین کرتی ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں بالکل‪ ،‬وہی کاؤنٹ کرتی ہیں وہی بناتی ہیں اور اس پر تو یہی ہے کہ جیسے کہ‬

‫مقدر کیا گیا ہے کہ کس وقت میں ہمیں آنا ہے اور۔۔۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ بعد میں جو ہم اپنی تعلیم‬

‫کے ذریعے یا ہمارے جو آئیڈیلز ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہم جو کوشش کرتے ہیں‪ ،‬وہ بھی‬

‫چیزیں جو ہیں نا‪ ،‬وہ ‪ basic‬بہت بڑی بات ہے‪ ،‬وہ بھی ہماری شخصیت میں بہت اہم ہے‪ ،‬لیکن‬

‫جوزمین فراہم کرتی ہیں اور جو کھاد ہم جس کو کہیں‪ ،‬وہ پہلے سے ہوتی ہیں؛ ان کو ہم نہیں‬

‫بدلتے۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا آپ کب پیدا ہوئیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی میں ‪ ۱۸‬جوالئی ‪ ۱۹۳۸‬ء کو الہور میں پیدا ہوئی۔‬
‫سوال‪ :‬آپ نے تعلیم کہاں سے پائی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬الہور ہی میں پرائمری تک ایک ہندو اسکول‪ ،‬سوہن الل ہائی اسکول میں‪ ،‬میں نے‬

‫پڑھا۔ کے۔ جی سے لے کر کالس فائیو تک۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جہاں بعد میں مدرسۃ البنات بن‬

‫گیا۔ وہاں پر میرے ابا کے دوستوں کی اوالدیں بھی پڑھتی تھیں۔ وہاں پہ پانچ سال جو گزارے تو‬

‫اس کا مجھ پہ بہت زیادہ گہرا اثر رہا ہے۔ اس وقت تو مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن پھر بھی‬

‫جو ‪ prayer‬ہمارے اسکول کا جو ماحول تھا اس میں ہندو مذہب کا کافی دخل تھا۔ ہماری صبح کی‬

‫ہوتی تھی وہ بھی سنسکرت میں ہوتی تھی جس کی آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں بھی‬

‫بولتی تھی۔ مجھے بھی پتہ تھا کہ کیا بولنا ہے اور باقی اٹھنا‪ ،‬بیٹھنا اور وہاں پر ہماری ٹیچر کے‬

‫لباس‪ ،‬ساڑھیاں وغیرہ اور ہمارے اسکول کے جو مالک تھے رائے بہادر سوہن الل۔ ہمارے‬

‫‪ institution‬اسکول کے ساتھ ہی ان کا گھر تھا۔ وہ بڑے امیر کبیر آدمی تھے۔ انھوں نے بہت بڑا‬

‫کھوال تھا لیکن وہ بذاِت خود اتنی سادگی کی حالت میں رہتے تھے کہ گھر کے دھلے ہوئے‬

‫کپڑے‪ ،‬ٹخنوں سے اونچی پینٹ پہنی ہوئی اور ُچڑ ُم ڑ قمیصیں اورکوئی استری وغیرہ نہیں اور‬

‫بالکل وہ اس طرح کے آدمی تھے۔ وہ اپنے گھر سے نکلتے تھے تو ہم دور سے انھیں دیکھتے‬

‫تھے کہ وہ آرہے ہیں رائے بہادر۔ ہم سب بھاگے جاتے تھے اور جاکے ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم‬

‫ان سے کہتے رائے بہادر جی‪ ،‬نمستے!تو وہ بڑے پیار سے ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ نمشتے‬

‫نمشتے کرتے تھے۔ تو وہ باتیں مجھے بہت……اس وقت تک اتنا پتہ نہیں تھا کہ کیا ہے لیکن‬

‫رفتہ رفتہ پھر احساس ہو گیا کہ نہیں ہم الگ ہیں یہ لوگ الگ ہیں۔ ایک مسلمان ہوتے ہیں‪ ،‬ایک‬

‫آگئی تھی۔ ‪ consciousness‬ہندو ہوتے ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہاں پر کافی‬

‫سوال‪ :‬تو فکری طور پر بھی ہندو مت کے کچھ اثرات ہوئے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں فکری طور پر نہیں۔ اس میں صرف یہ ہے کہ مجھے ان کے لباس میں بڑا‬
‫تھا۔ ساڑھیاں واڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں شروع سے ہی؛ اور باقی ان کا اٹھنا‪ ،‬بیٹھنا۔ ‪interest‬‬

‫یہ باتیں مجھے اچھی لگا کرتی تھیں اپنی ٹیچرز کی۔ دس سال کی عمر ہوگی میری تب شاید۔ ۔ ۔‬

‫لیکن پاکستان کا جوش بہت تھا‪ ،‬بہت زیادہ۔‬

‫سوال‪’’ :‬کاغذی گھاٹ‘‘ میں آپ نے یہ سارا ماحول پیش کیا ہے نا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی۔ ۔ ۔ ۔ تبھی سے ہمارے اندر پیدا ہوگئی تھی پاکستان کے لیے محبت اور نعرہ‬

‫بازی اور یہ وہ۔ بڑے جلسے جلوس بھی کرتے تھے بچپن میں۔‬

‫سوال‪ :‬آپ نے لکھا ہے کہ وہ جو آپ کی دو سہیلیاں تھیں عائشہ اور افروز‪ ،‬تو ان کے سامنے آپ‬

‫‪ establishment‬کو کچھ ایسی شرمندگی سی محسوس ہوتی تھی کہ ہمارے ہاں تو سب لوگ شاید‬

‫کے حامی ہیں اور وہ لوگ بڑے باغیانہ خیاالت کے مالک ہیں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی بڑے انقالبی لوگ تھے۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ لوگ وسیع تر دنیاسے تعلق‬

‫رکھتے ہیں کیوں کہ وہ مہاجر تھے۔ میں یہ بہت مرعوب ہو کر اور خوف زدہ ہو کر سوچتی تھی‬

‫کہ یہ ایک میرے جیسا ہی گھر چھوڑ کے آئے ہیں اور ان کا اتنا بڑا شہر ہوگا اور وہاں کی‬

‫عمارتیں ہوں گی اور وہاں کی زندگی ہوگی۔ یہ کتنے بہادر لوگ ہیں کہ اس کو چھوڑ کے یہاں‬

‫آگئے اور یہاں پہ اتنے خوش ہیں یہ اور اتنی محبت کرتے ہیں ہمارے ساتھ۔ تو اس کا میرے اوپر‬

‫بہت رعب تھا اور میں دبتی تھی بہت زیادہ۔ اور کبھی کبھی مجھے بہت احساس جرم بھی ہوتا‬

‫تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ جیسے میں نے انھیں تکلیفیں دی ہیں بہت۔ بعد میں آہستہ آہستہ بڑے‬

‫ہوگئے پھر یہ ہٹ گئیں باتیں ساری۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا یہ کب معلوم ہوا کہ آپ کو افسانے لکھنے ہیں؟‬


‫بھی ‪ imaginative‬خالدہ حسین‪ :‬کہانیاں سننے کا شوق تو شروع سے تھا۔ بہت سنتی تھی اور‬

‫بہت تھی۔ اپنے ساتھ باتیں بھی کیا کرتی تھی۔ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ پانچ بھائی‬

‫بہنیں ہیں ہم۔ دو بہنیں ہیں اور تین بھائی۔ میری بہن سب سے بڑی ہیں‪ ،‬بیچ میں تین بھائی ہیں‪،‬‬

‫تھی اپنی ماں ‪ attached‬میں سب سے چھوٹی ہوں۔ تو چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں بہت زیادہ‬

‫بھی بہت تھی۔ کبھی کام نہیں کیا تھا۔ سب لوگ میرے کام کرتے تھے ‪ dependent‬کے ساتھ اور‬

‫اور بہت مجھے الڈ پیار میں رکھا۔ گو کہ میں ہمیشہ شکایت کرتی تھی کہ مجھے کوئی نہیں پیار‬

‫کرتا۔ کبھی لڑائی ہو جاتی تو میں سوچتی کہ اچھا میں گھر سے چلی جاؤں گی۔ یہ لوگ مجھے‬

‫پیار نہیں کرتے۔ پھر ایک دن میں فقیر بن جاؤں گی۔ اور پھر بھکارن بن کر آؤں گی اور انھی‬

‫کے گھر پر آؤں گی۔ یہاں آکے ان کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔ پھر وہ باہر نکلیں گے۔ مجھے‬

‫پہچانیں گے۔ پھر میں ان سے کہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ تو اس بات پہ آکے تو میں خود ہی رونے لگتی تھی۔‬

‫کرتی رہتی تھی بیٹھ کے۔ دوسرے مجھے ایک خوف تھا۔ سب سے زیادہ ‪ imagine‬یہ میں‬

‫خوف جو مجھے زندگی میں تھا وہ ماں سے جدا ہونے کا۔ مجھے لگتا تھا کہ کہیں میں ‪basic‬‬

‫اپنی ماں سے جدا نہ ہو جاؤں۔ بہت زیادہ تھا۔ شروع سے ہمیشہ سے‪ ،‬یہ خوف رہا تھا۔ تو اس کا‬

‫میری شخصیت پر بہت اثر ہوا‪ ،‬مجھے لگتا ہے۔ میرے دل کے اندر جدائی کی اور اپنے پیاروں‬

‫کے بچھڑنے کی بہت دہشت ہے‪ ،‬بہت زیادہ۔ یہ چیزیں بس زندگی میں اسی طرح ہوتی ہیں۔ پھر‬

‫یہ کہ ہمارا بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن بہت اچھا گزرا۔ بہت ایک دوسرے کے قریب تھے۔ بہت‬

‫کھیلتے تھے۔ اتنا کھیلے ہیں میں اور میرے بھائی۔ میری بڑی بہن تو ددھیال میں رہتی تھیں۔ وہ‬

‫ذرا ہم سے کچھ دور رہیں۔ لیکن ہم چاروں‪ ،‬میں اور میرے بھائی‪ ،‬بہت کھیلتے رہے‪ ،‬بہت کھیال‬

‫ہم نے۔ تو بہت زیادہ یگانگت ہماری تھی۔ بچپن کے تاثرات بہت زیادہ گہرے رہے اور اب تک یاد‬

‫آتی ہیں تب کی باتیں۔‬


‫سوال‪ :‬آپ کی جو تحریریں میں نے پڑھی ہیں ان میں آپ کی یاد داشت کا تعلق داخل سے زیادہ‬

‫ہے۔ یعنی تاثرات اور محسوسات جو ہیں وہ آپ کو اتنی وضاحت سے یاد ہیں۔ چیزوں کی نسبت‬

‫تاثرات زیادہ گہرے ہیں آپ کی تحریروں میں۔ مثََال آپ کوئی خارجی واقعہ بھی بیان کرتی ہیں تو‬

‫ہیں یا جس ‪ feelings‬اس میں اس کے معروضی حقائق کم نظر آتے ہیں اور اس پہ جو آپ کی‬

‫طرح وہ آپ کو نظر آرہا ہے‪ ،‬آپ کی نظر اس میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات‬

‫ہے۔ اس بات پر مرزا اطہر بیگ بھی آپ کے بہت قائل ہیں آپ کو معلوم ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ‬

‫‪ deep‬خالدہ حسین میری پسندیدہ رائٹر ہیں کیوں کہ وہ اتنی‬ ‫‪space‬‬ ‫کرتی ہیں ‪create‬‬

‫اپنے افسانوں کے اندر کہ ایک اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔ تو آپ کو معلوم ہے یہ بات؟ آپ ایسا‬

‫شعوری طور پر کرتی ہیں یا الشعوری طور پر؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں یہ شعوری طور پر نہیں ہوتی۔ میں تو صرف اپنے احساسات بیان کرتی ہوں۔‬

‫یہی چیزیں مجھے متاثر کرتی ہیں تو اسی طرح بیان کر دیتی ہوں۔ تو یہ میرا خیال ہے کہ شاید یہ‬

‫بھی ہو‪ ،‬جوکہتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کی کوئی انفرادیت ہوتی ہے تو شاید یہی میرے تجربے‬

‫کی انفرادیت ہے کہ اتنی وضاحت کے ساتھ اور اتنی تفصیل کے ساتھ اور ماحول اور مکان اور‬

‫کرتے ہیں‪ ،‬بہت زیادہ۔ ‪ haunt‬جگہیں‪ ،‬مقامات‪ ،‬یہ مجھے بہت متاثر کرتے ہیں‪ ،‬بہت زیادہ۔ بہت‬

‫تو یہ میرا خیال ہے پیدائشی طور پر لوگ ہوتے ہوں گے ایسے۔ لوگوں کو ہوتا ہے۔‬

‫سوال‪ :‬لیکن آپ کو یہ کب پتہ چال کہ آپ کو افسانے لکھنے ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬دراصل شوق تو تھا۔ کہانیاں پہلے سنتی تھی۔ اس کے بعد جب کوئی چھٹی ساتویں‬

‫جماعت میں آئی تو اسکول کی الئبریری سے کتابیں لینی شروع کیں۔ تبھی میری دوستی کچھ‬

‫ایسی لڑکیوں سے ہو گئی جو ادھر سے آئی تھیں۔ بہت زیادہ ادبی ذوق تھا ان لوگوں میں۔ ایک تو‬

‫میری دوست بہت گہری ہیں وہ زاہد ڈار کی بہن‪ ،‬ریحانہ ڈار۔ وہ لدھیانہ سے ہجرت کر کے ادھر‬
‫آئے تھے تو میری اور ان کی بہت دوستی ہو گئی۔ اب تو وہ لندن میں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بہت‬

‫پڑھنے لکھنے والے تھے‪ ،‬بہت زیادہ۔ ان کے گھر میں کتابوں کا بہت چرچا تھا اور بہت کتابیں‬

‫ادب کا پتہ ‪ latest‬ہوتی تھیں۔ تو میں ان سے کتابیں لے کے پڑھتی تھی۔ ان کے ذریعے مجھے‬

‫رہتا تھا کہ آج یہ ہو رہا ہے۔ آج وہ ہو رہا ہے۔ ہر کتاب ان کے گھر آتی تھی۔ ریحانہ کے پاس‬

‫آتی‪ ،‬ریحانہ سے میرے پاس آتی۔ باقی ہم اسکول کی الئبریری سے لیتے۔ توپڑھنے کا خبط ہو گیا‬

‫تھا بس۔ وہ پڑھتے اور تب یہ کہ ترقی پسند ادب بہت فیشن میں تھا تو وہ بھی پڑھتے۔ عصمت‬

‫چغتائی کو بہت پڑھا ہم لوگوں نے مل کے۔ پھر قرۃ العین کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی طرح پڑھنے‬

‫کے ساتھ ہی پھر مجھے کچھ احساس ہوا کہ چلو میں بھی لکھتی ہوں۔ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے‬

‫لکھنا شروع کیا تو وہ پھر اپنے دوستوں کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ ہاں ہاں‪ ،‬لکھو لکھو‪ ،‬چلو‬

‫پورا کرو۔ پوری کرو کہانی۔ اس طرح بس شروع ہو گیا لکھنا۔‬

‫سوال‪ :‬تو آپ نے پہلی کہانی کب لکھی اور وہ کب چھپی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬میں نے میٹرک میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور میٹرک میں ہی تھی جب میری پہلی‬

‫کہانی چھپی ہے اور وہ بڑے چھوٹے سے رسالے میں چھپی تھی۔ اس کے بعد پھر دو تین کہانیاں‬

‫اور میں نے اس طرح لکھیں‪ ،‬اسی میں چھپیں لیکن میں فورََا اس کے بعد خبردار ہوگئی کہ نہیں‬

‫کی کہانیاں نہیں لکھنیں۔ اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے یا یہ میری ‪ type‬مجھے اس‬

‫فطرت کے مطابق نہیں ہے۔ بہت ترقی پسند کہانیاں لکھتی تھی کچھ اس طرح کی۔ بہت غریب‬

‫لوگ ہیں اورکوئی بیوہ ہے‪ ،‬کوئی بیمار ہے۔ اس طرح کی دو تین کہانیاں لکھیں۔ پھر مجھے لگا‬

‫کہ نہیں یہ میری اصل فطرت نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب میں نے زیادہ پڑھنا شروع کیا تو‬

‫مجھے پتا چال کہ ادب تو بہت وسیع چیز ہے اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے اور وہ لکھنا‬

‫چاہیے جو میں خود محسوس کرتی ہوں۔ پھر ترقی پسندی کو میں نے چھوڑ دیا۔‬
‫سوال‪ :‬تو وہ کن رسالوں میں چھپی تھیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬تھا ایک رسالہ۔ میں ویسے بتایا نہیں کرتی لوگوں کو۔ میری ایک کالس فیلو ہوتی‬

‫تھی اس کا نام حامدہ تھا۔ اس کی واقفیت کسی سے تھی جو رسالہ’’حرم ‘‘ چھاپتے تھے۔‬

‫’’حرم‘‘ ہی میرا خیال ہے نام اس کا۔ وہ کہانیاں لکھتی تھی اور اس میں بھیجا کرتی تھی۔ اس نے‬

‫پھر مجھ سے کہا کہ خالدہ تم بھی لکھو‪ ،‬میں تمھاری کہا نیاں چھپواؤں گی۔ میں نے کہا ٹھیک‬

‫ہے۔ میں وہ لکھ کے اس کو دے دیتی تھی تو وہ حرم میں چھپواتی تھی۔ پھر بعد میں مجھے پتہ‬

‫چال کہ یہ تو کوئی خاص ادبی رسالہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے کہیں پہ ایک‬

‫پڑھا تھا کہ کسی نے یہ حوالہ دیا تھا کہ یہ بتاتی نہیں ہیں‪ ،‬ان کی کہانیاں ’’حرم‘‘ ‪reference‬‬

‫میں چھپنا شروع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بڑی پتے کی‪ ،‬بہت دور کی بات لے کے آیا‬

‫ہے۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ اصغر کے نام سے آپ لکھتی تھیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھی۔ بس اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر ’’ادِب‬
‫لطیف‘‘ میں میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تب مرزا ادیب تھے اس کے ایڈیٹر۔ تب سے میں نے‬

‫باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔‬

‫سوال‪ :‬آپ نے تعلیم کہاں تک پائی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ایم اے۔ اردو۔‬

‫سوال‪ :‬کب ؟ کس یونی ورسٹی سے کیا؟‬

‫خالدہ حسین‪۱۹۶۲ :‬ء میں‪ ،‬پنجاب یونی ورسٹی اوریئنٹل کالج سے۔‬
‫سوال‪ :‬تو کون سے اساتذہ سے پڑھا آپ نے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہمارے ہیڈ تو ڈاکٹر سید عبدہللا تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تھے۔ وحید قریشی تھے‬

‫اور ڈاکٹر صادق۔ ۔ ۔ ۔ بہت اچھے اچھے لوگ تھے۔‬

‫سوال‪ :‬اس کے بعد پھر آپ نے مالزمت کی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی بالکل مالزمت کی۔ لیکچرار بننے کے بعد میں نے الہور کالج میں مالزمت کی‬

‫دو تین سال۔ بس اس کے بعد‪ ۲۷‬نومبر ‪۶۵‬ء کو میری شادی ہو گئی تو مالزمت چھوڑ دی۔ پھر‬

‫بہت عرصے کے بعد میں نے کراچی میں جاکے ‪۸۰‬ء یا غالبََا ‪۷۹‬ء میں شروع کی دوبارہ۔ وہاں‬

‫شاہین کالج میں۔ پھر اس کے بعد میں باقاعدہ مالزمت کرتی رہی۔ ‪۹۷‬ء میں پھر میں ‪ PAF‬پہ‬

‫ریٹائر ہوئی اسالم آباد سے۔‬

‫سوال‪ :‬تو یہ تجربہ کیسا رہا مالزمت کا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬مالزمت کا۔ ۔ ۔ اچھا رہا۔ ۔ ۔ ۔ اچھا لگا مجھے۔ ۔ ۔ لیکن یہ تھا کہ کراچی میں میں بہت‬

‫خوش تھی کیوں کہ کراچی کے ماحول میں اور اسالم آباد کے ماحول میں بہت فرق تھا۔ کراچی‬

‫شاہین کالج‪ ،‬بہت چھوٹا تھا ‪، PAF‬میں یہ تھا کہ ہمارے کالج میں بھی؛ حاالنکہ چھوٹا سا کالج تھا‬

‫صرف سیکنڈ ایئر تک تھا۔ بیرکس تھیں کوئی‪ ،‬اس میں انھوں نے کھوال ہوا تھا۔ تھوڑے سے‬

‫‪ genuine‬کالس رومز تھے اور تھوڑا سا اسٹاف تھا لیکن وہ اتنے اچھے لوگ تھے اتنے زیادہ‬

‫لوگ تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ سب لوگ مخلص اور اپنے کام کے ساتھ بھی مخلص تھے۔‬

‫وہاں پر ہمارا بہت ادبی ماحول ہوتا تھا۔ یہ یاد ہے کہ میری ساری دوستیاں جو تھیں وہ ان ٹیچرز‬

‫کے ساتھ تھیں جو سائنس پڑھاتی تھیں۔ وہ سائنس پڑھاتی تھیں لیکن ادب کو اتنا اچھا سمجھتی‬

‫تھیں وہ اور اتنا ان میں شعور تھا کہ بڑی حیرت ہوتی تھی۔ ایک میری دوست تھی اب تو پتہ نہیں‬

‫وہ مجھے یاد کرتی ہوگی کہ نہیں‪ ،‬وہ بیالوجی کی ٹیچرتھی‪ ،‬شہناز۔ وہ میری کہانیاں پڑھتی تھی‬
‫اور اتنا اچھا تجزیہ ان کا کرتی تھی اور اتنی اچھی تنقید کرتی تھی کہ میں حیران ہو جاتی تھی‬

‫اس کی بصیرت پہ۔ اسی طرح اور تھیں۔ ایک کیمسٹری پڑھاتی تھیں‪ ،‬روحی۔ پھر بعد میں وہ‬

‫پرنسپل بھی ہو گئیں۔ ان کا بھی بہت ادبی ذوق تھا۔ ایک صاحب ہمارے ساتھ تھے جو اسالمیات‬

‫‪ highly‬پڑھاتے تھے۔ بہت‬ ‫آدمی تھے‪ ،‬طارق۔ وہ بھی اتنے زبردست سمجھنے ‪intellectual‬‬

‫والے ادب کو۔ ۔ ۔ ۔ تو وہاں پہ میں بہت خوش تھی۔ ہم لوگ بہت ادب کی باتیں کرتے۔ ۔ ۔ ہم باتیں‬

‫نہ بھی کرتے ادب کی تو آپس میں ہماری گفتگو بہت اچھی ہوتی تھی۔ وہاں سے میں یہاں آئی تو‬

‫مجھے لگتا تھا میرا دماغ اڑ جائے گا۔ یہاں پہ تو میں حیران ہو گئی۔ کوئی کتاب کی بات نہیں‬

‫کرتا تھا‪ ،‬کوئی پڑھنے لکھنے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ جب میں نے‬

‫لوگوں کو بولتے ہوئے سنا‪ ،‬ان کا لہجہ سنا‪ ،‬تو میرا دل بیٹھ گیا۔ وہاں کراچی سے میں اتنی شستہ‬

‫زبان اور لہجہ سنتی ہوئی آئی اور یہاں آکے۔ ۔ ۔ ۔ بہت مشکل سے میں نے اپنے کانوں کومانوس‬

‫کیا ان کے لہجوں سے۔ اور اس کے بعد پھر یہ تھا کہ ایک آدھ بندہ ہوتا تھا جو کتاب کی بات کرتا‬

‫تھا۔ اس لیے میں یہاں پر اپنے آپ کو ِم س فٹ ہی محسوس کرتی رہی۔ کیوں کہ یہاں پر ذہنی طور‬

‫پر وہ ماحول نہیں مال مجھے‪ ،‬جو کراچی میں تھا۔‬

‫سوال‪ :‬لکھناکس زمانے میں شروع کیا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬میری کہانیاں تو ‪۶۰‬ء کی دہائی میں چھپنا شروع ہوئیں۔‬

‫سوال‪’’ :‬ادِب لطیف‘‘ میں کب چھپیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی ‪ ۶۰‬کی دہائی میں۔‬

‫سوال‪ :‬اور پہلی کتاب ’’پہچان‘‘ کب آئی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬مجموعہ میرا خیال ہے ‪۸۰‬ء میں آیا تھا۔ ‪۸۰‬ء یا ‪۷۹‬ء۔ بہت دیر میں آیا وہ‬
‫مجموعہ’’پہچان‘‘۔ اس کے بعد ’’دروازہ‘‘ پھرجلدی آگئی تھی۔ پھر باقی جلدی آتی رہیں لیکن‬

‫پہلے مجموعے میں بہت دیر لگی۔‬

‫سوال‪ :‬تو ابھی تک آپ کے پانچ مجموعے آچکے ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی ہاں پانچ اور ایک یہ جو آپ کے سامنے ہے کلیات۔ لیکن اب ایک اور مجموعہ‬

‫میرا تیار ہو گیا ہے۔ آصف فرخی شاید چھاپ دیں۔ دو سال تو ہو گئے ہیں وہاں پڑے ہوئے مسودہ۔‬

‫سوال‪ :‬اس کے بعد بھی تو آپ نے کئی افسانے لکھے ہیں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں! وہی افسانے ان کو میں بھجواتی رہتی ہوں۔ کچھ میرے پاس پڑے ہیں‪ ،‬کچھ‬

‫تراجم کیے ہوئے ہیں میں نے‪ ،‬وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں۔‬

‫سوال‪ :‬تراجم کون سے کیے ہیں آپ نے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬تراجم۔ ۔ ۔ ۔ جو کہانیاں مجھے اچھی لگتی تھیں انگلش میں‪ ،‬تو وہ ترجمہ کر دیتی‬

‫تھی۔ چار پانچ ہیں تراجم۔‬

‫سوال‪۶۰ :‬ء کی دہائی میں جب آپ نے لکھنا شروع کیا تو آپ الہور میں تھیں اس وقت الہورمیں‬

‫بڑی زبردست ادبی سرگرمیاں تھیں۔ بہت جان دارفضا تھی‪ ،‬اہم لوگ تھے۔ اس شہر میں آپ کے‬

‫تجربات کیسے رہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬سب بہت اچھے تھے لیکن مسئلہ وہی تھاکہ ہمارے خاندان میں‪ ،‬ہماری تہذیب کا‬

‫جزو نہیں تھا ادب اور ادبی لوگ۔ ہم ادب پڑھتے تھے۔ میرے والد تو بہت زیادہ باذوق آدمی تھے۔‬

‫شاعری میں اور ہر چیز میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ کہیں مشاعرے ہوتے تو مجھے لے کے‬

‫جاتے؛ سناتے سب۔ لیکن اپنے گھر میں یہ چرچا نہیں تھا۔ یہ نہیں تھا کہ بھئی آپ ادب لکھتی ہیں‬
‫تو ادیبوں کو بالئیں یا ملیں جلیں یابے تکلفی سے باہر چلی جائیں یا آپ جلسوں ولسوں میں‬

‫جائیں‪ ،‬وہ اٹینڈ کریں سارے۔ یہ ہمارے ہاں نہیں تھا۔‬

‫سوال‪ :‬اجازت بھی نہیں تھی؟‬

‫تھا کہ نہیں جائیں گے۔ لٰہ ذا ہم ‪ understood‬خالدہ حسین‪ :‬نہیں۔ اب اجازت کا مطلب یہ کہ‬

‫پوچھتے ہی نہیں تھے۔ پوچھا ہی نہیں تھا کبھی۔ مشاعرے وشاعرے سننے چلے جاتے تھے لیکن‬

‫خود بولنے کا نہیں تھا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ‪۶۵‬ء یا ‪۶۴‬ء تھا کہ پہلی دفعہ میں نے ہمت کر‬

‫کے حلقۂ ارباِب ذوق میں پڑھی کہانی۔ وہ کہانی ’’سواری‘‘ تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ اب بہت‬

‫مسئلہ تھا کہ کیسے جائیں؟ میرے والد صاحب مجھے لے کے گئے وہاں۔ مجھے بڑی حیرت‬

‫ہوتی ہے۔ اب بھی میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ میرے والد جو تھے بہت ادبی‬

‫ذوق کے آدمی تھے۔ ۔ ۔ بہت زیادہ۔ تھے تو سائنٹسٹ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی تھے کیمسٹری میں اور وائس‬

‫چانسلر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی الہور میں۔ تو ساری زندگی انھوں نے سائنس پڑھی ہے۔‬

‫لیکن ان کے دوست بھی بڑے باذوق تھے۔ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ چلو میں تمھیں لے کے‬

‫چلتا ہوں۔ تو کہاں وہ اتنے بڑے آدمی‪ ،‬سفید بال اور کہاں وہ حلقۂ ارباِب ذوق‪ ،‬آپ نے دیکھا ہی‬

‫ہوگا کہ کیسی بے تکلف سی جگہ ہوتی ہے‪ ،‬وہ لکڑی کی کرسیاں اور دھواں دھواں‪ ،‬وہ سگریٹ‪،‬‬

‫ماحول بھی ویسا؛ لیکن وہ مجھے لے کرگئے تھے۔ اب بھی میں یاد کرتی ہوں تو کہتی ہوں کہ‬

‫دیکھو ان کا کتنا بڑا دل تھا کہ انھوں نے یہ سوچا ……وہ بہت قدر کرتے تھے میرے ٹیلنٹ کی۔‬

‫وہ پھر مجھے لے کے گئے۔ میں نے کہانی پڑھی۔ وہاں پسند کی گئی تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔‬

‫بڑے بڑے لوگ وہاں پہ آئے ہوئے تھے۔‬


‫سوال‪ :‬تو اس زمانے میں آپ اپنی کس ہم عصر ادیب خاتون کے قریب رہیں؟ مثََال بانو قدسیہ تھیں‬

‫اس زمانے میں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں قدسیہ آپا جو تھیں وہ میری بڑی بہن کی بہت دوست تھیں۔‬

‫سوال‪ :‬انھوں نے کہیں ذکر بھی کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ آپ کے سائیکل چالنے کا ذکر کیا ہے۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں ان کے ساتھ یہ تھا کہ بہت دوستی تھی۔ ہم لوگ بہت خوش رہتے تھے‪ ،‬ملتے‬

‫جلتے آپس میں‪ ،‬بڑے ڈرامے ورامے ہوا کرتے تھے اور انھوں نے ڈرامے بڑے اسٹیج کیے‬

‫تھے۔ میری بہن نے بھی کام کیا اور وہ (بانو قدسیہ) انار کلی بنیں اور میری بہن کو شہزادہ سلیم‬

‫خاتون ہیں بانو قدسیہ‪ ،‬بلکہ تھیں اب تو وہ ‪ lively‬بنایا۔ تو ہم بہت مزے کیا کرتے تھے۔ بہت ہی‬

‫بہت محبت کرنے والی۔ پھر خواتین میں میں الطاف ‪ talented،‬بہت سنجیدہ ہو گئی ہیں۔ بہت‬

‫فاطمہ سے ملتی تھی۔ بہت اچھی خاتون ہیں وہ۔ کشور سے بھی مالقات ہوتی تھی۔ باقی یہ تھا کہ‬

‫کسی محفل میں جو لوگ مل جاتے تھے۔ اب اگر میں کسی کا نام بھول گئی تو بہت مسئلہ ہو‬

‫جائے گا۔‬

‫سوال‪ :‬الطاف فاطمہ کی بہن نشاط فاطمہ بھی بہت اچھا لکھتی ہیں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی! بہت اچھا لیکن ان سے میری مالقات نہیں ہوئی۔‬

‫سوال‪ :‬پھر جمیلہ ہاشمی تھیں لکھنے والوں میں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جمیلہ ہاشمی سے ملی۔ وہ خود بہت اچھی تھیں۔ میرے گھر بھی آئی تھیں اورمیں تو‬

‫کہیں جاتی نہیں تھی۔‬


‫سوال‪ :‬قرۃ العین حیدر سے کبھی ہوئی مالقات؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں۔ سنا تھا کہ وہ ذکر بھی کرتی تھیں میرا‪ ،‬جب پاکستان آئی تھیں تو۔ لیکن میں‬

‫نہیں جا سکی۔‬

‫سوال‪ :‬اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر بہت بڑا نام ہے۔ ان کے بعد اردو فکشن میں جن لوگوں کا‬

‫نام لیا جاسکتا ہے‪ ،‬ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ آپ نے بہت گہرائی سے فکشن پر اپنا ایک نقش‬

‫بنایا ہے۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬بہت شکریہ لیکن مجھے بہت خوشی ہے اس بات کی کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا‬

‫ہوا ہے۔ وہ مجھے جانتی تھیں بلکہ میرا نام بھی انھیں معلوم تھا۔ انھوں نے مجھے پڑھا بھی تھا۔‬

‫‪ Illustrated‬کی تھی۔ ‪ translate‬انھوں نے میری ایک کہانی بھی‬ ‫‪Weekly‬‬ ‫‪of‬‬

‫میں چھپی تھی۔ جانتی تھیں وہ مجھے؛ اور جب پاکستان آئی تھیں تو انھوں نے میرے ‪India‬‬

‫بارے میں پوچھا بھی تھا۔ لیکن بس میں کچھ وجوہات سے نہیں جا سکی۔ تو اس بات کی مجھے‬

‫بہت خوشی ہے۔ پچھلے دنوں پتہ نہیں کس کی کتاب تھی‪ ،‬اس کے پیش لفظ میں یہ باتیں لکھی‬

‫ہوئی تھیں کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا تھا‪ ،‬پوچھا تھا۔ کہا تھا کہ میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ تو‬

‫بس میرے ایسے حاالت تھے کہ میں نہیں جا سکی۔‬

‫سوال‪ :‬کیوں ؟ اتنی گوشہ نشینی کیوں آپ کی زندگی میں رہی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬بس ایسا ہے کہ میرا گھرانہ جو ہے نا‪ ،‬دیکھنے میں تو ہم بڑے پڑھے لکھے اور‬

‫قسم کے لوگ ہیں‪ ،‬بڑی تعلیم ہے اور سب کچھ ہے لیکن ہمارے ہاں تھوڑی ‪ enlightened‬بڑے‬

‫ہیں۔ اس طرح نہیں کہ بس ُاٹھے اور چلے گئے ‪ reservations‬سی رکاوٹیں بھی ہیں۔ تھوڑی سی‬

‫کہیں پر یا زیادہ ملنا جلنا۔ ملنا جلنا تو پتہ نہیں‪ ،‬مجھے نہیں سمجھ کچھ‪ ،‬ہوتا ہے کہ ہاں بھئی!‬
‫کہاں جا رہی ہو؟ کیوں جا رہی ہو؟ کس سلسلے میں جا رہی ہو؟ یہ بھی بتانا پڑتا ہے۔ اب تو خیر‬

‫نہیں اب تو کیا پوچھنا کسی نے۔ اب تو میں اٹھوں اور چلی جاؤں۔ وہ زمانہ تھا اس میں ہوتا تھا۔‬

‫سوال‪ :‬لیکن اب بھی تو نہیں جاتیں آپ۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں اب یہ ہے کہ اب عادت ہو گئی ہے۔ اب میں کہتی ہوں کہ میرے ساتھ کوئی ہو تو‬

‫مجھے لے جائے۔ اکیلے نہیں جا سکتی اور یہاں پہ ایسا کوئی ہے نہیں جو مجھے لے کے جائے‬

‫گھر سے۔‬

‫سوال‪ :‬ویسے آپ کا جی چاہتا تھا؟ آپ کو یہ جبر نہیں محسوس ہوتا تھا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬شروع میں تو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بس پھر عادت ہو گئی کہ یہ بس اسی طرح ہی‬

‫ہے۔ پھر عادت ہوگئی۔ بس پھر اخبار پڑھتے تھے‪ ،‬لوگوں سے سنتے تھے کہ کیا ہوا کیا ہوا؟‬

‫اچھا! ادھر سے رپورٹ پڑھ لی۔ ادھر سے پڑھ لی۔ تو بس۔ ۔ ۔ ویسے میں جاتی بھی رہی ہوں‬

‫کرتا تھا۔ کبھی ‪ depend‬یہاں فیسٹیولز میں کافی عرصہ گئی ہوں۔ لیکن بس وہ لوگوں کے موڈ پر‬

‫ہوتا تھا کہ ہاں بھئی جاؤ۔ کبھی ہوتا تھا کہ نہیںِ کیا کرنا ہے؟‬

‫سوال‪ :‬شوہر کی طرف سے پابندیاں رہیں؟‬

‫کر لیتا ہے ‪ sense‬خالدہ حسین‪ :‬پابندی تو خیر ایسی نہیں تھی لیکن ایک چیز ہوتی ہے نا کہ بندہ‬

‫کہ پسند نہیں کرتے اس چیز کو۔ پھر مجھے وہ بہت برا لگتا۔ دل میرا خفا ہو جاتا۔ میں کہتی کیا‬

‫فائدہ؟ جب کوئی چیز کوئی پسند نہیں کر رہا تو میں نہیں کرتی۔ امن پسند بہت ہوں۔ ۔ ۔ شروع‬

‫سے۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا آپ کس ادیب سے متاثر ہوئیں؟ کسی بھی زبان کے؟‬
‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں۔ ۔ ۔ اب یہ بات ہے کہ۔ ۔ ۔ یہ ویسے سوال ہے بڑا مشکل۔ ایک توقرۃ العین حیدر‬

‫ہیں۔ پھر انتظار حسین کو بہت شوق سے پڑھا اور باقی جو مغربی ادیب ہیں زیادہ۔ غالبََا ‪ ۶۰‬ء کی‬

‫دہائی میں ہی میں ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھا کرتی تھی‪ ،‬چھوٹے چھوٹے افسانے۔ تو وہاں پر‬

‫لوگ میری کہانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ پھر کسی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو چند‬

‫رائٹرز کے نام بتاتا ہوں آپ انھیں ضرور پڑھیں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے مزاج کے‬

‫کیے۔ تب میں نہیں ‪ suggest‬رائٹرز کے نام ‪ existentialist‬ساتھ مطابقت ہے۔ انھوں نے مجھ کو‬

‫کیا ہوتا ہے۔ حاالنکہ میں نے فالسفی وغیرہ پڑھی تھی۔ سب کچھ ‪ existentialism‬جانتی تھی‬

‫کا نہیں پڑھا تھا۔ وہ انھوں نے مجھے کہا۔ میں نے ‪existentialism‬تھا‪ ،‬لیکن میں نے لٹریچر‬

‫الئبریری سے اور کہیں ادھر ادھر سے کتابیں لیں۔ سب سے پہلے جو میں نے کہانی پڑھی‬

‫‪ “The‬کی‪ ،‬وہ سارتر کی تھی ‪existentialism‬‬ ‫۔ وہ کہانی جب میں نے پڑھی تو ”‪Wall‬‬

‫مجھے لگا کہ جیسے ایک بالکل نئی دنیا میں پہنچ گئی ہوں۔ مجھ پر اتنا اس کا اثر ہوا‪ ،‬بہت شدید‬

‫اثر۔ آج تک کسی چیز کا‪ ،‬کسی تحریر کا مجھ پہ اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا جتنا اس کہانی کا ہوا‬

‫تھا۔ مجھے بالکل یوں لگے کہ جیسے ایک نئی دنیا کا دروازہ مجھ پر کھل گیا ہے اور یہی تو‬

‫میں سوچ رہی تھی۔ یہی تو میں محسوس کرتی آئی ہوں جو مجھے کسی نے آج تک بتایا ہی نہیں‬

‫تھا اور یہ ہے وہ چیز۔ اور اس کا مجھ پہ اتنا زیادہ شدید اثر ہوا کہ بہت عرصے تک میں اس کے‬

‫میں رہی۔ پھر میں نے سارتر کو پورا پڑھا۔ لے کے ساری اس کی کتابیں وتابیں۔ گو کہ ‪spell‬‬

‫‪short‬اس کے بعد باقی چیزوں کا مجھ پہ اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ اس کی‬ ‫کا ہوا تھا۔ پھر‪story‬‬

‫تھے۔ کامیو کو پڑھا۔ اس کو پڑھا‪ِ ،‬اس ‪ existentialist‬میں نے باقی لوگوں کو پڑھا۔ جتنے بھی‬

‫کو پڑھا۔ سارے لوگوں کو۔ تو یہ جو باہر کے لکھنے والے ہیں ان میں تو یہ لوگ زیادہ ہیں جن‬

‫کا مجھ پہ اثر ہوا۔ اپنے لکھنے والوں میں قرۃ العین ہیں۔ اور باقی داستانوی ادب پھر پڑھنا شروع‬
‫کیا دوبارہ سے؛ کہ کبھی بچپن میں دیکھا تھا لیکن اب دوبارہ پڑھا تو اچھا لگا۔ کتاب جو بھی‬

‫اچھی آئے پڑھ لیتی ہوں۔‬

‫سوال‪ :‬آپ کو یہ خیال کیوں آیا کہ آپ افسانے لکھیں؟ مثََال آپ شعر بھی کہہ سکتی تھیں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں! میرا خیال ہے کہ ایک تو میری طبیعت کہانی کی طرف مائل تھی۔ دوسرا یہ کہ‬

‫مجھے لگتا تھا کہ ہمارے ماحول میں شاعری پر زیادہ پابندی ہے بہ نسبت نثر نگاری کے۔‬

‫سوال‪ :‬اچھا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہوں… کیوں کہ شاعری یہ ہے نا کہ آپ جائیں لوگوں میں‪ ،‬مشاعروں میں جائیں‪،‬‬

‫کالم پڑھیں‪ ،‬واہ واہ ہو‪ ،‬آنا جانا‪ ،‬یہ‪ ،‬وہ۔ سوشل الئف ہے اس میں بہت زیادہ۔ ہمارے گھر میں نہیں‬

‫تھا ایسا دستور۔ تو مجھے پتہ تھا یہ نہیں چلے گی۔ اس لیے میں اس طرف نہیں گئی۔ ویسے بھی‬

‫میرا یہ خیال تھا کہ شاعری میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور میں اس کی تکنیک نہیں سیکھ سکتی۔‬

‫کیوں کہ میں یہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ بغیر تکنیک کے بھی شاعری ہوتی ہے۔ وہ تو اب ہو‬

‫نے لگی ہے۔ تو مجھے تو یہی پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے اور ہمارے گھر میں بھی لوگ‬

‫کہتے تھے کہ جی اس کے تو بڑے عروض ہوتے ہیں اوروہ یاد کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ ہوتا‬

‫ہے۔ تو مجھے پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے۔ تو اس طرف اسی لیے نہیں گئی لیکن پڑھی‬

‫تھا‪ ،‬وہ شاعری تھی۔ اتنی اتنی بیاضیں بنائیں میں نے۔ ‪ craze‬بہت۔ شروع میں میراجو‬

‫سوال‪ :‬اچھا؟ وہ سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں؟‬

‫باتیں ہیں۔ میں نے اتنی اچھی بیاض بنائی تھی۔ پھر وہ میں ‪ tragic‬خالدہ حسین‪ :‬نہیں۔ وہ بڑی‬

‫شادی کے بعد اپنے ساتھ بھی لے آئی تھی۔ رکھی ہوئی تھی اپنے پاس۔ پھر کسی دن کسی بات پہ‬

‫غصہ آیا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے وہ چاک کر دی۔ پھینک دی۔ اس کا مجھے بہت رنج ہے‪،‬‬

‫تھی وہ۔ ‪ collection‬اب تک ہے کہ کاش وہ میں نے سنبھال کے رکھی ہوتی۔ اتنی زیادہ اچھی‬
‫خاصی موٹی‪ ،‬ضخیم تھی وہ۔ تب تو ابھی ان لوگوں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا۔ ضیا جالندھری‬

‫اور احمد فراز وغیرہ کی نئی نئی چیزیں آتی تھیں۔ تو ان کے مجموعے تو تھے نہیں میں رسالوں‬

‫کی ‪ collection‬میں سے دیکھ کے ان کی نقل کیا کرتی تھی اپنی بیاض میں اور بہت میں نے‬

‫ہوئی تھی لیکن بس وہ غصے میں آکے کر دیا۔ پھر نہیں کبھی بیاض بنائی۔ بس ایسے ہی ہوتی‬

‫رہتی ہیں باتیں۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا محبت کی زندگی میں کبھی؟‬

‫خالدہ حسین‪( :‬خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد) کتابوں سے ہی کی ہے اور تو کچھ‬

‫نہیں۔‬

‫سوال‪ :‬اور انسانوں سے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬باقی تو… یا یہ ہے آئیڈیاز‪ ،‬تصورات …یہ چیزیں ہیں جو زندگی میں ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬آپ کو کبھی کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جس سے محبت کی جا سکے؟ ہو جائے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کبھی خیال نہیں آیا اس طرف۔ ایک یہ کہ گھر میں ماحول ہی ایسا نہیں تھا۔ ہمارے‬

‫گھر میں بڑے ضابطے اور قوانین کے لوگ ہیں اور ہمارے میکے میں بھی۔ بہت زیادہ شروع‬

‫سے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی ہر طرح کی تھی لیکن ویسے بڑے ضابطے اور قوانین تھے۔ تو‬

‫کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا۔‬

‫سوال‪ :‬شادی کس عمر میں ہوئی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬میں‪ ۲۷‬سال کی تھی۔‬

‫سوال‪ :‬گھر والوں کی مرضی سے ہوئی تھی شادی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں بالکل۔ گھر والوں کی مرضی سے۔‬


‫سوال‪ :‬آپ نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں۔‬

‫سوال‪ :‬فیملی میں یا باہر ہوئی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں‪ ،‬باہر ہوئی۔ ہم لوگ تو شیخ ہیں۔ شیخ قانون گو اور وہ جو ہیں ذات کے برہمن۔‬

‫ٹوڈر مل سے جا کے ہمارا شجرۂ نسب ملتا ہے لیکن یہ لوگ تو خواجہ ہیں کشمیری جن کے گھر‬

‫میں میں آئی۔ بالکل دو مختلف فیملیز تھیں۔‬

‫سوال‪ :‬جوائنٹ فیملی میں جا کے رہیں آپ شادی کے بعد؟ سسرال میں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں رہی لیکن بہت کم۔ پھر ان کی پوسٹنگ باہر ہوگئی لیکن یہ ہے کہ مجھے کوئی‬

‫ایسی دشواری پیش نہیں آئی کیوں کہ جو ان کی والدہ تھیں وہ بہت ہی اچھی خاتون تھیں‪ ،‬بے حد۔‬

‫بے انتہا اچھی تھیں اور میرے سسر جو تھے وہ بڑے سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ تو وہی حال‬

‫تھا… آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں…جب کبھی ہماری کوئی لڑائی ہوتی تو میری ساس‬

‫مجھے گلے سے لگا کے اتنا پیار کرتیں‪ ،‬اتنا روتیں بیٹھ کے۔ اتنی پیاری تھیں وہ… کیا بتاؤں۔‬

‫بہت مجھے پیار کرتی تھیں۔ کبھی ہو جاتی تھی لڑائی وڑائی۔ آ لینے دو اس کو‪ ،‬میں اس کو سیدھا‬

‫کرتی ہوں‪ ،‬آئے سہی آج۔ بہت پیاری خاتون تھیں۔‬

‫سوال‪ :‬کیا کرتے تھے آپ کے میاں؟‬

‫‪ mechanical‬خالدہ حسین‪ :‬میرے میاں‬ ‫میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ جب میری شادی ‪engineering‬‬

‫ہوئی ہے تو یہ ریڈر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی میں۔ بعد میں پھر یہ داؤد کالج‪ ،‬کراچی کے‬

‫پرنسپل ہو گئے۔ وہاں سے یہ جوائنٹ سیکرٹری ہو کر ادھر اسالم آباد آگئے۔ بس پھر اسی پوسٹ‬

‫پہ ریٹائر ہوئے۔‬


‫سوال‪ :‬ذہنی ہم آہنگی تھی آپ دونوں کے درمیان؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ذہنی ہم آہنگی؟ ذہنی ہم آہنگی اتنی ہوسکتی ہے جتنی زمین اور آسمان میں ہے۔ وہ تو‬

‫معروضی طور پر ‪ objective‬انتہائی ‪ intelligent،‬بالکل سائنٹفک آدمی ہیں۔ پکے۔ انتہائی‬

‫۔ لیکن یہ ہے کہ‪، idealist‬تصوراتی ‪ imaginative،‬اور میں جو ہوں ‪، practical‬سوچنے والے‬

‫تو چلنا ہی ہے لیکن ایک بات ہے ‪ difference‬بس پہچان لیا ایک دوسرے کی طبیعت کو؛ کہ یہ‬

‫کہ یہ میرے لکھنے کے بڑے اچھے نقاد ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬اچھا؟ پڑھتے ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں ہاں پڑھ لیتے ہیں۔ میرے سامنے نہیں پڑھتے۔ چھپ چھپا کے پڑھ لیتے ہیں اور‬

‫بھی کرتے ہیں۔ شروع میں نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں کرنے لگے کہ ہاں ‪ encourage‬پھر‬

‫لکھو اور یہ وہ۔‬

‫سوال‪ :‬تو کوئی پابندیاں تو نہیں لگائیں آپ پر کبھی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬پابندیاں۔ ۔ ۔ لکھنے پہ نہیں۔ پڑھنے لکھنے سے نہیں روکا لیکن آنے جانے پر۔ باہر‪،‬‬

‫محفلوں میں آنا جانا۔ وہ تو میرے میکے میں بھی تھیں کہ اتنی زیادہ آزادی نہیں تھی۔ یہاں بھی‬

‫شروع میں نہیں تھی لیکن اب تو انھوں نے… جا چھوڑ دیا حافِظ قرآن سمجھ کر… مایوس ہو‬

‫کے چھوڑ دیا۔‬

‫سوال‪ :‬آپ کو ایک دوسرے کی رفاقت محسوس ہوتی ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬رفاقت… کس سلسلے میں؟ کیسی؟‬

‫سوال‪ :‬مطلب یہ کہ ذہنی ہم آہنگی نہ بھی ہو‪ ،‬مختلف ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی انسان ایک‬

‫دوسرے کی رفاقت اور ساتھ کو محسوس کرسکتا ہے؟‬


‫خالدہ حسین‪ :‬ایک یہ ہے بہت زیادہ مخلص‪ ،‬بہت زیادہ سچے‪ ،‬بہت زیادہ محبت کرنے والے اور‬

‫بہت زیادہ فیملی کے آدمی ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬آپ سے محبت کرتے ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬بہت زیادہ۔‬

‫سوال‪ :‬آپ کرتی ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬میں بھی کرتی ہوں۔ میں بھی کرتی ہوں۔ بہت زیادہ کرتی ہوں۔‬

‫ہیں۔ عام ‪ imaginative‬سوال‪ :‬تو آپ کو گھٹن تو محسوس نہیں ہوتی تھی جب کہ آپ اتنی زیادہ‬

‫لوگوں سے کہیں زیادہ۔ آپ کے تصور کی جو وسعت ہے‪ ،‬اس کا کچھ کچھ اظہار ہوتا ہے آپ کی‬

‫کتابوں میں‪ ،‬مگر یہ ساری وسعت تو ان میں بھی نہیں سما سکتی۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں ہوتی ہے کبھی کبھی۔ تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھا‬

‫اگر میں یہ بات کروں گی تو مجھے بے وقوف سمجھیں گے‪ ،‬پاگل کہیں گے کہ یہ کیا باتیں ہیں۔‬

‫بس میں کبھی کرتی بھی نہیں ہوں ان کے ساتھ ایسی بات۔ تو ہوتی ہے کبھی کبھی لیکن پھر یہ‬

‫ہوتا ہے کہ زندگی بھر کوئی نہ کوئی ایک اچھی فرینڈ ضرور رہی ہے۔ تو اس کے ساتھ پھر میں‬

‫بات کر لیتی ہوں۔ کوشش کرتی ہوں کہ بات ہو جائے۔ آج کل میری عطیہ سید کے ساتھ بہت‬

‫ہے۔ وہ فالسفی کی ہے۔ ویسے تو کولیگ ‪ understanding‬دوستی ہے۔ اس کے ساتھ میری بہت‬

‫بھی رہے ہیں۔ ہم لوگ اکٹھا پڑھاتے رہے ہیں۔ تو بہت زیادہ اس کے ساتھ ہے۔ اب تک ہے۔ بات‬

‫وات کرتے ہیں‪ ،‬ملتے ہیں۔ اس کے عالوہ کولیگز میں بھی مل جاتی تھی کوئی نہ کوئی۔ ایک آدھ‬

‫دوست ایسی رہی ہے جو کہ بات سمجھتی تھی پھر اتنا نہیں محسوس ہوتا۔ پھر میرے بچے بہت‬

‫سمجھتے ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔‬

‫طبیعت کے ہیں۔ (بھرائی ہوئی آواز ‪ creative‬اور ‪ sensitive‬خالدہ حسین‪ :‬بچے میرے بہت‬

‫‪ creative‬میں) بیٹا میرا بہت زیادہ تھا۔ بہت ہی‬ ‫کا اور اس نے بھی لکھنا شروع کیا تھا ‪mind‬‬

‫لیکن پھر چھوڑ دیا۔ پہلے وہ انگلش میں لکھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا اور ایک دم سے ساری‬

‫چیزیں چھوڑ کے دین کی طرف آگیا۔ وہ بھی میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ ہے کیوں کہ بڑا بیٹا‬

‫‪ highly‬تھا۔ ‪ attached‬تھا میرا۔ وہ بہت زیادہ میرے ساتھ‬ ‫‪intellectual,‬‬ ‫‪highly‬‬

‫پھر جب وہ دین کے راستے پر گیا تو اس طرف بھی وہ پھر اتنی ہی زیادہ لگن کے ‪sensitive‬‬

‫ساتھ گیا اور اس نے ایک دم سے اپنی زندگی بدل دی۔ تو شروع میں تو ہم لوگ برداشت ہی نہیں‬

‫کر سکے۔ ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ ہم نے اس کی بہت مخالفت کی۔ اب مجھے بہت‬

‫افسوس ہوتا ہے کہ شروع میں اس نے بڑی تکلیفیں سہی ہیں اپنے آئیڈیل کے لیے اور اپنے ایمان‬

‫کے لیے۔ کیوں کہ دیکھیں نا گھر میں ایک دم سے اجنبی ہو جانا۔ اس کی ہر بات ہمیں عجیب‬

‫لگتی تھی۔ اس نے لباس بدل دیا اپنا۔ پینٹ شرٹ ختم کر دی۔ شلوار قمیص پہنی۔ عمامہ پہن لیا اور‬

‫بالکل خاکسارانہ زندگی۔ کم کھانا‪ ،‬کم سونا‪ ،‬عبادت کرنی۔ ہر چیز میں شرع کی پابندی۔ یہ ہمارے‬

‫لیے شروع میں اتنا بڑا انقالب تھا۔ اس کی بہت مخالفت کی لیکن وہ اتنا ثابت قدم تھا۔‬

‫سوال‪ :‬کیوں یہ تبدیلی آگئی اچانک؟‬

‫ہے نا راولپنڈی میڈیکل کالج‪ ،‬اس میں ماحول تھا تبلیغ کا۔ ‪ RMC‬خالدہ حسین‪ :‬یہ جو ہمارا‬

‫سوال‪ :‬آپ پر بھی انھوں نے کوئی پابندیاں لگائی تھیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں‪ ،‬پابندی نہیں لگاتا تھا‪ ،‬بس صرف کہتا تھا۔ ہمیں کبھی اس نے یہ نہیں کہا۔ وہ‬

‫ایسا کرتا تھا۔ ۔ ۔ بہت مہذب بچہ تھا۔ کبھی وہ یہ کرتا تھا کہ خود ہی انتظام کر لیتا تھا ادھر‪ ،‬کسی‬

‫عالم کو لے آتا تھا کہ امی آج یہاں وعظ ہوگا۔ میں نے کہا‪ ،‬اچھا ٹھیک ہے۔ پھر وہ راستے میں‬
‫پردہ لگا دیتا تھا اور مجھے کہتا تھا امی آپ ادھر بیٹھ جائیں۔ تو وعظ ہوتا تھا اور لوگ آتے تھے‬

‫سننے کے لیے۔ یہ لوگ بہت اچھا وعظ کرتے ہیں لیکن آخر میں یہ کہتے ہیں کہ تبلیغ کے لیے‬

‫نکلیں۔‬

‫سوال‪ :‬اچھا یہ تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں تبلیغی جماعت سے۔‬

‫سوال‪ :‬کتنے بچے ہیں خالدہ آپا ؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ایک بیٹا تھا۔ تین بیٹیاں ہیں۔ ہما ہے بڑی‪ ،‬وہ تو آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ دوسری‬

‫میں اور یاسرہ سب سے چھوٹی ہے۔ بچوں کے ‪ Headstart‬فاطمہ ہے وہ یہیں پر ہوتی ہے ادھر‬

‫ساتھ بھی میری بڑی دوستی رہتی ہے۔ سب بچوں کے ساتھ۔ یہ میرا نواسا ہے‪ ،‬یاسرہ کا بیٹا‪ ،‬اب‬

‫یہ بعد میں مذاق کرے گا‪ ،‬نانو! آپ اتنا بول رہی تھیں وہاں پہ۔ یہ کہہ رہی تھیں‪ ،‬وہ کہہ رہی‬

‫تھیں۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا! آپ لکھنے پڑھنے کا کام کب کرتی ہیں؟ دن کے کس وقت میں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کسی بھی وقت‪ ،‬جب بھی‪ ،‬یا تو موڈ ہو جائے‪ ،‬چلتے پھرتے بھی کر لیتے ہیں‪ ،‬کہیں‬

‫بھی بیٹھ جاتی ہوں۔ اسی لیے میں نے کوئی اتنا زیادہ کام نہیں کیا۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ بہت‬

‫کم لکھا ہے۔ جیسے لوگوں کا آفس ہوتا ہے ان کی روٹین ہوتی ہے‪ ،‬بیٹھتے ہیں‪ ،‬روزانہ کی‬

‫چیزیں ہوتی ہیں‪ ،‬میں نے ویسے نہیں کیا۔‬

‫سوال‪ :‬کیوں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کچھ حاالت ہی ایسے نہیں تھے۔ بچے پالے‪ ،‬بچوں کے ساتھ رہے۔ لوگ پسند نہیں‬
‫کرتے نا کہ کتاب لے کے بیٹھ جاؤ۔ کہتے ہیں کہ ہم آئے اور آپ کتاب لے کے بیٹھ گئیں۔ اب تو‬

‫ٹائم ہی نہیں رہا۔‬

‫سوال‪ :‬لیکن ماشا ء ہللا آپ کے پانچ افسانوی مجموعے ہیں اور ایک ناول ہے۔ کوئی اور ناول‬

‫کیوں نہیں لکھا؟‬

‫چاہیے ‪ concentration‬خالدہ حسین‪ :‬ناول لکھنے کو جی تو چاہتا ہے لیکن اس کے لیے وہی نا‬

‫اور ٹائم بہت چاہیے اور اس میں لگ کے لکھنا پڑتا ہے نا بیٹھ کے۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا! یہ کہانی کہاں سے آتی ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کہانی تو نجیبہ اسی طرح ہوتا ہے کہ کوئی چیز متاثر کر دیتی ہے ایک دم سے۔‬

‫کوئی چھوٹا سا واقعہ۔ عام طور پر مجھے چھوٹے چھوٹے واقعات کبھی۔۔۔۔ مجھے خوشبوؤں کا‬

‫بہت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ناچلتے پھرتے کوئی ایسی خوشبو آتی ہے مجھے بہت دور لے جاتی‬

‫کا پورا دفتر کھل جاتا ہے۔ ‪ associations‬ہے۔ تو پھر مجھے وہ پرانے زمانے یاد آجاتے ہیں۔‬

‫ہوتی ہیں۔ آئیڈیاز نہیں ہوتے‪ images ،‬اس سے بھی ہوتا ہے‪ ،‬آوازوں سے بھی ہوتا ہے اور‬

‫خیاالت نہیں ہوتے کہ ہاں بھئی اس واقعے پر کہانی لکھی‪ ،‬یہ نہیں۔ یہ یا تو تصویریں ہوتی‬

‫یا کوئی آوازیں ہوتی ہیں یاکوئی خوشبو ئیں ہوتی ہیں اس سے پھر وہ ساراسلسلہ ہوتا ‪images‬ہیں‬

‫ہے۔‬

‫سوال‪ :‬تو ساری کہانی آپ پر اترتی ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ساری کہانی تقریبََا اتر جاتی ہے۔ اس میں تبدیلیاں بھی آجاتی ہیں۔ اتر تو آتی ہے‬

‫ساری۔ پھر لکھتے لکھتے میں بدل بھی دیتی ہوں۔‬


‫سوال‪ :‬تصوف سے بھی کبھی دلچسپی رہی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬تصوف میں دلچسپی رہی ہے بہت۔ لیکن میں نے باقاعدہ پڑھا وڑھا کوئی نہیں۔ موقع‬

‫ہی نہیں مال۔ ویسے ہے کہ صوفیانہ شاعری میں بہت دلچسپی رہی‪ ،‬پڑھتی رہی اور سنتی رہی۔‬

‫کرتی ہے۔ لیکن ‪ attract‬وہ ہے نا کہ جتنی بھی روحانیت ہے جس چیز میں وہ مجھے بہت‬

‫تصوف ہوتا ہے اس کا نہیں مجھے پتہ۔ مجھے شوق تو بہت ہے لیکن وہ ‪ technical‬باقاعدہ جو‬

‫کافی مشکل چیز ہے۔ پڑھنا اور سمجھنا۔‬

‫سمجھنا اور چیز ہے اور اس سے گزرنا اور چیز ہے۔ ‪ technically‬سوال‪ :‬لیکن تصوف کو‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں۔ ۔ ۔ گزر تو سکتے ہیں پڑھنا ذرا مشکل ہے۔‬

‫سوال‪ :‬تو پھر گزریں آپ کبھی اس راستے سے؟‬

‫تو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی کیفیت ہوجاتی ہے۔ ‪experience‬خالدہ حسین‪ :‬ہاں‬

‫سوال‪ :‬آپ نے کبھی کوشش نہیں کی کہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی مل جائے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬دراصل کبھی کوئی نظر نہیں آیا۔ جتنے آس پاس کے لوگ ہیں یا جن کو ہم دیکھتے‬

‫ہیں۔ ۔ ۔ زندہ لوگوں میں تو مجھے کبھی کسی پر بھروسہ نہیں ہوا۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ‬

‫گئے ہوئے لوگوں میں سے آپ کسی کو مان لیں تو ٹھیک ہے۔ عالمہ اقبال کے ساتھ مجھے بہت‬

‫زیادہ لگاؤہے۔ ان کے ساتھ ہے میری روحانی وابستگی۔ کئی لوگ تو ان کو بڑا وہ سمجھتے ہیں‬

‫نا کہ بڑے اصالحی شاعر تھے ؛لیکن ان کی جو روحانیت کا پہلو ہے اس کے ساتھ مجھے بہت‬

‫‪، Reconstruction‬لگاؤہے۔ ان کے لیکچرز کا مجھ پر بہت اثر ہوا تھا۔ وہ جو سات لیکچرز ہیں‬

‫‪of‬‬ ‫‪Religious‬‬ ‫پر‪ ،‬وہ بھی بہت پڑھے‪ ،‬غور و فکر سے۔ ان کی روحانیت کا ‪Thought‬‬

‫جو پہلو ہے وہ مجھے بہت متاثر کرتا ہے۔‬


‫سوال‪ :‬شاعری پڑھی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬شاعری میں بھی کالسیکی شاعری بہت پڑھی اور اساتذہ کو بہت پڑھا۔ بس پھر‬

‫چھوڑ دیا۔ پھر ایک زمانے میں قرآِن پاک کے ساتھ بھی لگاؤ تھا‪ ،‬پڑھتی تھی ترجمے کے ساتھ۔‬

‫اس میں سے بھی مجھے بہت سی چیزیں ایسی مل جاتی تھیں۔ یوں ہوتا تھا کہ میں سوال کر رہی‬

‫ہوں مجھے جواب مل رہے ہیں۔ کبھی کبھی۔ لیکن وہ بھی ایک کیفیت ہوتی ہے جو گزر جاتی‬

‫ہے۔ رہتی نہیں ہے‪ ،‬بہت مختصر سی ہوتی ہے‪ ،‬جھلک سی ہوتی ہے لیکن بالکل یہی لگتا ہے کہ‬

‫ہم سوال کر رہے ہیں اور قرآن جواب دے رہا ہے۔ جب ایسی کیفیت ہوتی تھی‪ ،‬اس کے بعد پھر‬

‫جب میں اپنا ادب پڑھتی تھی‪ ،‬لٹریچر پڑھتی تھی‪ ،‬جو رائٹرز بھی مجھے پسند ہیں یاجن کو میں‬

‫سمجھتی تھی کہ اچھا لکھتے ہیں‪ ،‬ان کے ہاں مجھے ایسی باتیں ملتی تھیں جو کہ قرآن کے منافی‬

‫ہوتی تھیں‪ ،‬یا یہ کہ جو مجھے لگتا تھا کہ میرے عقیدے سے مختلف ہیں؛تومجھے بہت تکلیف‬

‫ہوتی تھی۔ بہت زیادہ میرا دل دکھتا تھا کہ یہ کیوں ایسا محسوس کرتے ہیں؟ یہ کیوں ایسا کہتے‬

‫ہیں۔ پھر میں تنگ آکے چھوڑ دیتی تھی۔ تب بس جذباتی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اب نہیں اتنا ہوتا‬

‫مجھے۔ اب مجھے پتہ ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہے۔ جو کسی کا عقیدہ ہے وہ ٹھیک ہے۔ میرا بیٹا‬

‫بہت ناراض ہوتا تھا اس بات پہ۔ کہتا تھا‪ ،‬نہیں امی! بالکل نہیں!عقیدہ ایک ہی ہے۔ کہتا تھا‪ ،‬یہی‬

‫تو بری بات ہے آپ رائٹرز کی۔‬

‫سوال‪ :‬وہ آپ کی تحریریں پڑھتے تھے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں وہ پڑھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ آخر آخر میں نہیں‬

‫پسند کرتا تھا میرا لکھنا۔ کیوں کہ وہ یہ چاہتا تھا اور برمال کہتا تھا کہ راستہ بس ایک ہی ہے۔ اس‬

‫راستے پہ آپ آجائیں۔ بس اس کا عقیدہ ایسا تھا۔ بہت پختہ عقیدہ تھا اس کا۔ بڑی بات ہے۔ مجھے‬

‫حیرت ہوتی ہے کہ میرے میاں‪ ،‬ویسے دل کے تو بہت پکے مسلمان ہیں لیکن وہ نمازی وغیرہ‬

‫نہیں ہیں۔ میں حیران ہوتی ہوں۔ کہتی ہوں‪ ،‬ہللا! کیسے ہوگیا یہ؟ پھر میں کہتی ہوں شاید تھوڑا سا‬
‫میرا اثر ہو۔ میرے اپنے خاندان میں بہت لوگ تھے اس طرح کے عابد و زاہد۔ بہت زیادہ۔ کئی تو‬

‫ایسے ہیں میرے آباؤاجداد میں کہ جن کے باقاعدہ حجرے یا مزار وغیرہ بھی ہیں۔ مجھے اب پتہ‬

‫کیا تھا کسی طرح۔ ورنہ ‪ inherit‬چلتا ہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ جیسے میرے بیٹے نے بھی‬

‫ہیں‪ ،‬بہت خوش دل‪ ،‬تفریح کرنے والے‪ ،‬ٹی ‪ lively‬کوئی ایسا ماحول نہیں تھا۔ میرے میاں بہت‬

‫دیکھو‪ ،‬گھومو پھرو‪ ،‬سیریں کرو۔ ‪، movies‬وی دیکھو‬

‫سوال‪ :‬ابتدائی زندگی ایسی ہی گزری بچوں کے ساتھ؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں بالکل بچوں کے ساتھ گھمانا پھرانا‪ ،‬سیریں کروانا‪ ،‬ادھر لے کے جانا‪ ،‬کلب چلو‪،‬‬

‫ُادھر چلو‪ ،‬یہ کرو‪ ،‬وہ کرو۔ ہر نئی چیز دکھانی‪ ،‬اس پہ لے کے جانا‪ ،‬سیر تماشا‪ ،‬ہائیکنگ پہ لے‬

‫کے جا رہے ہیں۔ کیا کچھ کرتے رہے۔ بہت زیادہ۔ بس کوئی ایک روحانی پہلو جو تھا وہ بچوں‬

‫میں آگیا۔‬

‫سوال‪ :‬باقی بچوں میں بھی ہے؟‬

‫بہت ہے وہ۔ اس کو اکثر ‪ intuitive‬ہے۔ ‪ intuition‬خالدہ حسین‪ :‬باقی میری بڑی بچی میں بڑی‬

‫چیزوں کا پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ یا تو وہ کوئی خواب دیکھ لیتی ہے‬

‫اور پھر مجھے فون کر دیتی ہے۔ ہمیشہ کہتی ہے امی صدقہ دیں‪ ،‬تو میں دیتی رہتی ہوں۔ جب‬

‫بھی خواب ہو‪ ،‬اس کا فون آتا ہے تو میں کہتی ہوں ہما! تم نے میرا بہت نقصان کروانا ہے۔ پھر‬

‫صدقہ؟کہتی ہے امی آپ تھوڑا بہت نکال دیں صدقہ۔ کہتی ہوں اچھا۔ اس میں ہے روحانیت۔‬

‫سوال‪ :‬آپ نمازیں پڑھتی ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں۔‬


‫سوال‪ :‬باقاعدگی سے؟ شروع سے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جی‪ ،‬شروع سے۔‬

‫رہتی ہے؟ ‪ communication‬سوال‪ :‬ہللا سے‬

‫خالدہ حسین‪ :‬بہت زیادہ۔‬

‫سوال‪ :‬تو کوئی جواب ملتا ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں ملتا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے جب دل بہت صاف ہو۔ دل نہیں صاف ہوتا۔ پتہ نہیں‬

‫ہوتا ہے جب میں لکھتی ہوں میں کہتی ہوں اس وقت ‪ conflict‬کیا شور بھرا رہتا ہے۔ یہ بھی بڑا‬

‫مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جو کام بھی میں کرتی ہوں؛ میں کہتی ہوں نہیں‪ ،‬اس وقت‬

‫مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جب میں لکھتی ہوں تو میں کہتی ہوں‪ ،‬نہیں نہیں مجھے لکھنا‬

‫نہیں چاہیے تھا؛ مجھے گھر کا کوئی کام کرنا چاہیے تھا۔ گھر کا کام کرتی ہوں تو کہتی ہوں‪،‬‬

‫نہیں نہیں مجھے تو لکھنا چاہیے تھا۔ بڑا مسئلہ ہے یہ۔ میں نے ایک کہانی بھی لکھی تھی‬

‫’’مصروف عورت‘‘ تو اس میں بھی یہی تھا۔ بہت مسئلہ ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کام ہے‬

‫جو مجھے کرنا تھا میں نے نہیں کیا ابھی تک۔ بس یہ ہے نجیبہ! میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ میں‬

‫دے دیتے ہیں۔ میں ‪ importance‬بس ایسے ہی بے کار سی عورت ہوں۔ آپ جیسے لوگ مجھے‬

‫تو ایسے ہی خواہ مخواہ باتیں کرتی رہتی ہوں۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا! شاید آپ کے ایسا سمجھنے میں ہم ہی لوگوں کا قصور ہے۔ آپ نے گوشہ نشینی‬

‫اختیار کی تو ہم نے کرنے دی اور ہم نے آپ کو چھپنے دیا ورنہ ہم آپ کو نہ چھپنے دیتے ہم آپ‬

‫کو پہلے ہی لے جاتے لیکن شاید لے جاتے تو ہوسکتا ہے کہ جو کچھ آپ نے لکھا وہ اس طرح‬

‫نہ لکھا جاتا۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں اس طرح کا نہ لکھا جاتا۔ یہی ہوتا ہے۔‬


‫سوال‪ :‬اب اگر آپ پیچھے مڑ کے دیکھیں تو کیا لگتا ہے کہ ز ندگی میں کیا چیز کم رہی؟ کوئی‬

‫ایسی چیز‪ ،‬جس کی آپ کو ہمیشہ تالش رہی ہو اور وہ نہ ملی ہو؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬جو کم رہی ہو… (سوچ کر) یہی کہ میں لکھ نہیں سکی۔ جتنا میں چاہتی تھی اتنا میں‬

‫تھا‪ ،‬لکھنا۔ لوگ تو حیران ہوں گے سن کے؛ کہ لو ‪ passion‬لکھ نہیں سکی۔ میرا صرف ایک‬

‫‪ passion‬دیکھو جی! یہ عورت کیا بات کر رہی ہے؟ دو کہانیاں لکھیں اور کہتی ہے کہ میرا بڑا‬

‫تھا لکھنے کا‪ ،‬لیکن واقعی تھا۔ ایک یہی کام کرنا چاہتی تھی پر نہیں کر سکی۔ لیکن پھر میں‬

‫لکھنے لگتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ‪ trash‬سوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ اگر میں زیادہ لکھتی تو‬

‫ہوتا یا نہ ہوتا لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ نے جتنا بھی لکھا ہے‪ ،‬وہ جذبے اور ‪: trash‬سوال‬

‫احساس کے ساتھ اتنا بھرا ہوا ہے‪ ،‬ایک ایک لفظ میں اتنی شدت ہے‪ ،‬اور اس کی اتنی پرتیں ہیں‬

‫کہ ہم پڑھتے ہیں تو اس کے معانی نکلتے چلے آتے ہیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ سیاست سے بھی‬

‫کبھی لگاؤ رہا آپ کو؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬سیاست سے لگاؤ نہیں ہے۔ کوئی دور کا بھی نہیں واسطہ۔ مجھے لگتا ہے سیاست‬

‫دوسروں کے لیے ہے۔ یہ ہوتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے یا ایسا نہیں ہونا چاہیے‬

‫یا یہ غلط ہو رہا ہے‪ ،‬یہ نا انصافی ہو رہی ہے۔ یہ باتیں تو ہوتی ہیں لیکن یہ ہے کہ میں سمجھتی‬

‫ہوں کہ اس بارے میں دوسرے مجھ سے بہتر لکھتے ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬جس وقت آپ نے لکھنا شروع کیا اس وقت تو آپ نے خود ہی بتایا کہ ترقی پسند ادب کا‬

‫بہت چرچا تھا اور شروع میں شاید آپ نے کچھ اس طرح کا لکھا بھی پھر آپ ہٹ گئیں اس سے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں‪ ،‬پھر مجھے پتہ چال کہ یہ میرا سبجیکٹ نہیں ہے میں ایسا نہیں لکھ سکتی۔‬
‫سوال‪ :‬کبھی یہ احساس تو نہیں ہوا کہ اس وجہ سے شاید لوگوں نے آپ کو نظر انداز کیا ہوکہ آپ‬

‫کسی گروپ میں شامل نہیں ہوئیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں مجھے احساس ہوا تھا کہ میں پاپولر لوگوں میں تو نہیں آسکی نا۔ اس لیے کم‬

‫لوگ پڑھتے ہیں مجھے۔ مجھے پتا تھا لیکن میں اپنی فطرت کے خالف نہیں لکھ سکتی۔ ویسے‬

‫میں نے غربت پہ اور ظلم پہ اور جبر پہ کہانیاں لکھی ہیں۔ اپنے اسٹائل سے لکھی ہیں۔ مثََال وہ‬

‫جو ’’یاِر من بیا‘‘ ہے وہ وہی ہے؛ عورت کی مجبوری اور جو کچھ اس کے اوپر زیادتی ہوئی‬

‫ہے۔ لیکن اپنے انداز سے‪ ،‬جیسے میں نے محسوس کیا لکھ لیا۔ اسے کم لوگ سمجھتے ہیں۔ لیکن‬

‫جو سمجھتے ہیں وہ پھر بہت پسند کرتے ہیں۔‬

‫سوال‪ :‬اصل میں جو آپ نے لکھا ہے اس میں یک رخا پن اور سطحیت نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی‬

‫پیغام ہو جو بالکل سامنے پڑا ہوبلکہ تاثر ہے جو پڑھنے والے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن یہ‬

‫اپنی اپنی توفیق کی بات ہے۔ اس زمانے میں ترقی پسند تنقید نے جو ایک معیار سا بنالیا تھا‪ ،‬اس‬

‫سے باہر اگر کچھ ہوتا تھا تو اسے نظر انداز کر دیتے تھے‪ ،‬شاید اس وجہ سے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں‪ ،‬بالکل نظر انداز کر دیتے تھے اور کافی عرصے تک یہ ہوا۔ لیکن پتہ نہیں کیا‬

‫ہوئی ‪ ceremony‬بات ہے کہ جب میری پہلی کتاب ’’پہچان‘‘ چھپی تھی اور کراچی میں اس کی‬

‫تھی۔ میں نے کبھی بھی تقریب نہیں کی‪ ،‬اسی کی ہوئی تھی شاید۔ اس میں کسی نے مضمون پڑھا‬

‫تھا۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں اپنی خوبٔی قسمت پہ ناز کرنا چاہیے کہ اتنے کم عرصے‬

‫میں‪ ،‬اتنا کم لکھنے پر ان کا اتنا نام ہو گیا ہے۔ کیوں کہ لوگ تو زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں۔ تو‬

‫اس وقت مجھے کچھ احساس ہوا تھا کہ بغیر کسی ترقی پسندانہ پروپیگنڈا کے اور ساری چیزوں‬

‫کے۔۔۔۔ تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا تو لوگوں نے اس کی طرف توجہ‬

‫ضرور دی۔ اس پر بھی میں شرمسار ہی ہوتی رہی ہوں۔ مجھے یہ نہیں ہوا کہ یہ بہت بڑی بات‬
‫ہے۔ مجھے شرم ہی آتی رہی کہ میں نے اتنا کم کام کیا ہے اور لوگوں کی بڑی مہربانیاں ہیں۔ یہ‬

‫لوگ بہت اچھے ہیں جو میری طرف اتنی مہربانی سے توجہ کرتے ہیں۔ جب انھوں نے یہ کہا تو‬

‫میں نے سوچا انھیں خود بہت تکلیف ہو رہی ہوگی یہ کہتے ہوئے۔ بہت میرا دل دکھا تھا۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا آپ فیمینسٹ ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬سچی بات یہ ہے کہ مجھے فیمینزم کی تعریف کا ہی نہیں پتہ کہ کیا ہے وہ۔ فیمینسٹ‬

‫ان معنوں میں ہوں کہ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے اوراس کو پورے حقوق ملنے‬

‫چاہییں اور یہی ہے فیمینزم۔ یہ تو ہر انسان کہتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں ہر انسان کو حقوق ملنے‬

‫چاہییں‪ ،‬عورت ہے یا مرد ہے اور جو احترام ہے وہ ہر ایک کو ملنا چاہیے۔ احترامِ انسانیت‬

‫حق ہے۔ ہر ایک کا؛ عورت ہے یا مرد ہے۔ ‪ basic‬انسان کا‬

‫سوال‪ :‬آپ کی کہانیوں کے بہت تانیثی مطالعے ہوتے ہیں۔ ان میں‪ ،‬آپ نے شعوری طور پر نہ‬

‫بھی لکھا ہو تو بھی‪ ،‬جبر کا احساس ملتا ہے کہ عورت کے اندر جو تخلیقی وفور ہے اور جو اس‬

‫کے شعور کی نشو و نما ہے اس کا گال گھونٹ دیا جاتا ہے۔ مرد کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے‬

‫کر سکتا ہے۔ عورت اپنے ‪ develop‬اندر جو امکانات ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو پوری طرح‬

‫امکانات کو دبا کر بیٹھ جاتی ہے‪ ،‬اس کو بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ بات بار بار آپ کے افسانوں میں آتی‬

‫ہے۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬تو یہ تو ہونا چاہیے نا کہ ہمارا ماحول اب بدلنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ‬

‫اب کافی تبدیلی تو آرہی ہے لیکن مجموعی طور پہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ کوئی عورت اپنا پورا‬

‫ٹیلنٹ ظاہر نہیں کر سکتی۔‬


‫سوال‪ :‬اچھا ایک بات مجھے محسوس ہوتی ہے آپ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے کہ کوئی بھی تجربہ‬

‫ہو وہ اپنی تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ کہانی کی بات نہیں کر رہی۔ کہانی میں جس تجربے کو پیش کیا‬

‫ہے اس میں ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ وہ پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ کیاایسا ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں۔‬

‫سوال‪ :‬یہ کیسے ہوتا ہے؟ خود بخود یا جان بوجھ کر؟‬

‫بھی شروع سے کوشش کی ‪ consciously‬خالدہ حسین‪ :‬نہیں یہ خود بخود نہیں آتا۔ یہ میں نے‬

‫تھی اس طرح سے رکھنے کی۔‬

‫سوال‪ :‬کیوں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬مجھے لگتا تھا کہ اس طرح زیادہ اثر ہوتا ہے۔ تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ اپنا تاثر بڑھانے‬

‫کے لیے۔ کیوں کہ میں یہ کہتی تھی کہ میں اپنا کوئی فیصلہ نہیں دوں گی پڑھنے والے کو۔ اس‬

‫پہ میں اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کروں گی۔ اس لیے میں وہ چیز روک دیا کرتی تھی کہ نہیں‬

‫بس اتنی ہی ٹھیک ہے۔ اب آگے جو وہ محسوس کرنا چاہیں کریں۔ اسی لیے بیچ میں ادھوری‬

‫چیزیں رہ جاتی تھیں۔ کیوں کہ میں نے کچھ چیزیں ایسی پڑھی تھیں جو ادھوری تھیں تو مجھ پر‬

‫بہت زیادہ اثر ہوتا تھا ان کا۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا! یہ جو افسانے کی کرافٹ کے بنیادی فیصلے ہوتے ہیں جو کوئی مصنف کرتا‬

‫ہے یعنی کہ اگر کوئی بھی خیال ہے چاہے وہ امیجز ہی کیوں نہ ہوں‪ ،‬اس کو پیش کرنا ہے تو‬

‫کردار کون ہوں گے؟ مرد ہوگا‪ ،‬عورت ہوگی؟ راوی کون ہوگا؟ سیٹنگ کیا ہو گی؟یہ آپ کیسے‬

‫کرتی ہیں؟‬
‫خالدہ حسین‪ :‬اول تو نجیبہ‪ ،‬یوں ہوتا ہے کہ کہانی خود ہی ذہن میں آتی ہے اسی طرح‪ ،‬پوری‬

‫میں لکھی جائے ‪second person‬میں لکھی جائے گی۔ یہ ‪ first person‬کیفیت کے ساتھ کہ یہ‬

‫گی۔ بالکل اسی طرح آتی ہے۔ بنی بنائی‪ ،‬ڈھلی ڈھالئی کہانی آتی ہے ذہن میں۔‬

‫سوال‪ :‬تو کہانی آپ کو نظر آتی ہے یا سنائی دیتی ہے یا محسوس ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے‬

‫کہانی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ذہن کے اندر ایک ہیولٰی سا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے لفظ لگتے ہیں۔ جیسے صفحے‬

‫کے اوپر لفظ لکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ یہ پوری کہانی لکھی ہوئی ہے۔ پھر کبھی‬

‫ہوتا ہے کچھ مجھے تومیں کر لیتی ہوں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں نا کہ ناول لکھتے ہوئے مجھے‬

‫پہ اتنا بھروسہ نہیں کر سکتے آپ۔ اس میں تو ٹھوس ‪intuition‬یہ ڈر لگتا ہے کہ اس میں تو‬

‫معلومات اور تکنیک اور بڑا مواد چاہیے اس کے لیے۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا تھا کہ کیوں نا‬

‫میں ان سب باتوں سے ہٹ کے اپنی مرضی سے لکھوں۔ دیکھوں کہ کیا لکھتی ہوں؟کیوں میں نہ‬

‫لکھوں آخر میرے پہ کیا پابندی ہے؟سوچا تھا ایسا لیکن پھر ہمت نہیں پڑی۔ میں نے کہا‪ ،‬پتا نہیں۔‬

‫سوال‪ :‬تو لکھیں نا۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں لکھ لینا چاہیے۔‬

‫سوال‪ :‬ابھی بھی لکھیں نا۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کوئی ضروری تو نہیں نا کہ میں نے ان سب باتوں کی پابندی کرنی ہے۔‬

‫سوال‪ :‬ہاں بالکل نہیں ضروری۔ بلکہ وہ تو ایک نئی چیز ہو گی۔ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اچھا‬

‫’’کاغذی گھاٹ‘‘ جو آپ نے لکھا‪ ،‬آپ کو معلوم تھا کہ آپ ناول لکھ رہی ہیں؟ یا آپ اپنی یاد‬

‫داشتیں لکھ رہی تھیں؟‬


‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں یہ یاد داشت کے طور پر شروع کیا تھا۔ پھر کیریکٹرز نکلتے گئے۔ بس پھر‬

‫میں نے شروع کر لیا کہ چلو اب میں پورا کر لوں۔ وہ مختصر رہ گیا ہے‪ ،‬نا مکمل۔ ۔ ۔ بہر‬

‫……حال‬

‫سوال‪ :‬ماضی کیوں اچھا لگتا ہے ہمیشہ؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں دیکھیں نا! کل ہی میں سوچ رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اچھا لگتا ہے۔‬

‫سوال‪ :‬اس لیے کہ ہمیں ماضی کی تکلیفیں اس وقت محسوس نہیں ہو رہی ہوتیں؟کانٹے نہیں چبھ‬

‫رہے ہوتے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں۔ ہم اپنے آپ کو شاید محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ماضی چوں کہ ہمیں مزید‬

‫نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس لیے شاید۔‬

‫ہوتا ہے نا؟ ‪: known‬سوال‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں اور حال جو ہے اس میں تو خدشات ہوتے ہیں اورجو مستقبل ہے وہ تو سراپا‬

‫خوف ہے۔ اس لیے ماضی جو ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔‬

‫سوال‪ :‬آپ کو نقادوں سے کوئی شکایت رہی ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نقادوں سے…… اول تو یہ ہے کہ کسی نے مجھ پہ لکھا ہی نہیں۔ کم لوگوں نے‬

‫لکھا ہے۔ زیادہ لوگوں نے تو نہیں لکھا۔ وہ بھی بہت عرصے کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ جب لکھتی رہی لکھتی‬

‫رہی پھر کہیں جا کے لوگوں کو پتہ چال اور میرے بارے میں انھوں نے لکھا اور پھر یہ ہے کہ‬

‫بہت کم لوگ ہیں جو سمجھ کے لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (خاموشی) میں نے شادی کے بعد لکھنا چھوڑ‬

‫دیا تھا۔ لکھنا اس طرح نہیں چھوڑا تھا بس چھپواتی نہیں تھی۔ دس بارہ سالوں تک۔ مجھے لگتا‬

‫تھا کہ بس ختم ہو گیا ہے اب لکھنا‪ ،‬کیا لکھنا۔ ایک دن ایسے ہی میں بیٹھی ہوئی تھی تو یہ ریڈیو‬
‫چل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے۔ یہ بھی تقدیر کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہاں میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک‬

‫دم سے نا۔ ۔ ۔ کوئی تقریر ہو رہی تھی ادب کے بارے میں۔ سراج منیر بول رہے تھے۔ وہ ادب کا‬

‫کوئی جائزہ وائزہ لے رہے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے میرا ذکر کیا اور انھوں نے بہت‬

‫حسرت کے ساتھ کہا کہ وہ پتہ نہیں کہاں گم ہو گئیں اور انھوں نے یہ یہ چیزیں بہت اچھی لکھی‬

‫تھیں اور انھوں نے میرا اتنا اچھا تجزیہ کیا کہ اسے سن کے بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں میں‬

‫آنسو آگئے۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں میں نے انھیں نہیں بتایا کہ آپ کی اس‬

‫تقریر کی وجہ سے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد پھر میں نے وہ قلم ُاٹھایا۔ آہستہ‬

‫آہستہ اور پھر لڑکھڑاتے ہوئے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ ورنہ میں تو بھول گئی تھی۔ لکھنا‬

‫چھوڑ دیا تھا بالکل۔ تو یہ دیکھیں نا یہ بھی تقدیر تھی۔ اب میں ہو سکتا تھا ریڈیو نہ سنتی‪ ،‬نہ‬

‫لگاتی یا اس وقت وہ تقریر نہ ہو رہی ہوتی یا وہ بول میں نہ سنتی۔ لیکن ایسا تھا تقدیر میں کہ‬

‫انھوں نے بتایا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کا مقام ہے ہمارے ادب میں۔ اس طرح کی بات‬

‫تھی پھر میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد پھر میری ہمت بندھتی گئی۔‬

‫سوال‪ :‬تو دیکھیں بعض اوقات ایک چھوٹا سا جملہ بھی کسی چیز کو کیسے مہمیز کر سکتا ہے۔‬

‫اس کے لیے محرک ثابت ہو سکتا ہے۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬بہت زیادہ۔ بڑی بات ہے۔ ویسے بھی بڑے اچھے آدمی تھے وہ۔ ہللا میاں نے شاید ان‬

‫کی قسمت میں یہ نیکی بھی لکھی ہوئی تھی کہ کسی کو کام پہ لگائیں گے دوبارہ۔‬

‫سوال‪ :‬جب آپ لکھ رہی ہوتی ہیں تو آپ کسی سے مخاطب ہوتی ہیں‪ ،‬کوئی قاری یا کوئی پڑھنے‬

‫واال یا کوئی خیال یا اپنا آپ؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں‪ ،‬میں بس اسی میں مشغول ہوتی ہوں جو میں لکھ رہی ہوتی ہوں۔ یہ نہیں ہوتا کہ‬
‫فالں بندہ ہے‪ِ ،‬اس کے لیے لکھ رہی ہوں یاُاس کے لیے۔ جو ہوتا ہے کہتی ہوں بس کاغذ پر‬

‫آجائے‪ ،‬جو کچھ میں نے سوچا ہے۔‬

‫کرتی ہیں؟ کاٹ چھانٹ کرتی ہیں؟ ‪re write‬سوال‪ :‬پھر جب کاغذ پر آجاتا ہے دوبارہ اس کو‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں بہت کرتی ہوں‪ ،‬بہت دفعہ پڑھتی ہوں‪ ،‬جملے درست کرتی ہوں‪ ،‬لفظ بدلتی ہوں‪،‬‬

‫گو کہ کہانی وہی رہتی ہے۔ نثر کے بارے میں میں بہت زیادہ محتاط رہتی ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ‬

‫اچھی نثر لکھوں۔ دیکھتی ہوں کہ غلطیاں نہ ہوں‪ ،‬یا جہاں پہ تاثر ہو‪ ،‬وہاں ہوسکے تو اچھا جملہ‬

‫لکھ دیتی ہوں۔‬

‫سوال‪ :‬وہ جو کردار ہوتے ہیں یہ آپ کے دیکھے بھالے ہوتے ہیں یا اندر سے ہی کہیں سے آتے‬

‫ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬دیکھے بھالے ہوتے ہیں اکثر۔ مطلب تھوڑے تھوڑے دیکھے بھالے ہوتے ہیں باقی‬

‫وہ زیبِ داستاں کے لیے بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر کا تو تعلق میرے بچپن سے ہوتا ہے دور دراز‬

‫کے لوگ۔‬

‫سوال‪ :‬خالدہ آپا! اب کیا جی چاہتا ہے؟ اگر آپ کے پاس ہر طرح کا اختیار ہو تو آپ کیا کریں گی؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬میرے پاس اگر اختیار ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سوچ کر) میں ایک کتاب لکھوں۔ وہ کچھ لکھوں‬

‫جو میں نہیں لکھ سکی۔ بہت دل ہے میرا اس میں‪ ،‬خوشی بھی ہے‪ ،‬اطمینان بھی۔ لکھنے کو جی‬

‫چاہتا ہے۔‬

‫سوال‪ :‬وہ کیا تھا جو آپ نہیں لکھ سکیں؟‬

‫خالدہ حسین‪( :‬بہت دیر سوچنے کے بعد) ایسی تو کوئی چیز دیکھنے میں تو نہیں ہے لیکن ایک‬
‫حسرت سی ہے کہ مجھے اور لکھنا چاہیے تھا۔ اگر میں لکھنا شروع کردوں تو چیزیں نکل آئیں‬

‫گی بہت سی۔‬

‫سوال‪ :‬تو آپ ابھی شروع کر دیں نا۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں کوئی ناول۔ ویسے میں دعا بھی مانگتی ہوں نماز کے بعدکہ کوئی اچھی سی‬

‫چیز لکھ سکوں۔ کوئی ایسی چیز لکھ سکوں جو زندہ رہ جائے۔‬

‫سوال‪ :‬کوئی فیملی ساگا؟ یا ایسی کوئی چیزاپنی زندگی کے بارے میں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬نہیں ناول۔ جس میں اپنے تمام نظریات‪ ،‬جو کچھ میں سوچتی ہوں فکری سطح پہ‪ ،‬وہ‬

‫سب ال سکوں۔ اب تک میں ایسی کوئی چیز نہیں لکھ سکی۔‬

‫سوال‪ :‬تو اسے لکھنے میں کیا چیز مانع ہے؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬کاہلی۔ بہت کاہلی ہے۔ بس ایک یہ ہوتا ہے لکھتے ہوئے کہ لگتا ہے کہ کیا لکھ رہے‬

‫ہیں‪ ،‬فضول لکھ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو مجبور بھی کیا تھاکہ چلو فضول ہی لکھوں‪،‬‬

‫لکھوں تو سہی۔ لکھنا تو چاہیے۔ بس یہ عادت ہو جائے نا کہ روز۔ پہلے میں لکھتی تھی روزانہ۔‬

‫میرے روزنامچے دس بارہ پڑے ہوئے ہیں میرے پاس۔‬

‫سوال‪ :‬لکھا کرتی تھیں آپ؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬ہاں اب بھی لکھتی ہوں۔ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن وہ ذاتی نوعیت کے‬

‫ہیں۔ ویسے ادبی باتیں بھی بہت ہیں اس میں۔ جلے دل کے پھپھولے بھی ہیں۔ (قہقہہ) شبنم کے‬

‫ساتھ میری بڑی دوستی تھی تو میں نے اس کو کہا تھا کہ دیکھو میں تمھیں اپنی ساری ڈائریاں‬

‫کرو۔ اور جو ادبی باتیں ہیں ‪ edit‬دے دوں گی‪ ،‬تم اس میں سے کاٹ چھانٹ کر کے اور اس کو‬

‫ان کو علیحدہ کر دو۔ تو وہ کہتی تھی کہ ہاں بالکل۔ پھر میں کہتی کہ نہیں نہیں اس میں تو میں‬
‫نے بڑا کچھ لکھا ہوا ہے۔ تمھیں پتہ چل جائے گاکہ کس کس کے بارے میں میں نے لکھا ہے۔‬

‫لیکن بہرحال وہ ہیں بہت ساری۔ اب پتہ نہیں پیچھے یہ لوگ کیا کریں گے۔ کسی دن میں سوچتی‬

‫ہوں کہ یاسرہ سے کہوں کہ یہ ضائع کر دو۔‬

‫سوال‪ :‬نہیں نہیں یہ نہ کریں۔‬

‫خالدہ حسین‪ :‬تو کیا کروں اس میں پتہ نہیں کیا کچھ لکھا ہوا ہے۔‬

‫سوال‪ :‬ویسے فکری اور نظری اعتبار سے آپ کس رخ پہ چلتی ہیں؟‬

‫خالدہ حسین‪ :‬فکری اور نظری لحاظ سے۔ ۔ ۔ دیکھیں ایک یہ ہے کہ روحانیت اور مادیت کی‬

‫میرے دماغ میں ہے۔ ‪ conflict‬جنگ‪ ،‬اس نے مجھے بہت تنگ کیا ہے۔ شروع ہی سے یہ‬

‫ہمارے پورے گھرانے کی اساس روحانیت پہ ہے۔ پھر یہ ہے کہ مادیت بھی بہت ضروری چیز‬

‫ہے۔ تو وہ آپس میں جب ٹکراتی رہتی ہیں ہر وقت‪ ،‬یہ بہت پریشان کرتی ہیں۔ جگہ جگہ پہ‬

‫تضادات آتے ہیں۔ روحانیت کچھ کہتی ہے‪ ،‬دنیا کا تقاضا کچھ کہتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایک‬

‫مسلسل احساس جرم ہے اندر۔ کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ اگر میں کوئی کام نہیں کرتی تو سارا دن‬

‫خلش ہوتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ نہیں مجھے۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ۔ ۔‬

‫۔ ۔ مجھے جو روحانی تقاضے ہیں‪ ،‬ان کو پورا کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ میں مادی تقاضوں‬

‫کے پیچھے ہوں لیکن پھر وہ مادی تقاضے اتنے زیادہ ضروری ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی۔‬

‫آپس میں ٹکراتے ہیں یہ۔ لوگوں کو ایسے مسائل نہیں ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو ایسی باتوں‬

‫کے بارے میں سوچتے ہیں وہ صحیح الدماغ نہیں ہیں یعنی بیکار لوگ ہیں۔ یعنی ایبسٹریکٹ‬

‫چیزوں کے بارے میں سوچنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ آپ کشور سے بات کریں گی نا‪ ،‬وہ کہے‬

‫گی تم لوگ پاگل ہو‪ ،‬پریکٹیکل باتیں کرو‪ ،‬دنیا کی باتیں کرو‪ ،‬محنت کرو‪ ،‬لوگوں کا بھال کرو‪،‬‬

‫صحیح بات کہتی ہے وہ۔ پازیٹولی ایکٹو ہو جاؤ‪ ،‬ماحول میں تبدیلی الؤ‪ ،‬یہ کیا کہ دل میں یہ ہو‬
‫رہا ہے دماغ میں یہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب کیا کیا جائے۔ ہللا تعالٰی نے ایسا دماغ دیا ہے۔ میرا خیال‬

‫ہے کہ یہ سب کچھ کاہلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسمانی کام کریں ورنہ پھر ہم‬

‫بیمار ہی رہیں گے۔‬

‫پھر باتوں کا رخ مشترکہ احساسات اور تجربات کی طرف مڑ گیا اور میں اور خالدہ آپا انٹرویو (‬

‫)کو بھول بھال کر دیر تک دکھ سکھ کرتے رہے۔‬


‫‪Jul 03, 2023 | 03:05 PM‬‬

‫!والدین کا گھر ۔۔۔‬

‫خلی‪ÞÞ‬ل ج‪ÞÞ‬بران کی یہ تحری‪ÞÞ‬ر انگری‪ÞÞ‬زی میں لکھی گ‪ÞÞ‬ئی تھی۔ کس‪ÞÞ‬ی نے‬
‫اردو ت‪ÞÞÞ‬رجمہ کی‪ÞÞÞ‬ا اور رال دی‪ÞÞÞ‬ا۔۔۔پ‪ÞÞÞ‬وری تحری‪ÞÞÞ‬ر ض‪ÞÞÞ‬رور پ‪ÞÞÞ‬ڑھیں ۔‬
‫وال‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬دین ک‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ا گھ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ر‬
‫ص‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬رف یہی وہ گھ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ر ہے‬
‫جہ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬اں آپ جب جی چ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬اہے‬
‫بغ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬یر کس‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ی دع‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬وت کے ج‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ا س‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬کتے ہیں‬
‫یہی وہ گھ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ر ہے‬
‫جہ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬اں آپ دروازے میں چ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ابی لگ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ا ک‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬ر‬
‫کتے ہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و س‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ل ہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر میں داخ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ت گھ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫راِہ راس‬ÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ب‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫اہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ری نگ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں محبت بھ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫کہ جہ‬
‫تی ہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر لگے رہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ک دروازے پ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اس وقت ت‬
‫ائیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر نہ آ ج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ک آپ نظ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫جب ت‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫ری‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و آپ کی بچپن کی بے فک‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و آپ ک‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ج‬
‫ا ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اد دالت‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یوں کے دن ی‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اور خوش‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫ودگی‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں آپ کی موج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫جہ‬
‫اور ماں باپ کے چہرے پر محبت کی نظر ڈالنا باعِث برکت ہے اور‬
‫ات ہے۔‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫زاز کی ب‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ا اع‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و کرن‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ے گفتگ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ان س‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫و‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ائیں ت‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ا ج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں آپ ن‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫جہ‬
‫اتے ہیں۔‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ا ج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫وں کے دل مرجھ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر کے مکین‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اس گھ‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫ورت میں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اپ کی ص‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں ب‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں م‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫جہ‬
2 ‫تی ہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫معیں جلی رہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ش‬
‫ائیں‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫ے جگم‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫نی س‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫و روش‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫ا ک‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫اکہ آپکی دنی‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫ت‬
‫ر دیں‬ÞÞÞÞ‫ے بھ‬ÞÞÞÞ‫رتوں س‬ÞÞÞÞ‫یوں اور مس‬ÞÞÞÞ‫و خوش‬ÞÞÞÞ‫دگی ک‬ÞÞÞÞ‫اور آپ کی زن‬
‫ر‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہی ہے وہ گھ‬
‫م کی‬ÞÞ‫ر قس‬ÞÞ‫ور اور ہ‬ÞÞ‫ر پ‬Þ‫ے بھ‬ÞÞ‫وں س‬ÞÞ‫الص محبت‬ÞÞ‫ترخواں خ‬ÞÞ‫جہاں کا دس‬
‫اک ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ے پ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫افقت س‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫من‬
‫ر ہے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫ائے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و ج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ا وقت ہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫انے ک‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اں کھ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر یہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫کہ اگ‬
‫ائیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ ‫اور آپ کچھ نہ کھ‬
‫اتے ہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫وٹ ج‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫وں کے دل ٹ‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫ر کے مکین‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫و اس گھ‬ÞÞÞÞÞÞÞ‫ت‬
‫اتے ہیں۔‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و ج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اراض ہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اور وہ ن‬
‫اں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر ہے جہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫یہ وہ گھ‬
‫یاں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫م کی خوش‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر قس‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و ہ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫آپ ک‬
‫ر ہیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫اور قہقہے میس‬
‫و‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫آہ ہ ہ ہ۔۔۔ لوگ‬
‫انیں‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫و پہچ‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫روں کی اہمیت ک‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ان گھ‬
‫ائے‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ر ہوج‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫ل اس کے کہ بہت دی‬ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‫قب‬
‫وہ ل‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬وگ بہت خ‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬وش قس‪ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ‬مت ہیں‬
‫جن کے پاس والدین کے گھر ہیں‬

‫انگریز ادیبوں کے کتبوں پر لکھی تحریریں‬


‫‪ -‬کالم نگار ‪-‬‬

‫‪February 2, 2020‬‬

‫‪1440‬‬

‫فيس بک پر شیئر کیجئیے‬

‫ٹویٹر پر ٹویٹ کريں‬

‫‪‬‬
‫‪‬‬ ‫‪tweet‬‬
‫وقار احمد ملک‬
‫پتھر‪ ،‬لکڑی یا مرمر کی تختی جو قبر کے سرہانے لگائی جاتی ہے کو اردو میں کتبہ اور‬
‫کہتے ہیں۔ پاکستان میں کتبے پر مرحوم کا نام‪ ،‬ولدیت‪ ،‬سِن پیدائش‪ Tomb Stone ،‬انگریزی میں‬
‫وفات اور فناومغفرت کے مفہوم واال کوئی شعر یا کوئی ٓایِت قرانی وغیرہ تحریر کی جاتی ہے۔‬
‫کتبے لکھنے اور لگانے کی روایت بہت پرانی ہے۔پوری دنیا میں ہر قوم‪ ،‬مذہب‪ ،‬نسل اور عالقے‬
‫کی روایات کو ملحوِظ خاطر رکھتے ہوئے کتبوں کی تحریریں لکھی جاتی ہیں۔ انگریزی ادب‬
‫کے نامور ادیبوں میں سے کئی کے کتبے انگریزی ادب کی تاریخ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں‬
‫اور ان کو حوالوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔ان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ان لوگوں‬
‫نے خود ہی اپنی زندگی میں تحریر کیے تھے۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے پیِش نظر‬
‫مختصر الفاظ میں ایسے کتبوں کی ایک دلچسپ روداد درج ذیل ہے۔ دنیائے ادب کے سب سے‬
‫معروف ادیب انگریز شاعر ڈرامہ نگارولیم شیکسپیئر کی قبر انگلستان کے مشہور ہولی ٹرینٹی‬
‫چرچ میں واقع ہے۔ شیکسپیئر کی تحریروں کی طرح اس کی قبر پر لگے کتبے کی تحریر بھی‬
‫بہت دلچسپ ہے۔ کتبے کی عمارت پریہ تحریر نقش ہے۔ ” اچھے دوستو‪:‬یسوع کے نام پر اس‬
‫گور کی مٹی کو مت کھودنا۔ وہ انسان بڑا مقدس ہوگا جو اس قبر کے پتھروں کو ہاتھ نہیں لگائے‬
‫گا۔ لیکن لعنت ہے اس پر جو اس قبر میں پڑی ہڈیوں کو اٹھا لے گا”۔ ولیم شیکسپیئر سنہ‪1616‬‬
‫میں فوت ہوا۔ اس زمانے میں الشوں کو نامعلوم لوگ قبروں سے نکال لیتے تھے۔ کچھ تو تحقیقی‬
‫مقاصد کے لیے تو کچھ قبرستان میں مزید قبروں کی جگہ بنانے کے لیے۔ شیکسپیئر کو شاید‬
‫اسی بات کا خوف تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کے کتبے کی تحریر کو لکھ دیا تھا۔‬
‫جب اس کی قبر کو ‪ 2008‬میں مرمت کے لیے کھوال گیا تو اس کے پتھر اور ہڈیاں محفوظ پڑی‬
‫نے قبر کو محفوظ رکھا۔عظیم رومانوی انگریز ‪ Curse‬تھیں۔ لگتا ہے کی شاعر کی تحریر کی‬
‫سب سے بعد میں پیدا ‪ Keats‬شاعر جان ِکیٹس کی وفات ‪ 1821‬میں ہوئی۔ رومانوی شاعروں میں‬
‫ہوا اور سب سے پہلے فوت ہوا۔ بوقِت مرگ اس کی عمر پچیس سال اور چند مہینے تھے۔ ِکیٹس‬
‫کا انتقال ‪ 23‬فروری کو روم اٹلی میں ہوا۔ انگریز شاعر کو روم میں ایک پروٹیسٹنٹ چرچ میں‬
‫دفن کیا گیا۔ اس کی قبر کے کتبے کی تحریر یہ ہے ” یہاں وہ ٓادمی دفن ہے جس کا نام پانی پر‬
‫لکھ دیا گیا تھا”یہ الفاظ بھی ِک یٹس کے اپنے چنے ہوئے ہیں جو کسی پرانے شاعر کی نظم سے‬
‫لیے گئے تھے۔ ِک یٹس کے یہ الفاظ اس چیز کے غماز ہیں کہ وہ شہرت کو عارضی سمجھتا تھا۔‬
‫اس کے مطابق پانی پر لکھی تحریر کی طرح میری شہرت بھی چند روزہ ہو گی اور میری موت‬
‫کے کچھ دنوں کے بعد لوگ مجھے فراموش کر دیں گے۔ سلویا پالتھ معروف امریکی شاعرہ‬
‫تھی۔ اپنے انگریز شوہر ٹیڈ ہیوز جو خود بھی ایک نامور شاعر تھا کی بیوفائی کی بنا پر گیس‬
‫اوون میں اپنے ٓاپ کو جال کر راکھ کر دیا تھا۔ گیارہ فروری ‪1963‬کو یہ خوبصورت شاعرہ‬
‫صرف اکتیس سال کی عمر میں قبر میں جالیٹی۔اس کے کتبے کی تحریر یہ ہے۔” شعلوں کے‬
‫درمیان بھی سنہری رنگ کے کنول کے پھول کھالئے جا سکتے ہیں “‪ .‬رابرٹ فراسٹ نہ صرف‬
‫امریکہ بلکہ دنیا کے نامور شاعروں میں مخصوص مقام کا حامل ہے۔ فراسٹ کی شاعری اپنے‬
‫عالقے کی مٹی کی خوشبو سے معطر ہے۔ اس لیے ہارڈی کی طرح فراسٹ کو بھی ریجنل شاعر‬
‫کہا جاتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ کے قبر کے کتبے پر یہ یادگار الفاظ اس کی منفرد سوچ اور طبیعت‬
‫کے عکاس ہیں۔ ” میں نے دنیا کے ساتھ ایک عاشق کی سی لڑائی لڑی ہے”۔‬
‫قم يا صالح الدين “مسلمان صالح الدین کی قبر کے پاس کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ” قم”‬
‫(کھڑے ہو جأو) یا صالح الدین! قم ! ہمیں ٓاپ کی ضرورت ہے۔”کیا ٓاپ نہیں دیکھ سکتے کہ‬
‫عراق میں کیا ہو رہا ہے؟”کیا ٓاپ نہیں دیکھ سکتے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟”کیا ٓاپ‬
‫ہمارے پاس موجود خوفزدہ قائدین کو نہیں دیکھ سکتے ہیں؟”اے صالح الدین ‪ ،‬ہمیں مقدس‬
‫سرزمین ٓازاد کروانےکے لیے ٓاپ کی ضرورت ہے”۔”سال میں کتنی بار تم اسے یاد کرنے والے‬
‫ہو؟ کتنی بار صالح الدین کو اپنی بزدلی پر کوڑے مارنے جا رہے ہو؟ کیا زندہ مردے سے مدد‬
‫مانگتا ہے؟”صالح الدین نے یروشلم کو صلیبیوں سے دوبارہ فتح کیا اور میسوپوٹیمیا ‪ ،‬شام ‪،‬‬
‫مصر ‪ ،‬لیبیا ‪ ،‬تیونس ‪ ،‬جزیرہ نما عرب اور یمن کے مغربی حصوں کو متحد کیا۔ٓاج ہمیں ایک‬
‫صالح الدین کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے لڑے گا۔ لیکن ہم نے اپنا فرض فراموش کیا اور‬
‫اپنے دین ‪ ،‬اپنے عقیدے اور جہاد کو ترک کرکے مادیت پسند دنیا کو منتخب کیا ہے۔”کوئی بھی‬
‫صالح الدین بننے کی خواہش نہیں کرتا ‪ ،‬کوئی عمر بن خطاب ‪ ،‬ابوذر یا ابوبکر رضی ہللا عنہ‬
‫بننے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔یا ایک خدیجہ یا فاطمہ رضی ہللا عنہ۔ہمیں ان لوگوں کو بس یاد‬
‫کرتے ہیں ۔جب ہم ٓاخرت پر یقین رکھتے ہیں تو ہم بزدل نہیں ہو سکتے۔ ہم صالح الدین کی‬
‫زندگی کو منا نہیں سکتے اور خود بزدل نہیں ہو سکتے۔ “بجائے اس کے کہ ‘کھڑے ہو اے‬
‫صالح الدین!اے مسلمانو جاگو! جاگو! ‘ ہم کافی دیر سو چکے ہیں اور اپنی قوم کی حالت ‪ ،‬اپنے‬
‫بھائیوں اور بہنوں کی فریاد کو دیکھو ! “عربی نظم سے‬

‫ہوا چلے گی تو خوشبو مری بھی پھیلے گی‬


‫میں چھوڑ ٓائی ہوں پیڑوں پہ اپنے ہاتھ کے رنگ‬

‫فاطمہ حسن‬

‫غزل‬
‫باقر رضا‬
‫اپنے پتے سے اپنے گھروں اپنے نام سے‬
‫گم ہورہے ہیں لوگ بڑے اہتمام سے‬
‫اس گھر کے کامیاب مکینوں میں کون تھا‬
‫دیمک تھی جس نے کام رکھا اپنے کام سے‬
‫ٓازادی کیا ہے جلد سمجھ میں یہ ٓاگیا‬
‫اس دام میں پھنسے ہیں رہا ہوکے دام سے‬
‫مدہوشی ءحیات کا غلبہ ہے اس لیے‬
‫دو گھونٹ پی لیے تھے تمنا کے جام سے‬
‫ہم سر بکف وہ دست بہ شمشیر ہیں چلے‬
‫نکلے ہیں ہم بھی کام سے اور وہ بھی کام سے‬
‫یوں دست جبر سے یہاں محفوظ کون ہے‬
‫ہم وہ ہیں جو نشانہ بنے التزام سے‬
‫ان سے کبھی کبھار کا ملنا ہی ٹھیک تھا‬
‫پہچان پر گئے ہیں دعا و سالم سے‬
‫اس کے سوا ہم اپنے تعارف میں کیا کہیں‬
‫ظالم پرست چڑتے ہیں ایسے ہی نام سے‬
‫تنہا ہو خیمہ گاہ میں بیٹھے ہوئے رضا‬
‫کیا ہوگا گر چراغ بجھایا بھی شام سے‬

‫اردو میں کیسا لکھا جا رہا ہے؟‬


‫انور ِس ن رائے‬ ‫‪‬‬
‫بی بی سی اردو ڈاٹ کام‪ ،‬کراچی‬ ‫‪‬‬

‫‪ 17‬اگست ‪2011‬‬
‫تصویر کا ذریعہ‪،‬‬
‫نام کتاب‪ :‬تسطیر (سہ ماہی)‬
‫خصوصی شمارہ (جنوری تا جون)‬
‫مدیر‪ :‬نصیر احمد ناصر‬
‫صفحات‪656 :‬‬
‫قیمت‪ :‬چار سو روپے‬
‫ناشر‪ :‬نصیر احمد‪ ،‬اے‪ ،‬شادمان کالونی‪ ،‬جیل روڈ۔ الہور۔ رابطہ‪tasteer@hotmail.com :‬‬
‫گزشتہ دو تین ماہ کے دوران میرا تو یہ احساس ختم ہو گیا ہے کہ پاکستان میں لکھا نہیں جا رہا‬
‫لیکن کیسا لکھا جا رہا ہے‪ ،‬اس بارے میں کم از کم لکھنے والوں کو بڑی خوش امیدی ہے۔ پھر‬
‫بھی ان کے پاس پڑھنے والوں کے اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو دور سعادت حسن منٹو‪،‬‬
‫راجندر سنگھ بیدی‪ ،‬فیض احمد فیض اور منیر نیازی پر ختم ہوتا ہے اس کے بعد اب کس کا دور‬
‫ہے؟ ایک خاموش سا اضطراب ہے جیسا شاید پرانے زمانوں کی ایسی بادشاہتوں میں ہوتا تھا جن‬
‫کے حکمراں کوئی ولی عہد چھوڑے بغیر ہی گزر جاتے تھے۔ اگر وہ زمانہ ہوتا تو یقینًا پاکستان‬
‫کے اردو پڑھنے لکھنے والے شہر پناہ کے دروازے پر جا کھڑے ہوتے اور صبح سویرے سب‬
‫سے پہلے جو بھی شہر میں داخل ہوتا اسے شاہ ادیب یا صاحِب عصر ادیب مان لیتے۔‬
‫لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک تو مذکورہ طریقہ کہانیوں کا حصہ ہے اور پھر ادب کا‬
‫معاملہ سیاست سے بھی کچھ ٹیڑھا ہے۔ ادب میں صرف ہر سیر ہی سوا سیر نہیں ہوتا‪ ،‬چھٹنکیاں‬
‫بھی خود کو کم نہیں سمجھتیں لیکن یہی اّنا وہ ہے جو لکھنے اور لکھتے رہنے پر آمادہ کیے‬
‫رہتی ہے۔‬
‫شاید پہلے کبھی ضرورت نہ ہوتی ہو لیکن اب تو ادب میں پڑھنا بنیادی شرط ہے تا کہ ہر لکھنے‬
‫والے کو یہ علم رہے کہ اسے کیا نہیں لکھنا۔ یعنی کیا ہے جو لکھا جا چکا ہے اور کیسے کیسے‬
‫لکھا جا چکا ہے۔‬
‫تصویر کا ذریعہ‪،‬‬
‫تصویر کا کیپشنوزیر آغا اردو کے نامور ادیب‪ ،‬نقاد اور شاعر ہیں وہ ادبی جریدہ اوراق کے مدیر تھے۔‪،‬‬
‫ادب کا مقصد انسان اور اس کے خارج اور باطن کا جمالیاتی اظہار ہے لیکن کیا کیا جائے کہ‬
‫انسان تمام تر تہذیبی‪ ،‬جغرافیائی‪ ،‬ثقافتی اور لسانی تقسیموں کے باوجود خارجی اور باطنی مسائل‬
‫کی تکرار کا شکار ہے۔ شاید اسی سے ادب میں مختلف اسلوبوں‪ ،‬پیرایوں اور نظریوں کی‬
‫گنجائش پیدا ہوئی اور باقی رہے گی۔‬
‫تسطیر کے مدیر نصیر احمد ناصر نے ادبی نظریے کے عنوان سے لکھے جانے والے اداریے‬
‫میں اس معاملے کو یہ کہہ کر نمٹایا ہے کہ ’۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ‪ ،‬یہ سب ادب کے ایک بڑے‬
‫درخت کی نظریاتی شاخیں ہیں‘۔ لیکن زیادہ دلچسپ بات وہ ہے جس پر انہوں نے اداریہ ختم کیا‬
‫ہے کہ ’اگر کسی تحریر میں ادبیت نہیں تو وہ ادب نہیں چاہے وہ زندگی سے متعلق ہو یا کسی‬
‫غیر مرئی دنیا کے بارے میں ہو‘۔‬
‫دیکھیے ادیب ہونا کتنا آسان ہے۔ ایسی چیز لکھیے جس میں ادبیت ہو اور ادیب بن جائیے لیکن‬
‫بھول نہ جائیے گا‪ ،‬نصیر ناصر نے ابھی آپ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ ’ادبیت ‘ کیا ہے اور تحریر‬
‫میں کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔‬
‫میرے خیال میں نصیر احمد ناصر کے حوالے سے تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ ان کی ادارت میں‬
‫شایع ہونے والے رسالے اور ان کی شاعری پڑھیے اور دیکھ لیجیے کہ تحریروں میں ادبیت‬
‫کیسے ظہور کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے آپ کی سہولت کے لیے تسطیر کے زیِر تبصرہ شمارے میں ‪ 126‬نظمیں ‪ 54‬غزلیں‬
‫‪ 20‬افسانے‪ ،‬اداریے سمیت ‪ 15‬مضمون‪ 11 ،‬ترجمے جن میں نو شاعری کے ہیں اور آٹھ خطوط‬
‫شایع کیے ہیں جو آپ کو نصیر ناصر اور تسطیر کے گزشتہ شمارے تک کے بارے میں بتاتے‬
‫ہیں۔‬
‫تصویر کا ذریعہ‪،‬‬
‫تصویر کا کیپشنانیس ناگی اردو کے ناول نگار‪ ،‬شاعر اور نقاد تھے انہوں بہت اہم تراجم بھی ‪،‬‬
‫کیے۔‬
‫اب یہ بھی جان لیں کہ اس شمارے کے لکھنے والوں میں کون کون ہیں۔ پہلے دو حصے لمِس‬
‫رفتہ کے عنوان سے ہیں اور یہ وزیر آغا اور انیس ناگی کے بارے میں ہیں۔ ان حصوں کے‬
‫لکھنے والوں میں انور سدید‪ ،‬رشید امجد‪ ،‬ڈاکٹر شاہین مفتی اور سلیم شہزاد ہیں۔ پروین طاہر‪،‬‬
‫اقتدار جاوید اور زاہد مسعود نے وزیر آغا اور ناگی کو شعری تحسین پیش کی ہے اور یہ لوگ‬
‫شاعری کے دوسرے حصوں میں بھی موجود ہیں۔ اس کے عالوہ نصیر ناصر کے نام وزیر آغا‬
‫کے خطوط بھی ہیں۔‬
‫نظموں کے پہلے حصے میں آفتاب اقبال شمیم‪ ،‬احسان اکبر‪ ،‬ابرار احمد‪ ،‬انوار فطرت‪ ،‬علی محمد‬
‫قرشی‪ ،‬ثمینہ راجہ‪ ،‬رفیق سندیلوی‪ ،‬فرخ یار‪ ،‬شہزاد نّیر‪ ،‬ثریا عباس‪ ،‬خلیق الرحٰم ن اور خود‬
‫نصیر ناصر ہیں۔ دوسرا حصہ گلزار (فلموں والے) سے شروع ہوتا ہے اور اس میں ستیہ پال‬
‫آنند‪ ،‬جلیل عالی‪ ،‬شاہین مفتی‪ ،‬منصور آفاق‪ ،‬امداد کاوش‪ ،‬محمود ثنا‪ ،‬روش ندیم‪ ،‬بشٰر ی اعجاز‪،‬‬
‫اختر رضا سلیمی‪ ،‬گلناز کوثر‪ ،‬تنویر قاضی‪ ،‬نوشابہ شوکت‪ ،‬ارشد معراج اور فاروق مونس شامل‬
‫ہیں۔‬
‫تیسرا حصہ نثری نظم کا ہے۔ نسرین انجم سے شروع ہوتا ہے اور اس میں ابرار احمد بھی ہیں‪،‬‬
‫جن کی نثری نظموں کے حوالے سے ظفر اقبال نے ایک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ ’ُاس کی‬
‫نثری نظمیں پڑھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ شاعری کے لیے ردیف قافیہ حٰت ی کہ وزن یعنی اس کا‬
‫کسی بحر میں ہونا بھی ضروری نہیں‪ ،‬نثر میں ایسی بے پناہ شاعری کی جا سکتی ہے تو موزوں‬
‫شاعری کی گنجائش ہی کیا باقی رہ جاتی ہے‘۔ان کے عالوہ تنویر انجم‪ ،‬بشٰر ی اعجاز‪ ،‬عباس‬
‫رضوی‪ ،‬زاہد امروز‪ ،‬روش ندیم‪ ،‬منیر احمد فردوس‪ ،‬ارشاد شیخ‪ ،‬تنویر ساغر‪ ،‬سید کاشف رضا‪،‬‬
‫احمد آزاد اور خود نصیر ناصر ہیں۔‬
‫ترجمے کے حصے میں نیبوکوف‪ ،‬درشن متوا‪ ،‬اوکتاویو پاز‪ ،‬فرینک حضور‪ ،‬گرودھالے اور‬
‫ہانس بورلی کے ترجم ہیں۔ پھر شاعری میں ایک حصہ جمیل الرحٰم ن کے لیے مخصوص ہے۔‬
‫تصویر کا ذریعہ‪،‬‬
‫تصویر کا کیپشننصیر احمد ناصر شاعر ہیں اور تسطیر کے مدیر بھی‪،‬‬
‫فکشن کے حصے میں سب سے پہلے عبدہللا حسین کا افسانہ ہے جو غالبًا انہوں نے عرصے بعد‬
‫لکھا ہے اور لگتا بھی ہے۔ پھر جتیندر بلو‪ ،‬رشید امجد‪ ،‬منشا یاد‪ ،‬سمیع آہوجہ‪ ،‬محمود احمد‬
‫قاضی‪ ،‬علی حیدر ملک‪ ،‬احمد جاوید‪ ،‬اسلم سراج الدین‪ ،‬مشرف عالم ذوقی‪ ،‬اے خیام‪ ،‬شعیب خالق‪،‬‬
‫بشٰر ی اعجاز‪ ،‬نسیم سید‪ ،‬قاضی طاہر حیدر‪ ،‬یاسمین حبیب‪ ،‬احمد شیر رانجھا‪ ،‬ترنم ریاض‪ ،‬پرتیا‬
‫سیمیں اور طاہر مزاری ہیں اور محمد الیاس اور محمد عاصم بٹ کے زیِر تحریر ناولوں کے‬
‫حصے ہیں۔‬
‫تنقید میں ستیہ پال آنند‪ ،‬ڈاکٹر ناصر عباس‪ ،‬عمران شاہد بھنڈر‪ ،‬تصنیف حیدر‪ ،‬تنویر ساغر اور‬
‫ڈاکٹر عظٰم ی سلیم ہیں جب کہ محمد حمید شاہد نے میرے عہد کے تین افسانہ نگاروں کے عنوان‬
‫سے انور زاہدی‪ ،‬آصف فرخی اور امجد طفیل کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے عالوہ ظفر‬
‫سپل نے ’سامراج دوستی کا فلسفہ‘ کے عنوان سے ’نتائجیت ‘ کے بارے میں بتایا ہے۔‬
‫اب بتائیے کہ اگر صرف ایک جریدے میں ادب کے نام پر اتنا کچھ ہو تو کیسے کہا جا سکتا ہے‬
‫کہ لکھا نہیں جا رہا‪ ،‬لیکن کیسا لکھا جا رہا ہے؟ اس کا فیصلہ تو ’اے معزز منصفو! اے قارئین‘‬
‫آپ کے ہاتھ میں ہے۔‬
‫یک اچھا مضمون کیسے لکھیں‬
‫‪4 February, 2017‬‬
‫اسپیشل فیچر‬
‫‪Share‬‬

‫‪Tweet‬‬

‫‪Share‬‬

‫تحریر ‪ :‬محمد کامران ملک‬

‫طلباء کو دوراِن تعلیم اکثر مضمون نویسی کا مرحلہ پیش آتاہے۔ کبھی یہ مضمون امتحان پاس کرنے کیلئے لکھنا پڑت‪ÞÞ‬ا ہے‬
‫اور کبھی داخلے یا سکالرشپ کے حصول کیلئے ۔ دنیا کی مشہور یونیورسٹیاں اپ‪ÞÞ‬نے ہ‪ÞÞ‬اں داخلے کے خواہش‪ÞÞ‬مند طلبہ کے‬
‫لکھے ہوئے ’’ذاتی مضمون‘‘ کو بسا اوقات ُان کے امتحانی نتائج سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے عالوہ مع‪ÞÞ‬روف‬
‫میں مضمون نویسی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ‪ GRE‬اور ‪ SAT، IELTS, GMAT‬بین االقوامی امتحانوں جیسا کہ‬
‫مضمون نویسی ک‪ÞÞ‬ا ہ‪ÞÞ‬نر ص‪Þ‬رف دوراِن تعلیم ہی ک‪ÞÞ‬ار آم‪ÞÞ‬د نہیں بلکہ عملی زن‪ÞÞ‬دگی میں بھی ب‪ÞÞ‬ات کہ‪ÞÞ‬نے اور لکھ‪ÞÞ‬نے ک‪ÞÞ‬ا ہ‪ÞÞ‬نر‬
‫رکھنے والے لوگوں کی معاشرے میں‪ ،‬اپنے حلقہ احباب میں اورُان کے کام کی جگہ پر بے انتہاء ق‪ÞÞ‬درومنزلت ہ‪ÞÞ‬وتی ہے۔‬
‫مضمون نویسی کو اکثر ایک خشک‪ ،‬بورنگ اور مشکل کام سمجھا جات‪ÞÞ‬ا ہے اور طلب‪ÞÞ‬اء کی اک‪ÞÞ‬ثریت مض‪ÞÞ‬مون لکھ‪ÞÞ‬نے کی‬
‫بجائے مشہور موضوعات جیسا کہ میرا پسندیدہ شاعر‪ ،‬میرا بہترین دوست‪ ،‬ایک یادگار س‪Þ‬فر اور ص‪Þ‬بح کی س‪Þ‬یر پ‪Þ‬ر پہلے‬
‫سے لکھے گئے مضامین کا رٹہ لگانے کو ہی مضمون نویسی کیلئے کافی تیاری سمجھتی ہے۔ ایک اچھا مضمون لکھنے‬
‫کیلئے سب سے ضروری بات مضمون نویس کے لئے مطالعے کا ذوق و ش‪ÞÞ‬وق ہے۔ اچھے مط‪ÞÞ‬العے کے س‪ÞÞ‬اتھ نہ ص‪ÞÞ‬رف‬
‫معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ قاری کو بات کہنے ک‪ÞÞ‬ا س‪Þ‬لیقہ اور ق‪ÞÞ‬رینہ بھی س‪Þ‬کھاتا ہے۔ای‪ÞÞ‬ک اچھ‪ÞÞ‬ا‬
‫مضمون نویس بننے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور طلبہ میں اچھی کتابیں پڑھ‪ÞÞ‬نے کے رواج ک‪ÞÞ‬ا ف‪ÞÞ‬روغ ہی مض‪ÞÞ‬مون نویس‪ÞÞ‬ی‬
‫کے معیار کو بلند کر سکتا ہے۔اچھے مطالعے کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ایک مضمون کے معیار کو‬
‫بہتر کر سکتا ہے۔مضمون کے موضوع کو پوری طرح سمجھنا اور اس کے بارے میں ابتدائی معلومات کا ہونا ایک اچھ‪ÞÞ‬ا‬
‫مضمون لکھنے کی کم سے کم شرط ہے۔ جس طرح ایک کامیاب کاروباری فرد کیلئے اپنے گاہک کے م‪ÞÞ‬زاج اور ُاس کی‬
‫ترجیحات سے آگاہی ض‪ÞÞ‬روری ہے اس‪ÞÞ‬ی ط‪ÞÞ‬رح اچھے مض‪ÞÞ‬مون ن‪ÞÞ‬ویس کیل‪ÞÞ‬ئے موض‪ÞÞ‬وع ک‪ÞÞ‬و س‪ÞÞ‬مجھنا الزمی ہے۔ مض‪ÞÞ‬مون‬
‫لکھنے کے دوران مضمون کے موضوع کی طرف بار بار رجوع کرنا مض‪ÞÞ‬مون ن‪ÞÞ‬ویس ک‪ÞÞ‬و موض‪ÞÞ‬وع س‪ÞÞ‬ے بھٹک‪ÞÞ‬نے س‪ÞÞ‬ے‬
‫روکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ لکھاری کو مضمون میں ُان نکات کو لکھنا ہے جو کہ موضوع کا احاطہ کر رہے ہ‪ÞÞ‬وں نہ کہ ُان‬
‫نکات کا جن پہ لکھاری کو عبور حاصل ہو امتحانوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ طالب علم موضوع پر لکھنے بجائے غ‪ÞÞ‬یر‬
‫متعلقہ نکات پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا لکھاری کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ اچھا امتحانی مضمون‬
‫لکھنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ لکھا جائے جو موضوع کا تقاضا ہے نہ کہ وہ نکات جن سے لکھاری کو آگ‪ÞÞ‬اہی ہے۔‬
‫کہالتا ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مض‪ÞÞ‬مون ک‪ÞÞ‬ا چوتھ‪ÞÞ‬ا حص‪ÞÞ‬ہ بھی )‪ (Introduction‬مضمون کا پہال حصہ جو کہ ابتدائیہ‬
‫نہایت اہمیت کا حامل ہے اس حصے میں لکھاری کو اپنے موقف ک‪ÞÞ‬و ث‪ÞÞ‬ابت کرن‪ÞÞ‬ا ہے جس کیل‪Þ‬ئے نہ ص‪Þ‬رف مض‪Þ‬مون کے‬
‫حق میں بیان کئے گئے دالئل کو وضاحت سے بیان کرنا بلکہ موضوع کے مخالف دالئل کو منطقی طریقے سے َر د کرن‪ÞÞ‬ا‬
‫ضروری ہے۔ مضمون کا یہ حصہ نسبتًا طویل ہوتا ہے اور اس‪ÞÞ‬ے ت‪ÞÞ‬وازن اور ہنرمن‪ÞÞ‬دی س‪ÞÞ‬ے لکھن‪ÞÞ‬ا مض‪ÞÞ‬مون کے معی‪ÞÞ‬اری‬
‫مض‪Þ‬مون کے چ‪Þ‬وتھے حص‪Þ‬ے کے )‪ (conclusion‬ہونے کیلئے الزمی شرط ہے۔ مضمون کا پ‪Þ‬انچواں اور آخ‪Þ‬ری حص‪Þ‬ہ‬
‫ساتھ منسلک ہے۔ جہاں مضمون کا ابتدائیہ ق‪ÞÞ‬اری ک‪ÞÞ‬و مض‪Þ‬مون کے س‪Þ‬اتھ ج‪Þ‬وڑنے میں م‪ÞÞ‬ددگار ہوت‪ÞÞ‬ا ہے وہیں مض‪Þ‬مون ک‪ÞÞ‬ا‬
‫اختتام قاری کو مض‪ÞÞ‬مون اور مض‪ÞÞ‬مون ن‪ÞÞ‬ویس کے ب‪ÞÞ‬ارے میں حتمی رائے ق‪ÞÞ‬ائم ک‪ÞÞ‬رنے میں نہ‪ÞÞ‬ایت اہم ک‪ÞÞ‬ردار ادا کرت‪ÞÞ‬ا ہے۔‬
‫شامل کر سکتا ہے۔ درست جگہوں پ‪ÞÞ‬ر اق‪ÞÞ‬واِل )‪ (Quotations‬لکھاری اپنے مضمون کے مختلف حصوں میں اقواِل زریں‬
‫زریں کا برمحل استعمال مضمون کی خوبصورتی اور دلچسپی کو بڑھاتا ہے تاہم لکھاری پ‪ÞÞ‬ر ِان اق‪ÞÞ‬واِل زریں کے مص‪ÞÞ‬نف‬
‫اور ذریعے کو بتانے کی اخالقی ذمہ داری ہے۔ یونیورس‪ÞÞ‬ٹی کی انتظ‪ÞÞ‬امیہ یہ جانن‪ÞÞ‬ا چ‪ÞÞ‬اہتی ہے کہ مض‪ÞÞ‬مون میں بی‪ÞÞ‬ان ک‪ÞÞ‬ئے‬
‫گئے ذاتی واقعے نے طالب علم کی شخصیت اور اس کے سوچنے کے انداز پر کیا اثر ڈاال۔ لٰہ ذا ذاتی مضمون تبھی مکمل‬
‫ہوتا ہے جب طالب علم خود پر بیتے واقعات کے ساتھ س‪Þ‬اتھ س‪Þ‬یکھے گ‪ÞÞ‬ئے نت‪ÞÞ‬ائج ک‪ÞÞ‬ا بھی ذک‪ÞÞ‬ر ک‪ÞÞ‬رے۔ی‪ÞÞ‬اد رہے ای‪ÞÞ‬ک اچھ‪ÞÞ‬ا‬
‫مضمون قلم اور کاغذ سے کم اور دل سے زیادہ لکھا جاتا ہے۔‬

‫نئے لکھاریوں کے لیے چند مشورے‬


‫‪ literature‬ایمن عائشہ ‪27/12/2021‬‬

‫‪3619 Views‬‬
‫تحریر کسی بھی انسان کے خیاالت و افکار کی عکاس اور جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ‬

‫ہوتی ہے۔ تحریر ذاتی ہو تو بہترین تخلیق بھی قرار پاتی ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی تحریر‬

‫بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تحریر کے ساتھ تحریر کا تخلیق کار (لکھاری) بھی اہم ہوتا‬

‫ہے۔ وہ معاشرے کے ان خاص افراد میں سے ہوتا ہے جو انتہائی حساس اور تیز نگاہ رکھتا ہے۔‬

‫اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے کو المیہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے‪ ،‬پرکھتا ہے‪ ،‬مشاہدہ کرتا‬

‫ہے اور پھر سوچ بچار کے بعد اس کو قلم بند کر دیتا ہے۔‬

‫قلم سے نکلے ہوئے حروف لکھاری کا بیش قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور انہی قیمتی الفاظ سے‬

‫تحریر بن جاتی ہے۔ لکھاری ان تحاریر کو کالم یا دیگر ادبی اصناف میں ڈھالنے کا فن بھی رکھتا‬

‫ہے۔ سب سے اہم کام وہ ان تحاریر کو کسی پلیٹ فارم یعنی اخبارات‪ ،‬میگزین‪ ،‬رسائل و جرائد‬

‫اور کتاب کی شکل میں شائع کرنے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے۔‬

‫بہترین لکھاری‪ ،‬لکھاری ہونے کے ساتھ بہترین قاری بھی ہوتا ہے۔ وہ باقی لکھاریوں کی تحاریر‬

‫کو بھی کبھی تنقید برائے اصالح‪ ،‬کبھی تنقید برائے تعمیر اور کبھی تنقید برائے تنقید کی نظر‬

‫سے پرکھتا ہے۔ ہر تحریر یقینًا لکھاری کے لیے بہت قیمتی ہوتی ہیں لیکن کبھی کوئی تحریر‬

‫قابل اشاعت اور کبھی ناقابل اشاعت قرار پاتی ہے۔ جب لکھاری لکھتا ہے تو جس ادارے یا پلیٹ‬

‫فارم کے تحت لکھ رہا ہوتا ہے اس کے اصول و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ جیسے‬

‫اخبارات میں اگر کالم کی صورت میں کوئی تحریر لکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو سب سے‬

‫پہلے وہ اس اخبار کے طے شدہ قواعد کو اچھی طرح ذہن نشین کرے گا‪ ،‬اس کے مزاج کو‬

‫سمجھے گا تاکہ وہ کسی صورت ان قوانین کے خالف نہ ہو تاکہ اس کی لکھی تحریر ناقابل‬

‫اشاعت قرار نہ پائے۔‬

‫یہاں یہ بات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو کہ کیسی تحریر ناقابل‬

‫اشاعت ہو گی۔ ہر انسان کا نقطہ نظر ہر شے کے بارے میں مختلف ہوتا ہے‪ ،‬اسی طرح اپنے‬

‫ذہن کے مطابق کوئی قاری تحریر کو پرکھتا ہے اور اسے قابل اشاعت یا ناقابل اشاعت قرار دے‬
‫دیتا ہے۔ یہ تو عام قاری کا رویہ ہو گیا۔ لیکن جب ہم کسی ادارے کے تحت لکھتے ہیں تو ان کے‬

‫اصول و ضوابط کو سامنے رکھنا پہلی ذمہ داری ہے۔ ہر ادارے کا تحریر کو قابل اشاعت قرار دینے‬

‫کا اپنا ایک مخصوص معیار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی اخبار میں لکھ رہے ہیں اور وہاں‬

‫ناقابل اشاعت تحاریر کے اصول کچھ اس طرح وضع کیے گئے ہیں کہ‪ 800 :‬الفاظ سے کم تحریر‪،‬‬

‫الفاظ کا انتخاب بہترین نہ ہوا‪ ،‬رموز و اوقاف اور امال جیسی غلطیاں ہوئی‪ ،‬اچھوتی تراکیب کا‬

‫نامناسب استعمال کیا گیا‪ ،‬قرآن و حدیث کے غلط حوالہ جات‪ ،‬غیر مناسب جگہ پر استعمال‪،‬‬

‫حکومت وقت کے خالف نازیبا الفاظ کا استعمال‪ ،‬معروف شخصیات کے بارے میں نامناسب الفاظ‪،‬‬

‫تحریر اگر اردو میں ہے تو انگریزی الفاظ کا استعمال‪ ،‬ذاتی طور پر کسی تحریک‪ /‬انسان سے‬

‫دشمنی کی بنا پر اس کو تنقید کا نشانہ بنانا وغیرہ۔‬

‫اس قسم کے مختلف قوانین ہر ادارہ طے کرتا ہے تاکہ لکھاری لکھتے ہوئے ان کو مدنظر رکھے‬

‫اور اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکے‪ ،‬اس کے برعکس جب کوئی لکھاری ان قوانین کی‬

‫پاسداری نہیں کرتا‪ ،‬نظر انداز کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق لکھنے کو ہی ترجیح دیتا ہے تو‬

‫اس کو اس بات سے بھی بخوبی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ ناقابل اشاعت ہو سکتی ہے۔‬

‫اس دنیائے فانی میں کوئی شے مکمل نہیں ہے۔ انسان بھی غلطی کا پتال ہے‪ ،‬اس کی تخلیق‬

‫بھی غلط ہو سکتی ہے۔ لکھنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اس پہ تنقید برائے تنقید‬

‫بھی ہو سکتی ہے اور تنقید برائے اصالح بھی۔ دونوں صورتوں میں ایک اچھے لکھاری ہونے کے‬

‫ناتے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کچھ دن پہلے ایک کالم میری نظر سے گزرا جو میرے‬

‫پاس ایک ادارے کی طرف سے پروف ریڈنگ کے لیے بھیجا گیا تھا‪ ،‬اس کو پڑھ کر میں سر پکڑ کر‬

‫سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا یہ واقعی اچھے لکھاری کی تخلیق ہے جو اردو ادب کے قوانین‬

‫سے واقف ہے‪ ،‬سب سے بڑھ کر وہ ادارے کے قوانین سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ اس تحریر کے‬

‫ہر جملے میں امال کی غلطیاں اس قدر تھی کہ اک لمحے کو لگا‪ ،‬یہ کسی اردو سے ناواقف‬

‫شخص کی تحریر ہے۔ جو ان معمولی باتوں سے بھی آگاہ نہیں کہ کن الفاظ کو جوڑ کر لکھنا ہے‬
‫اور کن کو نہیں‪ ،‬اس بھاری بھرکم لفظ کی جگہ یہی ہے یا اسے کہیں اور ہونا چاہیے تھا‪ ،‬قرآن‬

‫سے کوئی آیت لی ہے تو حوالہ ہی غلط اور سب سے اہم بات کہ اس آیت کا مفہوم جو‬

‫سمجھایا گیا وہ مکمل غلط۔ افعال‪ ،‬ضمائر سے مکمل طور پر اجنبیت کا اظہار۔ مجھے اندازہ ہوا‬

‫یہ کسی پڑھے لکھے انسان کی تحریر نہیں ہے۔ بلکہ ایسے کسی نوخیز لکھاری کی تحریر جو‬

‫اپنے نئے نئے پر نکال رہا ہے اور وہ تحریر لکھ کر یہ سمجھ چکا ہے کہ بس میرا کام ختم ہوا‪ ،‬اب‬

‫میں نے اس کو ایک مرتبہ بھی نظرثانی کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی بس اب میرا لکھا یہ گوہر‬

‫نایاب‪ ،‬میرا یہ عظیم شاہکار ہر حال میں کسی اخبار یا جریدے میں من و عن شائع ہو جائے۔‬

‫میں نے بمشکل وہ کالم مکمل کیا اور سوچ میں مبتال ہو گئی کہ ایسے نوخیز لکھاریوں کو ابھی‬

‫خود تربیت کی بہت ضرورت ہے‪ ،‬ابھی ان کو اپنی تحریروں کو جاندار بنانے کی ضرورت ہے‪ ،‬جب‬

‫یہ اپنی تحاریر کو بہتر بنانے کے لیے محنت نہیں کرتے تو پھر یہ شکوہ کیسے کر سکتے ہیں کہ‬

‫تحریر شائع نہیں ہوئی؟ ادارے کے خالف احتجاج کرنے کیسے نکل سکتے ہیں؟ ان تمام‬

‫لکھاریوں کے لیے ہے جو ایسی تحریر تخلیق کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ مارا‬

‫ہے اور رد ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے ان کو اپنی اہلیت پر سنجیدگی سے غور کرنا‬

‫چاہیے۔‬

‫اب آپ کے دماغ میں ایک سوال جنم لے رہا ہو گا‪ ،‬آپ یقینًا بے چین بھی ہوں گے کہ ہم جان‬

‫سکیں کہ کیسے اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکتے ہیں؟ کیسے ایسی تحریر لکھ سکتے‬

‫ہیں جو پر اثر ہو اور رد نہ ہو سکے؟ کیسی تحریر لکھیں کہ لوگ اس سے کچھ سیکھ سکیں؟‬

‫الفاظ کا چنأو کیسا کریں؟ کس اسلوب کو اپنائیں؟‬

‫اس کا آسان حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ اگر کسی خاص ادارے کے تحت‬

‫لکھ رہے ہیں تو ان کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تحریر لکھیں جیسے پہلے حصے میں‬

‫ذکر تھا‪ ،‬اور اگر ذاتی طور پر بھی لکھنی ہو تو اس میں کم از کم اردو کے بنیادی قواعد و ضوابط‬

‫کو ضرور مدنظر رکھیں۔ ”ہے“ اور ”ہیں“ کا فرق‪ ،‬مونث مذکر کا فرق‪ ،‬جمع واحد کا فرق وغیرہ کا‬
‫خصوصی خیال رکھیں۔ امال کی غلطیاں بار بار پڑھنے سے ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ اپنی تحریر کو‬

‫کم از کم پانچ دفعہ خود ضرور پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں‪ ،‬ان الفاظ سے گریز کریں جن‬

‫کے معنی آپ کو خود بھی نہیں پتا‪ ،‬اپنے خیاالت کا اظہار ضرور کریں لیکن ان الفاظ میں جنہیں‬

‫ہر خاص و عام بخوبی سمجھ سکیں۔ بہترین تحریر وہی ہوتی ہے جس سے ہر کسی ہو کچھ‬

‫سیکھنے کو ملے۔‬

‫اگر بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کریں گے تو یہ اکتاہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی تحاریر‬

‫بھی نظر سے گزری ہیں جن میں اس قدر مشکل الفاظ کا استعمال تھا کہ ڈکشنری کی مدد‬

‫لینی پڑی۔ لکھتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھیں آپ بہت بڑے عالم فاضل ہو سکتے ہیں‬

‫لیکن شاید بعض قارئین اس قدر علم سے آراستہ نہ ہوں۔ نتیجتًا وہ آپ کی تحاریر پڑھنا چھوڑ‬

‫دیں گے۔ قرآن سے اخذ شدہ آیات کا حوالہ معقول لکھیں۔ حوالے اور دالئل کے ساتھ بیان کی‬

‫ہوئی بات پر اثر ہوتی ہے۔ مفہوم یا تفسیر بھی لکھ رہے ہیں تو مستند حوالے کے ساتھ لکھیں‬

‫جیسے قرآن پاک کی مستند تفاسیر میں صحاح ستہ ہیں جن سے آپ مدد لے سکتے ہیں۔‬

‫کسی کی تحریر سرقہ کرنے سے گریز کریں۔ میں نے جب باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب‬

‫فیس بک پہ کبھی کبھار کوئی تحریر یا شاعری لکھتی رہتی تھی تو ایک دن میری لکھی ہوئی‬

‫نظم کسی نے اپنے نام سے ایک گروپ میں پوسٹ کر دی۔ بہت دکھ ہوا‪ ،‬احتجاجًا گروپ کی‬

‫انتظامیہ سے رابطہ کر کے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی۔ تو ایسے ادب چور بننے سے گریز کریں۔ یہ‬

‫آپ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کسی کے خیاالت و افکار‬

‫سے متاثر ہو کر تو لکھ سکتے ہیں لیکن کسی کی لکھی ہوئی تحریر کو اپنا نام نہیں دے‬

‫سکتے۔ اگر نوخیز لکھاری ان باتوں کا خیال رکھیں تو بہترین تحریر تخلیق کر سکتے ہیں۔‬

‫یاد رکھیں! جس طرح کسی بھی شے کو پرکھنے کا کوئی نہ کوئی خاص پیمانہ ضرور ہوتا ہے۔‬

‫اسی طرح تحریر معیاری ہے یا نہیں اس کو پرکھنے کا بھی پیمانہ ہے‪ ،‬جس پر اس تحریر کو‬

‫پرکھا جاتا ہے‪ ،‬اگر یہ پیمانہ نہ مقرر کیا جائے تو سب سے پہال نقصان لکھاری کا اپنا ہی ہوتا ہے‬
‫کہ اس کا نام خراب ہو جاتا ہے۔ اور اس کے قارئین ایک دو دفعہ پڑھنے کے بعد یہ نظریہ قائم کر‬

‫لیں گے کہ یہ ایسا ہی لکھتا ہے اسے پڑھنے کا فائدہ نہیں۔ دوسرا نقصان اس ادارے کا ہے جو‬

‫آپ کی ناقص تحریر کو شائع کرے گا۔ اگر وہ سرقہ کی ہوئی کوئی تحریر اپنے نام سے شائع‬

‫کروا کر شہرت کا خواہشمند ہو تو بھی پکڑے جانے پر ذلت کا سبب بن سکتا ہے۔‬

‫ایک اور اہم بات جو نو خیز لکھاریوں کو اکثر سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے وہ یہ کہ آپ نے‬

‫کوئی تحریر بھیجی ہے تو اس کے شائع ہونے کے لیے بھی کچھ پیمانے مقرر ہوتے ہیں جس‬

‫کے لیے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ آپ اچھے لکھاری ہونے کا ثبوت دیں اور انتہائی صبر و تحمل کا‬

‫مظاہرہ کریں۔ جلد بازی سے کام ہر گز نہ لیں۔‬

‫لکھاریوں سے گزارش ہے اگر آپ مقبولیت چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی کوئی تحریر ناقابل‬

‫اشاعت نہ قرار پائے تو اپنا مطالعہ وسیع کریں‪ ،‬ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ آپ کالم لکھ رہے‬

‫ہیں تو کالم نویسی کے اصولوں سے واقفیت حاصل کریں‪ ،‬مختلف کالم نگاروں کو پڑھیں پھر‬

‫لکھیں۔ اسی طرح آپ کسی بھی ادبی صنف کو لکھ رہے ہیں تو ان اصناف کا مطالعہ ضرور کریں۔‬

‫اپنے سیکھنے کے عمل کو بڑھائیں۔ اردو ادب سے مکمل آگاہی حاصل کریں‪ ،‬جس موضوع پر‬

‫لکھ رہے ہیں اس کے مطابق مختلف مواد کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے ذہن میں ایک خاکہ تیار‬

‫کریں‪ ،‬اس خاکے کے مطابق اپنی تحریر کو تخلیق کریں اور کوشش کریں کہ اپنی تحریر میں‬

‫قاری کے لیے کوئی ایسا پیغام ضرور دیں جو اس کے لیے فائدہ مند ہو‪ ،‬جو اس کی رہنمائی‬

‫کرے‪ ،‬اسے فہم دلوائے کہ اب میں نے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں۔ صحیح اور غلط کا فرق سمجھ‬

‫سکے۔ ایسی تحاریر آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گی۔‬

‫لکھنے کا فن سیکھنے کے شوقین نوجوان ضرور پڑھیں‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کالم لکھنے کے پانچ آسان طریقے‬

‫)انورغازی(‬
‫یاد رکھیں !شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے‪ ،‬اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے‬
‫جاتے ہےں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ ”روزانہ ڈائری‬
‫لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں‬
‫روز مّر ہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار‬
‫تجربات گواہ ہیں۔‬

‫دوسرا طریقہ ”کہانی لکھنا“ ہے۔ننھی منی ‪ ،‬چھوٹی چھوٹی‪ ،‬مختصر اور دلچسپ کہانیاں لکھنے سے آہستہ آہستہ لمبی اور طویل‬
‫تحریر لکھنے کی صالحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ شروع شروع میں مختصر اخالقی کہانیاں لکھنے کی مشق کریں اور کسی استاد سے‬
‫اصالح لیتے رہیں۔تیسرا طریقہ ”کسی تحریر کی تلخیص وتسہیل“ ہے۔ کسی بڑ کو غور سے پڑھ کر اس کا ایسا خالصہ نکالنا جس‬
‫میں معنی ومفہوم تو اصل تحریر کا ہو‪ ،‬البتہ الفاظ اور انداِز بیان نو آموز لکھاری کا اپنا ہو۔‬

‫اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معیاری تحریر کو لے کر اسے تین مرتبہ پڑھا جائے۔ پہلی مرتبہ سمجھنے کے لیے‪ ،‬دوسری‬
‫مرتبہ سمجھانے کے قابل ہونے کے لیے‪ ،‬تیسری مرتبہ آسان اور مختصر ودلچسپ انداز میں تلخیص وتسہیل کرنے کے الئق‬
‫ہونے کے لیے۔ تین مرتبہ مطالعہ کرلینے اور اہم چیزوں پر نشان لگانے کے دوران اگر کوئی مشکل یا تحقیق طلب لفظ آجائے تو‬
‫اس کا معنی دیکھ کر متبادل آسان لفظ منتخب کریں‪ ،‬پھر تحریر کا ایک ایک پیرا لے کر اس کا خالصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔ اس‬
‫طرح مشق کرنے سے بھی لکھنا آ جاتا ہے۔‬

‫چوتھا طریقہ ”مکالمہ“ ہے۔ تحریر سیکھنے کا ایک طریقہ دو چیزوں کے درمیان فرضی مکالمہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی‬
‫شہر میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے‪ ،‬دوسرا دیہاتی زندگی کادلدادہ ہے۔ ایک چھٹی کا دن گھر پر سستاتے ہوئے گزارنے کا عادی‬
‫ہے ا ور دوسرا فارغ وقت میں باہر جاکر شکار یا تفریح کا شوقین ہے۔ ایک خواتین کی جدید تعلیم کی افادیت کا قائل ہے جبکہ‬
‫دوسرا اسے تباہ کن اور مضر سمجھتا ہے۔ ایک کو گرمی کا موسم اچھا لگتا ہے اور دوسرے کو کڑاکے کی سردی میں زندگی کا‬
‫لطف آتا ہے۔ اس طرح کے دو متضاد نظریات کے حامل افراد یا اشیا کے درمیان مکالمہ لکھنے سے مافی الضمیر کے اظہار کی‬
‫بہترین مشق ہوجاتی ہے۔‬

‫پانچواں طریقہ ”مراسلہ اورمکتوب نگاری“ ہے۔ کسی قومی ومّلی مسئلے پر اخبارات میں مراسلہ بھیجنا یا اپنے احباب کو سنجیدہ‬
‫گپ شپ کے انداز میں خط لکھنا بھی تحریر کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ مختصر‪ ،‬بامعنی اور جاندار انداز میں تحریر کیے‬
‫گئے مراسلے اور خطوط تحریر کی صالحیت پروان چڑھانے کا مو¿ثر طریقہ شمار ہوتے ہیں۔ نوآموز طلبہ اس سے بھی اپنی‬
‫مشق کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس کے عالوہ بھی کئی طریقے ہیں۔‬

‫نوآموز کالم نگار سمجھتے ہیں کہ تحریر لکھنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے۔ نہیں میرے بھائی نہیں‪ ،‬ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کالم‬
‫لکھنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ کالم کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے اگر درج ذیل امور کا خیال رکھا‬
‫جائے تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ ضروری ترمیم اور الزمی تصحیح کی جائے۔ بعض اوقات کالم نگار کا ذہن اتنی‬
‫تیزی سے کام کرتا ہے کہ اس کا قلم ذہن کا ساتھ نہیں دے پاتا اور بہت سے الفاظ تحریر ہونے سے رہ جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے کالم کا‬
‫دوبارہ مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں کوئی لفظ رہ نہ جائے۔ اگر کوئی لفظ بال ضرورت لکھا گیا ہو تو اسے‬
‫کاٹ دیا جائے۔ اگر کالم میں کاٹ چھانٹ زیادہ ہوجائے تو اسے دوبارہ صاف صاف لکھنا چاہیے۔ کالم دوبارہ لکھتے ہوئے اس میں‬
‫اچھے اضافے بھی کیے جاسکتے ہیں اور غیر ضروری چیزوں کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی لفظ کے متعلق شک اور‬
‫شبہ ہوکہ اس کے ہجے یا امال درست نہیں ہے یا یہ مناسب طور پر استعمال نہیں ہورہا تو اس سلسلے میں لغت یا کسی استاد سے‬
‫مدد لینی چاہیے۔‬

‫اسی طرح اگر آپ نے کالم میں اعداد وشمار‪ ،‬تاریخی اورتحقیقی معلومات دی ہیں تو ان کے درست ہونے کا یقین کرنے کے لیے‬
‫متعلقہ مراجع سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ماہرین سے مشورہ کرنے میں بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں‬
‫کرنی چاہیے۔ کالم نگار کوچاہےے کہ اپنے کالم کو قارئین کی نظر سے بھی پڑھے۔ اگر ایسا محسوس ہوکہ کسی جگہ کالم کے‬
‫مندرجات کا صحیح ابالغ قارئین تک نہیں ہوگا یا کم ہوگا تو اس صورت میں کالم کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی‬
‫چاہیے۔‬
‫نو آموز کالم نگار کے لیے یہ بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے کہ اسے کسی ایسی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوجائے جو‬
‫اس کی خام تحریر کو اپنی اصالح سے کندن بنادے‪ ،‬یا ایسا پڑھا لکھا سمجھدار دوست میسر ہوجائے جسے وہ کالم دکھا کر مشورہ‬
‫لے سکے اور اس کی ”مشاورتی اصالح“ کی روشنی میں اپنے کالم کو بہتر سے بہتر کرسکے۔ے ادیب کی تحریرا‬

‫!آپ مضمون نگار بننا چاہتے ہیں؟ جانیے کیا کرنا چاہیے‬

‫بانٹیں‬

‫ویب ڈیسک‪| By‬‬

‫جنوری ‪2022 ,2‬‬

‫حیرت انگیز‬
‫دلہن کو تحفہ دینے کے بعد دولہے پر چاقو سے حملہ‪ ،‬ویڈیو وائرل‬

‫یہ پرندے کے انڈے ہیں یا محکمہ موسمیات‪ ،‬بارش کب اور کتنی ہوگی؟ ہمیشہ درست پیشگوئی‬

‫بھارتی الیکشن مذاق بن گئے‪ ،‬نابالغ لڑکے نے بی جے پی کو ‪ 8‬ووٹ ڈال دیے‬


‫سوشل میڈیا پر ‪ 3‬طالقیں دینے والے شوہر کے ساتھ کیا ہوا؟‬

‫کسی موضوع پر کوئی مضمون سپرِد قلم کرنا یا لکھنا ایک فن ہے۔‬

‫نام َو ر اہِل قلم اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور مختلف موضوعات پر مضامین جہاں اردو داں طبقے کے ذوق کی تسکین اور ان کی‬
‫معلومات میں‌ اضافہ کرتے ہیں‪ ،‬وہیں ان میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے‪ ،‬لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے جذبات اور احساسات کو‬
‫کیسے الفاظ کا جامہ پہنائیں کہ ایک جامع اور معیاری مضمون سامنے آئے۔‬

‫مطالعہ اور کسی موضوع پر لکھنا بے پناہ خوشی دیتا ہے۔ یہ انسانی ذوق و شوق کی تسکین کا مفید اور تعمیری مشغلہ ہی نہیں‪ ،‬ذہن و‬
‫فکر کی بیداری اور قلبی راحت کا ذریعہ بنتا ہے‪ ،‬اس طرف توجہ دی جائے تو ہمارا شمار اہِل قلم میں بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے لکھنے‬
‫میں مہارت دماغ سوزی اور مسلسل مشق کے ساتھ ٓاتی ہے جس میں آپ کا وسیع مطالعہ نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لکھنے والے‬
‫کی کوئی بھی تحریر فنی طور پر زیادہ پختہ اور اس میں تسلسل و ربط نظر آتا ہے۔ اگر آپ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ مضمون‬
‫پڑھیے۔‬

‫مضمون نگاری کی مشق کے چند آسان طریقے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔‬

‫‪:‬مشق کا پہال طریقہ‬


‫جس عنوان پر آپ کو لکھنا ہے اس عنوان کی کوئی کتاب یا چند مضامین اپنے سامنے رکھ لیں اور مطالعہ شروع کر دیں۔ دوراِن مطالعہ‬
‫اہم باتوں پر کچی پنسل سے خط کھینچتے رہیں‪ ،‬خط کشیدہ سطور میں مکمل پیراگراف ہونا چاہیے‪ ،‬یعنی بات ادھوری اور ناقص نہ معلوم‬
‫پڑتی ہو۔ درمیان میں کوئی نامانوس لفظ آجائے تو اسی وقت لغت اٹھا کر اس کے معنٰی دیکھ لیں۔ مطالعہ مکمل کرنے کے بعد تمام خط‬
‫کشیدہ پیراگرافوں کو اپنے طور پر ایک نئی ترتیب کے ساتھ اپنی کاپی پر نقل کر لیں۔ اس کا اہتمام ضروری ہے کہ آپ کے ذریعے دی‬
‫گئی جملوں کی ترتیب سے مضمون کا تسلسل ختم نہ ہونے پائے اور نہ کہیں مضمون کے موضوع میں تبدیلی واقع ہو۔‬

‫مشق کے اس پہلے اسٹیج کے تئیں آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ لکھے لکھائے مضمون سے چند پیراگرافوں کا انتخاب کر کے ان کو‬
‫اپنی ترتیب کے مطابق اس طور پر نقل کرنا ہے کہ نہ کہیں بات بدلتی دکھائی دے اور نہ تسلسل بہکے۔ مشق کے اس طریقے پر کم از کم‬
‫چار پانچ مضامین ترتیب دیجیے۔‬
‫‪:‬مشق کا دوسرا مرحلہ‬
‫دوراِن مطالعہ چند پیراگرافوں کا انتخاب کر لیں اور ان پر کچی پنسل سے خط کھینچ دیں‪ ،‬اس کے بعد اپنے طور پر ترتیب دے کر الفاظ‬
‫‪:‬کے رد و بدل کے ساتھ مترادف الفاظ الکر نقل کریں۔ مثًال‬

‫‪:‬اصل پیراگراف‬
‫بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو ماضی اور حال سے زیادہ مستقبل پر نظر رکھتی ہیں‪ ،‬نظیر اکبرآبادی کا شمار ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا "‬
‫”ہے‪ ،‬یہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عوامی جذبات‪ ،‬احساسات اور خیاالت عوامی زبان میں نظم کیے۔‬

‫‪:‬الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ‬


‫بہت سی شخصیات ماضی اور حال سے بڑھ کر مستقبل پر نگاہ رکھتی ہیں‪ ،‬نظیر اکبرآبادی کا شمار ان ہی شخصیات میں ہوتا ہے‪ ،‬وہ "‬
‫”ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عوامی افکار و جذبات اور احساسات کو انہی کی زبان میں نظم کیا۔‬

‫‪:‬ہدایت‬
‫مشق کا یہ طریقہ بھی آٹھ دس دن تک جاری رکھیں۔‬

‫‪:‬مشق کا تیسرا مرحلہ‬


‫گزشتہ طریقے کو ہی دہرائیں گے‪ ،‬لیکن یہاں محض الفاظ میں نہیں‪ ،‬بلکہ پیراگرافوں کے جملوں میں بھی تبدیلی کریں گے۔ مثًال گزشتہ‬
‫‪:‬پیراگراف کو ہی اب جملوں کی ترمیم کے ساتھ نقل کرتے ہیں‬

‫بہت سی بلند شخصیات حال و گزشتہ سے کہیں زیادہ آئندہ وقت کی فکر کرتی ہیں‪ ،‬نظیر اکبر آبادی انہی میں سے ایک ہیں‪ ،‬وہ ایسے "‬
‫”شاعر ہیں جنہوں نے عام آدمی کے جذبات و خیاالت اور تفکرات کو اپنی شاعری کے ذریعے اسی کی زبان میں پیش کیا ہے۔‬

‫‪:‬ہدایت‬
‫مشق کے اس سلسلے کو بھی ہفتہ بھر جاری رکھیں۔‬

‫‪:‬مشق کا چوتھا مرحلہ‬


‫کسی بھی مضمون کو کم از کم تین مرتبہ سراپا آنکھ بن کر پڑھیے‪ ،‬درمیان میں جو نئے الفاظ ملیں‪ ،‬ساتھ ساتھ لغت میں ان کے معانی‬
‫دیکھیے‪ ،‬جب مضمون پڑھ لیا جائے تو اپنے ذہن میں اس کا ایک خالصہ تیار کیجیے اور سوچیے کہ لکھنے والے نے اپنی تحریر میں‬
‫کیا پیغام دیا ہے‪ ،‬اس تحریر میں اور کیا کیا باتیں آنی چاہیے تھیں‪ ،‬جو نہ آسکیں‪ ،‬لٰہ ذا اپنے ذہن میں اسی عنوان پر ایک خاکہ تیار کر کے‬
‫اس کو اپنے طور پر اپنے الفاظ اور جملوں میں لکھنا شروع کر دیجیے۔‬

‫٭پہلی مرتبہ جو ذہن میں آئے لکھتے جائیے‪ ،‬عمدہ الفاظ اور خوب صورت جملوں کے چکر میں ہنوز مت پڑیے۔‬

‫٭یہ سچ ہے کہ ہر لفظ کے بعد آپ کا قلم رکے گا‪ ،‬ہر جملے کے بعد آپ کو سوچنا پڑے گا اور ہر سطر کے بعد آپ کی ہمت جواب دینا‬
‫چاہے گی‪ ،‬لیکن آپ کو قلم کاپی سمیٹ کر رکھنے کی ضرورت نہیں‪ ،‬بلکہ جب لکھنے کا ارادہ کر لیا ہے تو لکھنا ہی ہے ‪ ،‬خواہ کتنا ہی‬
‫وقت لگے۔ آہستہ آہستہ الفاظ کی آمد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور جملوں کا بنانا سہل معلوم ہوگا‪ ،‬پھر آپ جس ایک صفحے کو ایک گھنٹے‬
‫میں لکھتے تھے چند منٹوں میں لکھنے لگیں گے۔‬

‫٭مضمون کو مکمل کرنے کے بعد ایک دو مرتبہ خود اصالح کی نظر سے پڑھیے اور ایک ایک جملے پر غور کیجیے‪ ،‬جہاں جو لفظ‬
‫بدلنے کے قابل ہو بدل ڈالیے‪ ،‬جو باتیں عنوان سے الگ ہوں قلم زد کر دیجیے اور جس قدر ہو سکے اپنے اعتبار سے اپنی تحریر کو‬
‫سنوارنے کی کوشش کیجیے‪ ،‬اس کے بعد اس کو دوسری جگہ صاف صاف نقل کرکے اپنے کسی قلم کار استاذ سے اصالح کرائیے‪ ،‬پھر‬
‫جہاں استاذ نشان دہی کرے وہاں غور کیجیے کہ کیا خامی تھی اور کیسے درست ہوئی؟‬

‫‪:‬ہدایت‬
‫مشق کے اس سلسلے میں استاذ سے اصالح کرانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ خود آپ کی اصالح آپ کی تحریر کو‬
‫کافی نہ ہو جائے۔‬

‫تحریر کا سلیقہ‬
‫تحریروں کی مختلف اقسام ہیں۔ مثًال مضمون‪ ،‬رپورٹ‪ ،‬خط‪ ،‬درخواست اور تقریر وغیرہ۔ ہر طرح کی تحریر کو لکھنے کا انداز مختلف‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬کیوں کہ ہر تحریر کا مقصد جدا ہوتا ہے‪ ،‬آپ کا انداِز تحریر ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کا مقصد پوری طرح حاصل ہو جائے‪ ،‬درج‬
‫ذیل ہدایات کو مد نظر رکھ کر اچھی تحریریں لکھی جاسکتی ہیں۔‬

‫‪:‬لکھنے کے مقصد سے واقفیت‬


‫لکھنے سے پہلے سوچیں کہ آپ کیوں لکھ رہے ہیں؟ مضامین یا "اسائمنٹ” میں آپ کا مقصد ہوتا ہے‪ :‬حقائق اور معلومات کی فراہمی اور‬
‫ان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا۔ دوراِن تحریر اپنا مقصد ہمیشہ ذہن نشیں رکھیں اور اپنے اصل موضوع سے دور نہ جائیں۔‬

‫‪:‬انداِز تحریر کا انتخاب‬


‫دوراِن گفتگو ہم اپنے الفاظ اور خیاالت کا انتخاب موقع محل کی مناسبت اور اپنے سامعین کی مطابقت سے کرتے ہیں۔ اپنے منیجر یا استاذ‬
‫سے ہماری گفتگو کا اسلوب دوستوں کے ساتھ گفتگو کے انداز سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں سے ہم مختلف طرح سے بات‬
‫کرتے ہیں۔ اسی طرح اچھی تحریر کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہی روش اپنائیں‪ ،‬لکھنے کا طریقہ ایسا ہو کہ جن قارئین کے لیے آپ‬
‫لکھ رہے ہیں وہ آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکیں اور مقصِد تحریر کو بخوبی جان سکیں۔‬

‫‪:‬منصوبہ کے ساتھ لکھنے کی ابتدا‬


‫اکثر لوگ بغیر منصوبہ بندی کے لکھنا شروع کر دیتے ہیں‪ ،‬جس کی وجہ سے تحریر بےترتیب ہو جاتی ہے۔ مضمون کا تسلسل اور‬
‫خیاالت کا ربط باقی نہیں رہ پاتا۔ یاد رہے کہ اگر آپ کوئی مضمون یا مختصر اخباری رپورٹ لکھنے جا رہے ہیں تو ایک واضح منصوبہ‬
‫اور اس منصوبے کے تحت بنا ہوا ایک مکمل خاکہ ہی ایک کام یاب اور ُپر اثر تحریر کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔‬

‫‪:‬قاری کے لیے لکھیں‪ ،‬اپنے لیے نہیں‬


‫آپ کے لکھنے کا مقصد اپنی تجاویز اور معلومات دوسروں تک پہنچانا ہے‪ ،‬ہر لفظ اور جملہ لکھتے ہوئے یہ مقصد آپ کے ذہن میں رہنا‬
‫چاہیے۔ اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کس قاری کے لیے ہے؟ آپ کو پتا ہے کہ جو آپ لکھ رہے ہیں ‪ ،‬کیوں اور‬
‫کس لیے لکھ رہے ہیں؟ ورنہ آپ بآسانی مقصد سے بھٹک سکتے ہیں۔ بعض اوقات آپ قاری کو بالکل بھول کر اپنے لیے لکھنا شروع کر‬
‫دیتے ہیں‪ ،‬اس طرح نہ صرف آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے ‪ ،‬بلکہ آپ دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔‬

‫‪:‬قاری کی راہ نمائی‬


‫آپ کا کام پڑھنے والوں کی مدد کرنا ہے‪ ،‬تاکہ وہ آپ کے پیغام کو پڑھ کر سمجھ سکیں اور آپ کی تحریر انہیں کسی نیک عمل پر آمادہ‬
‫کرے۔ وہ آپ کی تحریر پڑھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کریں یا آپ کی تحریر ان کی ذہنی تسکین کا ذریعہ بنے۔ قاری آپ کی تحریر کو‬
‫مکمل طور پر سمجھ جائے۔ ایک فقرے کا دوسرے فقرے سے اور ایک پیراگراف کا دوسرے پیراگراف سے مربوط ہونا بہت ضروری‬
‫ہے‪ ،‬یہ ربط تحریر میں روانی التا ہے اور قاری کے لیے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ تحریروں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ عام فہم ہوں‪،‬‬
‫اپنے مقاصد کو ظاہر کریں اور لکھنے والے کا پیغام قاری تک پہنچائیں۔‬

‫)کتاب فِن مضمون نگاری‪ ،‬مؤلفہ موالنا آفتاب اظہر صدیقی(‬

‫مضمون لکھنے کے پانچ آسان طریقے‬


‫)کارزار ‪/‬انور غازی(‬

‫مضمون کیسے لکھا جاتا ہے؟ اس سے پہلے آپ یہ جانیں کہ ”پیراگراف کیسے لکھا جاتا ہے؟“ آئیے ! اس پر بات کرتے ہیں۔ یاد‬
‫رکھیں! پیراگراف جملوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو حسب ذیل عنوانات پر لکھا جاسکتا ہے‪ :‬ایک خیال۔ ایک چیز۔ ایک جانور۔ ایک‬
‫پودا۔ ایک شخص۔ زندگی کا ایک پہلو۔ ایک واقعہ۔ ایک حادثہ۔ ایک خاصیت وغیرہ۔ ان عنوانات کی کوئی حتمی فہرست نہیں تیار‬
‫کی جاسکتی۔ اسے کسی بھی عنوان پر لکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی خیال کے بارے میں جس میں ایک ”عنوانی جملہ“ موجود ہو۔‬
‫پیراگراف کو دوسرے جملے عنوان کے بارے میں مزید اور اضافی معلومات فراہم کرتے ہیں۔‬

‫پیراگراف لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ منتخب کیے ہوئے عنوان پر بحث کریں۔ اس کے اصل‪ ،‬مرکزی خیال کے بارے میں اپنے‬
‫آپ سے سواالت پوچھیںجو اس عنوان سے متعلق ہوں۔ پھر ان جوابات کو ایک ترتیب سے ایک پیراگراف کی شکل میں جمع‬
‫کردیں۔ مثال کے طور پر سامنے ایک ٹیبل اور بینچ رکھی ہوئی ہے۔‬

‫اب آپ سوال کریں کہ ”یہ کیا ہے؟“ جواب‪” :‬یہ ایک بینچ ہے۔“ سوال‪” :‬یہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب‪” :‬یہ لکڑی کی بنی‬
‫ہوئی ہے۔“ سوال‪” :‬اس کو کس نے بنایا ہے؟“ جواب‪” :‬اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔“ سوال‪” :‬اس کا کیا رنگ ہے؟“ جواب‪” :‬یہ‬
‫گہرے بھورے رنگ کی ہے۔“ سوال‪” :‬اس کے کتنے پائے ہیں؟“ جواب‪” :‬اس کے چار پائے ہیں۔“ سوال‪” :‬کیا اس کی کوئی پیٹھ یا‬
‫پشت ہے؟“ جواب‪” :‬ہاں! اس کی پشت ہے۔“ سوال‪” :‬اس کی پشت کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب‪” :‬اس کی پشت بھی لکڑی کی‬
‫بنی ہوئی ہے۔“ سوال‪” :‬اس پر کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں؟“جواب‪” :‬اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔“سوال‪” :‬اس کی کیا قیمت‬
‫ہے؟“ جواب‪” :‬اس کی قیمت ‪ =/ 800‬روپے ہے۔“سوال‪” :‬اسے کہاں سے خریدا جاسکتا ہے؟“جواب‪” :‬اسے کسی فرنیچر مارٹ یا‬
‫“بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا ہے۔‬

‫اب ان تمام جوابی باتوں کو ایک ایک ترتیب سے جوڑ دیں تو پیراگراف بن جائے گا۔ ”یہ ایک بینچ ہے۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔‬
‫اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔ یہ گہرے بھورے رنگ کی ہے۔ اس کے چار بازو ہیں۔ اس کی ایک پشت ہے جو لکڑی کی بنی ہوئی‬
‫ہے۔ اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کی قیمت ‪ 800‬روپے ہے۔ اسے کسی فرنیچر یا بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا‬
‫ہے۔“ یہی طریقہ ہے ہر موضوع پر پیراگراف لکھنے کا۔ پھر اسی قسم کے چند پیراگرافوں کو مالکر مضمون بنادیا جاتا ہے۔‬

‫مضمون نویسی کے لیے سب سے پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے عنوان کا انتخاب کرکے مضمون کا خاکہ تیار‬
‫کرنا پڑتا ہے جس کے لیے خیاالت کی فہرست بنائی جاتی ہے جو اس عنوان کے بارے میں مضمون نویس کے ذہن میں آتے ہیں۔‬
‫ایک دلچسپ مضمون کی شروعات کے لیے کوئی تجویز یا کسی ضرب المثل یا کسی نظم کے مصرعے سے کام لیا جاتا ہے۔ اس‬
‫کے ہر خیال پر ایک پیراگراف یا نثرپارہ لکھا جانا چاہیے جس میں ایسی معلومات شامل ہونی چاہیے جو مضمون کے قارئین کے‬
‫لیے قابل قبول ہوں۔‬

‫اس کے بعد عمل درآمد کا مرحلہ ہے۔ کامیاب مضمون نویسی کے لیے زبان پر عبور حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے جسے اظہاری‬
‫صالحیت کہتے ہیں۔ آخر میں مضمون کا اختتامیہ ہوتا ہے۔ اختتامیہ کو اثر انگیز ہونا چاہیے جن کو بڑی دانشوری کے ساتھ سوچنا‬
‫چاہیے۔ اسے مضمون کے مرکزی خیال کا نچوڑ ہونا چاہیے۔‬

‫صاف‪ ،‬سلیس‪ ،‬دلفریب‪ ،‬دل کش‪ ،‬فطری اور قابل فہم )‪ (Style of Writing‬سب سے آخر میں نظر ثانی کی جاتی ہے۔ طرِز تحریر‬
‫ہونا چاہیے۔ مضمون نویس کو اپنے مضمون میں غلط العام‪ ،‬زبان زد خاص و عام کا استعمال‪ ،‬غیردلچسپ عمومی فقروں‬
‫کا استعمال‪ ،‬بے ہودہ و لغو زبان‪ ،‬ثقیل جملے‪ ،‬فحش فقرے‪ ،‬مبہم باتیں‪ ،‬غیرمستند مخفف الفاظ کے استعمال سے )‪(Hackneyed‬‬
‫گریز کرنا چاہیے۔‬

‫اچھے مضامین میں یہ خصوصیات ہونی چاہیے۔ احساسات کے مطابق نفس مضمون کی بالکل صحیح وضاحت کرنی چاہیے۔‬
‫خیاالت میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ صحیح طرح عنوان سے مطابقت قائم رکھنی چاہیے۔ موضوع سے ہٹنا نہیں چاہیے۔ مضمون کو‬
‫کئی پیرگرافوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک جملے کا دوسرے جملے سے اور ایک پیراگراف کا دوسرے پیراگراف سے موزوں‬
‫منطقی ربط قائم رکھنا چاہیے۔ خیاالت میں تسلسل برقرار رکھنا چاہیے۔‬

‫ماہریِن صحافت نے کالم نگارکے ‪ 12‬اوصاف بیان کیے ہیں۔ آئےے !ان اوصاف میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔ کالم نگار کا‬
‫مطالعہ بے حد وسیع ہونا چاہیے۔ اسے ادب‪ ،‬نفسیات‪ ،‬فلسفہ‪ ،‬سائنس‪ ،‬اقتصادیات‪ ،‬سیاسیات‪ ،‬غرضیکہ ہر شعبہ¿ زندگی کے متعلق‬
‫ضروری معلومات حاصل ہونی چاہییں۔ اگر کالم نگارکسی خاص شعبے پر کالم لکھنا چاہتا ہے تو اس شعبے کے متعلق اس کی‬
‫معلومات نہ صرف وسیع بلکہ تازہ ترین بھی ہونی چاہییں۔‬

‫آپ خود سوچیں اگر کالم نگار کا مطالعہ وسیع نہیں ہوگا تو وہ رہنمائی کا فریضہ کیسے سر انجام دے سکے گا؟ کالم میں دیے‬
‫گئے کسی بھی حوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست ہو۔ اس میں غفلت سے بعض اوقات ایسی غلطی ہوجاتی ہے جس سے‬
‫کالم نگار کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور پڑھنے والوں میں اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ اس کا عالج مطالعے کی وسعت اور‬
‫تحقیق کی عادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے عالوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔‬

‫کالم نگارکی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اسے زبان وبیان پر عبور حاصل ہو۔ جس زبان میں کالم لکھا جا رہا ہے‪ ،‬اس زبان کی‬
‫باریکیوں اور قواعد سے بخوبی واقف ہو۔ صحافتی قوانین اور ضابطہ¿ اخالق سے واقفیت رکھتا ہو۔ ایک طرف تو اسے صحافتی‬
‫قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے کالم لکھنا ہوتا ہے‪ ،‬دوسری طرف اخبار کی پالیسی اور قارئین کے مزاج کا خیال بھی رکھنا ہوتا‬
‫ہے۔ اخباروں میں کالم نگاروںپر عمومًا کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی‪ ،‬لیکن قانونی طور پر کالم نگارکی تحریر کا پرنٹر اور‬
‫پبلشر کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کالم نگار سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ جہاں اس کی تحریریں قارئین کے لیے‬
‫معلومات فراہم کریں‪ ،‬وہاں اس کی تحریروں سے اخبار کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہ ہو‪ ،‬اس لیے کالم نگار کو صحافتی قوانین اور‬
‫ضابطہ ہائے اخالق سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ صحافتی قوانین اور اصول وقتًا فوقتًاتبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔‬

‫یاد رکھیں !شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے‪ ،‬اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے‬
‫جاتے ہےں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ ”روزانہ ڈائری‬
‫لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں‬
‫روز مّر ہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار‬
‫تجربات گواہ ہیں۔ قارئین! اس موضوع پر مزید بات معلومات اس موضوع پر لکھی گئی ہماری کتاب ”صحافت ایسے سیکھیں“ میں‬
‫پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ کتاب الحجاز کراچی فون نمبر ‪03142139797‬سے بارعایت دستباب ہے۔(جاری ہے)‬

‫لکھنا‪ ،‬لکھنے ہی سے آتا ہے‬


‫‪MD‬‬
‫میگزین ڈیسک‬
‫میگزینز‬
‫سنڈے میگزین‬
‫اکتوبر ‪11 2020 ،‬‬

‫‪‬‬

‫‪‬‬

‫‪‬‬

‫‪‬‬

‫‪‬‬ ‫کوالچی کراچی‬


‫‪‬‬ ‫معیشت‬
‫‪‬‬ ‫نصف سے زیادہ‬
‫‪‬‬ ‫ماحولیات‬
‫‪‬‬ ‫بیوٹی اینڈ اسکن کیئر‬
‫‪‬‬ ‫گھر پیارا گھر‬
‫‪‬‬ ‫فیشن اینڈ شوبز‬
‫‪‬‬ ‫کھانا خزانہ‬
‫‪‬‬ ‫خواتین کا جنگ‬
‫‪‬‬ ‫تعمیرات‬
‫‪‬‬ ‫تعلیم‬
‫‪‬‬ ‫زراعت‬
‫‪‬‬ ‫کامرس‬
‫‪‬‬ ‫فنانشل ٹائمز‬
‫‪‬‬ ‫جنگ فیشن‬
‫‪‬‬ ‫میر خلیل الرحٰم ن میموریل سوسائٹی‬
‫‪‬‬ ‫جنگ فورم‬
‫‪‬‬ ‫اسپیشل ایڈیشن‬
‫‪‬‬ ‫جرم و سزا‬
‫‪‬‬ ‫نوجوان‬
‫‪‬‬ ‫بچوں کا جنگ‬
‫‪‬‬ ‫تجزیے اور تبصرے‬
‫‪‬‬ ‫صحت‬
‫‪‬‬ ‫ٹیلی گراف‬
‫‪‬‬ ‫آرائش خانہ‬
‫‪‬‬ ‫وادی مہران‬
‫‪‬‬ ‫قرطاِس ادب‬
‫‪‬‬ ‫عالمی منظر نامہ‬
‫‪‬‬ ‫سنڈے میگزین‬
‫‪‬‬ ‫مڈویک میگزین‬
‫‪‬‬ ‫بالدی‬
‫‪‬‬ ‫سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‬
‫‪‬‬ ‫فن و فنکار‬
‫‪‬‬ ‫اقراء‬
‫‪‬‬ ‫اسپورٹس‬

‫محّم د ریاض علیمی‬


‫ہمارے ایک دوست‪ ،‬جو بہت ہی ُخ وب لکھتے ہیں‪ ،‬ایک روز ُان کی شان دار‬
‫تحریر پڑھ کر ہمارا بھی ِد ل چاہا کہ کیوں ناں کچھ لکھا جائے۔ بہت سوچ‬
‫بچار کے بعد ایک موضوع سوجھا اور قلم تھام کر لکھنا شروع کیا‪ ،‬مگر‬
‫ایک دوسطر کے بعد کچھ لکھا ہی نہ گیا۔ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر‬
‫گیا‪ ،‬قلم ہاتھ میں ویسے کا ویسا ہی رہا۔پھر اس خیال سے ِد ل کو تسلی دینے‬
‫کی کوشش کہ جب اسکول کے زمانے میں کبھی لکھنے کی کوشش نہیں‬
‫کی‪ ،‬تو ٓاج کیسے یکایک لکھنا ٓاجائے گا؟ بغیر کوشش اور محنت کےکچھ‬
‫نہیں ہوتا۔اور واقعی ہمارے تعلیمی نظام کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ نہ تو‬
‫لکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی کروائی جاتی ہے۔‬
‫ہمارے یہاں جب سے نصاب َر ٹنے اور نقل کا کلچر عام ہوا ہے‪ ،‬میٹرک پاس‬
‫طلبہ خود سے ایک درخواست یا خط بھی نہیں لکھ پاتے۔ اس نظام کی‬
‫خرابی ہی کی وجہ سےزیادہ تر طلبہ کی ذہنی صالحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ان‬
‫کی تگ و دو محض کتاب اور کاپی میں موجود سوال و جواب یاد کرنے تک‬
‫محدود رہتی ہے۔‬
‫پھر جب پانی َس ر سے گزر جاتا ہے‪ ،‬تو احساس ہوتا ہے کہ ہم سند یافتہ تو‬
‫ہیں‪ ،‬مگر تعلیم یافتہ نہیں۔درحقیقت ہمارے پاس سوائے ڈگری کے کاغذ کے‬
‫کچھ نہیں۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں‪ ،‬جوتحریری میدان میں کچھ کرنا‬
‫تو چاہتے ہیں‪ ،‬مگر ابتدائی طور پر رہنمائی نہیں مل پاتی کہ کیا لکھیں اور‬
‫کیسے لکھیں۔ تحریر کا ٓاغاز اور اختتام کس طرح کریں۔توسب سے پہلے تو‬
‫خواب و خیال کی باتیں ذہن سے نکال دیں کہ ٓاپ یک َد م ہی بہترین لکھاری‬
‫بن جائیں گے‪ ،‬چار دانِگ عالم ٓاپ کا ڈنکا بج جائے گا‪ ،‬لوگ اش اش کر‬
‫ُاٹھیں گے یا پھر کوئی انقالب ٓاجائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔‬
‫بڑے بڑے لکھاریوں نے بھی خود کو منوانے کے لیے مسلسل پریکٹس کی‪،‬‬
‫یونہی بیٹھے بٹھائے لکھاری نہیں بن گئے۔ لکھنے کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے۔‬
‫اب ہوتا یہ ہے کہ جو ہمارے ذہن میں موجود ہوتا ہے‪،‬وہی قلم کی نوک پر‬
‫ٓاجاتا ہے۔انسان کے ذہن میں ہر وقت خیاالت ٓاتے‪ ،‬جاتے رہتے ہیں۔کبھی‬
‫کوئی ایک بات ٓاجاتی ہے‪ ،‬تو کبھی دھیان کسی اور طرف نکل جاتا ہے۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ جب لکھنے بیٹھتے ہیں‪ ،‬تو سمجھ نہیں ٓاتا کہ شروع کہاں سے‬
‫کریں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا جائے‬
‫کہ کس موضوع پر لکھنا ہے۔‬
‫پھر اگلے مرحلے میںمنتخب کردہ موضوع پر غور وفکر شروع کریں کہ‬
‫اس کی کس جہت پر لکھنا ہے۔ اگر ٓاپ ایسا کرنے میں کام یاب ہوگئے‪ ،‬تو‬
‫سمجھ لیں کہ ٓاپ کا ٓادھا کام تو ہو گیا۔ اس کے بعدمنتخب کردہ موضوع کے‬
‫متعلق ذہن میں جو کچھ بھی ٓائے‪،‬فورًا ضبِط تحریر میں لے ٓائیں۔ اس بات کی‬
‫فکر نہ کریں کہ ٓاپ کے لکھے جملے بے ربط ہیں یا الفاظ کا چنأو اچھا‬
‫نہیں۔ جو ذہن میں ٓارہا ہے‪ ،‬بس لکھتے جائیں کہ لکھنا‪ ،‬لکھنے ہی سے ٓاتا‬
‫ہے۔ جب ٓاپ اپنے خیاالت ضبِط تحریر میں لے ٓائیں گے‪ ،‬توخودہی ان‬
‫جملوں کو ربط میں النے کا کام ٓاسان ہوجائے گا‪،‬کیوںکہ جب لکھا ہوا‬
‫نظروں کے سامنے ہو‪،‬تو پڑھتے ہوئے خود ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سا‬
‫جملہ پہلے ٓانا چاہیے اور کون سا بعد میں ۔‬
‫اگلے مرحلے میں نئے صفحے پر جملوں کو ترتیب وار لکھنا شروع کردیں۔‬
‫جملے ترتیب وار سامنے ٓانے کے بعد پھر اپنی تحریر کو سامنے رکھ کر‬
‫نظِر ثانی کریں اور غور کریں کہ کون سا جملہ اضافی اور غیر ضروری‬
‫ہے۔ اسی طرح الفاظ پر بھی دھیان رکھیں کہ کس جگہ کون سے لفظ کا‬
‫استعمال زیادہ مناسب ہے۔ ابتدا میں تھوڑی مشّقت توضرور ہوگی‪ ،‬لیکن‬
‫مسلسل پریکٹس سے ٓاپ ایک ہی مرتبہ میں اپنی تحریر کو ترتیب کے ساتھ‬
‫لکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ شروع میں طویل تحریر لکھنے کی ہرگز‬
‫کوشش نہ کریں‪ ،‬ورنہ ٓاپ ُاکتا جائیں گے۔مطالعےکے بغیر تحریر میں‬
‫پختگی نہیں ٓاسکتی‪ ،‬لٰہ ذا معیاری کتب پڑھیں۔ پھر کتابیں پڑھنے سے جملوں‬
‫میں ربط پیدا کرنے کا بھی ڈھنگ پیدا ہوتا ہے۔‬
‫دوراِن تحریر انتہائی اہم نکتہ سرقہ بازی سے بچنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی‬
‫بیماری ہے‪ ،‬جس سے اپنے ٓاپ کو محفوظ رکھنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔‬
‫اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر کسی اور‬
‫کا مضمون اپنے نام سے شایع کروادیتے ہیں۔ یا کسی کے مضمون میں‬
‫محض معمولی ہیر پھیر کرکے اپنا نام لکھ لیتے ہیں۔ یہ ایک علمی بددیانتی‬
‫ہے۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر ٓاپ کسی مفّک ر کی کوئی بات اپنے‬
‫مضمون میں نقل بھی کریں‪ ،‬تو اس کا حوالہ الزمًا دیں کہ اس امر کو‬
‫مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ تحریر کے میدان میں دوسرا مرحلہ تنقید برداشت‬
‫کرنے کا ہے۔‬
‫اپنی تحریر پر تنقید‪ ،‬اپنی توہین نہیں‪ ،‬اصالح کا ذریعہ سمجھیں۔ ضروری‬
‫نہیں کہ ٓاپ کی تحریر سب کو پسند ٓاجائےکہ بعض افراد ٓاپ کی تحریر زبان‬
‫دانی کے اعتبار سے دیکھیں گے‪ ،‬تو بعض اس کی سالست و روانی پر‬
‫توّج ہ دیں گے۔ اس کے متعلق تبصرے بھی کیے جائیں گے۔ الغرض‪ٓ ،‬اپ‬
‫کسی بھی میدان میں قدم رکھیں‪ ،‬تنقید سے نہیں بچ سکتے‪ ،‬لٰہ ذا جس سے بچ‬
‫کر گزرنا ممکن ہی نہیں ‪ ،‬تو پھر اسے خودپر حاوی بھی نہ ہونے دیں۔ اگر‬
‫واقعی ٓاپ کے اندر کوئی خامی موجود ہے‪ ،‬تو اسے ُد ور کرنے کی کوشش‬
‫کریں اور اگر تنقید حسد کی بنیاد پر بے جا ہے‪ ،‬تو اس پر کان دھرنے کی‬
‫بجائے استقامت سے اپنا کام کرتے رہیں۔ ایک وقت ٓائے گا کہ ٓاپ کا شمار‬
‫بھی بہترین لکھاریوں میں ہونے لگے گا۔‬

You might also like