Professional Documents
Culture Documents
02-T
02-T
شن
Open Access at: https://journals.iub.edu.pk/index.php/al-absar/about
ت نت فق
ہ السی رۃ کی رو ی می ں ا ہا پ س ن دی کے عوامل اور دارک
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
Muhammad Tahir Akbar
Representative: Daily Baithak Multan
Abstract
Extremism is a wrong & inflexible behavior of an individual or nation.
Leaving the path of moderation is also extremism. Extremists do not have the
strength to tolerate opposing thinking, ideology & belief. People with such
thoughts just want to convince their own ideas. Due to extremism, ethnicism,
sectarianism & racism, there are so many problems in this world. Due to
extremism, this world has been destroyed many times. In twentieth & twenty-
first centuries, because of extremist ideologies of communism, capitalism &
fascism, the peace & order of the whole world is in ruins.
Extremism grows in different areas for different reasons. One
reason is the lack of proper justice system. When the influential criminals of
the society do not get caught by the law & they escape from the clutches of
the law by using various tactics, extremism arises in society. Other reasons
include ignorance or lack of education, social exploitation, poverty, hunger
& lack of interfaith harmony, corruption & social injustice.
The only solution to extremism, ethnicism, sectarianism &
racism is to promote Islamic teachings. Islamic teachings include
equality of human being & brotherhood, interfaith harmony, giving
equal status to all prophets, gentleness & tolerance. It is fact that if
extremism can be eradicated from this world, then this world can
become like paradise.
Keywords
All Rights Reserved © 2022 This work is licensed under a Creative Commons
Attribution 4.0 International License
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
پسندی کی بھی کثرت سے پائی جاتی ہے جیسے ہندوستان میں مذہبی انتہا پسند نعرہ لگاتے
ہیں کہ ہندوستان صرف ہندؤں کے لیے ہے اور وہ کسAی دوسAرے مAذہب کAو برداشAت نہیں
کرتے ،اسی طرح یہودی ،غیر یہودیوں کو نچلے درجے کAAا انسAAان سAAمجھتے ہیں۔ دنیAAا میں
کئی جگہوں پر مسلمانوں پرصرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و سAAتم ڈھAAائے جAAارہے
ہیں۔ اس طرح دنیا کے مختلف مذاہب کے لوگ اپنے فروعی یا مسلکی اختالفات کی بنAAا پAAر
ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ مسلکی اختالفAAات دنیAAا کے تمAAام بAAڑے مAAذاہب میں
پایا جاتا ہے اور اکثر شدت اختیار کرجاتا ہے۔امام قرطبؒی فرماتے ہیں:
الغلو فی الدین :اال فراط فیہ کما افرطت الیھود فی موسٰی و النصاری فی
ٰی 1
عیس ۔
دین میں غلو کا مطلب ہے کہ انسان افراط و تفریط کا ایسے شکار ہوجAAائے
جیسے یہود و نصارٰی عیسٰؑی اور موسٰؑی کے متعلق ہوگئے تھے۔
اس کا مطلب ایسی شدت پسندی اختیار کرنا ہے جسAAے اچھے معاشAAروں میں بہAAتر
نہیں سمجھا جاتAAا۔ ہAAر اچھے معاشAAرے میں میAAانہ روی کAAو بہAتر سAAمجھا جاتAAا ہےاور انتہAا
پسندی کو برا تصور کیا جاتاہے۔ دنیا میں موجود تمام نظریات کی پرکھ کی جائے اور غور
و فکر کیا جائے تو ا سالم ایک ایسا نظAریہ اور دین ہے جAو کسAی انسAان کی شخصAیت کی
ت تعمیر ن
ا ہا پس ن دی کے اس ب اب
اور معاشرے کی تخلیق میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔
2.1
شدت پسندی اور انتہا پسندی کی سب سے بڑی وجہ عالمی اور عالقائی طاقتوں کی .1
کشمکش ہے۔ طاقتور قوتیں ،کمزور لوگوں کو دبAAانے اور ان پAAر حکمAAرانی کAAرنے
کے لیے اپنے نظریات کا پروپیگنڈہ کرتی ہیں اور عوام الناس کو ان کا پابند بنAAاتی
ہیں۔ بیسویں صدی تا حال پوری دنیا اشAAتراکیت ،سAAرمایہ دارانہ نظAAام اور فسAAطائیت
کی کشمکش ،شدت اور جنون کا شAکار ہAوکر دو عAالمی جنگAوں ،سAرد جنAگ اور
بہت سے مسائل کا شAکار ہAوئی۔ اس دنیاکAا امن و امAان تبAاہ ہAوا اور تاحAال مختلAف
مسائل کا شکار ہے۔
انتہا پسندی مختلف عالقوں میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر پAAروان چڑھAAتی ہے لیکن .2
اس کی ایAAک بAAڑی وجہ عAAدل و انصAAاف کے درسAAت نظAAام کAAا نہ ہونAAا ہے۔ جب
معاشرے کے بااثر جرائم پیشہ افراد قانون کی گرفت میں نہیں ٓاتے اور وہ مختلAAف
طریقے اور تاخیری حربے استعمال کرکے قانون کی گرفت سے بچ جAAاتے ہیں تAAو
اس سے تمام انسانوں کے برابر ہونے کا نظAAریہ دم تAAوڑ جاتAAا ہے۔ یوںشAAدت پسAAندی
اور مختلف قسم کے تعصبات جنم لیتے ہیں اور بہت سے لوگ معاشرے کے پراثAAر
طبقہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ انہیں ایسا مقام حاصل ہوجAAائے جAAو معاشAAرے
کے دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں ہے۔
انتہAAا پسAAندی کی ایAAک بAAڑی وجہ جہAAالت یAAا تعلیم کی کمی ہے۔ صAAرف تعلیم ہی .3
21
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
انسان کو شعور دیتی ہے اور انسان کو انسان بنAAاتی ہے۔ انسAAان کAAو علم ہوتAAا ہے
کہ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔ زندگی اور خدمت کے فلسAAفہ کAAو سAAمجھنے کAAا
موقع ملتا ہے۔ تعلیم یافتہ شخص جھAAوٹے پروپیگنAAڈہ اور افواہAAوں کAAا شAAکار نہیں
ہوتا ،یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شدت پسندی کو کم کرنے کے لAAیے تعلیم کAAا عAAام
کرنا ضروری ہے۔
انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی عدم استحکام اور استحصال کی وجہ سے .4
پیدا ہونے والی غAAربت ،بھAAوک ،افالس اور یکسAAاں مواقAAع دسAAتیاب نہ ہونAAاہے جس
کی وجہ سے لوگ جنونیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ بین المذاہب اور بین المسAAالک ہم ٓاہنگی نہ ہونAAا اور .5
مذہبی یا مسلکی جنونیت کا پھیل جانا ہے۔ ترقی پذیر یAAا غAAریب ممالAAک میں شAAدت
پسندی اور انتہا پسندی زیادہ ٓاسانی سے پھیل جاتی ہے کیونکہ جہالت کی وجہ سے
لوگوں کےخیاالت و جذبات سے کھیلنا ٓاسان ہو جاتAAا ہے۔ لAAوگ جAAذباتی نعAAروں پAAر
نہایت ٓاسانی سے یقین کرلیAAتے ہیں اور اپAAنے لیAAڈران کی ہAAر بAAات کAAو نہAAایت اہمیت
دیتے ہیں اور انہیں سچ مانتے ہیں۔ یوں معاشرہ ٓاہستہ ٓاہستہ اعتAAدال اور میAAانہ روی
سے ہٹ کر جAذبات اور انتہAا پسAندی کAا شAکار ہوجاتAا ہے۔انتہAا پسAندی کے دیگAر
اسباب درج ذیل ہیں۔
شکوک و شبہات اور ابہامات کا فروغ۔
تعمیری سوچ کا فقدان۔
فارغ البالی اور مصروفیت کا نہ ہونا۔
ذاتی حرص اور سیاسی تنگ نظری۔
عالقائی احساس محرومی اور متعصبانہ فروغ۔
بدعنوانی اور سماجی ناانصافی۔
فقدان۔ ظ
ت لیڈر خ
نقومی ت ت
ا ہاپس ن دی ا یر ی اور عالمی ن ا ر می ں
شپ کا
2.2
اگر ہم تاریخی اعتبار سے انتہا پسندی کAAا جAAائزہ لیں تAAو علم ہوتAAا ہے کہ سAAب سAAے
پہلے معلوم تاریخ انسانی میں شAAدت پسAAندی اور انتہAAا پسAAندی کAAا سAAراغ حضAAرت نAAوح علیہ
السالم کے واقعہ میں ملتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السالم بالشبہ ہللا تبارک و تعالٰی کے جلیل
القAAدر پیغمAAبر تھے۔ ٓاپ علیہ السAAالم نے نہAAایت حکمت و بصAAیرت ،نہAAایت نAAرمی نہAAایت
اخالص اور دالئل کے ساتھ اپنی قوم کو تبلیغ دی لیکن وہ قوم شدت پسندی اور انتہا پسAAندی
میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السAAالم جیسAAے جلیAAل القAAدر
اور شفیق پیغیمبر کی تعلیمات کو جھٹالیا اور ان کے دلAAوں سAAے َو د ،سAAواع ،یغAAوث ،یعAAوق
اور نسر جو پانچ بت تھے ،ان کی محبت اور شرک نہ نکAAل سAAکا۔ حAAاالنکہ حضAAرت نAAوح
علیہ السالم نے اپنی قوم کو چند سال یا چند دہائیاں نہیں بلکہ قریبًا ساڑھے نو سو سال تبلیAAغ
دی۔ قرٓان کریم میں اس شدت پسند و انتہا پسند قوم کو اندھی قوم کہا گیا ہے۔
22
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
َک ُن َق ًا َا َک َّذ َا ّذ َف َک َّذ َف َا
ُب وُہ نَج یٰنُہ َو ال یَن َم َع ہ ِف ی الُف لِک َو غَر قَن االذیَن ُب و ِب ٓاٰی ِت ن ِ ،ا َّن ُھ م ا و وم َع میۡن ۔
2
پس لوگوں نے انہیں جھٹالیا تAAو ہم نے انہیں (نAAوح علیہ السAAالم کAAو) اور ان
لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشAAتی میں تھے کAAو نجAAات دی اور ہم نے انہیں
ڈبودیاجنہوں نے ہماری ٓایتوں کو جھٹالیا ،بے شک وہ اندھی قوم تھی۔
حضرت نوح علیہ السالم کی بردبAAاری ،نAAرمی اور ثAAابت قAAدمی کAAا انAAدازہ اس بAAات
سے بھی ہوتا ہے کہ ایک طویل عرصہ مسلسAAل تبلیAAغ کAAرنے اور کAAافروں کے طعAAنے اور
سختیاں برداشت کرنے کے باوجود وہ نہایت حکمت و بصیرت سے تبلیغ دین کا کام کرتے
رہے۔ اس ضمن میں ان کے پایہ استقالل میں کوئی لغAAزش نہ ہAAوئی ،نہ ہی وہ تھکے اور نہ
ہی انہوں نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی بلکہ وہ کفر کرنے والوں کے لیے غم گین رہAAتے
جس کی گواہی قرٓان پاک میں دی گئی۔ یہAAاں تAAک کہ ہللا تبAAارک و تعAAالٰی نے خAAود ہی انہیں
بذریعہ وحی ٓاگAAاہ فرمایAAا کہ اب مزیAAد لAAوگ ایمAAان نہیں الئیں گے لٰہ ذا ٓاپ غم نہ کAAریں۔ اس
حوالہ سے قرٓان کریم میں ہے!
َا َّن َل ۡن ُّی َن ۡن َق َک اَّل َم ۡن َق ۡد ٰا َم َن َف اَل َت ۡب َت ۡس َم َک ُن ُا َا ُن
ِئ ِب ا ا و ِا وِم ِم وِم َو وِح َی لٰی وٍح ہ
َی ۡف َع ُل َن 3
و ۔
اور نوح علیہ السالم کی طرف وحی کی گئی کہ ٓاپ کی قAAوم کے جAAو لAAوگ
ایمAAAان الچکے ہیں ان کے عالوہ دیگAAAر لAAAوگ ایمAAAان نہیں الئیں گے سAAAو
جولوگ کفر کررہے ہیں ان پر غم نہ کریں۔
دنیا میں شاید ہی کAAوئی ایسAAا عالقہ ہAAو جہAاں شAAدت پسAAندی اور انتہAا پسAAندی نہ ہAAو،
امریکہ ،یورپ اور ٓاسٹریلیا کے ترقی یافتہ عالقوں میں بھی یہ مرض موجود ہے۔ جس کا
سب سے بڑا ثبوت نائن الیون کے بعAAد امAAریکہ اور یAAورپ میں مسAAلمانوں اور داڑھی والے
سکھوں سے ہونے واال سلوک تھا۔ اسالم اور مسلمانوں کے خالف امریکہ اور امAAریکہ کے
اتحادی اس قدر شدت پسند اور انتہا پسند واقع ہوئے کہ اکثر مقامات پر مسلمانوں کا زنAAدگی
گزارنا مشکل ہوگیا ،یہاں تک کہ ان ممالک میں جانے والے مسلمان ائAAیرپورٹس پAAر نہAAایت
ذلت کا شکار ہوتے رہے۔ البتہ جہاں جہاں علم اور عدل و انصAAاف موجAAود ہے وہAAاں شAAدت
پسندی اور انتہا پسندی بھی کم ہے کیونکہ شدت پسندی کا براہ راست تعلق جہالت اور عAAدل
و انصاف نہ ہونے سے ہے۔
عAرب قAوم صAحرا میں ہAونے والی ایسAی جاہAل اور بAدو قAوم تھی جس کی اصAالح
ناممکن سمجھی جاتی تھی ،یہاں تک کہ عرب کی ایک جانب موجود فارس ،دوسری جAAانب
روم اور تیسری جانب حبشAAہ کی حکومتAAوں نے انہیں کبھی اہمیت نہ دی اور انہیں وحشAAی
قبائل ہی سمجھا لیکن جب اس وحشی اور طرح طرح کی جہالت اور بAAداعمالیوں میں مبتال
اس قوم کو رسول ہللا ﷺ نے علم و تAAربیت سAAے نAAوازا تAAو اسAAی قAAوم نے دنیAAا کے تین
براعظموں میں علم و حکمت اور عAدل و انصAAاف کی شAمع جالئی جAو ہAر طAرح کی شAدت
پسAAندی سAAے پAAاک تھی۔ رسAAول ہللاﷺ نے ان کی تAAربیت اس نہج پAAر فرمAAائی کہ وہ ہAAر
23
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
طرح کی شدت پسندی کو چھوڑ کAAر بھAAائی بھAAائی بن گAAئے اور قAAرٓانی تعلیمAAات کی بAAدولت
پوری دنیا میں تمعزز ہو گئے۔
نت
اسالمی علی مات سے ا ہا پس ن دی کا حل .3
اسالم امن وسالمتی واال مذہب ہے جس میں شدت پسندی نہیں ہے۔ اسالم دہشAت گAردی،
فتنہ و فساد ،قتل و غارت اور فساد فی االرض کی کسی صورت تائید نہیں کرتAAا۔ اس کی بجAAائے
اسAالم افہAام و تفہیم ،بین المAذاہب ہم ٓاہنگی ،دوسAرے کی رائے کAا احAترام اور امن و سAالمتی کی
اشاعت کرتا ہے۔ اسالم کا لفظی مطلب ہی سالمتی ہے۔ دنیا میں امن و سالمتی کے قیام کے لAAیے
دہشت گردوں اور فسادیوں کے خالف اقدامات کرنے کا حکم بھی اسالم دیتا ہے تاکہ دنیا میں قیام
امن ممکن ہوسکے۔ اس طرح اسالم اپنے پیروکاروں کو نہ صAAرف اخالقی تAAربیت کAAا حکم دیتAAا
ہے بلکہ ان کی جسمانی تربیت کا بھی خاص اہتمام کرتا ہے۔ اگر ہم مقررہ اوقات اور مہینوں میں
نماز ،روزہ ،حج ،زکواۃ ،جمعہ ،عیAدین وغAیرہ کے احکامAات کAا جAائزہ لیں تAو علم ہوتAا ہے کہ
اسالم نہ صرف روحانی و اخالقی تAربیت بلکہ جسAمانی تAربیت کAا بھی اہتمAام کرتAا ہے جس کAا
مقصد اسالم کے پیروکاروں میں ایسے خصائص کا پیدا کرنا ہے جو دنیا میں قیAAام امن کے لAAیے
مطلوب ہیں۔
حضرت ابراہم علیہ السالم نے مکہ مکرمہ کو ٓاباد کرتے وقت ہللا تعAAالٰی سAAے سAAب
سے پہلی دعا یہ فرمائی تھی کہ پروردگار! اس شہر کو امن واال بنا دے۔ ترقی اور عAAروج
کی پہلی سیڑھی یہی ہے۔ اس کے بغیر تAAرقی کے لAAیے اگال قAAدم اٹھانAAا محAAال ہے ۔ اس کے
لیے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کAAرنے ہAAوتے ہیں۔ اپAAنی کوتAAاہیوں کAAا ازالہ
کرنا ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں اور گروہوں سے کیے گAAئے وعAAدوں کAAو ایفAAاء کرنAAا ہوتAAا ہے۔
قانون کو باال دست بنا کر اس کی باال دستی کو قبول کرنAAا ہوتAAا ہے۔ مجرمAAوں کAAو سAAزا کے
کٹہرے میں کھڑا کرناہوتAا ہے۔ بے انصAAافی اور ظلم کAا خAاتمہ کرنAا ہوتAا ہے۔ ادنٰی و اعلٰی
اور امیر و غریب میں فرق مٹانا ہوتا ہے۔ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہوتا ہے۔ وعAAدہ
خالفیاں اور امتیازی رویے ،نفرتوں اور کدورتوں کAAو جنم دیAAتے ہیں۔ پھAAر یہی نفAAرتیں اور
کدورتیں دہشت گردی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ جب ہم یہ سب کام کرنے کے لAAیے تیAAار ہAAوں
گے اور سنجیدگی سے اس پAAر پیش رفت ہAAوگی تAAو دہشAAت گAAردی اور بAAدامنی کے منحAAوس
چھٹنے ن ن ت سائے بھی ن
شروع ع
وحدت سل ا سا ی کی لی م سے ش دت پس ن دی کا حل
ہوجائیں گے اور حقیقی امن و امان کی شاہراہ صاف ہوجائے گی۔
3.1
دنیا کا ہر انسان صاحبزادہ انبیاء و رسل ہے…قرٓان کAAریم تمAAام انسAAانوں کAAو ہی یAAا
بنی ٓادم اور یا بنی نوح کہہ کر مخاطب کرتا ہےیوں دنیا کے ہر انسAAان کAAو بہت سAAے انبیAAاء
کی اوالد میں سے ہونے کا شرف یاد دالتا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے!
َّلَۃ َر َح ۡن َو َج ا ُد وا ی ہللا َح ُّق َھ اِد ہُ ،ھ َو ِا جَت ٰب کۡم َو َم ا َج َع َل َع َل ۡی ُک ۡم
ٍج ِ ،م ِف ی الِّA Aد یِن ِم ِج ِف ِھ
َع ُک ۡی ُھ َو َس ّٰم ُک ُملۡس َن ۡن َق ُل َو ٰھ َی ُک ُن َّر ُل َش ۡم َا ُک
م ا ِل می ِ ،م ب فِی ذا ِل و ال سAAو ھیدا لی م بی ِا براھ م،
ُش َا َل
4
َو تکُو نو َھ د ء َع ی الَّن اِس ۔
اللہ کی راہ میں جہAاد(سAعی و کوشAش) کAرو جیسAا کہ جہAاد(سAعی و کوشAش)
24
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
کرنے کAا حAق ہے ،اس نے تمہیں اپAنے کAاموں کے لAئے چن لیAا ہے اور دین
میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔قائم ہوجاؤ اپنے باپ ابراہیؑم کی ملت پر ،اللہ
نے پہلے بھی تمہAارا نAام ’’مسAلم ‘‘ رکھAا تھAا اور اس (قAرٓان) میں بھی۔ تAاکہ
رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
َق َل َل ۡی َس ّن َم ۡن َد َع َاَل حدیث نبوی ﷺ ہے:
ّن َا
َس َو
ا ی ِب ٍۃ ،لی ِم ا َی َص َع ِم ا َع ۡن ُج بیِر بن مطِع ؓم َّ ،ن َر ُس ول ِہللا ﷺ ،ا
َل َل َق َت
َم ۡن ا َل َع لی َع َص ِب َّی ٍۃ َو ۡی َس ِم ّن ا َم ۡن َم اَت َع ی َع َصِ 5ب َّی ٍۃ ۔
حضرت جبیر بن مطعؓم سے روایت ہے کہ رسAAول ہللا ﷺ نے فرمایAAا!
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی طAAرف بالئے ،وہ شAAخص
بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیAاد پAر لAڑائی لAڑے اور وہ شAخص
بھی ہم میں سے نہیں جو تعصب کا تصور لیے ہوئے مرے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے!
َی ا َا ُّی ھَA Aا الَّن اس َا َّن ا َخ َل ۡق َن ا ُک ۡم َم ۡن َذ َک َو ُا ۡن ثٰی َو َج َع ۡل نَA Aا ُک م ُش عوبًا َو َق َب ا ُل َت عا ُف و َا ۡن
ِئ ِل ِر ٍر
َا ۡتَق ُک ۡم 6 َاۡک ُک
َر َم ۡم ِع ۡنَد ِہللا ا ۔
لوگو! ہم نے تم کو ایAک مAرد اور ایAک عAورت سAے پیAدا کیAا اور تمہAاری
قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کAAو شAAناخت کAAرو۔ اور خAAدا کے
نزدیک تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جAAو زیAAادہ پرہAAیز گAAار ہے۔ بے شAAک
خد اسب کچھ جاننے واال اور سب سے خبردار ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں رسول ہللا ﷺ نے فرمایا!
َی َا َا َالَف َا ُک ُک َا َا
ی AAا ُّی ھ AAا الَّن اسۡ ال ِا َّن َر َّب م واِح د َو ِا َّن با م واِح د ال ۡض ِل ربی عل جمٍی ،ال
َو َع َع َل
َا ّال َا َل َا َاِل
ِل َع جمی َع لی الَع ربیَ ،و ال ۡح َم َر َع ی سَو َد َو ال سَو َد َع لی ٓاۡح َم َر بالُّت قوٰی7۔
سن لو :کسی عربی کAو کسAی عجمی پAر اور کسAی عجمی کAو کسAی عAربی
پر ،اور سن لو کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ
پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ،سوائے تقوٰی کے۔
رسول ہللا ﷺ نے انسAAانوں سAAے تمAAام قسAAم کی تفریقAAات ختم کAAرنے کے لAAئے
غالم کے بیٹے کو کہیں سپہ ساالری عطا کردی تو کہیں سیاہ حبشی کو موذن بنادیا۔ زید بن
ثابت کے نکاح میں اپنی پھوپھی زاد بہن دے دی تAAو ایAAک مAAرتبہ یہ بھی فرمادیAAا اگAAر بیAAٹی
ت فاطمہ پر بھی چوریئ کا الزام ن
مساوات و ب ھا ی چ ارہ سے ا ہا پس ن دی کا حل
ثابت ہو تو ان کے بھی ہاتھ کاٹے جائیں گے۔
3.2
اس بھائی چارے کا مقصد جاہلی عصبیتوں کا خAاتمہ اور رنAگ و نسAل و وطن کے
امتیازات کے نشان مٹانا تھاا ور تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹAAا کرنAAا تھAAا۔نAAیز یہ
کہ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد پہال سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی ٓابAAاد کAAاری تھAAا۔ جAAو
مواخات مدینہ سے حل ہوا۔ انصار مدینہ نے اپنی ٓادھی جائداد تک اپنے مہاجر بھAAائیوں کAAو
25
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
دے دی۔ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے مواخات مدینہ ہAAر طAAرح کی عصAAبیت ،قربAAانی،
ایثار اور امداد باہمی کے نحوالہ ن
ت
ب ی ن المذاہ ب ہ م ٓاہ گی سے ا ہا پس ن دی کا حل
سے مشعل راہ ہے۔
3.3
ایک ہی مذہب اور مسلک کے لوگ نہایت ٓاسانی سے ایک جگہ بیٹھ کAAر نہ صAAرف
گفت و شنید کرسکتے ہیں بلکہ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر بال تکلف کھAAاپی بھی سAAکتے
ہیں۔ یوں ان کا کالم و طعام اور ایک دوسرے کو سمجھنا نہایت ٓاسان ہوتا ہے لیکن دوسرے
مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا،دوسرے مAAذاہب کے لAAوگ
جن کے خیاالت اور عقائد ہی نہ ملتے ہوں ،ایسے لوگوں سے بAاہمی معاہAدے کرنAا ،ان کی
بات سن کر برداشت کرنا اور خوشگوا تعلقات رکھنا واقعتًا ایک جہاد ہے۔
دور نبAAوی ﷺ میں مسAAجد نبAAوی میں ٓانے والے غAAیر مسAAلمین کے لAAئے نہ
صرف دسترخوان لگتا بلکہ ان کی سخت ترین بAاتوں کے جوابAات بھی نAبی کAریم ﷺ
نہایت صبر و تحمل سے دیتے تھے۔ہجرت مدینہ کے بعAAد یہودیAAوں اور مشAAرک قبائAAل سAAے
باہمی امن اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نAAام سAAے ہAAوا جAAو
تاریخ میں محفوظ ہے۔ بعد ازاں جزیرہ نما عرب کے بہت سے غیر مسلمین مثال کے طAAور
پAAر خیAAبر کے یہAAودی اور نجAAران کے عیسAAائیوں سAAے بAAاہم معاہAAدے ہAAوئے۔ جAAو دور نبAAوی
ﷺ میں بین المذاہب ہم ٓاہنگی کی اعلٰی مثالیں ہیں۔عہد رسالت ﷺ میں غیر
مسلمین سے ریاستی امور میں درج ذیل خدمات لی گئیں اور کوئی قباحت نہ سمجھی گئی۔
ہجرت کے موقع پر ایک غیر مسلم عبدہللا بن اریقط نے راستہ دکھAانے کAا فریضAہ
سرانجام دیا ۔
حضAAرت عمAAرو بن امیہ الضAAمرؓی ،اسAAالم قبAAول کAAرنے سAAے پہلے بھی رسAAول ہللا
ﷺ کے سفیر رہے۔
حضور ﷺ نے غیر مسلموں سے علوم و فنون سیکھنے کو غلط نہیں سمجھا۔
رسول ہللا ﷺ نے سریانی و عبرانی سیکھنے کے لیے حضAAرت زیAAد بن ثAAابؓت
کو غیر مسلمین کے مدرسے بھیجا۔
منجنیق میں مہارت حاصل کرنے کے لئے صحابہ کرام کو یمن بھیجا۔
کفار مکہ میں جAو قیAدی جنAگ بAدر میں ہAاتھ ٓائے تھے ان میں سAے بہت سAوں نے
مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سAکھایا۔ یہ ان کAا فAدیہ تھAا جس کے بAدلے
میں ان کو رہا کیا گیا۔
سیرت طیبہ تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہر مسلمان کے لیے انفرادی طور
پر اور مسAAلم حکومتAAوں کے لAAیے اس میں سAAبق موجAAود ہے۔ لٰہ ذا سAAیرت طیبہ ﷺ کی
روشنی میں بین المذاہب اور بین المسالک امن اتحاد کے لیے کام کرنا چاہئیے۔
26
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
27
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
معاشرے میں عدل و اعتدال کو قAائم کرنAا دین کAا بنیAادی مقصAد ہے ،اسAی لAیے ہللا
تعالٰی نے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور چالیس سے زائد ٓایات میں عدل و انصAAاف کAAا حکم
موجود ہے ،گویAAا کہ عAAدل و اعتAAدال کتAAاب و سAAنت میں ہی ہے اور اس کAAو قAAائم کرنAAا انتہAAا
پسندی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نرمی اختیار کرو اور غلو سے بچو۔رسول
ہللاﷺ نے ارشاد فرمایا!
ان الدین یسر ،ولن یشاد الدین احد اال غلبہ ،فسددوا و قاربو ،وابشرو ،واستعینو
13
بالغدوۃ والروحۃ و شی من الدلجۃ۔
اے لوگو جو ایمان الئے ہو ،االلہ اور اور رسAAول ﷺکی اطAAاعت کAAرو اور
ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ،پھAAر اگAAر تمہارےدرمیAAان کسAAی
معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسAAے اللہ اور رسAAول ﷺ کی طAAرف پھAAیر دو
اگر تم واقعی اللہ اور روز ٓاخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار
ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
قرٓان و حدیث کے مندرجہ باال احکامات سے علم ہوتAا ہے کہ دین اسAالم نAرمی اور
میAAانہ روی اختیAAار کAAرنے کے احکامAAات دیتAAا ہے ،اور انتہAAا پسAAندی اور فAAرقہ واریت کی
سختی سے نفی کرتا ہے۔ انتہا پسندی خواہ کسی بھی معاشرے میں ہو ،ایک غلAط رویہ ہے
جس کی کسAAی بھی طAAرح پAAذیرائی نہیں ہAAونی چAAاہیئے بلکہ اس کی حوصAAلہ شAAکنی کAAرنی
چاہئیے۔ خواہ انتہا پسندی کے مرتکب مذہبی طبقات ہوں یا اشتراکیت و سAAرمایہ داری والے
طبقات ہوں ،تمام طبقات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ شریعت میں اس رویہ کی سختی
سے نفی کی گئی ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیےپوری امت مسلمہ کو کردار ادا کرنے
ق ح ت ن ن
ضرور ت ہے۔ کی
ے دی گر ا دامات
ا ہا پس دی کے ل کے یل 3.6
امن پسند شہریوں کا غلو کرنے والوں سے دور رہنا یہاں تک کہ غلو کرنے والAAوں
کی جیلیں بھی الگ ہونا۔
نوجوانوں کی دینی ،علمی اور فکری اعتبAAار سAAے صAAالحیتوں کAAو نکھارنAAا ،ان کی
معاشی صورت حال کو بہAتر بنانAAا اور انہیں سAAنجیدہ ،مفیAAد اور نAAتیجہ خAAیز کAAام کی
طرف مائل کرنا اور ان کے وقت کو دنیAAا و ٓاخAAرت میں نفAAع بخش اور مفیAAد کAAاموں
میں مشغول کرنا ،مساجد کے کردار ،اس میں قرٓان کریم کے حفAAظ کے حلقAAوں اور
بیداری شعور کے دینی مراکز کو موثر بنانا۔ مزید براں انہیں معقAAول ضAAابطوں میں
ڈھالنAAا اور ان کی کAAڑی نگAAرانی کرنAAا اور ان کی نگAAرانی کرنAAا اور ان کی نگAAرانی
صرف ان حضرات کے سپرد کرنAا جAو دیAانت و امAانت کے عالوہ کAردار ،اخالق،
طور طریق اور فکر میں ثابت ہوں۔
28
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
مفید اور بامقصد کھیلوں کو فعال کرنا ،سپورٹس کلبوں کی حمایت کAAرتے ہAAوئے ان
کے مشن کو عAAام کرنAAا ،نAAیز سلسAAلہ وار تعلیمی ،تفAAریحی سAAیمینارز اور اجتماعAAات
منعقد کرنا۔
مسAAاجد ،مAAدارس اور ذرائAAع ابالغ وغAیرہ میں داعیAAان اور واعظین کی طAAرف سAAے
خواہشات اور مخالفین کے ساتھ ٹکراؤ پر مبنی وعAظ و نصAAیحت میں جوشAیلے اور
اشAAتعال انگAAیز انAAداز پAAر نظAAر ثAAانی کی جAAائے۔ یہ انAAداز تنAAگ نظAAری ،تنAAگ ذہAAنی،
برداشت کی کمی ،بصیرت کے فقدان اور ناقص حکمت کا نتیجہ ہے۔
سوشل میڈیا پر نفرتیں اور انتہا پسندی کی اشاعت کرنے والAAوں کے خالف قAAانون
سازی اور عمًال ان لوگوں کے خالف تادیبی کاروائی کرنAAا جAAو نفAAرتیں اور جھAAوٹ
کی اشاعت کررہے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں تعمیری رحجانات کو تشAAکیل دیAAا جAAائے تAAاکہ جہAAالت کAAا خAAاتمہ
ممکن ہوسکے۔
ایسے معاشی اقدامات کیے جائیں جن سے ارتکاز دولت کا خAAاتمہ ممکن ہAAو ،جیسAAا
کہ رسول اکرم ﷺ نے سود کی بجائے صدقات کا نظام قائم کیا تھا۔ زکواۃ و عشAAر اور
صدقات کے ذریعے دولت کا بہاؤ غریب سے امیر کی جAAانب ہAAونے کی بجAAائے امAAیر سAAے
غریب کی طرف ہوا اور بہت جلد دنیا کے حاالت اس طرح بدل گئے کہ ڈھونڈنے سے بھی
خ
الصہ ب حث
زکواۃ لینے واال نہیں ملتا تھا۔
.4
انتہا پسندی ای ک ایسا غیر لچکدار رویہ ہے جس کے نتیجہ میں اپنے عقائد،
نظریات اور خیاالت کے خالف کسی دوسرے کی بات کو نہ سAAنا جAAائے ،اختالف رائے کAAا
احترام ختم ہوجائے اور گفتگو و ڈائیالگ کے ذریعے مسائل کا حل ممکن نہ ہو انتہا پسAAندی
یا انتہا پسندی کہالتا ہے۔انتہا پسندی کی وجہ سAAے یہ دنیAAا کAAئی مAAرتبہ عAAالمی جنگAAوں میں
مبتال ہوکر تباہی و بربادی کا شکار ہوئی۔ صرف بیسAویں صAAدی تاحAال اشAتراکیت ،سAرمایہ
دارانہ نظام اور فسطائیت کے علم برداروں کی انتہا پسندی اور جنون کی وجہ سے پAAوری
دنیا دو عالمی جنگوں اور بعد ازاں سرد جنگ کا شکار رہی یوں پوری دنیAAا کAAا امن و امAAان
تہہ و باال ہے۔ انتہا پسندی کی چار بڑی اقسام ہیں۔ 1۔ انفرادی انتہا پسAAندی۔ 2۔ قAAومی انتہAAا
پسندی ۔ 3۔نظریاتی انتہا پسندی ۔ 4۔مذہبی یا مسلکی انتہا پسندی۔
انتہا پسندی مختلف عالقوں میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر پAAروان چڑھAAتی ہے لیکن
اس کی سب سے بڑی وجہ عدل و انصاف کے درست نظام کا نہ ہونAAا ہے۔ دیگAAر وجوہAAات
میں جہالت یAا تعلیم کی کمی ،معاشAرتی عAدم اسAتحکام اور استحصAال ،غAربت ،بھAوک،
افالس اور یکساں مواقAAع دسAتیاب نہ ہونAا ،بین المAذاہب اور بین المسAالک ہم ٓاہنگی نہ ہونAا،
شکوک و شبہات اور ابہامات کا فروغ ،تعمیری سوچ کا فقدان ،بچوں اور بڑوں کی تعلیم و
تربیت کا فقدان اور بدعنوانی و سماجی ناانصافی ہیں۔
29
ن ش
ج وری –ج ون 2022 االب صار ج لد 1مارہ 1
اگر بنظر غور جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا سے ہر طرح کی انتہا پسندی کا واحAAد
حل اسالمی تعلیمات کے فAAروغ میں نظAAر ٓاتAAا ہے ،جیسAAے وحAAدت نسAAل انسAAانی کAAا تصAAور،
مساوات و بھائی چارہ ،بین المذاہب امن اتحاد ،تمام انبیاء کAAو برابAAر رتبہ دینAAا ،نAAرم رویہ
اور برداشت ،غلو کرنے والوں سے دور رہنا ،نوجوانوں کی دینی ،علمی اور فکری اعتبار
سے صالحیتوں کو نکھارنا ،ان کی معاشی صAAورت حAAال کAAو بہAAتر بنانAAا اور انہیں سAAنجیدہ،
مفید اور نتیجہ خیز کام کی طرف مائل کرنا اور ان کے وقت کو دنیا و ٓاخرت میں نفع بخش
اور مفید کاموں میں مشAAغول کرنAAا ،مسAAاجد کے کAAردار ،اس میں قAAرٓان کAAریم کے حفAAظ کے
حلقAAوں اور بیAAداری شAAعور کے دیAAنی مراکAAز کAAو مAAوثر بنانAAا ،تعلیمی اداروں میں تعمAAیری
رحجانات کو تشکیل دینا اور ارتکاز دولت کا خاتمہ۔ یہ بات اظہAAر من الشAAمس ہے کہ اگAAر
اس دنیا سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہوجائے تو یہ دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔
نتائج .5
ایسا غیر لچکدار رویہ جس کے نAAتیجہ میں اپAAنے عقائAAد ،نظریAAات اور خیAAاالت کے
خالف کسی دوسرے کی بات کو نہ سAAنا جAAائے ،اختالف رائے کAAا احAAترام ختم ہوجAAائے اور
گفتگو و ڈائیالگ کے ذریعے مسائل کا حل ممکن نہ ہو انتہا پسندی کہالتAAا ہے۔ انتہAAا پسAAندی
کی چار بڑی اقسام ہیں۔ 1۔ انفرادی انتہا پسAAندی ۔ 2۔ قAAومی انتہAAا پسAAندی ۔ 3۔نظریAAاتی انتہAAا
پسندی ۔ 4۔مذہبی یا مسلکی انتہا پسندی ۔
انتہا پسندی مختلف عالقوں میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر پAAروان چڑھAAتی ہے لیکن
اس کی سب سے بڑی وجہ عدل و انصاف کے درست نظام کا نہ ہونAAا ہے۔ دیگAAر وجوہAAات
میں جہالت یAا تعلیم کی کمی ،معاشAرتی عAدم اسAتحکام اور استحصAال ،غAربت ،بھAوک،
افالس اور یکساں مواقAAع دسAتیاب نہ ہونAا ،بین المAذاہب اور بین المسAالک ہم ٓاہنگی نہ ہونAا،
شکوک و شبہات اور ابہامات کا فروغ ،تعمیری سوچ کا فقدان ،بچوں اور بڑوں کی تعلیم و
تربیت کا فقدان اور بدعنوانی و سماجی ناانصافی ہیں۔
اگر بنظر غائرجائزہ لیا جائے تAAو پAAوری دنیAAا سAAے ہAAر طAAرح کی انتہAAا پسAAندی اور
شدت پسندی کا واحد حل اسالمی تعلیمات کے فروغ میں نظر ٓاتAAا ہے ،جیسAAے وحAAدت نسAAل
انسانی کا تصور ،مساوات و بھائی چارہ ،بین المذاہب امن اتحاد ،تمام انبیاء کAAو برابAAر رتبہ
دینا ،نرم رویہ اور برداشت ،غلو کرنے والوں سے دور رہنAAا ،نوجوانAAوں کی دیAAنی ،علمی
اور فکری اعتبار سے صالحیتوں کو نکھارنا ،ان کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانا اور
انہیں سنجیدہ ،مفید اور نتیجہ خیز کام کی طرف مائل کرنا اور ان کے وقت کو دنیا و ٓاخرت
میں نفع بخش اور مفید کاموں میں مشغول کرنا ،مساجد کے کردار ،اس میں قرٓان کریم کے
حفAAظ کے حلقAAوں اور بیAAداری شAAعور کے دیAAنی مراکAAز کAAو مAAوثر بنانAAا ،تعلیمی اداروں میں
تعمیری ترحجانات کو تشکیل دینا اور ارتکاز دولت کا خاتمہ۔
ف
ج اویز و س ارش ات .6
پوری دنیا اس حقیقت کAAو جAAان چکی ہے اور پہچAAان چکی ہے کہ اشAAتراکیت ،نظAAام
سرمایہ داری اور فسطائیت جیسے تمام نظریAAات کی وجہ سAAے دنیAAا کAAا امن و امAAان
30
The causes and preventions of extremism in the light Fiqh Al Sirah
تہہ و باال ہوچکا ہے اور ان شدت پسAAندانہ نظریAAات کے بAAاعث ٓاج دنیAAا میں الکھAAوں
کی تعدادمیں ایٹم بم ،ہائیڈروجن بم اور دیگAAر مہلAAک تAAرین ہتھیAAار موجAAود ہیں جس
کی وجہ سے ٓاج دنیا تبAاہی کے کنAارے پAر ہے۔ ایسAے میں اسAالمی حکومتAوں کAو
چاہئیے کہ وزارت خارجہ اور ایسAAے ادارے جن کے اہلکAAار دوسAAرے ممالAAک میں
بطور سفیر جاتے ہیں ،ان اہلکاروں اور سفیروں کو اسالمی تعلیمات سے روشAAناس
کرایا جائے ،ان کے لیے خصوصی کورسز کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ سفیر ہAAونے
کے ساتھ ساتھ مبلغ اسالم بھی ہوں۔
حکومت وقت کو چاہئیے کہ تقریر و تحریAAر پAAر خصوصAAی تAAوجہ دے ،اس ضAAمن
میں علماء و خطباء کے تربیتی کورسز ،سAAیمینارز اور پروگرامAAز کAAرائے جAAائیں،
ان سے مشAAاورت کی جAAائے تAAاکہ ان کی مشAAاورت سAAے تقریAAر و تحریAAر میں عAAدم
برداشت اور انتہا پسندی جیسے جذبات نہ ہAوں۔ نAیز ایسAا مسAتقل فAAورم تشAکیل دیAا
جائے جو اس حوالہ سے کام جاری رکھے۔
بین المذاہب اور بین المسAAالک امن اتحAAاد کے لAAیے خAAاص طAAور پAAر کAAام کAAرنے کی
ضرورت ہے۔ خاص طور پر فروعی اختالفات کو پروان نہ چڑھنے دیا جائے بلکہ
جو جس طAرح عمAل کررہAا ہے ،اسAے فAAروعی اختالف سAمجھ کAر نظAر انAداز کیAا
جائے۔ دوسرے کے مذہب و مسلک پر بے جا تنقید سے پرہیز کیاجAAائے۔ اس ضAAمن
میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر سیمینارز اور تقاریب منعقد ہونی چاہئیں ۔
بین المسالک مکالمات کے لیے جید علمائے کرام کی زیر نگرانی کمیٹیAAاں تشAAکیل
دی جائیں جس کا مقصد انفرادی عصبیت کی بجائے ملی و اجتماعی مفادات کا پرچAAار ہAAو
اور اس ضمن میں علمائے کرام کی مدد لی جائے۔
ش
حوالہ جات وحوا ی
31
ف ق ق
۔6/77 ، ء2009 ، بیروت، دار ال کر، الج امع االحکام ال رٓان، دمحم ب ن احمد ب ن ابی بکر،ال رطب ی 1
Al-Qurtubī, Ahmad bin Abī bakr, aljamei liahkam alquran, Dār alfikr, Beruit, 2009, 6/77. ق
۔7:64 ال رآن 2
Al Qurān 11: 36
۔22:78 القرآن 4
Abu Daud, Suleman bin Asath, Al sunan, Dār alhizārah lin nashre wa tauxi, Riyadh, 2015,kitab aladab, bab fi alasabiyah,
(5121)
۔49:13 القرآن 6
Ahmad bin Muhammad bin Hambal, Imam, Almusnad, kitab Marwita al sahabi, (22395) ق
۔2:285 ال رآن 8
Al Qurān 2: 285
۔2:136 القرآن 9
نش ت ل
)۔3445(، ء2015،ری اض،دارالحض ارۃ لل روال وزی ع،، الج امع ا یحص ح، دمحم ب ن اسماع ی ل،ا بل خ اری
Al Qurān 2: 136
10
Albukhārī, Muhammad bin Ismāel, Aljamei Alsahīh, Dār alhizārah lin nashre wa tauxi, Riyadh, 2015, (3445)
۔20:44 القرآن 11