Professional Documents
Culture Documents
شاعری
شاعری
ذیشان خان
رخ سے نقاب ہٹا رکھا ھے
بلوچ
جو اس نے نقاب بھی رخ سے ہٹا رکھا ہے
آج کل ہم سے نظریں نہیں مالتے
بلوچ
آج کل تمھاری آنکھوں 0میں تمھاری نظریں 0نھیں ملتیں
اس نے جواب میں 0بوال ُمرشد
یہ آنکھیں ہی تو تھیں 0اپنی اس جاں کے سوا
جن سے جب چاہا تم سے نظریں مال لیا
بلوچ
اب خرید الئے ھ0یں یہ جاں تمھارے لیے ان آنکھوں کو بیچ کر
باکمال لوگ ہیں
مرشد
مرشد
کمبخت لفظ بھی ایسے نکلے کہ لبوں کو ہلنے نہ دیا
منافق لوگ ہیں دنیا کے موال
لوگ
اے 0موال
آنسوؤں بھی گراتے ھیں تو دکھاوے 0کے
کیوں رخ چھپا کے بیٹھے ہو
مرشد
!کل تو اسی رخ سے رخ مال کے ہمارا رخ اپنے رخ لے لیا تھا
سراپائے نظر سے دیکھتے ہیں اب
ِ
مرشد
جس نظر سے وہ نظر انداز کیا کرتے تھے
دغا بازیاں کرتے ہیں ہم سے