Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 20

Paid Paid Paid

See What Personalised Content We Avoid Legal Pitfalls: Understanding The Essential Guide to Mastering
Have Based on Your Browsing History Contract Law Special Education Teaching
Sponsored DiscoveryFeed Sponsored Search Ads Sponsored 369Network

‫( شام و سحر‬https://shamosahar.com/)


‫)‪ (http://shamosahar.com/‬شام و سحر‬

‫ادب کیا ہے‬ ‫‪‬‬

‫رشید امجد کی ادبی زندگی کا ارتقا‬


‫‪‬‬ ‫)‪May 13, 2023(https://shamosahar.com/2023/05/13/‬‬
‫‪‬‬ ‫)‪(https://shamosahar.com/author/waseem-jabran/‬وسیم جبران‬

‫‪     ‬‬
‫رشید امجد کا پہال افسانوی‬
‫مجموعہ “بیزار آدم کے بیٹے” تھا۔ اس‬
‫کتاب سے وہ بحیثیت عالمت نگار مشہور‬
‫ہوئے۔ اس کی اشاعت ‪ 1974‬میں ہوئی۔‬
‫پھر یکے بعد دیگرے ان کے کئی افسا نوی‬
‫مجموعے منظِر عام پر آتے چلے گئے۔ جن‬
‫میں ریت پر گرفت‪ ،‬سہ پہر کی خزاں‪ ،‬پت‬
‫جھڑ میں خود کالمی‪ ،‬بھاگے ہے بیاباں‬
‫مجھ سے‪ ،‬دشِت خواب اور ست رنگے‬
‫پرندے کے تعاقب میں قابِل ذکر ہیں۔ان‬
‫میں فنی اور فکری دونوں حوالوں سے‬
‫ارتقا ملتا ہے۔‬

‫رشید امجد نے حقیقت نگاری‬


‫کے عروج کے دور میں لکھنے کی ابتدا‬
‫کی۔ پہلے پہل نئے لکھنے والوں کی طرح‬
‫انھوں نے بھی “جنس” کے موضوع پر‬
‫لکھا لیکن کم لکھا اور چار پانچ سال میں‬
‫یہ انداز ترک ہو گیا۔ ‪ 1965‬میں رشید‬
‫امجد نے افسانہ “لیمپ پوسٹ” لکھا جسے‬
‫وہ “سنگم” کے نام سے پہلے تحریر کر چکے‬
‫تھے۔ ‪ 1966‬میں یہ “اوراق” میں شائع‬
‫ہوا۔ یہ ان کے ایک نئے ادبی سفر کا آغاز‬
‫بھی تھا۔ اس افسانے میں عالمتی طرِز‬
‫بیان نظر آتا ہے۔‬
‫‪advertisement‬‬

‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬

‫‪Permanent Hair Removal Solutions‬‬


‫‪Effective solutions for permanent hair‬‬
‫‪removal.‬‬
‫‪Hair removal‬‬

‫رشید امجد کی ادبی زندگی‬


‫کا آغاز ‪ 60‬کی دہائی میں ہوتا ہے۔ اس دور‬
‫میں ترقی پسند تحریک دم توڑ رہی تھی‬
‫اور افسانہ نگاری کا فن جدیدیت کی‬
‫طرف رواں دواں تھا۔ نئے ادبی رویے اور‬
‫خیاالت سامنے آ رہے تھے۔ ان کے خالف رِد‬
‫عمل بھی فطری تھا۔ رشید امجد بھی‬
‫جدید ادبی رجحانات سے متاثر نئے لکھنے‬
‫والوں میں شامل تھے۔ وہ نیا ادب متعارف‬
‫کروانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس‬
‫‪:‬حوالے سے وہ لکھتے ہیں‬

‫میں اس وقت ”‬
‫افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آ چکا‬
‫تھا لیکن اس وقت میرا مسئلہ افسانہ سے‬

‫زیادہ نئے ادب‬


‫کو متعارف کروانے کا تھا کیونکہ ہم‬
‫سمجھتے تھے کہ نئے رویوں اور نئے‬
‫خیاالت‬

‫کے بارے میں‬


‫ایک تعصب برتا جا رہا ہے‪ ،‬اس لیے ان غلط‬
‫فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت‬
‫ہے اور اس کا طریقہ کار‬
‫یہی ہےکہ نئے ادب کا ایک جامع فکری اور‬
‫”فنی تعارف کروایا جائے۔‬

‫رشید امجد نے اپنے زمانے کی‬


‫ادبی تحریکات اور نئے ادبی زاویے کے‬
‫فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس‬
‫سے ان کی تخلیقی اور تنقیدی صالحیتوں‬
‫میں نکھار آیا۔ رشید امجد ترقی پسند‬
‫خیاالت کے حامل تھے اور ترقی پسندوں‬
‫کی سرگرمیوں میں شریک بھی رہے لیکن‬
‫مخصوص نظریے کی‬ ‫وہ ادب میں کسی‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫تائید کے قائل نہیں تھے لٰہ ذا وہ جلد ہی‬
‫ترقی پسندوں سے الگ ہو گئے۔ ترقی‬
‫پسندوں کے حوالے سے ان کی رائے ہے کہ‬
‫ان میں سے بیشتر کی فکر بہت محدود‬
‫ہوتی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ‬
‫وہ اپنے خود ساختہ حصار کے قیدی ہوتے‬
‫ہیں اور دوسری وجہ باہر کی دنیا سے بے‬
‫‪:‬خبری ہے۔ چنانچہ رشید امجد لکھتے ہیں‬

‫اکثر ترقی پسندوں ”‬


‫کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی کھوہ میں‬
‫آنکھیں بند کیے بیٹھے مارکس کی کتابوں‬
‫کا ورد‬

‫کر رہے ہیں انھیں‬


‫”خبر ہی نہیں کہ باہر کیا کچھ ہو گیا ہے۔‬

‫ادب کی بقا اور ارتقا کے لیے‬


‫آزادی فکر کی حیثیت مرکزی ہے۔ لٰہ ذا‬
‫ادب ہم سے ایک خاص نوع کی آزادی کا‬
‫طالب ہوتا ہے۔ دنیا تغیر کا نام ہے۔ ہر لمحہ‬
‫نئی تبدیلیاں اور انقالبات زندگی کا حصہ‬
‫بنتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رشید‬
‫امجد ادب کو کسی مخصوص دائرے کا‬
‫پابند کرنے کے بجائے آزاد دیکھنا چاہتے‬
‫ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ ادب کی‬
‫بقا اور ارتقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔‬
‫‪:‬چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں کہ‬

‫ادب بنیادی طور ”‬


‫پر ایک تجسس پسند (سیکر) کی طرح ہے‬
‫جو ہر لمحہ نئی دنیاؤں ‪ ،‬نئی سمتوں اور‬
‫نئے رشتوں کا‬
‫متالشی رہتا ہے۔ ادب پر حد بندی اس‬
‫تجسس کی موت اور اس کی زندگی کے‬

‫خاتمہ کا‬
‫”اعالن ہے۔‬

‫پاکستان میں ‪ 1958‬کے‬


‫مارشل ال کے نفاذ سے ماحول میں ڈر اور‬
‫خوف کی فضا پیدا ہوئی۔ اس خوف کے‬
‫ماحول اور شہری حقوق کی پامالی کے‬
‫متعلق رشید امجد کا خیال ہے کہ‬
‫‪ Just‬نے دلوں میں‬
‫موت‬ ‫“جمہوریت کی‬
‫‪before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬

‫مایوسی اور ذہنوں میں‬

‫بے عملی پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا”‬


‫‪ 1965‬کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ‬
‫جناح کی شکست اور اس کے بعد پیش آنے‬
‫والے واقعات نے بھی ان کے ذہن پر گہرے‬
‫منفی اثرات مرتب کیے۔ وہ اس حوالے سے‬
‫‪:‬بیان کرتے ہیں کہ‬

‫بے دلی اور“‬


‫مایوسی جنوری ‪ 1965‬کے نام نہاد‬
‫انتخابات میں مادِر ملت محترمہ فاطمہ‬
‫جناح کی‬

‫شکست کے‬
‫بعد موت کا سایہ بن کر قوم پر منڈالنے‬
‫لگی ۔ کراچی میں کتوں کے گلوں میں‬

‫مقدس ماں‬
‫کی تصویریں لٹکا کر آمریت کی فتح کا‬
‫جشن منایا گیا۔ قوم کی بیٹیاں اس جرم‬
‫میں‬

‫اغوا کر لی‬
‫گئیں کہ ان کے بھائی آزادی کا بنیادی حق‬
‫”مانگتے تھے‬

‫رشید امجد جمہوری نظام‬


‫کے شدید حامی ہیں ۔ انھوں نے آمریت کو‬
‫ہمیشہ سخت نا پسندیدگی کی نگاہ سے‬
‫دیکھا اور بساط بھر اس کی مخالفت بھی‬
‫کی۔ مارشل ال کے دور میں جب اظہار پر‬
‫پابندی ہو‪ ،‬گھٹن کا ماحول ہو تو ایسے‬
‫میں عالمتی ادب فروغ پاتا ہے۔ پاکستان‬
‫کے عالوہ ہندوستان میں بھی ‪ 60‬کے‬
‫عشرے میں کم و بیش ایسے ہی حاالت‬
‫تھے لیکن وہاں کی فضا نسبتًا آزاد تھی‬
‫تاہم غربت‪ ،‬جنگ اور فرقہ ورانہ فسادات‬
‫کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ‪،‬‬
‫مایوسی اور نامرادی کی کیفیات پائی‬
‫جاتی تھیں۔ رشید امجد کے خیال میں‬
‫ادب پر بھی اس کے اثرات کا مرتب ہونا‬
‫‪ :‬ناگزیر تھا چنانچہ انہی کے الفاظ میں‬

‫نتیجًہ وہاں ”‬
‫بھی ادب میں مایوسی اور نامرادی کی‬
‫لہریں ابھر آئیں اور ایسی عالمتیں وجود‬
‫میں‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬

‫آئیں جن کا‬
‫مقصود جبر و استبداد اور خوف کی‬
‫کیفیات کا اظہار تھا۔ ان دس سالوں میں‬
‫لکھے‬

‫جانے والے‬
‫ادب میں پاکستان اور بھارت دونوں جگہ‬
‫‪ ،‬چڑیلیں‪ ،‬آسیب‪ ،‬سورج‪ ،‬سنسناتی‬

‫ہوا‪ ،‬لہو‪،‬‬
‫خزاں‪ ،‬صلیب‪ ،‬سیاہ راہ‪ ،‬زردی وغیرہ‬
‫“ عالمتیں اسی کا نتیجہ ہیں‬

‫مارشل ال کا نفاذ ایک جبر‬


‫ہوتا ہے اور رشید امجد کے ہا ں بھی اس‬
‫کا اظہار بطور جبر ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے‬
‫اپنی تحریروں میں ہمیشہ مارشل ال کی‬
‫مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک‬
‫افسانہ “گملے میں ُا گا ہوا شہر” بہت اہم‬
‫ہے۔ یہ‬

‫ان کا بہترین افسانہ ہے۔ اس افسانے میں‬


‫عوام کے محبوب لیڈر کو پھانسی پر چڑھا‬
‫دیا جاتا ہے۔ رشید امجد نے اس افسانے‬
‫میں لوگوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی‬
‫کوشش کی ہے۔ مارشل ال پابندی اور‬
‫گھٹن کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ تحریر و‬
‫تقریر پر پابندیاں بنیادی انسانی حقوق‬
‫سلب کرنے کے مترادف ہیں۔ مارشل ال کے‬
‫دوران لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس‬
‫پروان چڑھتا ہے۔ خوف و ہراس کی فضا‬
‫ہوتی ہے۔ اس افسانے میں اسی طرح کے‬
‫ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔‬
‫جبر کے ماحول میں آواز اٹھانے‬
‫والوں کو بھی گولی مار دی جاتی ہے۔ اس‬
‫لیے لوگ ڈرتے ہیں اور احتجاج کرنے سے‬
‫گریز کرتے ہیں۔ افسانے میں عوام کے‬
‫محبوب لیڈر کو سزائے موت دی جاتی‬
‫ہے۔ یہ خبر چشم زدن میں شہر میں‬
‫پھیل‬

‫جاتی ہے۔ لوگ غم و غصے کے عالم میں‬


‫اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ انہی میں افسانے کا‬
‫مرکزی کردار بھی شامل ہوتا ہے۔ میت‬
‫مرکزی کردار کو ایسا لگتا‬ ‫اٹھانے کے بعد‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫ہے کہ میت گم ہو گئی ہے۔ اب ہر شخص‬
‫پریشانی کے عالم میں میت کی گمشدگی‬
‫کے بارے میں بات کرتا ہے۔‬

‫یہ خبر قبر کھودنے والوں تک‬


‫بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہ بھی فکر مند ہو‬
‫جاتے ہیں کہ اب وہ کسے قبر میں دفن‬
‫کریں گے۔ اب ہر شخص خوف میں مبتال‬
‫ہے کہ کہیں اسے دفن نہ کر دیا جائے۔‬
‫لوگ اندر ہی اندر یہ بھی خیال کرتے ہیں‬
‫کہ انہیں اس جبر کے خالف اٹھ کھڑے‬
‫ہونا چاہیے۔ شاید وہ احتجاج کرتے تو اپنے‬
‫لیڈر کو بچا لیتے۔ یہ افسانہ ایک‬
‫اجتماعی تشکیک کے مسئلہ کی عکاسی‬
‫کرتا ہے جہاں سب لوگ سمجھتے ہیں کہ‬
‫میت گم ہو گئی ہے۔ رشید امجد اس تلخ‬
‫حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ‬
‫وطِن عزیز کے لوگ سوچ کی وسعت سے‬
‫عاری ہیں ۔ رشید امجد نے گملے میں ُا گے‬
‫ہوئے شہر کی عالمت‬

‫محدود سوچ کے حوالے سے تراشی ہے۔‬


‫کسی گملے میں کوئی تناور درخت نہیں‬
‫پنپ سکتا اور پاکستانی قوم کے افراد‬
‫بھی اتنے قد آور نہیں کہ اپنے محبوب لیڈر‬
‫کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں اور گملے‬
‫جیسے اپنے محدود حصار سے باہر نکلیں۔‬
‫اسی لیے ان کا لیڈر تختہ دار پہ لٹکا دیا‬
‫گیا ۔‬

‫رشید امجد کے الفاظ سے نئے نئے‬


‫معانی اور مفاہیم پیدا ہوتے ہیں۔ رشید‬
‫امجد زبان سے تخیل کا وہ کام لیتے ہیں‬
‫جو ان کے سوا کوئی اور افسانہ نگار نہیں‬
‫لے سکا۔ وہ عالمت کو کثرت سے استعمال‬
‫کرتے ہیں اور افسانے کو نیا پیراہن عطا‬
‫کرتے ہیں۔ ان کی اسی انفرادیت کے بارے‬
‫‪ :‬میں ڈاکٹر وزیر ٓاغا کہتے ہیں کہ‬

‫صحیح معنوں میں“‬


‫عالمتی افسانے لکھنے کے سلسلے میں سب‬
‫سے اہم نام رشید امجد کا ہے۔‬

‫رشید امجد نے نہ‬


‫صرف ایک منفرد اسلوب اختیار کیا بلکہ‬
‫کہانی اور اس کے کرداروں کے‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫عقب میں ایک بالکل‬
‫“ نئے اور کنوار منطقے کی تصویر دکھائی‬

‫رشید امجد جب افسانہ‬


‫لکھتے تھے تو کہانی شروع کرنے کے ساتھ‬
‫ہی اس کا ایک واضح انجام پہلے سے‬
‫سوچ کر نہیں رکھتے تھے۔ یہ بھی ضروری‬
‫نہیں ہوتا تھا کہ ابتدا میں جو سوچا ہے‬
‫کہانی وہیں ختم کی جائے۔ وہ اس کے‬
‫اختتام کے بارے میں پالننگ نہیں کرتے‬
‫تھے۔ افسانہ مکمل کرنے کے بعد وہ اس‬
‫میں ضروری کانٹ چھانٹ بھی کرتے تھے۔‬
‫ان کے مطابق یہ کام ان کے اندر کا نقاد‬
‫کرتا تھا۔ کہانی کے آغاز میں بعض اوقات‬
‫انہیں کافی سوچنا پڑتا۔ ایک دو جملے لکھ‬
‫کر کاٹ دیتے۔ پھر دوبارہ لکھتے۔ اگر بار بار‬
‫لکھ کر کاٹنا پڑتا تو سمجھ جاتے کہ یہ‬
‫کہانی ابھی خام ہے۔ جب شروع کے جملے‬
‫ان کی مرضی کے مطابق لکھے جاتے تو‬
‫‪:‬کہانی آگے بڑھتی تھی‬

‫میں لکھنے سے پہلے“‬


‫اس کی منطقی یا تکنیکی ترتیب قائم‬
‫نہیں کرتا ۔ خیال اپنے ابتدائی جملوں کے‬

‫ساتھ میرے ذہن‬


‫کی سکرین پر واضح ہوتا ہے۔ اگر یہ‬
‫ابتدائی جملے مناسب نہ ہوں تو اسے لکھ‬

‫نہیں سکتا ۔ اگر‬


‫میں پہال جملہ لکھتا ہوں یا دو ایک جملے‬
‫لکھ کر انہیں بار بار کاٹوں تو مجھے خود‬
‫اس کا‬
‫احساس ہو جاتا‬
‫ہے کہ یہ کہانی تخلیقی بھٹی میں ابھی‬
‫پوری طرح تیار نہیں ہوئی۔ میں اسے اسی‬

‫طرح چھوڑ دیتا‬


‫ہوں لیکن اگر میں نے ابتدائی چند جملے‬
‫لکھ لیے اور وہ میری خواہش کے مطابق‬

‫ہوئے تو کہانی‬
‫”آگے چل پڑتی ہے‬

‫بطور افسانہ نگار جب وہ‬


‫کسی صورِت حال کو دیکھتے یا ان کے‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫ذہن میں کوئی خیال آتا تو ایک خودکار‬
‫طریقے کے مطابق ان کے ذہن میں تخلیقی‬
‫عمل شروع ہو جاتا۔ بعض اوقات وہ خیال‬
‫فورًا ہی افسانے میں ڈھل جاتا اور بعض‬
‫اوقات وہ خیال مہینوں تخلیقی عمل سے‬
‫گزرتا ۔ ان کے افسانے ایک ہی مرکزی‬
‫خیال کے گرد بنے جاتے۔ وہ افسانے میں‬
‫تہہ در تہہ خیاالت یا مختلف پرتوں کے‬
‫قائل نہ تھے۔ ان کا تخلیقی عمل جدگانہ‬
‫تھا۔ ان کے موضوعات ندرِت خیال سے‬
‫نمو پاتے تھے اور ایک عام افسانہ نگار کی‬
‫تخلیق کا حصہ نہیں بن سکتے تھے کیونکہ‬
‫ان کا تخلیقی عمل عام افسانہ نگار کے‬
‫طریقہ کار سے مختلف تھا۔ بعض اوقات‬
‫ایک خیال ان کے ذہن میں آتا اور پھر‬
‫خود کار طریقے سے افسانے میں ڈھل‬
‫جاتا۔ وہ شعری وسائل کا‬

‫استعمال بھی کھل کر کرتے تھے اور اس‬


‫کی وجہ بھی وہ خود بیان کرتے ہیں کہ‬
‫کچھ خیاالت سادہ طریقے سے بیان کرنے‬
‫والے نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ایک فن کارانہ‬
‫مہارت درکار ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں‬
‫“َا ن نون” یا نامعلوم کی کھوج دکھائی‬
‫دیتی ہے۔وہ اس نامعلوم کو جاننا چاہتے‬
‫ہیں۔ وہ اس بھید کو کھولنا چاہتے ہیں کہ‬
‫یہ نامعلوم کون ہے؟ اور کیا ہے؟ اور ان کا‬
‫اس حوالے سے کیا کردار ہے۔ یہی سوچ‬
‫انہیں لکھنے پر ُا کساتی تھی۔ “تمنا بے‬
‫‪:‬تاب” میں وہ یوں بیان کرتے ہیں‬

‫لکھنا بھی ایک“‬


‫اظہار ہے اور اس اظہار کی توفیق اسی کو‬
‫حاصل ہوتی ہے جو حقیقت کو پہچان‬
‫لیتا ہے‪،‬‬
‫مجھے لکھنے کا دعوٰی نہیں‪ ،‬اپنے تئیں میں‬
‫لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں‬
‫حقیقت‬

‫کو اس کی‬
‫تہہ تک پہنچ کر پہچاننا چاہتا ہوں۔ یہ‬
‫نامعلوم کی تالش ایک ایسا سفر ہے جس‬
‫میں‬

‫اپنا آپ گم‬
‫ہو جاتا ہے۔ زماں کیا ہے اور مکاں سے پہلے‬
‫‪Just‬تھا؟ وہ جو دور‬
‫‪before‬میں‬
‫صورت‬ ‫وہ کس‬
‫‪you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬

‫سرمئی‬
‫دھند میں کہیں چھپا بیٹھا ہے کیا ہے اور‬
‫کون ہے؟ میرا اس سے تعلق کیا صرف‬

‫خالق اور‬
‫تخلیق کا ہے یا اس اسرار میں ‪ ،‬میرا بھی‬
‫کوئی کردار ہے‪ ،‬یہ وہ سوال ہیں جو‬
‫مجھے‬

‫”لکھنے پر مجبور کرتے ہیں‬

‫رشید امجد کے افسانوں میں‬


‫خیال کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ وہ‬
‫واقعے سے خیال تک کا سفر بڑی آسانی‬
‫سے طے کر لیتے ہیں۔ اسی لیے ہم ان کے‬
‫افسانوں کو کامیاب افسانے کہہ سکتے‬
‫ہیں۔ انہیں بیانیہ کی حدود اور تقاضوں‬
‫پر بھی دسترس حاصل ہے۔ وہ واحد‬
‫متکلم راوی کا استعمال کثرت سے کرتے‬
‫ہیں۔ ان کے بیشترافسانوں کا راوی “میں‬
‫” ہے۔‬

‫ان کے افسانوں میں کردار کی‬


‫شخصیت اور نفسی کیفیت کا بھرپور‬
‫اظہار ملتاہے۔ ان کے کرداروں میں عام لوگ‬
‫اور نچلے درجے کے لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔‬
‫بے جان اشیا بھی ان کے افسانوں میں‬
‫مرکزی کردار کی حیثیت سے سامنے آتی‬
‫ہیں۔ بعض الفاظ ان کے فکر و اظہار میں‬
‫‪:‬خاص اہمیت رکھتے ہیں‬

‫رشید امجد کے“‬


‫کرداروں میں بے روزگار تعلیم یافتہ‬
‫نوجوان‪ ،‬اس کے آوارہ گرد ساتھی‪ ،‬پاس‬
‫پڑوس کی لڑکیاں‪،‬‬
‫ماں‪ ،‬بہنیں‪ ،‬نچلے درجے کے خدمت گار‪،‬‬
‫وغیرہ زیادہ نظر آتے ہیں۔ مرشد‬

‫اور شیخ بھی‬


‫ان کے دو اہم کردار ہیں‪ ،‬جن کے حوالے سے‬
‫وہ مابعد الطبیعاتی تجربات کا اظہار کرتے‬

‫ہیں۔ اس کے‬
‫عالوہ بے جان اشیا کو بھی بعض موقعوں‬
‫پر کردار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫‪،‬گاڑی‪ ،‬گھر‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫دیوار‪ ،‬گلیاں‪ ،‬قبر‪،‬‬
‫سمندر وغیرہ ان کے کئی افسانوں میں‬
‫کردار بن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض‬

‫الفاظ اور‬
‫اصطالحات کو ان کے فکری نظام میں‬
‫مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قبر‪ ،‬موت‪،‬‬
‫‪،‬دھند‪ ،‬رات‬

‫تاریکی‪ ،‬پرندے ‪،‬‬


‫جانور‪ ،‬ریت ‪ ،‬وقت وغیرہ اسی نوع کے‬
‫”الفاظ ہیں‬

‫رشید امجد بطور افسانہ نگار‬


‫اپنے منفرد اسلوب اور انداِز فکر کے سبب‬
‫ادبی دنیا میں معروف ہیں۔ مرّو جہ‬
‫اسلوب سے انحراف اور لسانی تشکیالت کا‬
‫عمل ان کے فن کو ایک نئی جہت عطا کرتا‬
‫ہے۔ ان کے اسلوب میں شعریت کی جھلک‬
‫نمایاں طور پر نظر ٓاتی ہے جس سے ان کے‬
‫جملوں پر مصرعوں کا گمان ہوتا ہے ساتھ‬
‫ہی ساتھ تشبیہ‪ ،‬استعارہ اور عالمت کی‬
‫مدد سے وہ بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں ۔‬
‫تلمیح‪ ،‬تمثیل اور تصوف کی اصطالحات‬
‫کے ذریعے بھی وہ‬

‫افسانے کے معنی کو وسعت دیتے ہیں ۔‬


‫تخیل ٓافرینی اور حقیقی مناظر کی جھلک‬
‫کبھی الگ الگ اور کبھی انہیں باہم مالکر‬
‫منظر کی تشکیل کرتے ہیں ۔ رشید امجد‬
‫نے شاعرانہ وسائل سے اپنے افسانوں میں‬
‫اس قدر کام لیا ہے کہ نثر‪ ،‬نظم سے قریب‬
‫نظر ٓاتی ہے۔ لفظوں کی نشست و برخاست‬
‫جملوں کی ساخت کے ساتھ ساتھ‬
‫تشبیہات ‪ ،‬استعارات اور عالمات سے اس‬
‫طرح کام لیتے ہیں کہ ان کی نثر پر‬
‫شعریت کا گمان ہوتا ہے اور حسن و‬
‫لطافت اور تغزل کی وہ خصوصیت جو‬
‫شاعری کے ساتھ‬

‫مخصوص ہیں ان کے افسانوں میں بھی‬


‫اس کی جھلک نمایاں طور پر نظر ٓاتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے مضمون رشید‬
‫امجد کے افسانوں کی اسلوبیاتی اساس‬
‫‪:‬میں ان کے اسلوب کے متعلق لکھا ہے‬

‫یہ اسلوب اس“‬


‫کی ذات کے انکشافات کی دین ہے۔ یہ‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬

‫کوئی اوپر سے اوڑھا ہوا اسلوب‬

‫نہیں ہے۔ اس‬


‫نے استعارتی و عالمتی اور شاعرانہ انداز‬
‫بیان زیب داستان کے لیے اختیار‬

‫نہیں کیا بلکہ‬


‫اس کے تجربات و احساسات ہی ایسے تھے‬
‫جن کو گرفت میں لینے کے لیے اسے‬

‫شاعری وسائل‬
‫سے کام لینا پڑا اس کے استعاروں اور‬
‫عالمتوں کے پیچھے اس کے اپنے تجربات‬
‫و‬

‫کیفیات کی‬
‫ایک دنیا ٓاباد ہے۔ اس کے بعض استعارے‬
‫تخلیقی کارنامے ہیں جو ایک خاص عہد‬

‫اور ایک قوم‬


‫“ کی تاریخ کے پورے دور پر محیط ہیں‬

‫مارکسی نقطہ نظر کی ٓاواز بھی‬


‫ان کے افسانوں میں گونجتی رہتی ہے۔‬
‫رشید امجد کا دل عام لوگوں کے لیے‬
‫دھڑکتا تھا اس لیے وہ ایسے معاشرے کی‬
‫تشکیل چاہتے تھے جہاں نہ صرف خواص‬
‫بلکہ عام لوگ بھی خوشی خوشی زندگی‬
‫گزار سکیں اسی لئے وہ عام لوگوں کی‬
‫کہانیوں کو موضوع بناتے تھے ۔ اسی وجہ‬
‫سے جب پورب اکیڈمی اسالم ٓاباد سے‬
‫‪ 2006‬میں ان کی افسانوی کلیات شائع‬
‫ہوئی تو اس کاعنوان بھی’’ عام ٓادمی کے‬
‫خواب‘‘ رکھا ۔‬
‫رشید امجد کے یہاں بھی افسانے‬
‫کے روایتی اصولوں سے انحراف نظر ٓاتا‬
‫ہے۔ ان کے ہاں پالٹ بھی ہوتا ہے اور کردار‬
‫بھی لیکن یہ پالٹ روایتی پالٹ اور کردار‬
‫سے مختلف ہوتے ہیں ۔ انہیں الفاظ کے‬
‫برتاؤ اور افسانے کے اسلوب پر گہری‬
‫دسترس حاصل ہے۔ اپنے خیاالت کے اظہار‬
‫کے لیے انھوں نے نت نئے تجربے کیے ہیں‬
‫۔‬

‫اس کے عالوہ انسان‪ ،‬انسانی‬


‫جذبات‪ ،‬معاشرہ‪ ،‬معاشیات‪،‬‬ ‫رّو یہ‪ ،‬انسانی‬
‫‪Just before you leave, here are more great articles that may interest you.‬‬
‫نفسیات‪ ،‬مارشل ال‪،‬صنعتی تہذیب کی بے‬
‫حسی‪ ،‬داخلی قرب‪ ،‬اپنے تشخص کی‬
‫تالش‪ ،‬سیاسی جبر‪ ،‬حاالت کی ستم‬
‫ظریفی‪،‬غرض مسلسل غوروفکر کے نتیجے‬
‫میں افسانوی‬

‫کینوس کو وسیع کیا ہے۔ ان کے افسانے کی‬


‫دنیا فکر و خیال سے لے کر مابعد طبعیاتی‬
‫تجربات تک پھیلی ہوئی ہے ۔ لٰہ ذا ہم کہہ‬
‫سکتے ہیں کہ موضوعات کے اعتبار سے‬
‫بھی وہ ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔‬
‫مزید تحریریں‬
ADAB ‫ادب‬

Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

2 ‫عصِر حاضر میں جدید محققین اور ان کی خدمات‬


(https://shamosahar.com/jadeed-muhaqaqeen-aur-un-ki-khidmat/)

READ MORE » (HTTPS://SHAMOSAHAR.COM/JADEED-MUHAQAQEEN-AUR-UN-KI-KHIDMAT/)

February 25, 2024 • No Comments


ADAB ‫ادب‬

Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

‫عصِر حاضر میں جدید محققین اور ان کی خدمات‬


(https://shamosahar.com/jadeed-muhaqaqeen-aur-un-ki-khidmat-2/)

‫تحقیق و جستجو انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ اپنے علم و ہنر کو بروئے کار ال کر حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔‬

READ MORE » (HTTPS://SHAMOSAHAR.COM/JADEED-MUHAQAQEEN-AUR-UN-KI-KHIDMAT-2/)

February 25, 2024 • No Comments


ADAB ‫ادب‬

Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

‫( سیاہ آنکھ میں مری ہوئی لڑکی‬https://shamosahar.com/siah-aankh-main-


mari-hoi-ladki/)

‫ڈاکٹر آنکھ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے محدب عدسے سے دو تین بار نہایت غور سے مریض کی سیاہ آنکھ میں جھانکا۔ بوڑھے‬

READ MORE » (HTTPS://SHAMOSAHAR.COM/SIAH-AANKH-MAIN-MARI-HOI-LADKI/)

February 24, 2024 • No Comments


ADAB ‫ادب‬

Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

‫ڈاکٹر نثار ترابی اور “تم سے کہنا تھا” کی تعارفی تقریب‬


(https://shamosahar.com/dr-nisar-turabi-tum-se-kehna-tha/)

‫ ادیب اور‬،‫مشاعرہ ختم ہوا تو شعرا چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہوئے۔ میں چائے کا کپ اٹھائے ممتاز شاعر‬

READ MORE » (HTTPS://SHAMOSAHAR.COM/DR-NISAR-TURABI-TUM-SE-KEHNA-THA/)

September 20, 2023 • No Comments

Around The Web


Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

Looking for More Content? We May Have What You Want


Sponsored | DiscoveryFeed
(https://paid.outbrain.com/network/redir?p=Uls-wywuwZJd1j9UQL9CJHxxgVW2tYKJJdq-mkZJ9sy7IjtNHWFHrf09h8MLReFXW
Mivjwdn0xS9mCrNfZVarc3mvrT4RMS771SByONqkmeqzs17Lpvzwu5mY5szrcaYtaAlW8pSEO38d-PrO8hlngsxdy-
riDsdVqaXjIPqQ4yk9U8za6Pi02sjGCQd9UsOyc0zZvK_1s5jgsjNfm5Q8NxMRovxarSKxQLsqcopjE2O0BvKf-TNUhhJPFwRSVojFr
et1Gxd2FUM2SpEHDerOnQ9DU8mt8XVgTtVRxhjNRgfFhspiKW3YE0BPF4Ie6oYuENqZLl47rx1gGBTB5RdqstmLl5d0Iuc4vqSjM
rPmnWr_CQ019j9bYwRfGfOKE9VLuaYWuqm6twdt0CovVrGRbh0gIES61NACF-2jMUAkKsToX7ufcec2UsJEN84_e1teEv6BrTJ7-
c9PPJjnl6bhYIwTBhkPwhG459kNy5fp0_D15Yf8aMu-
k4COn2po9lokdi13UbMsoFyAUJCd47rmSPZ1xMTah5m2r0Uptnq4O2voWD9MnpyAPk9m0rvzFvDV80yCOBaYWFzU7fksoaSfL
w3w85lsuFnsQ3BMtDa1vyHOSCqc74ToGWDBgsHKvpesN4u2KV0kob-47UGJ1-9qUhb0oOTQlA4aqODnKloJ69cvEfw4V0cQzJK
xRbAViTijNnrxigFU2GZtDWNtOY98Udjzo4z7SIk0fXAgqHcHAmrqJoEjTvDbS62Qj6CMvBUT54r7b-YjtWl1vD4E3IV9wFtYHsqtA&
Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

Find Your Path to Academic Excellence in Medicine


Sponsored | Search Ads

(https://paid.outbrain.com/network/redir?p=QuNYZ8XXy77FYBTr5EU2kdguytDFMf9E9QxCO89dTgSntoyT4FSUG0ycbRUMUcy
WzxQYnCndQQuIw8UoM2TFci6-ai_2wcPmAe2gYlQOIXkZt2pJCnNEzq3aY7UdHoLCCkUbV2kZluPPTIpsQOBEhUdKQQhiAPC4z
H8_cgvLHr3xZE7OzSBDUpPn1BEYLJbqmGFxKNoVPcpl6obANKucniH8OeQ38fsXMG51nR3DwV7fo4AGMPnPTNKtHnACCcch
vTm6_rXj7hKhhaEGoyyfKxC17wMeqgz2FBJGgX1OFdIQzhA8_wkmkgPZl-kic-_yXXrtBxwwHN7N4w00PoW4zuh56g66c_5b2JI-V
lffNQPHs_WVwuvmRLkuA2RgHRX69AWr3TKITvNYg90RbNljU82aE6nC1sxROgJMIVidoq36m8eAFq42pm0DNsTQUZgIHBoNM
hXm&c=d61e4517&v=4)

‫بالگ اور خبریں‬


BLOG ‫( بالگ‬https://shamosahar.com/blog/) ADAB ‫( ادب‬https://shamosahar.com/%d8%a7%d8%af%d8%a8/)

NEWS ‫( خبریں‬https://shamosahar.com/%d8%b4%d9%88%d8%a8%d8%b2/) ABOUT US (https://shamosahar.com/about-us/)

CONTACT US (https://shamosahar.com/contact-us/) Privacy Policy (https://shamosahar.com/privacy-policy/) ▾


All rights reserved

Just before you leave, here are more great articles that may interest you.

You might also like