استہزا

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 9

‫ث‬ ‫ت‬

‫اس ہزا کے اس ب اب و ا رات اور اس کا عالج‬

‫ن‬ ‫ئن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬


‫عارف گران اسا م ٹ‬ ‫عارف طالب علم‬
‫ٹ ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ام‪ :‬ڈاک ر ب یر احمد ج امی‬ ‫ام‪ :‬رب واز‬
‫ن‬
‫عہدہ‪ :‬لی کچ رار‬ ‫رول مب ر‪ :‬ف ‪18‬‬
‫ش‬
‫عب ہ‪ :‬اسالمک س ٹ ڈیز‬ ‫کالس ای م ل‪:‬‬
‫ن ٹ‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ادارہ‪ :‬م ہاج یو ی ورس ی الہ ور‬ ‫سی ن‪2020-2022 :‬‬

‫ف س‬
‫ی ک ٹ کول ٓاف اسالمک س ٹ نڈیزش‬
‫ن ٹ‬ ‫ن‬
‫ل ی ٓاف اسالمک س ٹ ڈیز ای ڈ ری عہ‬
‫ہ‬
‫م ہاج یوٹ ی ور شس ی ال ور‬
‫(ہ مدرد چ وک أون پ الہ ور)‬

‫ث‬ ‫ت‬
‫اب و ا رات اور اس کا عالج‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫س‬‫ا‬ ‫کے‬ ‫ہزا‬ ‫س‬‫ا‬
‫ن‬ ‫ا تہزا سے مراد کسی کا مزاق اڑان ا ‪ ،‬ک کرن ا اور کسی کی ش‬
‫ے کلمات اداکر ا جتو اسئکی ش ان‬ ‫ان می ں ای تس‬
‫ن‬ ‫حی‬ ‫ئ نس‬
‫ل‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ہ‬ ‫ح‬
‫ے کہ سی ا سان کی ی ر و ذ ی ل کرے وے اس‬ ‫ک‬ ‫ں۔اس کے عالوہ اس کا ی ہ ھی ع ی ہ‬ ‫کے ال ق ہی ں ہ ی‬
‫ئ‬
‫کی عزت می ں کمی کی ج اے۔‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ت‬
‫اس ہزاء کا ل وی مع ی‬
‫ن خ‬ ‫غ‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫ت‬
‫ے ۔ ذی ل می ں اس کا ل وی مع ی م ت لف ک ب‬ ‫ے جس کا مادہ مج رد ہ ۔ز۔ٔا ہ‬‫اسش نہزا عربی زب ان کا ل ظ ہ‬
‫غ‬
‫ے۔‬‫ہ‬ ‫ل ت کی رو ی می ں ب ی ان ک ی ا گ ی ا‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫غ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ل ت عربی ْزکی م ہور کت اب ہذی ب الل ۃ می ں اس کا مع ی یوں لکھا ہ‬
‫ُء‬
‫‪1‬‬
‫الُه ‪ :‬الُسْخرية۔‬
‫تف‬ ‫ن‬
‫‪ 1‬۔ دمحم ب ن أحمد ب ن األزهري الهروي‪ ،‬أب و م صور (الم و ى‪370 :‬ھ)‪ ،‬ت هذيب اللغ ة‪ ،‬دار إحياء الت راث العرب ي‪،‬‬
‫ب يروت‪ ،2001،‬ج ‪، ۶‬ص ‪۱۹۶‬‬
‫‪1‬‬
‫ت‬
‫خ ن‬ ‫ن‬
‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ن اور مس ر کر ا‬ ‫ھزء سے مراد کسی کا مذاق اڑا ا‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫ے ۔آ پ ر مطراز ہ ی ں‪:‬‬ ‫سے اس َزکا مَذع ی لکھا ہ‬ ‫م ای یس اللغ ۃ می ں اس کے مصن ف ے مزی د وض احت‬
‫َر ‪2‬‬
‫ُل َئ َو‬ ‫ُء َو َّز ُء َو َز ٌة َو َد‬ ‫َز‬
‫‪.‬‬ ‫ِخ‬ ‫َس‬ ‫ا‬ ‫َأ‪،‬‬ ‫اْسَت‬ ‫‪:‬‬ ‫َقا‬ ‫‪.‬‬ ‫اِح‬ ‫ِلَم‬ ‫ْم‬ ‫اْل‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫اْل‬ ‫)‬ ‫َأ‬ ‫(َه‬
‫ن ٹ ٹ ن‬
‫ٌة‬ ‫َك‬ ‫ُة‬
‫ِز م ن‬
‫ِإ‬ ‫ْه‬ ‫َه‬ ‫ُي‬ ‫َه‬ ‫َه‬
‫ے مزاق اڑا ا ‪ ،‬ھ ھہ کر ا ‪ ،‬کسی کو زیر‬ ‫ک‬ ‫ھزا ہ اء ‪ ،‬زاء اور ہ مزہ‬
‫ے ۔ اس کا ع ی ہ‬ ‫سے ای ک لمہ ہ‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫کر کے اس کا مزاق اڑا ا۔‬
‫ت‬
‫ے کہ‬ ‫َزہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ے‬ ‫دی‬ ‫ب‬ ‫ز‬
‫ض ّم ف ی‬‫المہ‬ ‫ع‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫عروس‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫اج‬ ‫اسی طرح‬
‫َز‬ ‫َوق‬ ‫َر ٌل ْز‬
‫‪3‬‬
‫(و ُج } ُه َأٌة‪ ،‬ب ال ) السكون َأي (! ُيْه ُأ ِمْنه) ‪ ،‬يل ُيْه ُأ ِبِه‪.‬‬
‫ت‬
‫و۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ا‬
‫ن ی ی‬ ‫اڑا‬ ‫مزاق‬ ‫کا‬ ‫س‬ ‫ے ب وال ج ا ہ ج‬
‫ے)‬ ‫ا‬ ‫(عربی می تں ھزاۃ اس کے یل‬
‫ش‬ ‫ن ٹ ٹ ن‬ ‫ت‬
‫درج ب اال یت ن حوالہ ج ات سے معلوم ہ وا کہ اس ہزاء کا مع ی کسی کا مزاق اڑا ا‪ ،‬خھ ھہ کر ا اور کسی کی ان و‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت نن‬ ‫عزت م ں کمی اور حق ر کی خ‬
‫ے۔‬ ‫ے ۔ رٓان و س ت می ں اس ہزاء سے س ی سے م ع ک ی ا گ ی ا ہ‬ ‫اس کو کم ر تج ا ا ہ‬ ‫ف‬ ‫اطر‬ ‫ی‬ ‫ین‬ ‫ق‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ئ‬
‫ے۔‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫عمال‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ہوم‬ ‫اس‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫امات‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫رٓان‬
‫من‬ ‫غ کت‬ ‫م خ‬
‫ے کہ‬ ‫ے ہ ی ں کہ اس کا ع ی ی ہ ہ‬ ‫س ر کے ب ارے می ں امام زالی ہ‬
‫تمسخر ک رنے یا م ذاق اڑانےکے مع نی ہیں کہ اہ انت و تحق یر کے ارادے س ے‬
‫کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرن ا کہ س ننے والے ک و ہنس ی‬

‫ق‬
‫‪4‬‬
‫آئے۔‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫رٓان و س ت می ں اس ہزاء کا حکم‪:‬‬
‫نئ‬ ‫مکم ت ف‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ہ‬
‫ے ج قس می ں ز دگی کے ہ ر عب ہ کےئ حوالہ سے ل ص ی التناور ٹر ما ی کا‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫دا‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫رٓان‬
‫ٹ‬ ‫ق‬ ‫ہن‬ ‫ن‬ ‫ہق‬
‫ے ‪ ،‬وہ ی ں رٓان ے ھ ٹھہ اور‬
‫ت نہق‬
‫م‬
‫ے ۔ ج ہاں رٓان ے ب ا ی معا الت اور امور می ں ر ما ی کی‬ ‫سامان موج ود ہ‬
‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ت‬
‫ہزاء کے خحوالے سے س ت مگر اب ل عمل ہ دای ت دی ہ ی ں۔ ہللا عالٰی ے رٓان جم ی د می ں اس ہزاء اور ھ ھہ‬ ‫اسن‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫من‬ ‫ست‬
‫ے ۔ ار اد ب اری َاعالٰی ے ‪:‬‬ ‫کرے سے ی سے ع ی ک ا ہ‬
‫َا ْن َّن‬ ‫ہ ْو ًر ْم َو اَل ٌء ْن‬ ‫ْن ْو‬ ‫َن ْو اَل ی ْر ْو ٌم ْن ْو‬
‫َآٰي ُّيَها اَّلِذ ْي ٰا َمُن ا َيْسَخ َق ِّم َق ٍم َعٰٓسى َّيُك ُن ا َخْي ا ِّمْنُه ِنَسا ِّم ِّنَساٍء َعٰٓسى َّيُك‬
‫ًر َّن‬
‫ِّمْنُهَا ْم َو اَل ُز ْو َاْل‬ ‫َخْي ا‬
‫ُم ْو ُق َد‬ ‫َو اَل ُز‬
‫ۚ ‬
‫ئ ُم‬ ‫ْب‬ ‫َو ْن ْم‬ ‫َس‬ ‫ْٓو‬
‫َتْلِم ا ْنُفَسُك َتَناَب ا ِبا ْلَقاِب ۭ ِبْئ ااِل ْس اْلُفُس َبْع اِاْل ْيَماِن ۚ َم َّل َيُت َفُا ول َك ُه‬
‫ل ْو َن‬
‫‪5‬‬
‫۔‬ ‫ا ّٰظِلُم‬
‫اے ایم ان وال و ! ک وئی ق وم کس ی ق وم ک ا م ذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ ل وگ ان‬
‫(تمسخر کرنے وال وں) س ے بہ تر ہ وں اور نہ ع ورتیں ہی دوس ری عورت وں ک ا‬
‫(مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں ان (مذاق اڑانے والی عورتوں) س ے بہ تر‬
‫ہوں‪ ،‬اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا ک رو اور نہ ایک دوس رے‬
‫کے برے نام رکھا کرو‪ ،‬کسی کے ایمان (النے) کے بع د اس ے فاس ق و ب دکردار‬
‫کہنا بہت ہی برا نام ہے‪ ،‬اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫تف‬ ‫ق ن‬ ‫ف‬
‫‪ 2‬۔ احمد ب ن ارس ب ن زكرياء ال زوي ی ‪ ،‬أب و الحسين (الم و ى‪395 :‬ھ)‪ ،‬مجع م م اييس اللغ ة‪ ،‬دار ال كر‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫تف‬ ‫ّز‬ ‫‪َّ1979‬زء‪ ،‬ج ‪، ۶‬دّمحمص ‪۵۲‬دّمحم‬
‫‪ 3‬۔ ال ب يدی‪ ،‬ب ن ب ن ع ب د الر اق الحسين ي‪( ،‬الم و ى‪1205 :‬ھ)‪ ،‬اج العروس من ج واهر ال اموس‪ ،‬دار‬
‫ش‬ ‫تف‬ ‫اله غدای ۃ‪ ،‬بیروت‪2000 ،‬ء‪ ،‬ج ‪۱‬غ‪ ،‬ص ‪۵۰۹‬‬
‫‪ 4‬۔ زالی‪ ،‬اب و حامد دمحم ب ن دمحم ال زالي ال طوسي (الم و ى‪505 :‬ھ)‪ ،‬اح ی اء العلوم‪ ،‬ب یر ب رادرز الہ ور‪2008 ،‬ء‪ ،‬ج ‪،۳‬‬
‫ص ‪۲۰۷‬‬
‫‪ 5‬۔ سورہ الحج رات‪۱۱ : ۴۹ ،‬‬
‫‪2‬‬
‫ت‬ ‫ض‬
‫ن‬ ‫م خ‬ ‫ن ف‬ ‫ن من‬ ‫ت‬
‫ے کہ وہ دوسروں کا س ر ہ‬
‫یہ‬‫ا‬ ‫رما‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫ح‬ ‫وا‬ ‫کو‬ ‫ن‬ ‫اس ٓای ت م ب ارکہ می ں ہللا عالٰی ے مٔو ی‬
‫ئ‬
‫اڑا ی ں۔ ایمان میں داخل ہوجانے کے ب عد نہ تو یہ مردوں کے لئے زیبا ہے کہ وہ دوسرے‬
‫مردوں کو حقیر خیال کر کے ان ک ا م ذاق اڑائیں اور نہ ہی عورت وں کے ل ئے ج ائز ہے کہ وہ‬
‫دوسری عورتوں کو تمسخر کا نشانہ بنائیں۔ ہللا تع الٰی کے نزدیک ش رافت او رذلت ک ا انحص ار‬
‫آدمی کے ایمان و عمل پر ہے اور ایمان و عمل کا صحیح وزن قیامت کے دن ہللا تعالٰی کی میزان‬
‫عدل سے معلوم ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو بہت بڑی چ یز س مجھ رہ ا ہ و لیکن‬
‫قیامت کے دن کھلے گ ا کہ خ د کی م یزان میں اس ک ا وزن پرک اہ کے براب ر بھی نہیں ہے۔ اس ی‬
‫طرح امکان اس کا بھی ہے کہ جس کو اہل دنیا نے کبھی اپ نی آنکھوں میں جگہ نہیں دی قیامت‬
‫کے دن پتہ چلے کہ خدا کی بادشاہی میں جو مقام اس کا ہے وہ ان لوگوں ک ا نہیں ہے جنہ وں نے‬

‫ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫اس کو حقیر جانا۔‬


‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫پ یر دمحم کرم اہ االزہ ری ے مس ر کے حوالے سے م صر مگر ج امع ا داز می ں حریر ک ی ا ہ‬
‫ے کہ ان آیات میں‬
‫مسلمانوں کو تمام ایسی باتوں سے سختی سے روکا جا رہا ہے جن کے باعث اسالمی معاشرہ ک ا‬
‫امن و سکون برباد ہوت ا ہے‪ ،‬محبت و پیار کے رش تے ٹ وٹ ج اتے ہیں اور خ ون خ رابہ ش روع‬
‫ہوجاتا ہے۔‬
‫اس سلسلہ میں پہال حکم یہ دیا کہ اے ایمان والو ! ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا‬
‫کرو۔ مذاق اسی کا اڑایا جاتا ہے جس کی عزت اور احترام دل میں نہ ہو۔ جب آپ‬
‫کسی کا مذاق اڑاتے ہیں تو گویا آپ اس چیز کا اعالن کر رہے ہ وتے ہیں کہ اس‬
‫شخص کی میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ جب آپ اس کی عزت نہیں کرتے ت و‬
‫اسے کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کا احترام ک رے۔ جب دل وں س ے ایک دوس رے کے‬
‫لیے ع زت اور اح ترام ک ا ج ذبہ ختم ہوجات ا ہے ت و انس ان ع داوت و دش منی کی‬
‫گہری کھڈ کی ط رف لڑھکت ا چال جات ا ہے۔ ک وئی رک اوٹ ایس ی نہیں رہ تی ج و‬
‫اسے اپنے انجام سے دو چار ہونے سے روک سکے۔ استہزاء کی کئی ص ورتیں‬
‫ہیں۔ زبان سے مذاق کرنا‪ ،‬نقلیں اتار کر اس کا منہ چڑانا۔ اس کے لباس یا رفت ار‬
‫‪6‬‬
‫و گفتار پر ہنسنا سب ممنوع ہیں۔‬
‫ن ض‬
‫ے کہ اس جگہ قوم سے مراد وہ خاندانی تقسیم کی قوم ہے جو‬ ‫ی ہاں ی ہ ی اد رکھ ا روری ہ‬
‫شناخت کی جانے کے لیے ضروری ہ وتی ہے اور ایک ہی ق وم کے لوگ وں کے ان در ش عوب و‬
‫قبائل کی صورت میں تقس یم ن اگزیر ہوج اتی ہے اور یہ محض ش ناخت کے ل یے ہ وتی ہے ت اکہ‬
‫ایک دوسرے کی شناخت ہوتی رہے اور ایک دوسرے کا حال معلوم کرنے کے ل یے آس انی پیدا‬
‫ہوجائے جیسے عربوں میں پہلی تقسیم بنی جرہم اور بنی اسماعیل کے نام سے تھی اور پھر ب نی‬
‫ق‬ ‫ض‬ ‫ش تف‬
‫‪ 6‬۔ االزہ ری‪ ،‬پ یر دمحم کرم اہ‪ ،‬سی ر ی اء ال رٓان ‪ ،‬ج ‪ ،۴‬ص ‪۵۹۳‬‬
‫‪3‬‬

‫اسماعیل کے اندر کے قبائل میں قریش اور پھر ق ریش کے ان در ب نی ہاش م اور ب نی امیہ وغ یرہ‬
‫مدینہ میں اوس و خزرج اور پھر دونوں گروہوں کے اندر کے بہت سے قبائل میں تقسیم در تقسیم‬
‫ہوتی چلی گئی اور آج ہمارے ہاں بڑی بڑی قوم وں میں ت ارڑ ‪ ،‬وڑائچ ‪ ،‬ب اگڑی اور پھر ان کے‬
‫اندر قبائل کے لحاظ سے بہت سے خاندان صرف پہچ ان ک ا ک ام دیتے ہیں لیکن اس کے ب اوجود‬
‫ایک دوسرے کا ہیچ اور حقیر بھی سمجھا جات ا ہے اور جن لوگ وں کی عالقہ میں اک ثریت ہ وتی‬
‫ہے وہ اپنی اکثریت کے بل پر دوسری قوموں کو ج و اقلیت میں ہ وں حق یر س مجھتی ہیں اور اس‬
‫طرح زمیندار اور کاش تکار غ یر زمین داروں اور غ یر کاش تکاروں ک و بہت حق یر س مجھتے اور‬
‫جانتے ہیں اور کمزور قوموں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور ط اقت ور قوم وں نے کم زور قوم وں‬
‫کو اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے ان کے ساتھ رشتہ ناطہ تو درکن ار براب ری کی بنیاد پ ر ب ات چیت‬

‫ئ‬
‫کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫اسی طرح رسول ہللا صلی ہللا ع س‬
‫ے۔ ج یسا کہ‬ ‫ب‬
‫ے ھی اس ہزاء کرے والے کو دی د وع ی د س ا ی ہ‬
‫ئ‬ ‫نلی ہ و لم ن‬ ‫ش‬
‫وں گے۔ ان سے کہا ج اے کہ ج ن ت‬ ‫ے کہ استہزاء کرے والے ر ج و کرب می ں مب ت ال ہ‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫مان‬ ‫ی‬ ‫اال‬ ‫عب‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫خ‬
‫‪7‬‬
‫ں گے و دروازہ ب ن د کر دی ا ج اےگا۔‬ ‫می ں دا ل ہ و ج أو۔ ج ب وہ ج ن ت کے پ اس ٓا ی ت‬
‫ے ن اپ س ن‬ ‫خ ت‬ ‫ت‬
‫اس کی وج ہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫دہ‬ ‫د‬
‫ل نف ی‬ ‫ی‬ ‫اسی‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ارگاہ‬ ‫کی‬
‫ٰی ت ق ب‬ ‫عال‬ ‫ہللا‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫لوم ہ و‬ ‫درج ب اال ب حث سے مع‬
‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫خت‬ ‫ت ن ن‬
‫ے‬‫ے ۔ ی ز دوسروں کی ح ی ر و ذل ی ل کی وج ہ سے رت‪ ،‬حسد اور ب ض ج ی س‬ ‫ج ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫رہ‬ ‫کر‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫م‬‫ت‬ ‫ت‬ ‫سے اح رام ا سا ی‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫برے ج ذب ات پ ی دا ہ وے ہ ی ں اور معا رہ ب اہ و برب اد ہ و کر رہ ج ا ا ہ‬
‫ت‬
‫اس ہزا ء کے اس ب اب و محرکات‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬
‫تک ی ا ج اے ‪ ،‬اس کے اس ب اب و محرکات رور ہ وے ہ ی ں۔ اسی طرح اس ہزاء کے‬ ‫دن ی ا می ں کو ی ھی کام‬
‫ب‬
‫ت‬ ‫ئ‬
‫ے۔‬ ‫اب و محرکات ہ وے ہ ی ں۔ ذی ل می ں ان کا ذکرہ ک ی ا گ ی ا ہ‬ ‫ب ھی ک ی اس ب ت ن‬
‫ن‬ ‫ت ن‬ ‫ذا ی ر جش‬ ‫‪۱‬۔‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ے ۔ ب عض او ات ای ک ا سان کسی دوسرے‬ ‫ں اینکت محرک ذا ی ر جش ہ‬ ‫کے محرکات می ش‬ ‫ہزاء ن‬ ‫اس ت‬ ‫ن‬
‫ل خ‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫اس کو ذ ی ل و وار کر دی ت ا‬ ‫اڑا کر معا رے می ں ش‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫مزاق‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫د‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫اد‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ش‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ذا‬ ‫سے‬ ‫سان‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫من کا اس ہزاء کر کے‬
‫ق‬
‫ے مخ نالف اور د ت‬ ‫ے ۔ ہ ر دوسرا ص اپ‬
‫ن‬ ‫صور حال شعام تہ‬ ‫ے ۔ ہ فمارے معا نرے تمی تں ی ہ ن‬ ‫ہ‬
‫پ‬
‫ے۔ اس کی وج ہ ا ی یح وا ی ج ب لت کی سکی ن اور مد م اب ل‬ ‫ئکو ن فش نکر ا تہ‬ ‫اس کی ع ت و پ اکدام ی کو ار ار کرے کی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت ل‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫کی معا نرے می فں ذ ی ل کر کے اپ ی ہ واے سا ی کو سکی ن دی ت ا ہ و ا ہ‬
‫ن‬ ‫ج ی مح لی ں‬ ‫‪۲‬۔‬
‫پن ت‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ب‬
‫ح‬ ‫ج‬ ‫پ‬ ‫ب‬
‫دوسروں کی ب را ی اں کر کے ا ی ب ر ری اور‬
‫ن‬ ‫ے کہ لوگ اث نی ی فم لوں می ں ئ‬ ‫عض او ات ایسا ش ھی ہ و اتہ‬
‫تث ن‬ ‫ق‬
‫ل ف‬
‫ن می ں طی ہ گو ی اور ج گت فکے ام پر دوسروں کی‬ ‫ے کی کو ش کرے ہ ی ں۔ اک ر ج ی نمح لوں‬ ‫ی‬ ‫اعتلی دری کا ا ر د‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ڑے ب ظ اہ ر ریف ت ظ رٓاے والے لوگ ب ھی اپ ی مح لوں می قں کسی ریف‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ڑے‬ ‫ض‬ ‫ت‬‫ب‬ ‫۔‬ ‫ے‬ ‫ہ‬‫عزفوں کو اچ ھاال ج ا ن‬
‫ا‬ ‫ن‬
‫لی ح ق‬ ‫ت‬ ‫ف ن‬ ‫فن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے‬ ‫ے ہ ی نں۔ کن ی ت ی ہ ہ‬ ‫ال س اور نسادہ لوح ا سان کو ح ی ک کا ا ہ ب ا کر اس کو ن طب ع اور ل طی ہ ئکا ام دی‬
‫ل ف‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫کے اس اپ س ن دی دہ عمل می ں صرف‬ ‫ی‬ ‫گو‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ط‬ ‫۔‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫رادف‬ ‫ے کے مت‬
‫ل‬ ‫ھا‬ ‫اچ‬ ‫گڑی‬ ‫کہ ی ہ ل نطی ف ہ ہی ںنب لکہ اس ہزاء اور پ‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫ن‬
‫وج وان سل ہ ی ہی ں ب لکہ ب ڑے اور پ ت ہ عمر کے ا راد ب ھی ب راب ر حصہ داری کرے ہ ی ں۔‬

‫ش‬
‫لتف‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫َرْو‬ ‫لب ق‬
‫‪ 7‬۔ اب و ب كر ا ی نہش ی‪ ،‬تأحمد ب ن الحسين ب ن لي ب ن موسى الُخْس ِجردي ال راسا ي‪( ،‬ا م و ى‪458 :‬ھ)‪ ،‬عب الإيمان‪،‬‬
‫ع‬
‫مكت ب ة الرش د لل ر وال وزيع ب الرياض‪ ،‬ج ‪ ،۵‬ص ‪۳۱۰‬‬
‫‪4‬‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ب ر ری کا احساس‬ ‫‪۳‬۔‬
‫ت گٹ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ع‬
‫ے کہ دوسرے لوگ انئ سے کم ر اور ھ ی ا‬ ‫عموما امی ر اور زی ادہ لی م ی ا ہ لوگوںش می ں ی ہ احساس پ ی دا ہ و ج ا تا ہ‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬
‫ے‬‫ے کہ وہ ب ر ر ہ ی ں اور کو یئان کے م اب ل‬ ‫لت اور الغ عور می ں ی ہ احساس ب ی ھ ج ا ا ہ‬ ‫ن‬ ‫ہ ی ں۔ اسن کے عالوہ ان کی ج ب‬
‫ت‬
‫ے می ں ی ہ لوگ‬ ‫کے سا ف‬ ‫ساس ن‬ ‫ف‬ ‫ے س۔ اسی اح‬ ‫رور و کب ر می نں مبئ ت ال کر ئدی ت انہ‬ ‫ساس ا ہی ں ت ض‬ ‫ن‬ ‫ے۔ تی ہ اح‬ ‫می ں موج ود ہقی ں ہ‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫ے۔ ا را ی ہض کی ج ی مح ن لوںت می ں ب ھی‬ ‫ھ‬
‫دوسروں کو ح ی ر اور اہ ل صور کر ا اور ان کی ح ک کر ا کو ی ب را ی ہی ں م‬
‫ی‬ ‫ج‬
‫ج ھل ت‬ ‫ب‬ ‫ط‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫اور عوام ال اس کے سا ھ ی ل ول می ں ھی ان کی ی ہ ب لت‪ ،‬ان کی ی عت سے وا ح ک ی ظ ر ٓا ی ہ‬ ‫ج‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫اپ نی اس ا ساس رت ری کی و ہ سے وہ اچ ھ خ‬
‫ے‬‫ے ہ یئ ں۔ ایس‬ ‫ف اور عزت دار ٓادمی کی عزت اچ ھال دی‬ ‫ت‬
‫ے اصے ری‬
‫ش‬ ‫ج‬ ‫ب ت‬ ‫ح‬
‫ح‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے کو ی ی ث ی ت‬ ‫ے کہ وہ معا رے کے ا لی اور بر ر لوگ ہ ی ں اور دوسرے اس کے سام‬ ‫نلوگوں کو ی ہ احساس ہ و ا ہ‬
‫کت‬
‫ے۔‬ ‫ہی ں ر‬
‫ق‬ ‫ھت ق‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫عات سے عدم م طاب ت‬ ‫نو ن‬ ‫‪۴‬۔‬
‫ت‬ ‫ت ئ ن‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ن‬
‫ے‪ ،‬و‬ ‫ے ہ ت وے اکام ہقوقج ا ا ہ‬ ‫سان کو ی کام کر ن‬ ‫غ‬
‫ے تکہ ای ک ا‬
‫خ‬ ‫ا سا ی ز دگی می ں اک نر ایسا ہ و ا رہ ت ا ہ‬
‫ل‬ ‫ت‬
‫ے ن ی کن ح ی ت می ں ی ہ‬ ‫عم‬
‫ارادی ل ن ظ ر ٓا ا ہ‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ودکار‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ر‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫دوسرے اس کو دی کھ کر اس پر ہ س دی‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ئ احساس‬ ‫سان کی اکامی پر ہ س ن ن ا اس کو ی ہ‬ ‫ن‬ ‫ے ۔ کسیندوسرے ا‬ ‫اور محرک ہ و ا ہ‬ ‫ئ‬ ‫نس ہزاء کا ہ ی ای ک سب ب‬ ‫ب ھی ا‬
‫ق‬ ‫دالے کے مت‬
‫ے کہ وہ کو یئکام ڈھ ن تگ سے کرے نکے اٹب ل ہی ں۔ مث ال ای ک ا سان چ اے ب ن ا ر تہ ا‬ ‫رادف ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫نت ق‬
‫ےو‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫گر‬
‫ج ئ ن ی پ ج ت قہ‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ز‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫ھوکر‬ ‫سان‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫چ ت ج ہ ی ی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ھر‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫ے اور ب اے و ن‬
‫ت‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫خ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے ۔ ج ب نکو ی ا سان ہ ماری و عات‬ ‫اس پر لوگ بئال وج ہ ہ س ا تروع و ج اے ہ ی ں۔ ینہ ھی ن س ر ی ہ‬ ‫ہ‬
‫ے کہ وہ کسی کام کا ہی ں۔‬ ‫کےب رعکس کو یت خکام کرے و اس کا ی ہ ہ رگز م طلب ہی ں ہ و ا چ اہ ی‬
‫ف‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫دب أو کی ی‬ ‫‪۵‬۔‬
‫ت‬ ‫ق‬
‫کی وت کو کمزور کرے کے‬ ‫سان کو دب اےش اور اس ن ف‬ ‫ے کہ لوگ کسی دوسرے ا‬ ‫ات ایسا ہ و ا ہ‬ ‫ت‬ ‫ب عض او‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫س لوگوں کو ذل ی ل توش وار کر‬ ‫ے ری شف ال ت‬ ‫ے کے یل‬ ‫ے دل کی ب ھڑاس کال‬ ‫ے لوگ اپ‬ ‫ے اس کا مزاق اڑا تے ہ ی ں۔ ایس‬ ‫یل‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫ے اور ط ئز و ن ی ع پر‬ ‫ے مث ب ت اور ص تحت م د مزاح سے روع ہ و ی ہ‬ ‫ے لک‬ ‫ے ہخی ں۔ تا سی صور حالتمی ں ب ات ہ لک‬ ‫دی‬
‫ق‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫ے کہ لوگ دوسرے کے اوپر دب أو ا م کر کے‬ ‫حال ج و ھی ہ و وج ہ اس کی ی ہی ہ و ی ہ‬ ‫صور ت‬ ‫ے۔‬ ‫ج ا کر قم ہ و ی ہ‬
‫ت‬ ‫صول چ اہ‬ ‫م‬
‫ے ہ وے ہ ی ں۔‬ ‫کسی صد کا ح ق ف‬
‫قف‬ ‫ے و و ی اور ج ہالت‬ ‫ب‬ ‫‪۶‬۔‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ے ۔ لوگ ئاس در الپ نروہ اور‬ ‫ے و و ی اور ج ہالت ہ‬ ‫ب‬ ‫ق ف اس ہزاء کے اس ب اب می ں سے ای ک اہ م سب ب‬
‫ے ہ ں۔ ان کے ن زد ک کسی کی عزت و وق ار کی اب کو ی اہ‬ ‫خ‬
‫ت ف ہی ں‬ ‫م ق‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫چ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫وف‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫ے و و ی کی حد ت ک‬ ‫ب‬
‫سجم ت ح ق‬ ‫ن‬
‫ے و و ی اور‬ ‫ے کہ ان کی ب‬ ‫ے۔ ت ہی ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ے می ں عار تہی ں ھ‬ ‫اچ‬
‫ے وہ دوسروں کی گڑی ھال‬ ‫پ‬ ‫ے ۔ اسی یل‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫تف ن‬
‫ے۔‬ ‫ن طب ع کی وج ہ سے دوسروں کی عزت ی الم ہ و کر رہ ج ا ی ہ‬
‫دی ن اسالم سے دوری‬ ‫‪۷‬۔‬
‫استہزاء کا اصل سبب اور مح رک یہ ہے کہ ل وگ اس الم س ے دور ہ و چکے ہیں۔ ان ک و‬
‫اسالمی تعلیمات کی نہ تو خبر ہے اور نہ ہی وہ انہیں حاصل کرن ا چ اہتے ہیں۔ ق رٓان ک و ط اقوں‬
‫میں سجا دیا گیا ہے ۔ اس کو پڑھنے کی بجائے اس کو برکت ک ا ذریعہ بن ا ک ر گھروں میں س جا‬
‫دیا گیا ہے ۔ لوگوں کو قرٓان و سنت کی ان تعلیمات کا علم ہی نہیں جو اس تہزاء‪ ،‬اس کی مم انعت‪،‬‬
‫مزاح کی اجازت وغیرہ کے بارے میں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالک ل بج ا ہے کہ اس تہزاء ک ا اص ل‬
‫اور بنیادی محرک ہی دین اسالم سے دوری ہے ۔‬
‫‪5‬‬

‫سوشل میڈیا کا غلط استعمال‬ ‫‪۸‬۔‬


‫عصر حاضر میں سوشل میڈیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہ و گ ئی ہے ۔ ہ ر انس ان اس ک و‬
‫استعمال کر رہا ہے ۔ جہاں اس کے دیگر فوائد یا نقصانات ہیں ‪ ،‬وہیں ان میں سے ایک نقصان یہ‬
‫بھی ہے کہ سوشل میڈیا تض حیک‪ ،‬تمس خر اور اس تہزاء ک ا مرک زی پلیٹ ف ارم بن گیا ہے ۔ ہ ر‬
‫انسان جب چاہتا ہے ‪ ،‬جس کو چاہتا ہے ‪ ،‬سوشل میڈیا کے ذریعہ بدنام کر دیتا ہے ۔‬
‫استہزاء کے محرکات کو مطالعہ کرنے کے بع د دیکھا ج ائے ت و ہم ارے معاش رے میں‬
‫درج باال تمام اسباب و محرکات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بلکہ ان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چال جا‬
‫رہا ہے ۔ اسالم نے استہزاء س ے س ختی س ے من ع کیا ہے۔ اس کے معاش رے پ ر گہ رے اث رات‬
‫مرتب ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان اثرات کا ذکر کیا گیا ہے جو استہزاء کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔‬
‫باہمی دشمنی اور نفرت‬ ‫‪۱‬۔‬
‫استہزاء کی وجہ سے لوگوں کی ٓاپس میں دشمنی ہوجاتی ہے ۔ اس طرح نفرت کی فض ا‬
‫پھیلنے لگتی ہے جس میں عدم برداشت کا عنصر سب سے بڑھ ک ر ہوت ا ہے ۔ اس ی اس تہزاء کی‬
‫وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تک ہو جاتے ہیں۔ ایک انسان اپنی عزت اور‬
‫شان بچانے کے لیے دوسرے انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی حد تک جانے پر مجب ور ہ و‬
‫جاتا ہے ۔‬
‫ہللا اور اس کے رسول کی ناراضگی‬ ‫‪۲‬۔‬
‫استہزاء اور تمسخر کا انسانی زندگی پر سب س ے ب ڑا اث ر یہ ہوت ا ہے کہ ایس ے لوگ وں‬
‫سے ہللا تعالٰی ناراض ہوجاتا ہے۔ ہللا تعالٰی نے قرٓان مجید میں واضح الفاظ میں استہزاء سے من ع‬
‫کیا ہے ۔ اس کے باوجود جو لوگ اس سے باز نہیں ٓاتے‪ ،‬ان کو احساس ہونا چ اہیے کہ ہللا تع الٰی‬
‫کی ناراضگی کی وجہ سے ان کی دنیا و عاقبت دونوں خراب ہو جاتی ہیں۔‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ٓازاری ت‬


‫ن‬
‫دل‬
‫ت‬
‫‪۳‬۔‬
‫ش‬
‫نی د دل‬‫ے ‪،‬ن اس کی د‬
‫ف‬ ‫ے ۔ جست کا مزاق اڑای ا ج ا ا ہ‬ ‫صورت میتں کلت ا ہ‬
‫نف‬
‫اتس ہزاء کا ی ج ہ دل ٓازاری کی‬
‫ف‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫ے‬ ‫ے ۔ لوگ اس سے رت کرے لگ‬ ‫ے تا راد معا رے می ں س ی ا ی مری ض ب ن کر رہ ج ا ا ہ‬ ‫ے ۔ ایس‬ ‫ٓازاری ہ و ی ہ‬
‫ن‬ ‫ش‬
‫ے ۔ اس طرح چ ن د لمحات کی دل لگی کی وج ہ‬ ‫ے لگت ا ہ‬ ‫سے دور ب ھاگ‬
‫ت‬ ‫ہ ی ں اور وہ شم خعا رے‪ ،‬اج ماعات اور م ی ل ج ول‬
‫سے‬ ‫حاب‬ ‫ا‬
‫ن‬
‫ے‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫سے ا ک ص کی ساری زن دگی مت اث ر ہ و کر رہ ا ی ے ۔ رسول تہللا صلی ہللا عل ہ وسلم ب‬
‫ن‬ ‫ص‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫فی ت‬ ‫ج ہ‬ ‫ی ت ت‬
‫م خ‬ ‫س‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ے ۔ ب لکہ ٓاپ ے‬ ‫ہ‬ ‫ع‬
‫ے‪ ،‬کن ٓاپ لی ہللا لی ہ و لم دل ٓازاری اور س ر سے پر ی ز رماے ھ‬ ‫مزاح ک ی ا کرے ھ‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ش ف‬
‫س‬
‫ے جس کے ہ ا ھ اور زب ان سے دوسرے م لمان مح وظ رہ ی ں۔‬ ‫ہ‬ ‫وہ‬ ‫مان‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ار اد ی ہ‬
‫ا‬ ‫رما‬
‫استہزاء کا عالج‬
‫استہزاء جتنی بری بیماری ہے ‪ ،‬اس کا عالج بھی اتنا ہی سخت اور محنت طلب ہے ۔ اس‬
‫بیماری کا عالج قرٓان و سنت کی روشنی میں ہی ممکن ہے ۔ س ب س ے اہم چ یز یہ ہے کہ انس ان‬
‫‪6‬‬

‫دوسرے انسان کی قدر کرے۔ ذیل میں اس تہزاء کے عالج اور اس س ے بچ نے س ے ذرائ ع ذک ر‬
‫کیے گیے ہیں‪:‬‬
‫قرٓان و سنت کی تعلیمات کا حصول‬ ‫‪۱‬۔‬
‫استہزاء کے حوالے سے قرٓان و سنت کی تعلیمات بہت واضح اور عام ہیں۔ ضروری ہے‬
‫کہ ان پر عمل کیا جائے تا کہ انسانی عزت کی اہمیت کا اندازہ کیا جا س کے۔ رس ول اک رم ص لی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫َب‬ ‫ُت‬ ‫َّن‬ ‫َو َال‬
‫‪8‬‬
‫ُتْك ِث الَّضِحَك ‪َ ،‬فِإ َك ْثَرَة الَّضِحِك ُتِمي ال َقْل ‪.‬‬
‫ِر‬
‫بہت زیادہ ہنسا نہ کرو۔ بے شک بہت زیادہ ہنسنا دلوں کو مردہ کر دیتا ہے ۔‬
‫استہزاء اور تمسخر میں یہی ہوتا ہے کہ انسان ہر وقت گال پھاڑ پھاڑ کر ہنس تا رہت ا ہے ۔ اس ک و‬
‫کسی اور کام کی فکر الحق نہیں ہوتی۔ تو رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے ایس ے ش خص ک و‬
‫کثرت ضحک سے منع کیا تا کہ سنجیدہ زندگی گزار سکے۔‬
‫نقصان پہنچانے سے گریز‬ ‫‪۲‬۔‬
‫بعض اوقات تمسخر یا استہزاء یا مزاق کی وجہ سے دوسروں کو نقصان کا خطرہ الحق‬
‫ہو جاتا ہے ۔ اس سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ ایسا مزاق نہ کیا جائے‬
‫جس سے دوسرے کو تکلیف اور نقصان ہو۔ حدیث پاک میں ہے ‪:‬‬
‫اَل َو اَل ًّد‬ ‫اَل َذ َّن ُد ْم َع‬
‫ئ‬ ‫ئ‬
‫‪9‬‬
‫َيْأُخ َأَح ُك َمَتات َأِخيِه ِعًبا‪َ ،‬جا ا»‬
‫کسی دوسرے سا ھی کی مزاح می ں ی ا ج ان ب وج ھ کر کو ی چ یز ن ہ لی ج اے۔‬
‫فظ‬
‫زب ان کی ح ا ت‬ ‫‪۳‬۔‬
‫زبان انسانی جسم میں گوشت کا وہ چھوٹا سالوتھڑا ہے جو انسان کو جنت تک بھی پہنچ ا‬
‫دیت اہے اورجہنم میں اون دھے منہ بھی گرادیت اہے۔زب ان اوردل س ے کلمہ طیبہ پ ڑھ ک ر قب ول‬
‫کرلیاجائے توستر برس کا کافر بھی جنت میں چال جاتاہے اوراگر خدانخواستہ اس زبان ک و غل ط‬
‫استعمال کیاجائے ت واس کے نقص انات بھی بے ش مار ہیں۔زب ان کوغل ط ح رکت دینے س ے بیس‬
‫بڑے بڑے گناہ وجود میںٓاتے ہیں جن میں جھوٹ ‪،‬غیبت‪،‬چغل خوری‪،‬بہت ان‪،‬ال زام تراش ی‪،‬فض ول‬
‫بحث‪،‬فحاشی‪،‬گالم گلوچ‪ُ،‬پرتکلف مصنوعی گفتگو‪،‬لعن طعن‪،‬گانابجانا‪،‬دوسروں کا مذاق اڑانا‪،‬وع دہ‬
‫خالفی کرنا دوسروں کے راز فاش کرنا‪ ،‬دوسروں کی چاپلوسی کرن ا‪،‬اورخوش امد ک رکے ان کی‬
‫تعریف کرنا‪،‬دینی معامالت میں غیر محتاط گفتگو کرناشامل ہیں۔ یہ سب بڑے گناہ زبان کوحرکت‬
‫دینے اوربولنے سے وجود میں ٓاتے ہیں۔ جبکہ زبان پر قابوپانے اورخ اموش رہ نے میں ان س ب‬

‫ن‬ ‫تف‬ ‫ض‬ ‫ْو‬ ‫ت‬


‫ن ال حاك‪ ،‬الت رمذي‪ ،‬أب و عيسى (الم و ى‪279 :‬ھ)‪ ،‬س ن الت رمذی‪،‬‬‫‪ 8‬۔ رمذی‪ ،‬دمحم ب ن عيسى ب ن َس رة ب ن موسى ب ق‬
‫غ‬
‫ن‬ ‫دار ال رب الإسالمي ‪ ،‬ب يروت‪ ،‬ج ‪۴‬ش‪ ،‬ص ‪ ،۱۲۷‬ر م الحدی ث‪2305 :‬‬
‫لتف‬ ‫ش‬
‫‪ 9‬۔ الِّسِجْست ان ي‪ ،‬أب و داود سليمان ب ن األ عث ب ن إسحاق ب ن قب ير ب ن ش داد ب ن عمرو األزدي (ا م و ى‪275 :‬ھ)‪ ،‬س ن‬
‫أب ي داود‪ ،‬الم تك ب ة العصری ۃ‪ ،‬صيدا – ب يروت‪ ،‬ج ‪ ،۱‬ص ‪ ،۳۰۱‬ر م الحدی ث‪5001 :‬‬
‫‪7‬‬

‫گناہوں سے نجات ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر واسالف زبان کے استعمال میں احتیاط س ے‬
‫کام لیتے تھے۔ جب تک کوئی ضرورت یا حاجت داعی نہ ہوتا توبالوجہ بولنے سے پرہیز کرتے‬
‫تھے ۔ حتی کہ امام قرطبی نے تو استہزء و تمسخر کو قرٓان کی روشنی میں حرام ق رار دیا ہے ۔‬
‫‪10‬‬

‫خالصہ بحث‬
‫مختصر یہ کہ استہزاء بہت بری اور ناپسندیدہ چیز ہے ۔ ہللا اور اس کے رسول ص لی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے اس س ے س ختی س ے مع نی فرمایا ہے ۔ ہ ر مس لمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس‬
‫برے اخالق سے بچے۔ استہزاء کر کے دوسرے کی عزت کو دأو پر نہ لگ ائے۔ کیونکہ اس کی‬
‫ے کہ آپ لوگوں سے‬‫وجہ سے پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اسی لئے ج ان ن ا چ اہ ی‬
‫خ واہ کت نے بھی ق ریب اور ان کے محب وب ہ وں پھر بھی لوگ وں کے کچھ ج ذبات و احساس ات‬
‫ایسے ہوتے ہیں کہ آپ کو ان سے معاملہ ک رنے میں یا م ذاق ک رنے میں زیادہ ج ری نہیں ہون ا‬
‫چاہیے بلکہ ایک خاص حد تک محدود رہنا چاہیے۔ آپ ان کے نزدیک خواہ کتے ہی باعزت ہ وں‬
‫اور وہ لوگ خواہ آپ کے بھائی اور بیٹے بھی ہوں لیکن پھر بھی ان کے جذبات و احساس ات ک و‬
‫ٹھیس نہیں پہچانی چاہیے۔‬

‫مصادر و مراجع‬
‫‪ ‬القرٓان‬
‫تف‬ ‫ن‬
‫‪ .1‬دمحم ب ن أحمد ب ن األزهري الهروي‪ ،‬أب و م صور (الم و ى‪370 :‬ھ)‪ ،‬ت هذيب اللغ ة‪ ،‬دار إحياء الت راث العرب ي‪،‬‬
‫ب يروت‪2001،‬‬
‫ف‬ ‫غ‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ف‬
‫‪ .2‬احمد ب ن ارس ب ن زكرياء ال زوي ی ‪ ،‬أب و الحسين (الم و ى‪395 :‬ھ)‪ ،‬ع م م اييس الل ة‪ ،‬دار ال كر‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫‪1979‬ء‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫لت‬ ‫ّز‬ ‫دّمحم‬ ‫دّمحم‬ ‫َّز‬
‫‪ .3‬ال ب يدی‪ ،‬ب ن ب ن ع ب د الر اق الحسين ي‪( ،‬ا م و ى‪1205 :‬ھ)‪ ،‬اج العروس من ج واهر ال اموس‪ ،‬دار‬
‫الهدای ۃ‪ ،‬بیروت‪2000 ،‬ء‬
‫ع ش‬ ‫ف‬ ‫لت‬ ‫غ‬ ‫غ‬
‫زالی‪ ،‬اب و حامد دمحم ب ن دمحم ال زالي ال طوسي (ا م و ى‪505 :‬ھ)‪ ،‬اح ی اء ال لوم‪ ،‬ب یر ب رادرز الہ ور‪2008 ،‬ء‬ ‫‪.4‬‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫ض‬ ‫ض‬
‫‪ .5‬االزہ ری‪ ،‬پ یر دمحم کرم ش اہ‪ ،‬سی ر ی اء ال رٓان ‪ ،‬ی اء ال رٓان پ ب لی کی ن ز الہ ور‬
‫ش‬ ‫تف‬ ‫خ‬ ‫ْو‬ ‫لب ق‬
‫‪ .6‬اب و ب كر ا ی ہ ی‪ ،‬أحمد ب ن الحسين ب ن علي ب ن موسى الُخْسَر ِجردي ال راسان ي‪( ،‬الم و ى‪458 :‬ھ)‪ ،‬عب‬
‫نش ت‬
‫الإيمان‪ ،‬مكت ب ة الرش د لل ر وال وزيع ب الرياض‬
‫ن‬ ‫تف‬ ‫ض‬ ‫ْو‬ ‫ت‬
‫رمذی‪ ،‬دمحم ب ن عيسى ب ن َس رة ب ن موسى ب ن ال حاك‪ ،‬الت رمذي‪ ،‬أب و عيسى (الم و ى‪279 :‬ھ)‪ ،‬س ن‬ ‫‪.7‬‬
‫غ‬
‫الت رمذی‪ ،‬دار ال رب الإسالمي ‪ ،‬ب يروت‬

‫تف‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬


‫لتف‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫‪10‬ق۔ال رط ب ي‪ ،‬أب و ع ب د الله دمحم ب ن أحمد ب ن أب ي ب كر ب ن رح األ صاري ال زرج ي مس الدين (ا م و ى‪671 :‬ھ) ۔ سير‬
‫ق‬
‫ال رط ب ي۔دار الكت ب المصرية– ال اهرة‪ ،1964،،‬ج ‪ ،۱۶‬ص ‪۳۲۷‬‬
‫‪8‬‬
‫تف‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫الِّسِجْست ان ي‪ ،‬أب و داود سليمان ب ن األ عث ب ن إسحاق ب ن ب ير ب ن ش داد ب ن عمرو األزدي (الم و ى‪275 :‬ھ)‪،‬‬ ‫‪.8‬‬
‫ن‬
‫س ن أب ي داود‪ ،‬الم تك ب ة العصری ۃ‪ ،‬صيدا – ب يروت‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫لتف‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫ال رط ب ي‪ ،‬أب و ع ب د الله دمحم ب ن أحمد ب ن أب ي ب كر ب ن رح األ صاري ال زرج ي مس الدين (ا م و ى‪671 :‬ھ) ۔‬ ‫‪.9‬‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫تف‬
‫ل‬
‫سير ا رط ب ي۔دار الك ب ا مصرية– ال اهرة‪1964،،‬‬ ‫ل‬

You might also like