Professional Documents
Culture Documents
Story 1
Story 1
STORY ہماء
میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے بچے حامد میاں کی جنہیں پھول بہت پسند تھے۔ان کی کوشش ہوتی کہ وہ جہاں بھی
پھول دیکھیں بس اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیں۔حامد میاں جب شام کو باغ کی سیر کرنے جاتے بہت سارے پھول توڑ کر لے آتے۔مالی
انکل نے انہیں بہت سمجھایا لیکن حامد میاں رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ سب کچھ بھول جاتے تھے۔
ایک دن وہ اپنے دوست علی کے گھر گئے۔علی کے گھر کے باہر ایک پیاری سی کیاری تھی۔اس میں بہت سارے پھول لگے ہوئے تھے۔
گالب کا پھول سرخ رنگ کا تھا۔گیندے کا پھول نارنجی رنگ کا تھا۔ایک طرف سفید موتیے کا پودا تھا۔بائیں طرف چنبیلی کے پھول لگے
ہوئے تھے۔دائیں طرف گل داودی کے پھول تھے۔حامد میاں نے جلدی جلدی علی کی امی کا دیا ہوا شربت پیا اور علی کے ساتھ کیاری کی
طرف چلے گئے۔
علی! میں تھوڑے سے پھول توڑ لوں؟“ حامد میاں نے پوچھا۔”نہیں نہیں!مالی انکل منع کرتے ہیں۔“”
” میں بس تھوڑے سے توڑوں گا۔“ حامد میاں نے کہا۔پھر انہوں نے جلدی جلدی موتیے،گالب اور گیندے کے پھول توڑے اور انہیں اپنے
ساتھ الئے ہوئے ایک بیگ میں رکھ لیا۔شام کو وہ امی جان کے ساتھ گھر واپس آئے تو بہت تھک گئے تھے۔انہوں نے کھانا کھایا اور سو
گئے۔
آدھی رات کو حامد میاں کی آنکھ کھل گئی۔کوئی ان کے کمرے میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا۔حامد میاں ڈر گئے۔پھر انہوں نے غور سے
سنا۔گالب کا پھول کہہ رہا تھا۔”دوستو!یہ بچہ کتنا گندا ہے۔ہمیں توڑ کر لے آیا ہے۔اف!میں تو مرجھانے لگا ہوں۔“
پھر موتیے کے پھول کی آواز آئی۔”ہائے میں کتنا خوش رہ رہا تھا اپنے پودے پر۔اب تو میں بس تھوڑی دیر بعد گر جاؤں گا۔
گل داودی بھی رو رہا تھا۔”دوستو! مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔حامد نے مجھے بہت زور سے توڑا۔“ چنبیلی بھی بہت اداس تھی۔وہ کہہ “
رہی تھی۔”اف!میرا تو سارا رنگ خراب ہو گیا ہے۔حامد اچھا بچہ نہیں۔یہ اکثر پھول توڑتا رہتا ہے۔وہ دیکھو ٹوکری میں پہلے سے
مرجھائے ہوئے پھول پڑے ہوئے ہیں۔“ سب پھولوں نے جھک کر ٹوکری میں دیکھا تو اور اداس ہو گئے۔