ولایت فقیہ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 19

‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬


‫?‪Print (/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪font size ‬‬ ‫‪‬‬
‫?‪Email (/ur/component/mailto/‬‬ ‫)‪tmpl=component&print=1‬‬
‫)‪tmpl=component&template=frontend&link=9100ea9d03382ccb1ddea52230c5be857775140c‬‬

‫‪Rate this item‬‬ ‫(‪)votes 5‬‬

‫فقہا کی حکمرانی کی مختصر تاریخ‬

‫وہ والیت جو پیغمبر اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السالم کے لیے ثابت ہے وہی ایک فقیہ کے لیے بھی ثابت‬
‫ہے اس بات میں اس وقت تک کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی دلیل اس کے خالف نہ ہو۔ والیت فقیہ‬
‫کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر بہت پہلے سے ہی بحث ہوتی رہی ہے۔ میرزا شیرازی کا تنباکو‬
‫کی حرمت پر جو فتوٰی تھا اس کی حیثیت چونکہ حکومتی حکم کی تھی لہذا دوسرے فقہا کے لیے بھی اس کا ماننا‬
‫واجب تھا۔ ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ایران کے بڑے علما کی اکثریت نے اس فتوے کو تسلیم کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ‬
‫کچھ لوگوں کے اختالف کو سلجھانے کی خاطر یہ حکم عدالتی فیصلہ کی طرح کا کوئی حکم ہو بلکہ مسلمانوں کے مفاد‬
‫کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے حکم ’’ثانوی‘‘ کے عنوان سے یہ حکومتی حکم صادر فرمایا تھا۔ جب تک عنوان موجود‬
‫تھا یہ حکم بھی باقی تھا اور جیسے ہی عنوان ہٹایا حکم بھی اٹھا لیا گیا۔‬

‫مرزا محمد تقی شیرازی جنہوں نے جہاد کا حکم دیا تھا جس کا نام’’دفاع‘‘ رکھا گیا سبھی علماء نے اس حکم پر عمل‬
‫کیا تھا کیوںکہ وہ حکم حکومتی حکم تھا۔‬

‫کہا جاتا ہے کہ کاشف الغطا نے بھی اس طرح کے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں۔ متاخرین علما نراقی نے رسول خدا‬
‫(ص) سے مربوط تمام شئونات (اختیارات) کو فقہا کے لیے بھی ثابت جانا ہے۔ مرحوم آقائے نائینی بھی فرماتے ہیں کہ یہ‬
‫مطلب ’’مقبولہ عمر ابن حنظلہ‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے (جس کی وضاحت بعد میں بیان کی جائے گی)۔‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪1/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫اسالمی معاشرے کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ’’ اسالمی حکومت‘‘ ہے۔ امام خمینی(رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ‬
‫یہ ہے کہ انہوں نے اسالم کی حکمرانی کی بحث چھیڑی جسے وہ والیت فقیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ والیت فقیہ کا مبنا‬
‫و نظریہ انتہائی مستحکم ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک اگر کسی نے اس بحث کو نہیں چھیڑا یا اسے کنارے پڑے رہنے‬
‫دیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز عملی نہیں ہو سکتی اس کے بارے میں بحث کر نے کا‬
‫کیا فائدہ۔ اس سے ہٹ کر جب انسان فقہا کی کتابوں میں دیکھتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ فقہا میں سے کوئی ایک‬
‫بھی ایسا نہیں ہے جو غیر اسالمی حاکم کی حکمرانی کو قبول کرتا ہو (فقہ کے مختلف ابواب میں انسان اس بات کو‬
‫مالحظہ کر سکتا ہے)۔‬

‫یہ بات مسلمات میں سے ہے اس کی اگر مثال پیش کیا جائے تو جو تعبیرات صاحب جواہر نے والیت فقیہ کے بارے میں‬
‫استعمال کی ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ صاحب جواہر والیت فقیہ کے دائرہ کار کو صرف والیت بر صغار (چھوٹوں پر والیت) تک‬
‫محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس سے باالتر دوسرے اہم فقہی ابواب جیسے باب جہاد میں فقیہ کی والیت کی توسیع‬
‫کے قائل ہیں او اس مسئلہ کو اسالمی فقہ کے واضح مطالب میں سے جانتے ہیں۔ مرحوم نراقی اور آپ ہی کی طرح کے‬
‫لوگوں نے اس سلسلے میں اچھی خاصی بحث کی ہے۔ اس فکر کی بنیاد بہت ہی مضبوط ہے اور اس کو امام‬
‫خمینی(رہ) نے پیش کیا ہے۔‬

‫امام خمینی(رہ) نے فقہ کے محکم قاعدوں کی مدد سے ‪۱۳۴۷‬ہجری شمسی میں نجف اشرف جیسے فقاہت کے مرکز‬
‫میں والیت فقیہ کی خاموش اور فراموش شدہ بحث کو دوبارہ زندہ کیا۔ والیت فقیہ‪ ،‬شیعہ فقہ کے مسلمات میں داخل‬
‫ہے۔ بعض کم پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ والیت فقیہ امام خمینی(رہ) کی ایجاد ہے ان کے عالوہ‬
‫کوئی اور اس کا قائل نہیں ہے ان کا یہ کہنا ان کی ال علمی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ فقہا کے کالم سے واقف ہیں وہ جانتے‬
‫ہیں کہ والیت فقیہ کا مسئلہ شیعہ فقہ کے روشن اور واضح مسائل میں سے ایک ہے۔ جو کام امام خمینی(رہ) نے کیا وہ‬
‫یہ تھا کہ آپ نے اس فکر کو مضبوط اور مستحکم دالئل کے ساتھ اس کی کیفیت کو ان آفاق سے ہم آہنگ کر دیا جو عصر‬
‫حاضر کی سیاست اور اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر رکھتے تھے اس طرح سے کہ جدید سیاسی مکاتب فکر اور‬
‫سیاسی مسائل سے آشنا لوگوں کے لیے یہ فکر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جائے۔‬

‫والیت فقیہ کی تعریف‬

‫فقیہ کی قیادت اور دین شناس فقیہ کی حکمرانی سے مراد کیا ہے؟ فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو دین کی گہری‬
‫سمجھ رکھتا ہو۔ فقیہ اس راستے کی نشان دہی کرتا ہے جس پر دیندار لوگ چل کر دنیا اورآخرت میں سعادت سے‬
‫ہمکنار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کی حکمرانی ایک عقلی اور منطقی استدالل پر استوار ہے۔ ایسی دلیل جو فقیہ کی‬
‫حکمرانی کو ثابت کرتی ہو کسی فوجی حکمران‪ ،‬کسی سرمایہ دار حکمران یا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے‬
‫والے حکمران کی حکمرانی کے تعلق سے بھی ایسی منطقی اور عقلی دلیل نہیں پائی جاتی۔ والیت فقیہ کی اصطالح‬
‫عربی زبان کی ایک اصطالح ہے جو دینی طلباء و علما کی کتابوں میں درج ہے۔ فقیہ کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ‬
‫زمام حکومت کو ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دینا جس سے کوئی غلط کام کی امید نہ ہو۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔‬
‫جب بھی کوئی غلط کام اس سے سرزد ہو تو یہ اس بات کی عالمت ہے کہ وہ اس مقام کا اہل نہیں ہے۔ لوگوں کے‬
‫ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس بات کو سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلط کام وہ کر رہا ہے تو پھر اسے حکمرانی کا کوئی‬
‫حق نہیں ہے۔‬

‫اب جبکہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کا دور ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسالم کے حکومتی احکام بھی جاری و ساری‬
‫رہیں اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو الزمی طور پر ایک حکومت اسالمی کی تشکیل ناگزیر ہے۔ عقل بھی اسی بات‬
‫کا حکم دیتی ہے کہ اسالمی حکومت کی تشکیل ضروری ہے اس لیے کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کر دے تو کم از کم ہم‬
‫اس حملے کو روک سکیں۔ اگر ناموس مسلم خطرے میں پڑ جائیں تو ہم اس کا دفاع کر سکیں۔اسالمی شریعت نے بھی‬
‫یہی حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے باز رکھنے کے لیے بھی قانون اور اس کا نفاذ ضروری ہے‬
‫یہ ایسے کام ہیں جو خود بخود انجام نہیں پا سکتے بلکہ ان کی انجام دہی کے لیے ایک حکومت کا قیام ضروری ہے۔‬
‫حکومت کا قیام اور معاشرے پر حکمرانی کرنے کے لیے چونکہ اس کا مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے لہذا شریعت‬
‫نے خمس و زکات اور خراج(ٹیکس) کی وصولی کے ذریعے مالی نظام کو مستحکم بنایا ہے۔‬

‫غیبت کے زمانے میں خدا نے کسی کو اپنی طرف سے حکومت قائم کرنے کے لیے مقرر نہیں فرمایا تو ایسے حاالت میں‬
‫ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ کیا ہم اسالم کو خدا حافظ کر دیں؟ اب ہمیں کسی اسالم کی ضرورت نہیں ہے؟‬

‫اسالم صرف دو سو سال تک کے لیے ہی تھا؟ اسالم نے ہماری ذمہ داری معین تو کر دی ہے لیکن وہ ذمہ داری حکومت‬
‫کے قیام کی نہیں ہے؟ اسالمی حکومت کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسالم کے بیشتر قوانین کو تعطیل کر دینا پڑے‬
‫گا۔ غیبت کے زمانے میں اگر خدا نے کسی شخص کو حکومت کے لیے معین نہیں کیا ہے لیکن حکومت کی وہ خصوصیت‬
‫جو ابتدائے اسالم سے لے کر حضرت حجت(ع) کے زمانے تک موجود تھی اسی خصوصیت کے ساتھ حضرت کی غیبت‬
‫کے بعد بھی قرار دیا ہے۔ وہ خصوصیت کچھ اور نہیں بلکہ قانون کا علم رکھنا اور عدالت برپا کرنا ہے جو ہمارے بہت سے‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪2/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫فقہا متحد ہو جائیں تو ساری دنیا میں ایک عادل حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ اگر ایک الئق فرد اٹھے جو ان دو صفتوں کا‬
‫حامل ہو اور حکومت قائم کرے تو جو والیت رسول خدا (ص) حکومت کو چالنے کے لیے رکھتے تھے سب پر الزم ہے کہ‬
‫اس کی اطاعت کریں(کتاب والیت فقیہ امام خمینی)‬

‫والیت فقیہ کو ثابت کرنے والی دلیلیں‬

‫اسالمی معاشرے میں والیت کا مسئلہ بہت ہی روشن اور واضح ہے جو اسالمی بنیادوں پر استوار‪ ،‬قرآنی آیات سے اخذ‬
‫شدہ ہے اور ایک سلیم العقل بالغرض انسان اس کی تصدیق کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔‬

‫عقلی دلیلیں‬

‫والیت فقیہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا محض تصور ہی اس کی تصدیق کا سبب ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے‬
‫شاید کسی برہان و دلیل کی ضرورت ہی نہ ہو کیونکہ جو بھی اسالم کے عقائد و احکام سے اگر اجمالی طور پر ہی مگر‬
‫صحیح سے واقف ہو جیسے ہی وہ والیت فقیہ کے مسئلہ تک پہنچتا ہے فورا اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو ضروریات‬
‫دین اور بدیہی چیزوں میں پاتا ہے(کتاب والیت فقیہ امام خمینی)‬

‫والیت فقیہ یعنی اسالمی معاشرے میں فقیہ کی حکومت۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں شاید دلیل نقلی کی ضرورت‬
‫ہی محسوس نہ ہو گر چہ نقلی دالئل یعنی قرآن و حدیث سے فقہا و علماء ربانی کی حکومت کو ثابت کرنے کے لیے‬
‫بہت سی دلیلیں موجود ہیں لیکن اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل نہ ملے تب بھی والیت فقیہ کو ثابت کے لیے‬
‫عقلی دلیل ہی کافی ہے۔ اگر ہم صرف اتنا جان لیں کہ اسالمی معاشرہ میں الہی احکام کو نافذ کرنے کے لیے ایسے‬
‫افراد کی ضرورت ہے جو دین کی گہری سمجھ رکھتے ہوں تو بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو شخص یہ مانتا ہو کہ معاشرے‬
‫میں خدا کے احکام اور اسالمی قانون کا نفاذ ہونا چاہیے اور اس بات کو خدا اور اسالم پر اعتقاد رکھنے کا الزمہ سمجھتا‬
‫ہو تو جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو ایسا شخص والیت فقیہ کو سمجھنے کے لیے کسی استدالل کا محتاج نہیں رہے‬
‫گا۔‬

‫اب اس کے لیے یہ ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ اسے یہ سمجھایا جائے کہ قرآن و حدیث نے والیت فقیہ کے تعلق‬
‫سے کیا کہا یہ اس لیے ہے کہ معاشرہ اسالمی قوانین پر چلنے کا پابند ہو ضروری ہے کہ اس معاشرے کا حاکم ایک‬
‫ایسا شخص ہو جو اسالمی قوانین کا عالم ہو۔‬

‫وہ معاشرہ جہاں الہی اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو اور اس بات پر راضی ہو کہ اس معاشرہ کا حاکم ایک ایسا‬
‫شخص بن جائے تو انسانی صفات سے عاری ہو تو ایسا معاشرہ ایک فلمی ادا کار‪ ،‬ایک بڑے سرمایہ دار اور انہیں جیسے‬
‫افراد کو زمام حکومت سونپنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا لیکن وہ معاشرہ جو الہی اور دینی اقدار کا‬
‫پابند ہو توحید پروردگار کو دل و جان سے قبول کرتا ہو نبیوں کی نبوت پر اعتقاد رکھتا ہو خدا کی شریعت کا قائل ہو ایسے‬
‫معاشرے کے لیے اس کے عالوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کو حاکم کے طور پر قبول کرے جو خدا کی‬
‫شریعت سے واقف ہو الہی اخالق سے آراستہ ہو گناہ نہ کرتا ہو غلطی اس سے سرزد نہ ہوتی ہو‪ ،‬ظلم نہ کرتا ہو‪ ،‬مفاد‬
‫پرست نہ ہو‪ ،‬لوگوں کا درد رکھتا ہو‪ ،‬الہی اقدار کو اپنی ذات اور اپنے گروہ کی منفعت پر ترجیح دیتا ہو۔‬

‫آج اسالمی حکومت اور والیت فقیہ دو ایسے موضوعات ہیں جن کی فقہ جعفری اور عقلی معیارات کے نزدیک ایک‬
‫مسلمہ حیثیت ہے۔ اگر انسان اپنی گفتگو کی بنیاد عقلی معیارات کو قرار دے تو تمام حکومتی نظریوں میں یہ نظریہ‬
‫پوری طرح واضح‪ ،‬روشن اور قابل دفاع نظریہ نظر آئے گا۔ لیکن اس نظریہ ہے خدشہ وارد کرنے کی خاطر اس کا موازنہ‬
‫پادریوں کی ظالمانہ حکومت یا پھر سلطنتی طرز حکومت سے کیا جاتا ہے جس کی تردید کرنا بہت ضروری ہے۔‬

‫پہلی دلیل‬

‫اگر کوئی یہ سوال کرے کہ خدا نے کس لیے اولی االمر قرار دیا اور اس کی اطاعت کو واجب کیوں گردانا؟ تو اس سوال‬
‫کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سی وجوہات اور دالئل ہیں جن کی بنیاد پر خدا نے ایسا کیا ہے‪:‬‬

‫ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگ ایک معین راستہ پر حرکت کریں خدا کی طرف سے انہیں یہ حکم ہے کہ وہ اس‬
‫راستے سے تجاوز نہ کریں اور مقرر شدہ حدود و قوانین کی خالف ورزی نہ کریں۔ اگر تجاوز کیا تو غلط راستے پر نکل کر‬
‫فساد کا شکار ہو جائیں گے اور خدا نے جو حکم دیا ہے نہ اس کی تعمیل ہو سکے گی اور نہ لوگ ایک راستے پر باقی رہ‬
‫سکیں گے لیکن اگر صاحب اقتدار شخص کو ان پر ناظر بنا دیا جائے جو امانت دار ہو‪ ،‬جو اس امر کی ذمہ داری اٹھا سکے‬
‫اور کسی کو یہ اجازت نہ دے کہ اپنے حق کے دائرے سے تجاوز کرے یا پھر کسی اور کے دائرے حقوق میں قدم رکھے۔‬
‫اگر صاحب اقتدار شخص کا تقرر ناظر کے عنوان سے نہ کیا جائے تو لوگ اپنے فائدے اور اپنی لذت کی خاطر دوسروں پر‬
‫ظلم و ستم کرنے سے باز نہیں رہیں گے۔‬

‫دوسری دلیل‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪3/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫خدا کی طرف سے اولی االمر کو مقرر کرنے اور اس کی اطاعت کو واجب کرنے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ تمام فرقوں‬
‫اور قوموں کی طرف نظر کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بغیر کسی سر پرست‪ ،‬صدر یا رہبر کے اپنی سماجی حیات کو‬
‫باقی نہیں رکھ سکتے کیوں کہ اپنے دینی و دنیوی امور کی ادائیگی کے لیے وہ ہر قدم پر ایک سرپرست یا رہبر کے‬
‫محتاج ہیں جو ان کے دنیوی یا دینی امور کی رہبری اور رہنمائی کرے یہ چیز تمام انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے اور ایک‬
‫فطری چیز ہے لہذا خداوند عالم نے ہر قوم کے لیے ایک رہبر اور ہادی مقرر کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی مخلوق بغیر‬
‫رہبر کے ہر قدم بھی زندگی کا آگے نہیں بڑھا سکتی۔ ایک الہی رہبر ہونا چاہیے جس کے وجود سے قوم کو تقویت ملے‬
‫اور اسی کی سربراہی میں وہ دشمنوں کا مقابلہ کریں اور وہی لوگوں میں دولت کی صحیح تقسیم عمل میں الئے۔ نماز‬
‫جمعہ و جماعت کو قائم کرے اور مظلوم کو ظالم سے بچائے۔(والیت فقیہ‪ ،‬امام خمینی)‬

‫اولی االمر کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اسالمی معاشرہ میں اولی االمر قانون کے محافظ امانتدار خدمتگزار‪،‬‬
‫نظم و ضبط برقرار کرنے والے کے عنوان سے موجود نہ ہو تو دین میں رد و بدل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اسالمی احکام اور‬
‫اسالمی سنتیں الٹ پھیر کا شکار ہو جاتی ہیں اور نئی چیزیں داخل کرنے والے بدعتی لوگ سنتوں کو بدعتوں میں بدل‬
‫دیتے ہیں‪ ،‬بے دین اور ملحد افراد دین سے بہت سی چیزیں کم کر دیتے ہیں اور پھر ایک نئے انداز سے مسلمانوں کے‬
‫سامنے اس کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس تبدیلی کے بغیر دین باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ لوگ ناقص ہیں اور کمال کے‬
‫محتاج ہیں اس کے ساتھ ان میں بہت سے اختالف پائے جاتے ہیں ان کے میالنات اور ان کے حاالت ایک جیسے نہیں رہ‬
‫پاتے۔ لہذا اگر کوئی ایسا شخص جو نظم کو باقی رکھ سکتا ہو اور جو قوانین اور دستورات پیغمبر لے کر آئے ان کو اپنی‬
‫اصلی حالت پر باقی رکھ سکتا ہو ان پر ناظر کے عنوان سے بٹھایا نہ جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا اور‬
‫جب ایسا ہو گا تو بشریت تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے گی(والیت فقیہ‪ ،‬امام خمینی)‬

‫تیسری دلیل‬

‫اسالم میں والیت وہ چیز ہے جسے قرآن نے’’انما ولیکم ہللا و رسولہ‘‘ کو قیادت‪ ،‬امارت اور حکمرانی کے معنی میں‬
‫استعمال کیا ہے۔ معاشرہ اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ علما‪ ،‬دانشمند‪ ،‬مفکرین‪ ،‬سائنسدان‪ ،‬برجستہ افراد پر‬
‫مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود ایک ایسے شخص کی ہمیشہ معاشرے کو ضرورت رہتی ہے جو اس پر حکمرانی کر‬
‫سکے یہ ایک عہدہ ہے‪ ،‬ایک پیشہ ہے‪ ،‬ایک ذمہ داری ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص جو حکمرانی کی ذمہ‬
‫داری اپنی گردن پر لے رہا ہے اس کا کوئی عقلی مالک اور معیار ہونا چاہیے یا نہیں؟‬

‫یہاں اسالم آکر ایک ایسی بات پیش کرتا ہے جو دنیا کے تمام عقل رکھنے والوں کے لیے قابل قبول ہے۔‬

‫اسالم کہتا ہے کہ حکمران ایسا شخص ہو کہ جس مکتب کے ماننے والوں پر وہ حاکم ہو اس پر مکمل ایمان رکھتا ہو اور‬
‫عصمت کا جنبہ اس میں اس حد تک ہو کہ جان بوجھ کر کوئی گناہ انجام نہ دے۔‬

‫دنیا میں کوئی ایسی عقل ہے جو اس بات کی نفی کرتی ہو؟ اس سے بہتر کوئی بات ہو سکتی ہے کہ ایسا شخص‬
‫معاشرے پر حاکم ہو جو اس مکتب پر ایمان رکھتا ہو اس کا عالم ہو‪ ،‬اسے نافذ کرنے کی صالحیت رکھتا ہو جو مکتب اس‬
‫معاشرے کی اکثریت کا مکتب ہے۔ ایک طرح کی ضمانت بھی اس شخص میں پائی جاتی ہو وہ عمدا اور جان بوجھ کر‬
‫کوئی گناہ کوئی غلطی نہ کرتا ہو۔ یہ ایک بہت ہی اچھی بات ہے کہ ایسا شخص معاشرے کا حاکم ہو۔‬

‫نقلی دلیلیں‬

‫اس باب میں نقلی دلیلیں قرآن بالخصوص روایات سے ماخوذ بہت زیادہ ہیں جن سب کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے‬
‫لیکن اثبات مدعٰی کے لیے چند دلیلوں کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے‪:‬‬

‫پہلی دلیل‪ ’’ :‬الحوادث الواقع‘‘ والی روایت‬

‫فی کتاب اکمال الدین و اتمام النعم عن محمد بن محمد بن عصام عن محمد بن یعقوب عن اسحاق بن یعقوب قال‪ :‬سالت‬
‫محمد بن عثمان العمری ان یوصل لی کتابا قد سالت فیہ عن مسائل اشکلت علی۔ فورد التوقیع بخط موالنا صاحب‬
‫الزمان(علیہ السالم) اما ما سالت عنہ‪ ،‬ارشدک ہللا و ثبتک ( الی ان قال) و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیہا الی رواۃ‬
‫حدیثنا۔ فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ ہللا علیہم۔ و اما محمد بن عثمان العمری فرضی ہللا عنہ و عن ابیہ فانہ ثقتی و‬
‫کتابہ کتابی(کمال الدین)‬

‫اسحاق بن یعقوب حضرت ولی عصر(ع) کو ایک خط لکھ کر اپنی مشکالت کا اس میں ذکر کرتے ہیں جسے محمد بن‬
‫عثمان عمری حضرت کے نائب خاص حضرت کو یہ خط پہنچاتے ہیں۔ اس خط کا جواب خود حضرت اپنے ہاتھ سے لکھ کر‬
‫بھیجتے ہیں‪ ’’:‬جو حوادث تم کو پیش آتے ہیں ان میں ان کی طرف رجوع کرو جو ہم سے روایت نقل کرتے ہیں کیونکہ وہ‬
‫تم پر ہماری طرف سے حجت ہیں اور ہم ان پر ہللا کی طرف سے حجت ہیں۔‬

‫اس روایت میں ’’حوادث واقعہ‘‘ سے مراد شرعی احکام اور دینی مسائل نہیں ہیں۔ پوچھنے واال یہ سوال نہیں کر رہا ہے‬
‫کہ نئے پیش آنے والے مسائل میں ہم کیا کریں کس سے رجوع کریں اس لیے کہ متواترہ حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہے‬
‫کہ شیعہ مذہب کی واضح چیزوں میں یہ بات داخل ہے کہ مسائل میں فقہا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ائمہ اطہار(ع) کے‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪4/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫زمانے میں بھی فقہا سے رجوع کر کے مسائل دریافت کئے جاتے تھے۔ وہ شخص جو حضرت ولی عصر (ع) کے زمانے کا‬
‫ہو خط لکھ کر حضرت کے نائب خاص کے ذریعے حضرت تک پہنچا رہا ہو اور پھر جواب بھی حاصل کر رہا ہو وہ اس بات کی‬
‫طرف متوجہ ہے کہ شرعی مسائل کن لوگوں سے دریافت کرنے چاہیے۔ لہذا’’ حوادث واقعہ ‘‘ سے مراد معاشرے میں‬
‫پیش آنے والے وہ واقعات اور مشکالت ہیں جن سے مسلمان جوجھ رہے ہوں۔‬

‫سوال کرنے واال کلی طور پر بند الفاظ میں یہ پوچھ رہا ہے کہ اب جبکہ ہماری آپ تک رسائی نہیں ہے تو ایسے حاالت میں‬
‫سماج میں پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ حوادث کا ذکر کر کے یہ پوچھنا چاہ رہا ہے‬
‫کہ ان حوادث میں کس کی طرف رجوع کریں؟ جو بات سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے کلی طور‬
‫پر سوال کیا ہے اور حضرت نے اس کے سوال کے مطابق جواب دیا ہے کہ حوادث اور مشکالت میں ہماری روایتوں کو بیان‬
‫کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو یعنی فقہا کی طرف رجوع کرو وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی‬
‫طرف سے ان پر حجت ہوں۔‬

‫یہ جو کہا جاتا ہے کہ ولی امر حجت خدا ہے تو کیا شرعی مسائل میں حجت ہے کہ ہمارے لیے مسائل بیان کرتا رہے؟‬
‫رسول خدا(ص) نے جو یہ فرمایا کہ میں جا رہا ہوں میرے بعد علی تم پر حجت ہیں تو کیا اس حدیث سے ہم یہ سمجھتے‬
‫ہیں کہ آنحضرت تو چلے گئے اب سب کام تعطیل ہو گئے صرف شرعی مسائل بیان کرنا باقی رہ گیا اور صرف یہی کام‬
‫امیر المومنین (ع) کے سپرد کیا گیا ہے؟!‬

‫حجت خدا وہ ہوتا ہے جسے بعض امور کی انجام دہی کے لیے خدا مقرر فرماتا ہے اور اس کے تمام تر افعال و اقوال‬
‫مسلمانوں کے لیے حجت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس کی بات نہ سنے تو اس سے احتجاج( دلیل و برہان ) قائم کیا جائے گا۔‬
‫اگر وہ حکم دے کہ فالں کام کرو حدود کو اس طرح جاری کرو‪ ،‬غنائم‪ ،‬زکات و صدقات کو اس طرح مصرف میں لے کرآو اور‬
‫تم اس کی بات نہ سنو تو خدا قیامت کے دن تم سے احتجاج کرے گا۔ حجت کی موجودگی میں اپنے تنازعات کے حل‬
‫کے لیے اگر دستگاہ ظلم سے رجوع کیا تو قیامت کے دن خدا احتجاج کرے گا کہ میں نے تمہارے لیے حجت قرار دی‬
‫تھی کیوں ظالموں اور ستمگروں کی عدالت کی جانب رجوع ہوئے؟ (والیت فقیہ امام خمینی)‬

‫دوسری دلیل‪ :‬مقبولہ عمر ابن حنظلہ‬

‫محمد بن یعقوب‪ ،‬عن محمد بن یحیٰی ‪ ،‬عن محمد بن الحسین‪ ،‬عن محمد بن عیسی‪ ،‬عن سفوان بن یحیٰی ‪ ،‬عن داود بن‬
‫الحصین‪ ،‬عن عمر بن حنظلہ‪ :‬قال سالت ابا عبد ہللا (علیہ السالم) عن رجلین من اصحابنا بینھما منازع فی دین او میراث‬
‫فتحاکما الی السلطان و الی القضا یحل ذالک؟ قال من تحاکم الیہم فی حق او باطل‪ ،‬فانما تحاکم الی الطاغوت و ما یحکم‬
‫لہ‪ ،‬فانما یاخذہ سحتا و ان کان حقا ثابتا لہ النہ اخذہ یحکم الطاغوت و ما امر ہللا ان یکفر بہ۔ قال ہللا تعالٰی ‪ ’’ :‬یریدون ان‬
‫یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ۔ قلت کیف یصنعان؟ قال‪ :‬ینظران من کان منکم ممن قد روی حدیثنا و نظر فی‬
‫حاللنا و حرامنا و عرف احکامنا ۔۔۔ فلیرصوا بہ حکما۔ فانی قد جعلتہ علیکم حاکما۔۔۔‬

‫عمر بن حنظلہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) سے ایسے دو شیعوں کے بارے میں سوال کیا جن کے درمیان قرض یا‬
‫میراث کے حوالے سے نزاع پیش آئی تھی اور اس نزاع کے حل کے لیے ان لوگوں نے قاضی کی طرف رجوع کیا تھا میں‬
‫نے امام سے سوال کیا کہ کیا یہ روا ہے؟ اس پر امام نے فرمایا‪ :‬جو بھی اپنے حق یا ناحق جھگڑوں میں ان (قاضیوں)‬
‫سے رجوع کرے در حقیقت اس نے طاغوت سے مراجعہ کیا ہے اور جو بھی ان کے حکم سے کچھ لے در حقیقت حرام‬
‫کے طور پر لے گا اگر چہ لی ہوئی چیز اس کا ثابت شدہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ جو لیا ہے وہ طاغوت کے حکم‬
‫سے لیا ہے جس کے بارے میں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ خداوند عالم فرماتا ہے‪:‬‬

‫اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور‬
‫شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے۔(سورہ نسا آیت‪)۶۰‬‬

‫میں نے پوچھا کہ وہ لوگ کیا کریں تو امام نے فرمایا‪ :‬انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تم میں سے وہ کون ہے جو ہماری حدیثوں‬
‫کو بیان کرتا ہے‪ ،‬ہمارے حالل و حرام کو جانتا ہے اس میں صاحب نظر ہو چکا ہے اور ہمارے احکام وقوانین کو بخوبی جانتا‬
‫ہے لہذا چاہیے کہ ایسے شخص کو قاضی کے عنوان سے قبول کریں کیونکہ میں نے اس کو تمہارا حاکم قرار دیا ہے۔‬

‫جھگڑوں کی یکسوئی کے لیے قاضیوں کے پاس یا عدالت عامہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے یا فوجداری عدالت اور‬
‫حکومتوں کے ان اداروں کی طرف جو قانون کا نفاذ عمل میں التے ہیں۔ قاضیوں سے رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حق‬
‫ثابت ہو جھگڑوں کا حل نکلے اور سزا سنائی جائے اور قانون کے نفاذ کے اداروں سے اس لیے رجوع کیا جاتا ہے تا کہ‬
‫دونوں فریقوں سے صادر شدہ فیصلہ کو قبول کروائے اور سزا عملی کرے۔‬

‫اس روایت میں امام سے یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ سالطین اور حکومتی اداروں یا قاضیوں سے رجوع کرنا کیسا ہے؟ تو‬
‫امام فرما رہے ہیں‪’’ :‬انی قد جعلت علیکم حاکما‘‘۔ میں نے مذکورہ شرائط کے حامل شخص کو تمہارا حاکم بنایا ہے‬
‫قانونی اور حکومتی امور کو نافذ کرنے کے لیے میں نے اسے تمہارا حاکم معین کیا ہے مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں‬
‫ہے کہ وہ اس کے عالوہ کسی اور کے پاس اپنے معامالت طے کریں۔‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪5/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫اس بنا پر اگر کوئی بدمعاش آپ کا مال ہڑپ کر جائے تو آپ اس شخص کے پاس اپنی شکایت لے کر جائیں گے جسے‬
‫امام نے معین فرمایا ہے۔ قرض کے سلسلے میں کسی سے نزاع ہو تو اس قاضی سے رجوع کریں گے جو امام کی‬
‫طرف سے معین کیا گیا ہو کسی اور سے رجوع نہیں کر سکتے۔ یہ حکم عمر بن حنظلہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ‬
‫یہی مسلمانوں کی عام ذمہ داری ہے۔‬

‫امام نے یہ جو حکم صادر فرمایا ہے وہ ایک کلی اور عمومی حکم ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے امیر المومنین حضرت علی‬
‫علیہ السالم اپنی ظاہری خالفت میں قاضیوں اور حاکموں کا تقرر فرمایا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری‬
‫ہوتی تھی کہ وہ ان معین شدہ قاضیوں اور حاکموں کی اطاعت کریں۔ حضرت امام صادق علیہ السالم بھی چونکہ ولی‬
‫امر مطلق ہیں جو تمام علماء و فقہا اور دنیا کے تمام لوگوں پر حکومت کا حق رکھتے ہیں اس لیے اپنی حیات اور موت‬
‫کے بعد حاکم اور قاضی کا تعین فرما سکتے ہیں اور آپ نے یہی کام کیا اور اس منصب کو فقہا کے لیے مخصوص کیا۔ آپ‬
‫نے ’’حاکما‘‘ کی تعبیر استعمال کی تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس حکم میں صرف یہ قانونی امور ہی پیش نظر ہے‬
‫دوسرے حکومتی امور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے اس وہم کو ’’حاکما‘‘ کی تعبیر سے دور کر دیا۔(والیت فقیہ‪ ،‬امام‬
‫خمینی)‬

‫تیسری دلیل ۔ ابو خدیجہ کی روایت‬

‫محمد حسن باسنادہ عن محمد بن علی بن محبوب‪ ،‬عن احمد بن محمد‪ ،‬عن حسین بن سعید‪ ،‬عن ابی الجھم‪ ،‬عن ابی‬
‫خدیج‪ ،‬قال بعثنی ابو عبد ہللا علیہ السالم الی احد من اصحابنا فقال‪ :‬قل لھم‪ :‬ایاکم‪ ،‬اذا وقعت بینکم الخصوم او تداری فی‬
‫شیئ من االخذ و العطا ان تحاکموا الی احد من ھوال الفساق‪ ،‬اجعلوا بینکم رجال قد عرف حاللنا و حرامنا فانی قد جعلتہ‬
‫علیکم قاضیا‪ ،‬و ایاکم ان یخاصم بعضکم بعضا الی السلطان الجائر( وسائل الشیعہ)‬

‫امام جعفر صادق علیہ السالم کے ایک معتبر صحابی ابو خدیجہ کہتے ہیں کہ امام نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ‬
‫میں آپ کی طرف سے آپ کے چاہنے والوں(شیعوں) تک یہ پیغام پہنچاوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے بیچ کسی بات‬
‫پر جھگڑا یا نزاع ہو جائے یا پھر لین دین کے کسی معاملہ میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے اور تم اس معاملے کے حل کے‬
‫لیے بری جماعت کی طرف رجوع کرو۔ لہذا اس شخص کو اپنا قاضی یا حاکم بنانا جو ہمارے حالل و حرام کو جانتا ہو۔‬

‫روایت میں جو ’’تداری فی شئی‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ اختالفات ہیں جو عدالتوں ہی میں حل ہو سکتے ہیں‬
‫یعنی قانونی جھگڑوں اور تنازعات میں ’’فساق‘‘ کی طرف رجوع نہ کرو۔ اس کے ساتھ ہی امام یہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ میں‬
‫نے تمہارے لیے قاضی مقرر کئے ہیں‘‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فساق ان برے لوگوں کو کہتے ہیں جو امراء جور اور‬
‫ناجائز حکومتوں کی جانب سے قاضی بنائے جاتے ہیں۔ حدیث کے دوسرے حصے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ’’ وایاکم ان‬
‫یخاصم بعضکم بعضا ای السلطان الجائز‘‘ جھگڑوں کے وقت بھی جابر حکمران و ناجائز حکومتوں کے سربراہ کی طرف‬
‫رجوع مت کرو‪ ،‬یعنی حکومت جور کے ان اداروں سے رجوع مت کرو جو قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ اس فرمان میں‬
‫کلی طور پر سلطان جائر سے رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن در اصل ہر غیر اسالمی حکومت کے کارندوں سے‬
‫رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے جن میں قاضی‪ ،‬قانون بنانے والے اور قانون کا نفاذ کرنے والے یہ تین محکمے شامل ہیں۔‬
‫قاضیوں سے رجوع نہ کرنے کی جو بات کہی جا رہی ہے وہ در اصل ان لوگوں سے رجوع کرنے سے منع کیا جا رہا ہے جو‬
‫قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ ( کتاب والیت فقیہ‪ ،‬امام خمینی)‬

‫کتاب مستدرک میں ایک روایت اس مضمون کی نقل ہوئی ہے ’’ العلما حکام علی الناس‘‘ (غرر الحکم پر شرح آقا جمال‬
‫الدین خوانساری ) علما لوگوں پر حاکم ہیں۔ والیت کا مسئلہ بھی انہیں روایات کا پابند ہے چاہے وہ والیت‪ ،‬والیت‬
‫معصومین علیہم السالم ہو چاہے فقیہ کی والیت ہو ( جو معصومین کی والیت ہی کے سلسلے کی کڑی ہے)۔‬

‫اس بنا پر ’’ولی امر‘‘یعنی وہ حاکم جو نظم و ضبط کر برقرار رکھ سکتا ہو اور اسالمی قانون کا محافظ ہو اس کی آج اور کل‬
‫ہمیشہ ضرورت ہے۔ وہ حاکم جو ظلم و ستم کو روکے‪ ،‬امانتدار ہو اور مخلوق خدا کا پاس و لحاظ رکھنے واال ہو۔ لوگوں کو‬
‫اسالمی تعلیمات‪ ،‬عقائد اور احکام کیطرف ہدایت کرنے واال ہو ملحدوں اور بے دینوں کی طرف سے دین میں داخل کی‬
‫جانے والی بدعتوں کو روکنے واال ہو۔‬

‫کیا امیر المومنین(ع) کی خالفت انہیں کاموں کے لیے نہیں تھی؟‬

‫منی میں سید الشہدا امام حسین علیہ السالم کا خطبہ‬

‫انہیں روایتوں میں سے ایک روایت کتاب تحف العقول میں مجاری االمور و االحکام علی ایدی العلما کے عنوان کے تحت‬
‫ذکر ہوئی ہے۔ اس روایت سے دو اہم مطالب ہاتھ آتے ہیں۔ پہال مطلب والیت فقیہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ فقہا‪،‬‬
‫جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے حکام جور کی حکومتوں کو رسوا کرتے ہوئے اس کی بنیادوں کو ہال‬
‫دیں تاکہ مسلمان بیدار ہو کر انقالب برپا کرتے ہوئے حکام جور کی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکیں اور اس کی جگہ ایک‬
‫اسالمی حکومت قائم کریں۔ روایت کچھ اس طرح ہے‪:‬‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪6/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫ایہا الناس! خدا نے ’’احبار‘‘ کی سرزنش کے ذریعے اپنے دوستوں کو جو نصیحت کی ہے اس سے عبرت لو۔ خدا فرماتا‬
‫ہے‪ :‬آخر انہیں ہللا والے (احبار) اور علما ان (یہودیوں) کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سےکیوں نہیں منع کرتے۔ یہ یقینا‬
‫بہت برا کر رہےہیں۔‬

‫امام کا یہ فرمان اس لیے کیونکہ امام یہ جانتے ہیں کہ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا ہو جائے تو بقیہ‬
‫تمام واجبات آسان سے لے کر مشکل تک سب قائم ہو جائیں گے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک ایسا فریضہ ہے‬
‫جس کے ذریعے اسالم کے دائرے سے باہر افراد کو اسالم کی دعوت دی جاتی ہے مظلوموں کو انکا حق دلوایا جاتا ہے‬
‫مسلمانوں کے درمیان موجود ظالموں سے مقابلہ کیا جاتا ہے جنگی غنائم اور عمومی اموال کی عادالنہ تقسیم عمل‬
‫میں الئی جاتی ہے صدقات کو جمع کر کے ان کا صحیح مصرف بھی اسی فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی‬
‫ادائیگی میں مضمر ہے۔‬

‫امام علیہ السالم فرماتے ہیں‪ :‬اس بنا پر اگر تم(علمائےدین) اس سلسلے میں ہماری اطاعت نہیں کرو گے اور غاصبوں‬
‫سے ہمارا حق ہمیں نہیں دلواو گے تو ظالم تم پر غالب آجائیں گے اور تمہارے پیغمبر کے نور کو بجھانے کی کوشش‬
‫کریں گے۔ ہللا وحدہ الشریک ہمارے لیے کافی ہے اور ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا‬
‫ہے۔ ہماری قسمت کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی طرف پلٹنا ہے۔‬

‫ولی فقیہ کے اختیارات اور اس کی ذمہ داریاں‬

‫دین اور اسالمی معاشرہ کی حفاظت‪ :‬محمد بن یحیٰی کہتے ہیں کہ انہوں نے امام موسی کاظم (ع) کو یہ فرماتے ہوئے‬
‫سنا کہ جب بھی کوئی مومن یا مومن فقیہ اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو فرشتے‪ ،‬زمین کے وہ ٹکڑے جہاں وہ خدا کی‬
‫عبادت کرتا رہا اور آسمان کے وہ دروازے جہاں سے اس کے اعمال اوپر جاتے رہے ہیں اس پر گریہ کرتے ہیں۔ اس کے‬
‫مرنے سے اسالم (کے قلعہ) میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے جسے کوئی چیز پر نہیں کر سکتی کیونکہ مومن فقہا‬
‫اسالم کے قلعے ہیں اور اسالم کے لیے ان کی موجودگی ایسی ہی ہے جیسے کسی شہر کے لیے اس کی فیصل‬
‫کی ہوتی ہے۔‬

‫یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ’’مومن فقہا اسالم کے قلعے ہیں‘‘ حقیقیت میں فقہا کو انکی عظیم ذمہ داری جو اسالم کے‬
‫عقائد و احکام کی حفاظت ہے اس کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ امام کا یہ فرمان تکلف پر مبنی نہیں‬
‫ہے بلکہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔‬

‫والیت فقیہ وہ ڈھانچہ ہے جس پر اسالم کی حفاظت اور انحراف سے بچاو کی عمارت ٹکی ہوئی ہے یہی والیت فقیہ کا‬
‫بنیادی معنی و مفہوم ہے۔‬

‫والیت(سرپرستی) حکومت کا قیام‪ ،‬ملک کے انتظامی امور کی نظارت و سرپرستی‪ ،‬اسالمی تعلیمات کا جز ہیں۔ پیغمبر‬
‫اکرم(ص) نے اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اس پیغام کو پہنچانے کے لیے خاص اہتمام فرمایا اور اس کو ایک طریقہ‬
‫سے پہنچایا کہ نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬زکات اور جہاد جیسے کسی اور واجب کو پہنچانے کے لیے ایسا اہتمام نہیں کیا۔‬

‫والیت یعنی حکومت‪ ،‬ملک کو چالنا اور شریعت مقدسہ کے قوانین کو نافذ کرنا۔ یہ بہت ہی اہم اور بھاری ذمہ داری ہے۔‬
‫والیت ایک عظیم ذمہ داری ہے نہ یہ کہ کوئی امتیازی یا اعزازی مقام جیسا کہ بعض لوگ اس کو خیال کرتے ہیں۔‬

‫قانون کا نفاذ بغیر نافذ کرنے والے کے ممکن نہیں ہے۔ ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ صرف قانون بنا لینا کافی نہیں ہے‬
‫بلکہ اس کو عملی طور پر نافذ کرنا ضروری ہے۔ قانون بنا لینے سے بشریت کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ قانون بنانے کے‬
‫بعد ایک ایسے طاقتور ادارہ کی ضرورت ہوتی ہے جو قانون کو عملی طور پر نافذ کر سکے۔ ولی امر قانون کو اجرا کرنے کا‬
‫بھی ذمہ دار ہے۔‬

‫رہبر کا سب سے اہم کام ملکی سیاست کی بڑی پالیسیوں کو بنانا یعنی ملک میں جتنے امور انجام پا رہے ہوں اسی‬
‫سیاست کے تناظر میں ہوں۔ ہر محکمہ میں رہبر کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر محکمہ میں رہبر کی سیاسی‬
‫پالیسیوں پر عمل ہو۔‬

‫افتاء ( فتوٰی دینے کی ذمہ داری)‪ :‬قال امیر المومنین علیہ السالم قال رسول ہللا (ص)‪ :‬اللھم ارحم خلفاء(ثالث مرات) قیل‪:‬‬
‫یا رسول ہللا و من خلفاءک؟ قال‪ :‬الذین یاتون من بعدی‪ ،‬یروون حدیثی و سنتی فیعلمونھا الناس من بعدی‘‘۔‬

‫امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا‪ :‬خدایا! میرے جانشینوں پر رحم فرما۔ اس دعا کو آپ نے تین‬
‫بار دہرایا۔ آپ سے کہا گیا‪ :‬اے رسول خدا آپ کے جانشین کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا‪ :‬وہ جو میرے بعد آنے والے ہیں میری‬
‫حدیث اور سنت کو نقل کرنے والے اور میرے بعد لوگوں کو حدیث و سنت سکھانے والے ہیں۔‬

‫ولی فقیہ کا کام نقل حدیث بھی ہے لہذا جن کی اپنی کوئی رائے نہ ہو اور نہ ان کا کوئی فتوٰی ہو ایسے افراد اس حدیث‬
‫میں شامل نہیں ہیں اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بعض محدثین جو در اصل حدیث ہی کو نہیں سمجھ پاتے ہوں جو ’’‬
‫رب حامل فقہ لیس فقیہ‘‘ رسول خدا (ص) نے مسجد خیف میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا‪ :‬فرب حامل فقہ لیس بفقیہ و‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪7/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫رب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ‘‘۔ کتنے ایسے ہیں جو علم رکھتے ہیں لیکن خود اس سے آگاہ نہیں ہیں اور کتنے‬
‫ایسے صاحبان علم ہیں جو اپنے سے زیادہ آگاہ افراد تک علم پہنچا دیتے ہیں‪ ،‬کے مصداق ہوں جو ایک ٹیپ ریکارڈر کی‬
‫طرح روایات و اخبار کو ریکارڈ کر لیتے ہیں اور پھر اسے لکھ کر لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں اس حدیث کے مصداق نہیں ہیں۔‬

‫جس طرح رسول خدا اور ائمہ اطہار اسالمی احکام کو کھول کھول کر بیان فرماتے تھے اس کو نشر کرتے تھے لوگوں کو‬
‫سکھاتے تھے کئی ہزار لوگ ان کے مکتب سے علمی استفادہ کرتے تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی اسی طرح یہ ذمہ‬
‫داری عام طور سے سارے مسلمانوں اور خاص طور سے علما کی ہے کہ وہ انہیں خطوط پر کام کریں۔’’ یعلمونھا الناس‘‘‬
‫کا مطلب ہی یہی ہے کہ اسالمی علوم کو لوگوں میں پھیالیا جائے اور ان تک پہنچایا جائے۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں‬
‫کہ اسالم دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ہے تو پھر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کی اور خاص طور پر علما‬
‫کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسالم اور اس کے احکام کو لوگوں میں پھیالئیں اور دنیا کو اس سے متعارف کروائیں۔‬

‫قضاوت کی ذمہ داری‪ :‬حضرت امیر المومنین (ع) قاضی شریح سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪ :‬تم ایک ایسے منصب‬
‫پر فائز اور ایک ایسے مقام پر بیٹھے ہوئے ہو جس پر نبی یا نبی کا وصی اور شقی کے عالوہ کوئی اور نہیں بیٹھ سکتا‬
‫یعنی کوئی شقی اس منصب کا حقدار نہیں ہے۔‬

‫شریح نہ تو نبی تھا نہ نبی کا وصی تھا بلکہ وہ ایک شقی تھا جو اس مسند قضاوت پر بیٹھا ہوا تھا۔ شریح وہ ہے جو‬
‫پچاس سے ساٹھ سال تک کوفہ میں مسند قضاوت پر بیٹھا رہا۔ وہ ان درباری مالوں میں شامل تھا جو معاویہ کی دستگاہ‬
‫خالفت سے وابستہ ہونے کے نتیجے میں اسالمی حکومت کے خالف فتوے صادر کرتا اور اس کے خالف قیام کرنے والوں‬
‫میں سے تھا۔ حضرت امیر المومنین اپنے دور حکومت میں بھی اسے معزول نہ کر سکے کیونکہ لوگ اس کی معزولی کے‬
‫خالف تھے چونکہ شیخین نے اسے نصب کیا تھا لہذا حضرت امیر کی عادل حکومت پر بھی اس کا منحوس سایہ منڈالتا‬
‫رہا لیکن حضرت اسے یہ اجازت نہیں دیتے کہ قانون کے خالف کوئی فیصلہ صادر کرے۔‬

‫مذکورہ باال روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ قاضی کو منصوب کرنے کا حق یا رسول خدا کو ہے یا آنحضرت کے وصی کو‬
‫ہے۔ عادل فقہا کو یہ منصب ائمہ اطہار کی جانب سے عطا ہوا ہے اور یہ منصب عادل فقہا سے مخصوص ہے اس میں‬
‫کوئی شک نہیں ہے برخالف مسئلہ والیت کے کہ اس مسئلہ میں بعض فقہا جیسے مرحوم نراقی اور مرحوم نائینی وہ‬
‫تمام اختیارات جو امام کے لیے ثابت ہیں فقیہ کے لیے بھی ثابت جانتے ہیں جبکہ بعض فقہا ایسا نہیں مانتے لیکن‬
‫قضاوت کے منصب کا عادل فقہا سے مخصوص ہونے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ بہت ہی واضح چیزوں‬
‫میں داخل ہے۔‬

‫فقہا نہ تو مقام نبوت کے حامل ہیں اور نہ ہی شقی ہیں اس لیے کہ ان کا شمار رسول خدا کے جانشینوں میں ہو گا‬
‫لیکن غالبا جب بھی وصی کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد وصی بالفصل سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے مذکورہ روایات‬
‫سے تمسک معموال نہیں کیا جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وصی نبی کا دائرہ وسیع ہے جس میں فقہا بھی شامل ہیں۔‬

‫بہر حال روایت سے جو بات سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ فقہا رسول خدا(ص) کے دوسرے درجہ کے وصی ہیں اور‬
‫وہ امور جو رسول کی جانب سے ائمہ اطہار علیہم السالم کو عطا ہوئے وہ فقہا کے لیے ثابت ہیں۔ لہذا فقہا کو چاہیے کہ‬
‫وہ ان تمام امور کو انجام دیں جنہیں رسول خدا(ص) انجام دیا کرتے تھے۔‬

‫احکام و حدود کا نفاذ اور شعائر کو قائم کرنے کی ذمہ داری‪ :‬حدود سے متعلق جتنی آئتیں قرآن میں ہیں ان میں ایک آیت‬
‫وہ ہے جس میں زنا کی سزا کا حکم ہے جو سو تازیانہ ہے۔ حد جاری کرنا اور زنا سے مقابلے کا قانون نافذ کرنا جس کی‬
‫ذمہ داری ہے‪ ،‬کیا ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ کیا رسول خدا(ص) بھی ایسے ہی تھے قرآن پڑھ کر اسے ایک‬
‫کونے میں رکھ دیتے تھے سزا و جزا کے قانون سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا؟ رسول خدا(ص) کے بعد جو خلفا آئے کیا‬
‫انہوں نے مسائل کی یکسوئی لوگوں کے حوالے کر دی؟ یا اس کے بر خالف الہی حدود کو جاری کرتے‪ ،‬لوگوں کو کوڑے‬
‫لگاتے‪ ،‬انہیں سنگسار کرتے‪ ،‬عمر قید کی سزا سناتے‪ ،‬شہر بدر کرتے تھے یا نہیں؟ اگر اسالم کے حدود اور دیات کے‬
‫باب سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام اسالم کے کام ہیں اور اسالم آیا ہی انہیں کاموں کی انجام دہی‬
‫کے لیے تاکہ امن و سکون قائم ہو سکے لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں۔‬

‫اس معاشرے میں ولی یعنی حاکم وہی ہے جس کی ذات پر تمام امور جا کر ختم ہوتے ہیں۔ خدا کے راستے پر معاشرے‬
‫کو حرکت دیتا ہے اور اسے ذکر خدا سے مملو کرتا ہے۔ دولت کی عاالنہ تقسیم عمل میں التا ہے‪ ،‬نیکیوں کو عام کرنے‬
‫اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے‪:‬‬

‫یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور‬
‫برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔( سورہ حج آیت ‪)۴۱‬‬

‫معاشرہ میں اگر والیت کا نظام آجائے تو یہ سب چیزیں عملی ہو سکتی ہیں۔ نماز کا قیام‪ ،‬زکات کی ادائیگی‪ ،‬امر‬
‫بالمعروف اور نہی عن المنکر خالصہ یہ کہ بے جان ڈھانچہ میں جان آجاتی ہے۔‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪8/19‬‬
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫مذہب اسالم میں بنیادی طور پر حکومت و قیادت ایک شرعی وظیفہ ہے کہ ایک شخص حکومت کے منصب پر فائز ہو‪،‬‬
‫حکومت کے قیام کی یہ عظیم ذمہ داری اس کی گردن پر ہے ان تمام شرعی وظائف کے ساتھ ساتھ جو سارے مسلمان‬
‫انجام دیتے ہیں اور یہ جو کہا جاتا ہے ’’ اگر والیت فقیہ کا نظام قائم ہو جائے تو آمریت آجائیگی‘‘ یہ صرف اس لیے ہے‬
‫کیونکہ یہ لوگ والیت فقیہ کو سمجھے نہیں ہیں۔ اگر مغربی ممالک کا کوئی صدر ہو تو اس کو تمام اختیارات دینے میں یہ‬
‫لوگ ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے لیکن اگر ایک فقیہ جس نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اسالم کی خدمت‬
‫کے لیے وقف کر دیا ہے جو اسالم سے محبت کرتا ہے ان شرائط کے ساتھ جو اسالم نے بتائے ہیں (کہ کوئی غلط کام نہ‬
‫کرتا ہو) ایسا شخص جب حکومت کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔‬

‫اسالم ایک قانون کا پابند مذہب ہے پیغمبر بھی اس قانون کی خالف ورزی نہیں کرتے تھے بلکہ خالف ورزی کر ہی نہیں‬
‫سکتے تھے۔ خدا پیغمبر سے یہ فرما رہا ہے اگر ایک کلمہ بھی غلط کہا تو تمہاری رگ گردن کو کاٹ دیں گے۔ حکمرانی‬
‫قانون کی ہے خدا کے قانون کے عالوہ کوئی حکومت‪ ،‬حکومت نہیں ہے۔ قانون کے بغیر کسی کی حکومت نہیں ہے نہ‬
‫فقیہ کی نہ غیر فقیہ کی۔ سب کو قانون کے تحت عمل کرنا ہے۔ فقیہ اور غیر فقیہ سبھی قانون کو نافذ کرنے والے ہیں۔‬
‫فقیہ کا کام یہ ہے کہ وہ قانون کا نفاذ کرنے والوں پر نظر رکھتا ہے کہ لوگ قانون کی خالف ورزی نہ کریں اور خود فقیہ‬
‫قانون کے بغیر حکومت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اجازت دے سکتا ہے کہ حکومت طاغوتی نظام یا آمریت میں بدل جائے۔‬

‫اسالم کے لیے کافی تکلیفیں برداشت کی گئیں اسالم کی راہ میں جوانوں کا خون بہایا گیا اگر اب ہم دوبارہ اس بنیاد کو‬
‫کھوکھال کرنا چاہیں جسے اسالم نے مضبوط کیا ہے اور وہ نظام جو رسول خدا او امیر المومنین کے زمانے میں تھا اس‬
‫سے پھر جائیں تو کن لوگوں کی خاطر؟ ان کی خاطر جو ایک جگہ جمع ہو کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر چائے نوشی میں‬
‫مشغول ہو کر سفسطہ آرائی کر رہے ہیں دین کی بنیاد کو کمزور کرنے اور لوگوں کو حقائق سے منحرف کرنے کی ناکام‬
‫کوششوں میں لگے ہوئے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ والیت فقیہ اسالم کے آغاز کے ساتھ تھا اور رسول خدا کے زمانے سے‬
‫اب تک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے یا تو والیت فقیہ کے بارے میں جانتے نہیں ہیں یا پھر اپنے‬
‫شخصی و دنیاوی مفاد کے پیش نظر حق سے منہ موڑ رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ’’ الحق یعلو و ال یعلی علیہ‘‘۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫بقلم‪ :‬جعفری‬

‫‪Read 5981 times‬‬

‫‪ Published in‬نظریات و دینی مقالے (‪)ur/reports/religious-articles-viewpoints/‬‬

‫‪ « :More in this category‬کربال ہمیں کیا درس دیتی ہے؟ (‪ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1893-1392-/‬‬


‫شیطان اور بنی اسرائیل کا عابد » (‪ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1905-1392-09-/‬‬ ‫‪)09-11-07-28-33‬‬
‫‪)16-09-43-19‬‬

‫)‪back to top (/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54#startOfPageId1896‬‬

‫)‪Latest Items (/ur/ramazan‬‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪9/19‬‬
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/ramazan/item/5754-2024-03-12-09-22-44/( ‫ استغفار‬،‫ عطاء‬،‫ بخشش‬،‫ رحمت‬،‫ماہ مبارک‬

)ur/islamic-issues/holy-places/item/5753-2024-03-12-09-18-14/( ‫مسجداالقصی میوزیم کے تاریخی آثار‬

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 10/19
‫‪3/28/24, 8:46 AM‬‬ ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

‫رهبر انقالب کے قرآنی مستندات مستکبروں سے مقابلہ حق کی پیشرفت کا الزمہ (‪ur/multimedia/video/item/5752-2024-03-12-09-14-/‬‬


‫‪)10‬‬

‫ماہ خدا اور ہماری ذمہ داریاں‬

‫ماہ خدا اور ہماری ذمہ داریاں (‪)ur/islamic-issues/islamic-events/item/5751-2024-03-12-09-10-18/‬‬

‫‪www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54‬‬ ‫‪11/19‬‬
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)1(‫دفاعی صنعت میں ایران کی غیر معمولی ترقی‬

)ur/reports/political-articles-analysis/item/5750-1/( )1(‫دفاعی صنعت میں ایران کی غیر معمولی ترقی‬

)ur/ramazan/(

)ur/verdicts/(

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 12/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/messages-to-hojaj/(

)ur/holy-prophets-wives/(

)ur/ethnic-and-morality/taghrib/(

)ur/ahlesonnat-in-iran/(

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 13/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/women-in-iran/(

)ur/farsi-learning/(

)ur/multimedia/video/(

)ur/islamic-sects/(

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 14/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/islamic-issues/holy-places/( ‫اسالمی مقدس مقامات‬

)ur/islamic-issues/holy-places/item/5753-2024-03-12-09-18-14/( ‫مسجداالقصی میوزیم کے تاریخی آثار‬

‫احادیث‬

mages/phocagallery/urdu-/(
hocagallery/urdu-/(
ery/urdu-/(
ur/images/phocagallery/urdu-/(
ur/images/phocagallery/urdu-/(
ur/images/phocagallery/urdu-/(
b_l_hadith-
a_thumb_l_hadith-
bs/phoca_thumb_l_hadith-
ith/thumbs/phoca_thumb_l_hadith-
hadith/thumbs/phoca_thumb_l_hadith-
hadith/thumbs/phoca_thumb_l_hadith-
ur- ur- ur- ur- ur- ur-
)254.jpg)337.jpg)189.jpg)160.jpg)296.jpg)176.jpg

Most read (/ur/islamic-issues/holy-places)

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 15/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/islamic-issues/holy-places/item/1072-1391-05-21-05-58-01/( ‫مسجد االقصي‬

ur/reports/religious-articles-/( ‫ مفتی جعفر حسین‬:‫کلمات قصار نهج البالغه علي عليه السالم کا ترجمه و تشریح از‬
)viewpoints/item/1586-1392-03-05-10-07-39

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 16/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1579-1392-03-04-06-36-/( ‫امام علی علیہ السالم کے مختصر فضائل اور کماالت‬


)31

)ur/holy-prophets-wives/item/1426-1391-12-13-05-21-34/( ‫جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت‬

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 17/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

)ur/islamic-issues/holy-places/item/962-1391-04-20-06-54-35/( ‫بادشاہی مسجد الهور‬

‫لنکس‬

)ur/home/( ‫پہال صفحہ‬


)ur/reports/political-articles-analysis/( ‫مقالے اور سیاسی تجزیئے‬

)ur/reports/religious-articles-viewpoints/( ‫نظریات و دینی مقالے‬


)ur/hadj/hadj-learning/( ‫مناسک حج کی تعلیم‬

)ur/hadj/ahadith-haj/( ‫حج روایات میں‬


)ur/ethnic-and-morality/taghrib/( ‫تقریب بزرگان دین کی نظر میں‬

)ur/ethnic-and-morality/imam-khomeini/( )‫امام خمینی (ره‬


)ur/ethnic-and-morality/women/( ‫خواتين‬

)ur/ethnic-and-morality/moral-advice/( ‫منزل معرفت و اخالق‬


)ur/islamic-issues/islamic-sects/( ‫اسالمی فرقے‬

)ur/islamic-issues/islamic-events/( ‫اسالمی مناسبتیں‬


)ur/islamic-issues/holy-places/( ‫اسالمی مقدس مقامات‬

)ur/verdicts/( ‫فتاوي حرمت‬


)ur/messages-to-hojaj/( ‫حجاج کرام کے پیغامات‬

)ur/holy-prophets-wives/( ‫امهات المؤمنين كي سيرت‬


)ur/ahlesonnat-in-iran/( ‫ایران کے اہل سنت‬

)ur/women-in-iran/( ‫ایران میں خواتین‬


)ur/farsi-learning/( ‫آئیے فارسی سیکھئے‬

)ur/in-the-presence-of-holy-quran/( ‫قرآن کے حضورمیں‬


)ur/quran-translation/( ‫قرآن کا ترجمہ‬

)ur/multimedia/image-gallery/( ‫فوٹو گيلری‬


)ur/multimedia/video/( ‫فلم گیلری‬

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 18/19
3/28/24, 8:46 AM ‫والیت فقیہ عقلی اور نقلی دالئل کی روشنی میں‬

Hajij.com in your language

Français (/ur/../fr)
Türkçe (/ur/../tr)
Indonesian (/ur/../id)
हिनदी (/ur/../in)

)ur/../fa/( ‫فارسی‬
)ur/../ar/( ‫العربیة‬
English (/ur/../en)
Русский (/ur/../ru)

Search

Search Search

.Copyright © 2024 Hajij Urdu. All Rights Reserved

www.hajij.com/ur/reports/religious-articles-viewpoints/item/1896-1392-09-12-07-33-54 19/19

You might also like