ڈرامہ

You might also like

Download as pptx, pdf, or txt
Download as pptx, pdf, or txt
You are on page 1of 16

‫ڈرامہ‬

‫شہزاد حیدر‬
‫لیکچرر‬
‫فیکلٹی آف ایجوکیشن‪ ،‬لوامز‬
‫ڈرامہ کی تعریف‬
‫• ڈراما یونانی لفظ ’’ڈرٔو‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے کرکے‬
‫دکھانا یعنی عمل یا ایکٹ کرنا۔ اسی وجہ سے انگریزی میں ڈرامے‬
‫کے لیے ’’ون ایکٹ یا ٹو ایکٹ‘‘ کی اصطالح بھی استعمال ہوتی ہے۔‬
‫• شیلڈن چینی کے بقول‪’’ :‬ڈراما اس یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے‬
‫معنی ہیں ’’میں کرتا ہوں‘‘ اور جس کا اطالق ’’ کی ہوئی چیز پر ہوتا‬
‫ہے‬
‫• بقول ارسطو‪’’ :‬ڈراما انسانی افعال کی ایسی نقل ہے جس میں الفاظ‬
‫موزونیت اور نغمے کے ذریعے کرداروں کو محو گفتگو اور‬
‫مصروف عمل ہو بہو ویسا ہی دکھایا جائے جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ یا‬
‫ان سے بہتر یا بدتر انداز میں پیش کیا جائے‘‘۔‬
‫ڈرامہ کی تعریف‬
‫• ’’ڈراما کسی قصے یا واقعے کو اداکاروں کے ذریعے‬
‫تماشائیوں کے روبرو پھر سے عمالً پیش کرنے کا نام‬
‫ہے‘‘۔‬

‫• مذکورہ تعر‪X‬یفات میں کرنا‪ ،‬کیا ہوا‪ ،‬کرکے دکھائی ہوئی‬


‫چیز‪ ،‬جیسے الفاظ کی تکرار ڈر‪X‬امے میں ’’عمل‘‘ کی‬
‫اہمیت کی طرف مشیر ہے۔ ڈراما کے متعلق بات صاف ہے‬
‫کہ یہ دیگر اصناف سے مختلف‪ X‬ہے اس کی تکمیل بغیر‬
‫اسٹیج کے مشکل اور ناممکن ہے۔‬
‫ڈرامے ک‪X‬ے فنّی عناصر‬
‫نہ محض مکالمے میں لکھی ہوئی تحر‪X‬یر‬ ‫• ‪ ‬ڈراما‬
‫کا نام ہے‪ ،‬نہ محض واقعات و کر‪X‬دار کا مجموعہ نہ ہی‬
‫تفریح ہے بلکہ اس کے اجزا میں پالٹ ‪ ،‬کردار‪ ،‬مکالمہ‬
‫اور زبان شامل ہیں۔ ساتھ ہی رنگ‪ ،‬صورت‪ ،‬روشنی‪ ،‬سایہ‬
‫اور سکوت و خاموشی بھی اس کے اہم عناصر ہیں۔‬
‫• ۔بقول ارسطو ڈر‪X‬امے کے فنّی عناصر چھ ہیں‪:‬‬
‫• ‪  ؎۱‬پالٹ ‪  ؎۲‬کردار ‪  ؎۳‬مکالمہ‪  ؎۴‬زبان ‪  ؎۵‬موسیقی‬
‫‪ٓ  ؎۶‬ارائش‬
‫• عشرت رحمانی ان فنی عناصر کے متعلق لکھتے‬
‫ب ذیل فنّی لوازم یا اجز‪X‬ائے تر‪X‬کیبی کا‬
‫ہیں‪’’:‬ڈراما میں حس ِ‬
‫ہونا ضروری ہے اگرا ن میں سے ایک بھی کمزور یا‬
‫غائب ہو تو ڈراما مکمل شکل اختیار نہیں کر‪ X‬سکتا ۔ ‪ ؎۱‬‬
‫نفس مضمون ‪؎۲  ،‬‬
‫ِ‬ ‫پالٹ(موضوع یا کہانی کامواد) یا‬
‫کہانی کا مرکزی خیال یا تھیم‪ٓ ؎۳  ‬اغاز‪ ؎۴  ‬کر‪X‬دار و‬
‫سیر‪X‬ت نگاری‪ ؎۵  ‬مکالمہ‪ ؎۶  ‬تسلسل‪ ،‬کشمکش اور‬
‫پالٹ‬
‫• پالٹ واقعات کی منطقی ترتیب کو پالٹ کہتے ہیں یعنی کہانی کو ترتیب‬
‫دینا پالٹ کہالتا ہے۔‬
‫• کہانی اور پالٹ میں بنیادی فرق یہ ہوتاہے کہ پالٹ میں اسباب و علل کا‬
‫سہارا لیا جاتاہے اور کہانی میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی کو‪X‬‬
‫’’ای ۔ایم فارسٹر‘‘ نے بہت بہترین اور ٓاسان مثال سے سمجھایاہے اور‬
‫یہ بات واضح ہے کہ تمثیل سے تفہیم میں تسہیل ہوتی ہے۔‬
‫• ارسطو کا کہنا ہے کہ ڈرامے میں پالٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ عمدہ‬
‫اور اچھے پالٹ میں واقعات کی‪ X‬ترتیب ایک خاص ڈھنگ کی ہوتی ہے۔‬
‫واقعات میں تسلسل‪ ،‬ربط اور ہم ٓاہنگی ہوتی ہے۔ اگر واقعات مربوط ہو‬
‫تو اکہرے پالٹ کہالتا ہے اور مربوط نہ ہو تو تہہ دار پالٹ کہالتا ہے‬
‫کردار‬
‫‪’’ :‬کردار‘‘ ڈراما میں غیر معمولی اہمیت کردار ادا کرتا ہے۔ ڈراما کا‬ ‫•‬
‫سارا دار و مدار کردار پر ہی ہوتا ہے۔‬
‫ڈراما میں کردار تخلیق کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ظاہری سانچہ‬ ‫•‬
‫اور ڈھانچہ بنایا جائے۔ بلکہ نفیسات کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔‬
‫کردار لکھتے وقت فنکار جس قدر اپنے داخلی جذبات و احساسات کی‬ ‫•‬
‫رنگ ٓامیزی جتنی کم کرے گا ڈراما اتنا ہی دلچسپ اور مٔوثر ہوگا۔‬
‫کردار نگاری سے متعلق محمد حسن لکھتے ہیں‪’’ :‬ڈراما ٓاپ محض‬ ‫•‬
‫اپنے لیے نہیں لکھتے قلم اٹھاتے ہی ٓاپ کو مختلف کرداروں کو ڈھالنا‬
‫پڑتا ہے۔ اور ان میں اکثر کردار ٓاپ کی تخلیق ہونے کے باوجود ٓاپ کی‬
‫ذات سے الگ اپنا ایک وجود رکھتے ہیں‘‘‬
‫کردار‬
‫• کرداروں کے‪ X‬جذبات‪ X‬و نفسیات‪ X‬کو نمایاں کرنے او‪X‬ر ان کی‬
‫شخصیت کو مٔوثر بنانے میں مندرجہ ذیل صورتیں معاون ہوتی‬
‫ہیں‪:‬‬
‫• کسی کردار کی دوسرے کردار سے گفتگو۔‬
‫• کسی کردار کے بارے میں دوسرے کرداروں کا اظہار خیال۔‬
‫• واقعات اور ڈرامے کی اندرونی فضا سے کرداروں کی شخصیت پر روشنی پڑنا۔‬
‫• کردارنگاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرداروں کی زبانی ایسی‬
‫گفتگو‪ X‬پیش کی جائے جو‪ X‬عین فط‪X‬رت‪ X‬ہو‪X‬۔ تماشائی یہ سمجھے کہ یہ‬
‫بالکل عام انسانی کردار ہے۔ او‪X‬ر سامعین و ناظرین کی دلچسپی میں‬
‫اضافہ کا سبب‪ X‬بنے‪X‬‬
‫مکالمہ‬
‫• کردار کی طرح مکالمہ بھی ڈرامے میں اہم درجہ رکھتاہے۔ اسی کے ذریعہ‬
‫کردار ایک دوسرے کردار سے یا سامعین سے مخاطب ہوتاہے‪ ،‬تبادلہ خیال کرتا‬
‫ہے۔‬
‫• اسٹیج ڈرامے میں حرکت و عمل اور اجسام کی موجودگی کے مقابلے میں‬
‫مکالمے کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ڈرامے میں ’’کیا کہا‘‘ سے زیادہ اہم ’’کیا‬
‫کیا‘‘ ہوتا ہے‬
‫• بقول ارسطو مکالمہ ایک تاثر ہے وہ اس کے متعلق لکھتے ہیں‪’’ :‬تیسرا درجہ‬
‫تاثرات کو حاصل ہے اس عنصر کا تعلق ان تمام سچی اور مناسب باتوں کے بیان‬
‫کرنے سے ہے جن کا دارومدار مکالمے میں سیاست اور خطابت کے فنون پر‬
‫ہے۔ تاثرات میں جو کچھ کہا جاتاہے سب شامل ہے۔(بیان کیا جاتاہے)خواہ وہ‬
‫کسی امر کو مثبت طریقے پر ثابت کرنے یا منفی طریقے پر یا محض کسی عام‬
‫رائے کا اظہار کرے‘‘‬
‫مکالمہ‬
‫• مکالمہ میں حاالت کے تقاضوں اور کردار کے ذہنی سطح‬
‫کا مکمل خیال رکھا جانا بے حد اہم ہوتا ہے۔‬
‫• مکالمے میں فطرت معاشرت کی عمدہ عکاسی کے لیے‬
‫مختلف‪ X‬طبقات کی زبان پر دسترس بھی ضروری ہے۔‬
‫• اسی طر‪X‬ح مکالمہ کا بے موزونیت‪ ،‬تکرار‪ ،‬بے ربطگی‬
‫اور ابہام سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔‬
‫زبان و بیان‬
‫ڈر‪X‬امے میں زبان کامسئلہ بہت ہی مختلف فیہ‪ ،‬پیچیدہ اور‬ ‫•‬
‫گنجلک ہے۔‬
‫ڈرامے میں ز‪X‬بان کی اہمیت دو چند اس لیے بھی ہے کہ‬ ‫•‬
‫ڈر‪X‬اما کر‪X‬داروں کے عمل و گفتگو کے ذر‪X‬یعے وجود میں‬
‫ٓاتا ہے اور‪ X‬گفتگو کسی نہ کسی ز‪X‬بان میں ہوتی ہے۔‬
‫زبان کے متعلق ار‪X‬سطو کا کہنا ہے‪’’’  ‬الفا ظ کے ذر‪X‬یعے‬ ‫•‬
‫تاثرات کے ظاہر‪ X‬کرنے کو ز‪X‬بان کہتےہیں‬
‫‪Languages with Pleasurable accessories‬‬ ‫•‬
‫زبان و بیان‬
‫زبان کی نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ڈرامے کی زبان کا‬ ‫•‬
‫انحصار اس کے موضوع پر ہوتاہے ۔ یا کسی ہلکے پھلکے سماجی مسئلہ پر‬
‫کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ دونوں موضوع کی زبان میں قدرتا ً فرق ہو جائے گا۔‬
‫ڈرامے کی زبان میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوگا کہ ٓایا ڈراما نظم‬ ‫•‬
‫کی شکل میں ہے یا نثر کی شکل میں کیونکہ دونوں کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔‬
‫ابتدائی ڈرامے کی زبان منظوم تھی بعدمیں رفتہ رفتہ اس نے نثر کی شکل‬ ‫•‬
‫اختیار کرلی۔‬
‫ڈرامے کی زبان صاف‪ ،‬سلیس اور ٓاسان ہو‪ ،‬ایسا محسوس ہو کہ وہ ڈرامے کی‬ ‫•‬
‫زبان ہے‪ ،‬اس سے ڈرامے کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا ‪ ،‬عوام و خواص پر ہر‬
‫ایک کی وہاں تک رسائی ہو پائے گی‬
‫زبان و بیان‬
‫• قدیم یونانی ڈراما نگار اسکا ئی لیس کا خیال تھا کہ ڈرامے کی زبان بول‬
‫چال کی ز‪X‬بان سے الگ ہونی چائیے۔‬
‫• ارسطو بھی اسی خیال کا حامی تھا۔ لیکن یونان کے ہی دوسرے المیہ‬
‫ڈرامہ نگارکا کہنا تھا کہ ڈراما نگار کو چاہیے کہ ڈراما میں روزمرہ کی‬
‫زبان استعمال کرے۔ کیونکہ ڈرامے کے تماشائی ہر طبقے کے لوگ ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫• ڈراما نگار کے لیے یہ بھی ضروری‪ X‬ہے کہ وہ اس بات کو خیال ر‪X‬کھے‬
‫کہ اس کے ڈرامے کے سامعین اور ناظرین کون لوگ ہو سکتے ہیں؟ ان‬
‫کی زبان کیا ہے؟ ان کی تعلیمی اہلیت کیا ہے او ران کی پسند و ناپسند کیا‬
‫ہے؟ ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈراما ترتیب دے اور زبان استعمال‬
‫کرے‬
‫موسیقی‬
‫• موسیقی بھی ڈر‪X‬امے کے ایک اہم ترین حصہ میں شمار کیا‬
‫جاتا ہے۔ جس کاسیدھا اثر سامعین پر مرتب ہوتا ہے۔‬
‫ارسطو موسیقی کو پانچواں درجہ دیتا ہے۔‬

‫• موسیقی کے ذریعہ سے ڈرامے میں خوشی اور غم کا‬


‫اظہاار کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو ٓاگاہ اور خبردار کیا‬
‫جاسکتا ہے۔ یا کسی پر موسیقی کے ذریعہ وحشت و دہشت‬
‫کی کیفیت بھی طار‪X‬ی کرائی جا سکتی ہے‬
‫آرائش‬

‫• ٓارائش ڈرامے میں اثر‪ X‬مر‪X‬تب کرنے کے اعتبار سے اپنی‬


‫الگ شناخت رکھتی ہے۔‬
‫• ارسطو ٓار‪X‬ائش کو چھٹا اور ٓاخری درجہ دیتا ہے۔ وہ اس کو‬
‫اہم جز کے طور پر شمار نہیں کرتا۔ اس بابت ارسطو کا‬
‫خیال ہے کہ اس کا تعلق ڈرامہ نگار سے زیادہ کاریگر‬
‫سے ہے‬
‫ڈرامے کی اقسام‬
‫• ‪ ‬ڈرامے کی دو اقسام ہیں۔‬
‫– المیہ ڈرامہ‬
‫– طربیہ ڈرامہ‬
‫• المیہ ڈرامہ‪:‬جو ڈراما الم ناک انجام سے دو چار ہو اسے‬
‫المیہ ڈرامہ کہتے ہیں۔ ایسے ڈراموں کے واقعات درد انگیز‬
‫اور الم ناک ہوتے ہیں۔‬
‫• طربیہ ڈرامہ‪ :‬ایسا ڈرامہ جو خوشی‪ ،‬مسرت اور انبساط کا‬
‫اظہار کرے اور جس کا انجام پُر مسرت اور خوش ُکن حاالت‬
‫میں ہو اسے طربیہ کہتے ہیں‪X‬۔‪ ‬‬

You might also like