Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 8

‫یہ عمیرہ احمد کا ناول ہے۔ زیر نظر ناول ”پیر کامل“ ان کے شعور کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت‬

‫ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ختم نبوت جیسے اہم اور حساس مو ضوع پر قلم اٹھایا ہے جس‬

‫سے ہمیں ان کے دل میں موجود جذبٔہ عشق رسولﷺ سے آگاہی ہوتی ہے۔‬

‫ناول کی مرکزی کردار ”امامہ“ اسالم آباد کی ایلیٹ کالس کے ایک قادیانی گھرانے سے تعلق‬

‫رکھنے والی لڑکی ہے اور میڈیکل کالج کی طالبہ ہے۔ وہ اپنے دل میں اسالم کے لیے نرم گوشہ‬

‫محسوس کرتی ہے۔ اس کی سہیلی زینب کو جب امامہ کے خیاالت کے بارے میں معلوم ہوتا‬

‫ہے تو وہ اسے مسلمان ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے بعد امامہ اپنے مذہب کا اسالم کے‬

‫ساتھ تقابلی جائزہ لینا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں امامہ اسالم کے بارے میں اتنی‬

‫کتابیں‪ ،‬تفاسیر اور تراجم پڑھ لیتی ہے کہ آخری نبی کے بارے میں اس کا تصور واضح ہو نے لگتا‬

‫ہے اور قادیانیت سے اس کا دل بیزار ہونے لگتا ہے۔‬

‫میڈیکل کالج الہور میں اس کی مالقات صبیحہ نامی لڑکی سے ہوتی ہے‪ ،‬جو ایک مذہبی‬

‫جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک ہوتی ہے اور لڑکیوں کو دین کی بنیادی تعلیمات کے‬

‫بارے میں لیکچر دیا کرتی تھی۔ امامہ بھی اس کے لیکچر سننے لگی۔ ایک دن صبیحہ نے ختم‬

‫نبوت کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس نے بتایا کہ قرآن پاک وہ آخری کتاب ہے جو حضرت‬

‫محمدﷺ پر نازل ہوئی اور قرآن پاک میں ہی ہللا تعاٰل ی نے نبوت کا سلسلہ حضرت محمد‬

‫ﷺ پر ختم کرنے کا اعالن کر دیا۔اب کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔‬

‫اگر حضرت عیٰس یؑ کے دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ نزول نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہو‬

‫گا بلکہ ان کا نزول حضرت محمد ﷺ کی امت کے لیے ہی ہو گا اور آخری نبی پھر بھی‬

‫حضرت محمدﷺ ہی رہیں گے۔ ہللا تعاٰل ی قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ ”بات میں ہللا سے بڑھ‬

‫کر سچا کون ہے؟“ ۔ پھر خود حضرت محمد ﷺ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہللا‬

‫کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔‬
‫ہللا کی جانب سے انسانیت کے لئے ایک دین اور ایک آخری نبی کا انتخاب کیا جا چکا ہے۔ اب‬

‫کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں۔ اب صرف تقلید اور عمل کی ضرورت ہے اس ایک آخری اور‬

‫مکمل دین کی جسے پیغمبر اسالم حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ ہر وہ شخص خسارے‬

‫میں رہے گا جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے‬

‫گا۔ صبیحہ کے لیکچر نے امامہ کے دل و دماغ پر بہت اثر کیا۔‬

‫امامہ ہاشم نے والدین کو بتائے بغیر اسالم قبول کر لیا۔ اس کے دل میں حضرت محمد ﷺ‬

‫کی محبت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی جس کو‬

‫وہ سن رہی تھی‪ ،‬وہ آواز تھی‪ ،‬محمد ﷺ۔ اس کی مالقات اپنی ایک سہیلی زینب کے‬

‫بھائی جالل انصر سے ہوتی ہے جو ایک اچھا نعت خواں ہے اور پر سوز آواز کا مالک ہوتا ہے۔‬

‫امامہ اس سے بہت متٔاثر ہوتی ہے۔ اسالم قبول کر لینے کے بعد وہ اپنے بچپن کے منگیتر‬

‫اسجد سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے کیونکہ وہ تو اب اس کے لیے غیر مسلم تھا۔‬

‫چند مالقاتوں کے بعد امامہ‪ ،‬جالل انصر کو پسند کرنے لگتی ہے۔ اسی دوران اس کی حادثاتی‬

‫طور پراپنے ایک پڑوسی لڑکے ساالر سے ہوتی ہے جو امامہ کے بھائی وسیم کا واجبی سا‬

‫دوست ہوتا ہے۔ ساالر زخمی ہو جاتا ہو اور امامہ کو اس کی مرہم پٹی کرنی پڑتی ہے۔ وہ امیر‬

‫ماں باپ کا بہت بگڑا ہوا لڑکا ہے۔ لیکن بال کا ذہین اور ‪ + 150‬آئی کیو کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اس‬

‫لڑکے کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ امامہ کے گھر والوں کو ایک دن اس حقیقت کا علم ہو ہی جاتا‬

‫ہے کہ وہ اسالم قبول کر چکی ہے۔‬

‫وہ سخت ناراض بھی ہوتے ہیں اور اس کی شادی زبردستی اسجد سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ‬

‫انکار کر دیتی ہے اور جالل سے رابطہ کر کے اس سے شادی کی درخواست کرتی ہے۔ مگر وہ‬

‫امامہ کے اثر و رسوخ والے خاندان سے ڈر کر انکار کر دیتا ہے۔ ادھر اسجد بھی تعاون کرنے اور‬

‫شادی سے انکار کرنے کو تیار نہیں ہوتا‪ ،‬مجبورًا وہ ساالر ہی سے رابطہ کرتی ہے اور درخواست‬
‫کرتی ہے کہ تم مجھ سے وقتی طور پر نکاح کر لو اور کسی طرح موجودہ صورت حال سے نکال‬

‫لو۔پھر بعد میں مجھے طالق دے کر آزاد کر دینا۔ وہ اس بات کو ایڈوینچر سمجھ کر تیار ہو جاتا ہے‬

‫۔ دونوں چھپ کو نکاح کر لیتے ہیں اور پھر امامہ اپنے والد کو بتا دیتی ہے کہ میں نکاح کر چکی‬

‫ہوں مگر وہ لڑکے کا نام نہیں بتاتی۔ والد غضب ناک ہو کر اس کی پٹائی کر دیتا ہے۔‬

‫اب وہ غیر مسلم گھرانے میں رہنا بھی نہیں چاہتی۔ وہ ساالر کی مدد سے گھر چھوڑ کر الہور‬

‫چلی جاتی ہے۔ گھر والے بہت تالش کرتے ہیں مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔اس موقع پر‬

‫مصنفہ نے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امامہ اپنے اقدام سے اس لیے مطمئن تھی‬

‫کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس نے ہللا اور اس کے نبیﷺ کی محبت میں اپنے گھر اور والدین‬

‫کو چھوڑا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ساالر کو فون کر کے طالق کا تقاضا کرتی ہے مگر وہ اس‬

‫کو تنگ کرنے کی خاطر انکار کر دیتا ہے ‪ ،‬پھر دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔‬

‫اس کے بعد ساالر ڈپریشن اور بے خوابی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس نے مذہب میں دلچسپی‬

‫لینا شروع کر دی۔ اسالمی کتب کا مطالعہ کرنے لگا‪ ،‬پھر اس کی مالقات ایک عرب سکالر خالد‬

‫عبد الرحٰم ن سے ہوئی جنہوں نے اس کو قرآن حفظ کرنے کا مشورہ دیا جو اس نے تھوڑی سی‬

‫ہچکچاہٹ کے بعد شروع کر دیا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ اس نے ‪ 8‬ماہ میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ ایک‬

‫دن خالد عبد الرحٰم ن نے خواب میں ساالر کو حج کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسے حج پر‬

‫جانے کا مشورہ دیا۔‬

‫ہللا کے گھر میں پہنچ کر تو اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس کے دل کی تمام آالئشیں دھل‬

‫گئیں۔ حج سے واپس آ کر اس نے ایم بی اے مکمل کیا۔ پھر ایم فل کرنے لگا‪ ،‬ساتھ ہی ساتھ‬

‫یونیسیف میں مالزمت بھی کرنے لگا۔ یوں اس کی زندگی بہت مصروف ہو گئی۔ مگر دل کی بے‬

‫سکونی ختم نہ ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ اپنے بھائی کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آ رہا تھا‪،‬‬
‫فالئیٹ میں اس کی مالقات ڈاکٹر فرقان سے ہوتی ہے جو حافظ قرآن بھی تھے اور انگلینڈ سے‬

‫تعلیم مکمل کر کے پاکستان میں مقیم تھے۔‬

‫ساالر ان سے بے تکلف ہو گیا اور ان سے اپنا مسئلہ شیئر کیا کہ ماضی کے گناہوں کی وجہ‬

‫سے مجھے سکون نہیں ملتا۔ مجھے کسی پیر کامل کی تالش ہے جو مجھے اس تکلیف سے‬

‫نجات دے اور زندگی کا رستہ دکھا دے۔ ڈاکٹر فرقان گأوں میں فالحی کام کرتے تھے۔ سکول اور‬

‫ڈسپنسری چالتے تھے‪ ،‬عوام کی خدمت کرتے تھے اور وطن کی مٹی کا حق ادا کرتے تھے۔‬

‫انہوں نے ساالر کو بھی فالحی کام کرنے کے لیے قائل کر لیا۔ لٰہ ذا وہ اپنے گأوں جا کے اپنے‬

‫باپ کے نام پر سکندر عثمان ہائی سکول قائم کرتا ہے جہاں غریب لوگوں کو مفت تعلیم دی‬

‫جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرقان ساالر کو ایک با عمل عالم سید سبط علی کے پاس لے جاتا ہے۔‬

‫وہ اس کو دوسرے علما سے مختلف لگتے ہیں اور ان کی باتوں سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ سید‬

‫سبط علی شکر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس پر اپنی ان‬

‫گنت نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے اور ہمارے اعمال کے مطابق ان میں کمی بیشی بھی کرتا‬

‫رہتا ہے مگر سلسلہ منقطع نہیں کرتا اور بدلے میں ہم سے شکر کی ادائیگی چاہتا ہے۔ شکر‬

‫ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے جو ہمارے دلوں کو کشادگی سے تنگی کی طرف لے‬

‫جاتی ہے۔جو ہماری زبان پر شکوہ کے عالوہ کچھ آنے ہی نہیں دیتی۔ اگر ہم ہللا کا شکر ادا کرنا‬

‫نہیں سیکھتے تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی عادت بھی نہیں پڑتی۔ اگر ہم ہللا کے‬

‫احسانوں کو یاد نہیں رکھتے تو مخلوق کے احسانات کو بھی یاد نہیں رکھ سکتے۔ ڈاکٹر فرقان‬

‫مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے اسالمک سٹڈیز‬

‫اور اسالمک ہسٹری کی تعلیم دیتے رہے تھے۔ پاکستان میں بھی ایک یونیورسٹی سے منسلک‬

‫تھے اور الہور میں مقیم تھے۔‬

‫سید سبط علی‪ ،‬ڈاکٹر فرقان اور ان کے تمام ساتھی جو فالحی کاموں میں حصہ لے رہے تھے ‪،‬‬
‫وہ سب معاشرے میں تبدیلی النا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔‬
‫اور شاید ان کی زندگی میں ممکن نہ ہو مگر وہ ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم کر دینا چاہتے تھے‬
‫جس پر بعد میں آنے والی نسلیں تعمیر کرتی رہیں۔ ساالر اب پریکٹیکل مسلمانوں سے متعارف‬
‫ہو رہا تھا جو دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے اور دونوں انتہأوں کے بیچ کے‬
‫راستے پر چلنے کا طریقہ جانتے تھے۔‬
‫ایک دوست اسے اپنی گرل فرینڈ امامہ کے بارے میں بتاتا ہے جس کا تعلق ریڈ ایریا سے تھا تو‬

‫ساالر کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ اس سے درخواست کرتا ہے کہ‬

‫مجھے اس سے مال دو۔ لیکن وہاں پہنچ کر وہ جب دیکھتا ہے کہ وہ کوئی دوسری لڑکی ہے تو‬

‫وہ وہیں سجدے میں گر جاتا ہے۔ اسے ہللا کی ایک نئی پہچان ہوتی ہے اور وہ اس کا شکر بجا‬

‫التا ہے کہ ہللا نے اسے ایک بہت بڑی اذیت سے بچا لیا ہے۔ ہللا چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔‬

‫وہ ہللا کے حضور بلک بلک کر روتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ امامہ سے محبت کرنے لگا‬

‫ہے۔ اس نے بیرون ملک مالزمت سے استعٰف ی دے دیا اور مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا‬

‫فیصلہ کر لیا۔ فالحی کاموں میں اسے سکون ملنے لگا۔ الہور میں ایک غیر ملکی بنک میں‬

‫مالزمت کرنے لگا اور مختلف اداروں میں معاشیات پر لیکچر بھی دینے لگا۔ الہور میں قیام کے‬

‫دوران سید سبط علی اور ڈاکٹر فرقان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مال۔‬

‫یہ لوگ دیہاتوں میں زیادہ سکول کھولنا چاہتے تھے تاکہ وہاں کے غریب لوگ تعلیم سے بہرہ ور‬

‫ہو کر باشعور ہوں اور بہتر روزگار بھی حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹر سبط علی فرماتے ہیں کہ اسالم‬

‫تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے۔ اسالم یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر وقت سر پر ٹوپی پہنے‪،‬‬

‫ہاتھ میں تسبیح پکڑے‪ ،‬مصٰل ی بچھائے بیٹھے رہیں۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا‬

‫مطالبہ کرتا ہے‪ ،‬دیانت داری اور لگن چاہتا ہے‪ ،‬اخالص اوراستقامت مانگتا ہے۔‬

‫اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کا متاثر کرتا ہے۔ ساالر کو‬

‫ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں ایک رہبر مل گیا تھا‪ ،‬جس کی تالش میں وہ تھا۔ انہوں نے بتایا‬

‫کہ کسی بھی قوم پر عروج صرف اس لئے نہیں آیا کہ اسے ایک کتاب اور نبی دے دیا گیا۔ جب‬

‫تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لیے اپنی اہلیت ثابت نہیں کر دی‪ ،‬وہ‬
‫کسی مقام‪ ،‬کسی مرتبہ اور کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ آج کل مسلمانوں کے ساتھ‬

‫مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اعٰل ی طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکار ہیں۔‬

‫یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ساالر ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔‬

‫ایک دن انہوں نے ”پیر کامل“ پر لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”پیر کامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل‬

‫سے ہللا کی عبادت کرتا ہے‪ ،‬نیک اور پارسا ہوتا ہے۔ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے اس حد تک‬

‫جس حد تک ہللا چاہے‪ ،‬اس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے‪ ،‬وہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے مگر اسے‬

‫الہام نہیں ہوتا بلکہ اس پر وحی اترتی ہے اور وحی صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ایک الکھ چوبیس‬

‫ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیر کامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کر‬

‫دیا گیا“۔‬

‫پیر کامل کی تالش ہللا خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔ پیر کامل کی یہ تالش ہی انسانوں‬

‫کو ہر زمانے میں اتارے گئے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی اور پھر یہ سلسلہ حضرت محمد‬

‫ﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کے لئے کسی اور پیر کامل کی‬

‫گنجائش نہیں رکھی گئی۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو ہللا نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے‬

‫قرآن پاک میں بتا دیا ہے‪ ،‬صاف اور دو ٹوک الفاظ میں۔‬

‫وہ کام کریں جس کا حکم ہللا اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے دیتا ہے اور اس کام سے رک‬

‫جائیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کو کھول کر دیکھیے‪ ،‬کہیں کسی دوسرے پیر کامل کا‬

‫اشارہ نہیں ملتا۔ پھر ہم کیوں خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ خود اٹھائیے‪ ،‬دعائیں‬

‫مانگیے‪ ،‬ہللا اگر دے دے تو شکر ادا کیجیے‪ ،‬نہ دے تو صبر کیجیے۔ اگر زندگی کا قرینہ اور سلیقہ‬

‫نہیں آ رہا تو اسؤہ حسنہ ﷺ کی طرف چلے جائیں‪ ،‬آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔ انہوں نے‬

‫کہا کہ احترام ہر کسی کا کریں‪ ،‬ہر مومن کا‪ ،‬ہر ولی کا‪ ،‬ہر بزرگ کا‪ ،‬ہر شہید کا‪ ،‬ہر صالح کا‪ ،‬ہر‬
‫پارسا کا‪ ،‬مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور راہنمائی صرف حضرت محمدﷺ سے لیں۔ کیونکہ‬

‫انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے بلکہ جو کچھ بتایا ہے وہ ہللا کا نازل کردہ ہے۔‬

‫ساالر کو آٹھ سال بعد اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سواالت کے جوابات مل گئے تھے۔ وہ‬

‫جان گیا تھا کہ امامہ ہاشم نے حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا گھر اور خاندان کیوں‬

‫چھوڑ دیا تھا۔ ساالر کے دل میں ابھی تک امامہ کے سلسلے میں بے سکونی تھی۔ ایک دن‬

‫اس کے والد نے بتایا کہ امامہ نے ایک مرتبہ ان کو فون کر کے ساالر کے بارے میں پوچھا تھا مگر‬

‫انہوں نے جھوٹ بوال کہ ساالر مر چکا ہے۔ یہ سن کر تو وہ اور بھی زیادہ مایوس ہو گیا کہ میری‬

‫موت کی خبر سن کر تو وہ آزاد ہو گئی ہو گی اور شاید کسی اور سے شادی بھی کر چکی ہو۔‬

‫اسی مایوسی کے عالم میں وہ عمرے پر چال جاتا ہے۔ وہاں حرم میں بیٹھے بیٹھے اس کی‬

‫آنکھ لگ جاتی ہے۔ اس دوران وہ خواب میں اپنے آپ کو باب کعبہ کے سامنے بلند آواز میں تلبیہ‬

‫پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ امامہ ہاشم اس کے بائیں کندھے کے پیچھے‬

‫کھڑی دھیمی آواز میں تلبیہ پڑھ رہی ہے‪ ،‬وہ اس کو مڑ کر دیکھتا ہے اور اس کی آنکھ کھل‬

‫جاتی ہے۔ جاگنے کے بعد وہ ملتزم کے پاس جا کر ہللا تعاٰل ی سے رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں‬

‫مانگتا ہے کہ اے میرے ہللا میں یہاں تیرے گھر میں کھڑا ہو کر تجھ سے پاک عورتوں میں سے‬

‫ایک کو مانگتا ہوں۔‬

‫میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔ میں اپنی نسل کے لیے اس عورت کو مانگتا ہوں جس نے آپ‬

‫کے پیغمبر ﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا جس نے ان کے لئے اپنی زندگی‬

‫کی تمام آسائشوں کو چھوڑ دیا۔ دوسری جانب امامہ بھی ایسا ہی خواب دیکھتی ہے۔ وہ ڈاکٹر‬

‫سبط علی کی بیٹی کی سہیلی بن جاتی ہے اور ان کے گھر میں پناہ لیتی ہے۔ اپنا نام بدل کر‬

‫آمنہ رکھ لیتی ہے تاکہ پہچانی نہ جا سکے۔ اپنے سارے حاالت ان کو بتا دیتی ہے۔ وہ اس کی‬

‫بھر پور مدد کرتے ہیں‪ ،‬اس کی تعلیم مکمل کراتے ہیں۔‬
‫وہ ایم ایس سی کیمسٹری کر کے کسی فارماسیوٹیکل کمپنی میں مالزمت کرنے اور سبط‬

‫علی کی ایک رشتے میں بہن کے گھر رہنے لگتی ہے جو لوگوں کو اسے اپنی بیٹی کہہ کر‬

‫متعارف کرواتی ہے۔ ساالر کی دعأوں کو قبولیت کا درجہ مل جاتا ہے اور سبط علی کی مدد‬

‫سے اس کا نکاح دوبارہ امامہ سے ہو جاتا ہے۔ شادی کے بعد دونوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ‬

‫ساالر سکندر ہے اور وہ امامہ ہاشم ہی ہے۔ دونوں ہللا کے فیصلے پر ایمان التے ہیں۔‬

‫مصنفہ عمیرہ احمد نے اس کتاب میں ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنا عقیدہ درست اور پختہ‬

‫رکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے لیے ایک ہللا‪ ،‬ایک قرآن‪ ،‬ایک رسول اور اس کی سنت‬

‫ہی کافی ہے۔ اور ”پیر کامل“ صرف حضرت محمدﷺ ہی ہیں جو کہ ہللا کے آخری نبی ہیں۔ ان‬

‫کا اسؤہ حسنہ ہمارے لئے نجات کی راہ ہے۔ آپ ﷺ کے عالوہ ہمیں کسی دوسرے پیر کو‬

‫تالش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (جزاک ہللا)مضمون بھیجنے کا طریقہ‬

You might also like