Professional Documents
Culture Documents
Writing Tips Likhna Likhana
Writing Tips Likhna Likhana
بواسطة
Editor
-
فروری 2021 ,12
0
728
بالگز
ShareFacebookTwitterGoogle+ReddIt
تحریر :زینب وحید
ٹک ٹک ٹک ،گھر ہو یا سڑک ،دفتر ہو یا ہوٹل ،ہر طرف ٹک ٹک ٹک اور
ہیش ٹیگ کا شور ،ٹرینڈز کے چکر میں نوجوان امی ابو کا خالہ اور چاچو
سے باتیں کرنا تو دور کی بات ،کھانا پینا اور چھوٹے بہن بھائیوں کو نہالنے
اور کھالنے تک سے العلم ہو چکے ہیں۔ نگوڑے موبائل نے جہاں د نیا بھر
کی معلومات آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے ،وہیں ایک گھر کے اندر بھی
دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ اسالم آباد کی ایک ٹھنڈی شام میں ایک ریسٹورنٹ
کے کونے میں بیٹھی ایک آنٹی نے کولڈ کافی کی لمبی سے چسکی لی اور
ساتھ بیٹھی خاتون سے گلہ کیا ،دوسری خاتون نے بھی مہنگی شال درست
کرتے ہوئے نزاکت اور شائستگی سے پلیٹ سے بار بی کیو کی ایک بوٹی
کا ٹکڑا اٹھایا ،پھر بولیں ،ہاں بھئی یہ تو ہے ،میری بیٹی کے پا س تو وقت
نہیں مجھ سے بات کرنے کےلئے ،اسی لئے یہاں تمہارے پاس آگئی ہوں،
انہوں نے ساتھ ہی پرس سے ٹشو پیپر نکال کر ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک
صاف کی۔ ایک اہم میٹنگ کے لئے میں بھی اسالم آباد کے اسی ریسٹورنٹ
میں اقوام متحدہ کے ایک اعلٰی افسر کا انتظار کر رہی تھی۔ اسی لئے سوچ
لیا کہ گھر واپس آکر اس موضوع پر ضرور لکھوں گی کہ آخر لکھنے
لکھانے کے فائدے کیا ہیں۔
اگرچہ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ واقعی لکھنا آپ کی دماغی صحت
کو بہتر بنا سکتا ہے یا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکن ماہرین آپ کے دماغ کے
اندر جذبات اور احساسات کوباتوں کو بوتل میں بند کوئی توانائی سمجھتے
ہیں کہ جو باہر آجائے تو آپ کی شخصیت میں بہتری ال سکتا ہے ۔ بعض
ڈاکٹروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر آپ لکھنا شروع کر دیں تو ذہنی صحت
بہتر ہو گی اور اس سے آپ کو خود کو تالش کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔
ایک اچھا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود اعتمادی بڑھانے سے لے کر بہتر
فیصلے کرنے تک کی صالحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔
ارنسٹ ہیمنگوے مشہور امریکی ناول نگا ر ہیں۔ ان کا عہد اکیس جوالئی
1899سے لے کر 1961تک رہا۔ ُان کا مشہور قول ہے ” لکھنے والے
اپنے اندر جو درد محسوس کرتے ہیں ،انہیں وہ درد سپرد قلم کرنا چاہیے،ا
” س دکھ اور کرب میں دوسروں کو بھی شامل کرنا چاہیے
اگرچہ اس وقت ہیمنگوے کو تو علم نہیں تھا ،لیکن تحقیق نےثابت کر دیا ہے
کہ کوئی بھی اپنے اندر کا دکھ ،درد ،کرب یا کوئی بھی خوشی کی کیفیت
ضبط تحریر میں التا ہے تو یہ عمل دماغی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر
سکتا ہے۔ اب تک ایسے دو سو تحقیقاتی مکالے چھپ چکے ہیں کہ جن سے
پتا چلتا ہے کہ اگر آپ اپنے جذبات کو تحریر میں لے آئیں تو دماغی صحت
پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ،لیکن نفسیاتی فوائد کے حوالے سے
الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔
ایک نظریئے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر آپ دل کی بات زبان پر نہیں
الئیں گے یا اس کو تحریر کی شکل نہیں دیں گے تو یہ نفسیاتی الجھنیں پیدا
کرے گی۔ دوسری صورت میں آپ کی تحریر دماغی صحت کومطمئن حد
تک لے جا سکتی ہے کیونکہ آپ نے ان جذبات کو محفوظ ،رازدارانہ اور
آزاد طریقے سے ظاہر کر دیا ہے۔ یوں اندر کا کرب باہر آنے سے آپ کو
سکون بھی محسوس ہو سکتا ہے ،تو میری بات کا خالصہ یہ ہے کہ کس
طرح خود شناسی آپ کی توجہ اپنے اندر کی طرف موڑ سکتی ہے جس سے
ہم اپنے خصائص ،برتاؤ ،احساسات ،عقائد ،اقدار اور محرکات کے بارے
میں مزید آگاہ ہو سکتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے اندر چُھپی صالحیتوں کے بارے میں خود
آگاہ ہونا ایک دو نہیں ،کئی طریقوں سے فائدہ مند ہو سکتا ہے ،یعنی خود
اعتمادی بڑھ سکتی ہے ،دوسروں کے نظریات اور عقائد زیادہ اچھے انداز
میں قبول کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے ،ہمیں مزید(سلیف کنٹرول) یا خود
پر قابو پانے اور اپنے اہداف کے مطابق بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد مل
سکتی ہے ۔نتیجہ یہ نکال کہ اپنے احساسات تحریر کرنا یا خوداپنے بارے
میں آگاہی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے ،اس کی دلیل یہ ہے کہ
آپ روزانہ اپنی ڈائری لکھیں گے تو آپ کی پریکٹس ہو گی اور دماغ بھی
بہتر انداز میں کام کر ے گا ،اسی طرح اپنی تحریر کو بار بار پڑھنے سے
اپنے خیاالت ،احساسات ،رویے اور عقائد کے بارے میں بھی گہری بصیرت
فراہم ہو سکتی ہے ۔
ماہرین نے تین قسم کی تحروں کا ذکر کیا ہے جو ذہنی صحت کو بہتر بنا
۔ یہ تاثراتی ، Expressive writingسکتی ہیں۔ ان میں سے نمبر ایک ہے
تحریر عام طور پر الجھن کا شکار لوگوں کو کچھ سکون دینے کےلیے
لکھوائی جاتی ہے۔ یعنی ُان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرب و اذیت والے
زندگی کے واقعات یا تجربات کے بارے میں اپنے خیاالت اور احساسات
لکھیں۔ ایسی تحریر کا مقصد کسی مشکل چیز کو جذباتی طور پر آسان
کرنے میں مدد کرنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تاثراتی تحریر خود آگاہی
کو بڑھا سکتی ہے ،ڈپریشن کی عالمات ،فکر مند خیاالت اور سمجھے
Reflectiveجانے والے تناؤ کو کم کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ہے
۔ یہ وہ انداز تحریر ہے کہ جس میں باقاعدگی سے پیشہ ورانہ انداز writing
استعمال کیا جاتا ہے ،نرسوں ،ڈاکٹروں ،اساتذہ ،ماہر ین نفسیات اور سماجی
کارکنوں کو لوگوں سے گہرے لگاؤ کے لئے مدد ملتی ہے۔ تحریر کا یہ
طریقہ لوگوں کو سیکھنے اور ترقی کے لیے واضح طور پر اپنے عقائد اور
،اعمال کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ فراہم کرنا ہے۔تیسرے نمبر پر ہے
۔ نظمیں ،مختصر کہانیاں ،ناول اور سبھی تخلیقی Creative writing
تحریریں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ تخلیقی تحریر کسی شخص کے تخیل کے
ساتھ ساتھ ایک طرح سے اس کی یادداشت کو بھی امتحان میں ڈالتی ہے جس
سے دماغ تیزی سے کام کرتاہے ۔ کہا جاتا ہےکہ تخلیقی تحریر خیاالت،
احساسات اور عقائد دریافت کرنے کا منفرد طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر،
آپ ایک سائنس فکشن ناول لکھ سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے بارے
میں آپ کے خدشات کی نمائندگی کرتا ہے یا بچوں کی کہانی جو دوستی کے
بارے میں آپ کے عقائد کو بیان کرتا ہے۔ تخلیقی تحریر لوگوں کی حوصلہ
افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ ،استعاروں اور تصاویر کا انتخاب اس
انداز میں کریں کہ وہ واقعی کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اور
کہتے ہیں۔ ماہرین Writing for self-awarenessانداز تحریر ہے جس کو
کے نزدیک اچھی ذہنی صحت کے لئے خود آگاہی ایک اہم جز ہے اور لکھنا
شروع کرنے کے لئے ایک بہترین وجہ ہے۔ اگر آپ روزانہ پندرہ منٹ ایسا
کر لیں تو آپ کی دماغی صحت میں بہتری آسکتی ہے ۔
ویسے وہ دن تو گئے جب کسی اخبار میں چھپوانے کےلئے تحریر نہایت
َنپی ُتلیُ ،پر مغز اور اعلٰی اخالقی معیارات کے مطابق ہوتی تھی ،قلم کاروں
کو معاشرے میں بلند مقام حاصل تھا اور لوگ انہیں مشعِل راہ کے طور پر
دیکھتے تھے۔سوشل میڈیا کے اس دور اور ٹیکنالوجی کے انقالب کے بعد
آن الئن بالگز نے تو ہر مشکل ہی حل کر دی ہے۔ آپ کے لئے اپنے خیاالت
بڑی آڈیئنس تک پہنچانے کا آسان ذریعہ مل گیا ہے۔آپ اپنا ذاتی بالگ بنا
سکتے ہیں ،آن الئن پلیٹ فارمز پر چھپوا سکتےہیں۔ اب تو ایسے پلیٹ فارم
موجود ہیں کہ آپ لکھ کر اس کی آڈیو ریکارڈ کریں اور اپ لوڈ کر دیں،
بڑی بڑی کمپنیاں میدان میں آچکی ہیں جو آپ کی اپنی آواز میں آپ کی
تحریر کی آڈیو پوڈکاسٹ کی صورت میں اپ لوڈ کر نے کا آپشن دیتی ہیں،
صرف اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کی تحریر تخلیقی اور کچھ منفرد ہو۔
چوٹی کے ماہرین کا خیال ہے کہ چند منٹ کی دلچسپ آڈیو سننا ہزاروں
الفاظ پر مشتمل خشک تحریر پڑھنے سے آسان اور اپیلنگ ہے ،اس لئے
آپ کی تحریرمیں جان ہے تو ہزاروں لوگ آپ کے خیاالت اور ماہرانہ رائے
سننے کےمنتظر بیٹھے ہیں۔ لیکن زارا ٹھیریئے۔ ماہرین نے آپ کے لئے
کچھ نکات ڈھونڈ نکالے ہیں کہ کیا اور کیسے لکھنا ہے۔
استاد لوگ کہتے ہیں کہ کچھ بھی لکھنے سے پہلےاس کا مقصد واضح ہونا
چاہیے۔ ویسے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ،لیکن سب سے اہم
مقصد یہ ہو کہ اپنے خیاالت ،مشاہدات ،علم اور تجربے کو الفاظ اور جملوں
میں ڈھال کر ایسی تحریر تخلیق کریں جس سے قاری کا عمل بہتری کی
طرف گامزن ہو۔ اسی طرح دوسری چیز واضح مرکزی خیال ہے۔ اگر آپ
اپنی ذہنی صالحیت بڑھنا اور موبائل سے جان چھڑانا چاہتےہیں تو بالگ
لکھا کریں ،مگر آپ کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال بالکل واضح ہونا
چاہیے ۔ اگرآپ خود کسی کنفیوژن کا شکار ہیں تو متاثر کن تحریر ہرگز
وجود میں نہیں آ سکتی ۔ آپ کو اپنے اردگرد ایسےکئی موضوعات بکھرے
ملیں گے جن پر لکھ کراپنے اندر کا تذبذب دور کیا جا سکتا ہے اور اصالِح
معاشرہ میں بھی اپنا حصہ ڈاال جا سکتا ہے۔
ایک درخواست ہے کہ ایسے موضوع کا انتخاب ہرگز نہ کریں جس پر پہلے
ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور اس ایشو پر پہلے سے رائے عامہ ہموار ہو
چکی ہو۔ انٹرنیٹ پر سرچ کر کے معلوم کریں کہ کسی ایشو پر اب تک کیا
لکھا جا چکا ہے ،آپ اپنا نقطہ نظر اس منزل سے آگے شروع کریں۔
میری آپ کو تجویز ہے کہ دوراِن تحریر خیاالت ،حاالت اور واقعات ایک
منطقی ترتیب سے اس طرح پیش کریں کہ ہر پیراگراف سے قاری کی
معلومات میں سلسلہ وار اضافہ ہو اور وہ اگلے سے اگال پیراگراف پڑھنے
پر مجبور ہوتا چال جائے۔ بے ڈھنگی ترتیب قاری کو کنفیوز کر دیتی ہے
اور وہ دلچسپی کھو دے گا۔ ایک منظم ترتیب ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے
کہ قاری کےلیے تحریر کے آخر تک دلچسپی برقرار رہے گی۔ اساتذہ کرام
اور ماہرین کہتے ہیں کہ تحریر کی مقصدیت دو حصوں پر مشتمل ہے؛ اول
یہ کہ قاری کچھ حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ قاری کسی نتیجے پر
پہنچ رہا ہے یا نہیں؟ تو آپ بہترین معلومات فراہم کیجیے تاکہ قاری تحریر
سے کچھ حاصل کرے اور معلومات کو منظم انداز میں پیش کریں ۔ایک اور
اہم نکتہ یہ ہے کہ معلومات ،واقعات یا حوالہ جات میں غلطی ہر گزنہ کریں۔
اسی طرح مصدقہ و مستند معلومات کو معیاری جملوں اور درست الفاظ میں
بیان کریں۔
آج کل لوگوں کے پاس پڑھنے کےلئے بالکل وقت نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ
آپ کی تحریر کی طرف آہی گئے ہیں تو ان کے راستے میں مشکل الفاظ
کے روڑے نہ اٹکائیں ،طویل پیچیدہ جملوں کی سرنگیں نہ بچھا ئیں ،غیر
ضروری ڈیٹا میں مت الجھائیں ،الفاظ اور مفہوم کی تکرار سے دور رہیں۔
سادہ الفاظ سے بنے ہوئے چھوٹے اور بامعنی جملے استعمال کریں جن سے
مفہوم خود بخود چھلکتا جائے۔ چونکہ لوگ لمبی چوری تحریر نہیں پڑھتے،
اس لئے آپ کی تحریر حد سے زیادہ طویل ہو گی تو تاثیر کھو دے گی۔ ایک
عام بالگ کو بارہ سو سے پندرہ سو الفاظ تک محدود ہونا چاہیے ،لیکن
مضمون کی مناسبت سے اس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اخبارت
میں لکھنا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں کہ کالم نگاری الفاظ ،جملوں ،خیاالت اور
معلومات کے فنکارانہ امتزاج کا نام ہے۔ مطالعہ وسیع کریں تاکہ آپ کے
پاس الفاظ ،خیاالت اور معلومات کا بہترین مجموعہ اکٹھا ہو سکے۔
آخر میں کچھ گذارشات ہیں کہ سائنسی تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے
کہ اپنے ہاتھ سے لکھنے کی عام عادت انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت
کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس سے زندگی کے مثبت تصور کو
قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہاتھ سے تحریر کرنے کی عادت دماغی
نشوونما میں بہتری اور افعال کو متحرک کرتی ہے کیونکہ اس عمل کے
دوران دماغ کی بورڈ پر ٹائپنگ کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے۔
تحریر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار مزاج کو بہتر،تناؤ کو کم اور
زندگی پر اطمینان بڑھا دیتا ہے۔
کسی کارڈ کو خریدنے کے بعد آپ اس میں کوئی اچھا پیغام لکھنے کے لیے
مجبور ہوجاتے ہیں جو دوسرے فرد کے دل کو بھی چھو جائے ،اس کے
مقابلے میں واٹس ایپ ،ٹویٹر ،انسٹاگرام ،فیس بک یا یوٹیوب پر پیغامات میں
بہت مختصر جملے استعمال ہوتے ہیں ۔ کاغذ اور قلم کا امتزاج بصری اور
دماغی افعال کو مختلف انداز میں متحرک کردیتا ہے ۔ ہاتھ سے تحریر کے
لیے تمام حصوں سے مدد لینا پڑتی ہے اور ملٹی ٹاسکنگ کی عادت کو ذہن
سے نکالنا پڑتا ہے۔ آپ ڈائری لکھنے کو بھی اپنا مشغلہ بنا سکتے ہیں جس
سے عام طور پر ذہن میں آنے والے مختلف خیاالت کو درج کر لینا ہوتا ہے۔
زندگی کے مختلف تجربات ہمیں مختلف احساسات سے گزارتے ہیں ،کئی
بار ذہن مختلف قسم کے خیاالت میں الجھ جاتا ہے لیکن ان خیاالت اور
احساسات کو بعد میں یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے ڈائری میں انھیں
درج کر لینے سے وہ آپ کے پاس رہتے ہیں۔ اگر آپ مستقل ڈائری میں
لکھتے رہیں تو آپ کو ان مسائل کو پہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے جو غیر
ضروری طور پر آپ کو روزمرہ کی بنیاد پر پریشان کرتے ہیں۔ کاغذ پر
لکھے لفظ کہنے کو ساکت و جامد ہوتے ہیں ،لیکن ان میں دنیا جہاں کے
رنگ ،ذائقے ،لمس ،خوشبوئیں اور جذبے پائے جاتے ہیں ،یہ سوچوں اور
مزاج کا آئینہ بن کر انجانے لوگوں کو ایک دوسرے سے یوں منسلک
کردیتے ہیں جیسے وہ زمانوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہو۔
میں نے اس تحریر میں آپ کو کئی ایسی ٹپس دی ہیں جن کا اطالق آپ کو
اس بالگ میں نظر نہیں آئے گا ،جیسے آپ کا بالگ طویل نہ ہو ،الفاظ سادہ
اور آسان ہوں وغیرہ ،تو آپ یہ بات نوٹ کر لیں کہ اس بالگ کا مقصد
چونکہ اپنے قارئین تک ایک خاص پیغام پہنچانا تھا ،اس لئے آپ کو اس
تحریر میں بعض اصولوں کی خالف ورزی نظر آئے گی ،لیکن یہ خالف
ورزی تحریر کے بنیادی اصولوں کے خالف نہیں بلکہ اس کا ایک اصالحی
پہلو بھی ہے
لکھنے کی مہارت کو کیسے بہتر بنایا جائے
on June 15, 2022
تحریر
احمدیار
اور اردو نصاب میں اس کو "لکھائی" writing competencyپاکستان کے ا نگریزی کے نصاب 2020میں اس مہارت کو
اور "تخلیقی لکھائی" کے نام دئیے گئے ہیں۔ قومی نصاب میں اس مہارت کا مقصد بچے کے احساسات ،جذبات اور مافی آلضمیر
کا خط ,کہانی مضمون ،رپورٹ ،شاعری ،پیراگراف یا کردارنگاری کی شکل میں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ کوشش کیجاتی ہے کہ
بچوں کی لکھائی رواں صحیح اور بامقصد ہو۔اور وہ رسمی اور غیر رسمی انداز تحریر کے فرق کو مد نظر رکھ کر قواعد اور
خطوط نویسی مضمون نویسی ،رپورٹ لکھنا ،نظم لکھنا ،پیراگراف ) (story writingتخلیقی لکھائی کی مختلف قسمیں کہانی
کا نام دیا گیاہے ۔ اردو کی Creative Writingاور ٓ Guided Writingافاق کی انگلش سن کی کتاب میں ان مہارتوں کو
کتاب میں اس کے لیے "لکھیں" اور کچھ "نیا لکھیں" کے نام سے سرگرمیاں دی گئی ہیں۔
بچوں کو سکھانے میں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اساتذہ اس کو تین درجوں میں Creative Writingتخلیقی لکھائی یا
سکھائیں۔ پہلے درجے میں وہ طلباء کو طریقہ کار کی ہ سکھائیں اور سمجھائیں۔ مثال کے طور پر کہانی لکھنے کا طریقہ کار کیا
ہے یا مضمون کیسے لکھا جاتا ہے۔ دوسرے درجے میں اساتذہ بچوں کو نمونے کی کہانیاں ،مضامین یا خطوط لکھوائیں یا
سمجھائیں جیسے کسی جگہ پر مضمون ،اللچی کتا یا اخبار کے ایڈیٹر کو خط ۔ بچے یہ نمونے دیکھ کر لکھنے کے طریقہ کار
کو سمجھ جائیں گے اور وہ ہدایات کی روشنی میں اس قابل ہوجائیں گے کہ وہ خود کوئی تخلیقی مواد کسی موضوع پر لکھ
سکیں۔
تیسرے درجے میں استاد بچوں کو سمجھائیں گے اور ان کو لکھنے کا ٹاسک دیں گے۔ مثال کے طورپر' اللچ بری بال ہے" کی
کہانی اپنے ماحول ،پڑوس یا عالقے سے ایک مثال لے کر لکھیں گے۔اس طرح بچے اللچ پر ماحول یا عالقے سے اپنی تخلیقی
صالحیتوں کو استعمال کرکے نئی کہانی تخلیق کر سکیں گے۔تخلیقی لکھائی میں بچوں کے قواعد کی غلطیوں پر زیادہ توجہ نہیں
اور تخلیقی صالحیتوں کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ presentation skillsدی جاتی بلکہ اظہار
ہمارے سکولوں میں اکثر براہ راست مضامین ،خطوط اور کہانیاں لکھوائی جاتی ہیں اور بچوں سے زبانی یاد کرائی جاتی ہیں
اور پرچوں میں وہی کہانیاں یا مضامین دیئے جاتے ہیں سب بچے ایک جیسی کہانیاں لکھتے ہیں اور پھر اس کے نمبر دئیے
تخلیقی لکھائی اور انشا پردازی کے لئے پاکستان کے قومی نصاب میں مجوزہ ضابطہ معیار
پیراگراف
درخواست نویسی
آغاز اور پتہ ۔ القاب وآداب ،مدعا۔اختتام درخواست کنندہ کا نام و پتا ،تاریخ ،امال۔ رموز اوقاف
کہانی نویسی
پالٹ /ابتدا۔ موضوع سے مطابقت ۔ نکتہ عروج و دلچسپی۔ ربط و تسلسل ۔ اختتام /اخالق
)نوٹ۔ یہ مضموں خاص طور پر پاکستان کے سکولوں کے اساتذہ کے رہنمائ کے لیے لکھا گیا ہے(
http://anqasha.blogspot.com/2010/06/blog-post_20.html?m=1مزید جانیے
خالدہ حسین ہمیشہ میرے لیے ایک اساطیری کردار کی طرح رہی ہیں ،جس کے بارے میں یقین
نہیں ہوتا کہ سچ مچ ہے بھی یا نہیں! زندگی کے عمومی حجم سے کچھ بڑا کردار ،جو وقت اور
فاصلے کے حجاب چیر کر پار اتر سکتا ہے ،ذہن کی خشک پپڑیوں کے اندر تک ِر س کر انھیں
سرسبز کر سکتا ہے اور عقبی بصری پردوں پر ایسے مناظر منعکس کر سکتا ہے جو کبھی نظر
کے سامنے سے نہ گزرے ہوں۔ ان کی کہانیوں میں معانی کی ایسی تہیں ہوتی ہیں جنھیں کھولنا
دلچسپ ،تحیر زا اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو ہر پہلو سے چھو چھو کر دیکھتی ہیں اور
اس کا لمس اپنی تحریر میں زندہ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ زندگی پڑھنے والے کے اندر جذب ہوجاتی
ہے۔ بڑی خاموشی اور دھیمے پن سے۔ شور مچا کر ،زور اور قوت سے نہیں ،مدھم مدھم ،ہولے
ہولے ،بے آواز بارش کی طرح ،بے رنگ پانی کی طرح ،جو نظروں میں آئے بغیر اپنا کام کر
گزرتا ہے۔ خالدہ حسین کی تحریر میں ویسا ہی اسرار ہے جیسا زندگی کی ابتدا اور انتہا کے
بارے میں سوچنے ،اچھے اور برے ،خیر اور شر ،نیک اور بد کے باہم مل جانے کے مقام کو
ہے ،جن پر لبیک کہے بنا چارہ نہیں رہتا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں اس کاسہم بھی رہتا
ہے۔ پتا نہیں سمجھ میں آئے یا نہیں ،پتا نہیں ٹھیک ہو یا غلط۔ سمجھ بھی جائیں تو دھڑکا لگا رہتا
خالدہ حسین کی تحریروں میں بھی ایسی ہی کشش ہے ،ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ڈر وابستہ ہے۔
ان کی تفہیم و تعبیر کرتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ پتا نہیں یہ بات ان کی تحریر میں تھی ،یا خود
ہمارے اندر کہیں موجود تھی جو چپکے سے باہر نکل آئی ہے ،بوتل کے جن کی طرح۔
اسی لیے جی چاہتا تھا کہ کسی روز انھیں اچھی طرح چھو کر ٹٹول کر دیکھوں کہ وہ سچ مچ کی
ہیں یا کوئی اساطیری کردار ہیں۔ تخیل کا تراشا ہوا ،وہم و گمان کا زائیدہ۔
کئی برس سے میں انھیں ملنے اور ان سے تفصیلی گفتگو کرنے کے پروگرام بنا رہی تھی مگر
نجانے کیا حجاب تھا جو بار بار حائل ہو جاتا تھا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے میں پچیس برس
تک ان سے نہ مل پائی اور جب ملی تو ایسا لگا کہ کئی پچیس برسوں سے ملتی چلی آ رہی ہوں۔
میں نے ان کی گوشہ نشینی کے بارے میں ،ان کی مردم گزیدگی اور تنہائی پسندی کے بارے
میں ،ان کی خود مکتفی بے نیازی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔
یہ سب باتیں مجھے روک دیتی تھیں مگر اس روز جب میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ساتھ پہلی بار
ان سے ملنے گئی تو وہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے گزر رہی تھیں۔ یوں تو
زندگی کا ہر صدمہ ہی بڑا لگتا ہے لیکن ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میں سمجھ سکتی ہوں کہ
جوان اکلوتے بیٹے کی موت دل پر کیسا وار کر سکتی ہے۔ وہ بالکل نڈھال تھیں مگرخود کو
سنبھالنے کی تگ و دو میں لگی تھیں۔ میں بھی چاہتی تھی کہ تھوڑی دیر کو سہی مگر وہ اس
احساِس زیاں کو ذرا سا بھول جائیں۔ میں نے ان سے اس خواہش کا اظہار کر دیاکہ کسی روز
میں ان سے تفصیلی گفتگو کے لیے آنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے شاید مروتًا انکار نہیں کیا لیکن اس
خواہش کو عمل میں ڈھالنے میں مزید نجانے کتنا وقت لگ جاتا اگر ڈاکٹر فاطمہ حسن یہ فرمائش
نہ کرتیں کہ خالدہ حسین سے کچھ باتیں ریکارڈ کر کے انھیں بھیجی جائیں۔ لٰہ ذا میری اس دیرینہ
خواہش کی فوری تکمیل اگر ہوئی تو اس میں بہت ہاتھ ڈاکٹر فاطمہ حسن کا بھی ہے۔
دسمبر۲۰۱۶ ،ء کی شام ،اپنی عزیز شاگرد اور اب ہم کار امینہ کے ساتھ ساز و سامان سے ۶
لیس ہو کرجب میں ان کے ہاں پہنچی تو وہ بالکل تیار تھیں۔ صدمے نے انھیں کمزور ضرور کر
دیا تھا مگر ذہنی طور پر وہ بالکل چست وتوانا تھیں۔ امینہ نے کیمرہ اور ریکارڈنگ کا سامان
تیار کر لیا تو میں نے ان سے باتیں چھیڑ دیں۔ کسی رسمی باقاعدہ انٹرویو کی طرح نہیں ،بالکل
غیر رسمی اور بے قاعدہ انداز میں۔ خالدہ آپا کی گفتگو سننا آرٹ فلم دیکھنے جیسا تجربہ تھا۔ وہ
بار بار اپنے اندر اتر جاتی تھیں۔ ان کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس میں
لمبے وقفے آتے تھے۔ دھیمے دھیمے لب و لہجے میں ،کبھی ہلکے ہلکے قہقہے لگاتے ہوئے،
کبھی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ،کبھی گلوگیر ہو کر ،وہ ہر سوال کا جواب دیتی رہیں۔ یہاں
تک کہ میں بھول ہی گئی کہ میں کوئی رسمی انٹرویو لینے آئی تھی اور ان سے اپنی باتیں کرنے
لگی۔ اس لیے اس انٹرویو کا کوئی باقاعدہ اختتامی جملہ نہیں ہے۔ بس بات یکا یک مڑ گئی اور
کوجوں کا توں پیش کر دوں اس لیے اس مکالمے میں گفتگو کا آہنگ ہے ،تحریر کا نظم و ضبط
Exceptionalخالدہ حسین :خاتون ادیب ہونا۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں پر کچھ
چیزیں ہیں۔ مثًال اگر ہم شمار کریں تو بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کہ قابِل ذکر ہیں ہمارے ہاں
فنوِن لطیفہ میں اور اس کے مقابلے میں میرا خیال ہے مردوں کی تعداد شاید برابر ہو ،برابر نہیں
تو شاید کم ہو۔ تو یہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک کے لیے ایک بڑی عجیب و غریب صورِت حال
ہے۔
سوال :اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہی جو لوگ کہتے ہیں کہ فنون کا تعلق چونکہ
بھی چاہییں اس کو باہر النے Opportunitiesخالدہ حسین :لیکن اس کے لیے آپ دیکھیں کہ وہ
ہے اور یا اگر اس کے اندر کوئی ٹیلنٹ Sensitivityکے لیے۔ وہ ساری جو اس کی
encouragementتو اس کوبھی باہر النے کے لیے کوئی ماحول چاہیے ،کوئی hidden،ہے
چاہیے جوکہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ پر اس کے
باوجود آپ دیکھیں کہ خواتین کی ایک خاصی تعداد ہے جو کہ فنوِن لطیفہ میں اپنا نام پیدا کر
رہی ہے۔
سوال :اچھا خالدہ آپا! اپنے بارے میں بتائیے کہ زندگی کیسی گزری؟
خالدہ حسین :زندگی کیسی گزری؟؟ بہت مشکل سوال ہے۔ ۔ ۔ بہت اچھی گزری۔ شاید اسے اسی
طرح ہی گزرنا تھا اور میرا یہ خیال ہے کہ جس چیز کو جس طرح ہونا ہوتا ہے وہ اسی طرح
ہوتی ہے اور کسی طرح سے نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ تو اس زندگی کو اسی طرح ہی ہونا چاہیے تھا
جس طرح بھی pre determination،اور وہ ہوگئی۔ شاید اس کو آپ تقدیر کا تصور کہہ لیں یا
آپ سمجھ لیں لیکن میرا یہ خیال ہے کہ پہلے سے مقرر ہوتا ہے کہ کیا ہوگا اور کس طرح ہوگا۔
سوال :وہ کیا چیز یں ہیں جو یہ سب مقرر کرتی ہیں؟ جو یہ طے کرتی ہیں کہ اس طرح ہوگا؟
خالدہ حسین :یہاں پر آکر تو مجھے تقدیر ہی کا قائل ہونا پڑتا ہے اب دیکھیں نا کہ کسی ایک
خاص گھر میں پیدا ہونا۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ تو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کسی گھر میں ہم پیدا ہو
گئے وہاں پہ جو ہمارے والدین ہیں جو شروع میں ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں ،وہ کس
طرح کے ہیں ،ان کے تصورات کیا ہیں اور زندگی کے بارے میں ان کے کیا خیاالت ہیں ،ان
کے کیا رویے ہیں تو وہ سب چیزیں بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ وہ پہلے سے ہو چکی ہیں
سوال :یعنی کہ ہمارے والدین ،ہمارا عرصۂ حیات ،جس زمانے میں ہم پیدا ہوئے ،یہی چیزیں ہیں
خالدہ حسین :ہاں بالکل ،وہی کاؤنٹ کرتی ہیں وہی بناتی ہیں اور اس پر تو یہی ہے کہ جیسے کہ
مقدر کیا گیا ہے کہ کس وقت میں ہمیں آنا ہے اور۔۔۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ بعد میں جو ہم اپنی تعلیم
کے ذریعے یا ہمارے جو آئیڈیلز ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہم جو کوشش کرتے ہیں ،وہ بھی
چیزیں جو ہیں نا ،وہ basicبہت بڑی بات ہے ،وہ بھی ہماری شخصیت میں بہت اہم ہے ،لیکن
جوزمین فراہم کرتی ہیں اور جو کھاد ہم جس کو کہیں ،وہ پہلے سے ہوتی ہیں؛ ان کو ہم نہیں
بدلتے۔
خالدہ حسین :جی میں ۱۸جوالئی ۱۹۳۸ء کو الہور میں پیدا ہوئی۔
سوال :آپ نے تعلیم کہاں سے پائی؟
خالدہ حسین :الہور ہی میں پرائمری تک ایک ہندو اسکول ،سوہن الل ہائی اسکول میں ،میں نے
پڑھا۔ کے۔ جی سے لے کر کالس فائیو تک۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جہاں بعد میں مدرسۃ البنات بن
گیا۔ وہاں پر میرے ابا کے دوستوں کی اوالدیں بھی پڑھتی تھیں۔ وہاں پہ پانچ سال جو گزارے تو
اس کا مجھ پہ بہت زیادہ گہرا اثر رہا ہے۔ اس وقت تو مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن پھر بھی
جو prayerہمارے اسکول کا جو ماحول تھا اس میں ہندو مذہب کا کافی دخل تھا۔ ہماری صبح کی
ہوتی تھی وہ بھی سنسکرت میں ہوتی تھی جس کی آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں بھی
بولتی تھی۔ مجھے بھی پتہ تھا کہ کیا بولنا ہے اور باقی اٹھنا ،بیٹھنا اور وہاں پر ہماری ٹیچر کے
لباس ،ساڑھیاں وغیرہ اور ہمارے اسکول کے جو مالک تھے رائے بہادر سوہن الل۔ ہمارے
institutionاسکول کے ساتھ ہی ان کا گھر تھا۔ وہ بڑے امیر کبیر آدمی تھے۔ انھوں نے بہت بڑا
کھوال تھا لیکن وہ بذاِت خود اتنی سادگی کی حالت میں رہتے تھے کہ گھر کے دھلے ہوئے
کپڑے ،ٹخنوں سے اونچی پینٹ پہنی ہوئی اور ُچڑ ُم ڑ قمیصیں اورکوئی استری وغیرہ نہیں اور
بالکل وہ اس طرح کے آدمی تھے۔ وہ اپنے گھر سے نکلتے تھے تو ہم دور سے انھیں دیکھتے
تھے کہ وہ آرہے ہیں رائے بہادر۔ ہم سب بھاگے جاتے تھے اور جاکے ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم
ان سے کہتے رائے بہادر جی ،نمستے!تو وہ بڑے پیار سے ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ نمشتے
نمشتے کرتے تھے۔ تو وہ باتیں مجھے بہت……اس وقت تک اتنا پتہ نہیں تھا کہ کیا ہے لیکن
رفتہ رفتہ پھر احساس ہو گیا کہ نہیں ہم الگ ہیں یہ لوگ الگ ہیں۔ ایک مسلمان ہوتے ہیں ،ایک
آگئی تھی۔ consciousnessہندو ہوتے ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہاں پر کافی
خالدہ حسین :نہیں فکری طور پر نہیں۔ اس میں صرف یہ ہے کہ مجھے ان کے لباس میں بڑا
تھا۔ ساڑھیاں واڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں شروع سے ہی؛ اور باقی ان کا اٹھنا ،بیٹھنا۔ interest
یہ باتیں مجھے اچھی لگا کرتی تھیں اپنی ٹیچرز کی۔ دس سال کی عمر ہوگی میری تب شاید۔ ۔ ۔
خالدہ حسین :جی۔ ۔ ۔ ۔ تبھی سے ہمارے اندر پیدا ہوگئی تھی پاکستان کے لیے محبت اور نعرہ
بازی اور یہ وہ۔ بڑے جلسے جلوس بھی کرتے تھے بچپن میں۔
سوال :آپ نے لکھا ہے کہ وہ جو آپ کی دو سہیلیاں تھیں عائشہ اور افروز ،تو ان کے سامنے آپ
establishmentکو کچھ ایسی شرمندگی سی محسوس ہوتی تھی کہ ہمارے ہاں تو سب لوگ شاید
کے حامی ہیں اور وہ لوگ بڑے باغیانہ خیاالت کے مالک ہیں۔
خالدہ حسین :جی بڑے انقالبی لوگ تھے۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ لوگ وسیع تر دنیاسے تعلق
رکھتے ہیں کیوں کہ وہ مہاجر تھے۔ میں یہ بہت مرعوب ہو کر اور خوف زدہ ہو کر سوچتی تھی
کہ یہ ایک میرے جیسا ہی گھر چھوڑ کے آئے ہیں اور ان کا اتنا بڑا شہر ہوگا اور وہاں کی
عمارتیں ہوں گی اور وہاں کی زندگی ہوگی۔ یہ کتنے بہادر لوگ ہیں کہ اس کو چھوڑ کے یہاں
آگئے اور یہاں پہ اتنے خوش ہیں یہ اور اتنی محبت کرتے ہیں ہمارے ساتھ۔ تو اس کا میرے اوپر
بہت رعب تھا اور میں دبتی تھی بہت زیادہ۔ اور کبھی کبھی مجھے بہت احساس جرم بھی ہوتا
تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ جیسے میں نے انھیں تکلیفیں دی ہیں بہت۔ بعد میں آہستہ آہستہ بڑے
بہت تھی۔ اپنے ساتھ باتیں بھی کیا کرتی تھی۔ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ پانچ بھائی
بہنیں ہیں ہم۔ دو بہنیں ہیں اور تین بھائی۔ میری بہن سب سے بڑی ہیں ،بیچ میں تین بھائی ہیں،
تھی اپنی ماں attachedمیں سب سے چھوٹی ہوں۔ تو چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں بہت زیادہ
بھی بہت تھی۔ کبھی کام نہیں کیا تھا۔ سب لوگ میرے کام کرتے تھے dependentکے ساتھ اور
اور بہت مجھے الڈ پیار میں رکھا۔ گو کہ میں ہمیشہ شکایت کرتی تھی کہ مجھے کوئی نہیں پیار
کرتا۔ کبھی لڑائی ہو جاتی تو میں سوچتی کہ اچھا میں گھر سے چلی جاؤں گی۔ یہ لوگ مجھے
پیار نہیں کرتے۔ پھر ایک دن میں فقیر بن جاؤں گی۔ اور پھر بھکارن بن کر آؤں گی اور انھی
کے گھر پر آؤں گی۔ یہاں آکے ان کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔ پھر وہ باہر نکلیں گے۔ مجھے
پہچانیں گے۔ پھر میں ان سے کہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ تو اس بات پہ آکے تو میں خود ہی رونے لگتی تھی۔
کرتی رہتی تھی بیٹھ کے۔ دوسرے مجھے ایک خوف تھا۔ سب سے زیادہ imagineیہ میں
خوف جو مجھے زندگی میں تھا وہ ماں سے جدا ہونے کا۔ مجھے لگتا تھا کہ کہیں میں basic
اپنی ماں سے جدا نہ ہو جاؤں۔ بہت زیادہ تھا۔ شروع سے ہمیشہ سے ،یہ خوف رہا تھا۔ تو اس کا
میری شخصیت پر بہت اثر ہوا ،مجھے لگتا ہے۔ میرے دل کے اندر جدائی کی اور اپنے پیاروں
کے بچھڑنے کی بہت دہشت ہے ،بہت زیادہ۔ یہ چیزیں بس زندگی میں اسی طرح ہوتی ہیں۔ پھر
یہ کہ ہمارا بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن بہت اچھا گزرا۔ بہت ایک دوسرے کے قریب تھے۔ بہت
کھیلتے تھے۔ اتنا کھیلے ہیں میں اور میرے بھائی۔ میری بڑی بہن تو ددھیال میں رہتی تھیں۔ وہ
ذرا ہم سے کچھ دور رہیں۔ لیکن ہم چاروں ،میں اور میرے بھائی ،بہت کھیلتے رہے ،بہت کھیال
ہم نے۔ تو بہت زیادہ یگانگت ہماری تھی۔ بچپن کے تاثرات بہت زیادہ گہرے رہے اور اب تک یاد
ہے۔ یعنی تاثرات اور محسوسات جو ہیں وہ آپ کو اتنی وضاحت سے یاد ہیں۔ چیزوں کی نسبت
تاثرات زیادہ گہرے ہیں آپ کی تحریروں میں۔ مثََال آپ کوئی خارجی واقعہ بھی بیان کرتی ہیں تو
ہیں یا جس feelingsاس میں اس کے معروضی حقائق کم نظر آتے ہیں اور اس پہ جو آپ کی
طرح وہ آپ کو نظر آرہا ہے ،آپ کی نظر اس میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات
ہے۔ اس بات پر مرزا اطہر بیگ بھی آپ کے بہت قائل ہیں آپ کو معلوم ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ
deepخالدہ حسین میری پسندیدہ رائٹر ہیں کیوں کہ وہ اتنی space کرتی ہیں create
اپنے افسانوں کے اندر کہ ایک اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔ تو آپ کو معلوم ہے یہ بات؟ آپ ایسا
خالدہ حسین :نہیں یہ شعوری طور پر نہیں ہوتی۔ میں تو صرف اپنے احساسات بیان کرتی ہوں۔
یہی چیزیں مجھے متاثر کرتی ہیں تو اسی طرح بیان کر دیتی ہوں۔ تو یہ میرا خیال ہے کہ شاید یہ
بھی ہو ،جوکہتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کی کوئی انفرادیت ہوتی ہے تو شاید یہی میرے تجربے
کی انفرادیت ہے کہ اتنی وضاحت کے ساتھ اور اتنی تفصیل کے ساتھ اور ماحول اور مکان اور
کرتے ہیں ،بہت زیادہ۔ hauntجگہیں ،مقامات ،یہ مجھے بہت متاثر کرتے ہیں ،بہت زیادہ۔ بہت
تو یہ میرا خیال ہے پیدائشی طور پر لوگ ہوتے ہوں گے ایسے۔ لوگوں کو ہوتا ہے۔
خالدہ حسین :دراصل شوق تو تھا۔ کہانیاں پہلے سنتی تھی۔ اس کے بعد جب کوئی چھٹی ساتویں
جماعت میں آئی تو اسکول کی الئبریری سے کتابیں لینی شروع کیں۔ تبھی میری دوستی کچھ
ایسی لڑکیوں سے ہو گئی جو ادھر سے آئی تھیں۔ بہت زیادہ ادبی ذوق تھا ان لوگوں میں۔ ایک تو
میری دوست بہت گہری ہیں وہ زاہد ڈار کی بہن ،ریحانہ ڈار۔ وہ لدھیانہ سے ہجرت کر کے ادھر
آئے تھے تو میری اور ان کی بہت دوستی ہو گئی۔ اب تو وہ لندن میں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بہت
پڑھنے لکھنے والے تھے ،بہت زیادہ۔ ان کے گھر میں کتابوں کا بہت چرچا تھا اور بہت کتابیں
ادب کا پتہ latestہوتی تھیں۔ تو میں ان سے کتابیں لے کے پڑھتی تھی۔ ان کے ذریعے مجھے
رہتا تھا کہ آج یہ ہو رہا ہے۔ آج وہ ہو رہا ہے۔ ہر کتاب ان کے گھر آتی تھی۔ ریحانہ کے پاس
آتی ،ریحانہ سے میرے پاس آتی۔ باقی ہم اسکول کی الئبریری سے لیتے۔ توپڑھنے کا خبط ہو گیا
تھا بس۔ وہ پڑھتے اور تب یہ کہ ترقی پسند ادب بہت فیشن میں تھا تو وہ بھی پڑھتے۔ عصمت
چغتائی کو بہت پڑھا ہم لوگوں نے مل کے۔ پھر قرۃ العین کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی طرح پڑھنے
کے ساتھ ہی پھر مجھے کچھ احساس ہوا کہ چلو میں بھی لکھتی ہوں۔ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے
لکھنا شروع کیا تو وہ پھر اپنے دوستوں کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ ہاں ہاں ،لکھو لکھو ،چلو
خالدہ حسین :میں نے میٹرک میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور میٹرک میں ہی تھی جب میری پہلی
کہانی چھپی ہے اور وہ بڑے چھوٹے سے رسالے میں چھپی تھی۔ اس کے بعد پھر دو تین کہانیاں
اور میں نے اس طرح لکھیں ،اسی میں چھپیں لیکن میں فورََا اس کے بعد خبردار ہوگئی کہ نہیں
کی کہانیاں نہیں لکھنیں۔ اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے یا یہ میری typeمجھے اس
فطرت کے مطابق نہیں ہے۔ بہت ترقی پسند کہانیاں لکھتی تھی کچھ اس طرح کی۔ بہت غریب
لوگ ہیں اورکوئی بیوہ ہے ،کوئی بیمار ہے۔ اس طرح کی دو تین کہانیاں لکھیں۔ پھر مجھے لگا
کہ نہیں یہ میری اصل فطرت نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب میں نے زیادہ پڑھنا شروع کیا تو
مجھے پتا چال کہ ادب تو بہت وسیع چیز ہے اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے اور وہ لکھنا
چاہیے جو میں خود محسوس کرتی ہوں۔ پھر ترقی پسندی کو میں نے چھوڑ دیا۔
سوال :تو وہ کن رسالوں میں چھپی تھیں؟
خالدہ حسین :تھا ایک رسالہ۔ میں ویسے بتایا نہیں کرتی لوگوں کو۔ میری ایک کالس فیلو ہوتی
تھی اس کا نام حامدہ تھا۔ اس کی واقفیت کسی سے تھی جو رسالہ’’حرم ‘‘ چھاپتے تھے۔
’’حرم‘‘ ہی میرا خیال ہے نام اس کا۔ وہ کہانیاں لکھتی تھی اور اس میں بھیجا کرتی تھی۔ اس نے
پھر مجھ سے کہا کہ خالدہ تم بھی لکھو ،میں تمھاری کہا نیاں چھپواؤں گی۔ میں نے کہا ٹھیک
ہے۔ میں وہ لکھ کے اس کو دے دیتی تھی تو وہ حرم میں چھپواتی تھی۔ پھر بعد میں مجھے پتہ
چال کہ یہ تو کوئی خاص ادبی رسالہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے کہیں پہ ایک
پڑھا تھا کہ کسی نے یہ حوالہ دیا تھا کہ یہ بتاتی نہیں ہیں ،ان کی کہانیاں ’’حرم‘‘ reference
میں چھپنا شروع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بڑی پتے کی ،بہت دور کی بات لے کے آیا
ہے۔
خالدہ حسین :ہاں خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھی۔ بس اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر ’’ادِب
لطیف‘‘ میں میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تب مرزا ادیب تھے اس کے ایڈیٹر۔ تب سے میں نے
خالدہ حسین۱۹۶۲ :ء میں ،پنجاب یونی ورسٹی اوریئنٹل کالج سے۔
سوال :تو کون سے اساتذہ سے پڑھا آپ نے؟
خالدہ حسین :ہمارے ہیڈ تو ڈاکٹر سید عبدہللا تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تھے۔ وحید قریشی تھے
خالدہ حسین :جی بالکل مالزمت کی۔ لیکچرار بننے کے بعد میں نے الہور کالج میں مالزمت کی
دو تین سال۔ بس اس کے بعد ۲۷نومبر ۶۵ء کو میری شادی ہو گئی تو مالزمت چھوڑ دی۔ پھر
بہت عرصے کے بعد میں نے کراچی میں جاکے ۸۰ء یا غالبََا ۷۹ء میں شروع کی دوبارہ۔ وہاں
شاہین کالج میں۔ پھر اس کے بعد میں باقاعدہ مالزمت کرتی رہی۔ ۹۷ء میں پھر میں PAFپہ
خالدہ حسین :مالزمت کا۔ ۔ ۔ اچھا رہا۔ ۔ ۔ ۔ اچھا لگا مجھے۔ ۔ ۔ لیکن یہ تھا کہ کراچی میں میں بہت
خوش تھی کیوں کہ کراچی کے ماحول میں اور اسالم آباد کے ماحول میں بہت فرق تھا۔ کراچی
شاہین کالج ،بہت چھوٹا تھا ، PAFمیں یہ تھا کہ ہمارے کالج میں بھی؛ حاالنکہ چھوٹا سا کالج تھا
صرف سیکنڈ ایئر تک تھا۔ بیرکس تھیں کوئی ،اس میں انھوں نے کھوال ہوا تھا۔ تھوڑے سے
genuineکالس رومز تھے اور تھوڑا سا اسٹاف تھا لیکن وہ اتنے اچھے لوگ تھے اتنے زیادہ
لوگ تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ سب لوگ مخلص اور اپنے کام کے ساتھ بھی مخلص تھے۔
وہاں پر ہمارا بہت ادبی ماحول ہوتا تھا۔ یہ یاد ہے کہ میری ساری دوستیاں جو تھیں وہ ان ٹیچرز
کے ساتھ تھیں جو سائنس پڑھاتی تھیں۔ وہ سائنس پڑھاتی تھیں لیکن ادب کو اتنا اچھا سمجھتی
تھیں وہ اور اتنا ان میں شعور تھا کہ بڑی حیرت ہوتی تھی۔ ایک میری دوست تھی اب تو پتہ نہیں
وہ مجھے یاد کرتی ہوگی کہ نہیں ،وہ بیالوجی کی ٹیچرتھی ،شہناز۔ وہ میری کہانیاں پڑھتی تھی
اور اتنا اچھا تجزیہ ان کا کرتی تھی اور اتنی اچھی تنقید کرتی تھی کہ میں حیران ہو جاتی تھی
اس کی بصیرت پہ۔ اسی طرح اور تھیں۔ ایک کیمسٹری پڑھاتی تھیں ،روحی۔ پھر بعد میں وہ
پرنسپل بھی ہو گئیں۔ ان کا بھی بہت ادبی ذوق تھا۔ ایک صاحب ہمارے ساتھ تھے جو اسالمیات
highlyپڑھاتے تھے۔ بہت آدمی تھے ،طارق۔ وہ بھی اتنے زبردست سمجھنے intellectual
والے ادب کو۔ ۔ ۔ ۔ تو وہاں پہ میں بہت خوش تھی۔ ہم لوگ بہت ادب کی باتیں کرتے۔ ۔ ۔ ہم باتیں
نہ بھی کرتے ادب کی تو آپس میں ہماری گفتگو بہت اچھی ہوتی تھی۔ وہاں سے میں یہاں آئی تو
مجھے لگتا تھا میرا دماغ اڑ جائے گا۔ یہاں پہ تو میں حیران ہو گئی۔ کوئی کتاب کی بات نہیں
کرتا تھا ،کوئی پڑھنے لکھنے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ جب میں نے
لوگوں کو بولتے ہوئے سنا ،ان کا لہجہ سنا ،تو میرا دل بیٹھ گیا۔ وہاں کراچی سے میں اتنی شستہ
زبان اور لہجہ سنتی ہوئی آئی اور یہاں آکے۔ ۔ ۔ ۔ بہت مشکل سے میں نے اپنے کانوں کومانوس
کیا ان کے لہجوں سے۔ اور اس کے بعد پھر یہ تھا کہ ایک آدھ بندہ ہوتا تھا جو کتاب کی بات کرتا
تھا۔ اس لیے میں یہاں پر اپنے آپ کو ِم س فٹ ہی محسوس کرتی رہی۔ کیوں کہ یہاں پر ذہنی طور
خالدہ حسین :میری کہانیاں تو ۶۰ء کی دہائی میں چھپنا شروع ہوئیں۔
خالدہ حسین :مجموعہ میرا خیال ہے ۸۰ء میں آیا تھا۔ ۸۰ء یا ۷۹ء۔ بہت دیر میں آیا وہ
مجموعہ’’پہچان‘‘۔ اس کے بعد ’’دروازہ‘‘ پھرجلدی آگئی تھی۔ پھر باقی جلدی آتی رہیں لیکن
خالدہ حسین :جی ہاں پانچ اور ایک یہ جو آپ کے سامنے ہے کلیات۔ لیکن اب ایک اور مجموعہ
میرا تیار ہو گیا ہے۔ آصف فرخی شاید چھاپ دیں۔ دو سال تو ہو گئے ہیں وہاں پڑے ہوئے مسودہ۔
خالدہ حسین :ہاں! وہی افسانے ان کو میں بھجواتی رہتی ہوں۔ کچھ میرے پاس پڑے ہیں ،کچھ
تراجم کیے ہوئے ہیں میں نے ،وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں۔
خالدہ حسین :تراجم۔ ۔ ۔ ۔ جو کہانیاں مجھے اچھی لگتی تھیں انگلش میں ،تو وہ ترجمہ کر دیتی
سوال۶۰ :ء کی دہائی میں جب آپ نے لکھنا شروع کیا تو آپ الہور میں تھیں اس وقت الہورمیں
بڑی زبردست ادبی سرگرمیاں تھیں۔ بہت جان دارفضا تھی ،اہم لوگ تھے۔ اس شہر میں آپ کے
خالدہ حسین :سب بہت اچھے تھے لیکن مسئلہ وہی تھاکہ ہمارے خاندان میں ،ہماری تہذیب کا
جزو نہیں تھا ادب اور ادبی لوگ۔ ہم ادب پڑھتے تھے۔ میرے والد تو بہت زیادہ باذوق آدمی تھے۔
شاعری میں اور ہر چیز میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ کہیں مشاعرے ہوتے تو مجھے لے کے
جاتے؛ سناتے سب۔ لیکن اپنے گھر میں یہ چرچا نہیں تھا۔ یہ نہیں تھا کہ بھئی آپ ادب لکھتی ہیں
تو ادیبوں کو بالئیں یا ملیں جلیں یابے تکلفی سے باہر چلی جائیں یا آپ جلسوں ولسوں میں
تھا کہ نہیں جائیں گے۔ لٰہ ذا ہم understoodخالدہ حسین :نہیں۔ اب اجازت کا مطلب یہ کہ
پوچھتے ہی نہیں تھے۔ پوچھا ہی نہیں تھا کبھی۔ مشاعرے وشاعرے سننے چلے جاتے تھے لیکن
خود بولنے کا نہیں تھا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ۶۵ء یا ۶۴ء تھا کہ پہلی دفعہ میں نے ہمت کر
کے حلقۂ ارباِب ذوق میں پڑھی کہانی۔ وہ کہانی ’’سواری‘‘ تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ اب بہت
مسئلہ تھا کہ کیسے جائیں؟ میرے والد صاحب مجھے لے کے گئے وہاں۔ مجھے بڑی حیرت
ہوتی ہے۔ اب بھی میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ میرے والد جو تھے بہت ادبی
ذوق کے آدمی تھے۔ ۔ ۔ بہت زیادہ۔ تھے تو سائنٹسٹ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی تھے کیمسٹری میں اور وائس
چانسلر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی الہور میں۔ تو ساری زندگی انھوں نے سائنس پڑھی ہے۔
لیکن ان کے دوست بھی بڑے باذوق تھے۔ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ چلو میں تمھیں لے کے
چلتا ہوں۔ تو کہاں وہ اتنے بڑے آدمی ،سفید بال اور کہاں وہ حلقۂ ارباِب ذوق ،آپ نے دیکھا ہی
ہوگا کہ کیسی بے تکلف سی جگہ ہوتی ہے ،وہ لکڑی کی کرسیاں اور دھواں دھواں ،وہ سگریٹ،
ماحول بھی ویسا؛ لیکن وہ مجھے لے کرگئے تھے۔ اب بھی میں یاد کرتی ہوں تو کہتی ہوں کہ
دیکھو ان کا کتنا بڑا دل تھا کہ انھوں نے یہ سوچا ……وہ بہت قدر کرتے تھے میرے ٹیلنٹ کی۔
وہ پھر مجھے لے کے گئے۔ میں نے کہانی پڑھی۔ وہاں پسند کی گئی تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔
خالدہ حسین :ہاں قدسیہ آپا جو تھیں وہ میری بڑی بہن کی بہت دوست تھیں۔
سوال :انھوں نے کہیں ذکر بھی کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ آپ کے سائیکل چالنے کا ذکر کیا ہے۔
خالدہ حسین :ہاں ان کے ساتھ یہ تھا کہ بہت دوستی تھی۔ ہم لوگ بہت خوش رہتے تھے ،ملتے
جلتے آپس میں ،بڑے ڈرامے ورامے ہوا کرتے تھے اور انھوں نے ڈرامے بڑے اسٹیج کیے
تھے۔ میری بہن نے بھی کام کیا اور وہ (بانو قدسیہ) انار کلی بنیں اور میری بہن کو شہزادہ سلیم
خاتون ہیں بانو قدسیہ ،بلکہ تھیں اب تو وہ livelyبنایا۔ تو ہم بہت مزے کیا کرتے تھے۔ بہت ہی
بہت محبت کرنے والی۔ پھر خواتین میں میں الطاف talented،بہت سنجیدہ ہو گئی ہیں۔ بہت
فاطمہ سے ملتی تھی۔ بہت اچھی خاتون ہیں وہ۔ کشور سے بھی مالقات ہوتی تھی۔ باقی یہ تھا کہ
کسی محفل میں جو لوگ مل جاتے تھے۔ اب اگر میں کسی کا نام بھول گئی تو بہت مسئلہ ہو
جائے گا۔
سوال :الطاف فاطمہ کی بہن نشاط فاطمہ بھی بہت اچھا لکھتی ہیں۔
خالدہ حسین :جی! بہت اچھا لیکن ان سے میری مالقات نہیں ہوئی۔
خالدہ حسین :جمیلہ ہاشمی سے ملی۔ وہ خود بہت اچھی تھیں۔ میرے گھر بھی آئی تھیں اورمیں تو
خالدہ حسین :نہیں۔ سنا تھا کہ وہ ذکر بھی کرتی تھیں میرا ،جب پاکستان آئی تھیں تو۔ لیکن میں
نہیں جا سکی۔
سوال :اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر بہت بڑا نام ہے۔ ان کے بعد اردو فکشن میں جن لوگوں کا
نام لیا جاسکتا ہے ،ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ آپ نے بہت گہرائی سے فکشن پر اپنا ایک نقش
بنایا ہے۔
خالدہ حسین :بہت شکریہ لیکن مجھے بہت خوشی ہے اس بات کی کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا
ہوا ہے۔ وہ مجھے جانتی تھیں بلکہ میرا نام بھی انھیں معلوم تھا۔ انھوں نے مجھے پڑھا بھی تھا۔
میں چھپی تھی۔ جانتی تھیں وہ مجھے؛ اور جب پاکستان آئی تھیں تو انھوں نے میرے India
بارے میں پوچھا بھی تھا۔ لیکن بس میں کچھ وجوہات سے نہیں جا سکی۔ تو اس بات کی مجھے
بہت خوشی ہے۔ پچھلے دنوں پتہ نہیں کس کی کتاب تھی ،اس کے پیش لفظ میں یہ باتیں لکھی
ہوئی تھیں کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا تھا ،پوچھا تھا۔ کہا تھا کہ میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ تو
خالدہ حسین :بس ایسا ہے کہ میرا گھرانہ جو ہے نا ،دیکھنے میں تو ہم بڑے پڑھے لکھے اور
قسم کے لوگ ہیں ،بڑی تعلیم ہے اور سب کچھ ہے لیکن ہمارے ہاں تھوڑی enlightenedبڑے
ہیں۔ اس طرح نہیں کہ بس ُاٹھے اور چلے گئے reservationsسی رکاوٹیں بھی ہیں۔ تھوڑی سی
کہیں پر یا زیادہ ملنا جلنا۔ ملنا جلنا تو پتہ نہیں ،مجھے نہیں سمجھ کچھ ،ہوتا ہے کہ ہاں بھئی!
کہاں جا رہی ہو؟ کیوں جا رہی ہو؟ کس سلسلے میں جا رہی ہو؟ یہ بھی بتانا پڑتا ہے۔ اب تو خیر
نہیں اب تو کیا پوچھنا کسی نے۔ اب تو میں اٹھوں اور چلی جاؤں۔ وہ زمانہ تھا اس میں ہوتا تھا۔
خالدہ حسین :ہاں اب یہ ہے کہ اب عادت ہو گئی ہے۔ اب میں کہتی ہوں کہ میرے ساتھ کوئی ہو تو
مجھے لے جائے۔ اکیلے نہیں جا سکتی اور یہاں پہ ایسا کوئی ہے نہیں جو مجھے لے کے جائے
گھر سے۔
خالدہ حسین :شروع میں تو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بس پھر عادت ہو گئی کہ یہ بس اسی طرح ہی
ہے۔ پھر عادت ہوگئی۔ بس پھر اخبار پڑھتے تھے ،لوگوں سے سنتے تھے کہ کیا ہوا کیا ہوا؟
اچھا! ادھر سے رپورٹ پڑھ لی۔ ادھر سے پڑھ لی۔ تو بس۔ ۔ ۔ ویسے میں جاتی بھی رہی ہوں
کرتا تھا۔ کبھی dependیہاں فیسٹیولز میں کافی عرصہ گئی ہوں۔ لیکن بس وہ لوگوں کے موڈ پر
ہوتا تھا کہ ہاں بھئی جاؤ۔ کبھی ہوتا تھا کہ نہیںِ کیا کرنا ہے؟
کر لیتا ہے senseخالدہ حسین :پابندی تو خیر ایسی نہیں تھی لیکن ایک چیز ہوتی ہے نا کہ بندہ
کہ پسند نہیں کرتے اس چیز کو۔ پھر مجھے وہ بہت برا لگتا۔ دل میرا خفا ہو جاتا۔ میں کہتی کیا
فائدہ؟ جب کوئی چیز کوئی پسند نہیں کر رہا تو میں نہیں کرتی۔ امن پسند بہت ہوں۔ ۔ ۔ شروع
سے۔
سوال :خالدہ آپا آپ کس ادیب سے متاثر ہوئیں؟ کسی بھی زبان کے؟
خالدہ حسین :ہاں۔ ۔ ۔ اب یہ بات ہے کہ۔ ۔ ۔ یہ ویسے سوال ہے بڑا مشکل۔ ایک توقرۃ العین حیدر
ہیں۔ پھر انتظار حسین کو بہت شوق سے پڑھا اور باقی جو مغربی ادیب ہیں زیادہ۔ غالبََا ۶۰ء کی
دہائی میں ہی میں ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھا کرتی تھی ،چھوٹے چھوٹے افسانے۔ تو وہاں پر
لوگ میری کہانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ پھر کسی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو چند
رائٹرز کے نام بتاتا ہوں آپ انھیں ضرور پڑھیں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے مزاج کے
کیے۔ تب میں نہیں suggestرائٹرز کے نام existentialistساتھ مطابقت ہے۔ انھوں نے مجھ کو
کیا ہوتا ہے۔ حاالنکہ میں نے فالسفی وغیرہ پڑھی تھی۔ سب کچھ existentialismجانتی تھی
کا نہیں پڑھا تھا۔ وہ انھوں نے مجھے کہا۔ میں نے existentialismتھا ،لیکن میں نے لٹریچر
الئبریری سے اور کہیں ادھر ادھر سے کتابیں لیں۔ سب سے پہلے جو میں نے کہانی پڑھی
مجھے لگا کہ جیسے ایک بالکل نئی دنیا میں پہنچ گئی ہوں۔ مجھ پر اتنا اس کا اثر ہوا ،بہت شدید
اثر۔ آج تک کسی چیز کا ،کسی تحریر کا مجھ پہ اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا جتنا اس کہانی کا ہوا
تھا۔ مجھے بالکل یوں لگے کہ جیسے ایک نئی دنیا کا دروازہ مجھ پر کھل گیا ہے اور یہی تو
میں سوچ رہی تھی۔ یہی تو میں محسوس کرتی آئی ہوں جو مجھے کسی نے آج تک بتایا ہی نہیں
تھا اور یہ ہے وہ چیز۔ اور اس کا مجھ پہ اتنا زیادہ شدید اثر ہوا کہ بہت عرصے تک میں اس کے
میں رہی۔ پھر میں نے سارتر کو پورا پڑھا۔ لے کے ساری اس کی کتابیں وتابیں۔ گو کہ spell
shortاس کے بعد باقی چیزوں کا مجھ پہ اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ اس کی کا ہوا تھا۔ پھرstory
تھے۔ کامیو کو پڑھا۔ اس کو پڑھاِ ،اس existentialistمیں نے باقی لوگوں کو پڑھا۔ جتنے بھی
کو پڑھا۔ سارے لوگوں کو۔ تو یہ جو باہر کے لکھنے والے ہیں ان میں تو یہ لوگ زیادہ ہیں جن
کا مجھ پہ اثر ہوا۔ اپنے لکھنے والوں میں قرۃ العین ہیں۔ اور باقی داستانوی ادب پھر پڑھنا شروع
کیا دوبارہ سے؛ کہ کبھی بچپن میں دیکھا تھا لیکن اب دوبارہ پڑھا تو اچھا لگا۔ کتاب جو بھی
سوال :آپ کو یہ خیال کیوں آیا کہ آپ افسانے لکھیں؟ مثََال آپ شعر بھی کہہ سکتی تھیں۔
خالدہ حسین :ہاں! میرا خیال ہے کہ ایک تو میری طبیعت کہانی کی طرف مائل تھی۔ دوسرا یہ کہ
مجھے لگتا تھا کہ ہمارے ماحول میں شاعری پر زیادہ پابندی ہے بہ نسبت نثر نگاری کے۔
سوال :اچھا؟
خالدہ حسین :ہوں… کیوں کہ شاعری یہ ہے نا کہ آپ جائیں لوگوں میں ،مشاعروں میں جائیں،
کالم پڑھیں ،واہ واہ ہو ،آنا جانا ،یہ ،وہ۔ سوشل الئف ہے اس میں بہت زیادہ۔ ہمارے گھر میں نہیں
تھا ایسا دستور۔ تو مجھے پتہ تھا یہ نہیں چلے گی۔ اس لیے میں اس طرف نہیں گئی۔ ویسے بھی
میرا یہ خیال تھا کہ شاعری میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور میں اس کی تکنیک نہیں سیکھ سکتی۔
کیوں کہ میں یہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ بغیر تکنیک کے بھی شاعری ہوتی ہے۔ وہ تو اب ہو
نے لگی ہے۔ تو مجھے تو یہی پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے اور ہمارے گھر میں بھی لوگ
کہتے تھے کہ جی اس کے تو بڑے عروض ہوتے ہیں اوروہ یاد کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ ہوتا
ہے۔ تو مجھے پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے۔ تو اس طرف اسی لیے نہیں گئی لیکن پڑھی
تھا ،وہ شاعری تھی۔ اتنی اتنی بیاضیں بنائیں میں نے۔ crazeبہت۔ شروع میں میراجو
باتیں ہیں۔ میں نے اتنی اچھی بیاض بنائی تھی۔ پھر وہ میں tragicخالدہ حسین :نہیں۔ وہ بڑی
شادی کے بعد اپنے ساتھ بھی لے آئی تھی۔ رکھی ہوئی تھی اپنے پاس۔ پھر کسی دن کسی بات پہ
غصہ آیا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے وہ چاک کر دی۔ پھینک دی۔ اس کا مجھے بہت رنج ہے،
تھی وہ۔ collectionاب تک ہے کہ کاش وہ میں نے سنبھال کے رکھی ہوتی۔ اتنی زیادہ اچھی
خاصی موٹی ،ضخیم تھی وہ۔ تب تو ابھی ان لوگوں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا۔ ضیا جالندھری
اور احمد فراز وغیرہ کی نئی نئی چیزیں آتی تھیں۔ تو ان کے مجموعے تو تھے نہیں میں رسالوں
کی collectionمیں سے دیکھ کے ان کی نقل کیا کرتی تھی اپنی بیاض میں اور بہت میں نے
ہوئی تھی لیکن بس وہ غصے میں آکے کر دیا۔ پھر نہیں کبھی بیاض بنائی۔ بس ایسے ہی ہوتی
خالدہ حسین( :خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد) کتابوں سے ہی کی ہے اور تو کچھ
نہیں۔
خالدہ حسین :باقی تو… یا یہ ہے آئیڈیاز ،تصورات …یہ چیزیں ہیں جو زندگی میں ہیں۔
سوال :آپ کو کبھی کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جس سے محبت کی جا سکے؟ ہو جائے؟
خالدہ حسین :کبھی خیال نہیں آیا اس طرف۔ ایک یہ کہ گھر میں ماحول ہی ایسا نہیں تھا۔ ہمارے
گھر میں بڑے ضابطے اور قوانین کے لوگ ہیں اور ہمارے میکے میں بھی۔ بہت زیادہ شروع
سے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی ہر طرح کی تھی لیکن ویسے بڑے ضابطے اور قوانین تھے۔ تو
خالدہ حسین :نہیں ،باہر ہوئی۔ ہم لوگ تو شیخ ہیں۔ شیخ قانون گو اور وہ جو ہیں ذات کے برہمن۔
ٹوڈر مل سے جا کے ہمارا شجرۂ نسب ملتا ہے لیکن یہ لوگ تو خواجہ ہیں کشمیری جن کے گھر
خالدہ حسین :ہاں رہی لیکن بہت کم۔ پھر ان کی پوسٹنگ باہر ہوگئی لیکن یہ ہے کہ مجھے کوئی
ایسی دشواری پیش نہیں آئی کیوں کہ جو ان کی والدہ تھیں وہ بہت ہی اچھی خاتون تھیں ،بے حد۔
بے انتہا اچھی تھیں اور میرے سسر جو تھے وہ بڑے سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ تو وہی حال
تھا… آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں…جب کبھی ہماری کوئی لڑائی ہوتی تو میری ساس
مجھے گلے سے لگا کے اتنا پیار کرتیں ،اتنا روتیں بیٹھ کے۔ اتنی پیاری تھیں وہ… کیا بتاؤں۔
بہت مجھے پیار کرتی تھیں۔ کبھی ہو جاتی تھی لڑائی وڑائی۔ آ لینے دو اس کو ،میں اس کو سیدھا
mechanicalخالدہ حسین :میرے میاں میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ جب میری شادی engineering
ہوئی ہے تو یہ ریڈر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی میں۔ بعد میں پھر یہ داؤد کالج ،کراچی کے
پرنسپل ہو گئے۔ وہاں سے یہ جوائنٹ سیکرٹری ہو کر ادھر اسالم آباد آگئے۔ بس پھر اسی پوسٹ
خالدہ حسین :ذہنی ہم آہنگی؟ ذہنی ہم آہنگی اتنی ہوسکتی ہے جتنی زمین اور آسمان میں ہے۔ وہ تو
تو چلنا ہی ہے لیکن ایک بات ہے differenceبس پہچان لیا ایک دوسرے کی طبیعت کو؛ کہ یہ
خالدہ حسین :ہاں ہاں پڑھ لیتے ہیں۔ میرے سامنے نہیں پڑھتے۔ چھپ چھپا کے پڑھ لیتے ہیں اور
بھی کرتے ہیں۔ شروع میں نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں کرنے لگے کہ ہاں encourageپھر
خالدہ حسین :پابندیاں۔ ۔ ۔ لکھنے پہ نہیں۔ پڑھنے لکھنے سے نہیں روکا لیکن آنے جانے پر۔ باہر،
محفلوں میں آنا جانا۔ وہ تو میرے میکے میں بھی تھیں کہ اتنی زیادہ آزادی نہیں تھی۔ یہاں بھی
شروع میں نہیں تھی لیکن اب تو انھوں نے… جا چھوڑ دیا حافِظ قرآن سمجھ کر… مایوس ہو
سوال :مطلب یہ کہ ذہنی ہم آہنگی نہ بھی ہو ،مختلف ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی انسان ایک
خالدہ حسین :میں بھی کرتی ہوں۔ میں بھی کرتی ہوں۔ بہت زیادہ کرتی ہوں۔
ہیں۔ عام imaginativeسوال :تو آپ کو گھٹن تو محسوس نہیں ہوتی تھی جب کہ آپ اتنی زیادہ
لوگوں سے کہیں زیادہ۔ آپ کے تصور کی جو وسعت ہے ،اس کا کچھ کچھ اظہار ہوتا ہے آپ کی
کتابوں میں ،مگر یہ ساری وسعت تو ان میں بھی نہیں سما سکتی۔
خالدہ حسین :ہاں ہوتی ہے کبھی کبھی۔ تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھا
اگر میں یہ بات کروں گی تو مجھے بے وقوف سمجھیں گے ،پاگل کہیں گے کہ یہ کیا باتیں ہیں۔
بس میں کبھی کرتی بھی نہیں ہوں ان کے ساتھ ایسی بات۔ تو ہوتی ہے کبھی کبھی لیکن پھر یہ
ہوتا ہے کہ زندگی بھر کوئی نہ کوئی ایک اچھی فرینڈ ضرور رہی ہے۔ تو اس کے ساتھ پھر میں
بات کر لیتی ہوں۔ کوشش کرتی ہوں کہ بات ہو جائے۔ آج کل میری عطیہ سید کے ساتھ بہت
ہے۔ وہ فالسفی کی ہے۔ ویسے تو کولیگ understandingدوستی ہے۔ اس کے ساتھ میری بہت
بھی رہے ہیں۔ ہم لوگ اکٹھا پڑھاتے رہے ہیں۔ تو بہت زیادہ اس کے ساتھ ہے۔ اب تک ہے۔ بات
وات کرتے ہیں ،ملتے ہیں۔ اس کے عالوہ کولیگز میں بھی مل جاتی تھی کوئی نہ کوئی۔ ایک آدھ
دوست ایسی رہی ہے جو کہ بات سمجھتی تھی پھر اتنا نہیں محسوس ہوتا۔ پھر میرے بچے بہت
سمجھتے ہیں۔
سوال :بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
طبیعت کے ہیں۔ (بھرائی ہوئی آواز creativeاور sensitiveخالدہ حسین :بچے میرے بہت
creativeمیں) بیٹا میرا بہت زیادہ تھا۔ بہت ہی کا اور اس نے بھی لکھنا شروع کیا تھا mind
لیکن پھر چھوڑ دیا۔ پہلے وہ انگلش میں لکھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا اور ایک دم سے ساری
چیزیں چھوڑ کے دین کی طرف آگیا۔ وہ بھی میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ ہے کیوں کہ بڑا بیٹا
پھر جب وہ دین کے راستے پر گیا تو اس طرف بھی وہ پھر اتنی ہی زیادہ لگن کے sensitive
ساتھ گیا اور اس نے ایک دم سے اپنی زندگی بدل دی۔ تو شروع میں تو ہم لوگ برداشت ہی نہیں
کر سکے۔ ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ ہم نے اس کی بہت مخالفت کی۔ اب مجھے بہت
افسوس ہوتا ہے کہ شروع میں اس نے بڑی تکلیفیں سہی ہیں اپنے آئیڈیل کے لیے اور اپنے ایمان
کے لیے۔ کیوں کہ دیکھیں نا گھر میں ایک دم سے اجنبی ہو جانا۔ اس کی ہر بات ہمیں عجیب
لگتی تھی۔ اس نے لباس بدل دیا اپنا۔ پینٹ شرٹ ختم کر دی۔ شلوار قمیص پہنی۔ عمامہ پہن لیا اور
بالکل خاکسارانہ زندگی۔ کم کھانا ،کم سونا ،عبادت کرنی۔ ہر چیز میں شرع کی پابندی۔ یہ ہمارے
لیے شروع میں اتنا بڑا انقالب تھا۔ اس کی بہت مخالفت کی لیکن وہ اتنا ثابت قدم تھا۔
ہے نا راولپنڈی میڈیکل کالج ،اس میں ماحول تھا تبلیغ کا۔ RMCخالدہ حسین :یہ جو ہمارا
خالدہ حسین :نہیں ،پابندی نہیں لگاتا تھا ،بس صرف کہتا تھا۔ ہمیں کبھی اس نے یہ نہیں کہا۔ وہ
ایسا کرتا تھا۔ ۔ ۔ بہت مہذب بچہ تھا۔ کبھی وہ یہ کرتا تھا کہ خود ہی انتظام کر لیتا تھا ادھر ،کسی
عالم کو لے آتا تھا کہ امی آج یہاں وعظ ہوگا۔ میں نے کہا ،اچھا ٹھیک ہے۔ پھر وہ راستے میں
پردہ لگا دیتا تھا اور مجھے کہتا تھا امی آپ ادھر بیٹھ جائیں۔ تو وعظ ہوتا تھا اور لوگ آتے تھے
سننے کے لیے۔ یہ لوگ بہت اچھا وعظ کرتے ہیں لیکن آخر میں یہ کہتے ہیں کہ تبلیغ کے لیے
نکلیں۔
خالدہ حسین :ایک بیٹا تھا۔ تین بیٹیاں ہیں۔ ہما ہے بڑی ،وہ تو آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ دوسری
میں اور یاسرہ سب سے چھوٹی ہے۔ بچوں کے Headstartفاطمہ ہے وہ یہیں پر ہوتی ہے ادھر
ساتھ بھی میری بڑی دوستی رہتی ہے۔ سب بچوں کے ساتھ۔ یہ میرا نواسا ہے ،یاسرہ کا بیٹا ،اب
یہ بعد میں مذاق کرے گا ،نانو! آپ اتنا بول رہی تھیں وہاں پہ۔ یہ کہہ رہی تھیں ،وہ کہہ رہی
تھیں۔
سوال :خالدہ آپا! آپ لکھنے پڑھنے کا کام کب کرتی ہیں؟ دن کے کس وقت میں؟
خالدہ حسین :کسی بھی وقت ،جب بھی ،یا تو موڈ ہو جائے ،چلتے پھرتے بھی کر لیتے ہیں ،کہیں
بھی بیٹھ جاتی ہوں۔ اسی لیے میں نے کوئی اتنا زیادہ کام نہیں کیا۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ بہت
کم لکھا ہے۔ جیسے لوگوں کا آفس ہوتا ہے ان کی روٹین ہوتی ہے ،بیٹھتے ہیں ،روزانہ کی
سوال :کیوں؟
خالدہ حسین :کچھ حاالت ہی ایسے نہیں تھے۔ بچے پالے ،بچوں کے ساتھ رہے۔ لوگ پسند نہیں
کرتے نا کہ کتاب لے کے بیٹھ جاؤ۔ کہتے ہیں کہ ہم آئے اور آپ کتاب لے کے بیٹھ گئیں۔ اب تو
سوال :لیکن ماشا ء ہللا آپ کے پانچ افسانوی مجموعے ہیں اور ایک ناول ہے۔ کوئی اور ناول
چاہیے concentrationخالدہ حسین :ناول لکھنے کو جی تو چاہتا ہے لیکن اس کے لیے وہی نا
اور ٹائم بہت چاہیے اور اس میں لگ کے لکھنا پڑتا ہے نا بیٹھ کے۔
خالدہ حسین :کہانی تو نجیبہ اسی طرح ہوتا ہے کہ کوئی چیز متاثر کر دیتی ہے ایک دم سے۔
کوئی چھوٹا سا واقعہ۔ عام طور پر مجھے چھوٹے چھوٹے واقعات کبھی۔۔۔۔ مجھے خوشبوؤں کا
بہت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ناچلتے پھرتے کوئی ایسی خوشبو آتی ہے مجھے بہت دور لے جاتی
کا پورا دفتر کھل جاتا ہے۔ associationsہے۔ تو پھر مجھے وہ پرانے زمانے یاد آجاتے ہیں۔
ہوتی ہیں۔ آئیڈیاز نہیں ہوتے images ،اس سے بھی ہوتا ہے ،آوازوں سے بھی ہوتا ہے اور
خیاالت نہیں ہوتے کہ ہاں بھئی اس واقعے پر کہانی لکھی ،یہ نہیں۔ یہ یا تو تصویریں ہوتی
یا کوئی آوازیں ہوتی ہیں یاکوئی خوشبو ئیں ہوتی ہیں اس سے پھر وہ ساراسلسلہ ہوتا imagesہیں
ہے۔
خالدہ حسین :ساری کہانی تقریبََا اتر جاتی ہے۔ اس میں تبدیلیاں بھی آجاتی ہیں۔ اتر تو آتی ہے
خالدہ حسین :تصوف میں دلچسپی رہی ہے بہت۔ لیکن میں نے باقاعدہ پڑھا وڑھا کوئی نہیں۔ موقع
ہی نہیں مال۔ ویسے ہے کہ صوفیانہ شاعری میں بہت دلچسپی رہی ،پڑھتی رہی اور سنتی رہی۔
کرتی ہے۔ لیکن attractوہ ہے نا کہ جتنی بھی روحانیت ہے جس چیز میں وہ مجھے بہت
تصوف ہوتا ہے اس کا نہیں مجھے پتہ۔ مجھے شوق تو بہت ہے لیکن وہ technicalباقاعدہ جو
سمجھنا اور چیز ہے اور اس سے گزرنا اور چیز ہے۔ technicallyسوال :لیکن تصوف کو
خالدہ حسین :ہاں۔ ۔ ۔ گزر تو سکتے ہیں پڑھنا ذرا مشکل ہے۔
تو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی کیفیت ہوجاتی ہے۔ experienceخالدہ حسین :ہاں
سوال :آپ نے کبھی کوشش نہیں کی کہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی مل جائے؟
خالدہ حسین :دراصل کبھی کوئی نظر نہیں آیا۔ جتنے آس پاس کے لوگ ہیں یا جن کو ہم دیکھتے
ہیں۔ ۔ ۔ زندہ لوگوں میں تو مجھے کبھی کسی پر بھروسہ نہیں ہوا۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ
گئے ہوئے لوگوں میں سے آپ کسی کو مان لیں تو ٹھیک ہے۔ عالمہ اقبال کے ساتھ مجھے بہت
زیادہ لگاؤہے۔ ان کے ساتھ ہے میری روحانی وابستگی۔ کئی لوگ تو ان کو بڑا وہ سمجھتے ہیں
نا کہ بڑے اصالحی شاعر تھے ؛لیکن ان کی جو روحانیت کا پہلو ہے اس کے ساتھ مجھے بہت
، Reconstructionلگاؤہے۔ ان کے لیکچرز کا مجھ پر بہت اثر ہوا تھا۔ وہ جو سات لیکچرز ہیں
of Religious پر ،وہ بھی بہت پڑھے ،غور و فکر سے۔ ان کی روحانیت کا Thought
خالدہ حسین :شاعری میں بھی کالسیکی شاعری بہت پڑھی اور اساتذہ کو بہت پڑھا۔ بس پھر
چھوڑ دیا۔ پھر ایک زمانے میں قرآِن پاک کے ساتھ بھی لگاؤ تھا ،پڑھتی تھی ترجمے کے ساتھ۔
اس میں سے بھی مجھے بہت سی چیزیں ایسی مل جاتی تھیں۔ یوں ہوتا تھا کہ میں سوال کر رہی
ہوں مجھے جواب مل رہے ہیں۔ کبھی کبھی۔ لیکن وہ بھی ایک کیفیت ہوتی ہے جو گزر جاتی
ہے۔ رہتی نہیں ہے ،بہت مختصر سی ہوتی ہے ،جھلک سی ہوتی ہے لیکن بالکل یہی لگتا ہے کہ
ہم سوال کر رہے ہیں اور قرآن جواب دے رہا ہے۔ جب ایسی کیفیت ہوتی تھی ،اس کے بعد پھر
جب میں اپنا ادب پڑھتی تھی ،لٹریچر پڑھتی تھی ،جو رائٹرز بھی مجھے پسند ہیں یاجن کو میں
سمجھتی تھی کہ اچھا لکھتے ہیں ،ان کے ہاں مجھے ایسی باتیں ملتی تھیں جو کہ قرآن کے منافی
ہوتی تھیں ،یا یہ کہ جو مجھے لگتا تھا کہ میرے عقیدے سے مختلف ہیں؛تومجھے بہت تکلیف
ہوتی تھی۔ بہت زیادہ میرا دل دکھتا تھا کہ یہ کیوں ایسا محسوس کرتے ہیں؟ یہ کیوں ایسا کہتے
ہیں۔ پھر میں تنگ آکے چھوڑ دیتی تھی۔ تب بس جذباتی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اب نہیں اتنا ہوتا
مجھے۔ اب مجھے پتہ ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہے۔ جو کسی کا عقیدہ ہے وہ ٹھیک ہے۔ میرا بیٹا
بہت ناراض ہوتا تھا اس بات پہ۔ کہتا تھا ،نہیں امی! بالکل نہیں!عقیدہ ایک ہی ہے۔ کہتا تھا ،یہی
خالدہ حسین :ہاں وہ پڑھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ آخر آخر میں نہیں
پسند کرتا تھا میرا لکھنا۔ کیوں کہ وہ یہ چاہتا تھا اور برمال کہتا تھا کہ راستہ بس ایک ہی ہے۔ اس
راستے پہ آپ آجائیں۔ بس اس کا عقیدہ ایسا تھا۔ بہت پختہ عقیدہ تھا اس کا۔ بڑی بات ہے۔ مجھے
حیرت ہوتی ہے کہ میرے میاں ،ویسے دل کے تو بہت پکے مسلمان ہیں لیکن وہ نمازی وغیرہ
نہیں ہیں۔ میں حیران ہوتی ہوں۔ کہتی ہوں ،ہللا! کیسے ہوگیا یہ؟ پھر میں کہتی ہوں شاید تھوڑا سا
میرا اثر ہو۔ میرے اپنے خاندان میں بہت لوگ تھے اس طرح کے عابد و زاہد۔ بہت زیادہ۔ کئی تو
ایسے ہیں میرے آباؤاجداد میں کہ جن کے باقاعدہ حجرے یا مزار وغیرہ بھی ہیں۔ مجھے اب پتہ
کیا تھا کسی طرح۔ ورنہ inheritچلتا ہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ جیسے میرے بیٹے نے بھی
ہیں ،بہت خوش دل ،تفریح کرنے والے ،ٹی livelyکوئی ایسا ماحول نہیں تھا۔ میرے میاں بہت
خالدہ حسین :ہاں بالکل بچوں کے ساتھ گھمانا پھرانا ،سیریں کروانا ،ادھر لے کے جانا ،کلب چلو،
ُادھر چلو ،یہ کرو ،وہ کرو۔ ہر نئی چیز دکھانی ،اس پہ لے کے جانا ،سیر تماشا ،ہائیکنگ پہ لے
کے جا رہے ہیں۔ کیا کچھ کرتے رہے۔ بہت زیادہ۔ بس کوئی ایک روحانی پہلو جو تھا وہ بچوں
میں آگیا۔
بہت ہے وہ۔ اس کو اکثر intuitiveہے۔ intuitionخالدہ حسین :باقی میری بڑی بچی میں بڑی
چیزوں کا پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ یا تو وہ کوئی خواب دیکھ لیتی ہے
اور پھر مجھے فون کر دیتی ہے۔ ہمیشہ کہتی ہے امی صدقہ دیں ،تو میں دیتی رہتی ہوں۔ جب
بھی خواب ہو ،اس کا فون آتا ہے تو میں کہتی ہوں ہما! تم نے میرا بہت نقصان کروانا ہے۔ پھر
صدقہ؟کہتی ہے امی آپ تھوڑا بہت نکال دیں صدقہ۔ کہتی ہوں اچھا۔ اس میں ہے روحانیت۔
خالدہ حسین :ہاں ملتا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے جب دل بہت صاف ہو۔ دل نہیں صاف ہوتا۔ پتہ نہیں
ہوتا ہے جب میں لکھتی ہوں میں کہتی ہوں اس وقت conflictکیا شور بھرا رہتا ہے۔ یہ بھی بڑا
مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جو کام بھی میں کرتی ہوں؛ میں کہتی ہوں نہیں ،اس وقت
مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جب میں لکھتی ہوں تو میں کہتی ہوں ،نہیں نہیں مجھے لکھنا
نہیں چاہیے تھا؛ مجھے گھر کا کوئی کام کرنا چاہیے تھا۔ گھر کا کام کرتی ہوں تو کہتی ہوں،
نہیں نہیں مجھے تو لکھنا چاہیے تھا۔ بڑا مسئلہ ہے یہ۔ میں نے ایک کہانی بھی لکھی تھی
’’مصروف عورت‘‘ تو اس میں بھی یہی تھا۔ بہت مسئلہ ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کام ہے
جو مجھے کرنا تھا میں نے نہیں کیا ابھی تک۔ بس یہ ہے نجیبہ! میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ میں
دے دیتے ہیں۔ میں importanceبس ایسے ہی بے کار سی عورت ہوں۔ آپ جیسے لوگ مجھے
سوال :خالدہ آپا! شاید آپ کے ایسا سمجھنے میں ہم ہی لوگوں کا قصور ہے۔ آپ نے گوشہ نشینی
کو پہلے ہی لے جاتے لیکن شاید لے جاتے تو ہوسکتا ہے کہ جو کچھ آپ نے لکھا وہ اس طرح
خالدہ حسین :جو کم رہی ہو… (سوچ کر) یہی کہ میں لکھ نہیں سکی۔ جتنا میں چاہتی تھی اتنا میں
تھا ،لکھنا۔ لوگ تو حیران ہوں گے سن کے؛ کہ لو passionلکھ نہیں سکی۔ میرا صرف ایک
passionدیکھو جی! یہ عورت کیا بات کر رہی ہے؟ دو کہانیاں لکھیں اور کہتی ہے کہ میرا بڑا
تھا لکھنے کا ،لیکن واقعی تھا۔ ایک یہی کام کرنا چاہتی تھی پر نہیں کر سکی۔ لیکن پھر میں
لکھنے لگتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ trashسوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ اگر میں زیادہ لکھتی تو
ہوتا یا نہ ہوتا لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ نے جتنا بھی لکھا ہے ،وہ جذبے اور : trashسوال
احساس کے ساتھ اتنا بھرا ہوا ہے ،ایک ایک لفظ میں اتنی شدت ہے ،اور اس کی اتنی پرتیں ہیں
کہ ہم پڑھتے ہیں تو اس کے معانی نکلتے چلے آتے ہیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ سیاست سے بھی
خالدہ حسین :سیاست سے لگاؤ نہیں ہے۔ کوئی دور کا بھی نہیں واسطہ۔ مجھے لگتا ہے سیاست
دوسروں کے لیے ہے۔ یہ ہوتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے یا ایسا نہیں ہونا چاہیے
یا یہ غلط ہو رہا ہے ،یہ نا انصافی ہو رہی ہے۔ یہ باتیں تو ہوتی ہیں لیکن یہ ہے کہ میں سمجھتی
سوال :جس وقت آپ نے لکھنا شروع کیا اس وقت تو آپ نے خود ہی بتایا کہ ترقی پسند ادب کا
بہت چرچا تھا اور شروع میں شاید آپ نے کچھ اس طرح کا لکھا بھی پھر آپ ہٹ گئیں اس سے؟
خالدہ حسین :ہاں ،پھر مجھے پتہ چال کہ یہ میرا سبجیکٹ نہیں ہے میں ایسا نہیں لکھ سکتی۔
سوال :کبھی یہ احساس تو نہیں ہوا کہ اس وجہ سے شاید لوگوں نے آپ کو نظر انداز کیا ہوکہ آپ
خالدہ حسین :ہاں مجھے احساس ہوا تھا کہ میں پاپولر لوگوں میں تو نہیں آسکی نا۔ اس لیے کم
لوگ پڑھتے ہیں مجھے۔ مجھے پتا تھا لیکن میں اپنی فطرت کے خالف نہیں لکھ سکتی۔ ویسے
میں نے غربت پہ اور ظلم پہ اور جبر پہ کہانیاں لکھی ہیں۔ اپنے اسٹائل سے لکھی ہیں۔ مثََال وہ
جو ’’یاِر من بیا‘‘ ہے وہ وہی ہے؛ عورت کی مجبوری اور جو کچھ اس کے اوپر زیادتی ہوئی
ہے۔ لیکن اپنے انداز سے ،جیسے میں نے محسوس کیا لکھ لیا۔ اسے کم لوگ سمجھتے ہیں۔ لیکن
سوال :اصل میں جو آپ نے لکھا ہے اس میں یک رخا پن اور سطحیت نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی
پیغام ہو جو بالکل سامنے پڑا ہوبلکہ تاثر ہے جو پڑھنے والے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن یہ
اپنی اپنی توفیق کی بات ہے۔ اس زمانے میں ترقی پسند تنقید نے جو ایک معیار سا بنالیا تھا ،اس
سے باہر اگر کچھ ہوتا تھا تو اسے نظر انداز کر دیتے تھے ،شاید اس وجہ سے؟
خالدہ حسین :ہاں ،بالکل نظر انداز کر دیتے تھے اور کافی عرصے تک یہ ہوا۔ لیکن پتہ نہیں کیا
ہوئی ceremonyبات ہے کہ جب میری پہلی کتاب ’’پہچان‘‘ چھپی تھی اور کراچی میں اس کی
تھی۔ میں نے کبھی بھی تقریب نہیں کی ،اسی کی ہوئی تھی شاید۔ اس میں کسی نے مضمون پڑھا
تھا۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں اپنی خوبٔی قسمت پہ ناز کرنا چاہیے کہ اتنے کم عرصے
میں ،اتنا کم لکھنے پر ان کا اتنا نام ہو گیا ہے۔ کیوں کہ لوگ تو زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں۔ تو
اس وقت مجھے کچھ احساس ہوا تھا کہ بغیر کسی ترقی پسندانہ پروپیگنڈا کے اور ساری چیزوں
کے۔۔۔۔ تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا تو لوگوں نے اس کی طرف توجہ
ضرور دی۔ اس پر بھی میں شرمسار ہی ہوتی رہی ہوں۔ مجھے یہ نہیں ہوا کہ یہ بہت بڑی بات
ہے۔ مجھے شرم ہی آتی رہی کہ میں نے اتنا کم کام کیا ہے اور لوگوں کی بڑی مہربانیاں ہیں۔ یہ
لوگ بہت اچھے ہیں جو میری طرف اتنی مہربانی سے توجہ کرتے ہیں۔ جب انھوں نے یہ کہا تو
میں نے سوچا انھیں خود بہت تکلیف ہو رہی ہوگی یہ کہتے ہوئے۔ بہت میرا دل دکھا تھا۔
خالدہ حسین :سچی بات یہ ہے کہ مجھے فیمینزم کی تعریف کا ہی نہیں پتہ کہ کیا ہے وہ۔ فیمینسٹ
ان معنوں میں ہوں کہ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے اوراس کو پورے حقوق ملنے
چاہییں اور یہی ہے فیمینزم۔ یہ تو ہر انسان کہتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں ہر انسان کو حقوق ملنے
چاہییں ،عورت ہے یا مرد ہے اور جو احترام ہے وہ ہر ایک کو ملنا چاہیے۔ احترامِ انسانیت
سوال :آپ کی کہانیوں کے بہت تانیثی مطالعے ہوتے ہیں۔ ان میں ،آپ نے شعوری طور پر نہ
بھی لکھا ہو تو بھی ،جبر کا احساس ملتا ہے کہ عورت کے اندر جو تخلیقی وفور ہے اور جو اس
کے شعور کی نشو و نما ہے اس کا گال گھونٹ دیا جاتا ہے۔ مرد کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے
کر سکتا ہے۔ عورت اپنے developاندر جو امکانات ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو پوری طرح
امکانات کو دبا کر بیٹھ جاتی ہے ،اس کو بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ بات بار بار آپ کے افسانوں میں آتی
ہے۔
خالدہ حسین :تو یہ تو ہونا چاہیے نا کہ ہمارا ماحول اب بدلنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ
اب کافی تبدیلی تو آرہی ہے لیکن مجموعی طور پہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ کوئی عورت اپنا پورا
ہو وہ اپنی تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ کہانی کی بات نہیں کر رہی۔ کہانی میں جس تجربے کو پیش کیا
ہے اس میں ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ وہ پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ کیاایسا ہے؟
سوال :یہ کیسے ہوتا ہے؟ خود بخود یا جان بوجھ کر؟
بھی شروع سے کوشش کی consciouslyخالدہ حسین :نہیں یہ خود بخود نہیں آتا۔ یہ میں نے
سوال :کیوں؟
خالدہ حسین :مجھے لگتا تھا کہ اس طرح زیادہ اثر ہوتا ہے۔ تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ اپنا تاثر بڑھانے
کے لیے۔ کیوں کہ میں یہ کہتی تھی کہ میں اپنا کوئی فیصلہ نہیں دوں گی پڑھنے والے کو۔ اس
پہ میں اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کروں گی۔ اس لیے میں وہ چیز روک دیا کرتی تھی کہ نہیں
بس اتنی ہی ٹھیک ہے۔ اب آگے جو وہ محسوس کرنا چاہیں کریں۔ اسی لیے بیچ میں ادھوری
چیزیں رہ جاتی تھیں۔ کیوں کہ میں نے کچھ چیزیں ایسی پڑھی تھیں جو ادھوری تھیں تو مجھ پر
سوال :خالدہ آپا! یہ جو افسانے کی کرافٹ کے بنیادی فیصلے ہوتے ہیں جو کوئی مصنف کرتا
ہے یعنی کہ اگر کوئی بھی خیال ہے چاہے وہ امیجز ہی کیوں نہ ہوں ،اس کو پیش کرنا ہے تو
کردار کون ہوں گے؟ مرد ہوگا ،عورت ہوگی؟ راوی کون ہوگا؟ سیٹنگ کیا ہو گی؟یہ آپ کیسے
کرتی ہیں؟
خالدہ حسین :اول تو نجیبہ ،یوں ہوتا ہے کہ کہانی خود ہی ذہن میں آتی ہے اسی طرح ،پوری
میں لکھی جائے second personمیں لکھی جائے گی۔ یہ first personکیفیت کے ساتھ کہ یہ
گی۔ بالکل اسی طرح آتی ہے۔ بنی بنائی ،ڈھلی ڈھالئی کہانی آتی ہے ذہن میں۔
سوال :تو کہانی آپ کو نظر آتی ہے یا سنائی دیتی ہے یا محسوس ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے
کہانی؟
خالدہ حسین :ذہن کے اندر ایک ہیولٰی سا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے لفظ لگتے ہیں۔ جیسے صفحے
کے اوپر لفظ لکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ یہ پوری کہانی لکھی ہوئی ہے۔ پھر کبھی
ہوتا ہے کچھ مجھے تومیں کر لیتی ہوں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں نا کہ ناول لکھتے ہوئے مجھے
پہ اتنا بھروسہ نہیں کر سکتے آپ۔ اس میں تو ٹھوس intuitionیہ ڈر لگتا ہے کہ اس میں تو
معلومات اور تکنیک اور بڑا مواد چاہیے اس کے لیے۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا تھا کہ کیوں نا
میں ان سب باتوں سے ہٹ کے اپنی مرضی سے لکھوں۔ دیکھوں کہ کیا لکھتی ہوں؟کیوں میں نہ
لکھوں آخر میرے پہ کیا پابندی ہے؟سوچا تھا ایسا لیکن پھر ہمت نہیں پڑی۔ میں نے کہا ،پتا نہیں۔
خالدہ حسین :کوئی ضروری تو نہیں نا کہ میں نے ان سب باتوں کی پابندی کرنی ہے۔
سوال :ہاں بالکل نہیں ضروری۔ بلکہ وہ تو ایک نئی چیز ہو گی۔ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اچھا
’’کاغذی گھاٹ‘‘ جو آپ نے لکھا ،آپ کو معلوم تھا کہ آپ ناول لکھ رہی ہیں؟ یا آپ اپنی یاد
میں نے شروع کر لیا کہ چلو اب میں پورا کر لوں۔ وہ مختصر رہ گیا ہے ،نا مکمل۔ ۔ ۔ بہر
……حال
خالدہ حسین :ہاں دیکھیں نا! کل ہی میں سوچ رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اچھا لگتا ہے۔
سوال :اس لیے کہ ہمیں ماضی کی تکلیفیں اس وقت محسوس نہیں ہو رہی ہوتیں؟کانٹے نہیں چبھ
رہے ہوتے؟
خالدہ حسین :ہاں۔ ہم اپنے آپ کو شاید محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ماضی چوں کہ ہمیں مزید
خالدہ حسین :ہاں اور حال جو ہے اس میں تو خدشات ہوتے ہیں اورجو مستقبل ہے وہ تو سراپا
خالدہ حسین :نقادوں سے…… اول تو یہ ہے کہ کسی نے مجھ پہ لکھا ہی نہیں۔ کم لوگوں نے
لکھا ہے۔ زیادہ لوگوں نے تو نہیں لکھا۔ وہ بھی بہت عرصے کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ جب لکھتی رہی لکھتی
رہی پھر کہیں جا کے لوگوں کو پتہ چال اور میرے بارے میں انھوں نے لکھا اور پھر یہ ہے کہ
بہت کم لوگ ہیں جو سمجھ کے لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (خاموشی) میں نے شادی کے بعد لکھنا چھوڑ
دیا تھا۔ لکھنا اس طرح نہیں چھوڑا تھا بس چھپواتی نہیں تھی۔ دس بارہ سالوں تک۔ مجھے لگتا
تھا کہ بس ختم ہو گیا ہے اب لکھنا ،کیا لکھنا۔ ایک دن ایسے ہی میں بیٹھی ہوئی تھی تو یہ ریڈیو
چل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے۔ یہ بھی تقدیر کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہاں میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک
دم سے نا۔ ۔ ۔ کوئی تقریر ہو رہی تھی ادب کے بارے میں۔ سراج منیر بول رہے تھے۔ وہ ادب کا
کوئی جائزہ وائزہ لے رہے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے میرا ذکر کیا اور انھوں نے بہت
حسرت کے ساتھ کہا کہ وہ پتہ نہیں کہاں گم ہو گئیں اور انھوں نے یہ یہ چیزیں بہت اچھی لکھی
تھیں اور انھوں نے میرا اتنا اچھا تجزیہ کیا کہ اسے سن کے بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں میں
آنسو آگئے۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں میں نے انھیں نہیں بتایا کہ آپ کی اس
تقریر کی وجہ سے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد پھر میں نے وہ قلم ُاٹھایا۔ آہستہ
آہستہ اور پھر لڑکھڑاتے ہوئے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ ورنہ میں تو بھول گئی تھی۔ لکھنا
چھوڑ دیا تھا بالکل۔ تو یہ دیکھیں نا یہ بھی تقدیر تھی۔ اب میں ہو سکتا تھا ریڈیو نہ سنتی ،نہ
لگاتی یا اس وقت وہ تقریر نہ ہو رہی ہوتی یا وہ بول میں نہ سنتی۔ لیکن ایسا تھا تقدیر میں کہ
انھوں نے بتایا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کا مقام ہے ہمارے ادب میں۔ اس طرح کی بات
تھی پھر میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد پھر میری ہمت بندھتی گئی۔
سوال :تو دیکھیں بعض اوقات ایک چھوٹا سا جملہ بھی کسی چیز کو کیسے مہمیز کر سکتا ہے۔
خالدہ حسین :بہت زیادہ۔ بڑی بات ہے۔ ویسے بھی بڑے اچھے آدمی تھے وہ۔ ہللا میاں نے شاید ان
کی قسمت میں یہ نیکی بھی لکھی ہوئی تھی کہ کسی کو کام پہ لگائیں گے دوبارہ۔
سوال :جب آپ لکھ رہی ہوتی ہیں تو آپ کسی سے مخاطب ہوتی ہیں ،کوئی قاری یا کوئی پڑھنے
خالدہ حسین :نہیں ،میں بس اسی میں مشغول ہوتی ہوں جو میں لکھ رہی ہوتی ہوں۔ یہ نہیں ہوتا کہ
فالں بندہ ہےِ ،اس کے لیے لکھ رہی ہوں یاُاس کے لیے۔ جو ہوتا ہے کہتی ہوں بس کاغذ پر
کرتی ہیں؟ کاٹ چھانٹ کرتی ہیں؟ re writeسوال :پھر جب کاغذ پر آجاتا ہے دوبارہ اس کو
خالدہ حسین :ہاں بہت کرتی ہوں ،بہت دفعہ پڑھتی ہوں ،جملے درست کرتی ہوں ،لفظ بدلتی ہوں،
گو کہ کہانی وہی رہتی ہے۔ نثر کے بارے میں میں بہت زیادہ محتاط رہتی ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ
اچھی نثر لکھوں۔ دیکھتی ہوں کہ غلطیاں نہ ہوں ،یا جہاں پہ تاثر ہو ،وہاں ہوسکے تو اچھا جملہ
سوال :وہ جو کردار ہوتے ہیں یہ آپ کے دیکھے بھالے ہوتے ہیں یا اندر سے ہی کہیں سے آتے
ہیں؟
خالدہ حسین :دیکھے بھالے ہوتے ہیں اکثر۔ مطلب تھوڑے تھوڑے دیکھے بھالے ہوتے ہیں باقی
وہ زیبِ داستاں کے لیے بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر کا تو تعلق میرے بچپن سے ہوتا ہے دور دراز
کے لوگ۔
سوال :خالدہ آپا! اب کیا جی چاہتا ہے؟ اگر آپ کے پاس ہر طرح کا اختیار ہو تو آپ کیا کریں گی؟
خالدہ حسین :میرے پاس اگر اختیار ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سوچ کر) میں ایک کتاب لکھوں۔ وہ کچھ لکھوں
جو میں نہیں لکھ سکی۔ بہت دل ہے میرا اس میں ،خوشی بھی ہے ،اطمینان بھی۔ لکھنے کو جی
چاہتا ہے۔
خالدہ حسین( :بہت دیر سوچنے کے بعد) ایسی تو کوئی چیز دیکھنے میں تو نہیں ہے لیکن ایک
حسرت سی ہے کہ مجھے اور لکھنا چاہیے تھا۔ اگر میں لکھنا شروع کردوں تو چیزیں نکل آئیں
خالدہ حسین :ہاں کوئی ناول۔ ویسے میں دعا بھی مانگتی ہوں نماز کے بعدکہ کوئی اچھی سی
چیز لکھ سکوں۔ کوئی ایسی چیز لکھ سکوں جو زندہ رہ جائے۔
سوال :کوئی فیملی ساگا؟ یا ایسی کوئی چیزاپنی زندگی کے بارے میں؟
خالدہ حسین :نہیں ناول۔ جس میں اپنے تمام نظریات ،جو کچھ میں سوچتی ہوں فکری سطح پہ ،وہ
خالدہ حسین :کاہلی۔ بہت کاہلی ہے۔ بس ایک یہ ہوتا ہے لکھتے ہوئے کہ لگتا ہے کہ کیا لکھ رہے
ہیں ،فضول لکھ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو مجبور بھی کیا تھاکہ چلو فضول ہی لکھوں،
لکھوں تو سہی۔ لکھنا تو چاہیے۔ بس یہ عادت ہو جائے نا کہ روز۔ پہلے میں لکھتی تھی روزانہ۔
خالدہ حسین :ہاں اب بھی لکھتی ہوں۔ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن وہ ذاتی نوعیت کے
ہیں۔ ویسے ادبی باتیں بھی بہت ہیں اس میں۔ جلے دل کے پھپھولے بھی ہیں۔ (قہقہہ) شبنم کے
ساتھ میری بڑی دوستی تھی تو میں نے اس کو کہا تھا کہ دیکھو میں تمھیں اپنی ساری ڈائریاں
کرو۔ اور جو ادبی باتیں ہیں editدے دوں گی ،تم اس میں سے کاٹ چھانٹ کر کے اور اس کو
ان کو علیحدہ کر دو۔ تو وہ کہتی تھی کہ ہاں بالکل۔ پھر میں کہتی کہ نہیں نہیں اس میں تو میں
نے بڑا کچھ لکھا ہوا ہے۔ تمھیں پتہ چل جائے گاکہ کس کس کے بارے میں میں نے لکھا ہے۔
لیکن بہرحال وہ ہیں بہت ساری۔ اب پتہ نہیں پیچھے یہ لوگ کیا کریں گے۔ کسی دن میں سوچتی
خالدہ حسین :تو کیا کروں اس میں پتہ نہیں کیا کچھ لکھا ہوا ہے۔
خالدہ حسین :فکری اور نظری لحاظ سے۔ ۔ ۔ دیکھیں ایک یہ ہے کہ روحانیت اور مادیت کی
میرے دماغ میں ہے۔ conflictجنگ ،اس نے مجھے بہت تنگ کیا ہے۔ شروع ہی سے یہ
ہمارے پورے گھرانے کی اساس روحانیت پہ ہے۔ پھر یہ ہے کہ مادیت بھی بہت ضروری چیز
ہے۔ تو وہ آپس میں جب ٹکراتی رہتی ہیں ہر وقت ،یہ بہت پریشان کرتی ہیں۔ جگہ جگہ پہ
تضادات آتے ہیں۔ روحانیت کچھ کہتی ہے ،دنیا کا تقاضا کچھ کہتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایک
مسلسل احساس جرم ہے اندر۔ کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ اگر میں کوئی کام نہیں کرتی تو سارا دن
خلش ہوتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ نہیں مجھے۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ۔ ۔
۔ ۔ مجھے جو روحانی تقاضے ہیں ،ان کو پورا کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ میں مادی تقاضوں
کے پیچھے ہوں لیکن پھر وہ مادی تقاضے اتنے زیادہ ضروری ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی۔
آپس میں ٹکراتے ہیں یہ۔ لوگوں کو ایسے مسائل نہیں ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو ایسی باتوں
کے بارے میں سوچتے ہیں وہ صحیح الدماغ نہیں ہیں یعنی بیکار لوگ ہیں۔ یعنی ایبسٹریکٹ
چیزوں کے بارے میں سوچنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ آپ کشور سے بات کریں گی نا ،وہ کہے
گی تم لوگ پاگل ہو ،پریکٹیکل باتیں کرو ،دنیا کی باتیں کرو ،محنت کرو ،لوگوں کا بھال کرو،
صحیح بات کہتی ہے وہ۔ پازیٹولی ایکٹو ہو جاؤ ،ماحول میں تبدیلی الؤ ،یہ کیا کہ دل میں یہ ہو
رہا ہے دماغ میں یہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب کیا کیا جائے۔ ہللا تعالٰی نے ایسا دماغ دیا ہے۔ میرا خیال
ہے کہ یہ سب کچھ کاہلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسمانی کام کریں ورنہ پھر ہم
پھر باتوں کا رخ مشترکہ احساسات اور تجربات کی طرف مڑ گیا اور میں اور خالدہ آپا انٹرویو (
خلیÞÞل جÞÞبران کی یہ تحریÞÞر انگریÞÞزی میں لکھی گÞÞئی تھی۔ کسÞÞی نے
اردو تÞÞÞرجمہ کیÞÞÞا اور رال دیÞÞÞا۔۔۔پÞÞÞوری تحریÞÞÞر ضÞÞÞرور پÞÞÞڑھیں ۔
والÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞدین کÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞا گھÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر
صÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞرف یہی وہ گھÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر ہے
جہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں آپ جب جی چÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاہے
بغÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیر کسÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞی دعÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞوت کے جÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞا سÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞکتے ہیں
یہی وہ گھÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر ہے
جہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں آپ دروازے میں چÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞابی لگÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞا کÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر
کتے ہیںÞÞÞÞÞÞÞÞو سÞÞÞÞÞÞÞÞل ہÞÞÞÞÞÞÞÞر میں داخÞÞÞÞÞÞÞÞت گھÞÞÞÞÞÞÞÞراِہ راسÞÞÞÞÞÞÞÞب
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
اہیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞری نگÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں محبت بھÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞکہ جہ
تی ہیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر لگے رہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞک دروازے پÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاس وقت ت
ائیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر نہ آ جÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞک آپ نظÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞجب ت
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
ریÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو آپ کی بچپن کی بے فکÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو آپ کÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞج
ا ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاد دالتÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیوں کے دن یÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاور خوش
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
ودگیÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں آپ کی موجÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞجہ
اور ماں باپ کے چہرے پر محبت کی نظر ڈالنا باعِث برکت ہے اور
ات ہے۔ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞزاز کی بÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞا اعÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو کرنÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞے گفتگÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞان س
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
وÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞائیں تÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞا جÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں آپ نÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞجہ
اتے ہیں۔ÞÞÞÞÞÞÞÞÞا جÞÞÞÞÞÞÞÞÞوں کے دل مرجھÞÞÞÞÞÞÞÞÞر کے مکینÞÞÞÞÞÞÞÞÞاس گھ
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
ورت میںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاپ کی صÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں بÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں مÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞجہ
2 تی ہیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞمعیں جلی رہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞش
ائیںÞÞÞÞÞÞÞے جگمÞÞÞÞÞÞÞنی سÞÞÞÞÞÞÞو روشÞÞÞÞÞÞÞا کÞÞÞÞÞÞÞاکہ آپکی دنیÞÞÞÞÞÞÞت
ر دیںÞÞÞÞے بھÞÞÞÞرتوں سÞÞÞÞیوں اور مسÞÞÞÞو خوشÞÞÞÞدگی کÞÞÞÞاور آپ کی زن
رÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہی ہے وہ گھ
م کیÞÞر قسÞÞور اور ہÞÞر پÞے بھÞÞوں سÞÞالص محبتÞÞترخواں خÞÞجہاں کا دس
اک ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞے پÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞافقت سÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞمن
ر ہےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
ائےÞÞÞÞÞÞÞÞÞو جÞÞÞÞÞÞÞÞÞا وقت ہÞÞÞÞÞÞÞÞÞانے کÞÞÞÞÞÞÞÞÞاں کھÞÞÞÞÞÞÞÞÞر یہÞÞÞÞÞÞÞÞÞکہ اگ
ائیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞ اور آپ کچھ نہ کھ
اتے ہیںÞÞÞÞÞÞÞوٹ جÞÞÞÞÞÞÞوں کے دل ٹÞÞÞÞÞÞÞر کے مکینÞÞÞÞÞÞÞو اس گھÞÞÞÞÞÞÞت
اتے ہیں۔ÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو جÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاراض ہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاور وہ ن
اںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر ہے جہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞیہ وہ گھ
یاںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞم کی خوشÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر قسÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو ہÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞآپ ک
ر ہیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞاور قہقہے میس
وÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞآہ ہ ہ ہ۔۔۔ لوگ
انیںÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞو پہچÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞروں کی اہمیت کÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞان گھ
ائےÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞر ہوجÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞل اس کے کہ بہت دیÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞقب
وہ لÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞوگ بہت خÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞوش قسÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞÞمت ہیں
جن کے پاس والدین کے گھر ہیں
February 2, 2020
1440
tweet
وقار احمد ملک
پتھر ،لکڑی یا مرمر کی تختی جو قبر کے سرہانے لگائی جاتی ہے کو اردو میں کتبہ اور
کہتے ہیں۔ پاکستان میں کتبے پر مرحوم کا نام ،ولدیت ،سِن پیدائش Tomb Stone ،انگریزی میں
وفات اور فناومغفرت کے مفہوم واال کوئی شعر یا کوئی ٓایِت قرانی وغیرہ تحریر کی جاتی ہے۔
کتبے لکھنے اور لگانے کی روایت بہت پرانی ہے۔پوری دنیا میں ہر قوم ،مذہب ،نسل اور عالقے
کی روایات کو ملحوِظ خاطر رکھتے ہوئے کتبوں کی تحریریں لکھی جاتی ہیں۔ انگریزی ادب
کے نامور ادیبوں میں سے کئی کے کتبے انگریزی ادب کی تاریخ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں
اور ان کو حوالوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔ان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ان لوگوں
نے خود ہی اپنی زندگی میں تحریر کیے تھے۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے پیِش نظر
مختصر الفاظ میں ایسے کتبوں کی ایک دلچسپ روداد درج ذیل ہے۔ دنیائے ادب کے سب سے
معروف ادیب انگریز شاعر ڈرامہ نگارولیم شیکسپیئر کی قبر انگلستان کے مشہور ہولی ٹرینٹی
چرچ میں واقع ہے۔ شیکسپیئر کی تحریروں کی طرح اس کی قبر پر لگے کتبے کی تحریر بھی
بہت دلچسپ ہے۔ کتبے کی عمارت پریہ تحریر نقش ہے۔ ” اچھے دوستو:یسوع کے نام پر اس
گور کی مٹی کو مت کھودنا۔ وہ انسان بڑا مقدس ہوگا جو اس قبر کے پتھروں کو ہاتھ نہیں لگائے
گا۔ لیکن لعنت ہے اس پر جو اس قبر میں پڑی ہڈیوں کو اٹھا لے گا”۔ ولیم شیکسپیئر سنہ1616
میں فوت ہوا۔ اس زمانے میں الشوں کو نامعلوم لوگ قبروں سے نکال لیتے تھے۔ کچھ تو تحقیقی
مقاصد کے لیے تو کچھ قبرستان میں مزید قبروں کی جگہ بنانے کے لیے۔ شیکسپیئر کو شاید
اسی بات کا خوف تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کے کتبے کی تحریر کو لکھ دیا تھا۔
جب اس کی قبر کو 2008میں مرمت کے لیے کھوال گیا تو اس کے پتھر اور ہڈیاں محفوظ پڑی
نے قبر کو محفوظ رکھا۔عظیم رومانوی انگریز Curseتھیں۔ لگتا ہے کی شاعر کی تحریر کی
سب سے بعد میں پیدا Keatsشاعر جان ِکیٹس کی وفات 1821میں ہوئی۔ رومانوی شاعروں میں
ہوا اور سب سے پہلے فوت ہوا۔ بوقِت مرگ اس کی عمر پچیس سال اور چند مہینے تھے۔ ِکیٹس
کا انتقال 23فروری کو روم اٹلی میں ہوا۔ انگریز شاعر کو روم میں ایک پروٹیسٹنٹ چرچ میں
دفن کیا گیا۔ اس کی قبر کے کتبے کی تحریر یہ ہے ” یہاں وہ ٓادمی دفن ہے جس کا نام پانی پر
لکھ دیا گیا تھا”یہ الفاظ بھی ِک یٹس کے اپنے چنے ہوئے ہیں جو کسی پرانے شاعر کی نظم سے
لیے گئے تھے۔ ِک یٹس کے یہ الفاظ اس چیز کے غماز ہیں کہ وہ شہرت کو عارضی سمجھتا تھا۔
اس کے مطابق پانی پر لکھی تحریر کی طرح میری شہرت بھی چند روزہ ہو گی اور میری موت
کے کچھ دنوں کے بعد لوگ مجھے فراموش کر دیں گے۔ سلویا پالتھ معروف امریکی شاعرہ
تھی۔ اپنے انگریز شوہر ٹیڈ ہیوز جو خود بھی ایک نامور شاعر تھا کی بیوفائی کی بنا پر گیس
اوون میں اپنے ٓاپ کو جال کر راکھ کر دیا تھا۔ گیارہ فروری 1963کو یہ خوبصورت شاعرہ
صرف اکتیس سال کی عمر میں قبر میں جالیٹی۔اس کے کتبے کی تحریر یہ ہے۔” شعلوں کے
درمیان بھی سنہری رنگ کے کنول کے پھول کھالئے جا سکتے ہیں “ .رابرٹ فراسٹ نہ صرف
امریکہ بلکہ دنیا کے نامور شاعروں میں مخصوص مقام کا حامل ہے۔ فراسٹ کی شاعری اپنے
عالقے کی مٹی کی خوشبو سے معطر ہے۔ اس لیے ہارڈی کی طرح فراسٹ کو بھی ریجنل شاعر
کہا جاتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ کے قبر کے کتبے پر یہ یادگار الفاظ اس کی منفرد سوچ اور طبیعت
کے عکاس ہیں۔ ” میں نے دنیا کے ساتھ ایک عاشق کی سی لڑائی لڑی ہے”۔
قم يا صالح الدين “مسلمان صالح الدین کی قبر کے پاس کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ” قم”
(کھڑے ہو جأو) یا صالح الدین! قم ! ہمیں ٓاپ کی ضرورت ہے۔”کیا ٓاپ نہیں دیکھ سکتے کہ
عراق میں کیا ہو رہا ہے؟”کیا ٓاپ نہیں دیکھ سکتے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟”کیا ٓاپ
ہمارے پاس موجود خوفزدہ قائدین کو نہیں دیکھ سکتے ہیں؟”اے صالح الدین ،ہمیں مقدس
سرزمین ٓازاد کروانےکے لیے ٓاپ کی ضرورت ہے”۔”سال میں کتنی بار تم اسے یاد کرنے والے
ہو؟ کتنی بار صالح الدین کو اپنی بزدلی پر کوڑے مارنے جا رہے ہو؟ کیا زندہ مردے سے مدد
مانگتا ہے؟”صالح الدین نے یروشلم کو صلیبیوں سے دوبارہ فتح کیا اور میسوپوٹیمیا ،شام ،
مصر ،لیبیا ،تیونس ،جزیرہ نما عرب اور یمن کے مغربی حصوں کو متحد کیا۔ٓاج ہمیں ایک
صالح الدین کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے لڑے گا۔ لیکن ہم نے اپنا فرض فراموش کیا اور
اپنے دین ،اپنے عقیدے اور جہاد کو ترک کرکے مادیت پسند دنیا کو منتخب کیا ہے۔”کوئی بھی
صالح الدین بننے کی خواہش نہیں کرتا ،کوئی عمر بن خطاب ،ابوذر یا ابوبکر رضی ہللا عنہ
بننے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔یا ایک خدیجہ یا فاطمہ رضی ہللا عنہ۔ہمیں ان لوگوں کو بس یاد
کرتے ہیں ۔جب ہم ٓاخرت پر یقین رکھتے ہیں تو ہم بزدل نہیں ہو سکتے۔ ہم صالح الدین کی
زندگی کو منا نہیں سکتے اور خود بزدل نہیں ہو سکتے۔ “بجائے اس کے کہ ‘کھڑے ہو اے
صالح الدین!اے مسلمانو جاگو! جاگو! ‘ ہم کافی دیر سو چکے ہیں اور اپنی قوم کی حالت ،اپنے
بھائیوں اور بہنوں کی فریاد کو دیکھو ! “عربی نظم سے
فاطمہ حسن
غزل
باقر رضا
اپنے پتے سے اپنے گھروں اپنے نام سے
گم ہورہے ہیں لوگ بڑے اہتمام سے
اس گھر کے کامیاب مکینوں میں کون تھا
دیمک تھی جس نے کام رکھا اپنے کام سے
ٓازادی کیا ہے جلد سمجھ میں یہ ٓاگیا
اس دام میں پھنسے ہیں رہا ہوکے دام سے
مدہوشی ءحیات کا غلبہ ہے اس لیے
دو گھونٹ پی لیے تھے تمنا کے جام سے
ہم سر بکف وہ دست بہ شمشیر ہیں چلے
نکلے ہیں ہم بھی کام سے اور وہ بھی کام سے
یوں دست جبر سے یہاں محفوظ کون ہے
ہم وہ ہیں جو نشانہ بنے التزام سے
ان سے کبھی کبھار کا ملنا ہی ٹھیک تھا
پہچان پر گئے ہیں دعا و سالم سے
اس کے سوا ہم اپنے تعارف میں کیا کہیں
ظالم پرست چڑتے ہیں ایسے ہی نام سے
تنہا ہو خیمہ گاہ میں بیٹھے ہوئے رضا
کیا ہوگا گر چراغ بجھایا بھی شام سے
17اگست 2011
تصویر کا ذریعہ،
نام کتاب :تسطیر (سہ ماہی)
خصوصی شمارہ (جنوری تا جون)
مدیر :نصیر احمد ناصر
صفحات656 :
قیمت :چار سو روپے
ناشر :نصیر احمد ،اے ،شادمان کالونی ،جیل روڈ۔ الہور۔ رابطہtasteer@hotmail.com :
گزشتہ دو تین ماہ کے دوران میرا تو یہ احساس ختم ہو گیا ہے کہ پاکستان میں لکھا نہیں جا رہا
لیکن کیسا لکھا جا رہا ہے ،اس بارے میں کم از کم لکھنے والوں کو بڑی خوش امیدی ہے۔ پھر
بھی ان کے پاس پڑھنے والوں کے اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو دور سعادت حسن منٹو،
راجندر سنگھ بیدی ،فیض احمد فیض اور منیر نیازی پر ختم ہوتا ہے اس کے بعد اب کس کا دور
ہے؟ ایک خاموش سا اضطراب ہے جیسا شاید پرانے زمانوں کی ایسی بادشاہتوں میں ہوتا تھا جن
کے حکمراں کوئی ولی عہد چھوڑے بغیر ہی گزر جاتے تھے۔ اگر وہ زمانہ ہوتا تو یقینًا پاکستان
کے اردو پڑھنے لکھنے والے شہر پناہ کے دروازے پر جا کھڑے ہوتے اور صبح سویرے سب
سے پہلے جو بھی شہر میں داخل ہوتا اسے شاہ ادیب یا صاحِب عصر ادیب مان لیتے۔
لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک تو مذکورہ طریقہ کہانیوں کا حصہ ہے اور پھر ادب کا
معاملہ سیاست سے بھی کچھ ٹیڑھا ہے۔ ادب میں صرف ہر سیر ہی سوا سیر نہیں ہوتا ،چھٹنکیاں
بھی خود کو کم نہیں سمجھتیں لیکن یہی اّنا وہ ہے جو لکھنے اور لکھتے رہنے پر آمادہ کیے
رہتی ہے۔
شاید پہلے کبھی ضرورت نہ ہوتی ہو لیکن اب تو ادب میں پڑھنا بنیادی شرط ہے تا کہ ہر لکھنے
والے کو یہ علم رہے کہ اسے کیا نہیں لکھنا۔ یعنی کیا ہے جو لکھا جا چکا ہے اور کیسے کیسے
لکھا جا چکا ہے۔
تصویر کا ذریعہ،
تصویر کا کیپشنوزیر آغا اردو کے نامور ادیب ،نقاد اور شاعر ہیں وہ ادبی جریدہ اوراق کے مدیر تھے۔،
ادب کا مقصد انسان اور اس کے خارج اور باطن کا جمالیاتی اظہار ہے لیکن کیا کیا جائے کہ
انسان تمام تر تہذیبی ،جغرافیائی ،ثقافتی اور لسانی تقسیموں کے باوجود خارجی اور باطنی مسائل
کی تکرار کا شکار ہے۔ شاید اسی سے ادب میں مختلف اسلوبوں ،پیرایوں اور نظریوں کی
گنجائش پیدا ہوئی اور باقی رہے گی۔
تسطیر کے مدیر نصیر احمد ناصر نے ادبی نظریے کے عنوان سے لکھے جانے والے اداریے
میں اس معاملے کو یہ کہہ کر نمٹایا ہے کہ ’۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ،یہ سب ادب کے ایک بڑے
درخت کی نظریاتی شاخیں ہیں‘۔ لیکن زیادہ دلچسپ بات وہ ہے جس پر انہوں نے اداریہ ختم کیا
ہے کہ ’اگر کسی تحریر میں ادبیت نہیں تو وہ ادب نہیں چاہے وہ زندگی سے متعلق ہو یا کسی
غیر مرئی دنیا کے بارے میں ہو‘۔
دیکھیے ادیب ہونا کتنا آسان ہے۔ ایسی چیز لکھیے جس میں ادبیت ہو اور ادیب بن جائیے لیکن
بھول نہ جائیے گا ،نصیر ناصر نے ابھی آپ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ ’ادبیت ‘ کیا ہے اور تحریر
میں کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔
میرے خیال میں نصیر احمد ناصر کے حوالے سے تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ ان کی ادارت میں
شایع ہونے والے رسالے اور ان کی شاعری پڑھیے اور دیکھ لیجیے کہ تحریروں میں ادبیت
کیسے ظہور کرتی ہے۔
انہوں نے آپ کی سہولت کے لیے تسطیر کے زیِر تبصرہ شمارے میں 126نظمیں 54غزلیں
20افسانے ،اداریے سمیت 15مضمون 11 ،ترجمے جن میں نو شاعری کے ہیں اور آٹھ خطوط
شایع کیے ہیں جو آپ کو نصیر ناصر اور تسطیر کے گزشتہ شمارے تک کے بارے میں بتاتے
ہیں۔
تصویر کا ذریعہ،
تصویر کا کیپشنانیس ناگی اردو کے ناول نگار ،شاعر اور نقاد تھے انہوں بہت اہم تراجم بھی ،
کیے۔
اب یہ بھی جان لیں کہ اس شمارے کے لکھنے والوں میں کون کون ہیں۔ پہلے دو حصے لمِس
رفتہ کے عنوان سے ہیں اور یہ وزیر آغا اور انیس ناگی کے بارے میں ہیں۔ ان حصوں کے
لکھنے والوں میں انور سدید ،رشید امجد ،ڈاکٹر شاہین مفتی اور سلیم شہزاد ہیں۔ پروین طاہر،
اقتدار جاوید اور زاہد مسعود نے وزیر آغا اور ناگی کو شعری تحسین پیش کی ہے اور یہ لوگ
شاعری کے دوسرے حصوں میں بھی موجود ہیں۔ اس کے عالوہ نصیر ناصر کے نام وزیر آغا
کے خطوط بھی ہیں۔
نظموں کے پہلے حصے میں آفتاب اقبال شمیم ،احسان اکبر ،ابرار احمد ،انوار فطرت ،علی محمد
قرشی ،ثمینہ راجہ ،رفیق سندیلوی ،فرخ یار ،شہزاد نّیر ،ثریا عباس ،خلیق الرحٰم ن اور خود
نصیر ناصر ہیں۔ دوسرا حصہ گلزار (فلموں والے) سے شروع ہوتا ہے اور اس میں ستیہ پال
آنند ،جلیل عالی ،شاہین مفتی ،منصور آفاق ،امداد کاوش ،محمود ثنا ،روش ندیم ،بشٰر ی اعجاز،
اختر رضا سلیمی ،گلناز کوثر ،تنویر قاضی ،نوشابہ شوکت ،ارشد معراج اور فاروق مونس شامل
ہیں۔
تیسرا حصہ نثری نظم کا ہے۔ نسرین انجم سے شروع ہوتا ہے اور اس میں ابرار احمد بھی ہیں،
جن کی نثری نظموں کے حوالے سے ظفر اقبال نے ایک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ ’ُاس کی
نثری نظمیں پڑھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ شاعری کے لیے ردیف قافیہ حٰت ی کہ وزن یعنی اس کا
کسی بحر میں ہونا بھی ضروری نہیں ،نثر میں ایسی بے پناہ شاعری کی جا سکتی ہے تو موزوں
شاعری کی گنجائش ہی کیا باقی رہ جاتی ہے‘۔ان کے عالوہ تنویر انجم ،بشٰر ی اعجاز ،عباس
رضوی ،زاہد امروز ،روش ندیم ،منیر احمد فردوس ،ارشاد شیخ ،تنویر ساغر ،سید کاشف رضا،
احمد آزاد اور خود نصیر ناصر ہیں۔
ترجمے کے حصے میں نیبوکوف ،درشن متوا ،اوکتاویو پاز ،فرینک حضور ،گرودھالے اور
ہانس بورلی کے ترجم ہیں۔ پھر شاعری میں ایک حصہ جمیل الرحٰم ن کے لیے مخصوص ہے۔
تصویر کا ذریعہ،
تصویر کا کیپشننصیر احمد ناصر شاعر ہیں اور تسطیر کے مدیر بھی،
فکشن کے حصے میں سب سے پہلے عبدہللا حسین کا افسانہ ہے جو غالبًا انہوں نے عرصے بعد
لکھا ہے اور لگتا بھی ہے۔ پھر جتیندر بلو ،رشید امجد ،منشا یاد ،سمیع آہوجہ ،محمود احمد
قاضی ،علی حیدر ملک ،احمد جاوید ،اسلم سراج الدین ،مشرف عالم ذوقی ،اے خیام ،شعیب خالق،
بشٰر ی اعجاز ،نسیم سید ،قاضی طاہر حیدر ،یاسمین حبیب ،احمد شیر رانجھا ،ترنم ریاض ،پرتیا
سیمیں اور طاہر مزاری ہیں اور محمد الیاس اور محمد عاصم بٹ کے زیِر تحریر ناولوں کے
حصے ہیں۔
تنقید میں ستیہ پال آنند ،ڈاکٹر ناصر عباس ،عمران شاہد بھنڈر ،تصنیف حیدر ،تنویر ساغر اور
ڈاکٹر عظٰم ی سلیم ہیں جب کہ محمد حمید شاہد نے میرے عہد کے تین افسانہ نگاروں کے عنوان
سے انور زاہدی ،آصف فرخی اور امجد طفیل کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے عالوہ ظفر
سپل نے ’سامراج دوستی کا فلسفہ‘ کے عنوان سے ’نتائجیت ‘ کے بارے میں بتایا ہے۔
اب بتائیے کہ اگر صرف ایک جریدے میں ادب کے نام پر اتنا کچھ ہو تو کیسے کہا جا سکتا ہے
کہ لکھا نہیں جا رہا ،لیکن کیسا لکھا جا رہا ہے؟ اس کا فیصلہ تو ’اے معزز منصفو! اے قارئین‘
آپ کے ہاتھ میں ہے۔
یک اچھا مضمون کیسے لکھیں
4 February, 2017
اسپیشل فیچر
Share
Tweet
Share
طلباء کو دوراِن تعلیم اکثر مضمون نویسی کا مرحلہ پیش آتاہے۔ کبھی یہ مضمون امتحان پاس کرنے کیلئے لکھنا پڑتÞÞا ہے
اور کبھی داخلے یا سکالرشپ کے حصول کیلئے ۔ دنیا کی مشہور یونیورسٹیاں اپÞÞنے ہÞÞاں داخلے کے خواہشÞÞمند طلبہ کے
لکھے ہوئے ’’ذاتی مضمون‘‘ کو بسا اوقات ُان کے امتحانی نتائج سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے عالوہ معÞÞروف
میں مضمون نویسی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ GREاور SAT، IELTS, GMATبین االقوامی امتحانوں جیسا کہ
مضمون نویسی کÞÞا ہÞÞنر صÞرف دوراِن تعلیم ہی کÞÞار آمÞÞد نہیں بلکہ عملی زنÞÞدگی میں بھی بÞÞات کہÞÞنے اور لکھÞÞنے کÞÞا ہÞÞنر
رکھنے والے لوگوں کی معاشرے میں ،اپنے حلقہ احباب میں اورُان کے کام کی جگہ پر بے انتہاء قÞÞدرومنزلت ہÞÞوتی ہے۔
مضمون نویسی کو اکثر ایک خشک ،بورنگ اور مشکل کام سمجھا جاتÞÞا ہے اور طلبÞÞاء کی اکÞÞثریت مضÞÞمون لکھÞÞنے کی
بجائے مشہور موضوعات جیسا کہ میرا پسندیدہ شاعر ،میرا بہترین دوست ،ایک یادگار سÞفر اور صÞبح کی سÞیر پÞر پہلے
سے لکھے گئے مضامین کا رٹہ لگانے کو ہی مضمون نویسی کیلئے کافی تیاری سمجھتی ہے۔ ایک اچھا مضمون لکھنے
کیلئے سب سے ضروری بات مضمون نویس کے لئے مطالعے کا ذوق و شÞÞوق ہے۔ اچھے مطÞÞالعے کے سÞÞاتھ نہ صÞÞرف
معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ قاری کو بات کہنے کÞÞا سÞلیقہ اور قÞÞرینہ بھی سÞکھاتا ہے۔ایÞÞک اچھÞÞا
مضمون نویس بننے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور طلبہ میں اچھی کتابیں پڑھÞÞنے کے رواج کÞÞا فÞÞروغ ہی مضÞÞمون نویسÞÞی
کے معیار کو بلند کر سکتا ہے۔اچھے مطالعے کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ایک مضمون کے معیار کو
بہتر کر سکتا ہے۔مضمون کے موضوع کو پوری طرح سمجھنا اور اس کے بارے میں ابتدائی معلومات کا ہونا ایک اچھÞÞا
مضمون لکھنے کی کم سے کم شرط ہے۔ جس طرح ایک کامیاب کاروباری فرد کیلئے اپنے گاہک کے مÞÞزاج اور ُاس کی
ترجیحات سے آگاہی ضÞÞروری ہے اسÞÞی طÞÞرح اچھے مضÞÞمون نÞÞویس کیلÞÞئے موضÞÞوع کÞÞو سÞÞمجھنا الزمی ہے۔ مضÞÞمون
لکھنے کے دوران مضمون کے موضوع کی طرف بار بار رجوع کرنا مضÞÞمون نÞÞویس کÞÞو موضÞÞوع سÞÞے بھٹکÞÞنے سÞÞے
روکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ لکھاری کو مضمون میں ُان نکات کو لکھنا ہے جو کہ موضوع کا احاطہ کر رہے ہÞÞوں نہ کہ ُان
نکات کا جن پہ لکھاری کو عبور حاصل ہو امتحانوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ طالب علم موضوع پر لکھنے بجائے غÞÞیر
متعلقہ نکات پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا لکھاری کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ اچھا امتحانی مضمون
لکھنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ لکھا جائے جو موضوع کا تقاضا ہے نہ کہ وہ نکات جن سے لکھاری کو آگÞÞاہی ہے۔
کہالتا ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مضÞÞمون کÞÞا چوتھÞÞا حصÞÞہ بھی ) (Introductionمضمون کا پہال حصہ جو کہ ابتدائیہ
نہایت اہمیت کا حامل ہے اس حصے میں لکھاری کو اپنے موقف کÞÞو ثÞÞابت کرنÞÞا ہے جس کیلÞئے نہ صÞرف مضÞمون کے
حق میں بیان کئے گئے دالئل کو وضاحت سے بیان کرنا بلکہ موضوع کے مخالف دالئل کو منطقی طریقے سے َر د کرنÞÞا
ضروری ہے۔ مضمون کا یہ حصہ نسبتًا طویل ہوتا ہے اور اسÞÞے تÞÞوازن اور ہنرمنÞÞدی سÞÞے لکھنÞÞا مضÞÞمون کے معیÞÞاری
مضÞمون کے چÞوتھے حصÞے کے ) (conclusionہونے کیلئے الزمی شرط ہے۔ مضمون کا پÞانچواں اور آخÞری حصÞہ
ساتھ منسلک ہے۔ جہاں مضمون کا ابتدائیہ قÞÞاری کÞÞو مضÞمون کے سÞاتھ جÞوڑنے میں مÞÞددگار ہوتÞÞا ہے وہیں مضÞمون کÞÞا
اختتام قاری کو مضÞÞمون اور مضÞÞمون نÞÞویس کے بÞÞارے میں حتمی رائے قÞÞائم کÞÞرنے میں نہÞÞایت اہم کÞÞردار ادا کرتÞÞا ہے۔
شامل کر سکتا ہے۔ درست جگہوں پÞÞر اقÞÞواِل ) (Quotationsلکھاری اپنے مضمون کے مختلف حصوں میں اقواِل زریں
زریں کا برمحل استعمال مضمون کی خوبصورتی اور دلچسپی کو بڑھاتا ہے تاہم لکھاری پÞÞر ِان اقÞÞواِل زریں کے مصÞÞنف
اور ذریعے کو بتانے کی اخالقی ذمہ داری ہے۔ یونیورسÞÞٹی کی انتظÞÞامیہ یہ جاننÞÞا چÞÞاہتی ہے کہ مضÞÞمون میں بیÞÞان کÞÞئے
گئے ذاتی واقعے نے طالب علم کی شخصیت اور اس کے سوچنے کے انداز پر کیا اثر ڈاال۔ لٰہ ذا ذاتی مضمون تبھی مکمل
ہوتا ہے جب طالب علم خود پر بیتے واقعات کے ساتھ سÞاتھ سÞیکھے گÞÞئے نتÞÞائج کÞÞا بھی ذکÞÞر کÞÞرے۔یÞÞاد رہے ایÞÞک اچھÞÞا
مضمون قلم اور کاغذ سے کم اور دل سے زیادہ لکھا جاتا ہے۔
3619 Views
تحریر کسی بھی انسان کے خیاالت و افکار کی عکاس اور جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ
ہوتی ہے۔ تحریر ذاتی ہو تو بہترین تخلیق بھی قرار پاتی ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی تحریر
بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تحریر کے ساتھ تحریر کا تخلیق کار (لکھاری) بھی اہم ہوتا
ہے۔ وہ معاشرے کے ان خاص افراد میں سے ہوتا ہے جو انتہائی حساس اور تیز نگاہ رکھتا ہے۔
اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے کو المیہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ،پرکھتا ہے ،مشاہدہ کرتا
ہے اور پھر سوچ بچار کے بعد اس کو قلم بند کر دیتا ہے۔
قلم سے نکلے ہوئے حروف لکھاری کا بیش قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور انہی قیمتی الفاظ سے
تحریر بن جاتی ہے۔ لکھاری ان تحاریر کو کالم یا دیگر ادبی اصناف میں ڈھالنے کا فن بھی رکھتا
ہے۔ سب سے اہم کام وہ ان تحاریر کو کسی پلیٹ فارم یعنی اخبارات ،میگزین ،رسائل و جرائد
اور کتاب کی شکل میں شائع کرنے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے۔
بہترین لکھاری ،لکھاری ہونے کے ساتھ بہترین قاری بھی ہوتا ہے۔ وہ باقی لکھاریوں کی تحاریر
کو بھی کبھی تنقید برائے اصالح ،کبھی تنقید برائے تعمیر اور کبھی تنقید برائے تنقید کی نظر
سے پرکھتا ہے۔ ہر تحریر یقینًا لکھاری کے لیے بہت قیمتی ہوتی ہیں لیکن کبھی کوئی تحریر
قابل اشاعت اور کبھی ناقابل اشاعت قرار پاتی ہے۔ جب لکھاری لکھتا ہے تو جس ادارے یا پلیٹ
فارم کے تحت لکھ رہا ہوتا ہے اس کے اصول و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ جیسے
اخبارات میں اگر کالم کی صورت میں کوئی تحریر لکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو سب سے
پہلے وہ اس اخبار کے طے شدہ قواعد کو اچھی طرح ذہن نشین کرے گا ،اس کے مزاج کو
سمجھے گا تاکہ وہ کسی صورت ان قوانین کے خالف نہ ہو تاکہ اس کی لکھی تحریر ناقابل
یہاں یہ بات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو کہ کیسی تحریر ناقابل
اشاعت ہو گی۔ ہر انسان کا نقطہ نظر ہر شے کے بارے میں مختلف ہوتا ہے ،اسی طرح اپنے
ذہن کے مطابق کوئی قاری تحریر کو پرکھتا ہے اور اسے قابل اشاعت یا ناقابل اشاعت قرار دے
دیتا ہے۔ یہ تو عام قاری کا رویہ ہو گیا۔ لیکن جب ہم کسی ادارے کے تحت لکھتے ہیں تو ان کے
اصول و ضوابط کو سامنے رکھنا پہلی ذمہ داری ہے۔ ہر ادارے کا تحریر کو قابل اشاعت قرار دینے
کا اپنا ایک مخصوص معیار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی اخبار میں لکھ رہے ہیں اور وہاں
ناقابل اشاعت تحاریر کے اصول کچھ اس طرح وضع کیے گئے ہیں کہ 800 :الفاظ سے کم تحریر،
الفاظ کا انتخاب بہترین نہ ہوا ،رموز و اوقاف اور امال جیسی غلطیاں ہوئی ،اچھوتی تراکیب کا
نامناسب استعمال کیا گیا ،قرآن و حدیث کے غلط حوالہ جات ،غیر مناسب جگہ پر استعمال،
حکومت وقت کے خالف نازیبا الفاظ کا استعمال ،معروف شخصیات کے بارے میں نامناسب الفاظ،
تحریر اگر اردو میں ہے تو انگریزی الفاظ کا استعمال ،ذاتی طور پر کسی تحریک /انسان سے
اس قسم کے مختلف قوانین ہر ادارہ طے کرتا ہے تاکہ لکھاری لکھتے ہوئے ان کو مدنظر رکھے
اور اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکے ،اس کے برعکس جب کوئی لکھاری ان قوانین کی
پاسداری نہیں کرتا ،نظر انداز کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق لکھنے کو ہی ترجیح دیتا ہے تو
اس کو اس بات سے بھی بخوبی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ ناقابل اشاعت ہو سکتی ہے۔
اس دنیائے فانی میں کوئی شے مکمل نہیں ہے۔ انسان بھی غلطی کا پتال ہے ،اس کی تخلیق
بھی غلط ہو سکتی ہے۔ لکھنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اس پہ تنقید برائے تنقید
بھی ہو سکتی ہے اور تنقید برائے اصالح بھی۔ دونوں صورتوں میں ایک اچھے لکھاری ہونے کے
ناتے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کچھ دن پہلے ایک کالم میری نظر سے گزرا جو میرے
پاس ایک ادارے کی طرف سے پروف ریڈنگ کے لیے بھیجا گیا تھا ،اس کو پڑھ کر میں سر پکڑ کر
سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا یہ واقعی اچھے لکھاری کی تخلیق ہے جو اردو ادب کے قوانین
سے واقف ہے ،سب سے بڑھ کر وہ ادارے کے قوانین سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ اس تحریر کے
ہر جملے میں امال کی غلطیاں اس قدر تھی کہ اک لمحے کو لگا ،یہ کسی اردو سے ناواقف
شخص کی تحریر ہے۔ جو ان معمولی باتوں سے بھی آگاہ نہیں کہ کن الفاظ کو جوڑ کر لکھنا ہے
اور کن کو نہیں ،اس بھاری بھرکم لفظ کی جگہ یہی ہے یا اسے کہیں اور ہونا چاہیے تھا ،قرآن
سے کوئی آیت لی ہے تو حوالہ ہی غلط اور سب سے اہم بات کہ اس آیت کا مفہوم جو
سمجھایا گیا وہ مکمل غلط۔ افعال ،ضمائر سے مکمل طور پر اجنبیت کا اظہار۔ مجھے اندازہ ہوا
یہ کسی پڑھے لکھے انسان کی تحریر نہیں ہے۔ بلکہ ایسے کسی نوخیز لکھاری کی تحریر جو
اپنے نئے نئے پر نکال رہا ہے اور وہ تحریر لکھ کر یہ سمجھ چکا ہے کہ بس میرا کام ختم ہوا ،اب
میں نے اس کو ایک مرتبہ بھی نظرثانی کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی بس اب میرا لکھا یہ گوہر
نایاب ،میرا یہ عظیم شاہکار ہر حال میں کسی اخبار یا جریدے میں من و عن شائع ہو جائے۔
میں نے بمشکل وہ کالم مکمل کیا اور سوچ میں مبتال ہو گئی کہ ایسے نوخیز لکھاریوں کو ابھی
خود تربیت کی بہت ضرورت ہے ،ابھی ان کو اپنی تحریروں کو جاندار بنانے کی ضرورت ہے ،جب
یہ اپنی تحاریر کو بہتر بنانے کے لیے محنت نہیں کرتے تو پھر یہ شکوہ کیسے کر سکتے ہیں کہ
تحریر شائع نہیں ہوئی؟ ادارے کے خالف احتجاج کرنے کیسے نکل سکتے ہیں؟ ان تمام
لکھاریوں کے لیے ہے جو ایسی تحریر تخلیق کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ مارا
ہے اور رد ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے ان کو اپنی اہلیت پر سنجیدگی سے غور کرنا
چاہیے۔
اب آپ کے دماغ میں ایک سوال جنم لے رہا ہو گا ،آپ یقینًا بے چین بھی ہوں گے کہ ہم جان
سکیں کہ کیسے اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکتے ہیں؟ کیسے ایسی تحریر لکھ سکتے
ہیں جو پر اثر ہو اور رد نہ ہو سکے؟ کیسی تحریر لکھیں کہ لوگ اس سے کچھ سیکھ سکیں؟
لکھ رہے ہیں تو ان کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تحریر لکھیں جیسے پہلے حصے میں
ذکر تھا ،اور اگر ذاتی طور پر بھی لکھنی ہو تو اس میں کم از کم اردو کے بنیادی قواعد و ضوابط
کو ضرور مدنظر رکھیں۔ ”ہے“ اور ”ہیں“ کا فرق ،مونث مذکر کا فرق ،جمع واحد کا فرق وغیرہ کا
خصوصی خیال رکھیں۔ امال کی غلطیاں بار بار پڑھنے سے ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ اپنی تحریر کو
کم از کم پانچ دفعہ خود ضرور پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں ،ان الفاظ سے گریز کریں جن
کے معنی آپ کو خود بھی نہیں پتا ،اپنے خیاالت کا اظہار ضرور کریں لیکن ان الفاظ میں جنہیں
ہر خاص و عام بخوبی سمجھ سکیں۔ بہترین تحریر وہی ہوتی ہے جس سے ہر کسی ہو کچھ
سیکھنے کو ملے۔
اگر بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کریں گے تو یہ اکتاہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی تحاریر
بھی نظر سے گزری ہیں جن میں اس قدر مشکل الفاظ کا استعمال تھا کہ ڈکشنری کی مدد
لینی پڑی۔ لکھتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھیں آپ بہت بڑے عالم فاضل ہو سکتے ہیں
لیکن شاید بعض قارئین اس قدر علم سے آراستہ نہ ہوں۔ نتیجتًا وہ آپ کی تحاریر پڑھنا چھوڑ
دیں گے۔ قرآن سے اخذ شدہ آیات کا حوالہ معقول لکھیں۔ حوالے اور دالئل کے ساتھ بیان کی
ہوئی بات پر اثر ہوتی ہے۔ مفہوم یا تفسیر بھی لکھ رہے ہیں تو مستند حوالے کے ساتھ لکھیں
جیسے قرآن پاک کی مستند تفاسیر میں صحاح ستہ ہیں جن سے آپ مدد لے سکتے ہیں۔
کسی کی تحریر سرقہ کرنے سے گریز کریں۔ میں نے جب باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب
فیس بک پہ کبھی کبھار کوئی تحریر یا شاعری لکھتی رہتی تھی تو ایک دن میری لکھی ہوئی
نظم کسی نے اپنے نام سے ایک گروپ میں پوسٹ کر دی۔ بہت دکھ ہوا ،احتجاجًا گروپ کی
انتظامیہ سے رابطہ کر کے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی۔ تو ایسے ادب چور بننے سے گریز کریں۔ یہ
آپ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کسی کے خیاالت و افکار
سے متاثر ہو کر تو لکھ سکتے ہیں لیکن کسی کی لکھی ہوئی تحریر کو اپنا نام نہیں دے
سکتے۔ اگر نوخیز لکھاری ان باتوں کا خیال رکھیں تو بہترین تحریر تخلیق کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں! جس طرح کسی بھی شے کو پرکھنے کا کوئی نہ کوئی خاص پیمانہ ضرور ہوتا ہے۔
اسی طرح تحریر معیاری ہے یا نہیں اس کو پرکھنے کا بھی پیمانہ ہے ،جس پر اس تحریر کو
پرکھا جاتا ہے ،اگر یہ پیمانہ نہ مقرر کیا جائے تو سب سے پہال نقصان لکھاری کا اپنا ہی ہوتا ہے
کہ اس کا نام خراب ہو جاتا ہے۔ اور اس کے قارئین ایک دو دفعہ پڑھنے کے بعد یہ نظریہ قائم کر
لیں گے کہ یہ ایسا ہی لکھتا ہے اسے پڑھنے کا فائدہ نہیں۔ دوسرا نقصان اس ادارے کا ہے جو
آپ کی ناقص تحریر کو شائع کرے گا۔ اگر وہ سرقہ کی ہوئی کوئی تحریر اپنے نام سے شائع
کروا کر شہرت کا خواہشمند ہو تو بھی پکڑے جانے پر ذلت کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک اور اہم بات جو نو خیز لکھاریوں کو اکثر سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے وہ یہ کہ آپ نے
کوئی تحریر بھیجی ہے تو اس کے شائع ہونے کے لیے بھی کچھ پیمانے مقرر ہوتے ہیں جس
کے لیے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ آپ اچھے لکھاری ہونے کا ثبوت دیں اور انتہائی صبر و تحمل کا
لکھاریوں سے گزارش ہے اگر آپ مقبولیت چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی کوئی تحریر ناقابل
اشاعت نہ قرار پائے تو اپنا مطالعہ وسیع کریں ،ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ آپ کالم لکھ رہے
ہیں تو کالم نویسی کے اصولوں سے واقفیت حاصل کریں ،مختلف کالم نگاروں کو پڑھیں پھر
لکھیں۔ اسی طرح آپ کسی بھی ادبی صنف کو لکھ رہے ہیں تو ان اصناف کا مطالعہ ضرور کریں۔
اپنے سیکھنے کے عمل کو بڑھائیں۔ اردو ادب سے مکمل آگاہی حاصل کریں ،جس موضوع پر
لکھ رہے ہیں اس کے مطابق مختلف مواد کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے ذہن میں ایک خاکہ تیار
کریں ،اس خاکے کے مطابق اپنی تحریر کو تخلیق کریں اور کوشش کریں کہ اپنی تحریر میں
قاری کے لیے کوئی ایسا پیغام ضرور دیں جو اس کے لیے فائدہ مند ہو ،جو اس کی رہنمائی
کرے ،اسے فہم دلوائے کہ اب میں نے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں۔ صحیح اور غلط کا فرق سمجھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)انورغازی(
یاد رکھیں !شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے ،اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے
جاتے ہےں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ ”روزانہ ڈائری
لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں
روز مّر ہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار
تجربات گواہ ہیں۔
دوسرا طریقہ ”کہانی لکھنا“ ہے۔ننھی منی ،چھوٹی چھوٹی ،مختصر اور دلچسپ کہانیاں لکھنے سے آہستہ آہستہ لمبی اور طویل
تحریر لکھنے کی صالحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ شروع شروع میں مختصر اخالقی کہانیاں لکھنے کی مشق کریں اور کسی استاد سے
اصالح لیتے رہیں۔تیسرا طریقہ ”کسی تحریر کی تلخیص وتسہیل“ ہے۔ کسی بڑ کو غور سے پڑھ کر اس کا ایسا خالصہ نکالنا جس
میں معنی ومفہوم تو اصل تحریر کا ہو ،البتہ الفاظ اور انداِز بیان نو آموز لکھاری کا اپنا ہو۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معیاری تحریر کو لے کر اسے تین مرتبہ پڑھا جائے۔ پہلی مرتبہ سمجھنے کے لیے ،دوسری
مرتبہ سمجھانے کے قابل ہونے کے لیے ،تیسری مرتبہ آسان اور مختصر ودلچسپ انداز میں تلخیص وتسہیل کرنے کے الئق
ہونے کے لیے۔ تین مرتبہ مطالعہ کرلینے اور اہم چیزوں پر نشان لگانے کے دوران اگر کوئی مشکل یا تحقیق طلب لفظ آجائے تو
اس کا معنی دیکھ کر متبادل آسان لفظ منتخب کریں ،پھر تحریر کا ایک ایک پیرا لے کر اس کا خالصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔ اس
طرح مشق کرنے سے بھی لکھنا آ جاتا ہے۔
چوتھا طریقہ ”مکالمہ“ ہے۔ تحریر سیکھنے کا ایک طریقہ دو چیزوں کے درمیان فرضی مکالمہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی
شہر میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ،دوسرا دیہاتی زندگی کادلدادہ ہے۔ ایک چھٹی کا دن گھر پر سستاتے ہوئے گزارنے کا عادی
ہے ا ور دوسرا فارغ وقت میں باہر جاکر شکار یا تفریح کا شوقین ہے۔ ایک خواتین کی جدید تعلیم کی افادیت کا قائل ہے جبکہ
دوسرا اسے تباہ کن اور مضر سمجھتا ہے۔ ایک کو گرمی کا موسم اچھا لگتا ہے اور دوسرے کو کڑاکے کی سردی میں زندگی کا
لطف آتا ہے۔ اس طرح کے دو متضاد نظریات کے حامل افراد یا اشیا کے درمیان مکالمہ لکھنے سے مافی الضمیر کے اظہار کی
بہترین مشق ہوجاتی ہے۔
پانچواں طریقہ ”مراسلہ اورمکتوب نگاری“ ہے۔ کسی قومی ومّلی مسئلے پر اخبارات میں مراسلہ بھیجنا یا اپنے احباب کو سنجیدہ
گپ شپ کے انداز میں خط لکھنا بھی تحریر کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ مختصر ،بامعنی اور جاندار انداز میں تحریر کیے
گئے مراسلے اور خطوط تحریر کی صالحیت پروان چڑھانے کا مو¿ثر طریقہ شمار ہوتے ہیں۔ نوآموز طلبہ اس سے بھی اپنی
مشق کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس کے عالوہ بھی کئی طریقے ہیں۔
نوآموز کالم نگار سمجھتے ہیں کہ تحریر لکھنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے۔ نہیں میرے بھائی نہیں ،ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کالم
لکھنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ کالم کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے اگر درج ذیل امور کا خیال رکھا
جائے تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ ضروری ترمیم اور الزمی تصحیح کی جائے۔ بعض اوقات کالم نگار کا ذہن اتنی
تیزی سے کام کرتا ہے کہ اس کا قلم ذہن کا ساتھ نہیں دے پاتا اور بہت سے الفاظ تحریر ہونے سے رہ جاتے ہیں ،اس لیے کالم کا
دوبارہ مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں کوئی لفظ رہ نہ جائے۔ اگر کوئی لفظ بال ضرورت لکھا گیا ہو تو اسے
کاٹ دیا جائے۔ اگر کالم میں کاٹ چھانٹ زیادہ ہوجائے تو اسے دوبارہ صاف صاف لکھنا چاہیے۔ کالم دوبارہ لکھتے ہوئے اس میں
اچھے اضافے بھی کیے جاسکتے ہیں اور غیر ضروری چیزوں کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی لفظ کے متعلق شک اور
شبہ ہوکہ اس کے ہجے یا امال درست نہیں ہے یا یہ مناسب طور پر استعمال نہیں ہورہا تو اس سلسلے میں لغت یا کسی استاد سے
مدد لینی چاہیے۔
اسی طرح اگر آپ نے کالم میں اعداد وشمار ،تاریخی اورتحقیقی معلومات دی ہیں تو ان کے درست ہونے کا یقین کرنے کے لیے
متعلقہ مراجع سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ماہرین سے مشورہ کرنے میں بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں
کرنی چاہیے۔ کالم نگار کوچاہےے کہ اپنے کالم کو قارئین کی نظر سے بھی پڑھے۔ اگر ایسا محسوس ہوکہ کسی جگہ کالم کے
مندرجات کا صحیح ابالغ قارئین تک نہیں ہوگا یا کم ہوگا تو اس صورت میں کالم کی اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی
چاہیے۔
نو آموز کالم نگار کے لیے یہ بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے کہ اسے کسی ایسی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوجائے جو
اس کی خام تحریر کو اپنی اصالح سے کندن بنادے ،یا ایسا پڑھا لکھا سمجھدار دوست میسر ہوجائے جسے وہ کالم دکھا کر مشورہ
لے سکے اور اس کی ”مشاورتی اصالح“ کی روشنی میں اپنے کالم کو بہتر سے بہتر کرسکے۔ے ادیب کی تحریرا
!آپ مضمون نگار بننا چاہتے ہیں؟ جانیے کیا کرنا چاہیے
بانٹیں
حیرت انگیز
دلہن کو تحفہ دینے کے بعد دولہے پر چاقو سے حملہ ،ویڈیو وائرل
یہ پرندے کے انڈے ہیں یا محکمہ موسمیات ،بارش کب اور کتنی ہوگی؟ ہمیشہ درست پیشگوئی
کسی موضوع پر کوئی مضمون سپرِد قلم کرنا یا لکھنا ایک فن ہے۔
نام َو ر اہِل قلم اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور مختلف موضوعات پر مضامین جہاں اردو داں طبقے کے ذوق کی تسکین اور ان کی
معلومات میں اضافہ کرتے ہیں ،وہیں ان میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے ،لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اپنے جذبات اور احساسات کو
کیسے الفاظ کا جامہ پہنائیں کہ ایک جامع اور معیاری مضمون سامنے آئے۔
مطالعہ اور کسی موضوع پر لکھنا بے پناہ خوشی دیتا ہے۔ یہ انسانی ذوق و شوق کی تسکین کا مفید اور تعمیری مشغلہ ہی نہیں ،ذہن و
فکر کی بیداری اور قلبی راحت کا ذریعہ بنتا ہے ،اس طرف توجہ دی جائے تو ہمارا شمار اہِل قلم میں بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے لکھنے
میں مہارت دماغ سوزی اور مسلسل مشق کے ساتھ ٓاتی ہے جس میں آپ کا وسیع مطالعہ نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لکھنے والے
کی کوئی بھی تحریر فنی طور پر زیادہ پختہ اور اس میں تسلسل و ربط نظر آتا ہے۔ اگر آپ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ مضمون
پڑھیے۔
مضمون نگاری کی مشق کے چند آسان طریقے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔
مشق کے اس پہلے اسٹیج کے تئیں آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ لکھے لکھائے مضمون سے چند پیراگرافوں کا انتخاب کر کے ان کو
اپنی ترتیب کے مطابق اس طور پر نقل کرنا ہے کہ نہ کہیں بات بدلتی دکھائی دے اور نہ تسلسل بہکے۔ مشق کے اس طریقے پر کم از کم
چار پانچ مضامین ترتیب دیجیے۔
:مشق کا دوسرا مرحلہ
دوراِن مطالعہ چند پیراگرافوں کا انتخاب کر لیں اور ان پر کچی پنسل سے خط کھینچ دیں ،اس کے بعد اپنے طور پر ترتیب دے کر الفاظ
:کے رد و بدل کے ساتھ مترادف الفاظ الکر نقل کریں۔ مثًال
:اصل پیراگراف
بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو ماضی اور حال سے زیادہ مستقبل پر نظر رکھتی ہیں ،نظیر اکبرآبادی کا شمار ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا "
”ہے ،یہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے عوامی جذبات ،احساسات اور خیاالت عوامی زبان میں نظم کیے۔
:ہدایت
مشق کا یہ طریقہ بھی آٹھ دس دن تک جاری رکھیں۔
بہت سی بلند شخصیات حال و گزشتہ سے کہیں زیادہ آئندہ وقت کی فکر کرتی ہیں ،نظیر اکبر آبادی انہی میں سے ایک ہیں ،وہ ایسے "
”شاعر ہیں جنہوں نے عام آدمی کے جذبات و خیاالت اور تفکرات کو اپنی شاعری کے ذریعے اسی کی زبان میں پیش کیا ہے۔
:ہدایت
مشق کے اس سلسلے کو بھی ہفتہ بھر جاری رکھیں۔
٭پہلی مرتبہ جو ذہن میں آئے لکھتے جائیے ،عمدہ الفاظ اور خوب صورت جملوں کے چکر میں ہنوز مت پڑیے۔
٭یہ سچ ہے کہ ہر لفظ کے بعد آپ کا قلم رکے گا ،ہر جملے کے بعد آپ کو سوچنا پڑے گا اور ہر سطر کے بعد آپ کی ہمت جواب دینا
چاہے گی ،لیکن آپ کو قلم کاپی سمیٹ کر رکھنے کی ضرورت نہیں ،بلکہ جب لکھنے کا ارادہ کر لیا ہے تو لکھنا ہی ہے ،خواہ کتنا ہی
وقت لگے۔ آہستہ آہستہ الفاظ کی آمد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور جملوں کا بنانا سہل معلوم ہوگا ،پھر آپ جس ایک صفحے کو ایک گھنٹے
میں لکھتے تھے چند منٹوں میں لکھنے لگیں گے۔
٭مضمون کو مکمل کرنے کے بعد ایک دو مرتبہ خود اصالح کی نظر سے پڑھیے اور ایک ایک جملے پر غور کیجیے ،جہاں جو لفظ
بدلنے کے قابل ہو بدل ڈالیے ،جو باتیں عنوان سے الگ ہوں قلم زد کر دیجیے اور جس قدر ہو سکے اپنے اعتبار سے اپنی تحریر کو
سنوارنے کی کوشش کیجیے ،اس کے بعد اس کو دوسری جگہ صاف صاف نقل کرکے اپنے کسی قلم کار استاذ سے اصالح کرائیے ،پھر
جہاں استاذ نشان دہی کرے وہاں غور کیجیے کہ کیا خامی تھی اور کیسے درست ہوئی؟
:ہدایت
مشق کے اس سلسلے میں استاذ سے اصالح کرانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ خود آپ کی اصالح آپ کی تحریر کو
کافی نہ ہو جائے۔
تحریر کا سلیقہ
تحریروں کی مختلف اقسام ہیں۔ مثًال مضمون ،رپورٹ ،خط ،درخواست اور تقریر وغیرہ۔ ہر طرح کی تحریر کو لکھنے کا انداز مختلف
ہوتا ہے ،کیوں کہ ہر تحریر کا مقصد جدا ہوتا ہے ،آپ کا انداِز تحریر ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کا مقصد پوری طرح حاصل ہو جائے ،درج
ذیل ہدایات کو مد نظر رکھ کر اچھی تحریریں لکھی جاسکتی ہیں۔
مضمون کیسے لکھا جاتا ہے؟ اس سے پہلے آپ یہ جانیں کہ ”پیراگراف کیسے لکھا جاتا ہے؟“ آئیے ! اس پر بات کرتے ہیں۔ یاد
رکھیں! پیراگراف جملوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو حسب ذیل عنوانات پر لکھا جاسکتا ہے :ایک خیال۔ ایک چیز۔ ایک جانور۔ ایک
پودا۔ ایک شخص۔ زندگی کا ایک پہلو۔ ایک واقعہ۔ ایک حادثہ۔ ایک خاصیت وغیرہ۔ ان عنوانات کی کوئی حتمی فہرست نہیں تیار
کی جاسکتی۔ اسے کسی بھی عنوان پر لکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی خیال کے بارے میں جس میں ایک ”عنوانی جملہ“ موجود ہو۔
پیراگراف کو دوسرے جملے عنوان کے بارے میں مزید اور اضافی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
پیراگراف لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ منتخب کیے ہوئے عنوان پر بحث کریں۔ اس کے اصل ،مرکزی خیال کے بارے میں اپنے
آپ سے سواالت پوچھیںجو اس عنوان سے متعلق ہوں۔ پھر ان جوابات کو ایک ترتیب سے ایک پیراگراف کی شکل میں جمع
کردیں۔ مثال کے طور پر سامنے ایک ٹیبل اور بینچ رکھی ہوئی ہے۔
اب آپ سوال کریں کہ ”یہ کیا ہے؟“ جواب” :یہ ایک بینچ ہے۔“ سوال” :یہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب” :یہ لکڑی کی بنی
ہوئی ہے۔“ سوال” :اس کو کس نے بنایا ہے؟“ جواب” :اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔“ سوال” :اس کا کیا رنگ ہے؟“ جواب” :یہ
گہرے بھورے رنگ کی ہے۔“ سوال” :اس کے کتنے پائے ہیں؟“ جواب” :اس کے چار پائے ہیں۔“ سوال” :کیا اس کی کوئی پیٹھ یا
پشت ہے؟“ جواب” :ہاں! اس کی پشت ہے۔“ سوال” :اس کی پشت کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟“ جواب” :اس کی پشت بھی لکڑی کی
بنی ہوئی ہے۔“ سوال” :اس پر کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں؟“جواب” :اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔“سوال” :اس کی کیا قیمت
ہے؟“ جواب” :اس کی قیمت =/ 800روپے ہے۔“سوال” :اسے کہاں سے خریدا جاسکتا ہے؟“جواب” :اسے کسی فرنیچر مارٹ یا
“بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا ہے۔
اب ان تمام جوابی باتوں کو ایک ایک ترتیب سے جوڑ دیں تو پیراگراف بن جائے گا۔ ”یہ ایک بینچ ہے۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔
اس کو بڑھئی نے بنایا ہے۔ یہ گہرے بھورے رنگ کی ہے۔ اس کے چار بازو ہیں۔ اس کی ایک پشت ہے جو لکڑی کی بنی ہوئی
ہے۔ اس پر پانچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کی قیمت 800روپے ہے۔ اسے کسی فرنیچر یا بڑھئی کی دکان سے خریدا جاسکتا
ہے۔“ یہی طریقہ ہے ہر موضوع پر پیراگراف لکھنے کا۔ پھر اسی قسم کے چند پیراگرافوں کو مالکر مضمون بنادیا جاتا ہے۔
مضمون نویسی کے لیے سب سے پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے عنوان کا انتخاب کرکے مضمون کا خاکہ تیار
کرنا پڑتا ہے جس کے لیے خیاالت کی فہرست بنائی جاتی ہے جو اس عنوان کے بارے میں مضمون نویس کے ذہن میں آتے ہیں۔
ایک دلچسپ مضمون کی شروعات کے لیے کوئی تجویز یا کسی ضرب المثل یا کسی نظم کے مصرعے سے کام لیا جاتا ہے۔ اس
کے ہر خیال پر ایک پیراگراف یا نثرپارہ لکھا جانا چاہیے جس میں ایسی معلومات شامل ہونی چاہیے جو مضمون کے قارئین کے
لیے قابل قبول ہوں۔
اس کے بعد عمل درآمد کا مرحلہ ہے۔ کامیاب مضمون نویسی کے لیے زبان پر عبور حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے جسے اظہاری
صالحیت کہتے ہیں۔ آخر میں مضمون کا اختتامیہ ہوتا ہے۔ اختتامیہ کو اثر انگیز ہونا چاہیے جن کو بڑی دانشوری کے ساتھ سوچنا
چاہیے۔ اسے مضمون کے مرکزی خیال کا نچوڑ ہونا چاہیے۔
صاف ،سلیس ،دلفریب ،دل کش ،فطری اور قابل فہم ) (Style of Writingسب سے آخر میں نظر ثانی کی جاتی ہے۔ طرِز تحریر
ہونا چاہیے۔ مضمون نویس کو اپنے مضمون میں غلط العام ،زبان زد خاص و عام کا استعمال ،غیردلچسپ عمومی فقروں
کا استعمال ،بے ہودہ و لغو زبان ،ثقیل جملے ،فحش فقرے ،مبہم باتیں ،غیرمستند مخفف الفاظ کے استعمال سے )(Hackneyed
گریز کرنا چاہیے۔
اچھے مضامین میں یہ خصوصیات ہونی چاہیے۔ احساسات کے مطابق نفس مضمون کی بالکل صحیح وضاحت کرنی چاہیے۔
خیاالت میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ صحیح طرح عنوان سے مطابقت قائم رکھنی چاہیے۔ موضوع سے ہٹنا نہیں چاہیے۔ مضمون کو
کئی پیرگرافوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک جملے کا دوسرے جملے سے اور ایک پیراگراف کا دوسرے پیراگراف سے موزوں
منطقی ربط قائم رکھنا چاہیے۔ خیاالت میں تسلسل برقرار رکھنا چاہیے۔
ماہریِن صحافت نے کالم نگارکے 12اوصاف بیان کیے ہیں۔ آئےے !ان اوصاف میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔ کالم نگار کا
مطالعہ بے حد وسیع ہونا چاہیے۔ اسے ادب ،نفسیات ،فلسفہ ،سائنس ،اقتصادیات ،سیاسیات ،غرضیکہ ہر شعبہ¿ زندگی کے متعلق
ضروری معلومات حاصل ہونی چاہییں۔ اگر کالم نگارکسی خاص شعبے پر کالم لکھنا چاہتا ہے تو اس شعبے کے متعلق اس کی
معلومات نہ صرف وسیع بلکہ تازہ ترین بھی ہونی چاہییں۔
آپ خود سوچیں اگر کالم نگار کا مطالعہ وسیع نہیں ہوگا تو وہ رہنمائی کا فریضہ کیسے سر انجام دے سکے گا؟ کالم میں دیے
گئے کسی بھی حوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست ہو۔ اس میں غفلت سے بعض اوقات ایسی غلطی ہوجاتی ہے جس سے
کالم نگار کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور پڑھنے والوں میں اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ اس کا عالج مطالعے کی وسعت اور
تحقیق کی عادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے عالوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
کالم نگارکی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اسے زبان وبیان پر عبور حاصل ہو۔ جس زبان میں کالم لکھا جا رہا ہے ،اس زبان کی
باریکیوں اور قواعد سے بخوبی واقف ہو۔ صحافتی قوانین اور ضابطہ¿ اخالق سے واقفیت رکھتا ہو۔ ایک طرف تو اسے صحافتی
قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے کالم لکھنا ہوتا ہے ،دوسری طرف اخبار کی پالیسی اور قارئین کے مزاج کا خیال بھی رکھنا ہوتا
ہے۔ اخباروں میں کالم نگاروںپر عمومًا کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ،لیکن قانونی طور پر کالم نگارکی تحریر کا پرنٹر اور
پبلشر کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کالم نگار سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ جہاں اس کی تحریریں قارئین کے لیے
معلومات فراہم کریں ،وہاں اس کی تحریروں سے اخبار کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہ ہو ،اس لیے کالم نگار کو صحافتی قوانین اور
ضابطہ ہائے اخالق سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ صحافتی قوانین اور اصول وقتًا فوقتًاتبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں !شروع شروع میں از خود خالص طبع زاد تحریر لکھنا مشکل ہوتا ہے ،اس لیے یہاں چند ایسے طریقے تجویز کیے
جاتے ہےں جن کی مدد سے نو آموز لکھاری رفتہ رفتہ استعداد اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ ”روزانہ ڈائری
لکھنا“ ہے۔ انسان کی زندگی ایک داستان ہے تو اس کی زندگی کا ہر دن اس داستان کا ایک ورق۔ اگر کوئی انسان اس ورق میں
روز مّر ہ پیش آنے والی کہانی کا خاکہ بنانا اور اس میں رنگ بھرنا سیکھ جائے تو وہ اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ اس پر بے شمار
تجربات گواہ ہیں۔ قارئین! اس موضوع پر مزید بات معلومات اس موضوع پر لکھی گئی ہماری کتاب ”صحافت ایسے سیکھیں“ میں
پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ کتاب الحجاز کراچی فون نمبر 03142139797سے بارعایت دستباب ہے۔(جاری ہے)