Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 13

‫‪Al-Baqarah | Verse 285‬‬

‫ٰا َم َن الَّرُس ۡو ُل ِبَم ۤا ُاۡن ِزَل ِاَلۡی ِہ ِم ۡن َّرِّبٖہ َو اۡل ُم ۡؤ ِم ُنۡو َن ؕ ُک ٌّل ٰا َم َن ِباِہّٰلل َو َم ٰٓلِئَک ِتٖہ َو ُکُتِبٖہ َو ُرُسِلٖہ ۟ اَل ُنَفِّرُق َبۡی َن َاَح ٍد ِّم ۡن ُّر ُسِلٖہ ۟ َو َقاُلۡو ا َسِم ۡع َنا‬
‫﴾َو َاَطۡع َنا ۫٭ ُغ ۡف َر اَنَک َر َّبَنا َو ِاَلۡی َک اۡل َم ِص ۡی ُر ﴿‪۲۸۵‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫ایمان الیا جو رسول (کریم) اس (کتاب) پر جو اتاری گئی اس کی طرف اس کے رب کی طرف سے اور ( ایمان الئے) مومن‬
‫یہ سب دل ‪ 387‬سے مانتے ہیں ہللا کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو (نیز کہتے ہیں)‬
‫ہم فرق نہیں کرتے کسی میں اس کے رسولوں سے اور انھوں نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی ہم طالب ہیں تیری‬
‫بخشش کے اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 285‬‬


‫ٰٓل‬
‫ٰا َم َن الَّرُس ۡو ُل ِبَم ۤا ُاۡن ِزَل ِاَلۡی ِہ ِم ۡن َّرِّبٖہ َو اۡل ُم ۡؤ ِم ُنۡو َن ؕ ُک ٌّل ٰا َم َن ِباِہّٰلل َو َم ِئَک ِتٖہ َو ُکُتِبٖہ َو ُرُس ِلٖہ ۟ اَل ُنَفِّر ُق َبۡی َن َاَح ٍد ِّم ۡن ُّر ُس ِلٖہ ۟ َو َقاُلۡو ا َسِم ۡع َنا َو‬
‫﴾َاَطۡع َنا ۫٭ ُغ ۡف َر اَنَک َر َّبَنا َو ِاَلۡی َک اۡل َم ِص ۡی ُر ﴿‪۲۸۵‬‬

‫تفسیر صراط الجنان‬


‫ٰا‬ ‫ُک‬
‫‪ :‬اصول و ضروریاِت ایمان کے چار مرتبے ہیں } ٌّل َم َن ‪ :‬سب ایمان الئے۔ {‬
‫۔۔ ہللا تعالٰی کی وحدانیت اور اس کی تمام صفات پر ایمان النا۔)‪(1‬‬
‫۔۔ فرشتوں پر ایمان النا اور وہ یہ ہے کہ یقین کرے اور مانے کہ وہ موجود ہیں ‪ ،‬معصوم ہیں ‪ ،‬پاک ہیں ‪ ،‬ہللا تعالٰی کے اور)‪(2‬‬
‫اس کے رسولوں کے درمیان احکام و پیغام کے واسطے ہیں۔‬
‫۔۔ ہللا تعالٰی کی کتابوں پر ایمان النا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کتابیں ہللا تعالٰی نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس)‪(3‬‬
‫وحی کے ذریعے بھیجیں وہ بیشک و شبہ سب حق اور سچ اور ہللا تعالٰی کی طرف سے ہیں اور قرآن کریم َتغِییر‪ ،‬تبدیل اور‬
‫تحریف سے محفوظ ہے اور ُمَح کم وُم َتشابہ پر مشتمل ہے۔‬
‫۔۔ رسولوں پر ایمان النا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہللا تعالٰی کے رسول ہیں جنہیں اس نے اپنے بندوں کی طرف بھیجا‪ ،‬تمام)‪(4‬‬
‫رسول اور نبی‪ ،‬ہللا تعالٰی کی وحی کے امین ہیں ‪ ،‬گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ‪ ،‬ساری مخلوق سے افضل ہیں ‪ ،‬ان میں‬
‫بعض حضرات بعض سے افضل ہیں البتہ نبی ہونے میں سب برابر ہیں اور اس بات میں ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کریں‬
‫گے۔ نیز ہم ہللا تعالٰی کے ہر حکم کو سنیں گے ‪ ،‬مانیں گے اور اس کی پیروی کریں گے۔ یاد رکھیں کہ ایمان ُم َفَّصل کی بنیاد‬
‫یہی آیتِ مبارکہ ہے۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 285‬‬


‫ٰٓل‬
‫ٰا َم َن الَّرُس ۡو ُل ِبَم ۤا ُاۡن ِزَل ِاَلۡی ِہ ِم ۡن َّرِّبٖہ َو اۡل ُم ۡؤ ِم ُنۡو َن ؕ ُک ٌّل ٰا َم َن ِباِہّٰلل َو َم ِئَک ِتٖہ َو ُکُتِبٖہ َو ُرُس ِلٖہ ۟ اَل ُنَفِّر ُق َبۡی َن َاَح ٍد ِّم ۡن ُّر ُس ِلٖہ ۟ َو َقاُلۡو ا َسِم ۡع َنا َو‬
‫﴾َاَطۡع َنا ۫٭ ُغ ۡف َر اَنَک َر َّبَنا َو ِاَلۡی َک اۡل َم ِص ۡی ُر ﴿‪۲۸۵‬‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫ف اس آیت میں ایمان کا اجمالی تذکرہ کردیا کہ ہللا تعالٰی کو وحدہ ال شریک ماننا‪ ،‬فرشتوں کو نوری اور ہللا تعالٰی کی ‪387‬‬
‫فرمان بردار مخلوق تسلیم کرنا‪ ،‬تمام آسمانی کتابوں کو صحیح ماننا‪ ،‬تمام رسولوں کی رسالت پر بال استثنا ایمان النا اور یوم‬
‫قیامت پر یقین رکھنا یہ ہے ایمان۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 228‬‬


‫ؕ ‬
‫ِر َو‬ ‫ِخ‬ ‫ٰاۡل‬‫ا‬ ‫ِم‬ ‫ۡو‬‫َی‬ ‫ۡل‬ ‫ا‬ ‫ِہّٰلل‬
‫ِب َو‬ ‫ا‬ ‫َّن‬ ‫ِم‬ ‫ۡؤ‬‫ُی‬ ‫َّن‬ ‫ُک‬ ‫ۡن‬‫ِا‬ ‫َّن‬ ‫ِم‬ ‫ا‬ ‫َح‬ ‫ۡر‬‫َا‬ ‫ۤۡی‬‫ِف‬ ‫ُہّٰللا‬ ‫َق‬‫َل‬ ‫َخ‬ ‫ا‬ ‫َم‬ ‫َن‬ ‫ُتۡم‬ ‫ۡک‬‫َّی‬ ‫ۡن‬‫َا‬ ‫َّن‬ ‫َل‬
‫ُّل ُہ‬ ‫َیِح‬ ‫اَل‬ ‫َو‬ ‫ؕ ‬ ‫ٍء‬ ‫ٓۡو‬ ‫ُر‬‫ُق‬ ‫َۃ‬‫َث‬ ‫َو اۡل ُم َطَّلٰق ُت َیَتَرَّبۡص َن ِبَاۡن ُفِس َّن َثٰل‬
‫ِہ‬ ‫ِہ‬
‫ۡث‬
‫ُبُعۡو َلُتُہَّن َاَح ُّق ِبَر ِّد ِہَّن ِفۡی ٰذ ِلَک ِاۡن َاَر اُد ۤۡو ا ِاۡص اَل ًح اؕ َو َلُہَّن ِم ُل اَّلِذ ۡی َع َلۡی ِہَّن ِباۡل َم ۡع ُر ۡو ِف ۪ َو ِللِّرَج اِل َع َلۡی ِہَّن َدَرَج ٌۃؕ َو ُہّٰللا َع ِزۡی ٌز َح ِکۡی ٌم ﴿‬
‫‪۲۲۸﴾٪‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫اور طالق دی ہوئی عورتیں روکے رکھیں اپنے آپ کو تین حیضوں تک ‪ 292‬اور جائز نہیں ان کے لیے کہ چھپائیں ‪ 293‬جو‬
‫پیدا کیا ہے ہللا نے ان کے رحموں میں اگر وہ ایمان رکھتی ہوں ہللا پر اور روز آخرت پر ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں ان کو‬
‫لوٹانے کے اس مدت میں اگر وہ ارادہ کرلیں اصالح کا ‪ 294‬اور ان کے بھی حقوق ہیں (مردوں پر) جیسے مردوں کے حقوق‬
‫ہیں ان پر دستور کے مطابق البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور ہللا تعالٰی عزت واال حکمت واال ہے۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 228‬‬


‫َو اۡل ُم َطَّلٰق ُت َیَتَر َّبۡص َن ِبَاۡن ُفِس ِہَّن َثٰل َثَۃ ُقُر ٓۡو ٍء ؕ َو اَل َیِح ُّل َلُہَّن َاۡن َّیۡک ُتۡم َن َم ا َخ َلَق ُہّٰللا ِفۤۡی َاۡر َح اِم ِہَّن ِاۡن ُک َّن ُیۡؤ ِم َّن ِباِہّٰلل َو اۡل َیۡو ِم اٰاۡل ِخ ِر ؕ َو‬
‫ُبُع ۡو َلُتُہَّن َاَح ُّق ِبَر ِّد ِہَّن ِفۡی ٰذ ِلَک ِاۡن َاَر اُد ۤۡو ا ِاۡص اَل ًحاؕ َو َلُہَّن ِم ۡث ُل اَّلِذ ۡی َع َلۡی ِہَّن ِباۡل َم ۡع ُر ۡو ِف ۪ َو ِللِّر َج اِل َع َلۡی ِہَّن َدَرَج ٌۃؕ َو ُہّٰللا َع ِزۡی ٌز َح ِکۡی ٌم ﴿‬
‫‪۲۲۸﴾٪‬‬

‫تفسیر صراط الجنان‬


‫اس آیت میں }َو اْلُم َطَّلٰق ُت َیَتَر َّبْص َن ِبَانُفِس ِہَّن َثٰل َثَۃ ُقُروٍء ‪ :‬اور طالق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ {‬
‫ُم َطَّلقہ عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے طالق دی ہو اگر وہ شوہر کے پاس نہ گئی تھیں اور‬
‫ان سے َخ ْلَو ت صحیحہ بھی نہ ہوئی تھی جب تو ان پر طالق کی عدت ہی نہیں ہے جیسا کہ سورة احزاب کی آیت ‪ 49‬میں ہے‬
‫اور جن عورتوں کو کم سنی یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جو حاملہ ہوں ان کی عدت‬
‫بچہ جننا ہے جیسا کہ ان دونوں کی عدتوں کا بیان سورة طالق کی آیت ‪ 4‬میں ہے اور جس کا شوہر فوت ہوجائے اگر وہ حاملہ‬
‫ہو تو اس کی عدت بچہ جننا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر فوت شدہ کی بیوی حاملہ نہ ہو تو اس عورت کی عدت ‪ 4‬ماہ‪10 ،‬‬
‫دن ہے جیسا کہ سورة بقرہ آیت ‪ 234‬میں ہے۔ مذکورہ باال عورتوں کے عالوہ باقی جو آزاد عورتیں ہیں یہاں ان کی عدت اور‬
‫طالق کا بیان ہے کہ ان کی عدت تین حیض ہے۔‬
‫جس چیز کا چھپانا حالل نہیں وہ حمل اور حیض کا خون ہے۔ }َو اَل َیِح ُّل َلُہَّن ‪ :‬اور انھیں حالل نہیں۔ {‬
‫)جاللین‪ ،‬البقرۃ‪ ،‬تحت اآلیۃ ‪ ،٢٢٨ :‬ص ‪(٣٤‬‬
‫ان کا چھپانا اس لیے حرام ہے کہ ان کے چھپانے سے رجوع کرنے اور اوالد کے بارے میں جو شوہر کا حق ہے وہ ضائع‬
‫ہوگا۔‬
‫یہاں بطور خاص ایمان کا تذکرہ کرکے یہ سمجھایا }ِان ُک َّن ُیْؤ ِم َّن ِباِہلل َو اْلَیْو ِم اٰال ِخ ِر ‪ :‬اگر ہللا اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں۔ {‬
‫ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہللا تعالٰی کے ہر حکم پر عمل کیا جائے۔ لٰہ ذا ہر نیک عمل کو ایمان کا تقاضا کہہ سکتے ہیں۔‬
‫شوہروں کو رجعی }َو ُبُعوَلُتُہَّن َاَح ُّق ِبَر ِّد ِہَّن ِفی ٰذ ِلَک ‪ :‬اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انھیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں۔ {‬
‫طالق میں عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ آیت میں ” َاَر اُدوا “ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالق رجعی میں‬
‫رجوع کیلئے عورت کی مرضی ضروری نہیں صرف مرد کا رجوع کافی ہے‪ ،‬ہاں ظلم کرنے اور عورت سے اپنے انتقام کی‬
‫آگ بجھانے کیلئے رجوع کرنا سخت برا ہے۔ رجوع اصالح کی نیت سے ہونا چاہیے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اس جہالت کی بھی‬
‫کمی نہیں ‪ ،‬بیویوں کو ظلم وستم اور سسرال سے انتقام لینے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے حتّٰی کہ بعض اوقات تو شادی ہی اس نیت‬
‫سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات رجوع اس نیت سے کیا جاتا ہے۔ یہ سب زمانہ جاہلیت کے مشرکوں کے افعال ہیں۔‬
‫َو َلُہَّن ِم ْثُل اَّلِذ ی َع َلیِہَّن ِباْلَم ْعُروِف ‪ :‬اور عورتوں کیلئے بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر {‬
‫یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے }ہے۔‬
‫کرنا الزم ہے۔ آیت کی مناسبت سے یہاں ہم شوہر اور بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔‬
‫‪ :‬شوہر پر بیوی کے حقوق‬
‫شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں ‪ )1( :‬خرچہ دینا‪ )2( ،‬رہائش مہیا کرنا‪ )3( ،‬اچھے طریقے سے گزارہ کرنا‪ )4( ،‬نیک‬
‫باتوں ‪ ،‬حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا‪ )5( ،‬ان کی خالف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا‪ )6( ،‬جب تک شریعت منع‬
‫نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا‪ )7( ،‬اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا‬
‫حق نہیں۔‬
‫‪ :‬بیوی پر شوہر کے حقوق‬
‫بیوی پر شوہر کے چند حقوق یہ ہیں ‪ )1( :‬ازدواجی تعلقات میں ُم ْطَلقًا شوہر کی اطاعت کرنا‪ )2( ،‬اس کی عزت کی سختی سے‬
‫حفاظت کرنا‪ )3( ،‬اس کے مال کی حفاظت کرنا‪ )4( ،‬ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا‪ )5( ،‬ہر وقت جائز امور میں اس کی‬
‫خوشی چاہنا‪ )6( ،‬اسے اپنا سردار جاننا‪ )7( ،‬شوہر کو نام لے کر نہ پکارنا‪ )8( ،‬کسی سے اس کی بالوجہ شکایت نہ کرنا‪)9( ،‬‬
‫اور خدا توفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا‪ )10( ،‬اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک‬
‫سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا‪ )11( ،‬وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔ (فتاوی رضویہ‪،‬‬
‫‪ ،٢٤/٣٧١‬ملخصًا )‬
‫َل‬
‫مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن }َو ِللِّر َج اِل َع یِہَّن َدَرَج ٌۃ‪ :‬اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے۔ {‬
‫مرد کو بہرحال عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔‬
‫‪ :‬بیوی پر شوہر کے حقوق‬
‫بیوی پر شوہر کے چند حقوق یہ ہیں ‪ )1( :‬ازدواجی تعلقات میں ُم ْطَلقًا شوہر کی اطاعت کرنا‪ )2( ،‬اس کی عزت کی سختی سے‬
‫حفاظت کرنا‪ )3( ،‬اس کے مال کی حفاظت کرنا‪ )4( ،‬ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا‪ )5( ،‬ہر وقت جائز امور میں اس کی‬
‫خوشی چاہنا‪ )6( ،‬اسے اپنا سردار جاننا‪ )7( ،‬شوہر کو نام لے کر نہ پکارنا‪ )8( ،‬کسی سے اس کی بالوجہ شکایت نہ کرنا‪)9( ،‬‬
‫اور خدا توفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا‪ )10( ،‬اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک‬
‫سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا‪ )11( ،‬وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔ (فتاوی رضویہ‪،‬‬
‫‪ ،٢٤/٣٧١‬ملخصًا )‬
‫مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن }َو ِللِّر َج اِل َع َلیِہَّن َدَرَج ٌۃ‪ :‬اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے۔ {‬
‫مرد کو بہرحال عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 229‬‬


‫َالَّطاَل ُق َم َّر ٰت ِ۪ن َفِاۡم َس اٌۢک ِبَم ۡع ُر ۡو ٍف َاۡو َتۡس ِرۡی ٌۢح ِبِاۡح َس اٍن ؕ َو اَل َیِح ُّل َلُک ۡم َاۡن َتۡا ُخ ُذ ۡو ا ِم َّم ۤا ٰا َتۡی ُتُم ۡو ُہَّن َش ۡی ًئا ِاۤاَّل َاۡن َّیَخ اَفۤا َااَّل ُیِقۡی َم ا ُح ُد ۡو َد ِہّٰللاؕ ‬
‫َفِاۡن ِخ ۡف ُتۡم َااَّل ُیِقۡی َم ا ُح ُد ۡو َد ِہّٰللا ۙ َفاَل ُج َناَح َع َلۡی ِہَم ا ِفۡی َم ا اۡف َتَد ۡت ِبٖہ ؕ ِتۡل َک ُح ُد ۡو ُد ِہّٰللا َفاَل َتۡع َتُد ۡو َہاۚ َو َم ۡن َّیَتَعَّد ُح ُد ۡو َد ِہّٰللا َفُاوٰٓلِئَک ُہُم الّٰظ ِلُم ۡو َن ﴿‬
‫﴾‪۲۲۹‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫طالق دو بار ہے ‪ 295‬پھر یا روک لینا ہے بھالئی کے ساتھ یا چھوڑ دینا ہے احسان کے ساتھ اور جائز نہیں تمارے لیے کہ لو‬
‫تم ‪ 296‬اس سے جو تم نے دیا ہے انھیں کچھ بھی بجز اس کے کہ دونوں اندیشہ ہو کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے ہللا کی حدو کو‬
‫تو کوئی حرج نہیں ان پر ‪ 297‬کہ عورت کچھ فدیہ دیگر جان چھڑالے۔ یہ حدیں ہیں ہللا کی سو ان سے آگے نہ بڑھو اور جو‬
‫کوئی آگے بڑھتا ہے ہللا کی حدو سے سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‬

‫‪Al-Baqarah | Verse 229‬‬


‫َالَّطاَل ُق َم َّر ٰت ِ۪ن َفِاۡم َس اٌۢک ِبَم ۡع ُر ۡو ٍف َاۡو َتۡس ِرۡی ٌۢح ِبِاۡح َس اٍن ؕ َو اَل َیِح ُّل َلُک ۡم َاۡن َتۡا ُخ ُذ ۡو ا ِمَّم ۤا ٰا َتۡی ُتُم ۡو ُہَّن َش ۡی ًئا ِاۤاَّل َاۡن َّیَخ اَفۤا َااَّل ُیِقۡی َم ا ُح ُدۡو َد ِہّٰللاؕ ‬
‫َفِاۡن ِخ ۡف ُتۡم َااَّل ُیِقۡی َم ا ُح ُدۡو َد ِہّٰللا ۙ َفاَل ُجَناَح َع َلۡی ِہَم ا ِفۡی َم ا اۡف َتَد ۡت ِبٖہ ؕ ِتۡل َک ُح ُدۡو ُد ِہّٰللا َفاَل َتۡع َتُدۡو َہاۚ َو َم ۡن َّیَتَع َّد ُح ُدۡو َد ِہّٰللا َفُاوٰٓلِئَک ُہُم الّٰظ ِلُم ۡو َن ﴿‬
‫﴾‪۲۲۹‬‬

‫تفسیر صراط الجنان‬


‫َم َّرَتاِن ‪ :‬طالق دو بار تک ہے۔ {‬ ‫ُق‬ ‫ٰل‬‫َّط‬ ‫َا‬
‫یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکاردوعالم (صلی ہللا علیہ وآلہ } ل‬
‫وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طالق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا‬
‫رہے گا اور ہر مرتبہ جب طالق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طالق دیدے گا‪ ،‬اسی طرح عمر‬
‫بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (البحر المحیط‪ ،‬البقرۃ‪ ،‬تحت اآلیۃ ‪)٢/٢٠٢ ،٢٢٩ :‬‬
‫اور ارشاد فرمادیا کہ طالق رجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طالق دینے پر رجوع کا حق نہیں۔ آیت کا خالصہ یہ ہے کہ مرد‬
‫کو طالق دینے کا اختیار دو بار تک ہے۔ اگر تیسری طالق دی تو عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی اور جب تک پہلے شوہر‬
‫کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کرکے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حالل نہ ہوگی۔‬
‫لٰہ ذا ایک طالق یا دو طالق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طالق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ‬
‫عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کرسکے۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کرکے روک لینا ہے اور اچھے طریقے‬
‫سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طالق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طالق بھی بائنہ ہوجاتی ہے۔ شریعت نے‬
‫طالق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھالئی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی‬
‫تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے‪ ،‬طالق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ۔ ہللا تعالٰی ہدایت‬
‫عطا فرمائے۔‬
‫َلُک‬ ‫اَل‬
‫یہاں بوقت طالق عورت سے مال لینے کا مسئلہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی دو صورتیں }َو َیِح ُّل ْم ‪ :‬اور تمہیں حالل نہیں۔ {‬
‫ہیں پہلی یہ کہ شوہر اپنا دیا ہوا مہر واپس لے اور یہ بطور خلع نہ ہو‪ ،‬یہ صورت تو سراسر ناجائز و حرام ہے ‪ ،‬یہ مضمون‬
‫سورة نساء کی آیت ‪ 21 ،20‬میں بھی ہے ‪ ،‬وہاں فرمایا کہ تم بیویوں کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو طالق کے وقت اس‬
‫سے لینے کی اجازت نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرد سے خلع لے اور خلع میں عورت مال ادا کرے‪ ،‬اس صورت‬
‫کی اجازت ہے‬
‫اور آیت میں جو فرمایا کہ عورت کے فدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں اس سے یہی صورت مراد ہے لیکن اس صورت میں بھی‬
‫یہ حکم ہے کہ اگر زیادتی مرد کی طرف سے ہو تو خلع میں مال لینا مکروہ ہے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو‬
‫مال لینا درست ہے لیکن مہر کی مقدار سے زیادہ لینا پھر بھی مکروہ ہے۔ (فتاوی عالمگیری‪ ،‬کتاب الطالق‪ ،‬الباب الثامن‪ ،‬الفصل‬
‫االول‪)١/٤٨٨ ،‬‬

‫‪ :‬خلع کے چند احکام‬

‫۔۔ بالوجہ عورت کیلئے طالق کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔ ایسی عورتیں اور وہ حضرات درج ذیل ‪ 3‬احادیث سے عبرت حاصل)‪(1‬‬
‫‪ :‬کریں جو عورت کو اس کے شوہر کے خالف بھڑکاتے ہیں‬

‫حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے‪ ،‬حضور اقدس (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‪ ” :‬جو عورت اپنے )‪(١‬‬
‫شوہر سے بالوجہ طالق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‬

‫)ابو داؤد‪ ،‬کتاب الطالق‪ ،‬باب فی الخلع‪ ،٢/٣٩٠ ،‬الحدیث ‪(٢٢٢٦ :‬‬

‫حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے‪ ،‬حضور پر نور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‪ ” :‬وہ شخص ہم میں )‪(٢‬‬
‫سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خالف بھڑکائے ۔‬

‫)ابو داود‪ ،‬کتاب الطالق‪ ،‬باب فیمن خبب امرٔاۃ علی زوجہا‪ ،٢/٣٦٩ ،‬الحدیث ‪(٢١٧٥ :‬‬

‫حضرت جابر (رض) سے روایت ہے‪ ،‬نبی کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‪ ” :‬ابلیس اپنا تخت پانی پر )‪(٣‬‬
‫رکھتا ہے‪ ،‬پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے‪ ،‬اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ ڈالتا‬
‫ہے۔ اس کے لشکر میں سے ایک آ کر کہتا ہے ‪ :‬میں نے ایسا ایسا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے‬
‫ایک شخص آ کر کہتا ہے ‪ :‬میں نے ایک شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کروا‬
‫دی۔ ابلیس اس کو اپنے قریب کر کے کہتا ہے ‪ :‬ہاں ! تم نے کام کیا ہے۔ (مسلم ‪ ،‬کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار‪ ،‬باب تحریش‬
‫الشیطان وبعث سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔ الخ‪ ،‬ص ‪ ،١٥١١‬الحدیث ‪) )٢٨١٣( ٦٧ :‬‬

‫۔۔ خلع کا معنٰی ‪ :‬مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ خلع میں شرط ہے کہ عورت اسے قبول کرے۔)‪(2‬‬
‫۔۔ اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں)‪(3‬‬
‫جیسا کہ سورة نساء آیت ‪ 35‬میں ہے کہ مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی‬
‫کروا دے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں‬
‫کوئی مضائقہ نہیں اور جب خلع کرلیں تو طالق بائن واقع ہوجائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اس کی ادائیگی الزم‬
‫ہوجاتی ہے۔‬
‫)ہدایہ‪ ،‬کتاب الطالق‪ ،‬باب الخلع‪(١/٢٦١ ،‬‬
‫خلع کی آیت حضرت جمیلہ بنت عبدہللا (رض) کے بارے میں نازل ہوئی‪ ،‬انھوں نے اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس (رض)‬
‫کی شکایت حضور اقدس (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں کی اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب‬
‫حضرت ثابت (رض) نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے‬
‫علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کردوں گا۔ حضرت جمیلہ (رض) نے اس بات کو منظور کرلیا‬
‫چنانچہ حضرت ثابت (رض) نے باغ لے لیا اور انھیں طالق دے دی۔ (در منثور‪ ،‬البقرۃ‪ ،‬تحت اآلیۃ ‪)١/٦٧١ ،٢٢٩ :‬‬

‫‪An-Nisa' | Verse 34‬‬


‫ۡل‬ ‫ٰظ‬ ‫ٰق‬ ‫ّٰص‬ ‫ۡن‬ ‫ۤا‬ ‫ٰل‬
‫َظ‬ ‫ۡی‬ ‫َغ‬ ‫ِّل‬ ‫ٰح‬ ‫ٰت‬ ‫ٰح‬
‫ا ِم ۡم َو اِلِہۡم ؕ ال ِل ُت ِن ٌت ِف ٌت ِب ِبَم ا َح ِف ُہّٰللاؕ َو‬ ‫َف‬ ‫َا‬ ‫ۡن‬ ‫ۡو‬‫ُق‬‫َف‬ ‫َا‬ ‫َالِّرَج اُل َقّٰو ُم ۡو َن َع َلی الِّنَس ٓاِء ِبَم ا َّض َل ُہّٰللا َب َض ُہۡم َع ی َب ٍض َّو ِبَم‬
‫ۡع‬ ‫ۡع‬ ‫َف‬
‫ّٰل‬
‫ۡی‬ ‫ًّی‬ ‫اًل‬ ‫ۡی‬ ‫ۡی‬‫َل‬
‫َت ۡو ا َع ِہَّن َس ِب ؕ ِاَّن َہّٰللا َک اَن َع ِل ا َک ِب ًر ا ﴿‬‫ُغ‬ ‫ۡب‬ ‫اَل‬‫َف‬ ‫َنُک ۡم‬ ‫ۡع‬ ‫َط‬‫َا‬ ‫ۡن‬‫ا ِتۡی َتَخ اُفۡو َن ُنُش ۡو َز ُہَّن َفِع ُظۡو ُہَّن َو اۡہ ُج ُر ۡو ُہَّن ِفی اۡل َم َض اِج ِع َو اۡض ِرُبۡو ُہَّن ۚ ِا‬
‫َف‬
‫﴾‪۳۴‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫مرد محافظ و نگران ہیں عورتوں پر اس وجہ سے کہ فضیلت دی ہے ہللا تعالٰی نے مردوں کو عورتوں پر ‪ 63‬اور اس وجہ‬
‫سے مرد خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں سے (عورتوں کی ضرورت و آرام کے لیے) تو نیک عورتیں ‪ 64‬اطاعت گزار ہوتی ہیں‬
‫حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں (مردوں) کی غیر حاضری میں ہللا کی حفاظت سے اور وہ عورتیں ‪ 65‬اندیشہ ہو تمہیں ان کی‬
‫نافرمانی کا تو (پہلے نرمی سے) انھیں سمجھاؤ اور پھر الگ کردو انھیں خواب گاہوں سے اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) مارو‬
‫انھیں پھر اگر وہ اطاعت کرنے لگیں تمہاری تو نہ تالش کرو ان پر (ظلم کرنے کی) راہ ‪ 66‬یقینًا ہللا تعالٰی (عظمت وکبریائی‬
‫میں) سب سے باال سب سے بڑا ہے۔‬

‫‪An-Nisa' | Verse 34‬‬


‫َالِّر َج اُل َقّٰو ُم ۡو َن َع َلی الِّنَس ٓاِء ِبَم ا َفَّض َل ُہّٰللا َبۡع َض ُہۡم َع ٰل ی َبۡع ٍض َّو ِبَم ۤا َاۡن َفُقۡو ا ِم ۡن َاۡم َو اِلِہۡم ؕ َفالّٰص ِلٰح ُت ٰق ِنٰت ٌت ٰح ِفٰظ ٌت ِّلۡل َغ ۡی ِب ِبَم ا َح ِفَظ ُہّٰللاؕ َو‬
‫﴾اّٰل ِتۡی َتَخاُفۡو َن ُنُش ۡو َزُہَّن َفِع ُظۡو ُہَّن َو اۡہ ُجُر ۡو ُہَّن ِفی اۡل َم َض اِج ِع َو اۡض ِرُبۡو ُہَّن ۚ َفِاۡن َاَطۡع َنُک ۡم َفاَل َتۡب ُغ ۡو ا َع َلۡی ِہَّن َس ِبۡی اًل ؕ ِاَّن َہّٰللا َک اَن َع ِلًّیا َک ِبۡی ًرا ﴿‪۳۴‬‬

‫تفسیر صراط الجنان‬


‫َالِّر َج اُل َقّٰو ُم وَن َع َلی الِّنَس آِء ‪ :‬مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔} عورت کی ضروریات‪ ،‬اس کی حفاظت ‪ ،‬اسے ادب سکھانے اور‬
‫دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر َتَس ُّلط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ‪ ،‬اس لیے عورت پر مرد کی‬
‫اطاعت الزم ہے ‪ ،‬اس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے‬
‫زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔ شان‬
‫نزول ‪ :‬حضرت سعد بن ربیع (رض) نے اپنی بیوی حبیبہ کو کسی خطا پر ایک طمانچہ مارا جس سے ان کے چہرے پر نشان‬
‫پڑگیا‪ ،‬یہ اپنے والد کے ساتھ حضور سید المرسلین (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں اپنے شوہر کی شکایت کرنے‬
‫حاضر ہوئیں۔ سرور دوعالم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص لینے کا حکم فرمایا‪ ،‬تب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی ہللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص لینے سے منع فرما دیا۔ (بغوی‪ ،‬النساء‪ ،‬تحت اآلیۃ ‪)١/٣٣٥ ،٣٤ :‬‬
‫لیکن یہ یاد رہے کہ عورت کو ایسا مارنا ناجائز ہے۔‬
‫مرد کو عورت پر جو }ِبَم ا َفَّض َل ُہللا َبْع َضُہْم َع ٰل ی َبْع ٍض ‪ :‬اس وجہ سے کہ ہللا نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔ {‬
‫حکمرانی عطا ہوئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالٰی نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔‬
‫‪ :‬مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات‬
‫مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات کثیر ہیں ‪ ،‬ان سب کا حاصل دو چیزیں ہیں علم اور قدرت۔ اس میں کوئی شک‬
‫نہیں کہ مرد عقل اور علم میں عورت سے فائق ہوتے ہیں ‪ ،‬اگرچہ بعض جگہ عورتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر‬
‫ابھی بھی پوری دنیا پر نگاہ ڈالیں تو عقل کے امور مردوں ہی کے سپرد ہوتے ہیں۔ یونہی مشکل ترین اعمال سرانجام دینے پر‬
‫انھیں قدرت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مرد عقل و دانائی اور قوت میں عورتوں سے َفوِقّیت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جتنے بھی‬
‫انبیاء‪ ،‬خلفاء اور ائمہ ہوئے سب مرد ہی تھے۔ گھڑ سواری‪ ،‬تیر اندازی اور جہاد مرد کرتے ہیں۔ امامتِ ُک برٰی یعنی حکومت و‬
‫سلطنت اور امامت صغرٰی یعنی نماز کی امامت یونہی اذان‪ ،‬خطبہ ‪ ،‬حدود و قصاص میں گواہی باالتفاق مردوں کے ذمہ ہے۔‬
‫نکاح‪ ،‬طالق‪ ،‬رجوع اور بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرنے کا حق مرد کے پاس ہے اور نسب مردوں ہی کی طرف منسوب‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬یہ سب قرائن مرد کے عورت سے افضل ہونے پر داللت کرتے ہیں۔ مردوں کی عورتوں پر حکمرانی کی دوسری‬
‫وجہ یہ ہے کہ مرد عورتوں پر مہر اور نان نفقہ کی صورت میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس لیے ان پر حاکم ہیں۔ خیال رہے‬
‫کہ مجموعی طور پر جنس مرد جنس عورت سے افضل ہے نہ کہ ہر مرد ہر عورت سے افضل ۔ بعض عورتیں علم و دانائی‬
‫میں کئی مردوں سے زیادہ ہیں جیسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ‪ ،‬ہم جیسے الکھوں مرد ان کے نعلین کی خاک‬
‫کے برابر بھی نہیں۔ یونہی صحابیہ عورتیں غیر صحابی بڑے بڑے بزرگوں سے افضل ہیں۔‬
‫َفالّٰص ِلٰح ُت ‪ :‬نیک عورتیں۔} نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو‬
‫ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ‬
‫ہوں تو ہللا تعالٰی کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔‬
‫‪ :‬نیک بیوی کے اوصاف اور فضائل‬
‫کثیر احادیث میں نیک اور پارسا بیویوں کے اوصاف اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ‪ ،‬ان میں سے ‪ 2‬احادیث درج ذیل‬
‫‪ :‬ہیں‬
‫۔۔ حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے‪ ،‬حضورا قدس (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” تقوٰی کے بعد مومن)‪(1‬‬
‫کے لیے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں کہ اگر وہ اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور اگر اسے دیکھے تو خوش کر‬
‫دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں چال جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھالئی کرے۔‬
‫)ابن ماجہ‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب افضل النساء‪ ،٢/٤١٤ ،‬الحدیث ‪(١٨٥٧ :‬‬
‫۔۔ حضرت عبدہللا بن عباس (رض) سے روایت ہے‪ ،‬رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جسے چار)‪(2‬‬
‫چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھالئی ملی۔ (‪ )1‬شکرگزار دل۔ (‪ )2‬یاِد خدا کرنے والی زبان۔ (‪ )3‬مصیبت پر صبر کرنے‬
‫واال بدن (‪ )4‬ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی متالشی (یعنی اس میں خیانت کرنے والی) نہ ہو۔ (معجم‬
‫الکبیر‪ ،‬طلق بن حبیب عن ابن عباس‪ ،١١/١٠٩ ،‬الحدیث ‪)١١٢٧٥ :‬‬
‫‪:‬نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہیے ؟‬
‫نکاح کے لیے عورت کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری دیکھ لی جائے اور دین والی ہی کو ترجیح دی جائے۔ جو لوگ‬
‫عورت کا صرف حسن یامالداری یا عزت و منصب پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس حدیث پر غور کرلیں ‪ ،‬حضرت انس (رض)‬
‫سے روایت ہے‪ ،‬سرکار دوعالم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‪ ” :‬جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب‬
‫نکاح کرے‪ ،‬ہللا َع َّز َو َج َّل اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا‪،‬‬
‫ہللا تعالٰی اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب (خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو ہللا َع َّز َو َج َّل اس کے‬
‫کمینہ پن میں زیادتی کرے گا۔ (معجم االوسط‪ ،‬من اسمہ ابراہیم‪ ،٢/١٨ ،‬الحدیث ‪)٢٣٤٢ :‬‬
‫َو اّٰل ِتی َتَخاُفوَن ُنُش وَز ُہَّن ‪ :‬اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو۔} اس آیت میں نافرمان عورت کی اصالح کا طریقہ بڑے‬
‫احسن پیرائے میں بیان فرمایا گیا ہے ۔‬

‫‪ :‬نافرمان بیوی کی اصالح کا طریقہ‬

‫سب سے پہلے نافرمان بیوی کو اپنی اطاعت کے فوائد اور نافرمانی کے نقصانات بتاؤ نیز قرآن وحدیث میں اس تعلق سے‬
‫منقول فضائل اور وعیدیں بتا کر سمجھاؤ‪ ،‬اگر اس کے بعد بھی نہ مانیں تو ان سے اپنے بستر الگ کرلو پھر بھی نہ مانیں تو‬
‫مناسب انداز میں انھیں مارو۔ اس مار سے مراد ہے کہ ہاتھ یا مسواک جیسی چیز سے چہرے اور نازک اعضاء کے عالوہ دیگر‬
‫بدن پر ایک دو ضربیں لگا دے۔ وہ مار مراد نہیں جو ہمارے ہاں جاہلوں میں رائج ہے کہ چہرے اور سارے بدن پر مارتے‬
‫ہیں ‪ُ ،‬م ّک وں ‪ ،‬گھونسوں اور التوں سے پیٹتے ہیں ‪ ،‬ڈنڈا یا جو کچھ ہاتھ میں آئے اس سے مارتے اور لہو لہان کردیتے ہیں یہ‬
‫سب حرام و ناجائز ‪ ،‬گناہِ کبیرہ اور پرلے درجے کی جہالت اور کمینگی ہے۔‬
‫‪ :‬شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں‬
‫‪ :‬عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں ‪ ،‬اس سلسلے میں ‪ 5‬احادیث درج ذیل ہیں‬
‫۔۔ حضرت عمرو بن احوص (رض) سے روایت ہے‪ ،‬حضور انور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” میں تمہیں)‪(1‬‬
‫عورتوں کے حق میں بھالئی کی وصیت کرتا ہوں ‪ ،‬وہ تمہارے پاس ُم َقّیدہیں ‪ ،‬تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ‬
‫وہ کھلم کھال بےحیائی کیُم رَتِکبہوں ‪ ،‬اگر وہ ایسا کریں تو انھیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو‪( ،‬اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار‬
‫مارو‪ ،‬پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خالف کوئی راستہ تالش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے‬
‫تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے ناپسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور‬
‫ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھالئی‬
‫کرو‪ ،‬عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی‪ ،‬کتاب الرضاع‪ ،‬باب ما جاء فی حّق المرٔاۃ علی زوجہا‪ ،٢/٣٨٧ ،‬الحدیث ‪)١١٦٦ :‬‬
‫۔۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے‪ ،‬سرکار دو عالم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جب عورت)‪(2‬‬
‫اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حوِرِع ین کہتی ہیں ‪ :‬خدا َع َّز َو َج َّل تجھے قتل کرے‪ ،‬اسے ایذا نہ دے‪ ،‬یہ تو تیرے پاس‬
‫مہمان ہے‪ ،‬عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی‪ ،‬کتاب الرضاع‪١٩ ،‬۔ باب‪ ،٢/٣٩٢ ،‬الحدیث ‪)١١٧٧ :‬‬
‫۔۔ ُام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے‪ ،‬سرکار عالی وقار (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جو)‪(3‬‬
‫عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔‬
‫)ترمذی‪ ،‬کتاب الرضاع‪ ،‬باب ما جاء فی حّق الزوج علی المرٔاۃ‪ ،٢/٣٨٦ ،‬الحدیث ‪(١١٦٤ :‬‬
‫۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے‪ ،‬سرکار دو عالم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” میں تمہیں)‪(4‬‬
‫عورتوں کے بارے میں بھالئی کرنے کی وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور‬
‫پسلیوں میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو‬
‫ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب الوصاۃ بالنساء‪ ،٣/٤٥٧ ،‬الحدیث ‪)٥١٨٥ :‬‬
‫۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے‪ ،‬نبی اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” عورت پسلی سے پیدا)‪(5‬‬
‫کی گئی وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا‬
‫چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طالق دینا ہے۔ (مسلم‪ ،‬کتاب الرضاع‪ ،‬باب الوصیۃ بالنساء‪ ،‬ص ‪ ،٧٧٥‬الحدیث ‪) )١٤٦٨( ٦١ :‬‬
‫یعنی جب گناہ کے بعدتوبہ کرنے کی صورت میں ہللا تعالٰی تمہاری توبہ }َفِاْن َاَطْعَنُک ْم ‪ :‬پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں۔ {‬
‫قبول فرما لیتا ہے تو تمہیں بھی چاہیے کہ تمہاری زیر دست عورت جب قصور کرنے کے بعد معافی طلب کرے اور نافرمانی‬
‫چھوڑ کر اطاعت گزار بن جائے تو اس کی معذرت قبول کرلو اور توبہ کے بعد اسے تنگ نہ کرو۔‬
‫‪ :‬بیوی جب اپنی غلطی کی معافی مانگے تو اسے معاف کردیا جائے‬
‫اس آیت سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو عورت کے ہزار بار معذرت کرنے‪ ،‬گڑ گڑا کر پاؤں پڑنے‪ ،‬طرح‬
‫طرح کے واسطے دینے کے باوجود اپنی ناک نیچی نہیں کرتے اور صنف نازک کو َم شِق ستم بنا کر اپنی بزدلی کو بہادری‬
‫سمجھتے ہیں۔ ہللا تعالٰی ِان بہادروں کو عاجزی اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‬

‫‪An-Nisa' | Verse 35‬‬


‫﴾َو ِاۡن ِخ ۡف ُتۡم ِش َقاَق َبۡی ِنِہَم ا َفاۡب َعُثۡو ا َح َک ًم ا ِّم ۡن َاۡہ ِلٖہ َو َح َک ًم ا ِّم ۡن َاۡہ ِلَہاۚ ِاۡن ُّیِرۡی َد ۤا ِاۡص اَل ًح ا ُّیَو ِّفِق ُہّٰللا َبۡی َنُہَم اؕ ِاَّن َہّٰللا َک اَن َع ِلۡی ًم ا َخ ِبۡی ًر ا ﴿‪۳۵‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫اور اگر خوف کرو تم ناچاقی کا ان کے درمیان ‪ 67‬تو مقرر کرو ایک پنچ مرد کے کنبے سے اور ایک پنچ عورت کے کنبہ‬
‫سے اگر وہ دونوں (پنچ) ارادہ کریں گے صلح کرانے کا تو موافقت پیدا کردے گا ہللا تعالٰی میاں بیوی کے درمیان بیشک ہللا‬
‫تعالٰی سب کچھ جاننے واال ہر بات سے خبردار ہے۔‬

‫‪An-Nisa' | Verse 35‬‬


‫﴾َو ِاۡن ِخ ۡف ُتۡم ِش َقاَق َبۡی ِنِہَم ا َفاۡب َع ُثۡو ا َح َک ًم ا ِّم ۡن َاۡہ ِلٖہ َو َح َک ًم ا ِّم ۡن َاۡہ ِلَہاۚ ِاۡن ُّیِرۡی َد ۤا ِاۡص اَل ًحا ُّیَو ِّفِق ُہّٰللا َبۡی َنُہَم اؕ ِاَّن َہّٰللا َک اَن َع ِلۡی ًم ا َخ ِبۡی ًرا ﴿‪۳۵‬‬

‫تفسیر صراط الجنان‬


‫َو ِاْن ِخ ْفُتْم ِش َقاَق َبیِنِہَم ا ‪ :‬اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو۔} جب بیوی کو سمجھانے‪ ،‬الگ رکھنے اور مارنے‬
‫کے باجود اصالح کی صورت نہ بن رہی ہو تو نہ مرد طالق دینے میں جلدی کرے ‪ ،‬نہ عورت خلع کے مطالبے پر اصرار‬
‫کرے بلکہ دونوں کے خاندان کے خاص قریبی رشتہ داروں میں سے ایک ایک شخص کو ُم نِص ف مقرر کرلیا جائے‪ ،‬اس کا‬
‫فائدہ یہ ہوگا کہ چونکہ رشتے دار ایک دوسرے کے خانگی معامالت سے واقف ہوتے ہیں ‪ ،‬فریَقین کو ان پر اطمینان ہوتا ہے‬
‫اور ان سے اپنے دل کی بات کہنے میں کوئی جھجک بھی نہیں ہوتی‪ ،‬یہ منصف مناسب طریقے سے ان کے مسئلے کا حل‬
‫نکال لیں گے اور اگر منصف ‪ ،‬میاں بیوی میں صلح کروانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو ہللا تعالٰی ان کے مابین اتفاق پیدا کر دے گا‬
‫اس لیے حّتی المقدور صلح کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جائے لیکن یہ یاد رکھیں کہ انھیں میاں بیوی میں جدائی کروا‬
‫دینے کا اختیار نہیں یعنی یہ جدائی کا فیصلہ کریں تو شرعًا ان میں جدائی ہوجائے‪ ،‬ایسا نہیں ہوسکتا۔‬

‫‪Al-Hujurat | Verse 6‬‬


‫﴾ٰۤی َاُّیَہا اَّلِذ ۡی َن ٰا َم ُنۤۡو ا ِاۡن َج ٓاَء ُک ۡم َفاِس ٌۢق ِبَنَبٍا َفَتَبَّیُنۤۡو ا َاۡن ُتِص ۡی ُبۡو ا َقۡو ًۢم ا ِبَج َہاَلٍۃ َفُتۡص ِبُح ۡو ا َع ٰل ی َم ا َفَع ۡل ُتۡم ٰن ِدِم ۡی َن ﴿‪۶‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫اے ایمان والو ! اگر لے آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر تو اس کی خوب تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم ضرر‬
‫پہنچاو کسی قوم کو بےعلمی میں پھر تم اپنے کیے پر پچھتانے لگو ‪9‬‬

‫‪Al-Hujurat | Verse 6‬‬


‫ۡی‬ ‫ٰن‬ ‫ُت‬ ‫ۡل‬ ‫َف‬ ‫ٰل‬ ‫ۡو‬
‫ِبُح ا َع ی َم ا َع ۡم ِدِم َن ﴿‪۶‬‬ ‫َفُتۡص‬ ‫َل‬ ‫ًۢم‬ ‫َقۡو‬
‫ِص ُب ا ا ِبَج َہا ٍۃ‬ ‫ۡو‬ ‫ۡی‬ ‫ُت‬ ‫َاۡن‬ ‫﴾ٰۤی َاُّیَہا اَّلِذ ۡی َن ٰا َم ُنۤۡو ا ِاۡن َج ٓاَء ۡم اِس ِب َبٍا َبَّی ا‬
‫ۤۡو‬‫ُن‬ ‫َفَت‬ ‫َن‬ ‫ٌۢق‬ ‫َف‬ ‫ُک‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫‪ ٩‬ف اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اکثرعلمائے تفسیر نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ نبومصطلق کا سردار حارث ابن ابی‬
‫الضرار بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور مشرف بہ اسالم ہوا۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا‬
‫تو اس نے اسے بھی قبول کرلیا اور عرض کیا کہ میں واپس اپنے قبیلہ کہ پاس جاتا ہوں۔ انھیں اسالم کی دعوت دوں گا۔ جن‬
‫لوگوں نے یہ دعوت قبول کی ان سے زکوۃ بھی وصول کروں گا۔ آپ فالں وقت اپنا کوئی آدمی بھیج دیں جو جمع شدہ زکوۃ‬
‫وصول کرلے۔‬
‫حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے وقت مقررہ پر ولید ابن عقبہ ابن معیط کو بنی مطلق کی طرف بھیجا تاکہ وہ زکوۃ وصول‬
‫کرے۔ زمانہ جہالت میں ولید کے ذمہ ان کا ایک قتل تھا۔ اسے خدشہ ہوا کہ مبادا وہ اسے قتل کردیں۔ وہ راستہ سے لوٹ آیا اور‬
‫آکر خبر دی کہ انھوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا۔ وہ میرے قتل کے درپے ہوگئے تھے۔ مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا‬
‫ہوں۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس کی یہ بات سنی تو حضرت خالد (رض) کو ایک دستہ دے کر ان کی طرف‬
‫روانہ کیا اور حکم دیا کہ پہلے حقیقت حال معلوم کرلینا پھر کوئی کارروائی کرنا۔ جلد بازی سے کام نہ لینا۔ امرہ ان یتثبت‬
‫والیعجل۔ (قرطبی)‬
‫حسب ارشاد حضرت خالد (رض) رات کے وقت وہاں پہنچے۔ خود ان کے عالقہ سے باہر پڑاؤ کیا اور اپنے جاسوس بھیجے‬
‫تاکہ ان کے احوال پر آگاہی حاصل کریں۔ انھوں نے آکر گواہی دی کہ وہ اسالم پر پختہ ہیں۔ ہم نے ان کی اذانیں سنی ہیں اور ان‬
‫کو باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ حضرت خالد (رض) صبح کے وقت ان کے ہاں گئے اور اپنے جاسوسوں کی فراہم کردہ‬
‫اطالعات کو درست پایا۔ حضرت خالد (رض) نے واپس آکر حضور اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) سے حقیقت حال عرض‬
‫کردی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ نبی مکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) اکثر فرمایا کرتے۔ الثانی من ہللا والعجلۃ من الشیطان۔‬
‫سوچ سمجھ کر کام کرنا ہللا تعالٰی کی توفیق ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کی انگیخت ہے۔‬
‫ہر سوسائٹی میں ایسے سفلہ مزاج لوگ ہوتے ہیں جن کا محبوب مشغلہ بےپر کی اڑانا اور غلط افواہیں پھیالنا ہوتا ہے۔ ایسی‬
‫افواہیں خاندانوں‪ ،‬قبیلوں‪ ،‬بسا اوقات قوموں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ ہللا تعالٰی بڑی سختی سے مسلمانوں کو یہ‬
‫ہدایت فرما رہا ہے خبردار ! اگر کوئی فاسق اور بدکار تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے آئے تو اس کو فورًا قبول نہ کیا کرو۔‬
‫ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ بک رہا ہو اور تم اس کی جھوٹی خبر سے مشتعل ہو کر کوئی ایسی کارروائی کر بیٹھو جس پر‬
‫خوفناک نتائج مرتب ہوں اور پھر تم ساری عمر فرط ندامر سے کف افسوس ملتے رہو۔ اس لیے جب کوئی خبر تمہارے کانوں‬
‫تک پہنچے تو اس کو بےتحقیق تسلیم کرلینا قطعا قرین دانش مندی نہیں۔ پہلے اچھی طرح اس کی چھان پھٹک کرلو اور پھر‬
‫مناسب قدم اٹھاؤ۔ خیال رہے کہ یہاں النبا کا لفظ مستعمل ہے اور عربی میں النبا غیر اہم خبر کو نہیں کہا جاتا۔ بلکہ ایسی خبر‬
‫جس سے دوررسنتائج نکل سکتے ہوں اس کو نبا کہتے ہیں۔‬
‫عالمہ راغب اصفہانی اس کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ النبأ خبر ذو فائدۃ عظیمۃ (مفردات)‬
‫امام ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ومقتضی اآلیہ ایجاب القثبت فی خبر الفاسق والنھی عن االقدام‬
‫علی قبولہ اال بعد النبیین ۔‬
‫یعنی اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ فاسق کی خبر کی تحقیق کرنا واجب ہے۔ جب تک حقیقت حال پوری طرح واضح نہ ہوجائے‬
‫اس پر عمل کرنا ممنوع ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ جن امور کا حقوق کے ساتھ تعلق ہے‪ ،‬فاسق‬
‫کی شہادت مردود ہوگی۔ روایت حدیث میں بھی اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ کسی قانون‪ ،‬کسی شرعی حکم اور کسی انسان کے‬
‫حق کے ثبوت کے لیے بھی اس کی خبر غیر معتبر اور غیر مقبول ہوگی۔ (احکام القرآن للجصاص)‬
‫نادمین ‪ :‬عالمہ زمخشری لکھتے ہیں کہ ندامت ایک خاص قسم کے غم کو کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ تو ایسی بات پر غم زدہ ہو جس کا‬
‫تجھ سے ارتکاب ہوا ہے اور جس کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ کاش میں نے یہ کام نہ کیا ہوتا۔‬
‫الندم ضرب من الغم وھو ان تغتم علی ما وقع منک تتمنی انہ لم یقع۔ (کشاف)‬

‫‪An-Nur | Verse 27‬‬


‫ٰۤل‬
‫﴾ٰۤی َاُّیَہا اَّلِذ ۡی َن ٰا َم ُنۡو ا اَل َتۡد ُخ ُلۡو ا ُبُیۡو ًتا َغ ۡی َر ُبُیۡو ِتُک ۡم َح ّٰت ی َتۡس َتۡا ِنُس ۡو ا َو ُتَس ِّلُم ۡو ا َع ی َاۡہ ِلَہاؕ ٰذ ِلُک ۡم َخ ۡی ٌر َّلُک ۡم َلَعَّلُک ۡم َتَذ َّک ُر ۡو َن ﴿‪۲۷‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫اے ایمان والو ! ‪ 32‬نہ داخل ہواکرو (دوسروں کے) گھروں میں اپنے گھروں کے سوا‪ ،‬جب تک تم اجازت نہ لے لو اور سالم‬
‫نہ کرلو ان گھروں میں رہنے والوں پر۔ یہی بہتر ہے تمہارے لیے‪ ،‬شاہد تم (اس کی حکمتوں میں) غورو فکر کرو‬

‫‪An-Nur | Verse 28‬‬


‫﴾َفِاۡن َّلۡم َتِج ُد ۡو ا ِفۡی َہۤا َاَح ًدا َفاَل َتۡد ُخ ُلۡو َہا َح ّٰت ی ُیۡؤ َذ َن َلُک ۡم ۚ َو ِاۡن ِقۡی َل َلُک ُم اۡر ِج ُعۡو ا َفاۡر ِج ُعۡو ا ُہَو َاۡز ٰک ی َلُک ۡم ؕ َو ُہّٰللا ِبَم ا َتۡع َم ُلۡو َن َع ِلۡی ٌم ﴿‪۲۸‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫پھر اگر نہ پاؤ ان گھروں میں کسی کو (جو تمہیں اجازت دے) تو نہ داخل ہو ان میں ‪ 33‬یہاں تک کہ اجازت دی جائے تمھیں۔‬
‫اور اگر کہا جائے تمہیں ‪ 34‬کہ واپس لوٹ جاؤ تو واپس چلے جاؤ۔ یہ (طرز معاشرت) بہت پاکیزہ ہے تمہارے لیے اور ہللا‬
‫تعالٰی جو کچھ تم کرتے ہو خوب جاننے واال ہے‬

‫‪An-Nur | Verse 27‬‬


‫ٰۤل‬
‫﴾ٰۤی َاُّیَہا اَّلِذ ۡی َن ٰا َم ُنۡو ا اَل َتۡد ُخ ُلۡو ا ُبُیۡو ًتا َغ ۡی َر ُبُیۡو ِتُک ۡم َح ّٰت ی َتۡس َتۡا ِنُس ۡو ا َو ُتَس ِّلُم ۡو ا َع ی َاۡہ ِلَہاؕ ٰذ ِلُک ۡم َخ ۡی ٌر َّلُک ۡم َلَع َّلُک ۡم َتَذَّک ُر ۡو َن ﴿‪۲۷‬‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫‪ ٣٢‬یہاں سے اسالمی طرز معاشرت کے چند اہم قاعدے سکھائے جا رہے ہیں۔ انصار کی ایک خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر‬
‫ہوئی۔ عرض کی‪ ،‬یا رسول ہللا ! بسا اوقات میں گھر میں ایسی حالت میں ہوئی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت‬
‫میں دیکھے۔ کبھی میرے والد آجاتے ہیں اور کبھی اہل خانہ سے کوئی اور مرد آجاتا ہے۔ مجھے کیا ارشاد ہے وکیف اصنع اور‬
‫میں کیا کروں ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔‬
‫آپ خود غور فرمائیے کہ انسان کا گھر اس کا خلوت خانہ ہے جہاں وہ بےتکلفی سے وقت بسر کرسکتا ہے۔ اگر یہاں بھی ہر‬
‫شخص کو بال اجازت‪ ،‬بےدھڑک آگھسنے کی آزادی ہو تو انسان گھر میں وہ راحت و آرام نہیں پاسکے گا جس کی تالش میں وہ‬
‫باہر سے تھکا ماندہ آتا ہے۔ نیز گھر کی مس توراۃ ہر وقت اپنے کپڑوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتیں۔ کبھی اوڑھنی سر سے‬
‫اتر جاتی ہے کبھی کوئی کام کرنے کے لیے آستینیں چڑھانی پڑتی ہیں۔ نہانا دھونا بھی ہوتا ہے۔ ان حاالت میں اگر آنے والے‬
‫پر کوئی پابندی نہ ہو تو عورتیں یا تو ہر وقت سر پر چادر ڈالے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں مانا محرم کے سامنے‬
‫بےحجاب ہونے کا اندیشہ مول لیں۔ نیز یہ ویسے بھی بڑی سخت زیادتی ہے کہ کسی کے گھر میں بال اجازت گھس آئے۔ اس‬
‫طرح گونا گوں خرابیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ نظر بازی‪ ،‬کسی کی راز کی باتوں کو سننا وغیرہ قباحتیں رونما ہوجائیں گے۔‬
‫گھر کا امن و سکون برباد ہونے کے ساتھ ساتھ عصمت و آبرو بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ اسالم سے پہلے عرب کے لوگ اس‬
‫قسم کے آداب کے عادی نہ تھے۔ حییتم صباحا (صبح بخیر) یا حییتم مساء (شب بخیر) کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر گھر‬
‫میں آگھسے۔ اسالم نے اس طر یق کار کو سختی سے روک دیا اور حکم دیا کہ اگر کسی کے ہاں جانا پڑے تو اس کا طریقہ یہ‬
‫ہے کہ باہر کھڑے ہو کر اذن طلب کرو اور اگر اذن مل جائے تو اہل خانہ کو سالم کہتے ہوئے اندر جاؤ۔ فرمایا ذائکم خیر لکم‬
‫یہی طریقہ تمہارے لیے عمدہ اور پسندیدہ ہے۔‬
‫اذن کس طرح لینا چاہیے‪ ،‬کہاں کھڑے ہو کرلینا چاہیے‪ ،‬کتنی بار لینا چاہیے۔ اس کی تفصیل احادیث نبوی میں مذکور ہے جو‬
‫درج ذیل ہے تاکہ اسالمی تمدن کا یہ قاعدہ اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ خوب ذہن نشین ہوجائے۔‬
‫اذن لینے کا طریقہ یہ ہے کہ سالم کہے‪ ،‬داخل ہونے کی اجازت بھی طلب کرے اور اپنا نام بھی بتائے۔ حضرت فاروق اعظم‬
‫‪( :‬رض) جب شرف باریابی حاصل کرنا چاہتے تو یوں عرض کرتے‬
‫السالم علیک یا رسول ہللا ایدخل عمر ؟ یا رسول ہللا آپ پر سالم ہو کیا عمر (رض) حاضر ہوسکتا ہے ؟‬
‫ایک شخص دروازہ پر آیا اور کہا أادخل‪ ،‬کیا میں گھس آؤۃ ؟ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے روضہ جا اور‬
‫اسے اذن مانگنے کا طریقہ سکھا کہ اسے یوں کہنا چاہیے تھا السالم علیکم ا أدخل۔‬
‫اگر صاحب خانہ اذن طلب کرنے والے سے پوچھے کہ تم کون ہو تو اسے اپنا نام بتانا چاہیے۔ صرف یہ کہنا کہ ” میں ہوں “‬
‫درست نہیں۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ناپسند فرمایا ہے۔‬
‫حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول تھا کہ جب اذن طلب فرماتے تو دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا‬
‫بائیں کھڑے ہوتے کیونکہ اس وقت دروازوں پر پردے لٹکانے کا رواج نہ تھا۔ وذالک ان الدور لم یکن علیہا یومئذ ستور۔‬
‫(قرطبی)‬
‫نیز دروازے کو کھٹکھٹانا بھی اذن طلب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آج کل کئی گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے اسے بجا کر‬
‫بھی اذن طلب کیا جاسکتا ہے۔‬
‫زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار جواب نہ آئے تو واپس چال آئے کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب‬
‫کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ‬
‫کرسکتا ہو۔ الن الزیادۃ علی ذالک قد تقلق رب المنزل وربما یضرہ االلحاء (قرطبی)‬
‫جس گھر میں ماں یا بہن رہائش پذیر ہو وہاں جاتے ہوئے بھی اذن طلب کرنا چاہیے۔ احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے گھر‬
‫جہاں اس کی اہلیہ ہو اطالع دئیے بغیر داخل نہ ہو‪ ،‬بلکہ پاؤں کی آہٹ کرنے سے یا کھنگھارنے سے اپنی آمد کی اطالع دے‬
‫دے۔ ہوسکتا ہے کوئی اجنبیہ عورت گھر میں اس کی بیوی سے ملنے آئی ہوئی ہو۔‬
‫اسالم نے صرف بال اجازت داخل ہونے پر ہی پابندی نہیں لگائی بلکہ اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا بھی ممنوع قرار دیا‬
‫ہے۔ نبی کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے ” من اطلع فی بیت قوم من غیر اذنھم حل لہم ان یفقؤا عینہ “۔‬
‫ترجمہ ‪ :‬جو دوسروں کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی آنکھ نکال دیں (صحیح‬
‫مسلم) ۔ اس طرح شریعت نے گھر کو انسان کے لیے ایسا محکم حصار بنا دیا ہے جس میں اس کی اجازت کے بغیر نہ کوئی‬
‫جھانک سکتا ہے نہ قدم رکھ سکتا ہے۔ تاکہ صاحب خانہ بڑی بےتکلفی اور آرام و راحت سے اپنا وقت بسر کرسکے۔‬

‫‪An-Nur | Verse 28‬‬


‫﴾َفِاۡن َّلۡم َتِج ُدۡو ا ِفۡی َہۤا َاَح ًدا َفاَل َتۡد ُخ ُلۡو َہا َح ّٰت ی ُیۡؤ َذ َن َلُک ۡم ۚ َو ِاۡن ِقۡی َل َلُک ُم اۡر ِج ُع ۡو ا َفاۡر ِج ُع ۡو ا ُہَو َاۡز ٰک ی َلُک ۡم ؕ َو ُہّٰللا ِبَم ا َتۡع َم ُلۡو َن َع ِلۡی ٌم ﴿‪۲۸‬‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫‪ ٣٣‬اگر تم آکر اذن طلب کرو‪ ،‬اندر سے کوئی جواب نہ ملے تو واپس چلے جاؤ کیونکہ تمہارے اذن کے جواب پر خاموشی کی‬
‫وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ گھر میں کوئی شخص موجود ہی نہیں‪ ،‬اس صورت میں تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اہل خانہ کی‬
‫عدم موجودگی میں تم ان کے گھر میں داخل ہوجاؤ‪ ،‬یا عدم جواب عدم اذن کی دلیل ہے۔ اس صورت میں بھی تمہیں اندر جانے‬
‫پر اصرار نہ کرنا چاہیے۔ ایک روز حضور اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد (رض) بن عبادہ کے گھر تشریف لے‬
‫گئے اور طلب اذن کے لیے فرمایا السالم علیکم ورحمۃ ہللا۔ سعد نے سن لیا اور آہستہ سے وعلیکم السالم و رحمۃ ہللا عرض کیا۔‬
‫حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری بار سالم فرمایا۔ سعد نے پھر بھی چپکے سے جواب دیا۔ تیسری بار بھی حضور‬
‫(صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے سالم کے جواب میں سعد نے آہستہ سے وعلیکم السالم کہہ دیا۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم)‬
‫واپس تشریف لے جانے لگے تو سعد دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‪ ،‬حضور (صلی ہللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم) نے جتنی بار سالم فرمایا میں نے سنا اور جواب دیا۔ میری خاموشی کا مقصد یہ تھا کہ حضور (صلی ہللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم) مجھے بار بار سالم فرمائیں اور مجھے اس کی برکت حاصل ہو۔‬
‫‪ ٣٤‬اگر تم نے اذن طلب کیا اور مالک مکان نے اجازت نہ دی تو کبیدہ خاطر اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تکدر اور‬
‫ناراضگی محسوس کیے بغیر واپس چلے جاؤ۔ ہوسکتا ہے کہ اہل خانہ کسی ایسے کام میں مشغول ہوں کہ اسے ترک کرنا ان‬
‫کے لیے تکلیف دہ ہو۔‬
‫جو لوگ کوئی تحقیقی کام کرنے میں مشغول ہوتے ہیں انھیں اپنے احباب کا شکوہ کرتے ہوئے اکثر سنا گیا ہے۔ وہ بچارے اپنا‬
‫کام چھوڑ کر اکثر دوستوں کی خاطر مدارات میں مشغول ہوتے ہیں تو پہروں کی جگر کا دی اور جانکا ہی خاک میں مل جاتی‬
‫ہے۔ اگر اپنے کام میں لگے رہتے ہیں تو ان کے احباب اور کرم فرما بگڑ جاتے ہیں اور ان پر طعن وتشنیع کے تیروں کی‬
‫بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ اسالم نے کیا عمدہ آداب سکھائے ہیں کہ اگر کسی وقت تمہیں مالقات کی اجازت نہیں ملی تو خوشی‬
‫خوشی واپس چلے جاؤ۔ اس کو اپنے کام میں منہمک رہنے دو ‪ ،‬تمہارے لیے ہی کام بہتر ہے۔ یہاں گھر کی تقدیس کے ساتھ‬
‫ساتھ وقت کی قدرومنزلت کا سبق دیا جا رہا ہے۔ یعنی مومن کی زندگی اتنی بےکار اور بےمصرف تو نہیں ہوتی کہ جس وقت‬
‫کوئی چاہے اس کے اوقات میں دخیل ہوجائے نہ اس کے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے کہ ہر وقت آپ کے لیے گوش بر آواز‬
‫رہے۔ جو وقت اس نے مطالعہ یا کسی مخصوص کام کے لیے مقرر کر رکھا ہے اس میں اس کو کام کرنے دو ۔ اس کی‬
‫مصروفیتوں کا احترام کرو۔ اگر اس نے اپنی کسی مجبوری کے باعث معذرت کی ہے تو خندہ پیشانی سے اس کی معذرت‬
‫خواہی کو قبول کرلو۔‬
‫اگر کوئی اجازت طلب کرے اور اس وقت اسے اجازت نہ ملے تو اسے یہ اختیار ہے کہ دروازہ سے ہٹ کر بیٹھ جائے اور اس‬
‫شخص کا انتظار کرے۔ حضرت ابن عباس (رض) کوئی حدیث سننے کے لیے کسی انصاری کے ہاں تشریف لے جاتے اور‬
‫آرام کر رہے ہوتے تو آپ اس کے انتظار میں باہر ٹھہر جاتے۔ وہ جب اپنے معمول کے مطابق باہر آتے اور حضرت ابن عباس‬
‫(رض) کو منتظر پاتے تو کہتے اے رسول کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے صاحبزادے ! آپ نے اپنی آمد سے‬
‫ہمیں مطلع کیوں نہ کیا‪ ،‬تاکہ ہم اسی وقت حاضر ہوجاتے۔ تو آپ فرماتے ھکذا امرنا ان نطلب العلم (مظہری) ہمیں علم حاصل‬
‫کرنے کا یہی طریقہ سکھایا گیا ہے۔‬

‫‪An-Nur | Verse 30‬‬


‫﴾ُقۡل ِّلۡل ُم ۡؤ ِم ِنۡی َن َیُغُّض ۡو ا ِم ۡن َاۡب َص اِرِہۡم َو َیۡح َفُظۡو ا ُفُر ۡو َج ُہۡم ؕ ٰذ ِلَک َاۡز ٰک ی َلُہۡم ؕ ِاَّن َہّٰللا َخ ِبۡی ٌۢر ِبَم ا َیۡص َنُعۡو َن ﴿‪۳۰‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫آپ حکم دیجیے مومنوں کو کہ وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں ‪ 36‬اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی ‪ 37‬یہ (طریقہ) بہت‬
‫پاکیزہ ہے ان کے لیے۔ بیشک ہللا تعالٰی خوب آگاہ ہے ان کاموں پر جو وہ کیا کرتے ہیں ‪38‬‬

‫‪An-Nur | Verse 30‬‬


‫﴾ُقۡل ِّلۡل ُم ۡؤ ِم ِنۡی َن َیُغ ُّض ۡو ا ِم ۡن َاۡب َص اِرِہۡم َو َیۡح َفُظۡو ا ُفُر ۡو َج ُہۡم ؕ ٰذ ِلَک َاۡز ٰک ی َلُہۡم ؕ ِاَّن َہّٰللا َخ ِبۡی ٌۢر ِبَم ا َیۡص َنُع ۡو َن ﴿‪۳۰‬‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫‪ ٣٦‬شریعت اسالمیہ فقط گناہوں سے نہیں روکتی اور ان کے ارتکاب پر سزا نہیں رہتی۔ بلکہ ان تمام وسائل اور ذرائع پر‬
‫پابندی عائد کرتی ہے اور انھیں ممنوع قرار دیتی ہے جو انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ تاکہ جب گناہوں کی طرف‬
‫لے جانے واال راستہ ہی بند ہوگا تو گناہوں کا ارتکاب آسان نہیں ہوگا۔ طبیعت میں ہیجان پیدا کرنے والے اور جذبات شہوت کو‬
‫مشتعل کرنے والے اسباب سے نہ روکنا اور ان کو کھلی چھٹی دے دینا‪ ،‬اور پھر یہ توقع رکھنا کہ ہم اپنے قانون کی قوت سے‬
‫لوگوں کو برائی سے بچا لیں گے‪ ،‬بڑی نادانی اور ابلہی ہے۔ اگر کوئی نظام ان عوامل اور محرکات کا قلع و قمع نہیں کرتا جو‬
‫انسان کو بدکاری کی طرف دھکیل کرلے جاتے ہیں۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس برائی کو برائی نہیں سمجھتا اور‬
‫نہ اس سے لوگوں کو بچانے کی مخلصانہ کوشش کرتا ہے۔ اس کی زبان پر جو کچھ ہے وہ اس کے دل کی صدا نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫محض ریاکاری اور طمع سازی ہے۔‬
‫ف درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش‬
‫کسی کو بہتے ہوئے دریا میں دھکا دے کہ گرا دینا اور پھر اس کو یہ کہنا کہ خبردار ! اپنے دامن کو پانی کی موجوں سے گیال‬
‫نہ ہونے دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔‬
‫اس سورت کا آغاز زنا کا روں کی سزا کے ذکر سے ہوا۔ یہاں ان راستوں کو ہی بند کیا جا رہا ہے جو انسان کو اس جرم شنیع‬
‫کی طرف لے جاتے ہیں۔ بدکاری کس سب سے خطرناک راستہ نظر بازی ہے اس لیے سب سے پہلے اس کو بند کیا جا رہا ہے۔‬
‫مردوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ جب نگاہ کسی نامحرم کی طرف‬
‫نہیں اٹھے گی تو دل میں اس کی طرف کشش پیدا نہ ہوگی۔ جب کشش پیدا نہ ہوگی۔ جب کشش ہی ناپید ہوگی تو بدفعلی کا‬
‫ارتکاب ہی بعید ازقیاس ہوگا۔ آیت میں آنکھوں کو مطلقا بند رکھنے کا حکم نہیں دیا جا رہا‪ ،‬بلکہ اس کی طرف آنکھ بھر کر‬
‫دیکھنے سے روکا جا رہا ہے جس کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ حضور کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے بڑی سختی سے‬
‫نامحرم کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا ہے۔ چند ارشادات نبوی مالحظہ فرمائیے ‪:‬۔‬
‫عن ابی امامۃ یقول سمعت رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) اکفلو الی بست اکفل لکم بالجنۃ اذا حدث احدکم فال یکذب واذا‬
‫اؤتمن فال یخن واذا وعد فال یخلف وغضوا ابصارکم وکفوا ایدیکم واحفظوا افروجکم۔ (ابن کثیر)‬
‫‪ :‬ترجمہ ‪:‬۔ اگر میرے ساتھ ان چھ باتوں کا وعدہ کرو تو میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں‬
‫‪١‬۔ جب تم میں سے کوئی بات کرے تو جھوٹ نہ بولے۔‬
‫‪٢‬۔ جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت نہ کرے۔‬
‫‪٣‬۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خالفی نہ کرے۔‬
‫‪٤‬۔ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھو۔‬
‫‪٥‬۔ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔‬
‫‪٦‬۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔‬
‫‪ :‬امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے‬
‫من یکفل لی ما بین لحییہ وبین رجلیہ اکفل لہ الجنۃ “ جو شخص مجھے دو باتوں کی ضمانت دے کہ جو اس کے دونوں ”‬
‫جبڑوں کے درمیان یعنی زبان اور جو اس کے دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‬
‫قال رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) ان النظر سہم من سہام ابلیس مسموم من ترکہ مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حالوتھا فی قلبہ۔‬
‫نظر شیطان کے تیروں میں ایک زہریال تیر ہے جو اس کو میرے خوف سے ترک کرتا ہے میں اسے ایمان کی نعمت بخشوں گا‬
‫جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔ حضرت جریر بن عبدہللا البجلی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کریم (صلی ہللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اگر اچانک کسی اجنبیہ پر نظر پڑجائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ فامرنی ان اصرف بصری۔‬
‫حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنی نظر کو پھیرلوں۔ اچانک کسی نا محرم پر اگر نظر‬
‫پڑجائے تو وہ معاف ہے۔ لیکن اگر دوبارہ دانستہ اس کی طرف دیکھے گا تو گناہ گار ہوگا۔ فان لک االولی ولیس لک االخرۃ۔ یہ‬
‫احادیث طیبہ تفسیر ابن کثیر سے منقول ہیں۔‬
‫‪ ٣٧‬یعنی اپنی ستر کی جگہوں کو ڈھانپے رکھیں اور انھیں برہنہ نہ ہونے دیں۔‬
‫ابو العالیہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حفظ فروج کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد زنا سے بچنا ہے۔ لیکن یہاں اس‬
‫سے مراد ستر پوشی ہے تاکہ ان پر نظر نہ پڑے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے۔ اتنی جگہ کو اسے ننگا نہ ہونے دینا‬
‫چاہیے۔ اور اگر کوئی برہنہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا نہ چاہیے۔ تنہائی میں بھی بےپردہ ہونے کی اجازت نہیں۔ حضور (صلی‬
‫ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک صحابی کو فرمایا احفظ عورتک االمن زوجتک اوما ملکت یمینک۔ اپنی شرمگاہوں کی‬
‫حفاظت کرو۔ میں نے عرض کی یا رسول ہللا افرأیت اذا کان الرجل خالیا۔ اگر انسان تنہا ہو تو پھر اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟‬
‫فرمایا فاہلل احق ان یستحٰی منہ۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت بھی ستر نہ کھولے۔ ہللا تعالٰی اس بات کا‬
‫زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔‬
‫‪ ٣٨‬نگاہیں نیچی رکھنے کی حکمت بیان فرمائی جارہی ہے کہ اس طرح ہی تمہارا دامن عفت پاک رہ سکتا ہے۔ اگر نگاہیں‬
‫ہوسناک ہوں۔ مردوزن کا آزادانہ اختالط ہو‪ ،‬خلوت میں نا محرموں کے ساتھ سلسلہ گفتگو بھی جاری رہے‪ ،‬اور پھر انسان یہ‬
‫خیال کرے کہ وہ اپنے دامن کو داغدار نہیں ہونے دے گا تو یہ اس کی حماقت کی انتہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے‬
‫اور بچیاں عفیف اور عصمت شعار رہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم انھیں قرآن کریم کی ان آیات کی تعلیم دیں۔ حضور کریم علیہ‬
‫الصلٰو ۃ والسالم کے یہ حکیما نہ ارشادات ازبر کرائیں تاکہ وہ ہالکت کے اس گرداب کے نزدیک ہی نہ آنے پائیں۔ عالمہ‬
‫قرطبی لکھتے ہیں ‪ :‬البصر ھو الباب اال کبرالی القلب وبحسب ذالک کثر السقوط من جھتہ ووجب التحذ یر منہ وغضہ واجب عن‬
‫جمیع المحرمات وقل مایخشی الفتنۃ من اجلہ۔ نظر دل کی طرف کھلنے واال سب سے بڑا دروازہ ہے۔ نگاہ کی بےراہ روی کے‬
‫باعث ہی اکثر نغر شیں ہوتی ہیں‪ ،‬اس لیے اس سے بچنا چاہیے اور تمام محر کات سے انھیں روکنا چاہیے۔‬

‫‪An-Nur | Verse 31‬‬


‫۪ ‬ ‫ۡو‬ ‫ی‬ ‫ٰل‬ ‫ُخ‬ ‫ۡب‬ ‫ۡض‬ ‫ا‬ ‫ۡن‬ ‫َظ‬ ‫ا‬ ‫اَّل‬ ‫َت‬ ‫َن‬ ‫ۡی‬ ‫ۡی‬ ‫ۡب‬ ‫اَل‬ ‫ۡو‬ ‫ُف‬ ‫ۡظ‬
‫َو ُقۡل ِّلۡل ُم ۡؤ ِم ٰن ِت َیۡغ ُض ۡض َن ِم َص ِرِہَّن َو َی َن ُر َج ُہَّن َو ُی ِد َن ِز ُہَّن ِا َم َہَر ِم َہ َو َی ِر َن ِب ُمِرِہَّن َع ُج ُی ِبِہَّن َو‬
‫ۡل‬ ‫َف‬ ‫ۡح‬ ‫ا‬ ‫ۡب‬‫َا‬ ‫ۡن‬
‫اَل ُیۡب ِد ۡی َن ِزۡی َنَتُہَّن ِااَّل ِلُبُعۡو َلِتِہَّن َاۡو ٰا َبٓاِئِہَّن َاۡو ٰا َبٓاِء ُبُعۡو َلِتِہَّن َاۡو َاۡب َنٓاِئِہَّن َاۡو َاۡب َنٓاِء ُبُعۡو َلِتِہَّن َاۡو ِاۡخ َو اِنِہَّن َاۡو َبِنۤۡی ِاۡخ َو اِنِہَّن َاۡو َبِنۤۡی َاَخ ٰو ِتِہَّن‬
‫َاۡو ِنَس ٓاِئِہَّن َاۡو َم ا َم َلَک ۡت َاۡی َم اُنُہَّن َاِو الّٰت ِبِع ۡی َن َغ ۡی ِر ُاوِلی اِاۡل ۡر َبِۃ ِم َن الِّر َج اِل َاِو الِّطۡف ِل اَّلِذ ۡی َن َلۡم َیۡظ َہُر ۡو ا َع ٰل ی َع ۡو ٰر ِت الِّنَس ٓاِء ۪ َو اَل َیۡض ِرۡب َن‬
‫﴾ِبَاۡر ُج ِلِہَّن ِلُیۡع َلَم َم ا ُیۡخ ِفۡی َن ِم ۡن ِزۡی َنِتِہَّن ؕ َو ُتۡو ُبۤۡو ا ِاَلی ِہّٰللا َج ِم ۡی ًعا َاُّیَہ اۡل ُم ۡؤ ِم ُنۡو َن َلَعَّلُک ۡم ُتۡف ِلُح ۡو َن ﴿‪۳۱‬‬

‫ترجمہ ضیاء القرآن‬


‫اور آپ حکم دیجیے ایمان دار عورتوں کو کہ وہ نیچی رکھا کریں اپنی نگاہیں ‪ 39‬اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی ‪40‬‬
‫اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا خود بخود نمایاں ہو اس سے ‪ 41‬اور ڈالے رہے اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر‬
‫‪ 42‬اور نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو ‪ 43‬مگر اپنے شوہروں کے لیے یا اپنے باپوں کے لیے یا اپنے شوہروں کے باپوں‬
‫کے لیے یا اپنے بیٹوں کے لیے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لیے یا اپنے بھائیوں کے لیے یا اپنے بھتیجوں کے لیے اور‬
‫اپنے بھانجوں کے لیے یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر ‪ 45‬یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو (عورت) کے خواہشمند‬
‫نہ ہوں ‪ 46‬یا ان بچوں پر جو (ابھی تک) آگاہ نہیں عورتوں کی شرم والی چیزوں پر ‪ 47‬اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں ‪48‬‬
‫(زمین پر) تاکہ معلوم ہو جاؤے وہ بناؤ سنگار جو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو ہللا تعالٰی کی طرف سب کے سب اے‬
‫ایمان والو ! تاکہ تم (دونوں جہانوں میں) بامرا دہو جاؤ ‪49‬‬

‫‪An-Nur | Verse 31‬‬


‫َو ُقۡل ِّلۡل ُم ۡؤ ِم ٰن ِت َیۡغ ُض ۡض َن ِم ۡن َاۡب َص اِرِہَّن َو َیۡح َفۡظ َن ُفُر ۡو َجُہَّن َو اَل ُیۡب ِد ۡی َن ِزۡی َنَتُہَّن ِااَّل َم ا َظَہَر ِم ۡن َہا َو ۡل َیۡض ِرۡب َن ِبُخ ُم ِرِہَّن َع ٰل ی ُج ُیۡو ِبِہَّن ۪ َو‬
‫اَل ُیۡب ِد ۡی َن ِزۡی َنَتُہَّن ِااَّل ِلُبُع ۡو َلِتِہَّن َاۡو ٰا َبٓاِئِہَّن َاۡو ٰا َبٓاِء ُبُع ۡو َلِتِہَّن َاۡو َاۡب َنٓاِئِہَّن َاۡو َاۡب َنٓاِء ُبُع ۡو َلِتِہَّن َاۡو ِاۡخ َو اِنِہَّن َاۡو َبِنۤۡی ِاۡخ َو اِنِہَّن َاۡو َبِنۤۡی َاَخ ٰو ِتِہَّن َاۡو‬
‫ِنَس ٓاِئِہَّن َاۡو َم ا َم َلَک ۡت َاۡی َم اُنُہَّن َاِو الّٰت ِبِع ۡی َن َغ ۡی ِر ُاوِلی اِاۡل ۡر َبِۃ ِم َن الِّر َج اِل َاِو الِّطۡف ِل اَّلِذ ۡی َن َلۡم َیۡظ َہُر ۡو ا َع ٰل ی َع ۡو ٰر ِت الِّنَس ٓاِء ۪ َو اَل َیۡض ِرۡب َن‬
‫﴾ِبَاۡر ُج ِلِہَّن ِلُیۡع َلَم َم ا ُیۡخ ِفۡی َن ِم ۡن ِزۡی َنِتِہَّن ؕ َو ُتۡو ُبۤۡو ا ِاَلی ِہّٰللا َج ِم ۡی ًعا َاُّیَہ اۡل ُم ۡؤ ِم ُنۡو َن َلَع َّلُک ۡم ُتۡف ِلُح ۡو َن ﴿‪۳۱‬‬

‫تفسیر ضیاء القرآن‬


‫‪ ٣٩‬پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا۔ اب مومن عورتوں کو ان آداب و‬
‫احکام کی پابندی کا حکم فرمایا جارہا ہے جن سے وہ اپنی ناموس اور آبرو کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ ہللا تعالٰی اپنے محبوب‬
‫‪ :‬کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کو فرما رہے ہیں کہ آپ مومن عورتوں کو حکم دیجئے کہ‬
‫‪١‬۔ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھا کریں۔‬
‫‪٢‬۔ اپنے ستر کی جگہوں کی حفاظت کیا کریں۔‬
‫‪٣‬۔ اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں بجز اس کے جس کے ظاہر کیے بغیر چارہ نہیں۔‬
‫‪٤‬۔ اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے کو ڈھانپ لیا کریں۔‬
‫‪٥‬۔ زمین پر پاؤں اس طرح نہ ماریں جن سے ان کی مخفی زینت و آرائش ظاہر ہو۔‬
‫‪ ٦‬۔ درمیان میں ان لوگوں کا ذکر کردیا گیا جن کے سامنے زینت کا اظہار ممنوع نہیں۔‬
‫یہ چھ ارشادات ربانی ہیں جو اس ایک آیت میں ذکر کیے گئے ہیں۔ اب ذرا ان کا تفصیلی تذکرہ سماعت فرمائیے تاکہ وہ قواعد‬
‫و ضوابط آپ کے سامنے واضح ہوجائیں جن پر کاربند اسالمی معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے ہر مرد اور عورت پر الزمی‬
‫ہے۔ عورتوں کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ ان چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر نہ دکھیں جن کی طرف‬
‫دیکھنا ممنوع ہے۔‬
‫اس مسئلہ کو امام فخر الدین رازی نے خاص ترتیب سے لکھا ہے جس سے مسئلہ کے سارے گوشے واضح ہوجاتے ہیں۔ اس‬
‫لیے میں انھیں کا اتباع کرتے ہوئے اس مسئلہ کو پیش خدمت کرتا ہوں ‪:‬۔‬
‫آپ فرماتے ہیں جس کا وہ حصہ جس کو ظاہر کرنا یا جس کو دیکھنا ممنوع ہے چار طرح سے ہے۔‬
‫‪١‬۔ مرد کے جسم کا وہ حصہ جو دوسرے مرد کو دیکھنا ممنوع ہے۔‬
‫‪٢‬۔ عورت کے جسم کا وہ حصہ جو دوسری عورت کو دیکھنا ممنوع ہے۔‬
‫‪٣‬۔ عورت کے جسم کا وہ حصہ جو مرد کو دیکھنا ممنوع ہے۔‬
‫‪٤‬۔ مرد کے جسم کا وہ حصہ جس کی طرف عورت کو دیکھنا جائز نہیں “۔‬
‫مرد کے جسم کا وہ حصہ جس کی طرف دوسرا مرد نہیں دیکھ سکتا‪ ،‬ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ امام صاحب کے‬
‫نزدیک گھٹنوں کو دیکھنا جائز نہیں اور ان کو دیکھنا بطریقہ اولٰی ممنوع ہوگا۔‬
‫حضرت حذیفہ (رض) ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ران سے کپڑا سرک گیا۔ حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے‬
‫فرمایا ” غط فخذک فانھا من العورۃ “ اپنی ران کو ڈھانپ لو کیونکہ یہ بھی ستر ہے۔ حضرت سیدنا علی (رض) کو بھی ارشاد‬
‫فرمایا ” التبرز فخذک وال تنظر الی فخذ حی وال میت “۔ اپنی رانوں کو ظاہر نہ کرو اور کسی مردہ یا زندہ کی ران کی طرف‬
‫مت دیکھو۔‬
‫‪٢‬۔ عورت کے جسم کا وہ حصہ جو کسی عورت کو دیکھنا بھی جائز نہیں وہ بھی یہی ہے۔ یعنی ناف سے لے کر گھٹنوں تک‬
‫نہیں دیکھ سکتی۔ باقی جس کا دیکھنا جائز ہے۔ لیکن اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو یہ بھی ممنوع ہے۔ غیر مسلم عورت مسلمان‬
‫عورت کے صرف ان حصوں کو دیکھ سکتی ہے جو مرد دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو عبیدہ (رض)‬
‫ساالر لشکر کی طرف لکھا ” انہ بلغنی ان نساء اہل الذمۃ یدخلن الحمامات مع نساء المسلمین فامنع من ذالک وحل دونہ فانہ‬
‫الیجوز ان تری الذمیۃ عریۃ المسلمۃ۔‬
‫یعنی مجھے یہ اطالع ملی ہے کہ ذمی عورتیں مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں جاتی ہیں اس سے روک دو کیونکہ کسی‬
‫ذمیہ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مومن عورت کے ستر کو دیکھے۔‬
‫‪٣‬۔ عورت کے بدن کا وہ حصہ جو مرد کو دیکھنا ممنوع ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں ‪ :‬وہ‬
‫عورت اجنبی ہوگی‪ ،‬محرم ہوگی یا بیوی ہوگی۔ اگر وہ آزاد نا محرم عورت ہے تو اس کا سارا بدن ہاتھ اور چہرہ کے سوا ستر‬
‫ہے‪ ،‬کیونکہ وہ بیع شراء اور لین دین کے وقت چہرہ اور ہاتھوں کو کھولنے پر مجبور ہوتی ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں‬
‫‪ :‬چہرہ اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں‬
‫چہرہ دیکھنے کی کوئی غرض نہ ہو‪ ،‬فتنہ کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ )ا(‬
‫دوسری صورت یہ ہے‪ ،‬دیکھنے کی غرض کوئی نہیں لیکن فتنہ کا اندیشہ ہے۔ )ب(‬
‫تیسری صورت یہ ہے کہ غرض بھی ہے اور فتنہ کا اندیشہ بھی ہے۔ )ج(‬
‫پہلی صورت میں اجنبیہ کی طرف بال مقصد قصد و ارادہ سے دیکھنا جائز نہیں۔ اگر ایک دفعہ نگاہ پڑجائے تو دوسری مرتبہ‬
‫آنکھیں پھیرلے۔ نگاہیں نیچی کرلے۔ حضرت امام صاحب (رح) کی رائے یہ ہے کہ اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو ایک مرتبہ جائز‬
‫ہے اور بار بار دیکھنا منع ہے۔ وقیل یجوز مرۃ واحدۃ اذا لم یکن محل فتنۃ وبہ قال ابو حنیفۃ (رح) وال یجوز ان یکرر النظر الیہا۔‬
‫اس کی تفصیل ان احادیث میں گزر چکی ہے جو پہلی آیت کے ضمن میں درج کی گئی ہیں۔ دوسری صورت جبکہ اجنبیہ کے‬
‫دیکھنے کا مقصد ہو مثًال اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس عورت کے چہرہ اور‬
‫ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز ہے۔ ارشاد نبوی ہے ” اذا خطب احدکم المرأۃ فال جناح علیہ ان ینظر الیہا “۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی‬
‫عورت سے منگنی کرنا چاہے تو اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ مغیرہ (رض) بن شعبہ نے ایک عورت سے منگنی کی۔‬
‫حضور (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تو نے اسے دیکھا ہے انھوں نے عرض کی نہیں ” قال فانظر فانہ احری ان‬
‫یدوم بینکما “۔ فرمایا پہلے دیکھ لو اس طرح تمہارے رشتہ کی بقا کا زیادہ امکان ہے۔ تیسری صورت میں جبکہ اجنبیہ کی‬
‫طرف محض شہوت کے خیال سے دیکھے تو اس وقت اس کے کسی حصہ جسم کو دیکھنا بھی ممنوع ہے البتہ ڈاکٹر اور طبیب‬
‫مریضہ کے جسم کے کسی حصہ کو بھی دیکھ سکتا ہے جبکہ اس کا دیکھنا عالج کے لیے ضروری ہو۔ لیکن مس توراۃ کے‬
‫عالج کے لیے ایسے طبیب اور ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے جو امین ہو۔ اسی لیے امام رازی فرماتے ہیں۔ یجوز للطبیب االمین‬
‫ان ینظر الیہا للمعالجۃ۔ اگر عورت ڈوب رہی ہو یا اسے آگ لگ گئی ہو تو اسے بچانے کے لیے اس کے جسم کے کسی حصہ‬
‫کو ہاتھ لگانا یا اس کی طرف دیکھنا ممنوع نہیں کیونکہ اس وقت اس کی جان بچانا فرض ہے۔ یہ احکام اس عورت کے تھے‬
‫جو اجنبیہ اور نامحرم ہو۔‬
‫محرم عورت کے متعلق امام ابوحنیفہ کا ارشاد یہ ہے کہ جسم کے وہ حصے جو کام کاج کرتے وقت عام طور پر کھل جاتے‬
‫ہیں فقط ان کی طرف دیکھنا جائز ہے وعورتھا مایبدو عند المہنۃ وھو قول ابی حنیفۃ (رح) اور اپنی بیوی کے جسم کا کوئی‬
‫حصہ ایسا نہیں جس کی طرف دیکھنا خاوند کے لیے ممنوع ہو۔‬
‫‪٤‬۔ عورت نامحرم مرد کے ناف اور گھٹنوں کے درمیان نہیں دیکھ سکتی۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ عورت مرد کا صرف چہرہ‬
‫اور ہاتھ دیکھ سکتی ہے۔ اس کے جسم کے باقی حصوں کی طرف نہیں دیکھ سکتی لیکن االول اصح پہال قول صحیح ہے۔ یہ‬
‫اس وقت کا حکم ہے جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو مرد کے کسی حصہ کی طرف نہ دیکھے۔ حتٰی کہ‬
‫مرد کے چہرہ کی طرف بار بار دیکھنا بھی جائز نہیں۔ وال یجوز لہا قصد النظر عند خوف الفتنۃ وال تکریر النظر الٰی وجہہ‬
‫(تفسیر کبیر)‬
‫‪ ٤٠‬ابو العالیہ کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ یہاں ان الفاظ سے ستر کی جگہ کو ڈھانپنا ہے لیکن امام رازی (رح) اور دیگر‬
‫علماء فرماتے ہیں کہ یہ تخصیص ضعیف ہے النہ تخصیص من غیر داللۃ۔ ظاہر آیت کا مقتضاء یہ ہے کہ ہر اس چیز سے‬
‫حفاظت کی جائے جو ہللا تعالٰی نے حرام کی ہے اس میں بدکاری‪ ،‬مس کرنا اور دیکھنا سب داخل ہیں۔‬
‫‪ ٤١‬وہ زینت جو ظاہر ہے جس کے اظہار کی ممانعت نہیں۔ اس کے متعلق حضرات ابن عباس‪ ،‬مجاہد‪ ،‬عطاء‪ ،‬ابن عمر (رض)‬
‫اور انس (رض) کا قول ہے ما کان فی الوجہ والکف الخضاب والکحل یعنی وہ زینت جو چہرہ اور ہتھیلیوں میں ہوتی ہے جیسے‬
‫خضاب اور سرمہ۔‬
‫حسن بصری کہتے ہیں وجھا وما ظہر من ثیابھا۔ چہرہ اور وہ کپڑے جو ظاہر ہوں۔ سعید بن المسیب نے فرمایا وجھہا مما ظہر‪،‬‬
‫چہرے کا وہ حصہ جو ظاہر ہو۔ قال ابراہیم الزینۃ الظاھرۃ الثیاب اس سے مراد لباس ہے۔ یہ مختلف اقوال لکھنے کے بعد امام‬
‫ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں‪ ،‬قال اصحابنا المراد الوجہ والکفان الن الکحل فینۃ الوجہ والخضاب والخاتم زینۃ الکف یعنی علماء‬
‫احناف کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں کیونکہ سرمہ چہرے کی اور خضاب اور انگوٹھی ہتھیلیوں کی‬
‫زینت ہیں۔ (احکام القرآن)‬
‫لیکن خیال رہے کہ یہ اباحت اس وقت ہے جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ورنہ چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا بھی حرام ہے۔ عالمہ ابن‬
‫حیان االندلسی لکھتے ہیں قال ابن خویز منداد اذا کانت جمیلۃ وخیف من وجھہا وکفہا الفتنۃ فعلیہا ستر ذالک اور اگر عورت‬
‫خوبرو ہو‪ ،‬اور اس کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف دیکھنا فتنے کا باعث ہو تو اس پر الزم ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں‬
‫کو ظاہر نہ کرے (بحر محیط)‬
‫آج جبکہ لوگوں کی آنکھوں میں حیا نہیں رہی ہر طرف آوارگی اور بیہودگی کا دور دورہ ہے ہر اس شخص پر جس کی نگاہوں‬
‫میں عفت و عصمت کی کوئی قدروقیمت ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی جوان بہو بیٹیوں کو بےپردہ باہر نکلنے سے روکے اور‬
‫انھیں نامحرموں کے سامنے بےتکلفی سے آنے کی اجازت نہ دے۔‬
‫‪ ٤٢‬پہلے عورتیں سر پر جو کپڑا ڈالتی تھی ان کے پلو اپنی پشت پر لٹکا دیا کرتی تھیں۔ اس طرح ان کی گردن‪ ،‬کان‪ ،‬سینہ‬
‫وغیرہ ظاہر رہتے تھے۔ اس آیت نے یہ حکم دیا کہ سر پر جو اوڑھو اس کے پلوں کو پشت پر پیچھے نہ پھینک دو بلکہ انھیں‬
‫اپنے گریبانوں پر ڈال دو تاکہ تمہارے سینے‪ ،‬گردن وغیرہ لوگوں کی نظروں سے چھپ جائیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور‬
‫مردوں نے جاکر اپنی بیویوں‪ ،‬بیٹیوں اور بہنوں کو سنائی تو اسی وقت انھوں نے اس کی تعمیل کی اور اپنی ایک پرانی عادت‬
‫کو چشم زدن میں چھوڑ کر اطاعت وانقیاد کی ایک نادر مثال پیش کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس آپ کی بھتیجی‬
‫حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن آئیں۔ انھوں نے اس وقت ایک باریک اوڑھنی سر پر ڈالی ہوئی تھی۔ آپ کو یہ چیز سخت‬
‫ناگوار گزری اور فرمایا انما یضرب بالکثیف الذی یستر۔ اے بیٹی ! ایسی اوڈھنی اوڑھنے کا حکم ہے جو موٹی ہو اور جس سے‬
‫پردہ کا مقصد پورا ہو۔‬
‫دختران اسالم ذرا خود ہی انصاف کریں کہ جو باریک دوپٹے وہ اوڑھتی ہیں اور جس طرح انھیں سر کے بجائے اپنے کندھوں‬
‫پر ڈال لیتی ہیں اور سینہ تان کر سر بازار چلتی ہیں ان کا یہ طریقہ کار اسالم کی تعلیمات کے کتنا منافی ہے۔ عالمہ اقبال (رح)‬
‫نے کتنے درد بھرے انداز میں دختران ملت کو عریانی اور بےپردگی سے باز آنے کی تلقین کی ہے ف‬
‫بہل اے دخترک ایں دلبری ہا مسلماں رانہ زیبد کافری ہا‬
‫منہ دل برجسمال غازہ پردرد بیا موز ازنگاہ فارتگری ہا‬
‫پھر فرماتے ہیں ‪:‬۔‬
‫اگر پندے زور دیشے پذیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری‬
‫بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری‬
‫یعنی اگر تو ایک درویش کی نصیحت کو قبول کرلے تو ہزاروں امتیں فنا ہوسکتی ہیں لیکن تو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ حضرت‬
‫فاطمہ زہرا (رض) بتول جنت کا شیوہ اختیار کر اور زمانہ کی نگاہوں سے چھپ جاتا کہ تیری آغوش میں شبیر جیسا فرزند‬
‫پرورش پاسکے۔‬
‫اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ سر‪ ،‬گردن اور سینہ کا چھپانا فرض ہے۔‬
‫‪ ٤٣‬پہلے مومن عورتوں کو زینت کی نمائش سے منع فرمایا‪ ،‬اب ان لوگوں کی فہرست بیان کردی جن کے ساتھ نہایت قریبی‬
‫تعلق ہوتا ہے اور جن کے ہاں آمدورفت عام ہوتی ہے۔ اگر ایسے قریبی رشتہ داروں پر بھی اس قسم کی پابندی لگا دی جاتی تو‬
‫لوگ طرح طرح کی الجھنوں میں مبتال ہوجاتے اور زندگی کی بہت سی سہولتوں سے محروم ہوجاتے۔ اس لیے بتادیا کہ مسلم‬
‫خواتین کو عام مردوں سے اپنی آرائش چھپانی چاہیے۔ لیکن ان رشتہ داروں سے جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اپنی آرائش‬
‫کو چھپانے کی ضرورت نہیں۔ اس فہرست میں جن اقربا کا ذکر ہے (خاوند کے سوا) وہ محرم ابدی ہونے میں سب یکساں ہیں‪،‬‬
‫لیکن قرابت میں واضح فرق ہے اس لیے علماء اسالم نے انھیں تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ سب سے پہال درجہ خاوند کا ہے‬
‫گھر میں جو اس کا مقام ہے وہ کسی کا نہیں۔ ” لہ حرمۃ لیست لغیرہ یحل لہ کل شیء منہا “ یعنی اس سے کسی قسم کا پردہ اور‬
‫حجاب نہیں۔ اس کے بعد باپ‪ ،‬بیٹا اور بھائی ہیں۔ اس کے بعد خاوند کا بیٹا ہے۔ جو چیز اول الذکر کے سامنے ظاہر کی جاسکتی‬
‫ہے وہ آخر الذکر افراد کے سامنے ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ وبدا تعالٰی باالزواج الن اطالعہم یقع علٰی اعظم من الزینۃ ثم ثنی‬
‫بالمحارم وسوی بینھم فی ابداء الزینۃ ولکن تختلف مراتبہم فی الحرمۃ بحسب ما فی النفوس البشر فاالب واالخ لیس کا بن الزرج قد‬
‫یبدی لالب ماال یبدی البن الزوج (بحر)‬
‫یعنی جن لوگوں کے سامنے اظہار زینت ممنوع نہیں ان میں سرفہرست خاوند ہے۔ کیونکہ اس سے کسی طرح کا بھی حجاب‬
‫نہیں۔ اس کے بعد محرم لوگ ہیں لیکن ان کے مراتب مختلف ہیں۔ جو مرتبہ باپ اور بھائی کا ہے وہ خاوند کے بیٹے کا نہیں اس‬
‫لیے اظہار زینت میں بھی فرق ہوگا۔‬
‫‪ ٤٤‬جس طرح پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ عورتوں سے مراد مسلمان عورتیں ہیں غیر مسلم عورتوں کے سامنے اپنی‬
‫پوشیدہ زینت کی جگہوں کو کھولنا ممنوع ہے۔‬
‫‪ ٤٥‬اس سے مراد کنیزیں ہیں اگرچہ وہ مسلمان نہ ہوں تب بھی ان کے سامنے اظہار زینت کی اجازت ہے حضرت سعید بن‬
‫المسیب نے فرمایا ال تغرنکم ھذہ االیات اوما ملکت ایمانھن انما غنی بھا االماء۔ کہ تمہیں یہ آیت دھوکہ نہ دے‪ ،‬یہاں ما ملکت‬
‫سے مراد لونڈیاں ہیں۔‬
‫‪ ٤٦‬ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں عورتوں کی خواہش نہیں ہوتی جیسے عنین‪ ،‬نامرد‪ ،‬خصی وغیرہ۔ الحاجۃ لہ فی النساء‬
‫(جصاص) ویجتمع فیمن الفھم لہ والھمۃ یتنبہ بھا الٰی امر النساء۔‬
‫‪ ٤٧‬وہ بچے جو عورتوں کے خفیہ معامالت سے بےخبر ہوں۔ جب کوئی لڑکا اگرچہ وہ نابالغ بھی ہو ان معامالت سے آگاہ‬
‫ہوجائے تو ان سے اجنبیوں واال سلوک کیا جائے گا۔‬
‫‪ ٤٨‬کئی عورتیں پازیب وغیرہ پہن کر نکلتیں اور مردوں کے مجمع سے جب ان کا گزر ہوتا تو وہ دانستہ اپنے پاؤں زمین پر‬
‫مارتیں تاکہ مرد پازیب کی جھنکار سن کر ان کی طرف متوجہ ہوں۔ اس آیت میں اس حرکت سے باز آنے کا حکم صادر فرما‬
‫دیا۔ ان تمام احکام کا مقصد تو یہ ہے کہ ایسے تمام اشتعال انگیز اطوار اور عوامل پر قدغن لگا دی جائے جن کی وجہ سے‬
‫اسالمی معاشرہ میں بدکاری اور بےحیائی کی راہیں کھل سکتی ہیں اور جن کی موجودگی میں وعظ و نصیحت بلکہ قانون کی‬
‫شدت بھی گناہوں کا انسداد کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس آیت میں صرف پاؤں مار کر مردوں کی مجلس سے گزرنا ممنوع‬
‫قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ہر ایسی چیز جو ان کو نامحرموں کی توجہ کا مرکز بنا دے اس سے منع کیا گیا ہے۔ بھڑکیلے لباس‬
‫پہن کر‪ ،‬یا تیز خوشبو لگا کر مجمع عام میں جانا بھی عورت کے لیے جائز نہیں۔‬
‫حضرت ابوہریرہ (رض) نے ایک عورت کو آتے ہوئے دیکھا اس سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ آپ نے اسے فرمایا امۃ‬
‫الجبار اے خداوند جبار کی بندی کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں آپ نے پوچھا کیا تو نے خوشبو لگا رکھی‬
‫ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا ” سمعت حبی ابا القاسم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) یقول ال یقبل ہللا صلٰو ۃ امراء ۃ طیبت‬
‫لھذا المسجد حتی ترجع فتغل غسلہا من الجنابۃ۔ میں نے اپنے محبوب ابو القاسم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے‬
‫سنا کہ ہللا تعالٰی اس عورت کی نماز قبول نہیں فرماتا جو مسجد میں تیز خوشبو لگا کر جائے جب تک کہ وہ گھر لوٹ کر غسل‬
‫جنابت نہ کرے۔‬
‫وہ عورتیں جو زرق برق بھڑکیلے لباس پہن کر خراماں خراماں مٹکتی ہوئی اجنبی مردوں کے پاس آتی جاتی ہیں۔ دختران‬
‫اسالم ان کے متعلق اپنے پیارے رسول کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد گرامی بھی سن لیں۔ میمونہ بنت سعد کہتی‬
‫ہیں کہ رسول ہللا نے فرمایا الرافلۃ فی الزینۃ فی غیر اہلہا کمثل ظلمۃ یوم القیامۃ النور لہا۔ وہ عورت جو آراستہ پیراستہ ہو کر‬
‫نامحرموں میں اترا اترا کر چلتی ہے قیامت کے دن وہ مجسم تاریکی ہوگی جہاں نور کی کرن تک نہ ہو (ترمذی)‬
‫‪ ٤٩‬یعنی بال چون و چرا احکام اٰل ہی اور ارشادات نبوی کی تعمیل کے لیے جھک جاؤ۔ اسی میں تمہارے دونوں جہانوں کی‬
‫کامیابی ہے۔ آفتاب اسالم کے طلوع ہونے کے بعد اب اہل جاہلیت کے رسم و رواج کو اور اخالق و عادات کو نہ چھوڑنا بڑی‬
‫بےانصافی ہے۔ فان الفالح کل الفالخ فی فعل ما امر ہللا بہ ورسولہ وترک ما نھیا عنہ وہللا تعالٰی ھو المستعان (ابن کثیر)‬

You might also like