Professional Documents
Culture Documents
1902.02 Unique
1902.02 Unique
یونیورسٹی
NAME:
ID NO:
PROGRAM:
COURSE CODE: (1902)
SEMESTER: Spring 2024
ASSIGNMENT NO:2
ہندؤوں کے عقیدٔہ اوتار کی تفصیل بیان کریں۔ سوال نمبر 1۔
عقیدہ اوتار ہندو مت کا ایک مرکزی عقیدہ ہے جس کے مطابق خدا (بھگ وان) مختل ف ادوار میں
مختل ف ش کلوں میں زمین پ ر آت ا ہے ت اکہ انس انیت ک و بچ ائے اور اخالقی ات کی تعلیم دے۔ ان
بھگوان کی :ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان ہر جگہ موجود ہے اور ہر چ یز میں موج ود ہے۔
موت کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ آتمان کا مقصد موکش (نجات) حاصل کرنا ہے ،جو کہ جنم
دھرم کا تحفظ :ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان اوتار کے طور پ ر زمین پ ر آت ا ہے ت اکہ دھ رم
اوتار کی اقسام
ہندو مت میں مختلف اقسام کے اوتار ہیں۔ کچھ اہم اوتار درج ذیل ہیں:
وشنو :وشنو کو ہندو مت کے تین بڑے دیوتاؤں میں سے ای ک س مجھا جات ا ہے۔ وہ کائن ات ک ا
محافظ اور نگہبان ہے۔ وشنو کے دس اوتار ہیں ،جن میں سب سے مشہور رام اور کرشن ہیں۔
شیو :شیو کو ہن دو مت کے تین ب ڑے دیوت اؤں میں س ے ای ک س مجھا جات ا ہے۔ وہ کائن ات ک ا
مہلک اور تخلیقی قوت ہے۔ شیو کے بھی کئی اوتار ہیں ،جن میں ناتھ اور ہنومان شامل ہیں۔
دیوی :دیوی کو ہندو مت کی طاقتور دیوی سمجھا جاتا ہے۔ وہ اکثر برائی کی خالف لڑنے اور
انسانیت کی حفاظت کرنے والی کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ دی وی کے ک ئی اوت ار ہیں ،جن
اوتار کی اہمیت
اوتار ہندو مت میں ایک اہم عقیدہ ہے کیونکہ وہ انسانیت کو امید اور تس لی ف راہم ک رتے ہیں۔ وہ
ہندوؤں کو یاد دالتے ہیں کہ بھگوان ہمیش ہ ان کے س اتھ ہے اور وہ مش کل وقت میں ان کی م دد
ک رے گ ا۔ اوت ار ہن دوؤں ک و اخالقی ات کی تعلیم بھی دی تے ہیں اور انہیں ای ک اچھی زن دگی
اوتار ( )Avatarکے معنی خدا کی جانب سے اتارا ہوا ہے ،مگ ر ہن دو مت میں عموم ًا اوت اروں
کو خدا (بھگوان) سے عالحدہ بشر نہیں بلکہ خود خدا ہی کا روپ قرار دیا جاتاہے ،یعنی بھگوان
خود کسی شکل میں وارد ہوتا ہے۔ لہذا یہ نظ ریہ اس الم کی وح دانیت،مس یحیت اور یہ ودیت کے
ہندو مت میں وہ دس اوتار ہیں جنہیں وشنو کے دس مختلف انس انی روپ میں بط ور دیوت ا الئ ق
پرستش شمار کیا جاتا ہے جنھوں نے مختلف َادوار میں انسانی روپ میں جنم لیا اور انس انیت کی
بھالئی کی۔ ہندو مت میں وشنو کو یہ درجہ حاصل ہے کہ وہ انسانیت کی بھالئی کی خاطر کس ی
بھی دور میں انسانی روپ میں جنم لے کر کسی خاص مقصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ وش نو کے
ِان دس اوتاروں میں سے 9اوتار ِاس دنی ا میں اپ نے دور میں گ ذر چکے ہیں جبکہ آخ ری کلکی
اوتار ہے جو ہندو مت کے مطابق کل یگ کے آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا ۔ہندو مت ک ا یہ عقی دہ
عقیدۂ تجسیم کی مانند ہے جس میں وشنو کسی بھی انسانی روپ میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔ لف ظ
’’دس اوت ار سنس کرت زب ان کے دو َالف اظ ک ا م رکب ہے یع نی :دس اور اوت ار۔ دس اوت ار کی
فہرست ہندو مت کے بنیادی ماخذوں میں تفصیًال ملتی ہے۔ہندو مت کے مختلف گروہ اور عقائد و
خیاالت کے حامل ل وگ مق امی دیوت اؤں ک و بھی ِاس فہرس ت میں ش مار کرلی تے ہیں جیس ے کہ
کرشن کے بھائی بلرام اور مہاتما گوتم بدھ ۔ اگرچہ دس اوتاروں کی یہ فہرست متنازع نہیں لیکن
کرشن اور مہاتما گوتم بدھ کے متعلق ِاختالف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ وشنو کے اوتار ہیں یا نہیں؟۔
دس اوتاروں کی غیر متن ازع فہرس ت میں متس یہ ،ک ورم ،وراہ ،نرس نگھ ،وامن ،پرش و رام ،رام
چندر ،کرشن ،بلرام اور گوتم بدھ شامل ہیں ۔ کلکی اوتار کے متعلق ہندو مت کے تم ام عقائ د میں
ُاس کے ظہور سے متعلق عالمات اور پیشگوئیاں موجود ہیں جن کی بنا پر کہ ا ج ا س کتا ہے کہ
کلکی اوتار ہی وشنو کا آخری اوتار تسلیم کیا جاتا ہے ج و ک ل ی گ کے آخ ری زم انہ میں ظ اہر
ہوگا۔ مقامی دیوت اؤں میں جگن ن اتھ ک و کرش ن ک ا نیم اوت اری بھی کہ ا جات ا ہے۔ مہاراش ٹر اور
بدھ مت کی تعلیمات
بدھ مت ایک قدیم مذہب اور فلسفہ ہے جو تقریبًا 2500سال پہلے بھارت میں شروع ہ وا تھ ا۔ اس
کی بنیاد سدھارتھ گوتم نے رکھی تھی ،جنہیں بدھ کے ن ام س ے بھی جان ا جات ا ہے۔ ب دھ مت کی
بنیادی تعلیمات چار آریہ سچائیوں اور آٹھ گنا راستے پر مبنی ہیں۔
چار آریہ سچائیاں بدھ مت کی بنی ادی تعلیم ات ہیں ج و دکھ کی ن وعیت اور اس س ے نج ات کے
دکھ سچ ہے :زندگی میں دکھ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دکھ کے خاتمے کا راستہ سچ ہے :دکھ کے خاتمے کا راستہ آٹھ گنا راستہ ہے۔
نیروانا کی میں مدد کرتا ہے۔ یہ راستہ درج ذیل آٹھ حصوں پر مشتمل ہے:
صحیح روزی :ایماندارانہ اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے والے طریقے سے روزی کمانا۔
صحیح شعور :اپنے خیاالت ،احساسات اور اعمال پر پوری توجہ دینا۔
چار آریہ سچائیوں اور آٹھ گنا راس تے کے عالوہ ،ب دھ مت کی کچھ دیگ ر اہم تعلیم ات درج ذی ل
ہیں:
پنربھو :موت کے بعد روح ایک نئے جسم میں دوبارہ جنم لیتی ہے۔
بدھ مت کا مقصد
بدھ مت کا مقصد نیروان ا کی ہے ،ج و دکھ س ے مکم ل آزادی اور خوش ی کی ای ک اعلٰی کیفیت
ہے۔ نیروانا حاصل کرنے کے لیے ،بدھوں کو چار آریہ سچائیوں کو سمجھنا اور آٹھ گنا راستے
بدھ مت کے اثرات
بدھ مت دنی ا ک ا ای ک ب ڑا م ذہب ہے جس کے پیروک ار تقریب ًا 500ملین ہیں۔ اس نے ایش یا کی
ثق افت اور معاش رے پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے ،اور اس کے خی االت نے مغ رب میں بھی مقب ولیت
حاصل کی ہے۔
قدیم ہندوستان کے مشرقی حصے سے تشکیل پایا تھا اور مگ دھا (اب ہندوس تان کے ص وبہ بہ ار
کا حصہ) کی ریاست میں پھیل گیا تھا۔ بدھ مت کا وجود سدھارتھ گوتم کی تعلیمات پ ر مب نی ہے۔
بدھ مذہب آج کے دور میں چالئے جانے والے قدیم مذاہب میں س ے ای ک ہے۔ ب دھ مت کی ابت دا
شمال مشرقی ہندوستان میں ہوئی اور وسط ایشیاء اور جنوب مشرقی ایش یاء میں پھی ل گی ا۔ ای ک
زمانے میں یہ مذہب پورے ایشیا میں پھیل گیا تھا۔ بدھ م ذہب کی ت اریخ بھی مختل ف پیش ن گ وئی
کی تحریکوں کی نشو و نما کے ساتھ نشان زد ہے جیسے تھ یرواد ،مہای انہ اور وجریان ا جیس ے
سدھارتھ گوتما بدھ مت کے تاریخی بانی تھے۔ وہ شاکیہ خان دان کے کش تریہ ب رہمن خان دان میں
شہزادہ کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ بہت سے م ورخین اب بھی اس کی ت اریخ پی دائش اور وف ات پ ر
متفق نہیں ہیں۔ لیکن زیادہ تر مورخین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بدھ 400سال قبل مسیح سے
چند عشروں قبل فوت ہوا تھا۔ اس کے شاکیہ-کشتریہ خاندان کے خاندان برہمن قبیلے س ے تعل ق
رکھتے تھے ،جیسا کہ اس کے کنبہ کے ذریعہ دیے گ ئے "گ وتم" کے ن ام س ے ظ اہر ہوت ا ہے۔
انیسویں صدی کے اسکالر ایٹل کے مطابق ،سدھارتھا گوتم کا نام گوتم ایک برہمرشی گ وتم س ے
متاثر ہوا ہے۔ متعدد بدھ مت کے ص حیفوں میں کہ ا گی ا ہے کہ ب دھ مت بدھمرش ی انگ یرس کی
اوالد تھے۔ مثال کے طور پر ،پالي مہاگھاگیا انگیراس میں ،بدھ ک و انج یرس کہ ا جات ا ہے ،ج و
بنیادی طور پر گوتم بدھ کی شناخت انگیراس برادری سے ہے۔ ] مص نف اور ت اریخ دان ای ڈورڈ
جے۔ تھامس نے بودھ کا ذکر بھی براہمرشی گوتم اور انجیرس کی اوالد کے طور پر کیا ہے۔
روایتی بدھ مت کے نظریے کے مطابق ،سدھارتھ گوتم نے اپنی خانقاہی زن دگی اور م راقبہ کے
ذریعہ لطف اندوز اور خود جبر کا اعتدال پسند راستہ تالش کیا۔
سدھارتھا گوتم نے اصل میں اشیوتھا کے درخت کے نیچے سدھی حاصل کیا تھ ا جس ے اب ب دھ
گیا ،ہندوستان میں بودھی درخت کہا جاتا ہے۔ روش ن خی الی کے حص ول کے بع د گ وتم ب دھ ک و
اس وقت کی مگدھا کی بادش اہی ِبمِبس ارا کے دور میں ،ب دھ مت ک و اپ نے م ذہب کی تش ہیر میں
سرپرستی حاصل تھی۔ شہنشاہ بھیما نے بدھ مت کو اپنا ذاتی مذہب مان لی ا اور اپ نی ریاس ت میں
متعدد بدھ خانقاہوں کی تعمیر کا حکم دیا۔ اور انہی خانقاہوں نے ہی ہندوستان میں موجودہ ریاست
کے موجودہ ہ یر پ ارک میں خطبہ دی ا۔ ب دھ کے س اتھ م ل ک ر ،ان پ انچ راہب وں نے پہلی س نگھا
(راہبوں یا راہبوں کی جماعت) تشکیل دی۔ متعدد بدھ مت کے متن کے مطابق ،ابتدائی ہچکچ اہٹ
کے باوجود ،گوتم بدھ نے بعد میں راہبوں کو انجمن میں شامل کرنے کا فیص لہ کی ا۔ ب دھ راہب وں
کو "راہبہ" کہا جاتا ہے۔ بدھ کی چچی اور سوتیلی م اں مہ اپجپتی گ وتمی ب دھ مت کی پہلی ن ون
تھیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں ،وہ راہبہ کے طور پر راہبہ بن گئیں۔
یہ جانا جاتا ہے کہ بدھ اپنی ساری زندگی کے دوران میں ہندوستان کے شمالی حصے اور دیگ ر
زرتشت سےپہلےایران کی مذہبی اورتمدنی حالت بیان کریں سوال نمبر 3۔
زرتشت سے پہلے ایران کی مذہبی اور تمدنی حالت ایک پیچیدہ اور متنوع تھی۔ مختل ف عالق وں
اور ادوار میں مختلف عقائد اور رسم و رواج موجود تھے۔ تاہم ،کچھ ع ام خصوص یات بھی تھیں
مذہب
زرتشت سے پہلے ایران کا غالب مذہب ایک بہت خدا پرستی تھا۔ لوگوں ک ا خی ال تھ ا کہ کائن ات
میں بہت سے دیوتا اور دیوتاؤں ک ا وج ود ہے ،جن میں س ے ہ ر ای ک ک ا اپن ا مخص وص دائ رہ
اختیار تھا۔ ان دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے ،لوگ قربانیاں دی تے تھے ،معب دوں میں عب ادت
ایرانیوں کا خیال تھا کہ آخرت میں ایک فیصلے کا دن آئے گا ،جب ہر شخص کو اپنے اعمال ک ا
بدلہ دیا جائے گ ا۔ جنہ وں نے اچھی زن دگی گ زاری تھی انہیں جنت میں ہمیش ہ کی خوش ی س ے
نوازا ج ائے گ ا ،جبکہ جنہ وں نے ب ری زن دگی گ زاری تھی انہیں جہنم میں ہمیش ہ کی س زا دی
جائے گی۔
تمدن
زرتشت سے پہلے ایران ایک انتہائی ترقی یافتہ تمدن تھا۔ ایرانیوں نے ب ڑے ش ہر تعم یر ک یے،
پیچیدہ نظام حکومت تیار کیے ،اور فنون اور ادب میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
ایرانیوں نے زراعت ،تجارت اور صنعت میں بھی مہارت حاصل کی۔ انہوں نے پانی کی فراہمی
کے نظام ،سڑکیں اور پل بنائے۔ انہوں نے فنون لطیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا ،مجسمہ س ازی،
زرتشت سے پہلے ایران کی کچھ اہم تہذیبیں اور ادوار میں شامل ہیں:
ایالمی تہذیب :ایالمی تہذیب ایران کے جنوب مغربی حصے میں تقریبًا 3200قب ل مس یح س ے
600قبل مسیح تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایالمی لوگوں نے ای ک پیچی دہ تحری ری نظ ام تی ار کی ا ،فن
تعمیر اور فنون لطیفہ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ،اور میسوپوٹیمیا کے ساتھ تجارت کی۔
ماد تہذیب :ماد تہذیب ایران کے شمال مغربی حصے میں تقریبًا 700قبل مس یح س ے 550قب ل
مسیح تک پھیلی ہوئی تھی۔ ماد لوگوں نے ایک طاقتور سلطنت ق ائم کی جس نے میس وپوٹیمیا پ ر
حکمرانی کی۔ انہوں نے گھڑس واری اور تیران دازی میں مہ ارت حاص ل کی ،اور فن تعم یر اور
ہخامنشی سلطنت :ہخامنشی سلطنت ایران کے بیشتر حصوں پر تقریبًا 550قبل مسیح سے 330
قبل مسیح تک حکومت کرتی تھی۔ ہخامنشی سلطنت تاریخ کی سب سے بڑی س لطنتوں میں س ے
ایک تھی ،جو ایشیا ،افریقہ اور یورپ کے بڑے حصوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہخامنشیوں نے ایک
پیچیدہ انتظامی نظام تیار کیا ،مختلف ثقافتوں اور مذاہب کو برداش ت کی ا ،اور فن ون اور ادب میں
زرتشت کی آمد
زرتشت ایک ایرانی پیغمبر تھے جنہ وں نے چھ ٹی ص دی قب ل مس یح میں ای ران میں ای ک ن ئے
مذہب کی تبلیغ کی۔ زرتشت کے مذہب کو زرتشتیت کہا جات ا ہے۔ زرتش تیت ای ک توحی د پرس ت
مذہب ہے جو ایک خدا ،اہورا مزدا پر یقین رکھتا ہے۔ زرتشتیوں کا خی ال ہے کہ دنی ا میں اچھے
اور برے کے درمیان ایک مسلسل جدوجہد جاری ہے ،اور ہر شخص کو اس جدوجہ د میں ای ک
زرتشتیت یا مزدیسنا ایک قدیم آریائی مذہب ہے ،جس کا ظہور3500س ال قب ل اور بعض روای ات
کے مطابق 2500قبل مسیح فارس میں ہواتھا۔ اس کو عام طور پر زرتشتیت کہا جات ا ہے۔ اگ رچہ
اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پوری دنیا میں ایک الکھ تیس ہزار س ے بھی
کم زرتشتی ہیں۔ مگر یہ دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ای رانی پیغم بر زرتش ت نے
پارسی مذہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی م ذہب بھی کہ تے ہیں۔ اس کے عالوہ
اسے آتش پرستوں کا مذہب اور مجوسّیت بھی کہا جاتا ہے
ایران کے قدیم مذاہب میں زرتشتیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس مذہب کے پیرو اب ای ران میں
بہت ہی کم رہ گئے ہیں لیکن ایک خاص تعداد ہندوستان میں موج ود ہے ج و پارس ی کہالتی ہے۔
زرتشت کی تعلیم نے بابل اور یونان کے لوگوں کو کافی متاثر کی ا تھ ا اور بع د میں یہ ودیت اور
خود مسیحیت پر اس کے اثرات پڑے ہیں۔ اس مذہب میں اگرچہ یہودی مذہب ی ا اس الم کی ط رح
صاف اور واضح طور پر وحدانیت کا تصور تو نہیں ہے لیکن ایک مطلق خدا کے تحت دوسرے
زرتشتیت س ے پہلے ای ران میں ج و م ذاہب تھے ان کے ب ارے میں تفص یالت بہت کم مل تی ہیں
لیکن اس زمانہ کے مذاہب اور ہندوستان کے مذاہب میں بڑی قربت نظ ر آتی ہے۔ اوس تا اور وی د
میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں میں ای ک ہی قس م کی ک ثرت پرس تی پ ائی ج اتی ہے۔
دونوں جگہ آگ کی پرستش ہے اور قربانی کے وقت ہندوستان میں سوما (ای ک قس م کی ش راب)
اور ایران میں ہاوما استعمال ہوتی تھی۔ اوستا اور وید میں بیان کیے ہ وئے دیوت ا تقریب ْا مش ترک
ہیں۔
زرتشت ایک خدا اہورا کے پجاری تھے جو مزدا (دانا) کہالتے تھے۔ زرتشت کی حمد یا گاتھ ا (
)Gathasمیں جن مقامات یا شخصیتوں کا ذکر ہے ،تاریخ میں ان ک ا پتہ نہیں چلت ا اور اس ل یے
صحیح زمان و مکان کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ مشرقی ای رن
کے کس ی حص ہ میں تھے اور مغ ربی ایش یا کے ت رقی ی افتہ حص وں س ے دور رہ تے تھے۔ یہ
زمانہ سائرس دوم سے پہلے کا ہے جب ایران ابھی متح د نہیں ہ وا تھ ا۔ ہخامنش یوں کے دور کی
کسی تحریر اور آثار میں بھی ان کا ذکر نہیں ملت ا۔ اس کے بع د دارا اور اس کے جانش ینوں کے
آثار میں بہت ہی معمولی اشارے ملتے ہیں۔ ہخامنشی دور حکومت میں کچھ عرص ہ کے ل یے یہ
سرکاری مذہب رہا۔ سکندر اعظم کے حملہ کے بعد ہخامنش ی دور حک ومت ختم ہ و گی ا۔ اس کے
بعد زرتشتی مذہب کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ساسانی دور حکومت میں اسے پھ ر ع روج حاص ل ہ وا
اور چار سو سال تک یہ سرکاری مذہب رہا اور مسیحیت سے ٹکر لیتا رہا۔
635ء میں عربوں نے یزدگرد سوم کو شکست دے کر ایران پر قبضہ کر لیا اور پورے ملک پ ر
زرتشتیت کے لوگ چھوٹے چھ وٹے گروہ وں میں اقلیت وں کی ط رح رہ تے تھے۔ دس ویں ص دی
عیسوی سے اس مذہب کے لوگ ترک وطن کر کے ہندوستان کے گجرت کے عالقے میں بسنے
لگے اور اپنے وطن کے ہم مذہب لوگوں سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا۔ 1477ء میں یہ تعلق پھر س ے
قائم ہوا۔ شروع میں یہ کھیتوں میں کسانوں کی طرح کام کرنے لگے لیکن انگری زوں کے اقت دار
کے زمانے میں انھوں نے تعلیم ،تجارت اور صنعت میں زبردست ترقی کی اور ص وبہ گج رات
کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دشمن خانہ بدوشوں سے بالکل مختلف تھے ج و نیچ ر پرس ت تھے۔ ک ئی
ک ئی دیوت اؤں ک و م انتے تھے اور جن کی زن دگی زی ادہ ت ر گھ وڑوں کی پیٹھ پ ر گ زرتی تھی۔
زرتشت ان لوگوں کا مقابلہ ہمیشہ اپنے لوگوں سے کرتے تھے۔ اپنے لوگوں کو وہ انص اف پس ند
و پاک باز (آشا) بتالتے تھے اور خانہ بدوشوں کو جھوٹے اور دھوکا باز (درج)۔ زرتشت ہمیش ہ
زمین کی پیداوار بڑھانے اور مویشیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے تھے اس لیے
کہ مویشیوں کی محنت ہی سے غ ذا پی دا ہ وتی ہے۔ چن انچہ انھ وں نے دیوت ا متھ را کے س امنے
بیلوں کی قربانی منع کردی اور عبادت کے وقت ہاوما (ایک قسم کی نشہ آور چیز) کے اس تعمال
تعریف
تاؤزم ایک چینی فلسفیانہ اور مذہبی روایت ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح میں چین میں پیدا ہوئی
تھی۔ اس کی بنیاد الؤ تذو نے رکھی تھی ،جس نے تاؤ تی چنگ نامی ایک کتاب لکھی۔ ت اؤزم ک ا
مرکزی تصور "تاؤ" ہے ،جو کائنات کی بنیادی حقیقت اور تمام چ یزوں ک ا منب ع ہے۔ ت اؤزم کی
تعلیمات فطرت کی پیروی کرنے ،توازن اور ہم آہنگی تالش کرنے ،اور عمل س ے گری ز ک رنے
تاریخی ارتقا
تاؤزم نے چین کی تاریخ اور ثق افت پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے۔ ہ ان خان دان ( 206قب ل مس یح – 220
عیسوی) کے دوران ،تاؤزم ایک طاقتور سیاسی اور مذہبی قوت بن گیا۔ اس عرصے میں ،ت اؤزم
نے کئی مختلف فرقوں کو جنم دیا ،جن میں سے کچھ نے الکیمیا اور جادو جیسے موضوعات پر
پڑا۔ تاہم ،اس عرصے میں ،تاؤزم نے چینی ادب اور آرٹ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
سنگ خاندان ( 1279-960عیسوی) کے دوران ،تاؤزم نے ایک بار پھر ع روج حاص ل کی ا۔ اس
عرصے میں ،تاؤزم نے چینی طب اور قومی فنون میں اہم کردار ادا کیا۔
جدید دور میں ،تاؤزم چین اور دنیا بھر میں ایک مقب ول م ذہب اور فلس فہ بن ا ہ وا ہے۔ ت اؤزم کی
تعلیمات سادگی ،فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ،اور ذاتی ذمہ داری پر زور دیتی ہیں۔
تاؤ :تاؤ کائنات کی بنیادی حقیقت اور تمام چیزوں کا منبع ہے۔ یہ ایک غیر ذاتی ،بے شکل ،اور
یین اور یان گ :یین اور یان گ دو متض اد اور تکمیلی ق وتیں ہیں ج و کائن ات میں ہ ر چ یز میں
موجود ہیں۔
رہنا چاہیے۔
ذاتی ذمہ داری :تاؤسٹوں کا خیال ہے کہ ہر ش خص اپ نی خوش ی اور تکمی ل کے ل یے ذمہ دار
ہے۔
تاؤزم کے فرقے
تاؤزم نے تاریخ بھ ر میں ک ئی مختل ف فرق وں ک و جنم دی ا ہے۔ ان میں س ے کچھ اہم فرق وں میں
شامل ہیں:
زہدی تاؤزم :زہدی تاؤزم ایک سخت فرقہ ہے جو سادگی اور خود کفائی پر زور دیتا ہے۔
الجمی تاؤزم :الجمی تاؤزم ایک الکیمیا ف رقہ ہے ج و ہیموٹینی ٹی اور ام رت حاص ل ک رنے کی
شعبہ تاؤزم :شعبہ تاؤزم ایک مذہبی فرقہ ہے جو روحانی رہنماؤں اور مقدس متون پر زور دیتا
ہے۔
تاؤزم کا اثر
ت اؤزم نے چین کی ت اریخ اور ثق افت پ ر گہ را اث ر ڈاال ہے۔ اس نے چی نی ادب ،آرٹ ،طب ،اور
سیاست کو متاثر کیا ہے۔ تاؤزم نے دنیا بھ ر میں دوس ری ثق افتوں اور م ذاہب ک و بھی مت اثر کی ا
تاؤزم آج
تاؤزم چین اور دنیا بھر میں ایک مقبول مذہب اور فلسفہ بن ا ہ وا ہے۔ ت اؤزم کی تعلیم ات س ادگی،
فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ،اور ذاتی ذمہ داری پر زور دیتی ہیں۔
تعریف
سکھ مت ایک توحید پرست مذہب ہے جو 15ویں صدی میں پنجاب ،بھارت میں پیدا ہ وا تھ ا۔ اس
کی بنیاد گرو نانک نے رکھی تھی ،جن کا ماننا تھ ا کہ خ دا ای ک ہے اور تم ام انس ان براب ر ہیں۔
سکھ مت کی تعلیمات سچائی ،ایمانداری ،مہربانی ،اور خدمت پر زور دیتی ہیں۔
تاریخ
نے مذہب کی بنیاد رکھی ،جبکہ بعد کے گ روؤں نے اس ے مزی د تی ار کی ا اور اس ے ای ک منظم
مسلہ دور ( :)1947-1708گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کو ایک خالصہ بنا دیا ،یا ای ک م ذہبی
برادری۔ اس دور میں ،سکھوں کو مغلوں کے ہاتھوں شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔
جدید دور (-1947تاحال) :ہندوستان کی آزادی کے بعد ،سکھ پنجاب کے ایک بڑے اقلیتی گروہ
بن گئے۔ تاہم ،انہیں اب بھی امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسانی مساوات :سکھوں کا خیال ہے کہ تمام انسان براب ر ہیں ،چ اہے ان کی جنس ،نس ل ،ذات،
سچ :سکھوں کا خیال ہے کہ سچ بولنا اور سچائی پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ایمانداری :سکھوں کا خیال ہے کہ ایماندار اور اخالقی زندگی گزارنا ضروری ہے۔
مہربانی :سکھوں کا خیال ہے کہ دوسروں کے ساتھ مہربان اور ہمدرد ہونا ضروری ہے۔
ہے۔
کرتار پور صاحب کی زیارت :کرتار پور صاحب سکھوں کا سب سے مقدس مقام ہے ،جو گرو
واسکھی :واسکھی سکھ نئے سال کا تہوار ہے ،جو مارچ یا اپریل میں منایا جاتا ہے۔
بہائساکھی :بہائساکھی سکھوں کے لیے ایک اہم تہوار ہے ،جو گرو نانک کی خالص ہ کی بنی اد
دیوالی :دیوالی روشنی کا تہوار ہے ،جو سکھ اور ہندو دونوں مناتے ہیں۔
سکھ مت کا اثر
سکھ مت دراصل ہندومت اور اسالم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوش ش کے ن تیجے میں
وجود میں آنے واال مذہب ہے۔ لیکن سکھ مت کو دونوں مذاہب کی ہم آہنگی کے ط ور پ ر دیکھن ا
سکھ مت کی مذہبی اور ثقافتی انفرادیت کا احاطہ نہیں کرتا۔ سکھ مت کو اسالم اور ہن دو مت کے
درمیان سمجھوتہ کہنا ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی کسی مسیحی کو ایک بدعتی یہودی کہے۔ سکھ
مت کوئی فرقہ نہیں ہے اور نہ ہی دونسال مذہب ہے بلکہ یہ ایک الگ مذہبی تحریک ہے۔
سکھ مت کا تسلیم شدہ بانی گرو نانک (1469تا )1538ہندوس تان میں ہن دو وال دین کے ہ اں پی دا
ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ نانک کو خدا کی طرف سے ب راِہ راس ت بالہٹ موص ول ہ وئی تھی جس کی
بدولت وہ ایک گرو بن گیا تھا۔ وہ جلد ہی شمال مشرقی ہندوستان کے پنجاب کے عالقے میں اپنی
عقیدت اور تقوٰی اور اپنےِاس جرات مندانہ دعوے کی بدولت مش ہور ہ و گی ا کہ "ک وئی مس لمان
نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہن دو ہے۔" ُاس نے اپ نے اردگ رد ک افی تع داد میں ش اگردوں(س کھوں)
کوجمع کر لیا ۔ اس نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اس نے خدا کو" َس ت نام " ("حقیقی ن ام") ی ا
اکنکار Ekankarکے طور پر متعارف کروایا۔ اکنکار میں "اک" کا مطلب "ایک ہے"اوم " ای ک
صوفیانہ بعی د الفہم آواز بمع نی" ُخ دا" اور "ک ار" مع نی "مال ک" ہے ۔ اس وح دانیت میں ک وئی
شخصیت شامل نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی قسم کے مش رقی وح دت الوج ود عقی دے کے
طور پر لیا جانا چاہیے (جو یہ س کھاتا ہے کہ س ب کچھ ہی ُخ دا ہے اور ُخ دا ہی س ب کچھ ہے)۔
تاہم نانک نے ُپ نر جنم(ن ئے جنم) اور کرم ا کے نظری ات ک و برق رار رکھ ا ج و مش رقی م ذاہب
جیسےکہ بدھ مت ،ہندو مت اور تاؤ مت کے قابل ذکر اصول ہیں۔ نان ک نےیہ تعلیم دی کہ ک وئی
بھی شخص ُخ دا کے ساتھ صوفیانہ اتحاد ،خاص عقیدت اور بھجن وغیرہ گانے کی بدولت ہی ُپ نر
جنم (سمسارا) کے چکر سے بچ سکتا ہے۔ نانک کے بعد نو مق رر ک ردہ گ روؤں ک ا ای ک اٹ وٹ
سکھ مت اصل میں امن پسند مذہب تھا لیکن وہ زیادہ دیر اپنی ِاس حالت کو برق رار نہ رکھ س کا۔
پیغمبِر اسالم کے آخری نبی ہونے سے انک ار ک و مس لمانوں کی ط رف س ے ت وہیِن رس الت کے
طور پر لیا گیا اور ِاس مذہب کو اسالم کی طرف سے کافی زیادہ مخالفت کا سامنا کرن ا پ ڑا جس
کی تاریخ میں پہلے ہی کئی ایک جنگوں کا ذکر ملتا ہے۔ دسویں گرو گوبند رائے کے وقت تک،
جسے گوبند سنگھ ("شیر") بھی کہا جاتا ہے ،سکھ جنگجوؤں کا عالمی شہرت یافتہ طبقہ خالصہ
منظم ہو چک ا تھ ا۔ خالص ہ کی خصوص یت ُاس کے پ انچ "ک " تھےِ :کیش (لم بے ب ال) ،کنگھ ا
(بالوں میں فوالد ی کنگھی) ،کچھا (چھوٹی پتلون) ،کارا (لوہے کا کنگن) اور کرپان (ایک تل وار
ی ا خنج ر ج و پہل و میں پہن ا جات ا ہے)۔ انگری زوں نے ،ج و ُاس وقت ہندوس تان میں نوآبادی اتی
موجودگی رکھتے تھے ،خالصہ کو جنگجوؤں اور اپنے باڈی گارڈز کے ط ور پ ر اس تعمال کی ا۔
گوبند سنگھ کو باآلخر مسلمانوں نے قتل کر دیا۔ وہ آخری انسانی گ رو تھ ا۔ اس ک ا جانش ین ک ون
تھا؟ سکھوں کی مقدس کتاب آدی گرنتھ نے اپنے متبادل نام گرو گرنتھ کے طور پر ُاس کی جگہ
لے لی۔آدی گرنتھ کی اگرچہ پوجا تو نہیں کی جاتی لیکن ُاسے اٰل ہی حیثیت دی جاتی ہے۔
اگرچہ سکھ مت کی بنیاد امن پسند ہے لیکن بعد میں یہ ایک عسکریت پس ند م ذہب کے ط ور پ ر
جانا گیا ،یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ یہ عسکریت پسندی سکھ مت کی تعلیمات سے ب اہر
کے زمینی معامالت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ 1947میں ہندوستان اور پاکستان کی تقس یم کے
وقت ایک بڑے پیمانے پر اختالفی سرحد براِہ راست پنجاب کے بیچ میں سے کاٹی گئی جہاں پ ر
سکھوں کو اعلی درجے کی خود مختاری حاصل تھی۔ ُان کی سیاسی اور سماجی شناخت برق رار
رکھ نے کی کوشش یں اک ثر ناک ام رہی ہیں۔ ِاس گ روہ کے کچھ انتہ ا پس ندوں نے س کھ ریاس ت
خالصتان کے قیام کے لیے انتہائی اقدامات ُاٹھائے ہیں لیکن سکھوں کی اکثریت امن پسند لوگ وں
ابتدائی طو رپر بہت زیادہ ایذا رسانی اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دونوں صرف ایک
خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ ایک مسیحی اور ایک سکھ بطوِر انس ان آپس میں ای ک دوس رے کے
لیے باہمی عزت و احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دونوں ُپر امن طور پ ر رہ س کتے ہیں ،لیکن
سکھ مت اور مسیحیت کو مربوط نہیں کیا جا سکتا۔ ِان کے عقائ دی نظ اموں کے ان در چن د ای ک
نکات ایسے ہیں جس پر دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن حتمی ط ور پ ر دون وں ک ا ُخ دا
کے ب ارے میں ،مس یح کے ب ارے میں ،کالم کے ب ارے میں اور نج ات کے ب ارے میں مختل ف
سب سے پہلے ت و س کھ مت ک ا ُخ دا کے ب ارے میں ال شخص ی اور ق ائم ب الغیر ذات ک ا تص ور
مسیحیت کے ُاس پرواہ کرنے والے "اّب ا" ُخ دا ب اپ کے تص ور کے س اتھ متص ادم ہے جس نے
اپنے آپ کو بائبل ُم قدس میں ظاہر کیا ہے (رومیوں 8باب15آیت؛ گلتیوں 4ب اب6آیت)۔ ہم ارا ُخ دا
اپنے بّچ وں کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلق رکھتا ہے اور وہ خوب جانت ا ہے کہ ہم کب بیٹھ تے ہیں
اور کب ُاٹھتے ہیں ،وہ ہمارے سارے خیاالت سے بھی واقف ہے ( 139زبور 2آیت)۔ وہ ہم س ے
ابدی محبت رکھتا ہے اور بڑے صبر اور وفاداری کے ساتھ ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے (یرمیاہ
31باب3آیت)۔ وہ ِاس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ ُاس کی کس ی دوس رے م ذہب کے ن ام نہ اد
دیوتا کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ " مجھ سے پہلے کوئی ُخ دا نہ
ہوا اور میرے بعد بھی ک وئی نہ ہ و گ ا " (یس عیاہ 43ب اب10آیت) اور "َم یں ہی ُخ داون د ہ وں َاور
کوئی نہیں ۔ میرے سوا کوئی ُخ دا نہیں " (یسعیاہ 45باب 5آیت)۔
دوسرے نمبر پر سکھ مت ُخ داوند یسوع مسیح کی منفرد حیثیت سے انکار کرتا ہے۔ مسیحی کالم
یہ بیان کرتا ہے کہ نجات صرف اور صرف یس وع مس یح کے وس یلے س ے ہی م ل س کتی ہے:
"راہ اور حق اور زندگی َم یں ہوں ،کوئی میرے وسیلہ کے بغ یر ب اپ کے پ اس نہیں آت ا"(یوحن ا
14باب6آیت)۔ "اور کسی ُد وسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے َتلے آدمی وں ک و
کوئی ُد وسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نج ات پ ا س کیں " (اعم ال 4ب اب12آیت)۔
ِاس کے عالوہ سکھ مت جو کوئی حیثیت بھی یسوع مسیح کو دیتا ہے وہ حیثیت ی ا درجہ وہ نہیں
جس کا ُخ داوند یسوع مسیح مستحق ہے اور جو بائبل ُم قدس ُاس کو دیتی ہے – یع نی ُخ دا ک ا بیٹ ا