Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 24

‫عالمہ اقبال اوپن‬

‫یونیورسٹی‬

NAME:
ID NO:
PROGRAM:
COURSE CODE: (1902)
SEMESTER: Spring 2024

ASSIGNMENT NO:2
‫ہندؤوں کے عقیدٔہ اوتار کی تفصیل بیان کریں۔‬ ‫سوال نمبر ‪1‬۔‬

‫ہندوؤں کا عقیدہ اوتار‬

‫عقیدہ اوتار ہندو مت کا ایک مرکزی عقیدہ ہے جس کے مطابق خدا (بھگ وان) مختل ف ادوار میں‬

‫مختل ف ش کلوں میں زمین پ ر آت ا ہے ت اکہ انس انیت ک و بچ ائے اور اخالقی ات کی تعلیم دے۔ ان‬

‫شکلوں کو اوتار کہا جاتا ہے۔‬

‫اوتار کے بارے میں بنیادی تصورات‬

‫بھگوان کی ‪ :‬ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان ہر جگہ موجود ہے اور ہر چ یز میں موج ود ہے۔‬

‫وہ کائنات کا خالق اور مالک ہے اور اس کی ہر چیز پر قدرت ہے۔‬

‫آتمان کا سفر‪ :‬ہندوؤں کا خی ال ہے کہ ہ ر انس ان کے ان در ای ک آتم ان (روح) ہے ج و جنم اور‬

‫موت کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ آتمان کا مقصد موکش (نجات) حاصل کرنا ہے‪ ،‬جو کہ جنم‬

‫و مرگ کے چکر سے مکمل آزادی ہے۔‬

‫دھرم کا تحفظ‪ :‬ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان اوتار کے طور پ ر زمین پ ر آت ا ہے ت اکہ دھ رم‬

‫(اخالقیات) کا تحفظ کرے اور انسانیت کو برائی سے نجات دے۔‬

‫اوتار کی اقسام‬

‫ہندو مت میں مختلف اقسام کے اوتار ہیں۔ کچھ اہم اوتار درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫وشنو‪ :‬وشنو کو ہندو مت کے تین بڑے دیوتاؤں میں سے ای ک س مجھا جات ا ہے۔ وہ کائن ات ک ا‬

‫محافظ اور نگہبان ہے۔ وشنو کے دس اوتار ہیں‪ ،‬جن میں سب سے مشہور رام اور کرشن ہیں۔‬
‫شیو‪ :‬شیو کو ہن دو مت کے تین ب ڑے دیوت اؤں میں س ے ای ک س مجھا جات ا ہے۔ وہ کائن ات ک ا‬

‫مہلک اور تخلیقی قوت ہے۔ شیو کے بھی کئی اوتار ہیں‪ ،‬جن میں ناتھ اور ہنومان شامل ہیں۔‬

‫دیوی‪ :‬دیوی کو ہندو مت کی طاقتور دیوی سمجھا جاتا ہے۔ وہ اکثر برائی کی خالف لڑنے اور‬

‫انسانیت کی حفاظت کرنے والی کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ دی وی کے ک ئی اوت ار ہیں‪ ،‬جن‬

‫میں درگا اور کالی شامل ہیں۔‬

‫اوتار کی اہمیت‬

‫اوتار ہندو مت میں ایک اہم عقیدہ ہے کیونکہ وہ انسانیت کو امید اور تس لی ف راہم ک رتے ہیں۔ وہ‬

‫ہندوؤں کو یاد دالتے ہیں کہ بھگوان ہمیش ہ ان کے س اتھ ہے اور وہ مش کل وقت میں ان کی م دد‬

‫ک رے گ ا۔ اوت ار ہن دوؤں ک و اخالقی ات کی تعلیم بھی دی تے ہیں اور انہیں ای ک اچھی زن دگی‬

‫گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‬

‫اوتار (‪ )Avatar‬کے معنی خدا کی جانب سے اتارا ہوا ہے‪ ،‬مگ ر ہن دو مت میں عموم ًا اوت اروں‬

‫کو خدا (بھگوان) سے عالحدہ بشر نہیں بلکہ خود خدا ہی کا روپ قرار دیا جاتاہے‪ ،‬یعنی بھگوان‬

‫خود کسی شکل میں وارد ہوتا ہے۔ لہذا یہ نظ ریہ اس الم کی وح دانیت‪،‬مس یحیت اور یہ ودیت کے‬

‫نبوت کے تصور سے بالکل الگ ہے۔‬

‫ہندو مت میں وہ دس اوتار ہیں جنہیں وشنو کے دس مختلف انس انی روپ میں بط ور دیوت ا الئ ق‬

‫پرستش شمار کیا جاتا ہے جنھوں نے مختلف َادوار میں انسانی روپ میں جنم لیا اور انس انیت کی‬

‫بھالئی کی۔ ہندو مت میں وشنو کو یہ درجہ حاصل ہے کہ وہ انسانیت کی بھالئی کی خاطر کس ی‬

‫بھی دور میں انسانی روپ میں جنم لے کر کسی خاص مقصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ وش نو کے‬
‫ِان دس اوتاروں میں سے ‪ 9‬اوتار ِاس دنی ا میں اپ نے دور میں گ ذر چکے ہیں جبکہ آخ ری کلکی‬

‫اوتار ہے جو ہندو مت کے مطابق کل یگ کے آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا ۔ہندو مت ک ا یہ عقی دہ‬

‫عقیدۂ تجسیم کی مانند ہے جس میں وشنو کسی بھی انسانی روپ میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔ لف ظ‬

‫’’دس اوت ار سنس کرت زب ان کے دو َالف اظ ک ا م رکب ہے یع نی‪ :‬دس اور اوت ار۔ دس اوت ار کی‬

‫فہرست ہندو مت کے بنیادی ماخذوں میں تفصیًال ملتی ہے۔ہندو مت کے مختلف گروہ اور عقائد و‬

‫خیاالت کے حامل ل وگ مق امی دیوت اؤں ک و بھی ِاس فہرس ت میں ش مار کرلی تے ہیں جیس ے کہ‬

‫کرشن کے بھائی بلرام اور مہاتما گوتم بدھ ۔ اگرچہ دس اوتاروں کی یہ فہرست متنازع نہیں لیکن‬

‫کرشن اور مہاتما گوتم بدھ کے متعلق ِاختالف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ وشنو کے اوتار ہیں یا نہیں؟۔‬

‫دس اوتاروں کی غیر متن ازع فہرس ت میں متس یہ‪ ،‬ک ورم‪ ،‬وراہ‪ ،‬نرس نگھ‪ ،‬وامن‪ ،‬پرش و رام‪ ،‬رام‬

‫چندر‪ ،‬کرشن‪ ،‬بلرام اور گوتم بدھ شامل ہیں ۔ کلکی اوتار کے متعلق ہندو مت کے تم ام عقائ د میں‬

‫ُاس کے ظہور سے متعلق عالمات اور پیشگوئیاں موجود ہیں جن کی بنا پر کہ ا ج ا س کتا ہے کہ‬

‫کلکی اوتار ہی وشنو کا آخری اوتار تسلیم کیا جاتا ہے ج و ک ل ی گ کے آخ ری زم انہ میں ظ اہر‬

‫ہوگا۔ مقامی دیوت اؤں میں جگن ن اتھ ک و کرش ن ک ا نیم اوت اری بھی کہ ا جات ا ہے۔ مہاراش ٹر اور‬

‫کرناٹک میں وٹھوبا کو بھی وشنو کا اوتار مانا جاتا ہے۔‬


‫بدھ مت کی تعلیمات بیان کریں۔‬ ‫سوال نمبر ‪2‬۔‬

‫بدھ مت کی تعلیمات‬

‫بدھ مت ایک قدیم مذہب اور فلسفہ ہے جو تقریبًا ‪ 2500‬سال پہلے بھارت میں شروع ہ وا تھ ا۔ اس‬

‫کی بنیاد سدھارتھ گوتم نے رکھی تھی‪ ،‬جنہیں بدھ کے ن ام س ے بھی جان ا جات ا ہے۔ ب دھ مت کی‬

‫بنیادی تعلیمات چار آریہ سچائیوں اور آٹھ گنا راستے پر مبنی ہیں۔‬

‫چار آریہ سچائیاں‬

‫چار آریہ سچائیاں بدھ مت کی بنی ادی تعلیم ات ہیں ج و دکھ کی ن وعیت اور اس س ے نج ات کے‬

‫طریقے کی وضاحت کرتی ہیں۔ یہ سچائیاں درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫دکھ سچ ہے‪ :‬زندگی میں دکھ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‬

‫دکھ کا سبب سچ ہے‪ :‬دکھ کا سبب تعلق اور خواہش ہے۔‬

‫دکھ کا خاتمہ سچ ہے‪ :‬دکھ کا خاتمہ نیروانا کی کے ذریعے ممکن ہے۔‬

‫دکھ کے خاتمے کا راستہ سچ ہے‪ :‬دکھ کے خاتمے کا راستہ آٹھ گنا راستہ ہے۔‬

‫آٹھ گنا راستہ‬

‫آٹھ گنا راستہ اخالقیات اور ذہ نی ت ربیت ک ا ای ک نظ ام ہے ج و ب دھوں ک و دکھ س ے نج ات اور‬

‫نیروانا کی میں مدد کرتا ہے۔ یہ راستہ درج ذیل آٹھ حصوں پر مشتمل ہے‪:‬‬

‫صحیح بصیرت‪ :‬دنیا اور اس میں موجود چیزوں کی حقیقت کو سمجھنا۔‬

‫صحیح خیال‪ :‬نیک اور مثبت خیاالت رکھنا۔‬


‫صحیح گفتگو‪ :‬سچائی بوالں‪ ،‬مہربان اور دوسروں کو تکلیف نہ پہنچانے والی باتیں کریں۔‬

‫صحیح عمل‪ :‬نیک اور اخالقی اعمال کرنا۔‬

‫صحیح روزی‪ :‬ایماندارانہ اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے والے طریقے سے روزی کمانا۔‬

‫صحیح کوشش‪ :‬مثبت اور مفید سرگرمیوں میں کوشش کرنا۔‬

‫صحیح شعور‪ :‬اپنے خیاالت‪ ،‬احساسات اور اعمال پر پوری توجہ دینا۔‬

‫صحیح مراقبہ‪ :‬ذہن کو پرسکون اور مرکوز کرنا۔‬

‫بدھ مت کی دیگر اہم تعلیمات‬

‫چار آریہ سچائیوں اور آٹھ گنا راس تے کے عالوہ‪ ،‬ب دھ مت کی کچھ دیگ ر اہم تعلیم ات درج ذی ل‬

‫ہیں‪:‬‬

‫کارما‪ :‬ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔‬

‫پنربھو‪ :‬موت کے بعد روح ایک نئے جسم میں دوبارہ جنم لیتی ہے۔‬

‫انیشچیتا‪ :‬ہر چیز عارضی اور مسلسل بدلتی رہتی ہے۔‬

‫اناتا‪ :‬کوئی بھی چیز مستقل یا ابدی نہیں ہے۔‬

‫بدھ مت کا مقصد‬

‫بدھ مت کا مقصد نیروان ا کی ہے‪ ،‬ج و دکھ س ے مکم ل آزادی اور خوش ی کی ای ک اعلٰی کیفیت‬

‫ہے۔ نیروانا حاصل کرنے کے لیے‪ ،‬بدھوں کو چار آریہ سچائیوں کو سمجھنا اور آٹھ گنا راستے‬

‫پر عمل کرنا چاہیے۔‬

‫بدھ مت کے اثرات‬
‫بدھ مت دنی ا ک ا ای ک ب ڑا م ذہب ہے جس کے پیروک ار تقریب ًا ‪ 500‬ملین ہیں۔ اس نے ایش یا کی‬

‫ثق افت اور معاش رے پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے‪ ،‬اور اس کے خی االت نے مغ رب میں بھی مقب ولیت‬

‫حاصل کی ہے۔‬

‫بدھ مت کی تاریخ ‪ 5‬ویں صدی قبل مسیح سے لے کر آج تک کی دوری ت ک ہے۔ ج و اص ل میں‬

‫قدیم ہندوستان کے مشرقی حصے سے تشکیل پایا تھا اور مگ دھا (اب ہندوس تان کے ص وبہ بہ ار‬

‫کا حصہ) کی ریاست میں پھیل گیا تھا۔ بدھ مت کا وجود سدھارتھ گوتم کی تعلیمات پ ر مب نی ہے۔‬

‫بدھ مذہب آج کے دور میں چالئے جانے والے قدیم مذاہب میں س ے ای ک ہے۔ ب دھ مت کی ابت دا‬

‫شمال مشرقی ہندوستان میں ہوئی اور وسط ایشیاء اور جنوب مشرقی ایش یاء میں پھی ل گی ا۔ ای ک‬

‫زمانے میں یہ مذہب پورے ایشیا میں پھیل گیا تھا۔ بدھ م ذہب کی ت اریخ بھی مختل ف پیش ن گ وئی‬

‫کی تحریکوں کی نشو و نما کے ساتھ نشان زد ہے جیسے تھ یرواد‪ ،‬مہای انہ اور وجریان ا جیس ے‬

‫بدھ مت کی دیگر شاخوں کا عروج و زوال شامل ہے‬

‫سدھارتھ گوتما بدھ مت کے تاریخی بانی تھے۔ وہ شاکیہ خان دان کے کش تریہ ب رہمن خان دان میں‬

‫شہزادہ کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ بہت سے م ورخین اب بھی اس کی ت اریخ پی دائش اور وف ات پ ر‬

‫متفق نہیں ہیں۔ لیکن زیادہ تر مورخین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بدھ ‪ 400‬سال قبل مسیح سے‬

‫چند عشروں قبل فوت ہوا تھا۔ اس کے شاکیہ‪-‬کشتریہ خاندان کے خاندان برہمن قبیلے س ے تعل ق‬

‫رکھتے تھے‪ ،‬جیسا کہ اس کے کنبہ کے ذریعہ دیے گ ئے "گ وتم" کے ن ام س ے ظ اہر ہوت ا ہے۔‬

‫انیسویں صدی کے اسکالر ایٹل کے مطابق‪ ،‬سدھارتھا گوتم کا نام گوتم ایک برہمرشی گ وتم س ے‬

‫متاثر ہوا ہے۔ متعدد بدھ مت کے ص حیفوں میں کہ ا گی ا ہے کہ ب دھ مت بدھمرش ی انگ یرس کی‬
‫اوالد تھے۔ مثال کے طور پر‪ ،‬پالي مہاگھاگیا انگیراس میں‪ ،‬بدھ ک و انج یرس کہ ا جات ا ہے‪ ،‬ج و‬

‫بنیادی طور پر گوتم بدھ کی شناخت انگیراس برادری سے ہے۔ ] مص نف اور ت اریخ دان ای ڈورڈ‬

‫جے۔ تھامس نے بودھ کا ذکر بھی براہمرشی گوتم اور انجیرس کی اوالد کے طور پر کیا ہے۔‬

‫روایتی بدھ مت کے نظریے کے مطابق‪ ،‬سدھارتھ گوتم نے اپنی خانقاہی زن دگی اور م راقبہ کے‬

‫ذریعہ لطف اندوز اور خود جبر کا اعتدال پسند راستہ تالش کیا۔‬

‫سدھارتھا گوتم نے اصل میں اشیوتھا کے درخت کے نیچے سدھی حاصل کیا تھ ا جس ے اب ب دھ‬

‫گیا‪ ،‬ہندوستان میں بودھی درخت کہا جاتا ہے۔ روش ن خی الی کے حص ول کے بع د گ وتم ب دھ ک و‬

‫"سمیاکسمبدھو" یا "روشن خیال شخصیت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔‬

‫اس وقت کی مگدھا کی بادش اہی ِبمِبس ارا کے دور میں‪ ،‬ب دھ مت ک و اپ نے م ذہب کی تش ہیر میں‬

‫سرپرستی حاصل تھی۔ شہنشاہ بھیما نے بدھ مت کو اپنا ذاتی مذہب مان لی ا اور اپ نی ریاس ت میں‬

‫متعدد بدھ خانقاہوں کی تعمیر کا حکم دیا۔ اور انہی خانقاہوں نے ہی ہندوستان میں موجودہ ریاست‬

‫بہار کے نام رکھنے میں کردار ادا کیا۔‬

‫بدھ مت کے پیروکاروں نے سب سے پہلے اپنے پانچ ساتھیوں کو شمالی ہندوستان کے وارانس ی‬

‫کے موجودہ ہ یر پ ارک میں خطبہ دی ا۔ ب دھ کے س اتھ م ل ک ر‪ ،‬ان پ انچ راہب وں نے پہلی س نگھا‬
‫(راہبوں یا راہبوں کی جماعت) تشکیل دی۔ متعدد بدھ مت کے متن کے مطابق‪ ،‬ابتدائی ہچکچ اہٹ‬

‫کے باوجود‪ ،‬گوتم بدھ نے بعد میں راہبوں کو انجمن میں شامل کرنے کا فیص لہ کی ا۔ ب دھ راہب وں‬

‫کو "راہبہ" کہا جاتا ہے۔ بدھ کی چچی اور سوتیلی م اں مہ اپجپتی گ وتمی ب دھ مت کی پہلی ن ون‬

‫تھیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں‪ ،‬وہ راہبہ کے طور پر راہبہ بن گئیں۔‬

‫یہ جانا جاتا ہے کہ بدھ اپنی ساری زندگی کے دوران میں ہندوستان کے شمالی حصے اور دیگ ر‬

‫گنگا کے میدانی عالقوں کا سفر کیا۔‬

‫زرتشت سےپہلےایران کی مذہبی اورتمدنی حالت بیان کریں‬ ‫سوال نمبر ‪3‬۔‬

‫زرتشت سے پہلے ایران کی مذہبی اور تمدنی حالت‬

‫زرتشت سے پہلے ایران کی مذہبی اور تمدنی حالت ایک پیچیدہ اور متنوع تھی۔ مختل ف عالق وں‬

‫اور ادوار میں مختلف عقائد اور رسم و رواج موجود تھے۔ تاہم‪ ،‬کچھ ع ام خصوص یات بھی تھیں‬

‫جو ایرانی مذہب اور ثقافت کو ایک دوسرے سے جوڑتی تھیں۔‬

‫مذہب‬

‫زرتشت سے پہلے ایران کا غالب مذہب ایک بہت خدا پرستی تھا۔ لوگوں ک ا خی ال تھ ا کہ کائن ات‬

‫میں بہت سے دیوتا اور دیوتاؤں ک ا وج ود ہے‪ ،‬جن میں س ے ہ ر ای ک ک ا اپن ا مخص وص دائ رہ‬
‫اختیار تھا۔ ان دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے‪ ،‬لوگ قربانیاں دی تے تھے‪ ،‬معب دوں میں عب ادت‬

‫کرتے تھے‪ ،‬اور مقدس رسوم ادا کرتے تھے۔‬

‫ایرانیوں کا خیال تھا کہ آخرت میں ایک فیصلے کا دن آئے گا‪ ،‬جب ہر شخص کو اپنے اعمال ک ا‬

‫بدلہ دیا جائے گ ا۔ جنہ وں نے اچھی زن دگی گ زاری تھی انہیں جنت میں ہمیش ہ کی خوش ی س ے‬

‫نوازا ج ائے گ ا‪ ،‬جبکہ جنہ وں نے ب ری زن دگی گ زاری تھی انہیں جہنم میں ہمیش ہ کی س زا دی‬

‫جائے گی۔‬

‫تمدن‬

‫زرتشت سے پہلے ایران ایک انتہائی ترقی یافتہ تمدن تھا۔ ایرانیوں نے ب ڑے ش ہر تعم یر ک یے‪،‬‬

‫پیچیدہ نظام حکومت تیار کیے‪ ،‬اور فنون اور ادب میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔‬

‫ایرانیوں نے زراعت‪ ،‬تجارت اور صنعت میں بھی مہارت حاصل کی۔ انہوں نے پانی کی فراہمی‬

‫کے نظام‪ ،‬سڑکیں اور پل بنائے۔ انہوں نے فنون لطیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا‪ ،‬مجسمہ س ازی‪،‬‬

‫پینٹنگ اور فن تعمیر میں شاندار کام کیا۔‬

‫زرتشت سے پہلے ایران کی کچھ اہم تہذیبیں اور ادوار میں شامل ہیں‪:‬‬

‫ایالمی تہذیب‪ :‬ایالمی تہذیب ایران کے جنوب مغربی حصے میں تقریبًا ‪ 3200‬قب ل مس یح س ے‬

‫‪ 600‬قبل مسیح تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایالمی لوگوں نے ای ک پیچی دہ تحری ری نظ ام تی ار کی ا‪ ،‬فن‬

‫تعمیر اور فنون لطیفہ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں‪ ،‬اور میسوپوٹیمیا کے ساتھ تجارت کی۔‬

‫ماد تہذیب‪ :‬ماد تہذیب ایران کے شمال مغربی حصے میں تقریبًا ‪ 700‬قبل مس یح س ے ‪ 550‬قب ل‬

‫مسیح تک پھیلی ہوئی تھی۔ ماد لوگوں نے ایک طاقتور سلطنت ق ائم کی جس نے میس وپوٹیمیا پ ر‬
‫حکمرانی کی۔ انہوں نے گھڑس واری اور تیران دازی میں مہ ارت حاص ل کی‪ ،‬اور فن تعم یر اور‬

‫فنون لطیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‬

‫ہخامنشی سلطنت‪ :‬ہخامنشی سلطنت ایران کے بیشتر حصوں پر تقریبًا ‪ 550‬قبل مسیح سے ‪330‬‬

‫قبل مسیح تک حکومت کرتی تھی۔ ہخامنشی سلطنت تاریخ کی سب سے بڑی س لطنتوں میں س ے‬

‫ایک تھی‪ ،‬جو ایشیا‪ ،‬افریقہ اور یورپ کے بڑے حصوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہخامنشیوں نے ایک‬

‫پیچیدہ انتظامی نظام تیار کیا‪ ،‬مختلف ثقافتوں اور مذاہب کو برداش ت کی ا‪ ،‬اور فن ون اور ادب میں‬

‫نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔‬

‫زرتشت کی آمد‬

‫زرتشت ایک ایرانی پیغمبر تھے جنہ وں نے چھ ٹی ص دی قب ل مس یح میں ای ران میں ای ک ن ئے‬

‫مذہب کی تبلیغ کی۔ زرتشت کے مذہب کو زرتشتیت کہا جات ا ہے۔ زرتش تیت ای ک توحی د پرس ت‬

‫مذہب ہے جو ایک خدا‪ ،‬اہورا مزدا پر یقین رکھتا ہے۔ زرتشتیوں کا خی ال ہے کہ دنی ا میں اچھے‬

‫اور برے کے درمیان ایک مسلسل جدوجہد جاری ہے‪ ،‬اور ہر شخص کو اس جدوجہ د میں ای ک‬

‫طرف کا انتخاب کرنا چاہیے۔‬

‫زرتشتیت یا مزدیسنا ایک قدیم آریائی مذہب ہے‪ ،‬جس کا ظہور‪3500‬س ال قب ل اور بعض روای ات‬

‫کے مطابق‪ 2500‬قبل مسیح فارس میں ہواتھا۔ اس کو عام طور پر زرتشتیت کہا جات ا ہے۔ اگ رچہ‬

‫اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پوری دنیا میں ایک الکھ تیس ہزار س ے بھی‬

‫کم زرتشتی ہیں۔ مگر یہ دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ای رانی پیغم بر زرتش ت نے‬
‫پارسی مذہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی م ذہب بھی کہ تے ہیں۔ اس کے عالوہ‬

‫اسے آتش پرستوں کا مذہب اور مجوسّیت بھی کہا جاتا ہے‬

‫ایران کے قدیم مذاہب میں زرتشتیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس مذہب کے پیرو اب ای ران میں‬

‫بہت ہی کم رہ گئے ہیں لیکن ایک خاص تعداد ہندوستان میں موج ود ہے ج و پارس ی کہالتی ہے۔‬

‫زرتشت کی تعلیم نے بابل اور یونان کے لوگوں کو کافی متاثر کی ا تھ ا اور بع د میں یہ ودیت اور‬

‫خود مسیحیت پر اس کے اثرات پڑے ہیں۔ اس مذہب میں اگرچہ یہودی مذہب ی ا اس الم کی ط رح‬

‫صاف اور واضح طور پر وحدانیت کا تصور تو نہیں ہے لیکن ایک مطلق خدا کے تحت دوسرے‬

‫تمام چھوٹے خداؤں کو النے کی کوشش ضرور کی گئی ہے‬

‫زرتشتیت س ے پہلے ای ران میں ج و م ذاہب تھے ان کے ب ارے میں تفص یالت بہت کم مل تی ہیں‬

‫لیکن اس زمانہ کے مذاہب اور ہندوستان کے مذاہب میں بڑی قربت نظ ر آتی ہے۔ اوس تا اور وی د‬

‫میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں میں ای ک ہی قس م کی ک ثرت پرس تی پ ائی ج اتی ہے۔‬

‫دونوں جگہ آگ کی پرستش ہے اور قربانی کے وقت ہندوستان میں سوما (ای ک قس م کی ش راب)‬

‫اور ایران میں ہاوما استعمال ہوتی تھی۔ اوستا اور وید میں بیان کیے ہ وئے دیوت ا تقریب ْا مش ترک‬

‫ہیں۔‬

‫زرتشت ایک خدا اہورا کے پجاری تھے جو مزدا (دانا) کہالتے تھے۔ زرتشت کی حمد یا گاتھ ا (‬

‫‪ )Gathas‬میں جن مقامات یا شخصیتوں کا ذکر ہے‪ ،‬تاریخ میں ان ک ا پتہ نہیں چلت ا اور اس ل یے‬

‫صحیح زمان و مکان کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ مشرقی ای رن‬
‫کے کس ی حص ہ میں تھے اور مغ ربی ایش یا کے ت رقی ی افتہ حص وں س ے دور رہ تے تھے۔ یہ‬

‫زمانہ سائرس دوم سے پہلے کا ہے جب ایران ابھی متح د نہیں ہ وا تھ ا۔ ہخامنش یوں کے دور کی‬

‫کسی تحریر اور آثار میں بھی ان کا ذکر نہیں ملت ا۔ اس کے بع د دارا اور اس کے جانش ینوں کے‬

‫آثار میں بہت ہی معمولی اشارے ملتے ہیں۔ ہخامنشی دور حکومت میں کچھ عرص ہ کے ل یے یہ‬

‫سرکاری مذہب رہا۔ سکندر اعظم کے حملہ کے بعد ہخامنش ی دور حک ومت ختم ہ و گی ا۔ اس کے‬

‫بعد زرتشتی مذہب کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ساسانی دور حکومت میں اسے پھ ر ع روج حاص ل ہ وا‬

‫اور چار سو سال تک یہ سرکاری مذہب رہا اور مسیحیت سے ٹکر لیتا رہا۔‬

‫‪635‬ء میں عربوں نے یزدگرد سوم کو شکست دے کر ایران پر قبضہ کر لیا اور پورے ملک پ ر‬

‫اسالم چھا گیا۔‬

‫زرتشتیت کے لوگ چھوٹے چھ وٹے گروہ وں میں اقلیت وں کی ط رح رہ تے تھے۔ دس ویں ص دی‬

‫عیسوی سے اس مذہب کے لوگ ترک وطن کر کے ہندوستان کے گجرت کے عالقے میں بسنے‬

‫لگے اور اپنے وطن کے ہم مذہب لوگوں سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا۔ ‪1477‬ء میں یہ تعلق پھر س ے‬

‫قائم ہوا۔ شروع میں یہ کھیتوں میں کسانوں کی طرح کام کرنے لگے لیکن انگری زوں کے اقت دار‬

‫کے زمانے میں انھوں نے تعلیم‪ ،‬تجارت اور صنعت میں زبردست ترقی کی اور ص وبہ گج رات‬

‫اور بمبئی کی معاشی زندگی میں خاص مقام حاصل کر لیا۔‬


‫زرتشتی مذہب اپنے شروع کے دور میں شمالی ایران کے امن پسند و متوکل لوگ وں کی عکاس ی‬

‫کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دشمن خانہ بدوشوں سے بالکل مختلف تھے ج و نیچ ر پرس ت تھے۔ ک ئی‬

‫ک ئی دیوت اؤں ک و م انتے تھے اور جن کی زن دگی زی ادہ ت ر گھ وڑوں کی پیٹھ پ ر گ زرتی تھی۔‬

‫زرتشت ان لوگوں کا مقابلہ ہمیشہ اپنے لوگوں سے کرتے تھے۔ اپنے لوگوں کو وہ انص اف پس ند‬

‫و پاک باز (آشا) بتالتے تھے اور خانہ بدوشوں کو جھوٹے اور دھوکا باز (درج)۔ زرتشت ہمیش ہ‬

‫زمین کی پیداوار بڑھانے اور مویشیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے تھے اس لیے‬

‫کہ مویشیوں کی محنت ہی سے غ ذا پی دا ہ وتی ہے۔ چن انچہ انھ وں نے دیوت ا متھ را کے س امنے‬

‫بیلوں کی قربانی منع کردی اور عبادت کے وقت ہاوما (ایک قسم کی نشہ آور چیز) کے اس تعمال‬

‫پر بھی پابندی لگا دی۔‬

‫تاؤازمکاتعارفاورتاریخی ارتقا بیان کریں ۔‬ ‫سوال نمبر‪4‬۔‬

‫تاؤزم‪ :‬تعریف اور تاریخی ارتقا‬

‫تعریف‬

‫تاؤزم ایک چینی فلسفیانہ اور مذہبی روایت ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح میں چین میں پیدا ہوئی‬

‫تھی۔ اس کی بنیاد الؤ تذو نے رکھی تھی‪ ،‬جس نے تاؤ تی چنگ نامی ایک کتاب لکھی۔ ت اؤزم ک ا‬

‫مرکزی تصور "تاؤ" ہے‪ ،‬جو کائنات کی بنیادی حقیقت اور تمام چ یزوں ک ا منب ع ہے۔ ت اؤزم کی‬
‫تعلیمات فطرت کی پیروی کرنے‪ ،‬توازن اور ہم آہنگی تالش کرنے‪ ،‬اور عمل س ے گری ز ک رنے‬

‫پر زور دیتی ہیں۔‬

‫تاریخی ارتقا‬

‫تاؤزم نے چین کی تاریخ اور ثق افت پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے۔ ہ ان خان دان (‪ 206‬قب ل مس یح – ‪220‬‬

‫عیسوی) کے دوران‪ ،‬تاؤزم ایک طاقتور سیاسی اور مذہبی قوت بن گیا۔ اس عرصے میں‪ ،‬ت اؤزم‬

‫نے کئی مختلف فرقوں کو جنم دیا‪ ،‬جن میں سے کچھ نے الکیمیا اور جادو جیسے موضوعات پر‬

‫توجہ مرکوز کی۔‬

‫تان خاندان (‪ 907-618‬عیسوی) کے دوران‪ ،‬تاؤزم کو بدھ مت سے س خت مق ابلہ ک ا س امنا کرن ا‬

‫پڑا۔ تاہم‪ ،‬اس عرصے میں‪ ،‬تاؤزم نے چینی ادب اور آرٹ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‬

‫سنگ خاندان (‪ 1279-960‬عیسوی) کے دوران‪ ،‬تاؤزم نے ایک بار پھر ع روج حاص ل کی ا۔ اس‬

‫عرصے میں‪ ،‬تاؤزم نے چینی طب اور قومی فنون میں اہم کردار ادا کیا۔‬

‫جدید دور میں‪ ،‬تاؤزم چین اور دنیا بھر میں ایک مقب ول م ذہب اور فلس فہ بن ا ہ وا ہے۔ ت اؤزم کی‬

‫تعلیمات سادگی‪ ،‬فطرت کے ساتھ ہم آہنگی‪ ،‬اور ذاتی ذمہ داری پر زور دیتی ہیں۔‬

‫تاؤزم کی بنیادی تعلیمات‬

‫تاؤزم کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں‪:‬‬

‫تاؤ‪ :‬تاؤ کائنات کی بنیادی حقیقت اور تمام چیزوں کا منبع ہے۔ یہ ایک غیر ذاتی‪ ،‬بے شکل‪ ،‬اور‬

‫ہمیشہ موجود قوت ہے۔‬


‫وو وی‪ :‬وو وی کا مطلب ہے "عمل سے گریز کرنا۔" تاؤسٹوں کا خی ال ہے کہ ق درتی دنی ا کے‬

‫ساتھ مداخلت نہ کرنا اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہے۔‬

‫یین اور یان گ‪ :‬یین اور یان گ دو متض اد اور تکمیلی ق وتیں ہیں ج و کائن ات میں ہ ر چ یز میں‬

‫موجود ہیں۔‬

‫طبیعت کے ساتھ ہم آہنگی‪ :‬تاؤسٹوں کا خیال ہے کہ انسانوں ک و فط رت کے س اتھ ہم آہنگی میں‬

‫رہنا چاہیے۔‬

‫ذاتی ذمہ داری‪ :‬تاؤسٹوں کا خیال ہے کہ ہر ش خص اپ نی خوش ی اور تکمی ل کے ل یے ذمہ دار‬

‫ہے۔‬

‫تاؤزم کے فرقے‬

‫تاؤزم نے تاریخ بھ ر میں ک ئی مختل ف فرق وں ک و جنم دی ا ہے۔ ان میں س ے کچھ اہم فرق وں میں‬

‫شامل ہیں‪:‬‬

‫زہدی تاؤزم‪ :‬زہدی تاؤزم ایک سخت فرقہ ہے جو سادگی اور خود کفائی پر زور دیتا ہے۔‬

‫الجمی تاؤزم‪ :‬الجمی تاؤزم ایک الکیمیا ف رقہ ہے ج و ہیموٹینی ٹی اور ام رت حاص ل ک رنے کی‬

‫کوشش کرتا ہے۔‬

‫شعبہ تاؤزم‪ :‬شعبہ تاؤزم ایک مذہبی فرقہ ہے جو روحانی رہنماؤں اور مقدس متون پر زور دیتا‬

‫ہے۔‬

‫تاؤزم کا اثر‬
‫ت اؤزم نے چین کی ت اریخ اور ثق افت پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے۔ اس نے چی نی ادب‪ ،‬آرٹ‪ ،‬طب‪ ،‬اور‬

‫سیاست کو متاثر کیا ہے۔ تاؤزم نے دنیا بھ ر میں دوس ری ثق افتوں اور م ذاہب ک و بھی مت اثر کی ا‬

‫ہے‪ ،‬بشمول بدھ مت اور نیو ایج تحریک۔‬

‫تاؤزم آج‬

‫تاؤزم چین اور دنیا بھر میں ایک مقبول مذہب اور فلسفہ بن ا ہ وا ہے۔ ت اؤزم کی تعلیم ات س ادگی‪،‬‬

‫فطرت کے ساتھ ہم آہنگی‪ ،‬اور ذاتی ذمہ داری پر زور دیتی ہیں۔‬

‫سکھ متکاتعارفاورتاریخ بیان کریں ۔‬ ‫سوال نمبر ‪5‬۔‬

‫سکھ مت‪ :‬تعریف اور تاریخ‬

‫تعریف‬

‫سکھ مت ایک توحید پرست مذہب ہے جو ‪15‬ویں صدی میں پنجاب‪ ،‬بھارت میں پیدا ہ وا تھ ا۔ اس‬

‫کی بنیاد گرو نانک نے رکھی تھی‪ ،‬جن کا ماننا تھ ا کہ خ دا ای ک ہے اور تم ام انس ان براب ر ہیں۔‬

‫سکھ مت کی تعلیمات سچائی‪ ،‬ایمانداری‪ ،‬مہربانی‪ ،‬اور خدمت پر زور دیتی ہیں۔‬

‫تاریخ‬

‫سکھ مت کی تاریخ کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‪:‬‬


‫گرو کا دور (‪ :)1708-1469‬اس دور میں‪ ،‬دس گروؤں نے سکھ مت کی قیادت کی۔ گرو نان ک‬

‫نے مذہب کی بنیاد رکھی‪ ،‬جبکہ بعد کے گ روؤں نے اس ے مزی د تی ار کی ا اور اس ے ای ک منظم‬

‫مذہب میں تبدیل کیا۔‬

‫مسلہ دور (‪ :)1947-1708‬گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کو ایک خالصہ بنا دیا‪ ،‬یا ای ک م ذہبی‬

‫برادری۔ اس دور میں‪ ،‬سکھوں کو مغلوں کے ہاتھوں شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔‬

‫جدید دور (‪-1947‬تاحال)‪ :‬ہندوستان کی آزادی کے بعد‪ ،‬سکھ پنجاب کے ایک بڑے اقلیتی گروہ‬

‫بن گئے۔ تاہم‪ ،‬انہیں اب بھی امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‬

‫سکھ مت کے بنیادی عقائد‬

‫سکھ مت کے بنیادی عقائد میں شامل ہیں‪:‬‬

‫ایک خدا‪ :‬سکھ ایک خدا‪ ،‬واهگورو پر یقین رکھتے ہیں۔‬

‫انسانی مساوات‪ :‬سکھوں کا خیال ہے کہ تمام انسان براب ر ہیں‪ ،‬چ اہے ان کی جنس‪ ،‬نس ل‪ ،‬ذات‪،‬‬

‫یا مذہب کچھ بھی ہو۔‬

‫سچ‪ :‬سکھوں کا خیال ہے کہ سچ بولنا اور سچائی پر عمل کرنا ضروری ہے۔‬

‫ایمانداری‪ :‬سکھوں کا خیال ہے کہ ایماندار اور اخالقی زندگی گزارنا ضروری ہے۔‬

‫مہربانی‪ :‬سکھوں کا خیال ہے کہ دوسروں کے ساتھ مہربان اور ہمدرد ہونا ضروری ہے۔‬

‫خدمت‪ :‬سکھوں کا خیال ہے کہ دوسروں کی خدمت کرنا ضروری ہے۔‬

‫سکھ مت کے رسوم و رواج‬

‫سکھ مت کے کچھ اہم رسوم و رواج میں شامل ہیں‪:‬‬


‫پنجاب‪ :‬پنجاب ایک روزانہ کی عبادت ہے جس میں گرو گرنتھ صاحب سے شلوک پڑھنا شامل‬

‫ہے۔‬

‫کرتار پور صاحب کی زیارت‪ :‬کرتار پور صاحب سکھوں کا سب سے مقدس مقام ہے‪ ،‬جو گرو‬

‫نانک کی جائے پیدائش ہے۔‬

‫واسکھی‪ :‬واسکھی سکھ نئے سال کا تہوار ہے‪ ،‬جو مارچ یا اپریل میں منایا جاتا ہے۔‬

‫بہائساکھی‪ :‬بہائساکھی سکھوں کے لیے ایک اہم تہوار ہے‪ ،‬جو گرو نانک کی خالص ہ کی بنی اد‬

‫کی یاد میں منایا جاتا ہے۔‬

‫دیوالی‪ :‬دیوالی روشنی کا تہوار ہے‪ ،‬جو سکھ اور ہندو دونوں مناتے ہیں۔‬

‫سکھ مت کا اثر‬

‫س کھ مت نے بھ ارت اور دنی ا بھ ر کی ثق افت پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے۔ س کھوں نے ادب‪ ،‬آرٹ‪،‬‬

‫موسیقی‪ ،‬اور سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‬

‫سکھ مت دراصل ہندومت اور اسالم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوش ش کے ن تیجے میں‬

‫وجود میں آنے واال مذہب ہے۔ لیکن سکھ مت کو دونوں مذاہب کی ہم آہنگی کے ط ور پ ر دیکھن ا‬

‫سکھ مت کی مذہبی اور ثقافتی انفرادیت کا احاطہ نہیں کرتا۔ سکھ مت کو اسالم اور ہن دو مت کے‬

‫درمیان سمجھوتہ کہنا ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی کسی مسیحی کو ایک بدعتی یہودی کہے۔ سکھ‬

‫مت کوئی فرقہ نہیں ہے اور نہ ہی دونسال مذہب ہے بلکہ یہ ایک الگ مذہبی تحریک ہے۔‬
‫سکھ مت کا تسلیم شدہ بانی گرو نانک (‪1469‬تا ‪ )1538‬ہندوس تان میں ہن دو وال دین کے ہ اں پی دا‬

‫ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ نانک کو خدا کی طرف سے ب راِہ راس ت بالہٹ موص ول ہ وئی تھی جس کی‬

‫بدولت وہ ایک گرو بن گیا تھا۔ وہ جلد ہی شمال مشرقی ہندوستان کے پنجاب کے عالقے میں اپنی‬

‫عقیدت اور تقوٰی اور اپنےِاس جرات مندانہ دعوے کی بدولت مش ہور ہ و گی ا کہ "ک وئی مس لمان‬

‫نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہن دو ہے۔" ُاس نے اپ نے اردگ رد ک افی تع داد میں ش اگردوں(س کھوں)‬

‫کوجمع کر لیا ۔ اس نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اس نے خدا کو" َس ت نام " ("حقیقی ن ام") ی ا‬

‫اکنکار‪ Ekankar‬کے طور پر متعارف کروایا۔ اکنکار میں "اک" کا مطلب "ایک ہے"اوم " ای ک‬

‫صوفیانہ بعی د الفہم آواز بمع نی" ُخ دا" اور "ک ار" مع نی "مال ک" ہے ۔ اس وح دانیت میں ک وئی‬

‫شخصیت شامل نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی قسم کے مش رقی وح دت الوج ود عقی دے کے‬

‫طور پر لیا جانا چاہیے (جو یہ س کھاتا ہے کہ س ب کچھ ہی ُخ دا ہے اور ُخ دا ہی س ب کچھ ہے)۔‬

‫تاہم نانک نے ُپ نر جنم(ن ئے جنم) اور کرم ا کے نظری ات ک و برق رار رکھ ا ج و مش رقی م ذاہب‬

‫جیسےکہ بدھ مت‪ ،‬ہندو مت اور تاؤ مت کے قابل ذکر اصول ہیں۔ نان ک نےیہ تعلیم دی کہ ک وئی‬

‫بھی شخص ُخ دا کے ساتھ صوفیانہ اتحاد‪ ،‬خاص عقیدت اور بھجن وغیرہ گانے کی بدولت ہی ُپ نر‬

‫جنم (سمسارا) کے چکر سے بچ سکتا ہے۔ نانک کے بعد نو مق رر ک ردہ گ روؤں ک ا ای ک اٹ وٹ‬

‫سلسلہ تھا جس نے اٹھارویں صدی (‪1708‬ء) تک سکھ مت کی قیادت برقرار رکھی۔‬

‫سکھ مت اصل میں امن پسند مذہب تھا لیکن وہ زیادہ دیر اپنی ِاس حالت کو برق رار نہ رکھ س کا۔‬

‫پیغمبِر اسالم کے آخری نبی ہونے سے انک ار ک و مس لمانوں کی ط رف س ے ت وہیِن رس الت کے‬

‫طور پر لیا گیا اور ِاس مذہب کو اسالم کی طرف سے کافی زیادہ مخالفت کا سامنا کرن ا پ ڑا جس‬
‫کی تاریخ میں پہلے ہی کئی ایک جنگوں کا ذکر ملتا ہے۔ دسویں گرو گوبند رائے کے وقت تک‪،‬‬

‫جسے گوبند سنگھ ("شیر") بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬سکھ جنگجوؤں کا عالمی شہرت یافتہ طبقہ خالصہ‬

‫منظم ہو چک ا تھ ا۔ خالص ہ کی خصوص یت ُاس کے پ انچ "ک " تھے‪ِ :‬کیش (لم بے ب ال)‪ ،‬کنگھ ا‬

‫(بالوں میں فوالد ی کنگھی)‪ ،‬کچھا (چھوٹی پتلون)‪ ،‬کارا (لوہے کا کنگن) اور کرپان (ایک تل وار‬

‫ی ا خنج ر ج و پہل و میں پہن ا جات ا ہے)۔ انگری زوں نے‪ ،‬ج و ُاس وقت ہندوس تان میں نوآبادی اتی‬

‫موجودگی رکھتے تھے‪ ،‬خالصہ کو جنگجوؤں اور اپنے باڈی گارڈز کے ط ور پ ر اس تعمال کی ا۔‬

‫گوبند سنگھ کو باآلخر مسلمانوں نے قتل کر دیا۔ وہ آخری انسانی گ رو تھ ا۔ اس ک ا جانش ین ک ون‬

‫تھا؟ سکھوں کی مقدس کتاب آدی گرنتھ نے اپنے متبادل نام گرو گرنتھ کے طور پر ُاس کی جگہ‬

‫لے لی۔آدی گرنتھ کی اگرچہ پوجا تو نہیں کی جاتی لیکن ُاسے اٰل ہی حیثیت دی جاتی ہے۔‬

‫اگرچہ سکھ مت کی بنیاد امن پسند ہے لیکن بعد میں یہ ایک عسکریت پس ند م ذہب کے ط ور پ ر‬

‫جانا گیا‪ ،‬یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ یہ عسکریت پسندی سکھ مت کی تعلیمات سے ب اہر‬

‫کے زمینی معامالت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔‪ 1947‬میں ہندوستان اور پاکستان کی تقس یم کے‬

‫وقت ایک بڑے پیمانے پر اختالفی سرحد براِہ راست پنجاب کے بیچ میں سے کاٹی گئی جہاں پ ر‬

‫سکھوں کو اعلی درجے کی خود مختاری حاصل تھی۔ ُان کی سیاسی اور سماجی شناخت برق رار‬

‫رکھ نے کی کوشش یں اک ثر ناک ام رہی ہیں۔ ِاس گ روہ کے کچھ انتہ ا پس ندوں نے س کھ ریاس ت‬

‫خالصتان کے قیام کے لیے انتہائی اقدامات ُاٹھائے ہیں لیکن سکھوں کی اکثریت امن پسند لوگ وں‬

‫پر مشتمل ہے۔‬


‫مسیحیت اور سکھ مت میں ِاس لح اظ س ے کچھ مط ابقت پ ائی ج اتی ہے کہ دون وں گروہ وں ک و‬

‫ابتدائی طو رپر بہت زیادہ ایذا رسانی اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دونوں صرف ایک‬

‫خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ ایک مسیحی اور ایک سکھ بطوِر انس ان آپس میں ای ک دوس رے کے‬

‫لیے باہمی عزت و احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دونوں ُپر امن طور پ ر رہ س کتے ہیں‪ ،‬لیکن‬

‫سکھ مت اور مسیحیت کو مربوط نہیں کیا جا سکتا۔ ِان کے عقائ دی نظ اموں کے ان در چن د ای ک‬

‫نکات ایسے ہیں جس پر دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن حتمی ط ور پ ر دون وں ک ا ُخ دا‬

‫کے ب ارے میں‪ ،‬مس یح کے ب ارے میں‪ ،‬کالم کے ب ارے میں اور نج ات کے ب ارے میں مختل ف‬

‫نقطہ نظر ہے۔‬

‫سب سے پہلے ت و س کھ مت ک ا ُخ دا کے ب ارے میں ال شخص ی اور ق ائم ب الغیر ذات ک ا تص ور‬

‫مسیحیت کے ُاس پرواہ کرنے والے "اّب ا" ُخ دا ب اپ کے تص ور کے س اتھ متص ادم ہے جس نے‬

‫اپنے آپ کو بائبل ُم قدس میں ظاہر کیا ہے (رومیوں ‪8‬باب‪15‬آیت؛ گلتیوں ‪4‬ب اب‪6‬آیت)۔ ہم ارا ُخ دا‬

‫اپنے بّچ وں کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلق رکھتا ہے اور وہ خوب جانت ا ہے کہ ہم کب بیٹھ تے ہیں‬

‫اور کب ُاٹھتے ہیں‪ ،‬وہ ہمارے سارے خیاالت سے بھی واقف ہے (‪ 139‬زبور ‪2‬آیت)۔ وہ ہم س ے‬

‫ابدی محبت رکھتا ہے اور بڑے صبر اور وفاداری کے ساتھ ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے (یرمیاہ‬

‫‪31‬باب‪3‬آیت)۔ وہ ِاس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ ُاس کی کس ی دوس رے م ذہب کے ن ام نہ اد‬

‫دیوتا کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ " مجھ سے پہلے کوئی ُخ دا نہ‬
‫ہوا اور میرے بعد بھی ک وئی نہ ہ و گ ا " (یس عیاہ ‪43‬ب اب‪10‬آیت) اور "َم یں ہی ُخ داون د ہ وں َاور‬

‫کوئی نہیں ۔ میرے سوا کوئی ُخ دا نہیں " (یسعیاہ ‪45‬باب ‪ 5‬آیت)۔‬

‫دوسرے نمبر پر سکھ مت ُخ داوند یسوع مسیح کی منفرد حیثیت سے انکار کرتا ہے۔ مسیحی کالم‬

‫یہ بیان کرتا ہے کہ نجات صرف اور صرف یس وع مس یح کے وس یلے س ے ہی م ل س کتی ہے‪:‬‬

‫"راہ اور حق اور زندگی َم یں ہوں ‪ ،‬کوئی میرے وسیلہ کے بغ یر ب اپ کے پ اس نہیں آت ا"(یوحن ا‬

‫‪14‬باب‪6‬آیت)۔ "اور کسی ُد وسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے َتلے آدمی وں ک و‬

‫کوئی ُد وسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نج ات پ ا س کیں " (اعم ال ‪ 4‬ب اب‪12‬آیت)۔‬

‫ِاس کے عالوہ سکھ مت جو کوئی حیثیت بھی یسوع مسیح کو دیتا ہے وہ حیثیت ی ا درجہ وہ نہیں‬

‫جس کا ُخ داوند یسوع مسیح مستحق ہے اور جو بائبل ُم قدس ُاس کو دیتی ہے – یع نی ُخ دا ک ا بیٹ ا‬

‫اور ِاس جہان کا نجات دہندہ۔‬


The End

You might also like