Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 210

‫عمر بن خطاب‬

‫اسالم کے دوسرے خلیفہ (‪586‬ء‪590/‬ء‪ ،‬مکہ ‪ 6 -‬نومبر ‪644‬ء‪ ،‬مدینہ)‬

‫ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی‬


‫(‪586‬ء‪590/‬ء‪ ،‬مکہ ‪ 6 -‬نومبر ‪644‬ء‪ ،‬مدینہ) ابوبکر‬
‫صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد‪،‬‬
‫کے سسر اور‬ ‫َص َّلی اللُہ َت َع اٰل ی َع َلْی ِہ َو ٰا ِلٖہ َو َس َّلَم‬ ‫محمد مصطفی‬
‫تاریخ اسالم کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک‬
‫ہیں۔[‪ ]6‬عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں‪ ،‬ان کا‬
‫شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق‬
‫کی وفات کے بعد ‪ 23‬اگست سنہ ‪634‬ء مطابق ‪22‬‬
‫[‪]7‬‬
‫جمادی الثانی سنہ ‪13‬ھ کو مسند خالفت سنبھالی۔‬
‫عمر بن خطاب ایک باعظمت‪ ،‬انصاف پسند اور عادل‬
‫حکمران مشہور ہیں‪ ،‬ان کی عدالت میں مسلم و غیر‬
‫مسلم دونوں کو یکساں انصاف مال کرتا تھا‪ ،‬عمر بن‬
‫خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان‬
‫کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ‬
‫بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں‬
‫رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔‬
‫آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں‬
‫کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اوالد میں سے ہیں‪ ،‬جبکہ‬
‫حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اوالد میں سے ہیں۔‬
‫ُع مر فاروق‬
‫بن الخّط اب‬

‫اسالمی خطاطی میں عمر بن خطاب کا نام اور لقب الفاروق‬


‫اور آخر میں 'َر ضی اللُہ تعالٰی عنہ'‬

‫‪583‬ء سنہ ‪ 40‬ق ھ‬ ‫والدت‬


‫مكہ‪ ،‬تہامہ‪ ،‬شبہ جزيرہ عرب‬
‫[‪]2[ ]1‬‬
‫یکم محرم الحرام‬ ‫وفات‬
‫‪24‬ھ[‪ 26 ]4[]3‬ذوالحجه کو‬
‫حملہ ہوا حملے کے بعد ‪29‬‬
‫ذوالحجۃ تک ذندہ رہے اور ‪1‬‬
‫محرم الحرام کو دفنایا گیا۔‬
‫[‪ ]5‬بمطابق ‪ 6‬نومبر ‪644‬ء‬
‫مدينہ منورہ‪ ،‬حجاز‪ ،‬جزيرہ‬
‫نما عرب‬

‫اسالم‪ :‬اہل سنت و جماعت‪،‬‬ ‫محترم در‬


‫اباضیہ‪ ،‬الدروز‪ ،‬زیدیہ شيعہ‬
‫مسجد نبوی‪ ،‬محمد صلی اللہ‬ ‫مزار‬
‫علیہ و آلہ وسلم اور ابوبكر‬
‫صديق َر ضی اللُہ تعالٰی عنُہ‬
‫کے برابر میں‪ ،‬مدينہ منورہ‬
‫والد‪ :‬الخّط اب بن نفیل بن‬ ‫نسب‬
‫عبد العزی‬
‫والدہ‪ :‬حنتمہ بنت ہشام بن‬
‫المغيرہ‬
‫أشقاؤہ‪ :‬زيد بن الخطاب‪،‬‬
‫فاطمہ بنت الخطاب‬
‫ازواج‪ :‬قريبہ بنت ابی اميہ‪،‬‬
‫ام كلثوم مليكہ بنت جرول‪،‬‬
‫ام کلثوم بنت ابوبکر‪ ،‬زینب‬
‫بنت مظعون‪ ،‬جميلہ بنت‬
‫ثابت‪ ،‬عاتکہ بنت زید‪ ،‬ام‬
‫(‪)1‬‬
‫کلثوم بنت علی‪ ،‬ام حکیم‬
‫ذريت‪ :‬عبيد اللہ‪ ،‬زيد االكبر‪،‬‬
‫زيد االصغر‪ ،‬عبد اللہ‪ ،‬حفصہ‪،‬‬
‫عبد الرحمن االكبر‪ ،‬ابو شحمہ‬
‫عبد الرحمن االوسط‪ ،‬عبد‬
‫الرحمن االصغر‪ ،‬عاصم‪،‬‬
‫عياض‪ ،‬فاطمہ‪ ،‬رقيہ۔‬

‫عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں‪ ،‬ان کے دور‬


‫خالفت میں عراق‪ ،‬مصر‪ ،‬لیبیا‪ ،‬سرزمین شام‪ ،‬ایران‪،‬‬
‫خراسان‪ ،‬مشرقی اناطولیہ‪ ،‬جنوبی آرمینیا اور‬
‫سجستان فتح ہو کر مملکت اسالمی میں شامل ہوئے‬
‫اور اس کا رقبہ بائیس الکھ اکاون ہزار اور تیس‬
‫(‪ )22,51,030‬مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب‬
‫ہی کے دور خالفت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا‪،‬‬
‫اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی‬
‫سلطنت کا تقریبًا تہائی حصہ اسالمی سلطنت کے زیر‬
‫نگین آ گیا۔[‪ ]8‬عمر بن خطاب نے جس مہارت‪ ،‬شجاعت‬
‫اور عسکری صالحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل‬
‫شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر‬
‫لیا‪ ،‬نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام‪ ،‬رعایا‬
‫کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور‬
‫سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری‬
‫[‪]9‬‬
‫کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔‬
‫صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے‬
‫یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے‬
‫کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں‬
‫راویوں پر علما اسالم کی طرف سے جرح بھی کی گئی‬
‫ہے اور بہت سے راویوں کے حاالت معلوم نہیں ہیں۔‬
‫مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‬
‫اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن‬
‫اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض‬
‫روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت‬
‫راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں‬
‫کیونکہ علمائے اسالم نے بدعت سے نسبت رکھنے والی‬
‫[‪]10‬‬
‫روایات کو مردود قرار دیا ہے۔‬

‫نام ونسب‬
‫عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العّٰز ی بن ریاح بن عبد‬
‫اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لّو ٰی [‪]11‬بن‬
‫فہربن مالک[‪ ،]12‬جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب‬
‫کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں‬

‫آپ کا لقب فاروق‪ ،‬کنیت ابو حفص‪ ،‬لقب و کنیت‬


‫دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ‬
‫ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔[‪ ]13‬حضرت عمر کا‬
‫خاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا‪ ،‬آپ کے جدا‬
‫علٰی عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہوا‬
‫کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی‬
‫ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے‬
‫اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسال بعد‬
‫نسل چلے آ رہے تھے‪ ،‬ددھیال کی طرح عمرننھیال کی‬
‫طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے‬
‫تھے‪ ،‬آپ کی والدہ ختمہ‪ ،‬ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی‬
‫تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش‬
‫کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج‬
‫[‪]14‬‬
‫کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫عمرہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس برس‬
‫پہلےپیدا ہوئے‪ ،‬ایام طفولیت کے حاالت پردہ خفا میں‬
‫ہیں؛بلکہ سن رشد کے حاالت بھی بہت کم معلوم ہیں‪،‬‬
‫شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول‬
‫ہوئے جو شرفائے عرب میں عمومًا رائج تھے‪ ،‬یعنی‬
‫نسب دانی‪ ،‬سپہ گری‪ ،‬پہلوانی اور خطابت میں مہارت‬
‫پیدا کی‪ ،‬خصوصًا شہسواری میں کمال حاصل کیا‪،‬‬
‫اسی زمانہ میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا‬
‫تھا؛چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا‬
‫جانتے تھے ان میں سے ایک عمربھی تھے۔ [‪ ]15‬تعلیم‬
‫وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف‬
‫متوجہ ہوئے‪ ،‬عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر‬
‫تجارت تھا‪ ،‬اس لیے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار‬
‫کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا‪،‬‬
‫اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے‪ ،‬آپ‬
‫کی خودداری بلند حوصلگی‪ ،‬تجربہ کاری اورمعاملہ‬
‫فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر‬
‫قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کردیاتھا‪،‬‬
‫قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تھی تو‬
‫آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم‬
‫[‪]16‬‬
‫وتدبر اورتجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔‬
‫عمرکا ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں‬
‫آفتاب اسالم روشن ہوا اور مکہ کی گھاٹیوں سے‬
‫توحید کی صدا بلند ہوئی‪ ،‬عمرکے لیے یہ آواز نہایت‬
‫نامانوس تھی اس لیے سخت برہم ہوئے‪ ،‬یہاں تک جس‬
‫کی نسبت معلوم ہوجاتا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس‬
‫کے دشمن بن جاتے‪ ،‬ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ‬
‫نامی مسلمان ہو گئی تھی‪ ،‬اس کو اتنا مارتے کہ مارتے‬
‫مارتے تھک جاتے‪ ،‬بسینہ کے سوا اورجس جس پر قابو‬
‫چلتا زدوکوب سے دریغ نہیں کرتے تھے؛لیکن اسالم کا‬
‫نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا‪ ،‬ان تمام سختیوں‬
‫پر ایک شخص کو بھی وہ اسالم سے بددل نہ کرسکے۔‬

‫” عمراور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب‬


‫“‬ ‫[‪]17‬‬
‫کے بہت بڑے ماہر تھے‬
‫” آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔‬
‫“‬ ‫[‪]18‬‬

‫اسالم‬
‫قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابو جہل‬
‫اورعمراسالم اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی‬
‫دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے‪ ،‬اس لیے‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ‬
‫ان ہی دونوں کے لیے اسالم کی دعا فرمائی ‪:‬اللہم‬
‫اعزاالسالم باحدالرجلین اما ابن ہشام واماعمر بن‬
‫الخطاب [‪ ]19‬یعنی خدایا اسالم کو ابو جہل یا عمر بن‬
‫الخطاب سے معزز کر‪ ،‬مگریہ دولت تو قسام ازل نے‬
‫عمرکی قسمت میں لکھ دی تھی‪ ،‬ابو جہل کے حصہ‬
‫میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثریہ ہوا کہ‬
‫کچھ دنوں کے بعد اسالم کا یہ سب سے بڑا دشمن اس‬
‫کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن‬
‫گیا‪ ،‬یعنی عمرکا دامن دولت ایمان سے بھر گیا"ٰذ ِل َک‬
‫َف ْض ُل اللِہ ُی ْؤ ِت ْی ِہ َم ْن َّی َش اُء "تاریخ و سیرت کی کتابوں‬
‫میں عمرکی تفصیالِت قبوِل اسالم میں اختالف ہے۔‬
‫ایک مشہور واقعہ جس کو عام طورپر ارباب سیر‬
‫لکھتے ہیں‪ ،‬یہ ہے کہ جب عمراپنی انتہائی سختیوں‬
‫کے باوجود ایک شخص کو بھی اسالم سے بددل نہ‬
‫کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور‬
‫تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ کی طرف چلے‬
‫راہ میں اتفاقًا نعیم بن عبداللہ مل گئے‪ ،‬ان کے تیور‬
‫دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے"محمد صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں‪ ،‬انہوں نے کہاپہلے اپنے‬
‫گھر کی تو خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسالم‬
‫الچکے ہیں" فورًا پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے‪ ،‬وہ قرآن‬
‫پڑھ رہی تھیں‪ ،‬ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اورقرآن‬
‫کے اجزاء چھپالئے؛لیکن آوازان کے کان میں پڑ چکی‬
‫تھی‪ ،‬بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں کچھ‬
‫نہیں‪ ،‬انہوں نےکہا میں سن چکاہوں کہ تم دونوں مرتد‬
‫ہو گئے ہو‪ ،‬یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہو گئے‬
‫اورجب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر‬
‫لی‪ ،‬یہاں تک کہ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا؛لیکن اسالم‬
‫کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا "بولیں عمر جوبن‬
‫آئے کرلو ؛لیکن اسالم اب دل سے نہیں نکل سکتا "ان‬
‫الفاظ نے عمرکے دل پر خاص اثر کیا‪ ،‬بہن کی طرف‬
‫محبت کی نگاہ سے دیکھا‪ ،‬ان کے جسم سے خون جاری‬
‫تھا‪ ،‬اسے دیکھ کر اوربھی رقت ہوئی‪ ،‬فرمایا تم لوگ‬
‫جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ‪ ،‬فاطمہؓ نے قرآن کے‬
‫اجزاء سامنے الکر رکھ دیے‪ ،‬اٹھاکر دیکھا تو یہ سورۃ‬
‫تھی‪َ" :‬س َّب َح ِل لِہ َم ا ِف ی الَّس ٰم ٰو ِت َو اَاْلْر ِض ‪َ o‬و ُہ َو اْلَع ِز ْی ُز‬
‫اْلَح ِک ْی ُم " "زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی‬
‫تسبیح پڑھتے ہیں‪ ،‬وہ غالب اورحکمت واال ہے۔" ایک‬
‫ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا‪ ،‬یہاں تک کہ‬
‫جب اس آیت پر پہنچے‪ٰ" :‬ا ِم ُن ْو ا ِب اللِہ َو َر ُس ْو ِلٖہ " خدااور‬
‫اس کے رسول پر ایمان الؤ تو بے اختیار پکاراٹھے‬
‫"َا ْش َھ ُد َا ْن َّال ِا ٰل َہ ِا َّال اللُہ َو َا ْش َھ ُد َا َّن ُم َح َّم ًد عبُد ُہ َو‬
‫الَّر ُس ْو ُل " یہ وہ زمانہ تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم ارقمؓ کے مکان پر جوکوہ صفا کے نیچے واقع تھا‬
‫پناہ گزین تھے‪ ،‬عمرنے آستانہ مبارک پر پہنچ کردستک‬
‫دی‪ ،‬چونکہ شمشیر بکف تھے‪ ،‬صحابہ کو تردد ہوا؛ لیکن‬
‫حضرت حمزہؓ نے کہا آنے دو‪ ،‬مخلصانہ آیا ہے تو بہتر‬
‫ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کردوں گا‪،‬‬
‫عمرنے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر‬
‫فرمایا"کیوں عمر!کس ارادے سے آئےہو؟ نبوت کی‬
‫پرجالل آواز نے ان کو کپکپادیا‪ ،‬نہایت خضوع کے‬
‫ساتھ عرض کیا ایمان النے کے لیے !آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے‬
‫مارا کہ تمام پہاڑیاں گونچ اٹھیں۔ [‪ ]20‬یہی روایت‬
‫تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی‪ ،‬ابویعلٰی ‪ ،‬حاکم اور‬
‫بیہقی میں حضرت انسؓ سے مروی ہے‪ ،‬دونوں میں‬
‫فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورہ حدید کی‬
‫آیۃ َس َّب َح ِل لِہ َم ا ِف ی الَّس ٰم ٰو ِت َو اَاْلْر ِض ہے‪ ،‬دوسری میں‬
‫سورۂ طٰہ کی یہ آیت ہے‪ِ" :‬ا َّن ِن ْٓی َا َن ا اللُہ آَل ِا ٰل َہ ِا آَّل َا َن ا‬
‫َف اْع ُب ْد ِن ْی َ‪َo‬ا ِق ـِم الَّص ٰل وَۃ ِلِذ ْکِر ْی " "میں ہوں خداکوئی‬
‫نہیں معبود ؛لیکن میں‪ ،‬تومجھ کو پوجو اورمیری یاد‬
‫کے لیے نماز کھڑی کرو"۔ جب اس آیت پر پہنچے تو بے‬
‫اختیار ال الہ اال اللہ پکار اٹھے اوردراقدس پر حاضری‬
‫کی درخواست کی ؛لیکن یہ روایت دوطریقوں سے‬
‫مروی ہے اوردونوں میں ایسے رواۃ ہیں جو قبول کے‬
‫الئق نہیں؛چنانچہ دارقطنی نے اس روایت کو مختصرًا‬
‫لکھا ہے کہ اس کا ایک راوی قاسم بن عثمان بصری‬
‫قوی نہیں۔[‪]21‬ذہبی نے مستدرک حاکم کے استدالل میں‬
‫لکھا ہے کہ روایت واہی ومنقطع ہے[‪]22‬ان دونوں‬
‫روایتوں کے مشترک راوی اسحاق بن یوسف‪ ،‬قاسم بن‬
‫عثمان‪ ،‬اسحاق بن ابراہیم الحسینی اور اسامہ بن زید‬
‫بن اسلم ہیں اور یہ سب کے سب پایہ اعتبار سے ساقط‬
‫ہیں۔ ان روایتوں کے عالوہ مسند ابن حنبل میں ایک‬
‫روایت خود عمرسے مروی ہے‪ ،‬جو گوایک تابعی کی‬
‫زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ‬
‫محفوظ ہے‪ ،‬عمرفرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکال‪ ،‬آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہو گئے‬
‫اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫نے سورۂ الحاقہ تالوت فرمائی‪ ،‬میں کھڑا سنتارہا‬
‫اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا‪ ،‬دل میں‬
‫کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں‪ ،‬خدا کی قسم یہ شاعر‬
‫ہے‪ ،‬ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے یہ آیت پڑھی‪ِ" :‬ا َّن ٗہ َلَق ْو ُل َر ُس ْو ٍل َکِر ْی ٍم ‪َّ o‬و َم ا‬
‫ُہ َو ِب َق ْو ِل َش اِع ٍر‪َo‬ق ِل ْی اًل َّم ا ُت ْؤ ِم ُن ْو َن " "یہ ایک بزرگ قاصد‬
‫کا کالم ہے اور یہ کسی شاعر کا کالم نہیں‪ ،‬تم بہت کم‬
‫ایمان رکھتے ہو۔" میں نے کہا یہ تو کاہن ہے‪ ،‬میرے دل‬
‫کی بات جان گیا ہے‪ ،‬اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی‪َ" :‬و اَل‬
‫ِب َق ْو ِل َکاِہ ٍن ‪َo‬ق ِل ْی اًل َّم ا َت َذ َّکُر ْو َن ‪َo‬ت ْن ِز ْی ٌل ِّم ْن َّر ِّب اْلٰع َلِم ْی َن "‬
‫"یہ کاہن کا کالم بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے‬
‫ہو‪ ،‬یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے"۔‬
‫آپ نے یہ سورۃ آخر تک تالوت فرمائی اور اس کو سن‬
‫[‪]23‬‬
‫کر اسالم میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔‬
‫اس کے عالوہ صحیح بخاری میں خود عمرکی زبانی‬
‫یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی‬
‫وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ‬
‫ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے‬
‫اندرسے آواز آئی‪ ،‬اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے‪:‬‬
‫َال ِا ٰل َہ ِا َّالاللہ‪ ،‬اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے‬
‫ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا‬
‫ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی‪ ،‬اس واقعہ پر تھوڑے ہی‬
‫دن گذرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں‪،‬‬
‫(باب بنیان الکعبہ باب اسالم عمرؓ )اس روایت میں اس‬
‫کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا عمرپر کیا اثر ہوا۔ پہلی‬
‫عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید‬
‫واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر عمرنے‬
‫لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا‬
‫کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اورنبوت کا کوئی‬
‫ذکر نہ تھا تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لیے ادھر‬
‫میالن ہواہوگا؛لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع‬
‫نہیں مال‪ ،‬اس لیے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ‬
‫معلوم ہو سکی‪ ،‬اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت‬
‫اورحشر ونشر کا نہایت موثربیان ہے‪ ،‬نماز میں پڑھتے‬
‫سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس‬
‫فقرے سے ظاہر ہوتا ہے وقع االسالم فی قلبی کل موقع‪،‬‬
‫یعنی اسالم میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا تاہم‬
‫چونکہ وہ طبعًا مستقل مزاج اورپختہ کار تھے اس لیے‬
‫انہوں نے اسالم کا اعالن نہیں کیا ؛بلکہ اس اثر کو‬
‫شاید وہ روکتے رہے ؛لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن‬
‫کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طٰہ پر نظر پڑی جس میں‬
‫توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا‬
‫اور بے اختیار کلمہ توحید پکاراٹھے اوردراقدس پر‬
‫حاضری کی درخواست کی۔ اوراگر وہ پہلی روایت‬
‫صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت‬
‫یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں‬
‫توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت‬
‫محدود اورمخفی رہی تھی اس لیے ان کو اس کا حال‬
‫نہ معلوم ہو سکا اورمخالفت کی شدت کے باعث کبھی‬
‫خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جانے‬
‫اورقرآن سننے کا موقع نہ مال پھر جب رفتہ رفتہ‬
‫اسالم کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں‬
‫پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی‪ ،‬باآلخر وہ دن‬
‫آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک‬
‫سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع مال اور وہ لبیک‬
‫[‪]24‬‬
‫کہتے ہوئے اسالم کے آستانہ پر حاضر ہو گئے۔‬

‫زمانۂ اسالم‬
‫عام مورخین اورارباب سیر نے عمرکے مسلمان ہونے کا‬
‫زمانہ؁ ‪ 7‬نبوی مقررکیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ‬
‫چالیسویں مسلمان تھے۔ (آج کل کے ایک نوجوان خوش‬
‫فہم صاحب قلم نے تمام گذشتہ روایات کو ایک سرے‬
‫سے ناقابل التفات قراردے کریہ دعوٰی کیا ہے کہ‬
‫عمرنہایت قدیم االسالم تھے‪ ،‬شاید مقصود یہ ہو کہ‬
‫حضرت ابوبکرؓ وغیرہ کے بعد ہی ان کا شمارہو‪ ،‬اس‬
‫مقصد کے لیے انہوں نے تنہا بخاری کو سند قراردیا ہے‪،‬‬
‫چنانچہ عمرکے اسالم کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں‬
‫کہ‪:‬اسی فطرت سلیمہ کی بنا پر ان (عمرؓ ) کو اسالم‬
‫سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہم‌شیر اور سعید‬
‫بن زید نے اسالم قبول کیا تو گووہ مسلمان نہیں ہوئے‬
‫تھے تاہم لوگوں کو اسالم پر قائم رہنے کی تاکید کیا‬
‫کرتے تھے؛چناں‌چہ سعید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر‬
‫بیان کیا ہے۔" کان عمر بن الخطابؓ یقیم علی االسالم‬
‫اناواختہ ومااسلم "یعنی عمرمجھ کو اوراپنی بہن کو‬
‫اسالم پر مضبوط کرتے تھے حاالں‌کہ خود نہیں اسالم‬
‫التے تھے"۔ [‪ ]25‬اس حدیث میں اپنے موافق مطلب‬
‫تحریر کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں‪":‬اس حدیث کا بعض‬
‫لوگوں نے اور بھی مطلب بیان کیا ہے اور قسطالنی نے‬
‫اس کی تردید کی ہے۔" اس کے بعد بت خانہ میں ندائے‬
‫غیب سننے کے واقعہ کا ذکر کیا۔ پہلی حدیث سے‬
‫عمرکی اسالم کے ساتھ ہمدردی اوردوسری میں ہاتف‬
‫غیب کی آواز سننے کا ذکر ہے‪ ،‬ان دونوں باتوں کو‬
‫مالکر انہوں نے فورًا عمرکے آغاز اسالم ہی میں مسلمان‬
‫ہونے کا قطعی فیصلہ کر دیا اوراسی واقعہ کو ان کے‬
‫فوری اسالم کا سبب قراردیدیا‪ ،‬اس کے بعد ایک‬
‫اورشہادت پر مصنف کی نظر پڑی کہ مرض الموت میں‬
‫ایک نوجوان نے عمرکے سامنے یہ الفاظ کہے‪":‬اے امیر‬
‫المومنین‪:‬خدانے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کی صحبت اورسبقت کے ذریعہ سے (جس کو آپ‬
‫جانتے ہیں) جو بشارت دی ہے اس سے آپ خوش‬
‫ہوں"اس قدر شواہد اوراتنے دالئل کے بعد فاضل مصنف‬
‫ناظرین سے داد طلب ہیں کہ‪" :‬ایک طرف توصحیح‬
‫بخاری کی مستند روایات ہیں جو عمرکی فطری‬
‫سالمت روی اورحق پرستی کو ظاہر کرتی ہیں‪ ،‬دوسری‬
‫طرف مزخرفات کا یہ دفتر بے پایاں ہے جو ان میں‬
‫گذشتہ اوصاف سے متعارض صفات تسلیم کراتا ہے‪،‬‬
‫ناظرین انصاف کریں کہ ان میں سے کس کو صحیح‬
‫تسلیم کیا جائے؟’’ افسوس مصنف کو دیگر مسائل کی‬
‫طرح اس مسئلہ میں بھی متعدد مسامحات میں‬
‫گرفتار ہونا پڑا ہے‪ ،‬ہم ناظرین کو مصنف کے ابتدائی‬
‫دالئل کی طرف توجہ دالتے ہیں‪ ،‬مصنف نے سب سے‬
‫پہلے اسالم کے ساتھ عمرکی ہمدردی میں سعید بن زید‬
‫مؓ کی یہ روایت پیش کی ہے‪ :‬کان عمر بن الخطاب یقی‬
‫علی االسالم انا واختہ ومااسلم [‪" ]26‬یعنی عمرمجھ کو‬
‫اوراپنی بہن کو اسالم پر مضبوط کرتے تھے حاالنکہ‬
‫خود مسلمان نہیں ہوئے تھے۔" اس کے بعد لکھتے ہیں‬
‫کہ اس حدیث کا بعض لوگوں نے ایک اور مطلب بھی‬
‫بیان کیاہے اور قسطالنی نے اس کی تردید کی ہے‪ ،‬یہاں‬
‫پر مصنف نے اپنا مطلب ثابت کرنے کے لیے بڑی جسارت‬
‫سے کام لیا ہے‪ ،‬اول توحدیث کے لفظ میں صریح‬
‫تحریف کی ہے اورتحریف بھی ادب عربی کے خالف‬
‫ہے‪ ،‬پھر حدیث میں "یقیم"کی بجائے "موثقی"ہے‪،‬‬
‫[‪]27‬جس کے معنی باندھنے کے ہیں نہ کہ مضبوط کرنے‬
‫اور قائم رکھنے کے یہ عربی کا محاورہ ہے اور‬
‫قسطالنی نے باندھنے کے معنی لیے ہیں‪ ،‬اورمصنف کی‬
‫عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطالنی سے مصنف کے‬
‫بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے‪ ،‬حاالنکہ یہ سراسر‬
‫غلط ہے‪ ،‬ہذا بہتان عظیم؛چنانچہ قسطالنی کے الفاظ‬
‫یہ ہیں‪ ]28[( ،‬بجبل اوقد کاال سیر تضییقا واھانۃ‪ ،‬یعنی‬
‫موثقی سے مراد رسی یا تسمہ سے قیدی کی طرح تنگ‬
‫کرنے اورذلیل کرنے کے لیے باندھنا ہے‪ ،‬البتہ قسطالنی‬
‫نے مصنف کے اختیار کردہ غلط معنی کی تردید کی ہے‬
‫جس کو بعض خوش فہموں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔‬
‫دوسری حدیث جو مصنف نے عمرکے اسالم کے باب‬
‫میں پیش کی ہے‪ ،‬یعنی ہاتف غیب کی آواز‪ ،‬اس روایت‬
‫میں کوئی ایسا فقرہ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ‬
‫عمراس کو سن کر متاثر ہوئے اور فورا اسالم لےآئے‪،‬‬
‫اس قصہ کے آخر میں یہ صاف مذکور ہے کہ اس کے‬
‫بعد تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کی نبوت کا شہرہ ہوا‪ ،‬اس لیے یہ بالکل ہی‬
‫آغاز اسالم کا واقعہ ہوگا‪ ،‬اگر اسی وقت حضرت عمرؓ کا‬
‫اسالم النا ثابت ہوجائےتواس سے یہ بھی ثابت ہوجائے‬
‫گا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی والدت سے پہلے ہی‬
‫آپ مسلمان ہو چکے تھے جو قطعی غلط ہے‪ ،‬جیسا کہ‬
‫آگے ثابت ہوگا۔ آئیے اب ہم صحیح بخاری ہی کے‬
‫ارشادات پر چل کر عمرکے اسالم کی تاریخ تالش‬
‫کریں‪ ،‬عمرکے اسالم کے واقعہ کے بیان میں حضرت‬
‫عبد اللہ بن عمرؓ کے یہ الفاظ بخاری میں ہیں‪":‬حضرت‬
‫عمؓر مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپاہوگیا‪ ،‬مشرکین‬
‫بکثرت ان کے مکان پرجمع ہو گئے اورکہنے لگے صبا‬
‫عمر‪ ،‬عمر بے دین ہو گئے‪ ،‬حضرت عمؓر خوف زدہ گھر‬
‫کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پرتھا۔" [‪ ]29‬اس‬
‫روایت سے ظاہر ہے کہ عمرکے اسالم کے وقت نہ صرف‬
‫یہ کہ وہ پیدا ہوچکے تھے ؛بلکہ سن تمیز کے اس درجہ‬
‫پر پہنچ چکے تھے کہ ان کو لڑکپن کے واقعات وضاحت‬
‫سے یادرہ گئے اورتجربہ اس کا شاہد ہے کہ ‪ 5،6‬سال‬
‫کابچہ واقعات کو اس طرح سے محفوظ نہیں رکھ‬
‫سکتا‪ ،‬آگے چلئے‪ 3 ،‬ھ یعنی بعثت کے سولہویں سال‬
‫غزوۂ احد ہوا‪ ،‬بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بن‬
‫عمرؓ سے روایت ہے کہ اس وقت ان کی عمر ‪ 14‬سال‬
‫تھی اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ چھانٹ‬
‫دیے گئے تھے اورمجاہدین میں نہیں لیے گئے‪ ]30[ ،‬اس‬
‫حساب سے بعثت کے دوسال بعد آپ کی پیدائش ماننی‬
‫پڑے گی‪ ،‬اورکم از کم پانچ سال کی عمر واقعات‬
‫محفوظ رہنے کے لیے ماننی ہوگی توپانچ سال یہ‬
‫اوردوسال بعد بعثت کے کل سات سال ہوجاتے ہیں‪،‬‬
‫لہذا خود صحیح بخاری کی تائید سے یہ واضح ہوتا ہے‬
‫کہ عمرکا زمانہ اسالم؁ ‪7‬ھ بعثت ہوگا‪ ،‬اس سے یہ‬
‫بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمؓر ہاتف غیب کی آواز‬
‫سننے کے سات سال بعد اسالم الئے۔) عمرکے مسلمان‬
‫ہوجانے سے اسالم کی تاریخ میں ایک نیا دورشروع ہو‬
‫گیا‪ ،‬اس وقت تک چالیس یا اس سے کچھ کم وبیش‬
‫آدمی دائرہ اسالم میں داخل ہوچکے تھے ؛لیکن وہ‬
‫نہایت بے بسی ومجبوری کے عالم میں تھے‪ ،‬عالنیہ‬
‫فرائض مذہبی ادا کرنا تودرکنار اپنے کو مسلمان ظاہر‬
‫کرنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا اورکعبہ میں نماز‬
‫پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا‪ ،‬عمرکے اسالم النے سے دفعتًا‬
‫حالت بدل گئی‪ ،‬انہوں نے عالنیہ اپنے اسالم کا‬
‫اظہارکیا‪ ،‬صرف اتنا ہی نہیں ؛بلکہ مشرکین کو جمع‬
‫کرکے بآواز بلند اپنے ایمان کا اعالن کیا‪ ،‬مشرکین نہایت‬
‫برافروختہ ہوئے ؛لیکن عاص بن وائل نے جو رشتہ میں‬
‫عمرکے ماموں تھے‪ ،‬ان کو اپنی پناہ میں لے لیا‪،‬‬
‫عمرقبول اسالم سے پہلے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں‬
‫کی مظلومیت کا تماشہ دیکھتے تھے اس لیے شوق‬
‫مساوات نےاسے پسند نہ کیا کہ وہ اسالم کی نعمت سے‬
‫متمتع ہونے کے بعد عاص بن وائل کی حمایت کے‬
‫سہارے اس کے نتائج سے محفوظ رہیں‪ ،‬اس لیے انہوں‬
‫نے پناہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور برابر ثبات‬
‫واستقالل کے ساتھ مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے‪ ،‬یہاں‬
‫تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ برابر کعبہ میں‬
‫جاکر نماز اداکی۔ [‪ ]31‬یہ پہال موقع تھا کہ حق‪ ،‬باطل‬
‫کے مقابلہ میں سربلند ہوا اورعمرکو اس صلہ میں دربار‬
‫نبوت سے فاروق کا لقب مرحمت ہوا۔‬

‫ہجرت‬
‫مکہ میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد بڑہتی گئی‪،‬‬
‫اسی قدرمشرکین قریش کے بغض وعناد میں بھی‬
‫ترقی ہوتی گئی‪ ،‬اگر پہلے وہ صرف فطری خونخواری‬
‫اورجوش مذہبی کی بناپر مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے‬
‫تھے تو اب انہیں سیاسی مصالح نے مسلمانوں کے کامل‬
‫استیصال پر آمادہ کر دیا تھا‪ ،‬سچ یہ ہے کہ اگر بال‬
‫کشان اسالم میں غیر معمولی جوش ثبات اوروارفتگی‬
‫کا مادہ نہ ہوتا ایمان پر ثابت قدم رہنا غیر ممکن تھا۔‬
‫حضرت عمرؓ ؁ ‪7‬نبوی میں اسالم الئے تھے اور؁‬
‫‪ 13‬نبوی میں ہجرت ہوئی‪ ،‬اس طرح گویا انہوں نے‬
‫اسالم النے کے بعد تقریبًا ‪ 7،6‬برس تک قریش کے‬
‫مظالم برداشت کیے‪ ،‬جب مسلمانوں کو مدینہ کی‬
‫جانب ہجرت کی اجازت ملی تو عمربھی اس سفر کے‬
‫لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اجازت لے کر چند‬
‫آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اس‬
‫شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین‬
‫کے مجمعوں سے گزرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے‪ ،‬نہایت‬
‫اطمینان سے طواف کیا‪ ،‬نمازپڑھی‪ ،‬پھر مشرکین سے‬
‫مخاطب ہوکر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے‬
‫باہر نکل کر مقابلہ کرلے ؛لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی‬
‫اوروہ مدینہ روانہ ہو گئے۔ [‪ ]32‬عمرمدینہ پہنچ کر قبا‬
‫میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان ہوئے‪ ،‬قبا کا‬
‫دوسرانام عوالی ہے؛چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی‬
‫فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے‪ ،‬عمرکے بعد اکثر‬
‫صحابہ نے ہجرت کی یہاں تک کہ ‪622‬ء میں خود‬
‫آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ کی‬
‫گھاٹیوں سے نکل کر مدینہ کے افق سے ضوافگن ہوا۔‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف النے‬
‫کے بعد غریب الوطن مہاجرین کے رہنے سہنے کا اس‬
‫طرح انتظام فرمایا کہ ان میں اور انصار میں برادری‬
‫قائم کردی‪ ،‬اس موقع پر انصار نے عدیم النظیر ایثار‬
‫سے کام لے کر اپنے مہاجربھائیوں کو مال واسباب میں‬
‫نصف کا شریک بنالیا‪ ،‬اس رشتہ کے قائم کرنے میں‬
‫درجہ ومراتب کا خاص طورپر خیال رکھا گیا تھا یعنی‬
‫جو مہاجر جس رتبہ کا تھا اسی حیثیت کے انصاری‬
‫سے اس کی برادری قائم کی گئی تھی؛چنانچہ عمرؓ کے‬
‫برادراسالم حضرت عتبہ بن مالک قرار پائے تھے جو‬
‫قبیلہ بنی سالم کے معزز رئیس تھے۔ مدینہ کا اسالم‬
‫مکہ کی طرح بے بس ومجبورنہ تھا؛بلکہ اب آزادی‬
‫اوراطمینان کا دورتھا اور اس کا وقت آگیا تھا کہ‬
‫فرائض وارکان محدود اورمعین کیے جائیں نیز‬
‫مسلمانوں کی تعداد وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی‬
‫تھی اوروہ دور دور کے محلوں میں آباد ہونے لگے تھے‪،‬‬
‫اس بنا پر شدید ضرورت تھی کہ اعالن نماز کا کوئی‬
‫طریقہ معین کیاجائے؛چنانچہ حضرت رسالت پناہ صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی کا انتظام کرنا‬
‫چاہا‪ ،‬بعض صحابہ کی رائے ہوئی کہ آگ جال کر لوگوں‬
‫کو خبر کی جائے‪ ،‬بعض کا خیال تھا کہ یہودیوں‬
‫اورعیسائیوں کی طرح بوق وناقوس سے کام لیا جائے‪،‬‬
‫عمرنے کہا کہ ایک آدمی اعالن کے لیے کیوں نہ مقرر‬
‫کیا جائے‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے‬
‫پسند آئی اور اسی وقت حضرت باللؓ کو اذان کا حکم‬
‫دیا گیا‪ ،‬اس طرح اسالم کا ایک شعار اعظم عمرکی‬
‫رائے کے موافق قائم ہوا‪ ]33[ ،‬جس سے تمام عالم‬
‫قیامت تک دن اوررات میں پانچ وقت توحید ورسالت‬
‫[‪]34‬‬
‫کے اعالن سے گونجتا رہے گا۔‬

‫غزوات نبوی میں شرکت‬


‫عمر مندرجہ ذیل غزوات و واقعات میں شریک رہے۔‬
‫غزوۂ بدر‬

‫مدینہ میں سب سے پہال معرکہ بدر کا پیش آیا‪،‬‬


‫عمراس معرکہ میں رائے‪ ،‬تدبرجانبازی اورپامردی کے‬
‫لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کے دست وبازو رہے‪ ،‬عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتہ‬
‫میں ان کا ماموں ہوتا تھا‪ ،‬خود ان کے خنجرخاراشگاف‬
‫سے واصل جہنم ہوا [‪ ]35‬یہ بات عمرکی خصوصیات‬
‫میں سے ہے کہ اسالم کے مقابلہ میں قرابت ومحبت کے‬
‫تعلقات سے مطلقًا متاثر نہیں ہوتےتھے‪ ،‬آپ کے ہاتھوں‬
‫عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے۔ بدر کا میدان‬
‫مسلمانوں کے ہاتھ رہا‪ ،‬غنیم کے کم وبیش ستر آدمی‬
‫مارے گئے اور تقریبًا اسی قدر گرفتار ہوئے ؛چونکہ ان‬
‫میں سے قریش کے اکثر بڑے بڑے معزز سردار تھے‪ ،‬اس‬
‫لیے یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کیاسلوک کیا‬
‫جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہؓ ‬
‫سے رائے لی‪ ،‬لوگوں نے مختلف رائیں دی‪ ،‬حضرت‬
‫ابوبکرؓ کی رائے ہوئی کہ فدیہ لے کرچھوڑدیا جائے‪،‬‬
‫عمرنے اختالف کیا اور کہا کہ ان سب کو قتل کردینا‬
‫چاہیے‪ ،‬اوراس طرح کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے ہاتھوں‬
‫سے اپنے عزیز کو قتل کرے‪ ،‬علی عقیل کی گردن ماریں‬
‫اورفالں جومیراعزیز ہےاس کاکام میں تمام کردوں۔‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت نے‬
‫حضرت ابوبکرؓ کی رائے پسندکی اورفدیہ لے کر‬
‫چھوڑدیا‪ ،‬بارگاہ الہی میں یہ چیز پسند نہ آئی اس پر‬
‫عتاب ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی‪َ :‬م ا َکاَن ِل َن ِب ٍّی َا ْن َّی ُکْو َن‬
‫َلٓٗہ َا ْس ٰر ی َح ّٰت ی ُی ْث ِخ َن ِف ی اَاْلْر ِض "کسی پیغمبر کے لیے‬
‫یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک‬
‫وہ خونریزی نہ کرلے۔" حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫[‪]36‬‬
‫اورحضرت ابوبکرؓ نے گریہ وزاری کی۔‬
‫غزوہ احد‬

‫واقعہ بدر کے بعد خود مدینہ کے یہودیوں سے لڑائی‬


‫ہوئی اور ان کو جالوطن کیا گیا اسی طرح غزوہ‬
‫سویق اوردوسرے چھوٹے چھوٹے معرکے پیش آئے‪،‬‬
‫سب میں عمرسرگرم پیکار رہے‪ ،‬یہاں تک کہ شوال؁‬
‫‪3‬ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا‪ ،‬اس میں ایک طرف تو‬
‫قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دوسو سوار‬
‫اورسات سو زرہ پوش تھے‪ ،‬ادھر غازیان اسالم کی کل‬
‫تعداد صرف سات سو تھی جس میں سوزرہ پوش‬
‫اوردوسو سوارتھے‪7 ،‬شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع‬
‫ہوئی‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن‬
‫جبیؓر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب‬
‫میں متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے‬
‫پائیں۔ مسلمانوں نے غنیم کی صفیں تہ وباالکردیں‪،‬‬
‫کفار شکست کھاکر بھاگے اور غازیان دین مال غنیمت‬
‫جمع کرنے میں مصروف ہو گئے‪ ،‬تیراندازوں نے سمجھا‬
‫کہ اب معرکہ ختم ہوچکا ہے‪ ،‬اس خیال سے وہ بھی‬
‫لوٹنے میں مصروف ہو گئے‪ ،‬تیراندازوں کا اپنی جگہ‬
‫سے ہٹنا تھا کہ خالدبن ولید نے (جو اس وقت تک‬
‫مسلمان نہیں ہوئے تھے)دفعتہ عقب سے زوروشور کے‬
‫ساتھ حملہ کر دیا‪ ،‬مسلمان چونکہ غافل تھے اس لیے‬
‫ناگہانی ریلے کو روک نہ سکے‪ ،‬یہاں تک کہ کفار نے خود‬
‫ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر یورش کردی‬
‫اوراس قدر تیروں اورپتھروں کی بارش کی کہ آپ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے‪،‬‬
‫پیشانی پر زخم آیا اوررخساروں میں مغفر کی کڑیاں‬
‫چبھ گئیں‪ ،‬آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں‬
‫گرپڑے اورلوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ جنگ کا‬
‫زور وشورجب کسی قدر کم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم اپنے تیس فدائیوں کے ساتھ پہاڑ پر تشریف‬
‫الئے‪ ،‬اسی اثنا میں خالد کو ایک دستہ فوج کے ساتھ‬
‫اس طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ خدایا یہ لوگ‬
‫یہاں تک نہ آنے پائیں‪ ،‬عمرنے چند مہاجرین اورانصار‬
‫کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹادیا۔‬
‫[‪ ]37‬ابو سفیان ساالر قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر‬
‫پکارا کہ اس گروہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫ہیں؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ‬
‫کوئی جواب نہ دے‪ ،‬ابو سفیان نے پھر عمراورحضرت‬
‫ابوبکر صدیقؓ کا نام لے کر کہا‪ ،‬یہ دونوں اس مجمع‬
‫میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے جواب نہ دیا تو‬
‫بوال کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے‪ ،‬عمرسے نہ رہا گیا‪،‬‬
‫پکار کر کہا‪:‬او دشمن خدا!ہم سب زندہ ہیں‪ ،‬ابوسفیان‬
‫نے کہا"اعل ھبل" یعنی اے ہبل بلند ہو‪( ،‬ہبل ایک بت کا‬
‫نام تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر‬
‫سےفرمایا جواب دو‪ ،‬اللہ اعلٰی واجل یعنی خدا بلند‬
‫وبرتر ہے۔ [‪ ]38‬غزوہ احد کے بعد؁ ‪ 3‬ھ میں حضرت‬
‫عمر کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی‬
‫حضرت حفصہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے‬
‫نکاح میں آئیں‪ ،‬؁ ‪4‬ھ بنو نضیر کو ان کی بدعہدی‬
‫کے باعث مدینہ سے جالوطن کیا گیا‪ ،‬اس واقعہ میں‬
‫بھی حضرت عمؓر شریک رہے‪،‬‬

‫غزوہ خندق‬

‫‪5‬ھ میں غزوہ خندق پیش آیا‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر خندق تیار کرائی‪ ،‬دس‬
‫ہزار کفار نے خندق کا محاصرہ کیا‪ ،‬وہ لوگ کبھی کبھی‬
‫خندق میں گھس کر حملہ کرتے تھے‪ ،‬اس لیے آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے ادھر ادھر کچھ‬
‫کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو متعین فرمادیا تھا کہ‬
‫دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں‪ ،‬ایک حصہ پر حضرت عمر‬
‫متعین تھے؛چنانچہ یہاں پران کے نام کی ایک مسجد‬
‫آج بھی موجود ہے‪ ،‬ایک دن کافروں کے مقابلہ میں ان‬
‫کو اس قدر مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضاہوتے‬
‫ہوتے رہ گئی‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس‬
‫آکر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع‬
‫نہ دیا‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‬
‫[‪]39‬‬
‫میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی‪،‬‬
‫کامل ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد مسلمانوں کے ثبات‬
‫واستقالل کے آگے کافروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ‬
‫میدان بھی غازیوں کے ہاتھ رہا۔‬

‫بیعت الرضوان اورصلح حدیبیہ‬

‫؁ ‪6‬ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬


‫زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا اور اس خیال سے کہ کسی‬
‫کو لڑائی کا شبہ نہ ہو‪ ،‬حکم دیا کہ کوئی ہتھیار باندھ‬
‫کر نہ چلے‪ ،‬ذوالحلیفہ پہنچ کر عمرکو خیال ہوا کہ‬
‫دشمنوں میں غیر مسلح چلنا مصلحت نہیں ہے؛چنانچہ‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے‬
‫موافق مدینہ سے اسلحہ منگوالئے‪ ،‬مکہ کے قریب پہنچ‬
‫کر معلوم ہوا کہ قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں‬
‫کو مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے‪ ،‬چونکہ رسول اللہ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنا مقصود نہیں تھا اس لیے‬
‫مصالحت کے خیال سے حضرت عثمانؓ کو سفیر بناکر‬
‫بھیجا‪ ،‬قریش نے ان کو روک رکھا جب کئی دن گزرگئے‬
‫تو یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ شہید ہو گئے‪ ،‬رسول‬
‫اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر صحابہؓ جو‬
‫تعداد میں چودہ سو تھے‪ ،‬ایک درخت کے نیچے جہاد‬
‫پر بیعت لی؛چنانچہ قرآن مجید کی اس آیت میں "َلَق ْد‬
‫َرِض َی اللُہ َع ِن اْلُم ْؤ ِم ِن ْی َن ِا ْذ ُی َب اِی ُع ْو َن َک َت ْح َت الَّش َج َر ِۃ "‪،‬‬
‫اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [‪ ]40‬عمرنے‬
‫بیعت سے پہلے ہی لڑائی کی تیاری شروع کردی تھی‪،‬‬
‫ہتھیارسج رہے تھے کہ خبر ملی آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں‪ ،‬اسی وقت بارگاہ نبوت‬
‫میں حاضر ہوئے اورجہاد کے لیے دست اقدس پر بیعت‬
‫کی۔ [‪ ]41‬قریش مصر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم اس سال مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے‪ ،‬آخر بڑے‬
‫ردوقدح کے بعد ایک معاہدہ پر طرفین رضا مند ہو گئے‪،‬‬
‫اس معاہدہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر قریش‬
‫کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں‬
‫چال جائے تو اس کو قریش کے پاس واپس کر دیا جائے‬
‫گا؛لیکن اگر مسلمانوں کا کوئی شخص قریش کے ہاتھ‬
‫آجائے تو ان کو نہ واپس کرنے کا اخیتار ہوگا‪ ،‬عمرکی‬
‫غیور طبیعت اس شرط سے نہایت مضطرب ہوئی‬
‫اورخود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار‬
‫میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو‬
‫باطل سے اس قدردب کرکیوں صلح کرتے ہیں‪،‬‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ ،‬میں خدا کا‬
‫پیغمبر ہوں اورخداکے حکم کے خالف نہیں کرتا‪ ،‬اس‬
‫کے بعد حضرت ابوبکر سے بھی یہی گفتگو کی‪ ،‬انہوں‬
‫نےبھی یہی جواب دیا‪ ،‬بعد کو حضرت عمؓر کو اپنی‬
‫گفتگوپرندامت ہوئی اور اس کے کفارے میں کچھ‬
‫خیرات کی۔ [‪ ]42‬غرض معاہدہ صلح لکھا گیا‪ ،‬عمرنے‬
‫بھی اسپر اپنے دستخط ثبت کیے‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے مدینہ کا قصد کیا‪ ،‬راہ میں سورہ "ِا َّن ا‬
‫َف َت ْح َنا َلَک َف ْت ًح ا ُّم ِب ْی ًنا"نازل ہوئی‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے عمرکو بالکر سنایا اور فرمایا کہ آج‬
‫ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھ کو دنیا کی تمام‬
‫[‪]43‬‬
‫چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔‬

‫غزوہ خیبر‬

‫‪7‬ھ میں واقعہ خبیر پیش آیا‪ ،‬یہاں یہودیوں کے بڑے‬


‫بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا‪،‬‬
‫پہلے حضرت ابوبکر سپہ ساالر ہوئے‪ ،‬ان کے بعدحضرت‬
‫عمؓر اس خدمت پر مامور ہوئے؛لیکن یہ فخر حضرت‬
‫علیؓ کے لیے مقدر ہوچکا تھا چنانچہ آخر میں جب آپ‬
‫کو علم مرحمت ہوا تو آپ کے ہاتھوں خیبر کا رئیس‬
‫مرحب مارا گیا اور خبیر مفتوح ہوا‪ ،‬آنحضرت صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین مجاہدوں کو تقسیم‬
‫کردی؛چنانچہ ایک ٹکڑا ثمغ نامی عمرکے حصہ میں آیا‪،‬‬
‫انہوں نے اس کو راہ خدا میں وقف کر دیا‪]44[ ،‬اسالم‬
‫کی تاریخ میں یہ پہال وقف تھا جو عمل میں آیا۔‬

‫فتح مکہ‬

‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش کے درمیان‬


‫میں حدیبیہ میں جو معاہدہ ہواخیبر کے بعد قریش نے‬
‫اس کو توڑدیا‪ ،‬ابوسفیان نے پیش بندی کےخیال سے‬
‫مدینہ آکر عذرخواہی کی؛لیکن رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم خاموش رہے‪ ،‬اس لیے وہ اٹھ کر حضرت‬
‫ابوبکرؓ اورپھر عمرکے پاس گیا کہ وہ اس معاملہ کو‬
‫طے کرادیں‪ ،‬عمرنے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ‬
‫بالکل ناامید ہو گیا‪ ،‬غرض نقض عہد کے باعث‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار مجاہدین‬
‫کے ساتھ رمضان؁ ‪ 8‬ھ میں مکہ کا قصد فرمایا‪،‬‬
‫قریش میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی‪ ،‬اس لیے انہوں نے‬
‫کوئی مزاحمت نہ کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نہایت جاہ وجالل کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ‬
‫داخل ہوئے اورباب کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح‬
‫وبلیغ تقریری کی جو تاریخوں میں بعینہ مذکور ہے‪،‬‬
‫پھر عمرکو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت‬
‫لینے کے لیے تشریف الئے لوگ جوق درجوق آتے تھے‬
‫اوربیعت کرتے جاتے تھے‪ ،‬عمرآنحضرت صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم سے قریب ؛لیکن کسی قدر نیچے بیٹھے تھے‪،‬‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورتوں کے ہاتھ‬
‫مس نہیں کرتے تھے‪ ،‬اس لیے جب عورتوں کی باری‬
‫آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکو اشارہ کیا کہ‬
‫تم ان سے بیعت لو؛چنانچہ تمام عورتوں نے ان ہی کے‬
‫ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔‬

‫غزوہ حنین‬

‫فتح مکہ کے بعد اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی‬


‫جو غزوہ حنین کے نام سے مشہو رہے‪ ،‬عمراس جنگ‬
‫میں بھی نہایت ثابت قدمی اورپامردی کے ساتھ‬
‫شریک کارزار رہے‪ ،‬پھر؁ ‪ 9‬ھ میں یہ خبر مشہور‬
‫ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے‪،‬‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو‬
‫تیاری کا حکم دیا اورجنگی تیاریوں کے لیے زرومال سے‬
‫اعانت کی ترغیب دالئی‪ ،‬اکثرصحابہ نے بڑی بڑی رقمیں‬
‫پیش کیں‪ ،‬عمرنے اس موقع پر اپنے تمام مال وامالک کا‬
‫آدھا حصہ الکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی‬
‫[‪]45‬‬
‫خدمت میں پیش کیا۔‬
‫غزوہ تبوک‬

‫اسلحہ اورسامان رسد مہیا ہوجانے کے بعد مجاہدین نے‬


‫مقام تبوک کا رخ کیا‪ ،‬یہاں پہنچ کر معلوم ہواکہ خبر‬
‫غلط تھی‪ ،‬اس لیے چند روز قیام کے بعد سب لوگ‬
‫واپس آگئے۔‬

‫حجۃ الوداع‬
‫؁ ‪10‬ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ‬
‫الوداع کے لیے تشریف لے گئے‪ ،‬حضرت عمؓر بھی‬
‫ہمرکاب تھے‪ ،‬اس حج سے واپس آنے کے بعد ابتداماہ‬
‫ربیع االول دوشنبہ کے دن حضور انور صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم بیمارہوگئےاور دس روز کی مختصر عاللت کے‬
‫بعد ‪ 12‬ربیع االول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آپ‬
‫کا وصال ہو گیا‪ ،‬عام روایت یہ ہے کہ عمرنے ازخود‬
‫رفتہ ہوکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اعالن‬
‫کیا کہ جوشخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے وفات پائی اس کو قتل کرڈالوں گا۔ شاید اس‬
‫میں یہ بھی مصلحت ہوکہ منافقین کو فتنہ پردازی کا‬
‫موقع نہ ملے‪ ،‬پھر بھی فتنہ سقیفہ بنی ساعدہ کھڑاہی‬
‫ہو گیا‪ ،‬اگرعمراورحضرت ابوبکر صدیقؓ وقت پر پہنچ‬
‫کر اپنے ناخن عقل سے اس گتھی کو نہ سلجھاتے تو‬
‫کیاعجب تھا کہ یہی فتنہ شمع اسالم کو ہمیشہ کے لیے‬
‫گل کردیتا؛لیکن انصار کے ساتھ بہت بحث ومباحثہ کے‬
‫بعدحضرت عمؓر نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پر‬
‫[‪]46‬‬
‫بیعت کرلی اوراس کے بعداورلوگوں نے بیعت کی۔‬
‫حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خالفت صرف سوادوبرس‬
‫رہی ان کے عہد میں جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے‬
‫سب میں عمرشریک رہے‪ ،‬قرآن شریف کی تدوین کا کام‬
‫خاص ان کے مشورہ اوراصرار سے عمل میں آیا‪ ،‬غرض‬
‫حضرت ابوبکرؓ کو اپنے عہد خالفت میں تجربہ ہوچکا‬
‫تھا کہ منصب خالفت کے لیے عمر فاروقؓ سے زیادہ‬
‫کوئی شخص موزوں نہیں ہوسکتا؛چنانچہ انہوں نے‬
‫وفات کے قریب اکابر صحابہ سے مشورہ کے بعد ان کو‬
‫اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اور آئندہ کے لیے مفید مؤثر‬
‫نصیحتیں کیں جو عمرکے لیے نہایت عمدہ دستور‬
‫العمل ثابت ہوئیں۔‬

‫خالفت‬
‫حضرت ابوبکرؓ تریسٹھ سال کی عمر میں اواخرجمادی‬
‫الثانی دوشنبہ کے روز وفات پائی اورحضرت‬
‫عمرفاروقؓ مسند آرائے خالفت ہوئے‪ ،‬خلیفۂ سابق کے‬
‫عہد میں مدعیان نبوت‪ ،‬مرتدین عرب اورمنکرین زکٰو ۃ‬
‫کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا‪،‬‬
‫یعنی؁ ‪12‬ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی‬
‫اورحیرہ کے تمام اضالع فتح ہو گئے‪ ،‬اسی طرح؁‬
‫‪13‬ھ میں شام پر حملہ ہوا اوراسالمی فوجیں سرحدی‬
‫اضالع میں پھیل گئیں‪ ،‬ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ‬
‫خلیفہ وقت نے انتقال کیا‪ ،‬حضرت عمؓر نے عنان‬
‫حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان‬
‫ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ہاتھ میں لی تو‬
‫ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک‬
‫پہنچانا تھا۔‬

‫فتوحات عراق‬
‫سیرت صدیقؓ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور‬
‫ہوچکا ہےکہ عراق پر حملےکے کیاوجوہ واسباب تھے‬
‫اور کس طرح اس کی ابتداہوئی‪ ،‬یہاں سلسلہ کے لیے‬
‫مختصرًا اس قدر جان لینا چاہیے کہ خالدبن ولید‬
‫بانقیا‪ ،‬کسکر‪ ،‬اورحیرہ کے اضالع کو فتح کرچکے تھے‬
‫کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم سے مثنی بن حارثہ‬
‫کو اپنا جانشین کرکے مہم شام کی اعانت کے لیے ان کو‬
‫شام جانا پڑا‪ ،‬حضرت خالد بن ولیدؓ کا جانا تھا کہ‬
‫عراق کی فتوحات دفعۃ رک گئیں۔ عمرمسند نشین‬
‫خالفت ہوئے تو سب سے پہلے مہم عراق کی تکمیل کی‬
‫طرف متوجہ ہوئے‪ ،‬بیعت خالفت کے لیے عرب کے‬
‫مختلف حصوں سے بے شمار آدمی آئے تھے‪ ،‬اس موقع‬
‫کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں آپ نے جہاد کا‬
‫وعظ کیا؛لیکن چونکہ عام خیال تھا کہ عراق حکومت‬
‫فارس کاپایہ تخت ہے اور اس کا فتح ہونا نہایت‬
‫دشوار ہےاس لیے ہر طرف سے صدائے برنخاست کا‬
‫معاملہ رہا‪ ،‬عمرنے کئی دن تک وعظ کہا ؛لیکن کچھ اثر‬
‫نہ ہوا‪ ،‬آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ‬
‫حاضرین کے دل دہل گئے مثنی شیبانی نے کہا‬
‫کہ"مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزمالیا ہے وہ مرد‬
‫میدان نہیں ہیں‪ ،‬ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضالع فتح‬
‫کرلئے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہامان گئے ہیں‪ ،‬اسی‬
‫طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابوعبیدہ ثقفی نے جوش‬
‫میں آکر کہا"انالھذا"یعنی اس کے لیے میں ہوں‪ ،‬ابو‬
‫عبیدہ کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرمادیا‬
‫اورہرطرف سے آوازیں اٹھیں کہ ہم بھی حاضر ہیں‪،‬‬
‫عمرنے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار‬
‫اوردوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی انتخاب‬
‫کیے اور ابو عبید کو سپہ ساالرمقرر کرکے روانہ کیا۔‬
‫حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس‬
‫نے ایرانیوں کو بیدار کردیاتھا؛چنانچہ پوران وخت نے‬
‫جوصغیر السن یزد گردشاہ ایران کی متولیہ تھی فرخ‬
‫زاد گورنرخراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع‬
‫اورمدبر تھا دربار میں طلب کرکے وزیر جنگ بنایا اور‬
‫تمام اہل فارس کو اتحاد واتفاق پرآمادہ کیا‪ ،‬نیز مذہبی‬
‫حمیت کا جوش دال کر نئی روح پیدا کردی‪ ،‬اس طرح‬
‫دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کرلی جو ہر‬
‫مزپرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔ رستم نے‬
‫ابو عبیدہؓ کے پہنچنے سے پہلے ہی اضالع فرات میں‬
‫غدرکرادیا اورجو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں‬
‫آچکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے‪ ،‬پوران وخت‬
‫نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لیے تیار‬
‫کی اورنرسی وجابان کو سپہ ساالر مقررکیا یہ دونوں‬
‫دوراستوں سے روانہ ہوئے‪ ،‬جابان کی فوج نماز ق پہنچ‬
‫کر ابوعبیدہؓ کی فوج سے بر سر پیکار ہوئی اوربری‬
‫طرح شکست کھا کر بھاگی‪ ،‬ایرانی فوج کے مشہور‬
‫افسر جوشن شاہ اورمروان شاہ مارے گئے‪ ،‬جابان‬
‫گرفتار ہوامگر اس حیلہ سے بچ گیا جس شخص نے‬
‫اس کو گرفتار کیا تھا وہ پہچانتا نہ تھا‪ ،‬جابان نے اس‬
‫سے کہا کہ میں بڑھاپے میں تمہارے کس کام کاہوں‪،‬‬
‫معاوضے میں دوغالم لے لو اور مجھے چھوڑ دو‪ ،‬اس‬
‫نے منظور کر لیا‪ ،‬بعد کو معلوم ہوا کہ یہ جابان تھا‪،‬‬
‫لوگوں نے غل مچایا کہ ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں‬
‫چاہیے ؛لیکن ابو عبیدہؓ نے کہا کہ اسالم میں بدعہدی‬
‫جائز نہیں۔ ابو عبیدہؓ نے جابان کو شکست دینے کے‬
‫بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں کو بھی شکست‬
‫دی‪ ،‬اس کا اثریہ ہوا کہ قرب وجوار کے تمام رؤسا خود‬
‫بخود مطیع ہو گئے‪ ،‬نرسی وجابان کی ہزیمت سن کر‬
‫رستم نے مروان شاہ کو چارہزار کی جمعیت کے ساتھ‬
‫ابو عبیدہؓ کے مقابلہ میں روانہ کیا‪ ،‬ابوعبیدہؓ نے‬
‫فوجی افسروں کے شدید اختالف کے باوجود فرات‬
‫سے پاراترکر غنیم سے نبردآزمائی کی چونکہ اس پار کا‬
‫میدان تنگ اورناہموار تھا‪ ،‬نیز عربی دالورں کے لیے‬
‫ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہال مقابلہ تھا‪ ،‬اس‬
‫لیے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اورنوہزارفوج‬
‫میں سے صرف تین ہزار باقی بچی۔ حضرت عمر کو‬
‫اس شکست نے نہایت برافروختہ کیا‪ ،‬انہوں نے اپنے‬
‫پرجوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگادی‪،‬‬
‫ان کے جوش کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ نمروتغلب‬
‫کے سرداروں نے جو مذہبًا عیسائی تھے اپنے قبائل کے‬
‫مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب‬
‫وعجم کا مقابلہ ہے‪ ،‬اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم‬
‫کے ساتھ ہیں‪ ،‬غرض حضرت عمؓر ایک فوج گراں کے‬
‫ساتھ جریر بجلی کو میدان رزم کی طرف روانہ کیا‪،‬‬
‫یہاں مثنٰی نے بھی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دال‬
‫کر ایک زبردست فوج تیار کرلی تھی۔ پوران وخت نے‬
‫ان تیاروں کا حال سنا تو اپنی فوج خاصہ میں سے‬
‫بارہ ہزار جنگ آزمابہادر منتخب کرکے مہران بن‬
‫مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے‬
‫حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے‪ ،‬ایک شدید‬
‫جنگ کے بعد عجمیوںمیں بھگدڑپڑگئی‪ ،‬مہران بن تغلب‬
‫کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے ماراگیا‪ ،‬مثنی نے پل کا‬
‫راستہ روک دیا اور اتنے آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ‬
‫کشتوں کے پشتے لگ گئے‪ ،‬اس فتح کےبعد مسلمان‬
‫عراق کے تمام عالقوں میں پھیل گئے۔ حیرہ کے کچھ‬
‫فاصلہ پر جہاں آج بغدادآباد ہے وہاں اسی زمانہ میں‬
‫بہت بڑا بازارلگتا تھا‪ ،‬مثنی نے عین بازار کے دن حملہ‬
‫کیا بازاری جان بچاکر بھاگ گئے اور بے شمار دولت‬
‫مسلمانوں کے ہاتھ آئی‪ ،‬اسی طرح قرب وجوار کے‬
‫مقامات میں مسلمانوں کی پیشقدمی شروع ہو گئی‪،‬‬
‫سورا‪ ،‬کسکر‪ ،‬صراۃاورفاللیح وغیرہ پراسالمی پھر‬
‫یرالہرانے لگا‪ ،‬پایہ تخت ایران میں یہ خبریں پہنچیں‬
‫توایران قوم میں بڑا جوش وخروش پیدا ہو گیا‪،‬‬
‫حکومت کا نظام بالکل بدل دیا‪ ،‬پوران وخت معزول‬
‫کی گئی‪ ،‬یزد گردجوسولہ سالہ نوجوان اورخاندان‬
‫کیانی کا تنہاوارث تھا تخت سلطنت پر بٹھادیا گیا‪،‬‬
‫اعیان واکابرملک نے باہم متفق ومتحد ہوکر کام کرنے‬
‫کا ارادہ کیا‪ ،‬تمام قلعے اورفوجی چھاؤنیوں کو‬
‫مستحکم کر دیا گیا‪ ،‬اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ‬
‫مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیالئی‬
‫جائے‪ ،‬ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی زندگی‬
‫پیدا ہو گئی اورتمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے‬
‫ہاتھ سے نکل گئے‪ ،‬مثنی مجبور ہوکر عرب کی سرحد‬
‫میں ہٹ آئے اورربیعہ اورمضر کے قبائل کو جواطراف‬
‫عراق میں پھیلے ہوئے تھے‪ ،‬ایک تاریخ معین تک علم‬
‫اسالمی کے نیچے جمع ہونے کے لیے طلب کیا‪ ،‬نیز دربار‬
‫خالفت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طورپر‬
‫مطلع کیا۔ عمرنے ایرانیوں کی تیاریوں کا حال سن کر‬
‫حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو جو بڑے رتبہ کے‬
‫صحابی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں‬
‫تھے‪ ،‬بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل‬
‫پر مامور کیا‪ ،‬اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے‬
‫ہوسکتا ہے کہ اس میں تقریبًا سترہ صحابی تھے جو‬
‫سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ‬
‫بدرمیں جوہر شجاعت دکھاچکےتھے‪ ،‬تین سووہ تھے‬
‫جو فتح مکہ میں موجود تھے اور سات سو ایسے تھے‬
‫جو خود صحابی نہ تھے ؛لیکن ان کی اوالد ہونے کا‬
‫فخر رکھتے تھے۔ حضرت سعدبن ابی وقاص نے شراف‬
‫پہنچ کر پڑاؤ کیا‪ ،‬مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام‬
‫ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کر رہے‬
‫تھے کہ اس اثناء میں ان کا انتقال ہو گیا‪ ،‬اس لیے ان‬
‫کے بھائی مغنی شراف آکر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ‬
‫سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے ان‬
‫سے بیان کیے۔ عمرنے ایام جاہلیت میں نواح عراق کی‬
‫سیاحت کی تھی اور وہ اس سرزمین کے چپہ چپہ سے‬
‫واقف تھے اس لیے انہوں نے خاص طورپر ہدایت کردی‬
‫تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہووہاں کے مفصل حاالت‬
‫لکھ کر آپ کے پاس بھیجے جائیں؛چنانچہ سعد بن ابی‬
‫وقاصؓ نے اس مقام کا نقشہ‪ ،‬لشکر کا پھیالؤ‪ ،‬فرودگاہ‬
‫کی حالت اوررسد کی کیفیت سے ان کو اطالع دی‪،‬‬
‫اس کے جواب میں دربار خالفت سے ایک مفصل بیان‬
‫آیا جس میں فوج کی نقل وحرکت حملہ کا بندوبست‪،‬‬
‫لشکر کی ترتیب اورفوج کی تقسیم کے متعلق ہدایتیں‬
‫درج تھیں‪ ،‬اسی کے ساتھ حکم دیا گیا کہ شراف سے‬
‫بڑھ کر قادسیہ کو میدان کا رزار قراردیں اوراس طرح‬
‫مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اورعرب‬
‫کا پہاڑ حفاظت کا کام دے۔ حضرت سعدؓ نے دربار‬
‫خالفت کی ہدایت کے مطابق شراف سے بڑھ کر‬
‫قادسیہ میں مورچہ جمایا اورنعمان بن مقرن کے ساتھ‬
‫چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں‬
‫سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اوراس کے رفقا کو‬
‫اسالم کی ترغیب دیں ؛لیکن جو لوگ دولت وحکومت‬
‫کے نشہ میں مخمور تھے‪ ،‬وہ خانہ بدوش عرب اوران‬
‫کے مذہب کو کب خاطر میں التے چنانچہ سفارت گئی‬
‫اورناکام واپس آئی۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک‬
‫دونوں طرف سے سکوت رہا‪ ،‬رستم ساٹھ ہزار کے فوج‬
‫کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اوریزدگرد کی تاکید کے‬
‫باوجود جنگ سے جی چرارہا تھا اور مسلمان آس پاس‬
‫کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے مویشی‬
‫وغیرہ حاصل کرالتے تھے جب اس حالت نے طول‬
‫کھینچا مجبور ہوکر رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا‪،‬‬
‫اورایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان‬
‫میں خیمہ زن ہوئیں۔ رستم قادسیہ میں پہنچ کر بھی‬
‫جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتارہا اورمدتوں سفراء کی‬
‫آمدورفت اورنامہ وپیام کا سلسلہ جاری رکھا ؛لیکن‬
‫مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر‬
‫اسالم یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہوگا‪،‬‬
‫رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہو‬
‫گیا تو سخت برہم ہوا اورقسم کھا کر کہا"آفتاب کی‬
‫قسم!اب میں تمام عربوں کو ویران کردوں گا۔"‬

‫قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ‬


‫اورغضب ناک ہوکر فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا‬
‫اور خود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا‪،‬‬
‫صبح کے وقت قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں سے‬
‫آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا جس کے پیچھے پیچھے‬
‫ہاتھیوں کے کالے کالے پہاڑ عجیب خوفناک سماں‬
‫پیداکر رہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسالم کا‬
‫لشکِر جرارصف بستہ کھڑا تھا‪ ،‬اللہ اکبر کے نعروں سے‬
‫جنگ شروع ہوئی‪ ،‬دن بھر ہنگامہ محشر برپارہا‪ ،‬شام‬
‫کو جب تاریکی چھاگئی تو دونوں حریف اپنے اپنے‬
‫خیموں میں واپس آئے‪ ،‬قادسیہ کا یہ پہال معرکہ تھا‬
‫اورعربی میں اس کو یوم االرماث کہتے ہیں۔ قادسیہ‬
‫کی دوسری جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے‪،‬‬
‫اس معرکہ میں مہم شام کی چھ ہزار فوج عین جنگ‬
‫کے وقت پہنچی اورعمرکے قاصد بھی جن کے ساتھ‬
‫بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے موقع پر پہنچے‬
‫اورپکارکرکہا"امیر المومنین نے یہ انعام ان کے لیے‬
‫بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں"اس نے مسلمانوں کے‬
‫جوش وخروش کو اور بھی بھڑکادیا تمام دن جنگ‬
‫ہوتی رہی شام تک مسلمان دوہزار اورایرانی دس ہزار‬
‫مقتول ومجروح ہوئے ؛لیکن فتح وشکست کا کچھ‬
‫فیصلہ نہ ہوا۔ تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے‬
‫مشہور ہے‪ ،‬اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ‬
‫پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی‪،‬‬
‫کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسالم کو‬
‫ہمیشہ اس کالی آندھی سے نقصان پہنچا تھا‪ ،‬اگرچہ‬
‫قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا‬
‫جواب ایجاد کرلیاتھا‪ ،‬تاہم یہ کالے دیو جس طرف‬
‫جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی‪ ،‬حضرت‬
‫سعدبن ابی وقاص نےضخم وسلم وغیرہ پارسی‬
‫نومسلموں سے اس سیاہ بال کے متعلق مشورہ طلب‬
‫کیا‪ ،‬انہوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں اورسونڈ‬
‫بیکارکردیئے جائیں‪ ،‬سعدؓ نے قعقاعؓ ‪ ،‬جمال اورربیع کو‬
‫اس خدمت پر مامور کیا‪ ،‬ان لوگوں نے ہاتھیوں کو‬
‫نرغے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر آنکھیں بیکار کر‬
‫دیں‪ ،‬قعقاعؓ نے آگے بڑھ کر پیل سفید کی سونڈ پر‬
‫ایسی تلوار ماری کہ مستک الگ ہو گئی‪ ،‬جھر جھری لے‬
‫کر بھاگا‪ ،‬اس کا بھاگنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے‬
‫پیچھے ہولئے‪ ،‬اس طرح دم کے دم میں یہ سیاہ بادل‬
‫چھٹ گیا۔ اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع مال‪،‬‬
‫دن بھر ہنگامہ کارزارگرم رہا‪ ،‬رات کے وقت بھی اس کا‬
‫سلسلہ جاری رہااور اس زورکارن پڑاکہ نعروں کی گرج‬
‫سے زمین دہل اٹھتی تھی‪ ،‬اسی مناسبت سے اس رات‬
‫کو لیلۃ الہریر کہتے ہیں‪ ،‬رستم پامردی اور استقالل کے‬
‫ساتھ مقابلہ کرتا رہا؛لیکن آخر میں زخموں سے‬
‫چورہوکر بھاگ نکال اور ایک نہر میں کود پڑاکہ تیر کر‬
‫نکل جائے گا‪ ،‬بالل نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب‬
‫کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ الیا اور تلوار‬
‫سے کام تمام کر دیا‪ ،‬رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت‬
‫ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا‪ ،‬ایرانی سپاہیوں‬
‫کے پاؤں اکھڑ گئے‪ ،‬مسلمانوں نے دورتک تعاقب کرکے‬
‫ہزاروں الشیں میدان میں بچھادیں۔ قادسیہ کے‬
‫معرکوں نے خاندان کسرٰی کی قسمت کاآخری فیصلہ‬
‫کر دیا‪ ،‬درفش کاریانی ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہو گیا‬
‫اور اسالمی حلم نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایران‬
‫کی سرزمین پر لہرانے لگا‪ ،‬مسلمانوں نے قادسیہ سے‬
‫بڑھ کر آسانی کے ساتھ بابل‪ ،‬کوثی‪ ،‬بہرہ شیر اورخود‬
‫نوشیروانی دار الحکومت مدائن پر قبضہ کر لیا‪،‬‬
‫ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلوال کو اپنا فوجی‬
‫مرکز قراردیا‪ ،‬اس دوران میں رستم کے بھائی خرندانے‬
‫حسن تدبیر سے ایک زبردست فوج جمع کرلی‪ ،‬سعد نے‬
‫ہاشم بن عتبہ کو جلوال کی تسخیر پر مامور کیا‪ ،‬جلوال‬
‫چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا‪ ،‬اس لیے مہینوں کے‬
‫محاصرہ کے بعد مفتوح ہوا‪ ،‬یہاں سے قعقاعؓ کی‬
‫سپردگی میں ایک جمعیت حلوان کی طرف بڑھی‬
‫اورخسرووشنوم کو شکست دے کر شہر پر قابض ہو‬
‫گیا۔ قعقاعؓ حلوان میں قیام کیا اور عام منادی کرادی‬
‫کہ جو لوگ اسالم یا جزیہ قبول کر لیں گے وہ مامون‬
‫ومحفوظ رہیں گے‪ ،‬اس منادی پر بہت سے امرا‬
‫اوررؤسا برضاورغبت اسالم میں آگئے یہ عراق کی‬
‫آخری فتح تھی‪ ،‬کیونکہ یہاں اس کی حد ختم ہوجاتی‬
‫ہے۔ تسخیر عراق کے بعد عمرکی دلی خواہش تھی کہ‬
‫جنگ کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور وہ فرمایا کرتے تھے‬
‫کہ" کاش!ہمارے اورفارس کے درمیان میں آگ کا پہاڑ‬
‫ہوتاکہ نہ وہ ہم پر حملہ کرسکتے نہ ہم ان پر چڑھ‬
‫سکتے"لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد‬
‫کسی طرح چین نہیں آتا تھا؛چنانچہ یزد گرد نے معرکہ‬
‫جلول کےبعد مرو کو مرکزبناکر نئےسرے سے حکومت‬
‫کے ٹھاٹھ لگائے اورتمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج‬
‫کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔ یز گرد‬
‫کے فرامین نے تمام ممالک میں آگ لگادی اورتقریبًا‬
‫ڈیڑھ الکھ آدمیوں کا ٹڈی دل قم میں آکر مجتمع ہوا‪،‬‬
‫یزدگردنے مروان شاہ کو سرلشکر مقرر کرکے نہادندکی‬
‫طرف روانہ کیا‪ ،‬اس معرکہ میں درفش کاویانی جس‬
‫کو عجم نہایت متبرک سمجھتے تھے‪ ،‬فال نیک کے‬
‫خیال سے نکاالگیااورجب مروان شاہ روانہ ہوا تو یہ‬
‫مبارک پھر یرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ ایرانیوں کی‬
‫ان تیاریوں کا حال سن کر عمرنے نعمان بن مقرن کو‬
‫تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو‬
‫آگے بڑھنے سے روکنے کا حکم دیا نہاوند کے قریب‬
‫دونوں کی فوجیں سرگرم پیکار ہوئیں اوراس زورکا‬
‫رن پڑا کہ قادسیہ کے بعد ایسی خونزیز جنگ کوئی‬
‫نہیں ہوئی تھی‪ ،‬یہاں تک کہ اس جنگ میں خود‬
‫اسالمی سپہ ساالرنعمانیؓ شہید ہو گئے‪ ،‬ان کے بعد ان‬
‫کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر‬
‫بدستور جنگ جاری رکھی اوررات ہوتے ہوتے عجمیوں‬
‫کے پاؤں اکھڑ گئے‪ ،‬مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا‪،‬‬
‫اس لڑائی میں تقریبًاً تین ہزار عجمی کھیت رہے‪ ،‬نتائج‬
‫کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام "فتح الفتوح"‬
‫رکھا‪ ،‬فیروز جس کے ہاتھ سے عمرکی شہادت مقدر‬
‫تھی‪ ،‬اسی لڑائی میں گرفتار ہواتھا۔‬
‫عام لشکر کشی‬
‫واقعہ نہاوند کے بعد عمرکو خیال پیدا ہواکہ جب تک‬
‫تخت کیانی کا وارث ایران کی سرزمین پر موجود ہے‪،‬‬
‫بغاوت اورجنگ کا فتنہ فرونہ ہوگا‪ ،‬اس بنا پر عام لشکر‬
‫کشی کا ارادہ کیا اوراپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار‬
‫کرکے مشہور افسروں کو دیے اور انہیں خاص خاص‬
‫ممالک کی طرف روانہ کیا‪ ،‬چنانچہ؁ ‪21‬ھ میں یہ‬
‫سب غازیان اسالم اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف‬
‫روانہ ہو گئے اور نہایت جوش وخروش سے حملہ کرکے‬
‫تمام ممالک کو اسالم کازیرنگیں کردیااور صرف ڈیڑھ‬
‫دو برس کے عرصہ میں کسرٰی کی حکومت نیست‬
‫ونابود ہو گئی۔ خاندان کیانی کا آخری تاجدار ایران سے‬
‫بھاگ کر خاقان کے دربار میں پہنچا‪ ،‬خاقان نے اس کی‬
‫بڑی عزت وتوقیر کی اورایک فوج گراں کے ساتھ یزد‬
‫گرد کو ہمراہ لے کر خراسان کی طرف بڑھااورخاقان نے‬
‫احنف بن قیس کے مقابلہ میں صف آرائی کی ؛لیکن‬
‫صفائی کے دوہی ہاتھ نے اس کے عزم واستقالل کو‬
‫متزلز ل کر دیا اور اس کے ذہن نشین ہو گیا کہ ایسے‬
‫بہادروں کو چھیڑنامصلحت نہیں؛چنانچہ اسی وقت‬
‫کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے حدود میں واپس چال‬
‫گیا۔ یزد گرد کوخاقان کے واپس جانے کی خبر ملی تو‬
‫مایوس ہوکر خزانہ اورجواہرات ساتھ لیے ترکستان کا‬
‫عزم کیا‪ ،‬درباریوں نے دیکھا کہ ملک کی دولت ہاتھ سے‬
‫نکلی جاتی ہے تو روکا‪ ،‬اس نے نہ مانا تو مقابلہ کرکے‬
‫تمام مال واسباب ایک ایک کرکے چھین لیا‪ ،‬یزد گردبے‬
‫سروسامان خاقان کے پاس پہنچا اورخدا تعالی کی‬
‫نافرمانی کے باعث مدتوں فرغانہ کی گلیوں میں خاک‬
‫چھانتا رہا۔ "الّٰلُہ َّم ٰم ِل َک اْلُم ْلِک ُت ْؤ ِت ی اْلُم ْلَک َم ْن َت َش اُء‬
‫َو َت ْن ِز ُع اْلُم ْلَک ِم َّم ْن َت َش اُء ‪َo‬و ُت ِع ُّز َم ْن َت َش اُء َو ُت ِذ ُّل َم ْن َت َش اُء ‪o‬‬
‫ِب َی ِد َک اْلَخ ْی ُر " "خدایا تو ہی ملکوں کا مالک ہے جس کو‬
‫چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے‪،‬‬
‫جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت‬
‫دیتا ہے‪ ،‬ساری بھالئیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔" احنف‬
‫نے بارگاِہ خالفت میں نامۂ فتح روانہ کیا‪ ،‬حضرت عمر‬
‫فاروقؓ نے تمام آدمیوں کو جمع کرکے یہ مژدہ‬
‫جانفزاسنایا اورایک مؤثر تقریر کی‪ ،‬آخر میں فرمایا کہ‬
‫آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی اور اب وہ‬
‫کسی طرح اسالم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؛لیکن‬
‫اگر تم بھی صراط مستقیم پر قائم نہ رہے تو خدا‬
‫تعالی تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کو دے‬
‫دیگا۔‬

‫فتوحاِت شام‬
‫ممالک شام میں سے اجنادین بصرٰی اور دوسرے‬
‫چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی میں فتح ہوچکے‬
‫تھے‪ ،‬عمرمسند آرائے خالفت ہوئے تو دمشق محاصرہ‬
‫کی حالت میں تھا‪ ،‬خالد سیف اللہؓ نےرجب ‪ 14‬ھ میں‬
‫اپنے حسن تدبیر سےاس کو مسخر کر لیا۔ رومی دمشق‬
‫کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہرطرف سے‬
‫فوجیں جمع کرکے مقام بیسان میں مسلمانوں کے‬
‫مقابلہ کے لیے جمع ہوئے‪ ،‬مسلمانوں نے ان کے سامنے‬
‫فحل میں پڑاؤڈاال‪ ،‬عیسائیوں کی درخواست پر معاذ‬
‫بن جبلؓ سفیر بن کر گئے؛لیکن مصالحت کی کوئی‬
‫صورت نہ نکلی‪ ،‬آخر کار ذوقعدہ ‪14‬ھ میں فحل کے‬
‫میدان میں نہایت خونزیز معرکے پیش آئے‪ ،‬خصوصًا‬
‫آخری معرکہ نہایت سخت تھا‪ ،‬باآلخریہ میدان بھی‬
‫مسلمانوں کے ہاتھ رہا[‪]47‬غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے اور‬
‫مسلمان اردن کے تمام شہر اورمقامات پر قابض ہو گئے‪،‬‬
‫رعایا ذمی قراردی گئی اور ہرجگہ اعالن کر دیا‬
‫گیاکہ"مقتولین کی جان ومال‪ ،‬زمین‪ ،‬مکانات‪ ،‬گرجے‬
‫اور عبادت گاہیں سب محفوظ ہیں" دمشق اوراردن‬
‫مفتوح ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کا رخ کیا‪،‬‬
‫راہ میں بعلبک‪ ،‬حماۃ‪ ،‬شیراز اورمعرۃ النعمان فتح کرتے‬
‫ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا‪ ،‬حمص‬
‫والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت‬
‫کرلی سپہ ساالر اعظم ابو عبیدہؓ نے عبادہ ابن صامت‬
‫کو وہاں متعین کرکے الذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص‬
‫تدبیر سے اس کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کر لیا۔‬
‫حمص کی فتح کے بعد اسالمی فوجوں نے ہر قل کے‬
‫پایہ تخت انطاکیہ کا رخ کیا ؛لیکن بارگاہ خالفت سے‬
‫حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیاجائے‪،‬‬
‫[‪]48‬‬
‫اس لیے فوجیں واپس آگئیں۔‬

‫میدان یرموک اور شام کی قسمت کا‬


‫فیصلہ‬
‫دمشق‪ ،‬حمص اورالذقیہ کی پیہم اورمتواتر ہزیمتوں‬
‫نے قیصر کوسخت برہم کر دیا اوروہ نہایت جوش‬
‫وخروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اپنی‬
‫شہنشاہی کا پورازورصرف کرنے پر آمادہ‬
‫ہوگیااورانطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈآیا‪،‬‬
‫حضرت ابو عبیدہؓ نے اس طوفان کو روکنے کے لیے‬
‫افسروں کے مشورہ سے تمام ممالک مفتوحہ کو خالی‬
‫کرکے دمشق میں اپنی قوت مجمتع کی اورذمیوں سے‬
‫جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا سب واپس کر دیا‬
‫گیا‪ ]49[ ،‬کیونکہ اب مسلمان ان کی حفاظت کرنے سے‬
‫مجبور تھے اس واقعہ کا عیسائیوں اوریہودیوں پر اس‬
‫قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے‬
‫تھے کہ خدا تم کو جلدواپس الئے۔ عمرکو مفتوحہ‬
‫مقامات سے مسلمانوں کے ہٹ آنے کی خبر ملی تو پہلے‬
‫وہ بہت رنجیدہ ہوئے ؛لیکن جب معلوم ہوا کہ تمام‬
‫افسروں کی یہی رائے تھی تو فی الجملہ تسلی ہو گئی‬
‫اور فرمایا خداکی اسی میں مصلحت ہوگی‪ ،‬سعید بن‬
‫عامرؓ کو ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدد کے لیے‬
‫روانہ کیا اور قاصد کو ہدایت کی کہ خود ایک صف‬
‫میں جاکر زبانی یہ پیغام پہنچانا‪" :‬االعمر یقرئک‬
‫االسالم ویقول لکم یا اھل السالم اصدقوااللقاء‬
‫وشدواعلیہم مثداللیوث ولیکونوااھون علیکم من الذر‬
‫فاناقد علمنا انکم علیہم منصورون" ترجمہ‪ :‬اے برادران‬
‫اسالم! عمرؓ نے بعد سالم کے تم کو یہ پیغام دیا ہے کہ‬
‫پوری سرگرمی کے ساتھ جنگ کرو اوردشمنوں پر‬
‫شیروں کی طرح اس طرح حملہ آور ہو کہ وہ تم کو‬
‫چیونٹیوں سے زیادہ حقیر معلوم ہوں‪ ،‬ہم کو یقین‬
‫کامل ہے کہ خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہے اورآخر‬
‫فتح تمہارے ہاتھ ہے" اردن کی حدود میں یرموک کا‬
‫میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت باموقع تھا‪،‬‬
‫اس لیے ا س اہم معرکہ کے لیے اسی میدان کو منتخب‬
‫کیا گیا‪ ،‬رومیوں کی تعداد دوالکھ تھی‪ ،‬اس کے مقابلہ‬
‫میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار تھی؛‬
‫لیکن سب کے سب یگانۂ روزگارتھے‪ ،‬اس فوج کی‬
‫اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تقریبًا ایک ہزار‬
‫ایسے بزرگ تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا‪ ،‬سو وہ تھے جو غزوہ‬
‫بدر میں حضور خیر االنام صلی اللہ علیہ وسلم کے‬
‫ہمرکاب رہ چکے تھے‪ ،‬عام مجاہدین بھی ایسے قبائل‬
‫سے تعلق رکھتے تھے جواپنی شجاعت اورسپہ گری‬
‫میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ یرموک کا پہال معرکہ بے‬
‫نتیجہ رہا‪ ،‬پانچویں رجب؁ ‪15‬ھ کو دوسرا معرکہ‬
‫پیش آیا‪ ،‬رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس‬
‫ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ‬
‫بھاگنے کا خیال تک نہ آئے‪ ،‬ہزاروں پادری اوربشپ‬
‫ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے تھے اور حضرت عیسی‬
‫کا نام لے کر جوش دالتے تھے‪ ،‬اس جوش واہتمام کے‬
‫ساتھ رومیوں نے حملہ کیا‪ ،‬فریقین میں بڑی خونریز‬
‫جنگ ہوئی ؛لیکن انجام کار مسلمانوں کی ثابت قدمی‬
‫اورپامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑگئے‪ ،‬تقریبًا ایک‬
‫الکھ عیسائی کھیت رہے اور مسلمان کل تین ہزار کام‬
‫آئے‪ ،‬قیصر کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو حسرت‬
‫وافسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ‬
‫کی طرف روانہ ہو گیا‪]50[ ،‬حضرت عمر نے مژدہ فتح‬
‫سنا تو اسی وقت سجدہ میں گرکر خداکا شکر اداکیا۔‬
‫فتح یرموک کے بعد اسالمی فوجیں تمام اطراف ملک‬
‫میں پھیل گئیں اور قنسرین‪ ،‬انطاکیہ جومہ‪ ،‬سرمین‪،‬‬
‫توزی‪ ،‬قورس‪ ،‬تل غرار‪ ،‬ولوک‪ ،‬رعیان وغیرہ چھوٹے‬
‫چھوٹے مقامات نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہو گئے۔‬

‫بیت المقدس‬
‫فسلطین کی مہم پر حضرت عمروبن العاصؓ مامور‬
‫ہوئے تھے‪ ،‬انہوں نے نابلس‪ ،‬لد‪ ،‬عمواس‪ ،‬بیت جبرین‬
‫وغیرہ پر قبضہ کرکے؁ ‪6‬ھ میں بیت المقدس کا‬
‫محاصرہ کیا‪ ،‬اس اثناء میں حضرت ابو عبیدہؓ بھی‬
‫اس مہم سے فارغ ہوکر ان سے مل گئے‪ ،‬بیت المقدس‬
‫کے عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد‬
‫مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کے لیے‬
‫یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر‬
‫اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں‪ ،‬عمرکو اس کی خبردی‬
‫گئی‪ ،‬انہوں نے اکابر صحابہؓ سے مشورہ کرکے حضرت‬
‫علیؓ کو نائب مقررکیا اوررجب؁ ‪16‬ھ میں مدینہ‬
‫[‪]51‬‬
‫سے روانہ ہوئے۔‬

‫بیت المقدس کا سفر‬


‫حضرت عمؓر کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا‪ ،‬مقام‬
‫جابیہ میں افسروں نے استقبال کیا اوردیر تک قیام‬
‫کرکے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا‪ ،‬پھر وہاں‬
‫سے روانہ ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے‪ ،‬پہلے‬
‫مسجد میں تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی‬
‫سیر کی‪ ،‬نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں‬
‫نمازپڑھنے کی اجازت دی ؛لیکن حضرت عمؓر نے اس‬
‫خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قراردے کر‬
‫مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں‪ ،‬باہر نکل‬
‫کر نماز پڑھی‪ ]52[ ،‬بیت المقدس سے واپسی کے وقت‬
‫عمرنے تمام ملک کا دورہ کیا‪ ،‬سرحدوں کا معائنہ کرکے‬
‫ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اوربخیر وخوبی مدینہ‬
‫واپس تشریف الئے۔‬

‫متفرق معرکے اورفتوحات‬


‫بیت المقدس کی فتح کے بعد بھی متفرق معرکہ پیش‬
‫آئے‪ ،‬اہل جزیرہ کی مستعدی اورہر قل کی اعانت‬
‫عیسائیوں نے دوبارہ حمص پر قبضہ کی کوشش کی ؛‬
‫لیکن ناکام رہے‪ ،‬فلسطین کے اضالع میں قیساریہ‬
‫نہایت آباد اور پررونق شہرتھا‪ ،‬؁ ‪13‬ھ میں عمروبن‬
‫العاصؓ نے اس پر چڑھائی کی‪ ،‬؁ ‪ 18‬ھ ء تک‬
‫متواترحملوں کے باوجود فتح نہ ہو سکا‪ ،‬آخر؁ ‪18‬‬
‫ھ کے اخیر میں امیر معاویہؓ نے ایک یہودی کی مدد‬
‫سے قلعہ پر قبضہ کر لیا اور شہر پر اسالمی پرچم‬
‫لہرانے لگا‪ ،‬جزیرہ پر ؁ ‪16‬ھ میں عبد اللہ بن الغنم‬
‫نے فوج کشی کی‪ ،‬تکریت کا ایک مہینہ تک محاصرہ‬
‫رہا اورچوبیس دفعہ حملے ہوئے‪ ،‬آخر میں حسن تدبیر‬
‫سے مسخر ہوا‪ ،‬باقی عالقوں کو عیاض بن غنم نے فتح‬
‫کیا‪ ،‬اسی طرح ؁ ‪16‬ھ میں مغیرہ بن شعبہ نے‬
‫خوزستان پر حملہ کیا‪ ،‬؁ ‪ 17‬ھ میں وہ معزول‬
‫ہوئے اور ان کی جگہ حضرت ابوموسٰی اشعریؓ مقرر‬
‫ہوئے‪ ،‬انہوں نے نئے سروسامان سے حملہ کیا اوراہواز‪،‬‬
‫مناذر‪ ،‬سوس‪ ،‬رامہرز کوفتح کرتے ہوئے خوزستان کے‬
‫صدر مقام شوسترکارخ کیا‪ ،‬یہ نہایت مستحکم اور‬
‫قلعہ بند مقام تھا؛لیکن ایک شخص کی راہنمائی سے‬
‫مسلمانوں نے تہ خانہ کی راہ سے گھس کر اس کو‬
‫مسخر کر لیا‪ ،‬یہاں کا سردار ہر مزان گرفتار ہوکر مدینہ‬
‫[‪]53‬‬
‫بھیجا گیا‪ ،‬وہاں پہنچ کر اس نے اسالم قبول کیا‪،‬‬
‫عمرنہایت خوش ہوئے‪ ،‬خاص مدینہ میں رہنے کی‬
‫جازت دی اور دوہزار ساالنہ مقرر کر دیا۔‬
‫فتوحات مصر‬
‫حضرت عمر وبن العاصؓ نے بہ اصرار فاروق اعظمؓ سے‬
‫اجازت لے کر چار ہزار فوج کے ساتھ مصر پر حملہ کیا‬
‫اورفرما‪ ،‬بلیبس‪ ،‬ام ونین وغیرہ کو فتح کرتے ہوئے‬
‫فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اورعمرکو امدادی‬
‫فوج کے لیے لکھا‪ ،‬انہوں نے دس ہزار فوج اورچارافسر‬
‫بھیجے‪ ،‬زبیر بن العوامؓ ‪ ،‬عبادہ بن صامتؓ ‪ ،‬مقدادبن عمر‬
‫ترضحےن ؓ صاعلا نبو رمع ترضح ‪ ؓ،‬دلخم نب ہملس ‪ ،ؓ،‬سلمہ بن مخل دؓ‪ ،‬حضرت عمر وبن العا صؓ نےحضر‬
‫زبیؓر کو ان رتبہ کےلحاظ سےافسربنایا سات مہینے‬
‫کےبعد حضرت زبیرؓ کی غیر معمولی شجاعت سے قلعہ‬
‫مسخر ہوا اوروہاں سے فوجیں اسکندریہ کی طرف‬
‫بڑھیں‪ ،‬مقام کربوں میں ایک سخت جنگ ہوئی‪ ،‬یہاں‬
‫بھی عیسائیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے‬
‫اسکندریہ پہنچ کر دم لیا اورچند دنوں کے محاصرہ کے‬
‫بعد اس کو بھی فتح کر لیا‪ ،‬عمرنے مژدۂ فتح سنا تو‬
‫سجدہ میں گرپڑے اورخدا کا شکر اداکیا۔[‪]54‬فتح‬
‫اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسالم کا سکہ بیٹھ گیا‬
‫اور بہت سے قبطی برضاو رغبت حلقہ بگوشہ اسالم‬
‫ہوئے۔‬

‫شہادت‬
‫مغیرہ بن شعبہؓ کے ایک پارسی غالم فیروز نامی نے‬
‫جس کی کنیت ابولولوتھی‪ ،‬عمرسے اپنے آقا کے بھاری‬
‫محصول مقررکرنے کی شکایت کی‪ ،‬شکایت بے جا‬
‫تھی‪ ،‬اس لیے عمرنے توجہ نہ کی‪ ،‬اس پر وہ اتنا ناراض‬
‫ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر لے کر اچانک حملہ کر‬
‫دیا اور متواتر چھ وار کیے‪ ،‬عمرزخم کے صدمے سے‬
‫گرپڑے‪ ،‬اورحضرت عبدالرحمن بن عوف نے نماز‬
‫پڑھائی۔ [‪ ]55‬یہ ایسا زخم کاری تھا کہ اس سے آپ‬
‫جانبر نہ ہو سکے‪ ،‬لوگوں کے اصرار سے چھ اشخاص کو‬
‫منصب خالفت کے لیے نامزد کیا کہ ان میں سے کسی‬
‫ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہوجائے اس‬
‫منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے‪ ،‬ان لوگوں کے نام یہ‬
‫ہیں‪ ،‬علیؓ ‪ ،‬عثمانؓ ‪ ،‬زبیرؓ ‪ ،‬طلحہؓ ‪ ،‬سعد بن ابی وقاصؓ ‪،‬‬
‫عبدالرحمن بن عوفؓ ‪ ،‬اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد‬
‫حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے‬
‫پہلو میں دفن ہونے کی جازت لی۔ [‪ ]56‬اس کے بعد‬
‫مہاجرین انصار‪ ،‬اعراب اوراہل ذمہ کے حقوق کی طرف‬
‫توجہ دالئی اور اپنے بیٹے عبد اللہؓ کو وصیت کی کہ‬
‫مجھ پر جس قدر قرض ہو اگروہ میرے متروکہ مال‬
‫سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے‪ ،‬ورنہ خاندان عدی سے‬
‫درخواست کرنااور اگر ان سے نہ ہو سکے تو کل قریش‬
‫سے ؛لیکن قریش کے سوا اورکسی کو تکلیف نہ دینا۔‬
‫سیدنا عمؓر بن خطاب پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا‪ ،‬اور‬
‫جمعرات کے روز جان بحق نوش کرگئے۔ ابن اثیؒر کے‬
‫مطابق "سیدنا عمؓر کی وفات ہوگئی تھی جبکہ ذی‬
‫الحج کی چار راتیں باقی تھیں یعنی ‪ 26‬ذی الحج کو‪،‬‬
‫اور اتوار کے دن سیدنا عثماؓن کی بیعت ہوگئی تھی‬
‫جبکہ ذی الحج کی ایک رات باقی تھی‪ ،‬اسلئے صحیح‬
‫یہی ہے کہ ‪ 26‬یا ‪ 27‬ذوالحجہ تاریخ شہادت ہے "‬
‫[‪]58[]57‬‬

‫نظام خالفت‬
‫اسالم میں خالفت کا سلسلہ گوحضرت ابوبکر صدیقؓ ‬
‫کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خالفت‬
‫میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے ؛لیکن منتظم‬
‫اورباقاعدہ حکومت کا آغاز عمرکے عہد سے ہوا‪ ،‬انہوں‬
‫نے نہ صرف قیصر وکسرٰی کی وسیع سلطنتوں کو‬
‫اسالم کے ممالک محروسہ میں شامل کیا؛بلکہ حکومت‬
‫وسلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس‬
‫قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے‬
‫ہیں‪ ،‬سب ان کے عہد میں وجود پزیر ہوچکے تھے؛لیکن‬
‫قبل اس کے کہ ہم نظام حکومت کی تفصیل بیان کریں‬
‫یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حکومت کی ترکیب‬
‫اورساخت کیاتھی؟ عمرکی خالفت جمہوری طرز‬
‫حکومت سےمشابہ تھی‪ ،‬یعنی تمام ملکی وقومی‬
‫مسائل مجلس شورٰی میں پیش ہوکر طے پاتے تھے‪،‬‬
‫اس مجلس میں مہاجرین وانصارؓ کے منتخب اوراکابر‬
‫اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد‬
‫اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے‬
‫تھے‪ ،‬مجلس کے ممتاز اورمشہورارکان یہ ہیں‪ :‬حضرت‬
‫عثمانؓ ‪ ،‬حضرت علیؓ ‪ ،‬حضرت عبد اللہ بن عوفؓ ‪،‬‬
‫حضرت معاذ بن جبلؓ ‪ ،‬حضرت ابی بن کعبؓ ‪ ،‬حضرت‬
‫زید بن ثابتؓ ۔ [‪ ]59‬مجلس شورٰی کے عالوہ ایک مجلس‬
‫عام بھی تھی جس میں مہاجرین وانصار کے عالوہ‬
‫تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے‪ ،‬یہ مجلس نہایت‬
‫اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی‪ ،‬ورنہ روز‬
‫مرہ کے کاروبار میں مجلس شورٰی کا فیصلہ کافی ہوتا‬
‫تھا‪ ،‬ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس‬
‫بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں‪ ،‬اس میں‬
‫صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔ [‪ ]60‬مجلس‬
‫شورٰی کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی"الصالۃ‬
‫جامعۃ" کا اعالن کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے‬
‫تھے‪ ،‬اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے‪،‬‬
‫[‪ ]61‬جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص‬
‫کو اپنے حقوق کی حفاظت اوراپنی رائے کے عالنیہ‬
‫اظہار کا موقع دیا جائے‪ ،‬حاکم کے اختیارات محدود‬
‫ہوں اور اس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ‬
‫چینی کا حق ہو‪ ،‬حضرت عمؓر کی خالفت ان تمام امور‬
‫کی جامع تھی‪ ،‬ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا‬
‫مطالبہ کرتا تھا اورخلیفہ وقت اختیارات کے متعلق‬
‫خود حضرت عؓم ر نے متعدد موقعوں پرتصریح کردی‬
‫تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے‪،‬‬
‫نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫"وإنما أنا ومالكم كولي اليتيم إن استغنيت استعففت‪،‬‬
‫وإن افتقرت أكلت بالمعروف‪ ،‬لكم علي أيها الناس‬
‫خصال فخذوني بها‪ ،‬لكم علي أن ال أجتبي شيئا من‬
‫خراجكم و مما أفاء اللہ عليكم إال من وجهہ لكم علي‬
‫ِإ َذ ا وقع ِف ي يدي أن ال يخرج مني إال ِف ي حقہ ومالكم‬
‫علي أن أزيد أعطياتكم وأرزاقكم إن شاء اللہ وأسد‬
‫ثغوركم‪ ،‬ولكم علي أن ال ألقيكم ِف ي المهالك" [‪" ]62‬مجھ‬
‫کو تمہارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم‬
‫کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے‪ ،‬اگر میں‬
‫دولتمندہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اوراگر صاحب حاجت‬
‫ہوں گا تواندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا‪ ،‬صاحبو!‬
‫میرے اوپر تمہارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو‬
‫مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے‪ ،‬ایک یہ کہ ملک کا خراج‬
‫اورمال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے‪ ،‬ایک یہ‬
‫کہ تمہارے روز ینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو‬
‫محفوظ رکھوں اوریہ کہ تم کو خطروں میں نہ‬
‫ڈالوں۔" مذکورہ باالتقریر صرف دلفریب خیاالت کی‬
‫نمائش نہ تھی ؛بلکہ عمرنہایت سختی کے ساتھ اس پر‬
‫عامل بھی تھے‪ ،‬واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬ایک دفعہ حضرت حفصہؓ آپ کی صاحبزادی‬
‫اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ‬
‫خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے‪ ،‬عمرکے پاس آئیں‬
‫اورکہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں‪،‬‬
‫اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے‪،‬‬
‫عمرنے جواب دیا کہ"بے شک تم میرے خاص مال میں‬
‫حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے‪،‬‬
‫افسوس ہے کہ تم نے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا‪ ،‬وہ‬
‫بے چاری خفیف ہوکر چلی گئیں‪ ]63[ ،‬ایک دفعہ خود‬
‫بیمار پڑے لوگوں نے عالج میں شہد تجویز کیا‪ ،‬بیت‬
‫المال میں شہد موجود تھا ؛لیکن بال اجازت نہیں لے‬
‫سکتے تھے‪ ،‬مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں‬
‫جاکر لوگوں سے کہا کہ"اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا‬
‫ساشہد لے لوں" [‪ ]64‬ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب‬
‫عمرکی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات‬
‫امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔ عمرنے لوگوں‬
‫کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی‬
‫تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ‬
‫وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا‪ ،‬ایک‬
‫موقع پر ایک شخص نے کئی بار عمرکو مخاطب کرکے‬
‫کہا"اتق اللہ یاعمر"[‪]65‬حاضرین میں سے ایک شخص‬
‫نے اس کو روکنا چاہا‪ ،‬عمرنے فرمایا"نہیں کہنے دو‪،‬‬
‫اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ‬
‫مانیں تو ہم"یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛‬
‫بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔ ایک‬
‫دفعہ عمرمہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے‪،‬‬
‫ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اورکہا"اتق اللہ‬
‫یاعمر!"یعنی اے عمرؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض‬
‫صحیح تھا عمرنے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت‬
‫بھی عمرؓ سے زیادہ جانتی ہے‪ ،‬حقیقت یہ ہے کہ آزادی‬
‫اورمساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے عمرکی‬
‫خالفت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو‬
‫جوش استقالل اورعزم وثبات کا مجسم پتال بنادیا۔‬
‫خالفت فاروقی کی ترکیب اورساخت بیان کرنے کے‬
‫بعد اب ہم انتظامات ملکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‬
‫اور دکھانا چاہتے ہیں کہ فاروق اعظم نے اپنے عہد‬
‫مبارک میں خالفت اسالمیہ کو کس درجہ منظم‬
‫اورباقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ‬
‫کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کر دیا تھا۔‬
‫نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہال کام ملک کا‬
‫صوبوں اورضلعوں میں تقسیم ہے‪ ،‬اسالم میں سب سے‬
‫پہلے حضرت عمؓر نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک‬
‫مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا‪ ،‬مکہ‪ ،‬مدینہ‪،‬‬
‫جزیرہ‪ ،‬بصرہ‪ ،‬کوفہ‪ ،‬مصر‪ ،‬فلسطین‪ ،‬ان صوبوں کے‬
‫عالوہ تین صوبے اورتھے‪ ،‬خراسان‪ ،‬آذربائیجان‪ ،‬فارس‪،‬‬
‫ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے‪،‬‬
‫والی یعنی حاکم صوبہ‪ ،‬کاتب یعنی میر منشی‪ ،‬کاتب‬
‫دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی‪ ،‬صاحب‬
‫الخراج عینی کلکٹر‪ ،‬صاحب احداث یعنی افسر پولیس‪،‬‬
‫صاحب بیت المال‪ ،‬یعنی افسر خزانہ‪ ،‬قاضی یعنی جج‬
‫چنانچہ کوفہ میں عماربن یاسرؓ والی‪ ،‬عثمان بن حنیف‬
‫یؓ کلکٹر‪ ،‬عبد اللہ بن مسعو دؓ افسر خزانہ‪ ،‬شری حؓ قاض‬
‫اور عبد اللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔ [‪ ]66‬بڑے بڑے‬
‫عہدہ داروں کا انتخاب عمومًا مجلس شورٰی میں ہوتا‬
‫تھا‪ ،‬عمرکسی الئق راستباز اورمتدین شخص کا نام‬
‫پیش کرتے تھے‪ ،‬اورچونکہ عمرمیں جوہر شناسی کا‬
‫مادہ فطرتا تھا اس لیے ارباب مجلس عموما ان کے‬
‫حسن انتخاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے‬
‫اور اس شخص کے تقرر پر اتفاق رائے کرلیتے تھے؛‬
‫چنانچہ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے نعمان بن‬
‫[‪]67‬‬
‫مقرن کا اسی طریقہ سے انتخاب ہواتھا۔‬
‫احتساب‬
‫خلیفہ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی‬
‫اورقوم کے اخالق وعادات کی حفاظت ہے‪ ،‬عمراس‬
‫فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے‪ ،‬وہ‬
‫اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر‬
‫سوارنہ ہوگا‪ ،‬باریک کپڑے نہ پہنےگا‪ ،‬چھنا ہوا آٹانہ‬
‫کھائے گا‪ ،‬دروازہ پر دربان نہ رکھے گا‪ ،‬اہل حاجت کے‬
‫لیے دروازہ ہمیشہ کھال رکھے گا‪]68[ ،‬اسی کے ساتھ اس‬
‫کے مال واسباب کی فہرست تیارکراکے محفوظ رکھتے‬
‫تھے اورجب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر‬
‫معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو جائزہ لے کر آدھا مال‬
‫بٹالیتے تھے[‪ ]69‬اور بیت المال میں داخل کردیتے تھے‪،‬‬
‫ایک دفعہ بہت سےعمال اس بال میں مبتال ہوئے‪ ،‬خالد‬
‫بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے عمرکو اطالع دی‪،‬‬
‫انہوں نے سب کی امالک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال‬
‫بٹالیا اور بیت المال میں داخل کر لیا‪ ،‬موسم حج میں‬
‫اعالن عام تھا جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ‬
‫فورا بارگاہ خالفت میں پیش کرے‪]70[ ،‬چنانچہ ذراذرا‬
‫سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد‬
‫اس کا تدارک کیاجاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے‬
‫شکایت کی کہ آپ کے فالں عامل نے مجھ کو بے قصور‬
‫کوڑے مارے ہیں‪ ،‬عمرنے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ‬
‫مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے‪ ،‬حضرت‬
‫عمروبن العاصؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں‬
‫ہوگا‪ ،‬عمرنے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ملزم‬
‫سے انتقام نہ لوں‪ ،‬عمروبن العاصؓ نے منت سماجت‬
‫کرکے مستغیث کوراضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے‬
‫[‪]71‬‬
‫عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے بازآئے۔‬
‫حضرت خالد سیف اللہ جو اپنی جانبازی اورشجاعت‬
‫کے لحاظ سے تاج اسالم کے گوہر شاہوار اوراپنے زمانہ‬
‫کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض‬
‫اس لیے معزول کر دیے گئے کہ انہوں نے ایک شخص‬
‫کو انعام دیا تھا‪ ،‬عمرکو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت‬
‫ابو عبیدہؓ سپہ ساالر اعظم کو لکھا کہ خالدؓ نے یہ‬
‫انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے‬
‫دیا تو خیانت کی‪ ،‬دونوں صورت میں وہ معزولی کے‬
‫قابل ہیں۔ [‪ ]72‬حضرت ابوموسی اشعریؓ جو بصرہ کے‬
‫گورنر تھے‪ ،‬شکایتیں گزریں کہ انہوں نے اسیران جنگ‬
‫میں سے ساٹھ رئیس زادے منتخب کرکے اپنے لیے رکھ‬
‫چھوڑے ہیں اور کاروبار حکومت زیاد بن سفیان کے‬
‫سپر د کررکھا ہے اوریہ کہ ان کے پاس ایک لونڈی ہے‬
‫جس کو نہایت اعلٰی درجہ کی غذا بہم پہنچائی جاتی‬
‫ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں آسکتی‪ ،‬عمرنے ابو‬
‫موسٰی اشعری سے مواخذہ کیا تو انہوں نے دو‬
‫اعتراضوں کا جواب تشفی بخش دیا‪ ،‬لیکن تیسری‬
‫شکایت کا کچھ جواب نہ دے سکے؛چنانچہ لونڈی ان‬
‫کے پاس سے لے لی گئی۔ [‪ ]73‬حضرت سعد بن ابی‬
‫وقاصؓ نے کوفہ میں ایک محل تعمیر کرایا جس میں‬
‫دیوڑھی بھی تھی‪ ،‬عمرنے اس خیال سے کہ اہل حاجت‬
‫کو رکاؤ ہوگا محمد بن مسلمہؓ کو حکم دیا کہ جاکر‬
‫ڈیوڑھی میں آگ لگادیں ؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل‬
‫ہوئی اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ خاموشی سے‬
‫دیکھتے رہے۔ [‪ ]74‬عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت‬
‫شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان‬
‫کے دروازہ پر دربان مقرر ہے‪ ،‬عمرنے محمد بن مسلمہؓ ‬
‫کو تحقیقات پر مامور کیا‪ ،‬محمد بن مسلمہؓ نے مصر‬
‫پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اورعیاض‬
‫باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے‪ ،‬اس ہیئت اورلباس کے‬
‫ساتھ لے کر مدینہ آئے‪ ،‬عمرنے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا‬
‫اوربالوں کا کرتا پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم‬
‫دیا‪ ،‬عیاضؓ کو انکارکی مجال نہ تھی‪ ،‬مگر باربار کہتے‬
‫تھے‪ ،‬اس سے مرجانا بہتر ہے‪ ،‬عمرنے فرمایا کہ یہ تو‬
‫تمہارا آبائی پیشہ ہے‪ ،‬اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے‬
‫دل سے توبہ کی اورجب تک زندہ رہے اپنے فرائض‬
‫نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ [‪ ]75‬حکام‬
‫کے عالوہ عام مسلمانوں کی اخالقی اورمذہبی نگرانی‬
‫کا خاص اہتمام تھا‪ ،‬عمرجس طرح خود اسالمی اخالق‬
‫کا مجسم نمونہ تھے‪ ،‬چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام‬
‫قوم مکارم اخالق سے آراستہ ہوجائے‪ ،‬انہوں نے عرب‬
‫جیسی فخار قوم سے فخروغرور کی تمام عالمتیں‬
‫مٹادیں‪ ،‬یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے‬
‫دی‪ ،‬ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک‬
‫خوان پیش کیا‪ ،‬عمرنے فقیروں اورغالموں کو ساتھ‬
‫بٹھا کر کھانا کھالیا اورفرمایا کہ خدا ان لوگوں پر‬
‫لعنت کرے جن کو غالموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا‬
‫ہے۔ [‪ ]76‬ایک دفعہ حضرت ابی بن کعبؓ جو بڑے رتبہ‬
‫کے صحابی تھے‪ ،‬مجلس سے اٹھتے تو لوگ ادب اور‬
‫تعظیم کے خیال سے ساتھ ساتھ چلتے اتفاق سے‬
‫عمرآنکلے‪ ،‬یہ حالت دیکھ کر ابی بن کعبؓ کودرہ لگایا‪،‬‬
‫ان کو نہایت تعجب ہوا اور کہا خیر تو ہے؟ عمرنے‬
‫فرمایا‪ :‬اوما تری فتنۃ للمتبوع ومذلۃ للتابع۔ [‪" ]77‬تمہیں‬
‫معلوم نہیں ہے کہ یہ امر متبوع کے لیے فتنہ اورتابع کے‬
‫لیے ذلت ہے"۔ شعر وشاعری کے ذریعہ ہجووبدگوئی‬
‫عرب کا عام مذاق تھا‪ ،‬عمرنے نہایت سختی سے اس‬
‫کو بندکردیا‪ ،‬حطیہ اس زمانہ کا مشہور ہجوگوئی‬
‫شاعرتھا‪ ،‬عمرنے اس کو قید کر دیا اورآخر اس شرط پر‬
‫رہا کیا کہ پھر کسی کی ہجو نہیں لکھے گا‪،‬‬
‫[‪]78‬ہواپرستی‪ ،‬رندی اورآوارگی کی نہایت شدت سے‬
‫روک تھا م کی‪ ،‬شعرا کو عشقیہ اشعارمیں عورتوں کا‬
‫نام لینے سے قطعی طورپر منع کر دیا‪ ،‬شراب خوری کی‬
‫سزاسخت کردی‪ ،‬چالیس درے سے اسی درے کر دیے۔‬
‫عمرکو اس کا بڑا خیال تھا کہ لوگ عیش پرستی اور‬
‫تنعم کی زندگی میں مبتال ہو کر سادگی کے جوہر‬
‫سےخالی نہ ہوجائیں‪ ،‬افسروں کو خاص طور پر‬
‫عیسائیوں اورپارسیوں کے لباس اورطرز معاشرت کے‬
‫اختیا ر کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے‪ ،‬سفر شام میں‬
‫مسلمان افسروں کے بدن پر حریر دیباکے حلے‬
‫اورپرتکلف قبائیں دیکھ کر اس قدر خفا ہوئے کہ ان کو‬
‫سنگریز ےمارے اورفرمایا تم اس وضع میں میرا‬
‫استقبال کرتےہو۔ [‪ ]79‬مسلمانوں کواخالق ذمیمہ سے باز‬
‫رکھنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخالق کی بھی خاص‬
‫طورپر تعلیم دی‪ ،‬مساوات اورعزت نفس کا خاص‬
‫خیال رکھتے تھے اور تمام عمال کو ہدایت تھی کہ‬
‫مسلمانوں کو مارانہ کریں اس سے وہ ذلیل ہو جائیں‬
‫[‪]80‬‬
‫گے۔‬

‫ملکی نظم ونسق‬


‫شام وایران فتح ہواتو لوگوں کی رائے ہوئی کہ‬
‫مفتوحہ عالقے امرائے فوج کی جاگیر میں دے دیے‬
‫جائیں‪ ،‬حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے تھے کہ جن‬
‫کی تلواروں نے ملک فتح کیا ہے ان ہی کا قبضہ بھی‬
‫حق ہے‪ ،‬حضرت باللؓ کو اس قدر اصرار تھا کہ عمرنے‬
‫دق ہوکر فرمایا"اللہم اکفنی بالال" لیکن خود عمرکی‬
‫رائے تھی کہ زمین حکومت کی ملک اورباشندوں کے‬
‫قبضہ میں رہنے دی جائے‪ ،‬حضرت علیؓ ‪ ،‬حضرت عثمان‬
‫ضرغ ‪،‬ےھت گنہآ مہ ےکرمع یھب ؓ ہحلط ترضحروا ‪ ،ؓ،‬اورحضرت طلح ہؓ بھی عمرکے ہم آہنگ تھے‪ ،‬غر‬
‫مجلس عام میں مسئلہ پیش ہوا اوربحث ومباحثہ‬
‫کےبعد فاروق اعظمؓ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔ [‪ ]81‬عراق‬
‫کی پیمائش کرائی‪ ،‬قابل زراعت اراضی کا بندوبست‬
‫کیا‪ ،‬عشروخراج کا طریقہ قائم کیا‪ ،‬عشرکا طریقہ‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت صدیقؓ کے‬
‫زمانہ میں جاری ہوچکا تھا ؛لیکن خراج کا طریقہ اس‬
‫قدر منضبط نہیں ہواتھا‪ ،‬اسی طرح شام ومصر میں‬
‫بھی لگان تشحیص کیا ؛لیکن وہاں کا قانون ملکی‬
‫حاالت کے لحاظ سےعراق سے مختلف تھا‪ ،‬تجارت پر‬
‫عشر یعنی چنگی لگائی گئی‪ ،‬اسالم میں یہ خاص‬
‫عمرکی ایجاد ہے اور اس کی ابتدایوں ہوئی کہ مسلمان‬
‫جو غیر ممالک میں تجارت کے لیے جاتے تھے ان کو‬
‫دس فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا‪ ،‬عمرکو معلوم ہوا تو‬
‫انہوں نے بھی غیر ملکی مال پر ٹیکس لگادیا‪ ،‬اسی‬
‫طرح تجارتی گھوڑوں پر بھی زکٰو ۃ خاص عمرکے حکم‬
‫سے قائم کی ورنہ گھوڑے مستثنی تھے‪ ،‬اس سے یہ نہ‬
‫سمجھنا چاہیے کہ نعوذ باللہ عمرنے رسول اللہ صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ فرمائے‬
‫تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں‪،‬‬
‫اس لیے تجارت کے گھوڑے مستثنی کرنے کی کوئی‬
‫وجہ نہ تھی۔ حضرت عمؓر نے تمام ملک میں مردم شمار‬
‫کرائی‪ ،‬اضالع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں‪ ،‬محکمۂ‬
‫قضا کے لیے اصول وقوانین بنائے‪ ،‬قاضیوں کی بیش‬
‫قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی‬
‫سے محفوظ رہیں؛چنانچہ سلمانؓ ‪ ،‬ربیعہؓ اورقاضی‬
‫شریحؓ کی تنخواہیں پانچ پانچ سودرہم ماہانہ تھی۔‬
‫[‪ ]82‬اور امیر معاویہؓ کی تنخواہ ایک ہزار دینار تھی‪،‬‬
‫[‪ ]83‬حل طلب مسائل کے لیے شعبہ افتاء قائم کیا‪،‬‬
‫حضرت علیؓ ‪ ،‬حضرت عثمانؓ ‪ ،‬حضرت معاذبن جبلؓ ‪،‬‬
‫حضرت عبد اللہ بن عوفؓ ‪ ،‬حضرت ابی بن کعبؓ ‪،‬‬
‫حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابودرداؓء اس شعبے‬
‫کے ممتاز رکن تھے۔ ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے‬
‫لیے عمرنے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا‪ ،‬اس‬
‫کے افسر کانام "صاحب االحداث" تھا‪ ،‬حضرت ابوہریرہؓ ‬
‫کو بحرین کا صاحب االحداث بنادیا تو ان کو خاص‬
‫طورپر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے عالوہ‬
‫احتساب کی خدمت بھی انجام دیں‪ ،‬احتساب کے‬
‫متعلق جو کام ہیں‪ ،‬مثًال دکان دار ناپ تول میں کمی نہ‬
‫کریں‪ ،‬کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے‪ ،‬جانوروں‬
‫پر زیادہ بوجھ نہ الدا جائے‪ ،‬شراب عالنیہ نہ بکنے پائے‪،‬‬
‫اس قبیل کے اوربہت سے امور کی نگرانی کا جن کا‬
‫تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا‬
‫انتظام تھا اورصاحبان احداث (افسران پولیس) اس‬
‫خدمت کو انجام دیتے تھے۔ عہد فاروقی سے پہلے عرب‬
‫میں جیل خانوں کا نام ونشان نہ تھا‪ ،‬عمرنے اول مکہ‬
‫معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چارہزار درہم پر‬
‫خریدکر اس کو جیل خانہ بنایا‪ ]84[ ،‬پھر اور اضال ع‬
‫میں بھی جیل خانے بنوائے‪ ،‬جالوطنی کی سزا بھی‬
‫عمرہی کی ایجاد ہے؛چنانچہ ابو محجن ثقفی کو بار بار‬
‫شراب پینے کے جرم میں ایک جزیرہ میں جالوطن کر‬
‫[‪]85‬‬
‫دیا تھا۔‬

‫بیت المال‬
‫خالفت فاروقی سے پہلے مستقل خزانہ کاوجود نہ تھا‬
‫؛بلکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا‪،‬‬
‫ابن سعدؓ کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت‬
‫ابوبکرؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا‬
‫؛لیکن وہ ہمیشہ بند پڑارہتا تھا اوراس میں کچھ داخل‬
‫کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی؛چنانچہ ان کی وفات‬
‫کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم‬
‫نکال۔ عمرنے تقریبا؁ ‪15‬ھ میں ایک مستقبل خزانہ‬
‫کی ضرورت محسوس کی اور مجلِس شورٰی کی‬
‫منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑاخزانہ قائم‬
‫کیا‪ ،‬دار الخالفہ کے عالوہ تمام اضالع اورصوبہ جات‬
‫میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ‬
‫اس محکمہ کے جداگانہ افسر مقرر ہوئے‪ ،‬مثًال اصفہان‬
‫میں خالد بن حارثؓ اورکوفہ میں عبد اللہ بن مسعود‬
‫خزانہ کے افسر تھے‪ ،‬صوبہ جات اوراضالع کے بیت‬
‫المال میں مختلف آمدنیوں کی جو رقم آتی تھی وہ‬
‫وہاں کے ساالنہ مصارف کے بعد اختتام سال پر صدر‬
‫خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں منتقل‬
‫کردی جاتی تھی‪ ،‬صدر بیت المال کی وسعت کا اندازہ‬
‫اس سے ہوسکتا ہے کہ دار الخالفہ کے باشندوں کی جو‬
‫تنخواہیں اوروظائف مقرر تھے‪ ،‬صرف اس کی تعداد‬
‫تین کروڑ درہم تھی‪ ،‬بیت المال کے حساب کتاب کے لیے‬
‫مختلف رجسٹرڈ بنوائے‪ ،‬اس وقت تک کسی مستقل‬
‫سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا‪ ،‬عمرنے؁ ‪16‬ھ میں‬
‫سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔‬

‫تعمیرات‬
‫اسالم کا دائرہ حکومت جس قدر وسیع ہوتا گیا‪ ،‬اسی‬
‫قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا‪ ،‬عمرکے عہد میں‬
‫اس کے لیے کوئی مستقل صیغہ نہ تھا تاہم صوبہ جات‬
‫کے عمال اورحکام کی نگرانی میں تعمیرات کا کام‬
‫نہایت منتظم اوروسیع طورپر جاری تھا‪ ،‬ہر جگہ حکام‬
‫کے بودوباش کے لیے سرکاری عمارتیں تیار ہوئیں‪ ،‬رفاہ‬
‫عام کے لیے سڑک‪ ،‬پل اورمسجدیں تعمیر کی گئیں‪،‬‬
‫فوجی ضروریات کے لحاظ سے قلعے چھاؤنیاں‬
‫اوربارکیں تعمیر ہوئیں‪ ،‬مسافروں کے لیے مہمان خانے‬
‫بنائے گئے‪ ،‬خزانہ کی حفاظت کے لیے بیت المال کی‬
‫عمارتیں تیار ہوئیں‪ ،‬عمرتعمیرات کے باب میں نہایت‬
‫کفایت شعار تھے ؛لیکن بیت المال کی عمارتیں عموما‬
‫تًشاندیب ےک ہفوک ہچنانچ؛ےھت ےتاونب مکحتسمروا رار اورمستحکم بنواتے تھے؛چنانچہ کوفہ کے بی‬
‫المال کو روزبہ نامی ایک مشہور مجوسی معمار نے‬
‫بنایا تھا اوراس میں خسر وان فارس کی عمارت کا‬
‫مسالحۃ استعمال کیا گیا تھا۔ [‪ ]86‬مکہ معظمہ اورمدینہ‬
‫منورہ میں جو خاص تعلق ہے اس کے لحاظ سے‬
‫ضروری تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان میں‬
‫راستہ سہل اور آرام دہ بنایا جائے‪ ،‬عمرنے؁ ‪17‬ھ‬
‫میں اس کی طرف توجہ کی اورمدینہ سے لے کر مکہ‬
‫معظمہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں‪ ،‬سرائیں اورچشمے‬
‫تیار کرائے۔[‪]87‬ترقی زراعت کے لیے تمام ملک میں نہریں‬
‫کھدوائی گئیں‪ ،‬بعض نہریں ایسی تھیں جن کا تعلق‬
‫زراعت سے نہ تھا‪ ،‬مثًال نہر ابی موسٰی جو محض‬
‫بصرہ والوں کے لیے شیریں پانی بہم پہنچانے کے خیال‬
‫سے دجلہ کو کاٹ کر الئی گئی تھی‪ ،‬یہ نہر نو میل‬
‫لمبی تھی‪]88[ ،‬اسی طرح نہر معقل جس کی نسبت‬
‫عربی ضرب المثل ہے اذاجاء نھر اللہ بطل نھرا لمعقل‪،‬‬
‫[‪ ]89‬حضرت سعد بن ابی وقاص گورنر کوفہ نے بھی‬
‫ایک نہر تیار کرائی جو سعد بن عمرو بن حرام کے نام‬
‫سے مشہور ہوئی‪( ،‬ایضًا ‪)383‬اس سلسلہ میں سب سے‬
‫بڑی اور فائدہ رساں وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین‬
‫کے نام سے مشہور ہوئی جس کے ذریعہ سے دریائے نیل‬
‫[‪]90‬‬
‫کو بحیرہ قلزم سے مالدیا گیاتھا۔‬

‫مستعمرات‬
‫مسلمان جب عرب کی گھاٹیوں سے نکل کر شام وایران‬
‫کے چمن زار میں پہنچے تو ان کو یہ ممالک ایسے‬
‫خوش آئندنظر آئے کہ انہوں نے وطن کو خیرباد کہہ کر‬
‫یہیں طرح اقامت ڈال دی اور نہایت کثر ت سے‬
‫نوآبادیاں قائم کیں‪ ،‬عمرکے عہد میں جو شہر آباد ہوئے‬
‫ان کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے۔‬
‫بصرہ‬

‫؁ ‪14‬ھ میں عتبہ بن غزوان نے عمرکے حکم سے‬


‫اس شہر کو بسایا تھا‪ ،‬ابتدا میں صرف آٹھ سو آدمیوں‬
‫نے یہاں سکونت اختیار کی ؛لیکن اس کی آبادی بہت‬
‫جلد ترقی کر گئی‪ ،‬یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان کے‬
‫عہد امارت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام‬
‫فوجی اندراج میں درج تھے اسی ہزار اوران کی آل‬
‫واوالد کی ایک الکھ بیس ہزار تھی‪ ،‬بصرہ اپنی علمی‬
‫خصوصیات کے لحاظ سے مدتوں مسلمانوں کا مایہ ناز‬
‫شہر رہا ہے۔‬

‫کوفہ‬

‫حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے امیر المومنین کے حکم‬


‫سے عراق کے قدیم عرب فرمانروا نعمان بن منذر کے‬
‫پایہ تخت کو آباد کیا اور اس میں چالیس ہزار آدمیوں‬
‫کی آبادی کے الئق مکانات بنوائے گئے‪ ،‬عمرکو اس شہر‬
‫کے بسانے میں غیر معمولی دلچسپی تھی‪ ،‬شہر کے‬
‫نقشہ کے متعلق خود ایک یادداشت لکھ بھیجی‪ ،‬اس‬
‫میں حکم تھا کہ شارع ہائے عام چالیس چالیس ہاتھ‬
‫چوڑی رکھی جائیں‪ ،‬اس سے کم کی مقدار ‪30 ، 30‬‬
‫ہاتھ اور ‪ 20 ، 20‬ہاتھ سے کم نہ ہو‪ ،‬جامع مسجد کی‬
‫عمارت اس قدر وسیع بنائی گئی تھی کہ اس میں‬
‫[‪]91‬‬
‫چالیس ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کرسکتے تھے‪،‬‬
‫مسجد کے سامنے دوسوہاتھ لمبا ایک وسیع سائبان تھا‬
‫جو سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا‪ ،‬یہ شہر‬
‫عمرہی کے عہد میں اس عظمت و شان کو پہنچ چکا‬
‫تھا کہ وہ اس کو راس اسالم فرمایا کرتے تھے‪ ،‬علمی‬
‫حیثیت سے بھی ہمیشہ ممتاز رہا ہے‪ ،‬امام نخعی‪ ،‬حماد‪،‬‬
‫امام ابو حنیفہ اورامام شعبی اسی معدن کے لعل‬
‫وگوہر تھے۔‬
‫فسطاط‬

‫دریائے نیل اور جبل مقطم کے درمیان میں ایک کف‬


‫دست میدان تھا‪ ،‬حضرت عمرو بن العاصؓ فاتح مصر‬
‫نے اثنائے جنگ میں یہاں پڑاؤ کیا‪ ،‬اتفاق سے ایک کبوتر‬
‫نے ان کے خیمہ میں گھونسال بنالیا‪ ،‬عمروبن العاصؓ نے‬
‫کوچ کے وقت قصدا اس خیمہ کو چھوڑدیا کہ اس‬
‫مہمان کو تکلیف نہ ہو مصر کی تسخیر کے بعد انہوں‬
‫نے عمرکے حکم سے اسی میدان میں ایک شہر آبادکیا‪،‬‬
‫چونکہ خیمہ کو عربی میں فسطاط کہتے ہیں‪ ،‬اس لیے‬
‫اس شہر کا نام فسطاط قرارپایا‪]92[ ،‬فسطاط نے بہت‬
‫جلد ترقی کرلی اورپورے مصر کا صدر مقام ہو گیا‪،‬‬
‫چوتھی صدی کا ایک سیاح ان الفاظ میں اس شہر کے‬
‫عروج وکمال کا نقشہ کھینچتا ہے‪" :‬یہ شہر بغداد کا‬
‫ناسخ‪ ،‬مغرب کا خزانہ اوراسالم کا فخر ہے‪ ،‬دنیائے‬
‫اسالم میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں‬
‫علمی مجلسیں نہیں ہوتی ہیں‪ ،‬نہ یہاں سے زیادہ کبھی‬
‫ساحل پر جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔"‬

‫موصل‬

‫یہ پہلےایک گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا‪ ،‬عمرنے اس کو‬


‫ایک عظیم الشان شہر بنادیا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے بنیاد‬
‫رکھی اورایک جامع مسجد تیار کرائی اورچونکہ یہ‬
‫مشرق ومغرب کو آپس میں مالتا ہے اس لیے اس کا نام‬
‫موصل رکھا گیا۔‬

‫جیزہ‬

‫فتح اسکندریہ کے بعد عمروبن العاصؓ اس خیال سے‬


‫کہ رومی دریا کی سمت سے حملہ نہ کرنے پائیں‪،‬‬
‫تھوڑی سی فوج لب ساحل مقرر کردی تھی‪ ،‬ان لوگوں‬
‫کو دریا کا منظر ایسا پسند آگیا کہ وہاں سے ہٹنا پسند‬
‫نہ کیا‪ ،‬عمرنے ان لوگوں کی حفاظت کے لیے؁ ‪21‬ھ‬
‫میں ایک قلعہ تعمیر کرادیا اور اس وقت سے یہاں ایک‬
‫[‪]93‬‬
‫مستقل نوآبادی کی صورت پیدا ہو گئی۔‬

‫فوجی انتظامات‬
‫اسالم جب رومن امپائر سے بھی زیادہ وسیع سلطنت‬
‫کا مالک ہو گیا اور قیصر وکسرٰی کے عظیم الشان‬
‫ممالک اس کا ورثہ بن گئے تو اس کو ایک منتظم‬
‫اورفوجی سسٹم کی ضرورت محسوس ہوئی‪ ،‬؁‬
‫‪15‬ھ میں عمرنے اس کی طرف توجہ کی اور تمام ملک‬
‫کو فوجی بنانا چاہا ؛لیکن ابتدا میں ایسی تعلیم ممکن‬
‫نہ تھی اس لیے پہلے قریش وانصارسے آغاز کیا‬
‫اورمخرمہ بن نوفلؓ ‪ ،‬جبیربن مطعمؓ ‪ ،‬عقیل بن ابی‬
‫طالبؓ کے متعلق یہ خدمت سپرد کی کہ وہ قریش‬
‫وانصار کا ایک رجسٹر تیار کریں جس میں ہرشخص‬
‫کانام ونسب تفصیل سےدرج ہواس ہدایت کےمطابق‬
‫رجسٹرتیار ہوا اور حسب حیثیت تنخواہیں اوران کی‬
‫بیوی بچوں کے گزارے کے لیے وظائف مقرر ہوئے‬
‫مہاجرین اورانصار کی بیویوں کی تنخواہ ‪ 200‬سے‬
‫‪ 400‬درہم تک اوراہل بدر کی اوالد ذکور کی تنخواہ‬
‫دودوہزار درہم ساالنہ مقرر ہوئی‪ ،‬اس موقع پر یہ امر‬
‫خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن لوگوں کی جتنی‬
‫تنخواہیں مقرر ہوئیں اتنی ہی ان کے غالموں کی بھی‬
‫مقرر ہوئیں‪]94[ ،‬اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ فاروق‬
‫اعظم نے مساوات کا کیسا سبق سکھایا تھا۔ کچھ دنوں‬
‫کے بعد اس نظام کو قریش وانصار سے وسعت دے کر‬
‫تمام قبائل عرب میں عام کر دیا‪ ،‬پورے ملک کی مردم‬
‫شماری کی گئی اور ہر ایک عربی نسل کی علی‬
‫قدرمراتب تنخواہ مقرر ہوئی‪ ،‬یہاں تک کہ شیر خوار‬
‫بچوں کے لیے وظائف کا قاعدہ جاری کیا گیا‪]95[ ،‬گویا‬
‫عرب کا ہر ایک بچہ اپنے یوم والدت ہی سے اسالمی‬
‫فوج کا ایک سپاہی تصور کر لیا جاتا تھا‪ ،‬ہر سپاہی کو‬
‫تنخواہ کے عالوہ کھانا اورکپڑا بھی ملتا تھا‪ ،‬تنخواہ‬
‫کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ ہر قبیلہ میں ایک عریف‬
‫ہوتا تھا‪ ،‬اسی طرح ہر دس سپاہی پر ایک افسر ہوتا تھا‬
‫جن کو امرا االعشار کہتے ہیں‪ ،‬تنخواہیں عریف کو دی‬
‫جاتی تھیں وہ امرائے عشار کی معرفت فوج میں‬
‫تقسیم کرتا تھا‪ ،‬ایک ایک عریف کے متعلق ایک ایک‬
‫الکھ درہم کی تقسیم تھی‪ ،‬کوفہ اوربصرہ میں سو‬
‫عریف تھے جن کے ذریعہ سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم‬
‫ہوتی تھی‪ ،‬حسن خدمت اور کار گزاری کے لحاظ سے‬
‫سپاہیوں اورافسروں کی تنخواہوں میں وقتا فوقتا‬
‫اضافہ بھی ہوتا رہتا تھا؛چنانچہ زہرہ‪ ،‬عصمہ‪ ،‬اورضبی‬
‫وغیرہ نے قادسیہ میں غیر معمولی جانبازی کا اظہا‬
‫رکیا تھا‪ ،‬اس صلہ میں ان کی تنخواہیں دو دو ہزار سے‬
‫اڑھائی اڑھائی ہزار کردی گئیں۔ عمرکو فوج کی تربیت‬
‫کا بہت خیال تھا‪ ،‬انہوں نے نہایت تاکیدی احکام جاری‬
‫کیے تھے کہ ممالک مفتوحہ میں کوئی شخص زراعت‬
‫یا تجارت کا شغل اختیار نہ کرنے پائے‪ ،‬کیونکہ اس سے‬
‫ان کے سپاہیانہ جوہر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا‪،‬‬
‫سرد اور گرم ممالک پر حملہ کرتے وقت موسم کا بھی‬
‫کاخاص خیال رکھا جاتا تھا کہ فوج کی صحت‬
‫اورتندرستی کو نقصان نہ پہنچے۔ قواعد کے متعلق‬
‫چارچیزوں کے سیکھنے کی سخت تاکید تھی‪ ،‬تیرنا‪،‬‬
‫گھوڑے دوڑانا‪ ،‬تیرلگانا اورننگے پاؤں چلنا‪ ،‬ہر چار‬
‫مہینے کے بعد سپاہیوں کو وطن جاکر اپنے اہل و عیال‬
‫سے ملنے کے لیے رخصت دی جاتی تھی‪]96[ ،‬جفاکشی‬
‫کے خیال سے حکم تھا کہ اہل فوج رکاب کے سہارے‬
‫سے سوارنہ ہوں‪ ،‬نرم کپڑے نہ پہنیں‪ ،‬دھوپ سے بچیں‬
‫حماموں میں نہ نہائیں۔ موسم بہار میں فوجیں عموما‬
‫سرسبز وشاداب مقامات میں بھیج دی جاتی تھیں‪،‬‬
‫بارکوں اورچھاؤنیوں کے بنانے میں آب و ہوا کی خوبی‬
‫کا لحاظ رکھا جاتا تھا‪ ،‬کوچ کی حالت میں حکم تھا کہ‬
‫فوج جمعہ کے دن مقام کرے اورایک شب وروز قیام‬
‫رکھے کہ لوگ دم لیں‪ ،‬غرض عمرنے تیرہ سوبرس‬
‫پیشتر فوجی تربیت کے لیے اعلٰی اصول وضع کر دیے‬
‫تھے کہ آج بھی اصولی حیثیت سے اس پر کچھ اضافہ‬
‫نہیں کیا جاسکتا۔ حسب ذیل مقامات کو فوجی مرکز‬
‫قراردیا تھا‪ ،‬مدینہ‪ ،‬کوفہ‪ ،‬بصرہ‪ ،‬موصل‪ ،‬فسطاط‪،‬‬
‫دمشق‪ ،‬حمص‪ ،‬اردن‪ ،‬فلسطین‪ ،‬ان مقام کے عالوہ تمام‬
‫اضالع میں فوجی بارکیں اور چھاؤنیاں تھیں‪ ،‬جہاں‬
‫تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔ فوج میں‬
‫حسب ذیل عہدے دار الزمی طورپر رہتے تھے‪،‬‬
‫خزانچی‪ ،‬محاسب‪ ،‬مترجم‪ ،‬طبیب‪ ،‬جراح‪ ،‬اورجاسوس‬
‫جو غنیم کی نقل وحرکت کی خبریں بہم پہنچایا کرتے‬
‫تھے‪ ،‬یہ خدمت زیادہ تر ذمیوں سے لی جاتی تھی‬
‫چنانچہ قیساریہ کے محاصرہ میں یوسف نامی یہودی‬
‫نے جاسوسی کی خدمت انجام دی تھی‪]97[ ،‬اسی طرح‬
‫عراق میں بعض وفادار مجوسی اپنی خوشی سے اس‬
‫خدمت کو انجام دیتے تھے‪ ،‬تاریخ طبری میں ہے‪:‬‬
‫وکانت تکون لعمرالعیون فی کل جیش "ہر فوج میں‬
‫عمرکے جاسوس رہتے تھے۔" آالت جنگ میں تیغ وسنان‬
‫کے عالوہ قلعہ شکنی کے لیے منجنیق اور دبابہ بھی‬
‫ساتھ رہتا تھا چنانچہ دمشق کے محاصروں میں‬
‫منجنیقوں کا استعمال ہواتھا۔ [‪ ]98‬فوج حسب ذیل‬
‫شعبوں میں منقسم تھی‪ ،‬مقدمہ‪ ،‬قلب‪ ،‬میمنہ‪ ،‬میسرہ‪،‬‬
‫ساقہ‪ ،‬طلیعہ‪ ،‬سفرمینا‪ ،‬روایعنی عقبی گارد‪ ،‬شترسوار‪،‬‬
‫سوار‪ ،‬پیادہ‪ ،‬تیرانداز گھوڑوں کی پرورش وپرداخت کا‬
‫بھی نہایت اہتمام تھا‪ ،‬ہر مرکز میں چارہزار گھوڑے ہر‬
‫وقت سازوسامان سے لیس رہتے تھے‪ ،‬موسم بہار میں‬
‫تمام گھوڑے سرسبزو شاداب مقامات پر بھیج دیے‬
‫جاتے تھے‪ ،‬خود مدینہ کے قریب ایک چراگاہ تیار‬
‫کرائی‪ ،‬اوراپنے ایک غالم کو اس کی حفاظت‬
‫اورنگرانی کے لیے مقرر کیا تھا‪ ،‬گھوڑوں کی رانوں پر‬
‫داغ سے"جیش فی سبیل اللہ"نقش کیا جاتا تھا۔ عرب‬
‫کی تلوار اپنی فتوحات میں کبھی غیروں کی ممنون‬
‫احسان نہیں ہوئی ؛لیکن حریف اقوام کو خود ان ہی‬
‫کے ہم قوموں سے لڑانا فن جنگ کا ایک بڑا اصول ہے‪،‬‬
‫عمرنے اس کو نہایت خوبی سے برتا‪ ،‬صدہاعجمی‪،‬‬
‫یونانی اوررومی بہادروں نے اسالمی فوج میں داخل‬
‫ہوکر مسلمانوں کے دوش بدوش نہایت وفاداری کے‬
‫ساتھ خود اپنی قوموں سے جنگ کی‪ ،‬قادسیہ کے‬
‫معرکہ میں دوران میں جنگ ہی میں ایرانیوں کی‬
‫چارہزارافواج حلقہ اسالم میں آگئی اور سعد بن ابی‬
‫وقاصؓ نے ان کو اسالمی فوج میں شامل کر لیا اور ان‬
‫کی تنخواہیں مقرر کر دیں‪ ،‬یرموک کے معرکہ میں‬
‫رومیوں کے لشکر کا مشہور سپاہی عین حالت جنگ‬
‫میں مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کے دوش بدوش لڑکر‬
‫شہید ہوا۔‬
‫مذہبی خدمات‬
‫مذہبی خدمات کے سلسلہ میں سب سے بڑا کام اشاعت‬
‫اسالم ہے عمرکو اس میں بہت انہماک تھا ؛لیکن تلوار‬
‫کے زور سے نہیں؛بلکہ اخالق کی قوت سے انہوں نے‬
‫اپنے غالم کو اسالم کی دعوت دی‪ ،‬اس نے باوجود‬
‫ترغیب وہدایت کے انکار کیا تو فرمایا الاکراہ فی الدین‬
‫[‪]99‬یعنی مذہب میں جبر نہیں‪ ،‬حکام کو ہدایت تھی کہ‬
‫جنگ سے پہلے لوگوں کے سامنے محاسن اسالم پیش‬
‫کرکے ان کو شریعت عزا کی دعوت دی جائے‪ ،‬اس کے‬
‫عالوہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنی تربیت اور‬
‫ارشاد سے اسالمی اخالق کا مجسم نمونہ بنادیا تھا‪ ،‬وہ‬
‫جس طرف گزرجاتے تھےلوگ ان کے اخالقی تفوق کو‬
‫دیکھ کر خود بخود اسالم کے گرویدہ ہوجاتے تھے‪،‬‬
‫رومی سفیر اسالمی کیمپ میں آیا تو ساالر فوج کی‬
‫سادگی اوربے تکلفی دیکھ کر خودبخود اس کا دل‬
‫اسالم کی طرف کھینچ گیا اور وہ مسلمان ہو گیا‪ ،‬مصر‬
‫کا ایک رئیس مسلمانوں کے حاالت ہی سن کر اسالم کا‬
‫گرویدہ ہو گیا اور دوہزار کی جمعیت کے ساتھ مسلمان‬
‫ہو گیا۔ [‪ ]100‬وہ عربی قبائل جو عراق وشام میں آباد‬
‫ہو گئے تھے‪ ،‬نسبتا آسانی کے ساتھ اسالم کی جانب‬
‫مائل کیے جاسکتے تھے‪ ،‬عمرکو ان لوگوں میں تبلیغ کا‬
‫خاص خیال تھا چنانچہ اکثر قبائل معمولی کوشش‬
‫سے حلقہ بگوش اسالم ہو گئے‪ ،‬مسلمانوں کے فتوحات‬
‫کی بوالعجبی نے بھی بہت سے لوگوں کو اسالم کی‬
‫صداقت کا یقین دالدیا؛چنانچہ معرکہ قادسیہ کے بعد‬
‫دیلیم کی چارہزار عجمی فوج نے خوشی سے اسالم‬
‫قبول کر لیا‪ ،]101[ ،‬اسی طرح فتح جلوال کے بعد بہت‬
‫سے رؤسا برضاورغبت مسلمان ہو گئے جن میں بعض‬
‫کے نام یہ ہیں‪ :‬جمیل بن بصہیری‪ ،‬بسطام بن نرسی‪،‬‬
‫رفیل‪ ،‬فیروزان‪( ،‬ایضا فتح جلوال) عراق کی طرح شام‬
‫ومصر میں بھی کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے؛چنانچہ‬
‫شہر فسطاط میں ایک بڑا محلہ نو مسلموں کا تھا‬
‫غرض عمرکے عہد میں نہایت کثرت سے اسالم پھیال‪،‬‬
‫اس سے بھی بڑ ھ کر یہ کہ آپ دین حنیف کی آئندہ‬
‫کے لیے راستہ صاف کرگئے۔ اشاعت اسالم کے بعد سب‬
‫سے بڑا کام خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین‬
‫اورشعار اسالمی کی ترویج تھی‪ ،‬اس کے متعلق عمرکے‬
‫مساعی کا سلسلہ حضرت ابوبکرؓ ہی کے عہد سے‬
‫شروع ہوتا ہے‪ ،‬قرآن مجید جو اساس اسالم ہے عمرہی‬
‫کے اصرار سے کتابی صورت میں عہد صدیقی میں‬
‫مرتب کیا گیا تھا‪ ،‬اس کے بعد انہوں نے اپنے عہد میں‬
‫اس کے درس وتدریس کا رواج دیا‪ ،‬معلمین اورحفاظ‬
‫اورمؤذنوں کی تنخواہیں مقررکیں‪]102[ ،‬حضرت عبادہ‬
‫بن الصامتؓ ‪ ،‬حضرت معاذبن جبل اورحضرت ابوالدردا‬
‫کو جو حفاظ قرآن اورصحابۂ کبار میں سے تھے‪ ،‬قرآن‬
‫مجید کی تعلیم دینے کے لیے ملک شام میں روانہ کیا‪،‬‬
‫[‪]103‬قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے‬
‫کے لیے تاکیدی احکام روانہ کیے ابن االنباری کی روایت‬
‫کے مطابق ایک حکم نامہ کے الفاظ یہ ہیں تعلموا‬
‫اعراب القران کما تعلمون حفظہ‪ ،‬غرض عمرکی مساعی‬
‫جمیلہ سے قرآن کی تعلیم ایسی عام ہو گئی تھی کہ‬
‫ناظرہ خوانوں کا توشمارہی نہیں‪ ،‬حافظوں کی تعداد‬
‫ہزاروں تک پہنچ گئی تھی‪ ،‬حضرت ابو موسٰی اشعریؓ ‬
‫نے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ صرف میری‬
‫فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔ [‪ ]104‬اصول اسالم میں‬
‫قرآن کے بعد حدیث کا رتبہ ہے‪ ،‬عمرنے اس کے متعلق‬
‫جو خدمات انجام دیں ان کی تفصیل یہ ہے‪ :‬احادیث‬
‫نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرا کے حکام کے‬
‫پاس روانہ کیا کہ عام طورپر اس کی اشاعت ہو‪،‬‬
‫مشاہیرصحابہ کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم‬
‫کے لیے بھیجا؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو‬
‫ایک جماعت کے ساتھ کوفہ روانہ کیا‪ ،‬عبد اللہ بن‬
‫مغفل‪ ،‬عمران بن حسین اور معقل بن یسارؓ کو بصرہ‬
‫بھیجا‪ ،‬حضرت عبادہ بن الصامتؓ اورحضرت ابوالدرداؓ ‬
‫کو شام روانہ کیا‪( ،‬ازالۃ الخلفاء ج ‪)6 : 2‬اگرچہ‬
‫محدثین کے نزدیک تمام صحابہ عدول ہیں؛لیکن‬
‫عمراس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص‬
‫بشری ہیں‪ ،‬ان سے کوئی زمانہ مستثنٰی نہیں ہوسکتا ؛‬
‫چنانچہ انہوں نے روایت قبول کرنے میں نہایت چھان‬
‫بین اوراحتیاط سے کام لیا‪ ،‬ایک دفعہ آپ کسی کام‬
‫میں مشغول تھے‪ ،‬حضرت ابوموسٰی اشعریؓ آئے اور‬
‫تین دفعہ سالم کرکے واپس چلے گئے‪ ،‬عمرکام سے فارغ‬
‫ہوئے تو ابو موسٰی ؓ کو بال کر دریافت کیا کہ تم واپس‬
‫کیوں چلے گئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین دفعہ اجازت‬
‫مانگو اگر اس پر بھی نہ ملے تو واپس چلے جاؤ‪ ،‬عمرنے‬
‫فرمایا‪ ،‬اس روایت کا ثبوت دوورنہ میں تم کو سزا دو‬
‫گا‪ ]105[ ،‬حضرت ابوموسٰی ؓ نے حضرت سعیدؓ کو‬
‫شہادت میں پیش کیا‪ ،‬اسی طرح سقط یعنی کسی‬
‫عورت کا حمل ضائع کردینے کے مسئلہ میں مغیرہؓ نے‬
‫حدیث روایت کی تو عمرنے شہادت طلب کی جب‬
‫محمد بن مسلمہؓ نے تصدیق کی تو انہوں نے تسلیم‬
‫کیا‪]106[ ،‬حضرت عباسؓ کے مقدمہ میں ایک حدیث‬
‫پیش کی گئی تو عمرنے تائید ثبوت طلب کیا‪ ،‬جب‬
‫لوگوں نے تصدیق کی تو فرمایا مجھ کو تم سے‬
‫[‪]107‬‬
‫بدگمانی نہ تھی ؛بلکہ اپنا اطمینان مقصود تھا۔‬
‫عمرلوگوں کو کثرت روایت سے بھی نہایت سختی کے‬
‫ساتھ منع فرماتے تھے؛چنانچہ جب قرظہ بن کعب کو‬
‫عراق کی طرف روانہ کیا تو خود دور تک ساتھ گئے‬
‫اور سمجھا یا کہ دیکھو تم ایسے ملک میں جاتے ہو‬
‫جہاں قرآن کی آواز گونچ رہی ہے‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ ان کی‬
‫توجہ کو قرآن سے ہٹاکر احادیث کی طرف مبذول‬
‫کردو‪ ]108[ ،‬حضرت ابوہریرہؓ بڑے حافظ حدیث تھے‬
‫اس لیے وہ روایتیں بھی کثرت سے بیان کرتے تھے‪،‬‬
‫ایک دفعہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ عمرکے عہد‬
‫میں اس طرح روایت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر‬
‫اس زمانہ میں ایسا کرتا تو درے کھاتا‪ ]109[ ،‬حدیث کے‬
‫بعد فقہ کا درجہ ہے‪ ،‬عمرخود بالمشافہہ اپنے خطبوں‬
‫اورتقریروں میں مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور دور‬
‫دراز ممالک کے حکام فقہی مسائل لکھ کر بھیجتے تھے‪،‬‬
‫مختلف فیہ مسائل کو صحابہؓ کے مجمع میں پیش کرا‬
‫کے طے کراتے تھے‪ ،‬اضالع میں عمال اورافسروں کی‬
‫تقرری میں عالم اورفقیہ ہونے کا خاص خیال رکھا‬
‫جاتاتھا‪ ،‬تمام ممالک محروسہ میں فقہا مقرر کیے تھے‬
‫جو احکام مذہبی کی تعلیم دیتے تھے اور حسب بیان‬
‫ابن جوزی عمرنے فقہا کی بیش قرار تنخواہیں مقرر‬
‫کی تھیں‪ ،‬اس سے پہلے فقہا اورمعلمین کو تنخواہ‬
‫دینے کا رواج نہ تھا‪ ،‬غرض یہ کہ فاروق اعظمؓ کے عہد‬
‫میں مذہبی تعلیم کا ایک مرتب اورمنظم سلسلہ قائم‬
‫ہو گیا تھا جس کی تفصیل کے لیے اس اجمال میں‬
‫گنجائش نہیں۔ عملی انتظامات کی طرف بھی حضرت‬
‫عمؓر نے بڑی توجہ کی‪ ،‬تمام ممالک محروسہ میں کثرت‬
‫سے مسجدیں تعمیر کرائیں‪ ،‬امام اورمؤذن مقرر کیے‪،‬‬
‫حرم محترم کی عمارت ناکافی تھی‪ ،‬؁ ‪17‬ھ میں‬
‫اس کو وسیع کیا‪ ،‬غالف کعبہ کے لیے نطع کی بجائے‬
‫قباطی کا رواج دیا جو نہایت عمدہ کپڑا ہوتا ہے‬
‫اورمصر میں بنایاجاتا ہے‪ ،‬مسجد نبوی صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کو بھی نہایت وسعت دی‪ ،‬پہلے اس کا طول‬
‫سوگز تھا انہوں نے بڑھا کر‪ 140‬گزکردیا‪ ،‬عرض میں‬
‫بھی ‪ 20‬گز کا اضافہ ہوا‪ ،‬مسجد کے ساتھ ایک گوشہ‬
‫چبوترا بنوادیا جس کو بات چیت کرنا یا شعر پڑھنا ہو‬
‫تو یہاں چالآئے‪ ،‬مسجدوں میں روشنی اورفرش کا‬
‫انتظام بھی عمرکے عہد سے ہی ہوا‪ ،‬حجاج کی راحت‬
‫وآسائش کا بھی پورا انتظام تھا‪ ،‬ہر سال خود حج کے‬
‫لیے جاتے تھے اور خبر گیری کی خدمت انجام دیتے‬
‫[‪]110‬‬
‫تھے۔‬
‫متفرق انتظامات‬
‫ملکی‪ ،‬فوجی اورمذہبی انتظامات کا ایک اجمالی خاکہ‬
‫درج کرنے کے بعد اب ہم ان متفرق انتظامات کا تذکرہ‬
‫کرتے ہیں جو کسی خاص عنوان کے تحت نہیں آتے۔‬
‫؁ ‪18‬ھ میں عرب میں قحط پڑا‪ ،‬عمرنے اس‬
‫مصیبت کو کم کرنے میں جو سرگرمی ظاہر کی وہ‬
‫ہمیشہ یادگار زمانہ رہے گی‪ ،‬بیت المال کا تمام نقد‬
‫وجنس صرف کر دیا‪ ،‬تمام صوبوں سے غلہ منگوایا اور‬
‫انتظام کے ساتھ قحط زدوں میں تقسیم‬
‫کیا[‪]111‬الوارث بچوں کو دودھ پالنے اورپرورش‬
‫پرداخت کا انتظام کیا‪ ]112[ ،‬غرباء ومساکین کے روز‬
‫ینے مقرر کیے اور منبر پر اس کا اعالن فرمایا‪ :‬انی‬
‫فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شہر مادی حنطۃ وقسطی‬
‫خل۔ میں نے ہر مسلمان کے لیے فی ماہ دو مد گیہوں‬
‫اوردوقسط سرکہ مقرر کیا۔" اس پر ایک شخص نے کہا‬
‫کہ کیا غالم کے لیے بھی؟ فرمایاہاں غالم کے لیے بھی‪،‬‬
‫(فتوح البلدان ذکر العطاءفی خالفۃ عمرؓ )لیکن اس‬
‫سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عمراس نکتہ سے بے‬
‫خبر تھے کہ اس طرح مفت خوری سے لوگ کاہل‬
‫ہوجائیں گے‪ ،‬درحقیقت انہوں نے ان ہی لوگوں کے‬
‫روزینے مقرر کیے تھے جو یا تو فوجی خدمت کے الئق‬
‫تھے یا ضعف کے باعث کسب معاش سے معذور تھے‪،‬‬
‫ملکی حاالت سے واقفیت کے لیے ملک کے ہر حصے میں‬
‫پرچہ نویس اورواقعہ نگار مقرر کیے تھے جن کے ذریعہ‬
‫سے ہر جزئی واقع کی اطالع ہوجاتی تھی‪ ،‬موّر خ‬
‫طبری لکھتے ہیں‪ :‬وکان عمر الیخفی علیہ شی فی علمہ‬
‫کتب الیہ من العراق یخرج من خرج ومن الشام بجائزۃ‬
‫من اجیزبھا "عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی‪،‬‬
‫عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اورشام میں جن‬
‫لوگوں کو انعام دیے گئے سب ہی ان کو لکھا جاتا تھا۔"‬
‫محکمہ خبر رسانی کی سرگرمی کا اس سے اندازہ‬
‫ہوسکتا ہے کہ نعمان بن عدی حاکم میسان نے عیش‬
‫وعشرت میں مبتال ہوکر اپنی بی بی کو ایک خط لکھا‬
‫جس میں یہ شعر بھی تھا۔ لعل امیر المومنین یسوءہ‬
‫تنادمنابالجوسق المتھدم غالبا امیر المومنین برامانیں‬
‫گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندان صحبت رکھتے ہیں‬
‫اس محکمہ کو میاں بیوی کے راز ونیاز کی بھی خبر ہو‬
‫گئی‪ ،‬عمرنے نعمان کو معزول کرکے لکھا کہ"ہاں مجھ‬
‫[‪]113‬‬
‫کو تمہاری یہ حرکت ناگوار ہوئی"‬

‫عدل وانصاف‬
‫خالفت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل‬
‫وانصاف ہے‪ ،‬ان کے عہد میں کبھی سرموبھی انصاف‬
‫سے تجاوز نہیں ہوا‪ ،‬شاہ وگدا‪ ،‬شریف ورزیل‪،‬‬
‫عزیزوبیگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا‪ ،‬ایک دفعہ‬
‫عمروبن العاصؓ کے بیٹے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے‬
‫وجہ مارا‪ ،‬حضرت عمؓر نے اسی مضروب سے ان کے‬
‫کوڑے لگوائے‪ ،‬عمروبن العاصؓ بھی موجود تھے‪ ،‬دونوں‬
‫باپ بیٹے خاموشی سے عبرت کا تماشہ دیکھتے رہے‬
‫اورکچھ نہ کہا[‪ ]114‬جبلہ بن ایہم رئیس شام نے کعبہ‬
‫کے طواف میں ایک شخص کو طمانچہ مارا‪ ،‬اس نے‬
‫بھی برابر کا جواب دیا‪ ،‬جبلہ نے حضرت عمؓر سے‬
‫شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جیسا کیا ویسا‬
‫پایا جبلہ کو اس جواب سے حیرت ہوئی اور مرتد ہوکر‬
‫قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ عمرنے لوگوں کی تنخواہیں مقرر‬
‫کیں تو اسامہ بن زیدؓ کی تنخواہ جو آنحضرت صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کے محبوب غالم حضرت زیدؓ کے فرزند‬
‫تھے‪ ،‬اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقررکی‪ ،‬عبد اللہ نے‬
‫عذر کیا کہ واللہ اسامہؓ کسی بات میں ہم سے فائق‬
‫نہیں ہیں‪ ،‬حضرت عمؓر نے فرمایا کہ ہاں! لیکن رسول‬
‫اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہؓ کو تجھ سے زیادہ‬
‫عزیز رکھتے تھے۔ [‪ ]115‬فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ‬
‫صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان‬
‫عدل مسلمان‪ ،‬یہودی‪ ،‬عیسائی سب کے لیے یکساں تھا‪،‬‬
‫قبیلۂ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک‬
‫عیسائی کو مارڈاال‪ ،‬عمرنے لکھا کہ قاتل مقتول کے‬
‫ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول‬
‫کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس‬
‫نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔ عمرنے‬
‫ایک ضعیف شخص کو گداگری کرتے دیکھا‪،‬‬
‫پوچھا"توبھیک مانگتا ہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ‬
‫لگایا گیا ہے‪ ،‬حاالنکہ میں بالکل مفلس ہوں"‪ ،‬عمراسے‬
‫اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقددے کر مہتمم بیت المال‬
‫کو لکھا کہ اس قسم کے ذمی مساکین کے لیے بھی‬
‫وظیفہ مقرر کر دیا جائے‪ ،‬واللہ! یہ انصاف نہیں ہے کہ‬
‫ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اوربڑھاپے میں ان کی‬
‫خبر گیری نہ کریں"۔ [‪ ]116‬عربسوس کے عیسائیوں کو‬
‫ان کی متواتر بغاوتوں کے باعث جالوطن کیا گیا‪ ،‬مگر‬
‫اس طرح کہ ان کی امالک کی دوچند قیمت دی گئی‪،‬‬
‫[‪ ]117‬نجران کے عیسائیوں کو جالوطن کیا گیا تو ان‬
‫[‪]118‬‬
‫کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا گیا۔‬

‫علم وفضل‬
‫اسالم سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج‬
‫نہ تھا؛چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی‬
‫ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے‪ ،‬عمرنے اسی زمانہ میں‬
‫لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا‪ ]119[ ،‬عمرکے فرامین‬
‫خطوط توقیعات اورخطبے اب تک کتابوں میں محفوظ‬
‫ہیں‪ ،‬ان سے ان کی قوت تحریر‪ ،‬برجستگی کالم اور‬
‫زورتحریر کا اندازہ ہوسکتا ہے‪ ،‬بیعت خالفت کے بعد‬
‫جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں‪ :‬اللہم انی‬
‫غلیظ فلینی‪ ،‬اللہم انی ضعیف فقونی االوان العرب‬
‫جمل انف وقد اعطیت خطامہ االوانی حاملہ علی‬
‫المحجۃ "اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر‪،‬‬
‫میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے‪ ،‬ہاں عرب والے‬
‫سرکش اونٹ ہیں جن کی مہارمیرے ہاتھ میں دیدی‬
‫گئی ہے ؛لیکن میں ان کو راستہ پر چال کر چھوڑوں گا۔"‬
‫قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہوسکتا ہے جو‬
‫حضرت ابوموسٰی اشعریؓ کے نام لکھا گیا تھا‪ ،‬اس کے‬
‫چند فقرے یہ ہیں‪ :‬اما بعد فان القوۃ فی العمل ان ال‬
‫توخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت‬
‫علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم "اما‬
‫بعد!مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ‬
‫اٹھا رکھو‪ ،‬ایساکروگے تو تمہارے بہت سے کام جمع‬
‫ہوجائیں گے‪ ،‬پھر پریشان ہوجاؤگے کہ کس کو کریں‬
‫اورکس کو چھوڑیں‪ ،‬اس طرح کچھ بھی نہ ہو سکے‬
‫گا۔" شاعری کا خاص ذوق تھا اورشعرائے عرب کے کالم‬
‫پر تنقیدی نگاہ رکھتے تھے‪ ،‬مشاہیر میں سے زہیر کے‬
‫کالم کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے‪ ،‬کبھی کبھی‬
‫خود بھی شعر کہتے تھے‪ ( ،‬ابوعلی الحسن بن رشیق نے‬
‫کتاب العمدہ میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں) لیکن اس‬
‫کی طرف زیادہ شغل نہ تھا۔ فصاحت وبالغت کا یہ‬
‫حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے‬
‫جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں‪ ،‬علم االنساب میں‬
‫بھی یدطولیٰ حاصل تھا‪ ،‬یہ علم کئی پشتوں سے ان‬
‫کے خاندان میں چالآتا تھا‪ ،‬ان کے والد خطاب مشہور‬
‫نساب تھے‪ ،‬جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے‬
‫متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے‬
‫تھے‪]120[ ،‬معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان‬
‫بھی انہوں نے سیکھ لی تھی‪ ،‬مسند دارمی میں ہے کہ‬
‫ایک دفعہ حضرت عمؓر توریت کا نسخہ آنحضرت صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور پڑھنا شروع کیا‪ ،‬وہ‬
‫پڑھتے جاتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا‬
‫چہرہ متغیر ہوتا جاتا ہے‪ ]121[ ،‬اس سے قیاس ہوتا ہے‬
‫کہ عبرانی زبان سے اس قدر واقف ہو گئے تھے کہ‬
‫توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔ عمرفطرۃ ذہین‪ ،‬طباع‬
‫اورصائب الرائے تھے‪ ،‬اصابت رائے کی اس سے زیادہ‬
‫اورکیا دلیل ہوسکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں‬
‫مذہبی احکام بن گئیں‪ ،‬اذان کا طریقہ ان کی رائے کے‬
‫موافق ہوا‪ ،‬اسیران بدر کے متعلق جو رائے انہوں نے دی‬
‫وحی الہی نے اسی کی تائید کی‪ ،‬شراب کی حرمت‪،‬‬
‫ازواج مطہراتؓ کے پردہ اورمقام ابراہیم کو مصلٰے‬
‫بنانے کے متعلق عمرنے نزول وحی سے پہلے رسول‬
‫مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو رائے دی تھی۔ [‪ ]122‬آپ‬
‫کو بارگاہ نبوت میں جو خاص تقرب حاصل تھا‪ ،‬اس‬
‫کے لحاظ سے قدرۃ ان کو شرعی احکام اورعقائد سے‬
‫واقف ہونے کا زیادہ موقع مال‪ ،‬طبیعت نکتہ رس واقع‬
‫ہوئی تھی اس لیے آئندہ نسلوں کے لیے اجتہاد‬
‫اوراستنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کردی‪ ،‬وہ‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی‬
‫شرعی مسائل پر غور و فکر کیا کرتے تھے اور جب‬
‫کوئی مسئلہ خالف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے‪ ،‬سفر میں‬
‫قصر کا حکم دے دیا گیاتھا؛لیکن جب راستے مامون ہو‬
‫گئے تو عمرنے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم‬
‫کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا‪:‬یہ خدا کا انعام ہے۔"مسائل دریافت کرنے میں‬
‫مطلقًا پس وپیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ‬
‫ہوجاتی ایک ہی مسئلہ کو باربار رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے‪ ،‬کاللہ کے مسئلہ کو‬
‫جو نہایت دقیق اورمختلف فیہ مسئلہ ہے‪ ،‬باربار‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا‪ ،‬آخر‬
‫میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ ،‬سورۂ نساء کی‬
‫آخری آیت تمہارے لیے کافی ہے۔ [‪ ]123‬نہایت‬
‫غوروتوجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تالوت کرتے تھے‪ ،‬ہر‬
‫ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے‪ ،‬ایک‬
‫دن صحابہؓ کے مجمع میں اس آیت کے معنی پوچھے‬
‫َا َی َو ُّد َا َح ُد ُکْم َا ْن َتُکْو َن َلٗہ َج َّن ٌۃ لوگوں نے کہا واللہ اعلم‪،‬‬
‫حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اس میں ایک کام‬
‫کرنے والے کی تمثیل ہے‪ ،‬چونکہ جواب ناتمام تھا‪،‬‬
‫عمرنے اس پرقناعت نہ کی ؛لیکن عبد اللہ بن عباسؓ ‬
‫اس سےزیادہ نہ بتاسکےعمرنےفرمایا‪ :‬یہ اس آدمی کی‬
‫مثال ہےجس کو خدا نےدولت ونعمت دی کہ خدا کی‬
‫بندگی بجا الے مگراس نے نافرمانی کی‪ ،‬تو اس‬
‫کےاچھے اعمال بھی برباد کردیے جائیں گے۔ [‪ ]124‬قرآن‬
‫مجید سے استدالل میں بڑی مہارت رکھتے تھے‪ ،‬عراق‬
‫کی فتح کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ ممالک مفتوحہ‬
‫مجاہدین کی ملکیت اور وہاں کے باشندے ان کے غالم‬
‫ہیں عمرکا خیال تھا کہ مقام مفتوحہ کسی شخص یا‬
‫ایک بہت سے مخصوص اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں‬
‫؛بلکہ وقف عام ہیں اوراستدالل میں یہ آیت پیش کی‪،‬‬
‫َو َم ا َا َف اء اللُہ علی َر ُس ْو ِلٖہ ِم ْن َا ْھ ِل اْلُق ْر ٰی باآلخر سب نے‬
‫اس کی تائید کی اور اسی پر فیصلہ ہوا‪ ،‬عمرکی‬
‫مرفوع روایات کی تعداد سترسے زیادہ نہیں ہے؛لیکن‬
‫اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اس قدر‬
‫احادیث سے واقف تھے‪ ،‬درحقیقت انہوں نے اپنے عہد‬
‫خالفت میں جس قدر احکام صادر فرمائے ہیں وہ سب‬
‫احادیث ہی کے ماخوذ ہیں‪ ،‬یہ دوسری بات ہے کہ اس‬
‫میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا ہے‬
‫اور نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کو منسوب کرنے‬
‫میں نہایت محتاط تھے جب تک کے ہر لفظ پر یقین نہ‬
‫ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی‬
‫طرح بیان فرمائی ہے اس وقت تک ہرگز ہر گز زبان سے‬
‫قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ نہیں نکالتے‬
‫تھے‪ ،‬یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی بہت کم احادیث‬
‫روایت کرتے تھے اور دوسروں کو بھی کثرت روایت‬
‫سے روکتے تھے‪ ،‬عالمہ ذہبی عمرکے حاالت میں لکھتے‬
‫ہیں‪ :‬وقد کان عمر من دجلہ یخطٔی الصاحب علی‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرہم ان یقلوالروایۃ‬
‫من نبیہم [‪ ]125‬اورعمراس ڈرسے کہ صحابہ آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں غلطی نہ‬
‫کریں ان کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم سے کم روایت کریں محدث کا سب سے بڑا‬
‫فرض روایات کی تحقیق وتنقید اورجرح وتعدیل ہے‪،‬‬
‫اگرچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنے عہد میں‬
‫روایت کے قبول کرنے میں ثبوت اورشہادت کا لحاظ‬
‫رکھا؛لیکن عمرکو اس میں بہت زیادہ غلو تھا اور جب‬
‫تک روایت و درایت دونوں حیثیت سے اس کا ثبوت نہ‬
‫پہنچتا‪ ،‬قبول نہ کرتے‪ ،‬اس کی مثالیں تفصیل کےساتھ‬
‫مذہبی خدمات کے سلسلہ میں مذکور ہوچکی ہیں‪ ،‬اس‬
‫لیے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ فقہ کا‬
‫سلسلہ بھی درحقیقت عمرکا ہی ساختہ پرداختہ ہے ان‬
‫سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کیے‬
‫جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے‪ ،‬استنباط‬
‫احکام اورتفریع مسائل کے لیے بھی انہوں نے ایک‬
‫شاہراہ قائم کردی تھی‪ ،‬مختلف فیہ مسائل کے طے‬
‫کرنے کے لیے اجماع صحابہ جس کثرت سے عمرکے عہد‬
‫میں ہوا پھر نہیں ہوا۔‬

‫اخالق‬
‫حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا‬
‫حقیقی مقصد دنیا کو برگزیدہ اورپسندیدہ اخالق کی‬
‫تعلیم دینا تھا‪ ،‬جیسا کہ خود ارشاد فرمایا بعثت ال تم‬
‫مکارم االخالق‪ ،‬صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‬
‫کو براہ راست اس سرچشمہ اخالق سے سیراب ہونے کا‬
‫موقع مالتھا اس لیے اس مقدس جماعت کا ہر فرد‬
‫اسالمی اخالق کا مجسم نمونہ تھا؛لیکن عمرکو بارگاہ‬
‫نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب حاصل تھا‬
‫اس کے لحاظ سے ان کو زیادہ حصہ مال‪ ،‬وہ محاسن‬
‫ومحامد کی مجسم تصویر تھے ان کے آئینہ اخالق میں‬
‫خلوص‪ ،‬انقطاع الی اللہ‪ ،‬لذایذدنیا سے اجتناب حفظ‬
‫لسان حق پرستی‪ ،‬راست گوئی‪ ،‬تواضع اورسادگی کا‬
‫عکس سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے‪ ،‬یہ اوصاف آپ‬
‫میں ایسے راسخ تھے کہ جو شخص آپ کی صحبت‬
‫میں رہتا تھا‪ ،‬وہ بھی کم وبیش متاثر ہوکر اسی قالب‬
‫میں ڈھل جاتا تھا‪ ،‬مسوربن مخرمہؓ کا بیان ہے کہ ہم‬
‫اس غرض سے عمرکے ساتھ رہتے تھے کہ ان سے پرہیز‬
‫گاری وتقوٰی سیکھیں‪ ،‬عہد فاروقی کے افسروں‬
‫اورعہدیداروں کے حاالت کا بغور مطالعہ کرو‪ ،‬تم کو‬
‫معلوم ہوگا کہ وہ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے‬
‫تھے۔‬

‫خوف خدا‬
‫اخالق کی پختگی اور استواری کا اصلی سرچشمہ‬
‫خشئیت الہی اورخداوند جل وعال جبروت وعظمت کا‬
‫غیر متزلزل تیقن ہے‪ ،‬جو دل خشوع وخضوع اورخوف‬
‫خداوندی سے خالی ہے اس کی حقیقت ایک مضغۂ‬
‫گوشت سے زیادہ نہیں‪ ،‬عمرخشوع وخضوع کے ساتھ‬
‫رات رات بھر نمازیں پڑھتے‪ ،‬صبح ہونے کے قریب‬
‫گھروالوں کو جگاتے اوریہ آیت پڑھتے‪َ:‬و ْأ ُم ْر َأ ْه َلَك‬
‫ِب الَّص اَل ِة َو اْص َط ِب ْر َع َلْي َه ا[‪ ،]126‬نمازمیں عمومًا ایسی‬
‫سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا خدا کی‬
‫عظمت کا جالل کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ‬
‫روتے روتے ہچکی بندھ جاتی‪ ،‬حضرت عبد اللہ بن شداد‬
‫اؓ کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہت‬
‫َا‬
‫تھا ؛لیکن حضرت عمؓر یہ آیت ِا َّن َم ا شُکْو ِب َث ْی َو ُح ْز ِن ْی‬
‫پڑھکر اس زور سے روتے تھے کہ میں رونے کی آواز‬
‫سنتا تھا۔ [‪ ]127‬حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ ایک‬
‫دفعہ عمرنماز پڑھ رہے تھے جب اس پر پہنچے‪ِ:‬اَّن‬
‫َع ذاَب ربک لواقع مالہ من دافع "یہ تیرے رب کا عذاب‬
‫یقینی ہوکر رہنے واال ہے اس کو کوئی دفع کرنے واال‬
‫نہیں"تو بہت متاثر ہوئے اورروتے روتے آنکھیں سوج‬
‫گئیں‪ ،‬اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر‪َ :‬و ِإ َذ ا ُأ ْلُق وا ِم ْن َه ا‬
‫َم َكاًن ا َض ِّي ًق ا ُم َق َّر ِن يَن َد َع ْو ا ُه َن اِلَك ُث ُب وًر ا[‪]128‬اس‬
‫قدرخضوع وخشوع طاری ہواکہ اگر کوئی ان کے حال‬
‫سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی‬
‫حالت میں روح پرواز کرجائے گی‪ ،‬رقت قلب اورعبرت‬
‫پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں‬
‫سورۂ یوسف شروع کی اورجب اس آیت پر پہنچے‬
‫َو ابَی َّض ْت َع ْی َناُہ ِم َن اْلُح ْز ِن َف ُھ َو َکِظ ْی ٌم ‪،‬‬
‫(یوسف)توزاروقطاررونےلگے‪ ،‬یہاں تک کہ قرآن مجید‬
‫ختم کرکے رکوع پر مجبور ہو گئے۔ [‪ ]129‬قیامت کے‬
‫مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کاخیال‬
‫رہتا تھا‪ ،‬صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک‬
‫صحابی سے کہا کہ "تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسالم الئے‪ ،‬ہجرت کی‪،‬‬
‫جہاد اورنیک اعمال کیے‪ ،‬اس کے بدلہ میں دوزخ سے‬
‫بچ جائیں اور عذاب وثواب برابر ہوجائے‪ ،‬بولے خدا کی‬
‫قسم نہیں‪ ،‬ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی‬
‫روزے رکھے‪ ،‬نمازیں پڑھیں‪ ،‬بہت سے نیک کام کیے‬
‫اورہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسالم الئے ہم کوان‬
‫اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں‪ ،‬عمرنے فرمایا اس ذات‬
‫کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو‬
‫یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں‬
‫اورنیکی اوربدی برابر ہوجائیں۔ [‪ ]130‬ایک بار راہ میں‬
‫پڑا ایک تنکا اٹھالیا اورکہا کاش میں بھی خش‬
‫وخاشاک ہوتا‪ ،‬کاش!کاش میں پیدا ہی نہ کیا جاتا‪،‬‬
‫کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ [‪ ]131‬غرض عمرکا دل‬
‫ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں وترساں رہتا تھا‪ ،‬آپ‬
‫فرماتے کہ اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا‬
‫تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف‬
‫زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت انسان میں ہی ہوں۔‬
‫[‪]132‬‬
‫حب رسول اوراتباع سنت‬
‫تہذیب نفس اوراخالق حمیدہ سے مزین ہونے کے لیے ہر‬
‫مسلمان کافرض ہے کہ اپنے دل میں مبدءخلق عظیم‬
‫یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص‬
‫محبت اوراتباع سنت کا صحیح جذبہ پیداکرے جو دل‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی‬
‫اورجو قدم اسوۂ حسنہ کا جادۂ مستقیم سے منحرف‬
‫ہے وہ کبھی سعادت کونین کی نعمت سے متمتع نہیں‬
‫ہوسکتا‪ ،‬ایک دفعہ عمرنے بارگاہ نبوت میں عرض کیا‬
‫کہ اپنی جان کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام‬
‫دنیا سے زیادہ محبوب ہیں‪ ،‬ارشاد ہوا‪ ،‬عمرمیری محبت‬
‫اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے‪ ،‬عمرنے کہا اب‬
‫حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے بھی زیادہ‬
‫عزیز ہیں۔ آپ جمال نبوت کے سچے شیدائی تھے‪ ،‬ان‬
‫کو اس راہ میں جان ومال اوالد اورعزیز واقارب کی‬
‫قربانی سے بھی دریغ نہ تھا‪ ،‬عاصی بن ہشام جو‬
‫عمرکاماموں تھا‪ ،‬معرکۂ بدر میں خود ان کے ہاتھ سے‬
‫مارا گیا‪ ،‬اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫نے ازواج مطہراتؓ سے ناراض ہوکر علیحدگی اخیتار‬
‫کرلی توحضرت عمؓر نے یہ خبر سن کر حاضر خدمت‬
‫ہونا چاہا‪ ،‬جب باربار اذن طلب کرنے پر بھی اجازت نہ‬
‫ملی تو پکار کر کہا"خداکی قسم !میں حفصہ کی‬
‫سفارش کے لیے نہیں آیا ہوں‪ ،‬اگر رسول اللہ صلی اللہ‬
‫[‪]133‬‬
‫علیہ وسلم حکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرکی محبت‬
‫کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے وفات پائی تو ان کو کسی طرح اس کا یقین‬
‫نہیں آتا تھا‪ ،‬مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں‬
‫حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کر اعالن کرتے تھے‬
‫جس کی زبان سے نکلے گا کہ میرا محبوب آقا دنیا‬
‫سےُا ٹھ گیا اس کا سرتوڑدوں گا‪ ،‬آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کے وصال کے بعد جب کبھی عہد مبارک یاد‬
‫آجاتا تورقت طاری ہوجاتی اورروتے روتے بیتاب‬
‫ہوجاتے‪ ،‬ایک دفعہ سفِر شام کے موقع پر حضرت باللؓ ‬
‫نے مسجد اقصٰی میں اذان دی تو رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کی یاد تازہ ہو گئی اور اس قدر روئے کہ‬
‫ہچکی بندھ گئی۔ [‪ ]134‬یہ فطری امر ہے کہ محبوب کا‬
‫عزیز بھی عزیز ہوتا ہےاس بناپر جن لوگوں کو‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں عزیز‬
‫رکھتے تھے‪ ،‬عمرنے اپنے ایام خالفت میں ان کا خاص‬
‫خیال رکھا؛ چنانچہ جب آپ نے صحابہؓ کے وظائف‬
‫مقرر کیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب‬
‫غالم زید بن حارثہ کے فرزند اسامہ بن زید کی تنخواہ‬
‫اپنے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی‪ ،‬عبد اللہ نے‬
‫عذرکیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے‬
‫تھے۔[‪]135‬اسی طرح جب فتح مدائن کے بعد مال‬
‫غنیمت آیا تو عمرنے حضرت امام حسن اورحضرت‬
‫امام حسینؓ کو ہزار ہزار درہم مرحمت فرمائے اوراپنے‬
‫بیٹے عبد اللہ کو صرف پانچ سودیئے‪ ،‬حضرت عبد اللہؓ ‬
‫نے عذرکیا اورکہا کہ جب یہ دونوں بچے تھے‪ ،‬اس‬
‫وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ‬
‫معرکوں میں پیش پیش رہا ہوں‪ ،‬عمرنہ کہا ہاں ؛لیکن‬
‫ان کے بزرگوں کا جو رتبہ ہے وہ تیرے باپ دادا کا نہیں‬
‫ہے۔ ازواجِ مطہراتؓ کے مرتبہ‪ ،‬ان کے احترام اورآرام‬
‫وآسائش کا خاص لحاظ رکھتے تھے چنانچہ ان کی‬
‫تنخواہیں سب سے زیادہ بارہ ہزار مقرر کیں‪]136[ ،‬؁‬
‫‪63‬ھ میں جب امیر الحجاج بن کر گئے تو ازواج‬
‫مطہرات کو بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ ہمراہ‬
‫لے گئے‪ ،‬حضرت عثمانؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوف‬
‫ےؓ کو سواریوں کے ساتھ کر دیا تھا‪ ،‬یہ لوگ آگے پیچھ‬
‫چلتے تھے اورکسی کو سواریوں کے قریب نہیں آنے‬
‫دیتے تھے‪ ،‬ازواج مطہراتؓ منزل پر حضرت عمؓر کے‬
‫ساتھ قیام کرتی تھیں اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ‬
‫کسی کو قیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے‬
‫تھے۔ [‪ ]137‬عمرکے دستور عمل کا سب سے زریں صفحہ‬
‫اتباع سنت تھا‪ ،‬وہ خور و نوش‪ ،‬لباس وضع‪ ،‬نشست‬
‫وبرخاست غرض ہر چیز میں اسوۂ حسنہ کو پیش نظر‬
‫رکھتے تھے‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ‬
‫فقر وفاقہ سے بسر کی تھی‪ ،‬اس لیے عمرنے روم‬
‫وایران کی شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر وفاقہ کی‬
‫زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا‪ ،‬ایک دفعہ حضرت حفصہؓ نے‬
‫کہا کہ اب خدا نے مرفہ الحالی عطا فرمائی ہے اس لیے‬
‫آپ کو نرم لباس اورنفیس غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے‪،‬‬
‫عمرنے کہا‪ ،‬جان پدر!تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کی عسرت اورتنگ حالی کو بھول گئیں‪ ،‬خداکی قسم !‬
‫میں اپنے آقا کے نقش قدم پر چلوں گا کہ آخرت کی‬
‫فراغت اورخوشحالی نصیب ہو‪ ،‬اس کے بعد دیر تک‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت کا تذکرہ‬
‫کرتے رہے‪ ،‬یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ بے تاب ہوکر‬
‫رونے لگیں۔ [‪ ]138‬ایک دفعہ یزید بن ابی سفیان کے‬
‫ساتھ شریک طعام ہوئے‪ ،‬معمولی کھانے کے بعد‬
‫دسترخوان پر جب عمدہ کھانے الئے گئے تو عمرنے ہاتھ‬
‫کھنچ لیا اورکہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ‬
‫میں عمرؓ کی جان ہے اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کی روش سے ہٹ جاؤ گے تو خداتم کو جادۂ‬
‫مستقیم سے منحرف کر دے گا۔ [‪ ]139‬اسالم میں شعائر‬
‫اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیاہے‪ ،‬حضرت عمؓر‬
‫کو اپنے زمانہ خالفت میں جب اس کا موقع پیش آیا‬
‫تو اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو کہ پتھر کو بوسہ دینے‬
‫سے کبھی مسلمانوں کو یہ دھوکا ہوکہ اس میں بھی‬
‫الہی شان ہے حجراسود کو بوسہ تو دیا؛لیکن اس کے‬
‫سامنے کھڑے ہوکرکہا‪ِ :‬إ ِّن ي َأ ْع َلُم َأ َّن َك َح َج ٌر اَل َتُض ُّر َو اَل‬
‫َت ْن َف ُع َو َلْو اَل َأ ِّن ي َر َأ ْي ُت الَّن ِب َّي َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه َو َس َّلَم ُي َق ِّب ُلَك‬
‫َم ا َق َّب ْلُت َك "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان‬
‫پہنچا سکتا ہے نہ نفع‪ ،‬اگر میں رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز‬
‫بوسہ نہ دیتا۔" [‪ ]140‬اسی طرح طواف میں رمل کا‬
‫حکم مشرکین عرب کے دلوں پر رعب ڈالنے کی‬
‫مصلحت پر مبنی تھا اس لیے جب خدا نے ان کو ہالک‬
‫کر دیا تو عمرکو خیا ل ہوا کہ اب رمل سے کیا فائدہ ہے‬
‫مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار کو‬
‫ترک کرنے پر جرأت نہ ہوئی۔ [‪ ]141‬ان کی ہمیشہ یہ‬
‫کوشش رہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کوجو کام جس طرح کرتے دیکھا اسی طرح وہ بھی‬
‫عمل پیرا ہوں‪ ،‬ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے ذوالحلیفہ میں دورکعت نماز پڑھی تھی‪،‬‬
‫عمرنے جب اس طرف سے گزرتے تو اس جگہ دورکعت‬
‫نماز ادا کرلیتے تھے‪ ،‬ایک شخص نے پوچھا یہ نماز‬
‫کیسی ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہاں رسول اللہ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے‪ ،‬یہ‬
‫کوشش صرف اپنی ذات تک محدودنہ تھی؛بلکہ وہ‬
‫چاہتے تھے کہ ہر شخص کا دل اتباع سنت کے جذبہ‬
‫سے معمور ہوجائے۔ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دے رہے‬
‫تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا‪ ،‬عمرنے عین‬
‫خطبہ کی حالت میں اس کی طرف دیکھا اور کہا آنے‬
‫کا یہ کیا وقت ہے؟ انہوں نے کہا کہ بازار سے آرہا تھا‬
‫کہ اذان سنی‪ ،‬وضو کرکے فورًا حاضر ہوا‪ ،‬حضرت عمؓر‬
‫نے فرمایا"وضو پر کیوں اکتفاکیا‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم (جمعہ کو)غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔‬
‫[‪]142‬‬

‫زہد وقناعت‬
‫دنیا طلبی اورحرص تمام بداخالقیوں کی بنیاد ہے‪،‬‬
‫عمرکو اس سے طبعی نفرت تھی‪ ،‬یہاں تک کہ خود ان‬
‫کے ہم مرتبہ معاصرین کو اعتراف تھا کہ وہ زہد‬
‫وقناعت کے میدان میں سب سے آگے ہیں‪ ،‬حضرت‬
‫طلحہؓ کا بیان ہے‪ :‬قدامِت اسالم اورہجرت کے لحاظ‬
‫سے بہت سے لوگوں کو عمر بن الخطاب پر فوقیت‬
‫حاصل ہے؛لیکن زہد وقناعت میں وہ سب سے بڑے ہوئے‬
‫ہیں‪ ،‬صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم جب عمرکو کچھ دینا چاہتے تو وہ عرض کرتے‬
‫کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند لوگ موجود ہیں جو‬
‫اس عطیہ کے زیادہ مستحق ہیں‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم ارشاد فرماتے کہ اس کو لے لو‪ ،‬پھر تمہیں‬
‫اختیار ہے کہ اپنے پاس رکھویا صدقہ کردو‪ ،‬انسان کو‬
‫اگر بے طلب مل جائے تو لے لیناچاہیے۔ [‪ ]143‬عمرکا‬
‫جسم کبھی نرم اور مالئم کپڑے سے مس نہیں ہوا‪،‬‬
‫بدن پر بارہ بارہ پیوند کا کرتا‪ ،‬سرپر پھٹاہوا عمامہ‬
‫اورپاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں‪ ،‬اسی‬
‫حالت میں وہ قیصر وکسرٰی کے سفیروں سے ملتے تھے‬
‫اور وفود کو باریاب کرتے تھے‪ ،‬مسلمانوں کو شرم آتی‬
‫تھی‪ ،‬مگر اقلیم زہد کے شہنشاہ کے آگے کون زبان‬
‫کھولتا‪ ،‬ایک دفعہ حضرت عائشہؓ اورحضرت حفصہؓ ‬
‫نے کہا‪ ،‬امیرالمومنین !اب خدانے مرفہ الحال کیا ہے‪،‬‬
‫بادشاہوں کے سفراء اورعرب کے وفود آتے رہتے ہیں‪،‬‬
‫اس لیے آپ کو اپنے طرز معاشرت میں تغیر کرنا چاہیے‪،‬‬
‫عمرنے کہا‪ ،‬افسوس تم دونوں امہات المومنین ہوکر‬
‫دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو‪ ،‬عائشؓہ !تم رسول اللہ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ‬
‫تمہارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا جس کو دن کو‬
‫بچھاتے اوررات کو اوڑھتے تھے‪ ،‬حفصؓہ !تم کو یاد نہیں‬
‫ہے کہ ایک دفعہ تم نے فرش کو دہرا کرکے بچھادیا تھا‪،‬‬
‫اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫رات بھر سوتے رہے۔ باللؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی‬
‫اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬یاحفصۃ‬
‫ماذا ضعت ثنیت المھاد حتی ذھب بی النوم الی‬
‫الصباح مالی وللدنیا ومالی شغلتمو نی بین الفراش‬
‫[‪" ]144‬حفصہ تم نے یہ کیا کیا فرش کو دہرا کر دیا کہ‬
‫میں صبح تک سوتا رہا مجھے دنیاوی راحت سے کیا‬
‫تعلق ہے؟ اور فرش کی نرمی کی وجہ سے تونے مجھے‬
‫غافل کر دیا۔" ایک دفعہ گزی کا کرتا ایک شخص کو‬
‫دھونے اورپیوند لگانے کے لیے دیا اس نے اس کے ساتھ‬
‫ایک نرم کپڑے کا کرتا پیش کیا‪ ،‬عمرنے اس کو واپس‬
‫کر دیا اوراپنا کرتا لے کر کہا اس میں پسینہ خوب‬
‫جذب ہوتا ہے۔ [‪ ]145‬کپڑا عمومًا گرمی میں بنواتے تھے‬
‫اورپھٹ جاتا تو پیوند لگاتے چلے جاتے‪ ،‬حضرت حفصہؓ ‬
‫نے اس کے متعلق گفتگو کی تو فرمایا‪ ،‬مسلمانوں کے‬
‫مال میں اس سے زیادہ تصرف نہیں کرسکتا‪]146[ ،‬ایک‬
‫دفعہ دیر تک گھر میں رہے‪ ،‬باہر آئے تو لوگ انتظار کر‬
‫رہے تھے‪ ،‬معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے اس لیے‬
‫ان ہی کپڑوں کو دھوکر سوکھنے کو ڈالدیا تھا‪ ،‬خشک‬
‫ہوئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔ غذا بھی عمومًا نہایت‬
‫سادہ ہوتی تھی‪ ،‬معموًال روٹی اورروغن زیتون‬
‫دسترخوان پر ہوتا تھا‪ ،‬روٹی گیہوں کی ہوتی تھی ؛‬
‫لیکن آٹا چھانا نہیں جاتا تھا‪ ،‬مہمان یا سفراء آتے تھے‬
‫تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی کیونکہ وہ ایسی‬
‫سادی اورمعمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے‪ ،‬حفص‬
‫بن ابی العاصؓ اکثر کھانے کے وقت موجود ہوتے تھے ؛‬
‫لیکن شریک نہیں ہوتے تھے‪ ،‬ایک دفعہ عمرنے وجہ‬
‫پوچھی تو کہا کہ آپ کے دسترخوان پر ایسی سادہ‬
‫اورمعمولی غذا ہوتی ہے کہ ہم لوگ اپنے لذیذ اور‬
‫نفیس کھانوں پراس کو ترجیح نہیں دے سکتے‪ ،‬عمرنے‬
‫کہا‪ ،‬کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں قیمتی اورلذیذ کھانا‬
‫کھانے کی مقدرت نہیں رکھتا؟ قسم ہے اس ذات کی‬
‫جس کے قبضہ میں میری جان ہے‪ ،‬اگر قیامت کا خوف‬
‫نہ ہوتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح دنیاوی عیش‬
‫وعشرت کا دلدادہ ہوتا۔ [‪ ]147‬عمرہر شخص کو اپنی‬
‫طرح زہد اورسادگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے‪،‬‬
‫وقتًا فوقتًا اپنے عمال اوراحکام کو ہدایت کرتے رہتے‬
‫تھے کہ رومیوں اورعجمیوں کی طرز معاشرت نہ‬
‫اختیار کریں‪ ،‬سفر شام میں جب انہوں نے افسروں کو‬
‫اس وضع میں دیکھا کہ بدن پر حریر ودیبا کے حلے اور‬
‫پر تکلف قبائیں ہیں اور وہ اپنی زرق برق پوشاک‬
‫اورظاہری شان وشوکت سے عجمی معلوم ہوتے ہیں تو‬
‫آؓپ کو اس قدر غصہ آیا کہ گھوڑے سے اتر پڑے‬
‫اورسنگریزے اٹھا کر ان پر پھینکے اور فرمایا کہ اس‬
‫قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اخیتار کر لیں‪ ،‬اسی‬
‫طرح ایک دفعہ ایک شخص جس کو انہوں نے یمن کا‬
‫عامل مقرر کیا تھا‪ ،‬اس صورت سے ملنے آیا کہ لباس‬
‫فاخرہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور بالوں میں خوب تیل‬
‫پڑا ہواتھا‪ ،‬اس وضع کو دیکھ کر عمرنہایت ناراض‬
‫ہوئے اور وہ کپڑے اترواکر موٹا جھوٹا کپڑا پہنایا۔‬
‫احنف بن قیس ایک جماعت کے ساتھ عراق کی ایک‬
‫مہم پر روانہ کیے گئے‪ ،‬وہ وہاں سے کامیاب ہوکر تزک‬
‫واحتشام کے ساتھ واپس آئے تو عمرنے ان کے زرق برق‬
‫پوشاک دیکھ کر منہ پھیر لیا‪ ،‬وہ لوگ امیر المومنین‬
‫کو برہم دیکھ کر دربار سے اٹھ آئے اور عرب کی سادہ‬
‫پوشاک زیب تن کرکے پھر حاضر خدمت ہوئے‪ ،‬عمراس‬
‫لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اورفرد ًا فردًا ہر‬
‫ایک سے بغلگیر ہوئے۔ قناعت کا یہ حال تھا کہ اپنے‬
‫زمانہ خالفت میں چند برس تک مسلمانوں کے مال سے‬
‫ایک خرمہرہ نہیں لیا حاالنکہ فقروفاقہ سے حالت تباہ‬
‫تھی‪ ،‬صحابہؓ نے ان کی عسرت اور تنگدستی کو دیکھ‬
‫کر اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو معمولی خوراک‬
‫اورلباس کے لیے کافی ہو ؛لیکن شہنشاہ قناعت نے اس‬
‫شرط پر قبول کیا کہ جب تک ضرورت ہے لوں گا‬
‫اورجب میری مالی حالت درست ہوجائے گی‪ ،‬کچھ نہ‬
‫لوں گا‪ ،‬فرمایا کرتے تھے کہ میرا حق مسلمانوں کے مال‬
‫میں اسی قدر ہے جس قدر یتیم کے مال میں ولی کا‬
‫ہوتا ہے‪]148[ ،‬میں اپنی ذات پراس سے زیادہ نہیں‬
‫صرف کرسکتا جس قدر خالفت سے پہلے اپنے مال‬
‫میں سے صرف کرتا تھا‪ ،‬ایک دفعہ ربیع بن زیاد حارثی‬
‫نے کہا امیر المومنین! آپ کو خدانے جو مرتبہ بخشا ہے‬
‫اس کے لحاظ سے آپ دنیا میں سب سے زیادہ عیش‬
‫ونشاط کی زندگی کے مستحق ہیں‪ ،‬عمرنہایت خفا‬
‫ہوئے اورفرمایا میں قوم کاامین ہوں‪ ،‬امانت میں‬
‫خیانت کب جائز ہے‪]149[ ،‬ایک دفعہ عتبہ بن فرقد‬
‫شریک طعام تھے اور ابالہوا گوشت اورسوکھی روٹی‬
‫کے ٹکڑے زبردستی حلق سے فروکر رہے تھے عمرنے کہا‬
‫اگر تم سے نہیں کھا یا جاتا تو نہ کھاؤ‪ ،‬عتبہؓ سے نہ رہا‬
‫گیا‪ ،‬کہنے لگے امیر المومنین!اگر آپ اپنے کھانے پہننے‬
‫میں کچھ زیادہ صرف کریں گے تو اس سے مسلمانوں‬
‫کا مال کم نہ ہوجائے گا‪ ،‬حضرت عمؓر نے کہا‪ ،‬افسوس‬
‫تم مجھے دنیاوی عیش و تنعم کی ترغیب دیتے ہو۔‬
‫[‪ ]150‬اپنے وسیع کنبہ کے لیے بیت المال سے صرف دو‬
‫درہم روزانہ لیتے تھے اور تکلیف وعسرت کے ساتھ بسر‬
‫کرتے تھے‪ ،‬ایک دفعہ حج میں اسی درہم صرف ہو گئے‬
‫تو اس کا افسوس ہوا اوراسے اسراف تصور کیا‪( ،‬اسد‬
‫الغابہ ج ‪)72 : 4‬کپڑے پھٹ جاتے تھے ؛لیکن اس خیال‬
‫سے کہ بیت المال پر بار نہ پڑے اسی میں پیوند پر‬
‫پیوند لگاتے جاتے تھے‪ ،‬حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے‬
‫کہ ایک دفعہ عمرجمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے‪ ،‬میں‬
‫نے شمار کیا تو ان کے تہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے‪،‬‬
‫(کنزالعمال ج ‪ )347 : 6‬انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ‬
‫میں نے زمانہ خالفت میں دیکھا کہ ان کے کرتا کے‬
‫مونڈے پر تہ بہ تہ پیوند لگے ہوئے ہیں‪( ،‬موطا امام‬
‫مالک باب ماجاء فی لبس الثیاب)غرض فاروق اعظمؓ ‬
‫نے زہد وقناعت کا جو نمونہ پیش کیا‪ ،‬دنیا کی تاریخ‬
‫اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے‪ ،‬اورحقیقت یہ‬
‫ہے کہ ان کی عظمت وشان کے تاج پر زہد وقناعت ہی‬
‫کا طرہ زیب دیتا ہے۔ خالفت کے بارگراں نے حضرت‬
‫عمؓر کو بہت زیادہ محتاط بنادیا تھا کیونکہ اس وقت‬
‫ان کی معمولی بے احتیاطی اور فرو گذاشت قوم کے‬
‫لیے صدہاخرابیوں کا باعث ہوسکتی تھی اور مشکوک‬
‫طبائع ان کی ذراسی لغزش سے طرح طرح کے افسانے‬
‫اختراع کرسکتے تھے‪ ،‬عمرنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو‬
‫کبھی ملکی عہدے نہیں دئےکہ اس میں جانبداری پائی‬
‫جاتی تھی‪ ،‬عمال وحکام کے تحائف واپس کردیتے اور‬
‫اس سختی سے چشم نمائی کرتے کہ پھر کسی کو‬
‫جرأت نہ ہوتی‪ ،‬ایک دفعہ حضرت ابو موسی اشعریؓ ‬
‫نے آپ کی زوجہ عاتکہ بنت زیدؓ کے پاس ہدیًۃ ایک‬
‫نفیس چادر بھیجی‪ ،‬عمرنے دیکھا تو ابو موسٰی اشعری‬
‫لؓ کولباکر کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں‪( ،‬کنزالعما‬
‫ج‪)350 : 6‬اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسٰی‬
‫اشعریؓ نے بیت المال کا جائزہ لیا تو وہاں صرف ایک‬
‫درہم موجود تھا‪ ،‬انہوں نے اس خیال سے کہ یہ یہاں‬
‫کیوں پڑا رہے‪ ،‬اٹھا کر عمرکے بیٹے کو دیدیا‪ ،‬حضرت‬
‫عمؓر کو معلوم ہوا تو انہوں نے درہم واپس لے کر بیت‬
‫المال میں داخل کر دیا اورابو موسٰی اشعریؓ کو بالکر‬
‫فرمایا کہ افسوس تم کو مدینہ میں آل عمرؓ کے سوا‬
‫اور کوئی کمزور نظر نہ آیا‪ ،‬تم چاہتے ہو کہ قیامت کے‬
‫دن تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ‬
‫میری گردن پر ہو۔ [‪ ]151‬فتح شام کے بعد قیصر روم‬
‫سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط کتابت رہتی‬
‫تھی‪ ،‬ایک دفعہ ام کلثومؓ (عمرکی زوجہ) نے قیصر کی‬
‫حرم کے پاس تحفہ کے طورپر عطر کی چند شیشیاں‬
‫بھیجیں‪ ،‬اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو‬
‫جواہرات سے بھر کر بھیجا‪ ،‬عمرکو معلوم ہوا تو فرمایا‬
‫کہ گوعطر تمہارا تھا؛لیکن قاصد جولے کر گیا وہ‬
‫سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی سے ادا کیے‬
‫گئے تھے؛چنانچہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل‬
‫کر دیے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا‪ ،‬اسی طرح‬
‫ایک بازار میں ایک فربہ اونٹ فروخت ہوتے دیکھا‪،‬‬
‫دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ کے بیٹے عبد اللہؓ کا ہے‪،‬‬
‫ان سے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟انہوں نے کہا میں‬
‫نے اس کو خرید کر سرکاری چراگاہ مین بھیج دیا تھا‬
‫اور اب کچھ فربہ ہو گیا ہے تو فروخت کرنا چاہتا ہوں‪،‬‬
‫عمرنے فرمایا چونکہ یہ سرکاری چراگاہ میں فربہ ہوا‬
‫ہے اس لیے تم صرف راس المال کے مستحق ہو‪،‬‬
‫[‪]152‬‬
‫اوربقیہ قیمت لے کر بیت المال میں داخل کردی‪،‬‬
‫خالفت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے‪ ،‬بیت المال سے‬
‫وظیفہ مقرر ہونے سے بیشتر تک کچھ دنوں زمانہ‬
‫خالفت میں بھی یہ مشغلہ جاری تھا‪ ،‬ایک دفعہ شام‬
‫کی طرف مال بھیجنا چاہا‪ ،‬روپیہ کی ضرورت ہوئی تو‬
‫حضرت عبدالرحمن بن عوف سے قرض طلب کیا‪،‬‬
‫انہوں نے کہا‪ ،‬آپ امیر المومنین ہیں‪ ،‬بیت المال سے‬
‫اس قدر رقم قرض لے سکتے ہیں‪ ،‬عمرنے فرمایا کہ بیت‬
‫المال سے نہیں لوں گا‪ ،‬کیونکہ اگر ادا کرنے سے پہلے‬
‫مرجاؤں گا تو تم لوگ میرے ورثاءسے مطالبہ نہ کروگے‬
‫اور یہ بارمیرے سررہ جائے گا‪ ،‬اس لیے چاہتا ہوں کہ‬
‫کسی ایسے شخص سے لوں جو میرے متروکہ سے‬
‫وصول کرنے پر مجبور ہو۔ [‪ ]153‬ایک دفعہ بیمار ہوئے‬
‫طبیبوں نے شہد تجویز کیا‪ ،‬بیت المال میں شہد‬
‫موجود تھا؛ لیکن قلب متقی بغیر مسلمانوں کی اجازت‬
‫کے لینے پر راضی نہ تھا؛چنانچہ اسی حالت میں‬
‫مسجد میں تشریف الئے اور مسلمانوں کو جمع کر کے‬
‫اجازت طلب کی‪ ،‬جب لوگوں نے اجازت دے دی تو‬
‫استعمال فرمایا‪ ]154[ ،‬بحرین سے مال غنیمت میں‬
‫مشک وعنبر آیا اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے‬
‫لیے کسی ایسے شخص کی تالش ہوئی جس کو‬
‫عطریات کے وزن میں دستگاہ ہو‪ ،‬عمرکی بیوی عاتکہ‬
‫بنت زیدؓ نے کہا میں اس کام کو کرسکتی ہوں‪ ،‬حضرت‬
‫عمؓر نے کہا تم سے یہ کام نہیں لوں گا‪ ،‬کیونکہ مجھے‬
‫خوف ہے کہ تمہاری انگلیوں میں جو کچھ لگ جائیگا‬
‫اسے اپنے جسم پر لگاؤ گی اور اس طرح عام مسلمانوں‬
‫ٰی‬ ‫موس‬ ‫ابو‬ ‫[‪]155‬‬
‫سے زیادہ میرے حصہ میں آجائے گا۔‬
‫اشعریؓ نے عراق سے زیورات بھیجے‪ ،‬اس وقت آپ کی‬
‫گود میں آپ کی سب سے محبوب یتیم بھتیجی اسماء‬
‫بنت زیدؓ کھیل رہی تھی‪ ،‬اس نے ایک انگوٹھی ہاتھ‬
‫میں لے لی‪ ،‬عمرنے بلطائف الحیل اس سے لے کر زیورات‬
‫میں مالدی اورلوگوں سے کہا کہ اس لڑکی کو میرے‬
‫پاس سے لے جاؤ‪ ،‬اسی طرح عبد اللہ بن ارقم نے معرکۂ‬
‫جلوال کے بعد زیورات بھیجے تو آپ کے ایک بیٹے نے‬
‫ایک انگوٹھی کی درخواست کی‪ ،‬عمراس سوال پر خفا‬
‫ہوئے اور کچھ نہ دیا۔ [‪ ]156‬ایک دفعہ حضرت حفصہؓ ‬
‫یہ سن کر کہ مال غنیمت آیا ہوا ہے‪ ،‬عمرکے پاس آئیں‬
‫اورکہا امیر المومنین! اس میں میراحق مجھ کو‬
‫عنایت کیجئے‪ ،‬میں ذوالقربی میں سے ہوں‪ ،‬عمرنے‬
‫کہانور نظر تیرا حق میرے خاص مال میں ہے‪ ،‬یہ تو‬
‫غنیمت کا مال ہے‪ ،‬افسوس ہے کہ تونے اپنے باپ کو‬
‫دھوکا دینا چاہا‪ ،‬وہ بیچاری خفیف ہوکر چلی گئیں۔‬
‫عمرکی تمنا تھی کہ اپنے محبوب آقا حضرت سرور‬
‫کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہوں‪،‬‬
‫حضرت عائشہؓ نے اجازت دیدی تھی‪ ،‬مگر خیال یہ تھا‬
‫کہ شاید خالفت کے رعب نے انہیں مجبور کیاہو‪ ،‬اس‬
‫لیے اپنےصاحبزادےکو وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد‬
‫ایک مرتبہ پھر اجازت لی جائے‪ ،‬اگر اذن ہو توخیر ورنہ‬
‫عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا‪ ،‬اس طرح‬
‫وفات کے بعد بھی فاروق اعظمؓ نے ورع وتقوٰی کا بدیع‬
‫المثال نمونہ پیش کیا‪ ؓ،‬۔‬

‫تواضع‬
‫عمرکی عظمت وشان اوررعب وداب کا ایک طرف تو‬
‫یہ حال تھا کہ محض نام سے قیصر وکسرٰی کے ایوان‬
‫حکومت میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا‪ ،‬دوسری طرف‬
‫تواضع اورخاکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک‬
‫رکھ کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھرتے تھے‪ ،‬مجاہدین‬
‫کی بیویوں کا بازار سے سودا سلف خرید کر الدیتے‬
‫تھے‪ ،‬پھر اس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشہ میں‬
‫فرش خاک پرلیٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے ایام‬
‫خالفت میں سرپرچادرڈال کر باہر نکلے‪ ،‬ایک غالم کو‬
‫گدھے پر سوار جاتے دیکھا چونکہ تھک گئے تھے اس‬
‫لیے اپنے ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی‪ ،‬اس کے لیے‬
‫اس سے زیادہ کیا شرف ہوسکتا ہے‪ ،‬فورًا اتر پڑا‬
‫اورسواری کے لیے اپنا گدھا پیش کیا‪ ،‬عمرنے کہا اپنی‬
‫وجہ سے تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا تم جس طرح‬
‫سوار تھے سوار رہو میں تمہارے پیچھے بیٹھ لوں گا‪،‬‬
‫غرض اسی حالت میں مدینہ کی گلیوں میں داخل‬
‫ہوئے‪ ،‬لوگ امیرالمومنین کو ایک غالم کے پیچھے‬
‫دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ [‪ ]157‬آپ کو بارہا‬
‫سفر کا اتفاق ہوا ؛لیکن خیمہ وخرگاہ کبھی ساتھ نہیں‬
‫رہا‪ ،‬درخت کا سایہ شامیانہ اورفرش خاک بستر تھا‪،‬‬
‫سفر شام کے موقع پر مسلمانوں نے اس خیال سے کہ‬
‫عیسائی امیر المومنین کے معمولی لباس اوربے‬
‫سروسامانی کو دیکھ کر اپنے دل میں کیا کہیں گے؟‬
‫سواری کے لیے ترکی گھوڑا اور پہننے کے لیے قیمتی‬
‫لباس پیش کیا‪ ،‬حضرت عمؓر نے فرمایا کہ خدانے ہم کو‬
‫جو عزت دی ہے وہ اسالم کی عزت ہے اور ہمارے لیے‬
‫یہی بس ہے۔ ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل‬
‫مل رہے تھے‪ ،‬ایک شخص نے کہا امیر المومنین!یہ کام‬
‫کسی غالم سے لیا ہوتا ؟ بولے مجھ سے بڑھ کر کون‬
‫غالم ہوسکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کاوالی ہے وہ‬
‫[‪]158‬‬
‫ان کا غالم بھی ہے۔‬

‫تشددوترحم‬
‫عمرکی تندمزاجی کے افسانے نہایت کثرت سے‬
‫مشہورہیں اور ایک حد تک وہ صحیح بھی ہیں؛لیکن‬
‫یہ قیاس صحیح نہیں ہے کہ قدرت نے ان کو لطف اور‬
‫رحمدلی سے ناآشنا رکھاتھا‪ ،‬اصل یہ ہے کہ ان کا غیظ‬
‫و غضب بھی خدا کے لیے تھا اور لطف ورحم بھی‬
‫اسی کے لیے‪ ،‬جیسا کہ ایک موقع پر خود ارشاد فرمایا‬
‫تھا‪ :‬واللہ لقد الن قلبي في اللہ حتى لهو ألين من الزبد‬
‫ولقد اشتد قلبي في اللہ حتى لهو أشد من‬
‫الحجر۔"واللہ!میرادل خدا کے بارے میں نرم ہوتا ہے تو‬
‫جھاگ سے بھی نرم ہوجاتا ہےاور سخت ہوتا ہے تو‬
‫پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔" [‪ ]159‬مثال کے‬
‫طورپر چند واقعات درج ذیل ہیں جس سے اندازہ ہوگا‬
‫کہ حضرت عمؓر کا غصہ اور لطف ورحم محض خدا کے‬
‫لیے تھا‪ ،‬ذاتیات کو مطلقًا دخل نہ تھا۔ غزوۂ بدر میں‬
‫کافروں نے بنوہاشم کو مسلمانوں سے لڑنے پر مجبور‬
‫کیا تھا‪ ،‬اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫حکم دیا کہ عباسؓ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ‬
‫کرنا‪ ،‬ابو حذیفہؓ کی زبان سے نکل گیا کہ بنوہاشم میں‬
‫کیا خصوصیت ہے؟ اگر عباسؓ سے مقابلہ ہو گیا تو‬
‫ضرور مزہ چکھاؤں گا‪ ،‬عمریہ گستاخی دیکھ کر آپے‬
‫سے باہر ہو گئے اور کہااجازت دیجئے کہ میں اس کا‬
‫سرُا ڑادوں۔ [‪ ]160‬حضرت حاتم بن ابی بلتعہؓ بڑے رتبہ‬
‫کے صحابی تھے‪ ،‬یہ خود ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے‬
‫تھے؛لیکن ان کے اہل و عیال مکہ میں تھے‪ ،‬جب‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا قصد‬
‫فرمایا تو حاطبؓ نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے‬
‫خیال سے اپنے بعض مشرک دوستوں کو اس کی اطالع‬
‫دیدی‪ ،‬حضرت عمؓر کو معلوم ہوا تو برافروختہ ہوکر‬
‫آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اجازت‬
‫دیجئے کہ اس کو قتل کردوں۔ [‪ ]161‬اسی طرح‬
‫خویصرہ نے ایک دفعہ گستاخانہ کہا"محمد (صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم)عدل کر"عمرغصے سے بےتاب ہو گئے اور‬
‫اس کو قتل کردینا چاہا؛لیکن رحمۃ اللعالمین صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے منع کیا۔ غرض اسی قسم کے متعدد‬
‫واقعات ہیں جن سے اگر تم مزاج کی سختی کا اندازہ‬
‫کرسکتے ہو تو دوسری طرف للہیت کا بھی اعتراف‬
‫کرنا پڑے گا۔ ایام خالفت میں جو سختیاں ظاہو ہوئیں‬
‫وہ اصوِل سیاست کے لحاظ سے نہایت ضروری تھیں‪،‬‬
‫حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی‪ ،‬حکام سے سختی‬
‫کے ساتھ بازپرس‪ ،‬مذہبی پابندی کے لیے تنبیہ وتعزیر‬
‫اور اسی قسم کے تمام امور عمرکے فرائض منصبی میں‬
‫داخل تھے‪ ،‬اس لیے انہوں نے جو کچھ کیا وہ منصب‬
‫خالفت کی حیثیت سے ان پر واجب تھا‪ ،‬ورنہ ان کا‬
‫دل لطف ومحبت کے شریفانہ جذبات سے خالی نہ تھا ؛‬
‫بلکہ وہ جس قدر مذہبی اورانتظامی معامالت میں‬
‫سختی اورتشدد کرتے تھے‪ ،‬ہمدردی کے موقعوں پر اس‬
‫سے زیادہ لطف ورحم کا برتاؤ کرتے تھے‪ ،‬خدا کی ذی‬
‫عقل مخلوق میں غالموں سے زیادہ قابل رحم حالت‬
‫کسی کی نہیں ہوگی‪ ،‬حضرت عمؓر نے عنان خالفت‬
‫ہاتھ میں لینے کے ساتھ تمام عربی غالموں کو آزاد‬
‫کرادیا‪( ،‬یعقوبی ج‪ )158 : 2‬اوریہ قانون بنادیا کہ اہل‬
‫عرب کبھی کسی کے غالم نہیں ہوسکتے‪ ،‬کنزالعمال‬
‫میں بہ تصریح ان کا قول مذکور ہے کہ "ال تسترق‬
‫عربی" یعنی عربی غالم نہیں ہوسکتے‪ ،‬عام غالموں کا‬
‫آزاد کرانا بہت مشکل تھا تاہم ان کے حق میں بہت سی‬
‫مراعات قائم کیں‪ ،‬مجاہدین کی تنخواہیں مقرر ہوئیں‬
‫تو آقا کے ساتھ اسی قدران کے غالم کی تنخواہ مقرر‬
‫ہوئی‪( ،‬فتوح البلدان ذکر العطاء فی خالفت عمر بن‬
‫الخطابؓ )اکثر غالموں کو بالکر ساتھ کھانا کھالتے‪،‬‬
‫ایک شخص نے دعوت کی تومحض اس وجہ سے‬
‫برافروختہ ہوکر آٹھ گئے کہ اس نے دسترخوان پر اپنے‬
‫غالم کو نہیں بٹھایا تھا‪ ،‬آپ اکثر حاضرین کو سنا کر‬
‫کہتے تھے کہ جو لوگ غالموں کو اپنے ساتھ کھانا‬
‫کھالنا عار سمجھتے ہیں‪ ،‬خداان پر لعنت بھیجتا ہے‬
‫غالموں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی‬
‫کہ وہ اپنے عزیز واقارب سے جدا ہوجاتے تھے‪ ،‬عمرنے‬
‫حکم دیا کہ کوئی غالم اپنے اعزہ سے جدانہ کیاجائے۔‬
‫[‪ ]162‬؁ ‪18‬ھ میں جب عرب میں قحط پڑا اس‬
‫وقت عمرکی بےقراری قابل دید تھی‪ ،‬دور دراز ممالک‬
‫سے غلہ منگواکر تقسیم کیا‪ ،‬گوشت گھی اور دوسری‬
‫مرغوب غذائیں ترک کر دیں‪ ،‬اپنے لڑکے کے ہاتھ میں‬
‫خربوزہ دیکھ کر خفا ہوئے کہ قوم فاقہ مست ہے اورتو‬
‫تفکہات سے لطف اٹھاتا ہے‪ ،‬غرض !جب تک قحط رہا‪،‬‬
‫عمرنے ہر قسم کے عیش و لطف سے اجتناب رکھا۔‬
‫[‪ ]163‬عراق عجم کے معرکہ میں نعمان بن مقرن‬
‫اوردوسرے بہت سے مسلمان شہید ہوئے‪ ،‬عمرپر ان کی‬
‫شہادت کا اتنا اثر تھا کہ زار وقطار روتے تھے‪ ،‬مال‬
‫غنیمت آیا تو غصہ سے واپس کر دیا کہ مجاہدین‬
‫اورشہداء کے ورثا میں تقسیم کر دیا جائے۔ تم نے‬
‫انتظامات کے سلسلہ میں پڑھا ہوگا کہ عمرنے اپنے عہد‬
‫میں ہر جگہ لنگر خانے‪ ،‬مسافر خانے اوریتیم خانے‬
‫بنوائے تھے‪ ،‬غرباء مساکین اورمجبوروناچار آدمیوں کے‬
‫روز ینے مقرر کر دیے تھے‪ ،‬کیا یہ تمام امور لطف‬
‫وترحم کے دائرہ سے باہر ہیں۔ عمرنے ذمیوں اور‬
‫کافروں کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا سلوک کیا‬
‫آج مسلمان‪ ،‬مسلمان سے نہیں کرتے‪ ،‬زندگی کے آخری‬
‫لمحے تک ذمیوں کا خیال رہا‪ ،‬وفات کے وقت وصیت‬
‫[‪]164‬‬
‫میں ذمیوں کے حقوق پر خاص زوردیا۔‬

‫عفو‬
‫اس لطف وترحم کی بناپر عمرعفواوردرگزر سے بھی‬
‫کام لیتے تھے‪ ،‬ایک دفعہ حر بن قیس اورعینیہ بن‬
‫حصن حاضر خدمت ہوئے‪ ،‬عینیہ نے کہا آپ انصاف سے‬
‫حکومت نہیں کرتے‪ ،‬عمراس گستاخی پر بہت غضبناک‬
‫ہوئے‪ ،‬حربن قیس نے کہا امیر المومنین! قرآن مجید‬
‫میں آیا ہے"ُخ ِذ اْلَع ْف َو َو ْأ ُم ْر ِب اْلُع ْر ِف َو َأ ْع ِر ْض َع ِن اْلَج اِه ِل ين‬
‫[‪ "]165‬یہ شخص جاہل ہے اس کی بات کاخیال نہ‬
‫کیجئے‪ ،‬اس گفتگو سے عمرکا غصہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا۔‬
‫[‪]166‬‬
‫رفاِہ عام‬
‫عمرنے فریضۂ خالفت کی حیثیت سے رفاہ عام اور‬
‫بنی نوع انسان کی بہبودی کے جو کام کیے اس کی‬
‫تفصیل گزرچکی ہے‪ ،‬ذاتی حیثیت سے بھی ان کا‬
‫ہرلمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لیے وقف تھا‪ ،‬ان کا‬
‫معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور‬
‫عورتوں سے پوچھ کر بازار سے سودا سلف الدیتے تھے‪،‬‬
‫مقام جنگ سے قاصد آتا تو اہل فوج کے خطوط ان کے‬
‫گھروں میں پہنچاآتے اور جس گھر میں کوئی لکھا‬
‫پڑھا نہ ہوتا خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر‬
‫والے جو کچھ لکھا تے لکھ دیتے‪ ،‬راتوں کو عمومًا گشت‬
‫کرتے کہ عام آبادی کا حال معلوم ہو‪ ،‬ایک دفعہ گشت‬
‫کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرار‬
‫پہنچے‪ ،‬دیکھا کہ ایک عورت پکاررہی ہے اور دوتین‬
‫بچے رو رہے ہیں‪ ،‬پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی‪،‬‬
‫عورت نے کہا بچےبھوک سے تڑپ رہے ہیں‪ ،‬میں نے ان‬
‫کے بہالنے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے‪ ،‬عمراسی وقت‬
‫مدینہ آئے اور آٹا‪ ،‬گھی‪ ،‬گوشت اورکھجوریں لے چلے‪،‬‬
‫عمرکے غالم اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں‪ ،‬فرمایا‪ ،‬ہاں‬
‫قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھاؤ گے اور خود ہی سب‬
‫سامان لے کر عورت کے پاس گئے‪ ،‬ا س نے پکانے کا‬
‫انتظام کیا‪ ،‬حضرت عمؓر دیکھتے تھے اور خوش ہوتے‬
‫تھے۔ [‪ ]167‬ایک دفعہ کچھ لوگ شہر کے باہر اترے‪،‬‬
‫عمرنے عبدالرحمن بن عوفؓ کو ساتھ لیا اور کہا مجھ‬
‫کو ان کے متعلق مدینہ کے چوروں کا ڈرلگاہوا ہے‪ ،‬چلو‬
‫ہم دونوں چل کر پہرہ دیں؛چنانچہ دونوں آدمی رات‬
‫بھر پہرہ دیتے رہے۔ [‪ ]168‬ایک دفعہ رات کو گشت کر‬
‫رہے تھے کہ ایک بدو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی‪،‬‬
‫دریافت سے معلو ہوا کہ بدو کی عورت دردزہ میں‬
‫مبتال ہے‪ ،‬حضرت عمؓر گھر آئے اور اپنی بیوی ام کلثومؓ ‬
‫کو ساتھ لیکر بدو کے خیمہ گئے‪ ،‬تھوڑی دیر کے بعد‬
‫بچہ پیدا ہوا‪ ،‬ام کلثومؓ نے پکار کر کہا اے امیر‬
‫المومنین !اپنے دوست کو مبارکباددیجئے‪ ،‬بدوامیر‬
‫المومنین کا لفظ سن کو چونک پڑا‪ ،‬حضرت عمؓر نے کہا‬
‫کچھ خیال نہ کرو‪ ،‬کل میرے پاس آنا‪ ،‬بچہ کی تنخواہ‬
‫مقرر کردوں گا۔ [‪ ]169‬عمراپنی غیر معمولی مصروفیات‬
‫میں سے بھی مجبور‪ ،‬بیکس اوراپاہج آدمیوں کی‬
‫خدمت گزاری کے لیے وقت نکال لیتے تھے‪ ،‬مدینہ سے‬
‫اکثر نابینا اورضعیف اشخاص فاروق اعظمؓ کی خدمت‬
‫گزاری کے ممنون تھے‪ ،‬خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود‬
‫ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت‬
‫کون ہے؟ حضرت طلحہؓ کا بیان ہے کہ ایک روز علی‬
‫الصبح امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے‬
‫دیکھا‪ ،‬خیال ہوا کہ فاروق اعظم کا کیا کام ؟دریافت‬
‫سے معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے‬
‫اور وہ روز اس کی خبر گیری کے لیے جایا کرتے ہیں۔‬
‫خدا کی راہ میں دینا‬
‫عمربہت زیادہ دولتمند نہ تھے‪ ،‬تاہم انہوں نے جو کچھ‬
‫خدا کی راہ میں صرف کیا وہ ان کی حیثیت سے بہت‬
‫زیادہ تھا‪9 ،‬ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫غزوہ تبوک کی تیاری کی تواکثر صحابہ نے ضروریات‬
‫جنگ کے لیے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں‪ ،‬عمرنے اس‬
‫موقع پر اپنے مال واسباب میں سے آدھا لے کر پیش‬
‫کیا۔ [‪ ]170‬یہود بنی حارثہ سے آپ کو ایک زمین ملی‬
‫تھی اس کوخداکی راہ میں وقف کر دیا اسی طریقہ‬
‫سے خیبر میں ایک بہترین سیر حاصل قطعۂ اراضی‬
‫مال تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں‬
‫حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے ایک قطعہ زمین مال‬
‫ہے جس سے بہتر میرے پاس کوئی جائداد نہیں ہے‪ ،‬آپ‬
‫کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‬
‫وقف کردو؛چنانچہ حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم فقراء اعزہ‪ ،‬مسافر‪ ،‬غالم اورجہاد کے لیے وقف‬
‫کر دیا۔ [‪ ]171‬ایک دفعہ ایک اعرابی نے نہایت رقت‬
‫انگیز اشعار سنائے اور دست سوال دراز کیا‪ ،‬حضرت‬
‫عمؓر متاثر ہوکر بہت روئے اورکرتا اتارکردے دیا۔‬

‫مساوات کا خیال‬
‫عہد فاروقی میں شاہ گدا‪ ،‬امیروغریب‪ ،‬مفلس ومالدار‬
‫سب ایک حال میں نظر آتے تھے‪ ،‬عمال کو تاکیدی حکم‬
‫تھا کہ کسی طرح کا امتیاز ونموداختیار نہ کریں‪،‬‬
‫عمرنے خود ذاتی حیثیت سے بھی مساوات اپنا خاص‬
‫شعار بنایاتھا‪ ،‬یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی‬
‫معاشرت نہایت سادہ رکھی تھی‪ ،‬تعظیم وتکریم کو دل‬
‫سے ناپسند کرتے تھے‪ ،‬ایک دفعہ کسی نے کہا‪ ،‬میں آپ‬
‫پر قربان فرمایا ایسا نہ کہو‪ ،‬اس سے تمہار نفس ذلیل‬
‫ہوجائے گا‪ ،‬اسی طرح زید بن ثابتؓ قاضی مدینہ کی‬
‫عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے گئے تو انہوں نے‬
‫تعظیم کے لیے جگہ خالی کردی‪ ،‬عمرنے کہا تم نے اس‬
‫مقدمہ میں یہ پہلی ناانصافی کی‪ ،‬یہ کہہ کر اپنے‬
‫فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ [‪ ]172‬آپ کا مقولہ تھا کہ میں‬
‫اگر عیش وتنعم کی زندگی بسر کروں اورلوگ مصیبت‬
‫وافالس میں رہیں تو مجھ سے براکوئی نہ ہوگا‪ ،‬سفر‬
‫شام میں نفیس ولذیز کھانے پیش کیے گئے تو پوچھا‬
‫کہ تمام مسلمانوں کو بھی یہ ایوان نعمت میسر ہیں؟‬
‫لوگوں نے کہا ہر شخص کے لیے کس طرح ممکن ہے؟‬
‫فرمایا‪ ،‬توپھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں۔ خالفت‬
‫کی حیثیت سے فاروق اعظمؓ کے جاہ وجالل کا سکہ‬
‫تمام دنیا پر بیٹھا ہوا تھا ؛لیکن مساوات کا یہ عالم تھا‬
‫کہ قیصروکسرٰی کے سفراء آتے تھے تو انہیں یہ پتہ‬
‫نہیں چلتا تھا کہ شاہ کون ہے؟درحقیقت حضرت عمؓر‬
‫نے خود نمونہ بن کر مسلمانوں کو مساوات کا ایسا‬
‫درس دیا تھا کہ حاکم ومحکوم‪ ،‬اورآقا وغالم کے‬
‫سارے امتیازات ُا ٹھ گئے تھے۔‬
‫غیرت‬
‫حضرت عمؓر بالطبع غیور واقع ہوئے تھے‪ ،‬یہاں تک کہ‬
‫خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی غیرت کا‬
‫پاس ولحاظ کرتے تھے‪ ،‬صحیح مسلم‪ ،‬ترمذی‬
‫اورصحاح کی تقریبًا سب کتابوں میں باختالف الفاظ‬
‫مروی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نےجنت میں ایک عالیشان طالئی قصر‬
‫مالحظہ فرمایا جو فاروق اعظمؓ کے لیے مخصوص تھا‬
‫اس کے اندر صرف اس وجہ سے تشریف نہیں لے گئے‬
‫کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی غیر ت کا حال‬
‫معلوم تھا‪ ،‬آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرسے اس کا‬
‫ذکر فرمایا تو وہ روکر کہنے لگے" َأ َع َلْي َك َأ َغ اُر َي ا َر ُس وَل‬
‫اِهَّلل " (کیا میں آپ کے مقابلہ میں غیرت کروں گا یا‬
‫رسول اللہﷺ۔ [‪ ]173‬آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے‬
‫عرب میں پردہ کا رواج نہ تھا یہاں تک کہ خود ازواج‬
‫مطہراتؓ پردہ نہیں کرتی تھیں‪ ،‬حضرت عمؓر کی غیرت‬
‫اس بے حجابی کو نہایت ناپسند کرتی تھی‪ ،‬باربار‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتجی ہوئے کہ آپ‬
‫ازواِج مطہراتؓ کو پردہ کا حکم دیں اس خواہش کے‬
‫بعد ہی آیت حجاب نازل ہوئی۔ آپ کی غیرت کا اندازہ‬
‫اس سے ہوسکتا ہے کہ جب آپ کو خبر ملی مسلمان‬
‫عورتیں حماموں میں عیسائی عورتوں کے سامنے بے‬
‫پردہ نہاتی ہیں تو تحریری حکم جاری کیا کہ مسلمان‬
‫عورت کا غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ‬
‫ہونا جائز نہیں۔‬

‫خانگی زندگی‬
‫عمرکو اوالدو ازواج سے محبت تھی‪ ،‬مگر اس قدر‬
‫نہیں کہ خالق ومخلوق کے تعلقات میں فتنہ ثابت ہو‪،‬‬
‫اہل خاندان سے بھی بہت زیادہ شغف نہ تھا‪ ،‬البتہ زیدؓ ‬
‫سے جو حقیقی بھائی تھے‪ ،‬نہایت الفت رکھتے تھے‬
‫جب وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے تو نہایت قلق‬
‫ہوا‪ ،‬فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا‬
‫چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے‪]174[ ،‬زید‬
‫نے اسماء نامی ایک لڑکی چھوڑی تھی اس کو بہت‬
‫پیار کرتے تھے۔ مکہ سے ہجرت کرکے آئے تو مدینہ سے‬
‫دومیل کے فاصلہ پر عوالی میں رہتے تھے ؛لیکن‬
‫خالفت کے بعد خاص مدینہ میں مسجد نبوی صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کے متصل سکونت اختیار کی‪ ،‬چونکہ وفات‬
‫کے وقت وصیت کردی تھی کہ مکان فروخت کرکہ‬
‫قرض اداکیا جائے‪ ،‬اس لیے یہ مکان فروخت کر دیا گیا‬
‫اورعرصہ دراز تک دارالقضا ءکے نام سے مشہوررہا۔‬
‫حصول معاش کا اعلٰی ذیعہ تجارت تھا‪ ،‬مدینہ پہنچ کر‬
‫زراعت بھی شروع کی تھی ؛لیکن خالفت کے بارگراں‬
‫نے انہیں ذاتی مشاغل سے روک دیا تو ان کی عسرت‬
‫کو دیکھ کر صحابہ نے اس قدر تنخواہ مقرر کردی جو‬
‫معمولی خوراک اورلباس کے لیے کافی ہو‪ ،‬؁ ‪15‬ھ‬
‫میں لوگوں کے وظیفے مقرر ہوئے تو حضرت عمؓر کے‬
‫لیے بھی پانچ ہزاردرہم ساالنہ وظیفہ مقرر ہوا۔ (یہ‬
‫وظیفہ بھی خالفت کی خصوصیت کی وجہ سے نہ تھا‬
‫؛بلکہ تمام بدری صحابیوں کا وظیفہ پانچ پانچ ہزارتھا‪،‬‬
‫[‪ ]175‬غذا نہایت سادہ تھی یعنی صرف روٹی اور روغن‬
‫زیتون پرگزارہ تھا کبھی کبھی گوشت دودھ‪ ،‬ترکاری‬
‫اورسرکہ بھی دسترخوان پر ہوتا تھا‪ ،‬لباس بھی نہایت‬
‫معمولی ہوتا تھا بیشتر صرف قمیص پہنتے تھے‪ ،‬اکثر‬
‫عمامہ باندھتے تھے‪ ،‬جوتی قدیم عربی وضع کی ہوتی‬
‫تھی۔ حلیہ یہ تھا‪ ،‬رنگ گندم گوں‪ ،‬سرچندال‪ ،‬رخسارے‬
‫کم گوشت‪ ،‬ڈاڑھی گھنی اورمونچھیں بڑی بڑی‪،‬‬
‫قدنہایت طویل‪ ،‬یہاں تک کہ سینکڑوں کے مجمع میں‬
‫کھڑے ہوں تو سب سے سربلند نظرآئیں۔‬
‫ازواج و اوالد‬
‫عمرنے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے‪ ،‬ان کے‬
‫ازواج کی تفصیل یہ ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬زینب‬
‫‪ .2‬ہم‌شیِر عثمان بن مظعون یہ مکہ میں مسلمان‬
‫ہوکر مریں۔‬
‫‪ .3‬قریبہ بنت میۃ المخزومی‪ ،‬مشرکہ ہونے کے باعث‬
‫انھیں طالق دی دی تھی۔‬
‫‪ .4‬ملکیہ بنت جرول‪ ،‬مشرکہ ہونے کی وجہ سے ان‬
‫کو بھی طالق دیدی ‪ #‬عاتکہ بنت زید‪ ،‬ان کا‬
‫نکاح پہلے عبد اللہ بن ابی بکرؓ سے ہوا تھا‪ ،‬پھر‬
‫حضرت عمؓر کے نکاح میں آئیں‬
‫‪ .5‬ام کلثوم‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی‬
‫نواسی اورحضرت فاطمہؓ کی نور دیدہ تھیں‪،‬‬
‫عمرنے خاندا‌ِن‌نبوت سے تعلق پیدا کرنے کے لیے‬
‫‪17‬ھ میں چالیس ہزار مہر پر نکاح کیا۔‬

‫عمرکی اوالد میں حضرت حفصہؓ اس لحاظ سے سب‬


‫سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کے ازواج مطہرات میں داخل تھیں‪ ،‬عمرنے اپنی کنیت‬
‫بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی‪ ،‬اوالد مذکور کے نام‬
‫یہ ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬عبد اللہ‬
‫‪ .2‬عاصم‬
‫‪ .3‬ابوشحمہ‬
‫‪ .4‬عبدالرحمن‬
‫‪ .5‬زید‬
‫‪ .6‬محیر‬

‫ان سب میں عبد اللہ‪ ،‬عبید اللہ اور عاصم اپنے علم و‬
‫فضل اورمخصوص اوصاف کے لحاظ سے نہایت‬
‫[‪]176‬‬
‫مشہور ہیں۔‬

‫واقعات‬
‫وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر‬
‫رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب‬
‫شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ‬
‫اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ‬
‫یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ بیت المال سے لوگوں‬
‫میں تقسیم ہونے والے اس حصے سے زیادہ ہے جو‬
‫دوسروں کو مال تھا۔ تو عمر فاروق رضی الّٰلہ تعاٰل ی عنہ‬
‫نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبد الّٰلہ موجود ہے‪ ،‬عبد‬
‫اللہ بن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروق رضی الّٰلہ تعاٰل ی‬
‫عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے‬
‫الیا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں‬
‫میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں‬
‫گا۔ عبدالّٰلہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا مال تھا وہ بہت‬
‫ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔‬
‫اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ‬
‫حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو‬
‫دے دیا۔ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن امیر‬
‫المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز‬
‫گذری۔ بعض کہنے لگے یہ باندی کی ہے۔ آ پ ( عمر) نے‬
‫فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال‬
‫میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے‬
‫ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا‬
‫کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی‬
‫حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی‬
‫بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا‬
‫دیتے تھے ‪:‬‬

‫‪ .1‬گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔‬


‫‪ .2‬عمدہ کھانا نہ کھانا۔‬
‫‪ .3‬باریک کپڑا نہ پہننا۔‬
‫‪ .4‬حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔‬

‫اگر اس کے خالف ہوتا تو سزائیں دیتے۔‬

‫عادات‬
‫عمر علی سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے‬
‫چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمر کی‬
‫شہادت کے بعد جب علی آئے تو فرمایا میں اس کے‬
‫نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔‬
‫حدیث میں ذکر‬
‫ان ‪ 10‬صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن‬
‫عوف رضي اللہ تعاٰل ی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں‬
‫ہے کہ‪ :‬عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعاٰل ی عنہ بیان‬
‫کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‪:‬ابوبکر‬
‫رضی اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی ہیں‪ ،‬عمر رضی اللہ تعاٰل ی‬
‫عنہ جنتی ہیں‪ ،‬عثمان رضي اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی ہيں‪،‬‬
‫علی رضي اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی ہیں‪ ،‬طلحہ رضي اللہ‬
‫تعاٰل ی عنہ جنتی ہیں‪ ،‬زبیر رضي اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی‬
‫ہیں‪ ،‬عبدالرحمن رضی اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی ہیں‪ ،‬سعد‬
‫رضي اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی ہيں‪ ،‬سعید رضی اللہ تعاٰل ی‬
‫عنہ جنتی ہیں‪ ،‬ابوعبیدہ رضي اللہ تعاٰل ی عنہ جنتی‬
‫[‪]177‬‬
‫ہیں۔‬
‫فضائل‬

‫” اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ‬


‫“‬ ‫[‪]178‬‬
‫جاتا ہے۔‬

‫” جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں‬


‫جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر‬
‫“‬ ‫ہیں۔‬

‫” میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں‬


‫“‬ ‫[‪]179‬‬
‫سب سے سخت عمر ہیں۔‬

‫اہل بیت سے مروی فضائل‬


‫ٌ* علی سے روایت ہے کہ [أن عمر لیقول القول فینزل‬
‫القرآن بتصدیقہ [‪(}}]180‬بے شک عمر فاروق البتہ جب‬
‫کوئی کہتے ہیں تو قرآن ُا ن کی بات کی تصدیق کے لیے‬
‫نازل ہوتا ہے )* فضل بن عباس سے روایت ہے کہ رسول‬
‫اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا [عمر معنی وأنا مع عمر‪،‬‬
‫والحق بعدی مع عمر حیث کان ][‪(}}]180‬میں عمر() کے‬
‫ساتھ ہوں اور عمر ( ) میرے ساتھ ہیں اور حق میرے‬
‫بعد عمر () کے ساتھ ہو گا)* ابن عباس سے روایت ہے‬
‫کہ رسول اکرم ﷺ[ نظر رسول اللہ ‪-‬صلى اللہ عليہ‬
‫وسلم‪ -‬إلى عمر ذات يوم وتبسم‪ ،‬فقال‪" :‬يابن الخطاب‪،‬‬
‫أتدري لم تبسمت إليك?" قال‪ :‬اللہ ورسولہ أعلم‪ ،‬قال‪:‬‬
‫"إن اللہ ‪-‬عز وجل‪ -‬نظر إليك بالشفقة والرحمة ليلة‬
‫عرفة‪ ،‬وجعلك مفتاح اإلسالم][‪ ( }}]181‬رسول اکرم ﷺ‬
‫نے عمر فاروق کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور‬
‫فرمایا اے ابن خطاب !کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ‬
‫کی طرف دیکھ کر تبسم کیوں فرمایا تو عمرفاروق‬
‫عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں‬
‫آپ ﷺ نے فرمایا ‪:‬اللہ تعالی نے آپ کی طرف عرفہ کی‬
‫رات رحمت اور شفقت سے نظر فرمائی اور آپ کو‬
‫مفتاح اسالم (اسالم کی چابی) بنایا )* علی سے‬
‫روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے‬
‫سنا "عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة"( عمر فاروق‬
‫اہل جنت کے سردار ہیں )جب عمر فاروق تک یہ بات‬
‫پہنچی تو آپ ایک جماعت کے ساتھ علی کے پاس‬
‫تشریف الئے اور کہا کہ کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے‬
‫ُس نا ہے کہ عمر فاروق اہل جنت کے چراغ ہیں علی‬
‫جواب دیا جی ہاں عمر فاروق نے فرمایا آپ مجھے یہ‬
‫تحریر لکھ دیں تو علی نے لکھا ("بسم اللہ الرحمن‬
‫الرحيم‪ :‬هذا ما ضمن علي بن أبي طالب لعمر بن‬
‫الخطاب عن رسول اللہ ‪-‬صلى اللہ عليہ وسلم‪ -‬عن‬
‫جبريل عن اللہ تعالى أن عمر بن الخطاب سراج أهل‬
‫الجنة" عمر فاروق نے یہ تحریر لے کر اپنی اوالد میں‬
‫سے ایک بیٹا کو دی اور فرمایا (إذا أنا مت وغسلتموني‬
‫وكفنتموني فأدرجوا هذہ معي في كفني حتى ألقى بها‬
‫ربي‪ ،‬فلما أصيب غسل وكفن وأدرجت مع في كفنہ‬
‫ودفن)جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے غسل وکفن‬
‫دینا اور پھر یہ تحریر میرے کفن میں ڈال دینا یہاں‬
‫تک میں اپنے رب سے مالقات کروں جب آپ وصال‬
‫فرما گئے تو آپ کو غسل اور کفن دیا گیا اور آپ کے‬
‫کفن میں وہ تحریر رکھ کر دفن کر دیا گیا۔[‪*}}]182‬‬
‫کثیر ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ میں نے نے ابو‬
‫جعفر محمد بن علی سے ابو بکر اور عمر فاروق کے‬
‫بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا[ ُب ْغ ُض َأ ِب ي‬
‫َب ْكٍر َو ُع َم َر ِن َف اٌق ‪َ ،‬و ُب ْغ ُض اَأْلْن َص اِر ِن َف اٌق ۔ َي ا َكِث يُر َم ْن َش َّك‬
‫ِف يِه َم ا‪َ ،‬ف َق ْد َش َّك ِف ي الُّس َّن ِة ][‪ (}}]183‬ابوبکر‪ ،‬عمر فاروق‬
‫اور انصار کا بغض نفاق ہے۔ اے کثیر جس نے ان دونوں‬
‫حضرات کے بارے میں شک کیا اس نے سنت میں شک‬
‫کیا )* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے‬
‫ارشاد فرمایا [الَّلهّم أعّز اإلسالم بأبي جهل بن هشام أو‬
‫بعمر بن الخّط اب][‪(}}]184‬اے اللہ اسالم کو ابو جہل بن‬
‫ھشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے)تو عمر‬
‫فاروق نے صبح کی اور رسول اکرم ﷺ کے پاس آ گئے۔‬
‫* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد‬
‫فرمایا‪َ " :‬و ِزيَر اَي ِم ْن َأ ْه ِل الَّس َم اِء ِج ْب ِر يُل َو ِم يَكاِئ يُل ‪،‬‬
‫َو َو ِزيَر اَي ِم ْن َأ ْه ِل اَألْر ِض َأ ُبو َب ْكٍر‪َ ،‬و ُع َم ُر "[‪ *}}]185‬علی‬
‫سے روایت ہے [ ُكْن ُت َم َع الَّن ِب ِّي َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه َو َس َّلَم‬
‫َف َأ ْق َب َل َأ ُبو َب ْكٍر‪َ ،‬و ُع َم ُر ‪َ ،‬ف َق اَل ِل ي الَّن ِب ُّي َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه‬
‫َو َس َّلَم ‪َ " :‬ي ا َع ِل ُّي ‪َ ،‬ه َذ اِن َس ِّي َد ا ُكُه وِل َأ ْه ِل اْلَج َّن ِة ِم َن‬
‫اَألَّو ِل يَن َو اآلِخ ِر يَن ‪ِ ،‬إ ال الَّن ِب ِّي يَن َو اْلُم ْر َس ِل يَن "‪ُ ،‬ث َّم َق اَل ِل ي‪" :‬‬
‫َي ا َع ِل ُّي ‪ ،‬ال ُت ْخ ِب ْر ُه َم ا ][‪}}]185‬کہ میں نبی اکرم ﷺ کے‬
‫ساتھ تھا پس ابو بکر وعمر م تشریف الئے تو نبی اکرم‬
‫ﷺ نے مجھ سے کہا اے علی () یہ دونوں اہل جنت کے‬
‫اولین وآخرین کے بوڑھی عمر والوں کے سردار ہیں‬
‫انبیاومرسلین کے عالوہ پھر مجھے کہا کہ اے علی‪ ،‬تم‬
‫ان دونوں کو اس بات کی خبر نہ دینا۔* ابن عباس سے‬
‫فرماتے ہیں [َأ ْكِث ُر وا ِذ ْكَر ُع َم َر ‪َ ،‬ف ِإ َّن ُكْم ِإ َذ ا َذ َكْر ُت ُم وُه َذ َكْر ُت ُم‬
‫اْلَع ْد َل ‪َ ،‬و ِإ ْن َذ َكْر ُت ُم اْلَع ْد َل َذ َكْر ُت ُم اَهَّلل َت َب اَر َك‬
‫َو َت َع اَلى][‪ }}]185‬عمر فاروق کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا‬
‫کرو جب تم ان کا ذکر کرتے ہوتو تم عدل کا ذکر کرتے‬
‫ہو اور جب تم عدل کا ذکر کرتے ہو تو تم اللہ تعالٰی کا‬
‫ذکر کرتے ہو۔‬

‫عمر بن خطاب اور اقواِل عاَلم‬

‫” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن‬


‫“‬ ‫الخطاب ہوتے۔ از محمدصلی اللہ علیہ وسلم‬

‫” اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور‬


‫عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو‬
‫عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ بن‬
‫“‬ ‫[‪]186‬‬
‫مسعود‬
‫” عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و‬
‫“‬ ‫امین ہیں۔ از سیدنا علی‬

‫” ابوبکر و عمر تاریِخ اسالم کی دوشاہکار‬


‫“‬ ‫شخصیتیں ہیں۔ ایچ جی ویلز‬

‫مزید دیکھیے‬
‫عمر سیریز (ویڈیوز)‬

‫حوالہ جات‬
‫‪( .1‬اسد الغابہ جلد ‪ 3‬صفحہ ‪)676‬‬

‫‪( .2‬اسد الغابہ جلد ‪ 3‬صفحہ ‪)676‬‬

‫‪( .3‬سیر اعالم النبال تذکرہ عمرؓ )‬

‫‪( .4‬االصابہ جلد ‪ 4‬صفحہ ‪)464‬‬

‫‪( .5‬اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد ‪ 3‬صفحہ ‪)676‬‬


‫‪ .6‬أحمد‪ ،‬نذير‪ ،‬اإلسالم في التاريخ العالمي‪ :‬منذ وفاة‬
‫النبي محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحتى نشوب‬
‫الحرب العالمية األولى‪ ،‬المعهد األمريكي للثقافة‬
‫والتاريخ اإلسالمي‪ ،2001 ،‬ص۔ ‪ISBN 0-7388- .34‬‬
‫‪.5963-X‬‬

‫‪ .7‬الدولة العربية اإلسالمية األولى (‪ 41-1‬هـ ‪661-623 /‬‬


‫م)۔ الطبعة الثالثة ‪ 1995‬م۔ دكتور عصام شبارو۔ دار‬
‫النهضة العربية‪ ،‬بيروت ‪ -‬لبنان۔ صفحة‪279 :‬‬

‫‪.Hourani, p. 23 .8‬‬

‫‪ .9‬المكتبة اليهودية الرقمية‪ :‬الخالفة اإلسالمية الراشدة‬


‫(‪http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsourc‬‬
‫‪)e/History/Caliphate.html‬‬
‫‪ .10‬المكتبة اليهودية الرقمية‪ :‬الخالفة اإلسالمية الراشدة‬
‫(‪https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-c‬‬
‫‪ )aliphate‬آرکائیو شدہ (‪https://web.archive.o‬‬
‫‪rg/web/20170102065105/https://www.je‬‬
‫‪wishvirtuallibrary.org/jsource/History/Cali‬‬
‫‪ 2017-01-02 )phate.html‬بذریعہ وے بیک مشین‬
‫‪ .11‬الطبقات الكبرى‪ ،‬تأليف‪ :‬ابن سعد‪ ،‬ج‪ ،3‬ص‪.265‬‬

‫‪ .12‬محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن‬


‫الخطاب‪ ،‬ج‪ ،1‬ص‪.131‬‬

‫‪ .13‬الفاروق از شبلی نعمانی (‪http://ebooksland.blog‬‬


‫‪spot.com/2013/11/al-farooq-by-shibli-no‬‬
‫‪)mani.html‬‬

‫‪( .14‬عقد الفرید باب فضائل العرب)‬

‫‪( .15‬استیعاب تذکرہ عمر بن الخطابؓ )‬

‫‪( .16‬فتوح البلدان بالذری ‪)477 :‬‬

‫‪ .17‬کتاب البیان والتبین صفحہ ‪117‬‬


‫‪ .18‬عالمہ بالذری کی کتاب االشراف‬
‫‪( .19‬جامع ترمذی مناقب عمرؓ )‬

‫‪( .20‬سیرۃ النبی ج‪209 : 1‬و ‪ 210‬بحوالہ اسد الغابہ وابن‬


‫عسا کر وکامل ابن اثیر)‬

‫‪( .21‬دارقطنی باب الطہارۃ للقرآن )‬

‫‪( .22‬مستدرک حاکم ج ‪)59 : 4‬‬

‫‪( .23‬مسند ابن حنبل ج‪)17 : 1‬‬

‫‪Umar's Conversion to Islam" (https://ww" .24‬‬


‫‪w.al-islam.org/restatement-history-islam-a‬‬
‫‪nd-muslims-sayyid-ali-ashgar-razwy/umar‬‬
‫‪s-conversion-islam). Al-Islam.org. 10‬‬
‫‪ .November 2013‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 04‬اگست‬
‫‪.2016‬‬

‫‪( .25‬سیرالصحابہ ‪)326‬‬

‫‪( .26‬بخاری باب اسالم عمرؓ )‬

‫‪( .27‬بخاری ج‪ 1‬باب اسالم سعید بن زید واسالم عمرؓ )‬


‫‪ .28‬قسطالنی ج ‪)213 : 6‬‬

‫‪( .29‬صحیح بخاری اسالم عمرؓ )‬

‫‪( .30‬بخاری باب غزوۃ الخندق)‬

‫‪( .31‬ابن سعد جزو‪ 3‬ق اول ‪)193 :‬‬

‫‪ ( .32‬زرقانی ج ‪)371 : 1‬‬

‫‪( .33‬صحیح بخاری کتاب االذان باب بدء االذان)‬

‫‪ ،Armstrong .34‬ص‪152 :‬۔‬


‫‪( .35‬ابن جریر ‪،509 :‬واستیعاب ترجمہ عمر بن الخطاب)‬

‫‪( .36‬صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیرباب االمداد بالمالئکۃ‬


‫فی غزوہ بدر واحباحتہ الغنائم)‬

‫‪( .37‬طبری ‪)1411 :‬‬

‫‪( .38‬بخاری کتاب المغازی‪ ،‬غزوہ احد)‬

‫‪( .39‬بخاری کتاب الصلٰو ۃ باب مواقیت الصلٰو ۃ)‬

‫‪( .40‬سیرت ابن ہشام ج ‪)166 : 2‬‬

‫‪( .41‬بخاری کتاب المغازی غزوہ حدیبیہ)‬


‫‪( .42‬بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل‬
‫الحرب)‬

‫‪( .43‬ایضًا کتاب التفسیر سورۂ فتح )‬

‫‪( .44‬ایضا کتاب التفسیرسورۂ فتح)‬

‫‪ ( .45‬ترمذی فضائل ابی بکر ؛لیکن ترمذی سے یہ ثابت‬


‫نہیں ہوتا کہ عمرنے اس موقع پر یہ رقم پیش کی‬
‫تھی‪ ،‬البتہ سیروتاریخ سے ثابت ہوتا ہے)‬

‫‪( .46‬بخاری کتاب المناقب فضائل ابی بکرؓ )‬

‫‪( .47‬طبری ‪)2158 :‬‬

‫‪( .48‬فتوح الشام ازدی‪)131 ،‬‬

‫‪( .49‬کتاب الخراج قاضی ابو یوسف ‪)21 :‬‬

‫‪( .50‬فتوح البلدان بالذری‪،143 ،‬واقعات کی تفصیل اذدی‬


‫سے ملفوذہے)‬

‫‪( .51‬طبری ‪)2404 :‬‬

‫‪( .52‬فتوح البلدان بالذری ‪)147 :‬‬


‫‪( .53‬عقد الفرید ابن عبدربہ باب الکیدہ فی الحرب)‬

‫‪( .54‬مقریزی)‬

‫‪( .55‬مستدرک ج‪)91 : 1‬‬

‫‪( .56‬ایضًا ‪)91،93 :‬‬

‫‪( .57‬اسد الغابہ)‬

‫‪( .58‬الطبقات الکبرٰی )‬

‫‪( .59‬کنزالعمال ج‪)134 : 3‬‬

‫‪ ( .60‬فتوح البلدان بالذری ‪)276 :‬‬

‫‪( .61‬تاریخ طبری‪)2574 : ،‬‬

‫‪( .62‬الخراج االابی یوسف‪ ،‬باب‪:‬فصل فی تقبیل السوادی‬


‫واختیار‪)117: ،‬‬

‫‪ ( .63‬کنزالعمال ج‪)350 : 6‬‬

‫‪( .64‬ایضًا ‪)353‬‬

‫‪( .65‬کتاب الخراج ‪)7 :‬‬

‫‪( .66‬طبری ص ‪)641‬‬


‫‪( .67‬استیعاب تذکرہ نعمان)‬

‫‪( .68‬طبری ‪)2747 :‬‬

‫‪( .69‬فتوح البلدان ‪)219 :‬‬

‫‪( .70‬تاریخ طبری ‪)268 :‬‬

‫‪( .71‬کتاب الخراج ‪)66 :‬‬

‫‪ ( .72‬ابن اثیر ج ‪)418 : 2‬‬

‫‪( .73‬طبری ‪)12،271 :‬‬

‫‪( .74‬کنزالعمال ج ‪)355 : 6‬‬

‫‪( .75‬کتاب الخراج ‪)661 :‬‬

‫‪( .76‬ادب المفرد باب ہل یجلس خادمہ معہ اذااکل)‬

‫‪( .77‬مسند دارمی ‪)70 :‬‬

‫‪( .78‬اسدالغابہ تذکرہ زبرقان)‬

‫‪( .79‬طبری ‪)423:‬‬

‫‪ ( .80‬ابن سعد قسم اول جز ‪)201 : 3‬‬

‫‪ ( .81‬کتاب الخراج ‪)14،15 :‬‬


‫‪( .82‬فتح القدیر حاشیہ ہدایہ ج‪ 2‬صفحۃ ‪)247‬‬

‫‪( .83‬استیعاب تذکرہ امیر معاویہؓ )‬

‫‪( .84‬مقریزی ج ‪)2‬‬

‫‪( .85‬اسد الغابہ)‬

‫‪ ( .86‬طبری ذکر آبادی کوفہ)‬

‫‪( .87‬ایضا ‪)529‬‬

‫‪( .88‬فتوح البلدان ‪)365‬‬

‫‪( .89‬ایضًا ‪)366 :‬‬

‫‪( .90‬حسن المحاضرہ سیوطی ‪)68‬‬

‫‪ ( .91‬معجم البلدان ج ‪ 7‬کوفہ)‬

‫‪( .92‬ایضا ذکر فسطاط)‬

‫‪( .93‬جیزہ کے تفصیلی حاالت مقریزی میں مذکورہیں)‬

‫‪( .94‬تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں‪،‬‬


‫دیکھو کتاب الخراج ‪ 24 :‬ومقریزی ج‪،92 : 1‬وبالذری ‪:‬‬
‫‪)453‬‬
‫‪( .95‬فتوح البلدان ‪)464 :‬‬

‫‪ ( .96‬فتوح البلدان‪)148 : ،‬‬

‫‪( .97‬مفتوح البلدان ص ‪)148‬‬

‫‪( .98‬طبری ‪)2152 :‬‬

‫‪( .99‬کنز العمال ج‪)49 : 5‬‬

‫‪( .100‬مقریزی‪)246 : ،‬‬

‫‪( .101‬فتوح البلدان ‪)209:‬‬

‫‪( .102‬سیرۃ العمر میں مذکو رہے ان عمر بن الخطاب وعثمان‬


‫کان یرزقان الموذنین واالئمۃ والمعلمین)‬

‫‪( .103‬کنز العمال ج‪)281 : 1‬‬

‫‪( .104‬ایضا! ‪)217 :‬‬

‫‪( .105‬مسلم باب االستیذان)‬

‫‪( .106‬ابوداؤد کتاب الدیات باب دیۃ الجبین)‬

‫‪( .107‬تذکرۃ الحفاظ ج‪ 1‬تذکرہ عمر)‬

‫‪( .108‬ایضًا ‪)6 :‬‬


‫‪( .109‬ایضًا )‬

‫‪( .110‬اسد الغابہ تذکرۂ عمر)‬

‫‪( .111‬یعقوبی ج‪ 177 : 2‬میں اس کی پوری تفصیل ہے)‬

‫‪( .112‬ایضًا ‪)171 :‬‬

‫‪( .113‬استیعاب ج‪ 1‬تذکرہ نعمان بن عدی)‬

‫‪( .114‬کنزالعمال ج‪)355 : 6‬‬

‫‪( .115‬مستدرک حاکم جلد ‪ 3‬مناقب عبد اللہ بن عمرؓ )‬

‫‪( .116‬کتاب الخراج صفحۃ ‪)72‬‬

‫‪( .117‬فتوح البلدان صفحۃ ‪)163‬‬

‫‪( .118‬طبری ‪)2162 :‬‬

‫‪( .119‬بالذری صفحۃ ‪)477‬‬

‫‪( .120‬کتاب البیان والتبیین ج‪ 1‬صفحۃ ‪)117‬‬

‫‪( .121‬مسنددارمی ‪)26 :‬‬

‫‪( .122‬تاریخ الخلفاء ‪)12 :‬‬

‫‪( .123‬تفسیر ابن جریر ج‪ 6‬صفحۃ ‪)25‬‬


‫‪( .124‬بخاری ج‪)651 : 2‬‬

‫‪( .125‬تذکرۃ الحفاظ ج ‪ 1‬تذکرہ عمؓر )‬

‫‪ٰ( .126‬ط ٰہ ‪)132:‬‬

‫‪( .127‬بخاری کتاب الصلوۃ باب اذابکی االمام فی الصلٰو ۃ)‬

‫‪( .128‬الفرقان‪)13:‬‬

‫‪( .129‬کنزالعمال ج‪ 6‬صفحۃ ‪)337‬‬

‫‪( .130‬بخاری باب ایام الجاہلیۃ)‬

‫‪( .131‬کنزالعمال ج‪)224 : 6‬‬

‫‪( .132‬ایضًا )‬

‫‪( .133‬فتح الباری ج ‪)251 : 9‬‬

‫‪ ( .134‬فتوح الشام ازوی فتح بیت المقدس)‬

‫‪( .135‬مستدرک ج‪ 3‬مناقب عبد اللہ بن عمرؓ )‬

‫‪( .136‬کتاب الخراج ‪)24 :‬‬

‫‪( .137‬ابن سعدتذکرہ عبدالرحمن بن عوفؓ )‬

‫‪ ( .138‬کنزالعمال ج ‪)236 : 6‬‬


‫‪( .139‬ایضًا ‪)345 :‬‬

‫‪( .140‬بخاری‪َ ،‬ب اب َم ا ُذ ِك َر ِف ي اْلَح َج ِر اَأْلْس َو ِد ‪ ،‬حدیث‬


‫نمبر‪)1494:‬‬

‫‪( .141‬بخاری کتاب الحج)‬

‫‪( .142‬بخاری کتاب الجمعہ باب فضل الغسل یوم الجمعہ)‬

‫‪( .143‬ابوداؤد‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب فی االستغفاف)‬

‫‪( .144‬کنز العمال‪)6/350 ،‬‬

‫‪ ( .145‬ایضًا ‪)346 :‬‬

‫‪( .146‬ایضًا ‪)332 :‬‬

‫‪( .147‬ایضًا ‪)346 : ،‬‬

‫‪( .148‬کنزالعمال ج ‪)330 : 6‬‬

‫‪( .149‬کنزالعمال‪)346 /6 ،‬‬

‫‪( .150‬ایضًا ‪)348 :‬‬

‫‪( .151‬ایضًا )‬

‫‪( .152‬ایضًا ‪)357 :‬‬


‫‪( .153‬طبقات ابن سعد جلد ثالث‪ ،‬قسم اول ‪)199 :‬‬

‫‪( .154‬ایضًا ‪)198 :‬‬

‫‪( .155‬کنزالعمال ج‪)350 : 6‬‬

‫‪( .156‬ایضًا )‬

‫‪ ( .157‬بخاری کتاب المناقب باب فقہ البیعہ)‬

‫‪( .158‬کنزالعمال ج ‪)353 : 6‬‬

‫‪( .159‬کنزل العمال‪ ،‬جز‪،12‬حدیث نمبر‪)35811:‬‬

‫‪( .160‬ابن سعد قسم اول جزو‪ 41‬تذکرہ عباسؓ ‪)4 :‬‬

‫‪ ( .161‬بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب غزوہ فتح ومابعث بہ‬


‫حاطبؓ ابی بلقہ)‬

‫‪( .162‬کنز العمال ج ‪)246 : 2‬‬

‫‪( .163‬ایضًا ج ‪ 6‬وقائع الرمادہ ‪)343 :‬‬

‫‪( .164‬بخاری‪ ،‬کتاب المناقب باب قصہ البعہ واال تفاق علؓی ‪،‬‬
‫عثماؓن )‬

‫‪( .165‬االعراف‪)199:‬‬
‫‪( .166‬کنز العمال ج‪)354 : 6‬‬

‫‪( .167‬کنزالعمال ج ‪)352 : 6‬‬

‫‪( .168‬طبری ‪)2743 :‬‬

‫‪( .169‬کنزالعمال ج ‪)343 : 6‬‬

‫‪( .170‬ترمذی‪ ،‬فضائل عمرؓ )‬

‫‪( .171‬ابوداؤد کتاب الوصایاباب ماجاء فی الرجل یوقف‬


‫وقف)‬

‫‪ ( .172‬کنزالعمال ج‪)174 : 3‬‬

‫‪( .173‬بخاری مناقب عمرؓ )‬

‫‪( .174‬مستدرک حاکم ج ‪ 3‬تذکرہ بن خطابؓ )‬

‫‪( .175‬دیکھوفتوح البلدان ذکر العطاء فی خالفۃ عمر بن‬


‫الخطابؓ )‬

‫‪( .176‬طبقات ابن سعد تذکرہ عمر بن الخطابؓ )‬

‫‪ .177‬جامع ترمذی‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر‪1713‬‬

‫‪ .178‬صحیح البخاری و صحیح المسلم‬


‫‪ .179‬صواعق محرقہ‬
‫‪ ^ .180‬ا ب الریاض النضرۃ الجلد الثانی الباب الثانی فی‬
‫مناقب عمر الفضل السادس فی خصائصہ‪ ،‬ص‪298:‬‬

‫‪ .181‬الریاض النضرۃ الجلد الثانی الباب الثانی فی مناقب‬


‫عمر الفضل السادس فی خصائصہ‪ ،‬ص‪308:‬‬

‫‪ .182‬الریاض النضرۃ الجلد الثانی الباب الثانی فی مناقب‬


‫عمر الفضل السادس فی خصائصہ‪ ،‬ص‪311:‬‬

‫‪ .183‬فضائل الصحابۃ للدار قطنی ج‪،1:‬ص‪68:‬‬

‫‪ .184‬االصابۃ فی تمییز الصحابۃ‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‬


‫متوفی‪852:‬ھ‪ ،‬ذکر من اسمہ عمر‪ ،‬عمر بن الخطاب بن‬
‫نفیل‪ ،‬ج‪،4:‬ص‪،485:‬‬
‫‪ ^ .185‬ا ب پ اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ عزالدین ابن‬
‫االثیر متوفی‪،630:‬ج‪،4:‬عمر بن الخطاب‪ ،‬فضائلہ‪137 ،‬‬

‫‪ .186‬مشکٰو ۃ‬
‫کتابیات‬
‫الكامل في التاريخ – المجلد الثاني‪ ،‬ابن األثير‬
‫(‪)1979‬۔ عز الدين أبو الحسن علي بن محمد بن‬
‫أبي الكرم الشيباني۔ دار صادر۔‬
‫الكامل في التاريخ – المجلد الثالث‪ ،‬ابن األثير‬
‫(‪)1979‬۔ عز الدين أبو الحسن علي بن محمد بن‬

‫بیرونی روابط‬
‫تاریخ خلفاء (‪http://www.bogvaerker.dk/Bo‬‬
‫‪ )okwright/Umar.html‬بقلم جالل الدین‬
‫سیوطی‬
‫سیرت امیر المؤمنین عمر بن خطاب (‪http://ww‬‬
‫‪w.lailahailallah.net/Khutbahs/Khutbah4‬‬
‫‪ )0.asf‬آرکائیو شدہ (‪http://www.lailahailalla‬‬
‫‪Date( )h.net/Khutbahs/Khutbah40.asf‬‬
‫‪ )missing‬بذریعہ ‪lailahailallah.net (Error:‬‬
‫)‪ unknown archive URL‬بقلم شیخ سید محمد‬
‫یحیٰی الحسینی النینوی۔‬

‫عمر بن خطاب‬
‫بنو عدی‬

‫مناصب سنت‬

‫مابعد‬ ‫خلیفہ راشد‬ ‫ماقبل‬


‫عثمان بن عفان‬ ‫‪634‬ء – ‪644‬ء‬ ‫ابو بکر‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=5476756‬عمر_بن_خطاب=‪»title‬‬
‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 19‬اگست ‪2023‬ء کو ‪08:00‬‬
‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like