Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 7

‫ابالغی مہارتیں‬

‫صفحہ اول‬

‫منتخب تحریریں‬

‫تبادلہء خیال‬

‫مباحث‬

‫جینے کا ہنر‬

‫ادب‬

‫میڈیا واچ‬

‫رائٹرز‪/‬بالگرز‬

‫طنز و مزاح‬

‫رابطہ‬

‫مزید‬

‫‬

‫بالگ ہیڈ الئن‬

‫‘‘بہتر سماعت‪،‬عمدہ اکتساب’’سننا سیکھو! بولنا تو سب کو آتا ہے‬

‫فاروق طاہر‬

‫‬

‫سماعت کا اسالمی نظریہ‬


‫قوت سماعت انسان کو اللہ تعالٰی کی عطاکرد ہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ قرآن مجید میں سمع و بصر‬
‫یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر ‪ 19‬جگہوں پر کیا گیاہے‪ ،‬جن میں سے ‪ 17‬مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے ۔غور سے‬
‫سننے اور سمجھنے کی بات سورہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور‬
‫سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ اگرچہ انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات‬
‫قرار دیا گیا ہے لیکن الپروائی سے سننے والوں کو جانور قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات‬
‫ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالٰی کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی۔ یہ کیفیت اگرمسلسل‬
‫رواں رہے تب انسان کے سوچنے سمجھنے کی صالحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ‬
‫ہدایت کی کوئی بات نہ سنتے‪ ،‬سمجھتے ہیں اور نہ ہی عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ موثر سماعت اور تعمیر شخصیت کے اصول‬
‫اور کورسس مغرب نے آج وضع و مرتب کئے ہیں جب کہ مسلمانوں کو یہ تعلیمات قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کی صورت میں چودہ سو سال قبل ہی فراہم کی جاچکی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ مبارک کے ذریعے ہمارے‬
‫سامنے دنیا کے سب بہترین سامع ہونے کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ احادیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے‬
‫سے بھی ہمیں سماعت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے’’ صحابہ کرام مجلس نبوی میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر‬
‫پرندے ہیں جو ہلنے سے ُا ڑ جائیں گے۔‘‘لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی سماعت ایک پیغمبرانہ خوبی ہے۔‬
‫سماعت کی نفسیاتی تعریف‬
‫آواز کو سننے‪،‬اس کی درجہ بندی ‪ ،‬تسلسل سے ترتیب دینا‪،‬بامعنی اور مہمل آوازوں کے مابین فرق کو سمجھنا اور اس کے‬
‫معنی و مفہوم کو اخذ کرنا سماعت کہالتا ہے۔باالفاظ دیگرپیغام کو وصول کرنا‪،‬تشریح کرنااور اس پرردعمل پیش کر نا‬
‫سنناکہالتا ہے۔سننا ابالغی و ترسیلی عمل کا ایک اہم جز ہے۔آواز کو محسوس کرنا‪،‬پیغام کو اخذکرنا‪،‬اس کی تشریح اور اس پر‬
‫رد عمل کا اظہار سننے کے عمل میں شامل ہے۔ دیگر اکتسابی صالحیتوں کی طرح بچوں میں سماعت( سننے )کی عادت و‬
‫مہارت کے سیکھنے کا آغاز بھی گھر سے ہوتا ہے۔اساتذہ اپنی سعی و کاوش سے بہتر اور عمدہ ماحول فراہم کرتے ہوئے نہ‬
‫صرف اس صالحیت کو تیزی سے پروان چڑھا سکتے ہیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی مدد سے موثر سماعت کی عادات کے فروغ‬
‫میں مانع عوامل پر قابو بھی پاسکتے ہیں۔بچوں کے لئے اوائل عمری سے ہی سماعت( سننے) کی بہتر تربیت کا اہتمام ضروری‬
‫ہے۔ اچھی سماعت کی عادت بہتر اکتساب اور موثر گفتگو میں کلیدی کردارادا کرتی ہے۔ گردو پیش میں بکھری وسیع‬
‫معلومات کے حصول میں اکتساب سے مربوط اہم مہارتوں سے العلمی یا سیکھنے میں تساہل اور بے پروائی کی وجہ سے طلبہ‬
‫اکثر اپنی بہتر صالحیتوں کو پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔بحیثیت استاد جب آپ محتاط طریقوں سے طلبہ کی‬
‫صالحیتوں کے فرو غ کے لئے کوشاں ہیں تو الزمًادیگر اہم مہارتوں کے ساتھ آپ انھیں موثر طریقے سے سماعت کی( سننے‬
‫کی) عادت و مہارت سے بھی متصف کرنا ہوگا۔ اساتذہ اکتسابی سہولتوں‪،‬وسائل اور مواقعوں سے استفادہ کرتے ہوئے‬
‫سماعت(سننے) کی صالحیت کو نہ صرف صیقل کرسکتے ہیں بلکہ اکتساب اور گفتگو کی صالحیتوں کو پروان چڑھا سکتے‬
‫ہیں۔ سماعت ایک مہارت ‪،‬فن اور ایسی جادوئی عادت ہے جو آدمی کو ہرکام میں سکون‪ ،‬اطمینان‪،‬آسودگی اور کامیابی فراہم‬
‫کے ایک قول سے ہوتا ہے’’ جب ہم بات کرتے ہیں )‪(Wilga Rivers‬کرتی ہے۔سماعت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ولگاریورس‬
‫تو اسے دومرتبہ سنتے ہیں اگر پڑھتے ہیں تو چار مرتبہ اور لکھتے ہیں تو اسے پانچ مرتبہ سنتے ہیں‘‘۔ولگا ریورس کے قول کی‬
‫روشنی میں طلبہ کوسمعی مہارتوں کی تدریس کی اشد ضرورت ہے تاکہ موثر اکتساب کویقینی بنایا جاسکے۔اساتذہ اگر‬
‫سماعت کا مادہ بچوں میں پیدا نہیں کریں گے تب کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کی تدریس بے اثر‪ ،‬اکتا دینے والی ‪،‬بوریت‬
‫اور لکھنا )‪(Reading‬پڑھنا‪(Speaking)،‬بولنا‪(Listening) ،‬سے لیس ‪ ،‬بے کیف اور ناپسندیدہ ہوکر رہ جائے گی۔سننا‬
‫تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی ماحول کے زیر اثر)‪ (LSRW‬یعنی )‪(Writing‬‬
‫اس کی سمعی صالحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔بولنا‪،‬پڑھنا اور لکھنا جیسی تدریسی بنیادی صالحیتوں کا انحصار سماعت کی‬
‫صالحیت پر ہوتا ہے۔‬
‫سماعت صرف کانوں کو کھال رکھنے اور سننے کا نام نہیں بلکہ صحت کے ساتھ سننے اور اس کے مناسب ادراک و فہم کا نام‬
‫ہے۔بہتر سماعت کی صالحیت نہ صرف طلبہ کے لئے ضروری ہے بلکہ ایک اچھے انسان‪،‬استاد‪،‬منتظم‪،‬مہتمم اور رہنماکے لئے بھی‬
‫کو ایک ہی معنی میں‪ Listening‬اور‪ Hearing‬اسے منظم طریقے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمومًالوگ انگریزی کے الفاظ‬
‫کا مطلب ہے بات‪ Listening‬کا مطلبہوتا ہے صرف سننا مگر‪Hearing‬استعمال کرتے ہیں مگر ان میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔‬
‫کا مطلب مو ثر سماعت ہے۔موثر‪Listening‬کامطلب صرف سماعت اور‪Hearing‬سننے کے ساتھ ساتھ سمجھنا۔ باالفاظ دیگر‬
‫سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔عام طور پرموثرسماعت(شعوری)عام سننے ‪(Hearing‬عام سماعت )‪(Listening‬سماعت‬
‫سماعت‪،‬تفہیمی سماعت) اور عام سماعت(غیر شعوری سماعت )ایک دوسرے سے باہم مربوط ہوتی ہیں اور اکثر دونوں کو‬
‫ایک جیسا ہی تصور کیا جاتا ہے جب کہ دونوں کے درمیان نمایاں طورپر قابل فہم اور لطیف فرق پایا جاتا ہے۔ دماغ تک‬
‫شعوری و غیر شعوری طور پر لہروں کی شکل )‪ (Transmission‬مختلف ذرائع سے پیدا شدہ آوازں کی قبولیت و ترسیل‬
‫کوکہتے ہیں اور جب دماغ شعوری طور پر صداؤں کی شنوائی میں)‪(Hearing‬میں ہوتی رہتی ہے۔سنناغیر شعوری سماعت‬
‫‪(Harold‬کہاجاتا ہے۔ہارولڈ جانیس)‪Listening‬شعوری سماعت یاتفہیمی سماعت (معنی و مقصد شامل کرلیتا ہے تو اسے موثر‬
‫کا بیان دونوں سماعتوں کے مابین بہتر تفریق کرتا ہے ’’ موثر یاشعوری سماعت عام سننے کا نام نہیں ہے یہ آوازوں )‪Janis‬‬
‫کی قبولیت کی اس سطح کا نام ہے جس میں فہم و ادراک کا کام انجام پاتا ہے اور سامع اورمتکلم دونو ں بھی تبادلہ خیال‬
‫‪ (Listening is not merely hearing,it is a state of receptivity that permits‬میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔‬
‫‪understanding of what is heard and grants the listener full partnership in the communication‬‬
‫اسی لئے شعوری طور پر سننا اسے کہتے ہیں جس میں موصول کرد ہ سمعی آوازوں میں مقصد)‪process.Harlod Janis‬‬
‫‪،‬مطلب و معنی کا رنگ شامل ہو۔عام سننا موثر و شعوری سماعت میں اس وقت تبدیل ہوجاتا ہے جب اس میں مقصد و‬
‫معنویت کا پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ ماسوابہروں کے سماعت ایک قدرتی صالحیت ہے لیکن بات ا ور سمعی آوازوں کو سمجھنے‬
‫کے لئے غور سے سننا ضروری ہوتا ہے۔ سماعت اس وقت موثرہو جاتی ہے جب اس کے اغراض و مقاصد مخصوصں ومعتین‬
‫ہوں۔ جب کسی گفتگویا بات چیت کامطلب نہ سمجھاجاسکے تب سماعت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔بات چیت کے‬
‫مفہوم کو سمجھناانسان کی اپنی فہم و فراست پر منحصر ہوتا ہے۔فہم اور سماعت دونوں مہارتوں کا ایک دوسرے پرانحصار‬
‫ہوتا ہے اسی لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بولنے والے کے کالم کو نہ صرف توجہ سے سنا جائے بلکہ اس سے مفہوم بھی اخذ کیا‬
‫جائے۔مفہوم کا اخذ و حصول‪ ،‬سماعت کا الزمی حصہ ہوتا ہے۔طلبہ میں باشعور وموثر سماعت کی عادت کے فروغ کے ذریعے‬
‫دو گراں قدر اوصاف جاگزیں کئے جاسکتے ہیں۔‬
‫کے فروغ میں بھی ممد ومعاون)‪ (Verbal Memory‬موثرسماعت طلبہ میں معلومات کے اضافے کے عالوہ زبانی یاداشت)‪(1‬‬
‫ثابت ہوتی ہے۔‬
‫صحت مند شعوری سماعت انسان میں سلیقہ گفتگو پیدا کرتے ہوئے شخصیت کو چارچاند لگا دیتی ہے۔سلیقہ مند گفتگو)‪(2‬‬
‫کے لئے صحت مند شعوری سماعت بے حد ضروری تصور کی جاتی ہے۔بہتر سماعت سے گفتگو میں سلیقہ اور تاثیر پیدا ہونے‬
‫کی وجہ سے بین شخصی تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہوتی ہے۔‬
‫بچوں میں سننے کی ابتدا پیدائش کے بعد ہی ہوجاتی ہے۔ابتدا میں بچوں کا مسکرانا‪،‬ہنسنا اور رونا‪،‬سننے کے ردعمل کا ہی‬
‫نتیجہ ہوتا ہے۔اسکولی زندگی کے آغاز سے قبل ہی بچے آوازوں جیسے افراد خاندان کی آوازیں‪،‬پڑوسیوں کی آوازیں‪،‬رشتہ‬
‫داروں کی آوازیں‪،‬فقیروں‪،‬راہ گیروں‪،‬پھیری والے کاروباری افراد کی آوازیں‪،‬دوکاندار‪،‬مداری وغیرہ کی آوازیں‪،‬مذہبی رسومات‬
‫جیسے اذان‪،‬نماز‪،‬تالوت ‪،‬پوجا پاٹ وغیرہ کی آوازوں سے آشنا ہوجاتے ہیں۔حصول علم و اکتساب میں سننے کا عمل اساسی‬
‫اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اسکول کی زندگی سے قبل بچے غیر شعوری طور پر تلفظ اور صوتیات سے واقف ہوجاتے ہیں۔اسکول‬
‫انہیں فہم و ادراک فراہم کرتا ہے۔سننے کا مطلب کانوں تک پہنچنے والی ہربات نہیں ہے بلکہ صحت و فہم کے ساتھ سننے کو‬
‫موثر سماعت کہاجاتا ہے۔سماعت زندگی بھر سیکھنے کے عمل اور معنی خیز ابالغ و معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔گفتگو‬
‫کے سلیقے اور سماعت کے شعور کے لئے منظم تربیت و رہنمائی درکار ہوتی ہے۔سامع سمعی پیغامات سے مقاصد کا استخراج‬
‫اپنے سابقہ تجربات ‪،‬ذخیرہ علم و فہم اور شرح ارتکازسے کرتا ہے۔سماعت کا عمل ذہنی اعتبار سے تین مرحلوں پر مشتمل ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫پیغامات کی ترسیل کرنے والی آوازوں کو وصول کرنا)‪(1‬‬
‫آواز سے پیداشدہ محرکہ پر توجہ مرکوز کرنا)‪(2‬‬
‫سمعی محرکہ کو معنویت عطا کرنا)‪(3‬‬
‫سمعی عمل و مہارت‬
‫اسکولس پڑھنے‪،‬لکھنے اور تقریر ی(بولنے کی) صالحیتوں کے فروغ میں توکوشاں دکھائی دیتے ہیں لیکن سماعت جیسی اہم‬
‫مہارت کے فروغ میں ان کی بے اعتنائی الئق مذمت اور قابل گرفت ہے جس کی بناطلبہ متعدد اکتسابی مسائل کا شکار ہورہے‬
‫ہیں۔ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق پڑھنے ‪،‬لکھنے‪،‬بولنے کی مہارتوں کی طرح سننے کی مہارت بھی انسانی ترقی اور‬
‫کامیابی کا الزمی جزو ہے اور اسے پروان چڑھانا ضروری ہے۔ ترقی پسند ممالک اپنے مدارس اور دیگر تربیتی اور کاروباری‬
‫اداروں میں سماعت کی مہارت کی باقاعدہ تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کو زیادہ سننے کے‬
‫بجائے بہتر سننے کی عملی تربیت فراہم کریں۔بامعنی و بامقصد سماعت کے لئے چندمخصوص مہارتوں سے ہر آدمی کا متصف‬
‫ہونا ضروری ہے۔سماعت کئی پیچیدہ اور گنجلگ رویوں کے مجموعہ کا نام ہے اور ان رویوں کی بہتری سننے کی صالحیت کے‬
‫فروغ کا باعث ہوتی ہے۔ سعی و محنت کے ذریعے سمعی کارکردگی کوبہتر بنایا جاسکتاہے۔ سماعت کی کامیابی پیغام کو سن‬
‫کر‪ ،‬معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہوئے اس سے مربوط سواالت کے جوابات دینے پر منحصر ہوتی ہے۔سماعت میں مانع عوامل پر‬
‫قابو اور مددگار عوامل و رویوں کا علم حاصل کرتے ہوئے کوئی بھی آدمی اچھا سامع بن سکتاہے۔سماعت کو بامقصد اور‬
‫محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موثر سماعت میں )‪(Verbal and Visual Stimuli‬نتیجہ خیز بنانے میں زبانی اور بصری‬
‫ذہنی آمادگی کو اولیت حاصل ہے۔صوتی محرکات پر توجہ مرکوز نہ کرنے کی وجہ سے ذہن صداؤں میں پوشیدہ معنی و‬
‫مفاہیم کے ادراک میں ناکام رہتا ہے ۔قوت ارتکاز کے بغیر سماعت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔سمعی عمل کی اثر پذیری کا تعلق ذہنی‬
‫و جسمانی توجہات کے دورانیہ پر منحصر ہوتا ہے۔اگر ذہن و جسم تھکا ہوا ہو تب سننے کی کیفیت بھی کم ہوجاتی ہے۔سمعی‬
‫اور زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔)‪(Knowledge‬علم‪(Vocubalory)،‬عمل کے موثر ہونے کا راست تعلق ذخیر ہ الفاظ‬
‫صداؤں کو جب ذہن معنی و مفہوم عطا کرتا ہے تب سمعی عمل اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔دوران گفتگو متکلم کی جانب سے‬
‫پیغامات بھی سماعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سماعت اور اس سے وابستہ خصوصیات کا)‪ (Non-Verbal‬پیش کردہ غیر لفظی‬
‫علم و ادراک اساتذہ کے لئے الزمی تصور کیاجاتا ہے تاکہ وہ طلبہ کو بہتر سامع اور عمدہ طالب علم بنا سکیں۔ اچھی سماعت‬
‫اور موثر و دلکش سامع بننے کے لئے سماعت کی بہتری میں معاون رویوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اساتذہ تمام‬
‫طلبہ میں سمعی مہارتوں کے فروغ کی اہم ذمہ داری سے سرموئے انحراف نہ کریں تاکہ ان کی گفتگو میں حسن ‪،‬دلکشی اور‬
‫اثر پیدا ہو۔طلبہ میں عمدہ و مثالی سمعی عادات کے فروغ کے متمنی اساتذہ مرحلہ وار تدریسی احکامات اورحاالت کے‬
‫مطابق تربیت کا اہتمام کریں تاکہ سمعی رویوں میں بہتری اور عمدہ اکتساب کی راہیں ہموار ہوں۔مذکورہ رویوں کے فروغ‬
‫میں ناکامی طلبہ کی اکتسابی صالحیتوں کے انجماد کا باعث بنتی ہے اور درس و تدریس اور اساتذہ کی اہمیت و افادیت بھی‬
‫گھٹ کر رہ جاتی ہے اسی لئے اساتذہ بچوں کو بات کچے کانوں سے سننے کے بجائے پکے کانوں سے سننے کی عادت ڈالیں۔ذیل‬
‫میں چند ایسے اوصاف و عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جن کے ذریعہ پسندیدہ‪،‬پائیدارسمعی رویوں و عادات کو فروغ دیا‬
‫جاسکتا ہے۔‬
‫بات کہنا آسان مگر سننا مشکل ہوتا ہے۔ارتکاز توجہ‪،‬انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے ۔)‪(1‬‬
‫سماعت کردہ الفاظ پر ذہنی و جسمانی آمادگی توجہ اور معنویت اسی وقت ممکن ہے جب آدمی ذہنی طور پر آمادہ‪،‬مطمین‬
‫اور پرسکون ہو۔ اساتذہ درس و تدریس کے آغاز سے قبل طلبہ میں آمادگی ‪،‬جسمانی و ذہنی آسودگی اور توجہ کو ممکن‬
‫بنائیں ۔‬
‫اساتذہ گفتگو کے مخصوص اہداف و مقاصد سے طلبہ کو آگا ہ کر دیں تاکہ طلبہ گفتگو کے کلیدی جملوں کا �آسانی سے )‪(2‬‬
‫احاطہ کرسکیں۔‬
‫سماعت کی کارکردگی سامع کے سماعت کردہ آوازوں کو معنی عطا کرنے پر منحصر ہوتی ہے۔ سماعت کردہ آوازوں کو)‪(3‬‬
‫سامع اپنی ذہنی لغت و فرہنگ کے مطابق معنی تفویض کرتا ہے ۔ اساتذہ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے والی سرگرمیوں کو‬
‫روبہ عمل الئیں تاکہ طلبہ میں اچھی سماعت اور موثر اکتساب کو پروان چڑھا یا جاسکے۔‬
‫گفتگو کے دوران طلبہ میں بتدریج فورًا غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کی عادت کو پروان چڑھائیں۔یہ عادت سماعت )‪(4‬‬
‫کردہ صداؤں سے زیادہ سے زیادہ مفاہیم و مقاصد کے استخراج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔‬
‫اساتذہ طلبہ کو بات اسی تناظر میں سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں جس تناظر میں مخاطب کہنا چاہتا ہے۔تناظر کا )‪(5‬‬
‫اختالف‪ ،‬تعصب وبدگمانی موثر سماعت میں رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔مثًالمخاطب کچھ کہنا چاہتا ہے مگر سامع یا سامعین‬
‫کا ایک اہم جزہے ۔)‪ (Communication skills‬اسے کچھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔موثر انداز سے بات سننا ابالغی مہارت‬
‫اچھا سامع مخاطب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتا ‪،‬سمجھتااور اپنی محافظ خانے(ذہن)میں محفوظ کرتا ہے اور ساتھ ہی‬
‫ساتھ دل و دماغ میں ابھرنے والے منفی جذبات واحسا سات کو کنٹرول بھی کرتا ہے تاکہ جو بات مخاطب سمجھانا چاہتاہے‬
‫اسے کماحقہ وہ سمجھ سکے۔اساتذہ طلبہمیں ارتکاز توجہ ‪،‬انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننے کی عادت ڈالیں۔‬
‫جو تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات کہنے میں ہے وہی تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات سننے میں ہے۔اچھی گفتگو)‪(6‬‬
‫کے لیے دونوں الزم وملزوم ہیں۔اچھا سامع دوران سماعت مخاطب کے مثبت جسمانی حرکات و سکنات‪ ،‬چہرے کے تغیر وتبدل‬
‫کے ذریعہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔آواز کے ساتھ چہرے کے تاثرات اورجسمانی حرکات و سکنات سے گفتگو کی‬
‫معنویت و افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اساتذہ دوران گفتگو مخاطب کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات پر‬
‫نگاہ رکھنے کی طلبہ کو تلقین کریں تاکہ اکتساب کی تاثیر میں اضافہ ہوسکے۔‬
‫مخاطب کی بات کو الپروائی و عدم توجہ کے بجائے دلچسپی و انہماک کے ساتھ سننے کی عادت طلبہ میں پختہ کرنا)‪(7‬‬
‫ضروری ہے ۔سامع کی دلچسپی مخاطب کو گفتگو پر ابھارتی ہے۔مخاطب کو گفتگو پر مائل کرنا ‪،‬آزادانہ طور پر اپنی بات‬
‫رکھنے کا موقع فراہم کرناابالغی مہارت کا اہم وصف ہوتا ہے جس سے طلبہ کو متصف کرنا اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہے۔‬
‫کرنے کا نام ہے۔سماعت کے دوران متواتر)‪ (Tune‬موثر سماعت سامع کی سوچ کی رفتارکو مخاطب کی گفتگو سے ہم آہنگ)‪(8‬‬
‫سے ذخیر ہ معلومات میں مزید اضافہ ہوتا )‪ (Evaluation‬غورو خوض‪ ،‬ذہن کے تلخیص کردہ نکات کی نظر ثانی اورتعین قدر‬
‫ہے۔(جاری ہے)‬

‫‬

‫فاروق طاہر‬

‫فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ‪،‬مصنف ‪ ،‬ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد‬
‫شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ‪،‬طلبہ کی رہبری‪ ،‬رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات‬
‫کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی‪،‬ایم فل‪،‬ایم ایڈ‪،‬ایم اے(انگلش)ایم اے‬
‫ااردو ‪ ،‬نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے عالوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔‬

‫جواب چھوڑ دیں‬

‫اہم بالگز‬

‫‬

‫۔‪ 23‬مارچ کا یادگار دن‬

‫اریبہ گل‬

‫‬

‫وہ دانائے سبل ختم الرسل‬

‫زہرا یاسمین‬

‫‬

‫الوداع نہیں کہتے‬

‫مہوش خولہ راؤ‬

‫‬

‫حیا ہی پروانہ خیر‬

‫بنِت اشفاق‬

‫‬

‫مایوس مت ہونا‬
‫فاطمہ فیض‬

‫خبر لیجیے زباں بگڑی ‪ -‬اطہر ہاشمی‬

‫قومی زبان اور حکمرانوں کا کردار‬

‫موبائل فون کی فریاد‬

‫رشتوں کی منڈی‬

‫غیبت اوربدگمانی کا زہر‬

‫طنزاور طعنے یا ذلیل کرنے کے بہانے‬

‫طنز و مزاح‬

‫‬

‫کہاں کی بات کہاں نکل گئی‬

‫بیگم ناجیہ شعیب احمد‬

‫‬

‫والدین اور بیٹیاں‬

‫عالیہ حمید‬

‫‬

‫! زندگی بدل گئی‬

‫آسیہ محمد عثمان‬

‫‬

‫بن ُبالئے مہمان ! َبالئے جان‬

‫ثروت اقبال‬

‫‬

‫ٹک ٹاک ایک نشہ‬

‫مراد علی شاہد دوحہ‪،‬قطر‬

‫ہمارے بالگرز‬

‫‬
‫محمد حماد علی خان ہاشمی‬

‫‬

‫مرزا ہریرہ بیگ‬

‫‬

‫محمد عارف میمن‬

‫‬

‫شیخ خالد زاہد‬

‫‬

‫مریم وزیر‬

‫‬

‫جسارت بالگ کا کسی بھی بالگر کے خیاالت سے متفق ہونا ضروری نہیں‬

‫جسارت اردو‬

‫‪Epaper‬‬

‫‪Jasarat English‬‬

‫‪Friday Special‬‬

‫‪Sunday Magzine‬‬

‫‪Jasarat TV‬‬

‫‪© Jasarat blog All Rights Reserved 2019‬‬

You might also like