Professional Documents
Culture Documents
دستک کا خلاصہ
دستک کا خلاصہ
پس پردہ۔
ڈدامہ صنف
مصنف لکھتے ہیں کہ کمرے کے باہر اندھی اور طوفان برپا ہے ڈاکٹر زیدی بیماری کے باعث بستر پر لیٹے ہوئے ہیں
چہرے پہ تھکن اور کمزوری کے اثار نمایاں ہیں وہ سوچوں میں گم تھے کہ انہیں دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے
وہ بیگم کو دستک کی طرف متوجہ کرتے ہیں مگر بیگم وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی دستک نہیں ہو رہی مگر ڈاکٹر
زیدی مصر ہیں کہ دروازے پہ دستک ہو رہی ہے بیگم زیدی ان کے اس احساس کو وہم قرار دے کر انہیں ارام کی
تلقین کرتے ہیں
باہر بارش اور ہوا کا شور بڑھ جاتا ہے ڈاکٹر زیدی کو مسلسل دستک سنائی دیتی رہتی ہے بیگم کے بار بار تردید
کرنے پر وہ جھال اٹھتے ہیں اخر کار بیگم اٹھ کر دروازے تک جاتی ہیں باہر جھانک کر واپس اتی ہیں اور بتاتی ہیں
کہ باہر واقعی دستک نہیں ہو رہی ڈاکٹر بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتے ہیں
ڈاکٹر زیدی اور بیگم زیدی کے درمیان ایک نوجوان ڈاکٹر برہان کا ذکر چھڑ جاتا ہے وہ اس کی فرش شناسی اور کام
سے لگاؤ کی تعریف کرتے ہیں اسی دوران دروازے پر کال بیل بجتی ہے بیگم زید دروازہ کھولتی ہیں اور ڈاکٹر برہان
کو وہاں موجود پاتی ہیں ڈاکٹر برہان اندر اکر ڈاکٹر زیدی کا حال پوچھتے ہیں اور انہیں دوا لینے اور مکمل احرام کا
مشورہ دیتے ہیں
بیگم زیدی ڈاکٹر برہان کو ڈاکٹر زیدی کے وہم کے بارے میں بتاتی ہیں اسی دوران ڈاکٹر زیدی ماضی کی یادوں میں
کھو جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ 20 18سال پہلے وہ کلینک سے تھکے ہارے گھر ائے تو ایک بوڑھا ان کے گھر ایا
نوکر کے منع کرنے کے باوجود وہ کمرے تک اگیا اس کا بیٹا سخت بیمار تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ ڈاکٹر زیدی چل کر
اس کا معائنہ کر لیں تھکاوٹ کے باعث ڈاکٹر زیدی نے ساتھ دیں جانے سے انکار کر دیا نوکر نے بوڑھے کو کمرے
سے نکال دیا وہ تک دروازے پہ دستک دیتا رہا ڈاکٹر زیدی صبح اٹھے تو ان کا ضمیر مالمت کرنے لگا وہ رات کو
بوڑھے کے ساتھ کیوں نہ گئے
ڈاکٹر برہان نے جب یہ واقعہ سنا تو ڈاکٹر زیدی کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اسی بوڑھے کے پوتے ہیں جن کا بیٹا
اس رات ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا تھا دراصل بوڑھا چال گیا لیکن ڈاکٹر زیدی کا ضمیر اب بھی کبھی کبھی دستک
دیتا رہتا ہے ڈاکٹر برہان ہے ڈاکٹر زیدی کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اب اپ ارام سے سو جائیے اب یہ دستک نہیں
ہونی چاہیے