Professional Documents
Culture Documents
یہ عمیرہ احمد کا ناول ہے
یہ عمیرہ احمد کا ناول ہے
ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ختم نبوت جیسے اہم اور حساس مو ضوع پر قلم اٹھایا ہے جس
سے ہمیں ان کے دل میں موجود جذبٔہ عشق رسولﷺ سے آگاہی ہوتی ہے۔
ناول کی مرکزی کردار ”امامہ“ اسالم آباد کی ایلیٹ کالس کے ایک قادیانی گھرانے سے تعلق
رکھنے والی لڑکی ہے اور میڈیکل کالج کی طالبہ ہے۔ وہ اپنے دل میں اسالم کے لیے نرم گوشہ
محسوس کرتی ہے۔ اس کی سہیلی زینب کو جب امامہ کے خیاالت کے بارے میں معلوم ہوتا
ہے تو وہ اسے مسلمان ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے بعد امامہ اپنے مذہب کا اسالم کے
ساتھ تقابلی جائزہ لینا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں امامہ اسالم کے بارے میں اتنی
کتابیں ،تفاسیر اور تراجم پڑھ لیتی ہے کہ آخری نبی کے بارے میں اس کا تصور واضح ہو نے لگتا
میڈیکل کالج الہور میں اس کی مالقات صبیحہ نامی لڑکی سے ہوتی ہے ،جو ایک مذہبی
جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک ہوتی ہے اور لڑکیوں کو دین کی بنیادی تعلیمات کے
بارے میں لیکچر دیا کرتی تھی۔ امامہ بھی اس کے لیکچر سننے لگی۔ ایک دن صبیحہ نے ختم
نبوت کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس نے بتایا کہ قرآن پاک وہ آخری کتاب ہے جو حضرت
محمدﷺ پر نازل ہوئی اور قرآن پاک میں ہی ہللا تعاٰل ی نے نبوت کا سلسلہ حضرت محمد
ﷺ پر ختم کرنے کا اعالن کر دیا۔اب کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اگر حضرت عیٰس یؑ کے دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ نزول نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہو
گا بلکہ ان کا نزول حضرت محمد ﷺ کی امت کے لیے ہی ہو گا اور آخری نبی پھر بھی
حضرت محمدﷺ ہی رہیں گے۔ ہللا تعاٰل ی قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ ”بات میں ہللا سے بڑھ
کر سچا کون ہے؟“ ۔ پھر خود حضرت محمد ﷺ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہللا
کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔
ہللا کی جانب سے انسانیت کے لئے ایک دین اور ایک آخری نبی کا انتخاب کیا جا چکا ہے۔ اب
کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں۔ اب صرف تقلید اور عمل کی ضرورت ہے اس ایک آخری اور
مکمل دین کی جسے پیغمبر اسالم حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ ہر وہ شخص خسارے
میں رہے گا جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے
امامہ ہاشم نے والدین کو بتائے بغیر اسالم قبول کر لیا۔ اس کے دل میں حضرت محمد ﷺ
کی محبت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی جس کو
وہ سن رہی تھی ،وہ آواز تھی ،محمد ﷺ۔ اس کی مالقات اپنی ایک سہیلی زینب کے
بھائی جالل انصر سے ہوتی ہے جو ایک اچھا نعت خواں ہے اور پر سوز آواز کا مالک ہوتا ہے۔
امامہ اس سے بہت متٔاثر ہوتی ہے۔ اسالم قبول کر لینے کے بعد وہ اپنے بچپن کے منگیتر
اسجد سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے کیونکہ وہ تو اب اس کے لیے غیر مسلم تھا۔
چند مالقاتوں کے بعد امامہ ،جالل انصر کو پسند کرنے لگتی ہے۔ اسی دوران اس کی حادثاتی
طور پراپنے ایک پڑوسی لڑکے ساالر سے ہوتی ہے جو امامہ کے بھائی وسیم کا واجبی سا
دوست ہوتا ہے۔ ساالر زخمی ہو جاتا ہو اور امامہ کو اس کی مرہم پٹی کرنی پڑتی ہے۔ وہ امیر
ماں باپ کا بہت بگڑا ہوا لڑکا ہے۔ لیکن بال کا ذہین اور + 150آئی کیو کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اس
لڑکے کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ امامہ کے گھر والوں کو ایک دن اس حقیقت کا علم ہو ہی جاتا
وہ سخت ناراض بھی ہوتے ہیں اور اس کی شادی زبردستی اسجد سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ
انکار کر دیتی ہے اور جالل سے رابطہ کر کے اس سے شادی کی درخواست کرتی ہے۔ مگر وہ
امامہ کے اثر و رسوخ والے خاندان سے ڈر کر انکار کر دیتا ہے۔ ادھر اسجد بھی تعاون کرنے اور
شادی سے انکار کرنے کو تیار نہیں ہوتا ،مجبورًا وہ ساالر ہی سے رابطہ کرتی ہے اور درخواست
کرتی ہے کہ تم مجھ سے وقتی طور پر نکاح کر لو اور کسی طرح موجودہ صورت حال سے نکال
لو۔پھر بعد میں مجھے طالق دے کر آزاد کر دینا۔ وہ اس بات کو ایڈوینچر سمجھ کر تیار ہو جاتا ہے
۔ دونوں چھپ کو نکاح کر لیتے ہیں اور پھر امامہ اپنے والد کو بتا دیتی ہے کہ میں نکاح کر چکی
ہوں مگر وہ لڑکے کا نام نہیں بتاتی۔ والد غضب ناک ہو کر اس کی پٹائی کر دیتا ہے۔
اب وہ غیر مسلم گھرانے میں رہنا بھی نہیں چاہتی۔ وہ ساالر کی مدد سے گھر چھوڑ کر الہور
چلی جاتی ہے۔ گھر والے بہت تالش کرتے ہیں مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔اس موقع پر
مصنفہ نے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امامہ اپنے اقدام سے اس لیے مطمئن تھی
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس نے ہللا اور اس کے نبیﷺ کی محبت میں اپنے گھر اور والدین
کو چھوڑا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ساالر کو فون کر کے طالق کا تقاضا کرتی ہے مگر وہ اس
کو تنگ کرنے کی خاطر انکار کر دیتا ہے ،پھر دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔
اس کے بعد ساالر ڈپریشن اور بے خوابی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس نے مذہب میں دلچسپی
لینا شروع کر دی۔ اسالمی کتب کا مطالعہ کرنے لگا ،پھر اس کی مالقات ایک عرب سکالر خالد
عبد الرحٰم ن سے ہوئی جنہوں نے اس کو قرآن حفظ کرنے کا مشورہ دیا جو اس نے تھوڑی سی
ہچکچاہٹ کے بعد شروع کر دیا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ اس نے 8ماہ میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ ایک
دن خالد عبد الرحٰم ن نے خواب میں ساالر کو حج کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسے حج پر
ہللا کے گھر میں پہنچ کر تو اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس کے دل کی تمام آالئشیں دھل
گئیں۔ حج سے واپس آ کر اس نے ایم بی اے مکمل کیا۔ پھر ایم فل کرنے لگا ،ساتھ ہی ساتھ
یونیسیف میں مالزمت بھی کرنے لگا۔ یوں اس کی زندگی بہت مصروف ہو گئی۔ مگر دل کی بے
سکونی ختم نہ ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ اپنے بھائی کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آ رہا تھا،
فالئیٹ میں اس کی مالقات ڈاکٹر فرقان سے ہوتی ہے جو حافظ قرآن بھی تھے اور انگلینڈ سے
ساالر ان سے بے تکلف ہو گیا اور ان سے اپنا مسئلہ شیئر کیا کہ ماضی کے گناہوں کی وجہ
سے مجھے سکون نہیں ملتا۔ مجھے کسی پیر کامل کی تالش ہے جو مجھے اس تکلیف سے
نجات دے اور زندگی کا رستہ دکھا دے۔ ڈاکٹر فرقان گأوں میں فالحی کام کرتے تھے۔ سکول اور
ڈسپنسری چالتے تھے ،عوام کی خدمت کرتے تھے اور وطن کی مٹی کا حق ادا کرتے تھے۔
انہوں نے ساالر کو بھی فالحی کام کرنے کے لیے قائل کر لیا۔ لٰہ ذا وہ اپنے گأوں جا کے اپنے
باپ کے نام پر سکندر عثمان ہائی سکول قائم کرتا ہے جہاں غریب لوگوں کو مفت تعلیم دی
جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرقان ساالر کو ایک با عمل عالم سید سبط علی کے پاس لے جاتا ہے۔
وہ اس کو دوسرے علما سے مختلف لگتے ہیں اور ان کی باتوں سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ سید
سبط علی شکر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس پر اپنی ان
گنت نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے اور ہمارے اعمال کے مطابق ان میں کمی بیشی بھی کرتا
رہتا ہے مگر سلسلہ منقطع نہیں کرتا اور بدلے میں ہم سے شکر کی ادائیگی چاہتا ہے۔ شکر
ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے جو ہمارے دلوں کو کشادگی سے تنگی کی طرف لے
جاتی ہے۔جو ہماری زبان پر شکوہ کے عالوہ کچھ آنے ہی نہیں دیتی۔ اگر ہم ہللا کا شکر ادا کرنا
نہیں سیکھتے تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی عادت بھی نہیں پڑتی۔ اگر ہم ہللا کے
احسانوں کو یاد نہیں رکھتے تو مخلوق کے احسانات کو بھی یاد نہیں رکھ سکتے۔ ڈاکٹر فرقان
مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے اسالمک سٹڈیز
اور اسالمک ہسٹری کی تعلیم دیتے رہے تھے۔ پاکستان میں بھی ایک یونیورسٹی سے منسلک
سید سبط علی ،ڈاکٹر فرقان اور ان کے تمام ساتھی جو فالحی کاموں میں حصہ لے رہے تھے ،
وہ سب معاشرے میں تبدیلی النا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔
اور شاید ان کی زندگی میں ممکن نہ ہو مگر وہ ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم کر دینا چاہتے تھے
جس پر بعد میں آنے والی نسلیں تعمیر کرتی رہیں۔ ساالر اب پریکٹیکل مسلمانوں سے متعارف
ہو رہا تھا جو دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے اور دونوں انتہأوں کے بیچ کے
راستے پر چلنے کا طریقہ جانتے تھے۔
ایک دوست اسے اپنی گرل فرینڈ امامہ کے بارے میں بتاتا ہے جس کا تعلق ریڈ ایریا سے تھا تو
ساالر کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ اس سے درخواست کرتا ہے کہ
مجھے اس سے مال دو۔ لیکن وہاں پہنچ کر وہ جب دیکھتا ہے کہ وہ کوئی دوسری لڑکی ہے تو
وہ وہیں سجدے میں گر جاتا ہے۔ اسے ہللا کی ایک نئی پہچان ہوتی ہے اور وہ اس کا شکر بجا
التا ہے کہ ہللا نے اسے ایک بہت بڑی اذیت سے بچا لیا ہے۔ ہللا چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔
وہ ہللا کے حضور بلک بلک کر روتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ امامہ سے محبت کرنے لگا
ہے۔ اس نے بیرون ملک مالزمت سے استعٰف ی دے دیا اور مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا
فیصلہ کر لیا۔ فالحی کاموں میں اسے سکون ملنے لگا۔ الہور میں ایک غیر ملکی بنک میں
مالزمت کرنے لگا اور مختلف اداروں میں معاشیات پر لیکچر بھی دینے لگا۔ الہور میں قیام کے
دوران سید سبط علی اور ڈاکٹر فرقان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مال۔
یہ لوگ دیہاتوں میں زیادہ سکول کھولنا چاہتے تھے تاکہ وہاں کے غریب لوگ تعلیم سے بہرہ ور
ہو کر باشعور ہوں اور بہتر روزگار بھی حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹر سبط علی فرماتے ہیں کہ اسالم
تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے۔ اسالم یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر وقت سر پر ٹوپی پہنے،
ہاتھ میں تسبیح پکڑے ،مصٰل ی بچھائے بیٹھے رہیں۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا
مطالبہ کرتا ہے ،دیانت داری اور لگن چاہتا ہے ،اخالص اوراستقامت مانگتا ہے۔
اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کا متاثر کرتا ہے۔ ساالر کو
ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں ایک رہبر مل گیا تھا ،جس کی تالش میں وہ تھا۔ انہوں نے بتایا
کہ کسی بھی قوم پر عروج صرف اس لئے نہیں آیا کہ اسے ایک کتاب اور نبی دے دیا گیا۔ جب
تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لیے اپنی اہلیت ثابت نہیں کر دی ،وہ
کسی مقام ،کسی مرتبہ اور کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ آج کل مسلمانوں کے ساتھ
یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ساالر ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔
ایک دن انہوں نے ”پیر کامل“ پر لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”پیر کامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل
سے ہللا کی عبادت کرتا ہے ،نیک اور پارسا ہوتا ہے۔ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے اس حد تک
جس حد تک ہللا چاہے ،اس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے ،وہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے مگر اسے
الہام نہیں ہوتا بلکہ اس پر وحی اترتی ہے اور وحی صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ایک الکھ چوبیس
ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیر کامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کر
دیا گیا“۔
پیر کامل کی تالش ہللا خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔ پیر کامل کی یہ تالش ہی انسانوں
کو ہر زمانے میں اتارے گئے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی اور پھر یہ سلسلہ حضرت محمد
ﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کے لئے کسی اور پیر کامل کی
گنجائش نہیں رکھی گئی۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو ہللا نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے
قرآن پاک میں بتا دیا ہے ،صاف اور دو ٹوک الفاظ میں۔
وہ کام کریں جس کا حکم ہللا اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے دیتا ہے اور اس کام سے رک
جائیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کو کھول کر دیکھیے ،کہیں کسی دوسرے پیر کامل کا
اشارہ نہیں ملتا۔ پھر ہم کیوں خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ خود اٹھائیے ،دعائیں
مانگیے ،ہللا اگر دے دے تو شکر ادا کیجیے ،نہ دے تو صبر کیجیے۔ اگر زندگی کا قرینہ اور سلیقہ
نہیں آ رہا تو اسؤہ حسنہ ﷺ کی طرف چلے جائیں ،آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔ انہوں نے
کہا کہ احترام ہر کسی کا کریں ،ہر مومن کا ،ہر ولی کا ،ہر بزرگ کا ،ہر شہید کا ،ہر صالح کا ،ہر
پارسا کا ،مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور راہنمائی صرف حضرت محمدﷺ سے لیں۔ کیونکہ
انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے بلکہ جو کچھ بتایا ہے وہ ہللا کا نازل کردہ ہے۔
ساالر کو آٹھ سال بعد اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سواالت کے جوابات مل گئے تھے۔ وہ
جان گیا تھا کہ امامہ ہاشم نے حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا گھر اور خاندان کیوں
چھوڑ دیا تھا۔ ساالر کے دل میں ابھی تک امامہ کے سلسلے میں بے سکونی تھی۔ ایک دن
اس کے والد نے بتایا کہ امامہ نے ایک مرتبہ ان کو فون کر کے ساالر کے بارے میں پوچھا تھا مگر
انہوں نے جھوٹ بوال کہ ساالر مر چکا ہے۔ یہ سن کر تو وہ اور بھی زیادہ مایوس ہو گیا کہ میری
موت کی خبر سن کر تو وہ آزاد ہو گئی ہو گی اور شاید کسی اور سے شادی بھی کر چکی ہو۔
اسی مایوسی کے عالم میں وہ عمرے پر چال جاتا ہے۔ وہاں حرم میں بیٹھے بیٹھے اس کی
آنکھ لگ جاتی ہے۔ اس دوران وہ خواب میں اپنے آپ کو باب کعبہ کے سامنے بلند آواز میں تلبیہ
پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ امامہ ہاشم اس کے بائیں کندھے کے پیچھے
کھڑی دھیمی آواز میں تلبیہ پڑھ رہی ہے ،وہ اس کو مڑ کر دیکھتا ہے اور اس کی آنکھ کھل
جاتی ہے۔ جاگنے کے بعد وہ ملتزم کے پاس جا کر ہللا تعاٰل ی سے رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں
مانگتا ہے کہ اے میرے ہللا میں یہاں تیرے گھر میں کھڑا ہو کر تجھ سے پاک عورتوں میں سے
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔ میں اپنی نسل کے لیے اس عورت کو مانگتا ہوں جس نے آپ
کے پیغمبر ﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا جس نے ان کے لئے اپنی زندگی
کی تمام آسائشوں کو چھوڑ دیا۔ دوسری جانب امامہ بھی ایسا ہی خواب دیکھتی ہے۔ وہ ڈاکٹر
سبط علی کی بیٹی کی سہیلی بن جاتی ہے اور ان کے گھر میں پناہ لیتی ہے۔ اپنا نام بدل کر
آمنہ رکھ لیتی ہے تاکہ پہچانی نہ جا سکے۔ اپنے سارے حاالت ان کو بتا دیتی ہے۔ وہ اس کی
بھر پور مدد کرتے ہیں ،اس کی تعلیم مکمل کراتے ہیں۔
وہ ایم ایس سی کیمسٹری کر کے کسی فارماسیوٹیکل کمپنی میں مالزمت کرنے اور سبط
علی کی ایک رشتے میں بہن کے گھر رہنے لگتی ہے جو لوگوں کو اسے اپنی بیٹی کہہ کر
متعارف کرواتی ہے۔ ساالر کی دعأوں کو قبولیت کا درجہ مل جاتا ہے اور سبط علی کی مدد
سے اس کا نکاح دوبارہ امامہ سے ہو جاتا ہے۔ شادی کے بعد دونوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ
ساالر سکندر ہے اور وہ امامہ ہاشم ہی ہے۔ دونوں ہللا کے فیصلے پر ایمان التے ہیں۔
مصنفہ عمیرہ احمد نے اس کتاب میں ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنا عقیدہ درست اور پختہ
رکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے لیے ایک ہللا ،ایک قرآن ،ایک رسول اور اس کی سنت
ہی کافی ہے۔ اور ”پیر کامل“ صرف حضرت محمدﷺ ہی ہیں جو کہ ہللا کے آخری نبی ہیں۔ ان
کا اسؤہ حسنہ ہمارے لئے نجات کی راہ ہے۔ آپ ﷺ کے عالوہ ہمیں کسی دوسرے پیر کو