Professional Documents
Culture Documents
قاضی شریح کی شخصیت اور امام حسین(ع) کے قتل کا فتوی - حوزہ نیوز ایجنسی
قاضی شریح کی شخصیت اور امام حسین(ع) کے قتل کا فتوی - حوزہ نیوز ایجنسی
https://ur.hawzahnews.com/x9NLf
حوزہ/قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ ،مفسر ،ماہر انساب ،عالم اور قاضی تھا،
لیکن اخالقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت پسند ،فرصت طلب اور مقام و
منصب کا دلدادہ تھا۔
نام شریح بن حارث بن قیس بن جھم معاویہ ہے ،قبیلہ کند سے ہے .اسکے القاب میں سے ابو امیہ کندی ،ابو عبدالرحمن ،شریح قاضی ،کاذب مشہور ترین
ہیں .تاریخ والدت کے بارے میں کسی بھی تاریخ میں اشارہ موجود نہیں ،سال وفات 78یا 80ھجری بیان کیا گیا ہے ،اسکی عمر 106یا 110سال
بیان ہوئی ہے .اصالتًا یمنی ہے اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کرتا ہے .قاضی شریح کے صحابی یا تابعی ہونے میں مورخین نے اختالف کیا ہے،
بعض مورخین کے مطابق وہ تابعی تھا ،ابن حجر کے مطابق رسول اللہ ص سے اسکی مالقات ثابت ہے لیکن ذھبی اس بات کو رد کرتے ہیں .مجموعی
طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کی بااثر شخصیات میں سے تھا جس نے اپنی زندگی بڑے بڑے صحابیوں کے ساتھ گزاری۔
قاضی شریح خلیفہ اول کے زمانے میں تازہ مسلمان شدہ افراد میں سے تھا ،اس وجہ سے اس دور میں قاضی شریح کا کوئی خاص مقام نہیں تھا اور
نہ ہی زیادہ معروف تھا .خلیفہ دوم کی خالفت کے اوائل میں اس شخص کو کوئی خاص منصب نہیں ملتا لیکن جلد ہی فتوحات مسلمین کے بعد
مختلف عالقوں میں والی و قضاة بھیجنے کی ضرورت پیش آنے پر قاضی شریح جیسے افراد کو موقع ملتا ہے .خلیفہ دوم کی خالفت میں قاضی
شریح کا شمار مدینہ کے پڑھے لکھے افراد میں سے ہونے لگتا ہے جو شاعر اور علم انساب کو بخوبی جانتا ہے ،ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے خلیفہ
دوم قاضی شریح کو کوفہ کی جانب بھیجتے ہیں اس وقت قاضی شریح کی عمر 40سال ہے .بعض منابع میں وارد ہوا ہے کہ کوفہ کے قاضی ہونے کی
جہت سے ماہانہ سو درہم وصول کرتا تھا.خلیفہ سوم کی خالفت کے دوران بھی قاضی شریح اپنے منصب پر فائز رہتا ہے اور اس 12بارہ سالہ خالفت
عثمان کے دوران ان کا اور خلیفہ کا تعلق خوشگوار رہتا ہے.
بعض مورخین کے مطابق امام علی علیہ السالم کی خالفت ظاہری کے شروع ہونے کے بعد تین لوگ اپنے اپنے منصب پر باقی رہے جن میں سے ایک
قاضی شریح تھا ،درحقیقت امام علی علیہ السالم کی حکومت میں بھی قاضی شریح اپنے منصب قضاوت پر براجمان رہا ،امام علی علیہ السالم کی
خالفت کے دوران قاضی شریح کی کچھ غلط قضاوتوں سے امام ع اس پر برہم ہوۓ ،اس دوران قاضی شریح نے 80دینار کا مجلل و مرفہ گھر خریدا
جس پر امام علیہ السالم نے اسکا مواخذہ کیا کہ جسکی تفصیل کتاب نھج البالغہ میں بھی وارد ہوئی ہے ،ظاہرا امام علی علیہ السالم کی شہادت کے
وقت مسند قضاوت کوفہ پر موجود تھا .امام حسن علیہ السالم کی مختصر خالفت کے دورانیہ میں بھی یہ شخص اپنے مسند پر فائز رہا ،اور اسکے
بعد امیر شام کی 20سالہ حکومت کے دوران بھی اس نے اپنے عہدے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا.
قاضی شریح نے پہلی بار نہضت کربال سے خود کو اس وقت مربوط کیا جب 70بزرگان کوفہ نے جن میں حبیب ابن مظاہر ،محمد بن اشعث ،مختار
ثقفی ،عمر بن سعد وغیرہ شامل تھے ،نے قاضی شریح کی موجودگی میں امام حسین علیہ السالم کو کوفہ دعوت دینے کی تحریک چالئی ،اس اکٹھ کے
بعد جب ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا تو یہ شخص بغیر کسی شرم و عار و اپنے تعہد پر باقی رہنے کے فورا داراالمارہ چال جاتا ہے اور عبیداللہ بن زیاد
کا مشاور بن جاتا ہے ،چونکہ ابن زیاد کو بھی اس جیسے مقدس مآب ،فقیہ اور عالم کی ضرورت تھی اس نے گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا .ھانی
کی شہادت کے بعد ھانی کے قبیلے والوں کو پراکندہ کرنے کے لیے ابن زیاد نے قاضی شریح کو استعمال کیا ،ھانی کے قبیلے والوں نے جب دیکھا کہ ایک
بزرگ و فقیہ گواہی دے رہا ہے کہ ھانی ٹھیک ہیں تو وہ خاموش ہو کر چلے گئے .یہاں پر قاضی شریح کا ایسا کردار ادا کرنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ
یہ ایک سیاسی و دفاعی اقدام تھا اگر قاضی شریح نے یہ قدم نہ بڑھایا ہوتا تو شاید اسی وقت ھانی کے قبیلے والے کہ جنہوں نے داراالمارہ کا
محاصرہ کیا ہوا تھا ابن زیاد کو ھانی کے قتل کے جرم میں مار دیتے اور کوفہ کی حکومت کا رخ ہی بدل جاتا.
قاضی شریح نے امام حسین علیہ السالم کے قتل کا فتوی جاری کیا تھا یا نہیں؟ اس واقعیت پر مضبوط سند موجود نہیں ہے لیکن بعض محققین کے
مطابق یہ فتوی جاری کیا گیا جس نے کوفہ اور شام کے لوگوں کو امام حسین علیہ السالم کے قتل پر آمادہ کیا ،جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک فقیہ،
مجتہد ،مفسر ،اور خلفاء راشدین کا مقرر شدہ قاضی یہ فتوی دے رہا ہے تو درست ہی کہہ رہا ہوگا ،اس پر شواہد موجود ہیں جو اس فتوی کے موجود
ہونے کی تصدیق کرتے ہیں.
:١قاضی شریح کا ہر وقت کے حاکم کے ساتھ سازگار ہونا اور افکار و نظریات میں انکا موافق ہونا۔
:٢ابن زیاد کی قدرت کو درک کرتے ہی قاضی شریح کا اسکے ساتھ ملحق ہوجانا ،اور اسکے ہاتھوں مختلف مواقع پر استعمال ہونا.
:٣ضعف نفس ،بے حد محتاط اور ڈرپوک ہونا۔
:٤اگر مان لیا جائے کہ صریح اور واضح طور پر فتوی نہیں جاری کیا گیا تھا تو یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح سے قاضی شریح اور ابن زیاد کا تعلق
تھا اور پھر قاضی شریح نے ابن زیاد کے آگے ڈرپوکی ،عافیت طلبی ،ریاکاری ،دو پہلو باتیں کرنا ،اور جھوٹ کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا اور اسی طرح
سے ابن زیاد کا قاضی شریح کے جھوٹے دستخط اور مہر کا استعمال کرنا ،اسکی کلی باتوں سے نتیجہ گیری اور غلط قیاس کا سمجھنا ،یا قاضی شریح
کا کلی طور پر امام حسین علیہ السالم کے قیام پر سواالت اٹھانا ابن زیاد کے لیے کافی تھا کہ وہ لوگوں کو نواسہ پیغمبر کے قتل کے لیے تیار کرے۔
سانحہ کربال کے بعد کوفہ کے حاالت خراب ہوجانے اور مختلف قیام اور تحریکوں کے اٹھنے کی وجہ سے قاضی شریح تقریبا 9سال تک اپنے عہدے سے
کنارہ گیر رہے مورخین نے اسکی وجہ عافیت طلبی اور عدم امنیت بیان کی ہے ،ابن خلدون کے بقول مختار ثقفی نے کوفہ پر تسلط حاصل کرنے کے بعد
قاضی شریح کو کوفہ کے منصب قضاوت کے لیے مقرر کیا ،لیکن مختار کے سپاہیوں نے اس پر اعتراض کیا ،قاضی شریح بھی ان اعتراضات کو سن کر
خوفزدہ ہوا اور بیماری کا بہانہ بنا کر خانہ نشین ہوگئے ،مختار بھی ان اعتراضات کے نتیجے میں قاضی شریح کو معزول کرنے پر مجبور ہوگیا .یہ
شخص جانتا تھا کہ یہ قیام عارضی ہیں اور ان میں مداخلت خطرناک ہے ،کوفہ میں مختلف حکومتیں و شورشیں ہوتی رہیں لیکن یہ کسی کا بھی
حصہ نہیں بنا بعد میں عبدالملک بن مروان کی حکومت میں دوبارہ کوفہ کا قاضی مقرر ہوا .اس دوران عبدالملک بن مروان نے حجاج کو کوفہ کا گورنر
بنایا اور قاضی شریح اس وقت نا صرف کوفہ کا چیف جسٹس تھا بلکہ حجاج کے مشاورین میں سے شمار ہونے لگا۔
قاضی شریح نے کوفہ میں کتنے سال قضاوت کی اس بارے میں اختالف ہے کیونکہ اسکے وفات کے سال پر بھی مورخین نے اختالف کیا ہے 53 ،سے
75سال تک کا عدد موجود ہے ،ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ قاضی شریح نے 57سال قضاوت کی .قاضی شریح کی عمر کے بارے میں قوی قول
یہ ہے کہ اسکی عمر 106یا 110سال تھی .مختلف منابع نے سال 72ھجری یا سال 99ھجری کو اسکی وفات کا سال قرار دیا ہے .نتیجے کے طور پر
آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ ،مفسر ،ماہر انساب ،عالم اور قاضی تھا ،لیکن اخالقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت
پسند ،فرصت طلب اور مقام و منصب کا دلدادہ تھا۔ اسکا مذہب و نظریہ یہ تھا کہ کوئی بھی حکومت ہو ،علوی ہو یا شامی ،یزیدی ہو یا حسینی ،کسی
بھی نظریے کے حاکم کے ساتھ خود کو ملحق کرنا ہے اور منصب لینا ہے .حقیقت کو اپنی ذاتی مصلحت پر فدا کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں ،ہمیشہ
گول مول بات کرنی ہے جس سے حق بھی چھپ جاۓ اور باطل بھی واضح نہ ہو۔
➖➖➖➖➖➖➖➖
منابع:
.١ابن اثیر جزری ,عزالدین اسدالغابه فی معرفه الصحابه( ،بیروت دارالکتب العلمیه).
.٢الکامل فی التاریخ ،فارسی ترجمه دکتر روحانی( ،چاپ اول ،تهران ،انتشارات اساطیر١٣٧٣ ،شمسی).
.٣ابن ایبک الصفدی ،صالح الدین خلیل ،الوافی بالوفیات( ،بیروت ،دارإحیا١٤٠٢ ،ھجری).
.٤ابن جوزی ،جمال الدین ابی الفرج ،صفه الصفوه( ،چاپ اول ،بیروت ،دارالکتب العلمیه١٤٠٣ ،ھجری).
.٥ابن حبان ،محمد بن أحمد ،مشاهیر علمإ االمصار و إعالم فقها القطار( ،چاپ اول ،بیروت ،موسسه الکتب الثقافیه١٤٠٨ ،ھجری).
.٦ابن حجر عسقالنی ،شهاب الدین ،تهذیب التهذیب( ،بیروت دارإحیاء).
.٧ابن حزم اندلسی ،ابی محمد ،جمهره االنساب العرب( ،چاپ اول ،بیروت ،دارالکتب العلمیه١٤٠٣ ،ھجری).
.٨ابن خلدون ،عبدالرحمن ،مقدمه ،فارسی ترجمه محمدپروین گنابادی( ،تهران ،بنگاه ترجمه و نشر کتاب١٣٣٦ ،شمسی).
.٩ابن خلکان ،احمدبن محمدبن ابراهیم ،وفیات االعیان و انبا االبنا الزمان( ،بیروت ،دارصادر ،بی تا).
.١٠ابن سعد ،محمد ،طبقات کبری( ،بیروت ،دارصادر ،بی تا).
.١١ابن عبدربه اندلسی ،احمدبن محمد ،العقد الفريد( ،بیروت ،دارالکتب العلمیه ،بی تا).
.١٢ابن عساکر ،ابی القاسم علی بن حسن شافعی ،تاریخ مدینه دمشق( ،بیروت ،دارالفکر١٤١٥ ،ھجری).
.١٣ابن قنفذ ،احمدبن خطیب ،الوفیات ،چاپ چهارم( ،بیروت ،داراالفاق الجدیده١٤٠٣ ،ھجری).
.١٤ابن کثیر ،ابی الفدإ ،البدایه و النهایه( ،چاپ پنجم ،بیروت ،دارالکتب العلمیه١٤٠٩ ،ھجری).
.١٥ابن منظور ،لسان العرب ،چاپ دوم( ،بیروت ،دارإحیا ١٤١٢ھجری).
.١٦ابن وکیع ،محمدبن خلف بن حیان ،اخبار القضاه( ،بیروت ،عالم الکتب ،بی تا).
.١٧اصفهانی ،ابونعیم احمدبن عبداهلل ،حلیه االولیإ و طبقات االصفیإ( ،بی جا ،مطبعه السعاده١٣٩٤ ،ھجری).
.١٨ابن حجر،االصابه فی تمییز الصحابه ،چاپ اول( ،بیروت ،دارالکتب العلمیه١٤١٥ ،ھجری).
.١٩الراوی ،ثابت اسماعیل ،العراق فی العصر االموی( ،چاپ دوم ،بغداد ،منشورات مکتبه األندلس١٩٧٠ ،عیسوی).
.٢٠بخاری جعفی ،ابی عبداهلل اسماعیل بن ابراهیم ،تاریخ الکبیر( ،بیروت ،دارالکتب العلمیه ،بی تا).
.٢١ذهبی شمس الدین محمد ،تاریخ االسالم و وفیات المشاهیر و االعالم( ،چاپ دوم ،بی جا ،دارالکتب العربی١٤١٨ ،ھجری).
.٢٢ذهبی ،شمس الدین محمد ،سیر اعالم النبإل( ،چاپ هفتم ،بیروت ،موسسه الرساله١٤١٠ ،ھجری).
.٢٣شیخ مفید ،اإلرشاد ،فارسی ترجمه رسولی محالتی( ،چاپ چهارم ،تهران ،دفتر نشر فرهنگ اسالمی١٣٧٨ ،شسمی).
.٢٤طبری،محمدبن جریر ،تاریخ الطبری( ،بیروت دارالتراث ،بی تا).
.٢٥طبری ،محمدبن جریر ،تاریخ طبری ،ترجمه ابوالقاسم پاینده( ،تهران انتشارات بنیاد فرهنگ ایران١٣٥٣ ،شسی).
.٢٦مسعودی ،ابوالحسن علی بن حسین ،التنبیه و االشراف( ،بی جا ،دارالصاوی ،بی تا).
اس ویب سائٹ کے جملہ حقوق حوزہ نیوز ایجنسی کے نام محفوظ ہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کے مواد کو ماخذ کا نام ذکر کئے بغیر دوسری خبر رساں ایجنسیوں اور اخبارات میں شائع کرنا
آزاد ہے